دیدوں کا پانی
ممتازملک۔پیرس
ہم لوگ اس سر زمین سے تعلق رکھتے ہیں جہاں ہمیں شعور کی پہلی سیڑھی پر قدم رکھتے ہی یہ بات گھول کر پلا دی جاتی ہے کہ اس دنیا مین کسی بھی لڑکی یا لڑکے کی ایک ہی بیوی یا ایک ہی شوہر ہوتا ہے باقی دنیا مین کہیں بھی کوئی بھی کسی بھی عمر کا شخص آپ کا باپ یا بھائی ہی ہوتا ہے اور عورت ماں یا بہن ہوتی ہے ۔ لیکن آج دنیا کو کیا ہو گیا ہے ان بیس سالوں کے اندر کیا لوگوں کے دیدوں کا پانی ہی مر گیا ہے ۔ کہاں ہیں ہماری وہ اعلی شان روایات ۔ کہاں ہے ہمارا وہ معاشرہ کہ جس پر انگریز بھی حیران رہ جاتے تھے کہ کیا ایسا بھی دنیا میں ہو سکتا ہے ۔ کہاں ہیں ہماری وہ پاکیزہ سوچیں ۔ جو غیروں کو ہمارے گھر کا بزرگ اور بیٹا بنا دیتی تھیں ۔ ہماری مائیں، ہماری نانایاں، دادیاں سارے محلے کو ایک ہی رعب میں کھینچ کر رکھا کرتی تھیں جہاں کسی پڑوسن کی خالہ جی سے بھی اونچی آواز میں بات کر جاتے تو ابا کے جوتے ہماری تواضع کو کافی ہوا کرتے تھے ۔ جہاں والدین قرآن پڑھانے والی چاچی جی یا قاری صاحب سے کہا کرتے تھے یہ اب آپ کے حوالے ہے ۔ اس کی ہڈیاں ہماری اور کھال آپ کی ہے ۔ جہان پر میاں بیوی کی شدید سے شدید لڑائی کے بیج بد لحاظ سے بدلحاظ میان بیوی بھی محلے کے کسی بھی بھائی بہن یا بزرگ کی ایک آواز پر زبان کو دانتوں تلے دبا لیا کرتے تھے ۔ جہاں پر محلے کی ایک لڑکی کی شادی میں سارے محلے کے لڑکے سگے بھائیوں سے بھی بڑھ کر بھائی ہونے کا حق ادا کیا کرتے تھے ۔ جہان ایک کے گھر مہمان آتا تھا تو بنا مانگے، بنا کسے خونی رشتے کے دوسرے پڑوسی کے گھر سے بستر آجایا کرتے تھے ۔ جہاں گھر چھوٹا ہوتا تو ہمسائیوں کی بیٹھکوں کے در اس مہمان کے لیئے کھول دیئے جاتے تھے ۔ جہان پر کوئی پڑوسی کسی پڑوسی کو چاہے چھوٹی سی قولی میں ہی سہی، کچھ بھیجے بغیر کبھی گھر والوں کے لیئے کھانا نہیں نکالتا تھا ۔ جہاں گلی میں مسجد کے وظیفہ لینے والے کے لیئے سب سے پہلے تازہ روٹی اور سالن، جو بھی بنا ہوتا، نکال کر رکھا جاتا تھا ۔ جہاں پر گھر میں ایک ہی بزرگ جو چیز اپنی بیٹی کے لیئے پسند کرتا تھا تو وہی اپنی بہو کے لیئے بھی لانا اپنا فرض سمجھتا تھا اسی لیئے تو وہ صرف بیٹی کے ہی نہیبں خود بخود اس بہو کے بھی ابا جی بن جایا کرتے تھے ۔ جہاں کنواری بیٹی کو کنواری بیٹی کے آداب سکھایا کرتے تھے تو بیاہی بہو کو بیاہتا فرائض اور حقوق بن مانگے دئے جاتے تھے ۔ جہاں بہنیں بھائیوں کا مان بڑھاتی تھیں، تو بھائی بہنوں کی آبرو بڑھایا کرتے تھے ۔ جہاں کوئی کسی سے اسکی محبت اور خدمت کسی صلے کی تمنا میں نہیں کرتا تھا ۔ محبت تھی بس کیئے جاتا تھا ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کہنے کوتواس وقت ہم لوگ اتنے مالدار نہیں ہواکرتے تھے ۔ لیکن سکون سے سوتے تھے ۔ کہنے کو اسوقت ہم بہت پڑھے لکھے نہیں ہوا کرتے تھے ۔ لیکن آج سے کہیں زیادہ شائستگی رکھتے تھے ۔ کہنے کو اسوقت ہم بہت سمجھ دار نہین تھے لیکن آج سے زیادہ عزت دار تھے ۔ کیون کہ ہماری زندگی کی ابتداء اور انتہاء بس ایک ہی بات تھی کہ
،، ایک کی بیٹی سب کی بیٹی ،اور ایک کی ماں سب کی ماں ،،
مجال ہے کہ کوئی اپنے علاقے کی کسی بھی عورت کی طرف نظر اٹھا کر دیکھ لے ۔ حالانکہ اسوقت شاید انہوں نے ساری زندگی مین غور سے اس خاتون کی صورت بھی کبھی نہیں دیکھی ہو گی لیکن بس یہ پتہ ہے کہ یہ خاتون فلاں کے گھر سے آتی جاتی ہیں اور یہ گھر ہمارے علاقے اور محلے کا حصہ ہے لہذا،، میں خود ساختہ طور پر اب اس بات کا ذمہ دار ہوں کہ اس خاتون کی عزت پر کوئی حرف نہ آئے ورنہ لوگ کیا کہیں گے کہ یہ تو اپنے علاقے کی ماں بیٹی کی عزت کی حفاظت نہ کر سکا یہ کیا اپنے گھر کا مرد ہوا۔ یہ کیسے ہمارہی بیٹی بیاہ کر لے گیا تو اس کی حفاظت کرے گا ،،۔ یعنی کسی اور خاتون کی حفاظت کرنا بھی اس کی مردانگی کے لیئے ایک پُرغرور اور فخریہ امتحان ہوا کرتا تھا ۔ جسے اس وقت کا ہر جوان خوشی خوشی دینے کو تیار رہتا تھا ۔
لیکن آج ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آج کیا ہوا آج تو سنا ہے ہم نے بہت مال کما لیا ہے ۔ لیکن ہمین نیند کیوں نہیں آتی ڈھنگ سے ۔ آج ہم سائیکل کی جگہ لیٹسٹس ماڈل کی گاڑی میں گھومتے ہیں لیکن ہر وقت کوئی نہ کوئی گلہ کرتے رہتے ہیں ۔ آج ہم پہلے سے زیادہ پڑھ لکھ گئے ہیں لیکن ایک دوسرے سے بات کرنے کی تمیز ہی بھول گئے ہیں ۔ پہلے ہم بیٹیوں کو کسی بھی محلے دار کے وعدے پر بھیج کر پرسکون ہوتے تھے کہ وہ محفوظ ہوں گی ۔ لیکن آج ہم اپنی بہنوں بیٹیون کو لاکھ حفاظتی حصاروں میں بھی بھیجتے ہین تو تب بھی دل کہیں اٹکا رہتا ہے ۔ کیوں ؟؟؟
یہ کیا بےکلی ہے ۔ کل کچھ بھی نہیں تھا اور ہم اپنے مان باپ کا دم بھرتے تھے ان کے فرماں بردار تھے حالانکہ وہ زرا زرا سی بات پر ہماری کھال ادھیڑ دیا کرتے تھے ۔ لیکن پھر بھی ہم ان کے ایک اشارے پر سب کچھ نچھاور کرنے کو تیار رہا کرتے تھے ۔ لیکن آج
کیا بات ہے کہ ہمارے بیٹیاں بیٹےلاکھ سمجھانے اور سب کچھ منہ سے مانگنے سے پہلے ہی جھولی میں ڈالنے کے باوجود آج ہم لوگوں کے نہ تو تابعدار ہیں نہ ہی وفادار ۔ نہ ہی ہمارے دکھ درد سے خبردار ۔ آپ کیا سمجھتے ہین یہ سب کچھ یونہی بے سبب ہو رہا ہے ۔ نہیں ۔ خدا کی بنائی ہوئی کائنات میں کچھ بھی کبھی بے سبب نہین ہوتا ۔ ہر بات کے پیچھے کوئی ٹھوس لوجک ہوتی ہے ۔ جب تک ہم دوسروں کی بھوک کا خیال کیا کرتے تھے خود ہم بھی کبھی مالی پریشانیوں کا شکار نہیں ہوئے تھے۔ ہمیں بھی کبھی یہ نت نئے عارضے لاحق نہیں ہوئے تھے ۔ جب تک ہم دوسرے کے مہمان کو بھی اپنا ہی مہمان سمجھتے تھے ۔ ان کی رحمتوں سے ہم بھی فیضیاب ہوا کرتے تھے۔ کوئی بنا کسی رشتے کے بھی اکیلاکبھی نہیں ہوا تھا ۔ جبکہ آج ہم نے اپنے ہی بہن بھائیوں تک کو بوجھ سمجھ کر ان سے میٹھی سچی بات کرنا چھوڑدی ہے، تو کیا ہوا بھرے مجمع میں خدا نے ہمیں اکیلا کر دیا ۔اتنے سارے نام نہاد دوستانوں میں بھی ہم کسی کو اپنے دل کا حال سنانے کے لیئے اعتبار نہیں کرپاتے ۔اپنے دکھ کو کسی کندھے پر بے دھڑک سر رکھ کر آنسوؤں میں بہا نہیں سکتے ۔ جانے کون، کب ،کہاں ، ہماری کسی بھی دکھتی رگ کو اپنا تفریح طبع بنا لے ۔ کیوں کہ ہم نے لوگوں پر بہتان تراشیوں کو اپنا شیوہ جو بنا لیا ۔ ہم نے تہمتوں کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا کر اسے اپنے لیئے ایک کے بعد ایک کو گرا کر خود کو خود سے ہی بادشاہ اور بادشاہ گر سمجھ لیا ۔ تو سب سے بڑے بادشاہ نے ہمیں زلتوں کے گڑھے میں دھکیل دیا ۔ ہمارا سکون غارت کر دیا ۔ جب تک ہم دوسرون کی عزتوں کی حفاظت کرتے رہے خدا نے اپنے کرم سے ہماری عزتوں کو بھی اپنی حفاظت مہیا کی ۔ اور ہمارے دلوں کو ان کی حفاظت کی فکر سے آذاد کر دیا ۔آج ہم نے دوسروں کی بیٹیوں پر گندی نظریں ڈالنا ۔ اور ٹھرک جھاڑنا اپنا مشغلہ بنا لیا تو ہماری بیٹیوں کو دوسرے لوگوں کے لیئے خدا نے اسی کام کا بہانہ بنا دیا ۔ یہ ہی تو ہے خدا کا انصاف ۔ خدا پر کسی ایک فرد کی اجارہ داری تو نہیں ہے، جو وہ ایک کی سنے گا تو دوسرے کی ان سنی کر دیگا ۔ وہ سب کا ہے، سب کے دل مین رہتا ہے، سب کی نیتوں کو جانتا ہے ۔ تو جو کچھ آپ کسی کے لیئے پلان کر رہے ہوتے ہیں وہی پلاننگ کہیں کسی اور مقام پر کسی اور کے زہن میں اللہ پاک آپ کے لیئے بھی ترتیب دلوا رہا ہوتا ہے ۔ جلد یا بدیر اسے آپ کے سامنے لاکر آپ کو آپ کے ہی جیسے کسی اور کردار کے ہاتھوں آپ کے انجام تک پہنچانے کیلیئے ۔ کیوں کہ
،، آدمی جو دیتا ہے آدمی جو لیتا ہے
زندگی بھر وہ دعائیں پیچھا کرتی ہیں ،،
لہذا یقین مانیں اگر صرف ایک ہی چیز کی ہم نے نے حفاظت کر لی تو ہم لوگوں نے حفاظت کر لی تو اس نام نہاد ترقی یافتہ اور زہنی طور پر اخلاق باختہ بلکہ اخلاقی دیوالیہ دور میں بھی ہم بیفکر ہوکر میٹھی نیند سو سکتے ہیں ۔ بے دھڑک اپنی بہنوں بیٹیوں کو گھروں سے باہر بھیج کر ان کے عزتوں کی حفاظت سے بیفکر بھی ہو سکتے ہیں ۔ بہت ہی آسان بات ہے کہ ہم اپنے دیدوں کے پانی کی حفاظت کرنا پھر سے شروع کر دیں ۔ ہم اپنی نگاہوں اور اپنی زبانوں کو زمانے کی غلاظتوں میں لتھیڑنے سے پرہیز شروع کر دیں ۔ تو دیکھ لیجیئے گا کہ خدا آج بھی وہی ہے جو صدیوں پہلے تھا ۔ خدا کے اس کائینات کو چلانے کے اصول آج بھی وہی ہیں جو لاکھوں سال پہلے تھے ۔ خدا کا کرم اس کی عنایت آج بھی وہی ہے جو کروڑوں سال پہلے تھی ۔ اور ہاں خدا کا غضب بھی آج بھی وہی ہے جو زمانوں پہلے تھا ۔ کیوں کہ یہ اسی کا حکم ہے کہ جو اپنے دو جبڑوں کے بیچ اور اپنی دو ٹانگوں کے بیچ کی حفاظت کر گیا تو گویا خدا اسکا اور وہ خدا کو ہو گیا ۔
تو کیا خیال ہے آج سے ہی اس کی پریکٹس شروع کر دی جائے ۔ اب یہ فیصلہ آ پکا ہے اس زمانے کی نام نہاد تھڑک بازی کا حصہ بن کر بے سکونی چاہیئے یا ان دو چیزون کی حفاظت کر کے جہاں بھر کے فکروں سے آزادی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،