ممتازملک ۔ پیرس

ممتازملک ۔ پیرس
تصانیف : ممتازملک

بدھ، 9 اکتوبر، 2024

اشتیاق عالم کی کتاب قندیل پر تبصرہ

 اشتیاق عالم کا اردو مجموعہ کلام 
قندیل

اشتیاق عالم صاحب ہندوستان کے  ایک ابھرتے ہوئے نوجوان شاعر ہیں جنکا پہلا مجموعہ کلام قندیل آج ہمارے ہاتھ میں ہے۔
 ان کا کلام پڑھنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ زندگی کو اپنی چھوٹی سی عمر میں بھی کتنی گہرائی میں دیکھتے ہیں۔ اس زندگی کو دیکھنے کے لیئے ان کا اپنا ایک نظریہ ہے ، اپنی ایک سوچ ہے، انہیں اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ لوگ اسے اپنے پیمانے پر کس طرح سے جانچیں گے۔ وہ بہت صاف گوئی کے ساتھ اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہیں اور اس پر دسترس بھی رکھتے ہیں ۔
جیسے ایک جگہ وہ فرماتے ہیں
 بے حیائی کے قصیدے پڑھ رہی ہیں تتلیاں
 برسر گلشن ہے آنکھوں سے حیا روٹھی ہوئی
 بد سلوکی کر رہے ہیں بچے اب ماں باپ سے
 ہے دعا سے یوں بھی تاثیر دعا روٹھی ہوئی
اسی کلام میں وہ ایک اور جگہ فرماتے ہیں 
کہہ دیا تھا حال غم میں نے امیر شہر سے
 اس خطا پر مجھ سے ہے میری انا روٹھی ہوئی
 راستوں کی بھیڑ میں کھویا ہوا ہوں آج بھی 
منزل مقصد ہے مجھ سے رہنما روٹھی ہوئی
 ان کی کلام کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ وہ نہ صرف جسمانی طور پر جس دکھ اور تکلیف کو یا خوشی کو سہتے ہیں، روحانی طور پر ان جذبات کے بارے میں اسی گہرائی سے سوچتے بھی دکھائی دیتے ہیں۔ جیسا کہ
 خون بہتا ہے دیدہ تر سے
 زخم جب لب کشائی کرتے ہیں
 جب زباں کھولتا ہوں میں اپنی
 سب کے سب لب کشائی کرتے ہیں 
چپ ہیں اہل ادب تو محفل میں
 بے ادب لب کشائی کرتے ہیں
 ان کا انداز گفتگو ہے غضب
 وہ غضب لب کشائی کرتے ہیں
 کیئے بیٹھے تھے جو زبانیں بند
 وہ بھی اب لب کشائی کرتے ہیں
 اسی طرح سے ان کے ایک اور کلام پر نگاہ ڈالیئے تو آپ کو چھوٹی بحر کے علاوہ بڑی بحر میں بھی بہت ہی خوبصورت اشعار پڑھنے کو ملتے ہیں۔ جیسے کہ
 حقیقتوں کو جو کر رہے تھے رقم لہو سے رنگے ہوئے ہیں
 لہو سے تحریر تربتر ہے قلم لہو سے رنگے ہوئے ہیں
 اسی طرح آگے فرماتے ہیں کہ
 محافظوں کے حوالے کر کے مکان اپنا جو سو رہے تھے
 وہ لٹ چکے ہیں وہ رو رہے ہیں حرم لہو سے رنگے ہوئے ہیں
 قبیلے والوں کو کیا ہوا ہے سمجھ رہے ہیں اسی قائد
 قیادتوں کے جنوں میں جس کے قدم لہو سے رنگے ہوئے ہیں
 ان کے بہت سے اشعار آپ کو بہت خوبصورت شعراء کرام کے کلام کی یاد دلائیں گے۔ ایک جگہ فرماتے ہیں
 ہو تناور لاکھ لیکن سر بسر خطرے میں ہے
 چل رہی ہے تیز آندھی ہر شجر خطرے میں ہے
 اب ہوائیں موت کا فرمان لے کر آگئیں 
 ہر نگر کو اب ہے خطرہ ہر نگر خطرے میں ہے 
آسماں پر اڑنے والے اب زمیں پر لوٹ آ 
  تو ہے خطرے میں تیرا ذوق سفر خطرے میں ہے
 ہر طرف چھائی ہوئی ہے تیرگی اس وقت تو
 کچھ نظر آتا نہیں شاید نظر خطرے میں ہے
 اسی طرح سے ان کے اگے کے چند اشعار  آپ حوالے کے لیئے ملاحظہ فرمائیں اور ان کو ان کی اس کتاب "قندیل" میں ڈھونڈ کر پڑھیئے۔ آپ بہت لطف لیں گے ۔
سو بار ستم توڑے گئے ہیں میرے دل
 پر سو بار میرے دل پہ ستم ٹوٹ چکے ہیں
 پینے کا پلانے کا زمانہ وہ نہیں اب 
پینے کے پلانے کے بھرم ٹوٹ چکے ہیں
 ایک اور کلام ملاحظہ فرمائیے
 مشکل نکلنا جس سے ہے ایسا ہے جال موت 
جس میں کسی شکار کی مرضی نہیں چلی 
سیلاب چشم تر سے یہ روکا نہ جا سکا 
اشکوں پہ آپشار کی مرضی نہیں چلی
گویا کہ ان کا کلام اپ کو اردو ادب کی دنیا میں ایک خوبصورت اضافہ دکھائی دیتا ہے میری بہت سی دعائیں اور نیک خواہشات اشتیاق عالم کے لیئے۔
دعاگو:
 ممتازملک
 پیرس فرانس
  شاعرہ ،کالم نگار، نعت خواں، نعت گو، افسانہ نگار ، کہانی کار، عالمی نظامت کار۔
بانی و صدر ادبی تنظیم
" راہ ادب فرانس" 
ڈائیریکٹر فرانس،
 گلوبل رائٹرز ایسوسی ایشن اٹلی
Mumtazmalik222@gmail.com

جمعہ، 4 اکتوبر، 2024

بے صلاحہ۔ کوٹیشنز۔ چھوٹی چھوٹی باتیں

بے صلاحہ اور بے ہدایتا ایک جیسا ہی ہوتا ہے ۔ دونوں کو اکثر شرمندہ ہونا پڑتا ہے ۔ 

پیر، 30 ستمبر، 2024

رپورٹ : ادبی نشت ۔ فاطمہ قمر کیساتھ لاہور میں

رپورٹ :
فاطمہ قمر 
*تحریک نفاذ اردو )

گزشتہ روز ہم نے پاکستان کی نامور ادیبہ محترم مسرت کلانچوی اور پیرس سے تشریف لائی ہوئی ادیبہ محترمہ ممتاز ملک کے اعزاز میں خصوصی نشست رکھی۔ جن خواتین نے ہماری دعوت کو شرف قبولیت بخشی ان میں نامور ادیبہ شیریں گل رانا' کنول بہزاد ہاشمی ' صباممتاز شامل ہیں تمام خواتین صحافت و ادب سے تعلق رکھتی ہیں مادری زبانوں کے ساتھ ساتھ اردو میں بھی اظہار خیال فرماتیں ہیں ۔مسرت کلانچوی صاحبہ کو ان کی ادبی خدمات پر صدارتی تمغہ حسن کارکردگی بھی ملا ہے وہ سرائیکی و اردو میں اظہار خیال کرتی ہیں ۔ ممتاز ملک صاحبہ فرانس میں اردو اور پنجابی کی سفیر ہیں پاکستانیوں کی انگریزی غلامی سے بہت خائف ہیں وہ بارہا بتاتی ہیں کہ میں ایک عرصے سے پیرس میں ہوں یہاں تمام لوگ اپنی اپنی زبان میں بولنا فخر محسوس کرتے ہیں ۔یہاں کسی کو انگریزی بولنے کا بخار نہیں چڑھا ہوا۔ یہاں کہ لوگ اس شہری کی بہت عزت کرتے ہیں جسے اپنی مادری زبان پر عبور حاصل ہو' ممتاز ملک صاحبہ اردو و پنجابی میں اپنے خیالات کا اظہار کرتی ہیں ۔ محترم شیریں گل رانا' ایک انتہائی قومی سوچ کی حامل باشعور خاتون ہیں ۔ وہ جہاں غزلیں لکھنے میں کمال رکھتی ہیں وہاں وہ نعت رسول صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم بھی بہت جذب و احساس سے لکھتی ہیں! 
 صباممتاز بانو ہماری نفاذ اردو کی دیرینہ اور مخلص ساتھی ہیں۔ وہ ہمہ جہت شخصیت ہیں وہ شاعری ' صحافت' کالم نگاری' افسانہ نگاری میں اپنی شناخت رکھتی ہیں ۔ محترمہ کنول بہزاد ہاشمی ادبی محفلیں جما کر' ادب میں اپنے خوبصورت تخلیقی خیالات کا اظہار کر کے اردو کے فروغ میں اپنا کردار ادا کررہی ہیں تمام خواتین اپنے شعبہ زندگی کی نمائندہ خواتین ہیں سب نفاذ اردو کی اہمیت کو جانتی ہیں اور اس عظیم مشن میں ہمارے ساتھ ہم ان سب دوستوں کی آمد اور نفاذ اردو کے عظیم مشن میں ہمارا ساتھ دینے پر تہہ دل سے ممنون ہیں' 
فا طمہ قمر پاکستان قومی زبان تحریک
            ۔۔۔۔۔۔۔۔۔


رپورٹ :
ممتازملک 
(راہ ادب فرانس )

بہت بہت شکریہ محترمہ فاطمہ قمر صاحبہ۔
 اردو کے لیئے آپ کی خدمات یقینا کسی تعارف یا تعریف کی محتاج نہیں ہیں۔ آپ بہت ہی جانفشانی کے ساتھ ساتھ سالہا سال سے نفاذ اردو کے لیے اپنا جو کردار ادا کر رہی ہیں یہ تاریخ کا ایک اہم حصہ ہوگا انشاءاللہ۔ اور آپ کے گھر پہ  بہت ہی ایک شاندار مختصر نشست جو منعقد ہوئی اس میں یقینا نایاب ہیرے آپ نے اکٹھے کئے۔
ان سب سے مل کر بے حد خوشی ہوئی اور آگے بڑھنے کا حوصلہ ہوا اور بہت سارے نقاط ایسے ہم لوگوں نے آپس میں زیر بحث لائے جو کہ آج کل کے معاشرے میں مسائل میں شمار ہوتے ہیں اور ان کے حل پر بھی ہم لوگوں نے بات کی اور اپنی طرف سے جو بھی ہم تگ و دو کر سکتے ہیں ، قلم کے ذریعے یا زبان کے ذریعے جس طرح سے بھی ہم لوگوں کو اس پہ موٹیویٹ کر سکتے ہیں ہم اس کے لئے کام کریں گے۔ انشاءاللہ اور یہی عزم لے کر ہم وہاں سے اٹھے آپ کی میزبانی کا بہت مزہ ایا 
ماشاءاللہ آپ نے بہت شاندار ریفریشمنٹ بھی دیا اور آپ کی گفتگو نے ہمارے علم میں اضافہ کیا۔
 میری بہت ساری دعائیں اپنی تمام بہنوں کے لیئے اور خصوصا مسرت کلانچوی صاحبہ کو صدارتی ایوارڈ پر میں ایک بار پھر سے مبارکباد پیش کرتی ہوں اور ان کی بہت ساری کامیابیوں کے لیئے, 
ان کی صحت کے لیئے دعا گو ہوں۔
 آپ سب لوگ اپنا ہمیشہ بہت خیال رکھیں کیونکہ آپ سب لوگ ہمارے معاشرے کا ہماری تہذیب کا قابل فخر حصہ ہیں ۔
 الحمدللہ
 ممتاز ملک 
(راہ ادب فرانس)

پیر، 2 ستمبر، 2024

تبصرہ ۔ بشری فرخ



کتاب۔ اور وہ چلا گیا 
شاعرہ۔ ممتازملک
تبصرہ۔ بشری فرخ صاحبہ




اس نیلے اسمان کی چھتری کے نیچے ایک وسیع و عریض کائنات اپنی لامحدود روشنیوں اور تاریکیوں کے ساتھ جلوہ گر ہے اور اس کائنات آب و گل کا انمول ترین نگینہ بشر ہے ۔ جو اپنے اندر عجائبات کی ایک دنیا سموئے ہوئے ہے۔ یہ بشر جب اس آخرت کی کھیتی پر قدم رکھتا ہے تو اس جہان رنگ و بو کی کسی نہ کسی شے کی جستجو میں ہو جاتا ہے۔ کیونکہ اس بشر کو سوچنے سمجھنے کی صلاحیت بدرجہ اتم ودیعت کی گئی ہے اور اسی بنا پر اللہ جل شانہ نے اسے اشرف المخلوقات کے خطاب سے نوازا اور زمین پر اپنا خلیفہ مقرر فرمایا۔
 یہی تلاش و جستجو جب اظہار کی متقاضی ہوئی تو انسان نے اپنے لیئے نت نئی راہیں استوار کیں کہ جن کے ذریعے باقی دنیا تک اپنا پیغام پہنچا سکے۔ کبھی ایجادات، کبھی دریافت، کبھی مصوری، کبھی موسیقی کی صورت اور جب جذبات و احساسات کی بات ہوئی تو قلم کا سہارا لے کر نثر اور شاعری کی بنیاد رکھ ڈالی۔ وطن عزیز میں اگر شاعری کی بات کی جائے تو ان 75 سالوں میں بہت بڑے بڑے نام ابھر کر سامنے ائے ہیں۔
 لیکن زیادہ تر حضرات کے۔ خواتین کا حصہ اس لیے کم کم رہا۔ کہ ہمارے معاشرے میں خواتین کا شاعری کرنا اچھا نہیں سمجھا جاتا تھا۔ اس لیئے شروع شروع میں خواتین مردانہ ناموں سے لکھتی تھیں۔  آہستہ آہستہ  معاشرے میں شعور بیدار ہونا شروع ہوا تو بہت ساری اہل قلم خواتین سامنے آتی چلی گئیں اور اج ادا جعفری سے لے کر کشور ناہید تک اور پروین شاکر سے لے کر شبنم شکیل تک آسمان ادب پر ستارے بن کر جگمگا رہی ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ نئے لکھنے والوں میں مردوں کے ساتھ ساتھ خواتین بھی اپنی منفرد شاعری سے اپنا مقام بنا رہی ہیں۔
 ممتاز ملک کا شمار بھی ایسی ہی شاعرات میں ہوتا ہے جو علم و ادب سے والہانہ لگاؤ کے سبب شعر و سخن سے وابستہ ہیں اور اپنی منفرد پہچان بنا رہے ہیں ۔ 
سامعین کرام شاعری کی کوئی صنف بھی ہو اس میں اگر شاعر کے گہرے اور سچے جذبات کار فرما نہ ہوں تو شعر دل کی گہرائیوں میں نہیں اتر سکتا ۔
ممتاز کا اپنا اسلوب اور اظہار خیال اپنا پیرایہ ہے۔ ان کا مطالعہ اور مشاہدہ گہرائی اور گہرائی لیے ہوئے ہے۔ انہوں نے اپنے نہاں خانہ احساس سے ابھرنے والے دلکش اور عمیق خیالات کو سلیقے اور کرینے سے نفاست کے ساتھ قلم بند کیا۔ ان کی شاعری ان کے وسیع تجربے اور تیز مشاہدے کا نچوڑ ہے۔ جس میں سلیس زبان اور سادہ الفاظ کی انتخاب میں ایک خاص روانی پیدا کر دی ہے۔ زندگی کی تمام تر تلخیوں حقیقت زمانے کی بے مروتی عداوت نفرت اخلاقی اقدار کی پامالی غرض کہ زمانے کے تمام منفی رویوں نے ان کے قلم کو روانی عطا کی ہے۔ انہوں نے اپنے ارد گرد جو کچھ دیکھا اور محسوس کیا اسے اس کے اصل روپ میں اپنے قاری کے سامنے رکھ دیا  کیونکہ ممتاز اپنی عملی زندگی میں بھی ایک بے باک،  صاف کو اور کھری انسان ہیں۔ اس لیئے ان کی شاعری بھی رنگ آمیزی کا عمل دخل نہیں ہے۔
 اپنے وطن سے دور پیرس میں بسنے والی اس شاعرہ کی شاعری میں اپنی دھرتی ماں سے محبت کی مہک، انسانیت کے دکھ ، معاشرتی مسائل اور وطن سے محبت کے ساتھ ساتھ ایک سچا مسلمان ہونے کے ناطے اپنے رب اور محبوب رب کی محبت میں غرق ممتاز ملک کا کلام
" اور وہ چلا گیا" یہ ظاہر کرتا ہے کہ یہ ان کا آخری پڑاؤ نہیں ہے۔ 
ان کے چند منتخب اشعار ملاحظہ فرمائیں
 ساری دنیا کو لے کے کیا کرنا
 صرف میرا میرے خدا ہو جا

 جب بھی سجدے میں سر جھکے تو لگے
 جنتوں کی کسی قطار میں ہوں

 یہ بگولوں نے دی خبر ہم کو
 دل کے صحرا میں رقص جاری ہے
 کھردری کھردری اداسی ہے 
مخملی مخملی خماری ہے

 اس نے لفظوں کا صور پھونکا ہے
 اب سنبھلنا تو اضطراری ہے

 بخت والوں کو ملا کرتا ہے آب شیریں
 میٹھے چشموں کا بھی پانی ہوا کھاری ہم پہ

 ممتاز مجھ پہ جانے پتھر کہاں سے برسے 
احساس کے شہر کا لہجہ تو ریشمی ہے 

خود کو دھوکے میں نہ رکھنا ہی سمجھداری ہے
 ساتھ کیا دیں گے نظر مجھ سے چرانے والے

یہی نہیں بلکہ انہیں اس سے بہت آگے جانا ہے۔
ممتاز ملک کو مبارکباد اور بہت ساری دعاؤں کے ساتھ
 بشری فرخ
(پرائیڈ اف پرفارمنس)
 چیئر پرسن 
کاروان حوا لٹریری فورم 
پشاور پاکستان



منگل، 27 اگست، 2024

دوستا ۔ اردو شاعری

دوستا
کلام/ممتازملک۔پیرس 


ہم تیری یاد میں، کس جگہ آ گئے 
تو نے مڑ کر نہ دیکھا،  ہمیں دوستا


جستجو کے  سویرے، بسر ہو گئے
خواہشوں کی ہر اک، شام ڈھلنے لگی
دل سے آہوں کی صورت، اٹھا ہے دھواں  
آنکھ سے اشک بن کر، نکلنے لگی

ہم تو شاید یہاں، بے وجہ آ گئے 
تو نے مڑ کر نہ دیکھا ، ہمیں دوستا


مسکرانا ہماری تو، فطرت میں تھا 
اور ستانا تیری ،عادتوں کا ثمر
مسکرانا ہمارا ، قضاء ہو  گیا 
اور ستانا تیرا ، ہو گیا پر اثر

زندگی سے ہوئے، جب خفا آ گئے 
تو نے دیکھا نہ مڑ کر، ہمیں دوستا 


تجھکو احساس اسکا ، زرا بھی نہیں 
 بیوفائی ہے تیری،  کرامت نہیں 
جھوٹ کے پاوں ، ممتاز ہوتے نہیں 
دوستی کا نہیں سر، قیامت نہیں

خود سے آنے لگی، ہے حیا آ گئے
تو نے دیکھا نہ مڑ کر، ہمیں دوستا
۔۔۔۔۔۔۔۔

پیر، 26 اگست، 2024

تبصرہ ۔ زرقا نسیم کی شاعری پر



زرقا نسیم لاہور میں رہتی ہیں۔ ایک ایسی شاعرہ جس کے کلام میں اسکے مشاہدات، اس کے تجربات اور اس کی دوسروں سے متعلق نیک خواہشات بولتی ہوئی دکھائی دیتی ہیں۔
 کہیں وہ کہتی ہیں
 وہ بھی جو میرا ذہن  تصور نہ کر سکا آنکھوں سے اپنی ہوتا ہوا میں نے دیکھا ہے

 وہ اپنی زندگی کے بہت سے صدمات کو لفظوں میں سمیٹتی ہوئی دکھائی دیتی ہیں۔ جس کا اظہار کچھ یوں کرتی ہیں۔

 مت پوچھیے گزرتی ہے کیا دل پہ ہم نشیں
 ہوتے ہوئے کسی کو جدا میں نے دیکھا ہے

 زرقا نسیم کی شاعری ان کے دل سے نکلی ہوئی  ایسی آواز سنائی دیتی ہے جو سننے والے کو خود پہ گزرے ہوئے حالات پر ادراک دیتی ہے۔
 زندگی میں اپنے جیون ساتھی کے بہت جلد بچھڑ جانے کے دکھ کو وہ چاہیں بھی تو اکثر چھپا نہیں پاتیں۔
 دنیا کی بے ثباتی، حالات کی شتم ظریفی اور پھر اپنے ایک مخلص پیار کرنے والے جیون ساتھی سے جدائی ان کی تحریروں میں جا بجا سنائی دیتی ہے۔ جیسے کہ
 میری حرمت کا امانت دار ہوتا تھا کوئی
 میرے گھر کی چھت میری دیوار ہوتا تھا کوئی
یا پھر یہاں دیکھیئے

 وہ ہنس کے سارے رنج و غم اٹھاتا تھا
 میری خود داری کا اہل کار ہوتا تھا کوئی

  ایسے ہی اور بہت سے اشعار جو ان کے درد دل کو بیان کرتے ہیں۔
 ان کی روح میں سمائے ہوئے اس کرب کو بیان کرتے ہیں جو انہیں جا بجا زندگی میں کہیں اپنوں سے ملے اور کہیں اپنے جیسوں سے۔ اگر میں یہ کہوں کہ ان کا وہ کلام جو میری نظر سے گزرا اس میں زیادہ تر حصہ اس کلام کا تھا جو انہوں نے اپنے جیون ساتھی کے نام کیا۔
 اس کے ساتھ بیتے ہوئے اچھے لمحات کو بار بار یاد کیا اور اس کے بعد گزری ہوئی تنہائی اور درد کو بیان کرتے ہوئے شاید اس درد کو اپنے اوپر بار بار گزرتے ہوئے محسوس کیا تو حلط نہ ہو گا۔
 جیسے کہ تم جو ملتے تھے مہک اٹھتی تھی میں
 رات کی رانی بھی رانی تم سے تھی
یا پھر اس میں ملاحظہ فرمائیں 

 میری سوچوں کا فقط مرکز سے تم
 میرے اس دل کی کہانی تم سے تھی

 زرقا نسیم نہ صرف ایک بہت اچھی شاعرہ ہیں بلکہ بہت اچھی دوست ہیں ۔ مہمان نواز ہیں۔ اپنے بچوں کی ایک اچھی ماں ہیں۔ جنہوں نے انہیں بہترین تربیت کرنے کی ہر ممکن سعی کی اور اپنے بچوں کی کامیابی کی صورت اس کا پھل آج ان کے سامنے   ہے ۔
میری بہت سی دعائیں زرقا نسیم کے لیئے۔ اللہ تعالی ان کی اس کتاب کو بہت پذیرائی عطا فرمائے اور انہیں دن دونی رات چوگنی ترقی عطا فرمائے۔ آمین 

ممتازملک۔پیرس فرانس 
 ( شاعرہ۔ کالمنگار نعت خواں۔ نعت گو۔افسانہ نگار۔ کہانی کار۔ عالمی نظامت کار)

بیباک ادائیں ۔ اردو شاعری


بیباک ادائیں
(کلام/ممتازملک۔پیرس)

اے میرے حسن کی بیباک اداؤں کے شکار 
تو نہیں جانتا کتنوں کے کیئے دل بیمار

یہ یقین ہے یا نگاہوں کی کرشمہ سازی
دوسرے اسکو نظر آتے ہیں ہر دم لاچار

سوچ کے پر کبھی آزاد نہیں ہو سکتے 
وقت کی قید نے زخمی کیئے جنکے دلدار

عارضی کے لیئے ابدی کا کیا ہے سودا
یہ حوادث کےہیں شیدائی بلا کے مکّار

عشق کے ہونٹ سلے رہنے دو اے دل والو
شور کرنے کو یہاں عقل نہیں ہے تیّار

لاکے چوٹی پہ تیرے ہاتھ اسی نے چھوڑے
جس کے کہنے پہ کیئے تو نے دل و جان نثار

ہر جگہ بِکنے کو تیار ہے ہر چیز یہاں 
اب نہ مکتب نہ ہی مسجد نہ جُدا ہیں بازار

وعظ ممتاز کسی وقت اٹھائے رکھو 
غیرت دین ابلنے کے نہیں ہیں آثار 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جمعرات، 22 اگست، 2024

عید دا چن وی ۔ پنجابی کلام ۔ کوسا کوسا



عید دا چن وی

اداسی دور نہ ہوئی میں تکیا عید دا چن وی
ہر اک معصوم شکلاں والا دسیا عید دا چن وی

کسے اتھرو دے وانگوں ہر گھڑی مغموم کردا اے
دکھاں دی سیویاں بںڑں دل چہ  پکیا عید دا چن وی

میں اینوں روندیاں تکیا دھاڑاں مار کے غم نل
نہ اپنے آپ نوں وی سانبھ سکیا عید دا چن وی

ہر اک پاسے بچھے لاشے جو مینوں سوںڑں نہیں دیندے
میرا ناں سنڑں کے زوراں نال ہسیا عید دا چن وی

جیہڑا کل رات کھبیا سی کلیجے ماں دے سینے وچ
میں ناں رکھیا شہید اوس دا تے
رکھیا عیدا دا چن وی 

دھماکے نال ہویا سی جدوں ممتاز دو ٹوٹے
میں ڈوری اتھروواں دی نال 
کسیا عید دا چن وی
۔۔۔۔۔۔

پیر، 19 اگست، 2024

بدکاروں کا علاج۔ نظم۔ جا میں نے تجھے آزاد کیا


کولکتہ کی بربریت کیساتھ 
ماری گئی
 معصوم
 ڈاکٹر مومیتا کے نام
9 اگست 2024ء 
        ۔۔۔۔۔۔

بدکاروں کا علاج

ان درندوں کی وہ 
شے ہی گر کاٹ دو 
جو سنبھالی نہیں جاتی
 ان سے کبھی 
ان کو حق بھی نہیں 
 اس کو رکھنے کا گر 
یہ امانت ہوئی ان پہ بھاری بہت
چھین لو ان سے یہ نام کا لوتھڑا 
جسکو مردانگی  کہتے  
تھکتے نہیں 
آو ہم بیٹیاں بھی بنائیں کوئی
ایک ایسا گروہ
جس میں ایسے  ہر اک
 نام کے مرد کو 
ہم سزا دیں سر عام 
ایسی کہ پھر
مرد کو مرد کا 
معنی سمجھا سکیں 
اپنی سب بیٹیاں
 انکے ہر گند سے
 ہم بچا بھی سکیں 
             (ممتازملک۔پیرس)


ہفتہ، 10 اگست، 2024

اعتبار تو کر/ اردو شاعری



اعتبار تو کر


جا اپنے سوئے ہوئے بخت کو بیدار تو کر
تو اپنی ذات پہ تھوڑا سا اعتبار تو کر

نہ شہہ نہ مات ہمیشہ رہی کسی کے لیئے
پلٹتے وقت کے پانسے کا انتظار تو کر

بھریں گے زخم سبھی پھول بھی کھلیں گے ضرور
تو مسکرا کے کبھی موسم بہار تو کر

نہیں ہے جو اسے رونے سے لاکھ بہتر ہے
جو پاس ہیں تیرے وہ نعمتیں شمار تو کر

نہ بوجھ لاد یوں احسان کے تو اپنے سر 
بس اپنی ذات پہ تھوڑا سا انحصار تو کر

بہت سکون ہے ٹہراو ہے ولایت ہے 
کبھی تو راہ توکل کو اختیار تو کر

تمہارا نام بھی ممتاز ہو مقام بھی ہو 
بلند اپنا زمانے میں تو وقار تو کر     

  ●●●

فقیر کا کاسہ /اردو شاعری۔ متفرق اشعار



گرنا ہی جب نصیب میں لکھا ہے جان کر 
چپکے سے اک فقیر کے کاسے میں جا گرے 

مشاعرہ ۔22واں۔ رپورٹ

رپورٹ :
راہ ادب فرانس دا 22واں عالمی پنجابی مشاعرہ 


راہ ادب فرانس دا 22واں آن لائن عالمی پنجابی مشاعرہ 9 اگست پاکستان ٹیم راتی 8 وجے تے یورپ ٹیم شامی 5 وجے  منعقد کیتا گیا۔جدے وچ دنیا بھر دے منے پر منے شعراء کرام نے شرکت کیتی۔  شامل ہون والیاں دے ناں ایس پرکار  نے۔ 
 صدر مشاعرہ: ملک رفیق کاظم بھسین صاحب : لاہور
 ۔ محمد نواز گلیانہ صاحب اٹلی۔ 
 جد کے مہمان خاص:
 رحمان امجد مراد صاحب سیالکوٹ۔ 
 نغمانہ کنول شیخ صاحبہ نے یو کے توں عزت بخشی ۔ 
شاعراں دی بیٹھک وچ  شامل سن۔۔۔
 محمد نوید نواز صاحب لاہور۔ پرگٹ گل صاحب آسٹریلیا۔  
پلک دیپ صاحبہ انڈیا۔ 
 سرور صمدانی صاحب ملتان ۔
 اشتیاق انصاری صاحب ۔مسقط۔ 
 اندر جیت لدھیانوی صاحبہ لدھیانہ۔
 ریاض ندیم نیازی صاحب سبی۔  
یوسف تابش۔ اوکاڑا 
 بخشی وقار ہاشمی صاحب فرانس۔ 
 نجمہ شاہین صاحبہ لاہور۔
 اشفاق احمد صاحب سپین۔
  بے باک ڈیروی صاحب ڈی جی خان۔  
امین اوڈیرائی صاحب سندھ۔
 الیاس آتش صاحب مریدکے۔
 ڈاکٹر فیاض دانش صاحب ڈی جی خان۔
 دکھ بھنجن سنگھ صاحب پرتگال 
توں اپنے کلام دے نال محفل دی رونق ودھاندے رہے۔ 
پروگرام دی نظامت راہ ادب فرانس دی بانی و  صدر تے منتظمہ محترمہ ممتاز ملک صاحبہ نے  کیتی۔   پروگرام دی کامیابی تے صدر مجلس ملک رفیق کاظم بھسین صاحب ، رحمان امجد مراد صاحب ، محمد نواز  گلیانہ صاحب تے نغمانہ کنول شیخ صاحبہ نے پروگرام دی انتظامیہ دی بھرپور تعریف کیتی۔ تے انہاں دا حوصلہ ودھایا ۔ تے امید کیتی کہ آئندہ وی ایسی طرح نویں نویں فنکار تے نویں نویں قوی  راہ ادب دا حصہ بندے رہن گے تے راہ ادب دے پلیٹ فارم تے اونہاں نوں حوصلہ ملدا رہے گا۔ انہاں نے  ممتاز ملک صاحبہ نوں دلی شاباشی دتی کہ انہاں نے اپنے  شاعراں  لئی رستے تنگ کرن دے بجائے اونہاں نو کھلا ماحول فراہم کیتا ۔ سوہڑیں محفل سجائی۔  پروگرام دی نظامت محترمہ ممتاز ملک صاحبہ نے کیتی ۔ جدی تعریف سارے دوستاں نے کیتی تے اونہاں  دی حوصلہ افزائی کیتی۔ ممتاز ملک نے سبھی پروڑیاں دا شکریہ ادا کیتا نالے امید ظاہر کیتی کہ اہسی طرح آئندہ وی اپنے قیمتی وقت وچوں کچھ وقت کڈ کے ساڈے قوی ساتھی  راہ ادب فرانس دے اردو تے پنجابی مشاعرے اپنے خوبصورت کلام دے نال  سجاندے رہن گے ۔ اوناں نے پروگرام دی خوبصورت پیشکش تے تیکنیکی معاون کاری تے ہم شاعر و ادیب انٹرنیشنل دے نائب صدر جناب کامران عثمان صاحب دا بھرواں بھرواں شکریہ ادا کیتا ۔ جدی وجہ نال ایہہ پروگرام تیار ہو سکیا۔ 
                 ۔۔۔۔۔۔

جمعرات، 8 اگست، 2024

* اور وہ چلا گیا/ اردو شاعری ۔ اور وہ چلا گیا


اور وہ چلا گیا 


ہم پہ زندگی کا بوجھ،  لاد کر کہاں گیا
الوداع کہا ہمیں،  اور وہ چلا گیا

مسکرا کے ہم نے دیکھا ،تو وہ لڑکھڑا گیا 
دور تک یہ بیخودی کا ، پھر تو سلسلہ گیا

بات جو  زبان پر ، ہم نہ لا سکے کبھی
بات مجھ سے کہہ کے کوئی، آج  برملا گیا

مت ٹہر کہ ہر گھڑی ، فنا ہے تیری منتظر
کر لے جو بھی کرنا کہہ کے، دل کا منچلا گیا

زیست اور حیات کی، سعی جو عمر بھر رہی
بھوک سے شروع ہوئی، ہوس پہ تلملا گیا 
 
ممتاز اب سمیٹ لو ، سفر کے اس پھیلاو کو
واپسی میں رہ ہی کتنا،  اور  فاصلہ گیا
●●● 

& بہانے باز/ افسانہ ۔ قطرہ قطرہ زندگی

       

                بہانے باز


اللہ کے نام ۔۔۔
میرو نے جیب سے سو روپے کا نوٹ نکالا کر اس ہٹے کٹے بھکاری کو پکڑا دیا۔۔۔
یہ کیا کیا بھائی
حورم نے غصے سے بڑے بھائی سے پوچھا
ارے بھائی فقیر ہے بیچارہ۔۔۔
میرو نے اپنے دھیان میں موٹر سائیکل چلاتے ہوئے جواب دیا 
کیا بھائی اچھا بھلا ہٹا کٹا ہے ۔ کام کریں نا۔
 آپ کو یہ 100 روپے کسی نے خیرات میں دیے تھے کیا ؟ 
اللہ نہ کرے بھئی۔ مجھے کیوں خیرات میں دے۔  میں اپنے ہاتھ سے مشقت کرتا ہوں۔
میرو نے بات کاٹتے ہوئے جواب دیا
تو بھائی اسے بھی مشقت کرنی چاہیے نا۔ اس طرح سے اگر آپ نے بغیر محنت کے اسے 100 سو روپے پکڑا دیئے۔ صرف 10 لوگوں نے سارے دن میں پکڑا دیئے۔ تو ایک ہزار روپے کی دہاڑی بغیر محنت کے اس کی لگتی ہے تو وہ کام کیوں کرے۔۔۔
کیا کریں غریبی بھی تو اتنی ہے 
بھائی نے ہمدردی سے کہا
 تو غریبی آپ کے لیئے نہیں ہے کیا؟
آپ صبح سے شام تک اتنی محنت کرتے ہیں۔ مشکل سے 25 ہزار روپے کماتے ہیں۔ جس میں آپکا  مہینہ تک نہیں گزرتا اور یہ آدمی سو سو روپے ایک ایک  آدمی سے لینے کے بعد مہینے بھر میں ہزاروں روپیہ اسی طرح اوارہ گردی سے اکٹھا کرتا ہے۔ آپ کو اپنی کمائی پر ترس نہیں آتا۔
اس نے موٹر سائیکل پر بھائی کے پیچھے بیٹھے ہوئے اسے لیکچر دیا۔
 کوئی بات نہیں یار ۔۔ہو جاتا ہے ایسے۔۔
میرے بھائی آپ جیسے لوگوں کی غلط جگہ پر ہمدردیوں نے اس ملک میں بھکاریوں اور خواجہ سراوں کو کسی کام کا نہیں چھوڑا ۔ انہیں بھی عام لوگوں کی طرح سلوک ملتا اور نوکری نہ ملنے کا بہانہ نہ دیا ہوتا تو پاکستان میں 4کروڑ لوگ بھیک نہ مانگ رہے ہوتے۔ 
چار کروڑ لوگ ۔۔۔
میرو کا منہ حیرت سے کھل گیا تمہیں کس نے کہا کہ چار کروڑ لوگ بھیک مانگتے ہیں۔۔
 ارے بھائی روز ائے دن سروے  شقئع ہوتے ہیں۔
 آپ خود ہی دیکھ لو ۔گلی میں، گلی سے باہر ہر جگہ کہیں گاڑی رکتی ہے، ڈھیر کے ڈھیر جتھے  کے جتھے بھلے چنگے، ہٹے کٹے صحت مند لوگ منہ پر مٹی مل کر آ کے یہاں کھڑے ہو جاتے ہیں اور پھر ایک کے پیچھے ایک سو لائن لگا کر کھڑے ہوتے ہیں ۔ ان کا بس چلے تو لوگوں کی جیبیں پھاڑ کر پیسے نکال لیں۔۔
سوچو 4 کروڑ لوگ بھکاری بن کر اور خواجہ سرا بن کر اس ملک کی معیشت کو چاٹ رہے ہیں ۔ اور ہمارا دین دوسروں کو ہنرمند بنانے کی حوصلہ افزائی کرتا ہے ، نوکری دلانے کی حوصلہ افزائی کرتا ہے، بھکاری 
بنانے والے پر لعنت بھیجتا ہے۔
ارے بھئی یہ لوگ اتنا پڑھے لکھے بھی کوئی نہیں کون نوکری دے گا کون کام دے گا ؟
کیا مطلب ہے کون کام دے گا ؟
وہ حیران ہو کر بولی کس نے کہا کام کی کمی ہے۔ یہاں صرف وہ پڑھے لکھے ویلے بیٹھے ہیں جنہیں  بس افسر ہی بننا ہے اور ٹائی لگا کر ہی کام کرنا ہے۔ ورنہ پاکستان میں اتنا کام ہے کہ سر کجھانے کی فرصت نہ ملے۔ کسی بجلی والے کو، ہیلپر کو، پلمبر کو ، ترکھان کو ، کیبل والے کو  باورچی کو ، کسی بھی ہنر مند کو فون کر کے دیکھ لیں کہ وہ کتنی دیر میں آپ کو مہیا ہو گا؟
بیشمار ہنر ہیں ۔
بھئی ہنر کی کوئی ڈگری بھی تو ہونی چاہیے نا
 میرو نے بیزار ہو کر کہا جی نہیں حورم بھی مصر تھی۔
 دنیا میں کوئی کامیاب آدمی صرف ڈگری کے آسرے پر کامیاب نہیں ہے۔  ساتھ میں ہنر بھی سیکھیئے۔
کام والے لوگ ملتے ہی نہیں ہیں۔ پڑھے لکھے ہونے کا یا ڈگری لینے کا یہ مطلب ہر گز نہیں ہے کہ بس اب اس پر کوئی ہنر سیکھنا یا دفتر کے علاوہ کام کرنا حرام ہو گیا ہے۔
لیکن جس نے ہنر نہیں سیکھا وہ کیا کرے؟
 کیا مطلب نہیں سیکھا ؟
کیوں نہیں سیکھا ؟
ہٹے کٹے اچھے بھلے اور چلتے پھرتے ہیں سارا دن،  تو کیا یہ یہی وقت کام سیکھنے پہ نہیں لگا سکتے۔۔
 حورم نے باقاعدہ جرح کی۔
کیوں نہیں سیکھا کوئی ہنر ؟ چار چھ مہینے ایک سال اور گھر والے گھر چلا ہی لیتے ۔ بھیک مانگ کر ہی سہی۔ جو کچھ نہیں کرنا چاہتا وہ اپنی ہڈ حرامی کو مجبوری کا نام دیکر میدان میں ہمدردہاں سمیٹنے اتر آتا ہے ۔ کمال ہے بھئی۔۔۔
پاکستان میں گداگری کا دھندا اسی نام سے عروج پر ہے ۔ جو نہ اندھے ہیں، نہ لولے ہیں، نہ لنگڑے ہیں ، بس بےغیرت ہیں ۔
 انا للہ وانا الیہ راجعون
بہت سی دولت ہو پر کسی اور کی محنت کی،  کے نظریئے کو بھی آج ہمارے میں خوب فروغ حاصل ہوا ہے اسی لیئے ۔۔۔
بے فضول کی بحث مت کرو ۔۔نہیں کرتے لوگ کام ، نہیں ہمت ہوگی ان میں،  مجھ سے کیوں بحث کر رہی ہو۔۔۔
 میرو نے تنگ آتے ہوئے جواب دیا
 بات یہ ہے  بھائی کہ  ہمارے ملک میں عورت مرد ، چھوٹا بڑا ، ہر آدمی ایزی منی کے چکر میں ہے۔  ہر کسی کو کام نہیں کرنا لیکن عیاشی اسے 22 گریڈ کے افسر کے برابر کی چاہیئے۔پروٹوکول چاہیے،  ہر چیز اسے پسند ہے ، نہیں پسند تو بس کام کرنا نہیں پسند،  اور انہیں خواہشات کو پورا کرنے کے لیے پھر وہ آسانی سے گناہ کے راستے پر چل پڑتے ہیں۔
اسی گداگری کی یا ڈاکہ زنی کی ایک اور صورت بھی مت بھولیں  جس میں کسی دوسرے کے مال کو اسانی سے اپنی جیب میں منتقل کرنا ہے اور وہ ہے کہ امیر بوڑھا پھنسا کر شادی کر لو اور جوان یار کیساتھ عیاشی کرو۔ 
یہ بات کہنا چاہتے ہوئے بھی بھائی سے نہ کہہ سکی،
  لیکن اس کی دل سے آواز آئی کہ 
لعنت ہے ایسی عورتوں اور انکے یاروں کی زندگیوں ہر۔ 
یہ کیا سمجھتے ہیں کہ یہ کسی کو دھوکہ دیکر مال ہتھیائیں گے اور اس حرام کے مال کے ساتھ کوئی اور انکو وفادار محبت کرنے والا مل جائے گا ۔ 
حرام اور دھوکے کی کمائی پر اگلا بھی آپکو حرامی اور دھوکے باز ہی ملے گا ۔ کیونکہ دھوکہ دنیا کی سب سے وفادار چیز ہے جو پلٹ کر ہر صورت آپ تک واپس آتا ہے۔
                ۔۔۔۔۔۔۔۔
۔


بدھ، 7 اگست، 2024

& معصوم بوجھ ‏ / ‏افسانہ۔ قطرہ قطرہ زندگی


    معصوم  بوجھ 

گھر میں داخل ہوتے ہیں چھناکے کی آواز سے اس کا پارہ چڑھ گیا۔
تھکی ہوئی تو پہلے سے تھی۔ اب گھر پہنچتے ہیں قیمتی گلدان کے ٹوٹنے سے وہ اور غضبناک ہو گئی ۔
 سہمی ہوئی سی دس سالہ مایا اپنے ساتھ چھ سال کی نورا کو لپٹائے کھڑی تھی ۔
 ڈر کے مارے ان کی رنگت پیلی پڑ چکی تھی ۔ 
کیا کرنے آئی تھیں کچن میں تم دونوں ۔۔۔
وہ دھاڑی
مما وہ نورا کو بھوک لگی تھی تو میں کھانا بنانے کے لیئے کیبنٹ سے دال کا ڈبہ نکال رہی تھی ۔ ڈبہ میرے ہاتھ سے پھسل کر گر تو گلدان سے ٹکرایا تو وہ گر کر ۔۔۔۔
بکومت ۔۔
اس نے ایک زناٹے دار تھپڑ مایا کے معصوم سے چہرے پر رسید کر دیا ۔ اس کی آنکھوں سے موٹے موٹے آنسو گرے لیکن منہ سے آواز نہیں نکلی ۔ معصوم نورا بہن کیساتھ اور زور سے لپٹ گئی اس نے بہن کے سویٹر میں اپنا منہ چھپا لیا ۔ 
مجھے کچھ نہیں کھانا۔۔۔ مجھے کچھ نہیں کھانا ۔۔ 
وہ خوف سے منمائے جا رہی تھی ۔
یہ آئے دن کی کہانی تھی ۔ لیکن اب راضیہ ان دونوں بچیوں سے جان چھڑانے پر سنجیدگی سے غور کر رہی تھی ۔ جو اس کی زندگی کی نئی شروعات میں روڑا بن چکی تھیں ۔

 ان کا باپ جمال تو تین سال پہلے ہی اسے طلاق دیکر روز نئی محبوبہ بغل میں لیئے گھوم رہا تھا اور دونوں بچیاں اس کے گلے ڈال گیا تھا ۔
یورپ کا ارمان لیئے اکثر ایشین جوان جب یہاں پہنچتے ہیں تو وہ اسے محنت کرنے کے بجائے عیاشی کا ٹھکانہ ہی سمجھ کر آتے ہیں ۔ لیکن حد تو تب ہو جاتی ہے جب اکثر تو بچے پیدا کرنے کے بعد بھی انکی ذمہ داریاں اٹھانے کو تیار نہیں ہوتے۔ 
آج کافی دنوں کے بعد اس نے جمال کو فون کر کے بلایا اور دونوں میں خوب چلم چلی ہوئی ۔
 راضیہ چلائی کہ
اٹھاو اپنے پلے اور لیجاو یہاں سے ۔ورنہ کچھ کر بیٹھوں  گی میں ان کے ساتھ ۔۔
جمال نے کہا 
مائی فٹ جو تمہارا جی چاہے کرو میرا ان سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔۔
یہ کہہ کر وہ پیر پٹختے ہوئے چلا گیا ۔
راضیہ اپنے حواس کھو چکی تھی نہ تو جمال ان بچوں کے لیئے اسے کوئی مالی مدد فراہم کر رہا تھا نہ اخلاقی طور پر اسکی ذمہ داری بانٹ رہا تھا ۔
یہ ہی سوچتے ہوئے اس نے دونوں بچیوں کو بیرحمی کیساتھ گھسیٹتے ہوئے اپنی گاڑی میں پٹخا ۔
 وہ رو رہی تھیں ، خوفزدہ تھیں ۔ اس سے رحم کی بھیک مانگ رہی تھیں۔
 لیکن وہ جیسے بہری اور بے حس ہو چکی تھی۔ 
شدید سردیوں کی شام تھی باہر بہت جلد اندھیرا ہو چکا تھا۔ ایک ہو کا سا عالم تھا۔ لوگ اپنے گھروں میں لوٹ چکے تھے یا پھر ہوٹلز اور کلب میں مصروف تھے۔
راضیہ نے معلوم کر لیا تھا کہ آج کل جمال کہاں رہ رہا ہے۔
اس نے جمال کے دروازے پر کافی دیر گھنٹیاں بجائیں لیکن دوہرے شیشوں کی دیواروں اور کھڑکیوں میں کوئی آواز باہر سے نہیں جا رہی تھی اور اندر کا میوزک کا شور دروازے کی گھنٹی بھی نہیں سنا رہا تھا ۔
نشے میں دھت جمال اپنی دوست کیساتھ پارٹی میں مشغول تھا ۔ شراب کی بو سارے گھر میں رچی ہوئی تھی ۔ 
بالاخر راضیہ نے کافی دیر کی کوشش کے بعد جب جمال اپنا فون نہیں اٹھا رہا تھا اس نے کہا ۔
جہنم میں جاؤ
 اس نے دونوں بچیوں کو گاڑی سے گھسیٹ کر نکالا اور وہاں دروازے پر کھڑا کر دیا ۔
اور خود گاڑی تیزی سے موڑتی ہوئی نکل گئی
ایک لمحے کو بھی اسے ان بچیوں پر ترس نہیں آیا
کیا ہوس مامتا اور باپتا  پر اس طرح بھی غالب آ سکتی ہے۔۔
آسمان بھی حیرت سے تک رہا تھا۔
 ٹھٹھرتی ہوئی سردی میں بغیر کچھ سوچے سمجھے کہ کب دروازہ کھلے گا کب جمال ان بچیوں کو گھر کے اندر لیجائے گا۔ 
مایا کا معصوم دل حیران پریشان تھا ۔ وہ کچھ بھی سمجھنے سے قاصر تھی۔
 اس نے کافی دیر کھڑے رہنے کے بعد تھک کر اپنی بہن کو ڈور میٹ پر لٹا کر اس کا سر اپنی گود میں رکھا ۔ وہ اسے پیار سے تھپک کر سلا رہی تھی ۔ لیکن خالی پیٹ والوں کو کمبخت نیند بھی کہاں نصیب ہوتی ہے ۔
 آپی بھوک لگی ہے ۔ نورا نے  اپنی منمناتی ہوئی آواز میں کہا۔
 مایا نے بے بسی سے بہن کو دیکھا اور اپنی آنکھیں پونچھ ڈالیں۔ 
اس نے کئی بار دروازہ پیٹا لیکن جواب ندارد۔۔
سردی تھی کہ ہر پل لہو جمائے دے رہی تھی۔۔
 ابھی پاپا آتے ہیں پھر ہم کھانا کھائیں گے ۔ شاید انکی ڈور بیل خراب ہے گڑیا ۔
 اس نے بہن کو کیسے کیسے دلاسے دیئے۔ 
وہ چھوٹی سی بچی اپنی بہن کے لیئے وہ بن گئی جو اس کی ماں کو باپ کو بننا چاہیئے تھا۔
اور جانے کب دونوں ایکدوسرے سے لپٹے ہوئے سو گئیں ۔ سردی کی خون جمانے والی لہر نے انہیں واقعی سلا دیا ۔ 
صبح  گیارہ بجے نشہ ٹوٹنے پر جمال انگڑائیاں لیتے ہوئے آنکھیں ملتے ہوئے دروازہ کھول کر نکلا
 تو دروازے کیساتھ ٹیک لگائے ہوئے دو سردی سے جمے معصوم مردہ وجود نیچے جا گرے۔۔۔۔۔
                ------
            

& وہ میرے قابل نہیں تھا۔۔۔۔۔افسانہ۔ قطرہ قطرہ زندگی

    
      وہ میرے قابل نہیں تھا 


سامیہ جانتی تھی کہ اس کا شوہر تھوڑا رنگین مزاج ہے ۔ لیکن بدکردار ہے، یہ وہ کبھی نہیں مان سکتی تھی . 
اسی بھروسے پر اس نے اس شادی کی حامی بھری تھی کہ ناصح اسے کبھی بیوفائی کا دکھ نہیں دے سکتا.
 اس کی اس کے لیئے دیوانگی ہی تو اسے عجیب سا سکون دیا کرتی تھی.

ایک حسین لڑکی دروازے پر ناصح کے پہلو میں کھڑی تھی..
اس سے پہلے کہ وہ اس سے کچھ پوچھتی،   وہ اسے لیکر گھر میں  داخل ہو گیا
کون ہے یہ لڑکی.. ؟
اس نے پریشانی سے سوال کیا
دوست ہے میری۔
ناصح نے اس لڑکی کو اپنی قریب کرتے ہوئے جواب دیا
دوست ؟
کیسی دوست؟
وہ اب حیران بھی ہو رہی تھی
میری محبوبہ ہے اب خوش۔۔
اس نے عجیب آدم بیزار انداز میں جواب دیا
اور میں ؟
میں کون ہوں؟
اس نے تڑپ کر سوال کیا 
ارے بھئی تم بیوی ہو جاؤ بیوی بنکر رہو. کیوں سر پر سوار ہو. دفع ہو جاؤ جا کر کھانا بناؤ.. جھاڑو لگاؤ  ٹوائلٹ صاف کرو . یہ میرے کپڑے اٹھاؤ . اچھی طرح سے صاف ہونے چاہیئیں. 
اس نے کپڑوں کو الکنی سے,  الماری سے کھینچ کھینچ کر نکالا اور گولا بنا کر اس کی طرف اچھال دیا .
ناصح نے اسے کمرے سے باہر دکھیلتے ہوئے دروازے کی چٹخنی چڑھا لی۔
وہ ہکا بکا سی فرش پر گری دروازے کو دیکھ رہی تھی۔
اسکے سوچنے سمجھنے کی حس جواب دے چکی تھی۔
کمرے سے ان دونوں کی بے ہنگم ہنسی، سرگوشیوں کیساتھ اٹھخ پٹخ کی آوازیں آ رہی تھی۔ 
اسے ناصح کے وجود سے تصور سے ہی گھن آنے لگی۔۔
صدمے  کی ایک لہر اس کے رگ و پے میں دوڑ رہی تھی۔ تو بے عزتی کا احساس اس کو مارے جا رہا تھا
یا اللہ میں  کیا کروں .
یہاں کھڑی رہوں, یا اس گھر پر، اس شخص پر تھوک کر کہیں بھاگ جاؤں..
 اسے مار ڈالوں یا اپنے گلے میں پھندا لگا کر جُھول جاؤں ؟؟؟؟
وہ رونا چاہتی تھی مگر آنسو شاید اس کی آنکھ کا راستہ بھول چکے تھے...
اس شخص کی محبت پر تو نے  اپنے سارے سچے رشتے قربان کر دیئے تھے. اندر سے کوئی آواز آئی..
پھر تو یہ روز کا معمول بن گیا۔
اس کا رونا دھونا احتجاج جھگڑا سب بے سود ہو چکا تھا۔ 
پھر اس نے اپنا دھیان رکھنا چھوڑ دیا. خاموشی کی موٹی چادر اوڑھ لی.اس نے خود کو ایک گونگی مشین بنا لیا.  اپنی زندگی سے نہ کا لفظ کھرج کر پھینک دیا.
اس نے اپنے ہر انسانی جذبے اور احساس کی نفی کرنے کی ٹھان لی.
سب کی پلیٹوں سے بچے دوچار لقمے اسکی خوراک بن گئے.  نیا کپڑا اس نے خود پر حرام کر لیا.
کسی ہنسی کی بات پر اس کے کان بہرے ہو جاتے.
یہ سزا دی اس نے خود کو ناصح جیسے بےفیض اور بیوفا شخص سے محبت کرنے کی دی .  اس جیسے بے قدر اور گھٹیا کردار سے وفاداری نبھانے اور اپنی پاکیزہ محبت کی تذلیل کی..
اس روز وہ دربار پر سلام سے واپسی پر اپنا نام مانوس آواز میں سنکر چونک گئی۔
اس نے مڑ کر دیکھا 
اسکا خالہ زاد روف اسے حیرت سے تک رہا تھا۔
روف۔۔۔۔
 اس کے منہ سے بے اختیار نکلا 
تم یہاں ۔۔
ہاں میں اپنے کام سے یہاں ایک دفتر میں آیا تھا ۔ سوچا دربار پر سلام کر لوں ۔ لیکن تمہیں کیا ہوا؟
تمہیں تو میں پہچان ہی نہیں پایا اندازے سے ہی تمہیں آواز دی تھی ۔ 
اس کی آنکھیں تھیں یا خشک گہرا کنواں.
وہ اس میں زیادہ دیر جھانک بھی نہ سکا. .
آج پورے پانچ سال بعد وہ اپنی خالہ زاد کو دیکھ رہا تھا ۔
جس کا نام تک گھر والے بھول چکے تھے۔
 اس کی حالت دیکھ کر دل صدمے سے چور ہو گیا۔
 یہ تم نے اپنی کیا حالت بنا رکھی ہے جس کے ساتھ آئی تھی جب اسے میری پرواہ نہیں تو میں اپنی حالت کی کیا پرواہ کروں گی۔ کس کے لیئے جیئوں۔
 اس نے اپنا سارا قصہ کھول کر بیان کر دیا ۔
 وقوف لڑکی تمہارے شوہر نے تمہارے ساتھ دشمنی کی۔  بے وفائی کی اور اس کا بدلہ اس سے لینے کے بجائے تم نے اپنے آپ سے لیا۔ خود کو تباہ کر لیا۔ برباد کر لیا بے۔
 بیوقوف لڑکی اس بدبخت کو اس سے کیا فرق پڑے گا وہ جگہ جگہ منہ مارتا پھرتا ہے اور تم یوں ماتم کر سجائے بیٹھی ہو ۔
اسے ایسی سزا دو کہ وہ ہی نہیں اس جیسے اور کم ظرف بھی یاد رکھیں۔جہاں سے گزرے تمہارا نام لے کر اپنا گناہ تسلیم کرے۔
کیسے۔۔ کیسے میں یہ سب کر سکتی ہوں ۔
میں کیا کر سکتی ہوں۔ میں نے تو اپنے گھر والے اپنے بہن بھائی سب کو اپنے خلاف کر لیا اس سے ایک بے وقعت انسان کے لیئے۔
وہ مایوسی سے آنسو پونچھتے ہوئے بولی
کر سکتی ہو۔ کیوں نہیں کر سکتی تمہاری شادی کا فیصلہ تمہارا حق تھا ٹھیک ہے انسان سے غلطی ہوتی ہے۔ تمہارا چناؤ بھی اچھا ثابت نہیں ہوا۔ تمہارے نصیب کی چوٹ بن گیا ۔  لیکن اب اگر وہ دشمنی پہ اترا ہے تو اسے بہترین دشمنی کر کے دکھاؤ تاکہ اور بھی دیکھنے والوں کو عبرت ہو وہ کیسے؟
 اس نے حیرت سے اسے دیکھا
 ایک بات یاد رکھو دشمن کو چوٹ پہنچانی ہو تو خود کو دکھی کر کے نہیں۔ اس سے تو دشمن خوش ہوتا ہے اسے چوٹ پہنچانی ہے تو خود خوش رہ کر کامیاب ہو کر پہنچاو۔
 کہتے ہیں نا کہ دشمن کے کلیجے پر مونگ دلنی ہے تو خوش رہو اور کامیاب رہ کر دکھاؤ 
تو میں کیا کروں میرا خوش ہونے کو جی نہیں چاہتا۔
 تو اس جی کو انسان کا بچہ بناؤ نا۔ اس جی نے تو تمہیں اس حالت تک پہنچایا ہے۔
 اس نے اسے ڈانٹتے ہوئے کہا۔
 اس کے ساتھ رہنا چاہتی ہو تو اپنی شرطوں پر رہو۔
 نہیں رہنا چاہتی ہو تو بھی اپنی شرطوں پہ اسے چھوڑو۔
 میں کہاں جاؤں گی؟
 کیا مطلب میں کہاں  جاؤں؟
 دنیا ایک آدمی پر ختم تو نہیں ہو جاتی ۔ جیسے وہ دوسری عورتیں لا کر یہاں پر غلط کام کر سکتا ہے تو تم کیا جائز کام نہیں کر سکتی۔
 چھوڑ دو اسے۔ کسی اچھے انسان کا ہاتھ تھامو جو تمہیں عزت دے۔ محبت اور خلوص کے ساتھ تمہارے ساتھ زندگی گزارے۔
 ایسے گندے آدمی کی زندگی سے نکل کر کون مجھے اپنائے گا ۔
میرے تو گھر والے بھی مجھے دیکھنا پسند نہیں کریں گے۔
 ارے تم جاؤ تو سہی۔ تمہارت اپنے ہیں۔ زیادہ سے زیادہ برا بھلا کہیں گے۔  زیادہ سے زیادہ کوس لیں گے تمہیں۔۔ اور کیا کہیں گے  اس سے زیادہ ۔
والدین کے گھروں کے دروازے ایسے بند نہیں ہوا کرتے اور دل کا دروازہ تو کبھی بند نہیں ہوتا ۔
ایک معافی سے تو خدا بھی راضی ہو جاتا ہے تو کیا وہ راضی نہیں ہوں گے۔ جاؤ انہیں پھر سے اپنا لو۔
 اپنی زندگی کو نئے سرے سے شروع کرو 
اس کی باتیں اس کے دل پر مرہم کا سا اثر کر رہی تھیں ۔
 اس نے سوچا 
واقعی شیشے میں دیکھا میں نے پانچ سال میں خود کو 50 سال کا کر لیا اور وہ ہٹا کٹا منہ پر لالیاں بکھیرے ہر روز ایک نئی لڑکی کو پھانس کر لاتا ہے۔
 اسے کیا فرق پڑا پانچ سال کا میرا صبر اس کو نظر ہی نہیں آیا۔
میں مفت کی نوکرانی ہوں اس کے لیئے ۔
میں ہوں کیا ؟
 روف کی باتوں نے اسے جینے کی ایک نئی راہ دکھائی ۔
اس نے خود کو آئینے میں دیکھا۔ اپنے رویے پر غور کیا اور پھر ایک فیصلہ کر لیا ۔
اپنے دو جوڑے بیگ میں رکھے۔ ایک مختصر سا خط  ناصح کے نام لکھا کہ بس اب میں اور تم اجنبی ہیں۔ چاہو تو عدالت چلے جاؤ ۔ چاہو تو عزت سے اس معاملے کو یہیں ختم کر دو ۔ مجھے طلاق دیدو ۔
اب میں تمہیں ہر جگہ تمہارے مقابلے پر کھڑی دکھائی دوں گی۔
 وہ  خط پڑھکر حیران ہو گیا
 یہ نیا سبق کس نے پڑھایا ہے ۔ یہ راستہ کس نے دکھایا۔۔ یہ اتنی بہادر کب سے ہو گئی؟ کس سے ملتی ہے؟  کون آتا ہے اور یوں وہ عورت جو کل تک عزت کا لفظ بھول چکی تھی آج اس کے سامنے کیسے کھڑی ہو سکتی ہے۔
 سامیہ نے اپنے والدین سے مل کر معافی تلافی کی۔
 اس آدمی کو چھوڑنے کا فیصلہ کیا۔ سب نے اس کی بات کی حمایت کی جو پہلے سے اسے پسند نہیں کرتے تھے۔
 لیکن محبت کی پٹی انکھوں سے اتر چکی تھی اور اب وہ خود یہ فیصلہ کرنا چاہتی تھی۔  جس بوجھ کو سر سے اتار پھینکے ۔
اناصح کو اندازہ ہو چکا تھا کہ عدالت میں رل کے صرف وہ اپنا پیسہ ہر وقت ہی برباد کرے گا۔
 اس نے کوشش کی کہ کسی طرح اسے واپس بلا سکے لیکن اب وہ ٹھان چکی تھی کہ پانی بہت بہہ چکا ان پلوں کے نیچے سے۔
 سو اس نے طلاق نامہ اسے بھجوا دیا یوں یہ بھاری پتھر بھی اس کے کلیجے سے اتر گیا۔
 اس کی ماں نے اس کی ہمت بندھائی۔  زندگی کی طرف واپس آنے میں ،  گھر والوں کی عزت اور محبت نے اہم کردار ادا کیا ۔ 
 سانس لینے کا حوصلہ ہوا اس کی خوراک کا خیال رکھا گیا۔ صحت کچھ بہتر ہوئی۔ دل کو حوصلہ ملا تو پھر سے پرانی سامیہ دنیا کو دکھائی دینے لگی۔
 اس نے گھر کے نزدیک ایک فیکٹری میں کپڑوں کی کٹنگ کا کام سیکھنا شروع کیا ۔ سال بھر کا کورس کرنے   کے بعد اب وہ بہترین انداز میں اپنا کام کر رہی تھی۔ 
اسکی پہلی تنخواہ  جو اسکے ہاتھ پر ائی تو اسے لگا وہ پھر سے جی اٹھی۔ یہ اس کی کمائی تھی۔
 اس کی حق حلال کی کمائی۔ اس میں سے کچھ خرچ کرنے کے لیئے اسے کسی سے پوچھنے کی ضرورت نہیں تھی۔
 وہ اب کسی کی بھیک نہیں کھائے گی  ۔
اس نے اس پیسے کا ایک حصہ اپنی ماں کے ہاتھ پہ رکھا ۔
ماں نے اسے دیکھا 
یہ کیا یہ میرے حصے کا خرچ ہے جو   آپ اس گھر کے خرچ میں ڈالیں۔
 لیکن بیٹا ہم  تو تم سے نہیں مانگ رہے ۔
 آپ نہ بھی مانگیں ہر انسان کو اپنی زندگی کا بوجھ خود اٹھانا چاہئیے۔ میں جو کچھ کر چکی ہوں اس میں اپنی  زندگی کے پانچ سال گنوا دیئے ۔
یہ سمجھنے کے لیے کہ پہلے مجھے معاشی طور پر اپنے پیروں پر کھڑے ہونا چاہیئے تھا۔
کچھ کمانا چاہیئے تھا۔
 کمانے والی عورت بات کرنے کی ہمت بھی رکھتی ہے اور فیصلہ کرنے کا حوصلہ بھی رکھتی ہے۔
کیونکہ وہ جانتی ہے کہ اس کا رشتہ سامنے والے کے ساتھ دو روٹی کا نہیں بلکہ عزت کا ہے اور اسے عزت ملتی بھی ہے ۔
میں یہاں آپ کے ساتھ رہوں گی لیکن آپ کو میرے حصے کا خرچ مجھ سے خاموشی سے لینا ہوگا۔
ماں نے کچھ سوچا مسکرا کر وہ پیسے رکھ لیئے ۔
وہ زندگی کی  ڈگر پر رواں دواں ہو چکی تھی۔
 کہ روف اپنی ماں کے ساتھ ان کے گھر کچھ دنوں کے لیے ٹھہرنے کو آیا۔ سامیہ نے اس کا شکریہ ادا کیا  تمہاری وجہ سے میں اس دلدل سے نکل سکی ورنہ شاید اور سال بھر میں مٹی کے ساتھ مٹی ہو چکی ہوتی۔
 تمہارا شکریہ 
شکریہ کی کوئی بات نہیں ۔
تمہیں تکلیف میں دیکھا تو میرا فرض تھا کہ تمہیں حوصلہ دیتا۔
تم مجھے پہلے بھی اچھی لگتی تھی اور اب بھی۔
 ایک غلط فیصلے سے کسی کی زندگی ختم نہیں ہو جاتی یا اس کی سوچنے سمجھنے کی صلاحیتیں ختم نہیں ہو جاتیں۔ میں اماں کو اسی لئیے ساتھ لایا ہوں۔
 اگر تمہاری رضامندی ہو تو میں تم سے شادی کرنا چاہتا ہوں۔
 اگر تم ہاں کرو گی تب ہی میں امی کو خالہ سے بات کرنے کے لیے کہوں گا میں دو چار دن کے لیئے اپنے کام کے علاوہ اس کام سے بھی  تمہارے شہر میں آیا ہوں۔ 
 سوچا قسمت آزما لی جائے۔
سامیہ نے اسے بے یقینی سے دیکھتے ہوئے پوچھا
 کیا تم سنجیدہ ہو۔ 
 سو فیصد۔ اس میں غیر سنجیدہ ہونے کی کیا بات ہے؟
 تم جانتے ہو میری طلاق ہو چکی ہے۔ پھر تمہاری امی اس رشتے کے لیئے کیسے راضی ہوں گی؟
 وہ اس رشتے کے لیے تیار ہیں۔ وہ تمہیں پہلے بھی پسند کرتی تھی اور اب بھی تم سے بہت محبت کرتی ہیں۔  لیکن اس سے پہلے ہی تم نے جا کر شادی  کر لی۔
  ہم شاید تھوڑا لیٹ ہو گئے۔
 قسمت کو یہی منظور تھا کہ ہم اس طرح ملیں تو ہم اپنی اگلی زندگی کو بہت اچھا بنا سکتے ہیں ۔
دیکھو روف میں نے جو حالات دیکھے ہیں ۔میرا زندگی پر اعتبار اور اس شادی کے رشتے پر بہت ہی کمزور ہو گیا ہے۔
میں زندگی میں اب گھر بیٹھ کر ایک مفلوج زندگی نہیں گزار سکتی ۔
جھاڑو پونچھا کرنے والی ماسی کی زندگی نہیں گزار سکتی۔ میں گھر سے باہر اپنی مرضی سے جب تک چاہوں گی کام کروں گی اور جب دل نہیں کرے گا نہیں کروں گی ۔ میری تنخواہ میری مرضی میں جہاں چاہوں وہ خرچ کروں گی۔
 تم اپنا گھر اپنی تنخواہ پر چلا سکتے ہو ؟ 
میری جائز ضرورتوں کو پورا کر سکتے ہو ؟
 مجھے سانس لینے کا، فیصلہ کرنے کا اختیار دے سکتے ہو، مجھ سے وفادار رہ سکتے ہو، تو ٹھیک ہے مجھے تم سے شادی کرنے پر کوئی اعتراض نہیں۔
 روف نے مسکرا کر اسے دیکھا اور بولا جناب اعلی فکر مند کیجیئے۔
میں آپ سے یہی توقع کر رہا تھا اور اگر آپ یہ سب نہ کہتیں  تو پھر شاید میں کچھ اور سوچتا۔۔
 اس نے مسکرا کر دیکھا اور گھر سے باہر  نکل گیا
کہاں جا رہے ہو 
سامیہ نے اسے آواز دی
وہ مسکراتے ہوئے بولا
 بھئی مٹھائی تو لے آوں ۔۔۔
                     ۔۔۔۔۔۔۔۔


& بوجھ بانٹو۔ افسانہ۔ سچی کہانیاں ۔ قطرہ قطرہ زندگی


   
         بوجھ بانٹو


وقت بہت تیزی سے بدل رھا ہے وقت کے تقاضے بھی بدل رہے ہیں ۔ کل تک جو باتیں اتنی ضروری نہیں سمجھی جاتی تھیں آج وہ زندگی کی ضرورت بن چکی ہیں ۔ اس بات کو اب کم تعلیم یافتہ لوگوں نے بھی قبول کرنا شروع کر دیا ہے ۔ 
مثلا۔۔۔

 کل تک ہمارے ہاں جو خاتون بھی  گاڑی چلاتی تھی اسے بہت ہی آزاد خیال بلکہ ہاتھ سے نکلی ہوئ عورت سمجھا جاتا تھا ۔ زیادہ دور نہ جائیں بیس سال پیچھے چلتے ہیں ۔ کسی بھی لڑکی نے میٹرک کیا ،ہانڈی روٹی بنانے کے قابل ہوئ تو بہت بڑی بات تھی مناسب رشتے کیۓ اور لڑکی اپنے گھر کی ہوئ ۔اللہ اللہ خیرصلہ ۔لیکن پھر ماحول نے کروٹ لی ۔
میڈیا کا سیلاب آگیا ۔معلومات نے طوفان کی سی تیزی سے گھروں کا رخ کیا ۔ زندگی کا انداز بدلنے لگا ۔ خواہشوں نے نۓ رنگ ڈھنگ اپنانے شروع کیۓ ۔زندگی رو ٹی کپڑا اور مکان کے دائرے سے باہر نکل کر مقابلے کی دوڑ میں شامل ہو گئ ۔خوب سے خوب تر کی جستجو نے اسے اور بھی ہوا دی ۔ آج یہ بات پہلے سے بھی زیادہ ضروری لگنے لگی ہے کہ ہماری آدھی آبادی جو گھر بیٹھ کر یا تو آبادی بڑھاتی ہے یا پھر شام کو تھکے ہارے مردوں کے گھر آنے پر ان کے لیۓ مسائل بڑھانے کی وجہ بنتی ہے اس آدھی آبادی کو بھی اب قومی ترقی کے دھارے میں شامل کیا جاۓ ۔ نوجوانوں سے جب بھی میری ملاقات ہوتی ہے میرے مشاہدے اور تجربے کو ایک نئ راہ ملتی ہے ۔انہی نوجوانوں کی کہانیوں میں سے ایک کہانی آج آپ کے ساتھ بھی بانٹ رہی ہوں جس نے مجھے بھی بہت کچھ سکھایا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔ ایک نوجوان لڑکی نے مجھے اپنے تجربے سے آگاہ کرتے ہوۓ بتایا کہ
،، میں بہت ہی زیادہ لاڈلی بھی تھی اور فضول خرچ بھی ۔ ہمارے بابا جان نے ہمیں ہر منہ مانگی چیز لا کر دی ، میرے لیۓ یہ بہت ہی آسان سی بات تھی کہ یہاں میں کوئ فرمائش کرتی ہوں وہاں وہ پوری ہو جاتی ہے اس لیۓ کسی چیز کے ملنے کے بعد کبھی تو میں اسے ریجیکٹ کر دیا کرتی تھی تو کبھی وہ مہنگی سے مہنگی چیز بھی کسی کو اٹھا کر دے دیا کرتی تھی ۔ پھر اتفاق سے ایک سال یونیورسٹی کے داخلوں کا ٹائم کسی وجہ سے لیٹ ہو گیا اور بروقت فارم نہ ملنے کی وجہ سے مجھے یونیوورسٹی کا وہ سال داخلہ نہ مل سکا تو میں نے بوریت سے بچنے لیۓ بابا جان کی دکان پر جانے کا فیصلہ کیا ،۔ بظاہر یہ ایک ٹائم پاس فیصلہ تھا مگر میں نہیں جانتی تھی کہ میرے اس فیصلے سے میری سوچ کا دھارا بدل جاۓ گا یا میری زندگی کا انداز بدل جاۓ گا ۔ صبح بابا جان کے ساتھ چھ بجے اٹھناتھا پھر ایک گھنٹے کے اندر دکان کا رخ کیا سارا دن باباجان کے ساتھ دکان کے کاؤنٹر پر کبھی، تو کبھی سامان لگانے کے لیۓ ریک سیٹ کرنے والے کی مدد کرنا، دکان پر آنے والے سامان کا حساب کتاب ، ساتھ ساتھ کسٹمر کو بھی  خریداری میں کسی بھی چیز ک لیئے گائیڈکرنا۔۔۔۔۔۔ ا اُفففففففففففففففففففففففففففففف
شام تک تو میری ہڈیاں بھی بجنے لگیں ۔ اس روز بابا جان نے مجھے میری دن بھر کی دیہاڑی کے پیسے [جو کہ ہمارے دوسرے ملازم کو بھی جتنے ملتے ہیں اس کے برابر تھے ] میرے ہاتھ پر رکھے تو یقین جانیۓ اس وقت جو میری حالت تھی میں اس خوشی کو بیان نہیں کر سکتی ۔یہ پیسے میری روز کے جیب خرچ کے دسویں حصے کے برابر بھی نہیں تھے ۔لیکن میرے لیۓ وہ پیسے کسی خزانے سے کم نہیں تھے اور اس سے بھی زیادہ وہ پیسے میرے لیۓ کتنے مقدس تھے جو میرے اپنے ہاتھ کی حلال کی کمائ تھے جنہیں دیکھ کر آج مجھے میرے بابا جان سے اور بھی زیادہ محبت اور عقیدت محسوس ہوئ اور ان کی اب تک کی ساری تھکن کوایک ہی پل میں میری رگ و پے نے بھی محسوس کر لیا ۫ ۔ اور اس کمائ کو خرچ کرنے کا خیال میرے لیۓ بلکل بھی اچھا نہیں تھا ۔ اور میں نے اس سے کچھ بھی خریدنے سے انکار کر دیا ۔ یہاں تک کہ باباجان نے اپنے پاس سے بھی کچھ خرید کر دینے کو کہا تو میں نے صاف انکار کر دیا کیوں کہ مجھے اس مشقت کا احساس ہو چکا تھا جو ان پیسوں کو کمانے کے لیۓ اٹھائ جاتی ہے وہ دن میری زندگی میں فضول خرچی کا آخری دن ثابت ہو ا ۔میں نے یہ فیصلہ کر لیا کہ اگر ایک دن کے کام کا تجربہ جب مجھے اتنا کچھ سکھا سکتا ہے تو پھر مجھے ہر روز زندگی سے کچھ سیکھنا ہے ۔؛ آج میں پڑھ بھی رہی ہوں اور کام بھی کر رہی ہوں اپنے بابا کی کمائ کو ضائع کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتی اور ہر کام کرنے والے کی عزت کرتی ہوں ۔ اور اپنے بہن بھائیوں کو بھی پیسہ سوچ سمجھ کر استعمال کرنے کا مشورہ دیتی ہوں ۔ ،،

دیکھاآپ نے ایک تجربہ آپ کی سوچ کو کہاں سے کہاں لے جاتا ہے ۔ یہ ہی تجربہ اب ہماری پوری قوم کو کرنے کی ضرورت ہے ۔
کیوں ہم عورتوں کو اپنی آدھی سے زیادہ آبادی کو بچے بم ب آنے اور فساد بونے کے لیئے گھریلو کاموں کے نام پر مخصوص کیئے رکھیں گے۔ 
تو۔کیا وہ۔منہ اٹھا کر صبح صبح مردوں کے ساتھ جا کر دھکے کھانا شروع کر دیں اس کی ماں نے غصے سے اس کی طرف گھورتے ہوئے دیکھا اور پوچھا
 ارے نہیں امی میرا یہ مطلب بالکل نہیں ہے کہ ہر بندہ یہی کام کرے، لیکن  کچھ تو پریکٹیکل کرے۔
 اپنی پڑھائی کے لیے اور پھر ہانڈی روٹی اور چولہے کے علاوہ بھی،  یہ کام کوئی بھی کر سکتا ہے۔
 اور عورت اور مرد کی اس میں کوئی تخصیص نہیں ہے جو فارغ ہے جس کا جی جا رہا ہے وہ بنا دیتا ہے ۔
باقی اس دنیا کے سسٹم کو چلانے کے لیے جن لوگوں کی ضرورت ہے اس میں عورت اور مرد کو دونوں کو برابر آگے بڑھنا ہوگا۔دونوں کو اللہ نے مختلف صلاحیتوں سے نواز رکھا ہے ۔گھر میں بیٹھ کر بھی مختلف کام ہو سکتے ہیں۔ لیکن کچھ کرو تو سہی ۔۔۔

جب تک خواتین کام کاج کے میدان میں قدم نہیں رکھیں گی وہ کبھی بھی اپنے باپ بھائی ، شوہر یا بیٹے کی کمائی سے ہمدردی نہیں کر سکتیں ۔
کیا مطلب ؟
امی نے حیرت سے سوال داغا۔
دیکھیں نا امی ۔۔بہنوں کو شوق ہوتا ہے کہ سہیلیوں میں شو مارنے کے لیئے بھائیوں کے پیسوں کو زیادہ سے زیادہ کہاں کھپانا ہے ۔ 
ماں کو فکر ہوتی ہے کہ بیٹا بہت کما رہا ہے تو کیسے کیسے بیٹیوں کو بھرا جاۓ ۔
بیوی کو فکر ہوتی ہے کہ کیسے اپنے میاں کی کمائی میں سے اپنے میکے والوں کو موج کرائی جاۓ ۔
گویا قُربانی کا دُنبہ بنتا ہے وہ اکیلا کمانے والا مرد ۔
 یہ سب کیا ہے ؟
کوئی مانے نہ مانے لیکن 80 فیصد خواتین ہمارے معاشرے میں یہ ہی سب کچھ کر رہی ہیں۔
اب تمہیں کیا الہام ہوا ہے 80 فیصد کا ؟ جو دعوی کر رہی ہو۔۔۔
 آپ اپنی ملنے والیوں، رشتے دار عورتوں میں سے یہ شرح نکال کر دیکھ لیجیئے۔
لیکن اس میں قصور ان خواتین کا بھی زیادہ نہیں ہے ۔ 
جو بھی شخص جب فارغ بیٹھا ہو اور اسے ہر چیز بنا محنت کے مل رہی ہو تو وہ اسے اجاڑنے میں کبھی بھی کوئی تردد نہیں کرے گا ۔
اسے معلوم ہی نہیں ہے کہ یہ سب بنانے کے لیئے، کمانے لیئے کیا کیا محنت کی گئی ہے ۔
 ہم تو اس معاشرے سے تعلق رکھتے ہیں کہ جہاں لوگ لیڈی ڈاکٹر کا رشتہ بھی صرف لوگوں میں اپنا ایمج بنانے کے لیئے لیتے ہیں ۔ اور بیاہ کرتے ہی اس لڑکی کو پریکٹس تک کرنے کی اجازت تک نہیں دی جاتی ۔
 کیا نرسزز ۔ کیا ٹیچرز، ، ٹیکنیشنز ،ایم بی اے ہو یا ماسٹرز ۔ رشتہ لینے کے لیئے تو یہ ڈگری ایمپورٹنٹ ہے۔ لیکن اس لڑکی کے اسی شعبے میں اسکے کام کرنے سے ان کی توہین ہوتی ہے ۔
اب یہ روش بدلنے کا وقت آگیا ہے اگر ہمارے ہاں کے مردوں کو اپنا بوجھ کم کرنا ہے اور سب سے اہم ذہنی بیماری اور دل کے دوروں سے بچنا ہے تو اپنا معاشی بوجھ بانٹنا ہو گا ۔
 اب وہ زمانہ نہیں ہے کہ محدود ضرورت تھی سو ایک آدمی کی تنخواہ میں پوری حویلی کے نکمے پل جایا کرتے تھے۔ 

 اپنے ہاں کی خواتین کو فضول قسم کے جھگڑوں اور مصروفیات سے بچانا ہے تو انہیں نہ صرف تعلیمی میدان میں آگے لائیں بلکہ انہیں پروفیشنل ڈگریز دلوائیں تاکہ انہیں کام کر کے پیسے کی ویلیو کا احساس ہو۔ اس سے فضول خرچی میں بھی خاطر خواہ کمی ہو گی ۔ًمحلّوں اور خاندانوں کے جھگڑوں میں خاطر خواہ کمی ہو گی ۔اور آپ کے گھر کی اور ملک کی آمدنی میں اور سکون میں بھی اضافہ ہو گا ۔ وقت کے ساتھ ہمیں اپنے طرز زندگی میں بھی مثبت تبدیلیاں لانے کی ضرورت ہے ۔ارتقاء اسی کا نام ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ ہم ہر اچھی چیز کو اپنائیں اور ہر بری عادت اور رواج کو خدا حافظ کہیں ۔
 اگر ایسا نہیں کیا گیا تو ہمیں اپنا جہاں بدلنے کے لیۓ اور کتنے حادثوں اور قتل و غارت اور مفلسی کی راہ دیکھنا ہے ۔ فیصلہ ہم سب کو کرنا ہے کیوں کہ ابھی نہیں تو کبھی نہیں۔
اس نے مڑ کر دیکھا 
وہ کب سے جا چکی تھی۔
  ۔                ۔۔۔۔

پیر، 5 اگست، 2024

نیند۔کوٹیشنز۔چھوٹی چھوٹی باتیں

نیند

جب آپ حق پر ہوتے ہیں تو دل بھی سکون میں ہوتا ہے اور نیند سولی پر بھی بڑی میٹھی آتی ہے۔ 
     (چھوٹی چھوٹی باتیں) 
        (ممتازملک۔ پیرس )

تو کی کردا۔ پنجابی کلام۔ کوسا کوسا


تو کی کردا

ناں تیرے جد فال نہ ہوندی تو کی کردا
میں جے تیرے نال نہ ہندی تو کی کردا

تاڑی دے لئی دو ہتھاں دی لوڑ اے ماہیا
 تال دے اتے تال نہ ہوندی تو کی کردا

پج پج تینوں لب لینی آں لک نہیں سکدا 
ہرنی ورگی چال نہ ہندی  تو کی کردا

تیریاں کمیاں تے وی پردے پائے ہس کے
عشق چہ میں بے حال نہ ہوندی تو کی کردا

دھپ نہ آوے تیرے سر تے ویلے دی جے
کھولے ہوئے وال نہ ہوندی تو کی کردا

تیریاں محنتاں تیرے دعوے کی کر لیندے
ذات اوہو لجپال نہ ہوندی تو کی کردا

شکرے نوں ممتاز نہ پنجرے دے وچ ڈکڑاں
اسمانی ترپال نہ ہوندی تو کی کردا
   ۔۔۔۔۔۔

جمعہ، 2 اگست، 2024

تبصرہ ۔ صغیر تبسم۔ اور وہ چلا گیا


حساس جذبوں کی شاعرہ۔۔۔
ممتاز ملک 

کسی کے چھوڑ جانے کا دکھ بھی بڑا عجیب دُکھ ہے، دل کو اس حقیقت سے باور کروانا بے حد اذیت ناک  ہوتا ہے اور پھر یہی ناتواں دل عمر بھر انتظار کے کرب سے گزرتا ہے۔ کسی کے ہجر میں گزرنے والا اک اک لمحہ صدیوں کے برابر محسوس ہونے لگتا ہے، زندگی کی ریل کسی ویران سٹیشن پر رُک سی جاتی ہے، ہجر میں ایک ایک دن، ایک ایک پل انسان کے دل پر اسقدر بھاری گزرتا ہے کہ اندر سے اک درد بھری آواز آتی ہے :

ہاۓ وہ رات کتنی بھاری تھی
 جو ترے ہجر میں گزاری تھی

کہتے ہیں کہ وقت ہر دکھ کا مرہم ہوتا ہے، ہر روگ کا علاج ہوتا ہے، گہرے سے گہرے زخم کو بھی بھر دیتا ہے، وقت ہر تکلیف مٹا دیتا ہے لیکن ہجر کے ایام میں یہی وقت ناسور بن جاتا ہے، کٹتا ہی نہیں اور انسان کو اپنی تیز تیکھی کٹاری سے اندر ہی اندر کاٹ دیتا ہے:

فصل تیار تھی امیدوں کی 
وقت کے ہاتھ میں کٹاری تھی

ممتاز ملک حساس جذبوں کی شاعرہ ہیں، شاعری اترتی ہی حساس دلوں پر ہے اور پھر وہ ایک عورت کا حساس دل ہو تو  ہر ایک کیفیت چاہے وہ دکھ کی کیفیت ہو یا خوشی کی، انتظار کی کیفیت ہو یا بچھڑنے کی، رونے کی کیفیت ہو یا مسکرانے کی، محبت کی کیفیت ہو یا نفرت کی وہ دل ہر کیفیت کو ٹوٹ کر محسوس کرتا ہے۔
 ممتاز ملک کی شاعری کی طرح ان کے الفاظ بھی بہت حساس ہیں، وہ اپنے حساس اور اداسی میں ڈوبے خیالات کو اس طرح سادگی سے الفاظ میں ڈھالتی ہیں کہ شعر پڑھتے ہی دل میں اتر جاتا ہے :

کُھردری کُھرردی اُداسی ہے 
 مخملی مخملی خماری ہے

مضبوط سے مضبوط انسان بھی دکھ جھیلتے جھیلتے اک دن آخر تھک جاتا ہے، زندگی سے اس کا دل اُکتا جاتا ہے، وہ جابجا بھٹکتا ہے، اماں ڈھونڈتا ہے، سکوں ڈھونڈتا ہے، وہ دکھوں کا بوجھ اُٹھاۓ دربدر پھرتا ہے، کہیں کوٸی سہارا، کوٸی پیارا نہیں ملتا، کوٸی ایسا کاندھا نہیں ملتا جہاں وہ سر رکھ کر روۓ اور روتے روتے سو جاۓ بلآخر وہ آسمانوں کی طرف نم آنکھوں سے دیکھ کر، غم سے  بوجھل دل کے ساتھ پورے درد سے پکارتا ہے:

یوں تو دلدار ہے دنیا کی سجاوٹ مولا
 لوگ اخلاص میں کرتے ہیں ملاوٹ مولا
 ہو ترا حکم تو سُستا لیں گھڑی بھر کو کہیں
زندگی بھر کی اتر جاۓ تھکاوٹ مولا 

ممتاز ملک کی شاعری کا ایک ایک لفظ احساس میں گُندھا ہوا ہے، مصرعوں کی سادگی ہی ان کی شاعری کا حُسن ہے، ان کے ہاں ہر اس کیفیت کا بیان ہے جو ایک حساس دل محسوس کرتا ہے مگر کہہ نہیں سکتا:

گُھلی ہیں سِسکیاں ہر ایک لے میں
یہی اس گیت کا رنگِ طرب ہے

ممتاز ملک نے بِلا خوف خطر ہر وہ کیفیت اشعار میں پروٸی ہے جو ان کے حساس دل پر بیتی یا  محسوس کی، ان کی آہیں، سسکیاں، آنسو، کرب، اذیت ان کے اشعار میں واضح محسوس ہوتے ہیں، یہی ایک حساس شاعر کی نشانی ہے۔
ممتاز ملک صاحبہ کو ان کے اس شعری مجموعہ ”اور وہ چلا گیا“ کی اشاعت پر مبارکباد اور ڈھیر دعاٸیں

صغیر تبسم
(معروف پنجابی اور اردو شاعر)

بدھ، 31 جولائی، 2024

تبصرہ۔ ممتاز منور انڈیا۔ اور وہ چلا گیا


ممتاز شاعرہ ممتاز ملک

کرونا وبا کے دوران ایک مثبت بات یہ ہوئی کہ آن لائن مشاعروں کا دور شروع ہو گیا۔ دنیا بھر کے مختلف ممالک کے شعراء سے متعارف ہونےکا موقع ملا۔ انھیں میں سے ایک باوقار شخصیت ہیں ممتاز ملک ۔
جن کا تعلق پیرس سے ہے۔ حسین و جمیل، شگفتہ مزاج ,زندہ دل اور زندگی سے بھر پور۔ بہترین ناظمہ۔
 ان کی نظامت میں مشاعرہ پڑھنے   کا لطف ہی کچھ اور ہے۔ آپ  ادبی تنظیم "راہ ادب فرانس " کی بانی اور روح رواں ہیں۔ جس کے تحت آپ اردو اور پنجابی عالمی مشاعرے منعقد کرواتی رہتی ہیں۔ اپنی خوبصورت ادا سےاور دلفریب ترنم میں جب آپ اپنا کلام پیش کرتی ہیں تو سامعین مسحور ہو جاتے ہیں۔ جتنے خوبصورت  طریقے سے کلام کی ادائیگی ہوتی ہے اتنا ہی خوبصورت ان کا کلام ہوتا ہے۔ ان کا شعری مجموعہ"اور وہ چلا گیا" ابھی ابھی موصول ہوا۔ ممتاز صاحبہ کے حکم کی تعمیل میں اس کتاب کے تعلق سے  اپنے خیالات پیش خدمت ہیں۔
اس کتاب کو ادارۀ اردو سخن ڈاٹ کام نے شائع کیا ہے ۔ 200 صفحات پر مبنی اس کتاب کا انتساب بھی دلچسپ ہے۔ جس کو أپ نے "وطن عزیزکی فلاح و بہبود کے لۓ سوچنے والوں کے نام" کیا ہے۔ کیونکہ آپ خود بھی معاشرے کی فلاح و بہبود کے بارے میں نہ صرف سوچتی ہیں بلکہ اس میدان میں فعال بھی ہیں۔ جس کی جھلک  ان کے کلام میں بھی نظر أتی ہے ۔ وہ کہتی ہیں

ناچتی پھرتی ہے یہ نسل نو
کجھ تو ان میں فنون رہنے دو

یہ شعر بھی ملاحظہ کریں

گھر میں ہی انصاف کی پامالیاں ہونے لگیں
داغ سینے کے زمانے کو دکھانے پڑ گئے

ممتاز صاحبہ اج کے دور کی خاتون ہیں۔ تعلیم یافتہ، اپنا ذہن، اپنی راۓ رکھنے والی۔ اپنے وجود کی اہمیت جتانا خوب جانتی ہیں۔کہتی ہیں

چوڑیاں چھوڑ کے ہتھیار  اٹھایا میں نے 
نہ سمجھ تو اسے بیکار اٹھایا میں نے

 اسی طرح وہ اپنے أپ کو کسی سے کمتر نہیں سمجھتیں۔  بلکہ برابری کا درجہ چاہتی ہیں۔

تمہارے رنج و غم اپنے جگر میں پالتی ہوں
میں ہمدم ہوں محض اک شوق رکھوالی نہیں ہوں

کہیں کہیں ان کی شاعری میں زمانے سے شکایت کا رنگ بھی نظر آتا ہے۔ وہ کہتی ہیں

یہ مطلب پرستوں کی دنیا ہے پیارے
یہاں زندگی کون ہنس کے گزارے
یہاں پر خوشی میں تو ہنستے ہیں سارے
مگرساتھ روتے نہیں ہیں ہمارے

انہیں اپنے دوستوں سے بھی گلہ ہے کہ

اپنے ہی رلاتے ہیں اپنے ہی ستاتے ہیں
غیروں میں کہاں دم تھا کہ آنکھ کو نم کرتے

 آج کل کے حالات پر بھی وہ گہری نظر رکھتی ہیں اورفرماتی ہیں

ہے تم پر فرض پہلا،  پرورش اچھی کرو ان کی
جنم دیتے ہی جن کو تم ، لگاتے ہو کمانے بر

ان شکوے شکایات کے باوجود آپ نہایت پر امید ہیں

جہاں کوئی نیا أباد کر لیں
یہ دنیااب پرانی ہو گئی ہے

 اور یہ بھی ملاحظہ کریں

رات کے بعد ممتاز دن آئیگا 
سوچ نہ دن کے آگے محض رات ہے

آپکی شاعری کی خصوصیت یہ ہے کہ اس کو پڑھنے کے بعد قاری کے ذہن پر ایک مثبت تاثر چھا جاتا ہے ۔ شاعر کا کمال ہی یہی ہے کہ وہ اپنے قاری کی سوچ کوصحیح اور مثبت سمت دے ۔
اس کتاب کی اشاعت پر میں ممتاز صاحبہ کو دلی مبارک باد پیش کرتی ہوں اور دعا گو ہوں

اللہ کرے زور قلم اور زیادہ
 ڈاکٹر ممتاز منور
صدر
انجمن ترقی اردو( ہند)
پونے. . . .  انڈیا
                 ۔۔۔۔۔۔۔

اتوار، 28 جولائی، 2024

* تبصرہ ۔ رشید شیخ ۔ اور وہ چلا گیا




کیا شاعرہ، کیا ناظمہ!

محترمہ ممتاز ملک اردو ادب کے افق پر وہ درخشندہ ستارہ ہیں جس نے عالمی آن لائن مشاعروں میں نظامت کے جوہر دکھا کر عالمی شہرت کی بلندیوں کو  چھو لیا ہے۔
عالمی آن لائن مشاعروں کا سلسلہ COVID-19 کے زمانہ میں شروع ہوا ۔ کیونکہ اس زمانے میں ہر ملک میں اجتماعات منعقد کرنے پر پابندی عائد کر دی گئی تھی۔ ظاہر ہے زمینی مشاعروں کا سلسلہ بھی منقطع ہوگیا ۔البتہ اسکا ایک بڑا فائدہ یہ ہوا کہ اردو کے متوالوں نے آن لائن مشاعروں کی سبیل ڈھونڈ نکالی جس کے ذریعہ
نہ صرف عالمی سطح پر ایک دوسرے سے تعارف ہونا شروع ہوا بلکہ اردو شاعری کو بھی ترسیل و ترویج اور مقبولیت حاصل ہوئی ۔
اسی زمانے سے گلوبل رائیٹر ایسوسی ایشن، اٹلی، بزم سخن شکاگو، اور دائرہ ادب نیویارک وغیرہ شعر و سخن کے اس میدان میں بہت سر گرم عمل ہیں۔
گلوبل رائیٹر ایسوسی ایشن اٹلی کے ایک عالمی آن لائن مشاعرہ میں نظامت کے فرائض انجام دیتے ہوئے محترمہ ممتاز ملک سے تعارف حاصل ہوا اور بہت محظوظ و متاثر ہوا۔  آپ غضب کی نظامت فرما تی  ہیں ۔ اللہ کرے زور نظامت اور زیادہ!
یہی نہیں بلکہ یہ بھی پتہ چلا کہ آپ شاعری بھی فرماتی ہیں اور بہت عمدہ  شاعرہ ہیں جب انہوں نے مشاعرہ کے دوران اپنے کلام سے محظوظ کیا۔یہ خوبصورت لہن میں سلاست و روانی کے ساتھ دل موہ لینے والی شاعری ہے۔واہ! واہ! واہ! انکا نظامت کے دوران چٹکلے اور خوش گپیاں کرنا مشاعرہ میں جو شگفتگی پیدا کرتا ہے اس سے کوئی بھی محظوظ ہونے بغیر نہیں رہ سکتا۔ ہرشاعروشاعرہ کو پر وقار طریقہ سے مختصر تعارف کے ساتھ دعوت کلام دینا انکی نظامت کی فنی صلاحیت کا آئینہ دار ہے۔ اسی طرح وہ مشاعرہ کو اختتام تک چا بکدستی سے دلچسپ اورپرامن رکھتی ہیں۔
حال ہی میں انکا ایک مجموعہ کلام بعنوان" اور وہ چلا گیا" اشاعت کے لئے پرتول رہا ہے۔ جس کے لئے محترمہ نے مجھے بھی اظہار  خیال کا موقع مرحمت فرمایا ہے۔ من آنم کہ چہ دانم! تاہم مجموعہ کلام کا بنظر غائر مطالعہ کرنے سے لگا کہ واقعی ایں گل گلاب است!
اپنی نوعیت کا منفرد کلام ہےجو سماج کے ہر طبقہ فکر کی عکاسی کرتا ہے ۔
 یہ مجموعہ کلام نوے منظومات پر مشتمل ہے۔ ہر نظم باقاعدہ ایک عنوان کے تحت لکھی گئی ہے۔ جو تفصیلا اس عنوان کی پیروی کرتا نظر آتا ہے۔ ذیل میں چند  نظمیں بمعہ عنوان اور منتخبہ اشعار کے ملاحظہ فرمائیں:-
پتھر کا شہر: 
اب کوئی دھوپ نہ پگھلائے گی پندار میرا
میں نے اک چاند کو جو اپنے سر پر تان لیا

اس نے سونے کو بھی صحرائوں میں رولا جاکر
ہم نے بھی ریت سے سونے کو مگر  چھان لیا

ایک اور نظم عنوان" جاری ہم پہ"
ہے فسوں اس کا بڑی دیر سے طاری ہم پہ 
حکم الطاف ہوا کرتا ہے جاری ہم پہ 
 بخت والوں کو ملا کرتا ہے آب شیریں
میٹھے چشموں کا بھی پانی ہوا کھارا ہم پہ

نظم " ساتھ نبھانے والے"
اب کہاں ملتے ہیں وہ ساتھ  نبھانے والے 
میرے ہاتھوں میں چھپے راز بتانے والے
ہم تو ممتاز سمجھتے ہیں اسی کو ہیرو
ڈوبنے والے کو ہر طور بچانے والے

اسی طرح اور بہت سی نظمیں ہیں جو دلچسپی سے خالی نہیں ۔ مثلاً دیئے بجھنے لگے، میرے بغیر، غضب داستان، جاں بلب، جلتےہیں، سرکار وطن میں ،
ڈھم ڈھما ڈھم، وغیرہ وغیرہ 
جہاں تک فنی تقاضوں کامعاملہ ہے۔ آپکا کلام علم عروض سے آراستہ ہے۔ اور تمام منظومات غزل کے پیرائے میں لکھی گئی ہیں۔ یعنی ہر شعر ہم قافیہ اور ہم ردیف ہے۔ اس طرح غزل گوئی کے فن کو نظم کے رنگ میں سمویا گیا ہے۔جو ایک دلچسپ انداز لگتا ہے۔
اللہ کرے زورِ قلم اور زیادہ ۔ توقع کرتا ہوں کہ محترمہ ممتاز ملک صاحبہ کے مجموعہ کلام " اور وہ  چلا گیا" کو ادبی حلقوں میں خوب پذیرائی حاصل ہوگی۔
رشید شیخ شکاگو ، 
صدر بزم سخن شکاگو

ہفتہ، 27 جولائی، 2024

& چوزہ۔ افسانہ۔ قطرہ قطرہ زندگی

چوزہ
افسانہ:
 (ممتازملک ۔پیرس)

تپتی ہوئی دوپہر میں وہ چھوٹی سی بچی جس کی عمر بمشکل سات یا آٹھ برس ہوگی، 
چھت کے گرم فرش پر خود کو بچاتے ہوئے ننگے پیر بھاگ رہی ننگے تھی۔ 
اس کا باپ ہاتھ میں پانی بھرنے کا پلاسٹک کا پائپ لیئے اسے تاک تاک کر نشانے پر پیٹ رہا تھا۔
ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے ایک جلاد کی روح اس میں سرایت کئے ہوئے تھی۔ پڑوسی وقفے وقفے سے بچی کے رونے کے شور پر اپنی دیواروں سے جھانک جھانک کر چھپ جاتے۔
یہ آج محلے میں سب سے مذیدار خبر بننے جا رہی تھی اس لیئے سبھی اس کا بھرپور مزہ لے رہے تھے۔
کسی ایک کو بھی اس بچی کی تکلیف نہ دکھائی دی نہ سنائی دی۔
سب نے اپنے کان اور آنکھیں شاید اپنے ہاتھوں پھوڑ رکھی تھیں ۔ 
وہ بچی جو بار بار روتے اور پٹتے ہوئے چلا رہی تھی اس امید سے کسی بھی جھانکتے ہوئے کو سر اٹھا کر فریاد بھری نظروں سے دیکھتی کہ کوئی تو اسے اس قصائی سے بچا لے
 لیکن افسوس ۔۔۔
 تماش بینوں میں کوئی بھی انسان نہیں تھا ۔ 
اس کے جسم پر پائپ کے نیل بڑھتے چلے جا رہے تھے۔ 
دیکھنے والوں میں کوئی نہیں مان سکتا تھا کہ یہ بچی اس جلاد کی اپنی بچی  ہے۔
اسی چھت پر اپنے ڈربے سے باہر گھومتے چھوٹے چھوٹے کمزور سے چوزے بھی بھاگ رہے تھے جو یہ تماشہ دیکھ کر حیران تھے ۔
 اس باپ کو یہ خیال تک نہیں تھا کہ یہاں یہ چھوٹے چھوٹے چوزے بے زبان جانور بھی اسے دیکھ رہے ہیں۔ یہ اسکے ڈر سے بھاگ رہے ہیں بلکہ وہ اپنی نشانے سادھے جا  رہا تھا، 
لیکن وہ بچی دھوپ میں جلتے فرش پر پیر یہ سوچ کر  رکھ رہی تھی کہ کوئی چوزہ اس کے پاؤں کے نیچے نہ آ جائے۔
 ابو جی مجھے معاف کر دو۔ 
پتہ نہیں وہ ننھے ننھے ہاتھ باندھے کس جرم کی معافی مانگ رہی تھی۔
 دائیں بائیں گھروں میں سے کوئی نہ کوئی چھت پر سے جھانک کر اس تماشے کو انجوائے کر رہا تھا،
اسے روک کر کوئی بھی اس ظالم کی قہر کا شکار ہونے کو تیار نہیں تھا۔ 
 لیکن پھر وہی ہوا جس سے وہ بچی بچنا چاہتی تھی ایک طرف باپ شکاری، پلاسٹک کے موٹے پائپ سے اسے پیٹے جا رہا تھا،
 اور ایک طرف وہ معصوم چوزوں کو بچانے کے لیئے اپنے پاؤں سہج سہج کر آگے بڑھا کر خود کو بھی بچانا چاہتی تھی اور ان چوزوں کو بھی،
 لیکن ایک معصوم سا چوزا اس کے پیروں کے نیچے آ ہی گیا۔
 اس نے اپنی آنکھوں سے مڑ کر دیکھا تو اس معصوم سے چوزے کی انتڑیاں باہر آ چکی تھیں۔
 وہ اپنے درد کو بھول کر اس چوزے کے درد میں اور زور سے رونے لگی۔ 
وہ خود کو قاتل سمجھنے لگی۔
یہ قتل بھی اس کے باپ نے اسی کے حساب میں لکھ دیا ۔ اس کے موت کے جرم میں اسے مزید کتنی دیر تک اپنی کھال ادھڑوانی پڑی۔
اس کے معصوم سے دل میں اس چوزے کی قبر بن گئی۔
 اس روز وہ چوزہ نہیں مرا بلکہ اس کے دل سے اس کے باپ کی محبت کا جنازہ بھی نکل گیا۔
                   -----

شاعری / /مدت ہوئ عورت ہوۓ/ ممتاز قلم / سچ تو یہ ہے/ اے شہہ محترم/ سراب دنیا/ نظمیں/ پنجابی کلام/