پھر اس نے اپنا دھیان رکھنا چھوڑ دیا. خاموشی کی موٹی چادر اوڑھ لی.اس نے خود کو ایک گونگی مشین بنا لیا. اپنی زندگی سے نہ کا لفظ کھرج کر پھینک دیا.
اس نے اپنے ہر انسانی جذبے اور احساس کی نفی کرنے کی ٹھان لی.
سب کی پلیٹوں سے بچے دوچار لقمے اسکی خوراک بن گئے. نیا کپڑا اس نے خود پر حرام کر لیا.
کسی ہنسی کی بات پر اس کے کان بہرے ہو جاتے.
یہ سزا دی اس نے خود کو ناصح جیسے بےفیض اور بیوفا شخص سے محبت کرنے کی دی . اس جیسے بے قدر اور گھٹیا کردار سے وفاداری نبھانے اور اپنی پاکیزہ محبت کی تذلیل کی..
اس روز وہ دربار پر سلام سے واپسی پر اپنا نام مانوس آواز میں سنکر چونک گئی۔
اس نے مڑ کر دیکھا
اسکا خالہ زاد روف اسے حیرت سے تک رہا تھا۔
روف۔۔۔۔
اس کے منہ سے بے اختیار نکلا
تم یہاں ۔۔
ہاں میں اپنے کام سے یہاں ایک دفتر میں آیا تھا ۔ سوچا دربار پر سلام کر لوں ۔ لیکن تمہیں کیا ہوا؟
تمہیں تو میں پہچان ہی نہیں پایا اندازے سے ہی تمہیں آواز دی تھی ۔
اس کی آنکھیں تھیں یا خشک گہرا کنواں.
وہ اس میں زیادہ دیر جھانک بھی نہ سکا. .
آج پورے پانچ سال بعد وہ اپنی خالہ زاد کو دیکھ رہا تھا ۔
جس کا نام تک گھر والے بھول چکے تھے۔
اس کی حالت دیکھ کر دل صدمے سے چور ہو گیا۔
یہ تم نے اپنی کیا حالت بنا رکھی ہے جس کے ساتھ آئی تھی جب اسے میری پرواہ نہیں تو میں اپنی حالت کی کیا پرواہ کروں گی۔ کس کے لیئے جیئوں۔
اس نے اپنا سارا قصہ کھول کر بیان کر دیا ۔
وقوف لڑکی تمہارے شوہر نے تمہارے ساتھ دشمنی کی۔ بے وفائی کی اور اس کا بدلہ اس سے لینے کے بجائے تم نے اپنے آپ سے لیا۔ خود کو تباہ کر لیا۔ برباد کر لیا بے۔
بیوقوف لڑکی اس بدبخت کو اس سے کیا فرق پڑے گا وہ جگہ جگہ منہ مارتا پھرتا ہے اور تم یوں ماتم کر سجائے بیٹھی ہو ۔
اسے ایسی سزا دو کہ وہ ہی نہیں اس جیسے اور کم ظرف بھی یاد رکھیں۔جہاں سے گزرے تمہارا نام لے کر اپنا گناہ تسلیم کرے۔
کیسے۔۔ کیسے میں یہ سب کر سکتی ہوں ۔
میں کیا کر سکتی ہوں۔ میں نے تو اپنے گھر والے اپنے بہن بھائی سب کو اپنے خلاف کر لیا اس سے ایک بے وقعت انسان کے لیئے۔
وہ مایوسی سے آنسو پونچھتے ہوئے بولی
کر سکتی ہو۔ کیوں نہیں کر سکتی تمہاری شادی کا فیصلہ تمہارا حق تھا ٹھیک ہے انسان سے غلطی ہوتی ہے۔ تمہارا چناؤ بھی اچھا ثابت نہیں ہوا۔ تمہارے نصیب کی چوٹ بن گیا ۔ لیکن اب اگر وہ دشمنی پہ اترا ہے تو اسے بہترین دشمنی کر کے دکھاؤ تاکہ اور بھی دیکھنے والوں کو عبرت ہو وہ کیسے؟
اس نے حیرت سے اسے دیکھا
ایک بات یاد رکھو دشمن کو چوٹ پہنچانی ہو تو خود کو دکھی کر کے نہیں۔ اس سے تو دشمن خوش ہوتا ہے اسے چوٹ پہنچانی ہے تو خود خوش رہ کر کامیاب ہو کر پہنچاو۔
کہتے ہیں نا کہ دشمن کے کلیجے پر مونگ دلنی ہے تو خوش رہو اور کامیاب رہ کر دکھاؤ
تو میں کیا کروں میرا خوش ہونے کو جی نہیں چاہتا۔
تو اس جی کو انسان کا بچہ بناؤ نا۔ اس جی نے تو تمہیں اس حالت تک پہنچایا ہے۔
اس نے اسے ڈانٹتے ہوئے کہا۔
اس کے ساتھ رہنا چاہتی ہو تو اپنی شرطوں پر رہو۔
نہیں رہنا چاہتی ہو تو بھی اپنی شرطوں پہ اسے چھوڑو۔
میں کہاں جاؤں گی؟
کیا مطلب میں کہاں جاؤں؟
دنیا ایک آدمی پر ختم تو نہیں ہو جاتی ۔ جیسے وہ دوسری عورتیں لا کر یہاں پر غلط کام کر سکتا ہے تو تم کیا جائز کام نہیں کر سکتی۔
چھوڑ دو اسے۔ کسی اچھے انسان کا ہاتھ تھامو جو تمہیں عزت دے۔ محبت اور خلوص کے ساتھ تمہارے ساتھ زندگی گزارے۔
ایسے گندے آدمی کی زندگی سے نکل کر کون مجھے اپنائے گا ۔
میرے تو گھر والے بھی مجھے دیکھنا پسند نہیں کریں گے۔
ارے تم جاؤ تو سہی۔ تمہارت اپنے ہیں۔ زیادہ سے زیادہ برا بھلا کہیں گے۔ زیادہ سے زیادہ کوس لیں گے تمہیں۔۔ اور کیا کہیں گے اس سے زیادہ ۔
والدین کے گھروں کے دروازے ایسے بند نہیں ہوا کرتے اور دل کا دروازہ تو کبھی بند نہیں ہوتا ۔
ایک معافی سے تو خدا بھی راضی ہو جاتا ہے تو کیا وہ راضی نہیں ہوں گے۔ جاؤ انہیں پھر سے اپنا لو۔
اپنی زندگی کو نئے سرے سے شروع کرو
اس کی باتیں اس کے دل پر مرہم کا سا اثر کر رہی تھیں ۔
اس نے سوچا
واقعی شیشے میں دیکھا میں نے پانچ سال میں خود کو 50 سال کا کر لیا اور وہ ہٹا کٹا منہ پر لالیاں بکھیرے ہر روز ایک نئی لڑکی کو پھانس کر لاتا ہے۔
اسے کیا فرق پڑا پانچ سال کا میرا صبر اس کو نظر ہی نہیں آیا۔
میں مفت کی نوکرانی ہوں اس کے لیئے ۔
میں ہوں کیا ؟
روف کی باتوں نے اسے جینے کی ایک نئی راہ دکھائی ۔
اس نے خود کو آئینے میں دیکھا۔ اپنے رویے پر غور کیا اور پھر ایک فیصلہ کر لیا ۔
اپنے دو جوڑے بیگ میں رکھے۔ ایک مختصر سا خط ناصح کے نام لکھا کہ بس اب میں اور تم اجنبی ہیں۔ چاہو تو عدالت چلے جاؤ ۔ چاہو تو عزت سے اس معاملے کو یہیں ختم کر دو ۔ مجھے طلاق دیدو ۔
اب میں تمہیں ہر جگہ تمہارے مقابلے پر کھڑی دکھائی دوں گی۔
وہ خط پڑھکر حیران ہو گیا
یہ نیا سبق کس نے پڑھایا ہے ۔ یہ راستہ کس نے دکھایا۔۔ یہ اتنی بہادر کب سے ہو گئی؟ کس سے ملتی ہے؟ کون آتا ہے اور یوں وہ عورت جو کل تک عزت کا لفظ بھول چکی تھی آج اس کے سامنے کیسے کھڑی ہو سکتی ہے۔
سامیہ نے اپنے والدین سے مل کر معافی تلافی کی۔
اس آدمی کو چھوڑنے کا فیصلہ کیا۔ سب نے اس کی بات کی حمایت کی جو پہلے سے اسے پسند نہیں کرتے تھے۔
لیکن محبت کی پٹی انکھوں سے اتر چکی تھی اور اب وہ خود یہ فیصلہ کرنا چاہتی تھی۔ جس بوجھ کو سر سے اتار پھینکے ۔
اناصح کو اندازہ ہو چکا تھا کہ عدالت میں رل کے صرف وہ اپنا پیسہ ہر وقت ہی برباد کرے گا۔
اس نے کوشش کی کہ کسی طرح اسے واپس بلا سکے لیکن اب وہ ٹھان چکی تھی کہ پانی بہت بہہ چکا ان پلوں کے نیچے سے۔
سو اس نے طلاق نامہ اسے بھجوا دیا یوں یہ بھاری پتھر بھی اس کے کلیجے سے اتر گیا۔
اس کی ماں نے اس کی ہمت بندھائی۔ زندگی کی طرف واپس آنے میں ، گھر والوں کی عزت اور محبت نے اہم کردار ادا کیا ۔
سانس لینے کا حوصلہ ہوا اس کی خوراک کا خیال رکھا گیا۔ صحت کچھ بہتر ہوئی۔ دل کو حوصلہ ملا تو پھر سے پرانی سامیہ دنیا کو دکھائی دینے لگی۔
اس نے گھر کے نزدیک ایک فیکٹری میں کپڑوں کی کٹنگ کا کام سیکھنا شروع کیا ۔ سال بھر کا کورس کرنے کے بعد اب وہ بہترین انداز میں اپنا کام کر رہی تھی۔
اسکی پہلی تنخواہ جو اسکے ہاتھ پر ائی تو اسے لگا وہ پھر سے جی اٹھی۔ یہ اس کی کمائی تھی۔
اس کی حق حلال کی کمائی۔ اس میں سے کچھ خرچ کرنے کے لیئے اسے کسی سے پوچھنے کی ضرورت نہیں تھی۔
وہ اب کسی کی بھیک نہیں کھائے گی ۔
اس نے اس پیسے کا ایک حصہ اپنی ماں کے ہاتھ پہ رکھا ۔
ماں نے اسے دیکھا
یہ کیا یہ میرے حصے کا خرچ ہے جو آپ اس گھر کے خرچ میں ڈالیں۔
لیکن بیٹا ہم تو تم سے نہیں مانگ رہے ۔
آپ نہ بھی مانگیں ہر انسان کو اپنی زندگی کا بوجھ خود اٹھانا چاہئیے۔ میں جو کچھ کر چکی ہوں اس میں اپنی زندگی کے پانچ سال گنوا دیئے ۔
یہ سمجھنے کے لیے کہ پہلے مجھے معاشی طور پر اپنے پیروں پر کھڑے ہونا چاہیئے تھا۔
کچھ کمانا چاہیئے تھا۔
کمانے والی عورت بات کرنے کی ہمت بھی رکھتی ہے اور فیصلہ کرنے کا حوصلہ بھی رکھتی ہے۔
کیونکہ وہ جانتی ہے کہ اس کا رشتہ سامنے والے کے ساتھ دو روٹی کا نہیں بلکہ عزت کا ہے اور اسے عزت ملتی بھی ہے ۔
میں یہاں آپ کے ساتھ رہوں گی لیکن آپ کو میرے حصے کا خرچ مجھ سے خاموشی سے لینا ہوگا۔
ماں نے کچھ سوچا مسکرا کر وہ پیسے رکھ لیئے ۔
وہ زندگی کی ڈگر پر رواں دواں ہو چکی تھی۔
کہ روف اپنی ماں کے ساتھ ان کے گھر کچھ دنوں کے لیے ٹھہرنے کو آیا۔ سامیہ نے اس کا شکریہ ادا کیا تمہاری وجہ سے میں اس دلدل سے نکل سکی ورنہ شاید اور سال بھر میں مٹی کے ساتھ مٹی ہو چکی ہوتی۔
تمہارا شکریہ
شکریہ کی کوئی بات نہیں ۔
تمہیں تکلیف میں دیکھا تو میرا فرض تھا کہ تمہیں حوصلہ دیتا۔
تم مجھے پہلے بھی اچھی لگتی تھی اور اب بھی۔
ایک غلط فیصلے سے کسی کی زندگی ختم نہیں ہو جاتی یا اس کی سوچنے سمجھنے کی صلاحیتیں ختم نہیں ہو جاتیں۔ میں اماں کو اسی لئیے ساتھ لایا ہوں۔
اگر تمہاری رضامندی ہو تو میں تم سے شادی کرنا چاہتا ہوں۔
اگر تم ہاں کرو گی تب ہی میں امی کو خالہ سے بات کرنے کے لیے کہوں گا میں دو چار دن کے لیئے اپنے کام کے علاوہ اس کام سے بھی تمہارے شہر میں آیا ہوں۔
سوچا قسمت آزما لی جائے۔
سامیہ نے اسے بے یقینی سے دیکھتے ہوئے پوچھا
کیا تم سنجیدہ ہو۔
سو فیصد۔ اس میں غیر سنجیدہ ہونے کی کیا بات ہے؟
تم جانتے ہو میری طلاق ہو چکی ہے۔ پھر تمہاری امی اس رشتے کے لیئے کیسے راضی ہوں گی؟
وہ اس رشتے کے لیے تیار ہیں۔ وہ تمہیں پہلے بھی پسند کرتی تھی اور اب بھی تم سے بہت محبت کرتی ہیں۔ لیکن اس سے پہلے ہی تم نے جا کر شادی کر لی۔
ہم شاید تھوڑا لیٹ ہو گئے۔
قسمت کو یہی منظور تھا کہ ہم اس طرح ملیں تو ہم اپنی اگلی زندگی کو بہت اچھا بنا سکتے ہیں ۔
دیکھو روف میں نے جو حالات دیکھے ہیں ۔میرا زندگی پر اعتبار اور اس شادی کے رشتے پر بہت ہی کمزور ہو گیا ہے۔
میں زندگی میں اب گھر بیٹھ کر ایک مفلوج زندگی نہیں گزار سکتی ۔
جھاڑو پونچھا کرنے والی ماسی کی زندگی نہیں گزار سکتی۔ میں گھر سے باہر اپنی مرضی سے جب تک چاہوں گی کام کروں گی اور جب دل نہیں کرے گا نہیں کروں گی ۔ میری تنخواہ میری مرضی میں جہاں چاہوں وہ خرچ کروں گی۔
تم اپنا گھر اپنی تنخواہ پر چلا سکتے ہو ؟
میری جائز ضرورتوں کو پورا کر سکتے ہو ؟
مجھے سانس لینے کا، فیصلہ کرنے کا اختیار دے سکتے ہو، مجھ سے وفادار رہ سکتے ہو، تو ٹھیک ہے مجھے تم سے شادی کرنے پر کوئی اعتراض نہیں۔
روف نے مسکرا کر اسے دیکھا اور بولا جناب اعلی فکر مند کیجیئے۔
میں آپ سے یہی توقع کر رہا تھا اور اگر آپ یہ سب نہ کہتیں تو پھر شاید میں کچھ اور سوچتا۔۔
اس نے مسکرا کر دیکھا اور گھر سے باہر نکل گیا
کہاں جا رہے ہو
سامیہ نے اسے آواز دی
وہ مسکراتے ہوئے بولا
بھئی مٹھائی تو لے آوں ۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔