ممتازملک ۔ پیرس

ممتازملک ۔ پیرس
تصانیف : ممتازملک

جمعہ، 24 فروری، 2023

@ انتساب ۔ او جھلیا



انتساب / او جھلیا

تہاڈے ہتھ وچ ایہہ میرا پنجابی زبان وچ پہلا کویتاواں دا مجموعہ  اے۔ ایس توں پہلاں میریاں 6 کتاباں تہاڈے تک اپڑ چکیاں نیں ۔ جیڑیاں سبھے اردو کویتاواں تے لیکھا دیاں سن ۔ ایہہ کل ملا کے میری ستویں پستک اے۔ پر پنجابی زبان وچ ایہہ میری پہلی کتاب اے۔  میری پنجابی بہتی گوڑھی تے کلاسیک تے بالکل نہیں اے، پر ایس زبان دے وچ میری اپنی ماں بولی دے نال میری  باقاعدہ جڑت اے۔ ایس کتاب دا انتساب انہاں سبھے قوی تے لکھاریاں دے ناویں لانی آں ۔ جنہاں نے ایس زبان نوں زندہ رکھن لئی  اپنی جند لا چھڈی اے۔۔جیڑھیاں قوماں اپنی زبان تے ماں بولی دی قدر نہیں کردیاں ، تے ایس دی بڑھوتری لئی کم نہیں کردیاں، تے زبان وی انہاں تو رس کے ویلے دے ہنیریاں وچ گواچ جاندی اے۔ 
میری دعا اے کہ ایس مٹھی تے سچی زبان پنجابی نوں رب سدا جیوندہ رکھے۔ تے ترقیاں دوے ۔
 آمین 
ممتازملک
پیرس ۔ فرانس
MumtazMalikParis.Com
MumtazMalikParis.BlogSpot.Com
میرا کم 
 ریختہ ، گوگل، یوٹیوب، انسٹا، فیس بک، ٹک ٹاک
 تے ویکھیا جا سکدا اے۔
                    _______


بدھ، 15 فروری، 2023

@ پتر کر تباہ / پنجابی کلام۔ او جھلیا


پتر کر تباہ


ماواں تی تی سال دے لاڈاں، پتر کر تباہ دیندیاں نیں 
باقی عمرے سب الزام او ،نوہ دے سرتے پا  دیندیاں نیں

برقیاں منہ وچ رکھ کے اونہوں، اٹھ کے پانی پین نہیں دیندیاں
کوئی جے کر سمجھاوے تے ،اونوں اگوں جین نہیں دیندیاں 
گھر وچ پا کھلارے ہر دم، اتھرا بن کے پھردا رہندا
عشق چہ پتر دے اے سب دے، سروں پیروں لا دیندیاں نیں
باقی عمرے سب الزام او، نوہ دے سرتے پا دیندیاں نیں۔۔۔۔

ذمہ داری پیو جے پاوے٫ پتر دے سر پان نہیں دیندیاں
اونہوں چوپڑیاں کھوان دی خاطر، دھی نوں سکیاں کھان نہیں دیندیاں
پتر دے سر وار کے اکثر، دھیاں صدقے وچ دیندیاں نیں
پتر دے ہر لاڈ کھڈاون، دھی دے مار او چاہ دیندیاں نیں
باقی عمرے سب الزام او، نوہ دے سرتے پا دیندیاں۔۔۔۔۔

ایخو جیہے پتراں ہتھوں ، اک دن ماواں رل جاندیاں نیں
اوہدی صورت اکھی لے کے ٫باقی ہر شے بھل جاندیاں نیں 
ویچ کے گھر در موہ پتر وچ٫ لاوارث اکھوا جاندیاں نیں
ممتاز ایہہ چپ چپیتے اوہدی، یاد چہ اپنے ساہ دیندیاں نیں 
باقی عمرے سب الزام او، نوہ دے سرتے پا دیندیاں۔۔۔۔۔
           
                 🌚🌚🌚۔                     





جمعرات، 2 فروری، 2023

جی نہ بہہ سکا۔ کوٹیشنز ۔چھوٹی چھوٹی باتیں


سوال : جو انسو آنکھ سے بہہ نہیں پاتا وہ کدھر جاتا ہے؟
جواب:
جو نہ بہہ سکا تو وہ تھم گیا ۔ اور جو تھم گیا وہ تو  جم گیا ۔ کہ وہ آنسو بہہ جاتا تو شاید مٹی میں مل کر فنا ہو جاتا لیکن جم کر وہ انسو ظالم کے لیئے بددعا بن گیا اک سزا بن گیا ۔ وہ آہ بن گیا۔ جس نے عرش ہلا دیا اور وہ مظلوم بن گیا جس نے  رب کعبہ کو رحمن سے جبار بنا دیا ۔ اور ظالم کی سزا کا اعلان کروا دیا وہ سزا جواب کبھی نہیں ٹل سکتی ۔ جبھی کہتے ہیں اس نہ بہنے والے اشک سے ڈرو کہ یہ بہہ کر رلتا نہیں، نہ بہہ کر رول دیا ہے ۔
        (چھوٹی چھوٹی باتیں) 
              (ممتازملک۔پیرس)

بدھ، 1 فروری، 2023

صحافت کے 75 سال/ مقالہ

اردو صحافت کے 75 سال
   مقالہ:
  (ممتازملک۔پیرس)                 
               فرانس)

پاکستان دنیا کے ان ممالک میں شامل ہے جس کی تخلیق اور ارتقاء میں صحافت اور رپورٹنگ کو قطعا نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ۔ معاملات مذہبی ہوں دینی ہوں یا پھر سیاسی ۔ ہر ایک رپورٹنگ کے مرہون منت رہا ہے ۔ یہ اور بات ہے کہ اس میں اچھی اور بری رپورٹنگ یا یوں کہہ لیں کہ سچی اور جھوٹی رپورٹنگ نے بھی اپنا کمال خوب دکھایا ہے ۔ جہاں یہ کہا جائے کہ پاکستان کی تخلیق  بہترین رپورٹنگ  اور صحافت کے مرہون منت  ہے تو بے جا نہ ہوگا۔ وہیں اگر آج یہ کہا جائے  کہ پاکستان کی تباہی  اور بربادی کی ذمہ دار بھی  آج کی بدترین رپورٹنگ اور صحافت  ہے تو بھی بے جا نہ ہوگا۔
صحافت کے لیے جواں مردی اولوالعزمی اور بلند حوصلگی نمایاں شرائط ہیں۔ دبو اور ڈرپوک لوگوں کا صحافت کے میدان  میں نہ تو کوئی مرتبہ ہے اور نہ ہی  کوئی مقام لیکن تباہ کن  کردار ضرور موجود ہے ۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ آج کی اردو صحافت  محض خوشامد پرستی، سیاست بازی  اور سستی شہرت پر مشتمل ہے۔   آج کی صحافت  میں پیسہ  پیسہ پیسہ کا راگ پوری شدت کے ساتھ الاپا جارہا ہے۔ آج مشہور و معروف صحافیوں کے اثاثے اس بات کے گواہ ہیں کہ حق گوئی  اور صداقت کا اس وقت کی اردو صحافت سے کوئی لینا دینا نہیں رہا ۔ جس کا پلڑا بھاری دیکھا صحافت اور صحافی  دونوں  اس کے گھر کی باندی بن گئی ۔ 
آج کے اخبارات  اور میڈیا مالکان  نے ان میڈیمز  کو دکان بنا کر رکھ دیا ہے۔ آج کی صحافت کا لوگوں کی زندگیوں پر پر پڑنے والا اثر کہیں  نہایت شرمناک  ہے تو کہیں فسادی۔ آج جسے اپنے کاروباری روابط  بڑھانے ہیں۔ بڑے بڑے خاندانوں کے ساتھ سیاست ،حیثیت اور اختیار کا مقابلہ کرنا  ہے وہ اخبارات  اور ٹی وی کا کاروبار شروع کر دیتا ہے۔  اسے قوم کے مفادات سے ، قوم کی بھلائی اور بہتری کے کاموں سے کوئی غرض  نہیں جس کے لیے  اردو اخبارات  کی بنیاد رکھی گئی تھی۔
جسکو سمجھنے کے لیئے تھوڑا سا تاریخی حوالہ دینا بیحد ضروری ہے۔ 
اردو زبان میں شائع ہونے والا پہلا اخبار ’جامِ جہاں نما‘ تھا جس کے بانی ہری ہر دت تھے اور انھوں نے اس اخبار کو 1822 میں کلکتہ سے شائع کیا۔ انگریزی اور بنگالی زبان کے بعد یہ اخبار ہندوستان میں کسی تیسری زبان میں شائع ہونے والا پہلا اخبار تھا۔ یہ 1888 تک شائع ہوتا رہا۔
اردو صحافت کے آغاز سے متعلق کئی متضاد دعوے کیے گئے ہیں۔ اکثر نے مولوی محمد باقر دہلوی کے سر اس کا سہرا باندھا ہے جو تحریک آزادی کے لیے شہید ہونے والے 77 سالہ بزرگ  پہلے  صحافی تھے جنہیں انگریزوں نے 16 ستمبر 1857کو تحریک آزادی کی سچی اور بیباک رپورٹنگ کے جرم میں  توپ سے باندھ کر اُڑا دیا تھا۔ یاد رہے کہ مولوی محمد باقر کا اردو اخبار " اخبار دہلی" کے نام  سے 1836سے 1857ء تک جاری رہا۔ یوں انہیں پہلا شہید صحافت کہا جا سکتا ہے۔
اب ہم پاکستان سے باہر یورپ میں اردو صحافت پر نظر ڈالتے ہیں تو اس وقت تک عام طور پر فرانس میں ہونے والی اردو صحافت خصوصا اور پاکستان میں عموما 40 ٪ رپورٹنگ پر مبنی ہے جبکہ 5٪ معلومات پر 3٪ تعلیم و تربیت پر جبکہ  42 ٪ سیاسی شعبدہ بازیوں پر 10٪ اشتہاری مہمات پر مشتمل ہے۔  آج صحافت کسی کاروبار کی شکل اختیار کر چکی ہے۔ اور یہی آج سب سے زیادہ منفعت بخش کاروبار ہے۔ اس کے لیئے اس کے پہلے سچے صحافی  مولوی باقر شہید کی روح ہر روز نہ جانے کتنی بار پرواز کرتی ہو گی ۔
فرانس میں ہم اردو ٹی وی چینل  کے لیئے سال ہا سال سے گفتگو کر رہے ہیں لیکن یہ کام تب تک نہیں ہوسکتے جب تک یہاں کے مخیر حضرات اس میں دلچسپی نہ لیں اور اس میں مالی معاونت نہ کریں۔ اردو کیلئے یہاں پر آن دیسی ٹی وی کے نام  سے ایک نوجوان شاعر  وقار بخشی  نے کام کیا اور اس پر مختلف طرح کا مواد بھی پیش کیا گیا لیکن آج کئی سال گزرنے کے بعد بھی وہ اسے ابھی تک باقاعدہ ٹی وی چینل کی صورت پر نہیں لا سکے اور ویب ٹی وی کی حیثیت سے ہی کام کر رہے ہیں کیونکہ اس کے لیئے انہیں مطلوبہ  مالی معاونت حاصل نہیں ہے ۔ ہم لوگ اپنی ایمبیسی سے بھی ہمیشہ اس بات کی درخواست کرتے رہتے ہیں انہیں یاد دلاتے رہتے ہیں کہ یہاں پر اردو ٹی وی چینل اور ریڈیو کی بے حد ضرورت ہے۔ لیکن اس مطالبے کیساتھ ڈرتے بھی رہتے ہیں کہ باقی شعبوں میں جس طرح سے اردو صحافت کو استعمال کیا گیا اور کاروباری بنا دیا گیا اور اسے پیسہ کمانے اور اثر رسوخ بڑھانے کا ذریعہ بنا دیا گیا اگر یہاں بھی اسی طرح سے ہونا ہے اور وہی سب کچھ کرنا ہے تو پھر نہ ہونا ہی بہتر ہے کم از کم یہ تو نہیں کہ ہمارے پاس  میڈیم موجود ہے اور کچھ کر نہیں رہے ۔ ریڈیو کی طرف دیکھیں تو یہ آج بھی  بڑا مضبوط میڈیم ہے۔  لیکن ہمیں خود یہاں 25 سال ہو گئے ہیں اس پر  بات کرتے ہوئے۔  ہم لوگ  اتنے وسائل نہیں رکھتے کہ اسکی سکیورٹی گارنٹی وغیرہ جمع کروانا اور باقی جو سارا طریقہ کار اس کو پورا کرسکیں تو جو پورا کرسکتے ہیں وہ سوچتے رہتے ہیں کہ اچھا جی چلیں یہ بھی کام کریں گے ان کے لئے یہ چیز ترجیحات میں شامل ہی نہیں ہے۔ یہاں پر کتاب پڑھنا جب ترجیحات میں شامل نہیں ہے۔ یہاں پر اپنی زبان سیکھنا ترجیحات میں شامل نہیں ہے۔ یہاں  اپنے بچوں کے لیئے کوئی کلچرل پروگرام ادب و صحافت کے حوالے سے ہو، ہماری جو بھی حمایت کی بات ہو وہ لوگ اس میں حصہ لینا، اپنے گھر سے خود شامل ہونا پسند کرتے ہیں نہ اپنے گھر سے خواتین کو بچوں کو لانا پسند کرتے ہیں۔ جب وہ اس چیز کو ضروری نہیں سمجھتے تو پھر اردو صحافت صرف اور صرف کاروباری نظریے کے ساتھ کہ میں کیا لگاؤں گا اور مجھے کیا ملے گا، کس کو اوپر اٹھانا ہے کس کو نیچے گرانا ہے صرف اور صرف یہی ایک نظریہ رہ جاتا ہے اور یہ نظریہ صرف تباہی کی طرف لے کر جاتا ہے ۔ کسی بھی قوم کے لیئے صحافت کی جدوجہد میں تہذیب، اپنی زبان، اپنے کلچر، اپنی معاشرت کو بچانے کے لئے ،حق بات کی طرف لوگوں کی رہنمائی کرنے کے لیئے آپ کی سوچ نہیں ہوگی آپ کی اپروچ نہیں ہوگی اس وقت تک صحافت محض مذاق ہے اور یہی سبب ہے کہ  ان پچھتر سالوں میں اگر آپ دیکھیں تو ہماری صحافت نیچے سے اوپر جانے کے بجائے اوپر سے نیچے کی طرف ہی آئی ہے۔  فرانس میں اردورپوٹنگ کی 90٪ صحافت کا معیار نوٹ کیجیئے  کہ فلاں فلاں کے ساتھ آج اپنے بیٹے کی سالگرہ کی خوشی میں کھانا کھانے آیا ہے۔ فلاں  فلاں  کے ساتھ آج دوستوں سے ملاقات کر رہا ہے۔ فلاں شخص عمرہ کرکے آیا لہذا اس کا دوست اس کو لینے کے لئے آیا ہے۔ فلاں سیر کرنے جا رہا ہے ۔ فلاں سیر سے واپس آ رہا ہے۔ جہاں پر رپورٹنگ کا یہ معیار ہوگا ۔ فلاں نے آج اس ریسٹورنٹ میں کھانا کھایا یا کھلایا۔ اور یہ سب فلاں فلاں نہ تو کوئی پرسنالٹی ہیں ۔ نہ ہی کوئی اداکار ہیں نہ ہی کوئی اور کمیونٹی کے فعال کردار ہیں ۔ بس جو جس نام نہاد صحافی کی جیب میں نوٹ رکھ دیگا وہ اپنی فی تصویر ادائیگی سے صحافتی خدمات سے مستفید ہو سکتا ہے۔ یا پھر کرائے کے صحافی جو پاکستان اور باہر ہر جگہ بکثرت پائے جاتے ہیں اور اپنا قلم کسی بھی سیاسی تنظیم کو کرائے پر دے دیتے ہیں ۔ وہ اس سیاسی تنظیم کے سارے کالے کوے ہر قیمت پر سفید کرنے کے لئے اپنا دین ایمان ضمیر سب کچھ نچھاور کرنے کو تیار ہو جاتا ہے۔ 
تو آپ  سوچ سکتے ہیں کہ ان کا ذہنی معیار کیا ہوگا ، اخلاقی درجہ کیا ہوگا ۔ یعنی اگر ہم پیچھے مڑ کر دیکھتے ہیں تو پاکستان میں مجموعی طور پر اردو صحافت  خاص طور پر ان گزرے بیس سالوں میں بڑی تیزی سے زوال پذیر ہوئی ہے اور  ٹی وی چینل پر صحافت اگر ہم اپنے ملک میں بھی دیکھ لیں تو وہ ٹی وی چینل جس طرح کسی نہ کسی خاص آدمی کے ماتحت ہیں یا اس کی ملکیت ہیں یا ملکیت میں آجائیں گے تو وہ پھر کاروبار کے نظریے سے کام کریں گے اسے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ لوگ کس طرف جا رہے ہیں۔ لوگوں کی تربیت کیسی ہونی چاہئے۔ گاڑی میں بیٹھے ہیں ۔ ہم نے سیٹ بیلٹ لگائی ہے یا نہیں لگائی ہے۔ اس سے کیا فرق پڑتا ہے اسے یہ فرق پڑتا ہے کہ اس کی گاڑی کس برانڈ کی ہے؟ کس ماڈل کی ہے؟ اور وہ کتنے میں اچھی بک سکتی ہے؟ اس کا اشتہار کتنے میں اچھا بک سکتا ہے؟ کتنے اچھے پیسے مل سکتے ہیں؟ تو آپ دونوں باتوں کا فرق  خود جان سکتے ہیں. مجموعی طور پر صورت حال بالکل بھی اردو صحافت کے لیے نہ پاکستان میں, نہ پاکستان سے باہر ، کہیں بھی خوش آئند نہیں ہے۔ ہاں کاروباری لوگوں کے لیے یہ خوش آئند ہو سکتی ہے۔ لیکن اگر ہم اس کو کسی بھی حوالے سے نظریاتی، معاشرتی ، سیاسی ، سماجی ، تربیتی حوالے سے دیکھیں  تو کہیں بھی اس کا معیار بلند نہیں ہوا بلکہ پست سے پست تر ہوتا چلا گیا۔
 ضرورت اس امر کی ہے کہ ملک سے محبت کرنے کا دعویٰ کرنے والے اپنی زبان تہذیب اور ثقافت کے علاوہ صحافی اس ملک کی سالمیت پر کوئی سمجھوتہ نہ کریں اور خود کو  اس ملک کے وفادار کے طور پر پیش کریں۔ جس کے لیے پہلی شرط ہے سچائی۔ اور صحافت کے لئے بھی ،ایک صحافی ہی آج  اینکر کے روپ میں ہمارے سامنے آتے ہیں انکے لئے بھی اس شعبے  میں ایمانداری اور سچائی پہلی شرط ہونی چاہیے۔ جب تک ہم سچائی کی پہلی سیڑھی پر قدم نہیں رکھیں گے۔ آگے کامیابی کی آخری منزل تک نہیں پہنچ سکتے۔  ہم دکان دار بننا چاہتے ہیں تو وہ ہر شعبے میں بن چکے ہیں۔ صحافی دکاندار، رپورٹر دکاندار، اینکر دکاندار۔۔۔۔۔۔اس لیئے ہمیں اپنی اردو صحافت کی بنیادوں کو پھر سے مضبوط کرنا ہوگا۔

          °°°°°°°°

منگل، 20 دسمبر، 2022

ٹھیک ہو جائیگا/ کوٹیشنز ۔ چھوٹی چھوٹی باتیں

ٹھیک ہو جائیگا

🏔️لڑکا پاگل ہے۔۔ شادی کر دو ٹھیک ہو جائیگا۔
🏔️لڑکا نشہ کرنے لگا ہے۔۔۔ شادی کر دو ٹھیک ہو جائیگا ۔
🏔️لڑکا اتھرا بدمعاش ہے۔۔  شادی کر دو ٹھیک ہو جائیگا ۔۔۔
🏔️لڑکا آوارہ ہو گیا ہے۔۔۔ شادی کر دو ٹھیک ہو جائیگا ۔۔۔۔
🏔️لڑکا بیکار اور نکما ہے۔۔۔ شادی کر دو ٹھیک ہو جائیگا ۔۔۔
🏔️لڑکا مرگی کا مریض ہے۔۔۔ شادی کر دو ٹھیک ہو جائیگا ۔۔۔۔۔
🏔️لڑکا بدکردار ہے۔۔۔شادی کر دو ٹھیک ہو جائیگا ۔
کیا ہماری ہاں لڑکیاں ان سارے ناقص مال کی مرمت اور دیکھ بھال کے لیئے پیدا ہوتی ہیں ؟
   (چھوٹی چھوٹی باتیں)
        (ممتاز ملک۔پیرس)

منگل، 13 دسمبر، 2022

💚اللہ سے مذاق/ کوٹیشنز۔ چھوٹی چھوٹی باتیں

اللہ سے مذاق

ہماری قوم کا المیہ کیا ہے؟
یہ کہ نہ ہم کسی کی خوشی میں خوش آمدید۔
@ نہ ہم کسی کو سراہنے میں فراخدل ہیں ۔
@ نہ ہم کسی کے شکر گزار ہوتے ہیں۔
@ نہ ہم کسی سے معافی مانگتے ہیں۔
@ نہ ہم کسی کی عزت ہوتے دیکھ سکتے ہیں۔
@ نہ ہم کسی کی تعریف کرنے کا حوصلہ رکھتے ہیں۔
مان لیں کہ ہم بخیل ہیں ٫ منافق ہیں اور آگے بھی۔
لیکن انتظار کرتے ہیں کہ رحمتیں بس ہمیں سب پر نازل ہونا چاہیئیں۔۔۔یعنی اللہ سے بھی مذاق کریں۔
استغفار رررر
   (چھوٹی چھوٹی باتیں)
       (ممتاز ملک۔ پیرس)

بدھ، 7 دسمبر، 2022

وائرل صرف گندگی/ کالم

 وائرل صرف گندگی
تحریر: 
(ممتاز ملک ۔پرس)

کیا وجہ ہے کہ ہمیشہ غلط بات اور گندگی ہی ہوتی ہے؟ 
ہم نے تو خود کو شریف کو انتہائی نیک اور پرہیز گار دکھاتے ہیں، لیکن قندیل بلوچ جب نعت پڑھتے ہیں تو کسی کو سننا پسند نہیں کیا، اسے ملی نغمہ گاتی تو کسی سے پسند نہیں تھی، لیکن جیسے ہی ہمیں معلوم ہوا ہے کہ قندیل بلوچ آفریدی کے نام پر اپنے کپڑے اتارنے کی آفر کر رہی ہے تو منٹوں میں لوگ آپ کے مداح بن جاتے ہیں، انتظار کرتے ہیں کہ آپ اپنے آپ سے رال ٹپکتے ہیں، اس وقت۔ کی شرافت اور پرہیزگاری جاتی ہے۔ مسلم فالوور وہ شریف النفس ڈرامے بازپر جو اس کے کومنٹس میں جا کر اپنی مردانگی اور اپنے جسم کو اعضاء کو خود دکھاتے ہیں۔ لیکن حقیقت میں اگر وہ یہ سمجھیں کہ اس نامحرم لڑکی کے بہانے اپنی بہنوں کو بے لباس کرتے ہیں تو ایک نے گویا سب کو دیکھا۔ نہ نظر جھکانی یادگار ہیں نہ حیاداری کا پاس ہے اور تو آج کے ٹک ٹاک پر جا کر ہمارے لوگوں کی مردانگی فرمائیئے کس لچرپنے کے کمرے پر تبصرے کیئے ہیں ۔ان پر اپنی زبان کے خاندانی برسائے ہیں اور پھر اسی طرح باقی بازاری دھڑا دھڑ دیکھنے کے لیے، لائیک کرنے کا فریضہ آخر ممکن ہے۔ کمال کی بات ہے کہ گندگی پر پہلے میرے بے خبر لوگ بھی ڈال دیتے تھے لیکن آج ان کے نام نہاد باخبر اور پڑھے،معزز عزت باخبر،مذہبی تک کہلانے والے لوگ اسی گندگی کو پلیٹ میں سجا کر اس کی قیمت لگاتے ہیں۔ اور کبھی اسے آگے سے مشتہر کرتے ہیں۔ مذہب تو چھوڑیے ہم اخلاقی طور پر اس پر تنزلی میں گر گئے ہیں کہ اب ہمیں گٹر کی بو بھی نہیں لگتی بلکہ "سمیل" لگتی ہے۔ 
انہوں نے کہا کہ آج دیکھنے کیلئے سوشل میڈیا میڈیا ٹک ٹک اور یوٹیوب پر ناچ گانے واہیاتی پر مبنی "کونٹینٹ" مواد بیچ رہا ہے۔ صرف پیسے کمانے کے لیے۔ عزت کی جاتی ہے۔ آپ تو دھڑا دھڑا لگتے ہیں۔ حدیث شریف کا حصہ مکمل ہوا کہ جس میں قیامت کی نشانیوں میں واضح نشانی بتائی گئی کہ "گھر گھر ناچ گانا"۔ آج لوگ خود اپنی مرضی سے خوش ہو جاتے ہیں اپنے ماں بہن بیٹیوں اور نانیاں دادیاں تک مجرا کر کے مشہور اور مالدار ہونا کوئی عیب نہیں سمجھتا۔ ہمارے بزرگ کہتے تھے کہ دولت تو کنجروں کے پاس بھی "بلکہ کنجروں کے پاس" ہی ہوتی ہے لیکن عزت نہیں ہوتی۔ کاش بزرگ آج آپ کو دیکھ نہیں سکتے کہ بابا جی عزت صرف پیسے کی ہی ہوتی ہے۔ کیسے آئے؟ کیوں آئے؟ کوئی نہیں پوچھنا چاہتا۔ وہ میرے بچے سے پوچھتے تھے کہ میں نے تو نہیں لکھا لیکن میرے پاس۔
 کہاں سے آئے ہیں یہ جھمکے؟
 کس نے یہ جھمکے؟ 
کیوں خطرے ہیں جھمکے؟
آج تو خود کئی جہنمی مائیں اپنی بیٹیوں کو جھمکے کمانے اور جھمکے دلانے کو پھانسنے کے طریقے سکھاتی ہیں۔ کیوں کہ وہ بھی مان چکے ہیں کہ کوئی تم سے پوچھے گا کہ یہ جھمکے ہیں؟
                  ●●●

اتوار، 4 دسمبر، 2022

دکان/ کوٹیشنز ۔چھوٹی چھوٹی باتیں

دکان یا خزانہ

ادھ ننگی گھومنے والی عورت جب دوسرے کو یہ کہتی ہے کہ میرا جسم میری مرضی تو وہ خود کو یہ کیون نہیں سمجھاتی کہ میرا جسم کوئی دکان نہیں ہے جس پر ہر آتا جاتا ایرا غیرہ جھانکتا ہوا گزرتا جائے۔
یہ ایک خزانہ ہے اور خزانے کی چابی کسی ایک کے پاس ہو تبھی وہ محفوظ رہتا ہے ۔ اب آپکی مرضی آپ اپنے جسم کو دکان بانا چاہتی ہیں یا خزانہ۔۔۔۔

جمعرات، 1 دسمبر، 2022

عزت کا سبق/ چھوٹی چھوٹی باتیں ۔ کوٹیشنز

عزت کا سبق

اپنے بچوں کو ہمیشہ پورا سبق سکھایئے اور پوری بات سمجھائیے۔
 انہیں یہ مت سکھائیں کہ اپنی ماں اور بہن کی عزت کرو بلکل یہ سکھائیں کہ عورت کی عزت کرو۔ بڑوں کی عزت کرو۔ چھوٹوں پر شفقت کرو ۔ یہ پورا سبق انہیں  آپکی عزت کرنے پر خود بخود تیار کر دیگا ۔ 
   (چھوٹی چھوٹی باتیں)
      (ممتازملک ۔پیرس)
                   ●●●

پیر، 14 نومبر، 2022

نشہ/ کوٹیشنز ۔ چھوٹی چھوٹی باتیں

      نشہ ۔۔۔۔

آپ نشہ نہیں پھونکتے بلکہ نشہ اپکے پورے خاندان کو، آپ کے سماجی رتبے کو ، آپکے تعلقات کو، آپکے خوابوں کو، آپکی خواہشوں کو ، پھونک رہا ہوتا ہے ۔ 
نشہ کوئی سا ہو صرف تباہی ہے۔
       (چھوٹی چھوٹی باتیں)
           ( ممتازملک ۔پیرس)

پیر، 7 نومبر، 2022

تلخ حقیقت/ کوٹیشنز

تلخ حقیقت
شوہر ہمیشہ اپنی صحت مند بیوی کا ہی ہوتا ہے اس پر کوئی بیماری یا تکلیف آ جائے تو دو اک دن مزاج پرسی کا ڈرامہ کرے گا اس کے بعد وہ سارے شہر میں پھیلے ہوئے یاروں کے پاس "اور سناو کیسے ہو" کے لیئے سارا سارا دن گزار دیگا، ہر چھٹی گزار دیگا ، لیکن اپنی بیوی کے سوا سارے شہر کا یہ غمگسار نہ ہوا تو صرف اپنی بیوی کا نہ ہوا ۔۔۔
اور مرد بیمار ہو تو بیوی بیوہ جیسی زندگی کو اللہ کی رضا سمجھ کر خود کو تباہ کرنے کے درپے ہو جاتی ہے ۔ دونوں ہی نفسیاتی ڈاکٹر کی مدد کے لائق ہیں۔  آپ کی زندگی پر آپکا حق بھی خدا نے دے رکھا ہے۔ حساب صرف بیویوں کا ہی نہیں ہونا۔۔۔
     (چھوٹی چھوٹی باتیں)
          (ممتازملک۔پیرس)

جمعرات، 3 نومبر، 2022

اتنی سی بات/ کوٹیشنز

اتنی سی بات

دشمن مرے خوشی نہ کریو
سجن وی مر جانا۔۔۔
بس اتنی سی بات سمجھ آ جائے تو انسان ہر غرور و فتنے اور گناہ سے خود کو دور کر لے ۔
(چھوٹی چھوٹی باتیں )
      (ممتازملک ۔پیرس)

اتوار، 30 اکتوبر، 2022

شرکستان۔ بہت دور نہ نکلنا/ کالم

    بہت دور نہ نکلنا
    شرکستان ؟
تحریر:
       (ممتازملک ۔پیرس)

پاکستان بھر میں بے دینی اپنے عروج پر ہے ۔ شرک ، جادو ٹونہ بے راہ وی عام ہے ۔ دین کی اور حق کہ بات کرنا واقعی ہاتھ پر جلتا ہوا کوئلہ لیکر چلنے کے مترادف ہو چکا ہے
اور یہ سب کچھ اس حکومت کی چھتر چھایا میں ہو رہا ہے جو ریاست مدینہ کا لولی پاپ دیکر بے عمل اور بے کردار جوانیوں کو اندھے کنویں میں جھونکنے کا ایجنڈا بڑے زور و شور کیساتھ پورا کر رہے ہیں۔ یقینا دجا۔لی آقا خوش ہوا ۔۔۔۔
 پہلے پورے تزک و احتشام کیساتھ ویلنٹائن ڈے کو اس ملک میں  گھسایا گیا ۔ ہر لڑکی کی عزت چوراہے پر رکھے گلاب کے گلدستوں  میں باندھ دی گئی ہے جسے ہر صورت کل کوڑے دان میں پہنچنا ہی ہے ۔ ہر لونڈا دوسرے کی بہن بیٹی کو تاڑنے نکلتا ہے اور اس کی اپنی بہن کسی اور کے لیئے نوالہ تر بننے کی تیاری میں ہوتی ہے کیونکہ جو آپ کرنے جا رہے ہیں اسے آپ کے گھر بھی پہنچنے میں دیر نہیں لگتی اب یہ آپ خود جانتے ہیں یا آپکا خدا کہ آپ کیا اچھا کرنے کا ارادہ لیکر نکلے ہیں یا کیا برا کرنا چاہ رہے ہیں۔
کبھی چوکوں میں مسلمانوں کی عزتوں سے کھیلنے والوں کے بت آویزاں کیئے جاتے ہیں تو کبھی غیر مسلموں کو خوش کرنے کیلئے انکے بتوں کے چڑھاوے بڑے مزے لیکر تناول فرمائے جاتے ہیں بلکہ آ ج کی اس خوار نسل یا پوری قوم  کو یہ تک پڑھنے اور جاننے کی توفیق نہیں ہے کہ اللہ کے سوا کسی بھی نام کی کوئی بھی چیز کھانا حرام ہے ۔ لیکن ہمیں اس سے کیا؟ کہیں رواداری کے نام پر کہیں فیشن کے نام پر کہیں بین الاقوامیت کے نام پر جس دین کی پہچان  ہمارے نام سے جھلکتی  ہے ہم اسی کا مذاق اڑانے میں مصروف ہیں ۔ اور یہی وہ خسارا ہے کہ جس کا ہمیں احساس تک نہیں ہو رہا کہ ہم اٹھا رہے ہیں ۔ ہمارے کہنے کا یہ مطلب ہر گز نہیں ہے ہم غیر مسلموں کیساتھ انکی خوشیوں میں شریک نہ ہوں یا انہیں اس پر نیک خواہشات نہ دیں ۔ مسئلہ یہ ہے اس سب میں ہمارے اپنے مذہب کو مذاق نہ بنا لیا جائے ۔ ہر مذہب کا اپنا اپنا دائرہ کار ، طرز زندگی اور قاعدے اور ضابطے ہوتے ہیں ۔ بالکل ویسے ہی جیسے گاڑی چلانے کے لیئے آپکو گاڑی چلانے کی تربیت اور گاڑی ہی چلانے کا لائسنس لینا ہو گا اس کے لییے آپ موٹر سائیکل یا جہاز چلانے کا لائسنس  پیش نہیں کر سکتے ۔ کیونکہ وہ اجازت نامے گاڑی چلانے کے قواعد و ضوابط کو پورا نہیں کرتے ۔ سو اپنے مذہب کو ماننے کا عملی اظہار اس کے اصولوں کی پاسداری کیساتھ ہوتا ہے۔ زبانی کلامی باتوں سے آپ نہ تیتر رہتے ہیں نہ بٹیر۔ 
پھر "رے" پارٹیوں کو اپر کلاس سے رائج کیا جانے لگا جہاں منشیات کا ہر برانڈ اور بے راوی کا ہر طریقہ پوری مادر پدر آزادی کیساتھ پروموٹ کیا گیا ۔ پھر نور مقدم اور سارہ جیسی لڑکیوں کے انجام  رلانے کو مثال بن جاتی ہیں ابھی ایسے کتنے ہی عزتوں کے جنازے ہونگے جو ان رئیس زادوں اور حرام خوروں کے فارم ہاوسز سے ڈائیریکٹ بنا کفن کے بنا نماز جنازہ کے ان کے باغات کی مٹی کے نیچے بچھائے گئے ہونگے ۔  جن کے والدین آج بھی سوچتے ہونگے کہ انکی بیٹی جانے کس کے ساتھ بھاگ گئی ہو گی ۔ یہ وہ لڑکیاں ہیں  جو اس چنگل میں کبھی ماڈل بننے کے لیئے یا باس کو خوش کرنے کے لیئے یا ملازمت کے جھانسے میں یا پھر تگڑی رقم لیکر اپنے شوق پورے کرنے کے لیئے  بدن تھرکانے کو پہنچی ہونگی ۔ لیکن یہ بھول کر کہ اس شیطانی راستے پر آنے کی جانب تو دروازہ کھلتا ہے لیکن یہاں سے واپسی پر دروازہ کبھی نہیں کھلتا۔ 
ایسے میں تازہ مثال تعلیمی اداروں سے لیکر مخصوص طبقے کی سرپرستی میں اب ہیلوون کا دن منانے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔ 
  اب ہیلو ون کا وہ دن جسے مردوں اور جہنم کیساتھ وابستہ کیا جاتا ہے ۔ اسے ڈارامہ ٹائز اور گلیمرائز کر کے یوں پیش کیا جا رہا ہے کہ جیسے یہ جہنم تو ایک سیر گاہ ہے اس کا کیسا خوف۔  یہاں تو ہم مٹر گشتی کرنے جائیں گے ۔ کیا یہ وہی نسل تیار کی جا رہی ہے جس کے بارے میں ہم پڑھتے اور سنتے تھے کہ آخری زمانے کی ساری مخلوق پیدا ہی جہنم کا ایندھن بنانے کے لیئے ہو گی ؟ کیونکہ انکے لیئے جہنم عبرت کا مقام نہیں بلکہ ایک تفریح گاھ سمجھی جائے گی۔ ایسی مشرکانہ رسموں کو ہمارے ملک میں ایک نام نہاد ہی سہی اسلامی معاشرے میں رائج کرنے کی کوششوں کو کیا سجھا جانا چاہیئے؟ حکومتیں کہاں سوئی ہوئی ہیں علماء جو ملک سے باہر یورپ میں جون جولائی میں ٹھنڈا کر کے اسلام پھیلانے کو مٹر گشت کرتے ہیں یہ ان کا فریضہ نہیں ہے کہ وہ اپنے ملک میں اسلام کی سچی تصویر پوری ایمانداری کیساتھ پیش کریں ۔کون دیگا اس قوم کی بے راہ روی کا جواب؟
                          ●●●    


ہفتہ، 29 اکتوبر، 2022

قرضدار/ کوٹیشنز ۔


قرضدار

تم کیا سمجھتے ہوں تم اپنے والدین کو پالتے ہو؟
نہیں۔۔۔ انہوں نے جو تمہیں پالا تم صرف ان کا  قرض چکانے کی کوشش کرتے ہو
 اور قرضدار کی آواز اونچی ہو، اچھا نہیں لگتا۔ اس لیئے اپنے والدین کے سامنے اپنی آوازیں نیچی رکھا کرو۔ کیونکہ انکے دل کانچ سے بھی زیادہ نازک ہوتے ہیں ۔ خیال رکھا کرو۔
(چھوٹی چھوٹی باتیں)
   (ممتازملک ۔پیرس)

اتوار، 23 اکتوبر، 2022

قیامت اور کیا۔ کوٹیشنز ۔ چھوٹی چھوٹی باتیں



قیامت اور کیا

دوست اخلاص سے خالی ہیں تو
 رشتے وفاوں سے عاری۔ 
ہر روز یہ قیامت بن کر ہمارے دلوں پر ٹوٹتے ہیں اور 
اب بھی ہمیں کسی اور قیامت کا انتظار ہے ؟
     (چھوٹی چھوٹی باتیں)
          (ممتازملک ۔پیرس)



پیر، 10 اکتوبر، 2022

روٹی سے سوٹی تک/ کالم


       روٹی سے سوٹی تک

انسان ہو یا کوئی اور جاندار ۔ رزق پر اسکی زندگی کا دارومدار ہے ۔ ہر جاندار  رزق کی تلاش میں اپنی عمر کا بیشتر وقت گزار دیتا ہے ۔
دنیا کا ہر جاندار پیٹ بھرنے کے بعد بے ضرر ہو جاتا ہے پرسکون ہو جاتا ہے ۔ مطمئن ہو جاتا ہے ۔
 لیکن انسان وہ جاندار ہے کہ پیٹ بھرنے کے بعد یہ دراصل خطرناک ہوتا ہے ۔ یہ جب تک بھوکا رہیگا جھکا رہیگا ۔ بےضرر رہیگا، لیکن جہاں اس کا پیٹ بھرا وہیں اس کے دماغ کی شیطانی رگیں پھڑکنا شروع ہو جاتی ہیں۔ اس کا اگلا مرحلہ اپنی حفاظت کے لیئے چھت کی تلاش پھر تعیش  اور اس کے بعد ہوتی ہے خود کو سب سے برتر منوانے کی جدوجہد کا آغاز۔۔۔
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ زندگی کی 95 فیصد خوشیوں کا انحصار مال و دولت پر ہوتا ہے ۔  ہماری  زندگی کے صرف  5 فیصد معاملات وہ ہوتے ہیں جنکا تعلق ہمارے جذبات سے ہوتا ہے لیکن یہ پانچ فیصد جذبات کا زہر اتنا منہ زور ہوتا ہے کہ زندگی کی مال و دولت سے بھری ہوئی دودہ کی بالٹی کو پل بھر میں برباد کر سکتا ہے۔ آج  آپ کسی پر بڑے سے بڑا احسان کر دیں بھلے سے اس کی جان بچا لیں لیں پھر بھی سب سے بڑا محسن اسی کو کہا جاتا ہے جو انسان آپکی مالی مشکلات کو کم کرنے میں آپکی مدد کرتا ہے وہی آپ کا سب سے بڑا محسن مانا جاتا ہے ، ہر ایک کی نظر میں ، ماسوائے اس کے جس پر آپ نے یہ احسان کیا ہو گا ۔ اس کی مہربانی کا بدلہ آپکی ممنونیت کی صورت میں ظاہر ہونا چاہیئے نا کہ آپ اپنی احسان فراموشی سے خود کو جذباتی زہر کا قطرہ بنا کر اس بات کو ثابت کر دیں جس پر احسان کرو اس کے شر سے ڈرو اور بچنے کی کوشش کرو۔
ہم اپنے جن عزیزوں کو دوستوں کو آگے بڑھانے کے لیئے اپنے کندھے پیش کرتے ہیں وہی اپنا قد بڑھانے کے بعد ان کندھوں کو توڑنے میں مرکزی کردار ادا کرتے ہیں ۔ ہمارے ملک کے آج کے حالات بھی اسی قسم کی صورتحال کو بیان کرتے دکھائی دیتے ہیں ۔ پہلے بھوک مٹانے کے لیئے دوسرے کے حقوق جان مال کھانا خود اپنی لغت میں اپنے ہاتھوں سے جائز لکھ لیا جاتا ہے تو اس کے بعد سر چھپانے کی جدوجہد میں محنت سے جان چھڑا کر قبضہ گیری اور رسہ گیری کو اپنا خودساختہ حق سمجھ لیا جاتا ہے ۔ جس نے جسے انگلی پکڑائی صاحب چال نے جھٹ سے اس کا پہنچہ پکڑنے میں دیر نہ لگائی ۔ کہیں آنسو بہائے گئے، کہیں قدموں میں دوپٹے گرائے گئے، اور کہیں پگڑیاں فرش پر بچھا دی گئی ہوں، کہیں ترلے منتیں وعدے وعید اور قسمیں اٹھائی گئی ہوں کتنی ہی لکھا پڑھی کی گئی ہو.
 غالبا خود کو سب سے زیادہ ضرورت مند ہی نہیں معتبر ثابت کرنے کے لیئے بھی کسی ڈرامے سے گریز کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے سامنے والا نرم دل بااختیار دار شخص بکرا بن کر آپکے دھوکے کی چھری کے نیچے ایک بار آ جانا چاہیئے بس ۔۔۔۔۔ اس کے بعد اس کے ساتھ جو کچھ ہو گا وہ اس کے کیا شاید ابلیس لعین کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہو گا ۔ نمک حرامی کی وہ وہ مثالیں قائم کی جائیں گی اور احسان فراموشی کے وہ وہ ریکارڈ ٹوٹیں گے کہ نیکی و امداد کرنے والے کے چودہ طبق روشن ہو جائینگے ۔ 
لوگ پیٹ بھرنے کے بعد صاحب اختیار ہونے اور اثرورسوخ حاصل کرنے کے لیئے ہر قیمت ادا کرنے کو تیار ہوتے ہیں وہ قیمت چاہے انہیں اپنی عزت کی صورت ادا کرنی پڑے یا کسی رشتے کی موت کی صورت چکانی  پڑے بس اختیار کی سوٹی ان کے ہاتھ لگنی چاہیئے ۔ لیکن ایک سوٹی ایک لاٹھی پروردگار کی ہوتی ہے جب وہ چلتی ہے تو بڑے بڑے سوٹیوں والے برج الٹتے ہوئے یہ دنیا ہمیشہ سے ہی دیکھتے آئی ہے ۔ مگر دل ہے کہ مانتا نہیں 
اسے یہ یقین ہی نہیں ہوتا کہ اگلی باری اس کی بھی ہو سکتی ہے کہ ہر چڑھتے سورج کا اترنا تو بہرحال مقدر ہوتا ہے۔ یہ سب جانتے بوجھتے ہوئے بھی ہر شخص دیوانہ وار روٹی سے سوٹی تک کے سفر میں دیوانہ وار بھاگے چلا جا رہا ہے ۔ اخلاقی دیوالیہ پن کی اس سے بڑی مثال اور کیا ہو گی ۔ 
                           ●●●

اتوار، 25 ستمبر، 2022

● انصاف/ کوٹیشنز ۔ چھوٹی چھوٹی باتیں

          انصاف 
جس ملک میں انصاف نہیں تو جان لو کہ اس قوم میں ضمیر نہیں کیونکہ انصاف باضمیر لوگ کیا کرتے ہیں ۔
 (چھوٹی چھوٹی باتیں)
      (ممتازملک ۔پیرس)

پیر، 12 ستمبر، 2022

خواب اور حقیقت/ کوٹیشنز ۔ چھوٹی چھوٹی باتیں

    خواب اور حقیقت 

صرف خواب دیکھنے سے ہی منزلیں بلند نہیں ہوتیں بلکہ اسکے لیئے عمل بھی شفاف پونا چاہیئے۔ 
ہماری خواہشیں ہمارے خوابوں کی صورت میں جبکہ ہمارے اعمال ہماری حقیقتوں کی صورت میں ظاپر ہوتے پیں ۔
       (چھوٹی چھوٹی باتیں)
            (ممتازملک ۔پیرس)

بدھ، 7 ستمبر، 2022

نوازے ہوئے لوگ/ کوٹیشنز

نوازے ہوئے لوگ

دوست وہ نہیں ہوتا جسے بتانا پڑے کہ میں خوش ہوں یا میں پریشان ہوں ۔۔۔بلکہ دوست وہ ہوتا ہے جو آپکی خاموشی کو سن لیتا ہے ، جو آپ کی بدلتی رنگت سے آپکے دل کا حال جان لیتا ہے ، جو آپکی آنکھوں کی نمی کو آپکے ہونٹوں کی مسکراہٹ میں بھی ڈھونڈ لیتا ہے ۔ آپکی پریشانی کو حل کرنے کی سعی کرتا ہے۔ آپکی خوشی کو اپنے اندر پھوٹتا ہوا محسوس کرتا ہے ۔  اگر آپ کے پاس کوئی ایک بھی ایسا دوست ہے تو آپ واقعی خدا کی جانب سے نوازے ہوئے لوگوں میں شامل ہیں ۔ 
(چھوٹی چھوٹی باتیں)
       (ممتازملک۔پیرس)

بدھ، 17 اگست، 2022

سوراخ/ کوٹیشنز ۔ چھوٹی چھوٹی باتیں

        سوراخ
جیسے ہر گھر سے غلاظت و گندگی کی نکاسی کی ایک نالی ہوتی ہے، اسی طرح اپنے دل میں بھی ایک نالی جیسا سوراخ بنا لیں جس سے آپ دوسروں کی آپ سے متعلق سوچوں اور اعمال کی گندگی کو باہر نکالتے رہیں ۔ سوچنے میں یہ مشکل کام لگتا ہے لیکن یقین کیجیئے آپ اس کی مشق کے بعد خود کو بیحد پرسکون اور ہلکا پھلکا اور صاف ستھرا محسوس کرینگے۔ 
         (چھوٹی چھوٹی باتیں)
               (ممتازملک۔پیرس)
                ●●●

منگل، 16 اگست، 2022

انتظار/ کوٹیشنز

انتظار 

ہم وہ قوم ہیں جو حادثوں کاانتظار ہی نہیں بلکہ اہتمام بھی بڑے شوق سے کرتے ہیں ۔۔
      (چھوٹی چھوٹی باتیں)
            (ممتازملک ۔پیرس)

ہفتہ، 13 اگست، 2022

رشتہ/ کوٹیشنز ۔ چھوٹی چھوٹی باتیں

      
      رشتہ 
بہن بے حس نہ ہو اور بھائی بے غیرت نہ ہو تو اس سے پیارا اور کوئی رشتہ ہو ہی نہیں سکتا ۔ 
       (چھوٹی چھوٹی باتیں)
            (ممتازملک ۔پیرس)


منگل، 26 جولائی، 2022

✔ پاکستان میں محفوظ سرمایہ کاری۔۔/ کالم۔ لوح غیر محفوظ

پاکستان میں محفوظ سرمایہ کاری کیسے؟
تحریر: 
         (ممتازملک ۔پیرس)

عموما تارکین وطن اور پردیسیوں کے پیسے کو لوٹ کے مال کے طور پر خیال کیا جاتا ہے ۔ کبھی آپ غور کریں تو وہ ترسے ہوئے  عزیز اقرباء کے کے تحائف کو جس طرح استعمال کرتے ہیں اسی سے آپکو اندازہ ہو جائیگا کہ دل بیرحم نے مال مفت کیساتھ کیا کیا نہ کیا ہو گا ۔ ہماری گاڑھے خون پسینے کی کمائی کو چوری کے مال کی طرح خرچنے اور برتنے والے جب ہاتھ کرنے پر آتے ہیں تو ہمارے یہ سوچ کر بنائے گئے گھر اور جائیدادوں کو کہ اس سے ہمیں بھی کچھ آمدنی کا ذریعہ مل جائیگا ، ہمارے عزایزان یہ جتا کر قابض ہو جاتے ہیں کہ بھائی تم تو باہر رہتے ہوں تمہیں کیا کمی ہے ؟ تم کیا کرو گے یہاں پر جائیداد زمین ؟ کہنے والے کا انداز آپکو یہ بتاتا ہے کہ اس کے والد صاحب نے جو فیکٹریاں اور کارخانے ملک سے باہر آپکو بنا کر دے رکھے ہیں اس پر عیش کرو یہ اپنے ملک میں بنائی جائیدادوں سے اب دور رہو ۔ ہم ہیں نا ان کا مال کھانے والے۔۔۔۔یہ سوچ کسی ایرے غیرے کی نہیں بلکہ ساری عمر آپ کے ٹکڑوں پر پلنے والے ان سنپولیوں کی ہوتی ہے جنہیں آپ خود بیچارے کہہ کہہ کر خود اپنی ہی آستینوں میں پالتے رہے ہیں ۔ اور اب وہ اژدھے بن کر آپ کی زندگی بھر کی کمائی کو ہڑپنے کے لیئے کھل کر سامنے آ چکے ہیں ۔ لیکن کیوں۔ ؟ کیونکہ آپ نے اپنی جائیداد گھر بار بیچنا چاہا ہے یا اپنی کمائی کا حساب مانگ لیا ہے ؟ یا اپنی کوئی شراکت داری ختم کرنا چاہی ہے ؟ کچھ بھی کر لیں لیکن پاکستانیوں سے اپنا مال واپس مت مانگیئے گا یہ آپکو دینا گویا خزانے پر بیٹھے سانپ سے پنگا ہو گیا۔  پیسہ تو جائیگا ہی عزت بھی ایسے ایسے اچھالی جائے گی کہ آپ کو خود اپنے اس دنیا کے سب سے خبیث آدمی ہونے کا گمان ہونے لگے گا ۔ رشتے پر تو ایسے بےضمیر پہلے ہی  چار حرف بھیج چکے ہوتے ہیں ۔ آپ اس وقت انکے لیئے پان کی پیک سے زیادہ کوئی حیثیت نہیں رکھتے۔ اگر آپکی قسمت اچھی ہے اور ساتھ کسی پرخلوص مشیر کا مل گیا تو شاید آپ کچھ بچا پائیں لیکن پھر بھی رشتے عزت احترام سب کچھ گنوانا لازم ہے ۔کیونکہ آپ تو بیرون ملک مقیم ہیں بھائی آپکو کیا کمی آپ کو پیسہ کیا کرنا ہے؟
آئے دن نت نئے تعمیراتی منصوبے آپکے سامنے پیش کیئے جاتے ہیں ۔ آپ بھی وطن کی محبت میں بیقرار ہیں تو ہمارا مشورہ ہے کہ 
جو لوگ پاکستان  جا کر رہنا چاہتے ہیں وہ تو ضرور ان تعمیراتی  منصوبوں میں پیسہ لگائیں لیکن جو لوگ  صرف سیر کرنے ملنے ملانے پاکستان جاتے ہیں انہیں ہماری صلاح ہے کہ آپ پیسہ جن ممالک میں آپ رہتے ہیں صرف وہیں لگائیں کیونکہ پاکستانی رشتے دار ان جائیدادوں کو لوٹ کر ہڑپ کر جائینگے ۔ قبضے کر لینگے ۔ یا پھر آپ نے کوئی محفوظ طریقہ  اپنایا بھی تو اس جائیداد کا کوئی فائدہ اور منافع کبھی آپ تک نہیں پہنچ پائے گا ۔ یہ ہمارے سالہا کا تجربات بھی ہیں اور مشاہدات بھی۔
اگر پاکستان میں پیسہ لگانا ضروری ہی ہے تو بہتر ہے کہ آپ پاکستان میں صرف قومی بچت کی محفوظ سکیموں میں اپنا پیسہ لگائیں ۔ ملک کی بھی خدمت ہو گی اور آپکا پیسہ منافع بھی دیتا رہیگا ۔ رشتے دار سانپوں سے بھی پردہ رہیگا اور رقم آپکے بعد آپکے نامزد شوہر یا بیوی بچوں کو باآسانی مل بھی جائے گی۔
پاکستان میں اپنے مال کو لگانے سے  پہلے اپنی عزت اور اپنے رشتوں کو بچانے پر غور کیجیئے ۔
                   ●●●

✔ سائیکو کیوں ؟کالم ۔ لوح غیر محفوظ





سائیکو کیوں ؟
ممتازملک ۔ پیرس   



ایک کیس سامنے آتا ہے کہ ایک صاحب کی بیگم نے ان سے علیحدگی لیکر کہیں اور شادی کر لی ہے اور بچے بھی ان کے پاس چھوڑ گئی ہے ۔ وہ صاحب اب اس قدر دلگیر ہیں کہ انہوں نے دو تین بار خودکشی کی کوشش بھی کی ہے اور ان کے  چاہنے والوں کی نظر میں یہ صاحب بے حد معصوم اور وہ خاتون کافی ہلکے کردار کی ،خود غرض اورسائیکو ہے ۔ وہ ایک بہت بری ماں ہے وغیرہ وغیرہ وغیرہ  
لیکن پھر کچھ لوگوں نے اس صاحب کی محبت بھری زندگی کا تجزیہ بھی کیا اور ان کی خودکشی کی اسل وجوہات جاننے کی کوشش کی کی جس میں بہت ہی مختلف صورتحال بھی سامنے آئی اور سوات بھی پیدا ہوئے ۔
پہلی بات خاتون خوش ہوتی مطمئن ہوتی تو  الگ ہی کیوں ہوتی ؟
مان لیا وہ سائیکو  تھی ،اسے دوسری شادی کا شوق تھا،  اس لیئے چلی گئی تو اس کامطلب یہ ہوا کہ وہ اچھی خاتون نہیں تھی،
تو اس کے جانے پر تو شکرانے کے نوافل پڑھنے چاہیئیں موصوف کو،جیسے آج کل خواتین میں '' کم بخت ٹائیپ میاؤں '' سے طلاق کے بعد پارٹی شارٹی کرنے
 کا رجحان پیدا ہو رہا ... یہ بھی پارٹی شارٹی کریں ۔ اپنی زندگی سے بیوی نام کا دکھ دور ہونے کی خوشی منائیں ۔ آخر 
تھوڑے لطیفے تو شئیر نہیں کیئے ہوں گے انہوں نے بھی بیوی کے ظلم اور خرچوں کے ..
تو اب توراوی چین ہی چین لکھتا ہے ان کے مقدر میں . منجھی کے دونوں طرف سے اترسکتے ہیں آپ .
اب رہ گیئے بچے. ... تو خاتون واقعی بڑی سیانی تھی . اسنے موصوف کو ساتھ رھ کر دی ہوئی تکلیفوں کا خوب بدلہ لیا کہ لو سنبھالو اپنی نسل . کل بھی تو انہوں  نے تمہارے پاس ہی آنا ہے تو ابھی لو .کیوں عدالتوں میں جا جا کر بچوں کو بھی خوار کرنا اور خود بھی ذلیل ہونا. ساری دنیا کو تماشا دکھانے کی ضرورت بھی کیا ہے ؟
اور اصل موت صاحب کو پڑی ہی اسی بات کی ہے کہ ان کی رنگینیوں کے آگے بڑا سا بلیک اینڈ وائٹ بورڈ بچوں کی صورت وہ لگا گئی . ورنہ یہ اکیلے ہوتے تو اب تک سہرا باندھ چکے ہوتے .. اب کوئی خاتون تو ان کی بیوی بننے کو شاید مل ہی جائے لیکن وہ ان کے بچے بھی قبول کرے نوے فیصد نو ....
تو اپنے ہی بچے اپنے پاس رکھنے پر موصوف فوت ہونے کو تیار ہیں اسے کہتے ہیں کہ
شرم ان کو مگر نہیں آتی 
عورتیں تو ساری زندگی بچوں کے چکر میں تباہ کر لیتی ہیں اور چند ایک مردوں کو ایسی سیانی خاتون آزمائش میں ڈال دے تو یہ تماشے.......
...........حد ہے بھئی 
ویسے مجھے ان صاحب سے کوئی ہمدردی نہیں. ان کی سابقہ بیگم نے بہت اچھا کیا کہ اپنا گھر آباد کر لیا . کیونکہ ان کے خودکش رجحانات وہ پہلے بھی کئی معاملات میں ضرور بھانپ اور بھگت چکی ہو گی . اس لیئے میری  نظر میں  نہ وہ بے وفا ہے، نہ بے ایمان ، اسے اپنی زندگی اپنی مرضی اور خوشی کیساتھ گزارنے کا پورا پورا قانونی اور شرعی حق ہے . جو اس نے استعمال کیا . بچے لیجا کر انہیں سوتیلے باپ کے پاس غیر محفوظ کرنے سے اچھا ہے سوتیلی ماں کے پاس ان کی عزت تو محفوظ ہو گی .کہ باپ تو سگا  ہی اچھا ہوتا ہے. 
اللہ پاک رحم فرمائے .    
ممتازملک

جمعہ، 1 جولائی، 2022

● سچ نہیں مرضی کی بات/ کوٹیشنز

ہم سچ نہیں بلکہ اپنی مرضی کی بات کو سچ سمجھ کر سننا چاہتے ہیں اور یہی ہماری تباہی کا موجب ہے۔ 
(چھوٹی چھوٹی باتیں )
      (ممتازملک ۔پیرس )

اتوار، 26 جون، 2022

● شدید موسم کا روہوں پر اثر/ کالم



 شدید موسم کا رویوں پر اثر
 (ممتاز ملک ۔پیرس)

 فرانس میں ہفتے بھر سے بہت زیادہ گرمی پڑ رہی ہے درجہ حرارت 40 ڈگری تک جا پہنچا ہے۔ جہاں بھی دنیا بھر میں گرمی شدید ہو چکی ہے وہاں  بلا ضرورت گھر سے نہ نکلیں ۔  باہر نکلنا پڑے تو چھتری پانی کی بوتل  دھوپ کی عینک  لیکر نکلیں ۔ ہلکے  کپڑے جیسے کاٹن لان یا لیلن کے کپڑے پہنیں ۔  بار بار پانی پیئیں ۔ سر پر گیلا چھوٹا تولیہ رکھنے کہ عادت ڈالیں ۔ 
پاکستان ہو یا کوئی بھی ملک ہر جگہ محنت کرنے والوں کو گھروں سے باہر  نکلنا پڑتا ہے۔  موسم اور اپنے شعبے کے حساب سے اپنی حفاظت کرنا پہلی ترجیح ہونی چاہیئے جو کہ خصوصا پاکستان میں تو تصور ہی نہیں ہے  ۔ انکی توجہ بھی دلواتے رہنا چاہیئے۔ ان شدید موسموں میں بھی رزق کی تلاش میں نکلنے والوں کے گھروالوں اور خصوصا انکی بیویوں کو ان کا پیسہ خرچ کرتے وقت خدا کا خوف رکھنا چاہیئے ۔ اور اپنی فضول خرچیوں پر قابو رکھنا چاہیئے ۔ ویسے بھی  بلا ضرورت بازاروں کے چکروں سے پرہیز میں بہت سی حکمتیں پوشیدہ ہیں عقل والوں کے لیئے۔ 
کام سے یا باہر سے واپس آنے والوں کو خاص طور پر اس موسم میں اور عام طور پر بھی گھر میں داخل ہوتے ہی اپنے دن بھر کے رونے سنانا شروع کرنا سب سے بڑی جہالت ہے۔ جس میں ہماری خواتین پہلے نمبر پر ہوتی ہیں ۔ سارے دن بھر کے تماشے ،نقصانات ، عذاب کام سے لوٹنے والے کو سنانے والے یقینا اس کے دوست نہیں ہو سکتے ۔ کیونکہ انکی خواہش یہی ہو سکتی ہے کہ گھر آنے والا پھڑک کر مر جائے۔ اسکا دماغ پھٹ جائے،  ان کے دن بھر کی رپورٹ سنکر۔ خدا کا خوف بس یہ ایک بات ذہن میں بٹھا لیں تو آپ ایسے شیطانی کاموں سے یقینا بچے رہیں گے۔ کام سے  گھر واپس آنے والے/والی کو مسکرا کر سلام دعا کریں ۔  اسے پانی پلائیں ۔ نہانے دھونے کا موقع دیں ۔  چائے کھانے کا پوچھیں ۔  سونا چاہے تو کچھ آرام اور سونے اونگھنے کا موقع دیں ۔  رات کے کھانے کے بعد پھر اچھے  اور محتاط لفظوں میں اسے ضروری مسائل سے آگاہ کریں ، ساتھ میں تسلی بھی دیں کہ سب ٹھیک ہو جائے گا۔ بچوں کو بھی سختی سے  اس بری عادت سے بچائیں کہ باپ بھائی گھر آئے تو آتے ہیں اس کے کان کیساتھ چپک کر زمانے بھر جھوٹے سچے قصے صور کی طرح اس کے کانوں میں پھونکنے سے پرہیز کریں ۔ آپ کی نظر میں یہ معمولی بات ہو گی لیکن  عادت بڑے بڑے فسادات اور قتل و غارتگری کا موجب بن سکتی ہے۔  گھروں میں رشتے ٹوٹ جاتے ہیں ۔ کیونکہ گھر سے باہر کام کر کے واپس آنے والا کن کن مسائل سے نپٹ کر آ رہا ہے ؟ اسکی ذہنی حالت کیسی ہے؟  اس کی پریشانی کیا ہے ؟ کسی سے لڑ کر تو نہیں آ رہا؟ اس کا کام تو نہیں چھوٹ گیا؟ آج اس کا کام کاج اچھا گیا کہ نہیں ؟  کہیں جیب تو نہیں کٹ گئی؟ کوئی حادثہ تو نہیں ہو گیا؟ سو معاملات ہو سکتے ہیں لیکن آپ ان سے بلکل انجان ہیں ۔ اور اپنی زرا سے لاپرواہی یا بیوقوفی میں آنے والے کو مزید تلملانے کا موقع فراہم کر دیتے ہیں ۔ اس کا جس پر بس چلے گا وہ اسی پر اکثر بلاوجہ اپنا غصہ نکال دیگا۔ گھر کا ماحول تناو کا شکار ہو جائیگا ۔ ہو سکتا ہے کان بھرنے والی یا والے کو ہی پھینٹی لگ جائے۔ 😜
 اس کے علاوہ پودوں کا خیال رکھیں ان کی دھوپ چھاوں کا خیال رکھیں ۔  انہیں پانی پلاتے رہیں ۔ پرندوں کے لیئے کسی سایہ دار جگہ پر دانے پانی کا انتظام کیجیئے۔ ثواب کمائیے۔ 
یقین کیجیئے  چھوٹی چھوٹی باتیں اور احتیاطیں  بڑے بڑے سکھ لاتی ہیں ۔ 
                    ●●●


جمعرات، 23 جون، 2022

● قاری شاہد ڈاہ نواز ریسٹورنٹ میں میلاد/ رپورٹ



        رپورٹ :
          (ممتازملک ۔پیرس)




پاکستان کے معروف نعت خواں قاری شاہد محمود کیساتھ پیرس کے نواح میں  ایک خوبصورت محفل نعت کا انعقاد کیا گیا ۔ شاہ نواز ریسٹورنٹ میں شاہ نواز صاحب ، فیضان شاہ نواز، ابرار  کیانی صاحب اور ان کے عزیزوں نے مل کر اس یادگار محفل کا انعقاد کیا ۔  پروگرام کی نظامت حافظ اقبال اعظم صاحب نے کی۔ جبکہ نوجوان معروف نعت خواں قاری معظم اور دیگر نے بھی نعتیہ کلام پیش کرنے کی سعادت حاصل کی۔ لوگوں کی تعداد کام کے دنوں کے باعث بہت زیادہ تو نہیں تھی لیکن ایک بڑی تعداد ضرور تھی ۔قاری شاہد کو سامعین و حاضرین کی بھرپور توجہ اور محبت ملی۔ تصویری سیشن ہوا۔ 
 پروگرام کومقررہ وقت میں سمیٹا گیا ۔ جو کہ بہت اچھی مثال رہی۔ پروگرام میں کسی بھی وجہ سے شامل نہ ہو سکتے والے ایک بہترین پروگرام سے محروم رہے۔ پروگرام کے آخر میں ایک پرتکلف عشائیہ دیا گیا۔

جمعہ، 17 جون، 2022

مقابلہ/ کوٹیشنز

مقابلہ

عمر کبھی تجربے کو مقابلہ نہیں دے سکتی ۔
اسی لیئے کبھی 8 سال کا بچہ، 80 سال کے بزرگ کو اپنے تجربات کی بنا پر وہ سبق دے جاتا ہے جو اس کی ساری زندگی پر بھاری پڑ جائے۔ اس لیئے عمر کو کبھی عقل کا پیمانہ مت بنائیں ۔ 
              (چھوٹی چھوٹی باتیں)
                   (ممتازملک ۔پیرس)

ہفتہ، 4 جون، 2022

● عہدوں اور مراعات کی لوٹ سیل/ کالم

عہدوں اور مراعات کی لوٹ سیل
 آئیے اسکی آڑ میں قوم کا خون چوستے ہیں 👺👹☠
         تحریر: (ممتازملک ۔پیرس)

دنیا میں اگر کوئی سب سے باوقار اور باعزت شعبہ ہے تو وہ ہے محافظ کا ۔ جو آپ کو زندگی کا اعتبار وحوصلہ لوٹاتا ہے۔ جینے کی امنگ عطا کرتا ہے ۔ بیمار کی دوا ہوتا ہے محافظ، لیکن اس وقت تک جب تک یہ دوا مرض کی تشخیص کے بعد معالج کے مشورے کے مطابق تجویز کردہ خوراک کے مطابق ہی دی جائے ۔ بصورت دیگر اسی دوا کی خوراک کو بے حساب کر دیا جائے تو اس مریض کے لیئے یہی دوا شفا نہیں بلکہ پاگل پن اور موت کا سبب بھی ہو سکتی ہے ۔
یہی سب کچھ ہماری معیشت کیساتھ سرکاری ملازمین  وزراء ججز اور فوجی عہدیداروں کی صورت میں ہو رہا ہے ۔  جو دوا کے بجائے اس قوم کے لیئے زہر قاتل بن چکے ہیں لہذا اب جب ملک تباہی کی دلدل میں دھنس چکا یے یہ اقدامات اٹھانا اشد ضروری ہو چکے ہیں جیسے کہ
▪︎پاکستان میں فوری طور پر ہر سرکاری عہدیدار جیسے وزراء ججز  اور فوجی عہدیداروں کو مفت بجلی گیس  پٹرول کی فراہمی بند ہونی چاہیئے۔ 
▪︎انہیں ملنے والے مفت کے گھریلو ملازمین کی عیاشی بند ہونی چاہیئے ۔
▪︎انہیں ملنے والے جہازی سائز کے بنگلوں کا کرایہ خزانے سے جانا بند ہونا چاہیئے۔
▪︎انکے اور انکے خاندانوں کے ہسپتالوں کے اور سفری اخراجات کو بند کیا جائے۔
▪︎ دو بار کی ریٹائرمنٹ کے بعد کوئی بھی سرکاری و غیر سرکاری عہدہ یا نوکری رکھنا غیر قانونی قرار دیا جائے ۔ انہیں صرف رضاکارانہ سرگرمیوں میں حصہ لینے کی اجازت ہونی چاہیئے۔
▪︎ ریٹائرڈ برگیڈیئرز جرنیلوں کرنیلوں  ججز سے سبھی عہدے فی الفور واپس لے لیئے جائیں جو اس قوم کے حقداروں کی نوکریوں پر قبضہ کیئے بیٹھے ہیں ۔
 پاکستان دنیا کا وہ واحد ملک ہے جہاں ایک ایک آدمی دس دس عہدے دبائے بیٹھا ہے جو نہ صرف جونک بنا قومی خزانہ چوس رہا ہے بلکہ عام عوام پر اپنے عہدوں کی جگہ ریٹائرڈ فوجی عہدوں کی دھونس جما کر بدمعاشی کا مرتکب بھی ہو رہا ہے۔ 
جب یہ تمام مفت خورے اپنے پلے سے اپنا گھر اور گاڑی چلائینگے گے تبھی یہ اس قوم کے عام آدمی کے ساتھ خود کو جوڑ پائینگے اور انکے مسائل سمجھ پائینگے۔ 
ہمارا ملک ابھی ان عیاشیوں کا کسی طور بھی متحمل نہیں ہو سکتا ۔ 
آخر اسی ملک میں یہ تمام شاہانہ ٹھاٹھ باٹھ کس خوشی میں مفت مہیا کیئے جاتے ہیں ۔ ان عہدوں پر ہوتے ہوئے تو انہیں مراعات کی اندھی بارش میں نہلایا ہی جاتا ہے لیکن مسئلہ اس وقت اور بھی سنگین ہو جاتا ہے جب انکی ریٹائرمنٹ کے بعد بھی ان پر بیشمار نوازشات تادم مرگ جاری رہتی ہیں ۔ جیتے جی ایڑیاں رگڑ رگڑ کر جس ملک میں لوگ ماہانہ ہزاروں روپے بمشکل کما پاتے ہیں وہاں یہ خدائی فوجدار عہدیدار نوکریوں پر ہوتے ہیں تو ہر ماہ  لاکھوں کماتے ہیں اور رہٹائر ہو کر دس دس نوکریوں پر آکاس بیل کی طرح پھیل کر چمٹ جاتے ہیں اور ہر ماہ کروڑوں روپے ملکی معیشت سے چوسنے لگتے ہیں ۔ گویا ان پر یہ کہاوت سو فیصد صادق آتی ہے کہ جیتا ہاتھی لاکھ کا تو مرا ہوا سوا لاکھ کا۔ یہی وجہ ہے کہ ہر بچے کے پیدا ہوتے ہی اسکے والدین کا پہلا خواب پوتا ہے سرکاری نوکری۔۔ مطلب تاعمر کی مفت روٹیاں ۔ یقین مانیں اگر ان سارے عہدوں سے یہ تمام مالی عیاشیاں نکال دی جائیں تو ہر سال ایک ایک کرسی کے لیئے جو سینکڑوں بھرتی درخواستوں کا بوجھ پڑتا ہے وہ بھی خود بخود کم ہو جائے گا اور بیکار و بے مصرف لوگوں کی چھانٹی بھی ہو جائے گی۔ اس وقت صرف اور صرف اہل اور محنتی افراد ہی اس  نوکری کے لیئے خود کو پیش کرینگے جو اس ملک کی حقیقی خدمت کرنا اپنے ایمان کا حصہ سمجھیں گے ۔ 
                  ●●●

بدھ، 1 جون، 2022

● ضروری نہیں/ کوٹیشنز



ضروری نہیں یے کہ 
جو بات ہمیں  اچھی نہ لگے 
وہ جھوٹ ہی ہو 
یا ہو ہی نہ۔۔۔۔
       (چھوٹی چھوٹی باتیں) 
      (ممتازملک ۔پیرس)




پیر، 30 مئی، 2022

● فوری اور ضروری قانون سازی/ کالم

فوری اور ضروری قانون سازیاں
تحریر: 
(ممتازملک ۔پیرس)


25 مئی 2022ء  کو پاکستان میں ہونے والے ایک سیاسی جماعت کے تماشے نے بہت سے سوالات کھڑے کر دیئے ہیں ۔ عوامی و سرکاری املاک اور انسانی جانیں اس قدر سستی ہیں کہ جس کا جی چاہے دو چار ہزار جرائم پیشہ افراد کو لاکر جلاو گھیراو کریگا اور سپریم کورٹ کے ججز اس کے سامنے بچھتے چلے جائیں گے۔ اس کا فیڈر بنانا شروع کر دینگے۔ ان ججز کو جواب دینا پڑیگا کہ وہ اس عہدے پر اس قوم کو انصاف مہیا کرنے کے لیئے آئے ہیں یا کسی کی جماعت بنکر اسے خوش کرنے کے لیئے؟
کیا ان ججز کے نامناسب اور غیر حقیقی  فیصلوں نے ہی اس قوم کو آج کے حالات تک نہیں پہنچایا ؟ ان کو اتنا ہی شوق ہے سیاست کرنے کا تو ججز کے عہدے چھوڑیں اور کھل کر سیاست کریں قاضی جیسے محترم اور معتبر عہدے کو بدنام تو نہ کریں ۔ کوئی بھی سیاسی جماعت  یا حکومت اس بات کا حق نہیں رکھتی کہ وہ عوامی مفادات اور ملکہ سالمیت کے خلاف کوئی بھی قدم اٹھائے ۔  
حکومت وقت فوری قانون سازی کرے کسی بھی شہر میں آبادی میں کسی بھی قسم کا سیاسی اور مذہبی جلسہ جلوس دھرنا بین کر دیا جائے۔ ہر شہر سے باہر کچھ زمین ان مقاصد کے لیئے مختص کر دی جائے۔ پھر کوئی وہاں جتنے دن بھی اپنے احتجاج ریکارڈ کروانا چاہے، بیٹھنا چاہے،  لیٹنا چاہے اس بات کی اجازت لیکر کرے۔ لیکن ملکی سرکاری  اور عوامی املاک کو نقصان پہچانے والوں کو سخت سے سخت سزائیں دیکر نمونہ عبرت بنایا جائے۔ 
عدلیہ اور افواج پاکستان  کو حکومتی کاموں میں مداخلت سے باز رہنے کا حکم باقاعدہ قانون بنا کر  دیا جائے ۔
پرویز خٹک نے جس طرح وزیر اعلی کے بجائے عمرانڈوز بنکر پنجاب اور اسلام آباد پر چڑھائی اور قتل عام کا پروگرام بنایا اس کا زور ان کی بارود اور اسلحے کی بھری ہوئی گاڑیاں پکڑ کر کسی حد تک حکومت نے توڑ تو دیا لیکن اب اس کی جانب سے اعلان جنگ کا بھرپور جواب دینے کے لیئے ایسے شرپسندوں کو دیکھتے ہی گولی مارنے کا حکم دیا جائے۔ ان کے سرکاری عہدے ان سے واپس لیئے جائیں۔ انکے خلاف غداری ایکٹ کے تحت مقدمات درج کیئے جائیں اور فوجداری قوانین ان پر لاگو کیئے جائیں ۔ 
ایسے حالات میں  صوبوں کے بارڈرز سیل کرنے کا حکم دیا جانا چاہیئے ۔ یہ ملک کسی کے باپ کا اکھاڑہ نہیں ہے کہ یہاں کے عوام کی جانیں اور املاک ایسے ملک دشمنوں  کے لیئے پلیٹ میں رکھ کر پیش کر دی جائیں ۔ لہذا سپریم کورٹ اور فوج اس جماعت اور اس کے لیڈر کی نیپیاں بدلنا بند کرے اور پاکستان اور پاکستانی عوام کے حق میں عدل کرنا سیکھے۔ اور اگر ہمارے ججز اور جرنیل اس قابل نہیں ہیں تو استعفے دیں اور جا کر اپنے لوٹے ہوئے خزانوں کے بل پر بنے محلوں میں عیش کریں ۔ خدا کے لیئے پاکستان کو تجربہ گاہ بنانے سے توبہ کر لیں کیونکہ الحمداللہ پاکستان کا برا چاہنے یا کرنے والوں کے مقدر میں صرف اور صرف ذلت اور رسوائی ہی آئی ہے۔ 
                  ●●●

منگل، 24 مئی، 2022

● ◇ فتنہ/ نظم/ جا میں نے تجھے آزاد کیا

فتنہ

اے فتنہ پرورو تم کو 
حساب ان سارے فتنوں کا 
خود اپنے گھر میں دینا ہے

یہ شر جتنا بھی پھیلے گا
لہو جتنا بہاو گے 
تم اپنے منہ کی کھاو گے

جو پوری نسل کو برباد کر دے 
عالمی سازش کا قصہ ہے 
یہ کاذب اس تباہی کا بڑا مذموم حصہ ہے۔۔۔۔
               ●●●
کلام:(ممتازملک۔ پیرس)

جمعرات، 19 مئی، 2022

جوش/ کوٹیشنز

              جوش

جوش اصل میں  وہ لمحہ ہے جس میں جس کے پاس جو ہوتا ہے اس کا بہترین باہر نکل جاتا ہے جیسے دودھ ابلتا ہے تو اپنی ساری ملائی اور کریم باہر گرا دیتا ہے جبکہ گٹر جب ابلتا ہے تو اپنا سارا کوڑا باہر نکال دیتا ہے ۔
 انسان کی پہچان بھی اسکے  غصے اور جوش کے وقت ہی ہوتی ہے۔
(چھوٹی چھوٹی باتیں)
     (ممتازملک ۔پیرس)

ہفتہ، 14 مئی، 2022

پہچان/ کوٹیشنز ۔ چھوٹی چھوٹی باتیں


         پہچان


انسان پہچان کے گھر میں  اپنی گفتار کے دروازے سے داخل ہوتا ہے اور کردار کے دروازے سے باہر نکل جاتا ہے ۔ 
(چھوٹی چھوٹی باتیں)
      (ممتازملک۔پیرس)

دریچہ ادب پاکستان عالمی مشاعرہ


14مئی 2022ء
دریچہ ادب پاکستان 







√ مختصر تعارف ۔ ممتازملک



      مختصرتعارف  
      (ممتازملک۔پیرس)              

💛پیدائشی نام۔ ممتازملک 
💚قلمی نام۔ ممتازملک
💛تخلص۔ ممتاز 
💚ولد ۔ ملک خالد لطیف (مرحوم/ 23/12/1996)
💚والدہ۔ خورشید بیگم (مرحومہ/ 21/3/1999)
❤پیدائش ۔ 
راولپنڈی ،پاکستان 
💛تاریخ پیدائش۔ 
22 فروری 1971ء 
❤سکولنگ۔ 
گورنمنٹ گرلز ہائی سکول نمبر 2 ۔ مری روڈ راولپنڈی 
ٹاہلی شاہاں کے سامنے ۔ 
💔تعلیم۔
ایف اے ۔ بی اے پرائیویٹ ۔ 
مختلف ڈپلوماز 
💕ازدواجی حیثیت ۔ شادی شدہ۔ 7جنوری 1996ء
😍بچے۔ 3
دو بیٹیاں۔ ایک بیٹا
🧡ہجرت
7مارچ 1998ء سے فرانس میں مقیم ہوں.
💚میرے شعبہ جات ۔
پیرس فرانس  میں 1998ء سے لیکر 2014 ء تک  بحیثیت استاد ، 
 سماجی خدمتگار ، جنرل سیکرٹری۔ سٹیج سیکرٹری ، نعت خواں، منتظم  ایک مذہبی ادارے کیساتھ منسلک رہی ۔ 
💛2010 ء سے میں باقاعدہ شاعری اور لکھانے لکھانے کے ساتھ منسلک ہو گئی۔ اور اپنی پہلی شعری تخلیق بنام "مدت ہوئی عورت ہوئے" سے اپنے ادبی سفر کا آغاز کیا ۔ 
❤️میں شاعرہ , کالمنگار , لکھاری, نعت خواں ہوں ۔
❤️2007ء میں راولپنڈی سے گورنمنٹ انسٹیٹیوٹ سے بیوٹیشن کا باقاعدہ ڈپلومہ کیا ہے۔ 
❤️میزبانی
ٹی وی ہوسٹ(ondesi tv) 
 آن دیسی ٹی وی (ویب ٹی وی ۔ فرانس )  کی میزبان اور لکھاری۔ 
اس  پروگرام کی 29 اقساط یو ٹیوب پر بھی دستیاب ہے ۔ جس میں مختلف سماجی اور اخلاقی موضوعات پر آسان ترین زبان میں ایک عام انداز فکر میں اصلاح معاشرہ کے نقطہء نظر سے بات کی گئی ہے ۔۔
💜 عملا
 سوشل ورکر ہوں۔
💚مصروفیات ۔ 
گھرداری، ویب ٹی وی ہوسٹنگ ( ondesi tv)
تربیتی لیکچرز دینا، پروگرام ہوسٹنگ ، شاعری،  کالمنگاری، کوٹیشنز لکھنا، نعت خوانی ، افسانے اور کہانیاں لکھنا ۔ عالمی مشاعروں کی نظامت و نقابت 
💖مجھے تلاش کیجیئے
اردو کی سب سے بڑی ویب سائیٹ "ریختہ "اور "اردو پوائنٹ" پر بھی میرا کلام موجود ہے ۔  فیس بک ۔ ٹک ٹاک ۔ یو ٹیوب ، گوگل ، انسٹاگرام ، ٹیوٹر بھی بھی مجھے ڈھونڈا جا سکتا ہے ۔ 
💖تخلیقات۔
اب تک میری8 کتابیں شائع ہو چکی ہیں .
1- اردو شعری مجموعہ 
مدت ہوئی عورت ہوئے
 (2011ء)
2- اردو شعری مجموعہ 
میرے دل کا قلندر بولے 
 (2014ء)
3- کالمز کا مجموعہ 
سچ تو یہ ہے 
 (2016ء )
4- اے شہہ محترم 
(صلی اللہ علیہ وسلم) 
 نعتیہ مجموعہ کلام (2019ء)
5- "سراب دنیا " 
اردو شعری مجموعہ کلام (2020ء).
6. "او جھلیا "۔ 
پنجابی شعری مجموعہ کلام ۔ (2022ء)
7- "لوح غیر محفوظ" ۔
 مجموعہ مضامین (2023ء)
8۔ "اور وہ چلا گیا" ۔  
اردو شعری مجموعہ کلام (2024ء)

زیر طبع کتب: 8
 الحمداللہ  اس وقت 80 سے زیادہ ویب نیوز  سائیٹس پر میرے کالمز شائع ہو رہے ہیں جن میں 
جنگ اوورسیز ، ڈیلی پکار ، دی جائزہ ، آذاد دنیا،  عالمی اخبار ، اور بہت سے دوسرے شامل ہیں ۔ 
💚فرانس کے شہر پیرس میں پاکستانی خواتین کی پہلی ادبی تنظیم "راہ ادب "  کی بانی اور اس کی صدر بھی ہوں ۔ 
💐 اعزازات ۔ 
 میری کتاب سراب دنیا پر ایک ایم فل کا مقالہ ۔ طالب علم نوید عمر (سیشن 2018ء تا 2020ء) صوابی یونیورسٹی پاکستان سے لکھ چکے ہیں ۔ 
1 مقالہ بی ایس کے طالب علم مبین  نے بہاوالدین زکریا یونیورسٹی ملتان سے لکھا ۔سراب دنیا پر
1۔ دھن چوراسی ایوارڈ 
 چکوال پریس کلب 2015ء/
2۔حرا فاونڈیشن شیلڈ 2017ء/
3۔کاروان حوا اعزازی شیلڈ 2019ء/
4۔ دیار خان فاونڈیشن شیلڈ 2019ء/
 5۔عاشق رندھاوی ایوارڈ 2020ء/
6۔ الفانوس ایوارڈ 2022ء/ گوجرانوالہ 
گلوبل رائیٹرز ایسوسی ایشن اٹلی۔ سند سپاس ۔ اکتوبر 2023ء
گلوبل رائیٹرز ایسوسی ایشن اٹلی ۔
شیلڈ 
 فروری 2024ء
  اور بہت سے دیگر اسناد۔۔۔۔
💙 بلاگر ہوں ۔ 
  انٹرنیٹ پر  ہمارا بلاگ سائیڈ آپ کے لیئے تمام شائع مواد مفت پیش کرتا ہے .
MumtazMalikPairs.BlogSpot.com
            ------
میری ویب سائیٹ 
MumtazMalikParis.com
             -------
میرے آفیشل پیجز فیس بک پر 
ممتازملک۔ پوئٹس
https://www.facebook.com/profile.php?id=100050262589168
             ۔۔۔۔۔۔۔
ممتازملک آفیشل کا لنک
https://www.facebook.com/profile.php?id=100050310646875
                   ۔۔۔۔۔۔۔
ممتازملک فیس بک پیج کا لنک
https://www.facebook.com/mumtaz.malik.714
                   ۔۔۔۔۔۔۔۔

میرا ڈاک کا پتہ۔ پوسٹل ایڈریس
Mumtaz Malik
79avenue de Rosny
93250 Villemomble
Paris France
           ---------
برقی پتہ ۔ میلنگ ایڈریس
MumtazMalik222@gmail.com  
                  ●●●

جمعہ، 13 مئی، 2022

* گھر کر دو/ اردو شاعری ۔ اور وہ چلا گیا


                گھر کر دو 
کلام:
(ممتازملک ۔پیرس)

تھک چکی یوں یوں دربدر ہو کر
تم میرے نام کوئی گھر کر دو

تھوڑی عزت وقار دے پاو 
چاہتوں کا یہی نگر کر دو

گر صلہ کوئی دینا چاہو تو
اب مکمل میرا سفر کر دو

موت جیسی حیات کیا کرنی 
زندگی سے قریب تر کر دو

دیر اب بھی نہیں ہوئی کم تو
فاصلے سارے مختصر کر دو

چھوٹ جائے نہ منزل امید
اپنے قدموں کو تیز تر کر دو

جس جہاں میں نہیں سوا غم کے
اس سے ممتاز بے خبر کردو
                 ●●●             

● محبت لفاظی نہیں عمل / کالم


محبت لفاظی نہیں عمل 
تحریر: (ممتازملک ۔پیرس)

مجھے ماوں کیساتھ ہونے والی زیادتیوں پر اکثر مردوں سے سننا پڑتا ہے کہ  ایسی بات نہیں ھے ماں کے قدموں میں جنت ھے بدنصیب ھے وہ انسان جو اپنی ماں کی خدمت اور احترام نہ کرے۔ پوچھنا یہ ہے کہ کیا  صرف احترام سے ہی پیٹ بھر جاتا ہے ؟ بدن ڈھک جاتا ہے؟ دوا مل جاتی ہے؟
یہ تو وہی بات ہوئی کہ کسی کے سامنے سات رنگ کے پکوان پروس دیئے جائیں لیکن اس کے ہاتھ اور منہ باندھ دیا جائے۔کس کام کے پھر یہ پکوان اس بھوکے کے لیئے؟
جب بھی اپنی ماں اور اپنے بچوں کی ماں کے سر پر اس کے اپنے نام کی چھت کا مطالبہ کیا جائے تو 
کمال کا جان چھڑاو جواب ملتا ہے ہمیشہ کہ جناب سب کچھ اسی کے لیئے تو ہے ۔ جبکہ سوال وہیں قائم رہتا ہے کہ ہمارے معاشرے میں کتنے فیصد اپنی بیویاں یا اپنی مائیں ایسی ہیں جن کے سر پر ان کے اپنے نام کی چھت ہے؟ کچھ نے کہا کہ 
 گھر اسے ہمارے باپ نے دے دیا تھا ۔ سوال پھر وہیں کا وہیں ہے کہ اپنے نام سے اس بیچاری کو کیا ملا؟ تمام عمر کی قربانیوں کے بدلے کبھی باپ کا گھر پھر میاں کا گھر پھر بیٹے کا گھر ۔ وہ تو  ہمیشہ غیر محفوظ اور خالی ہاتھ  ہی رہی۔  
سچ تو یہ ہے کہ محبت لفاظی نہیں عمل کی متقاضی ہے۔ 
سو جس ماں کے قدموں میں آپکی جنت ہے۔ اس کے سر پر اس کے  اپنے نام کی محفوظ چھت کیوں نہیں ہو سکتی؟
پھر مجھے (نہ جانے کیا سمجھ کر) پاکستان میں عورت اور خصوصا ماں کے رتبے پر بلند و بانگ دعوے سنائے جاتے ہیں ۔ اس کی عزت و وقار کے گن گائے جاتے ہیں ۔ تو عرض یہ  ہے کہ میں بھی اسی پاکستان سے آئی ہوں ۔ ہر کلاس کی عورت کو جانتی ہوں اور ان کی اس پرسنٹیج کو بھی ۔ جہاں بیٹیاں قران سے  بیاہنے والے جائیداد بچانے  کی فکر لیئے بیٹھے ہیں ۔ 
بھائی بہنوں کی جائیدادیں ہڑپ کر جاتے ہیں۔ باپ بھائی بیٹی کو جہیز دیکر اس کے حصے کی شرعی ملکیت دبا جاتا ہے۔ بیوہ بھابیوں کا مال ان کے دیور جیٹھ ملائی سمجھ کر کھا جاتے ہیں ۔ مائیں گھروں میں بچے پلوانے تک نوکروں جیسی حالت میں رکھی جاتی ہیں  ۔یہ ہے ہماری نوے فیصد اصلیت ۔اس سے نظر مت چرائیں پلیززز۔ مانیں گے مرض
 تو ہی علاج کر پائیں گے اسکا ۔۔
والدین کا گھر صرف باپ ہی کے نام تھا نا۔ کتنے ہیں جن کی اپنی بیوی یا اپنی ماں کے نام کوئی گھر ہے؟
ڈرامے بازی نہ کریں تو  حقیقت کی زمین پر بیچاری گود سے گور تک دوسرے کے گھروں میں در بدر ہی رہتی ہے یہ ہے سچ۔۔۔
ایک بڑا اچھا نقطہ اٹھایا گیا کہ اگر ماں یا باپ کے نام کوئی گھر خرید کر دیا جائے تو باقی سارے مفت خورے بہن بھائی اسے وراثت بنا کر مفت کا حصہ بٹورنے کے لیئے عدالتوں اور قبضوں کے کھیل کھیلنے لگتے ہیں۔ جبکہ اس مکان کی خرید کسی ایک بہن یا بھائی کے پیسے سے ہوئی تھی۔  اس کے علاج کے لیئے پاکستان میں سرکاری طور پر بھی قانون میں  کچھ تبدیلی کی اشد ضرورت ہے ۔ جس کے تحت کسی بھی گھر کی یا کسی بھی جائیداد کی خرید کے وقت کاغذات میں ایک خانہ موجود ہونا چاہیئے جس میں لکھا جائے کہ یہ جائیداد کون اپنے پیسے سے خرید کر اپنے والد یا والدہ کے نام کر رہا ، رہی ہے ۔ اور ان کی وفات کے بعد یہ جائیداد خود بخود خرید کر دینے والے  نام پر منتقل ہو جائے۔ اس کا مضبوط انتظام قانونی کاغذات سے مکان تاعمر انکے نام ہو ۔ انکی وفات کی صورت یہ مکان خرید کر دینے والے کو واپس منتقل ہو جائے ۔
 اور اگر وہ خریدنے والا نہیں رہا تو یہ جائیداد  اس کی بیوی یا شوہر کے نام ہو جائے ۔ اور اگر اس کی بیوی یا  شوہر بھی نہیں رہی، رہا (موت یا طلاق کی صورت) تو اس کی اولاد کے نام ہو جائے۔ ماں کے نام گھر ہو۔ وہ ساری زندگی بلا شرکت غیرے اپنی مرضی سے اسمیں رہے ۔ لیکن اگر وہ گھر اسکی کسی اولاد نے خرید کر دیا ہو تو وہ  گھر وہ کسی کو بھی نہ بیچ سکتی ہے نہ ہی کسی  کے نام کر سکتی ہے۔ اس کی وفات کے بعد یہ گھر جس نے خرید کر دیا اسی کی ملکیت میں واپس چلا جائے گا۔  خودمختاری یہ ہو گی کہ وہ اگر میرے خرید کر دیئے ہوئے گھر میں مجھے بھی نہ آنے دینا چاہے تو مجھے اس کی اس بات کا بھی احترام کرنا ہے ۔ زبردستی اس کی زندگی میں اس گھر میں گھسنے کہ کوشش نہیں کرنی ہے۔ وہ اس کے کسی حصے میں کرایہ دار بھی ساتھ رکھنا چاہے تو رکھ سکتی ہے ۔ اس کی آمدن کو اپنے لیئے استعمال کر سکتی ہے۔ میں امید کرتی ہوں کہ یہ تحریر صاحب اختیار لوگوں تک ضرور پہنچے گی اور وہ اس پر قانون میں تھوڑا بہت ردوبدل کرتے ہوئے عوام کو آسانی مہیا کرنے میں اپنا کردار ادا کرینگے۔ اس وقت تک جائیداد ماں کے نام کرنے والے خود قانونی کاغذات بناتے وقت یہ ضروری شق شامل کروا کر اپنی جائیداد کو محفوظ بنا سکتے ہیں اور عدالتوں میں فاضل مقدمات بننے کی راہ کو روک سکتے ہیں ۔ 
                  ●●●

ہفتہ، 7 مئی، 2022

شرک اور ہمارا تغافل۔ کالم



شرک اور ہمارا تغافل
(تحریر/ممتازملک.پیرس)

آج جب دین کو سمجھنا یا جاننا آوٹ ڈیٹڈ تصور کر لیا گیا ہے ۔ مذہب کو زندگی پر بوجھ سمجھ لیا گیا ہے ۔ ہر ایک خود اپنا اپنا دین ایجاد کرنے میں مصروف ہے۔ اللہ پاک کا بھیجا ہوا دین انہیں ان کی من مرضی کرنے میں رکاوٹ لگنے لگا ہے ۔ ان کی اوارگیوں اور غیر اخلاقی اعمال کو ایک عنوان بھی چاہیئے اور اپنے مردہ ضمیر کو مطمئن کرنے کے لیئے دین کے نام پر کوئی جواز بھی مہیا کرنا ہے تو ہر من گھڑت بات کو بغیر کسی تصدیق کے اپنے من چاہے کے بیان پر دین کا نام دینے کی کوشش کرنا ایک تباہ کن  رواج بنتا جا رہا  ہے ۔ جس میں ساری دنیا محض مرد اور عورت کا جسم بن کر رہ جائے گی ۔ نہ کوئی رشتہ سلامت رہیگا اور اخلاقی تنزلی کا تو اب بھی کوئی پرسان حال نہیں رہا اور مذید  کیا تباہ ہو گا؟
 یہ بات ہم سب مسلمانوں کو سمجھنے کی سب سے زیادہ ضرورت ہے ۔ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم  سمیت سبھی انبیائے کرام  اللہ پاک کے محبوب و محترم اور معصومین ہیں ۔ لیکن وہ خدا سے  آگے نہیں ہیں  اور خدا کو  ان کے مشورے کی قطعی کوئی ضرورت نہیں ہے ۔ جبکہ ہمارے تفرقے بازوں اور حلوہ خوروں اور کئی شعراء نے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم  کے علاوہ بھی صحابہ اور اولیاء اللہ اور تو اور کئی نے علمائے وقت تک  کو اپنے اپنے لیئے مخصوص کر کے ان کی شان میں وہ وہ  قلابے ملائے ہیں کہ اگر اس پر غور کرنے کی توفیق مل جائے تو ہمیں کسی اور  کو مشرک کہنے کی قطعی کوئی ضرورت ہی نہ رہے ۔
ہر شخص خود کو مسلمان بھی کہتا ہے اور اپنی ہر محب ہستی کو نعوذ باللہ اللہ کے برابر کی کرسی پر بٹھانے کو بھی بےچین نظر آتا ہے ۔۔لیکن وہ شرک نہیں کرتا اس پر بھی اڑا ہوا ہے ۔۔۔خدا کے لیئے خالق اور مخلوق کے فرق کو سمجھو ۔ خالق صرف ایک ہے باقی دنیا کی اچھی سے اچھی اور حسین سے حسین مخلوق ہو ، چاہے بری سے بری اور  بدصورت سے بدصورت مخلوق ہو سب اس کی تخلیقات ہیں ۔ اگر کسی کی عزت اور مقام اللہ پاک نے زیادہ رکھا ہے تو بیان بھی فرما دیا ہے کہ اسکی وجہ صرف اور صرف اس کا تقوی ہے ۔ اور تقوی کیا ہے؟  تقوی یہ ہے کہ اچھائی اور  نیکی کے کاموں میں ایکدوسرے سے آگے ہونا ۔ اپنے قول فعل اور کردار میں بہترین ہونا ۔ حلال کاموں میں بھی جس میں ذرا سا بھی  اللہ کی ناراضگی کا شائبہ تک ہو اس سے بچنے کی کوشش کرنا ۔ یعنی ایک ہی مثال کو کافی سمجھیئے کہ انسان دنیا میں گناہوں سے پاک پیدا ہوتا ہے ۔ اس کا کردار سفید لباس جیسا ہوتا ہے اور جب سفید کپڑوں میں انسان کیچڑ والی جگہ سے  مجبورا بھی گزرتا ہے تو اپنے لباس کو سمیٹ لیتا ہے۔ اپنے پائنچے چڑھا لیتا ہے تاکہ اس کیچڑ کا کوئی چھینٹا اس کے لباس کو داغدار نہ کر دے ۔ بس یہ ہی ہے ایک متقی اور اللہ کی محبت اور قرب پانے کا یہی ہے واحد طریقہ ۔ کہ دنیا کے کیچڑ میں اپنے کردار کے سفید لباس کو داغدار ہونے سے بھی بچایا جائے اور سفر بھی جاری رکھا جائے۔  اسے ہی تقوی کہتے ہیں جو اللہ پاک بار بار قران پاک میں ارشاد فرماتا ہے ۔ 
اس لیئے آج مسلمانوں کو اللہ پاک ، اور نبیوں کے مقام کو سمجھے اور شرک کا مطلب جاننے کی اشد ضرورت ہے ۔ 
اپنے محبوب سے محبوب ہستی سے محبت ضرور کیجیئے ان کا احترام بھی کیجیئے ۔ لیکن یہ یاد رکھیئے کہ پیغمبروں اور  نبیوں کے علاوہ دنیا کی کوئی نیک سے نیک ہستی ایسی نہیں ہے جو گناہوں سے یا غلطیوں سے پاک ہو ۔ یہ سب انسان ہیں ۔ اور اللہ پاک کے عطا کردہ بشری تقاضوں میں مجبور ہوتے ہیں۔
اللہ پاک ہم سب کو اسلام کی سمجھ اور ہدایت عطا فرمائے۔ آمین
                    ●●●

جمعرات، 5 مئی، 2022

جاوید قمر جاوید کی کتاب رات کا مسافر پر تبصرہ/ تبصرہ۔ بھارتی شاعر


نوجوان شاعر جاوید قمر جاوید کا مجموعہ کلام رات کا مسافر پڑھنے کا اتفاق ہوا ۔ اندازہ ہوا کہ اس نوجوان کے کلام میں انسانی جذبات کے کئی رنگ نمایاں ہیں ۔ کہیں وہ اپنی محبت کا اظہار کرتا دکھائی دیتا ہے تو کہیں زمانے کے ہاتھوں ستائے جانے پر شکوہ کناں ہے۔ حالات اس کے جذبات پر پورے طرح اثر انداز ہوتے دکھائی دیتے ہیں ۔ 
جیسے کہ فرماتے ہیں 
زمانے کو ستانے کے سوا کچھ بھی نہیں آتا 
مسلسل ظلم ڈھانے کے سوا کچھ بھی نہیں آتا 

بچھڑ کر شاخ سے بھی مسکراتے انکو دیکھا ہے
گلوں کو مسکرانے کے سوا کچھ بھی نہیں آتا 

نہیں ہے فرق کوئی لیڈروں میں اور طوائف میں
انہیں دولت کمانے کے سوا کچھ بھی نہیں آتا 
میں سمجھتی ہوں اس مکمل کتاب میں یہ کلام ہی اس نوجوان کی سوچ اور کلام پر اس کی گرفت کو سمجھنے کے لیئے کافی ہے۔ میں دعا گو ہوں کہ اللہ پاک اس نوجوان کے قلم میں بھرپور تاثیر و  توانائیاں عطا فرمائے۔ آمین
نیک تمنائیں ۔ 5مئی 2022ء
منجانب۔ ممتازملک 
شاعرہ ۔ کالمنگار
پیرس۔ فرانس 

ہفتہ، 16 اپریل، 2022

وقت اور انکار/ کوٹیشنز


ہم جو کچھ سمجھنے سے جتنی شدت سے انکار کرتے ہیں "وقت" اتنی ہی شدت سے ہمیں وہ سب سمجھانے کو تیار رہتا ہے۔
 (چھوٹی چھوٹی باتیں)
      (ممتازملک ۔پیرس)

بدھ، 13 اپریل، 2022

● سائیبر وار دجالی فتنہ/ کالم

سائیبر وار دجالی فتنہ
تحریر:
( ممتازملک ۔پیرس)

 پاکستان کے حالات کو دیکھتے ہوئے ہر ذی شعور کو اس بات کی اندازہ بخوبی ہو چکا ہو گا کہ ہم دجالی فتنوں کے دور کے ایک بڑے فتنے سے دوچار ہو چکے ہیں ۔ سائیبر وار ہمارے گھروں پر حملہ آور ہو چکی ہے ۔  یہ وہی وقت ہے کہ جس کے بارے میں ہمارے پیارے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم  واضح طور پر فرما چکے ہیں کہ(ترجمہ)نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”کیوں نہ میں تمہیں دجال کے متعلق ایک ایسی بات بتا دوں جو کسی نبی نے اپنی قوم کو اب تک نہیں بتائی۔ وہ کانا ہو گا اور جنت اور جہنم جیسی چیز لائے گا۔ پس جسے وہ جنت کہے گا درحقیقت وہی دوزخ ہو گی اور میں تمہیں اس کے فتنے سے اسی طرح ڈراتا ہوں، جیسے نوح علیہ السلام نے اپنی قوم کو ڈرایا تھا۔“حوالہ کتاب:صحیح بخاری/حدیث نمبر:3338
اس حدیث کی روشنی میں آج کے حالات کا جائزہ لینے کے لیئے بہت زیادہ تگ و دو کی بھی ضرورت نہیں ہے۔ سب کچھ واضح ہو چکا ہے ۔ زبانی جمع خرچ کی زیادتی، کھل کر توہین انبیاء بصورت بدکردار لوگوں کو ان کے برابر قرار دینے جیسے مشرکانہ عقائد ، دین سے دوری اور نابلد ہونے کے باوجود خود کو دین کا سب سے بڑا عالم ثابت کرنے کی بیہودہ کوششیں ، داڑھی اور حجاب کو بدکردار و بدزبان لوگوں کا اپنی ڈھال کے طور پر استعمال کرنے کا رواج یا۔ طور فیشن اپنانا ، دوسروں کو اپنے کردار اور اعمال سے متاثر کرنے کے بجائے انہیں ڈرا دھما کر دباو میں لانے کی کوششیں ، جب اپنے پاس دکھانے کو کوئی کارکردگی نہ ہو تو سوال پوچھنے والے پر بہتان تراشی کرنا، فرد واحد کے ذاتی عشق میں اپنے ملک مذہب اور اخلاقیات کا جنازہ نکالنا، جعلسازی کے زریعے اپنی بات کو اکثریت کی رائے ثابت کرنے کی مذموم کوششوں سے ملک و قوم کو خطرے میں ڈالنا، جھوٹ بولنا اور کھل کر بولنا اور شرم سے دور دور کا بھی واسطہ نہ ہونا اور بھی بہت کچھ جو صرف باضمیر اور باکردار لوگوں کو ہی دکھائی دے سکتا ہے۔ آج ہم ان سب سے برسر پیکار ہیں ۔ اللہ کی مدد کی طلب ہم پر لازم ہے تو اپنی نیتوں اور عقائد کی درستگی ہھی ہمارے ایمان کی سلامتی کی ضامن ہو سکتی ہے۔ ہمارے نام نہاد مسلمان حکمران ( جس نے اپنی زندگی کے 70 سال بے دینی میں مشرکین کے ساتھ ان کے انداز میں گزاری ) نے بدقسمتی سے لمبی زبان والے ،  بے حیا آنکھوں ، دین سے عاری و بیزار  وہ زونبیز تیار کر لیئے ہیں جو دوسروں کو کیا خود اپنے پیدا کرنے والوں کو بھی لمحوں میں موت کے گھاٹ اتارنے کو تیار ہیں تو دوسری جانب خود اپنے وجود کی بوٹی بوٹی نوچنے میں نہ حیران ہیں نہ پریشان۔ ان کے دل سے خدا کا خوف رخصت کیا جا چکا ہے تو ایمان کے ہونے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔ ایسے حالات میں ہر ذی شعور اور باشعور اہل ایمان بجا طور پر پریشان ہے۔ وہ اپنی رائے دینا اور اصلاح کی جانب رہنمائی کرنے کا فرض ادا کرنا چاہتا ہے تو اسے  نادان دوست یہ سمجھاتے ہیں کہ بھئی تمہارا کیا کام ہے ان معاملات میں بول کر خود کو گالیاں دلوانا ، ذلیل کروانا ، خود کو خطرے میں ڈالنا ۔ خاموش رہو مزے مزے کی نرم نرم باتیں کرو جس سے ہم لطف اندوز ہوں اور کچھ سیکھیں ۔۔کمال کی بات ہے نا کہ گھر میں اگ لگ جائے اور گھر والے کو مشورہ دیا جائے کہ بیٹھو بھائی آگ بجھانا تو فائر برگیڈ کا کام ہے آو ہمارے ساتھ بیٹھ کر فائربرگیڈ کا انتظار کرو تب تک ہمارے ساتھ خوش گپیاں کرو ؟؟؟
یا ہھر گھر میں ڈاکہ پڑ جائے ڈاکو تمہارے سامنے ہے تم انہیں پکڑنے کی کوشش سے خود کو خطرے میں مت ڈالو۔ یہ تو پولیس کا کام ہے آو بیٹھو گپیں لگاو اور پولیس کا انتظار کرو؟
یہ کیسی جاہلانہ اور بزدلانہ سوچ پنپ رہی ہے ہمارے اندر؟ کیا ہم اس قدر بےایمان ہو چکے ہیں کہ آواز اٹھا کر بھی کسی برائی کو برائی ،جھوٹ کو جھوٹ ، غلط کو غلط کہنے کے قابل نہیں رہے؟ ایسے سوچ والوں سے مودبانہ عرض ہے کہ جب ملک حالت جنگ میں ہو تو ہر شعبے کی طرح لکھاریوں اور شاعروں کا بھی فرض ان حالات پر رہنمائی کرنا ہوتا ہے نہ کہ عشقیہ شاعری کرنا اور کوا حلال ہے یا حرام جیسی بحث و تحقیق۔ وگرنہ ایسی ہی قوم پر چنگیز خان نے ان کی کھوپڑیوں کے مینار تعمیر کر دیئے تھے ۔ جن کی لائبرییاں دنیا کی بہترین اور سب سے زیادہ کتب سے بھری ہوئی تھیں ۔ جنہیں تلوار چلانے  کے موقعے پر بھی زبان چلانے پر زیادہ بھروسہ تھا۔  ایسے میں نتیجہ کھوپڑیوں کے میناروں کہ صورت ہی تو سامنے آنا تھا اور اچھا ہی تو ہے جو دماغ استعمال ہی نہیں ہونے ان کے مینار ہی بن جانا چاہیئیں ۔
                   ●●●

اتوار، 10 اپریل، 2022

نیرو کی بانسری۔۔۔/ کالم


نیرو کی بانسری
چوہے کے بل سے
تحریر:
(ممتازملک۔پیرس)



شاہین 3 کا کامیاب تجربہ فوج اور قوم کو مبارک ہو۔

آج کے یادگار دن جب ہر ادارے نے اپنی ذمہ داریاں بخوبی نبھائیں۔

فوج نے اپنے تجربات کیئے

سپریم کورٹ نے اپنی کاروائی نبھائی اور سیاستدانوں نے اپنا محاذ بخوبی صبر استحکام کیساتھ نبھایا 

9 اور 10 اپریل 2022ء کی تاریخیں پاکستان کے 75 برسوں میں امر ہو گئیں ۔💚❤

ملک کا بدترین بادشاہ سلامت پاکستان کو ٹکڑوں میں بیچنے والا ، لوگوں کا خون چوسنے والا ، چوروں اور ڈاکوں کا سہولت کار ملک کی معاشی و سماجی تباہی کا ہیرو جناب عمران خان صاحب کونسا منہ لیکر آج  22 کروڑ عوام کو ورغلا رہا ہے کہ آوووو میں  چوہے کی طرح بل میں چھپنے کا ورلڈ کپ بھی جیت لایا ہوں ۔ بھارت تک کو بہترین ریاست کا درجہ اس بنا پر دے آیا ہوں کہ وہ ہمارے کشمیریوں اور مسلمانوں کو تڑپا تڑپا کر مار رہا ہے انکی عزتوں سے کھیل رہا ہے ۔ دو سال سے انہیں کی زمین کو انکی جیل اور عقوبت خانہ بنا چکا ہے ۔ اے بھارت تیرا مودی ہیرو خود دار باکمال میری قوم کرپٹ چور ڈاکو غدار ۔۔۔آ مجھے بچا لے ۔۔

لاکھوں روپے کی تنخواہوں پر اور بے تنخواہ اپنی سوشل میڈیا جعلی اکاونٹس بنوا کر ملک میں جعلی مینڈیٹ اور فالوورز دکھا کر سارے پاکستان کیا ساری دنیا کو بیوقوف بنانے کا کھیل ان چار سالوں میں بھرپور انداز میں کھیلا گیا ۔ پہلے تو ان سے گزارش ہ کہ زمین پر آئیں اور ایک فرد اکاونٹ کے زرہعے سائیبر کرائم قانون بنا کسی تخصیص کے ہر پارٹی اور  تنظیم کے خفیہ مقاصد کو بے نقاب کرے۔  جس کے لیئے سپریم کورٹ کو جنگی بنیاد پر اس مسئلے  پر احکامات جاری کرنا  چاہیں ۔ 
 جہاں پاکستانی مہنگائی اور بدانتظامی اور حکومتی نااہلیوں کے سبب  خون تھوک رہے ہیں اور نیرو بانسری سنانے کو مجمع لگانے کی تیاری کر رہا ہے ۔۔۔پاکستانیو گھبرا لو اب ،  تاکہ ایسے دجالی شیطانوں سے بچ سکو جسے ساری دنیا کے یہودیوں کی اور خصوصا سابقہ یہودی سسرال کی موجودہ حمایت نے جعلی عالمی مسلم لیڈر بنانے کی ایڑی چوٹی کی کوششوں کی انتہاء کر دی۔۔۔اس کے شر سے خبردار ہو جائیں ۔۔اس ملک پاکستان میں ان چار سالوں کے دوران ہونے والے جنسی جرائم ، مادر پدر آذادی کی سرپرستیاں ، ننگی عورت مارچ کی سرپرستی، میڈیا پر بے حیائی کی انتہاء،  اسرائیلی جہاز کی پاکستان میں آمد ، اسلام آباد میں ہفتوں اسرائیلی اور ہم جنس پرستوں کے جھنڈوں کا لہرایا جانا، آئی ایم ایف کو ملک بیچنا، اسٹیٹ بینک کو غیر ملکیوں کے حوالے کرنا، ترقیاتی منصوبوں کو چار برسوں تک لٹکائے رکھنا ، رنگین فلمیں اور گانے بجانے کے دھوکے میں عوام کے صحت اور سہولتوں کے فنڈز اپنے ڈاکوں کو چاٹ جانے پر تماشا دیکھنے والا پاکستانیوں سے اپنی معصومیت کا سرٹیفیکیٹ لینے آ رہا ہے ۔ ۔۔۔۔
اللہ پاکستان کی حفاظت فرمائے۔ آمین
پاکستان زندہ باد 💚

جمعہ، 1 اپریل، 2022

خوش فہمیاں بہت ہو چکیں/ کالم

بہت ہوئیں خوش فہمیاں 
تحریر:
    (ممتازملک ۔پیرس)

 عمران خان صاحب آپ کے پے در پے جھوٹ اور پلٹے بازیاں نہ عوام کی زندگی کو بدل سکے نہ ہی اس ملک کی قسمت بدل سکے ۔ تقریوں سے ملک نہیں چلا کرتے ۔ ہم نے آپ کی خفیہ طاقتوں کے ذریعے جبری حکومت لائے جانے پر بھی آپ کو خوش آمدید کہا اور نیک خواہشاٹ کا اظہار کیا ۔ لیکن افسوس آپ نے اپنے ہی ہر قول کو مذاق بنا دیا ۔ آپ کو اب جانا ہی ہو گا لیکن آپ کا پھیلایا ہوا گند پچھلے 70 سال کے گند پر بھی بازی لے گیآ ہے ۔ اسے صاف کرنے میں اب قوم کو کیا کیا بھگتنا پڑیگا اللہ جانے ۔ لیکن اب آپ کا جانا ملکی سلامتی کے لیئے بیحد ضروری ہو چکا ہے ۔ آپ کے پھیلائے ہوئے تنخواہ دار جعلی اکاونٹس لوگوں پر کتے کی طرح بھونک بھونک کر آپکو ڈان بنانے میں کامیاب نہیں ہو سکتے۔ اس  طرح حکومتیں کامیاب نہیں ہوا کرتیں ۔ کامیابی کے لیئے زمین پر کام کرنا پڑتا ہے جو حقیقت میں دکھائی بھی دے ۔ لوگوں کی زندگیوں کو آسان بھی کرے ۔ لیکن عمران جان کے جانے کے بعد بھی جس کی بھی حکومت برسر اقتدار آئے گی وہ ابھی سے اس بات کو اپنے ذہن میں بٹھا لے کہ اسے بھی اسی رد عمل کا سامنا کرنا پڑیگا جو موجودہ حکومت کو نااہلیوں پر دیکھنا پڑا ہے ۔ لہذا کوئی یہ نہ سمجھے کہ اس کی حکومت کے گند کو کارپٹ کے نیچے کرنے کی اجازت دی جائیگی۔ پاکستانی عوام کو دنیا میں عزت و وقار کیساتھ جینے کا پورا حق حاصل ہے۔ اور اس ملک کے عوام کے ساتھ زبانی جمع خرچی کا کھیل اب بند ہونا چاہیئے۔  پاکستانی عوام کو جس گندی زبان اور بدلحاظ بدزبان سیاست کا تحفہ موجودہ حکومت نے دیا ہے اس کی دنیا کی تاریخ میں بھی مثال مشکل سے ہی ملے گی ۔ کام نہ کرنا بس لوگوں کے ساتھ بڑھ چڑھ کر بدزبانی کرو تاکہ لوگ اپنی عزت بچانے کے لیئے گونگے بہرے ہو جائیں ۔ یہ کونسا رہاست مدینہ کا نمونہ ہے یا کونسا یورپ ہے جہاں سے عمران خان صاحب نے یہ طرز حکومت اپنایا ہے؟ ہم تو آج تک یہ بات جاننے سے محروم ہیں ۔ آنے والی حکومت چاہے کسی کی بھی ہو موجودہ حکومت کے نقش قدم پر چلنے سے باز رہے ۔ ہمیں تعلیم چاہیئے اچھی تربیت چاہیئے ۔ ملک میں فورا ہماری  قومی زبان اردو  کا نفاذ چاہیئے۔ ہمیں ترقی چاہیئے۔ انصاف چاہیئے ۔صحت چاہیئے ۔ وہ سب کچھ چاہیئے جو ترقی یافتہ ممالک کے عوام کو حاصل ہے لیکن ہمارے مذہب اور معاشرت کی حدود کے اندر رہ کر چاہیئے ۔ اس کے لیئے نہ ہمیں کرپشن منظور ہے نہ غنڈہ گردی ۔ اس لیئے پاکستان کی حفاظت اور پاکستانیوں کو حقوق کی فراہمی اور  انکی معاشرتی تربیت کا اہتمام کیجیئے تاکہ اس قوم میں صبر ،برداشت، مساوات اور رواداری کو فروغ دیا جا سکے ۔  ہمیں ہماری ترقی زمین پر دکھائی دینی چاہیئے اور دنیا بھر میں سنائی دی جانی چاہیئے۔ 
                    ●●●

بدھ، 23 مارچ، 2022

دیس پاکستان ہے / شاعری ۔ قومی شاعری



دیس پاکستان ہے 
کلام: (ممتازملک ۔پیرس)



سرحدوں پر آج بھی پہرے پہ ہیں وہ عاشقان
اس وطن کی آرزو میں دی تھی جن لوگوں نے جان
جی رہے ہیں جو انہیں احساس ہی شاید نہیں 
کاٹ کر پردیس آو تو سمجھ پاو گے مان
گود میں کھیلے ہیں جسکی ملک پاکستان ہے
دیس پاکستان ہے بس دیس پاکستان ہے
۔۔۔۔۔
کاش کہ خود احتسابی بھی میرا ایمان ہو
زندگی میں عشق کلمہ صرف پاکستان ہو
نوچتے ہیں کاٹتے ہیں روز اسکو بانٹتے ہیں
ظلمتوں سے یوں نکلتا ہے کہ جگ حیران ہو 
گود میں کھیلے ہیں جسکی ملک پاکستان ہے
دیس پاکستان ہے بس دیس پاکستان ہے
۔۔۔۔
پانیوں میں اسکے رکھی ہے شفا میرے لیئے
گرم ہو یا سرد ہو اسکی ہوا میرے لیئے
کیوں شکایت نہ کروں جب درد ہوتا ہے تجھے
کھل کے جب برسی ہے رحمت کی گھٹا میرے لیئے 
گود میں کھیلے ہیں جسکی ملک پاکستان ہے
دیس پاکستان ہے بس دیس پاکستان ہے
۔۔۔۔۔۔
پاک ہے جو سر پہ اپنے ایک سائیبان ہے
دشمنوں سے  کیوں ڈرے خود رب جو نگہبان ہے
ہم نے خود ممتاز رہنا ہے سبھی اقوام میں 
دوسروں کی بھی حفاظت اپنا تو ایمان ہے
گود میں کھیلے ہیں جسکی ملک پاکستان ہے
دیس پاکستان ہے بس دیس پاکستان ہے
●●●

شاعری / /مدت ہوئ عورت ہوۓ/ ممتاز قلم / سچ تو یہ ہے/ اے شہہ محترم/ سراب دنیا/ نظمیں/ پنجابی کلام/