ممتازملک ۔ پیرس

ممتازملک ۔ پیرس
تصانیف : ممتازملک

پیر، 24 اگست، 2015

بابائی وباء۔ کالم۔ سچ تو یہ ہے








بابائی وباء
ممتازملک. پیرس










ساری زندگی محبتیں مشقتیں

 کر کے ہر ہر طریقے سے مال بنایا ہے. بیویوں کو صبر شکر اور تسبیح کے راستہ دکھا کر اب جب بیرون ملک خصوصا اور یورپی بابے بالعموم بیوی بچوں کے ہوتے ہوئے بھی پاکستان جا جاکر سہرے باندھ رہے ہیں .














اپنی جانب سے ان بابوں کو 

اپنی بیویوں سے بہت شکایتیں 

ہیں جن کا ازالہ یہ کسی نوعمر 

لڑکی کی زلفوں کی چھاؤں میں 

بیٹھ کر کرنا چاہتے ہیں۔ 

یہ جانے سوچے بنا کہ اس پرانی 

بیوی 

کو بھی ان کی کس کس بات یا حرکت 

سے کیسی کیسی گِھن آتی ہو گی لیکن 

وہ اسی گھر میں میں ان کی ساری حق 

تلفیوں کے باوجود اپنے بچوں کے لیئے خاموشی سے زندگی گزار رہی ہے ۔ کہ 

ہمارے 

منافق معاشرے میں میاں نے دس شادیاں بھی کی ہوں تو اسے "مرد ہے "کہہ کر 

نطر انداز کر دیا جاتا ہے جبکہ عورت کسی مرد کو چھوڑنے کا فیصلہ کر لے 

تو سب سے پہلے اس کے کیریکٹر کی دھجیاں اڑائی جاتی ہیں ۔ یہ جانے بنا کہ 

اسے بھی حق اللہ ہی نے دیا ہے اپنی عذاب ناک زندگی سے چھٹکارا پانے کا ۔ 

یہ صورت حال عام طور پر بچوں کی شادیوں کے معاملات میں دیکھی جا 

سکتی ہیں ۔ اس بیوی کی ضرورت پر یا بیماری پر یا کسی شوق پر خرچ کرنا 

تو فضول خرچی ہو سکتا ہے جو آپ کے ایک ایک انداز سے آپ کے اگلے قدم 

کو جان لیتی ہے ۔ لیکن ایک نوعمر بیٹیوں جتنی عمر کی لڑکی کی ہزاروں 

نازیبا فرمائشیں بھی گراں نہیں گزرتی ہیں ۔ شاہد معاملہ کسی پردہ پوشی کا ہو 

سکتا ہے ۔ ظاہر ہے محبت کی چڑیا کا تو وہاں گزر ہو ہی نہیں سکتا ۔ 

 ان کا ناقص خیال ہے کہ یہ ان کا کوئ کارنامہ ہے کہ وہ  

جوان کم عمرلڑکیوں سے شادی شادی کھیل رہے ہیں بیس بیس پچیس پچیس سال 

کے فرق سے کھیلے جانے والے اس ڈرامے میں کسی بھی جانب سے وفاداری  

یامحبت بلکہ تھوڑا اور آگے جائیں تو عزت کا بھی کوئ تعلق نہیں ہوتا . بابا جی 

کی جیب سے مال اور لڑکی کے دماغ سے لالچ نکال دیاجائے تو یہ رشتہ دھڑام 

سے منہ کے بل آ گرتا ہے .

کسی نے ایسے ہی بابے سے شادی کرنے والی نوجوان لڑکی سے پوچھا کہ آپ 

نے اس باپ کی عمر والے بابے سے شادی کیوں کی ؟

تو وہ اٹھلا کے بولی

ویکھو جی ، بابے سے ویاہ کرنے کے سب سے بڑے دو فیدے

ایک تو ان کی اِن کم

دوسرے ان کے دِن کم

سوچئے تو جنہیں یہ "دِن "کم بابا سمجھ رہی ہوتی ہیں اکثر وہ بابا اس لڑکی کو 

بھی اپنے ہاتھوں قبر میں اتار جاتاہے کہ بابوں کی گارنٹی کون دیگا . یا شاید اس 

لڑکی کی لکھی اسی کے ہاتھوں تھی. ایسے ہی ایک بابا جی سے محلے میں 

لڑکیوں کو آنکھوں آنکھوں میں تاڑنے پر کسی نے پوچھا کہ

بابا جی آپ کو شرم نہیں آتی'' لتاں تہاڈیاں قبر وچ تے ایسیاں حرکتاں ...''

تو بابا بے شرم بولا ''لتاں قبر وچ نے منہ تے حالی باہر اے...''

یہ بابے پاکستان میں نوعمر بیوی چھوڑ کر اسے اتنی رقم بھیجتے ہیں جو شاید 

اپنی عمر کی اپنے بچوں کی اماں کو دس سال میں بھی نہ دی ہو . اور وہاں اس 

مال پر اس لڑکی کا پورا خاندان عیش کرتاہے . اور بابا جی کو ایک  ہنی مون 

پیریڈ کی نام نہاد بیوی مل جاتی ہے.

سچ کہیں تو اگر وہ لڑکی پاکستان میں کسی گناہ میں بھی مبتلا ہو رہی ہے تو 

یقینا اس کے ذمہ دار یہ ہی بابا جی ہے . اس پر طُرّہ یہ کہ دونوں کی 

ضروریات الگ ، خواہشات الگ،شوق الگ.ایک کو چائینیز پسند تو دوسرے کو 

گردے کپورے ، ایک کو کیک کھانا ہے تو دوسرے کو چینی سے پرہیز شوگر 

فری ، ایک کو برف کا گولہ کھانا ہے تو دوسرے کو کھانسی کا سیرپ .کون سا 

سمجھدار آدمی اپنی زندگی کیساتھ ایسا مذاق کرنا پسند کریگا. ساتھی ،دوست ، 

بیوی اور ہمسفر جتنا پرانا ہو تا ہے اتنا ہی آپ اس کو اور وہ آپ کو سمجھنے 

لگتے ہیں . ایک دوسرے کی عزت اور خواہشوں کا احترام کریں تو یقین جانیئے 

آپ کو اپنے جیون ساتھی میں کبھی کوئ عیب نظر نہیں آئے گا اور آئے بھی تو 

یہ سوچیں اور گِنیں کہ اس میں کوئ تو ایسی بات بھی ہو گی جو آپ کو بہت 

اچھی بھی لگتی ہے .اسی بآت کی محبت میں ایک دوسرے کو اپنی اپنی زندگی 

میں سانس لینے کی جگہ دیتے رہیں گے اور سال بھر میں چند روز یا چند ماہ 

ایک دو سرے سے الگ رہ کر دور رہ کر بھی دیکھیں آپ کو ایک دوسرے کی 

ایسی بہت سی باتیں معلوم ہوں گی جو آپ کو ایک دوسرے سے مزید محبت 

دلائیں گی .اور اپنی پرانی بیوی یا شوہر سے بھی آپ کو اپنا رشتہ نہ تو پرانا 

لگے گا اور نہ ہی بوجھ محسوس ہو گا. یہ بات صرف دو میاں بیوی کے بیچ ہی 

محدود نہیں ہوتی بلکہ اس رشتے کے اثرات آپ کی اولادوں تک میں سرایت کر 

جاتے ہیں .
                              ..................

منگل، 18 اگست، 2015

دین کا مذاق بند کرو


                
دین کا بند کرو
ممتازملک ۔ پیرس


ویسے توپاکستان میں کوئی بھی معاملہ یا حادثہ ہو جائے اسے کسی دوسرے حادثے سے ری پلییییس کر دیا جاتایے. تاکہ عوام کا غم کم کیا جا سکے . بجلی کو روئیں گے تو گیس کا رونا ڈلوا دیا جایئے گا ، گیس پر تڑپیں گے تو پانی کا مسئلہ پیدا کر دیا  جائے گا . اور ہماری  اسلام کی ٹھیکیدار مسلمان جماعتیں (مسلمان اس لیئے کہ وہ اپنے سوا کسی کو مسلمان سمجھتے ہی کب ہیں )مہنگائی پر تو میدان میں  آئیں گی لیکن کتنی حیران کن بات ہے میں نے ان نام نہاد دینی جماعتوں کو کبھی کسی زناکار  کے خلاف، قاتل کے خلاف ،تیزاب پھینکنے والوں کے خلاف ، کاروکاری کے خلاف، وطن فروشووں کیخلاف،بچوں کے بدفعلی کے مجرمان کو پھانسی دلانے کے لیئے کبھی نہ تو کوئی جلسہ  کرتے دیکھا، اور نہ ہی کسی مقام سے ان کی مذمت  کی کوئی خبر سنی  . یہ کیسی داڑھیاں ہیں ان کے چہرے پر جس میں ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کی کسی سنت کی کوئی جھلک ہی نہیں . کہیں حلیہ بنا کر اپنے آپ کو چھپانے کی مکروہ  صیہونی سازش تو نہیں . ہمارے نبی نے تو بچوں اور خواتین کے جتنے حقوق اور ان کا خیال رکھنے کی تاکید کی ہے اور ان کے  لیئے کئی مقام میں بار بار خداسے ڈرنے کا حکم سنایا ہے اس حساب سے تو ہمارے ملک کو بچوں اور عورتوں کے تحفظ کے لحاظ سے مثالی ملک ہو نا چاہیئے تھا .لیکن یہاں تو سینکڑوں خواتین تیزاب سے جھلسادی جائیں یا بے شمار بچے بدکارہوں کی بھینٹ چڑھ جائیں  . بے غیرتوں  اور بدکاروں  کو.نہ تو سزار دلوانے کا مطالبہ سامنے آیاہے اور تو اور  ان نیم ملااوں نے  اسے برا  کہنے کی بھی ضرورت ہی محسوس نہیں کی  . کہیں ایسا تو نہیں کہ ان سارے واقعات میں اور خاص طور پر بچوں سے زیادتی کی واقعات میں یہ ہی سب سے زیادہ منہ پر داڑھی رکھ کر اپنے کرتوتوں کی پردہ پوشی کرنے والے مجرمان ہی ملوث ہیں . ہم بچپن سے دیکھ رہے ہیں جو آدمی سب سے زیادہ بدکردار اور بدنام ہو جاتا ہے یا بدنامی کے کالے کام کرنے والا ہو تا ہے وہ اسے داڑھی رکھ کر چھپانے کی کوشش کرتا ہے تاکہ سارا علاقہ اسے صوفی صاحب سمجھ کر اس پر اعتبار کرتا رہے اور یہ اس کی آڑ میں اپنے گناھ گارانہ کام کرتے رہیں . یہ بات سو فیصد لوگوں پر لاگو نہیں ہوتی، لیکن  80% لوگ یہ ہی گل کھلا رہے ہیں جس کی وجہ سے 20%نیک لوگ بھی بدنام ہو رہے ہیں اور دنیا بھر کوہم اپنے ہی دین پر جگ ہنسائی کا موقع بھی فراہم کر رہے ہیں . ہمارے تمام نام نہاد علماء نے کہیں ان بدکاریوں پر بھی دین کے نام کی کلی چڑھانے کا تو نہیں  سوچ رکھا . کیونکہ اگر یہ پنڈورا بکس کھلے گا تو انہیں ملاوں کے نام  ہی سب سے زیادہ ملوث پائے جائیں گے . ہماری قبروں می کسی ملا نے ہمارا جواب نہیں دینا وہاں ہمارے اپنے ہی اعمال یا ہمیں بخشوائیں گے یا مروائیں گے . تو پھر انہیں دین کا ٹھیکیدار بنا کر ہم اپنے بچوں کو ان جیسے بدکارہوں کے آگے چارہ بنا کر کیوں پیش  کر رہے ہیں . ہم ڈرتے ہیں کہ کہیں یہ ہمیں مرتد اور بے دین قرار دیکر ہم پر زندگی تنگ نہ کر دیں . لیکن ہمارے لیئے ان کا خوف خدا کے خوف پر بھی غالب آ گیا ہے کیا. . ؟؟؟؟؟لوگوں نے مدرسوں میں بچے بھیجے تو شاید ہی کوئی بچہ اپنی دینی تعلیم مکمل کرنے تک مکمل ذہنی تندرست ان کے مدرسے یا ادارے سے باہر نکلا ہو . . کوئی جسمانی یا ذہنی عارضہ اس بچے کیساتھ استاد کے تحفے کے طور پر جاتا ہی ہے . . ایسا کیا ہوتا ہے اس بچے کیساتھ کہ جس پر وہ باہر جاکر بدکار اور مجرم ہی بنتا ہے . جب اس صورت حال کو بہت دیر سے ہی سہی والدین نے بھانپ لیا اور گھروں پر بچوں کی دینی تعلیم کا انتظام کیا تو بھی پڑھانے تو مولوی صاحب نے ہی آنا ہوتا تھا تو بدکاریوں کیساتھ یہ ہی بچے قتل بھی ہونے لگے کہ اب تو پکا پکڑے جانے کا امکان موجود ہے لہذا قصہ ہی ختم کر کے ہی جاو .  ان تمام لوگوں پر کیا توہین رسالت کا کوئی قانون نہیں لگتا.  اگر نہیں لگتاہے  تو لگنا چاہئیے، تاکہ اچھے اور برے لوگوں میں تمیز کی جا سکے اور جب تک کسی کا مکمل کردار سنت رسول کے مطابق نہ ہو اسے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کی محض نقالی کرنے کو بھی جرم قرار دیا جانا چاہیئے . کم از کم سو گواہ اس آدمی کے سابقہ دس سال کی گواہی دیں کہ یہ آدمی واقعی دین دار باحیا اور نیک و شریف ہے تب اسے سرکار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حلیئے کی نقل کی اجازت ہونی چاہیئے . ہم آلو پیاز خریدتے ہوئے تو گھنٹوں  بازار میں بحث کر لیں گے لیکن نبی کی سنت پر چار باتوں کی پابندی کا زور نہیں دے سکتے ،پھر بھی ہمارا دعوی ہے کہ ہم سے بڑا عاشق رسول کوئی نہیں ہے . اب جب ان آدھے ایمان والے لوگوں کے ہاتھوں پاکستان ریکارڈ برباد ہو ہی چکا تو اب تو آنکھیں کھول ہی لینی چاہیئں . اور اس بات کا بھی خیال رکھیں کہ ہماری مسجد کا کوئی بھی امام ،خطیب  یا مولانا ہماری مقامی گلی محلے یا علاقے کا ہی ہونا چاہیئے اور بال بچوں والا ہونا چاہیئے تاکہ اس کے جرم کر کے بھاگنے کے راستوں کو مسدود کیا جا سکے . یہ ہماری عورتوں اور بچوں دونوں کے تحفظ کے لیئے از حد ضروری ہے دین کا مذاق اب بند ہونا چاہیئے .

پیر، 3 اگست، 2015

ووٹ اور آواز



ووٹ اور آواز
ممتازملک ،پیرس




خواتین کا ووٹ اسی طرح ان کی آواز ہے جیسا کہ کسی بھی مرد کی لیکن یہ کیا کہ جہاں خواتین کو اپنے کسی بھی مقصد کے لیئےاستعمال کرنا ہو وہاں انہیں سڑکوں پر بھی لایا جاتا ہے ان کے ہاتھوں میں ڈنڈے تد کیا کلاشنکوف  بھی تھما دی جاتی ہے اور جہاں ہمارے مردانہ استحصالی مزاج کا میٹر گھومتاہے تووہاں خاتون کی آواز بھی کسی نے سنی تو وہ واجب القتل ہو گئ. جہاں کسی نے اس پر نگاھ بھی ڈالی تو وہ کاری کر دی گئ اور کسی نے اس سےبات کر لی پھر تو پکی فاحشہ قرار دے دی گئ. یہ کون بتائے گا کہ خاتون کو کب کس سے کتنے لفظوں میں بات کرنی ہو گی ؟ جب کہیں سیاسی محاذوں پر ضرورت ہوتی ہے انہیں موسموں کی شدت ہو، حالات کی سختی ہو، خوب خوب آزمایا جاتا ہے لیکن جب انہی سیاسی پنڈتوں کا جی چاہتا ہے   تو انہی خواتین پر گھروں سے نکلنے پر بھی فتوی لگ جاتاہے اور ان کا ووٹ دینا بھی کبھی اسلام کے خلاف قرار دے دیا جاتا ہے تو  کبھی کمیونٹی  کے اصولوں کے. خواتین کے ساتھ مذہب اور روایت کے نام پر یہ بلیک میلنگ کہیں ختم ہوتی دکھائ نہیں دیتی.ابھی کے پی کے میں ہونے والے انتخابات نے اس بات کو پھرسے ثابت کردیا ہے کہ جہاں مرد ٹھیکداروں کی مرضی ہو گی یاشاید دوسرے لفظوں میں جن علاقوں میں خواتین مردوں کی من نانی کو مانتے ہوئے اپنے ووٹ کاسٹ کریں گی وہاں تو ان کا ووٹ ڈالنا اسلامی بھی ہے اور روایتی بھی لیکن جہاں اور جن علاقوں می  خواتین پر شبہ ہوا کی یہ اپنا کوئ انتخاب رکھتی ہیں یا مردانہ من مانی کو قبول نہیں کریں گی وہاں ان کا ووٹ بھی غیر اسلامی ہے اور ان کی رائے بھی غیر روایتی  .یہ مذہب اور روایت کے نام پر کب تک خواتین کو فٹبال بنایا جائے گا. پہلے تو ان فرقوں کے دینے والوں کی اپنی مذہبی تعلیمات کا درجہ بھی دیکھنے کی ضرورت ہے.

جمعرات، 23 جولائی، 2015

ہم کیسے لوگ ہیں ؟۔ کالم




ہم کیسے لوگ ہیں ؟
ممتاز ملک ، پیرس


ہم کیسے لوگ ہیں ؟ شاید ہم ویسے ہی لوگ ہیں جن کے بارے میں کہتے ہیں " کہ 
بھوکے کو دے نہیں سکتے اور کھاتے کو دیکھ نہیں سکتے" .
یا شاید ہم ویسے بھی تو لوگ ہیں جن کے لیئے بلے شاہ نے فرمایا کہ
وے بلیا اساں مرنا ناہی  
  گور پیا کوئی ہور 
دنیا کے قانون پر جائیں تو ہر اچھے ملک کا قانون انسانوں میں سب سے پہلے عورتوں اور بچوں کے تحفظ کی بات کرتا ہے .دین پر جائیں تو ایسا بے مثال منشور رکھتا ہے کہ دشمن بھی عش عش کر اٹھے . یعنی امن تو کیا جنگ میں بھی کسے بوڑھے پر .عورت پر بچے پر یا جو نا لڑنا چاہے اس پر ہاتھ نہیں اٹھا یا جا سکتا . ان کے حفاظت کی ذمہ داری ہر فرد پر عائد کر دی گئی.  یہ ذمہ داری خالی خولی زبانی نہیں ہوتی بلکہ اس میں عورت کی یا بچے کی مالی .ذہنی اخلاقی ہر طرح کے تحفظ کی ذمہ داری ہوتی ہے .
لیکن ہم دیکھتے کیا ہیں کہ  ہمارا معاشرہ خصوصا بچوں اور خواتین کے لیئے مجرمانہ خاموشی اور منافقت کا رویہ اپنائے رہتا ہے. 
کوئی کسی کے لیئے کیا خود خواتین بھی کسی خاتون کے لیئے  یہ سوچ کر آواز نہیں اٹھاتی ہیں کہ مبادا انہیں اپنے گھر سے دیس نکالا نہ مل جائے .ان کا میاں انہیں نہ چھوڑ دے .کتنی عجیب بات ہے جو رشتے اللہ نے مقدر کر رکھے ہیں انہیں یہ سوچ کر ہم چلاتے ہیں کہ میں نے ایسا کیا تو یہ چلے گا اور ویسا کیا تو نہیں چلے گا .اگر ایسا ہوتا تو ہم نے بے شمار ایسی خواتین دیکھیں جو حسین بھی تھیں سگھڑ بھی تھیں با ہنر بھی تھیں اور باوصف و باکمال بھی تھیں لیکن پھر بھی ان کے گھر ٹوٹ گئے ان کا ساتھ کسی وجہ سے نہ نبھ سکا . اور ہم نے ایسی بھی خواتین دیکھی ہیں جو بدشکل بھی تھیں ،بدتمیز بھی تھیں ،بدزبان بھی تھیں  ،بے انتہا پھوہڑ کہ انہیں گھر میں جھاڑو دینے کو بھی نہ رکھے لیکن وہ میاں کے ساتھ ساری عمر عیش کرتے گزار دیتی ہیں . اس سے یہ ہی ثابت ہوتا ہے کہ رشتوں کو  ان کی مقررہ مدت سے زیادہ کون چلا پایا ہے اور اگر  لکھے ہیں  تو انہیں کون توڑ پایا ہے .لیکن یہ تو ہم تب مانیں جب ہمارا ایمان سلامت ہو 
.تو ایسے ماحول  میں جب کوئی ایسی خواتین  سامنے آتی ہیں چاہے گھر کے معاملات ہوں یآ گھر سے باہر ملازمتوں عہدوں یا خاص طور پر جب وہ لکھنے لکھانے جیسے شعبے سے وابستہ ہو اورجو اپنا ایمان اتنا مضبوط رکھتی ہیں کہ اس کے لیئے ہاں ہی نہیں نا بولنے کی بھی جرات رکھتی ہیں .تو انہیں جھٹ سے دو نمبر مرد ایک پلاننگ کے تحت بددماغ .بدزبان اور بدکردار  جیسے نام دینے لگتے ہیں .وجہ اس عورت کی خداداد صلاحیتوں سے خوفزدگی.  نام نہاد پڑھے لکھے سو کالڈ ادیب اور لکھاری سبھی اسے بہتی گنگا نہ بننے کے جرم کی سزا دینے کے لیئے میدان میں کود پڑتے ہیں . پھر وہ مرد یورپ  کے متمدن معاشرے میں رہنے والا پی ایچ ڈی پروفیسر ہو یا بظاہر معروف لکھاری اور براڈکاسٹر یا پھر شاعر عرف انٹیلیکچوئیل .یہ سارے بہت سارے دوسرے ادبی دنیا کے بے ادب رخ کے وہ بابے ہیں جن کی ٹانگیں تو قبر میں ہیں مگر یہ سوچ کی غلاظت پھیلانے سے باز نہیں آتے کہ
منہ تے ہالی بار اے
میری اس تحریر کا قطعی یہ مطلب اخذ نہ کیا جائے کہ سارے مردوں کو ہم ایک جیسے لپیٹے میں لے رہے ہیں .بلکہ ہمیں تو ان  حقیقی مردوں کی مدد کی اشد ضرورت ہے جو اس ماحول میں اپنے گھر کی خواتین کو باہر لاتے ہوئے گھبراتے ہیں .  قابلیت ہوتے ہوئے بھی کئی در نایاب  اسی طرح دنیا سے چلے جاتے ہیں .
اور جو خواتین اس میدان میں قدم رکھتی بھی ہیں ان کے لیئے ہر قدم پر ایک نیا امتحان کھڑا کرنا اپنا فرض سمجھا جاتا ہے . یہ خاتون شادی شدہ ہے تو اسے طلاق دلوانے کا پورا انتظام کیا جائیگا اور اگر وہ پہلے ہی اس رشتے سے آذاد ہے تو پھر تو جس سے اس نے بات کی وہ اس کا ...... بنا دیا جائے گا .اور اس خاتون کا ٹھیکیدار بننے کی پوری کوشش کریگا اور اگر خاتون نے ایک دو بار زیادہ عزت سے مسکرا کر کسی بات کا جواب دیدیا توسمجھ لیں بس خاتون تو ان کے خیال میں ان پر مر ہی مٹی ہیں . خاتون مسکرا کر بات کرے تو بدکردار کا سرٹیفیکیٹ اور اگر سنجیدگی سے صرف نپا تلا جواب دے تو بددماغی کا لائیسنس. آخر کوئی بتائے کہ عورت کرے تو کیا کرے .بات کرتی ہے یا جرات مند ہے تو کوئی جینے نہیں دیتا، بات نہیں کرتی  یا کچھ نہیں جانتی تو بھی اجڈ جاہل کے خطابات سے نوازی جاتی ہے.
وہ تمام مرد حضرات جو ان مگر مچھروں سے واقف ہیں ان کی گندی زبانوں سے واقف ہیں ان کی بدکرداری اور خواتین کو کی گئی  بلیک میلنگ سے واقف ہیں تو خدارا  ان پر اپنی یاری دوستی کا پردہ مت ڈالئے. بلکہ انہیں یہ سوچ کر بے نقاب کیجیئے کہ کل کو ان کے نشانے پر آپ کے گھر کی کوئی خاتون بھی ہو سکتی ہے ..صرف کوئی مخصوص خاتون  ہی آخری نشانہ نہیں ہو گی . جس نے ان ٹھرکی بابوں کا سالوں لحاظ بھی کیا اور یہ سوچ کر خاموشی اختیار کی کہ کتے  کتنی دیر  بھونکیں گے . 
لیکن اب جب یہ کاٹنے کے لیئے تیار ہیں تو ان کے دانت توڑنے کا وقت بھی ہو گیا ہے .پبلک میں کام کرنے والی کوئی خاتون کسی کے بھی باپ کا مال نہیں ہے کہ  اسے راہ چلتا کوئی بھی بکواس کرتا اور کمنٹ پاس کرتا گزر جائے . بدکاری خواہ کوئی بھی ہو ،زبان کی ہو یا آنکھوں کی ہو ، سوچ کی ہو یا عمل کی، اسے کرتے ہوئے یہ یاد رکھنا چاہیئے کہ بدکاری بدکاری ہی ہوتی ہے . اور یہ قانون قدرت ہے کہ مرد کی بدکاری ہمیشہ پلٹ کر اسی کے گھر کی عورت کو شکار کر جاتی ہے . پیشاب کی ایک چھینٹ ہی دودہ کی بھری بالٹی  کو ناپاک کرنے کے لیئے کافی ہوتی ہے. اور ہاں یاد رکھیں دنیا بدمعاشوں کی بدمعاشی کی وجہ سے خراب نہیں ہوتی بلکہ شریفوں کی خاموشی کی وجہ سے تباہ ہو جاتی ہے .ہر دور میں انسانوں کی غیرت کا امتحان ہمیشہ ہی ہوتا رہا ہے .
جیسا کہ پڑھ رکھا ہے کہ انسان کی جوانی کے کام بڑھاپے میں ان کی صورت پر آجاتے ہیں کبھی اچھے کام  نور بنکر تو کبھی برے کرتوت پھٹکار بنکر .  اب خاموشی کا وقت گزر گیا ہے تمام ماں بہنوں.اور بیٹیوں والوں کی ہمت و جرات کا امتحان ہے کہ میدان میں آئیں اور ادب کے نام پر تھرک بازوں اور بدکردار بلیک میلروں کے اس ٹولے کو سبق سکھائیں جو ہر جگہ پاکستان کی بدنامی کا سبب بن رہے ہیں . ہم اپنے اچھے کاموں سے ایک قدم آگے بڑھتے ہیں تو یہںدںخت اپنی کر توتوں سے ہمیں کھینچ کر ایک میل پیچھے دھکیل دیتے ہیں . ہمیں آپ سب کے ساتھ کی جتنی ضرورت  آج ہے اتنی پہلے کبھی نہیں تھی. جب علم حاصل کرنا ہر عورت اور مرد پر برابر فرض ہے تو اس کے عملی میدان پر بھی محض مردوں کی اجارہ داری کا کہیں کوئی حکم نہیں ہے .اس لیئے آگے آیئے. اپنے ضمیر کی آواز کو سنیئے .....
                    ۔۔۔۔۔۔۔۔




بدھ، 22 جولائی، 2015

امید کا دیا۔ رپورٹ ۔ عظمت نصیب گل کی کتاب رونمائی




امید کا دیا
ممتازملک ۔ پیرس


19 جولائی 2015 بروز  اتوار عید کا تیسرا دن تھا ۔ جب "پیرس ادبی فورم" کی ٹیم نے ایک خوبصورت  عید ملن مشاعرے  کا اہتمام پیرس کے علاقے گوزاں وِل  کے "تاج محل" ریسٹورنٹ میں  کیا گیا . اس مشاعرے  میں خصوصی طور پر ہی مدعو کیئے گئے مہمانوں نے شرکت کی . یوں یہ ایک عوامی پروگرام نہیں تھا بلکہ ایک خصوصی  
پروگرام تھا . پیرس ادبی فورم
کے تقریبا سبھی اراکان کیونکہ بذات خود اچھے شاعر بھی ہیں اور لکھاری بھی ہیں . اس لیئے سبھی نے اپنے اپنے کلام سے محفل میں رنگ بھرے . تقریب کا آغاز وقار بخشی نے تلاوت کلام پاک سے کیا . جبکہ نعت رسول پاک ستارہ ملک صاحبہ نے پیش کی . ایاز  محمود ایاز اور بانی فورم ثمن شاہ صاحبہ نے احسن انداز میں تقریبکی
میزبانی بھی کی اور اپنے خوبصورت اور بہت معیاری  کلام سے بھی نوازہ . جبکہ دیگر شعراء میں عاکف غنی صاحب ،بخشی وقار صاحب ، ممتازملک صاحبہ نے اپنے اپنے کلام پر حاضرین محفل سے داد پائی .


اس تقریب کے دوسرےحصے  کی
خاص بات  پیرس میں ہی مقیم ایک منفرد انداز بیاں رکھنے والے پاکستانی شاعر کی دریافت بھی تھی( جو دو کتابیں تخلیق کر چکے ہیں لیکن ابھی بہت سی نگاہوں سے اوجھل تھے) .  یہ ہیں ہمارے قلم قبیلے کا نیا اضافہ جناب عظمت نصیب گِل صاحب . جن کا نیا پنجابی شعری مجموعہ "سراب یورپ " بھی اس تقریب میں رونمائی کے لیئے پیش کیا گیا .  عظمت نصیب صاحب نے اپنے لکھے اردو اور پنجابی کلام سے چیدہ چیدہ انتخاب پیش کیا جسے حاضرین نے بے حد سراہا.  ان کے کلام میں اپنی مٹی سے جدائی کا درد بھی ہے اور اس مٹی سے جدائی کی وجہ بننے والے عناصر سے دکھ اور ناراضگی کا اظہار بھی ہے . کہیں وہ پردیس میں  تنہا مشقّتوں کے عذاب کو رقم کرتے ہیں .تو کہیں ماں جائیوں سے جدائی  اور پیاروں سے دوری کو اس کے کرب کو بیان کرتے ہیں . ان کی شاعری میں چکی کی مشقت  کا ذکر بھی ہے  اور ایک پیار کرنے والے ذمہ دار انسان کی معصوم  خواہشات دونوں ہی چھلکتی ہیں . بلاشبہ عظمت نصیب صاحب کو ہم شاعری میں ایک خوبصورت اور حساس اضافہ قرار دے سکتے ہیں . اس پروگرام  کی کوریج کے لیئے گجرات لنک سے ناصرہ خان صاحبہ،یاسر الیاس صاحب کیساتھ جبکہ اے آر وائے کی جانب سے جناب خالد بشیر صاحب  اپنے ساتھیوں کے ساتھ موجود تھے . جنہوں نے تمام احباب کو اس محفل کی مبارکباد بھی پیش کی . پروگرام کے آخر میں پرتکلف عشائیے کا بھی انتطام کیا گیا تھا . پیرس کے مقامی گائیک شاہد صاحب نے بھی خوبصرت کلام اپنی آواز میں خوبصورتی سے  پیش کیئے ۔

 پیرس ادبی فورم کی ٹیم  اس پروگرام  کے لیئے بلاشبہ مبارکباد کی مستحق ہے . جس کے ذریعے  انہوں نے نئے شعراء کے لیئے ایک پلیٹ فارم مہیا کیا ہے اور پیرس کے ادب سے لاتعلق اور ادب ناشناس  ماحول میں  امید کا ایک دیا روشن کیا ہے .جہاں جہالت کی حبس میں  اردو اور پنجابی ادب کی تازہ ہوا کا جھونکا زندگی کا پیغام دے رہا ہے . پیرس کے ان تمام ادب شناس لوگوں کے لیئے ( کہ جنہیں ہمیشہ ہی کسی پلیٹ فارم کے نہ ہونے کی شکایت رہی ہے ) یہ فورم حاضر خدمت ہے . آئیے اور اپنا کام ثابت کیجیئے .  "پیرس ادبی فورم "کا یہ قلم قبیلہ آپ کا منتظرہے .

                         ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پیر، 13 جولائی، 2015

جلدی کیجیئے۔ کالم۔ افسانہ



جلدی کیجیئے
ممتازملک ۔ پیرس






آج پھر  دنیا بھر مسلمان انشااللہ شب القدر  کی مبارک رات سے فیضیاب ہونے جارہے ہیں .
چراغاں کیا جا رہا ،ختم  قرآن کی مبارک محفلیں سجائی جا رہی ہیں ۔

عید کی تیآریاں عروج پر پہنچ چکی ہیں . 
لیکن ہمارے ہی گھر  کے بغل میں کوئی یتیم بچی اور  اسکا بھائی روز گلی سے گزرنے والے خوش باش ماں باپ کے ساتھ کودتے پھلانگتے بچوں کو ہاتھوں میں شاپر  خریداری کے تھیلے پکڑے آتے جاتے حسرت سے دیکھ رہے ہیں ۔
اور ہر بار اپنے دو کمرے کے کرائے کے گھر میں جا کر اپنی امی سے سوال کرتے ہیں ۔۔
امی ہمارے کپڑے بنا لیئے ہیں عید کے لیئے .
ماں نے ایک قمیض کے دامن پر کڑھائی کرتے ہوئے سر اٹھایا اور آنکھوں میں دنیا جہاں کی بے بسی لیئے مسکرانے کی ناکام کوشش کرتے ہوئے بھرائی آواز سے کہا
 ہاں  ہاں بن جائیں گے ابھی تو بہت دن ہیں ....
چپ کرو جن کے ابو نہیں ہوتے ان کے نئےکپڑے بھی نہیں ہوتے. 
پانچ سال کی نور نے ماں کے ساتھ لگ کر جانے کس لہجے میں کہا کہ
 ماں کے ہاتھ میں سوئی چبھی اور ایک آہ اس کے منہ سے نکل گئی۔۔
دروازے پر بیل سن کر نور نے بھاگ کر دروازہ کھولا 
پڑوس کی رافعہ خالہ نے اسے پیار کیا اور پوچھا امی ہیں گھر پر ۔۔۔
جی اندر ہیں 
اس نے تمیز سے جواب دیا .
اتنے میں دروازہ دھڑ دھڑ بجا 
ایک بھاری اور بدتمیز آواز آئی
آمنہ بھابی  تین ماہ سے کرایہ نہیں دیا دو دن میں پیسے بھجوا دو ورنہ اپنا کہیں اور ٹھکانہ کر لو۔ پرسوں آوں گا کرایہ لینے۔۔
خالہ رابعہ نے آمنہ سے گِلہ کیا آپ نے پہلے کیوں نہیں بتایا کہ آپ اتنی تنگی میں ہیں .
آمنہ نے شرمندگی کے مارے سر جھکا دیا 
کیا بتاتی یہ تو ہمارے روز کی مجبوری ہے آپ لوگوں کا ٹھیکہ تھوڑی ہے کوئی . سلائی کے کام سے چولہا ہی بمشکل جلا پاتی ہوں ۔ باقی اخراجات جانے کیسے پورے کروں .
رافعہ کو اس کے حالات سے اتنی آگاہی نہیں تھی
 اس نے اپنا سلا ہوا سوٹ اٹھایا ۔ سلائی کے پیسے دیئے اور خدا حافظ کہہ کر نکل گئی۔
چاند رات کی رونق میں ہر ایک مصروف تھا۔
صبح عید تھی اور اس کے بچوں کے پاس سوائے بہکاوے کے کچھ بھی نہ تھا .
سات سال کا قاسم اداس تھا۔ ماں سے لپٹ کر بولا 
امی آپ اداس نہ ہوں .اب میں کبھی نئے کپڑے نہیں مانگوں گا .مجھے باجی نے بتا دیا ہے۔
 جن کے ابو نہیں ہوتے وہ نئے کپڑے نہیں پہنتے .
آمنہ نے اسے زور سے اپنے سینے سے بھینچ کر لگا لیا .
شدت کرب سے آنکھیں میچ لیں . 
قریب تھی کہ اس کا دل بند ہو جاتا دروازے کی گھنٹی بجی ....
کون۔۔۔
میں رافعہ ہوں آمنہ بھابی 
آمنہ نے دروازہ کھولا تو رافعہ نے مسکراتے ہوئے  ایک بڑا سا شاپر اس کے ہاتھ میں تھما دیا اور بولی
 چاند رات مبارک ہو بھابی
آپ کو بھی مبارک ہو ۔
یہ کیا ہے ؟
یہ بعد میں کھولیئے گا ۔
پہلے تو یہ بتا دوں کہ آپ کا تین ماہ کا کرایہ مالک مکان کو پہنچ گیا ہے ۔اب آپ پریشان مت ہوئیئے گا ۔
اور ہاں آئیندہ سے جب تک آپ کے بچے اٹھارہ سال کے نہیں ہو جاتے ، ہم گلی والے مل کر آپ کے گھر کا کرایہ اور راشن کا خرچ ادا کیا کریں گے .
کیا؟ 
حیرت سے آمنہ گنگ سی کھڑی رہ گئی.
لیکن 
لیکن ویکن  کچھ نہیں مجھے افسوس ہے کہ ہمیں یہ سب آپ کے شوہر کی وفات کے وقت ہی کرنا چاہیئے تھا ۔ 
لیکن ہمیں خیال ہی نہیں رہا .اس محلے میں پچیس گھر ہیں اور ہر گھر سالانہ کچھ نہ کچھ زیورات اور فطرانہ کی مد میں ضرور  نکالتا ہے  ۔ اس ساری رقم سے اتنا ضرور ہو سکتا ہے کہ ہم اپنے کسی ایک ضرورت مند خاندان کی مدد کر سکیں .اور یہ کوئی احسان نہیں ہے بلکہ اللہ کا حکم اور ہمارا دینی فریضہ ہے . 
پچھلی کوتاہی کے لیئے سارے محلے کی جانب سے معذرت چاہتی ہوں .
یہ کہتے ہوئے رافعہ تو چلی گئی، 
لیکن بچوں نے بے صبری سے وہ بڑا شاپر کھولا تویہ کیا ۔۔چم چم کرتی چوڑیوں کے سیٹ۔ تینوں بچوں اور ماں کے لیئے دو دو ریڈی میڈ سوٹ ، بچیوں کے لیئے بندے ہار .
اور تو اور عید کی صبح کے لیئے شیر خورمہ اور دن کے کھانے کا خشک سامان ....
آمنہ نے تخت پوش پر اپنا سر سجدے میں جھکا دیا .اور
 اس کے دل سے آواز آئی یا اللہ ان تمام لوگوں پر جنہوں نے ان یتمیوں پر شفقت فرمائی تو بھی اپنی شفقت فرمانا ۔
جنہوں نے ہماری مشکل آسان کی ان کی بھی تمام مشکلیں آسان فرمانا .
 سجدہ شکر میں گرم گرم آنسووں نے اس کی گلوں  کو دھو دیا .
اگر سب لوگ یہ سوچ لیں کہ 
ذرا دیکھیئے ہمارے پڑوس میں بھی کوئی ایسا سفید پوش خاندان تو آباد نہیں . جس کے لیئے  در یتیم نبی کائنات صلی الیہ وآلہ وسلم  نے فرمایا کہ جس کا پڑوسی بھوکا سویا اور اس نے پیٹ بھر کر کھایا تو گویا وہ ہم میں سے نہیں .
ذکوات اور فطرانہ دینا فرض ہے  تو کیوں نہ اسے عید سے پہلے بلکہ رمضان کا،چاند دیکھتے ہی ایسے مستحق خاندانوں میں پہنچا دیا جائے۔
 تاکہ وہ بھی عزت سے ان خوشیوں میں شامل ہو سکیں .
جلدی کیجیئے......
                     ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

  

جمعہ، 10 جولائی، 2015

چاند روشن جمکتا ستارہ رہے





چاند روشن جمکتا ستارہ رہے 
ممتازملک ۔ پیرس





21جون 2015 بروز اتوار ' آج پیرس میں ہونے والے جہازوں کی عالمی نمائش کا آخری دن تھا ۔ ہم سب کافی دنوں سے پرجوش تھے اس میں شرکت کرنے کے لیئے ۔ کام کے دنوں کے باعث ہم اتوار کو ہی جا سکتے تھے .اتنے لمبے دنوں کے روذے رکھے پاکستانیوں کی بہت بڑی تعداد یہ نمائش دیکھنے یہاں آتی رہی اور آج بھی موجود تھی .(یاد رہے کہ فرانس میں آج کل روزے کا دورانیہ اٹھارہ گھنٹے ہے .فجر 4 بجے تا مغرب 10 بجے ) یہ وہ قابل فخر ہفتہ تھا جس میں تمام یورپی اورعرب ہی نہیں بلکہ دنیا بھر کے میڈیا نے پہلی بار پاکستان کو دہشت گرد کے علاوہ بھی کچھ اور کہہ کر پکارا اور دکھایا ۔ ہمارے پہلے میڈ ان پاکستان جنگی جہاز " جے ایف تھنڈر 17 "کے ہی چرچے نہیں ہوئے بلکہ اس کے مشاق ہوابازوں کے بہترین اڑان اور ہواؤں سے فضاؤں سے کھیلنے کے فن کو بھی خراج تحسین پیش کیا گیا ۔ یہ پورا ہفتہ ہم تمام پاکستانیوں کے سر بھی فخر سے بلند رہے اور آنکھوں میں رب کائینات کے حضور شکر گزاری کی نمی بھی رہی ۔ پیرس میں اس سے پہلے اتنی بڑی تعداد میں پاکستانی کبھی بھی ٹکٹ خرید کر کسی نمائش میں نہیں گئے ہوں گے جتنے اس نمائش کے لیئے آئے ۔ پہلے دن سے آخری دن تک پاکستانیوں کی آمد نے انتطامیہ کو حیران کیئے رکھا ۔ آخری دن ہی نہیں بلکہ آخری منٹ تک یا یہ کہنا بیجا نہ ہو گا کہ" تمبو قناتیں" سمیٹنے تک بڑی تعداد میں عوام خاص طور پر پاکستانیوں کی بڑی تعداد وہاں موجود رہی ۔ نمائش کے مین داخلی گیٹ سے اندر داخل ہونے کے بعد نظریں سب سے پہلے پاکستانی سبز ہلالی پرچم کو تلاش کرنے لگیں ۔ ہمیں کہیں بھی پاکستانی پرچم نظر نہیں آیا اس کے لیئے ہم نے دائیں جانب کے تمام ائیر سٹالز چھان مارے پھر بائیں جانب ڈھونڈتے ڈھونتے ہمیں پرچموں کی قطار میں اپنا پاکستانی پرچم بھی لہراتا ہوا دکھائی دے ہی گیا ۔ مت پوچھیں کہ کتنی خوشی ہوئی ۔ اسی پرچم کے آگے تک پہنچتے ہوئے بس خوشی ہی خوشی تھی اور فخر ہی فخر تھا ہمارے چاک و چوبند فضائیہ کے ہر دلعزیز بلکہ یہاں ہیرو جیسی شہرت حاصل کرنے والے پائیلٹس مستعد کھڑے عوام کو بریف کر رہے تھے تو ٹیکنیکل سٹاف بھی بڑے جوش و خروش سے ہر ایک کے سوالوں کا جواب دے رہا تھا ۔ ہر ایک کے ساتھ تصاویر بنوا رہا تھا ۔ نمائش میں ان کی کامیاب شرکت پر مبارکباد اور شاباشی وصول کر رہا تھا ۔ جو بلا شبہ ان کا حق بھی تھی ۔ پاکستانی ہوابازوں نے یہاں بھی دنیا بھر کے لوگوں کے سامنے اپنی صلاحیتوں کی دھاک بٹھائی ۔ تمام دنیا کے میڈیا نے ان کی کارکردگی کو دنیا کے بہترین پائلٹس کہہ کر تسلیم کیا ۔ یہاں کے میڈیا میں سارا ہفتہ پاکستانی جہاں جے ایف تھنڈر17 کی تعریف و توصیف کی جاتی رہی ۔ خدا کرے کہ پاکستانی حکومتیں اس بات کا احساس کریں کہ بیرون ملک پاکستان اور پاکستانیہ تشخص کے لیئے ایسی نمائشوں میں شرکت کرنا اور اپنی بنائی ہوئی مصنوعات کو ہر حال میں بہترین کے درجے پر رکھنا ، اس کی آبرو میں اضافے کا سبب بنتا ہے اور ہم بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کا مورال بھی بلند کرنے کی وجہ بنتا ہے ۔ اسے ہر قیمت پر قائم رہنا چاہیئے اور پاکستانی ٹیلنٹ اور مصنوعات کو دنیا کے ہر پلیٹ فارم سے پیش کیا جانا چاہیئے ۔ اللہ پاک سے دعا ہے کہ پاکستان دنیا کے ہر اچھے مقابلے میں اسی طرح اول آتا رہے ۔ یہ پرچم یونہی لہراتا رہے اور اس کا چاند ستارہ ساری دنیا کو اپنی آب و تاب دکھاتا رہے ۔ آمین ۔ 
"‎پاک فضائیہ کے طیارے  جے ایف  تھنڈر 17 کا چاک و چوبند عملہ‎"
Add caption




"‎پیرس میں 2015 جون کو منعقدہ فضائیہ میلے  کا آفس‎""‎پاک فضائیہ کے طیارے   جے ایف تھنڈر 17 کا چاک و چوبند عملہ‎"

جمعرات، 9 جولائی، 2015

*** سبز گنبد کے محبوب سائے




سبز گنبد کے محبوب سائے
ممتازملک ۔ پیرس


سبز گنبد کے محبوب سائے
ہمکو آ کر بہت یاد آئے

یہ سمجھ کر بہت دیر روئے

جیسے جنت سے ہم لوٹ آئے

تیرا در ہے دلاسا ہمارا 

دکھ تو ہر اک سے ہم نےہیں پائے 

لاکھ کوئی ٹٹولے گا دل کو 

دل کی بِپتا وہیں جا سنائے 

گر یہ ممکن تھا ہم کر گزرتے 

سر کے بل آپ کہتے کہ آئے 

مجھکو پہلے بھی معلوم نہ تھا 
کون ادب کا قرینہ سکھائے 

 خود سے بھی اب نبھانا ہے مشکل

کوئی دنیا سے کیونکر نبھائے


کتنے سالوں سے میں منتظر ہوں 
اب تو ممتاز کو بھی بلائے

میں نے اختر سے بھی کہہ دیا ہے 
سال یہ تو مِلے بن نہ جائے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


● زندگی اب تو مسکرانے دے ۔ سراب دنیا



زندگی اب تو مسکرانے دے
(کلام/ممتازملک۔پیرس)


جان جانی ہے اسکو جانے دے زندگی اب تو مسکرانے دے  دے نیا زخم پر توقف سے داغ پہلے کا تو مٹانے دے  وہ جو سودوزیاں سے ہیں غافل وقت کی راگنی سنانے دے  جن کو تھا بار و صل کو لمحہ ہجر کا قہر ان پہ ڈھانے دے  اس سے پہلے کہ روٹھ جائے کوئ بڑھ کے مجھکو انہیں منانے دے  اس سے پہلے کہ ختم ہو ہر شے آرزو کا جہاں بسانے دے  وہ جو مجھکو ڈبونے آئے تھے حوصلہ ان کا تو بڑھانے دے   بعد مدت کے ہاتھ آئ ہے آج ممتاز کو ستانے دے




زندگی اب تو مسکرانے دے
کلام:(ممتازملک۔پیرس)

جان جانی ہے اسکو جانے دے
زندگی اب تو مسکرانے دے

دے نیا زخم پر توقف سے
داغ پہلے کا تو مٹانے دے

 وہ جو سودوزیاں سے غافل ہیں
وقت کی راگنی سنانے دے

جن کو تھا بار وصل کا لمحہ
ہجر کا قہر ان پہ ڈھانے دے
اس سے پہلے کہ روٹھ جائے کوئی
بڑھ کے مجھکو انہیں منانے دے

اس سے پہلے کہ ختم ہو ہر شے
آرزو کا جہاں بسانے دے

وہ جو مجھکو ڈبونے آئے تھے
حوصلہ ان کا تو بڑھانے دے 

منزلوں تک نہیں چراغ کوئی
شمع امید تو جلانے دے

بعد مدت کے ہاتھ آئی ہے
آج ممتاز کو ستانے دے
●●●

جمعہ، 3 جولائی، 2015

● (16) حاسدین میٹرو بس متوجہ/کالم۔سچ تو یہ ہے



 (16)حاسدین میٹرو بس متوجہ ہوں
   تحریر:ممتازملک۔پیرس



جب سے راولپنڈی میں میٹرو بس سروس کے منصوبے کا اعلان ہوا ہے سیاسی مخالفین نےاس منصوبے کی مخالفت کو ہی اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیا ہے. کسی بھی حکومت کے لیئے تنقید کرنے کا حق ہر دوسری جماعت کے کارکن کو ہوتا ہے لیکن اس تنقید کو برائے تنقید ہر گز نہیں ہونا چاہیئے. سیاسی مخالف ہونے کا بلکل یہ مطلب نہیں ہوتا کہ ہم ان کے اچھے کام میں بھی عیب جوئی شروع  کر دیں . میرا کسی سیاسی پارٹی سے کوئی تعلق نہیں ہے .لیکن ایک لکھاری کی حیثیت سے ہمیشہ میرا یہ اصول رہا ہے کہ جو بھی سیاسی جماعت جو بھی اچھا کام کام  اسے سراہا جائے اور جو بھی جماعت ملکی مفاد کے خلاف کام کرے اس پر تنقید کی جائے ۔
مجھے حیرت ہے  پہلے تو راولپنڈی  میں کوئی کام کرتا ہی نہیں اور اگر کوئی  منصوبہ بن بھی جاتا ہے تو ہم لوگ اس میں اتنے عیب نکالتے ہیں کہ اگلا منصوبہ کوئی بنانے کا سوچے بھی نہ .ا گر کسی شہر کے عوام کو سفر کی کوئی بہتر سہولت میسر آ رہی ہے تو ہم سب کو کیا مسئلہ ہے؟ میرا تعلق بھی راولپنڈی سے ہے آج تک پنڈی میں کبھی کوئی ایسا کام نہیں ہوا تھا جس پر ہم پنڈی والے بھی کوئی راحت محسوس کرتے آج اگر ستر سال میں پہلی بار کوئی چیز بنی ہے تو خدارا  اسپر یوں حسد کے انگارے مت برسائیں . ہم جیسے راولپنڈی کے باسیوں کو شدید صدمہ ہوتا ہے . ستر سال میں پنڈی میں کوئی قابل ذکر حکومتی تعمیر نہیں ہوئی تو پاکستان بھر میں کسی پاکستانی کے پیٹ میں اس نا انصافی پر مروڑ نہیں اٹھا  لیکن آج کسی نے پنڈی پر بھی رحم کھا کر اسے کوئی سہولت بنا کر دے ہی دی ہے تو حاسدین راولپنڈی کے  دل کے دورے ختم نہیں ہو رہے . خاص طور پر فیس بک پر ہمارے کچھ انتہائی محترم برادران ہر وقت میٹرو میٹرو کا اختلافی راگ الاپتے نہیں تھکتے . ان سے مودبانہ گزارش ہے کہ ان مسائل پر بات کریں جو عوام کو سہولت دینے والی نہیں ہیں ناکہ عوامی منصوبوں  کے مکمل ہونے پر تعریف نہیں کر سکے تو توپوں  کا رخ ادھر کر دیا . راولپنڈی کے باسی ہونے کی حیثیت سے میری آپ  سے درخواست ہے کہ یہ منصوبہ ہمارے لیئے ہے اور ہمیں سہولت فراہم کرتا ہے لہذا اس پر بات کرنا یا اعتراض کرنا بھی اس شہر کے باسیوں کا حق ہے.  آپ لوگ خود کو ہلکان مت کریں۔ کچھ تو سمجھداری سے بات کریں۔ سب جانتے ہیں کہ بجلی ، پانی، ٹرانسپورٹ ہماری ہر روز کی ضرورت ہے. سارے ملک میں یہ سب ہونا چاہیئے لیکن جادو کی چھڑی کس نے گھمائی ہے آج تک. اس ایک سروس پر روزانہ لاکھوں لوگوں کو سفر کی باعزت اور بہترین سروس ملی ہے .اسکے بنانے میں روزگار ملا ہے اس کے چلانے کے لیئے عملے کے طور پر ، اس کی انتظامیہ کے طورپر لوگوں  کو روزگار ملاہے. شہر کی شکل بہتر ہوئی ہے .  جو منصوبہ جس بھی شہر کے لیئے بنتا ہے اس بات کا فیصلہ اس شہر کی عوام کریگی کہ یہ اس کے لیئے ضروری اور بہتر ہے یا نہیں .کیونکہ انہیں کا روز اس سے واسطہ پڑنا ہے . یہ سہولت ہر شہر میں ہونی چاہیئے. بجلی کے مصونوں کو بھی جلد از جلد مکمل کیا جانا چاہیئے. پانی کے منصوبے  بھی جلد مکمل کیئے جائیں لیکن اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں ہے کہ  ٹرانسپورٹ  یا سڑکوں کے بنا ملک چل سکتے ہیں . لہذا اپنے علاقے کے نمائندوں کو مجبور کریں کہ وہ ترقیاتی منصوبوں کا آغاز ہی نہ کریں بلکہ انہیں وقت پر مکمل بھی کریں اور  جو منصوبہ پچھلی حکومت بنا گئی ہے انہیں بھی تحفظ دیں اور انہیں بھی اسی طرح عوامی فلاح کے لیئے استعمال میں لاتے رہیں . کیونکہ ان منصوبوں پر بھی عوام کے خون پسینے کی کمائی ہی خرچ ہوئی ہے کسی وزیر یا نمائندے کے ابا جی کا مال خرچ نہیں ہوا جسے اس کے جانے کے بعد بند کر کے یہ سمجھا جائے کہ ہم نے بہت بڑا کمال کر دیا ہے .
●●●
تحریر: ممتازملک.پیرس 
مجموعہ مضامین: سچ تو یہ ہے 
اشاعت:2016ء 
●●●



                                         

ہفتہ، 27 جون، 2015

قومی رنگیلے




قومی رنگیلے 
ممتازملک ۔ پیرس







دنیا بھر میں قوموں کے حکمران ہوتے ہیں رہنما ہوتے ہیں یا سیاستدان ہوتے ہیں جو انہیں کامیابی کے راستوں پر لی جاتے ہیں لیکن پاکستانی  قوم کو قائداعظم کے بعد ان میں سے کچھ بھی میسر نہیں آیا . بلکہ جو بھی ملے رنگیلے ملے یا رنگیلیاں  ملیں . جو دامے ورمے سخنے کام نظر آیا وہ بھہ اللہ پاک نے اس قوم کی عزت رکھوانے کے لیئے کسی نہ کسی سے زبردستی کروا ہی لیا  اسی طرح جیسے چیونٹی سے ہاتھی مروا لیتا ہے . سبحان ہے اس کی قدرت.
دور کیوں جائیں اپنے پڑوسی کو ہی دیکھ لیں جو اتنا بے دھڑک ہو کر بدمعاشیوں  کے ریکارڈ بناتا ہے کہ ہمارے ملک کو میسر آنے والے رنگیلے اور رنگیلیاں ان کو کھل کر فٹے منہ کہنے کا حوصلہ بھی نہیں دکھا سکتے آخر کو سودا بیچنا ہے بھائ . آلو لے ، پیاز لے ، چینی لے ......
ہندوستان کے بارے کسی کو کوئ ثبوت ڈھونڈنے کی ضرورت ہی نہیں ہے کہ  اس نے خود اپنے کرتوت اپنی ہی فلمز میں  اعتراف کیئےیہ اعتراف گناہ 21دسمبر نامی فلم میں پاکستان توڑنے کے واقعات  ہوں یا بنارس کیفے نامی فلم میں سری لنکا اور جافنا میں ہونے والے خوفناک خانہ جنگی کے حالات اسے 
کھلے بندوں پیش کیا  اور اعلانیہ انہیں پیش کیا گیا.آن فلموں کو دیکھنے یا ہندو دہشت گرد پرائم منسٹر مودی کے گزشتہ کچھ عرصہ میں دکھائ جانے والی زبان درازیاں  ان سے بجا طور پر ایک کم عقل انسان بھی یہ بات سمجھ سکتا ہے کہ پاکستان کو بدنام یا برباد کرنے کے لیئے ستر سال سے یہ  بنیا بغل میں  چھری لیئے رام رام جپ کر پرایا مال اپنے نام کرنے میں مصروف ہے . اگر کوئ اور ملک پاکستان  کی بجائے ہوتا جس کے ساتھ اس کا پڑوسی یہ گل کھلا رہا ہوتا تو وہ اسی کے انہی ثبوتوں کی بنا پر دنیا میں اسکا ناطقہ بند کر دیتا.  ہندو محاورہ ہے کہ جھوٹ بولو لیکن اتنا بولو، اتنی بار بولو، ڈٹ کے بولو کہ وہ سچ لگنے لگے . اور ہندوستان  کی پوری تاریخ گواہ ہے کہ ہندوؤں  نے ہمیشہ چھل ،بل اور کھپٹ کو  اپنے ہر معاملے میں استعمال کیا اور آنکھوں میں دھول جھونکنے میں یہ قوم ید طولی رکھتی ہے . دوسری جانب ہم پاکستانیوں  کو دیکھیں تو اپنی فطری نرم مزاجی کے باعث کبھی تو انہیں ہندووں سے سال بھر میں اپنے ملک میں جاسوسی اور قتل و غارت کا  ٹھیکہ  ان 15 لآکھ پاؤنڈ کے عوض کر لیتے ہیں کہ کہ جن میں سے 10 لآکھ ڈالر ہمارے رنگیلے حکمران انہی کی ایک ایک طوائف کے گھنگھروں پر ایک رات میں نچھاور کر دیتے ہیں .   کبھی ہم سادگی بازار لگا لگا کر بے حال ہو جاتے ہیں تو کبھی اپنے ایک لندن سیکرٹریٹ  کا ماہانہ خرچہ ایک سے ڈیڑھ لاکھ پاونڈز  میں کرتے ہوئے آدھی آدھی رات کو شراب کے نشے میں دھت  ملک و قوم  کی غربت کا رونا فون کال پر روتے نظر آتے ہیں . کبھی یہ رنگیلا غیر ملکی آقاووں کے اشارے پر ملک کی اینٹ سے اینٹ بجانے کی تڑیاں لگاتے ہیں تو دوسرے ہی لمحے جب بلی کا بلونگڑا بھی ساتھ کھڑا دکھائی نہیں دیتا تو جھٹ سے جرنیلوں کے جوتے چاٹتا  اور ملک سے باہر نکلنے کے چور دروازے کھلواتا نظر آتا ہے . کچھ اتنے ہشیار  کہ راتوں  رات ان رنگیلوں اور رنگیلیوں کے سات پشتوں کے کرتوت بمعہ  ثبوت ڈھونڈ نکالتاہے تو کہیں اتنے احمق کہ 
"یار جانے دو میرا بھائ نہیں " 
کہہ کر ملک سے باہر بھگا کر خوب  عیاشی کرنے کی دعا دیکر اور بگل بجا کر رخصت کر دیتا ہے . وہ جنہیں قوم پھندے پر جھلانا چاہتی ہے اسے ہمارے دوست نواز بااختیار جہاز کا جھولا جھلا کے" جھولے مایاں" کھلاتا ہے . کیونکہ ہم گھر کا کچرا جلانے کی بجائے اسے کارپٹ کے نیچے دبا کر اپنی نآک بند کر لینا زیادہ آسان سمجھتے ہیں لیکن یہ بھول جاتے ہیں کہ دوسرے بھلااپنی ناک کیوں بند کریں گے . لیکن ایک ہی بات ان سب حالات کو دیکھ کر سمجھ آتی ہے کہ بے غیرت کا کوئ دین دھرم نہیں  ہوتا . پھر وہ رنگیلا ہو یا رنگیلی اس سے کیا فرق پڑتا ہے . نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے تو پہلے ہی فرما دیا تھا کہ " جو حیا نہیں کرتا وہ جو چاہے کرے " .
                       ....................

شاعری / /مدت ہوئ عورت ہوۓ/ ممتاز قلم / سچ تو یہ ہے/ اے شہہ محترم/ سراب دنیا/ نظمیں/ پنجابی کلام/