بابائی وباء
ساری زندگی محبتیں مشقتیں
کر کے ہر ہر طریقے سے مال بنایا ہے. بیویوں کو صبر شکر اور تسبیح کے راستہ دکھا کر اب جب بیرون ملک خصوصا اور یورپی بابے بالعموم بیوی بچوں کے ہوتے ہوئے بھی پاکستان جا جاکر سہرے باندھ رہے ہیں .
اپنی بیویوں سے بہت شکایتیں
ہیں جن کا ازالہ یہ کسی نوعمر
لڑکی کی زلفوں کی چھاؤں میں
بیٹھ کر کرنا چاہتے ہیں۔
یہ جانے سوچے بنا کہ اس پرانی
بیوی
کو بھی ان کی کس کس بات یا حرکت
سے کیسی کیسی گِھن آتی ہو گی لیکن
وہ اسی گھر میں میں ان کی ساری حق
تلفیوں کے باوجود اپنے بچوں کے لیئے خاموشی سے زندگی گزار رہی ہے ۔ کہ
ہمارے
منافق معاشرے میں میاں نے دس شادیاں بھی کی ہوں تو اسے "مرد ہے "کہہ کر
نطر انداز کر دیا جاتا ہے جبکہ عورت کسی مرد کو چھوڑنے کا فیصلہ کر لے
تو سب سے پہلے اس کے کیریکٹر کی دھجیاں اڑائی جاتی ہیں ۔ یہ جانے بنا کہ
اسے بھی حق اللہ ہی نے دیا ہے اپنی عذاب ناک زندگی سے چھٹکارا پانے کا ۔
یہ صورت حال عام طور پر بچوں کی شادیوں کے معاملات میں دیکھی جا
سکتی ہیں ۔ اس بیوی کی ضرورت پر یا بیماری پر یا کسی شوق پر خرچ کرنا
تو فضول خرچی ہو سکتا ہے جو آپ کے ایک ایک انداز سے آپ کے اگلے قدم
کو جان لیتی ہے ۔ لیکن ایک نوعمر بیٹیوں جتنی عمر کی لڑکی کی ہزاروں
نازیبا فرمائشیں بھی گراں نہیں گزرتی ہیں ۔ شاہد معاملہ کسی پردہ پوشی کا ہو
سکتا ہے ۔ ظاہر ہے محبت کی چڑیا کا تو وہاں گزر ہو ہی نہیں سکتا ۔
ان کا ناقص خیال ہے کہ یہ ان کا کوئ کارنامہ ہے کہ وہ
جوان کم عمرلڑکیوں سے شادی شادی کھیل رہے ہیں بیس بیس پچیس پچیس سال
کے فرق سے کھیلے جانے والے اس ڈرامے میں کسی بھی جانب سے وفاداری
یامحبت بلکہ تھوڑا اور آگے جائیں تو عزت کا بھی کوئ تعلق نہیں ہوتا . بابا جی
کی جیب سے مال اور لڑکی کے دماغ سے لالچ نکال دیاجائے تو یہ رشتہ دھڑام
سے منہ کے بل آ گرتا ہے .
کسی نے ایسے ہی بابے سے شادی کرنے والی نوجوان لڑکی سے پوچھا کہ آپ
نے اس باپ کی عمر والے بابے سے شادی کیوں کی ؟
تو وہ اٹھلا کے بولی
ویکھو جی ، بابے سے ویاہ کرنے کے سب سے بڑے دو فیدے
ایک تو ان کی اِن کم
دوسرے ان کے دِن کم
سوچئے تو جنہیں یہ "دِن "کم بابا سمجھ رہی ہوتی ہیں اکثر وہ بابا اس لڑکی کو
بھی اپنے ہاتھوں قبر میں اتار جاتاہے کہ بابوں کی گارنٹی کون دیگا . یا شاید اس
لڑکی کی لکھی اسی کے ہاتھوں تھی. ایسے ہی ایک بابا جی سے محلے میں
لڑکیوں کو آنکھوں آنکھوں میں تاڑنے پر کسی نے پوچھا کہ
بابا جی آپ کو شرم نہیں آتی'' لتاں تہاڈیاں قبر وچ تے ایسیاں حرکتاں ...''
تو بابا بے شرم بولا ''لتاں قبر وچ نے منہ تے حالی باہر اے...''
یہ بابے پاکستان میں نوعمر بیوی چھوڑ کر اسے اتنی رقم بھیجتے ہیں جو شاید
اپنی عمر کی اپنے بچوں کی اماں کو دس سال میں بھی نہ دی ہو . اور وہاں اس
مال پر اس لڑکی کا پورا خاندان عیش کرتاہے . اور بابا جی کو ایک ہنی مون
پیریڈ کی نام نہاد بیوی مل جاتی ہے.
سچ کہیں تو اگر وہ لڑکی پاکستان میں کسی گناہ میں بھی مبتلا ہو رہی ہے تو
یقینا اس کے ذمہ دار یہ ہی بابا جی ہے . اس پر طُرّہ یہ کہ دونوں کی
ضروریات الگ ، خواہشات الگ،شوق الگ.ایک کو چائینیز پسند تو دوسرے کو
گردے کپورے ، ایک کو کیک کھانا ہے تو دوسرے کو چینی سے پرہیز شوگر
فری ، ایک کو برف کا گولہ کھانا ہے تو دوسرے کو کھانسی کا سیرپ .کون سا
سمجھدار آدمی اپنی زندگی کیساتھ ایسا مذاق کرنا پسند کریگا. ساتھی ،دوست ،
بیوی اور ہمسفر جتنا پرانا ہو تا ہے اتنا ہی آپ اس کو اور وہ آپ کو سمجھنے
لگتے ہیں . ایک دوسرے کی عزت اور خواہشوں کا احترام کریں تو یقین جانیئے
آپ کو اپنے جیون ساتھی میں کبھی کوئ عیب نظر نہیں آئے گا اور آئے بھی تو
یہ سوچیں اور گِنیں کہ اس میں کوئ تو ایسی بات بھی ہو گی جو آپ کو بہت
اچھی بھی لگتی ہے .اسی بآت کی محبت میں ایک دوسرے کو اپنی اپنی زندگی
میں سانس لینے کی جگہ دیتے رہیں گے اور سال بھر میں چند روز یا چند ماہ
ایک دو سرے سے الگ رہ کر دور رہ کر بھی دیکھیں آپ کو ایک دوسرے کی
ایسی بہت سی باتیں معلوم ہوں گی جو آپ کو ایک دوسرے سے مزید محبت
دلائیں گی .اور اپنی پرانی بیوی یا شوہر سے بھی آپ کو اپنا رشتہ نہ تو پرانا
لگے گا اور نہ ہی بوجھ محسوس ہو گا. یہ بات صرف دو میاں بیوی کے بیچ ہی
محدود نہیں ہوتی بلکہ اس رشتے کے اثرات آپ کی اولادوں تک میں سرایت کر
جاتے ہیں .
..................