ممتازملک ۔ پیرس

ممتازملک ۔ پیرس
تصانیف : ممتازملک

ہفتہ، 20 دسمبر، 2014

سایہ خدائے زوالجلال. ممتازملک


                                


                         سایہ خدائے زوالجلال
                                                ممتازملک. پیرس





کیسے کیسےپیارے لوگ اس جہاں سے کس کس انداز میں رخصت ہو جاتے ہیں. اورہم انہیں سپرد خاک کر کے صبر کے سہارے باقی زندگی گزار لیتے ہیں. لیکن یہاں تووطن کی حفاظت کے وعدے کرتےمعصوم اده کھلے گلاب, وطن کےلئے سایہ خدائے زوالجلال کی آرزو کرتے حسین  چاند چہرے اس لیئے اپنے ہی خون میں بے دردی سے نہلا دیئے گئے کہ حکومت پاکستان غیر ملکی بهیک مانگنے کے لیئے غیر ملکی آقاوں کے تلوے چاٹ سکے. اور اس کے بدلے میں دنیا جہاں کا خنزیر اس کے نہتے عوام اور اب تو معصوم بچوں کو بهی جب چاہے قتل کر سکے. توہین رسالت اور توہین رسول کا ڈرامہ کرنے والوں کو ان مکروه قاتلوں کے منحوس تهوپڑوں پر یہ سنت توہین رسالت نہیں لگتی کیا؟ پاکستان میں کیوں ازبک اور افغان کتے لوگوں کو  کاٹتے پهر رہے ہیں؟ کیوں انہیں واقعی دن دہاڑے کتے ہی کی موت نہیں دی جاتی. کیوں انہیں پهانسیوں پر چڑهاکر ان کو ان کی خیالی جنت میں جانے کا راستہ آسان نہیں کیا جاتا. .جو ممالک ان کی حفاظت کے لئیے مرے جا رہے ہیں انہیں لولا لنگڑا کر کے انہیں ممالک کو کیو ں نہیں بهیج دیا جاتا اوران کی لے پالک این جی اوز جوان کی سلامتی کے غم میں گهلی جا رہیں ان پر کیوں بین نہیں لگایا جاتا.؟ ہمارے نااہل حکمرانوں کی صبر پا جاتے ہیں لیکن ہمارے بهانڈ حکمرانوں کویہ بات سمجھنے میں کتنی صدیاں لگیں گی , اور کتنے گهر اجاڑ کر سمجه آئے گی کہ ازبک اور افغان بڑے عہدوں یا نمایاں مقام پر کام کر ے والوں کے سوا ہر آدمی کو 24 گهنٹے میں پاکستان چھوڑنے کا حکم دیا جائے اور ایسا نہ کرنے والوں پر عوام کو کهل کر ان کی تکہ بوٹی کرنے کی اجازت دے دی جائے. جو لوگ ان سے دین کے نام پر یا انسانیت کے نام پر کوئ لاڈیاں کرنے کے موڈ میں ہیں. انہیں بهی انہیں کے ساته انجام تک پہنچایا جائے. پاکستان کی جیلوں میں ہزاروں درندوں کو اس لیئے پالا جا رہا ہے کہ وہ جہاں بهی اور جب بهی ان کی سودا بازی کرنا اور خون کی ہولی کهیلنا چاہے , بے دھڑک اپنا شوق پورا کر سکے. .اس ملک میں انسانوں کے خون کی قیمت کو پانی سے زیادہ سستا کرنے کا سہرا ہر لحاظ سے مذہبی منافرت پھیلانے والے علماء اور ملا کے سر ہے.جنہوں نے اپنے کھاتے بهرنے اور لوگوں کو اپنا بے دام غلام بنانے کے لیئے لوگو ں کو تقسیم در تقسیم کر دیا. اتنا کہ خود اپنی پرستش کااعلان ہی باقی رہ گیاہے .اس ملک کو بچانا ہے یا اس دین کو مزید لٹنے اور بدنام ہونے سےبچانا ہےتو ان تمام دین فروش علماء اور ملاءوں کے ساته وہی سلوک ہونا چاہیئے جو چنگیز خان نے ان کے ساتھ کیا. .آج ان دین فروش مفتیوں کے ہاتهوں کوئ مسلمان محفوظ نہیں. اور مسلمانوں کو جتنا خطرہ ان علماء اور ملاءوں سے ہے اور کسی سے نہیں.اسی لیئے آج ہمیں چنگیز خان بهی ہیرو لگنے لگا ہے. کیا اب اس زیادہ بهی کوئ برا وقت ہو گا کہ چوراہوں پر ہمیں ان مکروه صورت قاتلوں کو لٹکادیکهنے کے لیئے اور کتنا اور کس بات کا انتظار ہے. اب تو انہیں جھولی پهیلا کر بددعا بهی دینا ہے اور جوتا اٹها کر انہیں ان کی اوقات بهی یادکرا ناہےان حکمرانوں کو بهی خدا لمبی عمر اور ہوش و حواس دیکر ایسے ہی اپنی اولادوں کے غم دکها ئے تاکہ انہیں پتہ چلے کہ یوں جب ایک ایک پل اپنا کوئ پیارا جب ایسی درندگی سے گزر رہا ہوتا ہے تو اپنے رشتوں پر کیا گزرتی   ہے. جبهی ہماری قوم پاک سرزمین کو شاد باد بهی کر سکے گی اور سایہ خدائے زوالجلال کی امید بهی.
                                         ....................


                                                    

اتوار، 14 دسمبر، 2014

پنجابی نعت ۔ دساں کی حلیمہ ۔ اے شہہ محترم صلی اللہ علیہ وسلم


پنجابی  نعت 

  دساں کی حلیمہ تیری بکریاں جو چاردا
   خوبیاں کی دساں اوتے یار سوہنڑیں یار دا


کدی وی سواد نال معاملے نبھاۓ نہ
 اج وی جے میرے گھر سن لو او آۓ نہ
 میں تے گناہگار ہاں ڈر گھر بار دا  
 خوبیاں کی دساں اوتے یار سوہڑیں یار دا
  دساں کی حلیمہ ........


 اک دن سامڑیں تیرے میں کھلوڑاں اے
 پلے میرے کج وی نہیں  اس دن ہوڑاں اے
  رحمتاں تے آسرا اے میرے ہر بھار دا  
  خوبیاں کی دساں اوتے یار سوہڑیں یار دا 
 دساں کی حلیمہ تیری .........


 من چاہی گل کیتی من چاہی کم  وی  
 ویچ کے آخیر مینوں ملڑیں سی غم وی  
 اوناں دا خلوص ممتاز واجاں ماردا
    خوبیاں کی دساں اوتے یار سوہڑیں یار دا
  دساں کی حلیمہ ........
.......

جمعہ، 12 دسمبر، 2014

خواتین کی ڈگری یا سٹیٹس سمبل / ممتازملک ۔ پیرس





خواتین کی ڈگری یا سٹیٹس سمبل 
ممتازملک ۔ پیرس



 لیجیئے آخر کو حکومت کو خیال آ ہی گیا کہ خواتین کے لیئے علیحدہ سے میڈیکل کالج کی ضرورت ہی کیا ہے ۔ جن خواتین کو علم حاصل کرنا ہے یا جن لڑکیوں کو ان کے ماں باپ نے کسی معزز پیشے میں جانے کی اجازت دینی ہی ہے انہیں اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ ان کی بیٹی ڈاکٹر بن کر کسی مرد کا علاج کرتی ہے یا کسی خاتون کا ، ویسے بھی معالج تو معالج ہی ہوتا ہے اس کی جنس سے کسی کو کوئی مطلنب نہیں ہو سکتا ۔ پہلے ہی خواتین کے الگ سیٹوں نے میڈیکل کالج کے لیئے لڑکوں کی حد سے زیادہ حق تلفی کر لی ۔ یہ ایک شرمناک حقیقت ہے کہ ہمارے معاشرے میں 90 فیصد خواتین  یا ان کے والدین یہ سوچ کر یونیورسٹی یا میڈیکل کالج میں داخلہ کرواتے ہیں کہ چلو جی کسی اچھے گھر کا لڑکا ہاتھ آ جائے گا ۔  اگر یہ بات سچ نہیں ہوتی تو کون سا ایسا احمق ہو گا کہ وہ اپنی زندگی کے 8 یا 10 سال ایک پیشے کی تعلیم حاصل کرے ملک و قوم کا لاکھوں روپیہ خرچ کروائے اور اس کے بعد یہ کہہ کر ڈگری لپیٹ کر یا فریم کروا کر رکھ دے کہ نہیں جی ہمارے ہاں لڑکیاں نوکری نہیں کرتی ہیں یا لڑکا نہیں مانتا یا سُسر کام نہیں کرنے دیتے یا ابو پسند نہیں کرتے تو ایسی تمام ہڈ حرام خواتین سے درخواست ہے کہ آئندہ اپنی بیٹیوں کے لیئے بھی یہ سروے کر لیا کریں کہ انہیں کن سے اجازت لیکر بچی کو کہیں داخلہ دلوانا ہے ۔کس کس کی اجازت لینا ہو گی اپنا کیرئیر شروع کرنے کے لیئے ۔ ورنہ کیا ضرورت ہے کسی لڑکے کا حق مار کر یوں میڈیکل کے پروفیشن کا مذاق اڑانے کا ۔ ہمارے خیال میں تو یہ لڑکے لڑکیوں کا کوٹہ سسٹم ہی غلط ہے ۔ ہماری حکومت سے درخواست ہے کہ لڑکیوں کی تمام ترجیحی سیٹس ختم کی جائیں ۔ بلکہ لڑکیوں کے 99 نمبرز پر لڑکوں کے 70 نمبرز کو ترجیح دی جائے کیونکہ ان لڑکوں نے کل کو فیلڈ میں آ کر ملک قوم کی خدمت کرنا ہے ۔ان لڑکیوں کی طرح گھر کے چولہے میں ڈگری نہیں جھونکنی ۔ ہر لڑکی جو میڈیکل یا انجینئیرنگ یا ایسی ہی کسی پروفیشن کو  چنتی ہے تو اس سے خصوصی فارم بھروایا جائے ۔ جس میں انہیں اس بات کا پابند کیا جائے کہ وہ ڈگری لینے کے بعد لازمی فیلڈ میں پریکٹس کرینگی اور سوائے بچوں کی پیدائش یا بیماری کے کسی بھی صورت میں دو یا تین سال سے زیادہ اپنے پیشے سے چھٹی نہیں کر سکتیں ۔ اور اگر وہ ایسا نہیں کرینگی تو انہیں کم از کم دس لڑکوں کو اس شعبے کی ڈگری دلوانے کے اخراجات بطور جرمانہ ادا کرنے ہوں گے ۔  اس قانون کے بعد یا تو لڑکیاں اس  شعبے میں آئیں گی نہیں اور جو آئیں گی وہ پوری ایمانداری سے اور اپنا ذہن بنا کر اس پیشے کا انتخاب کریں گی ، اور اپنے ملک کے لیئے پوری طرح سے ایک مفید شہری ثابت ہونگی ۔ اور جو لوگ سٹیٹس سمبل کے طور پر لیڈی ڈاکٹر یا وکیل کا انتخاب تو کر لیتے ہیں تاکہ معاشرے میں انکی ناک اونچی ہو جائے تو انہیں پھر یہ سوچ کر لڑکی کا انتخاب کرنا ہو گا کہ اس لڑکی کو اپنے پیشے میں کام بھی کرنا ہے ۔ ایک اور بات جو لڑکیاں ان پیشوں کا انتخاب کرتی ہیں ان میں خود بھی اتنی اخلاقی جرات ہونی چاہیئے کہ وہ اپنے رشتے کے وقت  لڑکوں کو یہ بات واضح کہہ سکیں کہ  مجھے شادی کے بعد اپنے پیشے کو جاری رکھنا ہے اگر وہ اس کے لیئے راضی ہے تو بات آگے بڑھائے ورنہ یقیناََ وہ کوئی اس دنیا کا آخری لڑکا ہر گز نہیں ہے ۔ خدا نے اُس شخص کو آپ کے لیئے منتخب کیا ہے۔ جو آپ کی تعلیم آپ کی سوچ اور آپ کی فیلڈ کی دل سے عزت کریگا ۔ اور جو ایسا نہ کر سکے اسے صرف ایک باندی چاہیئے ۔ اور اگر آپ کو خود باندی ہی بننے کا شوق ہے تو کوئی آپ کے لیئے کچھ نہیں کر سکتا ۔ حکومت کو اس بات کا سختی سے نوٹس لینا ہو گا کہ ہر سو میں سے کتنی لڑکیاں ڈگری لیتی ہیں، کتنی فیلڈ میں جاتی ہیں اور کتنی گھروں میں بیٹھ جاتی ہیں ۔ کہ یہ صرف ایک فرد کی مرضی کا نہیں بلکہ قوم کے آٹھ سے دس سال اور لاکھوں روپے کی ایک فرد پر سرمایہ کاری کا معاملہ ہے ۔ 
                                      ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

منگل، 9 دسمبر، 2014

تاج محل ،بحبت کا مقبرہ یا دولت کا غرور


تاج محل ،
محبت کا مقبرہ یادولت کا غرور
ممتازملک۔ پیرس



پچھلے دنوں اپنی بہت ہی پیاری دوست معروف شاعرہ محترمہ صدف مرزا کی بھارت یاترا کی دلچسپ کہانی ہڑھتے ہوئے ان کی تصاویر کئی یادگار مقامات پر دیکھتے ہوئے بہت سے جذبوں نے سر اٹھایا ، خاص طور پر تاج محل کو دیکھ کر اسکے تعمیر کروانے والے شہزادہ خرم المعروف شہنشاہ ہند شاہجہاں اور انکی بیگم ارجمند بانو المعروف ملکہ ہندوستان ممتاز محل کے عشق کی داستان کے بارے میں  ایک ایک پڑھا ہوا لفظ میرے ذہن کے گوشوں سے چیختا چنگھاڑتا ہوا مجھے جھنجھوڑتا ہوا میرے دماغ کی فصیلیں توڑتا ہوا محسوس ہوا ۔ یہ کیسی محبت تھی جس میں ایک شہزادہ اپنی سوتیلی ماں جو کہ ملکہ وقت نور جہاں جیسی پاورفل عورت ہو  سے لڑ کر اسی کے بھائی کی بیٹی سے محبت میں مبتلا ہوتا ہے اس سے ایک بڑے مقابلے کے بعد بیاہ رچاتا ہے ۔ پھر اسے حاصل کرنے کے بعد اسے ہر سال ایک بچے کی پیدائش کی ذندگی اور موت کی اذیت سے گزارتا ہے ۔ اس کے ساتھ کا شادی کے بعد کا عرصہ اس کی بیوی نے اس کی اولاد پیدا کرتے کرتے موت کو گلے لگا لیا ۔  کہاں گئی وہ محبت ۔ جب اسے اولاد کا تحفہ دینے کے سوا شاید اسے اپنی اس محبوب بیوی سے بیٹھ کرکھل کر بات کرنا بھی نصیب نہیں ہوا ہو گا جب کہ  وہ اس کی اکلوتی بیوی بھی نہیں تھی پھر بھی ممتاز محل مسلسل چودہ سال تک بچوں کی پیدائش کے اذیت ناک مرحلے سے دوچار رہی اور بلآخر چودھویں بچے کی پیدائش کے دوران ہی اس دنیا سے چل بسی ۔ یہ کیسی محبت تھی جس نے اس معصوم عورت کو کبھی ایک نارمل انسان کی طرح صرف ایک وجود کی طرح جینے کا حق بھی نہ دیا اور اسکی موت کے بعد کوئی ایسا فلاحی کام جس میں کوئی اور ایسی تکلیف سے نہ گزرے ،کرنے کی بجائے آج کا اربوں روپیہ لگا کر ایک عظیم الشان مقبرہ تعمیر کروا دیا۔ دوسرے لفظوں میں بتا دیا کہ محبت کا آخیر یہ مقبرہ ہی ہوا کرتا ہے اور مجبت کرنے والوں کی شادی بھی ہو جائے تب بھی اسے چین ایک قبر میں ہی آتا ہے ۔ یہ محبت کی یادگار ہے یا رہتی دنیا تک ایک عورت کے وجود کی نفی ہے یا ایک بادشاہ کی جانب سے دنیا کے دل میں  اپنے اثاثوں کی دھاک بٹھانے کا ایک طریقہ ہے ۔ کیا ہےیہ ؟ ایک شعر بڑی شدت سے یاد آ رہا ہے کہ                                                             
                       اک شہنشاہ نے بنوا کے حسیں تاج محل
                       ہم غریبوں کی محبت کا اڑایا ہے مذاق
محبت میں کسی کو پھانس چھبونا بھی خود پر تلوار چلنے جیسا لگتا ہے ۔ انسان ایک کی بات دوسرے سے کہے بنا سمجھ جاتا ہے ۔ایک کی غیر موجودگی میں اسکے میلوں دور ہوتے ہوئے بھی اسکے ساتھ کچھ اچھا یا برا ہو جانے کو محسوس کر لیتا ہے ، لیکن یہ کیسا بادشاہ محبت تھا جس نے اپنی بیوی کو کبھی زچگی کی تڑپ کے سوا کچھ نہ دیا۔ یہ اس کی محبت تھی یا اس عورت سے کوئی تاریخی بدلہ ۔ کہ دیکھا کیسے ایک مرد تاحیات ایک عورت کو زندگی اور موت کے امتحان میں مبتلا کرتا ہے اور بعد میں ایک قاتل  محبت کہلانے کے بجائے باشاہ محبت بھی کہلاتا ہے ۔ اگر یہ محبت ہے تواللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے  کہ ہم اس محبت سے محفوظ ہی ہیں کہ جس کا انجام کسی مقبرے کی صورت میں دنیا کے کلیجے پر کھڑا نظر آئے ۔ اور جسے اس سنگی مقبرے میں جدائی کی تڑپ اور زچگی کے خوفناک عمر قید بخشی گئی ہو اسے مظلوم بھی نہ سمجھا جائے بلکہ اسے بھی ایک قاتل بادشاہ کی خوش نصیب بیگم قرار دیا جائے ۔ اُففففففففف کیسی بھیانک حقیقت ہے ۔ میرا زہن اس سے آگے کچھ بھی سوچنے کی ہمت کرنے کو تیار نہیں ۔ ارجمند بانو عرف ممتاز محل ایک شہید تھی ۔ اور ہم میں سے کوئی بھی اس کی بیچارگی کا تصور بھی نہیں کر سکتا ۔ اللہ پاک ان کی روح کو سکون عطا فرمائے ۔ آمین 

                                     ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہفتہ، 6 دسمبر، 2014

خدا اور مجازی خدا / کالم


                                

        خدا اور مجازی خدا
        تحریر: ممتاز ملک. پیرس


عورت دنیا کی وہ مخلوق ہے جس میں جذباتی پن باقی تمام مخلوقات سے کہیں ذیادہ پایا جاتا جاتا ہے .مردوں کی دنیا نے عورت کے جذبات کو اپنے مقاصد کے لئے خوب خوب استعمال کیا. جب وه جوان ہوتا ہے تو کسی اور کی بیٹی کو محبت کےدهوکے میں اٹھارہ بیس سال تک پالنے اور پڑھانے لکھانے دنیا میں جینے کے قابل بنانے والے اپنوں کو اپنے ہی ماں باپ کے خلاف کھڑا کر دیتا ہے۔ اسے ہر بات پر بغاوت کے لئیے اکساتا ہے. ہیر رانجھا، سسی پنوں، سوہنی ماہیوال اورلیلی مجنوں کو اس کی زندگی کاآئیڈیل بنا دینا چاہتا ہے. اور اگر وہ اس کےدکهائے رستے پر آنکهیں بند کر کے چلنے پر راضی نہ ہو جائے تو کبهی اسے بیوفائی کا طعنہ دیگا تو کبهی اسے خود غرض کہے گا. ایک وقت آتا ہے کہ وہ لڑکی گوڈے گوڈے اس کے عشق میں مبتلا ہو کر ہر رشتہ ہر تعلق توڑنے کو تیار ہو جاتی ہے اس کے ساته اپنا گهر بار چھوڑ کر نیا جہاں آباد کرنے کو گهر کی دہلیز بهی لانگ جاتی ہے. یہ وہ قدم ہوتا ہے جو کسی بهی عورت کے لیئے عزت اور وقار کیجانب لوٹنے والے سارے دروازے بند کر دیتا ہے.
پهر شروع ہوتا ہے کہانی کا دوسرا حصہ, اب اس لڑکے یا آدمی کی مرضی کہ کبهی تو اسے اپنے مصرف میں لاکر کسی سڑک پر کچرے کے ڈھیر میں پھینک آئے, چاہے تو کسی بازار میں بٹھا کر چار پیسے کهرے کر لے, یا پهر کوئی رتی بھر بهی کبهی لگاؤ رہا تها تو اس کے صدقے اس سے کسی مسجد یا کچہری میں نکاح کر لے گا. لڑکی چار دن کے عشق کے بخار کے بعد اپنے بیوی والے حقوق چاہتی ہے. تو موصوف کی جب اور جتنی مرضی کوئی حق دے یا ہش کہہ کر اسے ایک طرف دھکیل دے. ہر مرد کی یہ دلی خواہش ہوتی ہے کہ اسکی بیوی شادی سے پہلے ایک بڑے اور اعلی خاندان سے تعلق رکهتی ہو لیکن شادی کے بعد اسے بلکل لاوارث ہونا چاہیئے. تاکہ وہ جب اور جیسے چاہے اس لڑکی کی تواضع کر سکے. اس لیئے گهر سے بھاگی ہوئی لڑکی اسے ذیادہ مناسب لگتی ہے. کیونکہ جب بھی یہ لڑکی کوئی گلہ کرے تو پہلا جواب جو اس کی زبان کی نوک پر دھرا ہو گا وہ یہ ہی ہو گا کہ میں کون سا تیری ڈولی اٹھانے آیا تھا یا میں کونسا بارات لیکر تیرے دروازے پر کھڑا تھا کہ آنکهیں دکھاتی ہے. میری مرضی سے رہنا ہے تو رہ ورنہ رستہ لے, کیونکہ وہ اچهی طرح جانتا ہے کہ رستے تو سارے وہ اس کے عشق کےاندهیرے میں گنوا آئی ہے.
دوسری جانب جب خود بیٹی کا باپ بنتا ہے تو چاہتا ہے کہ ہوا بهی اس سے پوچھ کر اس کی بیٹی کو چھوئے. اس کے لئے یہ ہی ہیر رانجھا, سسی پنوں آوارہ لوگ ہو جاتے ہیں. عزت سے گهر پر رشتہ لانےوالوں میں بھی ہزاروں کیڑے نظر آنے لگتے ہیں. بیٹی کا صرف  اپنی مرضی کا اظہار بهی بدبختی قرار دیا جاتا ہے. سمجه میں نہیں آتا کہ جو حق اس نے کسی کی بیٹی کو بیوی بنا کر نہیں دیا اس کا تقاضا وہ کسی اور سے اپنی بیٹی کے لئے کس منہ سے کرتا ہے.
 اس لئے کہ اسے اپنا مجازی خدا ہونا تو یاد رہتا ہے لیکن کاش اسے کسی اور ذات کا خدا ہونا بهی یاد رہے .                     ............

منگل، 2 دسمبر، 2014

سرجی پونتواس میں عید ڈنر



سرجی پونتواس میں عید ڈنر

 سرجی پونتواس میں  19 اکتوبر 2013 کو ایک عید ملن کا اہتمام کیا گیا جس میں ایک پاکستانی فیمیلیز کے علاوہ بڑی تعداد میں  انڈین ، فرنچ ، عرب  اور افریقی خواتین و حضرات نے شرکت کی ۔ یہ پروگرام ایک جمنازیم ہال میں تھا جس میں سارا ہال لوگوں سے بھرا ہوا تھا اور منتظمین کو فالتو میز بھی لگانے پڑے ۔ پروگرام کے مہمان خصوصی میں پاکستانی سفیر جناب غالب اقبال صاحب اور  سرجی پونتواس کے میئر اپنی ٹیم کیساتھ شامل تھے ۔ جنہوں نے ایک ہی مقام پر پاکستانیوں کے اتنے بھرپور اجتماع کو بہت سراہا ۔ اور اپنے اندر ڈسپلن پیدا کرنے اور اتحاد کی ضرورت پر زور دیا ۔ انہوں نے پاکستانی کمیونٹی کو عید کی بھرپور مبارکباد بھی پیش کی ۔ پروگرام میں بچوں کے لیئے کافی اچھے انعمات  کی لاٹری بھی رکھی گئی  ۔ اور انعمات تقسیم بھی کیئے گئے ۔ بچوں کے لیئے کئی مقابلے بھی اناؤنس کیئے گئے ۔ پروگرام کے آخر میں ایک پرتکلف عشائیہ دیا گیا ۔ بلاشبہ کھانا بہت ہی لذیذ تھا اور بہت ہی وافر بھی ۔ جس میں مرغ پلاؤ ، چکن بروسٹ ، حلیم ، مٹن قورمہ ، نان اور رائیتہ اور میٹھے میں حلوہ تھا جبکہ بعد میں کلفیاں بھی ہر فرد کو تقسیم کی گئیں  ۔ انتظامیہ میں شامل خواتین و حضرات نے لوگوں کی اچھی میزبانی کی ۔  یہ پروگرام ایک یادگار پروگرام رہا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تہمتیں لگاتے ہو


تہمتیں
(کلام/ممتازملک۔پیرس)





 تہمتیں لگاتے ہو تہمتیں لگانے دو
 شرم کسطرح آئے ہو سکے تو آنے دو

 کتنے سال بھٹکے تھےجوشقیں بنانے کو
 عزتیں نہ دے پائیں وہ  شقیں  مٹانے  دو

 روشنی ضروری ہے یہ خبر تو ہےہمکو 
 جو کبھی نہ بجھ  پائیں وہ  دیئے جلانے دو 

بھول بیٹھے ہو اپنی جو روایتیں تم سب
گر سکھانے آئے ہیں ہمکو وہ سکھانے دو


             ۔۔۔۔۔۔۔۔

بہت ممکن ہے میں شاعر نہ ہوتی ۔ سراب دنیا




بہت ممکن ہے میں شاعر نہ ہوتی 



بہت ممکن ہے میں شاعر نہ ہوتی 
تو بن کر میں مجاور
کسی درگاہ پر جھاڑو لگاتی
یا بن کے میں کوئی مجذوب ہستی
ہواؤں میں کہیں رستے بناتی
یہ دنیا پھر بھی میرے گرد
 اک مجمہ لگاتی
کبھی ہنستی 
کبھی ٹھوکر لگاتی
میں اپنی رال سے لکھتی فسانے
بدلتے یہ سبھی منظر 
اگر پُتلی میں آنکھوں کی گھماتی
تُو پیچھے بھاگ دنیا کے
یہ تجھ سے دور جائے
تو ٹھوکر دے اسے جس دن
تیرے پیچھے یہ آئے
اگر تُو پاس دنیا کے تو
رب سے دور ہو گا
اگر ہو پاس رب کے تو 
یہ قدموں میں سمائے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اتوار، 30 نومبر، 2014

میراہاتھ اسکی ناک / ممتازملک ۔ پیرس

                                          

                                   میراہاتھ اسکی ناک
                                   ممتازملک ۔ پیرس



اللہ پاک نے انسان کو حیران کر دینے والی صلاحیتوں کیساتھ دنیا میں بھیجا ۔ اسے مختلف رنگ روپ دیئے اسے جدا گانہ نین نقش دیئے ، اسے کتنی مختلف آوازوں سے نوازہ ،اسے ایک سے بڑھ کر ایک خوبیاں عطا کیں. اسے بڑے سے بڑا غم جھیلنے کی ہمت دی اسے بڑی سے بڑی خوشی کو سنبھالنے کا حوصلہ دیا ، ایک چھوٹا سا دل بھی دیا جو کبھی نہ کبھی ضرور اپنی من مانی کرنے کو ایک بچے کی طرح مچلتا ہے ۔ اب اس کی ننھی ننھی خواہشوں کو اگر قابو کر لیا جائے اور جائز اور ناجائز کی حدود میں باندھ دیا جائے تو کوئی مضائقہ نہیں کہ اس کی بے ضرر خواہشات کو پورا بھی کر لیا جائے .جیسا کہ نبی پاک ﷺنے بھی فرمایا کہ اللہ پاک فرماتے ہیں کہ ''لوگو تم پر تمہارے نفس کا بھی حق ہے ۔'' اب سمجھنے کی بات یہ ہے کہ اس حق کا دائرہ وہاں پر ختم ہو جاتا ہے جہاں کسی اور کے حق کا دائرہ شروع ہو جاتا ہے ۔ یعنی یہ کہنا بلکل ٹھیک رہے گا کہ آپ کے ہاتھ کی پہنچ وہاں ختم ہو جاتی ہے جہاں سے اگلے کی ناک شروع ہوتی ہے ۔ آج کل نیٹ کا زمانہ ہے اس ٹیکنالوجی کو اور آگے سے آگے بڑھنا ہے ، بہت سے پردے ہمارے آنکھون سے ہٹ رہے ہیں۔ یہ نیٹ انہیں بھی میسر ہے جو دن رات ہر طرح کے کاموں میں ملوث ہیں اور انہیں بھی جو مشکل سے اسے آن کرنا ہی جانتے ہیں ۔ اس صورت میں کیونکہ سب لوگوں کا آئی کیو لیول ایک سا نہیہں ہوتا اس پر طُرّہ یہ کہ ہمارے ملک میں ویسے بھی خواتین کا ہر کام کرنا ایک ہوّا بنا لیا جاتا ہے ایسے میں فیس بک کی دنیامیں خواتین کو دیکھنا  ان کے لیئے ایسے ہی ہوتا ہے جیسے ٹافیوں کی دکان پر بے شمار ٹافیاں پڑی ہوں ،دکان کا مالک انہیں نظر نہ آ رہا ہو اور کوئی سمجھ لے کہ اسے دیکھنے اور پکڑنے والا کوئی نہیں ہے ،لہذا جتنی چاہے ٹافیاں اٹھا کر فرار ہو سکتا ہے ۔ جبکہ مالک کسی خفیہ مقام سے ان پر نظر رکھے ہوئے ہو اور پتہ اس وقت چلتا ہے جس اس کی گردن پر ایک زور کا ہاتھ پڑتا ہے ۔ ان میں اکثر زنانہ نام تو زنانے مردوں نے فرضی طور پر اختیار کیئے ہوتے ہیں ،جنہیں ہم فیک اکاؤنٹس کہتے ہیں یہ وہ زنانے کردار ہیں جو خاتون بنکر کسی بھی مرد کی بینڈ بجانے کا کام کرتے ہیں ۔ اس میں ان کا مردوں سے نازیبا گفتگو ، گھروں کے حالات تک رسائی ،ان کے اغوا اور اب تو قتل کی وارداتوں تک بات پہچ چکی ہے ۔ لیکن اس کے لیئے ٹیکنالوجی ذمہ دار نہیں ہے یہ تو ختم کبھی نہیں ہو گی بلکہ  مذید جدید شکل اختیار کرتی جائی گی ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اس کے مثبت استعمال کو فروغ دیا جائے اسے سڑک پر کھڑے ہو کر بات کرنا ہی خیال کیا جائے اپنے بیڈ روم یا کسی نیٹ کیفے میں چھپ کے اس پر بات کرنے کو یہ نہ مسمجھ لیا جائے کہ کوئی آپ کو نہیں دیکھ رہا یا کوئی آپ کو نہیں پڑھ رہا یا نہیں پکڑ سکتااور آپ جو چاہیں گل کھلاتے رہیں ۔ یاد رکھیں یہ وہ اعمال نامہ ہےجو ہم اپنے ہاتھوں سے تیار کر رہے ہیں ۔ اور یہ وہ کمبل ہے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ''میں تو کمبل کو چھوڑتا ہوں کمبل مجھے نہیں چھوڑتا ۔"  کسی بھی خاتون کو یہ کہنا تو آپ کو بڑا کمال لگتا ہے کہ" میں آپ کو بیسٹ فرینڈ بنانا چاہتا ہوں" لیکن جب اس سے یہ پوچھا جائے کہ" کیا یہ سہولت آپ نے اپنی بہن کو بھی مہیا کر رکھی ہے" تو فورََا حضرات کی دم پر ایسا پاؤں پڑتا ہے کہ الامان اور الحفیظ ۔ ایک منٹ میں یہ بات ثابت ہو جاتی ہے کہ وہ مرد کس ذہنیت کا مالک  ہے ۔ بھئی اپنے کام کی بات کرو کام سے مطلق سوال کرو اور اپنی عزت اپنے ہاتھ میں رکھو ۔ اپنے ہاتھ کو دوسرے کی ناک تک پہنچاؤ گے تو جواب تو سننا ہی پڑیگا. ان لوگوں کو جب کسی دوسرے میں ڈھونڈنے پر بهی کوئ عیب نہ ملے تو یہ فوراً دوسرے کی فزکس پہ جملہ بازی فرمانے لگیں گے. یہ کالا ہے یہ موٹا ہے. .یہ ناٹاہے .یہ لمبا ہے.یہ.بهینگا ہے بلا بلا بلا. جب بهی کوئ آپ کی ذات پہ ایسی بات کرے تو فوراً سمجه جائیں کہ انہیں آپ میں کوئی اور عیب نہیں مل سکا. اور اپنی جلن مٹانے کے لئیے یہ سب کہہ رہے ہیں. ویسے بهی انگور کهٹےہوں تو انسان کامنہ تھوڑی دیر کے لیئے تو سکڑ ہی جاتا ہے. جب تک آپ ایسے مردوں کی باتوں کو نظر انداز کرتے رہیں یا خاموش رہیں یہ خواتین کو میم ، میڈم، محترمہ کہتے رہیں گے جیسے ہی آپ نے انہیں کسی بات سے منع کیا تو فوراً سے پیشتر اپنی اوقات آپ کو دکها دینگے.  اور اپنی زبان سے اپنے خاندان کا تعارف بهی پیش کر دینگے. .لہذا ہم تمام خواتین کو یہ بات زہن نشین کر لینا چاہیئے .کہ جھوٹی تعریف میں کبهی اپنا دماغ خراب نہیں ہونے دینا چاہیئے..اور بے مقصد اور بے تکی باتوں کا جواب دینے سے ہمیشہ پرہیز کرنا چاہیے. تاکہ کسی کا بهی ہاته ہماری ناک تک نہ پہنچ سکے.اور ہم بھی اپنا ہاته انکی ناک سے دور رکھیں. 
                                        ....................

جمعرات، 27 نومبر، 2014

● (21)کیسا نصف ایمان / کالم۔ سچ تو یہ ہے

                                    
          (21) کیسا نصف ایمان
             تحریر:ممتازملک۔ پیرس


بحیثیت ایک مسلمان کے ہم سب بچپن سے ایک حدیث پاکﷺ اکثرہی سنتے رہے ہیں کہ ''صفائی نصف ایمان ہے'' لیکن اس بات کا بهید تب کھلتا ہے جب ہم مسلمان اور خاص طور پر پاکستانی کبھی بهی پبلک ٹائلٹ کا استعمال کرتے ہیں. پهر چاہےجہاز ہو یا ٹرین ،کسی ریسٹورنٹ کے ٹائلٹ ہوں یا سینما کے اور تو اور ہاسپٹل میں بلکہ کسی سکول یا مسجد کے ٹائلٹ ہی جا کر دیکھ لیں کہ ہمیں اپنے مسلمان ہونے پر باقاعدہ شک ہونے لگتا ہے ۔ غرض کوئی بهی جگہ ہو، بس کسی پاکستانی کے وہاں سے نکلنے کے بعد ایک نظر اس ٹائیلٹ یا واش روم پر ڈال لیں وہ جگہ خود چیخ چیخ کر بتائے گی کہ وہاں سے کون ہو کر آیا ہے. اور تو اور واش بیسن کے استعمال کے بعد اس کی حالت ان پر آنسو بہا رہی ہوتی ہے. ہمارے پیارے نبی ﷺ نے جس صفائی کو ہمارا نصف ایمان فرمایا ہے اس نصف ایمان تک پر ہم پورا نہیں اترتے تو باقی نصف کہاں سے مکمل ہو گا. کیا ہمارا دین خود پسندی کی کوئی گنجائش رکھتا ہے ۔ اس کا جواب نہیں ہے تو ہم یہ کیسے سمجھ لیتے ہیں کہ ہم نماز کی نام پر زمین پر ماتھا رگڑ لیں گے یا ہر لغو بات کیساتھ صبح سے شام تک روزے کے نام پر فاقہ کر لیں گے یا لوگوں کو دکھانے کے لیئے حج کا ٹیگ ماتھے پر لگا لیں گے تو ہمارا ایمان مکمل ہو جائے گا ۔ جب کہ ان میں سے کوئی بھی چیز ایسی نہیں ہے جسے ایمان کا اتنا بڑا حصہ قرار دیا گیا ہو ۔ یہ سب فرائض ہیں جو ہمارے ذاتی مفاد کی باتیں ہیں جو کسی کمی کے بعد بھی انسان کو ایمان سے خارج نہیں کرتیں لیکن جو چیز ہمیں ایمان سے خارج کرتی ہے اس میں حقوق العباد کو اہم ترین قرار دیا گیا جو کہ ساری دنیا کے انسانوں پر اثر انداز ہوتے ہیں ۔ اس کے بعد ہمیں صفائی کی جانب متوجہ کیا گیا اس قدر سختی کیساتھ اسے ہمارے ایمان کا آدھا حصہ بنا دیا ۔ جس تک ہم اس پر عمل نہیں کریں گے ہم مسلمان ہی نہیں ہو سکتے اور یہ حکم ہمیں صرف اپنے گھروں کے باتھ روم ٹائلٹس ہی صاف رکھنے کے لیئے نہیں دیا گیا ہے بلکہ اسے ہماری پوری زندگی پر محیط کر دیا گیا ہے ۔ لیکن ہم لوگ اپنے پورے ملک اور عوام کے کسی بھی طبقے پر نظر ڈالیں افسوس صد افسوس  کہ ہمیں لگے گا کہ صفائی سے ہمیں خدا واسطے کا بیر ہے ۔ اپنے گھر کا کوڑا دوسروں کے گھر کے آگے ڈال دینا ، گھروں کا کچرا سو روپے کسی جمعدار کو نہ دینے کے لیئے گھر کے قریب کسی بھی پلاٹ میں یا کسی ندی میں پھینک کر اسے نالہ بنا دینا ،  ہمارے لیئے کبھی بھی باعث شرم نہیں رہا ۔ کیونکہ باعث شرم تو وہ کام ہوتا ہے جو سب نہیں کرتے کوئی ایک آدھ ہی کر رہا ہو جبکہ جہاں سب ہی ایک کام میں برابر کے شریک ہیں تو پھر شرم کیسی وہ تو رواج ہو گیا نا ۔ پبلک پلیس پر لگے کوڑا دان اول تو کوڑا ڈلنے کا انتظار ہی کرتے رہتے ہیں اور اگر شومئی قسمت کسی کوڑے دان کو بھرنا نصیب ہو بھی جائے تو مجال ہے کہ صفائی والی گاڑیاں کبھی بھی باقاعدگی سے آ کر اس کوڑا دان کو خالی کرنے کی تکلیف گوارہ کر لیں جب تک کہ اس میں کوڑا اُبل اُبل کر باہر گرنا نہ شروع کر دے یا علاقے کے لوگ ناک پر رومال باندھ کر صفائی والوں کو گالیاں دیتے ہوئے گزرنا شروع نہ کر دیں ۔ لگتا ہے ان گاڑیوں کو سال میں ایک دو بار ہی صفائی کی تنخواہ دی جاتی ہے ان کے ہاں ایک دو دن بعد کا کوئی ٹائم ٹیبل کم از کم ہم نے تو کبھی کہیں نہیں دیکھا ۔ اس گندگی میں صرف مرد ہی نہیں ہماری خواتین بهی کسی لحاظ سے کم نہیں ہیں. کیا واش روم کے استعمال کے بعد خواتین کو اس بات پر کبھی شرم محسوس ہوئی کہ وہ واش روم کو کس حالت میں چھوڑ کر جا رہیں ہیں اپنے بچوں کے نیپی جنہیں استعمال کرنا اور پھینکنا ہی نہیں آتا وہ محترمائیں بھی نیلی پیلی لپ اسٹک پوتنا نت نیا فیشن کرنا تو جانتی ہیں لیکن یہ نہیں جانتی ہیں کہ بچے کو کیسے صاف کیا جائے ، اس کے نیپی کیسے رول کیئے جائیں اور انہیں کہاں پھینکنا ہے ؟ اور تو اور انہیں تو شاید اتنی بھی تمیز نہیں ہوتی کہ واش روم پبلک پلیس کا بلکل یہ مطلب نہیں ہے کہ اب یہاں سے دنیا کا کوئی اور بندہ نہیں گزرے گا ، یا  اسے کسی بھی حالت میں چھوڑ دیا جائے اور وہاں اپنی نشانیاں لوگوں کو دکھانے کے لیئے چھوڑ آئیں ۔ کہ  دیکھو یہاں سے کس گندے آدمی یا یا عورت کا گزر ہوا ہے ۔ ایک بات کوئی بھی حرکت کرتے ہوئے یاد رکھیں کہ ایک خاتون کی بے شرمی یا گندگی سبھی خواتین کی بے شرمی اور گندگی سمجھی جاتی ہے اسی طرح ایک مرد کی گندگی اور ، بےحیائی کو بھی سبھی مردوں کی گندگی اور بے حیائی سمجھا جاتا ہے ۔ اگر ہم اپنے آسانی سے مکمل ہونے والے ایمان کے آدھے حصے کو ہی مکمل نہیں کر سکتے تو باقی ایمان کا تو اللہ ہی حافظ ہے ۔
●●●
تحریر: ممتازملک.پیرس 
مجموعہ مضامین: سچ تو یہ ہے
اشاعت: 2016ء
●●●

                  



جمعہ، 21 نومبر، 2014

ضد کا تالا



                                       ضد کا تالا
                                    ممتازملک ۔ پیرس


انسان کی فطرت ہے کہ وہ جو بات سمجھنا چاہیے بس وہی سمجهتا ہے اور جو بات نہ سمجھنا چاہے وہ اسے دنیا کا بڑےسے بڑا حکیم لقمان ہو یا عالم فاضل پروفیسر یہاں تک کہ پیغمبر ہی کیوں نہ ہو نہیں سمجها سکتا . کیونکہ سمجھنے کے لئے سمجھنے کا ارادہ ضروری ہے ۔ جبهی توآپ اپنے دماغ کی کھڑکیاں کهولیں گے۔ جب کھڑکی کھلے گی تو ہی دماغ نامی گهر میں تازہ ہوا جائے گی ورنہ اس گهر میں گندگی اور بدبو کا ہی راج رہے گا. آپ کتنی بهی خوشبو چھڑک لیں لیکن یہ خوشبوئیں تازہ ہوا کا مقابلہ کبھی نہیں کر سکتیں. یہ ہی حال انسانی سوچ اور سمجه کا بهی ہے ۔ انسان وہیں پر زہنی ترقی کرتا ہے جب وہ اپنےنظریات اور سوچ کو ضد نہیں بناتا بلکہ اس میں دوسروںسے اچھی باتیں بآسانی لینے اور اپنی اچھی بری باتیں چهانٹنے کا عمل کھلے دل سے جاری رکھے ۔ جبهی اس کا شمار کامیاب انسانوں میں ہوتا ہے ۔ ورنہ سوچ کے گهر کو ضد کا تالہ لگا ہو تو وہاں انا پرستی اور ناکامی و تنہائی کے آسیب بسیرا کر لیتے ہیں. اللہ پاک نے بهی اپنے کلام پاک میں واضح طور پر فرمایا ہے کہ !
" ہدایت انہی لوگوں کو ملتی ہے جو ہدایت لینا چاہتے ہیں" یاہدایت مانگتے ہیں یعنی جو انسان سمجهناچاہتا ہے رب بهی اسی کو سمجھاتا ہے. ورنہ وہ چاہتا تو ہر ایک کو سمجھنے اور اس کی بات ماننے پر مجبور کردینا کیا اس کے لئے کچه مشکل تها؟
اللہ پاک نے عقل تو ہر انسان کو عطا کی ہے. دنیا میں آج تک ایسا نہیں ہوا کہ کسی بهی ڈاکٹر یا سرجن نے یہ دعویٰ کیا ہو کہ اس نے کسی زندہ انسان کی کهوپڑی دماغ کے بغیر پائ ہو. جبکہ ہمیں اس بات کی بے شمار مثالیں آئے دن دیکھنے کو ملتی ہیں جب دماغ رکھتے ہوئے بهی لوگ عقل سے عاری ہوتے ہیں. یہ ایسے ہی ہے کہ کسی کے پاس کوئی گهاس کاٹنے کی مشین تو ہے لیکن وہ اس سے گهاس  کاٹنے کا کام نہیں لیتا . اور وہ مشین زنگ کها جاتی ہے.  تو نتیجے میں اس کا باغیچہ بهی ہر طرح کی خودرو جھاڑ جھنکار کا بدہیئت کچراگهر بن جائے گا.جبکہ یہ ہی مشین استعمال کرنے والا اپنے باغیچے کو آئے دن مرضی کی شکل دیتا
. .اور مرضی کے پهول اور بوٹے اگاتا نظر آئیگا. اور اس کی مشین بهی بہترین حالت میں رہے گی. یہ ہی حال لوگوں کا بهی ہے لوگ دماغ کے بغیر نہیں لیکن عقل کے بغیر ضرور گھومتے نظر آئیں گے. ان کی ایک نشانی یہ ہوتی ہے کہ بےمقصد بحث کریں گے. .کوئی اپنی بات کے ہزار دلائل دیے لے لیکن انکے مرغے کی ایک ہی ٹانگ ہو گی . یہ بغیرعقل گهومنے والے ایک ہی کام شوق سے کرتے نظر آتے ہیں دوسروں کو گھمانے کا..وہ بهی انتہائ بے شرمی اور ڈھٹائی کیساتھ.
ایسے لوگوں کو یہ ہی کہا جا سکتا ہے کہ جب تک اپنےدماغ کےگهر پر لگا ضد کا تالا نہیں کهولیں گے. سمجھ کی ہوا اس گهر سے نہیں گزرے گی. تب تک آپ کی سوچ کبھی تازہ نہیں ہو گی بلکہ اس گلی سڑی سوچ کی سڑاند آپ کو لوگوں کے احترام سے تو محروم کرے گی ہی ،لیکن آپ کی اپنی ذات اس کی بو سے فنا ہو جائے گی.  ہمارے اردگرد ایسے لوگ بهی ہمیشہ موجود ہوتے ہیں جن کی باتوں سے ہم بظاہر اتفاق نہ بهی کریں تب بهی ہمارا ضمیر ہمیں دل میں ان کا احترام رکھنے پر مجبور کرتا رہتا ہے . انا پرستی کی دوڑ میں ہم ان کی سچائی کو اعتراف کرنے سے اور خاص طور پر مخلوق کے سامنے اعتراف کرنے سے ہمیشہ گریزاں رہتے ہیں اور یہ بات بھول جاتے ہیں کہ کسی کو موقع دینے والا کسی کی بات کی سچائی کا اعتراف کرنے والا اور  کسی کو راستہ دینے والا کسی کی سچی تعریف کرنے والا اللہ کی جانب سے نہ تو دنیا میں ذلیل ہوتا ہے اور نہ ہی اسے آخرت کی ذلت اٹھانی پڑے گی ۔ اگر انسان سیکھنا اور سمجھنا چاہے تو غور کریں ہم اپنے گھر میں چھوٹے چھوٹے بچوں کے منہ سے بے ساختہ نکلنے والے جملوں  سے کیا کچھ سیکھ سکتے ہیں ۔ بلکہ اپنے دشمنوں کے منہ کی بات کو اگر مثبت انداز میں لینے کی عادت ڈال لیں تو ہمارا دعوی ہے کہ ہمارے اکثر کام ہمارے دشمن ہی آسان کر دیتے ہیں ۔ بات صرف اتنی سی ہے کہ!
"عقل مند اور سمجھدار وہ ہے جو  کبھی بھی یہ نہیں دیکھتا کہ!
 کووووووون کہہ رہا ہے بلکہ ہمیشہ یہ دیکھتا ہے کہ کیاااااااااااااااااااااا کہہ رہا ہے۔" ۔ 
                                        ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 

منگل، 18 نومبر، 2014

● (20) بین المذاہب شادیاں/کالم۔سچ تو یہ ہے



(20)بین المذاہب شادیاں 
تحریر: ممتازملک۔ پیرس



ایک وہ وقت تھا جب اسلام نیا نیا دنیا میں اپنی پہچان بنا رہا تھا تو صحابہ رض کی ٹولیوں کو مختلف ممالک میں دین کی ترویج و تبلیغ کے لیئے بھیجا جاتا تھا ۔ اس زمانے میں سفر کی سہولیات آج جیسی نہیں تھیں ۔ سفر تجارت پر بھی جانے والے مہینوں اور کئی بار تو سالوں بعد گھروں کو لوٹا کرتے تھے ۔ تو گویا اپنے عزیزوں سے اسے طرح مل کر نکلتے تھے جیسے آخری بار مل رہے ہوں ۔ کیوں کہ زندگی میں اب وہ دوبارہ واپس آئینگے یا نہیں۔ کوئی کٓچھ نہیں کہہ سکتا تھا ۔ اسی بنیاد پر جب دنیا میں وفود کے جانے کا سلسلہ شروع ہوا تو انہیں اس بات کی اجازت بھی نبی پاک ﷺکے زمانے ہی میں ملنے لگی کہ وہ جہاں آباد ہوں گے وہیں کے نومسلم نیک نام خاندانوں میں شادیاں بھی کرتے جائیں ۔ تاکہ ان علاقوں میں انہیں جان پہچان بھی مل سکے اور لوگوں کا ساتھ بھی میسر آسکے ۔ اور اسی میل ملاقات میں انہیں اپنا کردار ان آبادیوں کے سامنے پیش کرنے کا موقع بھی ملیگا اور اسلام تیزی سے  وہاں اپنی جگہ بنائے گا ۔  مسلمان مردوں کو تو ایک قدم اور بڑھکر اجازت ملی کہ جو خواتین اہل کتاب ہیں  اور اسلام کی جانب راغب نظر آتی ہیں اور آپ خود بھی باعمل مسلمان ہیں تو ایسی خواتین سے بھی نکاح کریں ۔ تاکہ آپ کے اعلی کردار سے متاثر ہو کے انہیں بھی اسلام کی روشنی اور رہنمائی نصیب ہو ۔ لیکن اب نہ وہ زمانہ رہا نہ ہی وہ مسلمان رہے۔ بلکہ اب تو مسلمان ہی اسلام کے نام پر دھبہ بن چکے ہیں ۔ یہاں اس اجازت کو استعمال کرنے والے اہل افراد ہی موجود نہیں ہیں۔ تو اس پر عمل کرنے کا بھی کسی کا کوئی حق نہیں بنتا ۔ یہاں تو ایسی مسلم خواتین بھی دکھائی دیتی ہیں۔ جنہوں نے صرف نکاح نامے پر خانہ پری کرنے کے لیئے مولانا صاحب کے سامنے غیر مسلم لڑکے کو بٹھا کر کلمے کے الفاظ دہرا دیئے جسکا اسے مطلب بھی  معلوم نہیں ہو گا  کہ چلو جی ہمارے ضمیر پر کوئی بوجھ نہ رہے باقی دیکھی جائے گی ۔ یا پھر ایسے مرد  بھی دیکھے ہیں جنہوں نے 18 ، 18 سال یا اس سے بھی ذیادہ وقت غیر مسلم خواتین کے ساتھ نکاح کر کے گزار دیئے اور انہیں تو کیا کردار سے متاثر کرتے ـ( کردار ہوتا تو متاثر بھی کرتے ۔) الٹا رہا سہا ایمان بھی گنوا بیٹھے ، نماز سو کبھی پہلے عید کے عید پڑھ لیتے تھے اب اس سے بھی گئے ۔ روزہ جو کبھی خدا کے خوف سے نہیں لوگوں کے خوف سے ہی رکھ لیتے تھے اس سے بھی گئے اور بڑی ڈھٹائی سے فرمائیں گے کہاں جی یورپ میں کون سا روزہ ۔ یعنی اپنے بدکرداری کا ملبہ سارے یورپ میں رہنے والے مسلمانوں پر ڈال دینا، (جبکہ یورپ کا مسلمان  اور پاکستانی، پاکستان میں رہنے والوں سے کہیں ذیادہ اسلامی تعلیمات کی پابندی کرنے کی کوشش کرتا ہے)۔  غیر مسلم بیگم ایک برتن میں سؤر پکاتی ہیں تو موصوف اسی دیگچی میں حلال حلال کھیلتے پائے جاتے ہیں ۔  پیگ بھی بیگم کیساتھ مل کر پیتے پائے جاتے ہیں ۔ ایک بار ہم نے ایسے ہی ایک موصوف سے پوچھ ہی لیا کہ آپ نے اپنی بیگم کو اپنی زبان کیوں نہیں سکھائی تو موصوف بولے ، چھوڑیں جی اب پاکستان سو باتیں فون پر میں کرتا ہوں اچھا ہے نا کہ نہیں سمجھتی ۔ ورنہ کس کس بات کا جواب دیتا ۔ (واہ کیا تاویل پیش کی ہے ۔ اتنا ہی ڈر اللہ کو جواب دینے کا بھی ہوتا تو شاید موصوف یہ گُل نہ کھلا رہے ہوتے ۔) لہذا ایسی تمام شادیوں کو اسلام کی ڈھیل نہ سمجھیں اس پر شدید گرفت کو ہمیشہ یاد رکھیں ۔ پہلے خود کو باعمل مسلمان بنائیں کہ کوئی آپ کے کردار کو دیکھ کر اسلام پر طعنے نہ کسے بلکہ اسلام میں داخل ہونا خوش نصیبی سمجھے ۔ ورنہ پھر ہم دیکھ ہی رہے ہیں کہ ایک ہاتھ میں رنگین بوتل ایک میں نامحرم عورت کا ہاتھ اور ڈھونڈتے ہیں حلال گوشت کی دکان ۔ ( بندہ پُچھے جب کرنا حرام، بھرنا حرام ، اٹھنا حرام بیٹھنا حرام ، کمائی حرام، جمائی حرام، سونا حرام، جاگنا حرام ، پینا حرام تو بھیا  کھا بھی حرام لو ) چھوڑو یہ تکلف ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 
●●●
تحریر: ممتازملک.پیرس
مجموعہ مضامین: سچ تو یہ ہے 
اشاعت:2016ء
●●●

جمعہ، 14 نومبر، 2014

خوشبو کے بھبھکے / ممتازملک / پیرس



                              خوشبو کے بھبھکے
                                  ممتازملک / پیرس



انسان جہاں جاتا ہے جن  لوگوں میں اٹھتا بیٹھتا ہے. ان کی کچھ نہ کچه عادات اور خیالات ضرور اپنے ساتھ لے کر آتا ہے یہ ایسے ہی ہے کہ جیسے کو ئ مکهی جب گندگی پر بیٹھتی ہے تواپنے پروں اور پیروں ميں چاہے نہ چاہے وه گندگی نہ صرف اٹهاکرلیجانی ہے ۔ بلکہ اسےجہاں جائے گی اور بیٹهے گی وہاں وہاں پھیلائے گی ۔ اسی طرح جب یہ ہی مکھی پھول پر بیٹھے گی تو انہیں پروں میں پھول کے بیج چپکا لائے گی اور اسی پھول کی پنیری بنانے کاسبب بھی بن جائے گی ۔
 بچپن سے سنا کرتے تھے کہ کوئلہ بیچنے والوں کے پاس بیٹھو گے تو کوئلے بیچو نہ بیچو دامن پر کالک ضرور لیکر اٹھو گے ۔ جبکہ عطر والوں کے پاس بیٹھو گے تو عطر خرید سکو یا نہ خرید سکو خوشبو کے بھبکے تو لیکر ہی اٹھو گے  اس وقت یہ باتیں ہمارے لئے جانے کس جہاں کے قصّے ہوتے تهے لیکن آج خود زمانے کے سرد گرم دیکه کر ہم اس مقام پر ہیں جہاں دوسرے ہمارے لہجے کی سختی کبھی ہمارے دنیا سے پروائی کا گلہ کرتے ہیں ۔ کبھی ہمیں سب کو خوش رکھنے کا مشورہ دیا جاتا ہے تو کبھی ڈپلومیسی  کا نام دیکر منافقت کق پرچار کرو اور خوش رہو کا فارمولا سکھایا جاتا ہے ۔ انہیں یہ نہیں تو معلوم ہوتاہے کہ یہ لفظوں کی سختی اصل میں اس تجربے یامشاہدے  کایقین ہوتا ہے یا خود زندگی کے تجربات کے بعد آنے والا بهروسہ ، اپنے لفظوں پر اعتبار ہوتا ہے جسے ناسمجھ لوگ ہم جیسے ناسمجھوں کو بدنام کرنے کے لیئے سخت مزاج یابدمزاج کاٹیگ لگانے کی کوشش کرتے ہیں.
انسان کے دوست بهی مکھی کےپروں سے چپکی گندگی یاپهولوں کے بیج جیسے ہوتے ہیں .ان کی صحبت بهی کوئلے کی کالک یا خوشبو کے بھبکے جیسی ہوتی ہے .ہم اکثر اپنے بہن بهائوں سےوہ باتیں نہیں بانٹ سکتے جو ہم اپنے دوستوں سے بانٹتے ہیں۔ .حضرت علی کرم اللہ وجہ نے بهی بهائ کو سونا تو دوست کو ہیرا کہا ہے .
 دوست کو دوست کا آئینہ کہا جاتا ہے.
 دوست کا مشورہ خلوص پر جبکہ بهائ کا مشورہ مفاد پر مبنی ہوتا ہے.
 دوست کا جھگڑا کسی نقطے اور دلیل پر ہو گا جبکہ بہن یابهائ کا جھگڑا ضد اوز ضرورت پر ہو گا.
 اسی لیے کہا گیا کہ اچها دوست جتنی بار روٹھے اسے اتنی بار منا لینا چاہیئے کیونکہ موتیوں کی مالا یاتسبیح جتنی بار ٹوٹتی ہے موتی اتنی ہی بار پھر سے چُن لیئے جاتے ہیں پھر سےتسبیح بنا لی جاتی ہے.
حکیم لقمان نے بیٹے کو وصیّت کی کہ دنیا سے جانے کے وقت تک تمہارے دو مخلص دوست بهی تم نے پا لئے تو جان لینا کہ تم نے دنیا کی زندگی بیکار نہیں گنوائی. اس سے معلوم ہوا کہ ایک اچها دوست کس قدر کرانقدر سرمایہ ہے ۔دنیا کی دولت روپے پیسے کی تو آپ حفاظت کرتے ہیں جبکہ دوست ایسی دولت ہے جو خود آپکی آپکے وقار کی حفاظت کرتے ہیں.
                         ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔




جمعرات، 6 نومبر، 2014

جنت کس کے ٹھیکے پر۔ کالم ۔ سچ تو یہ ہے






      جنت کس کے ٹھیکے پر               (ممتازملک / پیرس)


بڑا ہی کمال کیا ہے ان لوگوں نے ، جنہیں خود تو اسلام کی الف بے کا پتہ نہیں ہے ۔ اپنے ماں باپ سے بات کرنے کی تمیز نہیں ہے، اپنی بہنیں بیٹیاں جوئے میں ہار کے آ جانا جن کی عادت ہو ، گھر کے سامنے مسجد میں ماتھا ٹیکنے کے لیئے جنہیں کبھی خدا یاد نہیں آیا ۔جو اپنے سگے بچوں کو مار مار کر کتے جیسی حالت کر دیتے ہیں ، جنہیں تیسرا تو کیا دوسرا کلمہ مطلب چھوڑیں رٹا ہوا بھی نہیں آ تا، جنہیں زندگی بھر میں اللہ  کی پاک کتاب کی ایک آیت تک کا مفہوم معلوم نہیں، جس نے کبھی زندگی کاایک دن کسی کو گالی دیئے بنا نہ گزارا ہو، جس نے کبھی ایک پورا دن پاک صاف اور باوضو نہ گزارا ہو ۔ جس نے کبھی اپنے محلّے کی عورت کو تاڑنے پر شرم نہ  محسوس کی ہو ایسا جی ہاں ایسا ہی ہےہمارا آج کا ان پڑھ ،جاہل اسلام کا گلی گلی محلّے محلّے بیٹھا ہوا ٹھیکے دار ۔ 
جس کا جب جی چاہتا ہے جہاں جی چاہتا ہے کبھی بھی کسی غیر مسلم کو گھر سے بھگا کر یا دھمکا کر مسلمان بنانے کا ڈرامہ کر کے خدا کو دھوکا دیکر جنت میں چور دروازے سےداخل ہونا چاہتا ہے تو کبھی کسی کے بھی خون سے اس لیئے ہاتھ رنگتا ہے کہ وہ ویسا مسلمان نہیں ہے جیسا میں چاہتا ہوں ۔ گویا ہمیں کیسا مسلمان ہونا ہے ،ہونا بھی ہے یا نہیں ہونا ہے، یہ بات اب کوئی بھی انسان خود طے نہیں کریگا بلکہ اسے ہمارے علاقے کا کوئی بھی جاہل ، کم علم لُّچّہ لفنگا۔ بدمعاش آ کر طے کریگا ۔ 
اور جب اس کی من مانی نہیں چلے گی تو وہ اسے اٹھا کر کبھی قتل کر دیگا یا زندہ جلا دیگا ۔ کہاں ہے پاکستانی قانون کہاں ہیں ہمارے انصاف کے اندھے گونگے بکاؤ ٹھیکیدار۔
 کہیں تو پتّہ ہلنے پر سوو موٹو ایکشن اور کہاں لاہور جیسے شہر میں اٹھارہ گھنٹے خون کی ہولی کھیلی جاتی ہے اور ایک ایف آئی آر تک نہیں کٹتی، اور کہاں پر کوئی بھی بے دین ، جاہل منہ اٹھا کر اسلام کا ٹھیکے دار بن جاتا ہے ۔ اور کتنی توہین اس ملک کے نام نہاد مسلمان اسلام کی اور نبی پاک ﷺ کی کرینگے گے ؟ اب تو دنیا کے دل بھی، اپنے پاکستانیوں کے دل بھی آپ لوگوں کے لیئے پکے ہونے لگ گئے ہیں اور تواور ہم جیسے موم کا دل رکھنے والے بھی اپنے دل کو سمجھا کر آپ کے غموں اور خدائی آفتوں کو آپ کے لیئے حق بجانب سمجھنے لگے ہیں ۔ 
کیوں بدنام کیا جارہا ہے نبیپاکﷺ کی سنّتون کو اسلام پھیلانے کے ٹھیکے دار بنکر ۔ کب پھیلایا تھا ہمارے پیارے نبی ﷺنے اسلام اس طرح ۔ کہاں طائف کے بازاروں میں اپنے ہی لہو میں اپنے ہی پاؤں ڈبوئے کھڑا رحمت اللعآلمین  ۔ کہاں اپنے پیارے چچاکا کلیجہ چبانے والی بد بخت عورت کو بھی معاف کردینے والا نبیﷺ، اور کہاں آج کا یہ نام نہاد دو نمبر مسلمان ۔ خالی ہاتھ غیر مسلموں کو زندہ جلانے والے ،اس گروہ کو بھی ایسی ہی عبرت ناک سزا ملنی چاہیئے کہ دنیا اس کی مثال دیا کرے ۔ اصل میں توہینِ اسلام کسی غیرمسلم نے کبھی نہیں کی ،کیونکہ توہین وہ کرےگا جسے اس چیز سے کوئی عقیدت ہو یا وہ اسکا ماننے والا ہو ، جسے اس کتاب یا اس کے نبیﷺ پر اعتقاد ہی نہیں اسکی بات کو توہین کہنے کا کیا عقلی جواز ہے ۔ کیا اس غیر مسلم کو اپنی درندگی دکھا کر ہم بڑے رستمِ دین بن جائیں گے۔ اس کے بجائے اگر ہم اپنے کردار پر توجہ دیں کہ جس کی بنیاد پر ہمارا رب ہم سے اس زندگی کا حساب کتاب طلب کریگا ،تو کیا یہ بہتر نہیں ہو گا ۔ اس پوری  غیر مسلم آبادی سے جو پاکستان میں کبھی بھی کسی بھی پاکستانی یا خاص طور پر کسی بھی مسلمان پاکستانی سے اذیت اٹھا چکا ہے ہم تہہ دل سے معافی چاہتے ہیں اور حکومت پاکستان سیاسی بنیادوں پر تو سرعام لوگوں کا قتل عام کر کے سینہ چوڑا کر کے گھومتی ہے ،اسے اگر غیرت کی رمق اپنے اندر محسوس ہوتی ہے تو اس چیلنچ کوقبول کرے اور پاکستان میں لوگوں کو زبردستی خود کا دوسرے سے بڑا مسلمان ثابت کرنے والوں اور لوگوں کو جبری مسلمان بنانے والوں  کو قرار واقعی سزائیں دلوا کر جلد از جلد انہیں ان کی خیالی اور افیمی جنت تک پہنچانے کا بندوبست کریں ۔ کیونکہ حقیقی جنت میں جانا شاید خدا نے ان کے مقدر میں لکھا ہی نہیں، جنہیں اللہ کی مخلوق سے پیار نہیں خدا کو بھی ایسے کچرے کو اپنی جنت میں بٹھا کر اس جنت کی توہین کرنا کبھی منظور نہیں ہو سکتا ۔   کیونکہ جنت صرف پاکیزہ لوگوں کے لیئے ہے اور زانی اور قاتل کبھی پاک نہیں ہو سکتے ۔                                    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

منگل، 4 نومبر، 2014

لو کل لو بات ۔ کالم




لو کل لو بات 
تحریر:
(ممتازملک۔ پیرس)



ہر روز کی ایک نئی کہانی اور نئی چخ چخ ہم سب کی زندگی کا حصہ ہے لیکن یہ بات بھی ماننے والی ہے کہ اس چخ چخ کے زمہ دار اکثر ہم لوگ خود ہی ہوتے ہیں ۔ یہ تمام نہیں تو کم از کم 80 فیصد مسائل ہمارے اپنے پیدا شدہ ضرور ہوتے ہیں ۔ جیسے کہ ہمارے ہاں شادی بیاہ کے معاملات میں لڑکے والے تو جو حرکتیں کرتےہیں، سو کرتے ہیں اس کا تو انہیں بے شرمی سرٹیفیکیٹ مل ہی چکا ہوتا ہے ، لیکن کیا کریں کہ لڑکی والے بھی جو جو کمالات دکھا رہے ہیں وہ بھی کسی سے کم نہیں ہیں ۔ لڑکیوں کی ماؤں کی تربیت ہی اچھی نہیں ہے جبھی تو لڑکیاں بھی ایسی ایسی توقعات شادی کے نام سے وابستہ کر لیتی ہیں کہ جو اس جنم تو کیا کسی بھی جنم میں پوری نہیں ہو سکتیں ۔ ہر گھر میں لڑکیوں کی ایک بڑی تعداد رشتوں کے انتظار میں بال سفید کر رہیں ہے ۔ لیکن انہیں اپنے بلند فرمائشی پروگرام سےفرصت ہی نہیں  یا انکی ماؤں کا دماغ ہے کہ انکا گھر آباد ہو کے ہی نہیں دے رہا ۔ 
زرا فرمائشی فہرست نوٹ فرمالیں ۔ اور کوئی ایسا سپیشل پیس مارکیٹ میں دستیاب ہے تو ہمیں بھی ضرور مطلع فرمائیں ۔ شاید اسی بہانے ہمیں بھی کو ئی انوکھا نمونہ دیکھنے کو مل جائے ۔ 
لڑکا خوب پڑھا لکھا ہونا چاہیئے  ۔ (اپنے ابا جی نی ان پڑھ ہو کر بھی انہیں ڈاکٹر انجینیئر اس لیئے بنایا کہ اب وہ اپنی سے ایک کلاس کم پڑھے کو بھی ان پڑھ سمجھنے لگیں ۔ کیا بات ہے ۔ )
ہینڈسم اور گڈ لکنگ ہونا چاہیئے ۔(خود صاحبزادی کو میک اپ کے بغیر دیکھ لیں تو بھوتنیاں بھی حسین لگیں ۔)
قد تو 6 فٹ سے کم بلکل نہیں ہونا چاہیئے ۔(چاہے ہماری بٹیا رانی 4 فٹ کی ہی کیوں نہ ہو ۔ )
 25 ، 26 سال کا ہی ہونا چاہیئے ۔ (چاہے لڑکی 36 کی ہو ۔)
ڈبل ماسٹر ز تو ضرور ہی کیا ہونا چاہیئے ۔ (بی بی میاں چاہیئے یا ٹیوٹر۔)
بڑا سا گھر بنا چکا ہو ۔(خود چاہے کرائے کے گھر میں یا دو کمرے کے مکان میں ہی کیوں نہ رہتے ہوں )
 خوب روپیہ پیسہ ہو بلا شرکت غیرے ۔(خود چاہے ساری عمر ہزار کا نوٹ بھی  نہ دیکھا ہو ۔)
نئے ماڈل کی گاڑٰی تو ضرور ہی ہونی چاہیئے ۔ (اپنے پاس چاہے انیس سو ڈوڑھ کی گاڑٰی ہو۔)
بہن بھائی نہ ہی ہوں تو بیسٹ ہے ۔(خود کے اماں باوا نے چاہے گھر میں بچوں کا جمعہ بازار لگایا ہو ۔)
اور ہاں سنئے اگر اماں باوا بھی جہاں سے رخصت ہو چکے ہوں تو اور بھی اچھا ہے ۔ اب کون ان کی آئے دن کی بک بک سنتا رہے ۔ ایسا ہو جائے بہن تو میں تمہیں سونے کے کڑے پہناؤں گی ۔ (یہ اور بات کہ بیچارے یا بیچاری میچ میکر کو کڑے تو کیا اسکی مقررہ فیس ادا کرتے ہوئے بھی ان کی اپنی جان نکلتی ہے اورفیس ادا کرنے کے بجائے اسے پہچاننے سے بھی انکار کر دیں ۔)
اب آپ ہی بتائیں کہ کہ کیا ایسا رشتہ اس دنیا میں ممکن ہے ۔اس کے لیئے تو یقینا انہیں آنکھیں بند کر کے صرف خواب میں ہی بیاہ کرنا پڑیگا ۔ اور تو اور یورپ میںتو یہاں تک حال ہو گیا ہے کہ لڑکیوں کے دماغ میں ماؤں نے کیا زہر بھرا ہوا ہے کہ لڑکا 2،3 سال سے زیادہ بڑا ہے تو فورا بیٹی صاحبہ کی ناک بھوں چڑھی رائے سنائی دے گی کہ اتنا بوڑھا ااااااااااااا کتنی عجیب بات ہے کہ انہیں کی مائیں ان کے جن باپوں کے ساتھ زندگیاں گزار چکی ہیں وہ ان سے دس سے بیس بیس سال تک بڑے تھے ۔ لیکن انہوں نے ان کے ساتھ 40 ، 40 سال خوشی سے گزار دیئے ۔ انہیں باپوں کو یہ اپنی ماؤں کے لیئے آئیڈیل شوہر کہتی ہیں ۔
 دنیا کا مثالی مرد پوچھیں تو جھٹ سے جواب آئے گا میرے پاپا ۔
 لیکن اپنے بچوں کو کیا یہ لڑکیاں ایسا مثالی باپ نہیں دینا نہیں چاہتیں ۔ لیکن بیٹی صاحبہ کو 2 سال سے زیادہ بڑا لڑکا نہیں چاہیئے ۔ ایسی کسی بھی بیٹی صاحبہ  کو تو یہ ہی مشورہ ہے کہ کوئی لڑکا گود لے لیا کریں پہلے آپ اسے پالیں پھر وہ( آپ کے نصیب میں ہوا تو) آپ کو پالے گا ۔
  ہر ماں باپ کی خواہش ہوتی ہے کہ اسکی بیٹی اچھے گھر میں جائے لیکن اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں ہے کہ آپ اسے خوابوں کے ایسے جزیرے میں قید کر دیں کہ اس کے پاس وہاں سے نکلنے کے لیئے امید کی کوئی کشتی اور سمجھوتے کا کوئی چپُّو ہی نہ رہے ۔ 
اگر ہمیں واقعی اپنے بچوں سے  محبت ہے تو ہمیں ان کو حقیقت کی دنیا میں لا کر ذمّہ دار بنانا چاہیئے نہ کہ اکثر والدین خصوصََا مائیں جنہیں اپنی زندگی میں 30 سال بعد بھی جو نہیں ملا ہوتا، وہ اپنی بیٹیوں کے دماغ میں انہی خواہشات کے ناگ پالنے لگتی ہیں۔ یہ سوچے بنا کہ یہ ناگ انہی کی بیٹیوں کو ڈس ڈس کر ہلاک کر ڈالیںگے ۔
 اسی طرح لڑکیوں کے باپ بھی اپنا دماغ زمین پر رکھیں اور اپنی شادی کے وقت کی اپنی اوقات اور حیثیت کو یاد رکھا کریں اور اپنے دامادوں سے اس بات کی توقع نہ کریں (کہ جو کچھ آپ نے چالیس سال کی محنت کے بعد بنایا ہے وہ آپ کی بیٹی کا ہاتھ مانگنے والا شادی کے وقت ہی لا کر آپ کی  بیٹی کے قدموں میں ڈھیر کر دے )تو سوچیئے اگر یہ ہی سوچ آپ کو اپنی بیٹی کا رشتہ دیتے وقت آپ کی بیوی کے والدین کی بھی ہوتی تو یاد رکھیں کہ آپ بھی آج بال بچوں والے نہ ہوتے کہیں بیٹھے اپنے نصیبوں کو رو رہے ہوتے یا بد کاریوں میں مبتلا ہو چکے ہوتے ۔ عورت کا مقدر ہی فقیر کو بادشاہ اور بادشاہ کو فقیر بنا دیتا ہے ۔ شادی سنت رسول ہے اسکا راستہ اپنی اولادوں کے لیئے تبھی آسان بنایا جاسکتا ہے جب ہم خود بھی حقیقت پسند بنیں اور اپنی اولادوں کو حقیقت پسند بنائیں ۔اور انہیں اپنے مقدر پر یقین کرنا اور اسے آزمانا سکھائیں ۔ جو چیز ہمارے مقدر میں ہے وہ ہمیں ڈھونڈتی ہوئی خود ہم تک آن پہنچتی ہے اور جو چیز ہمارے مقدر میں نہیں ہے وہ ہمارے پاس ہو کر بھی ہماری نہیں ہوتی ۔  
بیٹے بیٹیوں کو گناہ کی دلدل سے بچانا ہے تو انہیں جلد از جلد اپنے گھروں کا کریں ۔ ماں باپ کچھ بھی کر لیں اپنی اولاد کی تربیت تو کر سکتے ہیں اسے اچھے مقدر کی دعا تو دے سکتے ہیں لیکن ان کے مقدر کی گارنٹی نہیں دے سکتے ۔ لہذا یہ کام اللہ کے ہیں اور اللہ پر ہی چھوڑ دیں تو ہی اچھا ہو گا ۔ ہم خدا سے وہ مانگتے ہیں جو ہمیں اچھا لگتا ہے جبکہ اللہ پاک  ہمیں وہ دیتا ہے جو ہمارے لیئے بہتر ہوتا ہے ۔ رشتوں کے انتظار میں ماں باپ کو خبر بھی نہیں ہوتی کہ کب بیٹا یا بیٹی گناہ کے رستے پر چل پڑا ۔ اور اس سارے جرم میں بطور والدین آپ کا کردار کہیں بھی معافی کے لائق  نہیں ہو گا ۔ اور آپ دنیا میں تو بدنام ہوتے ہی ہیں آخرت کو بھی اپنے ہاتھوں تباہ کر بیٹتے ہیں ۔ 
             ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔



جمعرات، 30 اکتوبر، 2014

● (6) واقعہ کربلا ، روشی بھی رہنمائ بھی /کالم۔ سچ تو یہ ہے


                 

       واقعہ کربلا ، 
 (6) روشنی بھی رہنمائی بھی 
        تحریر:ممتازملک ۔ پیرس





واقعہ کربلا کو جس بھی زاویئے سے دیکھیں اس میں انسانی بقاء اور حرمت کا، انسانی حقوق کا ایک نیا ہی پہلو آپ کو راستہ دکھاتے ہوئے نظر آتا ہے۔ کہیں جانثاری کی روایت میں اپنا سر کٹانے کا جذبہ عشق ہے، تو کہیں کہہ مُکرنیوں اور بزدلی کے کارہائے نمایاں۔ کہیں ہمیں سب انجام جانتے بوجھتے ہوئے اپنے پیاروں کو انہیں کی رضامندی سے اپنے ساتھ مقتل گاہ میں عشق حقیقی کے سامنے سربسجود ہوتے امام حسین علیہ سلام کا سر مبارک کٹتے ہوئے دکھائی دیتا ہے تو کہیں  اپنے آپ کو مسلمان کہنے والا اپنے کردار اور گفتار سے اپنے مشرکین آباءواجداد کی روایات کو منافقت کا چولا پہنے عملی صورت میں یذید لعین کی مکروہ شکل میں کھڑا دکھائی دیتا یے ۔ عورت کے روپ میں یہ واقعہ کہیں تو ہمیں زوجہء رسول حضرت اُم سلمی  رضی اللہ تعالی عنہ کو امانت داری نبھاتے اور نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاتھوں سونپی گئی خاک کربلا کے لہو ہونے کی تصدیق کرتے دکھاتا ہے تو کہیں بی بی زینب سلام اللہ علیہ بنکر مردانہ وار جرات اظہار اور جراءت کردار کی عظیم الشان مثالیں قائم کرتے نظر آتا ہے ۔          
آج ہم جس معاشرے میں سانس لے رہے ہیں وہاں ہمیں اس بات کا سختی سے اپنے اندر محاسبہ کرنے کی ضرورت ہے کہ ہم اپنی زندگی کے تمام تر معاملات میں ایک مسلم تصور کا تحفظ اور مثال پیش کرتے ہیں یا ہم اس ہندو ریاست کا نظریہ دہرانے کی ایک انجانی کوشش کر جاتے ہیں۔ جسے آج  ایک مسلم سٹیٹ پاکستان میں سرسٹھ سال سے رہتے ہوئے بھی ہم اپنے اندر سے نہیں نکال پائے ۔ گویا ہندو نظریات آج بھی ہماری سوچوں کا احاطہ کیئے ہوئے ہیں ۔ چاہے شادی بیاہ ہو ، بچوں کی کوئی خوشی ہو، لین دین ہو یا وعدہ وعید ہر معاملے میں ہمیں اپنے لیئے دین اسلام کو سمجھنے کی اشد ضرورت ہے ۔ حضرت امام  حسین علیہ سلام ہوں یا شیر خدا علی علیہ سلام سبھی عورت کو گھر کے رشتوں سے شروع  کرتے ہوئے انسانی حقوق کی معراج تک لے جاتے ہیں اور یہ بات اپنے ذہن میں رکھیں کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد یہ کائنات کی سب سے زیادہ پارسا اور مستند ہستیاں ہیں کہ ان کے کسی ایک قول کو بھی ہم نے اپنی زندگی کا محور بنا لیا تو ہم کہیں ناکام نہیں ہو سکتے چاہے وہ دنیا ہو یا آخرت۔       آج بھی کوئی خاتون کسی میدان میں جرات اظہار یا جرات کردار کا مظاہرہ کرتی ہے تو اسے عجیب و غریب طعنے سننا پڑتے ہیں کہ یہ تو مردوں کے کام ہیں یہ تو مردوں کی باتیں ہیں۔ سیاست میں عورتوں کا کیا کام، کاروباری معاملات میں عورتوں کا کیا کام، رشتوں کے معاملات میں عورتوں کو بولنے کی کوئی ضرورت نہیں ،(چاہے وہ اپنی شادی ہی کا معاملہ کیوں نہ ہو ،) ملکی فیصلوں میں عورتوں کو بولنے کی کیا ضرورت ہے ؟ حالانکہ ہمارا دین ہی وہ مکمل دین ہے جس نے عورت کو زندہ رہنے کے حق سے آگے بھی بہت بلکہ بے شمار حقوق عطا کیئے ہیں ۔ صرف اس ڈر سے کہ یہ عورت کہیں ہم مردوں سے آگے نہ نکل جائے، ہم سے ذیادہ عزت نہ حاصل کر لے اور ہم احساس کمتری میں مبتلا نہ ہو جائیں ایسی چھوٹی باتیں صرف کوئی کمینہ انسان ہی کر سکتا ہے ۔ جبکہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی پیاری بیٹی کو حضرت علی کرم اللہ وجہہ جیسے نایاب ہیرے کے رشتے کے لیئے پوچھتے ملتے ہیں کہ فاطمہ بیٹی کیا آپ کو یہ رشتہ منظور ہے؟       اور تو اور بی بی زینب  کے پیارے بابا شیر خدا انہیں تحفظ دیتے اور حضرت عبداللہ بن جعفر طیار رضی اللہ تعالی عنہ کو یہ بات منواتے نظر آتے ہیں کہ بی بی ذینب کو ان کی زندگی کے مقاصد سے کسی طور نہیں روکا جائیگا اور نہ ہی انہیں اپنے بھائیوں سے ملنے اور ان کے کاموں میں شامل ہونے سے روکا جائیگا ۔ اسی شرط کو ماننے کے بعد ہی شیر خدا رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنی پیاری بیٹی حضرت عبداللہ بن جعفر بن طیار رضی اللہ تعالی عنہ کے نکاح میں  دی ۔ آج اگر کوئی خاتون کسی مسئلے پر جرات اظہار دکھائے تو فورا اسے دس بہتان لگا کر کھڈے لائن لگانے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ یہ سوچ کہیں کسی بھی زاویہ سے مسلم سوچ نہیں ہے بلکہ جو بھائی ایسا سوچتے ہیں وہ دین اسلام اور خاص طور پر اسلامی تاریخ میں خواتین کے کردار اور جرات اظہار کو ضرور پڑھیں جنہوں نے تاریخ کے دھارے موڑ دیئے ۔ ماہ محرم کے ہی حوالے سے حضرت زینب سلام اللہ علیہ کے کردار کو کوئی کافر بھی رد نہیں کر سکتا ۔ امام حسین علیہ سلام نے اپنے کردار ، گفتار اور قربانی کا جو علم حق کی راہ میں بلند کیا ۔ اسی علم کو اٹھا کر بی بی ذینب سلام اللہ علیہ شام کے بازاروں سے بھی گزریں اور یزیدی دربار میں ظالم حکمران کے سامنے کلمئہ حق بلند کرتی ہوئی بھی نظر آتی ہیں ۔ قید کی اذیتیں بھی سہتی ہیں  اور قید سے واپسی پر خاندان رسول کے شہداء کی تدفین کرتے بھی نظر آتی ہیں ۔ مدینہ تک اپنے غم و اندوہ کو کلیجے میں دبائے قافلے کی سالاری بھی کرتی ہیں ۔ 



 کہیں معصومین کو حوصلہ دیتے ہوئے دکھائی دیتی ہیں تو کہیں بیماروں کو سنبھالتے ہوئے نظر آتی ہیں کہیں یذید مردُود کے منہ پر کھڑے ہو کر اسے اس کی اوقات یاد دلاتے ہوئے نظر آتی ہیں ۔ جس میں یہ سچائی کوٹ کوٹ کر بھری نظر آتی ہے کہ بدر کے میدان میں  حضرت حمزہ  رضی اللہ تعالی عنہ  کا کلیجہ چبانے والی ہندہ جیسی عورت کا پوتا یزید جیسا خبیث نہیں ہو گا تو اور کیسا ہوگا ۔ یہ ماؤں اور دادیوں کے خون کی تاثیر ہی تو ہوتی ہے جو کسی کو امام اعظم بنا دیتی ہے تو کسی کو یزید مردُود ۔ کسی کو بی بی زینب جیسا مرتبہ عطا کر دیتی ہے تو کسی کو ہندہ جیسی کلیجے چبانے والی  عورت کے نام کی بدنامی ۔  جس میں یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ بغض و عناد صرف ایک ہی شخص تک محدود نہیں رہتا بلکہ اسکا اثر زہر سے بھی ذیادہ خوفناک ہوتا ہے اور نسلوں تک آپ کے دودہ  اور خون میں اسکا اثر گردش کرتا ہے ۔ زہر تو صرف ایک آدمی کی جان لیتا ہے ۔ جبکہ بغض وعناد کا یہ مرض ہر رشتے اور ہر احترام کو جلا کر خاک کر دیتا ہے ۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم عورت اور مرد کو جانچنے سے پہلے اس کے کردار کو اور نظریات کو سنت حسینی اور سنت  ذینب رض کے پیمانے پر جانچیں ۔ اور زندگی کے ہر معاملے میں واقعہ کربلا سے رہنمائی حاصل کریں ۔ کہ یہ واقعہ اپنے اندر عجیب معجزاتی حیثیت اور طاقت رکھتا ہے اسے جب جہاں اور جس معاملے میں پڑھیں گے ، یاد کریں گے یا جانچیں گے تو ہر بار روشی کا اور رہنمائی کا ایک نیا در وا ہو گا ۔ 
                    ●●●
تحریر: ممتازملک 
مجموعہ مضامین:سچ تو یہ ہے 
اشاعت:2016ء
                   ●●●

اتوار، 26 اکتوبر، 2014

کچے گھڑے نے جیت لی ندی چڑھی ہوئی / ممتازملک ۔ پیرس





کچے گھڑے نے جیت لی ندی چڑھی ہوئی
ممتازملک ۔ پیرس



ہر تنظیم اور جماعت اپنے کام,اوراس سے وابستہ اغراض و مقاصد سے ہی پہچانی جاتی ہے. پیرس میں بہت عرصے سے صحافت بهی سیاست کی طرح ایک کیچڑبنتی جا رہی تهی. جس میں روز کے فوٹو سیشن اور ریسٹورنٹ یاتراپیسہ بنانے کا ایک زریعہ بن چکا ہے . گویا یہ کہنا زیادہ مناسب ہو گا کہ  صحافت جو کبھی تحریری ہوا کرتی تھی ۔ وہ یہاں آتے آتے تصویری صحافت کا روپ دھار چکی ہے ۔ اس کی وجہ شاید یہ بھی ہو سکتی ہے کہ بہت سے ایسے لوگوں نے وہ کام کرنا شروع کر دیا کہ جو ان کا کام کبھی تھا ہی نہیں ۔ کیونکہ جو بات بھی فطرت کے خلاف کی جائے گی اس میں صرف اور صرف گند ہی مچے گا ۔ جس کا ثبوت ہم دن رات اپنے ارد گرد اور میڈیا پر دیکھ رہے ہیں ۔ جب تک میڈیا اور خاص طور پر پرنٹ میڈیا کا کام ستھرے اوراہل لوگوں میں رہا۔ بہت مستند بھی رہا اور باوقار بھی ۔ لیکن جیسے ہی یہ کام بازاری لوگوں کے ہاتھ لگا اس کا ہر ہر انداز بازاری ہوتا چلا گیا ۔ ایسے ماحول میں سنجیدہ حلقوں میں شدت سے اس بات کی ضرورت محسوس کی جا رہی تھی کہ کوئی ایسا پلیٹ فارم ہونا چاہئے جہاں ملکی ,معاشرتی اور اخلاقی مسائل پرسنجیدگی سے بحث کی جاسکے اور ان کے حل تجویز کیئے جا سکیں ۔ اس کے لیئے ضروری تھا تصویری صحافت کا رخ پھر سے تحریری صحافت کی جانب موڑا جائے اوراسے اسی مقام پر پہنچایا جائے جس کا کہ صحافت تقاضا کرتی ہے ۔ .ایسے ماحول میں کہ جہاں مردوں کو بهی اپنی حقیقی رائے دینے کیلئے پچاس لوگوں سے لابنگ کرنی پڑتی ہے. وہاں خواتین کے لئے تو ایسا سوچنا بهی محال ہے کہ وہ آزادانہ اپنی بات کو قارئینِ تک پہنچا سکیں. جہاں خواتین اپنی عزت بھی بچائیں اور ایک نسل کو تباہ ہونے سے بچانے کے لیئے تحریری شکل میں اپنا کام قارئین تک بھی پہنچائیں اور اسے اپنے دنیا سے جانے کے بعد بھی اپنی اولادوں کے لیئے فخریہ اثاثے کے طور پر چھوڑ سکیں ۔ کہ یہ ہی اصل صدقئہ جاریہ بھی ہے ۔ ایک ایسے وقت میں آج سے قریباً دو سال قبل پیرس کی معروف رائٹر اور کالم نگار محترمہ شاہ بانو میر صاحبہ نے ایک بہت بڑا اور اہم قدم اٹھایا۔ خواتین کے لئیے ایک اکیڈمی کا پروگرام پیش کر کے.اس وقت تک یہ ایک خیال کی سی حیثیت رکهتی تهی۔ لیکن ارادے کی پختگی اور سوچ کی مضبوطی نے اس خاتون سے وہ کام کروا لیا جس کے لئے شاعر نے کیا خوب کہا ہے کہ                                                                                   
کچے گھڑے نے جیت لی ندی چڑھی ہوئی
مضبوط کشتیوں کو کنارا نہیں ملا
بڑے بڑے ڈراونے جہازوں کو اپنی تمام تر دہشتوں کے باوجود جو منزل اور مقام نہ مل سکا وہ مقام اس تنظیم اور اکیڈمی نے اپنے ملک ,معاشرے اور اخلاقیات کی درستگی مین قابل فخر بہنوں کی معیّت میں بہت جلد حاصل کر لیا. لیکن یہ تو ابهی شروعات ہے.ابهی ہمیں بہت آگے جانا ہے.                                                  
 چھ سال سے آج زیادہ ہونے کو ہے جب مجهے ذاتی طور پر شاہ بانو میر صاحبہ کو جاننے کآ موقع ملا. یہ کوئ روایتی دوسہیلیوں کآ تعلق نہیں تها .یہ دو سوچوں، دو زہنوں اور دوشخصیات کا تعلق تها اس میں کهٹےمیٹهے پل بهی آئے.  لیکن یہ کهٹاس بهی کوئ ذاتی نوعیت کی کبھی نہیں رہی ۔ یہ دو سوچنے اور نقطہ نظر  رکھنے والوں کے اصولی نکات پر دلیلی کهٹاس ہوا کرتی تهی جب ہم اس پر بحث کرتے اور جس کی دلیل مضبوط ہوتی ہم اسے بلا چون وچرا قبول کر لیا کرتے تهے ۔ یہ اس لیئے بهی تها کہ ہمارے کام میں کوئ پیسے کا لالچ یا عنصر سرے سے موجود ہی نہیں تھا. لہذا خود غرضی کا بهی کوئ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تها .کئی سمجهداروں نے ہمیں ایک دوسرے سے توڑنے کی ناکام کوششیں کیں لیکن جن بنیادوں کو لالچ کی ریت کے بجائے عزت،اعتماد ,اور یقین کے سیمنٹ سے بهرا جائے اور اس پر مقاصد کی دیواریں کھڑی کی جائیں تو تب کہیں جا کر آپ کو ایک کامیابی کا محل نصیب ہوتا ہے.                                                     
یہ اسی خاتون کا عزم تها کہ جس نے مجهے اس کے کردار کی مضبوطی پر کبھی شک کرنے کی اجازت نہیں دی. جس نے بهری جوانی کو ہر ایک کے لیئے ماں جیسی سوچ اور رویے میں ڈھال کر گزار دیا ہو اس پر اب جب اپنے بچے اپنے قد برابر آن کھڑے ہوں،  اس کی جوانی کے کردار کو نظرانداز کرنا صریحاً ناانصافی ہو گی. اور کم از کم میں تو یہ ناانصافی کرنے کا نہیں سوچ سکتی. یہ مسئلہ  میرا یا شاہ بانو میر صاحبہ جیسی خواتین کا عموماََ ہی ریا ہے کہ ہم بہت سے بھائیوں کی اکلکوتی بہنوں کے لیئے مرد کوئی دنیا کی انوکھی مخلوق نہیں رہتے وہ ہمارے لیئےیا تو ابو جی اور ڈیڈی جان ہوتے ہیں یا پھر ہمارے پیارے پیارے بھائی جن سے ہم لڑتے بھی ہیں، بحث بھی کرتے ہیں ، باتیں مانتے بھی ہیں اور منواتے بھی ہیں ۔ اور کبھی کبھی ان سے ناراض ہو کر انہیں اپنی اور اپنے مقصد کی اہمیت کا احساس بھی دلاتے ہیں ۔ اس کے بعد اگر کوئی ہم سے بات کرتا ہے تو ہمارے لیئے وہ ہمارے بچوں جیسا ہی ہوتا ہے جسے کبھی ہم پیار سے اور کبھی ڈانٹ کر سمجھانے اور کسی خرابی سے روکنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ ایسے میں وہ پیارے بھائی جنہیں ایک عورت دانتوں میں دوپٹہ دبائے  یا پھر زلفیں بکھرائے بیوٹی پارلر کا اشتہار بنے دیکھنے کی عادت ہوتی ہے وہ اس ، بااعتماد ،موضوعات ہر بےدھڑک اور دلائل سے بات کرتی ہوئی عورت ایک دم سے ذہنی طور پر قبول نہیں ہوتی ۔ کیونکہ ان کی نظر میں دلیل دینا ، بحث کرنا ، کوئی مقصد اپنی زندگی میں رکھنا یہ صرف اور صرف ایک مرد کا حق ہے ۔ جبکہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہ ، حضرت ذینب سلام اللہ علیہ کی زندگی اس ہندووانہ تصور  کی واضح نفی کرتی دکھائی دیتی ہے ۔ یہ ہی سوچوں کی ہم اہنگی اور اور ایک دوسرے کا احترام ہے جس نے ہمیں ایک دوسرے کے ساتھ جوڑ دیا ہے ۔ اور یہ ساتھ انشاء اللہ ہمیشہ قائم رہیگا ۔ چاہے اس میں کتنے بھی اختلاف آئیں ۔ یہ تعلق دو سچی روحوں کے احترام کا تعلق ہے ۔                                                
  میں نے ہر ناراضگی کے بعد دوبارہ ملنےپر شاہ بانو میر صاحبہ کے لیا اپنے جذبات کو مزید نکھرا ہوا اور پہلے سے کہیں زیادہ محبت انگیز پایا ہے .اس اکیڈمی کے تحت ہر موقع اور حالات کے مطابق رپورٹس اور کالمز ہمارے قارئین تک پہنچتے رہے ہیں ۔ جس میں سیاسی. سماجی. معاشرتی اخلاقی اور دینی مسائل بهی شامل رہے ہیں. ہماری کوئی بهی تحریر کبھی بهی کسی ایک فرد کو نشانہ بنا کر تحریر نہیں کی گئی. جو ایسا سمجهتا ہے تو وہ ناسمجھ ہے.                             اس ٹیم کی ہر بہن ذہنی طور پر انتہائی مضبوط ، بااعتماد، اور باشعور ہے ۔ محترمہ وقارالنساء صاحبہ ، محترمہ نگہت سہیل صاحبہ ،محترمہ انیلہ احمد صاحبہ ، محترمہ ممتاز ملک صاحبہ اور خود بانی اکیڈمی محترمہ شاہ بانو میر صاحبہ اس اکیڈمی کے لیئے اللہ پاک کی جانب سے کسی تحفے سے کم نہیں ہیں ۔                  ہماری تحریر کا مقصد ہمیشہ ایک اجتماعی اصلاح رہی ہے.  اور اس اصلاح کے عمل میں اور اسکے نشانے پر خود ہماری اپنی زات بهی ہوتی ہے کیونکہ ہم خود کو فرشتہ نہیں سمجھتے ہم میں  بهی بےشمار خامیاں ہوں گی. فرق صرف اتنا ہے کہ ہم ان خامیوں کو ٹهیک کرنا چاہتے ہیں ۔کئی دوسرے ساتھیوں کی طرح اپنی خامیوں پر اکڑتے نہیں ۔ کیونکہ اکڑنا ، غرور کرنا ، تکبر کرنا ، بڑائی کرنا یہ سب باتیں صرف اور صرف اللہ جل جلالہ کو ہی زیب دیتی ہیں۔ ہم انسانوں کا اس سے کیا لینا دینا ۔ یہ باتیں اللہ پاک میں تو خوبیاں ہیں لیکن کسی انسان میں ان کا شائبہ بھی آ جائے تو اس کا بدترین عیب بن جاتی ہیں ۔ اللہ پاک ہمیں ان عیوب سے اپنی امان میں رکھے ۔  آمین 
                                 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔                                  

جمعرات، 23 اکتوبر، 2014

● (7) زبان اور بیان / کالم۔ سچ تو یہ ہے





                                  
(7)  زبان اور بیان 
     تحریر: ممتازملک۔پیرس  





  جب انسان کے پاس سامنے والے کی عمر , مقام, مرتبے, موقع اور جنس کے حساب سے کہنے کو مناسب الفاظ نہ ہوں تو انہیں جان لینا چاہئے کہ اگر وہ بولتے ہوئے خود کو اچھے لگتے ہیں تو نہ بولنے پر سب کو بہہہہہہہہہت اچھے لگتے ہیں.  یہ ہمارا ذاتی خیال ہے اور آپ کو اس سے اختلاف کا پوووورا حق حاصل ہے. ویسے بھی کہتے ہیں کہ بیشک زبان میں ہڈی نہیں ہوتی لیکن یہ بڑوں بڑوں کی ہڈیاں تڑوا دیتی ہے. کہنے کو زبان منہ میں یہ چهوٹا سا گوشت کا لوتهڑا ہے لیکن اپنی زرا سی لغزش پر حضرت انسان کوجنت اور جہنم کا چکر بهی لگوا سکتی ہے. عزت کے مرتبے بهی دلواتی ہے اور پھانسی کے پھندے میں بھی فٹ کرواتی ہے. کتنی ہی اچھی صورت ہو اور کتنا ہی مہنگا سوٹ کسی کے بدن پر سجا دیا جائےلیکن اس کی انسانی حیثیت اور قیمت اس کا منہ کھلتے ہی سامنے آ جائے گی ۔ اور کئی بار پھٹے پرانے ملبوس میں موجود کوئی بدصورت انسان جسے شاید کوئی دیکھ کر پاس بٹھانے پر بھی تیار نہ ہو، لیکن جب وہ بات کرنا شروع کرتا ہے تو انسان اس کے الفاظ و انداز کی ادائیگی کے سحر میں گرفتار ہوتا چلا جاتا ہے ۔ اس کا کرداردیکھتے ہی انسان کی نظریں اور سر عقیدت سے اس کے سامنے جُھکتا چلا جاتا ہے ۔ یہ ہی زبان اسے عظمت کی بلندیوں تک لیجاتی ہے، لیکن ہاں اس زبان کی تاثیر بھی بے شک اس کے کردار میں چُھپی ہوئی ہے ۔ بے کردار آدمی کی زبان بھی اس کی طرح بے اثر ہو جاتی ہے ۔ اس کی مثال اس صدی کے علماء کو ہی دیکھ لیں ۔ کتنا کلیجہ باہر نکال نکال کر چِلا چِلا کر لوگوں کو آیات اور احادیث سنا رہے ہوتے ہیں ۔ لیکن کیوں کہ انکا اپنا کردار صاف نہیں ہوتا تو بدلے میں انکی زبان اور الفاظ سے بھی تاثیر اللہ پاک کی جانب سے چھین لی جاتی ہے۔ ویسے تو دل کے بارے میں بھی یہی فرمایا جاتا ہے کہ یہ ٹھیک ہے تو سب ٹھیک ہے مگر کیا کریں کہ کمبخت دل بهی انسان کو پلٹیاں دینے سے باز نہیں آتا . نظر کو ساتھ ملاتا ہے اور دوسروں کے ہر جذبے ، ہر خواہش ، ہرنوالے پر نظر رکھتا ہے. اور خود لوگوں کے شِپ کے شِپ ڈکار چکا ہو، وہ دیکھنے کو تیار نہیں. اسی دل کے مرض نے ہی تو حرام اور گناہ میں مزے کی نوید سنائی. دماغ میں دل کے ہی مہمان بِٹھا لئے جاتے ہیں اور اس وجود کا بزرگ سا مالک ضمیر اپنی نحیف آواز میں انہیں خبردار کرتا رہتا ہے لیکن کیا فائدہ ضمیر بابا ! اگر خطرے اور امتحان کی گھڑی میں لمبی تان کر نہ سوتے تو حالات مختلف نہ ہوتے کیا؟         اب جب زبان، دل ،دماغ اور نظر آپ کے ہاتھ سے نکل ہی چکے ہیں تو آپ بس دعائے خیر ہی کریں کیونکہ دعائے مغفرت تو بڑی دھوم دھام سے ہو گی .
●●●
تحریر: ممتازملک ۔پیرس
مجموعہ مضامین: سچ تو یہ ہے 
اشاعت: 2016ء
●●●


شاعری / /مدت ہوئ عورت ہوۓ/ ممتاز قلم / سچ تو یہ ہے/ اے شہہ محترم/ سراب دنیا/ نظمیں/ پنجابی کلام/