ممتازملک ۔ پیرس

ممتازملک ۔ پیرس
تصانیف : ممتازملک

ہفتہ، 27 جنوری، 2024

بند۔ کوٹیشنز ۔ چھوٹی چھوٹی باتیں




🤔
ہم کسی کا منہ نہیں بند🙊 کر سکتے لیکن اپنے کان🙉 تو بند کر سکتے ہیں.
       (چھوٹی چھوٹی باتیں)
           (ممتاز ملک. پیرس)

منگل، 16 جنوری، 2024

منور رانا مرحوم کے نام۔


معروف بھارتی شاعر کے انتقال پر خراج عقیدت 

منور رانا کے نام

ادب کی دنیا میں بہترین اپنا کام چھوڑا
 زمانے تک جو رہے گا ایسا ہے نام چھوڑا
منور رانا نے انگنت دل اداس چھوڑے
نہ لے سکے گا کبھی کوئی جو مقام چھوڑا
      (ممتاز ملک۔پیرس)

اتوار، 7 جنوری، 2024

رپورٹ ۔ ناصرہ خان کے گھر محفل میلاد


ناصرہ خان کی رہائش گاہ پر محفل میلاد 
پیرس فرانس  کی معروف جرنلسٹ محترمہ ناصرہ خان صاحبہ نے 6 جنوری 2024 بروز ہفتہ اپنی رہائش گاہ پر نئے سال کی خیر و برکت کی دعا کے لیئے ایک محفل میلاد کا انعقاد کیا۔ جس میں پیرس کی معروف شخصیات نے حصہ لیا جن میں محترمہ روحی بانو صاحبہ، آصفہ ہاشمی، سائرہ کرن، عالیہ پاشا، مہناز، ممتاز ملک، طاہرہ سحر ،فرحت عاشق، زرینہ سلیم ، عظمی، نینا خان اور دوسری بہنوں نے شرکت کی۔ پروگرام میں وظائف کے علاوہ تسبیحات کی گئیں اور نعت خوانی کی محفل سجائی گئی۔ جس میں ممتاز ملک اور دیگر خواتین نے حصہ لیا جبکہ دعا طاہرہ سحر صاحبہ نے کروائی۔ دعا کے بعد ایک پرتکلف عشائیے کا اہتمام کیا گیا تھا اور ناصرہ خان صاحبہ نے بہت پیار اور محبت کے ساتھ سب کو کھانا پیش کیا اس کے بعد حضرت بی بی فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا کے یوم پیدائش کی خوشی میں ناصرہ خان صاحبہ نے اپنے گھر کا بنا ہوا کیک کاٹا۔ قہوہ پیش کیا گیا۔ تصاویر کا دور چلا خواتین نے مختلف قسم کے مسائل اور باہمی دلچسپی کے امور پر تبادلہ خیال بھی کیا ۔ اس طرح یہ محفل ہنستے مسکراتے  نئے سال کی مبارکباد اور دعاؤں کے ساتھ اختتام کو پہنچی۔ پیش ہیں پروگرام کی کچھ تصویری جھلکیاں










منگل، 2 جنوری، 2024

مہنگائی فرانس۔کالم

مہنگائی فرانس
تحریر: ( ممتازملک۔پیرس)

دنیا بھر میں جہاں جنگوں کی صورتحال نے مہنگائی میں اضافہ کیا ہے وہاں فرانس میں بھی مہنگائی نے افریت کا روپ دھار لیا ہے۔ پہلے کبھی ہم کہا کرتے تھے کہ کچھ بھی ہو جائے فرانس میں کھانا پینا اتنا سستا ہے کہ معمولی سے معمولی تنخواہ والا بھی آرام سے اپنی مرضی کا مرغی، گوشت، دالیں، سبزیاں، فروٹ خرید سکتا ہے۔ لیکن آج 25 سال میں یہ حالت ہو گئی ہے  کہ گوشت فروٹ، سبزی ہر چیز کو تبرک بنا دیا گیا ہے یقین کریں آج کل کے دنوں دسمبر اور جنوری میں جائیں تو کئی جگہ پر سبزیاں تین چار  چھ یورو کلو لگی ہوتی ہیں اور آپ حیران ہو جاتے ہیں وہاں پر جب کہ آپ کی تنخواہیں سالہا سال سے نہیں بڑھیں، جبکہ مہنگائی ہر روز بڑھ رہی ہے۔ یہاں پہ ہول سیلر کو تو فائدہ ہے۔ جو لوگ بیچنے والے ہیں وہ تو آرام سے قیمت کی چٹ ایک یورو سے اٹھا کر دو یورو لگا دیں گے لیکن خریدنے والے کی تنخواہ کتنے سالوں سے نہیں بڑھیں، کسی کو اس بات کا اندازہ نہیں۔ سرکاری تنخواہیں ہوں یا پھر پرائیویٹ لوگوں کی، (پرائیویٹ والے تو ویسے ہی مرتے ہیں تنخواہیں دیتے ہوئے) تو آپ اندازہ لگائیں کہ وہاں ایک عام آدمی کا خاص طور پر اگر وہ اپنی  فیملی کیساتھ رہتا ہے۔ گھر چلانا کس قدر مشکل ہے۔ اگر اسکے دو تین بچے ہیں دو میاں بیوی  یعنی پانچ افراد کا کنبہ ہے تو یہاں پر گھر چلانا ایک عذاب بن چکا ہے۔ اگر پانچوں بھی کما رہے ہیں تو ہر بندہ صرف اپنی ضرورت کی چیزیں پوری کرتا ہے کیونکہ عام طور پر یہاں تنخواہیں عموما 1400 سے لے کر 1800 یورو تک کی بنیادی تنخواہیں ہوتی ہیں جس میں اگر ایک آدمی کو اپنے ایک کمرے کا کرایہ دینا پڑ جائے اسے اپنا کھانا پینا کر کے بجلی کے ، گیس کے بل اور اپنے چارجز نکال کر جو صفائی ستھرائی کے لازمی آپ نے ہر گھر میں دینے ہوتے ہیں تو یقین کریں مر کے اس کے پاس اگر اس نے گاڑی بھی رکھی ہے تو ناممکن ہے کہ وہ 14 سو یا18 سو یورو میں اپنا بھی گزارا کر سکے۔ ورنہ دو تین سو یورو ہی  اسکے پاس بچتا ہے جس میں وہ کھائے گا پیئے گا تو آپ خود اندازہ لگائیں کہ وہاں پہ زندگی کس قدر مہنگی ہے۔ فرانس سے باہر یا پاکستان میں بیٹھے ہوئے لوگ بڑے آرام سے منہ کھول کر کوئی موبائلوں کی فرمائشیں کرتا ہے اور کوئی جناب 60، 60 ہزار روپے کے پرفیومز گفٹ میں مانگ رہا ہوتا ہے اور انکو تکلیف بھی نہیں ہوتی وہ ہڈ حرام گھر بیٹھے، لوگوں سے فرمائشی ٹوکرے بھروا رہے ہوتے ہیں۔ انہیں ذرا اندازہ نہیں ہوتا، کہ وہ جو مشقت کر رہا ہے وہ اپنا خرچ بھی کتنی مشکل سے پورا کرتا ہے۔ سرکاری طور پر احتجاج کے لیے یہاں پر زیلے زون نامی تنظیم نے سالہا سال سے یہاں پہ ناانصافی کے  قوانین پاس ہو رہے ہیں جس میں ریٹائرمنٹ کا ٹائم مزید طویل کر دیا گیا ہے جس میں تنخواہیں وہیں پہ مستقل کھڑی ہیں اور فیملیز مشکلات کا شکار ہیں۔ کہیں ان کے بینیفٹ روک دیے گئے ہیں، کم کر دیے گئے ہیں ختم کر دیئے گئے ہیں۔ اب وہ دالیں جو ہم کبھی 50 سے 60 سینٹیوں میں ایک کلو خریدا کرتے تھے یا بہت مہنگی ہوتی تو ایک یورو میں ایک کلو لیتے تھے اس وقت وہ  پونے تین چار یورو کی کلو لگی ہوئی نظر آتی ہے۔ آپ حیران ہو جاتے ہیں جس مونگی کی دال کو پاکستان میں ہم مریضوں کی دال کہتے ہیں اور منہ نہیں لگاتے وہ یہاں پر تین سے لے کر چھ یورو تک کلو مختلف جگہوں پر ملتی ہے
 بھنڈی جیسی سبزی پاکستان میں لوگ اس کی شان میں گستاخیاں کرنے سے نہیں چوکتے آپ سوچیں کہ نخرے کرنے والی وہ بھنڈی یہاں پر ہمیں چھ سے لے کر 12 ، 15 یورو تک کی کلو ملتی ہے اور ایک کلو لینا تو شاید میرا خیال ہے کہ بہت ہی امیر کبیر ہے جو ایک کلو ایک ساتھ اٹھا لیتا ورنہ یہی ہوتا ہے کہ اگر بہت ہی دل کیا تو آپ ایک مٹھی بھر اٹھا کر اسی میں پیاز اور باقی چیزیں مکس کر کے اپنا شوق پورا کر لیتے ہیں اور باقی سبزیوں کا بھی پوچھیں۔۔۔
 اب  آؤٹ سیزن ہے تو سبزیوں فروٹ کے آپ پاس سے گزر بھی نہیں سکتے، ایسے جھٹکے دیتی ہیں ان کی قیمتیں کہ دور سے بورڈ دیکھکر آپ خاموشی سے وہاں سے نکل جاتے ہیں کیونکہ تنخواہیں نہیں بڑھ رہی صرف مہنگائی بڑھ رہی ہے ۔پیٹرول جو کبھی سینٹیوں میں لیٹر تھا اب یہاں مختلف علاقوں میں ڈھائی سے تین یورو کا ایک لیٹر  ڈالا جا رہا ہے آپ اندازہ لگائیں کہ ایک آدمی نے گاڑی رکھی ہے پھر اس کی پارکنگ کے، چالان کے خرچے پارکنگ تو انہوں نے ختم ہی کر دی ہیں۔ جو ہیں وہ پیسوں کی پارکنگ ہے۔ گھنٹوں کے حساب سے۔ لیکن اس کے باوجود بھی اگر آپ دیکھیں تو چالان کی بھرمار ہوتی ہے لوگ گاڑیاں کہاں کھڑی کریں میں تو کہتی ہوں اڑنے والے سلنڈر لے آئیں لوگ اپنے ساتھ باندھ کے اسی میں سفر کو نکلا کریں۔ ان گاڑیوں کا جھنجٹ ہی ختم کر دیں کیونکہ لوگوں نے سفر جو کرنا ہے لوگوں نے ادھر ادھر جانا ہے ۔کیا کریں پھر وہ لوگ۔ بالکل ناک تک لوگوں کو پہنچا دیا ہے۔ اتنی شدید مالی پریشانیاں پہلے کبھی سننے دیکھنے میں نہیں آتی تھیں جتنی اب فیملیز پریشان ہیں ۔
 پہلے لوگ مہینے بھر کے اپنے تنخواہوں کے خرچ میں سے بھی تھوڑا بہت جوڑ جاڑ کے کھینچ کھانچ کر کوئی ایک ادھ چیز گھر کی، بجلی کی مشین جیسے واشنگ مشین،  فرج خراب ہو گیا ہے تو بھی نقد پہ لے سکتے تھے ۔ 25 سال پہلے جب میں آئی تھی تو ضرور اسی تنخواہ میں ہم بنا لیا کرتے تھے لیکن آج آپ کی سوچ ہے آج آپ کو جو کچھ لینا ہے آپ کو ادھار یا قسطوں پر ہی لینا ہے یا پھر آپ  اس کے لیے پورا سال پیسے جمع کریں  کیونکہ آپ تنخواہ دار ہیں آپ کا گزارا نہیں ہو رہا تو کیا کریں گے۔ بہت حیران ہوتی ہوں جب یہاں پر ہمارے مردوں کی ٹولیاں گھنٹوں بیٹھ کر پاکستانی سیاست کی ٹاکیوں کو آسمان پر لگا رہے ہوتے ہیں۔ رونے رو رہے ہوتے ہیں یار وہاں یہ ہو گیا، وہاں مہنگائی ہو گئی وہاں فلانا ہو گیا، ارے بھائی جہاں رہتے ہو پہلے وہاں تو دیکھو وہاں کون سے راشن کے ٹوکرے تمہیں فری میں گھروں میں آ رہے ہیں، وہاں کون سی دودھ اور شہد کی نہریں بہہ رہی ہیں۔ یہاں ہم نے رہنا ہے یہاں کھانا ہے یہاں کے معاملات براہ راست ہمارے اوپر اثر انداز ہوتے ہیں۔ ہمارے اوپر کیا ہمارے ذریعے پھر ہمارے پچھلوں پر بھی اثر انداز ہوتے ہیں ۔جن کو مٹھیاں بھر بھر کے پیچھے کچھ نہ کچھ بھیجنا پڑتا ہے اور جو فالتو چیزیں ہمارے ساتھ چپکی ہوئی ہوتی ہیں۔ ان کو پورا کرنا پڑتا ہے ۔مجھے یہ بتائیں کہ یہ چیزیں ان پر بھی ان بلواسطہ اثر انداز ہوتی ہیں تو پھر یہاں کی فکر کیجیئے۔ یہاں کے حالات میں، یہاں کے احتجاج میں شامل ہوں یہاں کی اچھی بری باتوں کو نوٹس کریں حکومت کو یہاں کی باتوں پہ توجہ دلانے کے لیئے اچھے کاموں کے ذریعے متوجہ کریں اور ان سے کارکردگی اور اقدامات  کے لیئے اصرار کریں۔ ساری قومیں اکٹھی ہوتی ہیں۔ نہیں ہوتی تو پاکستانی کمیونٹی آپ کو ایسے کاموں میں کہیں نظر نہیں ائے گی۔ ان کاموں سے ان کو دور دور تک لینا دینا نہیں ہے عجیب لوگ ہیں۔ مجھے تو سمجھ ہی نہیں آتی کہ ہماری قوم چاہے ملک میں رہیں چاہے ملک سے باہر انہیں ہمیشہ دور والوں کا درد تڑپاتا ہے، اپنے گھر کا کوئی غم نہیں ہوتا فرانس ہمارا گھر ہے۔ ہمارا ملک ہے ہمیں یہاں کے مسائل اور وسائل میں شامل ہونا چاہیئے۔  اگر ہم فائدے لیتے ہیں تو یہاں جو پریشانیاں ہیں یہاں جو نقصان ہو رہے ہوتے ہیں یہاں جو قوانین بنتے ہیں ان میں بھی براہ راست حصہ ڈالنا چاہئے۔ اپنی آواز شامل کرنی چاہیئے۔ یہاں ہماری ڈیڑھ لاکھ کے قریب آبادی ہے اس کے باوجود بھی ہم لوگوں کی آواز کہیں سنائی نہیں دیتی۔ کیونکہ آپ کو شوق نہیں ہے۔ اب تو الیکشن میں بھی کھڑے ہونے لگ گئے ہیں لیکن وہ بھی برائے نام کمیونٹی میں کام کر رہے ہیں۔ وہ کمیونٹی میں کسی متحرک جذبے کو فروغ نہیں دے پاتے۔ وہ بھی اپنی کمیونٹی کے لیئے صرف شو پیس ہیں ٹائم پاس
                ۔۔۔۔۔۔۔۔

بھارتی فلموں کے نان سینس اسباق۔کالم


بھارتی فلموں کے نان سینس اسباق
تحریر: (ممتازملک ۔پیرس)

 بھارتی فلموں نے دنیا میں آخر کیا سکھایا؟ 99 فیصد بھارتی فلموں نے دنیا میں بے حیائی اور برائی کے سوا کس چیز کو فروغ دیا ؟ آپ دیکھتے رہیں، ہر فلم کے اندر آپ کا کسی کے ساتھ بھی سو جانا کوئی برائی نہیں ہے۔ ناجائز تعلقات بناؤ۔ ناجائز بچوں کو پیار کی نشانیاں کہہ کر انہیں عام کرو۔ کوئی عیب نہیں۔ کہیں بھی چمی پپی کر لو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ کسی بھی رشتے کے ساتھ سو جاؤ، کوئی فرق نہیں پڑتا۔ دوسرا اخلاق و اقدار کا جنازہ بڑے دھوم دھام سے اٹھایا جاتا ہے۔ شادی کے منڈپوں سٹیج سے لڑکیوں کو بھاگ جانے کی ترغیب کھلے عام دی جاتی ہے اور اسے مذاق میں اور ٹن ٹن ٹن ٹن کے میوزک کے ساتھ پیش کیا جاتا ہے۔ جیسے یہ بہت بڑا لطیفہ، بہت بڑا کارنامہ اس لڑکی نے سر انجام دیا اور وہ بھگانے والا ہیرو واہ کتنا بہادر ہے، کسی کی بیٹی منڈپ سے اٹھا لایا اور اپنی بہن بھی منڈپ سے بھاگنے پہ خوش ہو کے دیکھتا ہے، ارے واہ کیا کمال کیا۔ کتنی جرات مند ہے ہماری بہن ۔۔۔واہ واہ واہ ۔ حیرت ہوتی ہے ایسی فلمیں دیکھ کر۔ آپ کس معاشرے کی نشاندہی کر رہے ہیں؟ آپ کیا سکھانا چاہتے ہیں؟ اپ کا معاشرہ کیا کارٹون کا معاشرہ ہے؟ کیا یہاں انسان نہیں رہتے؟ کیا ان کی ایموشنز کارٹون والے ایموشنز ہیں؟ یعنی ایموشن لیس ہیں وہ سارے۔ جذبات سے عاری ہیں وہ سب لوگ کہ آپ انہیں بتاتے ہو منڈپوں سے بھاگ جاؤ ۔ شادی کا سہرہ بندھا ہے۔ دولہا کا گھوڑا بھاگ گیا جناب ہاہاہا۔۔۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ ہر انسان کے ساتھ اس کا خاندان جڑا ہوا ہوتا ہے۔ اس کے بہن بھائیوں پہ اثر انداز ہوتی ہیں اس کی ہر حرکتیں، اور اس کی ہر طرح کی سوچیں ۔ صرف ایک منٹ کے لیے اگر سوچا جائے کہ وہ لڑکیاں جو آپ کی فلموں کی ہیروئنوں کی نقل میں( آپ کی ہیروئن تو پیسے لے کر چار منٹ کے لیے بھاگ رہی ہے نا وہاں سے, لیکن آپ یہ سوچیں کہ وہ لڑکی جو اس ہیروئن کی تقلید میں) اپنے گھر سے اپنے منڈپ سے اپنے رشتوں سے بھاگ گئی, پھر اس کے بعد کیا ہوا ؟ اس کے بعد جس کے ساتھ بھاگی کیا اس نے اسے عزت دی؟ اگر آپ کی فلموں میں دی تو اس سے بڑی ب**** اور کوئی نہیں ہو سکتی ساری عمر وہ لڑکا حقیقت کی زندگی میں نہ تو اس لڑکی پہ اعتبار کرتا ہے نہ اس کو اپنی اولاد کے لیے قابل اعتبار سمجھتا ہے۔ نہ اس کی عزت کرتا ہے جب جی چاہتا ہے زبان یا عمل سے وہ اس کو گھونٹ کے رکھ دے گا کیونکہ تم میرے ساتھ بھاگی تو کسی کے ساتھ بھی بھاگ سکتی ہو۔ یہ ہوا انجام اس بھاگنے والی لڑکی کا۔ اب اس لڑکی یا لڑکے کے گھر والوں پہ نظر ڈالیں۔ کیا ان  کے گھر میں جو باقی بہنیں ہیں، بھائی ہیں انہیں معاشرے میں عزت مل پائے گی؟ ہم جس معاشرے میں رہتے ہیں اس معاشرے کے اندر ان کے لیئے کوئی رشتہ آئے گا یا انہیں کوئی عزت سے بیاہ کر لے کر جائے گا کیا وہ لڑکیاں بغیر طعنہ سنے اپنے گھروں میں چاہے سسرال میں چاہے اکیلی زندگی بھی گزارے تو اپنے شوہر سے کبھی ان کا طعنہ سنے بغیر زندگی گزار سکیں گی؟ کبھی نہیں ناممکن . اس لڑکی کے بھائی کو کس نظر سے دیکھا جاتا ہے؟ اسے کس نام سے پکارا جاتا ہے ؟ مرتے دم تک وہ لڑکا کیا عزت کے ساتھ سر اٹھا کے جی سکتا ہے؟ دوسری طرف اس لڑکے کے گھر والوں کی خبر لیں کہ جو بڑا ہیرو بن کر کسی کی بیٹی بھگا کر لایا . کیا اس کی بہنوں کے لیے کوئی اچھا رشتہ آئے گا؟ اسے کوئی بیاہ کے لے کے جائے گا؟ کوئی سوچے گا کہ ان کا بھائی ہے. چاہے وہ کتنی بھی پڑھی لکھی ہوں .شریف ہوں. ہنر مند ہوں. لیکن یہ ہمیشہ سوچا جائے گا کہ کل کو وہ لڑکا ان کا بھائی ہے ۔جس نے کسی کی بیٹی بھگائی۔ اسے ہم اپنے گھر میں اپنی بہنوں سے ملنے کے بہانے کبھی آنے دیں گے؟ کیا ہم اسے اپنے گھر کی عورتوں کے ساتھ کبھی بٹھانا پسند کر سکتے ہیں یا ہم بے فکری سے اسے اجازت دے سکتے ہیں کہ وہ اپنی بہن سے ملنے کے لیئے آئے؟ نہیں کبھی نہیں. اس کے بھائی کے لیے رشتے عزت والے گھروں سے مل سکیں گے ؟ لوگ کہیں گے ان کا ایک بھائی تو بھگا کے لایا پتہ نہیں یہ بھی کہاں کہاں لڑکیاں ورغلاتا ہوگا۔ یہ ہے سچ یہ ہے اصل آئینہ جو بھارتی فلم نے اور ڈراموں میں بھی ہمیشہ چھپایا گیا ۔ خواب دکھاتے ہیں۔  وہ خواب جو کبھی پورے نہیں ہوتے۔ وہ خواب جو کبھی ممکن ہی نہیں ہوتے۔ بالکل اسی طرح جیسے کسی چڑیا اور کبوتر کو اڑتے ہوئے دیکھوں اور کھڑکی سے میں بھی آرزو کروں ارے میں بھی تو اڑ سکتی ہوں اور میں دونوں ہاتھ کھول کر چھلانگ لگا دوں اور ہوا میں اڑنے کی بجائے اس کا انجام کیا ہوگا زمین پر اوندھے منہ پڑا ہوا لاشہ۔۔۔۔ یہ ہوتی ہے سچ کی موت۔ حقیقت کے خواب کے سامنے سچ کی موت بہت بڑی حقیقت۔ یہی فرق ہے بھارتی فلموں میں اور حقیقت کی زندگی میں کبھی کبھی خواب دیکھنا اچھی بات ہے، لیکن خواب کو خواب کی طرح دکھائیں۔ حقیقت کی زندگی کی جدوجہد کی ہمیشہ تعریف کی جاتی ہے۔ بھارتی فلم میں جب بھی کبھی حقیقت پسندانہ موضوعات پر مبنی پیش کی گئی اسے بہت سراہا گیا جیسے " تمنا " یا "تارے زمین پر" یہ وہ فلمیں تھی جس کو حقیقت میں تسلیم کیا گیا اور اسی طرح بہت ساری ایسے موضوعات پہ جو فلمیں بنی انہیں  بہت زیادہ سراہا گیا ، لیکن جب آپ خواب کے نام پر اس میں ننگا پن لے آتے ہیں۔ اس میں ایک دوسرے کے ساتھ چمن پپن کو غیر ضروری طور پر شامل کر کے ضروری بھی ہو تو ہر کسی کو پتہ ہے کہ کس نے کہاں کس کو ، کس طرح سے استعمال کرنا ہے، بیوی کیسے ہوتی ہے اور باقی رشتے کیسے ہوتے ہیں ہر کوئی جانتا ہے آپ ان کو اپنی فلم کے ذریعے کیا سکھانا چاہتے ہیں۔ لوگوں کے بیڈ روم میں گھس کر آپ ان کو کیا سکھانا چاہتے ہیں کیا بیڈ روم کی اندر صرف ننگ دھڑنگ اور یہی سب کچھ ہوتا ہے۔ اچھے طریقے سے اچھے لفظوں میں آپ کو کوئی بھی ماحول فلمانا نہیں آتا۔ جہاں ایک عورت اور ایک مرد ہوں گے ہمیں ہمیشہ اپنے ریموٹ پہ کنٹرول رکھنا ہوتا ہے کہ جناب اب یہ کہیں بھی کچھ بھی دکھائیں گے، تو اس کو ہٹا دو اور اگر نہیں ہٹایا تو پھر تیار رہیے آفٹر ایفکٹس کے لیئے ۔
                --------

شاعری / /مدت ہوئ عورت ہوۓ/ ممتاز قلم / سچ تو یہ ہے/ اے شہہ محترم/ سراب دنیا/ نظمیں/ پنجابی کلام/