ممتازملک ۔ پیرس

ممتازملک ۔ پیرس
تصانیف : ممتازملک

جمعہ، 27 اپریل، 2018

دوپہر کی ہنڈیا



دوپہر کی ہنڈیا

تحریر :
(ممتازملک. پیرس)













ہمارے ہاں عام طور پر  صبح صبح ہی گھر کی خواتین کی چہل پہل کا آغاز ہو جاتا ہے .کیونکہ اپنے بچوں کو سکول بھیجنے اور اپنے شوہر کو اس کے کام پر روانہ کرنے لیئے ناشتے کی تیاری کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے.  کیونکہ دن کے کھانے کا وقت عام طور پر ایک ڈیڑھ بجے کا ہوتا ہے تو اس کی تیاری کا آغاز بھی ساتھ ہی ہو جاتا ہے. 




 ایسے میں وہ خواتین جن کی ہانڈی سہہ پہر کے چار بجے تک چڑھ کے ہی نہیں دے رہی یا پکنے پر ہی نہیں آ رہی تو غور کیجئے کہ ماجرا کیا ہے ؟

*  کیا یہ خواتین اپنے ابَا کے گھر میں بھی چار بجے دوپہر کی ہانڈی چولہے پر چڑھانے ک عادی تھیں؟ تو جواب سو فیصد آتا ہے کہ سوال ہی  پیدا نہیں ہوتا.. 

*  اب کیا اپنے بچوں کو وہ چار بجے تک بھوکا رکھے گی ؟ جواب.. کبھی ہو ہی نہیں سکتا... 
* اپنے میاں کو چار بجے تک دوپہر کے کھانے کے لیے لٹکائے گی ؟ تو جواب ہو گا کہ ہاں ہو سکتا ہے بازاری کھانے کے چسکے میں میاں کو لٹکائے کہ غریب بازار سے ہی کچھ لا کر اسے لذت کام ودہن فراہم کر دے ... 
*  یا پھر اس عورت کو گھرداری کی الف ب کا ہی پتہ نہیں ہے .
ایسی عورت کو ہی پھوہڑ اعظم کا خطاب بلا شک و شبہ دیا جا سکتا ہے.  
اب اگر ایسا کچھ نہیں ہے اور یہ ہانڈی چار بچے کچھ خصوصی مواقع پر ہی چڑھتی ہے تو یقیناً وہ موقع گھر پر خاتون کی ساس یا نند کہ آمد ہی ہو سکتی ہے.  اکثر جب چلترباز بہو یا بھابھی اپنی ساس یا نند کو اچھی طرح سے اپنے فائدے میں نیمبو کی طرح نچوڑ لے اور اسے مزید ان تِلوں میں تیل دکھائی نہ دے تو شروع ہوتی ہے مکار بہو کی آخری کاروائی...
یعنی کہ وہ ہر روز آٹھ بجے ہونے والا ناشتہ  دس گیارہ بجے تک گھسیٹ لے گی یا پھر دوپہر کا کھانا ایک بجے پیش ہونے والا دن چار بجے تک "ہانڈی چڑھاتی ہوں ابھی" کہہ کر آپ کو گیٹ لاسٹ کا پیغام دیتی رہیگی.  اس وقت تک کہ جب تک آپ دوبارہ اس کی تجوری بھرنے کا انتظام نہ کر لیں.. 
اور پھوہڑ اعظم خواتین کو ایک  ہی سبق دیا جا سکتا ہے کہ نالائیقو کل کیا پکانا ہے ایک دن پہلے ہی سوچ کر اس کا سامان (دال سبزی گوشت جو بھی پکنا ہے) وہ منگوا لیا جائے.  اور صبح گھر کا ناشتہ نمٹاتے ہی ساتھ یہ دوپہر کی ہانڈی بھی چڑھا دی جائے. ساتھ میں آٹا گوندھنے اور برتن دھونے تک نہ صرف کھانا تیار ہو جائے گا بلکہ آپ کے کچن کی صفائی بھی ایک ہی بار میں ہو جائے گی اور آپ کے باقی گھر کو سمیٹنے کے وقت میں دوپہر کے کھانے سے بے فکری اور وقت کی بچت بھی ہو جائے گی.. 
کام کرنے کی ترتیب درست ہو اور نیت کام چوری کی نہ ہو تو گھر کا کام کوئی ہوَا نہیں ہوتا.  کہ ختم ہی نہ ہو پائے. 
سو بہنوں جس کا بیٹا آپ کو ساری عمر کی موج مستی فراہم کر رہا ہے اگر اس کی ماں بہن کبھی آپ کے گھر کچھ روز کے لئے آ ہی جائیں تو انہیں حقیر جاننے کی بجائے ان کی عزت اور تواضع آپ کا فرض ہے.  اپنے ہی میکے کو تین سو پینسٹھ دن  بھرنے والیو اگر اللہ توفیق دے تو اپنے سسرال والوں کو بھی عزت دیکر دیکھیں اس سے آپ کی عزت میں اضافہ ہی ہو گا کمی کبھی نہی آ ئے گی.  اکثر اپنے باپ کے گھر میں بیٹھی بوڑھی ہوتی لڑکیاں جب رُل رُل کر وظیفے تسبیحات  کر کر کے شوہر پا ہی لیں تو شوہر ملتے ہی وہ وہ پینترے بدلتی ہیں کہ اللہ ہی معاف کرے.  ایسے میں ان کے دماغ میں ان کی جاہل ماؤں کا بھرا ہوا یہ خناس کہ" میاں کو قابو میں رکھ بس... باقی جائیں بھاڑ میں " یا" اب وہ تجھے چھوڑ کر کہیں نہیں جا سکتا" ہی ان کی بربادی کی سب سے بڑی وجہ بنتا ہے.  ایسے میں ان کا شوہر کسی مصلحت کی خاطر خاموشی اختیار کر بھی لے تو بھی نہ تو ایسی بیویاں اس کی نظر میں عزت پا سکتی ہیں اور نہ ہی ان کے گھر میں سکون ہو سکتا ہے.  ہر مرد کی عام طور پر تین ہی خواہشات ہوتی ہیں 
ایک...  اچھا صاف ستھرا گھر کا پکا ہوا لذیذ کھانا, 
دوسرا... صاف ستھرا سلیقے سے سجا گھر, 
اور تیسرا.... صاف ستھری اچھا پہنے اوڑھے  ہوئے اس کی مہذب بیوی 
یہ تین چیزیں نہ صرف اس کی تھکن اتار دیتی ہیں.  بلکہ وہ ایسی بیوی کی اکثر باتی بھی بخوشی مانتا رہتا ہے.  اور اسے ناراض کرنا بھی پسند نہیں کرتا.  ...
جبکہ چار بجے ہانڈی چڑھانے والیاں شوہر کو پاگل بنانے کے لیئے اکثر تعویذ دھاگوں اور بابوں کے حجروں میں ہی لائنوں میں ہی عمریں گزارتی پائی جاتی ہے.  لیکن یہ بھول جاتی ہیں کہ جو محبت اور عزت خدمت اور بُردباری میں ملتی ہے وہ ان غلیظ لوگوں اور بابوں  کے اڈوں پر کبھی نہیں مل سکتی . ان سے بچیں اور اپنے روزمرہ کے معمولات کو صحیح ڈگر پر لائیے... 
                         ............


منگل، 24 اپریل، 2018

"راہ ادب" پروگرامز کی تاریخیں


فرانس میں پاکستانی خواتین کی پہلی ادبی تنظیم "راہ ادب " کا قیام کا اعلان  11.4.2018 بروز بدھ فلانات سارسل پیرس میں ٹیم راہ ادب کے ساتھ مل کر مشاورت کیساتھ کیا گیا
. تنظیم کا نام بھی اسی بیٹھک میں متفقہ طور پر منظور کیا گیا.
اس میں ٹیم کی طور پر بنیادی اراکان جو شامل ہیں .  ان کے نام ہیں
شمیم خان صاحبہ  . روحی بانو صاحبہ.  ممتاز ملک صاحبہ

نمبر شمار. تاریخ. دن. موقع. مقام تقریب
1- 21.4.2018.بدھ. اقبال ڈے دعائیہ تقریب.
رہاشگاہ شمیم خان سارسل فرانس

اتوار، 22 اپریل، 2018

اقبال ڈے پر راہ ادب میں دعائیہ تقریب

   21 اپریل 2018ء
     بروز ہفتہ
یوم اقبال کے موقع پر
خواتین کی پہلی ادبی تنظیم راہ ادب کے زیر اہتمام محترمہ شمیم خان صاحبہ کی رہائشگاہ پر ایک دعائیہ محفل کا انعقاد کیا گیا.  جس میں ادب سے محبت رکھنے اور آئندہ نسل کو پاکستانی اور اردو تہذیب سے جوڑے رکھنے کی خواہش رکھنے والی بہنوں اور بیٹیوں نے بھرپور شرکت کی.  اس محفل میں  ختم کلام پاک  کی نشست ہوئی.  سورہ یٰسین کا ورد کیا گیا.  اور اس کے بعد ممتاز ملک ,شمیم خان,  غزالہ صاحبہ نے گلہائے عقیدت بحضور حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پیش کرنے کی سعادت حاصل کی.
اور "راہ ادب" کے اغراض و مقاصد بیان کئیے گئے.  جس سے سبھی بہنوں نے نہ صرف مکمل اتفاق کیا بلکہ اس کے ساتھ ساتھ محفل میں شریک ہر خاتون کو جب اپنے اظہار خیال کا موقع دیا گیا تو انہوں نے اپنی بہترین تجاویز بھی  پیش کیں اور اپنی خدمات بھی پیش کرنے کا بھرپور اظہار کیا.  متفقہ طور پر اس بات کی ضرورت پر زور دیا گیا کہ ہمیں فرانس میں اپنی جوان ہوتی ہوئی نسل کو اپنی زبان اور اپنی تہذیب سے اس طرح جوڑ کر رکھنے کی ہر وہ بھرپور کوشش کی جائے کہ جس سے وہ ہمارے جیتے جی ہی نہیں بلکہ ہمارے اس دنیا سے جانے کے بعد بھی فخریہ انداز میں منسلک بھی رہی اور اسےآگے بھی بڑھائیں.  اپنے ادبی اور تہذیبی اثاثے کو اپنی بیٹیوں میں منتقل کرنے کی جتنی ضرورت آج ہے اس سے پہلے شاید اس کی ضرورت کو اتنی شدت سے محسوس نہیں کیا گیا تھا.  اور ہر بار ہر پلیٹ فارم پر بات اکھٹے ہو کر  گپ شپ لگانے اور زبانی جمع خرچ پر ہی ختم کر دی جاتی تھی.  جبکہ "راہ ادب" کی ٹیم اپنی کمیونٹی کی سبھی بہنوں کیساتھ مل کر اس تفریق کے بنا کہ کون کس سیاسی جماعت سے تعلق رکھتی ہیں یا کون کس تنظیم سے وابستہ ہیں یا کون کس مذہبی جماعت کا حصہ ہیں ؟ سبھی کو پاکستانی ہونے کی حیثیت سے ان شاءاللہ ایک ایسا پلیٹ فارم مہیا کرنے کی کوشش کریگی جس میں ماں کی لوری سے لیکر باپ کی قربانیوں اور محبتوں, بہنوں کے لاڈ ,بھائیوں کا مان, رشتوں کی مٹھاس اور معافی کا مزا کھیلوں کی روایت دوستوں کے بے غرض ساتھ ,اپنے شاعروں اور لکھاریوں  سے تعارف.... نئے لکھاریوں کی حوصلہ افزائ , غرض کہ ہر تہذیبی اور معاشرتی رنگ کو اپنی بہنوں اور بیٹیوں تک پہنچانے کی کوشش کی جائے گی.  کہ آج کی بیٹی ہی اگلی نسل کی ماں بن کر یہ امانت اپنی اولاد تک پہنچا سکے. 
تقریب میں شمیم خان, روحی بانو, ممتاز ملک, شاز ملک ,ناصرہ خان, صومیہ بابری, صائمہ بابری, ریشمین شیخ, تحریم شیخ, سعدیہ, مہتاب, غزالہ اور دیگر بہنوں نے بھی بھرپور شرکت کی.
آخر میں ان الفاظ کیساتھ سبھی شریکان محفل کا شکریہ ادا کیا گیا
محفل میں شریک سبھی پیاری بہنوں اور بیٹیو آپکی آمد کا اور خوبصورت محفل سجانے کا بہت شکریہ ہم ان ادب سے محبت کرنے  والی اپنی سبھی بہنوں بیٹیوں کا شکریہ ادا کرتی ہیں جنہوں نے آکر ہماری حوصلہ افزائی کی. اور اپنی قیمتی آراء سے نوازہ .
اللہ پاک راہ ادب کے راستے کو کامیابیوں سے بھر دے. آپ کا ساتھ سلامت رہے.  امین🌹🌹🌹🌹
ٹیم "راہ ادب "
(شمیم خان, روحی بانو, ممتازملک)
پروگرام کے اختتام پر ممتاز ملک نے خصوصی دعا کروائی.  پروگرام کے اختتام پر شمیم خان صاحبہ نے  مہمانان گرامی کے لیئے  پرتکلف عشائیہ کا اہتمام کیا گیا. 
                       ...........

منگل، 17 اپریل، 2018

عاشقان ساگ

ہمارے ایک کرایہ دار تھے ایسے ہی عاشقان ساگ
سرگودھا سے انکے ہاں بوری بھر کر ساگ آتا تھا اور اس کے ختم ہونے سےپہلے ہی اگلی ساگ کی بوری پہنچ جاتی تھی .
ہمیں تو انہوں نے ساگ کےنام سےہی نفرت کرا دی تھی 😖😖😖
لیکن آج کسی کا سرسوں کا ساگ, مکی کی روٹی اور لسِّی کیساتھ کیک پر لکھا "ساگ مبارک " دیکھ کے مجھے پکا یقین ہو گیا کہ

لگتا ہے کوئی بہت ہی بڑا عاشقِ ساگ ہے 😮
   اس کی تو تُنَِی بھی ہرے رنگ کی ہو گی یقیناً 😜😜😜

اتوار، 15 اپریل، 2018

کوئی کام چھوٹا نہیں ہوتا ۔ کالم



        کوئی کام چھوٹا نہیں ہوتا 

            (تحریر/ممتازملک.پیرس) 



دنیا کے پہلے انسان سے لیکر اس کے آخری انسان تک ہر ایک کو زندہ رہنے کے لیئے حرکت کرنا ہے اور اس حرکت کو اگر کسی کے کام آنے یا کچھ بنانے اور خریدوفروخت کے نام سے پیش کیا جائے تو اسے کہتے ہیں مزدوری کرنا.  اس لحاظ سے اس دنیا کا ہر انسان کسی نہ کسی کے لیئے مزدوری کرتا ہے.  . ایک کارآمد انسان ہر پل کسی نہ کسی مزدوری میں جتا ہوا ہے . نبیوں پیغمبروں کی سنت بھی ہے اور روایت بھی کہ کسی پر بوجھ بننے کے بجائے  خود محنت کر کے اپنا رزق پیدا کیا جائے.  ہمارے ہاں کسی کا کام کرنا اس کی عظمت کی نشانی کم اور مجبوری زیادہ سمجھا جاتا ہے.  اسی بنیاد پر ہمارے ہاں کچھ ایسے رواج پیدا کر دیئے گئے  ہیں کہ انسان پچاس سال کی عمر میں کام کرنے کو اپنے لیئے بوجھ اور دوسروں کی نظر میں قابل رحم سمجھ لیا گیا ہے جبکہ دنیا بھر میں ستر اور اسی سال کے لوگ بھی اس عمر میں ہر طرح کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں.  
ہمیں ہر کام میں اپنے آپ کو صرف حکم دینے والے درجے پر ہی رکھنا پسند ہے . جبکہ محنت کرنا کسی چھوٹے درجے پر گنا جاتا ہے . 
آپ ملک سے باہر جاتے ہیں تو ہر وہ کام کرنے پر بخوشی راضی ہو جاتے ہیں جو اپنے ملک میں آپ کے معیار کو کمتر کر رہے ہوتے تھے.   آپ وہی ہیں نا جو کل تک پانی کا گلاس اپنے  ہاتھ سے لانا خلاف شان سمجھتے تھے لیکن آج پردیس میں بیٹھ کر گھر کیا گھر سے باہر بھی جھاڑو لگانا,  کچن باتھ صاف کرنا, کوڑا نکالنا برتن دھونا اور بھی بہت کچھ کرتے ہیں اور کسی کے پوچھنے پر جواب دیتے ہیں یہ ہمارا ہی تو کچرا ہے تو اس کے سمیٹنے میں اس قدر شرم کیوں ؟
کیا یہ محنت نہیں ہے ؟
ہم نے یہاں یورپ میں ڈاکٹر کو آواز لگا کر کپڑے بیچتے دیکھا ہے...
جھاڑو لگاتے دیکھا ہے برتن دھونے کی نوکری کرتے دیکھا ہے...
ہر ایک کو بابو بننے کا ہی شوق ہے تو باقی کام آسمان سے فرشتے آ کر کیا کریں گے کیا؟
اگر آپ سمجھتے ہیں ہمارے ملک میں لوگوں کو اہل ملازمتیں نہیں ملتی ہیں اور باقی دنیا میں ہر آدمی ڈگری لیتے ہی کرسی میز کی ملازمت کرتا ہے تو آپ نے غلط بات کی ہے جناب ....
جس ملک میں ہم رہتے ہیں  یہاں لاکھوں ڈبل ایم اے سڑکوں پر معمولی نوکری کے لیئے  خاک چھانتے ہیں اور سوچتے  ہیں کہ کاش پاکستان میں ہوتا تو ریڑھی ہی لگا لیتا  ..
یہاں تو آپ خواب میں بھی سڑک پر اپنی مرضی سے ریڑھی بھی  نہیں لگا سکتے . اس لیے اپنے ملک میں رہ کر اپنے حالات کو صرف محنت کے بل پر  تبدیل کرنے کی کوشش کیجئے.  جو اپنے ملک میں محنت نہ کر سکے وہ دنیا میں کہیں بھی کچھ نہیں کر سکتا.  کوئی کام چھوٹا یا بڑا نہیں ہوتا. کام کو ہمیشہ کام سمجھ کر کیجئے.  اسی میں عظمت ہے.  
                       ..........

محبت بانٹنے نکلے ۔ اردو شاعری۔ سراب دنیا



محبت بانٹنے نکلے


(کلام /ممتازملک. پیرس)

محبت بانٹنے نکلے تھے پتھر لے کے گھر لوٹے
بہت سے دشت چھانے اور ہو کے در بدر لوٹے

تمہارے شہر میں ہم نے بڑی رسوائیاں پائیں 
مگر آخر غریباں شہر اپنے شہر لوٹے

ہماری سوچ سے دل تک بڑی لمبی مسافت ہے
چلو اب دیکھتے ہیں کہ کہاں سے یہ نظر لوٹے

جہاں میں مسندیں اب بے ہنر آباد کرتے ہیں 
جبھی تو لے کے آنکھیں نم سبھی اہل ہنر لوٹے

لیئے ہم کانچ کا دل برسر بازار بیٹھے ہیں 
تھے پتھر جنکی جھولی خوش وہی تو بازیگرلوٹے

وہ جھوٹے لوگ جومل کر ہمیں کو جھوٹ کردیں گے
انہیں کو آزما کر ہم بھی اپنی راہگزر لوٹے

قرار جاں بنانے کو بہانے اور کیا کم تھے
بھلا ممتاز لے کے کون یوں زخمی جگر لوٹے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔



جمعرات، 12 اپریل، 2018

خواتین کی پہلی ادبی تنظیم "راہ ادب فرانس "کا قیام


پیرس میں خواتین کی پہلی ادبی تنظیم 

"راہ ادب " کا قیام 
رپورٹ :
(ممتازملک.پیرس)

پیرس میں کافی عرصے سے یہ دیکھا جا رہا تھا کہ لکھنے والوں میں خواتین کی تعداد ایک تو ویسے ہی کم ہے اور جو ہے وہ بھی اپنی باقاعدہ شناخت کے لیے یہاں کے لکھاری حضرات کی پشت پناہی کی محتاج ہے.  اس صورتحال میں نئی لکھنے والی خواتین کو کوئی ایسا پلیٹ فارم میسر نہیں تھا جہاں وہ اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو بلا جھجھک اور وقار کیساتھ پیش کر سکیں.  اس سے پہلے ایک دو خواتین نے مردوں کے ساتھ مل کر یا الگ سے کوئی گروپ بنانے کی جو سعی کی وہ انہیں کی اندرونی سیاستوں اور خودنمائی کے شوق میں دفن ہو گئیں.  ان پلیٹ فارمز پر کسی بھی خاتون کے ادبی کام کو جِلا تو کیا ملتی الٹا ان کے اپنے کام کا معیار بھی شدید متاثر ہوا .  یوں ان کوششوں میں اخلاص کی کمی اور شوق خودنمائی کی ذیادتی نے انہیں کوئی باوقار مقام حاصل ہی نہیں کرنے دیا   . بلکہ ان کی وجہ سے خواتین کا کام ایک مذاق بن گیا.  
کہنے کو ہم بیشک یورپ میں رہتے ہیں لیکن ہمارے دماغ آج بھی ڈنگہ, بھائی پھیرو, کلرسیداں , قصور,  جہلم, گجرات,  گجر خان کی تنگ و تاریک گلیوں میں پھنسے ہوئے ہیں.  ہمیں ہر کام میں خاتون صرف ٹائم پاس ہی نظر آتی ہے.  اس کا کام اور ہنر کوسوں دور بھی ہماری سمجھ سے پرے رہتا ہے.  کوئی بھی خاتون جب لکھتی ہے یا گھر سے باہر اپنی ذمہ داریوں کے بعد اپنے تجربات اور مشاہدات کو اپنے معاشرے اور کمیونٹی کے لوگوں کی تربیت کے لئے استعمال کرتی ہے تو مردوں سے کہیں زیادہ مسائل سے نبرد آزما ہونے کے بعد اپنے کام کو ان تک پہنچا پاتی ہے سو اس  کے لئے اسے بجاء طور پر زیادہ حوصلہ افزائی کی ضرورت ہوتی ہے.  جبکہ یورپ بھر میں اور خصوصا ہمارے اپنے شہر پیرس میں  ہمیں شدت سے اس بات کا احساس ہو رہا تھا کہ خالصتاً اپنا کام کرنےوالی خواتین کو جان بوجھ کر پیچھے دھکیلا جا رہا ہے.  جس کا ایک ثبوت یہ ہے کہ یورپ میں پاکستانی خواتین پاکستانی مردوں سے کہیں زیادہ پڑھی لکھی اور باشعور ہونے کے باوجود ان کی تعداد ادبی میدان میں نہ ہونے کے برابر ہے.  وہ حضرات جنہیں اردو میں ایک جملہ ادا کرتے ہوئے جبڑے میں درد محسوس ہونے لگتا ہے وہ بھی یہاں خود کو استاد ثابت کرنے پر تلے رہتے ہیں.  جبکہ خواتین جو ان  سے زیادہ اچھی زبان دان بھی ہیں اور پڑھی لکھی بھی وہ منظر سے ہی غائب کر دی جاتی ہیں.  انہیں اپنی مرضی سے ہی متنازعہ اور غیر متنازعہ کے خانوں میں بانٹ دیا جاتا ہے. خواتین میں غلط فہمیاں پیدا کرنا ان میں سے اکثر کا ہسندیدہ مشغلہ رہا ہے . اب یہ ان کے اندر کا چھپا ہوا بغض ہے یا احساس کمتری ..
ہم کچھ کہنا  نا تو مناسب سمجھتے ہیں اور نہ ہی ضروری.  سو پیرس میں ہم نے خواتین سے کافی عرصے کی مشاورت کے بعد ایک ایسی تنظیم بنانے کا فیصلہ کیا.جہاں پر خواتین کا کام خواتین کے ساتھ ہی دنیا کے سامنے پیش کیا جائے. 
آپ سوچتے ہونگے کہ اگر پہلے دو تنظیمات اپنی سیاست بازیوں اور خودنمائی کے اثرات سے نہ بچ سکیں تو یہ نئی تنظیم کیونکر اس سے بچ پائے گی ؟  تو اس کی سب سے بڑی تین وجوہات یہ ہیں کہ ایک تو اس میں کسی بھی مرد کے عمل دخل کا راستہ بند کر دیا گیا ہے.  دوم اس کی تشکیل میں شامل تینوں خواتین اپنے اپنے کام میں پہلے سے ہی اپنا اپنا نام اور مقام  رکھتی ہیں .  اور  سوم انہیں ایکدوسرے کو نیچا دکھانے کے لیے کسی چھچھورے انداز کی قطعی کوئی ضرورت نہیں.  ان کی اچھی شہرت ہی انہیں ان باتوں سے دور رکھنے کے لئے کافی ہے.  
اس تنظیم کی تشکیل میں شامل خواتین میں اپنے بیس سالہ تخلیقی سفر کے بعد میں ناچیز ممتاز ملک, معروف سماجی کارکن اور ہر دلعزیز محترمہ روحی بانو صاحبہ اور ہمارے بہت پیاری دوست محترمہ شمیم خان صاحبہ شامل ہیں.  
اس تنظیم کا نام باہمی مشاورت کے بعد "راہ ادب " تجویز کیا گیا ہے.
اس نام کا پس منظر یہ ہی ہے کہ اس تنظیم کے ذریعے خواتین کے ادب اور تحریر کے راستے کو آسان اور روشن بنایا جا سکے اور وہ تکالیف جو ہم نے اس سفر میں اٹھائی ہیں , آنے والی لکھاریوں کو ان تکالیف سے بچایا جا سکے.  
  اس تنظیم  "راہ ادب " میں شامل ہونے کے لیے کسی بھی خاتون کا اردو, پنجابی, فرنچ یا کسی بھی  زبان کا لکھاری ہونا لازمی ہے.  جبکہ انتظامی ذمہ داری نبھانے کے لئے صاحب کتاب ہونا لازم ہے . پروگرام کی ساری انتظامیہ صرف خواتین پر مشتمل ہو گی.  اس کی ممبر بننے کے لیے کوئی بھی لکھنے  کی شوقین خاتون ہم سے بلا جھجھک رابطہ کر سکتی ہے.  اصلاح لے سکتی ہے اور اپنے کام کو مزید بہتر بنانے کے لیے ان کی ہر طرح سے ادبی راہنمائی کے لیے ہم سے رابطہ کر سکتی ہے.  
اس سلسلے میں  تنظیم "راہ ادب" کی پہلی بیٹھک کل شام سات بجے, بروز بدھ بتاریخ 11 اپریل 2018ء 25 رجب المرجب کو ایک مقام

ی ریسٹورنٹ میں منعقد ہوئی.   جس میں مندرجہ بالا تمام نکات طے پائے. بیٹھک کی کچھ تصاویر بھی اس تحریر کیساتھ پیش کی جا رہی ہیں.  

ہماری اس تنظیم کا مقصدِ قطعی طور پر اپنے لکھاری بھائیوں کے ساتھ کوئی بھی مقابلہ بازی یا کسی بھی قسم کی مخاصمت نہیں ہے بلکہ اس کا مقصد ان کا اس کام میں ہاتھ بٹانا ہے جو وہ خواتین کے لئے کرنا چاہتے تھے لیکن بوجوہ کر نہیں پاتے تھے.  اب ایک بااختیار پلیٹ فارم سے  وہ زیادہ بہتر انداز میں ہمارا ساتھ دے سکتے ہیں اور ہماری حوصلہ افزائی کر سکتے ہیں.  ہم اپنے پروگرامز میں اپنے بھائیوں کو نہ صرف مدعو کیا کرینگے بلکہ ان کی تصانیف کے لئے رونمائی اور پذیرائی کا بھی کھلے دل سے انعقاد کیا کرینگے ان شاءاللہ آئیئے مل کر اپنی اپنی ماؤں بہنوں اور بیٹیوں کے لئے راہ ادب کو آسان بنائیں.  تاکہ آپ کو اپنے آدھے حصے کے تجربات مشاہدات اور سوچ بچار سے آگاہی حاصل ہو سکے


شاعری / /مدت ہوئ عورت ہوۓ/ ممتاز قلم / سچ تو یہ ہے/ اے شہہ محترم/ سراب دنیا/ نظمیں/ پنجابی کلام/