ممتازملک ۔ پیرس

ممتازملک ۔ پیرس
تصانیف : ممتازملک

جمعہ، 19 مئی، 2023

یہ مائیں کیوں مر جاتی ہیں ۔ اردو شاعری ۔ مدت ہوئی عورت ہوئے

یہ مائیں کیوں مر جاتی ہیں؟
کلام: 
(ممتازملک ۔پیرس)

(پوچھ رہا ہے ننھا منّا بچہ مجھ سے،
6 سال کے معصوم بچے کی ماں سے جدائی پر تحریر کلام )

💔آنکھوں میں خوابوں کو بھر کر
پھر اِن میں کچھ سپنے دے کر
مجھکو اِک نئی راہ کھڑا کر
منزل کی پرچھائیں دیکر
چھپ سے کیوں چھُپ جاتی ہیں
یہ مائیں کیوں مر جاتی ہیں

💔بستہ لیکر آج صبح جب
میں اِسکول کو جاؤں گا
ماتھا چومنے والی کو جب
سامنے میں نہ پاؤں گا
اُس کا لمس ہوائیں مجھ کو
اب تک دے کر جاتی ہیں
یہ مائیں کیوں مر جاتی ہیں


💔جب اِسکول سے آتا ہوں میں
اُس کو پھر نہ پاتا ہوں میں
تنہا بیٹھ کے ٹیبل پر
تنہا ہی کھانا کھاتا ہوں
لُقمہ بھی اب میرے منہ میں
وہ تو رکھ نہ پاتی ہیں
یہ مائیں کیوں مر جاتی ہیں


💔رات اکیلا بستر پر میں
ہلکے سسکی لیتا ہوں
ہاتھ کو رکھ کر آنکھوں پر
میں تجھ کو صدائیں دیتا ہوں
کیا میری آوازیں بھی اب
تجھ تک پہنچ نہ پاتی ہیں
یہ مائیں کیوں مر جاتی ہیں

💔پہلے تو سینے سے اپنے
مجھے لگا کر سوتی تھی
چوٹ مجھے لگ جاتی تو
تُو مجھ سے پہلے روتی تھی
نیند مجھے نہ آتی تو
رس کانوں میں ٹپکاتی ہیں
یہ مائیں کیوں مر جاتی ہیں

💔تیرے بعد میں جتنے سال جیا
ہر لمحہ گنتی کرتا ہوں
تیری یاد کے لمحے جیتا ہوں
پھر اِس کے بعد میں مرتا ہوں
ٹیسیں جو ذہن میں اُٹھتی ہیں
دل تک وہ تڑپ کر جاتی ہیں
یہ مائیں کیوں مر جاتی ہیں
          ●●●
کلام: ممتازملک 
مجموعہ کلام: مدت ہوئی عورت ہوئے۔
اشاعت: 2011ء
     ........

بدھ، 17 مئی، 2023

بلیک لسٹ قانون ۔۔۔کالم

 
بلیک لسٹ قانون واحد علاج
تحریر:
  (ممتازملک۔پیرس)

آج جو کچھ اس ملک میں ہو رہا ہے ۔ فتنے نے اپنے پنجے کہاں کہاں گاڑے ہیں ۔ یہ سب کچھ ایک ہی رات میں یا چند روز میں برپا نہیں ہوا ۔ یہ کہانی پچاس سال پر محیط ہے ۔ جبکہ اس خطرے کی بو کب سے محسوس ہو رہی تھی۔ 
میں گزشتہ دس سال سے یہی سب کچھ دکھا رہی ہوں اپنی تحریروں میں۔ بیانوں میں۔  جس کے بدلے مجھے کیسے کیسے کردار کشی کے حملوں کا سامنا کرنا پڑا، اس دہشت گرد جماعت کے کارندوں سے۔ انکی غلیظ اور لمبی زبانیں گٹر سے زیادہ ناپاک ہیں۔  تو انکی سوچیں ہر فکر سے دور۔ بلکہ سوچ کا انکے پاس سے گزر تک نہیں ہوا ۔ انکے پاس کسی کے ہر سوال کا جواب یہ ہے کہ اپنے منہ کا گٹر کھول دو ۔۔۔۔۔اگلا جواب کے بجائے اس کی بو سے ہی میلوں دور بھاگ جائے ۔ 
ایک بات اور لکھ کر رکھ لیجیئے۔ فتنہ خان کی ڈوری جمائما (پاکستان کی بدترین دشمن) ہلاتی ہے اور جمائما اس را ئیل کی ہیروئن ہے پاکستان تباہی کے منصوبے میں ۔ یہ فتنہ خان بطور عیاش مرغا 70ء کے عشرے میں ہی اپنے پہلے برطانوی دورے میں اگلوں کی نگاہوں نے چن لیا تھا جو اپنی عیاشی کے لیئے کسی بھی حد تک گر سکتا تھا۔ سو کام اسی وقت شروع کر دیا گیا ہے ۔ جس کا عروج آج ہم دیکھ رہے ہیں اور جس کا انجام خدانخواستہ 2030ء سے پہلے پہلے پاکستان کا نام نقشے سے مٹانا ہے ۔ اور جو گندی نسل وہ ہمارے تعلیمی نصاب، مادر پدر آوارہ لوگوں کی تقرریاں بطور استاد ، سکولز بشکل کاروبار عام کروا چکے ہیں اور والدین آنکھ  کے اندھوں کی طرح بچے انگلش میڈیم میں ٹھونستے رہے ہیں ۔ یہ جانے بغیر کہ وہاں پڑھایا کیا جاتا ہے؟ اب نتیجہ نکل آیا ہے کہ نہ دین نہ ایمان ، نہ کردار نہ تہذیب ، نہ شرم نہ حیا، نہ علم نہ عمل، نہ جغرافیہ نہ سائنس ۔ تیار ہوئے یہ زونبیز۔۔۔یہ زونبیز تیار ہو کر اپنے ہی گھروں میں ٹائم بم بن چکے ہیں ۔ اب جہاد اپنے ہی ملک میں ان زونبیز کے خلاف کرنا لازم ہے ، اگر ہمیں یہ ملک بچانا ہے ۔ ورنہ مجھے تو کچھ اچھا دیکھنے کی امید ہی رہیگی۔ اس ملک کو بچانے کے لیئے مزہبی جماعتوں تحریک لبیک۔ جماعت اسلامی ۔ اور مولانا فضل الرحمٰن کو ہی آگے لانا پڑیگا ۔ اس ملک کو برگروں سے، اس فتںے سے پاک کرنا ، کرونا سے بچاؤ جیسا ہی ہے ۔ بہت سوں کو درگور ہونا پڑیگا۔ وقت جب حساب لینے پر آتا ہے تو پھر چھوٹی چھوٹی لغزشوں کا بھی بیرحم حساب کتاب کرتا ہے ۔
ملک کے اندر ہر جماعت جب پرتشدد کاروائیوں میں ملوث پائی جائے ۔ اسے کلعدم قرار دیا جائے ۔ موجودہ واقعات میں ہر آدمی کو بلا لحاظ و تفریق مرد، عورت، جوان، بڈھا۔۔۔ اسے گھسیٹ کر قانون کے کٹہرے تک لایا جائے فوجی عدالتوں میں دہشت گردی کی دفعات کے تحت ان پر مقدمات آڈیو وڈیو تصویری شواہد کیساتھ پیش کیئے جائیں۔ ہر مجرم کو کم سے کم دس سال اور زیادہ سے زیادہ سزائے موت سنائی جائے ۔ اس کی تمام منقولہ و غیر منقولہ جائیداد بحق سرکار ملکی قرضوں اور املاک کی مد میں ضبط کی جائے ۔ جس کی جائیداد نہیں اس کے گردے جگر آنکھیں جو کچھ عطیہ ہو سکتا ہے ۔ اسے سزائے موت دیکر عطیہ کر دی جائیں ۔ چاہے بیچ کر پیسے خزانے میں جمع کرائے جائیں۔ سزاؤں کو بلا تفریق امیر غریب اونچی نیچی کلاس اور ذات پات کے عبرتناک اور یقینی بنائیے ۔ کیونکہ ملک ٹھٹھوں اور قانون کیساتھ کھلواڑ کے ساتھ نہیں چلا کرتے۔ نہ ہی ملک بار بار آزاد ہوا کرتے ہیں۔ اس کی آزادی کی حفاظت ہم سب کا فرض ہے ۔ سزاؤں کا  بند باندھیئے اس مادر پدر آزادی پر۔ 
ملک سے باہر پاکستان کی عزت و وقار کی دھجیاں اڑانے والے جمائما کے کرائے کے ۔۔۔۔کے لیئے بڑا قدم اٹھانے کا وقت آ چکا ہے ۔  فوری  قانون بنائیئے اور نافذ کیجیئے ۔کسی بھی جماعت کی حکومت اس قانون کو تبدیل نہ کر سکے ۔ کہ وہ تارکین وطن جو کسی بھی ملک میں پاکستان کے وقار کے خلاف کسی بھی قسم کی کاروائی میں ملوث پایا گیا ،گئی ۔ پاکستان کے کسی بھی ادارے کے خلاف کسی قسم کے جلسے جلوسوں نعرہ بازیوں میں شامل ہوئے ، یا سوشل میڈیا کے کسی بھی پلیٹ فارم سے  پاکستان یا اسکے اداروں کے خلاف بکواس کی گئی یا کسی بھی پاکستانی چاہے وہ سیاسی، سماجی، مذہبی، میڈیا سے متعلق ہو، اس پر آوازے کسے گئے یا اسے ہراساں کیا گیا ۔ تو ایسی ہر صورت میں وہاں کے سفارت خانے کو تین روز کے اندر اندر اس شخص کو پاکستان کے پاسپورٹ اور نادرا کارڈ سے ہمیشہ کے لیئے فارغ کر دیا جائے ۔ اسے پاکستان کے قانون میں بلیک لسٹ کر دیا جائے ۔ اب وہ ساری زندگی پاکستان نہیں جا سکتا ۔ نہ زندہ نہ مردہ۔ کچھ لوگ کہیں گے یہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے تو کچھ کہیں گے کہ یہ تو دنیا کے کسی ملک میں نہیں ہوتا ۔ تو ان سب کو ایک ہی جواب دیجیئے کہ انسانی حقوق انسانوں کے ہوتے ہیں اور جن کو سزا ملی ہے انہیں انسان کہنا بھی انسانیت کی توہین ہے۔ انکے ہمدرد اپنے ممالک میں اس کی کرتوتوں کو فالو کر لیا کریں ہمیں کوئی اعتراض نہیں اور رہی بات کسی اور ملک میں ایسا نہ ہونا تو انہیں یاد دلائیں کہ دوسرے ممالک میں جو ہوتا ہے وہ ہمارے ہاں بھی نہیں ہوتا ۔ اس لیئے جو ہمارے ہاں ہو رہا ہے اسے ہم اپنے حالات و واقعات کے تناظر میں دیکھیں اور پرکھیں گے ۔ کسی کے پیٹ کا مروڑ پاکستانی دور کرنے والے نہیں ہیں۔ 
 خدا پاکستان کی حفاظت فرمائے.آمین
  (ممتازملک ۔پیرس)

باران رحمت ۔ کوٹیشنز ۔ چھوٹی چھوٹی باتیں

باران رحمت

اچھے دوست ہمیشہ باران رحمت جیسے ہوتے ہیں ۔ جب بھی برستے ہیں ہرا بھرا کر دیتے ہیں ۔ 
 (چھوٹی چھوٹی باتیں)
( ممتازملک۔پیرس)

ہفتہ، 13 مئی، 2023

کھلا خط

کھلا خط
ممتازملک ۔پیرس
جنرل عاصم منیر صاحب آپ کا ہنی مون دورانیہ اب ختم ہو چکا ہے اور آنکھیں کھول کر اپنے اندر پلنے والے سنپولیوں کو چن چن کر انکے انجام تک پہنچائیں ورنہ آپ بھی اپنے گھر جائیں ۔ پچھلے پچھتر سال سے یہ قوم آپ کو اس لیئے اپنا خون پلا پلا کر نہیں پال رہی کہ جب مشکل وقت آئے تو ہم آپکی پتلونوں کا جھنڈا لہرا کر دنیا کو دکھائیں کہ ہمارے ہاں مٹھی بھر دہشت گرد جب چاہیں ہماری بینڈ بجا کر چلے جائیں ۔ تمام اعلی فوجی قیادت جو آدھے سے زیادہ پاکستان کی سرزمین و کاروبار کی رجسٹریشن جیب میں لیئے گھومتی ہے، مرتے دم تک جونک بن کر ہمارا خون پیتی ہے اور وقت پڑنے پر ملک جل رہا ہو اور نیرو کی طرح بانسری بجا رہی ہو, "امب چوپنے" میں مصروف ہو۔ ایسے فوجی عہدیداروں اور شناخت شدہ تمام دہشت گردوں کے بشمول فتنہ خان کے ان سب کے کورٹ مارشل اور جائیدادوں کو ضبط کر کے تمام سرکاری اور غیر سرکاری املاک کا نقصان پورا کیا جائے۔ قوم کو آپ سے فوری ایکشن کا انتظار ہے ۔ ۔۔۔۔۔ اگر آپ اس قابل نہیں ہیں تو ہمیں اعلانیہ برطانیہ کی کالونی بنا دیجیئے ۔ ملک چلانا اور سنبھالنا اس ملک کے جرنیلوں کے بس کا کام نہیں ہے ۔ جائیے جا کر کسی جزیرے پر آپ بھی اپنے پیٹی بھائیوں کیساتھ عیاشی کیجیئے۔ ۔۔۔۔
                   ۔۔۔۔۔۔۔۔

بدھ، 10 مئی، 2023

آگ اور آئینہ ۔ کالم

آگ اور آئینہ
تحریر:
    (ممتازملک۔پیرس)

پی ٹی آئی کے دہشتگردوں نے کل لاہور کی تاریخی عمارت  جناح ہاؤس کو آگ لگا کر محمد علی جناح کو خراج تحسین پیش کیا اور جناح ہاؤس کی مسجد کو آگ لگا کر اللہ کے گھر اور دین کو اپنے ریاست مدینہ کا نمونہ بنا دیا۔ حکومت اب انہیں اس خراج تحسین کا انعام کب دیتی ہے  ؟
ساری قوم منتظر ہے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔
معاف کر دیجیئے گا  قائد اعظم!
 آپ نے اس نسل کے لیئے تاعمر جد وجہد کر کے گھر حاصل کیا جسے کسی نالی میں رہنے کا بھی کوئی حق نہیں تھا ۔۔۔۔
یہ وہ دو نمبر نام نہاد مسلمان تھے جنہیں کسی غیر مسلم کے منہ سے نبی پاک ص ع و کی توہین جانے بغیر بھی غیرت دلا کر انکے قتل کروا دیتی ہے ۔ جنہیں خود کبھی مسلمان لفظ کا مطلب سیکھنے کی توفیق نہیں ہوئی ۔ یہ بے دین اور بے کردار ہجوم اور ریوڑ ٹھیکہ لے رہے ہیں ریاست مدینہ کا تو پھر ہمیں ایسی ریاست مدینہ نہیں چاہیئے۔ ۔۔۔ 
انا للہ وانا الیہ راجعون 
(ممتازملک۔پیرس)

گھر کا مرد۔ کوٹیشنز ۔

اپنے گھر کے مرد کو مہربان ہونا چاہیئے بدمعاش نہیں اگر اسے اپنی عورت کو وفادار اور محفوظ رکھنا ہے تو ۔۔۔
(چھوٹی چھوٹی باتیں)
      (ممتازملک۔پیرس)

منگل، 9 مئی، 2023

مصرع طرح ۔ پروردگار تیرا ساتھ ہے۔۔

مصرع طرح:
پروردگار تیرا سہارا ہے  اور میں 
کلام: 
(ممتازملک۔پیرس، فرانس)

پھر ظلمتوں نے مجھ کو پکارا ہے اور میں
"پروردگار تیرا سہارا ہے اور میں"

کیسے یہ وقت پر تھا سدا مشکلات سے 
کیسے یہ اس نے ساتھ گزارا ہے اور میں 

دل کا دبا کے درد کٹا دن کراہ کر
راتوں کو آنسوؤں سے نتھارا ہے اور میں

ریشم الجھ چکا تھا میری کائنات کا
پھر چاہتوں سے کیسے سنوارا ہے اور میں 

قدموں کی خاک بن کے اڑوں اس زمین پر 
عالم میں تجھکو جان سے پیارا ہے اور میں

صدقے میں اسکے مجھ کو عطا کر دے رحمتیں
چاہت سے جسکو تو نے اتارا ہے اور میں 

ہم نے تو اعتبار پہ سب کچھ لٹا دیا 
اب میرے پاس دل یہ بیچارہ ہے اور میں 

منزل کی رہبری کو بہت ہے میرے لیئے
میرے نصیب کا جو ستارہ ہے اور میں 

ممتاز روشنی کی کرن جھانکتی دکھی
تیرے کرم کا پھر سے اشارہ ہے اور میں

اتوار، 7 مئی، 2023

ناشتہ دعوت معروف شخصیات کیساتھ۔ رپورٹ

رپورٹ:
(ممتازملک۔پیرس۔فرانس)

پیرس میں معروف سماجی کارکن ، شیف محترمہ سائرہ کرن میمن نے معروف ادبی اور صحافتی اور کاروباری شخصیات کے اعزاز میں ناشتہ دعوت کا اہتمام کیا ۔۔جس میں خواتین میں شامل تھیں معروف سماجی و سیاسی شخصیت، پروگرام آرگنائزر ، پیپلز پارٹی کی ویمن ونگ کی صدر محترمہ روحی بانو صاحبہ ، معروف ناول نگار و افسانہ نگار ، کالمنگار ، ادبی تنظیم پا فرانس پاک انٹرنیشنل رائیٹرز فورم کی صدر محترمہ شازملک صاحبہ ، معروف شاعرہ ، کالمنگار ،  نعت خواں و نعت گو ، لکھاری ،ٹک ٹاکر اور ادبی تنظیم راہ ادب کی صدر محترمہ ممتازملک صاحبہ ، معروف نعت خواں ستارہ ملک صاحبہ ، معروف صحافی محترمہ ناصرہ خان صاحبہ ، پی ٹی آئی رہنما محترمہ آصفہ ہاشمی صاحبہ، اصحاب میں شامل تھے معروف تاجر ابوبکر گوندل صاحب، ملک سعید صاحب، معروف صحافی شاہزیب ارشد صاحب، بیورو چیف سچ ٹی وی سلطان محمود صاحب ، ملک منیر صاحب،  پکار انٹرنیشنل کے بانی راحیل رؤف صاحب ، طارق محمود صاحب ، اختر شیخ صاحب شامل تھے ۔  مہمانوں نے نہایت خوشگوار ماحول میں مختلف موضوعات پر تبادلہ خیال کیا۔ فوٹو سیشن ہوا ۔ مہمانوں کی تواضع نان ، پائے، حلوہ ، پوری ، چنے،  اچار میٹھی لسی اور کڑک چائے کیساتھ کی گئی ۔ پروگرام کے اختتام پر سبھی مہمانوں نے محترمہ سائرہ کرن صاحبہ کا دل سے شکریہ ادا کیا جن کے سبب سب کو یوں مل بیٹھنے کا موقع ملا۔ پیش ہے دعوت کی کچھ تصویری جھلکیاں۔۔۔


پیر، 1 مئی، 2023

* لاد دیتے ہو۔ اردو شاعری۔ اور وہ چلا گیا

لاد دیتے ہو 

 یہ جو پندونصاح کا بوجھ مجھ پر لاد دیتے ہو
کیئے ہو پاؤں من بھر کے سفر برباد دیتے ہو

تمہاری بیڑیاں گھس کر کہیں ہلکی نہ ہو جائیں
کبھی ہم بھاگ پائے جب دل ناشاد دیتے ہو

سسکتے خواب ہنستے ہیں میرے انجام کو دیکھے
جڑوں سے بیوفائی کی ہمیں  
فریاد دیتے ہو

ہمیں معلوم ہوتا قید ہی اپنی حفاظت ہے
تو سیر حاصل ہمیں ہوتی جو اب پرساد دیتے ہو

پتہ رستے کا ہی اصلی کہانی کار ہوتا ہے
یہ پہلے مل چکا ہوتا جو آ کر بعد دیتے ہو 

بھنور ممتاز میری تاک میں میرے جنم سے ہے
میرے کردار کی ہر دم مجھے بس یاد دیتے ہو
۔۔۔۔۔۔۔

جمعرات، 20 اپریل، 2023

بچے یا انسان کے بچے؟ چھوٹی چھوٹی باتیں

بچے پیدا کرنے کا نشہ ہے پاکستانی قوم کو اور اس پر جوڑیاں بنانے کا الگ جوش۔
ان بچوں میں سے مسلمان یا انسان کا بچہ چاہے کسی ایک کو بھی نہ بنا سکیں۔ جوڑیاں بنا لیں لائنیں لگا لیں ۔ 11 , 11 بچوں 7, 7 بیٹوں کی ماؤں کو میں نے رلتے ہوئے دیکھا ہے...
کیوں ؟
 کیونکہ ان میں انسان کا بچہ ایک بھی نہیں تھا. 
بچے پیدا کریں لیکن انسان کے بچے پیدا کریں اور انسانوں جتنے پیدا کریں ۔🤰🤱

منگل، 4 اپریل، 2023

ایک ہی وقت میں ۔ چھوٹی چھوٹی باتیں

ایک پہ میں دنیا بھر میں ہر انسان ایک الگ کہانی سے گزر رہا ہوتا ہے ۔ کوئی پیدا ہو رہا ہوتا ہے تو کوئی مر رہا ہوتا ہے۔ کوئی آباد ہو رہا ہوتا ہے تو کوئی برباد ہو رہا ہوتا ہے ۔ کسی کی نیا ڈوب رہی ہوتی ہے تو کسی کی لاٹری نکل رہی ہوتی ہے ۔ کوئی لٹ رہا ہوتا ہے تو کوئی لوٹ رہا ہوتا ہے۔ گویا زندگی کا ہر لمحہ ایک الگ ہی کہانی بیان کر رہا ہوتا ہے ۔ جتنی زندگیاں اتنے ہی احساسات ۔ اتنے ہی جذبات ۔ وقت بھی کتنا بڑا مداری ہے اس کی تال پر ایک ہی پل میں بے حساب و کتاب نفوس الگ الگ تھرکتے ہیں مگر مجال ہے کہ غم ہو یا خوشی کوئی اس تال سے بے تالا ہو جائے ۔ 
(چھوٹی چھوٹی باتیں)
      (ممتازملک۔پیرس)

پیر، 3 اپریل، 2023

پروین شغف کی شاعری پر تبصرہ

پروین شغف سے میرا تعارف آن لائن مشاعروں کے توسط سے ہوا ۔ وہ بھارت کی نئی تازہ دم ابھرتی ہوئی شاعرہ ہیں ۔ ان کا کلام پڑھتے ہوئے اندازہ ہوا کہ غزل کا آہنگ نئی کروٹیں بدلنے کو بے چین ہے ۔ ان کی شاعری میں سادگی ہے ۔ کبھی کبھی اداسی عود کر آتی ہے تو اسے نئی امید کیساتھ وہ پھر سے زندہ کرنے کو کمر کس لیتی ہیں ۔  پروین شغف کی شاعری میں آپکو کہیں بھی مایوسی دکھائی نہیں دیتی اور یہی انکی شاعری کا انوکھا پن ہے ۔ میری دعا ہے کہ پروین شغف کے کلام کو قارئین کا بھرپور پیار ملے ۔ اور یہ نوجوان شاعرہ کبھی کسی مایوسی اور دکھ کا شکار نہ ہو۔ ہم انہیں ہنستا مہکتا اور آگے بڑھتا ہوا دیکھتے رہیں ۔ میری بہت سے دعائیں اور نیک تمنائیں پروین شغف کے نام 
والسلام 
شاعرہ ،کالمنگار، لکھاری 
ممتازملک
پیرس ۔فرانس
3.04.2023

ہفتہ، 1 اپریل، 2023

@ کوسا کوسا۔ پنجابی کلام۔ او جھلیا

کوسا کوسا

چوک وچ مار کے تے بندہ کسے سلیا
کوسا کوسا لہو اوہدا میرے آتے ڈلیا

آسے پاسےچارچویرے میں گھنگھالیا
کوئی نہ قصور اوہدا میرے اتے کھلیا

پت کس ماں دا تے تاج کس سر دا
کنوں پچھاں جا کے دس ہن مینوں بلیا

تھوڑا تیل تھوڑا  کولا سارے پاکے پچھدے
آگ تیرے وچ کتھوں آندی اے وے چلیا

کج تے نصیباں نال میری وی لڑائی سی
کیوں نہ ہووے ساریاں نوں دتا مینوں بھلیا

عزتاں تے زلتاں دا اکو سچا ٹھیکیدار
خوار ایویں کرن لئی جگ سارا تلیا

لوکی تیری سادگی تو فیدے چک لیندے  نے
سمجھاں نہ آیاں تینو ہائے وے پڑلیا

نخرہ نہ کوئی تیرا نہ ہی ٹکار اے
کوئی نہ خریدے جیڑا ملے بن ملیا

چندریا دلا آپو آپ نوں سنبھال لئیں
جیڑا من مانیوں دے  اتے آج  تلیا
 

ممتاز پھلاں والی ٹوکری چہ سٹیا
تکڑی چہ وٹیاں دے نال پاویں  تلیا 
         

                   °°°°°°°               
     
  ( تلیا. Tulya. کسی بات پر تل جانا)  
(تلیا۔ تولنا)   
°°°°°°°          

جمعہ، 24 مارچ، 2023

یہ سوہنا مہمان۔ اردو شاعری ۔ کلام رمضان

یہ سوہنا مہمان
کلام: 
(ممتازملک۔پیرس)

اے ماہ رمضان اے ماہ رمضان
گیارہ مہینے بعد آتا ہے یہ سوہنا مہمان

چھانٹ کے اپنے نفس کے، چن چن عیب یہ دھوئے
مان کے اسکے ضابطے بس، پائے کچھ نہ کھوئے
روح معطر کرنے کو، رب بھیجا یہ گلدان 
اے ماہ رمضان ، اے ماہ رمضان

آس پاس میں رحمت بانٹو، تم پر رحمت ہووے
دردمندی بیدار کرو کہ، اس میں عظمت ہووے
چاہے سمیٹو اس میں جتنا، بخشش کا سامان 
اے ماہ رمضان، اے ماہ رمضان 

محرومی محسوس کرو، اوروں کی شکر بجاو
جھوٹ کو ظلم کو باندھو، سچ کی زنجیریں پہناو
یہی ہمیشہ رہنے والے، رب کا ہے فرمان 
اے ماہ رمضان ، اے ماہ رمضان 

اس کے ہر اک عمل میں برکت، نہیں کوئی نقصان 
ماہ مبارک کی ممتاز، گر ہے بڑھانی شان
بھوک میں سجدے اور نوافل، اور پڑھو قران
اے ماہ رمضان، اے ماہ رمضان 
               °°°°°°

بدھ، 22 مارچ، 2023

پاکستانی بے قابو شادیاں۔ کالم




     پاکستانی بے قابو شادیاں
     تحریر:
      (ممتازملک ۔پیرس)

پاکستان میں اپنی اولاد کی شادی کسی بھی انسان کے لیئے خوشی سے زیادہ پریشانی اور ڈپریشن کا موقع بن چکا ہے ۔ منہ مانگی رسمیں اور پھر ان رسموں کا بوجھ اکثر لڑکی والوں کے سر منڈھ دیا جاتا ہے، پھر پانی کی طرح ان رسموں کو پورا کرنے کے لیئے  پیسہ بہایا جاتا ہے ۔ لڑکے والوں کی اکثریت مصنوعی زیورات پر سونے کا پانی چڑھا کر اور مانگے تانگے کے ایسے ملبوسات کا بکسہ اٹھائے لڑکی کے سر سوار ہو جاتے ہیں جو کھلنے کے بعد پتہ چلتا ہے کہ اس میں سے کون سا کپڑا پہننے لائق ہے ۔ کونسا لڑکے کی باجی نے اپنا مسترد کردہ یا استعمال شدہ جوڑا بھائی پر قربان کیا ہے، اور کونسا لڑکے کی امی جی کی اپنی شادی کے وقت کا تیس سال پرانا نمونہ لڑکی کو جبرا پہنانے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔ اور لڑکا بھی بڑی بے شرمی کے ساتھ یہ سارا بری ڈرامہ اسی طرح دیکھ رہا ہوتا ہے جیسے بلی کو دیکھ کر کبوتر آنکھیں بند کیئے پڑا ہوتا ہے۔ یہ بھول کر کہ یہ سوغاتیں جب وہ لڑکی (جو اسکی دلہن بنکر آ رہی ہے ) جب دیکھے گی تو ساری عمر اس کی مٹی پلید کرتی رہے گی ۔ گویا وہ سیج تک پہنچنے کا خواب پورا کرنے کے لیئے اندھادھند اپنی ماں بہنوں کی تقلید میں دنبے کی طرح سر جھکائے ہاں جی، ہاں جی، کی جگالی میں مصروف رہتا ہے ۔ یہاں تک کہ آنکھ کھلنے کے بعد شروع ہوتی ہے اسکی تاحیات "بزتی". تب مائیں بہنیں پھر اپنے مٹھو کو پٹی بازی کی چوری کھلاتی ہیں کہ ہائے ہائے ہمارے بھائی کے تو نصیب ہی جل گئے جو ایسی منہ زور بدتمیز لڑکی بیاہ لائے ۔ اس وقت ان زبان دراز عورتوں کو یہ ہر گز یاد نہیں رہیگا کہ اس لڑکی کے ارمانوں بھرے دن پر جو آپ نے اپنی جوٹھن ، دھوکے اور کمینگی کی جھاڑو پھیری ہے اسے تو اب ساری عمر برداشت کرنا ہی پڑیگا آپکو بھی اور آپکے بھائی اور بیٹے کو بھی ۔ اس کے بعد شروع ہو گا  لڑکی کی جانب سے ملے تحائف میں کیڑے نکالنے کا سلسلہ۔ یوں جیسے انہوں نے تحفے نہیں دیئے بلکہ انکے آگے پیسے لیکر کوئی سودا بیچا ہے جو ناقص نکل آیا ہو۔ اس کے باوجود کہ اعلان کر دیا گیا کہ  لڑکی کے گھر والوں کو دینے دلانے کی کوئی تمیز نہیں ۔ انکا انتخاب بھی بیحد گھٹیا ہے لیکن بے شرمی ہے کہ ہر چوتھے دن کوئی نئی رسم گھڑ کر اس کے نام پر فقیروں کی طرح نئے تحائف کا فرمائشی پروگرام جاری کر دیا جاتا ہے ۔ بیٹی دیکر پاکستان میں لوگ گویا اپنی جان ان سسرالیوں کے ہاتھوں سولی پر چڑھا لیتے ہیں ۔ آئے روز انکی کسی نہ کسی بہانے اب دعوتیں ہوتی رہنی چاہیئیں ۔ جن میں ہر بار کوئی نہ کوئی نئی فسادی شرلی چھوڑی جاتی رہے گی ۔  
ان تمام مسائل کا حل نکالنے کے لیئے ہماری حکومتوں کو مستقل بنیادوں پر قانون سازی کی ضرورت ہے ۔ جسے کسی بھی حکومت کے آنے یا جانے سے کوئی فرق نہ پڑے اور اس میں کسی تبدیلی کو اس وقت تک منظور نہ کیا جائے جب تک اس پر کوئی حقیقی قومی سروے نہ کروا لیا جائے ۔ اس پر عوامی بحث مباحثے نہ کروا لیئے جائیں ۔ خدا کے لیئے شادیوں کو کسی قانون کے تحت لایا جائے جس نے عام آدمی کی زندگی اجیرن کر رکھی ہے۔ گھروں میں بیٹھی لڑکیاں لڑکے یا تو بوڑھے ہو رہے ہیں یا پھر بے راہ روی کا شکار ہو رہے ہیں ۔ اور تو اور شادی کے یادگار دن کو بے قابو طوفان مہنگائی و بے حیائی کا موقع بنا دیا گیا ہے ۔ لوگ قرض لے لیکر اس موقع پر اپنی ناک اونچی رکھنے کا اہتمام کرتے ہیں ۔ دیکھا جائے تو خود لڑکیوں نے لمبے لمبے فرمائشی پروگرام بنا بنا کر، لمبے لمبے خرچوں کی فرمائشوں سے اپنے ہی والدین کے ناک میں دم کر رکھا ہے ۔ انہیں اس بات سے کوئی غرض نہیں ہوتی کہ والدین یہ کب اور کہاں سے لائیں گے انہیں تو ڈراموں اور فلموں کی تھیمز پر اپنی شادی کو بھی پوری فلم ہی بنانا ہے ۔کوئی انہیں بتائے کہ فلمی اور ڈرامے کی شادیوں کے مناظر پر خرچ کیا ہوا پیسہ انہیں ہزاروں گنا کما کر واپس ملتا ہے جبکہ عام شادی پر والدین کا خرچ کیا ہوا پیسہ انہیں کئی سال کے لیئے مقروض اور فقیر کر جاتا ہے ۔اپنے والدین پر رحم کھائیں ۔ اور لوگوں کو اپنی جعلی امارت کے رعب میں ذہنی مریض بننے اور جرائم کی راہ اختیار کرنے پر مجبور مت کریں ۔ شادیوں کے اخراجات کو ایک حد میں لانے کے لیئے ہم حکومت پاکستان کو چند تجاویز پیش کرتے ہیں جس کے لاگو ہونے سے لوگوں کی زندگی کو کافی ریلیف ملنے کا امکان پیدا ہو سکتا ہے ۔ 
1.شادی کو  ٹوٹل سو سے ڈیڑھ سو لوگوں کے اجتماع تک محدود کر دیا جائے ۔ 
2. مخلوط محافل کو بین کیا جائے۔ 
3.شادی میں دس سال سے چھوٹے بچے لانے پر پابندی لگائی جائے۔ (جو تمام پروگرام اور انتظامات کا ستیاناس مار دیتے ہیں۔)
4.ون ڈش کی پابندی کروائی جائے۔ 
5. جہیز میں لڑکی کو اسکے لیئے سات جوڑے ،صرف اسکا  بیڈ روم فرنیچر اور کچھ کچن اور لانڈری کا لازمی سامان دیا جائے ۔ 
6.بری میں سات نئے اور بھاری جوڑے کپڑے لڑکی کے ، حسب توفیق ایک آدھ سونے کا سیٹ
7.ذیادہ سے ذیادہ دس ہزار روپے تک کا شادی اور ولیمے کا جوڑا دلہن اور دولہے دونوں کا۔۔
8. آپ کتنی بھی مالی حیثیت رکھیں لڑکے والے  بارات میں اور لڑکی والے ولیمے میں ذیادہ سے ذیادہ صرف 50 افراد ہی لا سکتے ہیں ۔
9. شادی میں کرائے کے عروسی ملبوسات کو رواج دیا جائے۔ 
10.دولہے کی ماں بہنوں کو سونے کے زیورات تحفے میں دینے پر پابندی لگائی جائے۔ 
11.نکاح مسجد میں کرنے کا رواج عام کریں۔ اور نکاح میں صرف دولہا دلہن انکے والدین سگے بہن بھائی اور دو گواہوں کے سوا کسی کو شامل ہونے کی اجازت نہ ہو۔  رخصتی کے روز باقی سبھی مہمانوں کے سامنے  اس نکاح کی ویڈیؤ چلائی جا سکتی ہے ۔ 
12. شادی کے بعد کسی قسم کے تحائف کے لین دین جیسی تمام رسومات کو بین کیا جائے ۔ جسکے مواقع لڑکے والے آئے دن پیدا کرتے اور لڑکی والوں کی زندگی اجیرن بناتے رہتے ہیں ۔ 
جیسے کے مکلاوہ ، عیدیاں ، گود بھرائیاں ، بچے کی پیدائش وغیرہ وغیرہ ۔ ہم امید کرتے ہیں کہ کوئی بھی بااختیار ان تجاویز کو غور کرنے اور لاگو کرنے میں اپنی ذمہ داری ادا کر کے بیشمار لوگوں کی دعائیں لینے کا وسیلہ ضرور بنے گا ۔     
                  °°°°°

منگل، 21 مارچ، 2023

عورت کی گھریلو ناکامیاں ۔ کالم ۔ خواتین



   عورت کی گھریلو ناکامیاں 
     (تحریر/ممتازملک ۔پیرس)

ہمارے تجربات اور مشاہدات کی روشنی میں  عورت کو اپنے شوہر اور اپنی سسرال کی نفسیات کے تناظر میں انہیں ہینڈل کرنا آنا چاہئے ۔
ہماری مائیں اپنی بیٹیوں کو یہ تو سکھاتی ہیں کہ میاں کو کیسے قابو کرنا ہے یا عرف عام میں کیسے نیچے لگانا ہے لکن یہ سکھانا بھول جاتی ہیں کہ سب کے دل کو کیسے قابو میں کرنا ہے ۔ میاں کے گھر پہنچتے ہی دنیا بھر کی خبریں اور خصوصا بری خبریں اس کے کان میں پھونکنا، گھر داری سے جان چھڑانا، کھانے پکانے سے جان چھڑانا، مرد کے غصے میں برابر کی زبان چلانا، اپنے اور اس کے گھر والوں کا ہر وقت بلا ضرورت  کا تقابل کرتے رہنا ،اپنے میکے کو بھرنے میں لگے رہنا، اپنی آمدنی سے ذیادہ کے شوق پالنا، ہر عورت کا اپنی بہن کو اچھے عہدے یا کمائی والے دیور سے بیاہنے کے جبری منصوبے، اس کے گھر والوں کو نظر انداز کرنا،
یہ سب باتیں میاں بیوی کے رشتے میں زہر بھرنے کا باعث بنتی ہیں ۔ ہم ہر بات کا الزام مردوں یا شوہر کے  سر پر ڈال کر بری الذمہ نہیں ہو سکتے ۔
ہمارے سامنے آنے والے کئی گھریلو تشدد کے واقعات  بیحد افسوسناک ہیں، لیکن ان سب حالات کا کوئی دوسرا رخ بھی ضرور ہو گا ۔ اگر حالات ایسے خوفناک رخ پر جا رہے تھے ، لوگ اتنے برے تھے، شوہر اتنا جابر تھا تو کیوں طلاق نہیں لی ان بہنوں نے ؟ سو ہر بات پر جذبات کے بجائے عقل  کا استعمال کیا جائے تو بہت کچھ واضح ہو جاتا ہے ۔۔بجائے اس کے کہ طلاق کو ایک کلنک کا ٹیکہ سمجھ کر تو احتراز کیا جائے لیکن قاتل یا قاتلہ کا جھومر سر پر سجا لیا جائے ۔ کیا مطلقہ ہونا یا طلاق دینا  قاتل یا قاتلہ بننے سے بھی زیادہ قابل نفرت ہے ؟ تو کیا اللہ نے ایک قابل نفرت کام کی اجازت دے رکھی ہے ؟
پھر یہ کہنا کہ حالات ایسے تھے، ویسے تھے طلاق نہیں لی جا سکتی تھی تو اس صورت میں دو ہی کام ہو سکتے ہہں یا تو صبر کیجیئے یا قتل کر دے یا  قتل ہو جائے ۔۔۔آپ اسے اگر حل سمجھتے ہیں تو ۔۔ معاشرے کو یہ بات ذہن نشیں کرانی ہو گی کہ طلاق لینا ایکدوسرے کو قتل کرنے سے ہزار گنا بہتر ہیں ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بیبیوں بیٹیوں اور صحابیات نے جو عمل کیا اسی میں معاشرے کی بقاء ہے ۔ کئی نام نہاد مسلمان جو دین کی بنیاد تک سے نابلد ہیں وہ بہت زور و شور کیساتھ عورت مرد کی بحث میں اپنی ذاتی پسند اور ضرورت کے معاملات پر  غیر اسلامی فتوے تھوپ کر خود کو عالم ثابت کرنے کی کوشش کرنے میں اپنا زور بیان صرف کرنے میں مصروف رہتے ہیں ۔ جو کم علم اور دین سے نابلد لوگوں کے لیئے کھلی گمراہی کا سبب بنتا ہے اور وہ ان نیم ملا جیسی معلومات سے معاشرے میں شر پھیلانے کا سبب بھی بنتے ہیں ۔ جیسا کہ ان کے نزدیک طلاق دینا بس مرد کا حق ہے عورت خود سے اپنے شوہر کو چھوڑنے کا کوئی فیصلہ نہیں کر سکتی ۔ چاہے وہ کیسا ہی کیوں نہ ہو۔ جو کہ صریحا گمراہی ہے ۔ دین اسلام کو دین فطرت اسی لیئے کہا گیا ہے کہ اس میں صرف مرد یا عورت نہیں بلکہ ہر انسان کی فطرت میں شامل عادات و خصائل کو مد نظر رکھ کر قانون سازی کی گئی ہے اور احکامات مرتب کیئے گئے ہیں ۔ اور کسی کے ساتھ رہنا یا نہ رہنا زندگی کا سب سے بڑا اور سب سے اہم فیصلہ ہوتا ہے اس میں اللہ تعالیٰ کے قوانین میں ناانصافی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔ ایسی باتیں کرنے والے خود اللہ پاک پر جانبداری کی تہمت کے مرتکب ہوتے ہیں ۔ انہیں دن کا علم حاصل کرنا چاہیئے ورنہ کسی قابل عالم سے ایسے معاملات میں رائے لینا چاہیئے ۔ طلاق دینا مرد کا حق ہے تو خلع لینا اس کے برابر کا حق ہے جو اللہ پاک نے عورت کو دے رکھا ہے ۔ اگر وہ اپنے شوہر کیساتھ خوش نہیں ہے یا محفوظ نہیں ہے یا وہ اسکی جانب سے مسائل کا شکار ہے تو وہ اپنا حق خلع استعمال کر سکتی ہے ۔ جیسا کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے دو صاحبزادیوں کے لیئے انکی رخصتی سے قبل ہی استعمال کروایا ۔ کیونکہ اسلام آ چکا تھا نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم اعلان نبوت فرما چکے تھے اور جہاں طلاق سے متعلق احکامات نازل ہو چکے تھے وہیں خلع کا حق بھی عورت کے لیئے دیا جا چکا تھا ۔ 
 اسے گالی کی حیثیت دیکر ان سب معزز خواتین کی توہین مت کیجیئے ۔ یہ بات سمجھ کر ہی ہمارے معاشرے سے قتل و غارت کا خاتمہ ہو گا ۔اور یہ کام ہماری ماؤں کو کرنا ہو گا جو اپنے کنوارے تو کیا چار بار بیاہے ہوئے  بیٹے کے لیئے بھی ان ٹچ  18 سالہ دوشیزہ ڈھونڈنے پر تلی رہتی ہیں ۔ لیکن کسی مطقہ یا بیوہ لڑکی کو نا تو باکردار سمجھتی ہیں اور نہ ہی گھر بسانے کے لائق ۔ انہیں یہ بات سمجھانے کی ضرورت ہے کہ یہ ضروری نہیں ہے  کہ ایک جوڑے میں جدائی کی وجہ ان میں سے کسی کا بدکردار ہونا یا گھر نا بسا سکنا ہو بلکہ اس کی اور بھی بے شمار وجوہات ہو سکتی ہیں ۔ ان کا ذہنی طور پر ایک دوسرے کو قبول نہ کرنا بھی اس کی ایک بڑی وجہ ہے اور ان سب سے بڑی اور مستند وجہ تو یہ ہے کہ اللہ پاک نے اس جوڑے کے درمیان اس رشتے کا وقت ہی اتنا لکھا تھا ۔ پھر وہ چاہتے یا نہ چاہتے انہیں الگ ہو ہی جانا تھا۔ چاہے اس کی وجہ کچھ بھی اور کتنی بھی معمولی بات ہی کیوں نہ بن جاتی ۔۔۔ 
                   ۔۔۔۔۔۔۔  

ہفتہ، 18 مارچ، 2023

دوبارہ / نعت ۔ شاعری ۔ اور وہ چلا گیا

دوبارہ

سرکار پھر بلا لیں ہم کو وہاں دوبارہ 
جس در سے دیکھ پاوں جنت کا میں نظارہ

یہ دل میرا ہے عآصی اور آپ  شافعی ہیں 
پھر دور آپ سے یہ کیسے رہے بیچارہ

 رب کو کیا ہے ناخوش ہم نے ہر اک عمل سے
راضی اسے کریں ہم سن لیجیئے خدارا

جس جاء پہ ہم کو کوئی رستہ دکھائی نہ دے
آقا وہاں پہ ہم نے ہے آپکو  پکارا 

حرص و ہوس میں گر کر خود کو تباہ کیا ہے
ہم جیسے بدنصیبوں کو آپ کا سہارا 

ظالم جہان والے دیتے نہیں ہیں جینے
دل ان کے ہاتھوں آقا اپنا رہا سیپارہ 

ممتاز کر گدائی آقائے دو جہاں کی
کیا بیچتا ہے پھر یہ حاسد سماج سارا
●●● 
 

بدھ، 1 مارچ، 2023

مصرعہ طرح ۔ میرا بھی حال زار ہے اردو زبان سا

مصرعہ طرح 
(میرا بھی حال زار ہے اردو زبان سا)
کلام:
      (ممتازملک ۔پیرس)

بیٹھا کیئے تھے جس پہ  بوسیدہ دیوان سا
دل رہ گیا تھا ویسے ہی خالی مکان سا

جس گھر میں رہتے کوئی تحفظ نہ مل سکے
ویرانہ ہے کھنڈر ہے بجز سائبان سا 

وسعت میں اسکے سارا زمانہ سما سکے
دیکھو تو آزما کے ملے آسمان سا

اچھی دنوں کی بات تو رہنے ہی دیجیئے 
اچھے دنوں کا خیال ہے وہم و گمان سا 

کوشش کے باوجود ملن ہو نہی سکا 
رشتہ ہمارا اس سے رہا درمیان سا

سب جانتے ہوئے بھی تعارف طلب کریں
میرا بھی حال زار ہے اردو زباں سا 

پہچانتے تھے جو وہ مجھے روندتے رہے
ممتاز مرحلہ یہ رہا امتحان سا
         
            °°°°°°°°

جمعہ، 24 فروری، 2023

@ انتساب ۔ او جھلیا



انتساب / او جھلیا

تہاڈے ہتھ وچ ایہہ میرا پنجابی زبان وچ پہلا کویتاواں دا مجموعہ  اے۔ ایس توں پہلاں میریاں 6 کتاباں تہاڈے تک اپڑ چکیاں نیں ۔ جیڑیاں سبھے اردو کویتاواں تے لیکھا دیاں سن ۔ ایہہ کل ملا کے میری ستویں پستک اے۔ پر پنجابی زبان وچ ایہہ میری پہلی کتاب اے۔  میری پنجابی بہتی گوڑھی تے کلاسیک تے بالکل نہیں اے، پر ایس زبان دے وچ میری اپنی ماں بولی دے نال میری  باقاعدہ جڑت اے۔ ایس کتاب دا انتساب انہاں سبھے قوی تے لکھاریاں دے ناویں لانی آں ۔ جنہاں نے ایس زبان نوں زندہ رکھن لئی  اپنی جند لا چھڈی اے۔۔جیڑھیاں قوماں اپنی زبان تے ماں بولی دی قدر نہیں کردیاں ، تے ایس دی بڑھوتری لئی کم نہیں کردیاں، تے زبان وی انہاں تو رس کے ویلے دے ہنیریاں وچ گواچ جاندی اے۔ 
میری دعا اے کہ ایس مٹھی تے سچی زبان پنجابی نوں رب سدا جیوندہ رکھے۔ تے ترقیاں دوے ۔
 آمین 
ممتازملک
پیرس ۔ فرانس
MumtazMalikParis.Com
MumtazMalikParis.BlogSpot.Com
میرا کم 
 ریختہ ، گوگل، یوٹیوب، انسٹا، فیس بک، ٹک ٹاک
 تے ویکھیا جا سکدا اے۔
                    _______


بدھ، 15 فروری، 2023

@ پتر کر تباہ / پنجابی کلام۔ او جھلیا


پتر کر تباہ


ماواں تی تی سال دے لاڈاں، پتر کر تباہ دیندیاں نیں 
باقی عمرے سب الزام او ،نوہ دے سرتے پا  دیندیاں نیں

برقیاں منہ وچ رکھ کے اونہوں، اٹھ کے پانی پین نہیں دیندیاں
کوئی جے کر سمجھاوے تے ،اونوں اگوں جین نہیں دیندیاں 
گھر وچ پا کھلارے ہر دم، اتھرا بن کے پھردا رہندا
عشق چہ پتر دے اے سب دے، سروں پیروں لا دیندیاں نیں
باقی عمرے سب الزام او، نوہ دے سرتے پا دیندیاں نیں۔۔۔۔

ذمہ داری پیو جے پاوے٫ پتر دے سر پان نہیں دیندیاں
اونہوں چوپڑیاں کھوان دی خاطر، دھی نوں سکیاں کھان نہیں دیندیاں
پتر دے سر وار کے اکثر، دھیاں صدقے وچ دیندیاں نیں
پتر دے ہر لاڈ کھڈاون، دھی دے مار او چاہ دیندیاں نیں
باقی عمرے سب الزام او، نوہ دے سرتے پا دیندیاں۔۔۔۔۔

ایخو جیہے پتراں ہتھوں ، اک دن ماواں رل جاندیاں نیں
اوہدی صورت اکھی لے کے ٫باقی ہر شے بھل جاندیاں نیں 
ویچ کے گھر در موہ پتر وچ٫ لاوارث اکھوا جاندیاں نیں
ممتاز ایہہ چپ چپیتے اوہدی، یاد چہ اپنے ساہ دیندیاں نیں 
باقی عمرے سب الزام او، نوہ دے سرتے پا دیندیاں۔۔۔۔۔
           
                 🌚🌚🌚۔                     





جمعرات، 2 فروری، 2023

جی نہ بہہ سکا۔ کوٹیشنز ۔چھوٹی چھوٹی باتیں


سوال : جو انسو آنکھ سے بہہ نہیں پاتا وہ کدھر جاتا ہے؟
جواب:
جو نہ بہہ سکا تو وہ تھم گیا ۔ اور جو تھم گیا وہ تو  جم گیا ۔ کہ وہ آنسو بہہ جاتا تو شاید مٹی میں مل کر فنا ہو جاتا لیکن جم کر وہ انسو ظالم کے لیئے بددعا بن گیا اک سزا بن گیا ۔ وہ آہ بن گیا۔ جس نے عرش ہلا دیا اور وہ مظلوم بن گیا جس نے  رب کعبہ کو رحمن سے جبار بنا دیا ۔ اور ظالم کی سزا کا اعلان کروا دیا وہ سزا جواب کبھی نہیں ٹل سکتی ۔ جبھی کہتے ہیں اس نہ بہنے والے اشک سے ڈرو کہ یہ بہہ کر رلتا نہیں، نہ بہہ کر رول دیا ہے ۔
        (چھوٹی چھوٹی باتیں) 
              (ممتازملک۔پیرس)

بدھ، 1 فروری، 2023

صحافت کے 75 سال/ مقالہ

اردو صحافت کے 75 سال
   مقالہ:
  (ممتازملک۔پیرس)                 
               فرانس)

پاکستان دنیا کے ان ممالک میں شامل ہے جس کی تخلیق اور ارتقاء میں صحافت اور رپورٹنگ کو قطعا نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ۔ معاملات مذہبی ہوں دینی ہوں یا پھر سیاسی ۔ ہر ایک رپورٹنگ کے مرہون منت رہا ہے ۔ یہ اور بات ہے کہ اس میں اچھی اور بری رپورٹنگ یا یوں کہہ لیں کہ سچی اور جھوٹی رپورٹنگ نے بھی اپنا کمال خوب دکھایا ہے ۔ جہاں یہ کہا جائے کہ پاکستان کی تخلیق  بہترین رپورٹنگ  اور صحافت کے مرہون منت  ہے تو بے جا نہ ہوگا۔ وہیں اگر آج یہ کہا جائے  کہ پاکستان کی تباہی  اور بربادی کی ذمہ دار بھی  آج کی بدترین رپورٹنگ اور صحافت  ہے تو بھی بے جا نہ ہوگا۔
صحافت کے لیے جواں مردی اولوالعزمی اور بلند حوصلگی نمایاں شرائط ہیں۔ دبو اور ڈرپوک لوگوں کا صحافت کے میدان  میں نہ تو کوئی مرتبہ ہے اور نہ ہی  کوئی مقام لیکن تباہ کن  کردار ضرور موجود ہے ۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ آج کی اردو صحافت  محض خوشامد پرستی، سیاست بازی  اور سستی شہرت پر مشتمل ہے۔   آج کی صحافت  میں پیسہ  پیسہ پیسہ کا راگ پوری شدت کے ساتھ الاپا جارہا ہے۔ آج مشہور و معروف صحافیوں کے اثاثے اس بات کے گواہ ہیں کہ حق گوئی  اور صداقت کا اس وقت کی اردو صحافت سے کوئی لینا دینا نہیں رہا ۔ جس کا پلڑا بھاری دیکھا صحافت اور صحافی  دونوں  اس کے گھر کی باندی بن گئی ۔ 
آج کے اخبارات  اور میڈیا مالکان  نے ان میڈیمز  کو دکان بنا کر رکھ دیا ہے۔ آج کی صحافت کا لوگوں کی زندگیوں پر پر پڑنے والا اثر کہیں  نہایت شرمناک  ہے تو کہیں فسادی۔ آج جسے اپنے کاروباری روابط  بڑھانے ہیں۔ بڑے بڑے خاندانوں کے ساتھ سیاست ،حیثیت اور اختیار کا مقابلہ کرنا  ہے وہ اخبارات  اور ٹی وی کا کاروبار شروع کر دیتا ہے۔  اسے قوم کے مفادات سے ، قوم کی بھلائی اور بہتری کے کاموں سے کوئی غرض  نہیں جس کے لیے  اردو اخبارات  کی بنیاد رکھی گئی تھی۔
جسکو سمجھنے کے لیئے تھوڑا سا تاریخی حوالہ دینا بیحد ضروری ہے۔ 
اردو زبان میں شائع ہونے والا پہلا اخبار ’جامِ جہاں نما‘ تھا جس کے بانی ہری ہر دت تھے اور انھوں نے اس اخبار کو 1822 میں کلکتہ سے شائع کیا۔ انگریزی اور بنگالی زبان کے بعد یہ اخبار ہندوستان میں کسی تیسری زبان میں شائع ہونے والا پہلا اخبار تھا۔ یہ 1888 تک شائع ہوتا رہا۔
اردو صحافت کے آغاز سے متعلق کئی متضاد دعوے کیے گئے ہیں۔ اکثر نے مولوی محمد باقر دہلوی کے سر اس کا سہرا باندھا ہے جو تحریک آزادی کے لیے شہید ہونے والے 77 سالہ بزرگ  پہلے  صحافی تھے جنہیں انگریزوں نے 16 ستمبر 1857کو تحریک آزادی کی سچی اور بیباک رپورٹنگ کے جرم میں  توپ سے باندھ کر اُڑا دیا تھا۔ یاد رہے کہ مولوی محمد باقر کا اردو اخبار " اخبار دہلی" کے نام  سے 1836سے 1857ء تک جاری رہا۔ یوں انہیں پہلا شہید صحافت کہا جا سکتا ہے۔
اب ہم پاکستان سے باہر یورپ میں اردو صحافت پر نظر ڈالتے ہیں تو اس وقت تک عام طور پر فرانس میں ہونے والی اردو صحافت خصوصا اور پاکستان میں عموما 40 ٪ رپورٹنگ پر مبنی ہے جبکہ 5٪ معلومات پر 3٪ تعلیم و تربیت پر جبکہ  42 ٪ سیاسی شعبدہ بازیوں پر 10٪ اشتہاری مہمات پر مشتمل ہے۔  آج صحافت کسی کاروبار کی شکل اختیار کر چکی ہے۔ اور یہی آج سب سے زیادہ منفعت بخش کاروبار ہے۔ اس کے لیئے اس کے پہلے سچے صحافی  مولوی باقر شہید کی روح ہر روز نہ جانے کتنی بار پرواز کرتی ہو گی ۔
فرانس میں ہم اردو ٹی وی چینل  کے لیئے سال ہا سال سے گفتگو کر رہے ہیں لیکن یہ کام تب تک نہیں ہوسکتے جب تک یہاں کے مخیر حضرات اس میں دلچسپی نہ لیں اور اس میں مالی معاونت نہ کریں۔ اردو کیلئے یہاں پر آن دیسی ٹی وی کے نام  سے ایک نوجوان شاعر  وقار بخشی  نے کام کیا اور اس پر مختلف طرح کا مواد بھی پیش کیا گیا لیکن آج کئی سال گزرنے کے بعد بھی وہ اسے ابھی تک باقاعدہ ٹی وی چینل کی صورت پر نہیں لا سکے اور ویب ٹی وی کی حیثیت سے ہی کام کر رہے ہیں کیونکہ اس کے لیئے انہیں مطلوبہ  مالی معاونت حاصل نہیں ہے ۔ ہم لوگ اپنی ایمبیسی سے بھی ہمیشہ اس بات کی درخواست کرتے رہتے ہیں انہیں یاد دلاتے رہتے ہیں کہ یہاں پر اردو ٹی وی چینل اور ریڈیو کی بے حد ضرورت ہے۔ لیکن اس مطالبے کیساتھ ڈرتے بھی رہتے ہیں کہ باقی شعبوں میں جس طرح سے اردو صحافت کو استعمال کیا گیا اور کاروباری بنا دیا گیا اور اسے پیسہ کمانے اور اثر رسوخ بڑھانے کا ذریعہ بنا دیا گیا اگر یہاں بھی اسی طرح سے ہونا ہے اور وہی سب کچھ کرنا ہے تو پھر نہ ہونا ہی بہتر ہے کم از کم یہ تو نہیں کہ ہمارے پاس  میڈیم موجود ہے اور کچھ کر نہیں رہے ۔ ریڈیو کی طرف دیکھیں تو یہ آج بھی  بڑا مضبوط میڈیم ہے۔  لیکن ہمیں خود یہاں 25 سال ہو گئے ہیں اس پر  بات کرتے ہوئے۔  ہم لوگ  اتنے وسائل نہیں رکھتے کہ اسکی سکیورٹی گارنٹی وغیرہ جمع کروانا اور باقی جو سارا طریقہ کار اس کو پورا کرسکیں تو جو پورا کرسکتے ہیں وہ سوچتے رہتے ہیں کہ اچھا جی چلیں یہ بھی کام کریں گے ان کے لئے یہ چیز ترجیحات میں شامل ہی نہیں ہے۔ یہاں پر کتاب پڑھنا جب ترجیحات میں شامل نہیں ہے۔ یہاں پر اپنی زبان سیکھنا ترجیحات میں شامل نہیں ہے۔ یہاں  اپنے بچوں کے لیئے کوئی کلچرل پروگرام ادب و صحافت کے حوالے سے ہو، ہماری جو بھی حمایت کی بات ہو وہ لوگ اس میں حصہ لینا، اپنے گھر سے خود شامل ہونا پسند کرتے ہیں نہ اپنے گھر سے خواتین کو بچوں کو لانا پسند کرتے ہیں۔ جب وہ اس چیز کو ضروری نہیں سمجھتے تو پھر اردو صحافت صرف اور صرف کاروباری نظریے کے ساتھ کہ میں کیا لگاؤں گا اور مجھے کیا ملے گا، کس کو اوپر اٹھانا ہے کس کو نیچے گرانا ہے صرف اور صرف یہی ایک نظریہ رہ جاتا ہے اور یہ نظریہ صرف تباہی کی طرف لے کر جاتا ہے ۔ کسی بھی قوم کے لیئے صحافت کی جدوجہد میں تہذیب، اپنی زبان، اپنے کلچر، اپنی معاشرت کو بچانے کے لئے ،حق بات کی طرف لوگوں کی رہنمائی کرنے کے لیئے آپ کی سوچ نہیں ہوگی آپ کی اپروچ نہیں ہوگی اس وقت تک صحافت محض مذاق ہے اور یہی سبب ہے کہ  ان پچھتر سالوں میں اگر آپ دیکھیں تو ہماری صحافت نیچے سے اوپر جانے کے بجائے اوپر سے نیچے کی طرف ہی آئی ہے۔  فرانس میں اردورپوٹنگ کی 90٪ صحافت کا معیار نوٹ کیجیئے  کہ فلاں فلاں کے ساتھ آج اپنے بیٹے کی سالگرہ کی خوشی میں کھانا کھانے آیا ہے۔ فلاں  فلاں  کے ساتھ آج دوستوں سے ملاقات کر رہا ہے۔ فلاں شخص عمرہ کرکے آیا لہذا اس کا دوست اس کو لینے کے لئے آیا ہے۔ فلاں سیر کرنے جا رہا ہے ۔ فلاں سیر سے واپس آ رہا ہے۔ جہاں پر رپورٹنگ کا یہ معیار ہوگا ۔ فلاں نے آج اس ریسٹورنٹ میں کھانا کھایا یا کھلایا۔ اور یہ سب فلاں فلاں نہ تو کوئی پرسنالٹی ہیں ۔ نہ ہی کوئی اداکار ہیں نہ ہی کوئی اور کمیونٹی کے فعال کردار ہیں ۔ بس جو جس نام نہاد صحافی کی جیب میں نوٹ رکھ دیگا وہ اپنی فی تصویر ادائیگی سے صحافتی خدمات سے مستفید ہو سکتا ہے۔ یا پھر کرائے کے صحافی جو پاکستان اور باہر ہر جگہ بکثرت پائے جاتے ہیں اور اپنا قلم کسی بھی سیاسی تنظیم کو کرائے پر دے دیتے ہیں ۔ وہ اس سیاسی تنظیم کے سارے کالے کوے ہر قیمت پر سفید کرنے کے لئے اپنا دین ایمان ضمیر سب کچھ نچھاور کرنے کو تیار ہو جاتا ہے۔ 
تو آپ  سوچ سکتے ہیں کہ ان کا ذہنی معیار کیا ہوگا ، اخلاقی درجہ کیا ہوگا ۔ یعنی اگر ہم پیچھے مڑ کر دیکھتے ہیں تو پاکستان میں مجموعی طور پر اردو صحافت  خاص طور پر ان گزرے بیس سالوں میں بڑی تیزی سے زوال پذیر ہوئی ہے اور  ٹی وی چینل پر صحافت اگر ہم اپنے ملک میں بھی دیکھ لیں تو وہ ٹی وی چینل جس طرح کسی نہ کسی خاص آدمی کے ماتحت ہیں یا اس کی ملکیت ہیں یا ملکیت میں آجائیں گے تو وہ پھر کاروبار کے نظریے سے کام کریں گے اسے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ لوگ کس طرف جا رہے ہیں۔ لوگوں کی تربیت کیسی ہونی چاہئے۔ گاڑی میں بیٹھے ہیں ۔ ہم نے سیٹ بیلٹ لگائی ہے یا نہیں لگائی ہے۔ اس سے کیا فرق پڑتا ہے اسے یہ فرق پڑتا ہے کہ اس کی گاڑی کس برانڈ کی ہے؟ کس ماڈل کی ہے؟ اور وہ کتنے میں اچھی بک سکتی ہے؟ اس کا اشتہار کتنے میں اچھا بک سکتا ہے؟ کتنے اچھے پیسے مل سکتے ہیں؟ تو آپ دونوں باتوں کا فرق  خود جان سکتے ہیں. مجموعی طور پر صورت حال بالکل بھی اردو صحافت کے لیے نہ پاکستان میں, نہ پاکستان سے باہر ، کہیں بھی خوش آئند نہیں ہے۔ ہاں کاروباری لوگوں کے لیے یہ خوش آئند ہو سکتی ہے۔ لیکن اگر ہم اس کو کسی بھی حوالے سے نظریاتی، معاشرتی ، سیاسی ، سماجی ، تربیتی حوالے سے دیکھیں  تو کہیں بھی اس کا معیار بلند نہیں ہوا بلکہ پست سے پست تر ہوتا چلا گیا۔
 ضرورت اس امر کی ہے کہ ملک سے محبت کرنے کا دعویٰ کرنے والے اپنی زبان تہذیب اور ثقافت کے علاوہ صحافی اس ملک کی سالمیت پر کوئی سمجھوتہ نہ کریں اور خود کو  اس ملک کے وفادار کے طور پر پیش کریں۔ جس کے لیے پہلی شرط ہے سچائی۔ اور صحافت کے لئے بھی ،ایک صحافی ہی آج  اینکر کے روپ میں ہمارے سامنے آتے ہیں انکے لئے بھی اس شعبے  میں ایمانداری اور سچائی پہلی شرط ہونی چاہیے۔ جب تک ہم سچائی کی پہلی سیڑھی پر قدم نہیں رکھیں گے۔ آگے کامیابی کی آخری منزل تک نہیں پہنچ سکتے۔  ہم دکان دار بننا چاہتے ہیں تو وہ ہر شعبے میں بن چکے ہیں۔ صحافی دکاندار، رپورٹر دکاندار، اینکر دکاندار۔۔۔۔۔۔اس لیئے ہمیں اپنی اردو صحافت کی بنیادوں کو پھر سے مضبوط کرنا ہوگا۔

          °°°°°°°°

منگل، 20 دسمبر، 2022

ٹھیک ہو جائیگا/ کوٹیشنز ۔ چھوٹی چھوٹی باتیں

ٹھیک ہو جائیگا

🏔️لڑکا پاگل ہے۔۔ شادی کر دو ٹھیک ہو جائیگا۔
🏔️لڑکا نشہ کرنے لگا ہے۔۔۔ شادی کر دو ٹھیک ہو جائیگا ۔
🏔️لڑکا اتھرا بدمعاش ہے۔۔  شادی کر دو ٹھیک ہو جائیگا ۔۔۔
🏔️لڑکا آوارہ ہو گیا ہے۔۔۔ شادی کر دو ٹھیک ہو جائیگا ۔۔۔۔
🏔️لڑکا بیکار اور نکما ہے۔۔۔ شادی کر دو ٹھیک ہو جائیگا ۔۔۔
🏔️لڑکا مرگی کا مریض ہے۔۔۔ شادی کر دو ٹھیک ہو جائیگا ۔۔۔۔۔
🏔️لڑکا بدکردار ہے۔۔۔شادی کر دو ٹھیک ہو جائیگا ۔
کیا ہماری ہاں لڑکیاں ان سارے ناقص مال کی مرمت اور دیکھ بھال کے لیئے پیدا ہوتی ہیں ؟
   (چھوٹی چھوٹی باتیں)
        (ممتاز ملک۔پیرس)

منگل، 13 دسمبر، 2022

💚اللہ سے مذاق/ کوٹیشنز۔ چھوٹی چھوٹی باتیں

اللہ سے مذاق

ہماری قوم کا المیہ کیا ہے؟
یہ کہ نہ ہم کسی کی خوشی میں خوش آمدید۔
@ نہ ہم کسی کو سراہنے میں فراخدل ہیں ۔
@ نہ ہم کسی کے شکر گزار ہوتے ہیں۔
@ نہ ہم کسی سے معافی مانگتے ہیں۔
@ نہ ہم کسی کی عزت ہوتے دیکھ سکتے ہیں۔
@ نہ ہم کسی کی تعریف کرنے کا حوصلہ رکھتے ہیں۔
مان لیں کہ ہم بخیل ہیں ٫ منافق ہیں اور آگے بھی۔
لیکن انتظار کرتے ہیں کہ رحمتیں بس ہمیں سب پر نازل ہونا چاہیئیں۔۔۔یعنی اللہ سے بھی مذاق کریں۔
استغفار رررر
   (چھوٹی چھوٹی باتیں)
       (ممتاز ملک۔ پیرس)

بدھ، 7 دسمبر، 2022

وائرل صرف گندگی/ کالم

 وائرل صرف گندگی
تحریر: 
(ممتاز ملک ۔پرس)

کیا وجہ ہے کہ ہمیشہ غلط بات اور گندگی ہی ہوتی ہے؟ 
ہم نے تو خود کو شریف کو انتہائی نیک اور پرہیز گار دکھاتے ہیں، لیکن قندیل بلوچ جب نعت پڑھتے ہیں تو کسی کو سننا پسند نہیں کیا، اسے ملی نغمہ گاتی تو کسی سے پسند نہیں تھی، لیکن جیسے ہی ہمیں معلوم ہوا ہے کہ قندیل بلوچ آفریدی کے نام پر اپنے کپڑے اتارنے کی آفر کر رہی ہے تو منٹوں میں لوگ آپ کے مداح بن جاتے ہیں، انتظار کرتے ہیں کہ آپ اپنے آپ سے رال ٹپکتے ہیں، اس وقت۔ کی شرافت اور پرہیزگاری جاتی ہے۔ مسلم فالوور وہ شریف النفس ڈرامے بازپر جو اس کے کومنٹس میں جا کر اپنی مردانگی اور اپنے جسم کو اعضاء کو خود دکھاتے ہیں۔ لیکن حقیقت میں اگر وہ یہ سمجھیں کہ اس نامحرم لڑکی کے بہانے اپنی بہنوں کو بے لباس کرتے ہیں تو ایک نے گویا سب کو دیکھا۔ نہ نظر جھکانی یادگار ہیں نہ حیاداری کا پاس ہے اور تو آج کے ٹک ٹاک پر جا کر ہمارے لوگوں کی مردانگی فرمائیئے کس لچرپنے کے کمرے پر تبصرے کیئے ہیں ۔ان پر اپنی زبان کے خاندانی برسائے ہیں اور پھر اسی طرح باقی بازاری دھڑا دھڑ دیکھنے کے لیے، لائیک کرنے کا فریضہ آخر ممکن ہے۔ کمال کی بات ہے کہ گندگی پر پہلے میرے بے خبر لوگ بھی ڈال دیتے تھے لیکن آج ان کے نام نہاد باخبر اور پڑھے،معزز عزت باخبر،مذہبی تک کہلانے والے لوگ اسی گندگی کو پلیٹ میں سجا کر اس کی قیمت لگاتے ہیں۔ اور کبھی اسے آگے سے مشتہر کرتے ہیں۔ مذہب تو چھوڑیے ہم اخلاقی طور پر اس پر تنزلی میں گر گئے ہیں کہ اب ہمیں گٹر کی بو بھی نہیں لگتی بلکہ "سمیل" لگتی ہے۔ 
انہوں نے کہا کہ آج دیکھنے کیلئے سوشل میڈیا میڈیا ٹک ٹک اور یوٹیوب پر ناچ گانے واہیاتی پر مبنی "کونٹینٹ" مواد بیچ رہا ہے۔ صرف پیسے کمانے کے لیے۔ عزت کی جاتی ہے۔ آپ تو دھڑا دھڑا لگتے ہیں۔ حدیث شریف کا حصہ مکمل ہوا کہ جس میں قیامت کی نشانیوں میں واضح نشانی بتائی گئی کہ "گھر گھر ناچ گانا"۔ آج لوگ خود اپنی مرضی سے خوش ہو جاتے ہیں اپنے ماں بہن بیٹیوں اور نانیاں دادیاں تک مجرا کر کے مشہور اور مالدار ہونا کوئی عیب نہیں سمجھتا۔ ہمارے بزرگ کہتے تھے کہ دولت تو کنجروں کے پاس بھی "بلکہ کنجروں کے پاس" ہی ہوتی ہے لیکن عزت نہیں ہوتی۔ کاش بزرگ آج آپ کو دیکھ نہیں سکتے کہ بابا جی عزت صرف پیسے کی ہی ہوتی ہے۔ کیسے آئے؟ کیوں آئے؟ کوئی نہیں پوچھنا چاہتا۔ وہ میرے بچے سے پوچھتے تھے کہ میں نے تو نہیں لکھا لیکن میرے پاس۔
 کہاں سے آئے ہیں یہ جھمکے؟
 کس نے یہ جھمکے؟ 
کیوں خطرے ہیں جھمکے؟
آج تو خود کئی جہنمی مائیں اپنی بیٹیوں کو جھمکے کمانے اور جھمکے دلانے کو پھانسنے کے طریقے سکھاتی ہیں۔ کیوں کہ وہ بھی مان چکے ہیں کہ کوئی تم سے پوچھے گا کہ یہ جھمکے ہیں؟
                  ●●●

اتوار، 4 دسمبر، 2022

دکان/ کوٹیشنز ۔چھوٹی چھوٹی باتیں

دکان یا خزانہ

ادھ ننگی گھومنے والی عورت جب دوسرے کو یہ کہتی ہے کہ میرا جسم میری مرضی تو وہ خود کو یہ کیون نہیں سمجھاتی کہ میرا جسم کوئی دکان نہیں ہے جس پر ہر آتا جاتا ایرا غیرہ جھانکتا ہوا گزرتا جائے۔
یہ ایک خزانہ ہے اور خزانے کی چابی کسی ایک کے پاس ہو تبھی وہ محفوظ رہتا ہے ۔ اب آپکی مرضی آپ اپنے جسم کو دکان بانا چاہتی ہیں یا خزانہ۔۔۔۔

جمعرات، 1 دسمبر، 2022

عزت کا سبق/ چھوٹی چھوٹی باتیں ۔ کوٹیشنز

عزت کا سبق

اپنے بچوں کو ہمیشہ پورا سبق سکھایئے اور پوری بات سمجھائیے۔
 انہیں یہ مت سکھائیں کہ اپنی ماں اور بہن کی عزت کرو بلکل یہ سکھائیں کہ عورت کی عزت کرو۔ بڑوں کی عزت کرو۔ چھوٹوں پر شفقت کرو ۔ یہ پورا سبق انہیں  آپکی عزت کرنے پر خود بخود تیار کر دیگا ۔ 
   (چھوٹی چھوٹی باتیں)
      (ممتازملک ۔پیرس)
                   ●●●

پیر، 14 نومبر، 2022

نشہ/ کوٹیشنز ۔ چھوٹی چھوٹی باتیں

      نشہ ۔۔۔۔

آپ نشہ نہیں پھونکتے بلکہ نشہ اپکے پورے خاندان کو، آپ کے سماجی رتبے کو ، آپکے تعلقات کو، آپکے خوابوں کو، آپکی خواہشوں کو ، پھونک رہا ہوتا ہے ۔ 
نشہ کوئی سا ہو صرف تباہی ہے۔
       (چھوٹی چھوٹی باتیں)
           ( ممتازملک ۔پیرس)

پیر، 7 نومبر، 2022

تلخ حقیقت/ کوٹیشنز

تلخ حقیقت
شوہر ہمیشہ اپنی صحت مند بیوی کا ہی ہوتا ہے اس پر کوئی بیماری یا تکلیف آ جائے تو دو اک دن مزاج پرسی کا ڈرامہ کرے گا اس کے بعد وہ سارے شہر میں پھیلے ہوئے یاروں کے پاس "اور سناو کیسے ہو" کے لیئے سارا سارا دن گزار دیگا، ہر چھٹی گزار دیگا ، لیکن اپنی بیوی کے سوا سارے شہر کا یہ غمگسار نہ ہوا تو صرف اپنی بیوی کا نہ ہوا ۔۔۔
اور مرد بیمار ہو تو بیوی بیوہ جیسی زندگی کو اللہ کی رضا سمجھ کر خود کو تباہ کرنے کے درپے ہو جاتی ہے ۔ دونوں ہی نفسیاتی ڈاکٹر کی مدد کے لائق ہیں۔  آپ کی زندگی پر آپکا حق بھی خدا نے دے رکھا ہے۔ حساب صرف بیویوں کا ہی نہیں ہونا۔۔۔
     (چھوٹی چھوٹی باتیں)
          (ممتازملک۔پیرس)

جمعرات، 3 نومبر، 2022

اتنی سی بات/ کوٹیشنز

اتنی سی بات

دشمن مرے خوشی نہ کریو
سجن وی مر جانا۔۔۔
بس اتنی سی بات سمجھ آ جائے تو انسان ہر غرور و فتنے اور گناہ سے خود کو دور کر لے ۔
(چھوٹی چھوٹی باتیں )
      (ممتازملک ۔پیرس)

اتوار، 30 اکتوبر، 2022

شرکستان۔ بہت دور نہ نکلنا/ کالم

    بہت دور نہ نکلنا
    شرکستان ؟
تحریر:
       (ممتازملک ۔پیرس)

پاکستان بھر میں بے دینی اپنے عروج پر ہے ۔ شرک ، جادو ٹونہ بے راہ وی عام ہے ۔ دین کی اور حق کہ بات کرنا واقعی ہاتھ پر جلتا ہوا کوئلہ لیکر چلنے کے مترادف ہو چکا ہے
اور یہ سب کچھ اس حکومت کی چھتر چھایا میں ہو رہا ہے جو ریاست مدینہ کا لولی پاپ دیکر بے عمل اور بے کردار جوانیوں کو اندھے کنویں میں جھونکنے کا ایجنڈا بڑے زور و شور کیساتھ پورا کر رہے ہیں۔ یقینا دجا۔لی آقا خوش ہوا ۔۔۔۔
 پہلے پورے تزک و احتشام کیساتھ ویلنٹائن ڈے کو اس ملک میں  گھسایا گیا ۔ ہر لڑکی کی عزت چوراہے پر رکھے گلاب کے گلدستوں  میں باندھ دی گئی ہے جسے ہر صورت کل کوڑے دان میں پہنچنا ہی ہے ۔ ہر لونڈا دوسرے کی بہن بیٹی کو تاڑنے نکلتا ہے اور اس کی اپنی بہن کسی اور کے لیئے نوالہ تر بننے کی تیاری میں ہوتی ہے کیونکہ جو آپ کرنے جا رہے ہیں اسے آپ کے گھر بھی پہنچنے میں دیر نہیں لگتی اب یہ آپ خود جانتے ہیں یا آپکا خدا کہ آپ کیا اچھا کرنے کا ارادہ لیکر نکلے ہیں یا کیا برا کرنا چاہ رہے ہیں۔
کبھی چوکوں میں مسلمانوں کی عزتوں سے کھیلنے والوں کے بت آویزاں کیئے جاتے ہیں تو کبھی غیر مسلموں کو خوش کرنے کیلئے انکے بتوں کے چڑھاوے بڑے مزے لیکر تناول فرمائے جاتے ہیں بلکہ آ ج کی اس خوار نسل یا پوری قوم  کو یہ تک پڑھنے اور جاننے کی توفیق نہیں ہے کہ اللہ کے سوا کسی بھی نام کی کوئی بھی چیز کھانا حرام ہے ۔ لیکن ہمیں اس سے کیا؟ کہیں رواداری کے نام پر کہیں فیشن کے نام پر کہیں بین الاقوامیت کے نام پر جس دین کی پہچان  ہمارے نام سے جھلکتی  ہے ہم اسی کا مذاق اڑانے میں مصروف ہیں ۔ اور یہی وہ خسارا ہے کہ جس کا ہمیں احساس تک نہیں ہو رہا کہ ہم اٹھا رہے ہیں ۔ ہمارے کہنے کا یہ مطلب ہر گز نہیں ہے ہم غیر مسلموں کیساتھ انکی خوشیوں میں شریک نہ ہوں یا انہیں اس پر نیک خواہشات نہ دیں ۔ مسئلہ یہ ہے اس سب میں ہمارے اپنے مذہب کو مذاق نہ بنا لیا جائے ۔ ہر مذہب کا اپنا اپنا دائرہ کار ، طرز زندگی اور قاعدے اور ضابطے ہوتے ہیں ۔ بالکل ویسے ہی جیسے گاڑی چلانے کے لیئے آپکو گاڑی چلانے کی تربیت اور گاڑی ہی چلانے کا لائسنس لینا ہو گا اس کے لییے آپ موٹر سائیکل یا جہاز چلانے کا لائسنس  پیش نہیں کر سکتے ۔ کیونکہ وہ اجازت نامے گاڑی چلانے کے قواعد و ضوابط کو پورا نہیں کرتے ۔ سو اپنے مذہب کو ماننے کا عملی اظہار اس کے اصولوں کی پاسداری کیساتھ ہوتا ہے۔ زبانی کلامی باتوں سے آپ نہ تیتر رہتے ہیں نہ بٹیر۔ 
پھر "رے" پارٹیوں کو اپر کلاس سے رائج کیا جانے لگا جہاں منشیات کا ہر برانڈ اور بے راوی کا ہر طریقہ پوری مادر پدر آزادی کیساتھ پروموٹ کیا گیا ۔ پھر نور مقدم اور سارہ جیسی لڑکیوں کے انجام  رلانے کو مثال بن جاتی ہیں ابھی ایسے کتنے ہی عزتوں کے جنازے ہونگے جو ان رئیس زادوں اور حرام خوروں کے فارم ہاوسز سے ڈائیریکٹ بنا کفن کے بنا نماز جنازہ کے ان کے باغات کی مٹی کے نیچے بچھائے گئے ہونگے ۔  جن کے والدین آج بھی سوچتے ہونگے کہ انکی بیٹی جانے کس کے ساتھ بھاگ گئی ہو گی ۔ یہ وہ لڑکیاں ہیں  جو اس چنگل میں کبھی ماڈل بننے کے لیئے یا باس کو خوش کرنے کے لیئے یا ملازمت کے جھانسے میں یا پھر تگڑی رقم لیکر اپنے شوق پورے کرنے کے لیئے  بدن تھرکانے کو پہنچی ہونگی ۔ لیکن یہ بھول کر کہ اس شیطانی راستے پر آنے کی جانب تو دروازہ کھلتا ہے لیکن یہاں سے واپسی پر دروازہ کبھی نہیں کھلتا۔ 
ایسے میں تازہ مثال تعلیمی اداروں سے لیکر مخصوص طبقے کی سرپرستی میں اب ہیلوون کا دن منانے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔ 
  اب ہیلو ون کا وہ دن جسے مردوں اور جہنم کیساتھ وابستہ کیا جاتا ہے ۔ اسے ڈارامہ ٹائز اور گلیمرائز کر کے یوں پیش کیا جا رہا ہے کہ جیسے یہ جہنم تو ایک سیر گاہ ہے اس کا کیسا خوف۔  یہاں تو ہم مٹر گشتی کرنے جائیں گے ۔ کیا یہ وہی نسل تیار کی جا رہی ہے جس کے بارے میں ہم پڑھتے اور سنتے تھے کہ آخری زمانے کی ساری مخلوق پیدا ہی جہنم کا ایندھن بنانے کے لیئے ہو گی ؟ کیونکہ انکے لیئے جہنم عبرت کا مقام نہیں بلکہ ایک تفریح گاھ سمجھی جائے گی۔ ایسی مشرکانہ رسموں کو ہمارے ملک میں ایک نام نہاد ہی سہی اسلامی معاشرے میں رائج کرنے کی کوششوں کو کیا سجھا جانا چاہیئے؟ حکومتیں کہاں سوئی ہوئی ہیں علماء جو ملک سے باہر یورپ میں جون جولائی میں ٹھنڈا کر کے اسلام پھیلانے کو مٹر گشت کرتے ہیں یہ ان کا فریضہ نہیں ہے کہ وہ اپنے ملک میں اسلام کی سچی تصویر پوری ایمانداری کیساتھ پیش کریں ۔کون دیگا اس قوم کی بے راہ روی کا جواب؟
                          ●●●    


ہفتہ، 29 اکتوبر، 2022

قرضدار/ کوٹیشنز ۔


قرضدار

تم کیا سمجھتے ہوں تم اپنے والدین کو پالتے ہو؟
نہیں۔۔۔ انہوں نے جو تمہیں پالا تم صرف ان کا  قرض چکانے کی کوشش کرتے ہو
 اور قرضدار کی آواز اونچی ہو، اچھا نہیں لگتا۔ اس لیئے اپنے والدین کے سامنے اپنی آوازیں نیچی رکھا کرو۔ کیونکہ انکے دل کانچ سے بھی زیادہ نازک ہوتے ہیں ۔ خیال رکھا کرو۔
(چھوٹی چھوٹی باتیں)
   (ممتازملک ۔پیرس)

اتوار، 23 اکتوبر، 2022

قیامت اور کیا۔ کوٹیشنز ۔ چھوٹی چھوٹی باتیں



قیامت اور کیا

دوست اخلاص سے خالی ہیں تو
 رشتے وفاوں سے عاری۔ 
ہر روز یہ قیامت بن کر ہمارے دلوں پر ٹوٹتے ہیں اور 
اب بھی ہمیں کسی اور قیامت کا انتظار ہے ؟
     (چھوٹی چھوٹی باتیں)
          (ممتازملک ۔پیرس)



پیر، 10 اکتوبر، 2022

روٹی سے سوٹی تک/ کالم


       روٹی سے سوٹی تک

انسان ہو یا کوئی اور جاندار ۔ رزق پر اسکی زندگی کا دارومدار ہے ۔ ہر جاندار  رزق کی تلاش میں اپنی عمر کا بیشتر وقت گزار دیتا ہے ۔
دنیا کا ہر جاندار پیٹ بھرنے کے بعد بے ضرر ہو جاتا ہے پرسکون ہو جاتا ہے ۔ مطمئن ہو جاتا ہے ۔
 لیکن انسان وہ جاندار ہے کہ پیٹ بھرنے کے بعد یہ دراصل خطرناک ہوتا ہے ۔ یہ جب تک بھوکا رہیگا جھکا رہیگا ۔ بےضرر رہیگا، لیکن جہاں اس کا پیٹ بھرا وہیں اس کے دماغ کی شیطانی رگیں پھڑکنا شروع ہو جاتی ہیں۔ اس کا اگلا مرحلہ اپنی حفاظت کے لیئے چھت کی تلاش پھر تعیش  اور اس کے بعد ہوتی ہے خود کو سب سے برتر منوانے کی جدوجہد کا آغاز۔۔۔
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ زندگی کی 95 فیصد خوشیوں کا انحصار مال و دولت پر ہوتا ہے ۔  ہماری  زندگی کے صرف  5 فیصد معاملات وہ ہوتے ہیں جنکا تعلق ہمارے جذبات سے ہوتا ہے لیکن یہ پانچ فیصد جذبات کا زہر اتنا منہ زور ہوتا ہے کہ زندگی کی مال و دولت سے بھری ہوئی دودہ کی بالٹی کو پل بھر میں برباد کر سکتا ہے۔ آج  آپ کسی پر بڑے سے بڑا احسان کر دیں بھلے سے اس کی جان بچا لیں لیں پھر بھی سب سے بڑا محسن اسی کو کہا جاتا ہے جو انسان آپکی مالی مشکلات کو کم کرنے میں آپکی مدد کرتا ہے وہی آپ کا سب سے بڑا محسن مانا جاتا ہے ، ہر ایک کی نظر میں ، ماسوائے اس کے جس پر آپ نے یہ احسان کیا ہو گا ۔ اس کی مہربانی کا بدلہ آپکی ممنونیت کی صورت میں ظاہر ہونا چاہیئے نا کہ آپ اپنی احسان فراموشی سے خود کو جذباتی زہر کا قطرہ بنا کر اس بات کو ثابت کر دیں جس پر احسان کرو اس کے شر سے ڈرو اور بچنے کی کوشش کرو۔
ہم اپنے جن عزیزوں کو دوستوں کو آگے بڑھانے کے لیئے اپنے کندھے پیش کرتے ہیں وہی اپنا قد بڑھانے کے بعد ان کندھوں کو توڑنے میں مرکزی کردار ادا کرتے ہیں ۔ ہمارے ملک کے آج کے حالات بھی اسی قسم کی صورتحال کو بیان کرتے دکھائی دیتے ہیں ۔ پہلے بھوک مٹانے کے لیئے دوسرے کے حقوق جان مال کھانا خود اپنی لغت میں اپنے ہاتھوں سے جائز لکھ لیا جاتا ہے تو اس کے بعد سر چھپانے کی جدوجہد میں محنت سے جان چھڑا کر قبضہ گیری اور رسہ گیری کو اپنا خودساختہ حق سمجھ لیا جاتا ہے ۔ جس نے جسے انگلی پکڑائی صاحب چال نے جھٹ سے اس کا پہنچہ پکڑنے میں دیر نہ لگائی ۔ کہیں آنسو بہائے گئے، کہیں قدموں میں دوپٹے گرائے گئے، اور کہیں پگڑیاں فرش پر بچھا دی گئی ہوں، کہیں ترلے منتیں وعدے وعید اور قسمیں اٹھائی گئی ہوں کتنی ہی لکھا پڑھی کی گئی ہو.
 غالبا خود کو سب سے زیادہ ضرورت مند ہی نہیں معتبر ثابت کرنے کے لیئے بھی کسی ڈرامے سے گریز کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے سامنے والا نرم دل بااختیار دار شخص بکرا بن کر آپکے دھوکے کی چھری کے نیچے ایک بار آ جانا چاہیئے بس ۔۔۔۔۔ اس کے بعد اس کے ساتھ جو کچھ ہو گا وہ اس کے کیا شاید ابلیس لعین کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہو گا ۔ نمک حرامی کی وہ وہ مثالیں قائم کی جائیں گی اور احسان فراموشی کے وہ وہ ریکارڈ ٹوٹیں گے کہ نیکی و امداد کرنے والے کے چودہ طبق روشن ہو جائینگے ۔ 
لوگ پیٹ بھرنے کے بعد صاحب اختیار ہونے اور اثرورسوخ حاصل کرنے کے لیئے ہر قیمت ادا کرنے کو تیار ہوتے ہیں وہ قیمت چاہے انہیں اپنی عزت کی صورت ادا کرنی پڑے یا کسی رشتے کی موت کی صورت چکانی  پڑے بس اختیار کی سوٹی ان کے ہاتھ لگنی چاہیئے ۔ لیکن ایک سوٹی ایک لاٹھی پروردگار کی ہوتی ہے جب وہ چلتی ہے تو بڑے بڑے سوٹیوں والے برج الٹتے ہوئے یہ دنیا ہمیشہ سے ہی دیکھتے آئی ہے ۔ مگر دل ہے کہ مانتا نہیں 
اسے یہ یقین ہی نہیں ہوتا کہ اگلی باری اس کی بھی ہو سکتی ہے کہ ہر چڑھتے سورج کا اترنا تو بہرحال مقدر ہوتا ہے۔ یہ سب جانتے بوجھتے ہوئے بھی ہر شخص دیوانہ وار روٹی سے سوٹی تک کے سفر میں دیوانہ وار بھاگے چلا جا رہا ہے ۔ اخلاقی دیوالیہ پن کی اس سے بڑی مثال اور کیا ہو گی ۔ 
                           ●●●

اتوار، 25 ستمبر، 2022

● انصاف/ کوٹیشنز ۔ چھوٹی چھوٹی باتیں

          انصاف 
جس ملک میں انصاف نہیں تو جان لو کہ اس قوم میں ضمیر نہیں کیونکہ انصاف باضمیر لوگ کیا کرتے ہیں ۔
 (چھوٹی چھوٹی باتیں)
      (ممتازملک ۔پیرس)

پیر، 12 ستمبر، 2022

خواب اور حقیقت/ کوٹیشنز ۔ چھوٹی چھوٹی باتیں

    خواب اور حقیقت 

صرف خواب دیکھنے سے ہی منزلیں بلند نہیں ہوتیں بلکہ اسکے لیئے عمل بھی شفاف پونا چاہیئے۔ 
ہماری خواہشیں ہمارے خوابوں کی صورت میں جبکہ ہمارے اعمال ہماری حقیقتوں کی صورت میں ظاپر ہوتے پیں ۔
       (چھوٹی چھوٹی باتیں)
            (ممتازملک ۔پیرس)

بدھ، 7 ستمبر، 2022

نوازے ہوئے لوگ/ کوٹیشنز

نوازے ہوئے لوگ

دوست وہ نہیں ہوتا جسے بتانا پڑے کہ میں خوش ہوں یا میں پریشان ہوں ۔۔۔بلکہ دوست وہ ہوتا ہے جو آپکی خاموشی کو سن لیتا ہے ، جو آپ کی بدلتی رنگت سے آپکے دل کا حال جان لیتا ہے ، جو آپکی آنکھوں کی نمی کو آپکے ہونٹوں کی مسکراہٹ میں بھی ڈھونڈ لیتا ہے ۔ آپکی پریشانی کو حل کرنے کی سعی کرتا ہے۔ آپکی خوشی کو اپنے اندر پھوٹتا ہوا محسوس کرتا ہے ۔  اگر آپ کے پاس کوئی ایک بھی ایسا دوست ہے تو آپ واقعی خدا کی جانب سے نوازے ہوئے لوگوں میں شامل ہیں ۔ 
(چھوٹی چھوٹی باتیں)
       (ممتازملک۔پیرس)

بدھ، 17 اگست، 2022

سوراخ/ کوٹیشنز ۔ چھوٹی چھوٹی باتیں

        سوراخ
جیسے ہر گھر سے غلاظت و گندگی کی نکاسی کی ایک نالی ہوتی ہے، اسی طرح اپنے دل میں بھی ایک نالی جیسا سوراخ بنا لیں جس سے آپ دوسروں کی آپ سے متعلق سوچوں اور اعمال کی گندگی کو باہر نکالتے رہیں ۔ سوچنے میں یہ مشکل کام لگتا ہے لیکن یقین کیجیئے آپ اس کی مشق کے بعد خود کو بیحد پرسکون اور ہلکا پھلکا اور صاف ستھرا محسوس کرینگے۔ 
         (چھوٹی چھوٹی باتیں)
               (ممتازملک۔پیرس)
                ●●●

منگل، 16 اگست، 2022

انتظار/ کوٹیشنز

انتظار 

ہم وہ قوم ہیں جو حادثوں کاانتظار ہی نہیں بلکہ اہتمام بھی بڑے شوق سے کرتے ہیں ۔۔
      (چھوٹی چھوٹی باتیں)
            (ممتازملک ۔پیرس)

ہفتہ، 13 اگست، 2022

رشتہ/ کوٹیشنز ۔ چھوٹی چھوٹی باتیں

      
      رشتہ 
بہن بے حس نہ ہو اور بھائی بے غیرت نہ ہو تو اس سے پیارا اور کوئی رشتہ ہو ہی نہیں سکتا ۔ 
       (چھوٹی چھوٹی باتیں)
            (ممتازملک ۔پیرس)


منگل، 26 جولائی، 2022

✔ پاکستان میں محفوظ سرمایہ کاری۔۔/ کالم۔ لوح غیر محفوظ

پاکستان میں محفوظ سرمایہ کاری کیسے؟
تحریر: 
         (ممتازملک ۔پیرس)

عموما تارکین وطن اور پردیسیوں کے پیسے کو لوٹ کے مال کے طور پر خیال کیا جاتا ہے ۔ کبھی آپ غور کریں تو وہ ترسے ہوئے  عزیز اقرباء کے کے تحائف کو جس طرح استعمال کرتے ہیں اسی سے آپکو اندازہ ہو جائیگا کہ دل بیرحم نے مال مفت کیساتھ کیا کیا نہ کیا ہو گا ۔ ہماری گاڑھے خون پسینے کی کمائی کو چوری کے مال کی طرح خرچنے اور برتنے والے جب ہاتھ کرنے پر آتے ہیں تو ہمارے یہ سوچ کر بنائے گئے گھر اور جائیدادوں کو کہ اس سے ہمیں بھی کچھ آمدنی کا ذریعہ مل جائیگا ، ہمارے عزایزان یہ جتا کر قابض ہو جاتے ہیں کہ بھائی تم تو باہر رہتے ہوں تمہیں کیا کمی ہے ؟ تم کیا کرو گے یہاں پر جائیداد زمین ؟ کہنے والے کا انداز آپکو یہ بتاتا ہے کہ اس کے والد صاحب نے جو فیکٹریاں اور کارخانے ملک سے باہر آپکو بنا کر دے رکھے ہیں اس پر عیش کرو یہ اپنے ملک میں بنائی جائیدادوں سے اب دور رہو ۔ ہم ہیں نا ان کا مال کھانے والے۔۔۔۔یہ سوچ کسی ایرے غیرے کی نہیں بلکہ ساری عمر آپ کے ٹکڑوں پر پلنے والے ان سنپولیوں کی ہوتی ہے جنہیں آپ خود بیچارے کہہ کہہ کر خود اپنی ہی آستینوں میں پالتے رہے ہیں ۔ اور اب وہ اژدھے بن کر آپ کی زندگی بھر کی کمائی کو ہڑپنے کے لیئے کھل کر سامنے آ چکے ہیں ۔ لیکن کیوں۔ ؟ کیونکہ آپ نے اپنی جائیداد گھر بار بیچنا چاہا ہے یا اپنی کمائی کا حساب مانگ لیا ہے ؟ یا اپنی کوئی شراکت داری ختم کرنا چاہی ہے ؟ کچھ بھی کر لیں لیکن پاکستانیوں سے اپنا مال واپس مت مانگیئے گا یہ آپکو دینا گویا خزانے پر بیٹھے سانپ سے پنگا ہو گیا۔  پیسہ تو جائیگا ہی عزت بھی ایسے ایسے اچھالی جائے گی کہ آپ کو خود اپنے اس دنیا کے سب سے خبیث آدمی ہونے کا گمان ہونے لگے گا ۔ رشتے پر تو ایسے بےضمیر پہلے ہی  چار حرف بھیج چکے ہوتے ہیں ۔ آپ اس وقت انکے لیئے پان کی پیک سے زیادہ کوئی حیثیت نہیں رکھتے۔ اگر آپکی قسمت اچھی ہے اور ساتھ کسی پرخلوص مشیر کا مل گیا تو شاید آپ کچھ بچا پائیں لیکن پھر بھی رشتے عزت احترام سب کچھ گنوانا لازم ہے ۔کیونکہ آپ تو بیرون ملک مقیم ہیں بھائی آپکو کیا کمی آپ کو پیسہ کیا کرنا ہے؟
آئے دن نت نئے تعمیراتی منصوبے آپکے سامنے پیش کیئے جاتے ہیں ۔ آپ بھی وطن کی محبت میں بیقرار ہیں تو ہمارا مشورہ ہے کہ 
جو لوگ پاکستان  جا کر رہنا چاہتے ہیں وہ تو ضرور ان تعمیراتی  منصوبوں میں پیسہ لگائیں لیکن جو لوگ  صرف سیر کرنے ملنے ملانے پاکستان جاتے ہیں انہیں ہماری صلاح ہے کہ آپ پیسہ جن ممالک میں آپ رہتے ہیں صرف وہیں لگائیں کیونکہ پاکستانی رشتے دار ان جائیدادوں کو لوٹ کر ہڑپ کر جائینگے ۔ قبضے کر لینگے ۔ یا پھر آپ نے کوئی محفوظ طریقہ  اپنایا بھی تو اس جائیداد کا کوئی فائدہ اور منافع کبھی آپ تک نہیں پہنچ پائے گا ۔ یہ ہمارے سالہا کا تجربات بھی ہیں اور مشاہدات بھی۔
اگر پاکستان میں پیسہ لگانا ضروری ہی ہے تو بہتر ہے کہ آپ پاکستان میں صرف قومی بچت کی محفوظ سکیموں میں اپنا پیسہ لگائیں ۔ ملک کی بھی خدمت ہو گی اور آپکا پیسہ منافع بھی دیتا رہیگا ۔ رشتے دار سانپوں سے بھی پردہ رہیگا اور رقم آپکے بعد آپکے نامزد شوہر یا بیوی بچوں کو باآسانی مل بھی جائے گی۔
پاکستان میں اپنے مال کو لگانے سے  پہلے اپنی عزت اور اپنے رشتوں کو بچانے پر غور کیجیئے ۔
                   ●●●

✔ سائیکو کیوں ؟کالم ۔ لوح غیر محفوظ





سائیکو کیوں ؟
ممتازملک ۔ پیرس   



ایک کیس سامنے آتا ہے کہ ایک صاحب کی بیگم نے ان سے علیحدگی لیکر کہیں اور شادی کر لی ہے اور بچے بھی ان کے پاس چھوڑ گئی ہے ۔ وہ صاحب اب اس قدر دلگیر ہیں کہ انہوں نے دو تین بار خودکشی کی کوشش بھی کی ہے اور ان کے  چاہنے والوں کی نظر میں یہ صاحب بے حد معصوم اور وہ خاتون کافی ہلکے کردار کی ،خود غرض اورسائیکو ہے ۔ وہ ایک بہت بری ماں ہے وغیرہ وغیرہ وغیرہ  
لیکن پھر کچھ لوگوں نے اس صاحب کی محبت بھری زندگی کا تجزیہ بھی کیا اور ان کی خودکشی کی اسل وجوہات جاننے کی کوشش کی کی جس میں بہت ہی مختلف صورتحال بھی سامنے آئی اور سوات بھی پیدا ہوئے ۔
پہلی بات خاتون خوش ہوتی مطمئن ہوتی تو  الگ ہی کیوں ہوتی ؟
مان لیا وہ سائیکو  تھی ،اسے دوسری شادی کا شوق تھا،  اس لیئے چلی گئی تو اس کامطلب یہ ہوا کہ وہ اچھی خاتون نہیں تھی،
تو اس کے جانے پر تو شکرانے کے نوافل پڑھنے چاہیئیں موصوف کو،جیسے آج کل خواتین میں '' کم بخت ٹائیپ میاؤں '' سے طلاق کے بعد پارٹی شارٹی کرنے
 کا رجحان پیدا ہو رہا ... یہ بھی پارٹی شارٹی کریں ۔ اپنی زندگی سے بیوی نام کا دکھ دور ہونے کی خوشی منائیں ۔ آخر 
تھوڑے لطیفے تو شئیر نہیں کیئے ہوں گے انہوں نے بھی بیوی کے ظلم اور خرچوں کے ..
تو اب توراوی چین ہی چین لکھتا ہے ان کے مقدر میں . منجھی کے دونوں طرف سے اترسکتے ہیں آپ .
اب رہ گیئے بچے. ... تو خاتون واقعی بڑی سیانی تھی . اسنے موصوف کو ساتھ رھ کر دی ہوئی تکلیفوں کا خوب بدلہ لیا کہ لو سنبھالو اپنی نسل . کل بھی تو انہوں  نے تمہارے پاس ہی آنا ہے تو ابھی لو .کیوں عدالتوں میں جا جا کر بچوں کو بھی خوار کرنا اور خود بھی ذلیل ہونا. ساری دنیا کو تماشا دکھانے کی ضرورت بھی کیا ہے ؟
اور اصل موت صاحب کو پڑی ہی اسی بات کی ہے کہ ان کی رنگینیوں کے آگے بڑا سا بلیک اینڈ وائٹ بورڈ بچوں کی صورت وہ لگا گئی . ورنہ یہ اکیلے ہوتے تو اب تک سہرا باندھ چکے ہوتے .. اب کوئی خاتون تو ان کی بیوی بننے کو شاید مل ہی جائے لیکن وہ ان کے بچے بھی قبول کرے نوے فیصد نو ....
تو اپنے ہی بچے اپنے پاس رکھنے پر موصوف فوت ہونے کو تیار ہیں اسے کہتے ہیں کہ
شرم ان کو مگر نہیں آتی 
عورتیں تو ساری زندگی بچوں کے چکر میں تباہ کر لیتی ہیں اور چند ایک مردوں کو ایسی سیانی خاتون آزمائش میں ڈال دے تو یہ تماشے.......
...........حد ہے بھئی 
ویسے مجھے ان صاحب سے کوئی ہمدردی نہیں. ان کی سابقہ بیگم نے بہت اچھا کیا کہ اپنا گھر آباد کر لیا . کیونکہ ان کے خودکش رجحانات وہ پہلے بھی کئی معاملات میں ضرور بھانپ اور بھگت چکی ہو گی . اس لیئے میری  نظر میں  نہ وہ بے وفا ہے، نہ بے ایمان ، اسے اپنی زندگی اپنی مرضی اور خوشی کیساتھ گزارنے کا پورا پورا قانونی اور شرعی حق ہے . جو اس نے استعمال کیا . بچے لیجا کر انہیں سوتیلے باپ کے پاس غیر محفوظ کرنے سے اچھا ہے سوتیلی ماں کے پاس ان کی عزت تو محفوظ ہو گی .کہ باپ تو سگا  ہی اچھا ہوتا ہے. 
اللہ پاک رحم فرمائے .    
ممتازملک

جمعہ، 1 جولائی، 2022

● سچ نہیں مرضی کی بات/ کوٹیشنز

ہم سچ نہیں بلکہ اپنی مرضی کی بات کو سچ سمجھ کر سننا چاہتے ہیں اور یہی ہماری تباہی کا موجب ہے۔ 
(چھوٹی چھوٹی باتیں )
      (ممتازملک ۔پیرس )

اتوار، 26 جون، 2022

● شدید موسم کا روہوں پر اثر/ کالم



 شدید موسم کا رویوں پر اثر
 (ممتاز ملک ۔پیرس)

 فرانس میں ہفتے بھر سے بہت زیادہ گرمی پڑ رہی ہے درجہ حرارت 40 ڈگری تک جا پہنچا ہے۔ جہاں بھی دنیا بھر میں گرمی شدید ہو چکی ہے وہاں  بلا ضرورت گھر سے نہ نکلیں ۔  باہر نکلنا پڑے تو چھتری پانی کی بوتل  دھوپ کی عینک  لیکر نکلیں ۔ ہلکے  کپڑے جیسے کاٹن لان یا لیلن کے کپڑے پہنیں ۔  بار بار پانی پیئیں ۔ سر پر گیلا چھوٹا تولیہ رکھنے کہ عادت ڈالیں ۔ 
پاکستان ہو یا کوئی بھی ملک ہر جگہ محنت کرنے والوں کو گھروں سے باہر  نکلنا پڑتا ہے۔  موسم اور اپنے شعبے کے حساب سے اپنی حفاظت کرنا پہلی ترجیح ہونی چاہیئے جو کہ خصوصا پاکستان میں تو تصور ہی نہیں ہے  ۔ انکی توجہ بھی دلواتے رہنا چاہیئے۔ ان شدید موسموں میں بھی رزق کی تلاش میں نکلنے والوں کے گھروالوں اور خصوصا انکی بیویوں کو ان کا پیسہ خرچ کرتے وقت خدا کا خوف رکھنا چاہیئے ۔ اور اپنی فضول خرچیوں پر قابو رکھنا چاہیئے ۔ ویسے بھی  بلا ضرورت بازاروں کے چکروں سے پرہیز میں بہت سی حکمتیں پوشیدہ ہیں عقل والوں کے لیئے۔ 
کام سے یا باہر سے واپس آنے والوں کو خاص طور پر اس موسم میں اور عام طور پر بھی گھر میں داخل ہوتے ہی اپنے دن بھر کے رونے سنانا شروع کرنا سب سے بڑی جہالت ہے۔ جس میں ہماری خواتین پہلے نمبر پر ہوتی ہیں ۔ سارے دن بھر کے تماشے ،نقصانات ، عذاب کام سے لوٹنے والے کو سنانے والے یقینا اس کے دوست نہیں ہو سکتے ۔ کیونکہ انکی خواہش یہی ہو سکتی ہے کہ گھر آنے والا پھڑک کر مر جائے۔ اسکا دماغ پھٹ جائے،  ان کے دن بھر کی رپورٹ سنکر۔ خدا کا خوف بس یہ ایک بات ذہن میں بٹھا لیں تو آپ ایسے شیطانی کاموں سے یقینا بچے رہیں گے۔ کام سے  گھر واپس آنے والے/والی کو مسکرا کر سلام دعا کریں ۔  اسے پانی پلائیں ۔ نہانے دھونے کا موقع دیں ۔  چائے کھانے کا پوچھیں ۔  سونا چاہے تو کچھ آرام اور سونے اونگھنے کا موقع دیں ۔  رات کے کھانے کے بعد پھر اچھے  اور محتاط لفظوں میں اسے ضروری مسائل سے آگاہ کریں ، ساتھ میں تسلی بھی دیں کہ سب ٹھیک ہو جائے گا۔ بچوں کو بھی سختی سے  اس بری عادت سے بچائیں کہ باپ بھائی گھر آئے تو آتے ہیں اس کے کان کیساتھ چپک کر زمانے بھر جھوٹے سچے قصے صور کی طرح اس کے کانوں میں پھونکنے سے پرہیز کریں ۔ آپ کی نظر میں یہ معمولی بات ہو گی لیکن  عادت بڑے بڑے فسادات اور قتل و غارتگری کا موجب بن سکتی ہے۔  گھروں میں رشتے ٹوٹ جاتے ہیں ۔ کیونکہ گھر سے باہر کام کر کے واپس آنے والا کن کن مسائل سے نپٹ کر آ رہا ہے ؟ اسکی ذہنی حالت کیسی ہے؟  اس کی پریشانی کیا ہے ؟ کسی سے لڑ کر تو نہیں آ رہا؟ اس کا کام تو نہیں چھوٹ گیا؟ آج اس کا کام کاج اچھا گیا کہ نہیں ؟  کہیں جیب تو نہیں کٹ گئی؟ کوئی حادثہ تو نہیں ہو گیا؟ سو معاملات ہو سکتے ہیں لیکن آپ ان سے بلکل انجان ہیں ۔ اور اپنی زرا سے لاپرواہی یا بیوقوفی میں آنے والے کو مزید تلملانے کا موقع فراہم کر دیتے ہیں ۔ اس کا جس پر بس چلے گا وہ اسی پر اکثر بلاوجہ اپنا غصہ نکال دیگا۔ گھر کا ماحول تناو کا شکار ہو جائیگا ۔ ہو سکتا ہے کان بھرنے والی یا والے کو ہی پھینٹی لگ جائے۔ 😜
 اس کے علاوہ پودوں کا خیال رکھیں ان کی دھوپ چھاوں کا خیال رکھیں ۔  انہیں پانی پلاتے رہیں ۔ پرندوں کے لیئے کسی سایہ دار جگہ پر دانے پانی کا انتظام کیجیئے۔ ثواب کمائیے۔ 
یقین کیجیئے  چھوٹی چھوٹی باتیں اور احتیاطیں  بڑے بڑے سکھ لاتی ہیں ۔ 
                    ●●●


شاعری / /مدت ہوئ عورت ہوۓ/ ممتاز قلم / سچ تو یہ ہے/ اے شہہ محترم/ سراب دنیا/ نظمیں/ پنجابی کلام/