ممتازملک ۔ پیرس

ممتازملک ۔ پیرس
تصانیف : ممتازملک

بدھ، 24 اپریل، 2019

شادی ہے یا کاروبار ۔ کالم



شادی ہے یا کاروبار؟
جہیز برا تو بری بھی عذاب
(تحریر/ممتازملک.پیرس)




کہتے ہیں عورت اگر کسی مرد سے مال کھائے تو اسے طوائف کہا جاتا ہے لیکن مرد اگر کسی عورت کا مال ڈھول بجا کر  کھائے اور تاحیات کھائے تو اسے دولہا کہا جاتا ہے۔
لڑکے والوں کا خیال اور پوری کوشش ہوتی ہے کہ  لڑکی کے گھر والوں کے تن کے کپڑے تک اتروا لیئے جائیں ۔
ہم ایک ایسے خاندان کو بھی جانتے ہیں جہاں بیرون ملک سے لڑکی والے بیٹی کی شادی کے لیئے پاکستان آئے اور بھوکے فقرے لڑکے والوں نے آخر دم رخصتی تک نئی نئی فرمائشوں اور مطالبات سے تو لڑکی والوں کے ناک میں دم کیئے ہی رکھا ۔ اور انتہا یہ رہی کہ لڑکی رخصت کرانے تک ان کے گھر کے پردے تک اتروا کر ساتھ لے گئے۔ اور یہ سب جان کر ہمیں تو اس لڑکی کی بے حسی اور بے غیرتی  پر شیدید افسوس بھی ہوا اور غصہ بھی آیا کہ ایسے لالچی خبیثوں کی مرمت کرنے کے بجائے وہ ان کیساتھ کیا سوچ کر اور کون سی اچھی امید لگا کر رخصت ہوئی ؟ کیا اس کا خیال تھا کہ یہ آخری ڈاکہ ہے اسکے بابل کے گھر پر ۔اسکے بعد سب چین ہی چین ہو جائے گا ۔ جبکہ شادی کے بعد بھی یہ حریص خاندان انہیں نوچتا رہا ۔ اور خاص بات یہ کہ لڑکے کو اپنی سسرال کو نوچنے کے سارے نئے نئے گر اس لڑکے کی اپنی والدہ ہی سکھاتی رہیں ۔
شاید لڑکی کے والدین کو زندہ بھی اس لیئے چھوڑ دیا جاتا یے کہ آگے بھی آہتسہ آہستہ ان کا خون چوسنے کا سلسلہ جاری رہے ۔ کبھی رسموں کے نام پر کبھی رواجوں کے نام پر ۔۔۔یہاں نہ تو وہ خود کو بےغیرت محسوس کرتے ہیں نہ ہی چھوٹا ۔ ایک لڑکی تاحیات اپنے آپ کو ایک مرد کی خدمت اور اطاعت میں پیش کر رہی ہے ۔ اپنی جوانی حسن، طاقت، صحت، عزت  سب کچھ اس پر وار دیتی ہے لیکن یہ سب کچھ ایسے بے غیرت خاندانوں کی نظر میں ہیچ ہے جب تک ان کے مطالبات کا کنواں بھرا جاتا نہ رہے ۔ جو کبھی بھی نہیں بھر پاتا ۔ جب تک کہ لڑکی خود بغاوت نہ کر دے ۔ یا اپنا گھر بچانے کو مرد کو خود اپنی بیوی کے ساتھ کھڑا نہ ہونا پڑ جائے ۔
دوسری جانب دیکھا جائے تو
اگر جہیز عذاب ہے تو لڑکے کی جانب سے ملنے والے تحائف اور سامان جسے بری کہا جاتا ہے اس بری کے نام پر ایک طوق لڑکے کی گردن میں بھی ڈال دیا جاتا ہے ۔ بری بھی لڑکوں کو سالوں کے لیئے مقروض کر دیتی ہے۔ بری کے نام پر ایک نوجوان جو ابھی نیا نیا کاروبار یا نوکری کا آغاز کر رہا ہے ، اس سے دس دس ، بیس بیس ، تولے کے طلائی زیورات،  دس ، بیس ہزار کا ماہوار جیب خرچ اور لاکھوں روپے کا حق مہر لکھوانا کس جہان کی شرافت ہے؟
کیا یہ کھلی بدمعاشی نہیں ہے ؟
 اس کے خلاف بھی آوا اٹھائی جانی چاہیئے۔ جہاں بیٹی والے جہیز سے جان چھڑانا چاہتے ہیں وہاں انہیں یہ بات بھی اپنی دماغ میں بٹھا لینی چاہیئے کہ ایک لڑکا تمام عمر عزت آبرو کیساتھ ان کی بیٹی کو بیاہ کر بیوی بنانے کو آیا ہے ۔ جو ساری عمر اس کے اخراجات خوشی غمی پوری کرنے کا وعدہ کر رہا ہے ، تو اس کی ہمت سے زیادہ بوجھ ڈال کر اس رشتے میں قرض اور پریشانیوں کا زہر مت گھولیں ۔
کیونکہ وقتی طور پر لڑکا  جب مقروض ہو کر یہ سارے چونچلے پورے کر بھی لے گا تو شادی کے بعد یہ ہی قرض اتارنے کا موقع اس جوڑے کے لیئے ایک دوسرے سے نفرت اور بیزاری کا باعث بن جائے گا ۔
لڑکے سے راستہ روکنے ، دودھ پلائی ، جوتا چھپائی اور جانے کون کونسی رسموں کے نام پر  منہ مانگی رقمیں بٹوری جاتی ہیں ، تو لڑکی سے قران کھولنے ، گود میں بچہ ڈالنے ، دیور کی گوڈا بٹھائی اور جانے کس کس ڈرامے کے نام پر موٹی رقمیں اینٹھ لی جاتی ہیں ۔
بزرگوں نے  یہ رسمیں شادی کے مواقع پر ہونے والے سٹیریس اور دباو کو کم کرنے کے لیئے ، ہنسی مذاق سے ان گھرانوں کو ریلیکس کرنے کے لیئے بنائی تھیں ۔ لیکن آج ہم لوگوں نے انہی چھوٹے چھوٹے ہنسنے مسکرانے اور چھیڑ چھاڑ اور ہنسی مذاق کے مواقعوں کو بھی مقابلہ بازی اور پیسہ کمانے کی موقع پرستی میں بدل کر اپنے لیئے اور دوسروں کے لیئے بھی سردردی میں بدل دیا ہے ۔ ہر گھرانہ سمجھتا ہے کہ یہ کاروبار اور اپنے اخراجات وصول کرنے کا سنہری موقع ہے سو دوسرے خاندان سے جو بھی خرچ نکلوایا جا سکتا یے نکلوا لیا جائے ۔سوچنے کی بات ہے کہ آخر اتنے اخراجات کیئے یا کروائے ہی کیوں جائیں کہ جو۔نکلوانے کے لیئے اتنے منصوبے بنانے پڑیں ۔  جو۔ہے جتنا ہے اسی میں خوشی کے موقع کی خوشی کو۔کیوں نہ دوبالا کیا جائے ؟
اس کے بعد چاہے وہ نیا جوڑا ساری عمر ایک دوسرے کو طعنے دے دیکر ہی چھلنی کرتا رہے ۔ انہیں اس کا اسوقت کوئی احساس نہیں ہوتا ۔ جبکہ ان حالات کو دونوں طرف بھگتنا سارے ہی خاندان نے ہوتا ہے ۔
نکاح کو آسان کرنا دونوں خاندانوں کی ذمہ داری ہے نہ کہ کسی ایک کی۔
پھر رخصتی اور ولیمے کے موقع پر ایکدوسرے سے من چاہی تعداد میں مہمانوں کو لانے کا مطالبہ اور پھر من چاہے پکوانوں کی فرمائش ۔۔کونسی انسانیت اور شرافت یے یہ ؟  دوسرے کے ہاں اس کی طرف سے جو تعداد مہمانوں کی آپ سے کہی جائے ۔ کوشش کیجیئے اس سے بھی  دو چار کم ہی لیکر جائیں ۔ باقی مہمان آپکی اپنی دعوت میں بلا لیئے جائیں ۔ تاکہ دونوں گھرانوں کو آسانی مل سکے ۔ اپنے بچوں سے دوستی کیجیئے دشمنی نہیں ۔ یاد رکھیئے آپ کے آج کے فیصلے انہیں ساری عمر بھگتنا پڑیں گے ۔
                   ۔۔۔۔۔۔۔۔







پیر، 22 اپریل، 2019

● (16) ہر آنکھ تماشائی ہے / شاعری ۔ سراب دنیا



(16) ہر آنکھ تماشائی ہے

 
رنگ ہی رنگ ہے رعنائی ہی رعنائی ہے 
دیکھنے کو جسے ہر آنکھ تماشائی ہے 

جذبہ دشت نوردی میرا اعزاز رہا
زندگی آج اندھیروں سے نکل آئی ہے

کون کہتا ہے کہ محروم تمنا ہو جا
روشنی کے لیئے ترسی ہوئی بینائی ہے 

خوش نہیں تیری محبت میں یہ دنیا گم ہے 
  غم کہ کرنی تھی جسے بس وہی ہرجائی ہے

اے ہوا عشق میرا تیرا قرضدار ہوا
راستے سے  تُو میرے دھول اڑا آئی ہے

درد کی لہر میں دیکھے ہیں کبھی وہ لمحے
موت کے بین میں جب گونجتی شہنائی ہے

فیصلے سارے ہی انصاف نہیں پا سکتے
کچھ تو درپردہ خیالات کی شنوائی ہے

میری گلیوں میں کیا سورج نے چراغاں کرنا
جگنؤوں سے ہی میرے دل نے ضیاء پائی ہے

ہم حیادار تھے الزام یہی تھا تو سن 
بے حیا لوگوں سے ہم نے یہ حیا پائی ہے
اب نہ حیران ہوئی اور نہ نمناک ہوئی
آنکھ سے کتنے حوادث  کی شناسائی ہے

اب تو ممتازبدل جائے مقدر تیرا
ٹوٹنے کو تیرے حالات کی انگڑائی ہے
●●●
    کلام : ممتازملک
      مجموعہ کلام:سراب دنیا
اشاعت:2020ء
●●●


پاگل خانہ یا اقتدار۔ چھوٹی چھوٹی باتیں


پاگل خانہ یا اقتدار



زنگ آلودہ تلواروں سے جنگیں جیتنے کا خواب دیکھنے والے دنیا بھر میں  پاگل خانے میں ہوتے ہیں اور ہمارے ہاں اقتدار میں ہوتے ہیں ۔
(چھوٹی چھوٹی باتیں)
(ممتازملک.پیرس )

اچھے مشورے۔ چھوٹی چھوٹی باتیں


اچھے مشورے 


اچھے مشورے اندھیرے راستوں میں چراغوں کی مانند ہوا کرتے ہیں ۔ جو گمراہ نہیں ہونے دیتے ۔
(چھوٹی چھوٹی باتیں )
(ممتازملک.پیرس)

بدھ، 17 اپریل، 2019

اب تو ملتی کہاں ۔ شاعری ۔ سراب دنیا




اب تو ملتی کہاں
       (کلام/ممتازملک۔پیرس)


اب تو ملتی کہاں پر وفا ہے
دل لگانے کی شاید سزا ہے

مسکرا کر اسے دیکھ لینا
ٹوٹے دل کی یہ ہی اک دوا ہے

مجھ سے شاید کچھ ایسا ہوا ہے
جس کے بدلے ملی یہ سزا ہے

دوستوں کی نگاہوں سے جانا
کہ وفاؤں کا بدلہ جفا ہے

ہم نے جسکے لیئے خود کوچھوڑا
آج تنہائی اسکا صلہ ہے

رات بھر سو نہ پائے اگر ہم
پھر سے بجلی گری شور اٹھا ہے

تُو نے ممتاز امید باندھی
اب بھی امید پر وہ کھرا ہے
۔۔۔۔۔۔



● (19) میرا محور بدل گیا / شاعری ۔ سراب دنیا


(19) میرا محور بدل گیا



❤خواہش بدل گئی میرا زیور بدل گیا 
جب سے بنی ہوں ماں میرا محوربدل گیا


❤دکھ دوسروں کے مجھ سے جدا اب نہیں رہے
لہجہ بدل گیا میرا تیور بدل گیا


❤دھڑکن کی گونج میں بڑی طاقت سی آ گئی
انداز ہی دعاؤں کا یکسر بدل گیا


❤اللہ سے کچھ مزید ہی قربت سی ہو گئی
جیسے کہ دوستی کا تصور بدل گیا


❤بھرپور تھا مگر اسی اک پھول کے آتے
جیسے کوئی درخت تناور بدل گیا


❤مجھ کو یقین آنے لگا اپنی ذات پر
پہلے تھا بے یقین جو باور بدل گیا


❤گویا عبادتوں کا ثمر مجھکو مل گیا
چاہت بدل گئی میرا دلبر بدل گیا


❤بہتات تھی جووقت کی قلت میں ڈھل گئی
میری حیات کا سبھی منظر بدل گیا


❤ممتاز ذمہ داریاں بڑھنے لگیں میری 
رکھنا یہ میرے ہاتھ کا سر پر بدل گیا
●●●
کلام: ممتازملک 
مجموعہ کلام:
سراب دنیا 
اشاعت:2020ء
●●●

منگل، 16 اپریل، 2019

پیرس کا جھومر۔۔ کالم


پیرس کا جھومر نوتغ دام
(تحریر/ممتازملک.پیرس)





 15  اپریل 2019ء بروز پیر دنیا کی تاریخ کا  ایک اور صدماتی دن ۔ فرانس کے دارلحکومت پیرس کے قلب میں واقع نو سو سال پرانا تاریخی چرچ( نوتغ دام )  Notre Dame کا بڑا حصہ اور کیتھیڈرل جل کر راکھ ہو گیا۔ پیرس میں ایک اندازے کے مطابق پیرس کا جھومر کہلانے والے اس  تاریخی چرچ کو دیکھنے کے لیئے ( دنیا کے ہر مذہب کا باشندہ ملا کر) سالانہ ایک کروڑ سے زیادہ سیاح صرف اس  چرچ کا نظارہ کرنے کے لیئے آیا کرتے ہیں ۔ 
یہ صرف ایک چرچ نہیں ہیں ۔ نو سو سال کی تاریخ ہے، تعمیرات کا عظیم الشان شاہکار ہے ، اس میں قدم رکھتے ہی آپ صدیوں کا سفر لمحوں میں کرنے لگتے ہیں ۔  اتنی سیڑھیاں ہیں ۔اس میں کہ آپ چلتے چلتے تھک جاتے ہیں، لیکن نگاہیں تھکنے سے انکار کر دیتی ہیں ۔ 
اس کے دن کا نظارہ ایک الگ روپ رکھتا ہے تو شام ڈھلتے ہی رنگ برنگی روشیوں میں نہانے کے بعد یہ کسی اور دنیا کا نظارہ پیش کرتا ہے ۔ 
فرانس بھر کے عوام کے لیئے یہ ایک تاریخی نقصان بھی ہے اور صدمہ بھی ۔ ملک بھر سے ہر کمپنی نے اس کی تعمیر نو کے لیئے فنڈز دینے کا اعلان کر دیا ہے ۔ ہو سکتا ہے جلد ہی اس کی تعمیر بھی دوباہ سے شروع  ہو کر اس کو پھر سے اپنی اصل شکل میں لایا بھی جا سکے ۔ لیکن اگر  اس میں رکھے نوادرات و تبرکات  کو۔کوئی بھی نقصان پہنچ چکا ہے تو وہ اب دوبارہ کبھی واپس نہیں لائے جا سکتے ۔ یہ تاریخی نقصان اب کبھی پورا نہیں کیا جا سکتا ۔ 
نوتغ دام کا اردو مطلب ہے ہماری عورت ، اس کیتھیڈرل چرچ کی بنیاد  بشپ مورس ڈی سلی نے   1160ء میں شروع کروائی  اور اس کے بعد صدیوں میں اکثر اس میں اضافی تعمیرات ہوتی رہیں ۔  1260ء میں اسے  بڑی حد تک مکمل کر لیا گیا تھا. 1790ء  میں نوتغ دام کو بھی  انقلاب فرانس کے اثرات کا  سامنا کرنا پڑا۔  مذہبی فرقہ پرستوں نے اسے شدید  نقصان پہنچایا. 1804ء  میں گرجا میں  شہنشاہ فرانس کے طور نپولین کی تاجپوشی کی گئی تھی،  یہ چرچ ہنری کے بپتسما کا گواہ ہے ،1821ء میں Chambord کی گنتی  کا شمار اور فرانسیسی جمہوریہ کے کئی صدور کے جنازوں نے اسے وجہ شہرت بخشی تو وہاں اس گرجا کی مقبولیت میں بہت بڑا کردار معروف لکھاری وکٹر ہیوگو کے ناول "نوٹر ڈیم کا کبڑا "کے 1831ء میں ہونے والی  اشاعت نے ادا کیا . 
1963ء میں اس کی باقاعدہ صفائی کر کے اسے اس کے اصلی رنگ میں لایا گیا ۔ 
یہ گرجا پیرس کے شہر اور فرانسیسی قوم کے سب سے زیادہ وسیع پیمانے پر معروف علامتوں میں سے ایک ہے.   نوتغ دام  پیرس میں سب سے زیادہ دیکھی جانے والی  یادگار ہے ۔ 
جو اب جل کر بہت بڑا مالی تاریخی اور جذباتی نقصان دے چکا ہے ۔ اور ہم اس کی تعمیر نو کے لیئے پرامید ہیں ۔
                      ۔۔۔۔۔۔۔

اتوار، 14 اپریل، 2019

اہم کتاب مگر انگریزی ۔۔۔کالم


اہم کتاب مگر انگریزی میں کیوں ؟
                  (تحریر/ممتازملک.پیرس)



کچھ عرصہ قبل  لاہور میں
(Anothwe prospective)نامی کتاب کی شاندار تقریب رونمائی کا اہتمام کیا گیا ۔ اس کتاب کے مصنف ہیں کرکٹ کی دنیا کے معاملات سے وابستہ  ایک بڑا نام،  بین الاقوامی ماہر نشریات و اطلاعات،   کرکٹ پروموٹر ، ویلز کرکٹ کپ کے بانی ، تعلقات عامہ کی عالمی شخصیت
 جناب طاہر میمن صاحب۔ جنہوں نے 1977ء سے 1998ء تک کی کرکٹ  ان کہی تاریخ کو اس کتاب میں محفوظ کر دیا ہے ۔ 
لیکن حیرت و افسوس  یہ ہوا کہ انہوں   نے اپنے قیمتی تجربات قلمبند بھی کیئے تو انگریزی زبان میں ۔ یعنی  بائیس کروڑ لوگوں کے ملک میں سے بائیس ہزار لوگوں کے لیئے ۔ ان میں سے بھی شاید 22 لوگ ہی اسے خرید کر پڑھنے کی زحمت فرمائینگے ۔ ۔ 
ہر لکھنے والے کو یہ بھی سوچنا چاہیئے کہ وہ کتاب کس ملک کے لیئے، کس زبان کے بولنے پڑھنے والوں کے لیئے لکھ رہا ہے ؟ کیا اسے اس ملک کی اکثریتی آبادی پڑھنے اور سمجھنے کی اہلیت رکھتی ہے ؟  کیا اس کتاب سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانے والوں کی تعداد اکثریت میں ہے یا اقلیت میں ۔ بہت سا پیسہ خرچ کر کے ،  بڑی سی محفل سجا کر ، بڑے بڑے معروف نام اکٹھے کر لینے سے کیا یہ کتاب عام آدمی کے مفاد میں اضافہ دینے لائق ہو جائے گی ؟ یہاں تحفے میں دو چار سو یا ہزار کتب تقسیم کر لینے سے کیا اس میں تحریر کردہ تجربات عام آدمی (جو بمشکل سرکاری سکول میں پڑھنے والے انسان ہیں )کی زندگی بدل دیں گی ؟ 
 میں نے آج تک کسی انگریز کو اپنے زندگی کے تجربات فرنچ میں لکھتے بیان کرتے نہیں دیکھا ، کوئی فرنچ جرمن زبان میں اپنے تجربات اپنی قوم میں بانٹنے نہیں آتا ۔ کوئی اٹالین اسپینش میں ، انگریزی میں اپنی قوم کو سبق پڑھانے نہیں آتا ۔ تو ہمیں اپنی قوم پر  کسی غیر زبان میں رعب ڈالنے کا مرض کیوں ہے ؟                               اگر ایسا  ہے تو جان لیجیئے کہ جنگل میں مور ناچا کس نے دیکھا ۔ 
برائے مہربانی ان تمام بہت ہی ذیادہ پڑھ لکھ گئے لوگوں سے درخواست ہے کہ اپنے ملک کے لوگوں تک لکھ کر، سنا کر جو بھی چیز پیش کرنی ہو،  تو اس کی اکثریت کی بولی اور سمجھی جانے والی زبان کو ہی ذریعہ اظہار بنایا جائے ۔ تاکہ پڑھنے اور سننے والے کو اس بات کی سمجھ آ سکے اور وہ اس پر غور بھی کر سکے ، ورنہ لکھنے والے کی سب ڈگریاں ، سبھی حیثیتیں محض شو پیس بنکر ہی رہ جا تی ہیں ۔
ہماری زبان اردو بہت خوبصورت اور جامع ہے ۔ ہمیں ہر کتاب ہماری اردو زبان ہی میں چاہیئے ۔
 انگریزی قلمکار اپنی کتابیں امریکہ اور انگلیڈ میں جا کر  انگریزی میں ضرور پیش کریں ۔ جناب طاہر میمن صاحب کو ان کی کتاب کی اشاعت پر دلی مبارکباد ۔ لیکن جلد ہی اس کتاب کے اردو ایڈیشن کی امید کیساتھ ۔ 
                       ۔۔۔۔۔۔ 


ہفتہ، 13 اپریل، 2019

سلام جیسنڈا آرڈرن ۔ کالم



        سلام جیسنڈا آرڈرن
                   (تحریر/ممتازملک.پیرس)


 15 مارچ 2019ء بروز جمتہ المبارک نیوزی لینڈ کی سرزمین کا ایک سیاہ ترین  دن جب عبادت میں مصروف 60 سے زیادہ پرامن اور معصوم مسلمانوں کو کرائسٹ چرچ نامی شہر کی دو مساجد النور اور لن وڈ میں بیدردی سے نشانہ بنا کر شہید کر دیا گیا ۔ ایک آسٹریلوی عیسائی دہشت گرد نے مکمل منصوبہ بندی کیساتھ یہ کاروائی انجام دی ۔ ایسے خوفناک واقعات سے دنیا  میں انسانیت کی تذلیل کی جو مثال پیش کی گئی وہ کسی بھی ملک کے اپنے حالات کے لیئے بھی تباہ کن ثابت ہو سکتی تھی  وہاں اتنے پریشان کن حالات میں
ایک اکیلی  عورت جیسنڈا آرڈرن جس کی انصاف پسندی ، اعتماد اور ہمدردی نے عورت کا مقام ان سینکڑوں حمکران مردوں میں بلند کر دیا ۔ جس نے مامتا، محبت اور سچائی کا پرچم تھام کر اپنے ناانصاف عالمی طاقتوں کے صدور اور میڈیا کے  سامنے  حق کی آواز کو بلند کر دیا ۔ بے خوف ، جراتمند ، پراعتماد عورت،  سچی عورت ، جسے دیکھ کر خوشبو، اوس ، جھرنا، مرہم ، جگنو جیسے الفاظ کے صحیح معنے سمجھ میں آنے لگتے ہیں ۔
دنیا میں عالمی طاقتوں کی سازشوں نے جہاں معصوم مسلمانوں کی زندگیاں  عذاب بنا رکھی ہیں ۔ ان کا لہو پانی سے ارزاں کیا جا چکا ہے ۔ ان کی عزتوں کو روندنا اپنی بڑائی مانا جا رہا ہے ۔ ایسے عالمی افق پر مسلمانوں کو اس سچی آواز نے یہ پیغام دیا کہ ہاں ابھی کچھ لوگ سچائی اور معصومیت کا ساتھ  دینے کو، اسے پہچاننے کو اور اسے تسلیم کرنے کو اسی دنیا میں موجود ہیں  ۔ وہ کام جو بڑی طاقتوں کو بڑا بناتیں، انہوں نے تو کرنے کا نہ حوصلہ دکھایا نہ ہی ظرف ، لیکن ایک چھوٹے سے امن پسند ، انسانیت نواز  اور محبت پاش قوم کی مہربان اور سچی خاتون وزیر اعظم جیسنڈا آرڈرن نے کر دکھایا ۔ مشکل کی اس گھڑی میں جہاں بڑے بڑے مرد لیڈران کے قدم کوئی فیصلہ کرتے ہوئے لڑکھڑا جاتے ہیں ۔ وہاں اس ثابت قدم خاتون نے لمحہ بھر میں ایسا فیصلہ کیا جس نے اسے رہتی دنیا تک تاریخ کے صفحات میں زندہ و جاوید کر دیا ۔ نیوزی لینڈ کی پوری  قوم اس خاتون کے بطور انکی وزیر اعظم انتخاب پر مبارکباد کی مستحق ہے ۔ اور جیسنڈا آرڈرن نے اپنے انتخاب کو اپنے عمل سے  اپنی قوم کا بہترین انتخاب ثابت کر کے دکھا دیا ۔ خدا کی  محبت کی وہ آواز جو آذان کی صورت  سیدھا دلوں میں ترازو ہو جاتی ہے ، جسے کم ظرف لوگ سننے سے انکار کرتے ہیں اس آواز کو اپنی پوری قوم کو سنا کر ان کے دلوں  کو نور کے راستے  کے لیئے کھول دیا ۔ 
جیسنڈا کے ان بہادرانہ اقدامات نے نہ صرف مسلمانوں کے دلوں میں بلکہ اپنے ملک میں موجود ہر کمیونٹی ، ہر مذہب کے لوگوں کو اس بات کا یقین دلایا ہے کہ وہ اس وقت دنیا کے سب سے محفوظ ، سب سے عظیم اور سب سے باوقار ملک میں موجود ہیں ۔
 جہاں آپ تک پہنچنے والی کسی بھی مصیبت کو سب سے پہلے آپ کی حکومت سے ٹکرانا ہو گا ۔ آپ کے خاندان کسی بھی مشکل کی صورت میں بے آسرا اور لاوارث نہیں چھوڑے جائینگے ۔ بیشک بہادر قومیں ہی بڑے اور منصفانہ فیصلے لے سکتی ہیں ۔ میں ممتازملک اپنی پوری پاکستانی قوم کی جانب سے مادام جیسنڈا آرڈرن کو اتنے مشکل حالات پر کامیابی سے بہترین انداز میں قابو پانے پر تہہ دل سے مبارکباد پیش کرتی ہوں ۔  اس امید کیساتھ کہ بہت جلد  اس عیسائی دہشتگرد کو عبرتناک سزا دی جائے گی ۔ اور اس بات کو یقینی بنایا جائیگا کہ دہشتگرد کا کوئی بھی مذہب ہو وہ قابل معافی نہیں ہو سکتا ۔  آپ کی انصاف پسندی کو ، مشفقانہ طرزعمل کو کھڑے ہو کر سلیوٹ پیش کرتی ہوں ۔ اور اس بات کی خواہش کرتی ہوں کہ اگر اس سال کسی کو دنیا میں مہربانی ، مذہبی رواداری یا امن کا نوبل پرائز دیا جانا ہے تو اس کے لیئے جیسنڈا آرڈرن سے بڑھکر اور کوئی نام نہیں ہو سکتا ۔ میں اپنی پاکستانی قوم ،مسلم امہ اور انسانی معاشرے کی جانب سے آپ کے لیئے ڈھیروں دعائیں اور نیک خواہشات کے گلدستے پیش کرتی ہوں ۔ جو اس دنیا میں امن و آشتی اور بھائی چارے کی خوشبو پھیلائے رکھیں ۔ آپ پر اور آپ کی قوم پر سلامتی ہو۔  آمین 

جمعہ، 12 اپریل، 2019

● (23) کتنا اونچا مقام / نعت ۔ اے شہہ محترم صلی اللہ علیہ وسلم


(23) اونچا مقام
(کلام/ممتازملک۔پیرس)


کتنا اونچا مقام آپ کا ہے
آسمانوں پہ نام آپ کا ہے

جس جگہ پرٹہر گئے جبریل
اس سے آگے  قیام آپ کا ہے

جانے کب سے اجڑ گیا ہوتا
اس جہاں پر سلام آپ کا ہے

جو بھی سن لے سحر زدہ ٹہرے 
سب سے دلکش کلام  آپ کا ہے

بخت والےسمجھ سکیں ممتاز 
الوہی انتظام آپ کا ہے
●●●
کلام: ممتازملک.پیرس 
مجموعہ کلام: اے شہہ محترم صلی اللہ علیہ وسلم 
اشاعت:2019ء 
●●●



MumtazMalikParis.BlogSpot.com 
......



✔ کچھ مختلف ہوں لیکن انسان تو ہوں میں ۔ کالم۔ لوح غیر محفوظ


کچھ مختلف ہوں لیکن
انسان تو ہوں میں 
     (تحریر/ ممتازملک.پیرس)  



 ہر انسان میں اسکی جنس کے ہارمونز ہی اسے دوسری جنس سے مختلف صورت میں پیدا کرنے کا باعث ہوتے ہیں ۔ جیسے میل ہارمونز ایک بیٹے کی صورت میں انسانی وجود عطا کرتا ہے تو اسے طرح فی میل ہارمونز بیٹی کی صورت میں دنیا پر ایک وجود کو لاتے ہیں 
 گویا کھیل ہے سارا ایکس اور وائی کروموسومز کا ۔ پھر جب کہیں یہ ہارمومونز اور کروموسومز اپنا توازن برقرار نہیں رکھ پاتے تو دنیا میں آنے والا بچہ  بطور انسان کچھ مختلف مزاج اور عادات اور کبھی جسمانی ساخت کی کسی کمی بیشی کیساتھ  تولد ہوتا ہے ۔
 اس  میں اہم بات یہ ہوتی ہے کہ وہ بیک وقت لڑکے کے وجود میں لڑکی کے ہارمونز کیساتھ پیدا ہوتا ہے یا پھر لڑکی کے وجود میں لڑکوں جیسے ہارمونل عناصر کو لیکر پیدا ہوتی ہے ۔ 
ان بچوں میں جو وہ دکھائی دیتے ہیں ان کہ عادات اور انداز اس سے  مختلف جنس کو ظاہر کرتی ہے ۔ یوں ان کا جسم اور ذہن دو دنیاوں کو لیکر سفر کر رہا ہوتا ہے ۔ 
ہم انہیں خواجہ سرا، ہیجڑا ، کھسرا ، کراس جینڈر کے ناموں سے پکارتے ہیں اور ایسے ناموں سے عجیب سے گھٹیا سی لذت بھی حاصل کرتے ہیں ۔ کیوں ؟  یہ بات آج تک ہمارے پلے نہیں پڑی ۔ کیا ان کا جسمانی اور روحانی  کشمکش کا یہ کھیل انہیں انسانوں کی فہرست سے خارج کر دیتا ہے ؟ کیا ان کی رگوں میں خون کا رنگ سرخ نہیں ہے ؟  کیا ان کے سینے میں بھی دل موجود نہیں ہے یا سر میں دماغ موجود نہیں ہے؟ انہیں بھوک نہیں لگتی یا انہیں چوٹ لگنے پر درد نہیں ہوتا ؟ انکی آنکھ سے تکلیف میں آنسو نہیں بہتے؟
ان کی کوئی عزت نفس نہیں ہوتی ؟
یا ان کی کوئی کمی انہیں اچھوت بناتی ہے جو آپ کو بھی لگ جائے گی ؟
یہ بات سارے معاشرے کو تو سمجھنی ہی چاہیئے لیکن سب سے پہلے یہ باتیں اس کے والدین کو سمجھ آنی چاہیئیں ۔ کہ کسی ایک عادت یا رویئے  یا جسمانی کمی بیشی سے اس کے باقی سب جذبات و احساسات سن نہیں ہو جاتے ۔ بلکہ وہ جس امتحان کیساتھ پیدا ہوا ہے اسے زیادہ تحفظ اور محبت کی ضروت ہے ۔ کبھی آزما کر دیکھیئے آپ کے بڑھاپے اور بیماری میں ساری نارمل اولادوں سے کئی گنا زیادہ یہ آپ کی خدمت بھی کرتے ہیں اور آپ سے محبت بھی کرتے ہیں ۔ 
ان بچوں کو اللہ کی رضا سمجھ کر جس رخ پر ان کا جھکاو ہے اس سے بدل کر جس وجود میں وہ دکھتے ہیں، اسمیں لانے کے لیئے انہیں اسی طرح کے کاموں اور مشاغل میں  مصروف رکھنا بھی ایک کوشش ہو سکتی ہے۔
ان کے حقوق کی حفاظت کرنا والدین اور بہن بھائیوں کی سب سے بڑی ذمہ داری ہے ۔ 
ان بچوں کو بھرپور تعلیم اور تربیت کی ضرورت ہوتی ہے ۔ ۔تاکہ یہ معاشی طور پر بھی خود مختار ہو سکیں ۔ اور کسی کی بھی محتاجی سے محفوظ رہیں ۔ یہ دل کے بیحد نازک ہوتے ہیں۔ ہمارے معاشرے کی دوسری خرابیوں میں یہ بھی سر فہرست ہے کیونکہ یہ بچے  دوسروں کی نظروں کے تیر بھی سہتے ہیں ، ان کے مذاق کو بھی جھیلتے ہیں ۔ شاید سامنے والے اپنے عورت اور مرد ہونے کو اپنا ہی کوئی کارنامہ سمجھتے ہیں  اور یہ ان کے لیئے کوئی لطیفہ ہے ۔ لیکن وہ والدین خصوصا والد جو ایسے بچے کو اپنے لیئے خدا کی رضا سے زیادہ اپنی بدنامی پر تعبیر کرتے ہیں ۔  وہ یہ بات بھول جاتے ہیں کہ خود ان کے مرد ہونے میں بھی ان کا اپنا کوئی کمال نہیں ہے ۔ یہ بچہ خود سے اس کشمکش کی زندگی کو منتخب کر کے نہیں آیا ۔ آپ سے زیادہ وہ آزمائش میں ہے ۔ جو کبھی اپنی روح کو فالو کرنا چاہتا ہے اور کبھی اپنے جسم کو ماننے کی کوشش کرتا ہے ۔ ایسے بچوں کے والدین اور بہن بھائیوں کو ان کے ساتھ خاص محبت اور لگاو کی ضرورت ہوتی ہے ۔ انہیں خود سے دور مت کیجیئے ۔ ورنہ ہمارا معاشرہ انہیں نہ تو کوئ عزت دیتا ہے اور نہ ہی تحفظ ۔ ان کو بھی نارمل بچوں کیساتھ پڑھنے کا پورا حق ہے ۔ لیکن ایسا تبھی ممکن ہو گا جب ہمارے معاشرے کے بالغ افراد اپنی بالغ نظری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی اولادوں کو یہ تربیت دیں کہ کسی کی کسی کمی پر، مذہب پر،  عقائد پر کبھی آپ بات نہیں کرینگے ۔ یا کہیں بات یو تو اس کا مذاق نہیں اڑائینگے۔ 
ہمیں اس بات کی آج تک سمجھ نہیں آ سکی کہ پیدا کرنے والے ماں باپ اپنی ہی اولاد سے کسی کمی یا اس کے کچھ مختلف ہونے پر اس سے  نفرت کیسے کر لیتے ہیں ۔ اللہ پاک نے یہ اولاد آپ کی تربیت اور آپ کی محبت پر برابر کے حق کیساتھ عطا فرمائی یے ۔ 
بلکہ کچھ مختلف بچوں کو آپ کی زیادہ محبت اور رہنمائی کی ضرورت ہوتی ہے ۔
 یہ اولاد آپ سے باقی اولادوں سے کہیں زیادہ محبت کرتی ہے ۔ آپ کے لیئے دعا گو ہوتی ہے ۔
 خدا کے لیئے انہیں دھتکاریں مت ۔ ورنہ یہ معصوم برے اور بدکار لوگوں کے ہتھے چڑھ کر کیسے کیسے کاموں میں ملوث کر دیئے جاتے ہیں کہ آپ اس کا تصور بھی نہیں کرسکتے ۔
یاد رکھیئے آپ کو خدا کے سامنے  اس اولاد کے بارے میں  بھی برابر کا جوابدہ ہونا ہو گا ۔ 
                         ۔۔۔۔۔

جمعرات، 11 اپریل، 2019

رو نہیں رلاو ۔ کالم


          رو نہیں رلاو  انہیں 
               (تحریر/ممتازملک.پیرس)


پچھلے سال گھر بھر کی کفیل جواں سال بس ہوسٹس کو ایک ٹھرکی نے جس طرح بس سٹینڈ پر گولی ماری اس کی پھانسی کا ابھی انتظار ہی ہے کہ کل رات ایک اور بس ہوسٹس کو بری طرح سے ہراساں کیا گیا اور ہمارے جواں سال مردوں کا جم غفیر اس بے بس روتی ہوئی مجبور  لڑکی کو یہ کہہ کر دلاسے دیتا رہا کہ
 ایسے لوگوں کے منہ نہیں لگتے ۔ 
کاش کوئی دو تین اصیل ماوں کی اولاد ہوتے اور اس شخص کو مار مار کر دنبہ بناتے اور پولیس کے حوالے کرتے تو واقعی ان کی مردانگی کو داد دینے کو جی چاہتا ۔ لیکن نہیں جناب سنائی دیا بھی تو یہ مشورہ 
کہ خاموش ہو جاو۔
 یہ نوکری کرنے کی کیا ضرورت ہے ؟ 
گھر سے نکلو گی تو ایسا ہی ہو گا، وغیرہ وغیرہ وغیرہ
سلام ہے ایسے  غیرتمند مشیروں کو ہمارا ۔ 
ان میں سے کتنے ہونگے جو ایسے مجبور گھروں کی مطلقاوں  ، بیواوں اور یتیم بچوں کے گھروں کی کفالت کی ذمہ داری بلا کسی شرط اور بنا کسی مطلب کے اٹھائیں گے ؟ بنا کسی گندی نظر کے ان کے گھر اور گھر والوں سے ملے بنا ، نامحرمی کا لحاظ شرم رکھتے ہوئے ان کے بچوں کی تعلیم ،خوراک ، پوشاک ، کرائے، اور بیٹیوں کی شادیوں کے لیئے مالی مدد فراہم کریگا ۔۔ایک بھی نہیں ۔پھر بھی اپنی یہ مشاورت  کی جگالی ضرور کرتے رہینگے کہ 
ششششش خاموش ہو جاو،
 یہ نوکری کرنے کی کیا ضرورت ہے ؟ 
گھر سے نکلو گی تو ایسا ہی ہو گا، 
۔ بلکہ میں دو قدم اور آگے بڑھاونگی اس  بات کو کہ گھر بیٹھی باپ ، بھائی شوہر اور بیٹے کے سر پر عیش کرنے والی عورت کو کیا پتہ کہ جب سر پر مصیبت و افتاد آ پڑتی ہے ، جب ایک کی کمائی سے گھر کا چولہا جلانا ممکن نہ رہے تو گھر سے باہر کمانے کو نکلنا ہی پڑتا ہے ۔ اور 
 جب گھر سنبھالنے اور کمانے کے لیئے کمر کس ہی لی ہے تو اپنے آنسو ، اپنے جذبات اپنے گھر کے صندوق میں بند کر جاو اور  ایسے ماحول میں رونے کے بجائے اس خبیث مرد کو رلانے والی ہمت دکھائیں ۔
آپ جیسی خواتین جو  ملازمت کر رہی ہیں جہاں یہ نظر باز ، بدکار نگاہیں اور بدکار ہاتھ اپنے جسم کے ہر حصے سے زنا کا فریضہ سر عام انجام دیتے ہیں ۔ انہیں سبق سکھانا بھی آپ ہی کی ذمہ داری ہے ۔ یاد رکھیں ایک کی ہمت ایک سو کو محفوظ کرنے کا باعث بنتی ہے ۔
ملازمت کرنے  والی خواتین پر پیٹ بھرے لوگوں کے اعتراضات اور  طعنے و تشنع کو بجا قرار دینے والے زرا  سوچیئے بطور سواری سفر کرتے ہوئے  بھی کیا عورت ان کے لیئے پکا ہوا پھل ہے اور 
 بسوں گاڑیوں کی سیٹوں میں سے ہاتھ گھسیڑ کر انگلیوں سے عورتوں کو چھونے والے، عورتوں کیساتھ بسوں میں ٹکرا ٹکرا کر  اور سونگھ سونگھ کر سفر کرنے والے یہ نفسیاتی بیمار اور ٹھرکی کیا کم اور چھوٹے کتے ہوتے ہیں ۔ ان کی بدمعاشیوں پر خاموشی ہی ان کو بڑھاوا دیتی ہے ۔ آپ اکیلی ہیں تو کیا ہوا ان خبیثوں کے ہجوم میں سے کوئی ایک تو غیرت مند ماں کا سپوت ضرور ہو گا جو آپ کی آواز میں آواز بھی ملائے گا۔  اسی حوصلے کیساتھ 
 اٹھیں سیٹ سے کالر دبوچ کر اس کا گلا پکڑیں ۔ 
اس کے منہ پر تھوکیں اور اس کی پیدا کرنے والی پر خوب لعنت بھیجیں اور ایسی ٹھکائی لگائیں کہ سالوں تک۔یاد رکھے اور اگر کوئی دوسرا لگا رہا ہو تو ثواب سمجھ کر چار جوتے آپ بھی جڑیں ۔ جب تک کہ وہ اس کرتوت کی آپ کے پیر پکڑ کر معافی نہ مانگے ۔ 
اپنی بہنوں اور بیٹیوں بیبیوں کو یہ بات سمجھا کر گھر سے باہر جانے دیں کہ بیٹا اپنے حلیئے کو درست رکھو ، لیکن جہاں کوئی ایسا کتا تم پر دانت پیسے تو پھر
 رو نہیں رلاو ان حرامیوں کو ۔
                   ۔۔۔۔۔۔۔

منگل، 9 اپریل، 2019

● شمشاد سرائی / تبصرے


تبصرہ برائے شمشاد سرائی


**عالمی شہرت یافتہ شاعرہ "محترمہ ممتاز ملک۔۔میری نظر میں**
معروف نعت گو شاعرہ،ادیبہ ،کالم نگار اور ہمہ جہت شخصیت کی مالکہ ممتاز ملک ایک عرصے سے پیرس (فرانس) میں ملک کی نمائیندگی کرتے ھوئے سوشل ورکر اور ٹی۔وی پروگرام انچارج کے طور پر کام کررھی ھیں۔تین کتب"مدت ہوئی عورت ھوئے، میرے دل کا قلندر بولے اور سچ تو یہ ھے" منصہء شہود پر آ کر داد و تحسین سمیٹ چکیں ھیں اور آٹھ کتابیں منتظرِاشاعت ھیں۔ آپ نے خواتین کے حوالے سے بھی قابِل ذکر خدمات سر انجام دیں ھیں اور فرانس کی پہلی نسائی تنظیم "راہِ ادب" کی صدر بھی ھیں۔نہایت دردِ دل رکھنے والی رائٹر ھیں۔انسانیت سے محبت اور ملک و قوم کے وقار کی علمبردار ھیں۔آپکے کلام میں وہ تمام خصائص موجود ھیں جو کہ آج کے عالمی ادب کا بیانیہ ھے۔تمام اصناف ِ ادب پر دسترس رکھتی ھیں۔
نمونہء کلام ملاحظہ فرمائیں۔
قدرت کے تحائف ہیں تیری ذات میں شامل۔
قسمت سے ہوئی اپنی ملاقات میں شامل
دکھ درد کی کوئی بھی گھڑی ایسی نہیں ھے
جب نہ ہو تیری یاد بھی حالات میں شامل۔
المختصر ممتاز ملک کا شمار ملک کے نسائی ادب میں ایک معتبر حوالہ ھے  
اللہ کرے زور ِ قلم اور زیادہ۔
مبصر۔۔
شمشاد سرائی 
(چیئر مین ادبی قبیلہ انٹرنیشنل ۔۔                                            پاکستان)
                          ●●●

ہفتہ، 6 اپریل، 2019

✔ ● ہم پاکستانی کدو ۔ کالم ۔ لوح غیر محفوظ


            ہم پاکستانی کدو
              (تحریر/ممتازملک.پیرس)



            ہم پاکستانی کدو
          تحریر: ممتازملک.پیرس 

ابھی ابھی سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی۔ایک ویڈیو دیکھنے کا اتفاق ہوا جو کہ  ایک امریکی نوجوان کی پاکستان کے دورے پر مبنی تھی ۔ جسے  دیکھ کر ہمارا تو ہنس ہنس کر رونا ہی نکل گیا  سچ میں ۔ جس میں ہر دکاندار انہیں ہر چیز مفت میں بانٹ رہا ہے ۔ کیا قلفیاں  ،کیا ٹوپیاں ، کیا جوتے ، کیا ہی کھابے، کیا رکشے ، کیا سواریاں ۔
کہ اس نوجوان اور اسکے گروپ کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں اور وہ بتا رہا ہے کہ وااااااو پاکستانی کتنی مہان قوم ہے۔ یہ مہمانوں کی کیا بےمثال میزبانی کرتی ہے ۔ کیا ملک ہے پاکستان ۔۔۔۔ واقعی جناب پاکستان جیسا ملک دنیا میں اور کہیں نہیں ہو گا ۔
 لیکن پاکستانیوں جیسی ڈرامہ باز قوم بھی کہیں نہیں ہو گی۔ جو انگریزوں امریکیوں اور انڈینز کے آگے تو باقاعدہ حاتم طائی بن کر اپنے خزانے کے منہ کھول دیتے ہیں اور اس کے کیش کرائے 28 ہزار روپے بھی دس دن میں خرچ نہیں ہونے دیئے ۔ لیکن جناب یہ ہم پاکستانی مہمانوں سے پوچھیئے جنہیں ثواب سمجھ کر کند چھری سے ذبح کرنا بھی یہ ہی پیارے پاکستانی اپنا اولین فریضہ سمجھتے ہیں۔ ہم باہر ہوں تو بھی بریانی کی پلیٹ سے انصاف کرتا ہوا ملک میں بیٹھا ہوا پیارا یا پیاری فون کی گھنٹی سنتے ہیں باقاعدہ ماتمی انداز میں، ہائے میں رڑ گیا ، ڈوب گیا ، بھوکا مر گیا ،کے بین سنائے گا/گی ۔ اور وہاں سامنے بیٹھے یا بیٹھی کو آنکھ مار کر اپنی ایکٹنگ پر داد لینے کو  فخریہ مسکراہٹ اچھالے گا/گی۔۔ جبکہ بیرون ملک سے فون کرنے والے ہم جیسے احمق کدو گھر کے راشن کے پیسے بھی اٹھا کر فورا اپنی بیوی یا شوہر کو بتائے بنا ہی اسے منی گرام کرنے کو دوڑ پڑے گا کہ اف خدایا کہیں دیر ہو گئی تو واقعی کسی کے مرگ کی خبر ہی نہ آ جائے ۔ پاکستان جانے کے لیئے ایک ایک کے لیئے کوئی نہ کوئی تحفہ نہ رکھا تو گویا آپ کی شکل دیکھنا ان کے لیئے حرام ہو جائے گی ۔ ہم وہاں مہمان نہیں ہوتے بلکہ ہم ہی وہاں بیٹھوں کے میزبان قرار دے دیئے جاتے ہیں۔ 
 بھئی آپ لوگ آئے ہیں تو ہماری بھی  آوٹنگ ہو جائے گی ھی ھی ھی ۔ ورنہ ہم کہاں جا پاتے ہیں کہیں، چلو بیٹا ماموں ، چاچا  تایا ، پھپھو آئی ہیں شاباش تیار ہو جاو ان کو کمپنی دینے کو۔ اور اس دس پندرہ لوگوں کی  کمپنی میں یہ ایک میزبان کدو ہوتا ہے جس کے سر پر اب پاکستان آنے کے جرم کی پاداش میں پوری پوری سزا کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ یعنی ہم جیسے باہر سے گئے پاکستانی کدو کا اب بھجیا بھی بنے گا اور حلوہ بھی۔ اس امریکی کے اٹھائیس ہزار بچانے والی قوم کے سیانے رشتہ دار اور ملاقاتیئے ہمارے ایک ماہ میں اٹھائیس لاکھ لگوا کر بھی ہم سے کبھی راضی نہیں ہوتے ۔ ہمارے ہی تحفے کو" ایک ہی "گننے والے کو وہ ایک ہزار لوگ کبھی نظر نہیں آئینگے جنہیں یہ ایک ایک کر کے تحفہ نوازی کی گئی ہے ، اس کی شادی ہے ارے آپ باہر سے آئے ہیں کچھ دے دیجیئے گا پہلی بار مل رہے ہیں نا، ان کا عقیقہ ہے ارے کچھ دیدیجیئے نا آپ تو باہر سے آئے ہیں ، اس کی سالگرہ ہے ،یہ پیدا ہو گیا ہے ، وہ مر گیا ہے ۔۔۔۔بس کسی نہ کسی بہانے کچھ دیدیجیئے نا 
 اب بندہ پوچھے تم لوگ یہاں رہتے ہو ۔یہ تمہیں تمہارے مواقع پر لوٹائیں گے ہماری کونسی خوشی غمی یہ بانٹنے آئینگے کہ ہم ان کو دے دیکر جائیں۔  
 تو سمجھ میں آیا کہ ہم کدو ہی تو ہیں ان سیانے پاکستانیوں کی کمیٹیاں ۔ ہم سے ہزاروں روپے بھروائے جاتے ہیں جو بعد میں وہ رشتہ دار اپنے گھر کی تقریبات میں کمیٹی اور بی سی کے طور پر کھلوائیں گے ۔ اسے کہتے ہیں آم کے آم گٹلیوں کے دام ۔ 
ہم تو ان کے موٹر سائیکل سے گاڑی اور تانگے سے رکشہ اور چنگچی کے کرائے اور پٹرول بھی بھرتے ہیں ۔ سارے گھر میں بیس بندوں کا راشن میں بھرواتے ہیں اور ہر روز ایک دو ہزار روپے  کہیں نہ بھی نکلیں تو مذاق ہی مذاق میں جھڑوا لیئے جاتے ہیں ، کس مد میں یہ آپ کو کبھی سمجھ نہیں آئے گی ۔ بل آیا ہے تو ان کے ٹبر کا بل بھی آپ ہی بھریں کیونکہ آپ نے غلطی سے ان کے ہاں انٹری جو دے دی ہے ۔ سو گھر کی ساری گیس اور بجلی آپ نے چوس لی ہے جو اب آپ کو نچوڑ نچوڑ کا نکلوائی جائے گی ۔ آپکو گنے کی طرح دوہرا چوہرا کر کے خرچوں کی مشین میں سے گزارا جائے گا ۔ جب تک آپ کا پھوک بھی بکری کے کھانے کے لائق نہ رہے ۔ جب تک آپ کی جیب کی زبان باہر آکر لٹک نہ جائے یہ سب آپکو جونک کی طرح چمٹے رہینگے ۔ جیسے ہی آپ کی جیب سے "خالی ہے" اور کارڈ سے  "نو بیلنس" کا نعرہ بلند ہو گا سب اسی طرح اپنی تاثرات اور رنگ بدلیں گے کہ آپ کو گرگٹ بھی معصوم نظر آنے لگے گا ۔ 
اس ویڈیو میں جو چالاک ٹولہ بیان دیتا ہے کہ ہم پیسے کو کچھ نہیں سمجھتے ۔ ہم سمجھتے ہیں رشتوں کو ویلیوز کو  اور روایات کو ۔ تو اس فلمی ٹولے سے کہیں خدا کو منہ دکھانا ہے کیوں پیچھے سے جا کر دکانداروں کو پیسے دیتے ہو۔ اور دنیا کی آنکھ میں مرچیں جھونکتے ہو ۔ کبھی تو سچ بول لیا کرو ۔ اگر ہمدردی اور میزبانی ہی کرنی ہے تو اپنے پاکستانی مہمانوں کیساتھ بھی یہ مہربانی کر دیا کرو ۔ جن کا خون چوسنے کی کیا رشتہ دار ، کیا دوست احباب،  کیا ملاقاتیئے ، کیا ہی دکاندار سب نے ہی  قسم کھا رکھی ہوتی ہے ۔ اللہ کے ہاں  کسی انگریز اور امریکی کو مفتے بانٹنے پر انعام نہیں ملنا کیونکہ وہ کوئی غریب غرباء اور محتاج نہیں ہیں بلکہ اپنے پردیسی پاکستانیوں پر ترس کھانے اور ان کی میزبانی کرنے پر ملنا ہے ۔ اگر ہمارے یہ تجربات جھوٹے ہیں تو پلیززززز مجھے بھی اسی ویڈیو والے مفتے پاکستان میں جانا ہے ۔۔کوئی بھیجے مجھے اس کا پتہ پلیززززز
اور ہاں ہم جیسے سارے کدو 
اپنے بچے سرکاری سکولوں میں سرکاری وظیفے لے لیکر پڑھانے والے کدو یاد سے اپنے پچھلوں کے انگلش میڈیم سکولوں کی فیس بھروانا نہ بھولیں ۔ آخر کو آپ کی قبر ہر چراغاں یہ ہی بھانجے بھتیجے ہی تو کروائیں گے ۔ اپنی اولاد تو خیرات پر پل ہی جائےگی ۔ 
واپس جائیں اور اپنے اندر نوٹوں کا پیڑ اگائیں اور فون کی گھنٹی بجا کر یا اٹھا کر اپنا پھر سے حلوہ بنوائیں 😁😁😁۔
لیکن یاد رکھیں پاکستان کے کلچر کو، اس کے حسن کو آپ کے جھوٹے تڑکے کی قطعی کوئی ضرورت نہیں یے ۔ یہ بےمثال ملک اپنی سچی خوبیوں ہی کی وجہ سے دوسروں کو متاثر کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہے ۔ اسے جھوٹ کی بیساکھیوں پر کھڑا کر کے معذور مت کہلوائیں ۔ یہ ملک اپنے پیروں پر کھڑا ہونا جانتا یے ۔ ضرورت ہے پاکستانیوں کو اپنی حیا ، خود داری اور محنت کشی کو جگانے کی ۔  اور اپنی لالچ ، شارٹ کٹس ،حرام خوری اور مفت خوری کو سلانے کی ۔۔۔
پاکستان زندہ باد 
                        ●●●

                      





جمعہ، 5 اپریل، 2019

آقا دا شہر ۔ اےشہہ محترم صلی اللہ علیہ وسلم ۔ پنجابی نعت



آقا دا شہر مدینہ 

کوئی وی مسجد نبوی دا قصہ جد سناندا اے 
مینوں آقا دا فیر شہر مدینہ یاد آوندا اے
مدینہ یاد آندا اے مدینہ یاد آندا اے 

کوئی ٹھنڈی ہوا دا  روح نوں جھونکا  ہلاندا اے 
مینوں آقا دا فیر شہر مدینہ یاد آوندا اے 
مدینہ یاد آندا اے مدینہ یاد آندا اے

کوئی وی کہہ کے جد  امی میرا ہاسا اڈاندا اے 
مینوں آقا دا فیر شہر مدینہ یاد آوندا اے 
مدینہ یاد آندا اے مدینہ یاد آندا اے

جدوں لیکے  کوئی داغ یتیمی وینڑں پاندا اے 
مینوں آقا دا فیر شہر مدینہ یاد آوندا اے 
مدینہ یاد آندا اے مدینہ یاد آندا اے

جدوں دھی نوں کوئی نفرت دی سولی تے چڑھاندا اے 
مینوں آقا دا فیر شہر مدینہ یاد آوندا اے 
مدینہ یاد آندا اے مدینہ یاد آندا اے

کوئی ممتاز جدغربت زدہ دا دل دکھاندا اے 
مینوں آقا دا فیر شہر مدینہ یاد آوندا اے 
مدینہ یاد آندا اے مدینہ یاد آندا اے
                  ۔۔۔۔۔۔۔۔            

  

اتوار، 31 مارچ، 2019

اے شہہ محترم ۔ اے شہہ محترم صلی اللہ علیہ وسلم





اے شہہ محترم

کلام /ممتازملک 


اے شہہ محترم ہو نگاہ کرم
واسطے نعت کے، زندگی میری کم

جو ہوا آپکا ، نام اس کا رہا
میرے شاہ امم میرے شاہ امم

اپنے ہر عیب پر سر جھکا ہے میرا 
آنکھ میری ہے نم اے شہہ محترم

آپ نے دین کے نام پر جو دیا  
تاقیامت ہی اونچا رہیگا  علم

یہ ملائیک سے ممتاز پوشیدہ ہیں 

آپ کی خوبیاں ہیں بدرجہ اتم

MumtazMalikParis.BlogSpot.com
......


جمعہ، 29 مارچ، 2019

✔ زیادتی کے واقعات کی شرح ۔ لوح غیر محفوظ


زیادتی کے واقعات کی شرح 
  (تحریر/ممتازملک.پیرس)



میں حیران ہوتی ہوں ان خواتین پر جو ہندو پاک میں رہ کر خصوصا پاکستان میں رہ کر ادھ ننگے لباس میں ،کھلے سر ، کھلے گلے ، بنا آستین یا برائے نام آستین  اور باریک لبادوں میں خود کو گھر سے باہر لاتی ہیں اور پھر شکایت کرتی ہیں کہ ہم محفوظ نہیں ہیں اور خود کو ڈھانپنے کا کہو تو فرماتی ہیں کہ ہم پردہ کیوں کریں تم پردہ اپنی آنکھوں پر باندھ لو ۔ 
سچ کہوں تو یہ پردہ ان بے پردہ  خواتین  کی عقل پر پڑ چکا ہوتا ہے جبھی تو ایک آذادی اور بےپردگی پسند گروہ کی خواتین کبھی یورپ امریکہ کی مثال دیتی ہیں کہ وہاں تو عورت بے لباس بھی گھومتی ہے وہاں کے مردوں پر تو عورتوں پر یوں جھپٹنے کے دورے  نہیں پڑتے  تو کبھی دوسری پردہ پسند خواتین امریکہ اور یورپ میں ہونے والے ہیرسمنٹ اور زیادتی کے واقعات پر فخر سے بیان فرماتی ہیں کہ دیکھو کیونکہ ہم پردے میں ہیں اس لیئے ہمارے ہاں ہیرسمنٹ اور زیادتی کے واقعات نہ ہونے کے برابر ہیں ۔۔۔۔
تو احترام سے ان دونوں گروہوں کی خواتین سے عرض ہے کہ پیاری بہنوں 

 ۔ ان (یورپ اور امریکہ ) کی مٹی میں اور ہماری مٹی میں،  آب و ہوا میں زمین آسمان کا سا فرق ہے ۔ وہ ٹھنڈے مزاج کے پرسکون لوگ ہیں ۔ وہ تو اپنی بیویوں پر نہیں ٹوٹ پڑتے تو کسی اور پر کیا ٹوٹ پڑیں گے ۔ اور ادھر  ہمارے مرچ خور گرم مزاج مرد تو جھاڑی پر دوپٹہ پڑا دیکھ کر اسے تاڑنے سے باز نہیں آتے ۔ کھسروں کے پیچھے پاگل ہو کر پری جیسی بیوی گھر میں بٹھا کر دوست کو قتل کر دینے والے ان  لوگوں کو یورپ اور امریکہ کے لوگوں سے مت ملائیں ۔ آپ میں سے وہ خواتین جو امریکہ یورپ میں رہ چکی ہیں کیا آپ کو عادات و مزاج کی یہ سردی گرمی محسوس نہیں ہوئی ؟
بالفرض میں غلط بھی کہہ رہی ہوں تو  بحیثیت مسلمان کے اللہ پاک کے احکامات کی لوجک سمجھ میں نہ آئے تو کیا ہم اسے رد کر دیں ؟
عصمت دری کے جو ریشو ہم پاکستان میں بیٹھے لوگ خوشی سے بیان کرتے ہیں ہمیں تو یہ ہی نہیں معلوم کہ وہاں زیادتی کہتے کس کو ہیں ؟  
یہاں یورپ اور امریکہ میں آدمی اپنی ہی بیوی کو اس کی مرضی کے بنا چھو لے تو وہ بھی اس پر ہیرسمنٹ اور زیادتی کا پرچہ کروا دیتی یا کروا سکتی ہے ۔ کسی کا ہاتھ اس کی مرضی کے بغیر پکڑنے پر اس پر یادتی کا کیس بنا دیتی ہیں ۔ اور نہ بنائیں تو اپنی مرضی سے کسی کے ساتھ بے نکاحے رہنے پر بھی کوئی اعتراض نہیں کرتی ہیں ۔ اسی لیئے یہاں کہتے ہیں کہ اگر کسی خاتون کیساتھ کوئی بات ہوئی ہے تو اس میں اس خاتون کی اپنی رضامندی کے بنا کچھ نہیں ہو سکتا ۔۔اسی لیئے یہاں پر سوئی جیسی بات بھی رپورٹ کی جاتی ہے جسے ہم عصمت دری کے واقعات کہہ کر خوش ہوتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ واہ واہ ہم تو صاف ستھرے ماحول میں ہیں ہمارے ہاں تو ایسے کیسز برائے نام ہیں ۔ جبکہ معاملات اتنے خوفناک ہیں کہ پاکستان میں اگر ہر کیس یورپ اور امریکی قانون اور آذادی کے حساب سے درج کروانے پر آئیں تو ہم دنیا میں ہیرسمنٹ اور عصمت دری کا ورلڈ ریکارڈ بنا سکتے ہیں ۔ یقین نہیں آتا تو  آپ اکیلی عورت کو برقعے ہی میں کسی سڑک کے کنارے کسی کے انتظار میں بھی  دس منٹ کھڑا کر کے دیکھ لیں آپ ایسا  نہیں کر سکتے ۔۔مردوں کا جم غفیر اسے گدھوں کے طرح گھیر کر جھپٹنے کو بیقرار ہو جائے گا ۔ اچھے بھلے شریف گھر کی شریف عورت بھی اس وقت خود کو پراسٹیٹیوٹ سمجھنے لگتی پے ۔ بس میں ،ٹرین میں ، بھرے بازار میں کہیں بھی سب کو بتا کر کہ میں اکیلی سفر کر رہی ہوں یا یہ لڑکی اکیلی سفر کر رہی ہے ۔ اس کی حفاظت سے باعزت پہچنے کی گارنٹی نہیں دی جا  سکتی ہے ۔ رہی بات ریشو کی تو جس معاشرے میں شریف اور گھر بیٹھی کنواری  لڑکیاں رشتوں کے انتظار میں بوڑھی ہو رہی ہیں وہاں اگر وہ کہیں اپنے ساتھ کسی کی زیادتی کا کیس بھی رپورٹ کروا دے تو ایمان سے بتائیں کتنے جرات مند و غیرت مند مرد ہوں گے جو اس سے شادی کرنے کو تیار ہونگے ؟ بلکہ سچ پوچھیں تو ہمارے منافق معاشرے میں ایسی عورت کو دھندے پر تو بٹھانے میں کسی کو کوئی عار نہیں ہو گا لیکن اسے بیوی بنا کر عزت کی چادر اوڑھانے والا کوئی نہیں ہو گا ۔ اس لیئے ہمارے ہاں ہر کیس کو مٹی ڈال کر زبان سی لی جاتی ہے ۔  صرف وہ کیسز منظر عام پر آتے ہیں جو چھپانے ناممکن ہو جاتے ہیں ۔ اس لیئے میں ممتاز ملک بیس  سال سے یورپ میں رہتے ہوئے ان یورپئین مردوں کی شرافت اور اعلی کردار کی گواہی دیتی ہوں اور  افسوس کیساتھ 26  سال پاکستان میں گزار کر پاکستانی مردوں کی اکثریت کی گھٹیا کردار اور گھٹیا سوچ ہونے کی گواہی دیتی ہوں ۔ ۔۔۔ سب نہیں لیکن اکثریت ۔۔۔۔باقی جو رہ جاتے ہیں یہ بھی وہ ہیں جنہیں یا تو موقع نہیں ملتا یا پھر ۔۔۔۔۔
میں یورپ میں  اپنی بیٹی کو رات کے دو بجے دو تین بسیں اور ٹرینیں لیکر ایک جگہ سے دوسری جگہ کام پر آنے جانے کی اجازت دیتی ہوں ۔ ایمانداری سے حلفا بتائیے کیا آپ پاکستان میں ایسا کر سکتی ہیں ؟ 
                        ۔۔۔۔۔۔

جمعرات، 28 مارچ، 2019

اہل بیت کے نام ۔ اب کونسا حسین ع س ۔ اے شہہ محترم صلی اللہ علیہ وسلم


         اب کون سا حسین ع س
             (کلام/ممتازملک.پیرس)

صحرامیں کون پھول کھلانے کو آۓ گا
پیاسوں کی کون پیاس بجھانے کو آۓ گا

اصغر جو کوئی روئے یہاں ظلم نگر میں
ماؤں کو کون صبر دلانے کو آۓ گا

چکّی میں ظلم کی جو  پسی جائیں بیٹیاں
تو کون سا حسینؑ بچانے کو آۓ گا

انسان کی بیچارگی کے اشک رواں ہیں
اب کون سا حسینؑ سکھانے کو آۓ گا

حق کے وفا کے سچ کے محبّت کے امن کے
آنکھوں کو کون خواب دکھانے کو آۓ گا 

ممتاز  ظلم کون مٹانے کو آۓ گا
اب کونسا حسین زمانے کو آئیگا 
۔۔۔۔۔۔


■ ناں سوہڑیاں. پنجابی کلام ۔ نعت/ اے شہہ محترم صلی اللہ علیہ وسلم ۔ او جھلیا


پنجابی نعت
       ناں سوہڑیاں 
(کلام /ممتازملک.پیرس)


  تہاڈا بدلاں نے لکھیا اے ناں سوہڑیاں
سارے جگ اتے کیتی تساں چھاں سوہڑیاں

ہر گل مینوں تہاڈے اگے گھٹ لگدی
شان وچ تہاڈی کی میں  کہاں سوہڑیاں

تہاڈی رضا نہیں جس کم وچ سوہڑیاں
 او کم کانوں میں دس کراں سوہڑیاں

 کرم تہاڈا جیڑا مینوں لے بچا نہیں تے
دشمناں دے واروں کنج بچاں سوہڑیاں

   فیر کی میں کرنا جنت دے باغاں نوں 
  قدماں چہ مل جائے جے تھاں سوہڑیاں

     ممتاز دتی ہوئی مدتاں توں عرضی 
 منظوری نوں اڈیکدی رہواں سوہڑیاں
                     ●●●                   

پنجابی نعت / قسماں نہ کھایا کر ۔ اے شہہ محترم




قسماں نہ کھایا کر
(کلام/ممتازملک. پیرس )


آقا دیاں ناواں دیاں قسماں نہ کھایا کر
کھا لویں جے فیر او گلاں تو نبھایا کر


گلاں دیاں قدراں توں اوناں نے پچھاڑناں اے
کوئی وی نہ ہویاجدوں اوناں نے سیاڑناں اے 
کلمے دا ہر ویلے  ورد پکایا کر 
آقا دیاں ناواں دیاں قسماں نہ کھایا کر 


ساڈےلئی ساری راتی اللہ دےحضور وچ
ہوکےبےقصورمنگیاں بخششاں حضوروچ
گل ہووے سوہنے دی تے چپ کر جایا کر
آقا دیاں ناواں دیاں قسماں نہ کھایا کر


 سچا ہو جا لوڑ کی اے فیر تینوں قسماں دی
بن کے امین رکھ لاج اودی رسماں دی  
 حکم حضور اتے سر نوں جھکایا کر
آقا دیاں ناواں دیاں قسماں نہ کھایا کر

رب سوہنا بھید سارے دل والے جاندا اے
ممتاز نیتاں وی ساڈیاں پچھاندا اے
دل دیاں گلاں تو نہ اوناں تو لکایا کر
آقا دیاں ناواں دیاں قسماں نہ کھایا کر
۔۔۔۔۔۔



منگل، 26 مارچ، 2019

دل زار چل ۔ اے شہہ محترم صلی اللہ علیہ وسلم


دل زار چل

در آقا پہ دل زار چل
تجھے مرحبا میرے یار چل

جہاں منسلک ہے سکون دل
وہاں اک نہیں کئی بار چل

تو بھلے برےکی تمیز کر
نہ یوں بے خبر سی گزار چل

اے ضمیر خوابیدہ سن ذرا
میرے آنسوؤں کی پکار چل

مجھے بیقراریاں سونپ کر
میری زندگی کے قرار چل

ابھی جنتوں کی خبر نہ دے
ذرا پل صراط کے پار چل

جہاں منتظر ہیں نبی زماں
اسی دلنشیں گلزار چل

وہاں جا کے کام کی ہو سکوں
ابھی تو ہوں  عضو بیکار چل

سبھی آزما کے ہیں دیکھ لیں
نہیں انکے عشق میں ہار چل

تیری مشکلوں پہ جو رو دیئے
ممتاز ان پہ  نثار چل
                      ۔۔۔۔۔

خاک ہے خاک میں ۔ اے شہہ محترم صلی اللہ علیہ وسلم

                   
            نعت پاک

خاک ہے خاک میں
(کلام/ممتازملک.پیرس)

یہ بدن خاک ہے بس خاک میں ملنے کے لیئے
روح پہنچے گی یہ افلاک میں ملنے کے لیئے

میری اوقات بہت کم یے کرم ہے زیادہ
ہے یہ جرات خس و خاشاک میں ملنے کے لیئے

ساتھ میرے ہے ہجوم اور میرا دل تنہا
سچ یہ ہے دیدہ نمناک میں ملنے کے لیئے

آرزووں کے جنازے پہ ہے دھوکے کا کفن
اب لحد اور عمل تاک میں ملنے کے لیئے

ہاں اسی حال میں اٹھو گے چھپانے والو
سب اسی حالت بیباک میں ملنے کے لیئے

کون پہچانے گا جب اپنی پڑی ہو گی ہمیں 
  آرزو ہے  بڑی  لولاک میں ملنے کے لیئے

کچھ بھی ممتاز ہو پہنچادو قدم بوسی کو
بس یہ صورت ہے  نگہہ پاک میں ملنے کے لیئے
                        ۔۔۔۔۔  

جمعہ، 22 مارچ، 2019

کرم کے سائے میں ۔۔۔ اے شہہ محترم صلی اللہ علیہ وسلم

   

          کرم کے سائے میں
        (کلام/ممتازملک.پیرس)

کرم کے سائے میں جی رہے ہیں
 پلانے والے پلا رہے ہیں پیاسے جی بھر کے پی رہے ہیں 

زمانے بھر سے  جو زخم کھائے 
طبیب اعلی کے پاس آ کر تمام زخموں کو سی رہے ہیں 

سبق یہ  ذات العلی سے پایا
صلہ رحمی کی زندگی میں کبھی نہ کرتے کمی رہے ہیں 


نجات ممکن ہے راستے میں
اگر یہ اسوہ وہی ہیں ممتاز جو آقا کی زندگی رہے ہیں
                       ۔۔۔۔۔۔۔


بدھ، 20 مارچ، 2019

✔ مجرمانہ خاموشی اور بندر بانٹ ۔ لوح غیر محفوظ


    مجرمانہ خاموشی اوربندر بانٹ
         (تحریر/ممتازملک.پیرس)


کہتے ہیں کہ کہیں آگ ہوتی ہے جبھی تو دھواں اٹھتا ہے ۔ ہمارے ملک میں این جی اوز کا کردار اور شہرت بھی ہمیشہ  سے ایسی ہی رہی ہے ۔ کچھ این جی اوز کو چھوڑ کر باقی سبھی کے ساتھ کوئی نہ کوئی بدنامی اور  شکوک و شبہات ہمیشہ ہی منسوب رہے ہیں ۔۔ اس کی یقینا مضبوط اور ٹھوس وجوہات بھی رہی ہیں ۔ پہلی وجہ ان کی چلانے والی اکثریت ان خواتین پر مشتمل ہوتی ہے جن کا اپنا کیریکٹر ریکارڈ زیرو ہوتا ہے۔ 
اکثر ہی اپنے گھر  کو چلانے میں ناکام رہی ہیں ۔
اکثر کی اپنی ہی اولادیں منشیات اور بےراوی کا شکار ہو کر انہیں ناکام مائیں ثابت کرتا ہے ۔
ان کے بینک اکاونٹس کے پیسے کا حساب کتاب حیران کن ہوتا ہے۔
ان کا طرز زندگی اکثر مادر پدر آذاد ہوتا ہے۔
ان کی اکثریت مذہب اور معاشرتی حد بندیوں سے بیزار ہوتی ہے ۔ 
ان کی اکثریت این جی اوز کی آڑ میں مشکوک سرگرمیوں میں ملوث پائی جاتی ہے ۔
یہ اکثر ملک دشمن لوگوں کی ڈارلنگ ہوتی ہیں ۔ 
معصوم اور بے سہارا لڑکیوں کی عزتیں ان کے پاس محفوظ نہیں ہوتیں ۔
ان کے پاس کسی بھی مدد کی طلبگار  خاتون کے لیئے پہلا مشورہ طلاق لینے  کا ہوتا ہے ۔
یہ اصلاحی سے زیادہ تخریبی کاروائیوں میں ملوث پائی جاتی ہیں ۔۔
یہ اور اس سے بھی کہیں ذیادہ شرمناک کاروائیوں میں ان این جی اوز کی مالکان اور کرتا دھرتاوں کے نام لیئے جاتے ہیں ۔ ان کا موجودہ کارنامہ معصوم ، عزت دار ،محنتی اور غریب خواتین کو ان کے حقوق کے نام پر اپنے بے شرمانا اور غلیظ مقاصد کے لیئے 8 مارچ 2019ء کے مارچ میں دھوکے سے شامل کرنا تھا ۔ اس کا ثبوت یی ہے کہ  اس مظاہرے میں شامل جس بھی عام عورت سے بات ہوئی تو مظاہرے کے مقاصد ہی کیا انہیں تو یہ تک معلوم نہیں تھا کہ ان کے ہاتھوں میں کون کون سے غلیظ پوسٹرز اور کارڈز پکڑا دیئے گئے ہیں ۔ انہیں بھی یہ خبر شام کو اپنے گھروں کے ٹی وی سیٹ  اور اخبارات و سوشل میڈیا سے ہوئی کہ انہیں کس طرح سے معاشرے کی ان غلیظ ہستیوں نے دنیا بھر میں اپنے ملک ، مذہب اور معاشرت کیخلاف بیچا ہے ۔ 
اس پر شاباش ہے ہمارے حکومتی ٹھیکیداروں کو جنہیں ملک میں ہوتے اس بے حیائی کے سونامی کی تو نہ خبر ہوئی نہ ان پر کوئی بجلی گری ، ہاں اگر کچھ بیحد ضروری تھا تو وہ اس  باندر کلے کے کھیل میں اپنی کام چوریوں اور  بربادیوں کے عوض اس ملک کے خزانے سے اپنی تنخواہوں کا بے تحاشا اضافہ تھا ۔ جس میں سارے ٹی وی کے نیوز چینل سیاسی مجاہدین  (برضا و رغبت لبیک کہتے شیروشکر تھے )قبول ہے ،قبول ہے ،کہتے رہے جو ہر روز میڈیا پر بیٹھے ایک دوسرےکی ماں بہن ایک کر رہے ہوتے ہیں ۔کہ خزانہ خالی ہے ۔ ہم بھوکے ننگے ہو گئے ۔۔دنیا ہمیں بھیک دے ۔ ہم پر ترس کھائے۔ جن کے حکمران ہر روز ایک نئے ملک میں امداد کا پیالہ لیئے گھوم رہے ہیں وہاں ہمارے نمائندگان بیٹھے چوپڑہاں بانٹنے میں مصروف ہیں ۔
گویا پھر سے ثابت ہو گیا کہ  جہاں مال و متاع کی ہڈی ہو گی وہاں ہر جماعت کے اراکین بلا۔لحاظ وتفریق
ایک ہی صف میں کھڑے ہو گئے محمود و ایاز
نہ کوئی بندہ رہا اور نہ کوئی بندہ نواز
کی عملی تفسیر  پیش کرتے نظر آئینگے۔
 لیکن اس بے حیائی کی نمائندگان کی تادم تحریر نہ ہی کوئی گرفتاری عمل میں لائی گئی ہے ، نہ ہی کوئی حکومتی ایکشن دیکھنے میں آیا ہے ۔ اس  کٹی پارٹی ، اور شاپنگ فوبیاز اور جنسی طور پر ترسی ہوئی بیقرار اور بدکار خواتین کے ٹولے کو عبرت ناک سزائیں دینا اتنا ہی ضروری ہے جتنا کسی دوپٹے کو آگ لگ جائے تو اس پر اور کچھ نہ ملے تو اپنا پاوں رکھ کر ہی بجھا دینا چاہیئے ۔ 
ہمارا مذہب دنیا کا بہترین مذہب ہے جو ہمیں بحیثت عورت بھی اور انسان بھی وہ حقوق دیتا ہے جس کی بنیاد پر آج ترقی یافتہ اقوام نے اپنے فلاحی محفوظ معاشرے کی بنیاد رکھی ہے اور ہماری معاشرت کی خرابیوں کو ہم خود افہام و تفہیم سے بہتر انداز میں چھانٹ سکتے ہیں ۔ اس کے لیئے ہمیں ان بیمار ذہن  اور گھٹیا کردار کی عورتوں کی قطعا کوئی نہیں ضرورت ہے ۔ بطور عورت ہمارے مرد رشتے ہمارا مان بھی ہیں اور ہمارے محافظ بھی ۔ ان میں سے جو بھی اپنی ذمہ داری سے بھاگے گا ہم اسے کان سے پکڑ کر ، چاہے ہاتھ جوڑ کر اپنے صحیح راستے پر واپس لائیں گے۔  ان سے اگر غلطیاں ہوتی ہیں تو دودہ کی دھلی ہم عورتیں بھی نہیں ہوتیں ۔ تو جب غلطیاں دو طرفہ ہیں تو اصلاح بھی دو طرفہ ہی ہونی چاہیئے ۔ محض مردوں کو بدنام کرنے سے نہ کوئی مسئلہ حل ہوا ہے نہ ہو گا ۔ کیونکہ دنیا کو مرد اور عورت دونوں نے ہی مل کر چلانا ہے ۔  اس لیئے ہم ہمارے مذہب اور معاشرت سے باغی کرنے والی ہر انجمن ، ایسوسی ایشن، تنظیم، این جی او  کو مسترد کرتے ہیں ۔ اور نہ صرف  ان پر بین لگانے کا مطالبہ کرتے ہیں ۔ بلکہ ان کی کرتا دھرتاوں کو قرار واقعی سزا دینے کا بھی مطالبہ کرتے ہیں ۔ 
                      ۔۔۔۔۔


موم کا زندان ۔ سراب دنیا

موم کا زندان
(کلام/ممتازملک.پیرس)


یوں ہوا محسوس 
جو دیکھا بظاہر
روشنی تو قید میں ہے
 پر موم کے زندان میں ؟
یہ نہیں معلوم  کہ 
زنداں پگھلتا جا رہا ہے 
روشنی کی آنچ سے
ایک جلتا جا رہا ہے
  اک پگھلتا جا رہا ہے
روشنی جلنے سے باز آتی نہیں
 اور 
موم کا زندان بھی تو
قید کرنے کی تمنا سے
 نہ باز آیا کبھی 
۔۔۔۔۔

ڈرتا ہے بیچارہ ۔ سراب دنیا




ڈرتا ہے بیچارہ
(کلام/ممتازملک ۔پیرس)

یہ مرد ہے رونے سے بھی ڈرتا ہے بیچارہ
جلدی ہی اپنی جاں سے گزرتا ہے بیچارہ

اک رشتے کو دیکھے کبھی دوجے کو سنبھالے
اک لمحہ میں کس کس سے نہ لڑتا ہے بیچارہ

ہر روز لیئے آنکھ میں شیشے کا جو تیشہ
سپنے نئے آنکھوں میں یہ بھرتا ہے بیچارہ

سب خوش رہیں یہ سوچ کے ناراض سبھی ہیں 
اپنے ہی مقدر سے یہ بھڑتا ہے بیچارہ

دل قید کسی میں تو کہیں جان اڑی ہے
اندر سے ہےٹوٹا پر اکڑتا ہے بیچارہ

بات اور کہ چل پائے نہ ہر ایک سخن میں
حیلے تو بہت اپنے سے کرتا ہے بیچارہ

ہر بار یہ سوچے کہ یہ ہے آخری مشکل
جینے کی اسی چاہ میں مرتا ہے بیچارہ

میدان میں یہ جیت کے نکلے گا تو ممتاز
گھر کی ہی لڑائی میں یہ ہرتا ہے بیچارہ
۔۔۔۔۔۔۔






● انسان ہونا ۔ سراب دنیا



انسان ہونا
(کلام/ممتازملک.پیرس)


سیانے سے مشکل ہے نادان ہونا 
فرشتے سے مشکل ہے انسان ہونا

جسے درد ہوتا ہے نہ موت آتی
اسے کیا پتہ کیا ہے قربان ہونا

جنہیں خواہشوں کا نہ مطلب پتہ ہو 
انہیں  کیا پتہ دل کا ارمان ہونا

سدا ماتحت جو رہے ہیں رہینگے
نہ جانیں گے وہ کیا ہے سلطان ہونا

جو اپنے گھروں سے کبھی بھی نہ نکلے
وہ کیا جان پائینگے  مہمان ہونا

انہیں دکھ سے ممتاز کیا لینا دینا 
نہ دیکھا کبھی گھر کا ویران ہونا
●●●

(83) کیچڑ کا بت/ شاعری ۔ سراب دنیا


    (83)   کیچڑ کا بت
           (کلام/ممتازملک ۔پیرس)


چپک جاتے ہیں کچھ منظر 
ذہن کے بام و در پہ یوں
بھلانا چاہتے ہیں پر
بھلا پاتے نہیں ان کو
مجھے بھی اک نظارہ 
بارہا بے چین کرتا ہے
جو دیکھا ایک دریا میں 
کچھ الٹے رخ کو بہتا ہے
بڑی حیرت سے میں نے
غور سے اسکو ذرا دیکھا
کوئ جانا سراپا تھا
کوئی  مانوس چہرہ تھا  
جو سر پر اپنے لیکر ٹوکری
کیچڑ کی چلتی تھی
اور الٹے رخ پہ جاتی تھی
وہ کیچڑ بہہ کے اس کے 
چاند چہرے کو لتھڑتی تھی
ندا آئی کسی جانب سے 
کیا تم جانتی ہو کہ
یہاں پر کون آتا ہے 
جو الٹے رخ پہ بہتا ہے 
زمانے بھر کی کیچڑ 
سر پہ رکھ کرجو
اسی سے اپنا اور 
اپنی خودی کا بت بناتا ہے 
اور اپنے نام کے آگے 
وہ بازیگر لگاتا ہے
                    ●●●
کلام: ممتازملک 
مجموعہ کلام:
سراب دنیا 
اشاعت: 2020ء
●●●
          

شاعری / /مدت ہوئ عورت ہوۓ/ ممتاز قلم / سچ تو یہ ہے/ اے شہہ محترم/ سراب دنیا/ نظمیں/ پنجابی کلام/