ممتازملک ۔ پیرس

ممتازملک ۔ پیرس
تصانیف : ممتازملک

جمعہ، 16 اگست، 2013

● (21) ڈرتے ہو مجھ سے/ اردو شاعری۔ نظم۔ میرے دل کا قلندر بولے





(21) ڈرتے ہو مجھ سے



قوم ہوں میں ڈرتے ہو مجھ سے
مجھ کو لوٹ کے 
مجھکو بیچ کے 
بے شرمی کی حد کو توڑے
چار آنکھیں کرتے ہو مجھ سے
قوم ہوں میں ڈرتے ہو مجھ سے

سارے ظالم سارے ڈاکو
سارے شرابی سارے ہلاکو
میرے منہ پر کالک مل کر
رحم طلب کرتے ہو مجھ سے
قوم ہوں میں ڈرتے ہو مجھ سے

میں مظلوم اور میں بیچاری
دنیا میں ہوں ماری ماری
بچے میرے بھٹکیں دردر
صرف نظر کرتے ہو مجھ سے
قوم ہوں میں ڈرتے ہو مجھ سے

جب مرنا ہے سوچ لیا ہے 
اب دھرنا ہے سوچ لیا ہے
اپنی شرط پہ اب جاں دینگے
جان طلب کرتے ہو مجھ سے
قوم ہوں میں ڈرتے ہو مجھ سے

جھوٹو تم سے اب نہ ڈریں گے
بجلی بنکر تم پہ گریں گے
موت اور بھوک کے بانٹنے والو
کیوں بڑ بڑ کرتے ہو مجھ سے
قوم ہوں میں ڈرتے ہو مجھ سے
●●●
کلام: ممتازملک 
مجموعہ کلام: 
میرے دل کا قلندر بولے 
اشاعت: 2014ء
●●●

● (27) ابر رحمت/ شاعری ۔ میرے دل کا قلندر بولے


(27) ابر رحمت

  
 ہو کیا اچھا کہ میرے ملک پر تُو ابر رحمت بنکے برسے
یہاں سب کچھ میسر ہو کوئی لُقمے کو نہ ترسے

نہ ماں کی گود سونی ہو نہ چوڑی ہاتھ کی ٹوٹے
تلاش رزق میں کوئی نہ جائے اب کبھی گھر سے

تمناؤں کی سب تکمیل میرے گھر تک آتی ہو
فصیل شہر سے باہر کوئی خواہش نہ جاتی ہو

میں اپنے دل کا اک پرچم بنا کر اسکو لہراؤں
سبھی بھٹکے ہوؤ پلٹو منادی آج کرواؤں

چلو ہم پھر سے اک تحریک کا آغاز کرتے ہیں
کہ لیکر سب توانائیاں نئی پرواز بھرتے ہیں

پسینہ اب نظر آئے چٹانوں کی جبینوں پر
میری مٹی کریگی فخر اپنے سب نگینوں پر

نئے رستوں کی آنکھیں اب ہماری منتظر ہوں گی
وطن کے عشق میں ممتاز اب گھڑیاں بسر ہوں گی
●●●
کلام: ممتازملک 
مجموعہ کلام: 
میرے دل کا قلندر بولے 
اشاعت: 2014ء
●●●

● (29) غرور/ شاعری ۔ میرے دل کا قلندر بولے


(29) غرور



کس بات کا گھمنڈ ہے کس بات کا غرور
   کچھ فیصلے تو موقع پہ ہو جاتے ہیں ضرور 

  آپ اپنی فطرتوں میں تو چالاک ہے مگر
حکمت کی اک نظر سے بھی کوسوں ابھی ہے دُور

  مالک کا کرم تجھ پہ تجھے یہ تو چاہیئے   
 تیرا کرم کسی پہ تجھے یہ نہیں منظور  

  سجدوں کا رنگ دونوں جبینوں پہ جدا ہے 
  اک روشنی سے دُور ہے اک روشن و معمور

   پہلے جو احترام میں شامل کبھی رہے
 اب عیب پوشی کے لیئے ان سب کا ہے ظہور

   مُمتاز ہر برائی میں بااختیار ہیں  پر 
 اچھے عمل کے واسطے رہتے جو بے شعور  
●●●
کلام: ممتازملک 
مجموعہ کلام: 
میرے دل کا قلندر بولے 
اشاعت: 2014ء
●●●

● (2) حضور آگئے ہیں/ نعت ۔ اردو شاعری ۔ میرے دل کا قلندر بولے


(2) حضور آگئے ہیں




حضور آگئے ہیں حضور آگئے ہیں 
  حضور آگئے ہیں حضور آگئے ہیں
   وہ طیبہ کی گلیاں وہ روضے کی جالی  
 نگاہیں میری بن گئی ہیں سوالی
  نگاہوں کا میری غرور آگئے ہیں
   حضور آگئے ہیں حضور آگئے ہیں 

  وہ جن کے لیئے یہ  زمیں آسماں بھی
   جھکائے ہیں سر اور سجی کہکشاں بھی  
 وہ رنگوں کا لیکر ظہور آگئے ہیں  
حضور آگئے ہیں  حضور آگئے ہیں 

  وہ کیا تھی عنایت وہ کیا دلکشی تھی   
جو سب کی عقیدت کی وجہ بنی تھی
   وہ حسن و عمل کا شعور  آگئے ہیں
  حضور آگئے ہیں حضور آگئے ہیں  
●●●  
کلام:مُمتاز ملک 
مجموعہ کلام:
 میرے دل کا قلندر بولے
اشاعت: 2014ء
●●●

● (22) گُفتگُو/ شاعری ۔ میرے دل کا قلندر بولے



(22) گُفتگُو



دو چٹانیں گفتگو کرنے کو ہیں
فیصلوں کی جستجو کرنے کو ہیں 

تنگ لہجے کچھ کشادہ ہو چلے 
نرم خُوسے سخرو کرنے کو ہیں 

آشنا جو رنگ و بُو سے نہ رہے
اب اسی کی آرزو کرنے کو ہیں 

لانگ کر اسکو ہمیشہ جو چلے
آبرو کی آبرو کرنے کو ہیں 

 لامُحالہ بات آدھی رہ گئی
اب مکمل گفگتگو کرنے کو ہیں 

پہلے اتنے غور سے دیکھا نہ تھا 
خود کو تم سے رُوبرُو کرنے کو ہیں

بات وہ جس کا نہیں تھا حوصلہ
مُمتازاب وہ دُوبدُو کرنے کو ہیں 
●●●
کلام: ممتازملک 
مجموعہ کلام: 
میرے دل کا قلندر بولے 
اشاعت: 2014ء
●●●

● (18) زرا ٹہرو مجھے ۔۔/نظم۔ میرے دل کا قلندر بولے



(18) زرا ٹہرو مجھے تم سے۔۔۔۔



زرا ٹہرو مجھے تم سے ضروری بات کرنی ہے
بہت ممکن ہے کل پھر اسطرح لمحے نہ مل پائیں 
کہ ہم تم اسطرح اک میز پر بھی بیٹھ نہ پائیں
بہت سی ان کہی باتوں کے افسانے بھی بنتے ہیں
جو ہوتے ہیں کبھی اپنے وہ بیگانے بھی بنتے ہیں 

ہمیشہ اپنے لفطوں کو معانی دیکے جانا تم
ادھورے لفظ تو اک کند سا ہتھیار ہوتے ہیں 

کہ اسکے وار سے اک بار میں میں مر بھی نہ پاؤں
تیرے ہاتھوں یہ استعمال کتنی بار ہوتے ہیں 

ملو جب تم تو لفظوں  کے اسی خنجر میں تیزی ہو
کہ جس کو دیکھ کے معلوم تیری عرق ریزی ہو
خیالوں کے کسی جنگل میں گم ہونے سے پہلے کیا
حقیقت میں جو تھا اس باغ میں کچھ دیر ٹہلے کیا

ہمیشہ ہی مہکتی ہیں  اگر اچھی ہوں یادیں تو 
سدا ہی لطف دیتی ہیں  اگر دلکش ہوں باتیں تو 

                ●●●                         
کلام:مُمتاز ملک
مجموعہ کلام:
 میرے دل کا قلندر بولے
اشاعت:2014ء
●●●

● (20) منسوب/ شاعری ۔ میرے دل کا قلندر بولے



(20) منسوب



وہ جو اک نام تیرے نام سے منسُوب ہوا
ہر جگہ تیری خطاؤں پہ وہ معتوب ہوا

ناگہانی بڑی گزری ہیں اسی کے دل پر
جرم بھی اسکا نہ تھا جس پہ وہ مصلُوب ہوا

اسنے تو اپنی خودی کے لیئے سب کچھ ہارا 
اور ایک تُو تھا جو اغراض سے مغلُوب ہوا

ذندگی ضد کا ہی بس نام بنا کر رکھ دی 
جو گوارہ نہ مجھے وہ تجھے مطلُوب ہوا

وقت کی قید نہ تھی فیصلہ ہو جانے تک
پھر بھی دشمن ہی میرا کیوں تجھے محبُوب ہوا

اسنے مُمّتاز بچھائے تھے نوکیلے پتھر
بارھا راہ میں گر کر جو میں مضرُوب ہوا
●●●
کلام: ممتازملک 
مجموعہ کلام:
میرے دل کا قلندر بولے 
اشاعت: 2014ء
●●●

منگل، 30 جولائی، 2013

میری نگاہ



میری نگاہ

میری نگاہ میرا دل یہ میرے بس میں نہیں  
 جہاں پہ روح پھڑپھڑاۓ اس قفس میں نہیں

 ہو پُر خطر ہر لمحہ شکار ہونے کا
   میں کیسے مان لوں کہ یہ میرے نفس میں نہں

 نظر جو عزت و تکریم سے ہو بے بہرہ  
 شمار اسکو کیا جاۓ کیا ہوس میں نہیں

   زمانے بھر کی کثافت جو ساتھ لے کے چلا

  تمہارے ساتھ ہے شامل تو اب نجس میں نہیں

کہں سے ڈھونڈ کے مُمتاز لا سکو تو کہو

 ہے تیر کونسا جو تیرے نیم کش میں نہیں 

 کلام/  مُمتاز ملک  

....................

جمعرات، 11 جولائی، 2013

دنیا ماں کی گود نہیں ہے


دنیا ماں کی گود نہیں ہے
ممتازملک . پیرس

ایک بار ایک قاتل کو  سزاۓ موت سنائ گئ تو اسنے  آخری خواہش میں اپنی ماں سے بات کرنے کی اجازت مانگی .ماں جب اسکے پاس آئ تو اس نے کان میں بات کرنے کے بہانے اسکا کان چبا ڈالا جج صاحب نے اس کی  ماں کو اس سےبمشکل چھڑوایا اور اس سے اس حرکت کی وجہ دریافت کی تو وہ مجرم بولا جج صاحب آج میں یہاں موت ک پھندے تک کبھی نہ پہنچتا اگر میری ما ں نے مجھے اس وقت چانٹا مارا ہوتا جب میںنے اسکول میں پہلی بار ایک بچے کی پنسل چرائ تھی اور اس نے لوگوں سے بھڑ کر مجھے بچا لیا اور میری غلطی کی پردہ پوشی کی . یا اس وقت جب میں نے کسی کا سر پھاڑ دیا تھا اور میری ماں نے مجھے سچا ثابت کرنے کے لیۓ لوگوں سے جھگڑا کیا . اس بات سے میری ہمت بڑھتی چلی گئ اورایک دن میں چوروں کے ایک گروہ میں شامل ہو گیا .میری ہر حرکت پر میری ماں نے کان بند کر لیۓ . جس پر میں ایک ڈاکو بن گیا اور ایک دن اسی ڈاکہ زنی میں میرے ہاتھوں لوگوں کا قتل ہو گیا .اور آج میں سزاۓ موت کے پھندے پر جھولنے جا رہا ہوں . اگر اس نے پہلی بار مجھے چانٹا مارا ہوتا،
میری ماں میری پہلی شکایت پر ہی میرے  طر ف داری نہ کرتی اوراپنے کانوں میں روئ  نہ ٹھونس لیتی تو شاید  مجہے یہ دن نه دیکھنا پڑتا . . .......

  یہ وا قعہ سنانے کی وجہ پچھلے دنوں میری نظر سے گزرنے والا ایک قصہ ہے  جس میں ایک ١٠  سال کا  بچہ[جسے میں گلی میں بچوں کیساتھھ خوب بتمیزی کرتے دیکھہ چکی تھی .]   کی ماں  گلی میں کھیلتی ایک چھے سال کی بچی  سی لڑتی دکھی  ..بچی نی کہا کہ آ نٹی پہلے آپ کی بچےنے
بدتمیزی   کی ہے  تو خاتون نے نہایت  بدتمیزی سے  اس بچی  کو جواب دیا کو بکواس بند کرو  . میرے بیٹے بہت شریف ہیں جب اسے  کہا گیا  کہ آپ پڑھی لکھی نظر آ تی ہیں کیوں ایسے بچوں کے منہ لگ رہی ہیں . تو فرمانے لگیں کہ ہاں میں پڑھی لکھی ہوں اور جانتی ہوں کو ایسے بچوں سے کیسے بات کرنی ہے  . جب ہم نے کہا کہ بچوں کی باتوں میں آ کریوںجھگڑا   کرنا بیوقوفی ہے تو  فرمانے لگی میں تو مجبورا مُحلے میں رہتی ہوں  اوریہ  تو میرا سٹینڈرڈ ہی نہیں ہے میرے بچے تو انتہائی  معصوم اور شریف  ہیں  گلیوں میں رہنے والے بچے چالاک ہوتے ہیں . ہم نے انہیںکہا کہ وہ اینےمعصوم بچوں  کو  اپنے گھر سےباہر ہی نه آ نے دیا کریں تو بولیں کہ میں تو بہت منع  کرتی ہوں لیکن یہ  مانتے ہی نہیں  تو ہم نے  کہا کہ یہی توبچپن ہے کہ ابھی لڑے ابھی پھر یکجا ہو گنے لیکن بڑوں  کی دل میں آ ئ ہوئ  میل  کبھی نہیں جا تی   . لیکن نہیں جناب کتنی دیر کے دلائل کی بعد بھی خاتون مصر رہیں کہ نہیں انکی بات' ان کے بچے' ان کا رویہ ' سب ٹھیک ہے اور باقی سب لوگ انکی باتیں سب غلط ہیں .
  میں آ ج تک یہ  بات نہیں جان پا ئ  کہ ہمارے ما ں  باپ نے ہمیں اس نظرۓ سے پالا کہ ' کھلاؤ  سونے کا نوالہ اور دیکھو شیر کی نظر سے ' . ہم  نے تو یہ ہی دیکھا کہ  ڈسپلنڈ ماںباپ ا وربیجا طرفداری  نہ کرنے والوں کی بچے ہی بڑے ہو کر ان کی طرح   انصاف پسند اور باکردار بنتے ہیں  . کیا ہماری ما ؤں نی ہمیں درد اٹھا  کر پیدا نہیں  کیا تھا. یا ہمیں مشقتوں سے پا لا نہیں تھا . وہ تو ہم سے یوں  نہیں لپٹتے تھے . آج کی انہیں جیسی  ماں باپ کے لیے کہا گیا تھا کو مال  اور اولاد ہی سب سی بڑا فتنہ ہیں ان سی بچننے  کی کوشش کرنی چاہیۓ .آج کی ماں کیوں ایک ناکام ماں ثابت ہوئ جارہی ہے ؟ کیوں آج کی ماںیہ بات بھول گئ ہے کہ یہ دنیا ماں کی گود نہیں ہے ۫؟ یہاں ہر قدم ایک نۓ امتحاں درپیش ہیں اور اچھی ماں وہی ہوتی ہے جو اپنی اولاد کو ان سختیوں او امتحانات   کے لیۓ قبل از وقت تیار کرتی ہے .

ورنہ باڈر پر جاتے یہ سجیلے جوان گھروں کے  پھولوں سے بیٹے جو مائیں  مادر وطن کو پیش کرتی ہیں . جن کے گلے میں ایک ایک پانی کی چھاگل اور جیب میں مٹھی بھر چنے ہوتے ہیں . جس پر وہ کئ  گھنٹوں . دنوں . یا مہینوں بھی رہ جاتے ہیں .کیا وہ ان بیٹوں سے پیار نہیں کرتی ہیں .نہیں جنت کے یہ مسافر اپنی ماؤن کو دنیا میں سب سے زیادہ پیارے ہوتے ہیں , لیکن ہاں ان کی محبت کا انداز عملی ہوتا ہے ہم جیسا کاغذی نہیں .  کیوں کہ  وہ جانتی ہیں کہ
دنیا ماں کی گود نہیں ہے
........................

پیر، 17 جون، 2013

میرے بابا کا گھر جل گیا ہے ۔ مُمؔتاز ملک ۔ پیرس


ہائے !میرے بابا کا گھر جل گیا ہے 
مُمؔتاز ملک ۔ پیرس



ہم بہت برے لوگ ہیں ۔ ہم بہت بے حس لوگ ہیں ، ہم بہت خود غرض لوگ ہیں،  جن کی کھوکھ سے جنم لیتے ہیں انہیں کے آگے زبان چلانے لگتے ہیں ، جن کی گود مین  جھول کر جوان ہوتے ہیں اسی باپ کو آنکھیں دکھانے لگتے ہیں ۔ جن کے کندھوں پر سواریاں کرتے ہیں انہیں کو سڑکوں پر گھسٹنے کے لیئے چھوڑ دیتے ہیں ۔ جن کے منہ کے نوالے کھا کھا کر ہم ہٹے کٹے ہوتے ہیں ان کے بڑھاپے میں ہم انہی کو لاغری میں بے بسی اور بھوک کا تحفہ بھی دیدیتے ہیں ۔ جنہوں نے اپنی پوشاک نہ خریدی اس میں نیا پیوند لگا لیا ہم نے انہین کے بدن پر چھیتھڑے بھی نہ چھوڑے ۔ اور تو اور جو ہمیں سر چھپانے کے لیئے اپنے ہڈیاں گلا کر چھت بنا کر دیتے ہیں ،  بدن میں زور آتے ہی ہم انہی کو اس گھر سے نکال کر اس گھر کی اینٹوں پر ایک دوسرے کا سر مارنا شرع کر دیتے ہیں ۔ ارے ہم کیسے لوگ ہیں ۔ خدا ہمیں کیسے معاف کرے گا ۔ ہم تو دوسروں کو دنیا میں رشتوں کا محبت کا درس دینے چلے تھے مگر یہاں تو ہم اپنی ہی منزل سے بھٹک گئے۔ لوگ ہم پر ہنسنے لگے ہیں  ۔ کل رات  جب بڑے بڑے بے دین لوگ بھی اپنے باپ کو کوئی نہ کوئی پھول، کیک، مٹھائیاں رقم اور جو ہو سکا پیش کر رہا تھا ہم نے کیا کیا  ؟ پتہ ہے ہم نے کیا کیا ہم نے اپنے اس بوڑھے باپ کو تحفے میں کیا دیا ہم نے اس کے گھر کو آگ لگا دی ؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟ ارے ظالمو یہ کیا کیا ۔ ایسا تو جانور بھی نہیں  کرتے ۔ یہ وہی باپ تھا نہ جس نے اپنی زندگی کے ساٹھ سال اس جدو جہد میں گزار دیئے کہ  سارے بیٹوں کو ایک ملک ایک اپنا گھر دے سکوں جہاں یہ پیا ر اور محبت کیساتھ سکون کی زندگی گزاریں گے ۔  جہاں کوئی انگریز کوئی بنیا انہیں اپنے جوتے چاٹنے پر مجبور نہیں کریگا ۔ کوئی ان کی بہنوں کو بہٹیوں کو ماؤں کو دن دہاڑے اٹھا کر نہیں لیجائے گا ۔ جہاں انہیں نماز پڑھنے لے لیئے آقاؤں سے اجازت نامہ نہین لینا پڑے گا ۔ یہ وہی باباہے نہ جنکی ہڈیاں ٹی بی جیسے موذی مرض نے گُھلا دی تھیں لیکن وہ اپنے سائے سے بھی اس مرض کو پوشیدہ رکھ کر خدا سے یہ دعا کرتا رہا کہ یا خدا میرے ہاتھوں میرے اس گھر کے حُصُول کے خواب کو شرمندء تعبیر ہونے تک مجھے زندہ رکھنا ورنہ میری قوم کے بچے رُل جائیں گے ۔ بیٹیاں بے آبرو کر دی جائیں گی ۔ اور خدا نے اس دُکھی دل کی فریاد کے صدقے میں ہمیں پاکستان نام کا گھر دیدیا ۔ اور بابا نے اس کی بنیادوں میں اینی جان دیدی اور یہ بتا دیا کہ جو لوگ اپنے گھروں کی بنیادوں میں اپنی جان کا نذرانہ پیش نہیں کرتے قدرت انہین اپنے گھر کی آزادی کبھی نصیب نہیں کرتی ۔  مگر ! !!!!!!! یہاؐں کیا ہوا بابا یہ کتنے ظالم لوگ ہیں انہوں نے اپنے بابا کی روح کو بھی تڑپا دیا انہوں نے تو وہ کر دیا جو آج تک کسی فرنگی اور بنیئے نے بھی نہیں کیا تھا ۔ ہم نے اپنے بابا کے گھر کا آگ لگا دی ۔ ہمیں معاف کر دیں بابا ہم نے آپ کے گھر کو سجانا تو دور کی بات اس کی اینٹوں کو بھی راکھ کے ڈھیر میں بدل دیا ۔ دنیا سچ کہتی ہے ہم قوم نہیں ایک بھٹکا ہوا ریوڑ ہیں ۔ ہم انسان نہیں اپنے اپنے ذاتی مفادات اور وقتی ہوس کے پچاری ہیں ۔ ہماری کوئی ماں بہن نہیں ہیں جن کے لیئے ہم گھروں کی حفاظت کریں ۔ ہماری کوئی آبرو نہیں ہے جسے  بچائے رکھنے کے لیئے ہم اپنے بابا کے گھر کی چھت کو مضبوط کریں ۔ اسے لیئے تو ہم نے اپنے بابا کے گھر کو آگ لگا دی ۔ کسی کا دل کیوںنہ  پھٹا ۔ کسی کی آہوزاری کیوں نہیں سنائی دی ۔ کیا سب اندھے گونگے بہرے ہو گئے ہیں تو سن لو میں رو رہی ہوں ۔میرا جی چاہتا ہے کہ میں اس گھر کی راکھ اپنے سر میں ڈالوں اور چیخ چیخ کر بین کروں۔ آسمان بھی میرے ساتھ مل کر آنسو بہائے کہ کہ ایک بابا کا گھر میرے بابا کا گھر میرے ہی ماں جائیوں کے ہاتھوں جل گیا راکھ کا ڈھیر بن گیا  ۔ ۔ اپنے بابا کی بیٹی رو رہی ہے شاید بیٹیوں کے مقدر میں رب کعبہ نے کچھ زیادہ ہی آنسو رکھ دیئے ہیں جو کبھی بھائیوں کی بے اعتنائی پر روتی ہیں ، کبھی شویر کی بے وفائی پر روتی ہیں، کبھی بیٹے کی نافرمانی پر روتی ہیں، تو کبھی اپنے باپ کے گھر کو جلتا ہوا دیکھ کرتڑپ جاتی ہیں ۔ بیٹیاں رو رہی ہیں اپنے بھائیوں کے ہاتھوں میرے بابا کا گھر  جل گیا بابا میں کیا کروں کاش میرے آنسو تیرے گھر میں لگی آگ بجھا سکیں ۔ کاش یہ آنسو میرے بھائیوں کا دیا ہوا یہ داغ دھو سکیں  کاشششششش !!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،

ہفتہ، 25 مئی، 2013

مردوں میں تیزی سے پھیلتا ہوا مرض ممتاز ملک ۔ پیرس


مردوں میں تیزی سے پھیلتا ہوا مرض
ممتاز ملک  ۔ پیرس


آج کل مردوں میں بڑی ہی تیزی سے ایک مرض پھیلتا جارہا ہے پھیلتا ہی جا رہا ہے ۔ ہمارے آج کے  آرٹیکل کا مقصد بھی یہ ہی ہے کہ ہم آپ کو اس مرض کی وجوہات، علامات اورعلاج  اور ہاں حفاظتی تدابیر سے بھی آگاہ کریں ۔ یعنی آج ہم آگاہی مہم پر ہیں ۔ کیا کہا، کس کی جانب سے ۔ کیا مطلب اب ہمیں کوئی کہے گا نہیں تو ہم کیا ساری عمر کسی مہم پر ہی نہ جائیں ۔ ہاں تو ہم اس مہم پر ہیں ، خود اپنی طرف سے ہی ۔
 اس مرض کی وجوہات میں ریٹائرمنٹ سرفہرست ہے جبکہ بیکاری یا بیروزگاری بھی ہو سکتا ہے ۔ ۔ ایک دو جگہ محلٓے مین مرمت کروانا بھی اسکی اہم وجوہات ہو سکتی ہیں ۔ اپنے آپ کو مُنٓے راجہ کہلانے کا شوق بھی اسکی ایک وجہ ہو سکتی ہے ۔ ایسے مریضوں کے محلٓہ داروں کو چاہیئے کہ انہیں مُنٓے راجہ ہی پکارا کریں تاکہ یہ اپنے تماشے دوسرے محلے میں کر کے اپنے محلے کی بدنامی کا باعث نہ بنیں ۔
   اس مرض کی علامات یہ ہیں کہ مرد سب سے پہلے تانک جھانک میں مبتلا ہوتا ہے ۔ اسے اپنے گھر کی عورت کے سوا دنیا کی ہر عورت مس ورلڈ لگنے لگتی ہے چاہے وہ کالی کلوٹی گندی مندی بدبدبودار جمعدارنی ہی کیوں نہ ہو ۔  موقع ڈھونڈ ڈھونڈ کر خود ہی اپنی بےعزتی کا سامان پیداکرتا رہتا ہے کسی کو کیااپنے دشمنوں کو بھی یہ سامان پیدا کرنے کی تکلیف نہیں دیتا  ۔ اس کام کے لیئے اسکی اپنی حرکتیں جو کافی ہوتی ہیں یعنی کہ موصوف خود کفیل ہوتے ہیں ۔
 دوسرے مرحلے میں جناب کو ایک عدد فیس بُک اکاؤنٹ کی سوجھتی ہے ، یعنی ہری ہری سوجھتی ہے، تو جناب فیس بک پر اپنا اکاؤنٹ بناتے ہیں تو اپنی عمر  کا سال غائب کر کے اور ایک عدد پُرااااااااااااااااانی سی فوٹو کو نیا کر کے لگاتے ہیں اور جب بھی کسی خاتون کے خوبصورت سی پک نظر آئی لگے فورا  اس کو ریکوئسٹ بھیجنے، اس کے بعد اس کا حدود اربعہ جاننے کے لیئے بے چین ہو جائیں گے ۔ یہ اور بات کہ اپنے ہی گھر میں بلکہ اپنے ہی بیڈ روم میں  25 سال سےساتھ رہنے والی خاتون( جو کہ بدنصیبی سے ان کی بیگم جانی جاتی ہیں )انہیں ان تک کا حدود اربعہ تک معلوم نہین ہے۔ شاید اسی لیئے کہتے ہین کہ چراغ تلے اندھیرا ۔  یا پھر بیگم بغل میں اور ڈھنڈھورا فیس بُک میں ۔
 تیسرے درجے میں یہ مرض بڑھتا ہے تو یہ ہی مریض اس خاتون سے لفٹ نہ ملنے کی صورت میں اس خاتون کو جسے فرینڈر بنانا چاہتے ہیں فٹ سے آنٹی کہہ دیتے ہیں ۔ خود کو کم سن ثابت کرنے کے لیئے ۔ اسے کہتے ہیں " چور کی داڑھی میں تنکا"۔
(  ارے مریض برادر فیس بُک رشتہ داریاں بنانے کے لیئے نہیں ہوتا ۔ بلکہ  یہاں لوگ اپنی پسند اور ناپسند کی تحریریں یا تصویریں ایک دوسرے کیساتھ  بانٹتے یا بھیجتے ہیں ۔) لیکن ایسے مریض بیچاری فیس بُک کو بھی اپنے مُحلّے کا تھڑا ہی سمجھ کر ٹھرک جھاڑنے کا زریعہ بنا لیتے ہیں جوابا یا تو ذلیل ہوتے ہیں یا پھر بلاک ۔
   مرض کا اگلا مرحلہ ہوتا ہے خواتین سے ان کا سکائب پر بات کرنے کا اصرار ۔ جس میں یہ کُھل کر اپنی اوقات دکھانا چاہتے ہیں تو مذید شرمندہ کیئے جاتے ہیں ۔
اس مرض کو کہتے ہیں عمر چوری کا مرض جو کہ کبھی خواتین میں بکثرت پایا جاتا تھا ۔ لیکن اب مبارکاں مردوں میں بھی تیزی سے سرایت کر چکا ہے  ۔
 اب ہم آپ کو بتاتے ہیں ایسے مریضوں کا علاج ۔ ایک مرتبہخواتین اور مردوں کی  ایک مشترکہ ادبی نشست میں کسی خاتون نےشاعر مشرق جناب علّامہ اِقبال سے پوچھا کہ جناب خاتون  کی جمع تو ہے خواتین  ۔ تو مرد کی جمع کیا ہوئی   ؟ تو علّامہ اِقبال نے برجُستہ جواب دیا کہ مرد کی جمع ہوئی مۤردُود ۔ یہ سن کر ایک زور دار قہقہہ پڑا ۔ اس سچے لطیفے کی سمجھ ہمیں بھی بڑی دیر سے آئی ۔ 
ایسے مریض مرد سمجھتا ہے کہ فیس بُک شاید اسکے دل کا کوئی راز ہے جسے کوئییییییییییییی نہیں جان سکتا ۔
 جبکہ اسکا علاج یہ ہے کہ اسے کوئی قابل بچہ یا دوست بیٹھ کر سمجھائے کہ بڑۓ ابّا ۔ یا انکل ماموں ایسا بلکل نہیں ہے بلکہ نیٹ کی دنیا اور خاص طور پر فیس بُک کی دنیا ایسے ہی ہے جیسے اللہ پاک نے دو فرشتے منکر نکیر ہمارے کندھوں پر قلم دوات دیکر بٹھا رکھے ہیں کہ ہماری ہر چٓوّل کو نوٹ کریں اسی طرح چند شریر ذہنوں نے فیس بُک بنا دیا تاکہ ہم اپنے کرتُوتوں کو اپنے ہی ہاتھوں اس میں ایڈ کرتے جائیں ۔ اور گندے گندے کمنٹس دیکر یا فیک نک سے آئی ڈیز بنا کر یا گندے واہیات ولگر لائیکز کر کے یہ نہ سمجھیں کہ ہم نے اسے ڈیلیٹ کر دیا تو یہ  بے نام و نشان ہو گیا یا ہم نے اسے پوشیدہ کر دیا تو اب یہ کوئی نہیں جان سکتا ۔ جی نہیں اس میں ہماری ہر کی ہوئی بات شاید ہم تو بھول جائیں لیکن برادر مریض یہ شیطانی جال ہمیں کبھی بھولنے نہیں دیتا ۔
لہذا یا تو نیٹ استعمال کرنا ہے تو اسکی تھوڑی سی سیکھ لیکر اسکا استعمال کریں  اور تہذیب اور شائستگی سے بھی کبھی کبھی اپنی واقفیت کا اظہار کر دیا کریں اس سے آپ کی صحت پر بھی اچھا اثر پڑے گا اور آپ کو جھیلنے والے کی صحت پر بھی ۔ یا پھر جس حساب سے بابوں کے اور شوقین مردوں کی شکایتیں ہو رہی ہیں ۔ایسا نہ ہو کہ ہماری بہنوں کو گھروں مین لیپ ٹاب  پر لکھ کر لگانا پڑے کہ اسے چھچھوروں اور بابوں کی پہنچ سے دور رکھیں ۔
                                     منجانب ۔ تحفظ بچیات و دفعانِ واہیاتیات
                                           ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


منگل، 21 مئی، 2013

عمران خان صاحب اپنی غلطیوں سے سیکھیئے / ممتازملک ۔ پیرس


عمران خان صاحب اپنی غلطیوں سے سیکھیئے

ممتازملک ۔ پیرس


کافی عرصے سے پاکستان میں ایک ایسی پارٹی کی ضرورت شدت سے محسوس کی جارہی تھی جو آ کر ملک میں قائم دو پارٹیوں کی اجارہ داری کو توڑ سکے ۔   اپنی 17 سالہ جدوجہد کے بعد اور بلند ارادے اور حوصلے سے بآلاخر تحریک انصاف کی صورت عمران خان نے اپنی پارٹی کو وہ تیسری  پارٹی بنا ہی لیا  جو کہ عوام کی خواہشات کو شرمندء تعبیر کرنے کا عزم لیکر میدان عمل میں کود چکی ہے ۔ آج سے دو سال پہلے عمران خان کی سونامی  کواسوقت ایک بڑا دھکہ لگا جب جوک در جوک دوسری پارٹیز کے ممبران نے اس کا رخ کرنا شروع کیا ۔ اور تحریک انصاف کے نادان مشیروں نے یہ سوچے سمجھے بغیر بھنگڑے ڈالنا شروع کر دیا  کہ جو لوگ بیس بیس سال تک کرسیوں کے مزے لوٹنے کے بعد بھی ملک کے لیئے کچھ اچھا نہ کر سکے اُلٹا ملک کو اربوں روپے کا چونا لگاتے رہے  ۔ وہ  بھلا آپ کی پارٹی کو نوالہ تر سمجھنے کے سوا اور کیا کریں گے ۔   ایک نئی اور ابھی نہ آزمائی ہوئی پارٹی کو شکار کرنے کا منصوبہ اس کے اپنے نادان دوستوں نے بڑی ہی کامیابی کے ساتھ پورا ہونے دیا ۔ نتیجہ کیا نکلا بہت سے وہ مخلص کارکنان جنہوں نے یہ سوچ کر اس  نئی پارٹٰ کو اپنا وقت ، حوصلہ اور طاقت دی کہ کبھی نہ کبھی تو ہمیں بھی اپنے ملک کے لیئے کوئی اچھا کام کرنے کا موقع یہ قوم ضرور دیگی ۔ وہ سب ہی بدظن ہو گئے  ۔ لوگوں کی  امیدوں کا  مورال جو دو سال پہلے ایک دم آسمان کی بلندیوں تک پہنچا ۔ وہ ایک دم سے زمین پر آرہا ۔ اور ایسے نوجوانوں کی اکثریت نے اس پارٹی کا رخ کیا جو بیشک پڑھے لکھے تو بہت تھے لیکن تہذیب اور تمیز سے ان کا دور دور تک کوئی واسطہ نہیں تھا ۔ انہین فر فر انگریزی بولنی تو آتی تھی لیکن کس سے کیسے بات کرنی ہے اس کی الف بے  سے بھی وہ واقف نہیں تھے  ۔ دوسری جانب عمران خان اس ایکدم کے بہاؤ کو شاید پوری طرح سے سنبھال نہیں پا رہے تھے جسکا ثبوت ان کی پارٹی کے ممبران اور ورکرز کے وقتا فوقتا نظر آنے والی بدتمیزیاں اور بےترتیبیاں تھیں ۔ کہیں پنڈال الٹے ۔   تو کہیں کھانے کی لوٹ مار کی گئی ۔ کہیں کرسیاں اور برتن لوٹ لیئے گئے تو کہیں پارٹی الیکشن کے موقع پر ایک دوسرے کی جم کے دھنائی کی گئی ۔  یہ سب کیا تھا یہ کوئی الزامات نہیں ہیں بلکہ آنکھوں دیکھی کہانیاں ہیں ۔ ہماری بات کا مطلب کہیں بھی تحریک انصاف میں کیڑے نکالنا نہیں ہے بلکہ ایک ایسی پارٹی کو ایک اچھے شہری کے طور پر یہ مشورہ دینا ہے کہ وہ خود اپنے گریبان میں جھانکیں کہ وہ کون کون سی خامیاں رہیں کہ جن کی وجہ سے ایک ایسی پارٹٰ کو جسے کم از کم 100 سے 150 تک نشستیں حاصل کرنی چاہیئں  تھیں وہ صرف 25 سے    35 سیٹوں کے بیچ جھول گئی ۔  کیوں کہ یہ پانچ سال  ہر اس پارٹی کے ایک ایک ممبر کے لیئے ایک ٹرائل پیریڈ ہے جو آئندہ پاکستان میں رہنا چاہتی ہے یا پورے پاکستان پر اپنا سکہ جمانا چاہتی ہے ۔ ایک تو آپ اپنے  ورکرز اور ممبران کو اس بات کا پابند کریں کہ وہ تمیز سے بات کرنے کی عادت ڈالیں اور یہ بات یاد رکھیں کہ پڑھائی لکھائی سرٹیفیکیٹ کی صورت سجانے کا نام نہیں ہے بلکہ اسے عملی طور پر بھی آپ کی بات چیت  ، اخلاقیات اور طور طریقوں میں   نظر آنا چاہیئے ۔  ہر وقت ہر جگہ ہماری ہی مرضی کی بات نہیں ہوتی ہے ۔ اسلیئے جہاں کہیں کسی سے بات کریں تو اتنے اچھے اور مدلل لہجے میں کریں کہ ان کی بات سے کوئی اتفاق کرے یا نہ کرے لیکن ان کے اخلاق کی ایک اچھی چھاپ ضرور اس کے دل پر چھپ جائے ۔ کیوں کہ صرف یہ ہی ایک ایسی صورت ہے جب کوئی شخص آپ کی بات پر غور کرنے پر تیار ہو گا کیوں کہ کوئی بھی شخص زبر دستی ڈنڈے کے زور پر تو اپنی کوئی بات کسی سے کبھی بھی نہیں منوا سکتا ۔ ۔ ہٹ دھرم لوگوں کو ان کے حال پر چھوڑ دینا ہی سمجھداری ہے ۔ ویسے بھی پھل دار ڈالیاں جھکی ہوئی ہی اچھی لگتی ہیں ۔ اکڑے ہوئے پیڑوں کے تو سائے نہیں ہوتے ۔ 

،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،، 

جمعرات، 16 مئی، 2013

● (7) تیرے نظارے/ شاعری۔ میرے دل کا قلندر بولے


(7) تیرے نظارے



 اے وطن تیرے نظارے اسقدر سستے نہیں

منزلوں تک جو نہ پہنچیں ایسے بھی رستے نہیں 

ہم جنہیں اپنا کہیں وہ جانتے ہیں بات یہ 
دوستوں کی ہم لگامیں پر کبھی کستے نہیں 

جن گھروں میں چین ہواور صحن میں بھی سکھ بسے
ان گھروں میں بھوت  آ کر پھر کبھی بستے نہیں 

اے وطن جو لوگ عزت قرض میں لیتے نہیں
یہ جہاں والے کبھی ان لوگوں پہ ہنستے نہیں 

جن کے پیروں میں نہیں کانٹوں پہ چلنے کی سکت
ایسے لوگوں پر کبھی گُل آ کے برستے نہیں 

کیا بتائیں ہم کہ دنیا پوچھتی ہے ہر جگہ
  چاہنے والے تیرے کیا اس نگر بستے نہیں 

ممتاز تجھ کو خواب کے نذرانے کیوں کر دے سکے
 کیوں کہ میرے ہاتھ یہ اب ریت میں دھنستے نہیں 
●●●
کلام:مُمتاز ملک
مجموعہ کلام:
 میرے دل کا قلندر بولے
اشاعت:2014ء
●●●

بلی تھیلے سے باہر ۔ کالم



بلی تھیلے سے باہر آہی گئی 
ممتازملک ۔ پیرس


 لیجیئے ملاحظہ فرمایئے کل تک جو باتیں ایم کیو ایم کی جانب سے الزامات کہی جاتی تھیں آج ان تمام باتوں پر انہین کے نام نہاد لیڈر نے مہر تصدیق ثبت کر دی ہے  ۔
بہت سالون سے جو چنگاری الظاف حسین اپنے سینے میں دبائے بیٹھے تھے آج اسے اس لاوے کی  الٹی ہو ہی گئی ۔ایلیکشن تو ایک بہانہ تھا۔ حقیقت میں 25 سال سے الطاف حسین المعروف الطاف بھائی جس محاذ پر تھے اس میں کراچی والوں نے اپنی عزتیں بھی گنوائیں اپنے پیاروں کے لاشے بھی اٹھائے ، بوری بند لاشوں اور نامور لوگون کی ٹارگٹ کلنگ کے زریعے کراچی کو نایاب لوگوں سے پاک کرنے کے سنگین منصوبے بھی بھگتے ۔ اس بار کا ایلیکشن  میڈیا کے انقلاب کا ایک بہت بڑا ٹٰیسٹ کیس تھا ۔  جسے پاکستانی قوم نے اپنی آگاہی کا ثبوت دیتے ہوئے تو پاس کر لیا لیکن جن لوگوں کو پچھلے تماشوں کی عادت تھی ان کا ہاضمہ ضرور خراب ہو گیا ۔   جس پولنگ بوتھ پر چڑیا کو بھی پر مارنے کی اجاذت نہیں دیگئی وہاں پرجعلی ووٹنگ کو کیا کھیل کھیلا گیا   کئی خفیہ موبائل کیمرے اپنی آنکھوں میں ان مناظر کو قید کر رہے تھے جو جعلی کامیابیوں کا رونا روتے نظر آئے ۔ جعلی انگوٹھوں کی بہار بھی دیکھی گئی ۔ پورے پورے رجسٹر پر چند پارٹی کے لٹیرون کو دھڑا دھڑ ٹھپے ۔ انگوٹھے لگاتے واضح دیکھا جا سکتا ہے ۔ یہ بھی اللہ کا کرم ہے کہ دنیا میں کسی کا انگوٹھے کا نقش کسی بھی دوسرے کیساتھ نہیں ملتا ۔اب جب  کہ ایلیکشن کا ایک ایک ایکشن قوم کی نظر میں آ چکا ہے تو ایک جانب تو الطاف حسین نے  نواز شریف کوسارے ملک میں سیٹیں لینے کے باوجود  پنجابی لیڈر کہہ کر اپنے تعصب کا کھلا اظہار کر دیا ۔ دوسری جانب کراچی میں بھی اپنی سیٹس جو غنڈہ گردی کے زریعے جیتی جاتی تھیں وہ بھی جاتے دیکھ کر موصوف اپنا آپہ ہی کھو بھیٹھے اور لگے آئیں بائیں شائیں کرنے ۔ یہ ہی نہیں بلکہ کھلم کھلا ملک توڑنے کی دھمکیاں بھی دینے لگے ۔ بندہ پوچھے جگت بھائی صاحب  آپ بقول اپنے اتنے ہی کامیاب لیڈر اور جماعت کے بانی ہیں تو کیا وجہ ہے کہ آج 25 سال سے بھی ذائد عرصہ سیاست کے میدان میں گزار کر بھی آپ پاکستان کے کسی بھی علاقے میں کھلے بندوں  کوئی بھی سیٹ کیوں نہیں جیت سکے ۔ کیوں کسی اور شہر نے آپ کو اپنے ہاں ترقیاتی کاموں کے لیئے اعتبار سے نہیں نوازا۔ کیوں کوئی بھی شخص آپ کو اپنے علاقے میں نہیں دیکھنا  چاہتا ۔ تو بھائی صاحب یہ کوئی تعصب نہیں ہے بلکہ بہت بڑی سچائی ہے ۔ کہ جان بوجھ کر اپنی موت کو کوئی دعوت نہیں دیتا ۔ لہذا آپ کو بھی کسی نے اپنے شہر میں قبول نہیں کیا کیوں کہ آپ کی جماعت کا ماضی اور  تصور دونوں غنڈہ گردی / بوری بند لاشوں / ٹارگٹ کلنگ /بھتہ خوری / اغواہ برائے تاوان / ٹارچر سیلوں سے اٹا ہوا ہے ۔ ان سب کے باوجود بھی آپ کی خواہش ہے کہ آپ کو قومی لیڈر مان لیا جائے ۔کسی بھی ایشو پر ہر گھنٹے بعد تو آپ کا انکار اور اقرار تک بدل جاتا ہے ۔  آپکا اپنا کوئی دین اور ایمان آج تک نہ تو آپ کی اپنی باتوں میں نطر آیا نہ ہی آپکی پارٹی کے افراد کے قول و فعل میں ۔ اسی لیئے آپ لوگ  اپنا وقار  بھی قائم نہ کر سکے ۔ خود کو جناح کی اولاد کہنے والوں کو شرم آنی چاہیئے  ۔ کتنے افسوس کی بات ہے کہ  جنہوں نے قائد کے شہر کو اسی کے باسیوں کے لہو میں ڈبو دیا اوروہی قاتل شہر  اپنے نام کیساتھ آج بھی قائد کا نام لگاتے ہیں ۔ آج کی تاریخ میں موصوف کی تما م  تقاریر کو اکھٹا کر کے سنا جائے تو صرف ایک ہی بات سامنے آتی ہے ایک ایسے آدمی کا چہرہ سامنے آتا ہے جو اپنی خواہشات کی تکمیل کے لیئے کسی بھی حد تک جا سکتا ہے نہ تو اسے اس ملک سے محبت تو کیا دوردورتک کوئی ہمدردی ہے نہ ہی  اس ملک کے لوگوں کیساتھ اسکا کوئی درد کا رشتہ ۔ اب وقت آگیا ہے کہ ایسے ادمی کا سختی سے نوٹس لیا جائے اور اس کی موشگافیوں کا بھرپور علاج کیا جائے ۔ اس سے پہلے کہ پھوڑا ناسور  ۔۔بنے اس کا فوری علاج ملک و قوم کے مفاد میں بہت ضروری ہو چکاہے  ۔ خدا کے لیئے اپنے ملک سے محبت کیجیئے ۔ یہ ملک ہی ہماری ماں ہے ۔ دنیا کی تاریخ گواہ ہے کہ اپنے ملک اور اپنی ماں کا دامن جھٹکنے والے نہ تو دنیا میں کامیاب ہوئے نہ ہی انہیں آخرت میں بخشش ملی ۔ اور نہ ہی انہیں تاریخ میں کوئی باعزت مقام ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔




منگل، 7 مئی، 2013

ماؤں کا دن (ایک خاص تقریب) ممتاز ملک ۔پیرس


ماؤں کا دن (ایک خاص تقریب)
ممتاز ملک ۔پیرس





  1. پیرس میں 5 مئی 2013 کو ماؤں کے دن کے سلسلے مین ایک پروقار تقریب کا اہتمام انصاف وویمن ایسوسی ایشن کے تحت کیا گیا ۔ اس پروگرام  میں بین الاقوامی سطح کی نامور شخصیات کی شرکت نے اسے ایک یادگار تقریب بنا دیا ۔  ان کامیاب خواتین مین انگلینڈ سے نور ٹی وی کی میزبان محترمہ سمیہ ناز صاحبہ ، سپین سے  آسے سوپ کی روح رواں ڈاکٹرھما جمشید صاحبہ ، ڈنمارک سے نساء ٹی وی کی منیجنگ ڈائیریکٹر اور معروف شاعرہ محترمہ صدف مرزا صاحبہ اور اٹلی سے دی جزبہ کے چیف ایڈیٹر محترم اعجاز حسین  پیارا صاحب نے خیر سگالی کے جزبے کے تحت خصوصی  شرکت کی ۔ پروگرام کا آغاز تلاوت کلام پاک سے ہوا اسکے بعد بچوں نے ایک نعت پاک کی سعادت حاصل کی ۔ ایسوایشن کی سربراہ محترمہ شاہ بانو میر صاحبہ نے مہمانان کو خوش آمدید کہا ۔ ڈاکٹر ھما جمشید صاحبہ نے خواتین پر زور دیا کہ ایسے تمام عناصر جو اچھے  گھرون سے تعلق رکھتی ہین اور اپنی خاندانی ذمہ داریون کیساتھ اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریان احسن طریقے سے انجام دی رہی ہین ان کے خلاف ایک مخصوص ٹولہ کافی عرصے سے ان کی کردار کشی کرنے مین ایکا کیئے ہوئے ہے ۔ جن کا مقصد صرف اور صرف ایسی خواتین کو اپنی فیلڈ مین کام کرنے سے روکنا ہے جو ان کی کسی بھی قسم کی ناجائز مانگون کو پورا کرنے سے انکار کرتی ہین ۔ انہون نے خواتین پر ذور دیا کہ ایک اچھی مان کے حیثیت سے وہ تب ہی اچھی تربیت کا فریضہ ادا کر سکتی ہین جب کہ وہ خود اپنے حقوق و فرائض سے آگاہ ہون اور ان کا تحفظ کرنا بھی جانتی ہون ۔ ورنہ وہ خواتین کو ان کے کردار پرکیچڑ اچھال کر یون ہی کھڈے لائن لگاتے رہین گے ۔ صدف مرزا صاحبہ نے  فرمایا  پچھلی صدی مین بھی اسی طرح بدنامیون کے بوجھ کے نیچے کئی باکردار خواتین دب کر خود کشی تک کرنے پر مجبور کر دی گئیں  ۔ کیون کہ کسی بھی خاتون اور خاص طور پر اگر وہ ایک ماں ہے تو اس کے لیئے سب ے آسان طریقہ سمجھا جاتا ہے کہ اسے ختم کرنا ہے تو اسے اس کی اولاد کی نظر مین گرا دیا جائے ۔  وہ عورت خود بخود مر جائے گی ۔ لیکن بدمعاشی کی ان مثالون کو ہم اس صدی مین مشعل راہ نہین بننے دینگے ۔ اور ایسے تمام لوگون کا ہر پلیٹ فارم پر محاسبہ کیا جائیگا جو خواتین کو اور ماؤں کو اپنے غلط مقاصد کے لیئے اپنے اشاروں پر چلانا چاہتے ہیں ۔  اس کام کے لیئے خواتین کو یہ بات جاننی ہو گی کہ جدید ٹیکنالوجی کے غلط استعمال سے کی جانی والی گھٹیا کاروائیون کی ہر سطح پر مذمت کی جائے گی ۔  سمیہ ناز صاحبہ نے ایسے لوگون کی کاروائیون کو قابل افسوس قرار دیا ۔ ممتاز ملک نے اپنی کتاب ،،مدت ہوئی عورت ہوئے سے ،،سے اپنی نظم  ،، یہ مائیں کیون مر جاتی ہین ،، پیش کر کے داد سمیٹی ۔ اور ماؤن کو سلام پیش کیا ، انہون نے کہا کہ سب کو اپنی ماں بہت اچھی لگتی ہے ۔ لیکن زندگی کے تین ادوار ہوتے ہین ایک دور جب بچہ ہر طرح  سے ماں کا محتاج ہوتا ہے تو اسکی کل کائینات اسکی ماں ہوتی ہے پھر ٹین ایج آتی ہے تو بچے کو نئی جوانی میں اپنی ماں ہی اپنی دشمن لگنے لگتی ہے  پھر جیسے ہی اس کی یہ عمر بیس بائیس کی حد پار کرتی ہے اور اپنے مان باپ بننے کا زمانہ آتا ہے تو پھر سے اولاد کو شدت سے اپنی ماں کی قربانیوں کو احساس ہونے لگتا ہے ۔ اور یہ محبت عقیدت کا روپ بھی دھار لیتی ہے ، خوش نصیب ہوتے ہیں وہ لوگ جو ماں باپ کی زندگی میں ہی یہ بات جان لیتے ہین اور ان کی خدمت کا موقع حاصل کر لیتے ہین ۔  محترم اعجاز حسین پیارا نے تمام ماؤں کو خراج عقیدت  پیش کیا ۔  اور تمام ماؤں بہنون کو اس بات کو یقین دلایا کہ ہم لوگ بھائیون کی طرح  اپنی ماؤں بہنون کی عزتون کی حفاطت کرنا جانتے ہین ۔ اور سبھی مرد ابھی اتنے بے غیرت نہین ہوۓ کہ یہ بھول جائین کہ ان کے اپنے گھرون مین بھی مائیں بہنیں بیٹھی ہین اگر آج آپ کسی خاتون کی کردار کشی کرتے ہین تو اصل مین آپ بلا واسطہ اپنے ہی گھر کی خواتیں کو ذلیل کر رہے ہوتے ہین ۔ انہون نے ایسی تمام کاروائیون کی بھر پور مذمت کی ۔ جناب اٖفضل گوندل صاحب نے بھی بہت جذباتی انداز مین ماؤں کو خراج تحسین پیش کیا ۔ اور ایسے لوگون کو شرم دلائی کہ ہر مرد صرف مرد ہی نہین ہوتا بیٹا بھی ہوتا ہے بھائی بھی ہوتا ہے ، باپ بھی ہوتا ہے ، اسے اپنے تمام رشتون کو نبھانا بھی آتا ہے اور جو شخص خواتین کا احترام نہین کرتا تو گویا وہ اپنے گھر میں بھی نہ تو اچھا بیٹا ہو گا ، نہ ہی اچھا بھائی اور نہ ہی اچھا باپ ہو گا ۔   ایک نوجوان مظہر نے  بہت  ہی خوب صورت انداز مین  ماں کی شان میں نظم پیش کی اور آنکھوں کو آبدیدہ کر دیا ۔ بہت سی خواتیں اور بچون نے اپنی ماؤن کی یاد میں خوبصورت باتون کو بانٹا ۔    پروگرام کے آخر میں ڈاکٹر ہما جمشید نے شاہ بانو میر صاحبہ کو چادر اوڑھا کر انہیں عزت دی ۔ صدف مرزا صاحبہ نے بھی دوپٹہ اوڑھا کر انہین ماؤں کی عزت کی حفاظت کے محاز پر انہین اپنے ساتھ کا یقین دلایا   ۔ اور کہا کہ یہ دوپٹہ ان کے لیئے اسلیئے بھی بہت خاص ہے کہ یہ ان کی مرحومہ والدہ کی نشانی تھی جسے وہ اس خاتون کو اس لیئے پیش کر رہی ہیں کہ وہ ان کی نظر مین ماؤں کی عزت کی علامت ہیں ۔  اور اس بات کا بھی یقین دلایا کہ مٹھی بھر بدقماش ٹولے کے ہاتھوں تحریر کے ذرائع کو یرغمال نہیں بننے دیا جائے گا ۔ یوں یہ خوبصورت شام شرپسندون کو یہ پیغام دیتے ہوئے اپنے اختتام کو پہنچی کہ جو اپنی ماں کی عزت کرتا ہے وہ کبھی کسی اور کی ماں بیٹی پر انگلی نہین اٹھا سکتا ۔ 
 ،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،

جمعہ، 26 اپریل، 2013

دیدوں کا پانی ۔ کالم


دیدوں کا پانی
ممتازملک۔پیرس


 ہم لوگ اس سر زمین سے تعلق رکھتے ہیں جہاں ہمیں شعور کی پہلی سیڑھی پر قدم رکھتے ہی یہ بات گھول کر پلا دی جاتی ہے  کہ اس دنیا مین کسی بھی لڑکی یا لڑکے  کی ایک ہی بیوی یا ایک ہی شوہر ہوتا ہے باقی دنیا مین کہیں بھی کوئی بھی کسی بھی عمر کا شخص آپ کا باپ یا بھائی ہی ہوتا ہے اور عورت ماں یا بہن ہوتی ہے ۔ لیکن آج دنیا کو کیا ہو گیا ہے ان بیس سالوں کے اندر کیا  لوگوں کے دیدوں کا پانی ہی مر گیا ہے ۔ کہاں ہیں ہماری وہ اعلی شان روایات ۔ کہاں ہے ہمارا وہ معاشرہ کہ جس پر انگریز بھی حیران رہ جاتے تھے کہ کیا ایسا بھی دنیا میں ہو سکتا ہے ۔ کہاں ہیں ہماری وہ پاکیزہ سوچیں ۔ جو غیروں کو ہمارے گھر کا بزرگ  اور بیٹا بنا دیتی تھیں ۔ ہماری مائیں، ہماری  نانایاں، دادیاں سارے محلے کو ایک ہی رعب میں کھینچ کر رکھا کرتی تھیں جہاں کسی پڑوسن کی خالہ جی سے بھی اونچی آواز میں بات کر جاتے تو ابا کے جوتے ہماری تواضع کو کافی ہوا کرتے تھے ۔ جہاں والدین قرآن پڑھانے والی چاچی جی  یا قاری صاحب سے کہا کرتے تھے یہ اب آپ کے حوالے ہے ۔ اس کی ہڈیاں ہماری اور کھال آپ کی ہے ۔   جہان پر میاں بیوی کی شدید سے شدید لڑائی کے بیج بد لحاظ سے بدلحاظ  میان بیوی بھی محلے کے کسی بھی بھائی بہن یا بزرگ کی ایک آواز پر زبان کو دانتوں تلے دبا لیا کرتے تھے ۔   جہاں پر محلے کی ایک لڑکی کی شادی میں سارے محلے کے لڑکے سگے بھائیوں سے بھی بڑھ کر بھائی ہونے کا حق ادا کیا کرتے تھے ۔ جہان ایک کے گھر مہمان آتا تھا تو بنا مانگے، بنا کسے خونی رشتے کے دوسرے پڑوسی کے گھر سے بستر آجایا کرتے تھے ۔ جہاں گھر چھوٹا ہوتا تو ہمسائیوں کی بیٹھکوں کے در اس مہمان کے لیئے کھول دیئے جاتے تھے ۔ جہان پر کوئی پڑوسی کسی پڑوسی کو چاہے چھوٹی سی قولی میں ہی سہی، کچھ بھیجے بغیر کبھی گھر والوں کے لیئے کھانا نہیں نکالتا تھا ۔ جہاں گلی میں مسجد  کے وظیفہ لینے والے کے لیئے سب سے پہلے تازہ روٹی اور سالن، جو بھی بنا ہوتا، نکال کر رکھا جاتا تھا ۔  جہاں پر گھر میں ایک ہی بزرگ جو چیز اپنی بیٹی کے لیئے پسند کرتا تھا تو وہی اپنی بہو کے لیئے بھی لانا اپنا فرض سمجھتا تھا اسی لیئے تو وہ صرف بیٹی کے ہی نہیبں خود بخود اس بہو کے بھی ابا جی بن جایا کرتے تھے ۔ جہاں کنواری بیٹی کو کنواری بیٹی کے آداب سکھایا کرتے تھے تو بیاہی بہو کو بیاہتا فرائض اور حقوق بن مانگے دئے جاتے تھے ۔ جہاں بہنیں بھائیوں کا مان بڑھاتی تھیں، تو بھائی بہنوں کی آبرو بڑھایا کرتے تھے ۔ جہاں کوئی کسی سے اسکی محبت اور خدمت کسی صلے کی تمنا میں نہیں کرتا تھا ۔ محبت تھی بس کیئے جاتا تھا ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 کہنے کوتواس وقت ہم لوگ اتنے مالدار نہیں ہواکرتے تھے ۔ لیکن سکون سے سوتے تھے ۔ کہنے کو اسوقت ہم بہت پڑھے لکھے نہیں ہوا کرتے تھے ۔ لیکن آج سے کہیں زیادہ شائستگی رکھتے تھے ۔  کہنے کو اسوقت ہم بہت سمجھ دار نہین تھے لیکن آج سے زیادہ عزت دار تھے ۔ کیون کہ ہماری زندگی  کی ابتداء اور انتہاء بس ایک ہی بات تھی کہ
           ،، ایک کی بیٹی سب کی بیٹی ،اور ایک کی ماں سب کی ماں ،، 
 مجال ہے کہ کوئی اپنے علاقے کی کسی بھی عورت کی طرف نظر اٹھا کر دیکھ لے ۔ حالانکہ اسوقت شاید انہوں نے ساری زندگی مین غور سے اس خاتون کی صورت بھی کبھی نہیں دیکھی ہو گی لیکن بس یہ پتہ ہے کہ یہ خاتون فلاں کے گھر سے آتی جاتی ہیں  اور یہ گھر ہمارے علاقے اور محلے کا حصہ ہے لہذا،، میں خود ساختہ طور پر اب اس بات کا ذمہ دار ہوں کہ اس خاتون کی عزت پر کوئی حرف نہ آئے ورنہ لوگ کیا کہیں گے کہ یہ تو اپنے علاقے کی ماں بیٹی کی عزت کی حفاظت نہ کر سکا یہ کیا اپنے گھر کا مرد  ہوا۔ یہ کیسے ہمارہی بیٹی بیاہ کر لے گیا  تو اس کی حفاظت کرے گا ،،۔ یعنی کسی اور خاتون کی حفاظت کرنا بھی اس کی مردانگی کے لیئے ایک پُرغرور اور فخریہ امتحان ہوا کرتا تھا ۔ جسے اس وقت کا ہر جوان خوشی خوشی دینے کو تیار رہتا تھا ۔ 
لیکن آج ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آج کیا ہوا آج تو سنا ہے ہم نے بہت مال کما لیا ہے ۔ لیکن ہمین نیند کیوں  نہیں آتی ڈھنگ سے  ۔ آج ہم سائیکل کی جگہ لیٹسٹس ماڈل کی گاڑی میں گھومتے ہیں لیکن ہر وقت کوئی نہ کوئی گلہ کرتے رہتے ہیں ۔ آج ہم پہلے  سے زیادہ پڑھ لکھ گئے ہیں لیکن ایک دوسرے سے بات کرنے کی تمیز ہی بھول گئے ہیں ۔ پہلے ہم بیٹیوں کو کسی بھی محلے دار کے وعدے پر بھیج کر پرسکون ہوتے تھے کہ وہ محفوظ ہوں گی ۔ لیکن آج ہم اپنی بہنوں بیٹیون کو لاکھ حفاظتی حصاروں میں بھی بھیجتے ہین تو تب بھی دل کہیں اٹکا رہتا ہے ۔ کیوں ؟؟؟
 یہ کیا بےکلی ہے ۔ کل کچھ بھی نہیں تھا اور ہم اپنے مان باپ کا دم بھرتے تھے ان کے فرماں بردار تھے  حالانکہ وہ زرا زرا سی بات پر ہماری کھال ادھیڑ دیا کرتے تھے ۔ لیکن پھر بھی ہم ان کے ایک اشارے پر سب کچھ نچھاور کرنے کو تیار رہا کرتے تھے ۔ لیکن  آج
 کیا بات ہے  کہ  ہمارے بیٹیاں بیٹےلاکھ سمجھانے اور سب کچھ منہ سے مانگنے سے پہلے ہی جھولی میں ڈالنے کے باوجود آج ہم لوگوں کے نہ تو تابعدار ہیں نہ ہی وفادار ۔  نہ ہی ہمارے دکھ درد سے خبردار ۔ آپ کیا سمجھتے ہین یہ سب کچھ یونہی بے سبب ہو رہا ہے ۔ نہیں ۔ خدا کی بنائی ہوئی کائنات میں کچھ بھی کبھی بے سبب نہین ہوتا ۔ ہر بات کے پیچھے کوئی ٹھوس لوجک ہوتی ہے ۔ جب تک ہم دوسروں کی بھوک کا خیال کیا کرتے تھے خود ہم بھی کبھی مالی پریشانیوں کا شکار نہیں ہوئے تھے۔ ہمیں بھی کبھی یہ نت نئے عارضے لاحق نہیں ہوئے تھے ۔ جب تک ہم دوسرے کے مہمان کو بھی اپنا ہی مہمان سمجھتے تھے ۔ ان کی رحمتوں سے ہم بھی فیضیاب ہوا کرتے تھے۔ کوئی بنا کسی رشتے کے بھی  اکیلاکبھی  نہیں ہوا تھا  ۔ جبکہ آج ہم نے اپنے ہی بہن بھائیوں تک کو بوجھ سمجھ کر ان سے میٹھی سچی بات کرنا چھوڑدی ہے، تو کیا ہوا بھرے مجمع میں خدا نے ہمیں اکیلا کر دیا ۔اتنے سارے نام نہاد دوستانوں میں بھی ہم کسی کو اپنے دل کا حال سنانے کے لیئے اعتبار نہیں کرپاتے ۔اپنے دکھ کو  کسی کندھے پر بے دھڑک سر رکھ کر آنسوؤں میں بہا نہیں سکتے ۔ جانے کون، کب ،کہاں ، ہماری کسی بھی دکھتی رگ کو اپنا تفریح طبع بنا لے ۔ کیوں کہ ہم نے لوگوں پر بہتان تراشیوں کو اپنا شیوہ جو بنا لیا ۔ ہم نے تہمتوں کو اپنا اوڑھنا بچھونا  بنا کر اسے اپنے لیئے ایک کے بعد ایک کو گرا کر خود کو خود سے ہی بادشاہ اور بادشاہ گر سمجھ لیا ۔ تو سب سے بڑے بادشاہ نے ہمیں زلتوں کے گڑھے میں دھکیل دیا ۔ ہمارا سکون غارت کر دیا ۔ جب تک ہم دوسرون کی عزتوں کی حفاظت کرتے رہے خدا نے اپنے کرم سے ہماری عزتوں کو بھی اپنی حفاظت  مہیا کی ۔ اور ہمارے دلوں کو ان کی حفاظت کی فکر سے آذاد کر دیا  ۔آج ہم نے دوسروں کی بیٹیوں پر گندی نظریں ڈالنا ۔ اور ٹھرک جھاڑنا  اپنا مشغلہ بنا لیا تو ہماری بیٹیوں کو دوسرے لوگوں کے لیئے خدا نے اسی کام کا بہانہ بنا دیا ۔ یہ ہی تو ہے خدا کا انصاف ۔ خدا پر کسی ایک فرد کی اجارہ داری تو نہیں ہے، جو وہ ایک کی سنے گا تو دوسرے کی ان سنی کر دیگا ۔ وہ سب کا ہے، سب کے دل مین رہتا ہے، سب کی نیتوں کو جانتا ہے ۔ تو جو کچھ آپ کسی کے لیئے پلان کر رہے ہوتے ہیں وہی پلاننگ کہیں کسی اور مقام پر کسی اور کے زہن میں اللہ پاک آپ کے لیئے بھی ترتیب دلوا رہا ہوتا ہے ۔ جلد یا بدیر اسے آپ کے سامنے لاکر آپ کو آپ کے ہی جیسے کسی اور کردار کے ہاتھوں آپ کے انجام تک پہنچانے کیلیئے ۔ کیوں  کہ
،،  آدمی جو دیتا ہے آدمی جو لیتا ہے
 زندگی بھر وہ دعائیں پیچھا کرتی ہیں ،،  
 لہذا یقین مانیں اگر صرف ایک ہی چیز کی ہم نے نے حفاظت کر لی تو ہم لوگوں نے حفاظت کر لی تو اس نام نہاد ترقی یافتہ اور زہنی طور پر اخلاق باختہ بلکہ اخلاقی دیوالیہ دور میں بھی ہم بیفکر ہوکر میٹھی نیند سو سکتے ہیں ۔ بے دھڑک اپنی بہنوں بیٹیوں کو گھروں سے باہر بھیج کر ان کے عزتوں کی حفاظت سے بیفکر بھی ہو سکتے ہیں ۔ بہت ہی آسان بات ہے کہ ہم اپنے دیدوں کے پانی کی حفاظت کرنا پھر سے شروع کر دیں ۔  ہم اپنی نگاہوں اور اپنی زبانوں کو زمانے کی غلاظتوں میں لتھیڑنے سے پرہیز شروع کر دیں ۔ تو دیکھ لیجیئے گا کہ خدا آج بھی وہی ہے جو صدیوں پہلے تھا ۔ خدا کے اس کائینات کو چلانے کے اصول آج بھی وہی ہیں جو لاکھوں سال پہلے تھے ۔ خدا کا کرم اس کی عنایت آج بھی وہی ہے جو کروڑوں سال پہلے تھی ۔ اور ہاں خدا کا غضب بھی آج بھی وہی ہے جو زمانوں پہلے تھا ۔ کیوں کہ یہ اسی کا حکم ہے کہ جو اپنے دو جبڑوں کے بیچ اور اپنی دو ٹانگوں کے بیچ کی حفاظت کر گیا تو گویا خدا اسکا اور وہ خدا کو ہو گیا ۔   
تو کیا خیال ہے آج سے ہی اس کی پریکٹس شروع کر دی جائے ۔ اب یہ فیصلہ آ پکا ہے اس زمانے کی نام نہاد تھڑک بازی کا حصہ بن کر بے سکونی چاہیئے یا ان دو چیزون کی حفاظت کر کے  جہاں بھر کے فکروں سے آزادی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،

● ایک تھی عورت / کالم


      

 ایک تھی عورت
ممتازملک۔ پیرس

۔ اپنے ملک میں جس کام کے لیۓ لوگ بھاری بھاری تنخواہوں پر بھی میسر نہیں ہوتے یہا ں فرانس میں اور بھی بہت سے ممالک میں بسنے والے بہت سے بہن بھائ صرف اور صرف پاکستان کی یاد میں اسکی کامیابی کی خواہش میں اپنا تن من دھن لیکر اس کے نام کی سربلندی اور اسکی شہرت کی خرابی کو دور کر کے اس کا نام اجالنے میں مصروف ہیں ۔ بنا کسی صلے اور بنا کسی قیمت کے ۔ لیکن وہیں پر کچھ ایسے شرپسند عناصر بھی ہمیشہ ہی سرگرم عمل رہے ہیں جن کے پاس نہ تو کبھی کوئ لکھنے لکھانے کے حوالے سے کوئ شوق تھا ۔ نہ ہی انہیں لفظوں کے حرمت سے کوئ واسطہ ہے۔  ان کے لیۓ لکھنے لکھانے سے وابسطہ ہر میدان راتوں رات شہرت حاصل کرنے کا ایک آسا ن زریعہ تھا ۔ صحافت کے نام پر اپنے تعلقات سے ایک بیج اور کیمرہ اپنے گلے میں لٹکا کر انہوں نےاسے اہم مقامات اور خاص لوگوں تک پہنچنے کا ایک زریعہ بنا لیا ۔ فرانس میں ایسے لوگوں کی کوئ کمی نہیں ہے جن کا تعلق بہت غریب بلکہ غربت کی سطح سے بھی نیچے کے گھروں سے  رہا ہے ۔ غربت کوئ جرم نہیں ۔ ان لوگوں نے اپنی محنت سے اپنا اور اپنے خاندانوں کا مقدر سنوارہ ہے ۔ جس کے لیۓ وہ مبارکباد کے مستحق ہیں ۔ لیکن وہیں یہاں ایسے چھچھوروں کی بھی کمی نہیں ہے ۔ جنہوں نے اپنے جوانی کی شہرت کے شوق کو پورا کرنے کے لیۓ اب بڑھاپے اور ادھیڑ عمری میں   ایسی گندی مچھلیوں سے روابط بناۓ جو نہ تو اپنے کردار میں پاکیزگی رکھتے تھے نہ ہی ان کی آنکھوں میں  حیا کا کوئ گزر ۔ یہ ہی وہ لوگ ہیں جو دوسروں پر گندگی اچھالنے ، ان کی کردار کشی کرنے اور ایسے تمام شرفاء کا ناطقہ بند رکھنا چاہتے ہیں جو خاموشی سے سر   .جھکاۓ اپنے بامقصد کاموں میں مصروف ہیں  ان لوگون کو بطور خاص اگر وہ ایک خاتون ہین تو نہ صرف انہیں زبانی  تھریڈ کیا جاتا ہے   ۔ بلکہ ان پر  ان کے کردار پر بھی کیچڑ اچھالنے کا کوٰئی موقع ہاتھ سے نہین جانے دیا جاتا ۔ یہ سب کرتے بھی ایسے خواتین اور حضرات  جن کے اپنے کردار نہ صرف مشکوک ہوتے ہین بلکہ وہ انتہاٰئی گھناؤنے کردار کے بھی مالک ہیں ۔ ان لوگوں کے اپنے گھروں مین شاید عورت ایک ہی کام کرتی ہے اسی لیئے جب بھی کسی خاتون کو کسی بھی میدان میں سرگرم عمل دیکھتے ہین انہین بھی اپنے ہاں کی خواتین جیسا سمجھ لیتے ہین ۔ ۔ آج مہینہ بھر سے ان لوگوں نے اخلاق اور تہذیب کی ہر حد ہی پھلانگ لی ہے ۔    ان معزز خواتین کو نہ صرف  کام کی جگہون پر ہیراسمنٹ کا سامنا ہے بلکہ انہیں کھلے لفظوں مین دھمکایا جاتا ہے کہ  ۔یا تو ان کے ساتھ مل کر انہیں جیسے گندے ہو جاؤ یا پھر لکھنے کے میدان کو۔خیرباد کہہ دو  ۔ 
یہ کہانی ہے ایک ایسی عورت کی کہ جسکا جنون ہمیشہ سے پاکستان رہا ہے ۔ پاکستان سے دیادر غیر میں قدم رکھنے سے لیکر اپنے نواسے کو گود میں اٹھانے تک اس نے اپنے الفاظ کو کبھی بھی پاکستان کے پیراۓ سے باہر نہ نکلنے دیا  ۔لیکن  اب تو معاملہ یہان تک پہنچ گیا ہے کہ
 بیس سال سے فیلڈ میں کام کرنے والی اس خاتون کی آواز کے ٹیپ کیئے ہوئے  ٹکڑے  لیکر انہین مکسنگ کے زریعے  ایک انتہاٰئی گھٹیا سٹینڈرڈ  کا سیکس سکینڈل  بنا کر اسے سوغات کی طرح  لوگوں کو پہنچایا جا رہا ہے ۔   جگہ جگہ اسے بدنام کرنے اور اس کے زہناور قابلیتوں کے   توازن اور طاقت کو توڑنے کی انتہائی مذموم اور شرمناک حرکت کی گئی ہے ۔
 ہماری یہ بدنصیبی پہلے  ہی کیا کم ہے کہ ہماری آدھی آبادی کو تعلیم کے اس حق سے ہی محروم رکھا جاتا ہے ۔ جسے حاصل کرنے کا حکم  ہمیں ہمارا مزہب بھی دیتا ہے  ۔اور جو خواتین شومئی قسمت کہ تعلیم حاصل کر بھی لیتی ہیں تو انہین اپنی کسی بھی قابلیت کو اپنی کمیونٹی  کی فلاح کے لیئے استعمال کرنے کی اجازت نہیں ہوتی ۔جہاں اتنی بڑی آبادی پہلے ہی گھرون میں بیٹھی اپنی ڈگریوں کا اچار ڈال رہی ہے  وہاں  کون نہیں جانتا کہ ہمارے ہاں کسی خاتون کا نام مذاق میں  بھی کسی غیر مرد کیساتھ جوڑ دیا جاۓ  تو اسکے کتنے بھیانک نتائج نکل سکتے ہین طلاق ہو جانا تو معمولی بات ان کی بچوں  کے رشتے داؤ پر لگ جاتے ہیں ۔ ان کی  زندگی دوزخ بنا دی جاتی ہے اور تو اور غیرت میں آ کر انہین قتل بھی کر دیا جاتا ۔ ہے ۔ قارئین آپ ہی بتایۓ ایسے ماحول مین ہماری آدھی سے زیادہ آبادی اپنی تعلیم اور خدادا صلاحیتوں کو  زنگ لگا رہی ہے ۔    وہاں جو چند ذہن اپنی کمیونٹی کی سوچوں کو روشنی  دکھا رہے ہیں انہین بھی نیست و نابود کرنے کا آغاز ہو  چکا ہے ۔  یہ گندی مچھلیاں اور مگر مچھ آخر کب تک  عزت داروں کی پگڑیاں اچھالتے رہیں گے ۔  آج ایک عورت ان کے نشانے پر ہے ، کل کو میری باری ہو گی ، پرسوں آپ کا نمبر ہو گا ۔ یہ سلسلہ چل نکلا تو یاد رکھیئے اس کے نتائج انتہائی خوفناک ہون گے ۔ کل کو غیرت کے نام پر یہان عورتیں اور مرد قتل ہونا بھی شروع ہو جائیں گے ۔ پہلے ہی پاکستانی کیا کم بدنام ہین دنیا میں ، کہ اب ایک نیا طوق اس کے گلے مین ڈالنے کی  منصوبہ بندی شروع کر دی گئی ہے ۔ اس سلسلے کو ابھی قانونی اور اخلاقی طریقے سے نہ روکا گیا تو مرد بھی جان لیں کہ کوئی بھی گندی مچھلی انہین بھی اپنے اشارے پر گندہ کرنے کے لیۓ کسی بھی خاتون کی آوازوں اور تصویروں کیساتھ جوڑ کر اسکے بیوی بچوں کے ساتھ  رشتوں میں دراڑ ڈال سکتی ہے ۔۔ آج میں اسے اپنے حقیقی صحافی برادری کیساتھ مل کر نہ صرف ایسا کرنے اور کروانے والے اور والیوں پر لعنت بھیجتی ہون بلکہ انہین چیلنج کرتی ہون کہ اگر دم ہے اور رتی بھر بھی شرم باقی ہے تو آئیں اور لکھنے اور پڑھنے کے میدان میں ہم سے مقابلہ کریں ۔ اور اپنے آپ کو ہم سے بہت آگے لیجائیں ، بصورت دیگر اپنے آپ کو اپنی حدود کے اندر رکھنے کا اہتمام کریں ۔  اور یاد رکھیں چاند پر تھوکا ہمہشہ تھوکنے والے کے ہی منہ پر آ کر گرتا ہے ۔ ۔ خدا کی لاٹھی  بے آواز ہوتی ہے اور فرانس کی پولیس کی کاروائی کو بھی غلطی سے  بھی پاکستانی پولیس کا معاملہ نہ سمجھنا ۔ کیوں کہ یہ معاملہ اگر پولیس مین چلا گیا تو سارے گندے اور گندیاں بے نقاب ہو جائیں گے ۔  اور معاملہ سائیبر کرائم تک چلا گیا تو پھر کسی کے بھی بس کا نہین رہے گا اور اس تمام کروائی کے ذمہ دار وہ بدبخت لوگ ہوں گے جو جیب سے پیسے لگا کر دوسروں کی عزتیں اچھالنا پسند کرتے ہین ۔ یہ ہی پیسہ خدا کے نام پر کسی اچھے کام میں کسی مسجد میں ، کسی یتیم کی شادی میں لگایا ہوتا تو مرنے کے بعد بھی اپنے لیئے صدقئہ جاریہ کا بہانہ بنا لیتے ۔ لیکن شاید سچ ہی کہتے ہین حرام کا مال حرام کی طرف ہی جاتا ہے ، اور مان باپ کے بے ادب لوگ دنیا مین بھی ذلیل ہوتے ہیں اور آخرت میں بھی برباد۔ یہ سوال کسی ایک عورت کی عزت کا نہیں ہے بلکہ ہمارے مجموعی ملکی اور  اور مذہبی وقار کا بھی ہے ۔ عورت ہو یا مرد اگر وہ حلالی ہے تو اسکی عزت ایک جیسی ہی اہمیت رکھتی ہے ۔ ورنہ کسی بے غیرت کے لیۓ عورت کیا اور مرد کیا ۔اسے کسی بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا ۔  آپ نے جنگلی گلاب تو دیکھے ہوں گے جو ایک ایک شاخ پر گچھے کے گچھے لگے ہوتے ہیں دور سے دیکھنے میں بہت خوبصورت بھی لگتے ہین لیکن ایک تو انکی عمر کم ہوتی ہے دوسرا وہ خوشبو سے بھی خالی ہوتے ہیں جبکہ اصلی گلاب بھی آپ نے ضرور دیکھے ہوں گےجو پورے پورے کاتٹون سے بھرے  پودے پر ایک ایک کر کے ہی کھلتے ہین لیکن ان کی خوشبو کو کوسوں دور سے بھی محسوس کیا جا سکتا ہے ۔ اور یہ خوشبو  انکے شاخ سے ٹوڑنے کے بعد بھی کافی عرصے تک سب کو مہکاتی ہے ۔ اس کی عمر بھی ایک رات کی نہیں ہوتی ۔ بلکہ کئی دن تک ہوتی ہے ۔ جسے توڑ کر جہاں رکھیں گے وہ جگہ بھی ہمیشہ مہکتی رہے گی ۔
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،

اتوار، 7 اپریل، 2013

● (10) سچائی/ شاعری ۔میرے دل کا قلندر بولے


(10) سچائی




 لہجوں کے بدلنے میں بھلا دیر کیا لگتی
ہم نے تو نظارے بھی بدلتے ہوئے دیکھے

تُو آگ کی فطرت سے شکایت نہ کیا کر
پانی میں بھی پتھر ہیں پگھلتے ہوئے دیکھے

اجناس کی صورت ہمیں بکتے وہ دکھے ہیں
پھولوں کے بچھونوں پہ جو پلتے ہوئے دیکھے

عُشاق کو رستے کی مشقت سے بھلا کیا
بے فکر وہ انگاروں پہ چلتے ہوئے دیکھے

کچھ راز ہیں قدرت کی ہی اسرار پسندی
صحرا میں بھی چشمے ہیں ابلتے ہوئے دیکھے

ممتاز جنہیں زعم تھا خوش بختی پہ اپنی
ہاتھ ایسے سر راہ ہیں ملتے ہوئے دیکھے
                      ●●●
کلام:مُمتاز ملک
مجموعہ کلام:
 میرے دل کا قلندر بولے
اشاعت:2014ء
●●●

بدھ، 3 اپریل، 2013

کھاۓ لاہور اور روۓ پنجاب / ممتازملک ۔ پیرس



کھاۓ لاہور اور روۓ پنجاب
ممتازملک ۔ پیرس


پاکستان کا ایک بازو جن حرکتوں کی وجہ سےٹوٹا آج پھر ہم اپنے ملک کو اسی دوراہے پر لا کر کھڑا کر چکے ہیں ۔ اسوقت بھی الزام تھا کہ ملک کا ایک حصہ دوسرے حصے کے وسائل کو کھا رھا ہے ۔ افسوس آج بھی ملک کا ایک حصہ اپنے پورے صوبے کے وسائل کو ہڑپ کر کے اسے سارے ملک کے سامنے مجرم بنا کر کھڑا ہونے پر مجبور کر رھا ہے لیکن مجال ہے کہ کاغذی شیروں کے کانوں تک جہاں پناہ کے آگے کی کوئ صدا پہنچ رہی ہو ۔ حالانکہ وقت نے ان شہنشاہی پسند بھائیوں کو ایک سنہری موقع عنایت کیا کہ وہ ایک ہی صوے میں سہی مگر اتنا اچھا ترقیاتی کام کر کے دکھاتے کہ باقی تمام ملک اس بات کی خواہش کرتا کہ کاش یہ ہی پارٹی ان کے پورے ملک کا نظام بھی چلاتی ۔ اور حکومت میں آکر اس ملک کو کامیابی کی منزلوں تک لیجاۓ ۔ مگر نہیں یہاں تو معاملہ ہی الٹ گیا ہے ۫ضیاء الحق کی ڈکٹیٹر شپ میں پروان چڑھنے والا یہ پودا نہ تو دو دو بار حکومت میں آنے کے باوجود ملکی سطح پر عوام کے آگے اپنا کوئ قد کاٹھ بڑھا سکا نہ ہی اپنے دماغ کو لاہور سے آگے لیجا سکا ۔ پاکستان کی بڑی بدنصیبی یہ ہی ہے کہ ایک پارٹی لاڑکانہ کے نام پر سندھ کارڈ کی بدمعاشی کرتے نہیں تھکتی تو دوسری تخت لاہور کے شاہی محلوں سے آگے سوچنے کے قابل 30 سال بعد بھی نہ ہو سکی ۔اندھوں میں کانا راجہ کے مصداق بنے دو گروپس 40 سال سےعوام کا خون چوسنے میں مصروف ہیں ۔ ایک نوجوان نے جب ہم سےیہ سوال کیا کہ کسی صوبے کو سب سے ذمہ دار عہدہ کون سا ہے تو ہم نے جواب دیا کہ وزیر اعلی ، اس پر اس نوجوان نے جواب دیا کہ نہیں نہیں بھئ وزیر اعلی تو پرانے کونسلر کی نئ تشریح ہے پنجاب کا تو 30 سال سے کوئ وزیر اعلی ہی نہیں ہے ایک شہر لاہور ہےجہاں وزیر اعلی ٹائپ کا کوئ کونسلر ہے جو کبھی کبھار نالیاں سڑکیں وغیرہ بنواتا ادھڑواتا رہتا ہے ۔ لیکن ہم بھی پنجاب میں رہتے ہیں ہمارا بھی کوئ ایسا ہی وزیر اعلی ہونا چاہیۓ ، ایک لمحے کو یہ بات شاید آپ کو مذاق لگے لیکن غور کریں تو یہ ہی بات کسی آنے والے خطرے کی گھنٹی بھی ہے جہاں لاہوری راج نے شدت سے اپنے ہی صوبے میں احساس محرومی پیدا کر دیا ہے ۔ پورے صوبے کے وسا ئل کوایک ہی شہر پر کسی نہ کسی بہانے خرچ کیا جا رہا ہے ۔ صوبہ بہاولپور پر اعتراض کرنے والے ڈریں اسوقت سے جب پنجاب کا ہر شہر اپنی بقا ء کے لیۓ خود کو صوبہ بنانےکی کوئ تحریک شروع کر دے لہذا ہر صوبے کی حکومت کسی بھی ایک شہر پر توجہ دینے کی بجاۓ ہر شہر اور گاؤں کی ترقی کے لیۓ تمام تر وساائل بروۓ کار لاۓ ۔اور اس احساس محرومی کا ازالہ کرے تاکہ عوام کو آۓ روز احتجاج کرنے کی ضرورت ہی نہ محسوس ہو ۔ جان مال اور عزت کا تحفظ کسی بھی ملک میں اس کی حکومت کی ذمہ داری ہوتا ہے کوئ احسان نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،

شاعری / /مدت ہوئ عورت ہوۓ/ ممتاز قلم / سچ تو یہ ہے/ اے شہہ محترم/ سراب دنیا/ نظمیں/ پنجابی کلام/