ممتازملک ۔ پیرس

ممتازملک ۔ پیرس
تصانیف : ممتازملک

اتوار، 20 ستمبر، 2020

● اپنے ‏دل ‏کا ‏حال/ ‏کوٹیشنز ‏




     اپنے دل کا حال 



اللہ سے اپنے دل کا احوال کہہ کے دیکھ
کسی اور سے دکھ بیان کرنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں ہو گی ۔ 
            (چھوٹی چھوٹی باتیں) 
                   (ممتازملک.پیرس)

پیر، 14 ستمبر، 2020

● جیت/ کوٹیشنز



     جیت
کردار کی جیت ہی انسان کی اصل خوبصورتی ہے 
لیکن
کردار کے جیتنے تک
 اکثر 
حسن کی موت ہو چکی ہوتی ہے ۔۔۔ 😬
       ( چھوٹی چھوٹی باتیں)
              (ممتازملک.پیرس)

● ‏وراثت کے ڈاکو / کالم




         وراثت کے ڈاکو
       (تحریر:ممتازملک.پیرس)



جسے کہو کہ بھائی اولاد کم پیدا کرو اس کی تربیت کرنی پڑتی ہے تو جوابا ایک سیدھے سادھے سامنے نظر آنے والے حال احوال  کے باوجود ہمارے ہاں جاہلانہ بحث کا آغاز کر دیا جاتا ہے ۔  پچیس سال سے میں خود  اسی بات پر دلائل دیتے دیتے عاجز آ چکی ہوں لیکن اکثریت کے بھیجے میں اپنی بات نہ اتار سکی ۔ برسوں سے لکھ لکھ کر تھک چکی ہوں کہ بنا تعلیم تو شاید انسان ہنر کے زور پر زندگی گزار لے لیکن بنا تربیت کے انسان کا معاشرے  میں مقام وہی ہے جو جنگل میں درندوں کا ہوتا ہے ۔ یعنی چیرنا پھاڑنا  اور کھا جانا ۔ 
آج   وہی سب کچھ حرف بحرف سچ ثابت ہو رہا ہے ۔ بچوں کی لائنیں تو لگا لیں لیکن نہ انہیں پیٹ بھر روٹی دے سکے نہ ہی کوئی آسائش اور ویسے بھی ہمارے ہاں بچے محبت سے نہیں بلکہ ایک دوسرے پر اپنا غصہ نکالنے کے لیئے پیدا کیئے جاتے ہیں ۔ عورت سمجھتی ہے کہ وہ اپنے مرد کو اس بوجھ کے نیچے دبا رہی ہے اور وہ اس سے بھاگ خر کہیں نہیں جا سکتا  اور مرد سمجھتا ہے کہ وہ اولاد کی لائنیں لگا کر اپنی عورت کی مت مار رہا ہے تاکہ اسے کچھ اور سوچنے سمجھنے کی سدھ بدھ ہی نہ رہے اور وہ جو گل چاہے کھلاتا ۔ نتیجتا دونوں ہی اپنے گھر میں آج کی نسل کی صورت جنگلی درندوں کا جھنڈ پروان چڑھا رہے ہیں ۔ ایسے سانپ پال رہے ہیں جو انکو ہی ڈس کر خود کو زندہ رکھنا جانتے ہیں ۔ کیونکہ اسکے سوا  وہ خود رو جھاڑ جھنکار  اور درندے کسی سے کچھ سیکھ ہی نہیں سکے ۔ 
والدین کے خون پسینے کے مال پر نظریں گاڑے گھر کے ڈاکو ۔ انکی اپنی اولادیں ۔ والدین کے آپسی جھگڑوں اور جہالتوں نے  وہ نفسیاتی مریض اولادیں پیدا کی ہیں ۔ جنہیں نہ تو ڈھنگ کی تعلیم ملی اور نہ ہی باحیا باادب گھر کا ماحول ملا ' نہ ہی والدین خصوصا ماں کی جانب سے کوئی بھی تربیت ملی تو ایسے میں ہم نے جو جنگلی جانور اپنے ہی گھروں میں پروان چڑھا لیئے تو اس کا انجام وہی ہونا تھا جو آج گلی گلی دکھائی دے رہا ہے ۔ اولادیں والدین سے ایسے بات کرتی ہیں جیسے کبھی کوئی اپنے ملازم سے بھی بات نہیں کرتا تھا ۔ اور تو اور والدین سے مارپیٹ اور اب تو انکے قتل کی وارداتیں بھی روزمرہ کا معمول بنتی جا رہیں ۔  
 والدین کے مال پر اولادیں یوں نظریں گاڑے بیٹھی ہیں جیسے ان کو پیدا کرنا ان کے والدین کا حقیقی جرم ہے جس کا تاوان انہیں ہر صورت ادا کرنا ہے ۔ جیسے یہ اولاد نہ ہو بلکہ "نکال دو جو کچھ تمہارے پاس ہے " کہہ کر لوٹ لینے والے ڈاکو ہوں ۔ 
ہمارے ہاں بگڑتا اور تباہ ہوتا ہوا سماجی ڈھانچہ شدت سے اس بات کا متقاضی ہے کہ جائیداد کے لیئے وراثت کے قوانین میں فوری اور قابل عمل تبدیلیاں لائی  جائیں  ۔ ان قوانین کو بہت آسان ، اور قابل عمل ہونا چاہیئے ۔ والدین ساری عمر کی محنت شاقہ کے بعد سر پر ایک چھت یا پیروں کے نیچے زمین بنانے میں کامیاب ہوتے ہیں ۔ اپنا پیٹ کاٹ کاٹ کر اپنی اولاد پالتے اور جوان کرتے ہیں کہ کل کو وہ ہماری عزت اور گھر بار میں اضافے کا باعث بنیں گے لیکن ان  کمزور اور بوسیدہ قوانین کے طفیل گھر گھر یہ ہی جائیداد اور گھر بار اولادوں کی جوانیوں کے بھینٹ چڑھنے لگا ہے ۔ جہاں دیکھیں  والدین اپنے ہی گھر کی چھت کے لیئے اپنی ہی کم بخت اولادوں کے ہاتھوں قتل ہو رہے ہیں ۔ کہیں گھروں سے نکالے جا رہے ہیں ۔اپنے ہی والدین کے گھروں پر قبضے کے لیئے کیا بہن اور کیا ہی بھائی، ہر ایک گھات لگائے  والدین کی موت کے لیئے منصوبے بنائے بیٹھے ہیں ۔  کہاں کے مسلمان اور کہاں کی اخلاقیات ۔ ہم میں تو اتنی غیرت بھی باقی نہیں بچی کہ اگر ہم شادی کر کے اپنے گھر میں اپنے لیئے جگہ کم سمجھتے ہیں یا ہمیں  پردہ اور پرائیویسی کا مسئلہ ہے تو جائیں جا کر کہیں کرائے پر گھر یا کمرہ لیں اور الگ سے اپنی زندگی کا آغاز کریں 
 لیکن کہاں جناب پھر ہمیں ہمارا "حصہ " کیسے ملے گا ۔ کون سا حصہ ؟ وہی حصہ  جو ہم نے اس ماں کی کوکھ سے پیدا ہو کر اس باپ کے نام سے اپنے نام پیدائشی لمحے میں ہی محفوظ کروا لیا تھا ۔۔۔
 کہیں وہ باقی بہن بھائیوں کے قبضے میں نہ چلا جائے ۔ پھر کون سالہا سال عدالتوں میں دیوانی مقدمات میں دیوانہ ہوتا پھرے گا ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ شرعی حصے کو کسی بھی قیمت پر کوئی  بھی بہن یا بھائی ضبط نہ کر سکے ۔ اور والدین کسی مخصوص اولاد کو لاڈلا یا لاڈلی بنا کر اس کی جیب  بھرنے کے چکر میں باقی اولادوں کو بھی اپنا دشمن نہ بنا بیٹھیں ۔اور ایک ایسا قانون ہونا چاہیئے جس میں اگر اولادیں نافرمان نکلیں یا والدین ان کے خلاف اپنے کونسلر کے پاس یا تھانے میں شکایت درج کروائیں تو اسے پوری سنجیدگی سے لیا جائے ۔ 24 گھنٹے کے اندر اس پر نوٹس لیا جانا چاہیئے اور اس کی انکوائری غیر جانبدار اور نیک نام لوگوں سے کروائی جائے جسے وہ والدین بخوشی قبول کریں اور ایسی اولادوں کو اس گھر سے فورا بیدخل کر دیا جائے اور ان والدین میں سے کسی ایک کی موت بھی مشکوک ہو تو اسی نافرمان اولاد کو سب سے پہلے گرفتار کیا جائے اور ان پر سخت  کاروائی کی جائے ۔ تاکہ باقی لوگوں کو عبرت حاصل ہو ۔ 
شادی شدہ اولاد کو الگ رہنے کا حکم دیا جائے ۔ والدین جسے چاہیں (اپنی اولاد کے سوا بھی) اپنی جائیداد اس کے نام کر سکیں کیونکہ یہ ان کی کمائی ہے یہ ان کا حق ہے کہ وہ اس جائیداد کو کیسے استعمال کریں  ۔ اولاد کو اس پر اعتراض کا کوئی حق حاصل نہیں ہونا چاہیئے ۔ 
صرف یہی ایک طریقہ ہے جس کی وجہ سے اگر اولاد والدین سے کسی فائدے کا لالچ دیکھتی ہے تو اسے اپنے والدین کیساتھ حسن سلواک بھی کرنا ہو گا ۔ تاکہ وہ انکے  گھر میں نہیں بلکہ  انکی نظر  میں رہیں ۔ سکولوں اور مساجد میں بچوں کو ہر روز خاص طور پر حسن اخلاق پر تربیتی سبق دیا جائے ۔
انہیں ذہن نشیں کروایا جائے کہ نیکیاں ہی ہماری آخرت کا توشہ ہیں اور یہ نیکی اسی وقت تک نیکی رہتی ہے جب تک اس میں لالچ کا زہر نہ گھولا جائے۔ 
                          ●●●


● علتیں ‏/ ‏کوٹیشنز ‏

                   

    علتیں
جو حکمران جیسی علتوں میں مبتلا ہوتا ہے  اس کی قوم میں وہی علتیں رواج پا جاتی ہیں ۔ 
(چھوٹی چھوٹی باتیں)                
(ممتازملک.پیرس)                      

جمعہ، 11 ستمبر، 2020

● مرد ‏/ ‏کوٹیشنز ‏


       مرد ؟


ہر عورت اور بچے کو شکار سمجھنے والا درندہ تو ہو سکتا ہے، مرد کبھی نہیں ہو سکتا کیونکہ مرد کی ذات کیساتھ تو صرف ایک ہی بات سجتی ہے تحفظ دینے والا، عزت دینے والا،  معاف کرنے والا۔۔۔
جس میں یہ خصوصیات نہیں اسے مرد کہلانے کا بھی کوئی حق نہیں ۔۔
                  (چھوٹی چھوٹی باتیں)                             (ممتازملک.پیرس)

منگل، 8 ستمبر، 2020

● رحمت ‏کی ‏تلاش ‏/ ‏کوٹیشن


        رحمت کی تلاش ۔۔۔

ہم اس نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) کے ماننے والے ہیں جنہوں نے فرمایا تھا کہ 
خدا کی قسم اگر محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کی بیٹی فاطمہ (رضی اللہ تعالی عنہا) بھی چوری کرتی تو میں اسکے بھی ہاتھ کاٹ دیتا ۔۔۔
اور آج اسی نبی (صلی اللہ علیہ وسلم)  کی امت ہونے کے دعویدار قوم اور اسکے نمائندے  چوروں ڈاکووں اور لٹیروں کو فخریہ بغل میں لیکر گھومتے  ہیں ۔
 اس قوم پر خدا کی رحمتوں کی تلاش 
کیا واقعی ؟؟؟؟
           (چھوٹی چھوٹی باتیں)
                 (ممتازملک.پیرس)

اتوار، 6 ستمبر، 2020

● گوہر فردا آن لائن مشاعرہ/ عالمی دعوت نامہ



گوہر فردا ادبی تنظیم
نظامت ڈاکٹر ناہید کیانی 
مہمان : ممتازملک۔  پیرس فرانس
ریاض رحیم ۔ بھارت 


https://youtu.be/tIXTInkzwFw




✔ ● پاکستان ‏کو ‏بدلنا ہے ‏تو ‏۔۔۔/ ‏کالم۔ لوح غیر محفوظ




پاکستان کو بدلنا ہے تو
 پہلے خود کو بدلنا ہو گا ۔۔۔💚
پھر بدلے گا پاکستان


بھائی کب بدلو گے پاکستان ؟ 
پہلے پاکستانیوں کی سوچ اور طرز زندگی کو بدلو ۔ اپنے میڈیا کی طاقت کو  کو ایکدوسرے کے خلاف محاذ آرائی اور پگڑیاں اچھالنے  کے لیئے استعمال کرنے کے بجائے انکی اخلاقی تربیت اور معاشرتی اقدار کی بلندی کے لیئے استعمال کیجیئے ۔ ڈراموں فلموں اور گیتوں کے  ذریعے انہیں قوانین کی پاسداری کی جانب راغب کیجیئے اور سزاوں پر بلا تفریق عمدرامد کروا کر قانون اور یقینی انصاف  پر لوگوں کا اعتماد بحال کیجیئے ۔ ۔ 
پاکستان کو بدلنا ہے تو اسے اپنے ہر محکمے میں  کالی بھیڑوں کا صفایا کرنا ہو گا ۔ "کل کیا ہوا تھا" کے بجائے  "آج کیا ہو رہا ہے " سے ہی شفافیت کا یہ عمل قانون سازی اور عملدرامد کے ذریعے شروع  کروایا جا سکتا ہے ۔ 
بیس تیس اور پچاس سال پہلے کے حسابات اور ریسیدیں رسیدیں  کھیلنے کا عمل ویسا ہی ہے کہ نہ نو من تیل ہو گا اور نہ رادھا ناچے گی ۔  کیونکہ جس زمانے میں پاکستان میں نکاح تک زبانی ہوا کرتے تھے اس زمانے کے آدمی سے آپ جائیدادوں کی رسیدیں مانگ کر صرف اس قوم کا وقت اور مذید پیسہ  برباد کر رہے ہیں ۔ سو جس زمانے میں کھاتے لکھنے اور رسیدیں دینے کا رواج ہی نہیں تھا ان وقتوں سے سر پھوڑنے اور عوام کا پیسہ ان کے کیسز پر مذید برباد کرنے سے کہیں زیادہ  بہتر ہے کہ پاکستان میں دولت جمع کرنے اور جائیدادوں کے عشق میں علت کی طرح مبتلا ہونے والوں کے لیئے  اس کی ایک حد مقررکر دی جائے ۔ جس میں یہ نکات شامل ہوں کہ 
● انکے  گھروں کا حدود اربعہ زیادہ سے زیادہ دس مرلے مقرر کیا جائے ۔
● ہر فوجی و سول آفیسر یا عام آدمی کے نام و ملکیت میں  ایک وقت میں صرف ایک ہی گھر رہ سکتا ہے۔
●زرعی زمین کی ملکیت ایک آدمی کے پاس دس ایکڑ سے زیادہ کبھی نہیں ہو سکتی ۔
●گاڑی کی مالیت  اسکی تین سالہ تنخواہ سے زیادہ ہر گز نہیں ہو سکتی ۔ 
●ایک وقت میں ایک ملازم رکھنے کی اجازت ہو گی ۔ جس کی تنخواہ پر وہ اپنی جیب سے 10 فیصد ٹیکس بھرے گا ۔ 
● صحت کارڈ ہر پاکستانی کو جاری کیا جائے جس پر اس کی سالانہ ظاہر کی گئی آمدن کے حساب سے کم آمدنی والے کو زیادہ اور زیادہ آمدنی والے کو کم مراعات کے ساتھ مکمل علاج معالجہ فراہم کیا جائے ۔ جیسا کہ دنیا بھر کے ترقیاتی ممالک میں اے، بی، سی ، ڈی۔۔۔۔ کے آمدنی گریڈ مقرر کر کے فراہم کیا جاتا ہے ۔ 
●سال میں ایک بار سے زائد بیرون ملک دورے کی صورت میں ادائیگی کا ذریعہ ظاہر کرنا لازمی ہو۔ 
● ہر عمرہ کرنے واالے کو اگلے پانچ سال کے لیئے دوبارہ عمرہ کرنے سے روک دی جائے ۔ اور ہر حج کر لینے والے کو اگلے پندرہ سال تک دوبارہ حج کرنے سے منع کر دیا جائے ۔ تاکہ وہ یہ پیسہ کسی دوسرے کو وہاں بھیجنے یا کسی اور فی سبیل اللہ مقاصد پر خرچ کر سکے ۔ 
●فوج اور اسٹیبلشمنٹ  کے ہر اعلی عہدیدار کو ریٹائرمنٹ کے وقت اپنی جائیدادوں کا حساب کتاب پیش کرنے کا قانون بنایا جائے ۔ اس کی جائز آمدن کے سوا باقی سب کچھ بحق سرکار و پاکستانی عوام ضبط  کر لیا جائے ۔ 
● ایک فوجی اعلی عہدیدار کے لیئے ایک دس مرلے کا گھر ایک گاڑی اور ماہانہ 18 گریڈ آفیسرز  کے مساوی وظیفہ تاحیات مقرر کیا  جائے۔ 
● ایک آدمی کا صرف ایک ہی بینک اکاونٹ ہونا چاہیئے ۔ دوسرے اکاونٹ کے کھلوانے کے  مطالبے پر اس سے اس کی تسلی بخش وجہ دینے کا پابند کیا جائے ۔ 
● بینک میں اس کی ملکیت میں پچاس لاکھ روپے سے زائد رقم کبھی نہیں ہونی چاہیئے ۔ 
●ریٹائرمنٹ کے بعد وہ کم 5 سال تک بیرون ملک سفر نہیں کر سکتا ۔ 
اگر واقعی پاکستان کو اور پاکستانیوں کو  بدلنا ہے تو انہیں کچھ حدود و قیود میں زندگی گزارنے کا عادی ہونا پڑیگا ۔ جہاں دنیا بھر میں ترقی یافتہ ممالک کے سربراہان اور اعلی فوجی قیادت ریٹائرمنٹ کے بعد  تین تین کمروں والے فلیٹ میں  عام سی گاڑی اور سائیکل لیکر بسوں اور میٹروز میں سفر کرتے ہیں اور عزت پاتے ہیں ۔ وہاں پاکستان جیسا ترقی پذیر ملک کہ جس کا سپہہ سالار اور مٹھی بھر اشرافیہ پاکستان بھر کی رجسٹریاں اپنی جیب میں لیئے گھومتا ہے ۔ دنیا میں جزیرے خریدتا پھرتا ہے  قومی رازوں کی تجارت کرتا پھرتا ہے ۔۔۔کو یہ بتانے اور سمجھانے کی ضرورت آن پڑی ہے کہ پاکستان کسی کے باپ کی جاگیر نہیں ہے ۔ کہ جس کا جی چاہے وہ اس کی بولی لگواتا پھرے اور غریب آدمی کے خون پسینے کی کمائی کو اپنی عیاشی پر اڑاتا پھرے ۔ 
اگر آپ نے اپنے ملک کی خدمت کی ہے تو اس کے بدلے میں دوسروں سے زیادہ عزت اور مال بھی کمایا ہے ۔ اب کچھ اجر اگلی دنیا کے لیئے بھی جمع ہونے دیجیئے ۔ یا وہاں بھی ڈنڈے کے زور پر جنت کی رجسٹری اپنے نام کروانے کا ارادہ ہے ؟؟؟؟ 
                     ۔۔۔۔۔۔۔۔

جمعرات، 3 ستمبر، 2020

● درد / کوٹیشنز



               درد



والدین کو چھوڑتے ہوئے کسی کو درد ہو نہ ہو لیکن والدین کی جائیداد اور مال چھوڑنے کو بدترین اولاد بھی تیار نہیں ہوتی۔۔۔۔
اللہ کی شان
یا قیامت کی نشانیاں 
            (چھوٹی چھوٹی باتیں)
                 ( ممتازملک.پیرس)
                       ۔۔۔۔۔۔

منگل، 1 ستمبر، 2020

● ادارہ فروغ قومی زبان اسلام آباد / رپورٹ



     


       پہلی آن لائن اردو کانفرس 
                  رپورٹ: ممتازملک.پیرس 




ادارہ فروغ قومی زبان (مقتدرہ) اسلام آباد کے تحت اسلام آباد میں  12 ، 13 ، اور 14 اگست 2020ء کو  پہلی آن لائن سہہ روزہ کانفرنس کا انعقاد کیا گیا ۔ جس میں پاکستان بھر سے اور بیرون ملک سے بھی چنیدہ شرکاء کو مدعو کیا گیا ۔ اس کانفرنس کا مقصد اردو زبان کے  ارتقائی سفر اور اس کی ترویج و ترقی پر روشنی ڈالنا تھا ۔ اس پروگرام کی نظامت کے فرائض محترمہ سمدیہ کمال نے نہایت  خوبصورتی سے ادا کیئے ۔ کانفرنس کے پہلے روز کے تیسرے سیشن میں راقمہ کو بھی اظہار خیال کا موقع عنایت کیا گیا ۔ جس کا ہم نے بھرپور استفادہ کرنے کی سعی کی ۔۔
اس روز ہمارے علاوہ جو اہم شخصیات اظہار خیال کو شامل تھیں ان میں ڈاکٹر احسان اکبر، جناب اسلم کمال ، ڈاکٹر فاطمہ حسن  ، جناب یوسف شاہین ، ڈاکٹر اختر شمار ، ڈاکٹر عزیز ابن الحسن، محترمہ ممتازملک ، جناب خالد یوسفی ، ڈاکٹر محمد منیر سلیچ ، ڈاکٹر وحیدہ رحمن ، محترمہ بشری فرغ ، ڈاکٹر عبدالستار شامل تھے ۔
 اہم نکات  جن پر زور دیا گیا ان کا لب لباب یہ ہی تھا  کہ اردو زبان کو پاکستان میں ہر سطح پر تعلیم اور دفتری زبان کا درجہ دیا جائے ۔ تاکہ طلباء املاء اور گرائمر کی رٹا بازی کے بجائے اپنی قومی زبان میں حقیقی علم حاصل کر سکیں ۔ 
اردو کے  متروک الفاظ کے بجائے عام فہم اور روز مرہ کے الفاظ کو نصاب  کا حصہ بنایا جائے ۔ تاکہ اس  میں طلباء کی دلچسپی کو بڑھایا جا سکے ۔۔
بیرون ملک سفراء کو تربیت دی جائے کہ وہ وہاں کی حکومتوں سے اردو زبان کو بطور اختیاری زبان وہاں کے سکول کالجز اور یونیوسٹیز میں شامل کروائیں ۔ 
چھوٹے چھوٹے وظائف دیکر مقامی لوگوں کو  اردو کورسز کروائے جائیں ۔ 
وقتا فوقتا دوسرے ممالک کے لیئے اپنے ڈرامے اور فلمیں اردو زبان میں ڈبنگ کیساتھ بھجوائے جائیں ۔ تاکہ وہاں کی عوام ہماری زبان کو ہمارے اصل لہجے اور نام کیساتھ سن کر اس سئ آشنا ہو سکے۔ وگرنہ اردو کی جو پرورش اور خدمت ہم پاکستانیوں کو کرنی چاہیئے تھی سچائی تو یہ یے کہ وہ عزت اور خدمت اس کی بھارت نے کی ہے ۔ چاہتے نہ  چاہتے ہوئے دنیا کے کونے کونے میں بھارت نے اردو زبان کو اپنی فلموں کے ذریعے پہنچایا ہے ۔ اب چاہے وہ اسے ہندی کہہ کر بیچیں لیکن سچ یہی ہے کہ دنیا میں جہاں بھی اسوقت اردو بولی اور سمجھی جاتی ہے اس کا سہرا بھارتی فلموں کو ہی جاتا یے ۔ اب ضرورت ہے اس کے رسم الخط کو بچانے کی ۔ کیونکہ رومن اور ہندی رسم الخط اسے نقصان پہنچانے کے لیئے پوری قوت سے میدان میں ہیں ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اردو بولنے والے ان  لوگوں کو اس بات پر مائل کیا جائے کہ جو اچھی بھلی اردو پڑھنا لکھنا جانتے ہیں لیکن اس کے باوجود انگریزی حروف تہجی میں رومن میں اسے لکھتے ہیں ۔
 ان کے اندر سے اپنے رسم الخط کے بارے میں کوئی بھی ہچکچاہٹ یا احساس کمتری یے تو اسے دور کیا جائے ۔  اور اس کا آغاز ہمیں اپنے ملک پاکستان سے کرنا ہو گا جہاں کی یہ قومی زبان ہے ۔ ہماری دفتری کاروائی اور ملک بھر کا ایک جیسا نصاب تعلیم ہماری اپنی قومی زبان اردو میں رائج کرنے کی جتنی اشد ضرورت آج ہے اسے محسوس نہ کیا گیا تو دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کی ترقی کی کہانیاں بس ہماری نسلوں کے لیئے انگریزی کی گرامر کتاب اور املا کی غلطیوں اور اصلاح ہی میں قابل تقلید ملا کرینگے ۔ 
اس پہلی آن لائن اردو کانفرنس میں بہت سے مفید  مشورے اور آراء اردو کی ترقی اور بڑہوتری کے کیئے پیش کیئے گئے ۔ اب حکومت وقت کا کام ہے کہ وہ آگے بڑھے اور  اپنے حصے کی قومی زبان کو رائج کرنے کی ذمہ داری کو پورا کریں ۔ 
اس قسم کی کانفرس کا انعقاد بجا طور پر خوش آئندہ اور قابل داد  ہے ۔
                     ●●●




https://youtu.be/WuXoWGB3qkc

● Insight with Zafar Sheikh Live | Urdu Poetry !! Mumtaz Malik | Shameem K...




    ڈنمارک سے ظفر شیخ کیساتھ خصوصی گفتگو 
           
Zafer Sheikh talk to Mumtaz 
Malik Poetess
   
            


https://youtu.be/pMJqx_Q3-2o





شاعری / /مدت ہوئ عورت ہوۓ/ ممتاز قلم / سچ تو یہ ہے/ اے شہہ محترم/ سراب دنیا/ نظمیں/ پنجابی کلام/