ممتازملک ۔ پیرس

ممتازملک ۔ پیرس
تصانیف : ممتازملک

پیر، 2 ستمبر، 2024

تبصرہ ۔ بشری فرخ



کتاب۔ اور وہ چلا گیا 
شاعرہ۔ ممتازملک
تبصرہ۔ بشری فرخ صاحبہ




اس نیلے اسمان کی چھتری کے نیچے ایک وسیع و عریض کائنات اپنی لامحدود روشنیوں اور تاریکیوں کے ساتھ جلوہ گر ہے اور اس کائنات آب و گل کا انمول ترین نگینہ بشر ہے ۔ جو اپنے اندر عجائبات کی ایک دنیا سموئے ہوئے ہے۔ یہ بشر جب اس آخرت کی کھیتی پر قدم رکھتا ہے تو اس جہان رنگ و بو کی کسی نہ کسی شے کی جستجو میں ہو جاتا ہے۔ کیونکہ اس بشر کو سوچنے سمجھنے کی صلاحیت بدرجہ اتم ودیعت کی گئی ہے اور اسی بنا پر اللہ جل شانہ نے اسے اشرف المخلوقات کے خطاب سے نوازا اور زمین پر اپنا خلیفہ مقرر فرمایا۔
 یہی تلاش و جستجو جب اظہار کی متقاضی ہوئی تو انسان نے اپنے لیئے نت نئی راہیں استوار کیں کہ جن کے ذریعے باقی دنیا تک اپنا پیغام پہنچا سکے۔ کبھی ایجادات، کبھی دریافت، کبھی مصوری، کبھی موسیقی کی صورت اور جب جذبات و احساسات کی بات ہوئی تو قلم کا سہارا لے کر نثر اور شاعری کی بنیاد رکھ ڈالی۔ وطن عزیز میں اگر شاعری کی بات کی جائے تو ان 75 سالوں میں بہت بڑے بڑے نام ابھر کر سامنے ائے ہیں۔
 لیکن زیادہ تر حضرات کے۔ خواتین کا حصہ اس لیے کم کم رہا۔ کہ ہمارے معاشرے میں خواتین کا شاعری کرنا اچھا نہیں سمجھا جاتا تھا۔ اس لیئے شروع شروع میں خواتین مردانہ ناموں سے لکھتی تھیں۔  آہستہ آہستہ  معاشرے میں شعور بیدار ہونا شروع ہوا تو بہت ساری اہل قلم خواتین سامنے آتی چلی گئیں اور اج ادا جعفری سے لے کر کشور ناہید تک اور پروین شاکر سے لے کر شبنم شکیل تک آسمان ادب پر ستارے بن کر جگمگا رہی ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ نئے لکھنے والوں میں مردوں کے ساتھ ساتھ خواتین بھی اپنی منفرد شاعری سے اپنا مقام بنا رہی ہیں۔
 ممتاز ملک کا شمار بھی ایسی ہی شاعرات میں ہوتا ہے جو علم و ادب سے والہانہ لگاؤ کے سبب شعر و سخن سے وابستہ ہیں اور اپنی منفرد پہچان بنا رہے ہیں ۔ 
سامعین کرام شاعری کی کوئی صنف بھی ہو اس میں اگر شاعر کے گہرے اور سچے جذبات کار فرما نہ ہوں تو شعر دل کی گہرائیوں میں نہیں اتر سکتا ۔
ممتاز کا اپنا اسلوب اور اظہار خیال اپنا پیرایہ ہے۔ ان کا مطالعہ اور مشاہدہ گہرائی اور گہرائی لیے ہوئے ہے۔ انہوں نے اپنے نہاں خانہ احساس سے ابھرنے والے دلکش اور عمیق خیالات کو سلیقے اور کرینے سے نفاست کے ساتھ قلم بند کیا۔ ان کی شاعری ان کے وسیع تجربے اور تیز مشاہدے کا نچوڑ ہے۔ جس میں سلیس زبان اور سادہ الفاظ کی انتخاب میں ایک خاص روانی پیدا کر دی ہے۔ زندگی کی تمام تر تلخیوں حقیقت زمانے کی بے مروتی عداوت نفرت اخلاقی اقدار کی پامالی غرض کہ زمانے کے تمام منفی رویوں نے ان کے قلم کو روانی عطا کی ہے۔ انہوں نے اپنے ارد گرد جو کچھ دیکھا اور محسوس کیا اسے اس کے اصل روپ میں اپنے قاری کے سامنے رکھ دیا  کیونکہ ممتاز اپنی عملی زندگی میں بھی ایک بے باک،  صاف کو اور کھری انسان ہیں۔ اس لیئے ان کی شاعری بھی رنگ آمیزی کا عمل دخل نہیں ہے۔
 اپنے وطن سے دور پیرس میں بسنے والی اس شاعرہ کی شاعری میں اپنی دھرتی ماں سے محبت کی مہک، انسانیت کے دکھ ، معاشرتی مسائل اور وطن سے محبت کے ساتھ ساتھ ایک سچا مسلمان ہونے کے ناطے اپنے رب اور محبوب رب کی محبت میں غرق ممتاز ملک کا کلام
" اور وہ چلا گیا" یہ ظاہر کرتا ہے کہ یہ ان کا آخری پڑاؤ نہیں ہے۔ 
ان کے چند منتخب اشعار ملاحظہ فرمائیں
 ساری دنیا کو لے کے کیا کرنا
 صرف میرا میرے خدا ہو جا

 جب بھی سجدے میں سر جھکے تو لگے
 جنتوں کی کسی قطار میں ہوں

 یہ بگولوں نے دی خبر ہم کو
 دل کے صحرا میں رقص جاری ہے
 کھردری کھردری اداسی ہے 
مخملی مخملی خماری ہے

 اس نے لفظوں کا صور پھونکا ہے
 اب سنبھلنا تو اضطراری ہے

 بخت والوں کو ملا کرتا ہے آب شیریں
 میٹھے چشموں کا بھی پانی ہوا کھاری ہم پہ

 ممتاز مجھ پہ جانے پتھر کہاں سے برسے 
احساس کے شہر کا لہجہ تو ریشمی ہے 

خود کو دھوکے میں نہ رکھنا ہی سمجھداری ہے
 ساتھ کیا دیں گے نظر مجھ سے چرانے والے

یہی نہیں بلکہ انہیں اس سے بہت آگے جانا ہے۔
ممتاز ملک کو مبارکباد اور بہت ساری دعاؤں کے ساتھ
 بشری فرخ
(پرائیڈ اف پرفارمنس)
 چیئر پرسن 
کاروان حوا لٹریری فورم 
پشاور پاکستان



منگل، 27 اگست، 2024

دوستا ۔ اردو شاعری

دوستا
کلام/ممتازملک۔پیرس 


ہم تیری یاد میں، کس جگہ آ گئے 
تو نے مڑ کر نہ دیکھا،  ہمیں دوستا


جستجو کے  سویرے، بسر ہو گئے
خواہشوں کی ہر اک، شام ڈھلنے لگی
دل سے آہوں کی صورت، اٹھا ہے دھواں  
آنکھ سے اشک بن کر، نکلنے لگی

ہم تو شاید یہاں، بے وجہ آ گئے 
تو نے مڑ کر نہ دیکھا ، ہمیں دوستا


مسکرانا ہماری تو، فطرت میں تھا 
اور ستانا تیری ،عادتوں کا ثمر
مسکرانا ہمارا ، قضاء ہو  گیا 
اور ستانا تیرا ، ہو گیا پر اثر

زندگی سے ہوئے، جب خفا آ گئے 
تو نے دیکھا نہ مڑ کر، ہمیں دوستا 


تجھکو احساس اسکا ، زرا بھی نہیں 
 بیوفائی ہے تیری،  کرامت نہیں 
جھوٹ کے پاوں ، ممتاز ہوتے نہیں 
دوستی کا نہیں سر، قیامت نہیں

خود سے آنے لگی، ہے حیا آ گئے
تو نے دیکھا نہ مڑ کر، ہمیں دوستا
۔۔۔۔۔۔۔۔

پیر، 26 اگست، 2024

تبصرہ ۔ زرقا نسیم کی شاعری پر



زرقا نسیم لاہور میں رہتی ہیں۔ ایک ایسی شاعرہ جس کے کلام میں اسکے مشاہدات، اس کے تجربات اور اس کی دوسروں سے متعلق نیک خواہشات بولتی ہوئی دکھائی دیتی ہیں۔
 کہیں وہ کہتی ہیں
 وہ بھی جو میرا ذہن  تصور نہ کر سکا آنکھوں سے اپنی ہوتا ہوا میں نے دیکھا ہے

 وہ اپنی زندگی کے بہت سے صدمات کو لفظوں میں سمیٹتی ہوئی دکھائی دیتی ہیں۔ جس کا اظہار کچھ یوں کرتی ہیں۔

 مت پوچھیے گزرتی ہے کیا دل پہ ہم نشیں
 ہوتے ہوئے کسی کو جدا میں نے دیکھا ہے

 زرقا نسیم کی شاعری ان کے دل سے نکلی ہوئی  ایسی آواز سنائی دیتی ہے جو سننے والے کو خود پہ گزرے ہوئے حالات پر ادراک دیتی ہے۔
 زندگی میں اپنے جیون ساتھی کے بہت جلد بچھڑ جانے کے دکھ کو وہ چاہیں بھی تو اکثر چھپا نہیں پاتیں۔
 دنیا کی بے ثباتی، حالات کی شتم ظریفی اور پھر اپنے ایک مخلص پیار کرنے والے جیون ساتھی سے جدائی ان کی تحریروں میں جا بجا سنائی دیتی ہے۔ جیسے کہ
 میری حرمت کا امانت دار ہوتا تھا کوئی
 میرے گھر کی چھت میری دیوار ہوتا تھا کوئی
یا پھر یہاں دیکھیئے

 وہ ہنس کے سارے رنج و غم اٹھاتا تھا
 میری خود داری کا اہل کار ہوتا تھا کوئی

  ایسے ہی اور بہت سے اشعار جو ان کے درد دل کو بیان کرتے ہیں۔
 ان کی روح میں سمائے ہوئے اس کرب کو بیان کرتے ہیں جو انہیں جا بجا زندگی میں کہیں اپنوں سے ملے اور کہیں اپنے جیسوں سے۔ اگر میں یہ کہوں کہ ان کا وہ کلام جو میری نظر سے گزرا اس میں زیادہ تر حصہ اس کلام کا تھا جو انہوں نے اپنے جیون ساتھی کے نام کیا۔
 اس کے ساتھ بیتے ہوئے اچھے لمحات کو بار بار یاد کیا اور اس کے بعد گزری ہوئی تنہائی اور درد کو بیان کرتے ہوئے شاید اس درد کو اپنے اوپر بار بار گزرتے ہوئے محسوس کیا تو حلط نہ ہو گا۔
 جیسے کہ تم جو ملتے تھے مہک اٹھتی تھی میں
 رات کی رانی بھی رانی تم سے تھی
یا پھر اس میں ملاحظہ فرمائیں 

 میری سوچوں کا فقط مرکز سے تم
 میرے اس دل کی کہانی تم سے تھی

 زرقا نسیم نہ صرف ایک بہت اچھی شاعرہ ہیں بلکہ بہت اچھی دوست ہیں ۔ مہمان نواز ہیں۔ اپنے بچوں کی ایک اچھی ماں ہیں۔ جنہوں نے انہیں بہترین تربیت کرنے کی ہر ممکن سعی کی اور اپنے بچوں کی کامیابی کی صورت اس کا پھل آج ان کے سامنے   ہے ۔
میری بہت سی دعائیں زرقا نسیم کے لیئے۔ اللہ تعالی ان کی اس کتاب کو بہت پذیرائی عطا فرمائے اور انہیں دن دونی رات چوگنی ترقی عطا فرمائے۔ آمین 

ممتازملک۔پیرس فرانس 
 ( شاعرہ۔ کالمنگار نعت خواں۔ نعت گو۔افسانہ نگار۔ کہانی کار۔ عالمی نظامت کار)

بیباک ادائیں ۔ اردو شاعری


بیباک ادائیں
(کلام/ممتازملک۔پیرس)

اے میرے حسن کی بیباک اداؤں کے شکار 
تو نہیں جانتا کتنوں کے کیئے دل بیمار

یہ یقین ہے یا نگاہوں کی کرشمہ سازی
دوسرے اسکو نظر آتے ہیں ہر دم لاچار

سوچ کے پر کبھی آزاد نہیں ہو سکتے 
وقت کی قید نے زخمی کیئے جنکے دلدار

عارضی کے لیئے ابدی کا کیا ہے سودا
یہ حوادث کےہیں شیدائی بلا کے مکّار

عشق کے ہونٹ سلے رہنے دو اے دل والو
شور کرنے کو یہاں عقل نہیں ہے تیّار

لاکے چوٹی پہ تیرے ہاتھ اسی نے چھوڑے
جس کے کہنے پہ کیئے تو نے دل و جان نثار

ہر جگہ بِکنے کو تیار ہے ہر چیز یہاں 
اب نہ مکتب نہ ہی مسجد نہ جُدا ہیں بازار

وعظ ممتاز کسی وقت اٹھائے رکھو 
غیرت دین ابلنے کے نہیں ہیں آثار 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جمعرات، 22 اگست، 2024

عید دا چن وی ۔ پنجابی کلام ۔ کوسا کوسا



عید دا چن وی

اداسی دور نہ ہوئی میں تکیا عید دا چن وی
ہر اک معصوم شکلاں والا دسیا عید دا چن وی

کسے اتھرو دے وانگوں ہر گھڑی مغموم کردا اے
دکھاں دی سیویاں بںڑں دل چہ  پکیا عید دا چن وی

میں اینوں روندیاں تکیا دھاڑاں مار کے غم نل
نہ اپنے آپ نوں وی سانبھ سکیا عید دا چن وی

ہر اک پاسے بچھے لاشے جو مینوں سوںڑں نہیں دیندے
میرا ناں سنڑں کے زوراں نال ہسیا عید دا چن وی

جیہڑا کل رات کھبیا سی کلیجے ماں دے سینے وچ
میں ناں رکھیا شہید اوس دا تے
رکھیا عیدا دا چن وی 

دھماکے نال ہویا سی جدوں ممتاز دو ٹوٹے
میں ڈوری اتھروواں دی نال 
کسیا عید دا چن وی
۔۔۔۔۔۔

پیر، 19 اگست، 2024

بدکاروں کا علاج۔ نظم۔ جا میں نے تجھے آزاد کیا


کولکتہ کی بربریت کیساتھ 
ماری گئی
 معصوم
 ڈاکٹر مومیتا کے نام
9 اگست 2024ء 
        ۔۔۔۔۔۔

بدکاروں کا علاج

ان درندوں کی وہ 
شے ہی گر کاٹ دو 
جو سنبھالی نہیں جاتی
 ان سے کبھی 
ان کو حق بھی نہیں 
 اس کو رکھنے کا گر 
یہ امانت ہوئی ان پہ بھاری بہت
چھین لو ان سے یہ نام کا لوتھڑا 
جسکو مردانگی  کہتے  
تھکتے نہیں 
آو ہم بیٹیاں بھی بنائیں کوئی
ایک ایسا گروہ
جس میں ایسے  ہر اک
 نام کے مرد کو 
ہم سزا دیں سر عام 
ایسی کہ پھر
مرد کو مرد کا 
معنی سمجھا سکیں 
اپنی سب بیٹیاں
 انکے ہر گند سے
 ہم بچا بھی سکیں 
             (ممتازملک۔پیرس)


ہفتہ، 10 اگست، 2024

اعتبار تو کر/ اردو شاعری



اعتبار تو کر


جا اپنے سوئے ہوئے بخت کو بیدار تو کر
تو اپنی ذات پہ تھوڑا سا اعتبار تو کر

نہ شہہ نہ مات ہمیشہ رہی کسی کے لیئے
پلٹتے وقت کے پانسے کا انتظار تو کر

بھریں گے زخم سبھی پھول بھی کھلیں گے ضرور
تو مسکرا کے کبھی موسم بہار تو کر

نہیں ہے جو اسے رونے سے لاکھ بہتر ہے
جو پاس ہیں تیرے وہ نعمتیں شمار تو کر

نہ بوجھ لاد یوں احسان کے تو اپنے سر 
بس اپنی ذات پہ تھوڑا سا انحصار تو کر

بہت سکون ہے ٹہراو ہے ولایت ہے 
کبھی تو راہ توکل کو اختیار تو کر

تمہارا نام بھی ممتاز ہو مقام بھی ہو 
بلند اپنا زمانے میں تو وقار تو کر     

  ●●●

فقیر کا کاسہ /اردو شاعری۔ متفرق اشعار



گرنا ہی جب نصیب میں لکھا ہے جان کر 
چپکے سے اک فقیر کے کاسے میں جا گرے 

مشاعرہ ۔22واں۔ رپورٹ

رپورٹ :
راہ ادب فرانس دا 22واں عالمی پنجابی مشاعرہ 


راہ ادب فرانس دا 22واں آن لائن عالمی پنجابی مشاعرہ 9 اگست پاکستان ٹیم راتی 8 وجے تے یورپ ٹیم شامی 5 وجے  منعقد کیتا گیا۔جدے وچ دنیا بھر دے منے پر منے شعراء کرام نے شرکت کیتی۔  شامل ہون والیاں دے ناں ایس پرکار  نے۔ 
 صدر مشاعرہ: ملک رفیق کاظم بھسین صاحب : لاہور
 ۔ محمد نواز گلیانہ صاحب اٹلی۔ 
 جد کے مہمان خاص:
 رحمان امجد مراد صاحب سیالکوٹ۔ 
 نغمانہ کنول شیخ صاحبہ نے یو کے توں عزت بخشی ۔ 
شاعراں دی بیٹھک وچ  شامل سن۔۔۔
 محمد نوید نواز صاحب لاہور۔ پرگٹ گل صاحب آسٹریلیا۔  
پلک دیپ صاحبہ انڈیا۔ 
 سرور صمدانی صاحب ملتان ۔
 اشتیاق انصاری صاحب ۔مسقط۔ 
 اندر جیت لدھیانوی صاحبہ لدھیانہ۔
 ریاض ندیم نیازی صاحب سبی۔  
یوسف تابش۔ اوکاڑا 
 بخشی وقار ہاشمی صاحب فرانس۔ 
 نجمہ شاہین صاحبہ لاہور۔
 اشفاق احمد صاحب سپین۔
  بے باک ڈیروی صاحب ڈی جی خان۔  
امین اوڈیرائی صاحب سندھ۔
 الیاس آتش صاحب مریدکے۔
 ڈاکٹر فیاض دانش صاحب ڈی جی خان۔
 دکھ بھنجن سنگھ صاحب پرتگال 
توں اپنے کلام دے نال محفل دی رونق ودھاندے رہے۔ 
پروگرام دی نظامت راہ ادب فرانس دی بانی و  صدر تے منتظمہ محترمہ ممتاز ملک صاحبہ نے  کیتی۔   پروگرام دی کامیابی تے صدر مجلس ملک رفیق کاظم بھسین صاحب ، رحمان امجد مراد صاحب ، محمد نواز  گلیانہ صاحب تے نغمانہ کنول شیخ صاحبہ نے پروگرام دی انتظامیہ دی بھرپور تعریف کیتی۔ تے انہاں دا حوصلہ ودھایا ۔ تے امید کیتی کہ آئندہ وی ایسی طرح نویں نویں فنکار تے نویں نویں قوی  راہ ادب دا حصہ بندے رہن گے تے راہ ادب دے پلیٹ فارم تے اونہاں نوں حوصلہ ملدا رہے گا۔ انہاں نے  ممتاز ملک صاحبہ نوں دلی شاباشی دتی کہ انہاں نے اپنے  شاعراں  لئی رستے تنگ کرن دے بجائے اونہاں نو کھلا ماحول فراہم کیتا ۔ سوہڑیں محفل سجائی۔  پروگرام دی نظامت محترمہ ممتاز ملک صاحبہ نے کیتی ۔ جدی تعریف سارے دوستاں نے کیتی تے اونہاں  دی حوصلہ افزائی کیتی۔ ممتاز ملک نے سبھی پروڑیاں دا شکریہ ادا کیتا نالے امید ظاہر کیتی کہ اہسی طرح آئندہ وی اپنے قیمتی وقت وچوں کچھ وقت کڈ کے ساڈے قوی ساتھی  راہ ادب فرانس دے اردو تے پنجابی مشاعرے اپنے خوبصورت کلام دے نال  سجاندے رہن گے ۔ اوناں نے پروگرام دی خوبصورت پیشکش تے تیکنیکی معاون کاری تے ہم شاعر و ادیب انٹرنیشنل دے نائب صدر جناب کامران عثمان صاحب دا بھرواں بھرواں شکریہ ادا کیتا ۔ جدی وجہ نال ایہہ پروگرام تیار ہو سکیا۔ 
                 ۔۔۔۔۔۔

جمعرات، 8 اگست، 2024

* اور وہ چلا گیا/ اردو شاعری ۔ اور وہ چلا گیا


اور وہ چلا گیا 


ہم پہ زندگی کا بوجھ،  لاد کر کہاں گیا
الوداع کہا ہمیں،  اور وہ چلا گیا

مسکرا کے ہم نے دیکھا ،تو وہ لڑکھڑا گیا 
دور تک یہ بیخودی کا ، پھر تو سلسلہ گیا

بات جو  زبان پر ، ہم نہ لا سکے کبھی
بات مجھ سے کہہ کے کوئی، آج  برملا گیا

مت ٹہر کہ ہر گھڑی ، فنا ہے تیری منتظر
کر لے جو بھی کرنا کہہ کے، دل کا منچلا گیا

زیست اور حیات کی، سعی جو عمر بھر رہی
بھوک سے شروع ہوئی، ہوس پہ تلملا گیا 
 
ممتاز اب سمیٹ لو ، سفر کے اس پھیلاو کو
واپسی میں رہ ہی کتنا،  اور  فاصلہ گیا
●●● 

پیر، 5 اگست، 2024

نیند۔کوٹیشنز۔چھوٹی چھوٹی باتیں

نیند

جب آپ حق پر ہوتے ہیں تو دل بھی سکون میں ہوتا ہے اور نیند سولی پر بھی بڑی میٹھی آتی ہے۔ 
     (چھوٹی چھوٹی باتیں) 
        (ممتازملک۔ پیرس )

تو کی کردا۔ پنجابی کلام۔ کوسا کوسا


تو کی کردا

ناں تیرے جد فال نہ ہوندی تو کی کردا
میں جے تیرے نال نہ ہندی تو کی کردا

تاڑی دے لئی دو ہتھاں دی لوڑ اے ماہیا
 تال دے اتے تال نہ ہوندی تو کی کردا

پج پج تینوں لب لینی آں لک نہیں سکدا 
ہرنی ورگی چال نہ ہندی  تو کی کردا

تیریاں کمیاں تے وی پردے پائے ہس کے
عشق چہ میں بے حال نہ ہوندی تو کی کردا

دھپ نہ آوے تیرے سر تے ویلے دی جے
کھولے ہوئے وال نہ ہوندی تو کی کردا

تیریاں محنتاں تیرے دعوے کی کر لیندے
ذات اوہو لجپال نہ ہوندی تو کی کردا

شکرے نوں ممتاز نہ پنجرے دے وچ ڈکڑاں
اسمانی ترپال نہ ہوندی تو کی کردا
   ۔۔۔۔۔۔

جمعہ، 2 اگست، 2024

تبصرہ ۔ صغیر تبسم۔ اور وہ چلا گیا


حساس جذبوں کی شاعرہ۔۔۔
ممتاز ملک 

کسی کے چھوڑ جانے کا دکھ بھی بڑا عجیب دُکھ ہے، دل کو اس حقیقت سے باور کروانا بے حد اذیت ناک  ہوتا ہے اور پھر یہی ناتواں دل عمر بھر انتظار کے کرب سے گزرتا ہے۔ کسی کے ہجر میں گزرنے والا اک اک لمحہ صدیوں کے برابر محسوس ہونے لگتا ہے، زندگی کی ریل کسی ویران سٹیشن پر رُک سی جاتی ہے، ہجر میں ایک ایک دن، ایک ایک پل انسان کے دل پر اسقدر بھاری گزرتا ہے کہ اندر سے اک درد بھری آواز آتی ہے :

ہاۓ وہ رات کتنی بھاری تھی
 جو ترے ہجر میں گزاری تھی

کہتے ہیں کہ وقت ہر دکھ کا مرہم ہوتا ہے، ہر روگ کا علاج ہوتا ہے، گہرے سے گہرے زخم کو بھی بھر دیتا ہے، وقت ہر تکلیف مٹا دیتا ہے لیکن ہجر کے ایام میں یہی وقت ناسور بن جاتا ہے، کٹتا ہی نہیں اور انسان کو اپنی تیز تیکھی کٹاری سے اندر ہی اندر کاٹ دیتا ہے:

فصل تیار تھی امیدوں کی 
وقت کے ہاتھ میں کٹاری تھی

ممتاز ملک حساس جذبوں کی شاعرہ ہیں، شاعری اترتی ہی حساس دلوں پر ہے اور پھر وہ ایک عورت کا حساس دل ہو تو  ہر ایک کیفیت چاہے وہ دکھ کی کیفیت ہو یا خوشی کی، انتظار کی کیفیت ہو یا بچھڑنے کی، رونے کی کیفیت ہو یا مسکرانے کی، محبت کی کیفیت ہو یا نفرت کی وہ دل ہر کیفیت کو ٹوٹ کر محسوس کرتا ہے۔
 ممتاز ملک کی شاعری کی طرح ان کے الفاظ بھی بہت حساس ہیں، وہ اپنے حساس اور اداسی میں ڈوبے خیالات کو اس طرح سادگی سے الفاظ میں ڈھالتی ہیں کہ شعر پڑھتے ہی دل میں اتر جاتا ہے :

کُھردری کُھرردی اُداسی ہے 
 مخملی مخملی خماری ہے

مضبوط سے مضبوط انسان بھی دکھ جھیلتے جھیلتے اک دن آخر تھک جاتا ہے، زندگی سے اس کا دل اُکتا جاتا ہے، وہ جابجا بھٹکتا ہے، اماں ڈھونڈتا ہے، سکوں ڈھونڈتا ہے، وہ دکھوں کا بوجھ اُٹھاۓ دربدر پھرتا ہے، کہیں کوٸی سہارا، کوٸی پیارا نہیں ملتا، کوٸی ایسا کاندھا نہیں ملتا جہاں وہ سر رکھ کر روۓ اور روتے روتے سو جاۓ بلآخر وہ آسمانوں کی طرف نم آنکھوں سے دیکھ کر، غم سے  بوجھل دل کے ساتھ پورے درد سے پکارتا ہے:

یوں تو دلدار ہے دنیا کی سجاوٹ مولا
 لوگ اخلاص میں کرتے ہیں ملاوٹ مولا
 ہو ترا حکم تو سُستا لیں گھڑی بھر کو کہیں
زندگی بھر کی اتر جاۓ تھکاوٹ مولا 

ممتاز ملک کی شاعری کا ایک ایک لفظ احساس میں گُندھا ہوا ہے، مصرعوں کی سادگی ہی ان کی شاعری کا حُسن ہے، ان کے ہاں ہر اس کیفیت کا بیان ہے جو ایک حساس دل محسوس کرتا ہے مگر کہہ نہیں سکتا:

گُھلی ہیں سِسکیاں ہر ایک لے میں
یہی اس گیت کا رنگِ طرب ہے

ممتاز ملک نے بِلا خوف خطر ہر وہ کیفیت اشعار میں پروٸی ہے جو ان کے حساس دل پر بیتی یا  محسوس کی، ان کی آہیں، سسکیاں، آنسو، کرب، اذیت ان کے اشعار میں واضح محسوس ہوتے ہیں، یہی ایک حساس شاعر کی نشانی ہے۔
ممتاز ملک صاحبہ کو ان کے اس شعری مجموعہ ”اور وہ چلا گیا“ کی اشاعت پر مبارکباد اور ڈھیر دعاٸیں

صغیر تبسم
(معروف پنجابی اور اردو شاعر)

بدھ، 31 جولائی، 2024

تبصرہ۔ ممتاز منور انڈیا۔ اور وہ چلا گیا


ممتاز شاعرہ ممتاز ملک

کرونا وبا کے دوران ایک مثبت بات یہ ہوئی کہ آن لائن مشاعروں کا دور شروع ہو گیا۔ دنیا بھر کے مختلف ممالک کے شعراء سے متعارف ہونےکا موقع ملا۔ انھیں میں سے ایک باوقار شخصیت ہیں ممتاز ملک ۔
جن کا تعلق پیرس سے ہے۔ حسین و جمیل، شگفتہ مزاج ,زندہ دل اور زندگی سے بھر پور۔ بہترین ناظمہ۔
 ان کی نظامت میں مشاعرہ پڑھنے   کا لطف ہی کچھ اور ہے۔ آپ  ادبی تنظیم "راہ ادب فرانس " کی بانی اور روح رواں ہیں۔ جس کے تحت آپ اردو اور پنجابی عالمی مشاعرے منعقد کرواتی رہتی ہیں۔ اپنی خوبصورت ادا سےاور دلفریب ترنم میں جب آپ اپنا کلام پیش کرتی ہیں تو سامعین مسحور ہو جاتے ہیں۔ جتنے خوبصورت  طریقے سے کلام کی ادائیگی ہوتی ہے اتنا ہی خوبصورت ان کا کلام ہوتا ہے۔ ان کا شعری مجموعہ"اور وہ چلا گیا" ابھی ابھی موصول ہوا۔ ممتاز صاحبہ کے حکم کی تعمیل میں اس کتاب کے تعلق سے  اپنے خیالات پیش خدمت ہیں۔
اس کتاب کو ادارۀ اردو سخن ڈاٹ کام نے شائع کیا ہے ۔ 200 صفحات پر مبنی اس کتاب کا انتساب بھی دلچسپ ہے۔ جس کو أپ نے "وطن عزیزکی فلاح و بہبود کے لۓ سوچنے والوں کے نام" کیا ہے۔ کیونکہ آپ خود بھی معاشرے کی فلاح و بہبود کے بارے میں نہ صرف سوچتی ہیں بلکہ اس میدان میں فعال بھی ہیں۔ جس کی جھلک  ان کے کلام میں بھی نظر أتی ہے ۔ وہ کہتی ہیں

ناچتی پھرتی ہے یہ نسل نو
کجھ تو ان میں فنون رہنے دو

یہ شعر بھی ملاحظہ کریں

گھر میں ہی انصاف کی پامالیاں ہونے لگیں
داغ سینے کے زمانے کو دکھانے پڑ گئے

ممتاز صاحبہ اج کے دور کی خاتون ہیں۔ تعلیم یافتہ، اپنا ذہن، اپنی راۓ رکھنے والی۔ اپنے وجود کی اہمیت جتانا خوب جانتی ہیں۔کہتی ہیں

چوڑیاں چھوڑ کے ہتھیار  اٹھایا میں نے 
نہ سمجھ تو اسے بیکار اٹھایا میں نے

 اسی طرح وہ اپنے أپ کو کسی سے کمتر نہیں سمجھتیں۔  بلکہ برابری کا درجہ چاہتی ہیں۔

تمہارے رنج و غم اپنے جگر میں پالتی ہوں
میں ہمدم ہوں محض اک شوق رکھوالی نہیں ہوں

کہیں کہیں ان کی شاعری میں زمانے سے شکایت کا رنگ بھی نظر آتا ہے۔ وہ کہتی ہیں

یہ مطلب پرستوں کی دنیا ہے پیارے
یہاں زندگی کون ہنس کے گزارے
یہاں پر خوشی میں تو ہنستے ہیں سارے
مگرساتھ روتے نہیں ہیں ہمارے

انہیں اپنے دوستوں سے بھی گلہ ہے کہ

اپنے ہی رلاتے ہیں اپنے ہی ستاتے ہیں
غیروں میں کہاں دم تھا کہ آنکھ کو نم کرتے

 آج کل کے حالات پر بھی وہ گہری نظر رکھتی ہیں اورفرماتی ہیں

ہے تم پر فرض پہلا،  پرورش اچھی کرو ان کی
جنم دیتے ہی جن کو تم ، لگاتے ہو کمانے بر

ان شکوے شکایات کے باوجود آپ نہایت پر امید ہیں

جہاں کوئی نیا أباد کر لیں
یہ دنیااب پرانی ہو گئی ہے

 اور یہ بھی ملاحظہ کریں

رات کے بعد ممتاز دن آئیگا 
سوچ نہ دن کے آگے محض رات ہے

آپکی شاعری کی خصوصیت یہ ہے کہ اس کو پڑھنے کے بعد قاری کے ذہن پر ایک مثبت تاثر چھا جاتا ہے ۔ شاعر کا کمال ہی یہی ہے کہ وہ اپنے قاری کی سوچ کوصحیح اور مثبت سمت دے ۔
اس کتاب کی اشاعت پر میں ممتاز صاحبہ کو دلی مبارک باد پیش کرتی ہوں اور دعا گو ہوں

اللہ کرے زور قلم اور زیادہ
 ڈاکٹر ممتاز منور
صدر
انجمن ترقی اردو( ہند)
پونے. . . .  انڈیا
                 ۔۔۔۔۔۔۔

اتوار، 28 جولائی، 2024

* تبصرہ ۔ رشید شیخ ۔ اور وہ چلا گیا




کیا شاعرہ، کیا ناظمہ!

محترمہ ممتاز ملک اردو ادب کے افق پر وہ درخشندہ ستارہ ہیں جس نے عالمی آن لائن مشاعروں میں نظامت کے جوہر دکھا کر عالمی شہرت کی بلندیوں کو  چھو لیا ہے۔
عالمی آن لائن مشاعروں کا سلسلہ COVID-19 کے زمانہ میں شروع ہوا ۔ کیونکہ اس زمانے میں ہر ملک میں اجتماعات منعقد کرنے پر پابندی عائد کر دی گئی تھی۔ ظاہر ہے زمینی مشاعروں کا سلسلہ بھی منقطع ہوگیا ۔البتہ اسکا ایک بڑا فائدہ یہ ہوا کہ اردو کے متوالوں نے آن لائن مشاعروں کی سبیل ڈھونڈ نکالی جس کے ذریعہ
نہ صرف عالمی سطح پر ایک دوسرے سے تعارف ہونا شروع ہوا بلکہ اردو شاعری کو بھی ترسیل و ترویج اور مقبولیت حاصل ہوئی ۔
اسی زمانے سے گلوبل رائیٹر ایسوسی ایشن، اٹلی، بزم سخن شکاگو، اور دائرہ ادب نیویارک وغیرہ شعر و سخن کے اس میدان میں بہت سر گرم عمل ہیں۔
گلوبل رائیٹر ایسوسی ایشن اٹلی کے ایک عالمی آن لائن مشاعرہ میں نظامت کے فرائض انجام دیتے ہوئے محترمہ ممتاز ملک سے تعارف حاصل ہوا اور بہت محظوظ و متاثر ہوا۔  آپ غضب کی نظامت فرما تی  ہیں ۔ اللہ کرے زور نظامت اور زیادہ!
یہی نہیں بلکہ یہ بھی پتہ چلا کہ آپ شاعری بھی فرماتی ہیں اور بہت عمدہ  شاعرہ ہیں جب انہوں نے مشاعرہ کے دوران اپنے کلام سے محظوظ کیا۔یہ خوبصورت لہن میں سلاست و روانی کے ساتھ دل موہ لینے والی شاعری ہے۔واہ! واہ! واہ! انکا نظامت کے دوران چٹکلے اور خوش گپیاں کرنا مشاعرہ میں جو شگفتگی پیدا کرتا ہے اس سے کوئی بھی محظوظ ہونے بغیر نہیں رہ سکتا۔ ہرشاعروشاعرہ کو پر وقار طریقہ سے مختصر تعارف کے ساتھ دعوت کلام دینا انکی نظامت کی فنی صلاحیت کا آئینہ دار ہے۔ اسی طرح وہ مشاعرہ کو اختتام تک چا بکدستی سے دلچسپ اورپرامن رکھتی ہیں۔
حال ہی میں انکا ایک مجموعہ کلام بعنوان" اور وہ چلا گیا" اشاعت کے لئے پرتول رہا ہے۔ جس کے لئے محترمہ نے مجھے بھی اظہار  خیال کا موقع مرحمت فرمایا ہے۔ من آنم کہ چہ دانم! تاہم مجموعہ کلام کا بنظر غائر مطالعہ کرنے سے لگا کہ واقعی ایں گل گلاب است!
اپنی نوعیت کا منفرد کلام ہےجو سماج کے ہر طبقہ فکر کی عکاسی کرتا ہے ۔
 یہ مجموعہ کلام نوے منظومات پر مشتمل ہے۔ ہر نظم باقاعدہ ایک عنوان کے تحت لکھی گئی ہے۔ جو تفصیلا اس عنوان کی پیروی کرتا نظر آتا ہے۔ ذیل میں چند  نظمیں بمعہ عنوان اور منتخبہ اشعار کے ملاحظہ فرمائیں:-
پتھر کا شہر: 
اب کوئی دھوپ نہ پگھلائے گی پندار میرا
میں نے اک چاند کو جو اپنے سر پر تان لیا

اس نے سونے کو بھی صحرائوں میں رولا جاکر
ہم نے بھی ریت سے سونے کو مگر  چھان لیا

ایک اور نظم عنوان" جاری ہم پہ"
ہے فسوں اس کا بڑی دیر سے طاری ہم پہ 
حکم الطاف ہوا کرتا ہے جاری ہم پہ 
 بخت والوں کو ملا کرتا ہے آب شیریں
میٹھے چشموں کا بھی پانی ہوا کھارا ہم پہ

نظم " ساتھ نبھانے والے"
اب کہاں ملتے ہیں وہ ساتھ  نبھانے والے 
میرے ہاتھوں میں چھپے راز بتانے والے
ہم تو ممتاز سمجھتے ہیں اسی کو ہیرو
ڈوبنے والے کو ہر طور بچانے والے

اسی طرح اور بہت سی نظمیں ہیں جو دلچسپی سے خالی نہیں ۔ مثلاً دیئے بجھنے لگے، میرے بغیر، غضب داستان، جاں بلب، جلتےہیں، سرکار وطن میں ،
ڈھم ڈھما ڈھم، وغیرہ وغیرہ 
جہاں تک فنی تقاضوں کامعاملہ ہے۔ آپکا کلام علم عروض سے آراستہ ہے۔ اور تمام منظومات غزل کے پیرائے میں لکھی گئی ہیں۔ یعنی ہر شعر ہم قافیہ اور ہم ردیف ہے۔ اس طرح غزل گوئی کے فن کو نظم کے رنگ میں سمویا گیا ہے۔جو ایک دلچسپ انداز لگتا ہے۔
اللہ کرے زورِ قلم اور زیادہ ۔ توقع کرتا ہوں کہ محترمہ ممتاز ملک صاحبہ کے مجموعہ کلام " اور وہ  چلا گیا" کو ادبی حلقوں میں خوب پذیرائی حاصل ہوگی۔
رشید شیخ شکاگو ، 
صدر بزم سخن شکاگو

ہفتہ، 27 جولائی، 2024

& بیرنگ ...... افسانہ۔ سچی کہانیاں۔ قطرہ قطرہ زندگی



      بیرنگ


راضیہ کو اس سرکاری ملازمت پر آئے ہوئے آج پورے دس سال ہو چکے تھی.  اچھی تنخواہ, پک اینڈ ڈراپ کی سہولت اور اچھے دفتری ماحول نے انہیں کبھی کوئی فکر مندی نہیں دی. 
ویسے تو وہ واجبی سی شکل صورت کی لڑکی تھی لیکن ان کی خوش کلامی اور حس مزاح سے وہ بہت جلد سبھی کی پسندیدہ  کولیگ بن گئیں. 
دس سال پہلے جب اپنے والد کی وفات کے بعد انہیں بڑے بھائی کے اکیلے گھر کے اخراجات کا بوجھ اٹھانے میں دقت محسوس ہوئی تو اس نے بھی ملازمت کرنے کا ارادہ کر لیا  .
یوں تو اس وقت وہ تئیس برس کی ہو چکی تھی.  اس کی کئی دوست بیاہی جا چکی تھیں ۔ اور اس سے اس کی شادی کے بارے میں سوال کیا کرتی تھیں ۔
ہر لڑکی کی طرح وہ بھی اب اپنا گھر بسانے کی خواہش رکھتی تھی.
 لیکن گھر کے مالی حالات اس قابل نہ تھے کہ اس کی شادی کا بوجھ اٹھا سکتے. 
 بھائی کی ملازمت کو ابھی ایک ہی سال ہوا تھا.  اس کی تنخواہ سے بمشکل ان کے تین افراد کا کنبہ ہی پل سکتا تھا.
اس نے اپنی ماں کو ملازمت کرنے کی اجازت دینے پر راضی کر ہی لیا ۔ 
  ویسے بھی ایک بہت اچھے سرکاری ادارے میں انٹرویو دیکر آئی تو بہت پر امید تھیں لیکن دن پر دن گزرتا گیا . انٹرویو پر انٹرویو ہوتے رہے لیکن ایف اے پاس راضیہ کو کہیں سے کوئی حوصلہ افزاء جواب نہ مل سکا.
  کہیں سے جواب آتا بھی تو تنخواہ محض اتنی تھی کہ وہاں کے آنے جانے کا بس کا کرایہ ہی  بمشکل نکل پاتا.  سو دو تین گھنٹے کے سفر کا کوئی مقصد نہیں تھا. 
 ان دفاتر اور اسکولوں کے چکر کاٹ کاٹ کر  حقیقتا اسکے جوتے گھس چکے تھے ۔
جہاں خاتون افسر سے واسطہ پڑتا وہاں سے تنخواہ کا کوئی معقول آسرا نہ تھا اور جہاں مرد افسر سے واسطہ پڑتا وہاں عزت ملنے کی کوئی امید نہ رہتی ۔ 
بمشکل اسے بھائی کے کسی جاننے والے کی سفارش پر کنڈر گارڈن میں پریپ کی کلاس کے بچوں کو اے بی سی سکھانے کی ملازمت مل ہی گئی۔
 ۔ تنخواہ دوسرے پرائیویٹ سکولز کی طرح برائے نام تھی لیکن گھر کے نزدیک ہونے کے سبب پیدل آنا جانا تھا تو بس کے کرائےکا کوئی خرچ نہیں تھا ۔ اس لیئے وہ خوش تھی ۔ ۔
جاب کیساتھ پڑہائی بھی جاری رکھی اور اپنا بے اے اور بی ایڈ  مکمل کر ہی لیا ۔
 تو اسے اس سرکاری سکول میں بہت اچھی تنخواہ پر ملازمت بھی مل گئی ۔
اسے معلوم ہی نہ ہوا کہ کب اس کی عمر کی بہار پر خزاں چھانے لگی ۔ اس کے بھائی کی شادی ہو چکی تھی اسکے تین بچے اسے پھوپھو پھوپھو پکارتے اب پرائمری کلاسز پار کر رہے تھے ۔
آئینہ آج کیوں بول پڑا 
آج اس کی ایک دوست کی سب سے چھوٹی بہن کی بارات تھی ۔ اس کی سکول کے زمانے کی بچپن کی سہیلی انجم  نے گاڑی کا ہارن دیکر اسے باہر بلایا 
اسلام علیکم آنٹی 
اس نے گاڑی کی اگلی سیٹ پر بیٹھتے ہوئے پیاری سی گنگناتی ہوئی آواز سنی
مڑکر پچھلی سیٹ پر دیکھا تو حسین سی ٹین ایجر گڑیا سے لڑکی کو مسکراتے پایا 
وہ ہڑبڑا کے اسے ایک ٹک دیکھتی گئی۔
 تو انجم نے اسے ہنس کر خواب سے حقیقت کی زمین پر اتارا 
ارے بھئی کیا دیکھ رہی ہو
نظر لگاو گی میری بیٹی کو کیا 
وہ ہنستے ہوئے بولی
ہیں نظر مطلب۔۔
وہ جملہ ترتیب نہ دے پائی تو انجم نے ہی تعارف کرایا 
ارے بھئی یہ ہے میری شیطان بیٹی حورم ۔ جو آج زبردستی میرے ساتھ شادی پر جا رہی ہیں ۔۔
دونوں ماں بیٹی اس جملے پر ایکساتھ ہنس دیں 
راضیہ حیران نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے بولی 
ارے کتنی بڑی ہو گئی ہے ماشاءاللہ میں نے اسے شاید اس وقت دیکھا تھا جب اس کی پہلی سالگرہ تھی 
جی آنٹی لیکن میری ماما تو آپ کی اتنی باتیں کرتی ہیں کہ مجھے لگتا ہے کہ آپ ہمارے ہی گھر میں رہتی ہیں ۔ 
حورم نے شرارت سے اپنی ماں کو چھیڑا ۔ 
ابھی کل کی بات ہے کہ ادھر ہمارے بارہویں کے امتحانات ختم ہوئے ادھر ابا نے میرے ماموں زاد سے میرا رشتہ پکا کر دیا اور نتیجہ آنے سے پہلے میری رخصتی کر دی گئی۔ سال بھر میں یہ محترمہ تشریف لے آئیں ۔ اورمیں اس میں مصروف ہو گئی اور تم نوکری کی تلاش میں چار سال خوار ہوتی رہی۔ 
آج محترمہ کی  اٹھارہویں سالگرہ بھی ہے۔ 
انجم بولتی رہی اور اس کے وہ سارے خواب  جو اس نے حورم کی عمر میں سنجوئے تھے ۔ پتہ پتہ اس کی آنکھوں کے سامنے وقت کی ہواوں پر اڑتے بکھرتے دکھائی دے رہے تھے ۔ 
بارات سے واپسی پر انجم نے اسے اسکے گھر کے سامنے اتار کر گاڑی آگے بڑہائی۔
 لیکن آئینے کے سامنے کھڑی راضیہ   جسے آج خود کو غور سے دیکھنے کا خیال آیا ،اسے ان دس سالوں میں دنیا کی بدلتی ہوئی تصویر میں اپنے حصے کا کوئی  رنگ دکھائی نہیں دے رہا تھا۔
 ماسوائے اس کے روکھے بالوں میں پھیلتے چاندی جیسے سفید رنگ کے   یا بے رونق سخت ہوتے ہوئے چہرے کے اڑتے ہوئے رنگ کے سوا ۔۔۔۔۔۔
                    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔


بدھ، 24 جولائی، 2024

تبصرہ ۔ امجد رحمان۔ اور وہ چلا گیا



تبصرہ امجد رحمان امجد سیالکوٹ 
لکھاری۔  40 کتب

شعر اور فرد کے مابین استوار ہونے والے رشتوں میں سب سے واضح اور معتبر رشتہ "لاشعور" کی سطح پر قائم ہوا کرتا ہے۔ شعری زبان اور ہیئت (form) کی تفہیم فوری طور پر "شعور" کی مرہون منت ہی سہی لیکن متن( text) کی(application) ہمیشہ "لاشعور" بلکہ اگر صحیح اصطلاح اپنائی جائے تو "اجتماعی لاشعور " کے وسیع و عریض علاقے پر ہوتی ہے ۔ یوں بھی جدید نفسیات کے مطابق افہام کی اصل سطح "اجتماعی لاشعور" کی انہی یادداشتوں سے عبارت ہے۔  تخلیق سے اظہار تک کے تمام مراحل سہل نہیں ۔ نہ جانے کتنے ہی ہفت خواں سر کرنے کے بعد شاعر اس اقلیم سخن تک رسا ہوتا ہے
 جہاں اسے لفظ کا اصل فطری لحن نصیب ہوتا ہے اور بقول غالب~
 بے نشہ کس کو طاقت آشوب آگہی
 بہرحال سخن کے حوالے سے کام پہلے بھی ہوتا رہا ہے۔ (اگرچہ نہ ہونے کے برابر صحیح ) اور آج بھی اس سلسلے میں انفرادی سطح پر بہت سے لوگ مصروف کار ہیں۔ آج اس قبیلے کی ایک فرد سے آپکو ملوانا چاہتا ہوں۔ اس کے کہے ہوئے شعروں میں، اس کے برتے ہوئے لفظوں میں، دھیما سا سہی لیکن ایک نیا ذائقہ آپ کو ضرور ملے گا۔
 >ساری دنیا کو لے کے کیا کرنا
 صرف میرا، میرے خدا ہو جا

>جب سے چوما ہے میں نے صحن حرم
 بے قراری سے میں قرار میں ہوں
 محترمہ ممتاز ملک کی ذات اور شاعری میں جو باتیں مشترک ہیں اور ان میں سب سے اہم بات کسی اور کو اپنا گرویدہ بنانے کی خصوصیت ہے۔ جس طرح محترمہ ممتاز ملک سے ملنے والا شخص ان سے متاثر ہوتا ہے بلکہ دوسری تیسری ملاقات میں ان کے گنوں کو پوری طرح جان جاتا ہے۔ بالکل اسی طرح ان کی شاعری فوری طور پر ذہنوں پر حاوی ہو کر اپنی موجودگی کا اظہار کرتی ہے۔ ( یہ میرا خیال ہے) آئیے محترمہ ممتاز ملک کے آئینے کے سامنے کچھ وقت گزارتے ہیں۔۔۔
* ہم نہ آتے جو یہاں کون بتاتا ہم کو
 کس کی اوقات ہے کیا آ کے یہاں جان لیا 

*کھردری کھردری اداسی ہے
 مخملی مخملی خماری ہے 

*ساری دنیا کی اذیت سے تقابل کرتے
 اس کا ہر لفظ جہاں بھر سے تھا بھاری ہم

* محرومیوں کا درد یا احساس کی کمی ہے
 سوچوں کے آئینوں پر اک گرد سی جمی ہے 

*دھڑکنیں ہو گئیں ساقط تیرے جاتے جاتے
 کس طرح تجھ کو میری جان بھلائیں گے ہم

* اگر ہر شعر کو اکائی سمجھا جائے تو اس کتاب میں شامل اکثر غزلیں ایک بالغ نظر حساس شخصیت کی زندگی میں لمحہ لمحہ رنگ بدلتی رتوں اور تیور بدلتے رشتوں کی رپوتاژ بھی کہلا سکتی ہیں دراصل ۔۔۔۔۔ 
سچا تخلیق کار وہی ہوتا ہے جو اپنی داخلی واردات کے ساتھ ساتھ خارجی معاملات و مشاہدات کو بھی پیرایئہ اظہار دینے کا ہنر رکھتا ہو۔
محترمہ ممتاز ملک پر یہ نقطہ یقینا منکشف ہو چکا ہے اور شاید یہی وجہ ہے کہ ان کے کلام میں مذکورہ بالا دونوں جہتیں موجود ہیں اور لطف یہ کہ تمام تر فنی باریکیوں کے ساتھ ۔۔
چند مثالیں ملاحظہ ہوں ۔۔۔
*میرے ہاتھوں میں چھپے راز بتانے والے
 اب کہاں ملتے ہیں وہ ساتھ نبھانے والے

 *ہرگز یہ سمجھنا یہاں دشوار نہیں ہے
 اس ملک سے کوئی بھی وفادار نہیں ہے

* گھلی ہیں سسکیاں ہر ایک لے میں 
 یہی اس گیت کا رنگ طرب ہے

* کیا خوشی کبھی تذکرہ کرتا
 یہ تو پہلو میں غم کی سوتی ہے 

* لب پہ نغمے وصال کے لیکن
 آنکھ میں ہے جدائی کا موسم

 اس کتاب کی بیشتر غزلوں میں شاعرہ کی ٹریٹمنٹ میں نہایت سادگی نظر آئے گی۔ اس کی زبان میں محاورے سے زیادہ روزمرہ کا لہجہ استعمال ہوتا ہے۔  محترمہ ممتاز ملک اور لفظوں کے درمیان بڑی بے تکلفی ہے اور یہ بڑی اہم چیز ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس کے ہاں جیتی جاگتی اور سانس لیتی زندگی دکھائی دیتی ہے۔
* وہ بھی تجھ کو بچا نہیں سکتے 
جی اٹھے ہیں جو تیرے آنے پر

* گر بجھا سکتے نہیں، اچھا ہے تم دور رہو 
مت بھڑکتے ہوئے، شعلوں کو ہوا دو جا کر

* بہت قابل جسے مانا جہاں نے
 ناکارہ کر کے چھوڑا ہے کسی نے

* دبا کے درد کو مسکان کوئی کم تو نہیں 
اسے اسی میں تو بے حد کمال گزرا ہے 

*نظروں سے لوگ پوچھتے ہیں سجتا دیکھ کر 
کس کو سنگھار اپنا دکھائیں تیرے بغیر

* لب نہ کہہ پائیں وہ آنکھوں سے عیاں ہوتی ہے
 ہر محبت میں عقیدت یہ کہاں ہوتی ہے
 ہم نے محسوس کیا خود کو بھی بے بس اس جاء
 والہانہ سی یہ زنجیر جہاں ہوتی ہے

* جب ضرورت ہو مجھے یاد بھی کر لیتا ہے
 بن ضرورت کے نہیں وقت گنوانے والا 

* معاملہ اتنا بھی آسان نہیں ہے صاحب
 جتنے انسان نے آسان سمجھ رکھا ہے

* ہم زندگی کی بھیڑ میں گم کس قدر ہوئے 
کھینچا ہے واپسی نے بھی فرمان کی طرح

* جو کچھ گزر رہی ہے اس سے نظر چرا کر
 کچھ اور ہی دکھانا , آسان نہیں ہوتا 

*زندگی میں سکون رہنے دو
 تھوڑا تھوڑا جنون رہنے دو 
ہو چکا ہے جو رب کی رحمت سے 
تم بھی اس کو ملعون رہنے دو

 زندگی کی کڑوی اور سنگین حقیقتوں کی نقاب کشائی محترمہ ممتاز ملک کے مزاج کا حصہ ہے۔ وہ تخیل پرست نہیں بلکہ جو کچھ اپنے سامنے دیکھتی ہے اس کو اپنے شعر کا موضوع بناتی ہے۔  خارجی حالات کو دیکھ کر جو باتیں اس کے ذہن میں آتی ہیں۔ انہی کی تفصیل اور جزئیات کو پیش کرتی ہیں۔ اس کی شاعری میں عذاب زیست کے سارے باب کھلے نظر آتے ہیں۔  محترمہ ممتاز ملک جذبوں کا جوڈو کھیلنا جانتی ہیں ۔ وہ چھوٹی چھوٹی باتوں میں زندگی کی بڑی بڑی حقیقتوں کو بیان کر جاتی ہیں۔ دراصل اس نے چھوٹی باتوں میں ہی زندگی کی حقیقتوں کو دیکھا ہے ۔ اس لیے وہ ہر اس چیز کو ٹٹولتی ہے جس پر ہاتھ ڈالنا ہر ایک کے بس کی بات نہیں ہوتی۔ فنی اعتبار سے وہ اپنا جواب آپ ہے۔۔۔ وہ حساس اور بے باک ہونے کے ساتھ ساتھ غیور بھی ہے۔ اس کے شعری سٹائل میں سادگی اور پرکاری کے ساتھ تیکھا پن اور نوک پلک کی درستی بڑی مٹھاس کے ساتھ بھری ہوئی ہے۔ وہ دو مصروں میں بے تکلفی کے ساتھ سارے گن ظاہر کر دیتی ہے۔ وہ شعر بازوں اور شعر گروں سے الگ تھلگ رہ کر اپنے فیصلے صادر کرنے کی عادی ہے۔ اس لیے وہ اکثر فیصلے درست کرتی ہے۔ وہ بڑی سے بڑی ٹریجڈی کو سہولت کے ساتھ ایک شعر میں بیان کر سکتی ہے۔ اس کی شاعری مخملی ملائم کے ساتھ کلف کیئے ہوئے کاٹن کی طرح کھنک اور اینٹھتی ہوئی اکڑ بھی موجود ہے۔
" اور وہ چلا گیا"  کا عنوان ہی اپنے اندر بے پناہ درد اور معنویت رکھتا ہے۔ اس بات سے قطع نظر یہ مصرع جس شعر یا غزل سے لیا گیا ہے۔ اس کا موڈ کیا ہے ۔ ہمارے نزدیک ہر مصر ایک الگ اور آزاد بلاز کی حیثیت رکھتا ہے، اور ایک اکائی کی حیثیت سے ہر مصرع شاعرہ کی مکمل تحلیل نفسی کا تقاضا کرتا نظر آتا ہے۔ کم از کم میرا تو یہی خیال ہے۔ آپ بھی اس کتاب کے ٹائٹل کو کچھ وقت الگ سے ضرور دیں۔
 محترمہ ممتاز ملک کے بقول~

ہم کو بھی سانس لینے کو، تازہ ہوا ملے 
گل سے گلوں سے، ہم کو لگاوٹ نصیب ہو
 میں محترمہ ممتاز ملک کو ان کے پابچویں  اردو شعری مجموعہ کلام " اور وہ چلا گیا "
کی تخلیق پر دل کی گہرائیوں سے مبارکباد پیش کرتا ہوں اور دعا گو ہوں 
" اللہ کرے زور قلم اور زیادہ"
 دعاگو 
رحمان امجد مراد
 بانی اور چیئرمین کرائیڈن اکیڈمی سیالکوٹ 
0321.6151642

جمعہ، 19 جولائی، 2024

& نامعلوم لاٹریاں۔ افسانے۔ سچی کہانیاں۔ قطرہ قطرہ زندگی





نامعلوم لاٹریاں        




جب سے پاکستان آئی ہوں ہر چوتھے روز کسی نہ کسی نمبر سے مجھے اس لاٹری کی خوشخبری سنائی جاتی ہے جو میں نے کبھی 
خریدی تک نہیں .
شبینہ نے بیزاری سے اپنی دوست عادلہ کو بتایا 
لیکن انہیں نام ، پتہ کیسے ملتا ہے 
عادلہ نے اس سے سوال کیا
بھئی ان کا طریقہ واردات یہ ہے کہ 
ہیلو جی آپ کا فون نمبر فلاں مہینے میں ہمارے پاس میسج کے جواب میں آیا تھا جس پر آپکا پانچ لاکھ روپے اور دس تولے سونا لاٹری میں نکلا ہے...
ایک موٹر سائیکل اور بیس تولے سونا نکلا ہے.....
دس لاکھ روپے کا انعام نکلا ہے ...
تو پھر 
پھر کیا ایک نمبر دیا جائیگا جلدی کریں اپنا انعام وصول کریں جیسے انعام  کسی بم پر رکھا ہے نہ اٹھایا تو دھماکا ہو جائیگا 
اس نے قہقہہ لگاتے ہوئے کہا
پھر ۔۔۔

پھر کیا 
اس نمبر پر فون کرو تو وہاں اںکق ایک ڈاکو بلکہ ڈیجیٹل ڈالو آپ کو پانچ دس پندرہ ہزار روپے فلاں بندے کو بھجنے کے لیئے چکنی چپڑی نصیحت کرے گا ۔ بلکہ جھوٹ بولتے ہوئے اللہ اور قرآن کی قسمیں بھی اٹھا کے گا کہ بی بی ہم فراڈ نہیں ہیں ۔
اچھا۔۔۔
ہاں اور کیا اور ہم بے وقوف لوگ یہ سمجھ لیتے ہیں کہ دیکھو بھئی اس بندے نے داڑھی رکھی ہوئی ہے قسمیں اٹھا رہا ہے تو یہ فراڈ کیوں کرے گا،  لیکن یہ یاد رکھو سب سے زیادہ قسمیں اٹھانے والا ہی سب سے بڑا دھوکے باز اور فراڈیا ہوتا ہے۔
 اس کے بعد۔۔۔
عادلہ نے تجسس سے پر لہجے میں پوچھا
 اس کے بعد کیا ۔۔۔ اس کے بعد جب اس دوسرے نمبر پر آپ نے پیسے بھیج دیئے پھر وہ آپ کو بتائے گا کہ اچھا جی پہلا مرحلہ طے ہو گیا۔ مبارک ہو ۔ اب آپ اس طرح کریں کہ آپ اس فلانے نمبر پر اس فلانے صاحب کو فون کریں وہاں پر آپ کے انعام کا اگلا مرحلہ انتظار کر رہا ہے۔
 تو۔۔۔۔۔
عادلہ نے بےچینی سے پوچھا
 تو پھر آپ اگلے شکاری کے پاس جاتے ہیں  اور وہ شکاری آپ سے پھر سے 10 یا  15 یا 20 ہزار روپے ایزی پیسہ کے ذریعے بھجوانے کی فرمائش کرے گا۔
 اب جناب آپ کا انعام دوسرے مرحلے میں آ چکا ہے اور آپ کا انتظار ختم۔ہونے کو ہے ۔ آپ کے نام کی پرچی لگ چکی ہے اور ایک مشہور و معروف ٹی وی چینل کا نام لے کر اس کے نیلام گھر کی کہانی سنا کر یہ انعام وہاں سے اپ کے لیئے بھیجا جا رہا ہے اور اس کا لوگو تک استعمال کیا جائے گا اور آپ اس خوشی میں کہ اس کا لوگو کوئی اور کیوں یوز کرے گا آپ بے وقوف بن کر پھر اس کی ایک میٹھی کہانی میں اس کو 10،  15 ہزار روپے بھجوا دیتے ہیں۔
 اس طرح وہ چار پانچ لوگ مل کر کم سے کم از کم ایک لاکھ روپے تو آپ سے نکلوا ہی لیتے ہیں،
   تو پھر جب آپ کو خطرے کا احساس ہوتا ہے کہ آپ اس دلدل میں ڈوبتے چلے جا رہے ہیں اور آپ محتاط ہونے لگتے ہیں۔
 تب تک وہ آپ کو اچھی والی چپت لگا چکے ہوتے ہیں۔
 آپ کے ساتھ بھی ایسا ہوا۔۔
عادلہ نے بے دھڑک پوچھ ہی لیا 
 ارے نہیں یار میں نے پہلے ہی مرحلے میں اسے سمجھ لیا کہ یہ میرے ساتھ دھوکہ ہونے کی کہانی شروع ہو گئی ہے۔
 پھر آپ نے کیا کیا
 میں نے اس دوسرے والے کو کہا کہ بھائی سیدھی سی بات ہے ۔ 
اس انعام کے لیے کتنے پیسے دے کر مجھے وصولی کرنی ہوگی۔۔
 اس نے کہا 
کچھ نہیں میم اتنا سب کچھ نہیں ہے جناب ۔
یہ بیس ہزار روپے بس اس وقت دیں گے۔ تو ساتھ ہی آپ کی اگلے مرحلے کی آپ کی پرچی لگ جائے گی۔
 انعام آپ تک پہنچا دیا جائے گا۔
 میں نے کہا میرے بھائی تو ایسا کر کہ یہ بیس ہزار یا 40 ہزار بلکہ تو ایک دو تین لاکھ روپے اس میں سے نکال لے جو بھی تم سب لوگوں کے آپس کا کمیشن ہے،  بانٹ لو اور میرا انعام مجھے بھجوا دو ۔
جیسے ہی میرا انعام ملتا ہے اس سے پہلے پہلے تم لوگ اپنی رقم کٹوا لو۔
 میری اب بات سن کر وہ بدک گیا اور بولا ارے نہیں نہیں میڈم ایسے نہیں ہوتا ۔ 
یہاں  پہلے پیمنٹ کرنی پڑتی ہے تب یہ کرنا پڑتا ہے تب وہ کرنا پڑتا ہے تب جا کر یہ انعام اپ تک پہنچتا ہے۔
 اس کے شروع کے مرحلے ہوتے ہیں۔۔ 
میں نے کہا
او بھائی مجھے الو مت بنا ۔ یہ ڈرامہ کہیں اور کرنا ۔ اگر یہ لاٹری میں نے خریدی ہی نہیں اور میرے نام سے  نکل سکتی ہے نا تو پھر یہ پہلے ایڈوانس میں پیمنٹ بھی ہو سکتی ہے۔
 ایڈوانس میں اپنا خرچہ نکال کر پیمنٹ کٹوا کر میری رقم اور میرا انعام مجھے بھیج دیں۔
 اور اگر نہیں بھیج سکتا تو بند کرتا ہے فون یا پھر میں کروں پولیس کو کروں فون۔۔۔
 تیرا انعام پتے کا اعلان اور ۔۔۔
جناب پٹخ کر کے فون بند ہو جاتا ہے ۔
اور اس کے بعد اکثر وہ سم تبدیل ہو جاتی ہے۔
 اگر پولیس کا ڈر پڑ جائے تو  پہلے تو وہ نمبر کوئی اٹھائے گا نہیں۔
یا اس بندے کا نمبر بلاک کر دیا جائے گا ۔
جس کے ساتھ وہ ایک بار ہاتھ کر چکے ہیں۔
 لہذا اب دوسرے آدمی کی باری ہوگی کہ وہ یا تو سم تبدیل کر لے گا یا جناب آپ کے نمبر کو بلاک کر دے گا۔
 ہر روز گھر بیٹھے ایسے حرام خور ڈاکو جو روزانہ گھر بیٹھے دوسروں کی جیبوں پر ڈاکہ ڈال رہے ہیں ۔
اور لوگ اپنی لالچ کے تحت ڈاکہ ڈلوا رہے ہیں لٹ رہے ہیں 
اف میرے خدا۔۔۔۔
عادلہ کی حیرت انگیز لمبی آہ پر اس نے مشکوک نظروں سے اسے دیکھا اور پوچھا 
عادلہہہہہ 
کیا تم نے بھی کوئی  لالچ میں نقصان تو نہیں کروا لیا؟؟
عادلہ کا رنگ ایک دم سے فق ہو گیا۔
 ارے نہیں نہیں یار ایسی کوئی بات نہیں وہ بس ویسے ہی میرے منہ سے نکلا ۔
کیسے کیسے فراڈ ہوتے ہیں دیکھو نا
 اس نے منہ کو ادھر ادھر کرنا شروع کیا ۔۔
وہ نظریں ملانے سے اجتناب کرنے لگی 
شبینہ نے اسے اپنی طرف دیکھنے کو کہا 
میری طرف  دیکھو اور ٹھیک سے جواب دو
 کیا واقعی سچ؟
 عادلہ جیسے پھنس کر رہ گئی
 یار کیا تم بھی نا ایک دم سے نبض پکڑ لیتی ہو انسان کی۔۔
کیا  بتاؤں
 ہاں یار میرے ساتھ یہ چکر ہو چکا ہے
 پھر کتنے لٹے؟
شبینہ نے ماہرانہ انداز میں سوال کیا۔۔
 50 ہزار ۔۔۔
 اف میرے خدا ۔۔۔
میں سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ میری اپنی دوست،  میرے گھر میں بیٹھا ہوا بندہ ، اتنا بے وقوف ہو سکتا ہے
 تو پانچ ہزار تو تم نے بھی لٹوائے تھے نا
ہاں وہ میں، وہ میں تو,  
شبینہ ہڑبڑا سی گئی
 ہاں لیکن پہلے ہی قدم پر سنبھل بھی تو گئی تھی
 ہاں تو اس وقت میری تم سے بات نہیں ہوئی تھی
 تو کر لیتی نا بات 
کیسے کر لیتی بات
 اتنی بڑی رقم کا سن کر میرے ہاتھ پیر بھول گئے
عادلہ نے شرمندگی سے خجل ہو کر جواب دیا 
 میں نے سوچا چلو آخر لوگوں کی لاٹریاں بھی تو لگتی ہیں نا یار۔۔۔
 لگتی ہیں نا پر کسی پرائز بانڈ پہ لگتی ہیں،
 کسی اور ایسے ٹکٹ پہ لگیں گی جو تم نے خریدا ہوگا ۔
جس میں تم شامل ہو گے لیکن یہاں ٹکٹ خریدے بغیر اگر کوئی تمہیں لاٹریاں دے رہا ہے تو اس پہ مشکوک ہونا تو بنتا ہے نا 
ہاں تم ٹھیک کہہ رہی ہو۔
ہو گئی نا غلطی اب ہم کسی کو سمجھائیں گے تو وہ ہماری بات تھوڑی مانے گا ۔
ہر آدمی اپنے دھکے سے سیکھتا ہے یہی تو مسئلہ ہے۔۔
پھر ان سے بچنے کے لیے کیا کیا جائے۔
 کرنا کیا ہے بھئی لالچ سے دور رہیں۔
 اپنی زندگی میں حلال کمائی پر صبر کرنا اور شکر کرنا سیکھیں ۔
فضول قسم کے شوق پالنے سے پرہیز کریں اور یہ جو عورتیں اپنے آپ کو ہر وقت دکان بنائے رکھنا چاہتی ہیں نا برینڈ برینڈ برینڈ کر کے آدمیوں کو پاگل کیا ہوا ہے انہیں چاہیئے کہ ہوش میں آئیں ۔۔
 جب تک یہ عورتیں ان برینڈوں کے چکر میں رہیں گی اور زیوروں کپڑوں کے لالچ میں اندھی ہوتی رہیں گی۔۔ وہ اس طرح پھر ڈاکوؤں سے  روزانہ خود کو لٹواتی رہیں گی اور خود نہیں لٹیں گی تو اپنے میاؤں کو لٹواتی رہیں گی۔
 وہ بھی اسی لالچ میں یہ جواء کھیلتے رہیں گے۔
 لو جی یہ دیکھو پھر سے گھنٹی بج رہی ہے 
 ہیلو کون ؟
جی میڈم آپ کا لاٹری میں انعام لگا ہے۔ آپ اس نمبر پر بات کیجئے۔۔۔
 لو جی ہو گیا شروع ڈرامہ
 اس نے فون فورا سے بند کر دیا 
                  ۔۔۔۔۔۔۔۔

منگل، 16 جولائی، 2024

تبصرہ ۔ فیاض وردگ ۔ کویت


ممتازملک کے کلام 
نینوں کے در وا جو کر دے
پر کویت سے معروف شاعر فیاض وردگ صاحب کا خوبصورت تبصرہ
                      ۔۔۔۔۔۔

واہ واہ واہ واہ واہ واہ واہ واہ واہ واہ واہ واہ واہ بہت خوب زبردست یہی دل کی گہرائیوں سے دل کی دھڑکنوں کی صدا ھے اسی شاعری کا دیوانہ ھوں یہی شاعری نزول کی شاعری ھے یہی شاعری داخلی کشمکش کی آواز ھے جو نینوں کو گویائی دیتی ھے آبرو کو رومز عشق کا درس دیتی ھے جس کے دھڑکنے سے موسیقی کی لہریں ابھرتی ہیں آبشار نغموں کی وادیوں میں لے جا کر سحرانگیزی  کردیتی ھے ساز اور آواز کی سنگت سے دلوں کو فتح کرتی ھے سماعتوں میں شہد گھولتی ھے نینوں کو مخمور کر دیتی ھے تن بدن میں سلگتی ھوئی آگ کو 
 🔥 شعلوں میں بدل دیتی ھے اور انگڑائیوں کو رقص کا ہنر سکھاتی ھے ۔۔اسی طرز کوجاری رکھیئے ۔
میری شام کو سحر انگیز کرنے کے لئے شکریہ حضور سلامتی
                       ۔۔۔۔۔۔۔

پیر، 15 جولائی، 2024

گٹر معاشرہ۔ کالم




واہ رے ہمارے گٹر معاشرے 
جہاں اللہ کے نزدیک 
ان کے خیال میں 
بیٹیوں کی خرید و فروخت پسندیدہ 
انکو کتے جیسا ذلیل کرنا پسندیدہ 
انہیں مار مار کر مردانگی دکھانا پسندیدہ 
انکے نام سے بہن چ۔۔۔ اور ماں چ۔۔۔ سے صبح کا آغاز کرنا پسندیدہ 
ان کا قتل پسندیدہ 
لیکن طلاق ۔۔۔
توبہ توبہ توبہ 
اللہ کے نزدیک سب سے ناپسندیدہ کام ہے ۔۔۔
میں لعنت بھیجتی ہوں ایسے معاشرے پر ۔۔۔
آپ میں کتنے باضمیر باقی ہے جو ایسا کر سکیں ؟

مہم چلائیں 
اگر غیرت باقی بچی ہے تو  مہم چلائیں۔ ۔۔
           طلاق منظور 
گھریلو تشدد نامنظور
جبری شادی نامنظور 
بیٹی کی جہالت نامنظور
بیٹی کی بے ہنری نامنظور 
جبری شادی نامنظور 
(چاہے باپ کے گھر میں ہو یا اسکے شوہر کے گھر میں )
گھریلو تشدد نامنظور 

        (ممتازملک۔پیرس)

نیناں دے در۔ پنجابی کلام۔ کوسا کوسا


          نیناں دے در

نیناں دے در وا جے کر دیں
قیدی خاب رہا جے کر دیں 

اک واری فیر جیون لگ پاں
پچھوں آ کے چا جے کر دیں
 
مر کے وی میں مر نہیں سکدی
میرے نام  ہوا جے کر دیں 

اکھیاں دے وچ چانن نہ رہے
 دور توں میتھوں راہ جے کر دیں 

سارے عیش میں کھو وچ پاواں
تو ممتاز جدا جے کر دیں
   ۔۔۔۔۔۔

& فیس ۔ افسانہ۔ قطرہ قطرہ زندگی


          فیس



کل فیس کی آخری تاریخ ہے ۔ لیکن ابھی تک اس کے پاس فیس کے پیسے جمع نہیں ہو سکے تھے اس کی امتحان کی تیاری تو بہت اچھی تھی لیکن فیس جمع کرائے بغیر امتحان میں نہیں بیٹھ سکتی تھی۔
 پریشانی سے اس کا دل بیٹھا جا رہا تھا
 اس نے اپنی دوست رینا سے اپنی پریشانی کا ذکر کیا تو اس نے اسے صلاح دی کہ ہماری ایک کلاس فیلو منیزہ کافی لوگوں کی مدد کرتی ہے۔ تو کیوں نہ اس سے ادھار ہی لے لو۔
 اگر مدد نہیں چاہتی تو ادھار  تو لے لو۔
 مانیہ نے کہا
 نہیں وہ میری کلاس فیلو ہے۔
 کل کو ساری زندگی کے لیئے اس کی سامنے میری انکھیں جھکی رہیں گی۔ میری گردن جھکی رہے گی۔ میں اس کا کوئی احسان نہیں لینا چاہتی اور تم جانتی ہو وہ کتنی بد مزاج بھی ہے کسی بھی وقت منہ پر بات مار دے گی اور میں ہمیشہ کے لیے ذلیل ہو جاؤں گی۔
 نہیں میں ایسا نہیں کر سکتی۔۔۔
 تو پھر تم کیا کرو گی ریحا نے اس کی پریشانی کو محسوس کرتے ہوئے پوچھا 
جو اللہ بہتر کرے وہ کالج کے گراؤنڈ سے اپنے کلاس کے کمرے کی طرف جا رہی تھیں۔
ایسے میں ستون کے پیچھے اتفاقا کھڑی منیزہ نے ان دونوں کی باتیں سن لیں۔۔
 اسے افسوس ہوا کہ اس کی طبیعت کی وجہ سے ایک اچھی اور قابل لڑکی اس سے کسی قسم کی مدد لینے سے ہچکا رہی ہے۔
 لیکن وہ اس کی مدد کرنا چاہتی تھی۔ ایسے کہ اس کی عزت نفس بھی سلامت رہے۔
 وہ سوچنے لگی وہ یہ کیسے کرے۔ کیونکہ کل فیس کی آخری تاریخ تھی۔ 
 وہ چاہتی تو خود جا کر اس کی فیس جمع کروا سکتی تھی۔ کسی کو نام بتائے بغیر لیکن جیسے تیسے کالج میں یہ بات اٹھتی اور بات پھیل ہی جاتی۔ اس تک پہنچ جاتی اور یوں وہ ساری زندگی اس کے سامنے صرف نگوں رہتی اور وہ ایسا نہیں چاہتی تھی۔
 وہ جانتی تھی ک مانیہ ایک خوددار اور ذہین طالبہ ہے۔ وہ کسی قیمت پر اس کا یہ سال ضائع نہیں ہونے دے گی۔
 اس نے کچھ سوچا مسکرائی اور چھٹی کا انتظار کرنے لگی۔
 اس نے گھر جاتے ہوئے سب سے پہلے اپنے بینک سے کچھ رقم نکلوائی اور سیدھی مانیہ کے گھر پہنچ گئی۔ مانیہ اسے اپنے دروازے پر دیکھ کر حیران ہو گئی 
تم یہاں ؟
سب ٹھیک ہے ناں؟
 ہاں ہاں سب ٹھیک ہے ۔
کیوں مجھے دیکھ کر حیران کیوں ہو رہی ہو۔ میں تمہارے گھر نہیں آ سکتی کیا۔
 ہاں ہاں کیوں نہیں آ سکتی۔ ضرور آ سکتی ہو۔۔
مانیہ نے منیزہ کو گھر کے اندر آنے کا رستہ دیا۔
 کون ہے بیٹا ۔۔
ماں نے آواز دی
 امی وہ میری کلاس فیلو ہے۔
 اچھا اچھا آؤ نا بیٹا اندر آؤ بیٹھو۔
 میں ا
آپ لوگوں کے لیے کچھ کھانے پینے کو لاتی ہوں۔
 لیکن آپ تو ابھی اپنی کالج کے یونیفارم میں ہو ۔
گھر نہیں گئی کیا ؟
انہوں نے دیوار  پر لگی گھڑی دیکھتے ہوئے پوچھا
 نہیں آنٹی آج ماما نے ایک کام دیا تھا تو وہ کرنا ضروری تھا اس لیئے میں نے سوچا چلیں کالج کے بعد وہ کام کرتے ہوئے گھر کی طرف نکلوں۔
 اچھا اچھا چلو بیٹا  میں کھانے کا ٹائم ہے کھانا لگاتی ہوں۔
 نہیں نہیں آنٹی تکلیف نہیں کیجیئے گا۔
 میں ابھی گھر جا کر کھانا کھاؤں گی۔
 ارے بیٹا جو دال ساگ بنا ہے تم بھی دو لقمے لگا لینا ۔ ہم نے کون سی یہاں مرغ مسلم کی دیگ دم کرنی ہے تمہارے لیئے الگ سے ۔
وہ ہنستے ہوئے کچن کی طرف چلی گئیں ۔
 مانیہ سوچنے لگی منیزہ کے آنے کا مقصد کیا ہو سکتا ہے۔
 لیکن پھر بھی اس نے خوش دلی سے اسے بیٹھک میں بٹھایا ۔
فرج سے پانی کی بوتل نکالی۔ پانی پلایا۔
 اس کی ماں نے اس وقت تک کھانا میز پر لگا دیا تھا ۔
 دونوں نے مل کر کھانا کھایا آلو گوبھی کی سبزی جس کے ساتھ اس کی ماں نے اسے دیکھتے ہوئے اچار اور چٹنی بھی رکھ دی۔
 گھر کے بنے ہوئے پھلکوں کے ساتھ منیزہ کو واقعی کھانے کا لطف آ گیا۔ اس نے آنٹی کی دل سے تعریف کی۔
 آنٹی آپ نے کھانا بہت اچھا بنایا۔
میں نے بہت دنوں بعد اتنا مزے کا کھانا کھایا ہے۔
ارے بیٹا مذاق کر رہی ہو کیا ۔۔
نہیں نہیں آنٹی کھانا واقعی بہت مزے کا تھا ۔
اس نے منیزہ کو کہا اچھا میں چلتی ہوں لیکن تم سے ایک کام تھا اگر تم کر سکو تو۔۔۔
 مانیہ نے کہا ہاں بتاؤ میں کیا کر سکتی ہوں۔
 اس نے جیب سے  ایک لفافہ نکالا  اور اس کے ہاتھ میں تھما دیا۔
یہ کیا ہے؟
مانیہ نے سوالیہ نظروں سے اسکی جانب دیکھا
یار تمہیں پتہ ہے میری ماما نے مجھے کچھ لوگوں کے لیئے ضرورت کے پیسے دینے کو کہا تھا۔ اب میں کہاں ڈھونڈتی پھروں گی لوگوں کو کس کس کو دوں۔ ایک دو کو تو میں جانتی تھی کچھ رقم میں نے وہاں پہ ان کو مدد میں دے دی۔
 لیکن یہاں پہ بھی تو طالب علم رہتے ہیں۔ جن کو تم جانتی ہو تو ان کو تم دے دینا۔
 اب میں اپنے کالج کے سوا زیادہ لوگوں کو نہیں جانتی۔
مجھے پتہ چلا کہ تمہاری گلی میں بھی کچھ طالب علم میں رہتے ہیں جن کی فیسز آج کل میں ہی جانے والی ہیں تو پلیز تم سے ایک فیور چاہیئے تھی اگر تمہیں برا نہ لگے تو میری تھوڑی سی مدد کر دو کیسی مدد مانیہ نے حیرت سے پوچھا اصل میں میں کہاں ہے ایک کو ڈھونڈو گی تو میں ایسا کرو یہ لفافہ اپنے پاس رکھو اور یہاں جن کو تم جانتی ہو نا تم ان کو دے دینا بس پلیز باقی مجھے کیا ان سے ملنا ہے اور نہ جاننا ہے۔ میں کیا کروں گی ان سے مل کر۔ تم بس ان کو دے دینا اور ان کی فیسیں جمع ہو جائیں گی تو میری ماما کی جو آرڈر ہے یہ پورا ہو جائے گا ۔
میں قسم تو اٹھا سکوں گی نا سٹوڈنٹس تک پیسے چلے گئے ہیں۔
 کیا تم میری مدد کرو گی
 مانیا حیرت سے اسے دیکھ رہی تھی یہ سچ ہے یا کوئی ڈرامہ یا خدا کی مدد یا اس کا کوئی پردہ رکھا جا رہا ہے۔۔
 اسے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ وہ کیا کرے۔
 لیکن منیزہ نے اسے زیادہ سوچنے کا وقت نہیں دیا اس نے لفافہ اس کے ہاتھ میں رکھا اور جلدی سے دروازے سے باہر کی طرف ہو لی۔
  بھئی او ہو مجھے بہت دیر ہو گئی اچھا میں چلتی ہوں اوکے بائے کل پھر ملیں گے انشاءاللہ
 اپنا خیال رکھنا اللہ حافظ 
یہ کہتے ہوئے منیرہ تیزی سے گھر سے باہر نکل گئی
 مانیہ ہکی بکی کھڑی تھی۔
 کل اسے ہر صورت فیس کے 25 ہزار روپے جمع کرانے تھے اور ایک لفافہ اس کے ہاتھ میں تھا جو کسی طالب علم کی فیس جمع کرانے کے لیے دیئے گئے تھے وہ حیران پریشان کھڑی تھی ۔
 اس کی ماں نے آواز دی 
کہاں ہو مانیہ کیا منیزہ چلی گئی 
 جی ماما اسے جلدی تھی وہ چلی گئی۔
 تو اندر آ جاؤ۔ دروازے میں کیوں کھڑی ہو۔
تم نے کھانا بھی ٹھیک سے نہیں کھایا جی امی بس آپ کو پتہ ہے۔ پریشانی تھی۔ میرا دل نہیں کر رہا تھا کھانا کھانے کو ۔
کیا پریشانی ہے بیٹا
اسکی ماں نے فکر مندی سے پوچھا

 آپ کو پتہ تو ہے کل فیس کی آخری تاریخ ہے اور میرے پاس فیس جمع کرانے کے پیسے نہیں ہیں اس کی ماں شرمندہ سے ہو گئی  ۔
 اس نے کہا بیٹا پھر اب کیا کریں گے کہیں سے ادھار بھی نہیں لیا جا سکتا اج کل تو کوئی کسی کو 25 پیسے نہیں دیتا ۔
25 ہزار روپے کا انتظام کہاں سے کروں۔
 اس بار تو بلوں نے ہی زندگی عذاب کی ہوئی ہے۔ اتنے بھاری بل تھے کہ اب تو لگتا ہے تن کے کپڑے بیچ کر یہ بل دینے پڑیں گے یا میٹر کٹوانے پڑیں گے۔
 ماں بھی سچ کہہ رہی تھی وہ کیا کرتی بیچاری۔ ایک محدود آمدنی کے اندر تین بچوں کے ساتھ گھر کا گزارا کوئی آسان کام نہیں تھا۔
ابا کی کمائی میں کبھی سر ننگا اور کبھی پاؤں ننگے والا حساب تھا ۔
وہ ان کی مدد کرنا چاہتی تھی۔ اپنے پیروں پہ کھڑا ہونا چاہتی تھی۔ لیکن اپنی ڈگری کو مکمل کیئے بغیر یہ ممکن نہیں تھا ۔
منیزہ کیسے آئی تھی ۔سب ٹھیک تھا نا ۔جی امی ایک کام تھا ۔
کہہ رہی تھی یہاں پہ گلی میں کچھ سٹوڈنٹس کے لیئے ان کی ماں نے کچھ رقم نکالی ہوئی تھی کہ بھئی کس کی مدد کرنا چاہتی ہیں اب وہ سوچ رہی تھی کہ میں کہاں طالب علم کوئی ڈھونڈوں گی تو میں اپنی گلی میں کسی کو دیکھوں اور کسی کے دے دوں۔
 کیا کیا کہہ رہی ہو تم ؟
کیا مطلب 
بچہ بغل میں اور ڈھنڈورا شہر میں،  وہ طالبات اور طلبہ کی مدد کے لیئے تمہیں رقم دے کے گئی  
تم بھی تو کل فیس ہی جمع کرانا چاہتی ہو ۔ دیکھو تو اس میں کتنے پیسے ہیں شاید اللہ نے تمہارے لیئے کوئی مدد ہی بھیج دی ہو ۔
 اس نے لفافہ کھولا اور اس میں رقم دیکھی تو 40 ہزار روپے رکھے تھے ۔
وہ بہت حیران ہوئی اسے 25 ہزار کی ضرورت تھی لیکن اس کے ہاتھ میں 40 ہزار کا لفافہ تھا ۔
ماں بیٹی ایک دوسرے کی شکل دیکھنے لگی۔۔
 اس نے اپنی ماں کی طرف دیکھا تو انہوں نے کہا کہ بیٹا کل کو تم اپنی فیس جمع کرا دینا ۔
اسے اللہ کی مدد ہی سمجھو لیکن امی یہ تو چوری نہیں ہو جائے گی، امانت میں خیانت نہیں ہو جائے گی  کیوں بیٹا اس نے تمہیں خود کہا کہ سٹوڈنٹ کی فیسیں جمع ہو رہی ہیں ان میں سے کسی کی فیس جمع کرا دینا۔
 تو تمہارا پردہ اللہ نے رکھا ہے تمہاری مدد بھیجی ہے ۔کل کو زندگی میں تم اسی طرح کسی کی اور کی مدد کر دینا ۔جب تمہارے پاس رقم ہوگی تو۔  اس نے سوچا 
امی آپ ٹھیک کہہ رہی ہیں  
جب بھی میں خود کمانے لگی تو پہلی بچت میں سے اسی طرح کسی اور کی پردے کے ساتھ مدد کر دونگی۔
 ہاں امی آپ ٹھیک کہہ رہی ہیں ۔
لیکن کیا یہ ٹھیک ہوگا۔۔
 کیوں بیٹا اس میں کیا غلط ہے تم اسے بتانا نہیں چاہتی یہ اور بات ہے بتانا چاہتی ہے تو بتا دو۔ وہ اچھی لڑکی ہے۔ اس کی ماں بھی  اچھی عورت ہے جو کسی کے لیئے اس طرح سے مدد کرتی ہے۔
اس نے لفافے کو دیکھا اور آسمان کی طرف نظر اٹھائی۔
 شکریہ پروردگار واقعی تو کیسے کیسے بہانے اور کیسے کیسے حیلے بناتا ہے میں تجھ سے وعدہ کرتی ہوں کہ جب میں کمانے کے لائق ہوں گی تو یہی رقم تجھے ڈبل کر کے کسی اور کی مدد کی صورت ضرور واپس کروں گی  ان شاءاللہ 
شکریہ تیرا اس پردے کے لیے شکریہ
                   ۔۔۔۔۔۔۔

جمعرات، 11 جولائی، 2024

& اعتبار کی موت۔ افسانہ ۔ سچی کہانیاں۔ قطرہ قطرہ زندگی



اعتبار کی موت       



کاؤنٹر پہ دوائیوں کی پیمنٹ کرتے ہوئے ایک لڑکا انتہائی بےچارگی کے ساتھ اپنی جیبیں ٹٹولتا ہوا سیلز مین کو بتا رہا تھا کہ بھائی میرے پاس اور پیسے نہیں ہے میں آپ کو پھر دے دوں گا ۔
دیکھیں یہ دوائیں بہت ضروری چاہیئیں ۔ میری ماں بہت بیمار ہے۔
 دوسرے سیلز مین کی طرف کھڑی بینا اس کی لاچارگی دیکھ کر کانپ سی گئی۔
 محض دوائی کے لیئے کوئی آدمی کس طرح سے منت سماجت کر رہا تھا۔
 اس سے رہا نہیں گیا اس نے ہاتھ کے اشارے سے سیلز مین سے کہا۔
 اس کی پیمنٹ کتنی ہے؟
سیلزمین نے بتایا 
پانچ ہزار کی دوائیں ہیں۔
 اوکے ٹھیک ہے یہ پیمنٹ میں کر دوں گی ۔ آپ اسے دوائیں دے دیجئے۔
اس نے لڑکے کو اشارے سے کہا  کہ یہ دوائیں لے کر آپ جائیں۔
 وہ لڑکا شکرگزاری اور خوشی میں اس کی طرف دیکھ کر ٹوٹے پھوٹے جذباتی جملوں  میں بولا
میم آپ کا بہت بہت شکریہ ۔ میں آپ کا شکریہ کیسے ادا کروں۔  آپ مجھے اپنا ایڈریس یا  نمبر کچھ بھی دے دیجئے یا جہاں بتائیں میں آ کر وہاں، جب بھی ہوں گے ، میں آپ کو یہ پیسے ادا کر دوں گا۔ آپ نے میری جو مدد کی ہے۔ میں کبھی اس کا احسان نہیں اتار سکتا  اس نے اسے خاموشی کا اشارہ کیا اور جانے کا کہا گاڑی میں اس کی دوست انتظار کر رہی تھی اس لئے اس نے اپنی دوائیاں اٹھائیں اور اپنی گاڑی کی طرف چل دی
 وہ گاڑی میں بیٹھنے لگی تو اسے یاد آیا وہ اپنا فون کاؤنٹر پر بھول آئی ہے تو وہ دوبارہ سے پلٹی۔
 فارمیسی میں جاتے ہی اس کی نظر اسی لڑکے پر پڑی جو ہنس کر اس کاؤنٹر کے دوسرے سیلز میں  سے بات کر رہا تھا وہ تھوڑی متجسس سی ہو گئی کہ وہ دوبارہ یہاں کیوں آیا یا گیا ہی نہیں ؟
ابھی وہ اتنا پریشان تھا اب وہ اتنا ہنستا مسکراتا اس سے گپ لگا رہا ہے۔
 وہ دروازے کی اوٹ میں ہو گئی شیشے کے دروازے کی دوسری طرف سے وہ اندر داخل ہوئی اور دوسرے ریگ کی طرف مڑ گئی۔ جہاں کوئی اسے دیکھ نہیں  سکتا تھا۔ لیکن وہ کاؤنٹر پر ہونے والی گفتگو با آسانی سن سکتی تھی 
 وہ دونوں ہنس رہے تھے اور وہ ضرورت مند لڑکا بولا ارے  یار پانچ ہزار کی دیہاڑی تو  آرام سے لگ گئی ہے۔ پکڑو اپنی دوائیاں اور پیسے  دے دینا۔
 سیلزمین بولا
 اور میرا حصہ۔۔ 
 ارے یار چل تو بھی رکھ لے ہزار روپے کیا یاد کرے گا۔ کس سخی سے پالا پڑا ہے۔
 یہ سنتے ہی بینا شدید صدمے کی کیفیت کا شکار ہو گئی۔
 اس کی آنکھوں میں آنسو آ گئے  
 اس کے خلوص کا، اس کی ہمدردی کا، اس کی سچائی کا کیسے مذاق اڑایا گیا 
 وہ خاموشی سے دوسرے دروازے سے  باہر نکل گئی۔
 اس نے دوست سے پوچھا کیا بات ہے؟
ایک دم سے پریشان کیوں ہو گئی ہو ۔ فون ملا؟
سب ٹھیک ہے نا۔۔۔
 اس نے اپنی دوست سے کہا
 جا کر اندر کاؤنٹر سے میرا موبائل اٹھا لاو۔۔
 لیکن تم گئی تو تھی۔
وہ حیرانی سے بولی
 بس تم جاؤ نا یار جا کر لے آؤ۔۔
میں نہیں جانا چاہ رہی۔
 اس کی دوست نے اندر سے جا کر کاؤنٹر سے اس کا موبائل سیلزمیں کو بتا کر اٹھایا ۔
واپس آ کر گاڑی میں بیٹھتے ہی اس سے پوچھا
 کوئی لڑکا وہاں تھا؟
 ہاں ہنس رہا تھا ؟
ہاں۔  تو۔ ۔
 یہ وہی لڑکا ہے جو ابھی دواؤں کے لیے پانچ ہزار روپے کے لیئے رو رہا تھا اور اب وہ وہاں ٹھٹھے لگا رہا ہے 
کیا مطلب پانچ ہزار روپے کا چونا لگا دیا اس نے تمہیں وہ ہنس دی 
  اف  خدایا میں نے تمہیں کہا تھا نا۔ وہاں کسی پر اس طرح مہربان ہونے کی ضرورت نہیں ہے 
 یار وہ کوئی ہوٹل کا بل نہیں دکھا رہا تھا ۔  دوائیں تھیں ۔ زندگی بچانے کی اور  اس پر بھی کسی کی مدد نہ کی جائے تو اس سے بڑا انسانی جرم کیا ہوگا ؟
تو اب دیکھ لیا نا تم نے۔۔ اس طرح کے بڑی فلمیں پھرتی ہیں یہاں پر ۔
خود کو اس نرم دلی سے باہر نکالو۔
 حقیقت میں جینا سیکھو ۔
بینا کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔
چلو میں پانچ ہزار تمہیں دے دوں گی۔
 چھوڑو دفعہ کرو۔
 بات پانچ ہزار روپے کی نہیں ہے  
 بات اس اعتبار کی ہے جو اس لڑکے نے میرا توڑ دیا اور جو اب  کبھی کسی پر قائم نہیں ہو سکے گا۔ کوئی سچا ضرورت مند بھی ہوا تو میں اسے ڈرامے باز کہہ کے گزر جاؤں گی۔
 میں کبھی جاننا نہیں چاہوں گی کہ اسے کیا تکلیف ہے ۔
میں اپنے دل کو جانتی ہوں یہ دل بھی بڑی کتی چیز ہے آ گیا تو آ گیا ، آٹھ گیا تو اٹھ گیا  پھر اسے کوئی واپس نہیں لا سکتا ۔
  اس کمبخت نے میرا اعتبار توڑ دیا ۔جوان جہان یھٹا کٹا اور دھندا کیا ہے؟
 دوائیوں کے نام پر لوگوں کو چونا لگانا ۔
تو ہم اسے پولیس کے حوالے کر دیتے ہیں۔ 420 کا پرچہ کروا دیتے ہیں۔
دوست نے جوش اور غصے سے اس کی تکلیف کو محسوس کرتے ہوئے کہا
 نہیں یار کوئی فائدہ نہیں۔ یہ اور  اس جیسے جانے کتنے لوگ ہوں گے۔ جنہیں  دھوکہ دیتے ہوئے ، فراڈ کرتے ہوئے، یہ یاد ہی نہیں رہتا کہ وہ اپنی ہر حرکت سے اس بے رحم دنیا سے جو گبے چنے ہمدرد، نرم دل کے لوگ ہیں یہ ہر روز ان کا صفایا کرتے جا رہے ہیں، ہر روز اپنے ہر عمل سے ایک نیک انسان کو دنیا سے کم کرتے جا رہے ہیں۔
 وہ ہر ہمدرد معصوم دل انسان  بھی انہیں کی طرح پتھر ہوتا جا رہا ہے۔
 وہ بھی انہیں کی طرح بے رحم ہوتا جا رہا ہے، کیونکہ انہوں نے اسے مجبور کیا کہ ہم پر اعتبار مت کرو۔
 کوئی سچا بھی اس کے سامنے آئے گا تو۔وہ اسے بھی دھتکار کا آگے گزر جائے گا۔
 اس میں قصور اس شخص کا نہیں ہو گا بلکہ  اس میں قصور اس جیسے مکاروں کا ہو گا جو اس نیک انسان کے اخلاقی قتل عام پر نہ نادم ہے نہ شرمندہ اور نہ ہی باز آنے والے ہیں۔
 موٹے موٹے آنسو بینا کی انکھوں سے نکل کر اس کی گود میں جا گرے۔موت جو ہوئی تھی اس کے اعتبار کی۔۔۔۔۔
                  ۔۔۔۔۔۔۔۔                   



& آٹے میں نمک۔ افسانہ ۔ سچی کہانیاں۔ قطرہ قطرہ زندگی



آٹے میں نمک

گلی سے ایک بچی کھیلتے ہوئی ان کے گھر آ نکلی اور اس کیساتھ کھیلنے کی ضد کرنے لگی۔
وہ ماں کی طرف درخواست بھری نظروں کے ساتھ دیکھنے لگی۔
 میں تھوڑی دیر اسکے ساتھ کھیل لوں
وہ منمنائی۔۔۔
 نہیں ابھی تمہارا باپ آئے گا تو ٹکڑے ٹکڑے کر دے گا تمہارے۔ خبردار جو گھر سے باہر نکلی۔
 اچھا چلو ہم چھت پر جا کر کھیل لیں۔۔
 اس نے پھر سے درخواست کی
 تو گھر کا کام تو تمہارا باپ کرے گا اس لڑکی کو بولو جائے اپنے گھر۔
 اس نے نفرت تھی اپنی بیٹی کو جھڑک دیا
 اور کمرے میں جا کر اپنے کسی کام میں  مصروف ہو گئی وہ بچی چھوٹی بچی ہی تو تھی۔
 وہ چپکے سے محلے کی بچی کے ساتھ چھت پر جا کر کھیل میں مصروف ہو گئی۔
 ماں کمرے سے باہر نکلی تو اسے صحن میں نہ پا کر آگ بگولا ہو گئی۔
 اس نے چلا چلا کر اس کا نام پکارنا شروع کیا 
 کہاں مر گئی کھوتے کی بچی۔۔
 کہاں دفع ہو گئی۔۔
 ٹہر میں تیرا حشر کرتی ہوں۔۔
 یہ آوازیں سن کر چھت پر کھیل میں مصروف بچی کی جیسے جان ہی نکل گئی
 وہ تیزی سے دوڑتی دوڑتی گرتی پڑتی نیچے کی طرف سیڑھیوں سے اتری۔
 ماں نے اسے پڑوس کی بچی کے سامنے ہی خوب مارنا شروع کر دیا وہ پڑوسن بچی تو ڈر کے مارے بھاگ گئی۔
 لیکن یہ اپنی ماں کے ہاتھ سے بھاگ کر کہاں جاتی۔
 سو خوب مرمت کرنے کے بعد اس نے اسکی ماں نے اسے کچن میں لا کر پٹخا اور بولی
 چل چل کے آٹا گوندھ۔ تجھے پتہ نہیں آٹا تیرا باپ گوندھے گا کیا۔۔
 وہ بری طرح سے گھبرائی ہوئی اور رو رہی تھی
 اس نے جلدی سے پرات  میں اٹا نکالنا شروع کیا ہاتھ دھوئے اور آٹا گوندھتے لگی۔
 جلدی کر آٹا  ٹھہر جائے تو روٹی بھی بنانی ہے ابھی۔
 یہ تیری عیاشیاں ہیں نا یہ تجھے جوتے پڑوائیں گی۔
 پوری رن ہو چلی ہے اور تجھے ابھی تک کام کا نہیں پتہ۔
 وہ 10 سال کی بچی ان باتوں کو نہ سمجھتے ہوئے حیران پریشان کھڑی ہوتی اور سوچتی
 تو کتنی پرانی روح ہے اسے اس کی ماں نے کن کن غلیظ خطابات سے نواز رکھا تھا۔
 وہ اسے کیا سمجھتی ہے کہ وہ واقعی اس کی ماں ہے۔
چھوٹے سے دماغ میں پتہ نہیں کون کون سے خیالات آتے رہتے  اور وہ اپنے آنسو اپنے دوپٹے میں جذب کر کے چولہا جلانے لگی۔
 اس نے چھوٹے چھوٹے ہاتھوں سے پیڑے بنانا شروع کئے۔
 اتنے میں اس کا باپ فیاض گھر آ چکا تھا۔
 اسے دیکھتے ہی اس کی ماں نے دو تین پکے سے چانٹے اس کے سر پہ رسید کیئے اور اسے چولہے کے آگے سے  اٹھا کر پیچھے کی طرف پٹخا۔
 پیچھے ہو ہڈ حرام ابھی تک روٹی نہیں بنائی تو نے۔
 وہ جلدی سے پیڑے بنا کر توے پر روٹیاں ڈالنے لگی ٹریے میں کھانا لگا کر اس نے فیاض کے اگے رکھا۔
 وہ جانتی تھی تھوڑی سی بھی دیر ہوئی تو فیاض نے منہ کھول کھول کر وہ وہ مغلظات سنانی شروع کرنی ہیں کہ سارے محلہ پھر سے ایک نیا تماشہ  دیکھے گا۔
فیاض نے روٹی کا لقمہ منہ میں رکھتے ہی تھوک دیا۔
 اپنی بیوی میراں کے منہ پر کھانے کی ٹرے مارتے ہوئے اسے روئی کی طرح دھنک دیا۔
 بدبخت عورت اتنا نمک ہے روٹی میں کہ زہر کر ڈالا ہے۔ تجھے آٹے میں نمک کا بھی اندازہ نہیں ہے نکمی عورت۔
 منہ سے جھاگ اڑاتا ہوا فیاض تو گھر سے باہر نکل گیا،کسی ہوٹل پر کھانا کھانےکو،
  میراں نے دس سالہ بیٹی مومنہ کو بانس کے جھاڑ کے دستے سے مار مار کر ادھ موا کر دیا ۔
گلی کے بچے کے ساتھ کھیلتے ہوئے جو ماں نے اسے گالیوں کے ساتھ پکارا تو ڈر کے مارے آٹا گوندنے سے پہلے اس نے شاید ایک بار شروع میں اور ایک بار شاید بعد میں بھی پھر سے نمک شامل کر دیا اور اسے علم بھی نہ ہو سکا اور یوں آٹے میں نمک زیادہ ہو گیا ۔
 وہ چاہتی تو اسی آٹے کو تھوڑا تھوڑا کر کے دوسرے آٹے میں ملا کر دوبارہ سے گوند سکتی تھی۔
 بغیر نمک کے آٹے میں ملا کر وہ اسے پکا سکتی تھی۔
 آٹا بھی استعمال ہو جاتا اور نمک بھی برابر ہو جاتا۔
 لیکن اس نے ایسا نہیں کیا اس نے اپنے شوہر سے پڑی ہوئی مار کا بدلہ اس بچی سے لینے کے لیئے پہلے تو اسے خوب پیٹا۔
جب تھک گئی تو باقی غصہ اتارنے کے لیئے نمک بھری روٹی کے نوالے بنا بنا کر زبردستی اس کے منہ میں ٹھونسنا شروع کر دیا۔ 
وہ آدھ مری بچی اکھڑے سانسوں کیساتھ ہاتھ جوڑتی رہی۔ معافیاں مانگتی رہی ۔ لیکن میراں  کو اس پر ترس نہ آیا۔
 بلکہ میراں نے  اسے غلیظ ترین گالیوں سے نوازتے ہوئے اگلے سات روز تک اسی آٹے کی روٹی بنا کر کھلائی۔
 کیونکہ میراں تو روزانہ سہیلیوں سے گپیں لگانے بیٹھ جاتی تھی گھر کے سارے کام تو اس بچی مومنہ سے کرواتی تھی۔

 جھاڑو پونچھا آٹا گوندھنا اسکے چھوٹے چھوٹے ہاتھوں کا فرض تھا کیونکہ اسکا جرم تھا کہ وہ اسکی کوکھ سے جنمی تھی۔ 
                 ۔۔۔۔۔۔

شاعری / /مدت ہوئ عورت ہوۓ/ ممتاز قلم / سچ تو یہ ہے/ اے شہہ محترم/ سراب دنیا/ نظمیں/ پنجابی کلام/