ممتازملک ۔ پیرس

ممتازملک ۔ پیرس
تصانیف : ممتازملک

اتوار، 19 دسمبر، 2021

گھر ‏میں ‏آ ‏گیا۔ ‏طرحی ‏غزل ‏نامکمل ‏


ادب نما کے زیر اہتمام مصرع طرح 
"دستک دیے بغیر مرے گھر میں آگیا "
پر طرحی مشاعرہ چل رہا ہے 
 قوافی : لشکر محور منظر محشر  وغیرہ 
ردیف : میں آگیا

وہ خواب تھا جو سوچ کے محور میں آ گیا
اک روز  سامنے میرے منظر میں آ گیا 

پیچھا چھڑا کے جس سے جہاں سے گزر گئے
وہ ہی خدائی خوار تو محشر میں آ گیا 

اب ہار جانے کا ہمیں پختہ یقین ہے
وہ جان جاں حریف کے لشکر میں آ گیا 

پیکر میں آ گیا



جمعرات، 16 دسمبر، 2021

✔ ● بہاریوں کو سلام محبت ❤/ کالم۔ لوح غیر محفوظ






16 دسمبر 1971ء 
خون آشام تاریخ ۔۔۔کسی نے کیا ۔۔۔۔کسی نے بھگتا۔۔۔

سقوط ڈھاکا کے 50 سال مکمل ہوئے۔
مکتی باہنی کی بھارتی سازشوں کی کامیابی کے 50 سال
بنگلہ دیش میں اذیت ناک زندگی گزارنے پر مجبور لاکھوں بہاریوں کی پاکستان سے محبت کے جرم میں لازوال قربانیوں کے 50 سال 
سر کٹائے۔۔۔۔سولی چڑھے۔۔۔۔ عزتیں لٹوائیں ۔۔۔ کیڑوں مکوڑوں جیسی زندگی گزارنے پر مجبور کر دیئے گئے مگر نعرہ ایک ہی رہا۔۔۔۔۔
پاکستان زندہ باد
دنیا بھر میں آباد بہاریوں کو سلام محبت❤
پاکستان سے محبت کے معاملے  میں ہم آپ سے مقابلے میں صفر سے بھی نیچے کھڑے ہیں ۔ کاش اس محبت اور وفاداری کا ہزارواں حصہ بھی ہمیں نصیب ہو جاتا تو آج ہمارے نام نہاد کارٹون لیڈران ہماری غیرت و حمیت و معیشت سے فٹبال کبھی نہ کھیل رہے ہوتے ۔
1971 ء میں بھارتی سازشوں نے اپنی زرخرید جماعت مکنی باہنی کے ذریعے دنیا کی تاریخ کا  سب سے غلیظ کھیل کھیلا ۔ پاک فوج کے خلاف بنگالیوں کو سالہا سال تک بھڑکایا گیا ۔ رہی سہی کسر مغربی موجودہ پاکستان کے سیاسی پتلی تماشا کرنے والوں کی بیوقوفیوں اور  خود سری نے پوری کر دی۔ بزدل اور عیاش جرنیلوں نے فوج کی ضروریات کے بجائے نئی ٹیکنالوجیز اور فن حرب پر توجہ مرکوز کرنے کے بجائے اپنے شراب و کباب عاشقیوں معشوقیوں پر ایسی توجہ دی کہ اس گھر پاکستان کا آدھا حصہ انکی شراب کے ریلے میں بہہ گیا اور گھنگھرووں کی چھنکار میں بنگالیوں کی مظلوم چیخیں دفن ہو گئیں ۔ ہائےےےےےے کیا ظلم ہوا ۔ 
جب نوے ہزار بہادر پاکستانی فوج نے اپنے جرنیلوں کی بےغیرتی اوربزدلی کی قیمت اپنے سر جھکا کر ہتھیار پھینک کر چکائی تھی۔ 
مکتی باہنی پاک فوج کی وردی میں مظلوم بنگالیوں کی عزتوں اور جانوں سے خون کی ہولی کھیلتی رہی اور گالی پاک فوج کے حصے میں لکھی گئی۔ بی بی سی ریڈیو کے جھوٹے پروپیگنڈوں نے ساری دنیا کی رائے کو پاکستان کے خلاف خوب ہموار کیا ۔ بھارت کی پشت پناہی کی۔ اس کے جنگی جرائم پر مکاری کے پردے ڈالے ۔ اور ان کے نمائندگان کانوں میں روئی ٹھونس کر جانے کیسے سو بھی جاتے تھے؟ 
کیسے نیند آ جاتی ہو گی انہیں اس بے ضمیری میں ؟ لیکن قدرت کا کھیل دیکھیئے  ہر سچ کو ایک دن بے نقاب ہونا ہی ہوتا ہے۔ سو آج  یہ سچائیاں جان کر ہی تو آج بھی وہ بنگالی پاکستان سے محبت کرتے ہیں ۔ اردو سے محبت کرتے ہیں ۔ ان کے گلے لگ کر سیاسی شعبدہ بازوں کے ضمیر کی موت کا پرسہ دیتے ہیں ۔ ایکدوسرے کی  ہر تکلیف پر یہ دونوں آج بھی دکھی ہوتے ہیں ۔ اور اس محبت کو انکے دلوں سے نہ مکتی باہنی نکال پائی۔ نہ  بنگلہ دیشی حکومتوں کی بھارتی ایجنڈے کی پاسبانی نکال پائی۔ 
دل سے ایک ہی  آواز  دونوں جانب سے ابھرتی رہی۔۔۔
ہم کہ ٹہرے اجنبی اتنی مداراتوں کے بعد 
پھر بنیں گے آشنا کتنی ملاقاتوں کے بعد
ہم چالیس لاکھ افغانیوں کو انکی تمام تر بے وفائیوں سمیت اپنی زمین پر پناہ دے سکتے ہیں تو کیا وجہ ہے کہ ہماری ہر حکومت نے 3 لاکھ بہاریوں کو پاکستان لا کر آباد کرنے کا وعدہ کبھی وفا نہیں کیا ۔ انکی لازوال محبت ہماری زمین پر اپنی جگہ نہیں پا سکی لیکن ہمارے دلوں میں ہمیشہ تڑپ جگاتی رہی ہے۔ اب بھی اگر انہیں پاکستان کی زمین نے قبول نہ کیا تو انکے بہت سے آباء جو منوں مٹی تلے جا سوئے انکی دوسری نسل بھی ان اذیتوں کا شکار ہو کر ہماری وفا پر  سوالیہ نشان  نہ لگا جائیں ۔
               ●●●

ہفتہ، 4 دسمبر، 2021

ووٹنگ مشین اور تارکین وطن / کالم

ووٹنگ مشین اور تارکین وطن
تحریر؛ ممتازملک ۔پیرس

ہر روز ٹی وی پر بیٹھے حکومتی اور غیر حکومتی اراکین کا تماشا لگا رہتا ہے آج کل تماشے کا موضوع ہے الیکٹرانک ووٹنگ مشین پر ووٹ کاسٹ ہونے کا حق تارکین وطن کو دیا جا رہا ہے ۔ سو اس کی مخالفت میں اپوزیشن اپنا بینڈ بجاتی ہے تو حکومت اپنا ڈھول پیٹتی ہے۔ لیکن مجال ہے کہ کوئی کام کی اور مطلب کی بات پر کوئی مناسب نقطہ نظر پیش کر پایا ہو ۔ وہ بات جو مجھ جیسی   عام سی تعلیم و عقل رکھنے والی کو بھی سمجھ میں آ جاتی ہے وہ ان عالم فاضلین کی زبان پر کیوں نہیں آ رہی ۔ اس لیئے اپنی رائے اسی موضوع پر دینا مجھے ضروری لگا ۔ ہوسکتا ہے کسی کے دل میں خدا کا خوف بیدار ہو جائے اور کوئی صاحب اختیار اس پر غور فرمانے کی زحمت فرما لے۔ 
ویسے تو مشین کے ذریعے ووٹنگ تارکین وطن پاکستانی عوام کے لیئے استعمال ہونے جا رہی ہے ، یہ بہت اچھی بات ضرور ہوتی اس صورت میں جب سو فیصد  پاکستانی تعلیم یافتہ ہوتے ۔ اور اس مشین کے بلکہ اپنے ووٹ کے حق کو اہم سمجھتے اور اس کی افادیت سے آ گاہ ہوتے ۔ امریکہ میں ہو سکتا ہے کہ تارکین وطن کو یہ سہولت ملے تو اس کی افادیت زیادہ ہو وہ بھی تب جب ہمارے پاکستانی سفارت خانوں نے دھڑا دھڑا غیر پاکستانوں کو بھی پاکستانی شناختی کارڈز یا پاسپیورٹ دھوکے سے بے ایمانی سے نہ بیچے ہوتے ۔ کیا ہمارے سفارتخانوں میں ایسی چوریاں اور دو نمبر دستاویزات بنانے کے کیسز کبھی سامنے نہیں آئے؟ ۔ ایسے میں وہ بھارتی افغانی اور دوسری قومیتوں کے لوگ اس ووٹنگ کے حق کو پاکستان میں پاکستانی مفادات کے خلاف کام کرنے والے لوگوں کو لانے کی کوشش نپیں کرینگے؟ جبکہ ایسی دستاویزات میں اس بڑے پیمانے پر ہیرپھیر اور ڈاکہ زنی کی ہی اس مقصد سے جاتی ہے؟  دوسرا نقطہ ہمارے ہاں یورپ میں مقیم پاکستانیوں کی اکثریت جاہل یا ان پڑھ لوگوں پر مشتمل ہے ۔ جو کہ جیب میں ڈیڑھ ہزار یورو کا موبائل تو رکھتے ہیں لیکن بڑی شان سے محفل میں بتاتے ہیں کہ بھائی مجھے تو میسج کرنا بھی نہیں آتا ۔ ایسے افراد کو جب ووٹ کا حق دینا ہو تو پچھلے کچھ عرصے میں ان کے انٹرا پارٹی الیکشن کی دھاندلیوں کو ہی مثال بنا لیجیئے ۔ جہاں اکثر ممالک میں بااختیار اور کھڑپینچ لوگوں کے  سوسو دو دوسو لوگوں کے کارڈرز سے بذات خود ووٹ کاسٹ کیا اورگنٹی پو گئی اس ووٹر کے کھاتے میں جس کے فرشتوں کو بھی علم نہیں کہ اس کا ووٹ کس امیدوار کے حق میں کاسٹ کیا جا چکا ہے ۔ ایسے میں بائیس کروڑ وہ عوام جو براہ راست اپنے ملک کے حالات سے متاثر ہو رہے ہیں ان کے فیصلوں پر اس طرح سے واردات کرنا کیا ایک اورظلم عظیم نہیں ہو گا؟ محض کرسی سے چپکے رہنے کے لیئے اپنی مرضی کے قوانین بنوانا اور اپنی مرضی کے لوگوں کو اختیارات دینا پھر نئے نئے شوشے بغیر کسی قومی ڈیبیٹ کے چھوڑ دینا آخر کب تک ۔۔۔ کب تک ہر حکمران سابقہ حکمران سے بڑا ڈاکو بننے کی روش کو برقرار رکھے گا؟ خدا کے لیئے اپنی عمروں کا ہی لحاظ کر لیجیئے ، اپنی کوئی عزت ہی بنا لیجیئے ۔کوئی دو چار اچھے کام اس ملک کے مفادات کے مطابق  کر کے ۔ اس کرسی پر آنے والے ہر شخص نے خود کو خدا سمجھا ہے لیکن تاریخ گواہ ہے کہ اس ملک کی عزت اور معیشت سے کھیلنے والے کو نہ کبھی سکون حاصل ہو سکا اور نہ ہی عزت۔ وہ ہمیشہ عبرت کا نشان ہی بنے ہیں ۔ بزرگوں نے سچ ہی کہا تھا کہ بیٹا دولت تو کنجر بھی بہت کما لیتے ہیں لیکن عزت کمانا ہر ایک کے بس کی بات نہیں ہوتی۔ اس لیئے وہ کماو جو ہر ایک کے بس کی بات نہیں اور  جو اس دنیا سے جاتے وقت بھی تمہارے ساتھ ہی جا سکے۔
                   ●●●

پیر، 8 نومبر، 2021

عید میلادالنبی کی بڑی اور یادگار تقریب/ رپورٹ ۔ ممتازملک۔پیرس


عید میلادالنبی کی بڑی اور یادگار تقریب
تحریر:
      (ممتازملک پیرس)


7نومبر 2021ء بروز اتوار عید میلادالنبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خوشی میں فرانس میں مقیم معروف شاعرہ و ناول نگار محترمہ شازملک صاحبہ نے ایک خوبصورت تقریب کا انعقاد کیا ۔ جس کی مہمان خصوصی فرانس میں قائم مقام سفیر پاکستان قاضی امجد عزیز کی اہلیہ محترمہ حمیرا قاضی صاحبہ تھیں  ۔
پروگام کا آغاز زویا عمر کی تلاوت کلام پاک سے ہوا۔ حمد باری تعالی کی سعادت ندا عمر کو حاصل ہوئی ۔
پروگرام میں پیرس میں معروف خواتین  نعت خوانوں نے نعتیہ کلام سے سماں باندھ دیا ۔ پروگرام میں خواتین کی بہت بڑی تعداد میں شرکت نے پروگرام کو یادگار بنا دیا ۔ جس پر پروگرام کی آرگنائزر محترمہ روحی بانو صاحبہ کو مبارکباد پیش کی گئی۔ پروگرام میں شازملک صاحبہ نے اپنی ادبی ایسوسی ایشن کو "فرانس پاک رائٹرز ایسوسی ایشن " کے نام سے متعارف کروایا ۔ اور آئندہ اسی ایسوسی ایشن کے نام سے ہی ادبی پروگرامز کے انعقاد کا اعلان کیا ۔ جس میں خواتین ہی کے لیئے پروگرامز کروانے کو فوقیت دی جائیگی۔ پروگرام کی مہمان خصوصی حمیرا قاضی صاحبہ نے اپنے پیغام میں خواتین پر زور دیا کہ اسلام کو صرف ہمارے پروگراموں تک  ہی محدود نہیں ہونا چاہیئے بلکہ اسے   ہماری عملی زندگی میں بھی دکھائی دینا چاہیئے ۔ اور ایک اچھے انسان اور مسلمان کے طور پر ہماری تصویر ابھر کر سامنے آنی چاہیئے۔ پروگرام میں خواتین نعت خوانوں میں ستارہ ملک ۔ معروف شاعرہ و کالم نگار اور راہ ادب کی صدر محترمہ ممتازملک صاحبہ کے علاوہ جن خواتین نے نعتیہ کلام پیش کیا اور اظہار خیال کیا انکے نام ہیں سمیرا سسٹرز۔ اقصی۔ نیناخان ۔ ناصرہ خان۔ آصفہ ہاشمی ۔تنظیم  لے فام دو موند کی   شمیم خان صاحبہ ۔ شمیم ظہور ،  غزالہ یاسمین ۔ فردوس  ،  ثریا ارشد  ،     سعدیہ شاہ  ، ناہید  ،  آفرین ، شیمی ، اقرا  ، مہک اور غزالہ شامل تھیں۔ 
پروگرام کی آرگنائزر روحی بانو نے ملکی سلامتی خوشحالی اور کورونا وائرس سے نجات کے لیئے دعا خیر کی ۔
پروگرام کے اختتام پر سلام بحضور سرور کونین  سرکار دوعالم حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم پیش کیا گیا ۔ 
ایس ایم ٹیکسٹائل کی جانب سے تمام مہماناں گرامی اور نعت خواں بچیوں اور خواتین میں دوپٹے تسبیحات اور جائے نماز تقسیم کیئے گئے ۔
یوں یہ پروقار اور ایمان افروز تقریب   فرانس پاک انٹرنیشنل رائیٹرز فورم کے سر پرست اعلی ملک محمد سعید کی جانب سے دیئے گئے شاندار عشایہ کے ساتھ اختتام پذیر ہوئی۔ 
                         ●●●

پیش ہیں پروگرام کی کچھ تصویری جھلکیاں 













                       ●●●



بدھ، 3 نومبر، 2021

● مسکراہٹیں بکھیرنے والے/ کالم

        مسکراہٹیں بکھیرنے والے
      تحریر:
                (ممتازملک ۔پیرس)



منور ظریف، رنگیلا، عمرشریف ‏، معین ‏اختر، امان ‏اللہ، ببو برال، مستانہ ، البیلا، شوکی خان اور ان جیسے بہت سے نامور کامیڈینز ۔۔۔۔۔۔
جنہوں نے غربت کی گود میں آنکھ کھولی۔ گھروں سے فاقہ مستیاں اور بدحالیاں دیکھ کر ہوش سنبھالنے والے بچپن سے گزرے۔ 
اکثر کو تو سکول کا منہ تک دیکھنا نصیب نہیں ہوا۔ ان میں سے ہر ایک بچہ بھوک و افلاس کی گود سے اٹھ کر  نشئی تماشائی نہیں بنا چور اور لٹیرا نہیں بنا ۔ اپنے وقت کو بدلنے کے لیئے انہوں نے کوئی شارٹ کٹ نہیں اپنایا ۔ اپنے آنسووں سے قہقہے نچوڑ کر اس نے دکھی لوگوں کو مسکراہٹیں بانٹیں ۔ ان کی تو پوری زندگی ایک روشن مثال ہے ۔  حکومت سندھ نے عمر شریف کی تدفین انکی خواہس پر کی تو وہاں کی ایک سڑک کو بھی انکے نام سے منسوب کر دیا ۔ جس پر کچھ دل جلوں کو شدید اعتراض ہوا ۔ان سب سے سوال ہے کہ
ہمارے ہاں منافق معاشرے میں  تو لوگ سگے ماں باپ کے مسکراہٹ چھین کر جوان ہوتے ہیں وہاں عمر شرہف جیسے لوگ ہمیں پھر سے مسکرا کر زندگی میں آ گے بڑھنے کا حوصلہ دیتے ہیں۔ اس لیئے میں حکومتی فیصلہ کی تائید کرتی ہوں ۔یہ ایک اچھا فیصلہ ہے  ۔ 
مجھ سے پوچھا گیا کہ کیا آپ اپنے بچے کو بھانڈ میراثی بنانا پسند کرینگی؟ تو ان سب کو  میرا یہی  جواب ہے کہ
ایک دہشت گرد بننے سے ، سمگلر بننے سے، قاتل و زانی  بنبے سے،  چور اور ڈکیت بننے سے  کروڑہا بار اچھا ہے کہ انسان ایک ایسا بھانڈ میراثی ہی بن جائے۔ جو اس معیار پر شگفتگی کو لیجائے، جنہوں نے اپنے آنسووں سے قہقہے نچوڑے اور دنیا کے غموں کو ہلکا کرنے کے لیئےانہیں اپنی شگفتگی کا کندھا پیش کردیا۔
دنیا میں ان کی زبان جاننے والے اردو پنجابی ہندی بولنے اور سمجھنے والے ان کے اس خزانے سے ہمیشہ خوشیوں کے موتی چنتے رہینگے۔  اور اپنے غموں سے باہر نکلنے کے لیئے ان  کی زندگیوں کو روشن مثال بنا کر اپنے سامنے رکھیں گے ۔ آج ہی  کے کیا ہر دور میں جہاں ماں باپ کی جدائی یا وفات کا یا غربت کا بہانہ بنا کر اولادیں نشے تماشے اور بدکاریوں کا شکار ہو جاتی ہے ۔ جہاں جرائم کی دنیا کے یہ استاد بن کر ساری زندگی لوگوں کے  لیئے بدنامی اور عذاب بن جایا کرتے ہیں ۔ جہاں ان کی دہشت اور  بدنامیوں سے تنگ انکے اپنے بھی انکے نام کیساتھ اپنا نام جوڑنا پسند نہیں کرتے وہاں ان  ناموں کے مسکراتے چراغ ہمیشہ روشنی بکھیرتے رہی گے۔ جگنو بنکر راستہ دکھاتے ہیں گے ۔ کسی نے 4 سال کی عمر سے مزدوری کی ۔ کسی بے جوتے پالش کیئے۔ کسی نے اخبار بیچے۔ کسی نے بسوں میں میٹھی گولیاں بیچیں ۔ کبھی کام نہ ملا تو راتوں کو بھوکے پیٹ میٹھے سپنوں کے سہارے بسر کر لیا۔ لیکن خود کو کبھی کہیں گرنے نہیں دیا ۔چوریاں نہیں کیں ۔ کسی کی جیب نہیں کاٹی ۔ کہیں ڈاکہ نہیں ڈالا ۔ کسی امیر آدمی کی بیٹی کو بہلا ہھسلا کر اسے گھر سے زیورات لانے کا کہہ کر اسے کسی کوٹھے پر  نہیں بیچا ۔ گھر داماد بنکر کسی کے مال مفت پر آرزوں کے مینار کھڑے نہیں کیئے ۔ بلکہ محنت اور ایمانداری کے ساتھ اللہ پر توکل کیئے ہر محنت مشقت کے بعد اپنے شوق میں ہی اپنا رزق تلاش کرتے رہے اور یوں اللہ کو ان پر جب پیار آیا تو اس نے انہیں ان کی نیتوں اورمحبتوں کا ثمر چھپر پھاڑ کر دیا ۔ دنیا میں انہیں ان کے فن مزاح کا وہ مرتبہ عطا کیا کہ جس کا تصور کوئی بڑے سے بڑا اعلی تعلیم یافتہ مزاح نگار بھیں نہیں کر سکتا  ۔ یہ بچے جنہیں اسکول کا منہ بھی دیکھنا نصیب نہیں ہوا تھا انہیں ان کے مطالعے اور لوگوں کو انکی حرکات و سکنات کو پڑھنے اور انہیں اپنے زہن میں اتارنے کی خوبی نے اوج ٹریا تک پہنچا دیا ۔اب جو بھی کوئی مزاح کے میدان میں آئے گا وہ ان سب سے ہی ان کے کام سے سیکھ کر ہی آئے تو آئے وگرنہ ان جیسا کام اب اور کسی کے بس کی بات نہیں ۔ یہ کرم خاص خاص لوگوں ہر ہی ہوا کرتے ہیں ۔اور ایسے لوگ صدیوں ہی میں کہیں پیدا ہوا کرتے ہیں ۔بیمثال ۔ بہترین ۔ نایاب اور کامیاب  لوگ ۔۔۔۔۔۔۔۔
                       ●●●

جمعرات، 28 اکتوبر، 2021

● کیوں اعتبار نہیں /کالم


کیوں اعتبار نہیں ؟
تحریر:(ممتازملک۔ پیرس)

کیا وجہ ہے آجکل کی اولاد اور خاص طور پر ٹین ایج بچے آخر اپنے والدین پر اعتبار کیوں نہیں کرتے؟
اس سوال کا جواب ڈھونڈنے کے لیئے ضروری ہے کہ آپ اپنے قول و فعل پر غور کیجیئے ۔ یاد کیجیئے کیا آپ اپنے بچوں سے وعدے کر کے انہیں توڑتے رہے ہیں ؟ کیا آپ اپنی باتوں سے مکرتے رہے ہیں ؟ کیا آپ اپنے بچوں پر کسی بھی دوسرے کو خصوصا اپنے بھائی بہنوں کے بچوں کو ترجیح دیتے رہے ہیں ؟
کیا آپ نے کبھی اپنے بچوں کی کوئی خوشی کا  یا کوئی خاص موقع کسی دوسرے کے لیئے ضائع  یا نظر انداز کیا ہے؟
کیا آپ نے کبھی اپنے بچے کی کوئی چیز اس کو بتائے بغیر اٹھا کر اپنے کسی دوست یا عزیز یا اسکے بچے کو دی ہے؟
یہ سب باتیں اور اس جیسی ہی دوسری مختلف باتیں جنہیں آپ شاید  معمولی سمجھ سکتے ہوں یا آپ کے لیئے کوئی اہمیت ہی نہ رکھتی ہوں  لیکن ایک بچہ جو ابھی کچھ ہی عرصہ پہلے  دنیا میں آیا ہے اس کا ہر منٹ اور ہر لمحہ صرف آپ پر انحصار کرتا ہے ۔ جس کے لیئے دنیا کی ہر بات ہر چیز  نئی ہے ۔ ہر کام اس کے لیئے پہلی بار ہو رہا ہے ۔ جس کی دنیا ہی صرف آپ ہیں۔ اس کے لیئے یہ سوالات اس نتیجے پر پہنچنے والا امتحانی پرچہ ہیں ۔ جو اس بات کا فیصلہ کرتے ہیں کہ آپ اس کے لیئے قابل اعتبار ہیں یا نہیں ہیں ۔ آپ اسے اپنے محافظ محسوس ہونگے یا پھر غاصب۔ اس  کا نتیجہ بہرحال دو ہی صورتوں میں سامنے آیا ہے یا پاس یا فیل ۔ تیسری کوئی صورت ممکن ہی نہیں ہے ۔آپ کا والدین بننا ہی آپ کو اس امتحان گاہ میں بٹھانے کا آغاز ہوا کرتا ہے۔ یہ امتحان کم از کم 18 سال پر محیط ہونے جا رہا ہے ۔ اس وقت کو بہت سوچ سمجھ کر استعمال کیجیئے۔ یہ وقت آپ کے اور آپ کے بچے کے بیچ پل بننے جا رہا ہے ۔ اور آپ کبھی نہیں چاپیں گے کہ یہ  پل اتنا کمزور ہو کہ اس پر پاوں رکھتے ہوئے آپ کا دل دہلتا رہے کہ اب ٹوٹا کہ کب ٹوٹا۔ 
اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کا بچہ آپ پر اعتبار کرے تو خود کو قابل اعتبار ثابت کیجیئے ۔ کیسے؟  وہ ایسے کہ بچے کے پیدا ہوتے ہیں اس کے وجود کو اور اس بات کو تسلیم کیجیئے کہ اسکی اپنی ایک مکمل شخصیت، سوچ اور ذات ہے ۔ اس کی پرورش آپ کا فرض اور اس بچے کا آپ پر پہلا حق ہے ۔ آپ اپنی استطاعت کے مطابق اسے زندگی کی حقیقتوں سے روشناس کراتے ہوئے پروان چڑہایئے ۔ اس سے کبھی کوئی وعدہ اپنی ہمت سے بڑھ کر مت کیجیئے۔ اسے حفاظت دیجیئے لیکن اسے کاغذ کہ کشتی مت بنایئے جو پانی کے دھاروں میں ہی ملیامیٹ ہو جائے ۔ اسے سخت جان بنایئے یہ بات سمجھاتے ہوئے کہ میرے اس عمل سے تمہیں گزارنے کے پیچھے کیا حکمت کارفرما ہے ۔  اپنی مالی حالت کو بچوں کے سامنے بڑھا چڑھا کر پیش کرنے سے گریز کیجیئے ۔ جو ہے اس میں خوش رہنا سکھایئے ۔ ان کی کوئی بھی بات راز یا چیز جو آپ کے پاس ہے اسے اس کی امانت سمجھ کر ایمانداری کیساتھ محفوظ رکھیئے۔  اس سے پوچھے بنا بلکہ اس کی رضامندی کے بنا اس کی کوئی چیز اس کے ہی کسی بہن بھائی کو بھی مت دیجیئے ۔ اپنے بہن بھائیوں اور دوستوں کے بچوں کو بار بار اس کے سامنے رول ماڈل بنا کر اسکے سامنے پیش کرنے سے اجتناب برتیں کیونکہ آپ اصل میں ان کا وہی روپ دیکھ رہے ہیں جو وہ آپ کے سامنے پیش کرنا چاہ رہے ہیں جبکہ ہو سکتا ہے آپ کا بچہ اس کے ہم عمر ہونے یا دوست ہونے کے سبب وہ اصلیت جانتا ہو جس کے بارے میں آپ سوچ بھی نہ سکتے ہوں ۔ اس لیئے آپ کا اسکے ساتھ اپنے بچے کا تقابل آپ کے بچے کے سامنے آپ کی ہی سمجھداری پر سوالیہ نشان بنا دیتا ہے اور وہ آپ کی صلاح لینا غیر محفوظ سمجھتا ہے ۔ اس کی چیزیں اس کی مرضی کے بغیر کسی کو دینا بھی اسی زمرے میں آتا ہے کہ آپ اس کی حفاظت کے قابل بھی نہیں ہیں ۔ یہی وجوہات ہیں جس کے سبب اس عمر کے بچے اپنے والدین سے خائف رہتے ہیں یا پھر ان سے اپنے معاملات بانٹنا پسند نہیں کرتے ۔ اسی لیئے کہتے ہیں کہ ویسے تو ہر رشتے میں  خود پر اعتبار جیتنا پڑتا ہے اور خاص طور پر اپنے بچوں کا اعتبار جیتنا ہی آپ کی اصل کامیابی ہے۔  
                  ●●●

جمعہ، 22 اکتوبر، 2021

نعت ۔ تاثیر ہوئی / اے شہہ محترم صلی اللہ علیہ وسلم




تاثیر
(کلام/ممتازملک ۔پیرس)

    
یا نبی آپ ہی کے نام کی تاثیر ہوئی
ساری دنیا میں شناسائیء تحریر ہوئی

جس جگہ پاؤں بھی دھرنے کو نہ امکاں تھا کبھی
آپکے صدقے میں اس جاء میری جاگیر 
ہوئی

آپ نے کب میری کوئی بھی دعا رد کی ہے
مجھ سے ہی کوئی طلب کرنے میں تاخیر ہوئی 

مجھ کو ہی بات نہ کرنے کی ادا آتی تھی
یہ کرم ہے میری خاموشی بھی تقریر ہوئی

اڑ کے پڑ جائے جو سر میں کہے ممتاز سدا
خاک پاء آپ کی میرے لیئے توقیر ہوئی
     ......

پیر، 18 اکتوبر، 2021

● محور میں آ گیا/ شاعری


( مصرعہ طرح : 
دستک دیئے بغیر میرے گھر میں آ گیا )
        
وہ خواب تھا جو سوچ کے محور میں آ گیا
اک روز  سامنے میرے منظر میں آ گیا 

ہنس کر اسے جو دیکھا برابر میں آ گیا 
دستک دیئے بغیر میرے گھر میں آ گیا 

پیچھا چھڑا کے جس سے جہاں سے گزر گئے
وہ ہی خدائی خوار تو محشر میں آ گیا 

اب ہار جانے کا ہمیں پختہ یقین ہے
وہ جان جاں حریف کے لشکر میں آ گیا

آنکھیں چھلک پڑیں جو بہانہ ملا انہیں 
طوفان غم کا دل کے سمندر میں آگیا

کتنی سیاہیاں ہوئیں پوشیدہ  رات میں
آنچل میں اسکے شر نئے پیکر میں آ گیا 

ممتاز وہ  گناہ بڑا معتبر رہا
جو اہل اقتدار کے بستر میں آ گیا 
                ●●●
کلام
ممتازملک ۔پیرس

اتوار، 17 اکتوبر، 2021

ناشکری قوم کے صادق اور امین وزیر اعظم کا خطاب/کالم



ناشکری قوم کے صادق اور امین وزیر اعظم 😜 کا خطاب
تحریر:(ممتازملک۔پیرس)

تیل مہنگا آٹا دال چاول گھی چینی سب مہنگا ہے تو کیا ہوا اے ناقدری پاکستانی قوم تمہارا وزیر اعظم انگریزی تو اچھی بولتا ہے صرف 24 لاکھ روپے میں بمشکل یہ چھڑا چھانٹ گزارہ کرتا ہے اور ایک تم ہو کہ بیس 20 ہزار روپے مہینے کے کما کر گھر کے 8 ، 8 بندے عیش کرتے ہو  پھر بھی روتے رہتے ہو ۔ ارے بیوقوفو شکر کرو اتنا پارسا وزیر اعظم تمہیں ملا ہے ۔ جو پلے سے کھانا تک نہیں کھاتا صرف تمہارے غم میں ۔ صادق اورامین اتنا ہے کہ صرف 300 کنال کا گھر  لے رکھا ہے وہ بھی چاہتا تولندن اور امریکہ جا کر بکنگھم پیلس میں انہیں کے پلے کے رہ سکتا تھا ۔ سادہ اتنا ہے کہ اپنے ملازمین کے ہی کھانے اور کپڑوں پر ہاتھ صاف کرتا ہے ۔ پھر بھی تم اس پر تنقید کرتے ہو۔ خود کبھی بجلی کا بل نہیں دیتا اور بنی گالہ میں مزارات کے دیوں کا تیل ڈال ڈال کر اسے روشن کرتا ہے  ۔ اور تم لوگوں کو تین سال میں صرف صرف 3سو گناہ زیادہ بل دینا پڑا ہے تو مرنے والے ہو جاتے ہو۔
ارے کیوں کرتے ہوں اتنی باں باں ں ں ں
یہ ملک ہے اس کے مسائل مجھے کرسی پربیٹھنے سے پہلے منہ زبانی رٹے ہوئے تھے اب تمہارے غم کھا کھا کر میری یادداشت ہی جواب دے چکی ہے تو اس میں میرا کیا قصور ہے ۔ خود بھی کبھی لتیں بائیں ( ہاتھ پاوں) ہلا لیا کرو سب کچھ میں کروں ۔ تو وزارت کون کریگا ۔۔۔۔۔
                 ●●●

جمعہ، 15 اکتوبر، 2021

شکیب اکرم کی یاد میں/ شاعری

بھارت کے معروف شاعر خورشید اکرم صاحب کے 23 سالہ بیٹے کی ناگہانی وفات پر منظوم مرثیہ
ممتازملک ۔پیرس فرانس سے
                ۔۔۔۔۔۔۔۔

شکیب اکرم تیرے جانے سے بیٹا
ہماری زندگی میں اک خلا پیدا ہوا ہے 

بہت ہی مختصر  تم نے گزاری 
جدائی تیری کتنی جانکاہ ہے

تیرا انداز سادہ سی طبیعت اور حیا کا
تجھے یادوں میں زندہ کر گیا ہے

کبھی اٹھی کسی کی جو نظر تمہاری جانب
سمجھ لیتا ضرورت مند کا جو مدعا ہے

تھی بے اعتنائی کتنی مال و زر سے
ضرورت سے زیادہ جو ملا وہ بانٹتا ہے

نہ تھی آرام دہ بستر کی چاہت
تیرے ہاتھوں چٹائی پر تیرا تکیہ رکھا ہے 

مجھ ممتاز  لگتا ہے کہ ہر اک ملنے والا 
تجھے ابا  سے تیرے کچھ زیادہ جانتا ہے

جدائی کو تیری خورشید سہہ گئے 
یہ بس نزہت جہاں کا حوصلہ ہے
                 ●●●

دعا علی کے نعتیہ انتخاب پر تبصرہ


یوں تو شاعری ودیعت خداوندی ہے 
 کوئی کتنا ہی ذہین ہو یا بہترین لفاظ لیکن جب تک اللہ پاک نہ چاہیں وہ ایک مصرعہ بھی ترتیب نہیں دے سکتا ۔ اس کے کئی منازل آگے جانے کے بعد شروع ہوتا ہے نعت گوئی کا سلسلہ ۔ 
نعت کہنا عام طور پر ہونے والی شاعری سے کئی لحاظ سے مختلف ہوتا ہے ۔ دل جب حب رسول میں ڈوبتا ہے ۔ اللہ سے جب اسکے محبوب کی ثنا خوانی کی اجازت ملتی ہے تو۔م ہی نعت دلوں پر اترنے لگتی ہے۔ اس خوبصورت سلسلے کو دعا علی نے اپنے نعتیہ مجموعہ کلام میں عصر حاضر کےچیدہ چیدہ شعراء کرام کا کلام کو   یکجا کر کے ایک خوبصورت مجموعہ کلام میں پیش کیا ہے اور ہر رنگ کا پھول اسے ایک خوبصورت گلدستے کا روپ دے رہا ہے ۔ میں اپنی جانب سے دعا علی کو اس خوبصورت پیشکش اور حسین انتخاب پر دل کی گہرائیوں سے مبارکباد پیش کرتی ہوں ۔
 جو کئی سال سے انتھک ادب کی خدمت میں مصروف ہیں ۔ بنا کسی صلے کی تمنا کے وہ اپنا سفر خوش اسلوبی سے جاری رکھے ہوئے ہیں ۔ میری بہت سی دعائیں اس خوبصورت اور محنتی شاعرہ دوست کے لیئے 
)شاعرہ کالمنگار۔ نعت خواں و نعت گو )
ممتازملک
پیرس۔ فرانس 
Mumtazmalikparis.com

منگل، 28 ستمبر، 2021

مشتاق ‏دربھنگوی ‏کے ‏نام ‏قطع/ ‏گوش ‏برآواز ‏نام کی شعراء ‏کی ڈائیریکٹری ‏


گوش بر آواز میں  جگنو ادب کے بند ہیں
حضرت مشتاق سے اردو کے عاشق چند ہیں 
جیسے کوزے میں سمندر موجزن تو ہیں مگر
اس کے ساحل میں ہی رہنے کے نہیں  پابند ہیں
 قطعہ مشتاق در بھنگوی کے نام ان کی عالمی ڈکشنری برائے شعراء کرام گوش بر آواز کے نآم
(ممتازملک ۔پیرس)

اتوار، 5 ستمبر، 2021

بھنانے ‏چلے/ ‏شاعری ‏۔قطعہ



ہم نے جانا کہ ردی کے بھاو نہیں 
کیش جب زندگی کا بھنانے چلے

لوگ پاگل کہیں نہ تو پھر کیا کہیں 
غم کے طوفان میں مسکرانے چلے
               کلام:(ممتازملک۔پیرس)

ہفتہ، 21 اگست، 2021

یہ ‏کس ‏کا ‏پاکستان ‏ہے/کالم

یہ کس کا پاکستان ہے؟
تحریر: (ممتازملک۔پیرس)




ٹک ٹاک کے ذریعے خود کو بیچنے والی  وہ خاتون دنیا کی آخری غلیظ خاتون بھی ہوتی تو بھی کسی کو حق نہیں تھا کہ اس کیساتھ بدمعاشی کی جاتی ۔ ہاں اسے دیکھنے والے تماش بین فالوورز اسے ان فالو کر دیتے۔  فالوورز کا مطلب ہے پیسہ۔۔۔۔پیسے کی سزا ہی اس کے لیئے کافی تھی ۔ جس کے لیئے وہ یوں ذلیل ہورہی تھی۔
پولیس کمپلین کرتے جا کر اس خاتون  کے خلاف ۔ کہ یہ ماحول کو خراب کر رہی ہے ۔ 
تب ہم بھی آپکا ساتھ دیتے۔
ہر روز ریپ اور گینگ ریپ کا شکار ہونے والی  معصوم بچیاں اور پردے دار خواتین آپکی بات کو ثابت کرنے میں ناکام ہو چکے ہیں ۔ کیا اس لیئے کہ ہٹ دھرمی پاکستانیوں کا خاصہ ہے ؟
آخر آپ   کس  بات کو کس بات سے ملا کر اس کی حساسیت کو روند رہے ہیں ۔

     بھائی یہاں بات انسانی آذادی اور حقوق کی ہو رہی ہے ۔ جو اللہ نے ہم سب کو دے رکھے ہیں ۔
آدم کا بیٹا غیرت مند ہو تو اسے کوئی بڑی سے بڑی حسینہ بھی نہیں بھٹکا سکتی ۔ اور جب یہی آدم کا بیٹا بے راہ روی کا شکار ہو جائے تو حور جیسی بیوی کے ہوتے ہوئے کالی بدشکل جمعدارنی اور ہیجڑوں  پر بھی بے ایمان ہو جاتا ہے ۔
اس خاتون اور اس جیسیوں کو بنانے والے بھی تو یہ سارے ابن آدم ہی ہیں نا ۔ ان کے لاکھوں فالوورز کیا ان پر پیسہ لٹاتے انہیں فالو کرتے وقت دودھ پیتے بچے ہوتے ہیں کہ  وہ اس کی حرکتیں نہیں جانتے۔ 

اب تک کتنے لوگوں نے اس عورت یا ایسیوں کو ان فالو کیا ہے؟

کیا سچ نہیں ہے کہ آج بھی اپنے گھر میں بیٹھی حیادار لڑکیاں پڑھی لکھی ہونے کے باوجود شادیوں کے انتظار میں بوڑھی ہو رہی ہیں ۔ جبکہ ایسی تماشا باز بازاری اور دو نمبر مدارنیں اس ملک کے مردوں کو اپنی انگلیوں پر نچا رہی ہیں ۔ اوپر سے نیچے تک ہر بے شرم اور فیشناں پٹی بدکردار لڑکیوں نے مردوں کی مت مار رکھی ہے انکی محبوبائیں اور  بیویاں بن کر ان کے مال پر عیش کر رہی ہیں ۔ کون سی شریف لڑکی ہے جسے مرد بیوی بنا کر مالی تحفظ دیتا ہے؟ جبکہ ایسی بازاری عورتوں کے نام پلازے، بنگلے ، پلاٹس کرتے وقت اسکی غیرت کہاں تیل لینے چلی جاتی ہے ۔
آج کی عورت کو تباہ کرنے والا یہی ہمارے مردوں کا ٹھرکی رویہ اور آوارہ سوچ ہے ۔ جس نے انہیں بتایا کہ مرد ان کے کردار سے متاثر ہو کر انہیں نہیں اپنائے گا بلکہ انکی اداوں کی جادوگری انہیں کروڑ پتی بنا سکتی ہے ۔ سو اب بھگتیں ۔ طیش کیسا ۔ دل کڑھنا چاہیئے بھائی ۔ ہر ذمہ دار اور حساس انسان کا دل کڑھنا چاہیئے ۔ لیکن اس کی سرکوبی کے لیئے بھی عملی اقدامات کی اشد ضرورت ہے ۔ مرد ایسی عورتوں کو فالو کرنا ۔ عشق لڑانا چھوڑ دیں ۔ عورتوں کا مزاج خود بخود لائن پر آ جائے گا ۔ مرد شریف عورتوں کو پسند کرینگے عورتیں شرافت اپنا لینگی ۔ جب مرد غلاظت کو پسند کرینگے تو عورتیں غلاظت میں خوشی سے لتھڑ جائیں گی ۔ کیونکہ مرد کو اللہ نے قوام کیا ہے ۔

اپنے بیٹوں کی، اپنی سوچ بدل لیں۔ یہ سب سیدھی ہو جائینگی۔ ان شاء اللہ   

اس حادثے کی تفصیلی رپورٹ بھی منظر عآم پر لائی گئی ہے جو یقیناآپ سب کی نظر سے گزر چکی ہو گی ۔ نہیں گزری تو یو ٹیوب پر اسے ملاحظہ فرمائیں اوربتائیں کہ

اس رپورٹ کو پڑھ کر بھی آپکو سمجھ نہیں آئی کہ اس کے فالوورز ہی اصل میں کنجر مرد ہیں جنہوں نے اسے پیسے کا مزا دیا اور طوائف بنا دیا  ۔ کیونکہ انہیں مردوں نے شریف اور باحیا لڑکیوں کے لیئے عزت سے ملازمت کے دروازے بند کر دیئے ۔ نوکری کی تلاش میں جانے والی خواتین اگر اپنے تجربات بیان کرنے لگیں تو ان جعلی شرفاء کو کہیں منہ چھپانے کی جگہ نہ ملے۔ ان خواتین کو یہ گھٹیا طریقے سکھانے والے شرفاء جن کے جتھے سڑکوں پر کھڑے، گاڑیوں میں سفر کرتے ، منہ اور آنکھوں سے سے رال ٹپکاتے ہوئے آپکو اگر نظر نہیں آتے تو اپنی بینائی پر افسوس کیجیئے۔ کیونکہ جسے دکھائی نہیں دے رہا اسے سجھائی بھی کیا دیگا؟ اپنی آنکھوں ، سوچ اور کردار کے تحفظ کے بجائے کسی بھی عورت کو گالی دینا یقینا زیادہ آسان کام ہے ۔ سو 

ہم کہ ٹھرے سہل پسند اتنے مکافاتوں کے بعد

  سدھریں گے نہ جانے کتنے مکوں اور لاتوں کے بعد

(شاعر سے معذرت کیساتھ)

پھر بھی مرد بے قصور؟؟؟

کتنوں نے اس خاتون کو نیک پروین سمجھ کر جوائن کیا تھا؟

کتنوں نے اب اچاااااانک اس کی اصلیت جان کر اسے ان فالو کیا ہے؟

ہمارے ادبی اور علمی پروگرامزکی فالوونگ سینکڑوں تک میں نہیں ہوتی اور ایسی طوائفیں لاکھوں تک کیسے لیجاتی ہیں ؟

لیکن مرد اب بھی بے قصور 👏👏👏👏

یقینا سو فیصد مردوں کی بات نہیں کی جا رہی ۔ لیکن حقیقی شرفاء کی خاموشی نے ہی تو حالات کو اس نہج تک پہنچا دیا ہے کہ ہم ہر روز اخلاقی زوال کی سیڑھیاں تیزی سے اتر رہے ہیں ۔ 

چلیں آپ  کا کوا سفید ہی ہے تو میں اسے سیاہ کیسے کہہ سکتی ہوں ۔ میں عام انسان ہوں عام سے گلی محلوں میں رہنے والی ۔ سالہا سالہا کے تجربات اور مشاہدات سے یہ بات اخذ کر چکی ہوں کہ  مادر پدر آذاد عورت مرد کی پیداوار ہے۔

 یہ طلب اور رسد کی کہانی ہے ۔ مرد جو چاہتا ہے عورت اسی رنگ میں ڈھل کر اسے ملتی ہے ۔ آپ اچھے تو آپ کے گھر کی ہر عورت اچھی ہونے پر مجبور ہو گی ۔ 

میرا پاکستان جہاں میں نے بچپن گزارا ۔ جوان ہوئی ۔ بیاہی گئی میرا وہ پاکستان گم چکا ہے۔ پلیز اسے ڈھونڈ دیں ۔

                     ●●●

پیر، 9 اگست، 2021

کیا ‏کرے ‏/ ‏کوٹیشنز ‏


کیا کرے کوئی

جھوٹ بولو تو رب ناراض
سچ بولو تو لوگ
چپ بیٹھو تو ضمیر نہ چھوڑے
کرے تو کیا کرے کوئی ؟؟؟؟
       (چھوٹی چھوٹی باتیں)
            (ممتازملک۔پیرس)

بدھ، 4 اگست، 2021

تہذیبی ‏مگرمچھ/ ‏کالم


      تہذیبی مگرمچھ
(تحریر: ممتازملک۔پیرس)


انگریزی کی آڑ میں ایک تو بائیس کروڑ عوام کو ان کے مذہب ثقافت اور اقدار سے دور کر دیا گیا دوسری جانب اردو زبان کو جو چند لوگ یا انکے بچے پڑھتے تھے ان کی زبان کو بھی تباہ کر دیا ۔ اس کا ایک کھلا ثبوت آپکو ہماری شاہراہوں پر لگے بورڈز یا پھر اشتہارات پڑھ کر سر پیٹ لینے کو جی چاہے گا ( اپنا نہیں غلط اردو لکھنے والے کا😜) ہمارے بچے پنجابی تو چھوڑیں اردو ہماری اس وقت کی  نام نہاد قومی زبان اردو میں سو تک  کی گنتی بھی نہیں لکھنا تو دور بول تک نہیں  سکتے ۔ ہمارے ہاں سرکاری سطح پر بڑے بڑے مگرمچھ براجمان ہیں جن کا کام ہر زمانے میں دین فروشی اور وطن فروشی رہا ہے ۔ جن کا قبلہ و کعبہ صرف اور پیسہ ہے ۔ اور بلاشبہ یہ غیرملکی ایجنڈے پر سالہا سال سے اس ملک کی جڑیں کھوکھلی کر رہے ہیں ۔ لیکن حیرت ہمیں اس بات پر ہوتی ہے کہ اس ملک کا عام آدمی بھی دن رات حرام حلال سوچے بنا ان مافیاز کے سسٹم کا ایندھن بنا ہوا ہے ۔ کیوں وہ اپنے بچوں کو گورنمٹ سکولز میں پڑھانے کے بجائے پرائیویٹ تہذیب فروش اور بے دین بے زبان اداروں میں پڑھانے کے لیئے مرا جا رہا ہے ؟ یقینا وہ اتنا ہی بڑا گناہگار ہے جتنا یہ تعلیم کے نام پر دھندا کرنے والے بڑے بڑے مگرمچھ ۔ 
تو اس کا علاج اور تدارک دونوں ہی اس عام آدمی کو خود ہی سے کرنا ہو گی ۔ 
ان بڑے بڑے نام والے چین سکولز کا بائیکاٹ ۔ یہاں سے فارغ التحصیل طلباء کو بڑے عہدوں پر قابض ہونے سے روکنا ۔ سرکاری سکولوں کے حالات کو بہتر کروانا ۔سرکاری تعلیمی اداروں میں کم تعلیم یافتہ اور للو پنجو افراد کا بطور استاد تعینانی کا راستہ روکنا ۔۔۔ 
اور بھی بہت کچھ ...
دنیا میں کسی بھی ترقی یافتہ قوم کی ترقی اس وقت تک ممکن نہیں تھی جب تک اس نے اپنے قومی زبان کو نہیں اپنایا یا اسے تعلیم نظام و نصاب میں رائج نہیں کیا ۔ دنیا بھر کی زبانیں سیکھیئے لیکن زبان سمجھ کر ۔ اسے اپنے ملک کے لیئے جونک  مت بنایئے۔ انگریز کیساتھ انگریزی بھی  ہمارے ملک میں اپنی روشی کو آگ لینے آئی تھی لیکن اس ملک اس گھر کے مکین بدبختوں نے اسے گھر والی ہی بنا لیا ۔ اسی جبری گھر والی نے اس گھر کی اصل مالکن اردو زبان کو تاخت و تاراج کرنے کی پہلے دن کی مہم کی آگ  میں آج تک صرف گھی ہی ڈالا ہے کیونکہ گھر کے لوگ جو بےایمان تھے اور ہیں ۔
خدارا  پاکستان پر رحم کیجیئے
اپنی آنے والی نئی نسل پر رحم کیجیئے۔ جنہیں ایسے انگریزی مارے تعلیمی اداروں سے گرل فرینڈ اور بوائے فرینڈ کی دیمک لگ چکی ہے ۔ کیونکہ زبان کبھی اکیلی نہیں آتی وہ جب آتی یے تو اپنے سارے سازوسامان کیساتھ ہی آتی ہے ۔ جیسے کہ اس کا پہناوا ، تہذیب اقدار ، رکھ رکھاو، اسکی  سوچ اور طرز زندگی۔۔۔۔۔
                   ●●●

اتوار، 25 جولائی، 2021

تباہی ‏کا ‏اگلا ‏مرحلہ / ‏کالم

     تباہی کا اگلا مرحلہ

سو سال سے زائد عرصہ گزر چکا ہے بھارتی فلموں کے ذریعے بے راہ روی کو فروغ دینے اور مذہب کو بیوقعت کرنے کی عملی کوششوں کو ۔  جن میں ہر طبقے کی لڑکیوں کو اپنے گھروں سے بھاگنے کی تربیت دی گئی ۔ لڑکوں کو لڑکیوں کو ورغلانے کے نت نئے انداز سکھائے گئے۔  والدین کے فیصلوں کو بیوقوفی ثابت کرنے کا بیڑا اٹھایا گیا ۔ ناجائز رشتوں کو بڑھاوا دیا گیا ۔ بن بیاہی ناجائز اولادوں کو پیار کی نشانی قرار دیکر سارے بھارت ملک کی لڑکیوں کو بن بیاپی مائیں بنا دیا ۔ جہاں نکاح اور پھیروں کو غیر  ضروری قرار دیکر ان کی کھلی اڑائی گئی ۔ اس عذاب کو آج سارا بھارت بھگت رہا ہے۔ جہاں نہ حیا رہی نہ رشتے اور نہ ہی مذہب ۔ کسی کو اپنی ماں کا پتہ نہیں تو کوئی اپنے باپ کو ڈھونڈ رہا ہے ۔  اس پڑوسی کی گندگی کے چھینٹے ہمارے ملک پاکستان پر بھی خوب پڑے ۔ جہاں ناچ گانا دیکھنے کے شوق میں یہ سارے عیب ہماری عوام نے فیشن سمجھ کر اپنانے شروع کر دیئے۔
چلیئے آج اب نئی مہم  کو ملاحظہ فرمائیں تو عورت و مرد کے کالے کاموں کے تحفظ کے بعد اب اس میں مذید جدت لائی گئی ہے۔ مرد کو مرد اور عورت کو عورت کی جانب جنسی  طور پر راغب کرنے کی بات اتنے پیرائے میں کی جاتی ہے کہ اسے آسانی سے پہنچ ہونے والا مزہ سمجھ کر بھارت میں متعارف کروایا گیا ۔جہاں اب اسے حق سمجھ کر اس پر قانون بھی بن چکا ہے ۔ یعنی جو برائی ختم نہیں  کی جا سکے ہر بزدل اورکمزور حکمران کی ریت ہے کہ اسے قانونی  سند قبولیت بخش دی جائے ۔ ہمیں فکر ہے ہمارے ملک پاکستان کی ۔۔۔جہاں  قوم لوط کا یہ کھیل آج  گلی گلی میں  کھیلا جا رہا ہے ۔ وہ کھیل جس کے عوض ایک پوری قوم کو نیست و نابود کر دیا گیا ۔ اللہ پاک نے جسے اپنے کلام پاک میں پوری وعید کے ساتھ سنا دیا ۔  حضرت لوط علیہ السلام کی قوم کا واقعہ کسی بھی ایمان والے کی آنکھیں کھولنے اور دماغ روشن کرنے کے لیئے کافی ہے ۔ 
اللہ پاک نے انسان کو مردوعورت کے جوڑے سے پیدا فرمایا ۔ ازل سے ابد تک اللہ کا یہ قانون رہیگا ۔ لیکن اب عورت اور عورت مل کر خود پر سیاہی پوت رہی ہیں تو مرد اور مرد مل کر اللہ کی حدود کو پھلانگ رہا ہے ۔ گویا حالات یہاں تک پہنچ چکے ہیں کہ کوئی عورت بھی کسی عورت کیساتھ تنہائی میں وقت گزارے تو اس کے کردار پر بھی شک کیا جا سکتا ہے ۔ جبکہ مرد اور مرد ایکدوسرے کیساتھ زیادہ چپک رہا ہو تو اس کے کردار کی گندگی بھی محسوس ہونے لگتی ہے ۔ یہ سب کس جانب ہمیں لے جا رہا ہے۔ کیا اب مخلوق اپنے خالق کو چیلنج کرنے جا رہی ہے ۔ اسکی حدود اور احکامات کا مذاق اڑا کر وہ کون سی بلندی سر کرنے جا رہی ہے؟ حکومت پاکستان پر اگر ابھی ہم جنس پرستوں کا غلبہ نہیں ہوا تو خدا کے لیئے ایک مسلمان ملک میں اس ہم جنسیت کے کھیل کھیلنے والوں کو سرعام کڑی سزاوں سے نوازہ جائے۔ 
لیکن اس سے قبل سچے اور حقیقی علماء کرام کی خدمات حاصل کی جائیں جو مقامی ہوں اچھی شہرت رکھتے ہوں اور اللہ کے بھیجے ہوئے اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے لائے ہوئے سچے دین اسلام کی تعلیم اس بھٹکی ہوئی قوم کو دے سکیں ۔ جو لوگوں کو  مسلک اور فرقوں کے عذاب میں مبتلا نہ کریں بلکہ اللہ کے احکامات کو کھول کھول کر بیان کریں ۔  اگر اس فتنے پر قابو نہ پایا گیا تو  ہماری دنیا و آخرت تہذیب و تمدن ہر شے کو یہ آگ کی طرح کھا جائیگا۔ اپنی اولادوں پر نظر رکھیئے اور جو بھٹک کر یا اس کام کو پیسہ کمانے کا آسان ذریعہ سمجھ کر اس گناہ میں مبتلا ہو رہے ہیں انہیں یاد دلائیں کہ ہمارا ہر پل ہمیں اس واپسی کی جانب بڑھا رہا ہے جہاں ہمیں اپنے ان سبھی اعمال کا جواب دینا ہے ۔ اور جہاں نہ کوئی سفارش کام آئے گی اور نہ کوئی رشتہ۔ اس لیئے اپنے اخلاق اور کردار پر توجہ دیں ۔
 خود کو اللہ کے قریب کریں تاکہ وہ آپکو گناہوں اور عذابوں سے دور کر دے ۔ آمین
                    ●●●

جمعرات، 22 جولائی، 2021

● اہمیت/ ‏کوٹیشنز ‏


                اہمیت

کسی کو اپنی زندگی میں اتنی ہی اہمیت دو جتنی وہ آپکو  دیتا ہے 
ورنہ آپ کی اپنی ہی نظر میں بھی نہ تو اہمیت رہیگی اور نہ ہی کوئی عزت ۔
             (چھوٹی چھوٹی باتیں)
                  (ممتازملک ۔پیرس)

پیر، 19 جولائی، 2021

شاخسانہ ‏/ ‏کوٹیشنز ‏

          شاخسانہ

عجیب بات ہے کہ
اکثر بے تکے جوڑے لو میرج کا شاخسانہ نکلتے ہیں ۔۔۔🤪
جنہیں دیکھ کر یقین آجاتا ہے کہ واقعی محبت اندھی ہوتی ہے ۔😂 
  ( چھوٹی چھوٹی باتیں)
         (ممتازملک۔پیرس)

جمعہ، 16 جولائی، 2021

کون ‏دوست/ ‏کوٹیشنز ‏

      کون دوست؟ 

دوست وہ نہیں ہوتا جس کیساتھ مقابلے پر دعوتوں کے میز سجائے جائیں 
بلکہ دوست وہ ہوتا ہے جس کی خوشی آپ کے ہونٹوں پر مسکراہٹ بکھیر دے اور جس کا غم آپکے چہرے پر چھلکے اور دل میں اتر جائے ۔ اس کی آنکھ کا ہر آنسو آپ کے دل پر گرتا ہے ۔ اور فی زمانہ ایسا دوست جس کو میسر ہے اس سے زیادہ خوش نصیب اور کوئی نہیں ہو سکتا ۔ 
     (چھوٹی چھوٹی باتیں)
           (ممتازملک۔پیرس)

پیر، 12 جولائی، 2021

روندے ‏کارکردگی ‏نوں ‏/ ‏کالم

روندے کارکردگی نوں

فرانس کی چھ کروڑ کی آبادی  میں جہاں ہر روز کرونا سے  دو تین سو لوگ مر رہے تھے تو  وہاں کے تعلیمی ادارے کھول دیئے گئے
اور ایک ہم پاکستان کی 22 کروڑ کی آبادی میں 40 سے 50 لوگوں کے مرنے پر دو سال سے تعلیمی نظام کو تہس نہس کر دیا گیا ۔ کاش اس تعلیمی منسٹر اور اس کے مشیروں کو اس ملک کے جھنڈے🇵🇰 کے ڈنڈے سے  پیٹا 👊 جا سکتا اور اس وزیر کو اس بیرونی اجینڈے کی پیروی پر سزائے موت دلوائی جا سکتی ۔

کیونکہ آج کی دنیا  میں کسی بھی ملک کو تباہ کرنے کے لیئے اس پر بم گرانے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ اس کی معیشت کو تباہ کر دو یا اس کے تعلیمی نظام کو برباد کر دو ۔ اور بلاشبہ آج کے حکمرانوں نے یہ دونوں کام اپنے بیرونی آقاوں کے ایجنڈے پر جی جان سے پورے کیئے ہیں ۔ 

اس ملک کی وہ نسل انصافی حکومت نے تیار کر دی ہے جس کا پڑھائی لکھائی سے کوئی تعلق ہے نہ رغبت ۔ جو کتابیں اٹھانے کا نام لو تو ہتھیار اٹھانے کو تیار ہو چکی ہے ۔سکول کا نام لو تو "دھرنا دو " کا قومی سبق دہراتی ہے ۔ وہ نالائق ترین طلباء جو دو سال سے بنا امتحانات اور کتابیں کھولے اگلی جماعتوں میں بڑھائے  جا چکے ہیں یہ کل کس کس عہدے تک پہنچ کر اس ملک کے جڑوں میں اور کیا کیا زہریلے ٹیکے لگائیں گے ہمارے اکثر بے حس لوگوں کو ابھی تک اس کا شعور ہی نہیں ہے ۔ گویا  اندھے ہاتھ میں ڈرائیونگ لائسنس لیئے گاڑیاں چلانے کو تیار ہیں ۔ اب انکی زد میں کون کب اور کیسے آئے گا یہ سوچ کر ہی روح کانپ جاتی ہے ۔ پاکستانی نئی نسل کو جاہل گنوار دیکھنے کا بھارتی ایجنڈا ہمارے تعلیمی وزراء نے جس تندہی سے پورا کیا ہے اس پر انہیں کڑی سزاوں کے بجائے مذید ترقیوں سے نوازنا چہ معنی دارد۔۔۔

یہ وہی لوگ ہیں جن کے گھروں میں لارڈ صاحب اور میم صاب پل رہے ہیں اور ہم بلڈی عوام اپنی عمر بھر کی پونجی ان کے انگریزی بولنے والے ملازمین پیدا کرنے میں صرف کر کر کے پاگل ہوئے جا رہے ہیں ۔ اپنی قومی زبان کو دیوار سے لگانے کے لیئے یہ خاص ٹولہ اپنے سر دھڑ کی بازی لگا چکا ہے ۔ لیکن فیصلہ عوام کو خود کرنا ہو گا ۔ اپنی زبان پڑھ کر علم حاصل کرنا ہے اپنی تہذیب اور افکار بچانے ہیں یا پھر انگریزی کی گرائمر سدھارتے سدھارتے دنیا سے رٹے بازی کی دوڑ لگاتے ہوئے اس جہان سے گزر جانا ہے ۔ فیصلہ خود کیجئے۔ 

دنیا کی ترقی یافتہ اقوام  نے سب سے پہلے اپنی زبانوں پر فخر کرنا سیکھا ۔ اسے رائج کیا اور دنیا فتح کر لی۔ مٹھی بھر یہودیوں  نے اپنی اس زبان کو زندہ کر کے دکھا دیا جو  بولنے والے بھی محض دس بارہ لوگ ہی بچے تھے۔ لیکن انہوں نے اسی زبان کو اپنا زریعہ تعلیم بنایا اوردنیا کو اپنی زبان کی اہمیت اور افادیت کا بین ثبوت فراہم کر دیا ۔ کیا ہمارے حکمرانوں کو اپنے ان عزیزوں اور رشتہ داروں کی روشن مثال سے سبق حاصل نہیں کرنا چاہیئے؟ 

                      ۔۔۔۔۔۔

تہذیب/ ‏کوٹیشنز ‏


       تہذیب

ہم تب تک مہذب ہیں جب تک بات
 ہماری من چاہی چل رہی ہو جبکہ ہماری تہذیب کا اصل امتحان اس وقت شروع ہوتا ہے جب بات ہمارے مزاج کے خلاف ہو رہی ہو ۔ 
  (چھوٹی چھوٹی باتیں)
        (ممتازملک۔پیرس)

بدھ، 7 جولائی، 2021

خواب ‏اور ‏ائینے/ ‏کوٹیشنز ‏


لوگ خواب بیچتے ہیں اورمیں آئینے۔۔۔ جو ان خوابوں کو توڑ دیتے ہیں سو مجھ پر پتھر زیادہ برستے ہیں کہ انہیں اصلی صورت  دیکھنے پر مجبور جو کرتی ہوں ۔۔۔
       (چھوٹی چھوٹی باتیں)
            ( ممتازملک۔پیرس)

جمعہ، 28 مئی، 2021

● مسلم ‏اقلیت ‏نظر نہیں ‏آتی؟/ ‏کالم

      
          مسلم اقلیت نظر نہیں آتی؟
         (تحریر:ممتازملک۔پیرس)
             

دنیا بھر میں انسانی حقوق کی ٹھیکیدار تنظیمات کو ہر اقلیت کا اس ملک میں دکھ اور اس پر خوردبینی  زیادتی نظر آ جاتی ہے جہاں  مسلم اکثریت آباد ہے ۔ لیکن دنیا بھر میں مسلمانوں پر بطور اقلیت جو جو خوفناک مظالم ڈھائے جاتے ہیں یا ڈھائے گئے ہیں اس سے یہ تنظیمات خود کو اندھا گونگا اور بہرا کیسے کر لیتی ہیں ؟
کیا پسند کی شادی کر کے مسلم ہونے والی لڑکی کا غم اس سے زیادہ ہے جہاں مسلم عورتوں اور بچیوں کیساتھ اجتماعی زیادتی کے جرائم اعلانیہ کیئے گئے۔ 
کیا کسی غیر مسلم کا کہیں کسی جھگڑے میں مارا جانا اس سے زیادہ بڑی خبر ہے جہاں بیگناہ معصوم لوگوں کو محض مسلم ہونے کی پاداش میں گاجر مولی کی طرح کاٹ کر عالمی میڈیا نے خوب خوب داد سمیٹی؟  
کیا یورپ اور امریکہ جو کسی جھوٹے انسان کو محض غیر مسلم اقلیت کا لیبل دیکر کیش کرانے اور اس مسلم ملک کو بدنام کرنے کی کوشش کرتا ہے اسے کشمیر ، فلسطین اور روہنگیا کے ہاں خوفناک جنگی جرائم  کا شکار ہونے والے یتیم بچے عورتیں مرد  نظر نہیں آتے ؟ 
کیا ببوسنیا اور شام میں قتل ہونے والے مسلمان انسان نہیں تھے؟
کیا یورپ بھر میں امریکہ میں تعصب کے ہاتھوں قتل ہونے والے اور  بے عزت ہونے والے اقلیتوں کا شمار انسانوں میں نہیں ہوتا کیونکہ وہ مسلمان تھے۔ 
کاش کہ عالمی انسانیت کے ٹھیکیدار انسانیت کے عظیم فلسفے میں جانبداری کا زہر نہ گھولتے تو شاید دنیا امن کا گیوارہ ہوتی ۔ 
غیر مسلم قوتوں نے ہمیشہ اقلیتیوں کے لیئے آواز سیاسی شعبدہ بازی کے طور پر اٹھائی ۔ حکومتوں کو بلیک میل کرنے کے لیئے اور اپنے وقتی مفادات کے حصول کے لیئے۔ ورنہ ابو الغریب کی جیل میں صرف مسلمان ہونےکی پاداش میں انسانوں کو غیر انسانی سلوک کا شکار نہ بنایا جاتا ۔ ورنہ افغانستان میں چالیس سال سے انکے قتل عام اور تباہی کو بھی عالمی جرائم میں شمار کیا جاتا اور عالمی طاقتوں کو اس کا جواب اور حساب  دینا پڑتا ۔ 
لیکن مسلمانوں کے لیئے ایک دوسری عدالت کا فیصلہ اور اس کی حقانیت پر انکا یقین ہی انکی اصل طاقت ہے ۔ انسانی حقوق کی عالمی تنظیمات اپنی جعلسازی جاری رکھیں ۔ 
دنیا بھرمیں یہ ڈرامہ انسانی حقوق تنظیمات مسلم اقلیتوں کے اوپر ہونے والے  مظالم پر منہ میں گھ گھنیا ڈال کر بیٹھ جاتے ہیں اور جہاں ان کے کانوں پر  ڈالرز اور یوروز کی چوٹ پڑتی ہے تو غیر مسلموں  ہی کیا ان کے کسی کتے کی موت پر آسمان سر پر اٹھا لیا جاتا ہے ۔ پھر چاہے وہ غیر مسلم خود ہی چیخ چیخ کر کہتا رہے کہ میرے ساتھ ایسا کچھ نہیں ہوا لیکن یہ بینڈ خاموش ہونے کا نام نہیں لیتا ۔ جب تک کہ کسی مسلم ملک کو باقاعدہ نشانہ بناا کر اس جرم میں نشان عبرت نہ بنا دیا جائے ۔ اور اس کی عوام کو دنیا بھر میں زرخرید میڈیا کے ذریعے خوب بدنام نہ کر لیا جائے ۔ سچ کہیں تو آج کے دجالی فتنہ پرور میڈیا کا کام ہی مسلمانوں کی نسل کشی اور انہیں ہر لحاظ سے نقصان پہنچانا ہی ہے ۔ کیونکہ اسے چلانے والے غیر مسلم  عالمی اجارہ دار اسے اپنا مذہبی فریضہ سمجھ کر ہی انجام دیتے ہیں ۔ جب مسلمان ایسا کوئی مذہبی فریضہ ادا کرنا چاہے تو اسے دہشت گرد قرار دیکر  دیوار سے لگا دیا جاتا ہے ۔ انسانی حقوق کا نام لیکر ایسا تماشا دنیا کے لیئے کوئی نئی بات نہیں ہے۔
                    ●●●

بدھ، 21 اپریل، 2021

پاکستان میں ڈر لگتا ہے/ کالم


                پاکستان میں ڈر لگتا ہے

پاکستان کی محبت میں ہم تارکین وطن اپنا خون پسینہ اس لیئے بہا کر بھیجتے ہیں کہ ہمارا ملک ترقی کرے گا ۔ یہاں لوگوں کا طرز زندگی بہتر ہو گا ۔ لوگ ان کے شکرگزار تو کیا ہی ہونگے بلکہ ان کی ہر چیز ، جان ، مال اور عزت پر اس طرح جھپٹتے اور غصب کرتے ہیں کہ انہیں بتانے پر آج ہم مجبور ہو چکے ہیں کہ اس ملک میں جائیدادیں بنانے سے باز آ جاو ۔ یہاں پیسہ لگانے سے باز آ جاو ۔ یہاں رشتے کرنے سے باز آ جاو ۔افسوس صد افسوس میں نے یہ کبھی نہیں سوچا تھا کہ ایک روز مجھ جیسی وطن پرست انسان بھی ایسا سوچنے پرمجبور ہو جائے گی ۔وہ لوگ جو اسے میری تنگ نظری اورچھوٹی سوچ کا فتوی لگا کر مجھے احمق اور جانے کیا کیا ثابت کرنے کی کوشش کرینگے ۔ ان کے سامنے دست بستہ یہ اقرار کرتی ہوں کہ اس ملک میں آ کر ہم سب تارکین وطن خود کو مہا گدھا ثابت کرنے کے خود ساختہ کوششیں کیا کرتے ہیں تاکہ آپ کی اس سوچ  کو درست ثابت کر سکیں ۔ ورنہ دنیا کے حسین مناظر، خوبصورت لوگ، دلکش مقامات ہمارے لیئے بانہیں کھولے منتظر ہیں  کہ آو ہم اللہ کے بنائے ہوئے ان لوگوں اور ان کی ترقی سے تمہیں ملائیں جن سے خدا راضی ہے ۔ جنہیں علم سے محبت ہے ۔ جنہیں انصاف سے عشق ہے جنہیں انسانیت کی قدر ہے ۔ جہاں قانون کا تحفظ ہے ۔ جہاں آپ کی بطور انسان عزت بھی ہے اور اہمیت بھی ، لیکن نہیں ہمیں تو پھانکنی ہے پاکستان کی خاک ۔چکھنی ہے پاکستانیوں کی فریب و ریا کاریوں کی دھول ۔ کھانی ہے ملاوٹ سے بھرے رشتوں کی چاٹ ۔ کیوں ؟
کیونکہ ہمیں صاف اور  خالص چیزیں ہضم نہیں ہوتیں ۔۔۔۔
اس وقت پاکستان میں یہ حالت ہے کہ آپکو جج کو دیکھ کر ڈر لگتا ہے کہ یہ آپکو کتنے سال خوار کریگا ؟
وکیل کو دیکھ کر ڈر لگتا یے کہ یہ آپکو کس کس بہانے نچوڑے گا ؟
ڈاکٹر کو دیکھ کر ڈر لگتا ہے کہ یہ آپکو کس مرض کے بہانے ٹکڑوں میں بیچ ڈالے گا ؟
پولیس کو دیکھ کر ڈر لگتا ہے کہ یہ آپکو کس کس جرم بیگناہی میں ملوث کر دیگا؟کب آپکو دہشت گرد قرار دیدے گا؟
استاد کو دیکھ کر ڈر لگتا ہے کہ یہ آپکے مستقبل کو کیسے داو پر لگائے گا؟
شاگرد کو دیکھ کر ڈر لگتا ہے کہ یہ آپکو کس طرح اپنی نالائقی کی بھینٹ چڑھائے گا؟
کسی بھی افسر کو دیکھ کر کیا، اس کے چپڑاسی کو دیکھ کر بھی ڈر لگتا ہے کہ یہ میرے کسی بھی مسئلے میں منہ پھاڑ کر رشوت اور کمیشن کے نام پر  مجھ سے کتنی جیب خالی کروا لے گا ؟
مولانا کو دیکھ کر ڈر لگتا ہے کہ یہ مجھے کس بہانے دین سے بھٹکا کر کسی فرقے کی گود میں ڈال دیگا؟
پڑوسی کو دیکھ کر ڈر لگتا ہے کہ یہ اپنے مفاد کے لیئے کب کہاں جھوٹ بول کر  میری گردن پھنسا دیگا ۔
رشتے دار کو دیکھ کر ڈر لگتا ہے کہ وہ کب مجھے لوٹ لیگا۔
دوستوں کو دیکھ کر ڈر لگتا ہے کہ کب یہ نظریں بدل کر مجھے پہچاننے سے انکار کر دینگے ۔
آج کے پاکستان میں مجھے ڈر لگتا ہے یہ وہ پاکستان تو نہیں جو میرا تھا ۔ یہ تو کوئی اور ہی جگہ ہے ۔ شاید میں پاکستان کا رستہ کھو بیٹھی ہوں ۔۔
یا یہ قوم اپنی منزل گم کر بیٹھی ہے
اب یہاں کوئی کسی سے بغیر مطلب کے نہیں ملتا ۔ 
کوئی کسی سے بغیر مفاد کے رابطہ نہیں کرتا۔
کوئی کسی کو یونہی یاد بھی نہیں کرتا ۔ 
 اس کے بوڑھوں کو اپنی موت یاد نہیں ۔ اس کے جوانوں کو اپنا دین یاد نہیں ۔ اس کی عورت کو اپنی حیا بوجھ لگنے لگی ہے ۔ اس کے مردوں کو اپنی آنکھیں جھکانا  بھول چکا ہے ۔ اس کے بچوں کو اپنے بڑوں سے بات کرنے کی تمیز بھول چکی ہے جبھی تو  مجھے پاکستان  سے ڈر لگنے لگا ہے ۔ کون کریگا اس ریوڑ کی نگہبانی ؟
                     ●●●


ہفتہ، 10 اپریل، 2021

● روحانیت ‏سے ‏شیطانیت ‏تک/ ‏کالم


       روحانیت سے شیطانیت تک
         (تحریر: ممتازملک۔پیرس)

دنیا میں ہر انسان بیک وقت دو دنیاوں کا سفر کر رہا ہوتا ہے ۔ ایک اس کی جسمانی دنیا اور ایک اس کی روحانی دنیا ۔
ہر ایک کا سفر دوسرے سے جدا ہوتا ہے ۔ ہر ایک کے درجات دوسرے سے الگ ہوتے ہیں ۔
بہت ممکن ہے ایک ہی ماں کی کوکھ سے جنم لینے والا ایک انسان عظمتوں  کے مینارے تعمیر کر رہا ہو اور اسے لمحے میں اسی  ماں کی دوسری اولاد شیطانیت کو  شرمسار کر رہی ہو۔ 
کچھ لوگوں کا سفر دنیا خریدنے  اور اسے مذید سے مذید تر اپنی جیب میں اور پیٹ میں بھرنے کے لیئے وقف ہوتا ہے ایسا انسان نہ کسی رشتے کا سگا ہوتا ہے اور نہ ہی خدا کی لکھی تقدیر کا قائل۔  اسے بدبخت بھی کہا جا سکتا ہے ۔جو اپنے رشتوں کو اپنے لیئے آہنی دیوار بنانے کے بجائے ریت کی ڈھیری میں بدل لیتا ہے ۔ اور جب بھی مٹھی کھولتا ہے خود کو خالی ہاتھ ہی پاتا ہے ۔
اس عمل میں وہ شیطانی دنیا کے وہ وہ گر آزماتا ہے جو کبھی اسے شرک کا مرتکب کر دیتا ہے اور کبھی کفر کی دنیا کا فرد شمار کروا دیتا ہے ۔ وہ سمجھتا یے میری چالبازیاں میرے جادو ٹونے ، میری لمبی زبان اور میرا گندہ کردار لوگوں کو مجھ سے دہشت زدہ رکھے گا اور یہ کسی حد تک سچ بھی ہے۔  آپ نے اپنے ارد گرد ایسے بہت سے چلتے پھرتے شیطان صفت جسم دیکھے ہونگے جن پر ایک حدیث پاک صلی اللہ علیہ وسلم  کا یہ مفہوم سو فیصد صادق آتا ہے کہ " ایک وقت آئے  گا لوگ دوسروں کی عزت ان کے اچھے کردار اور طرز عمل کی وجہ سے نہیں کرینگے بلکہ انکے شر سے محفوظ رہنے کے لیئے کیا کرینگے ۔ "
یہ خود ساختہ اور نام نہاد کامیاب لوگ ہوتے ہیں ۔ انکی جیب میں پیسہ تو کسی اور کا ہوتا ہے ۔ لیکن پھوں پھاں  انکی زوردار ہوتی ہے ۔ یہ وہ خالی غبارے ہوتے ہیں جنہیں وقت کا بچہ جب چاہے حکم خداوندی سے پھونک مار کر پھلا لیتا ہے اور جب چاہے اسے ایک ہاتھ سے مار کر اسکا زبردست پٹاکا نکال سکتا ہے ۔  

دوسری جانب وہ لوگ جن کا سفر خیر کے لیئے روشنی کی لکیر کے لیئے طے ہوتا ہے ۔ وہ دل کے خالص ہوتے ہیں ۔
 اب ان کا نصیب کہ جسے انہوں نے اپنے نورانی منزل کا چراغ سمجھا وہ آخر میں جا کر ایک ٹرک کی بتی نکلا اور انکی راہ کھوٹی کر گیا ۔ وقت کا یہی تو اچھا پہلو بھی ہے اور برا بھی کہ یہ کبھی پلٹ نہیں سکتا سو اس شخص کے خلوص کے سفر کو کیا خاک میں ملا دیا جائے گا ؟ نور کا متلاشی کیا اندھیروں میں اتار دیا جائے گا ؟ 
نہیں۔۔۔ کیونکہ یہ تو رب العالمیں کی شان کے خلاف ہو جائے گا ۔ جبھی تو وہ فرماتا ہے کہ انما الاعمال بالنیات ۔ یعنی اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے ۔ اور یہی بات اس نیک فطرت انسان کی روحانی سربلندی اور ذہنی سکون کے لیئے آب حیات کی سی حیثیت رکھتی ہے ۔ ایسے لوگ بے سکون نہیں ہوتے۔ ہار کر بھی مطمئن ہوتے ہیں کہ ابدی جیت کا وعدہ تو ازلی سے ابدی تک کے مالک نے خود ان سے کر رکھا ہے اور بیشک اس سے بڑا کون ہے اپنے وعدوں کو وفا کرنے والا ، حکومت کرنے والا اور راہنمائی فرمانے والا ۔ انتظار اور یقین کا یہ سفر بیحد صبر آزما تو ہے لیکن بے ثمر کبھی نہیں ہوتا ۔ اسی کو ایمان کہتے ہیں ۔۔
                    ●●●   

اتوار، 4 اپریل، 2021

● ڈھنگ کا کام/ کوٹیشنز

      

       ڈھنگ کا کام

ہم اس دیس کے باسی ہیں جہاں لکھاریوں اور شاعروں کو خود انکے اپنے گھر والے مشورہ دیتے ہیں کہ یہ کیا بیکار شوق پال رکھا ہے کوئی ڈھنگ کا کام کیوں نہیں کرتے تم لوگ؟ اس قوم کی تربیت کا پھر اللہ ہی حافظ ہے ۔
                   (چھوٹی چھوٹی باتیں) 
                       (ممتازملک ۔پیرس)  
                       ●●●  

● دھوکے بازوں کی پہچان / انٹرویو


       (ایک میگزین کو دیا گیا انٹرویو)

منافق اوردھوکہ باز لوگوں کی پہچان کیسے کی جا سکتی ہے ؟


●میں راولپنڈی سول ہاسپٹل میں
  22 فروری 1971ء میں پیدا ہوئے۔
●پیدائشی نام ۔ ممتازملک
●قلمی نام۔ ممتاز
●تعلیم۔ بی اے پرائیویٹ
راولپنڈی سے ہی پڑھائی کی۔
●پاکستان میں بچوں کو کچھ عرصہ پڑھاہا ۔ پھر ایک پرائیویٹ ادارے تھوڑا عرصہ تجربے کے لیئے  کام کیا ۔
●کچھ کورسز وغیرہ کیئے جیسے ٹائپنگ شارٹ ہینڈ ۔ سلائی ۔ کڑھائی۔ وغیرہ
●میری شادی لاہور کے محمد اختر شیخ سے
 7 جنوری 1996ء میں ہوئی ۔ جو کہ پیرس میں جاب کرتے تھے۔  ●الحمداللہ انہیں کیساتھ پیرس میں 7 مارچ 1998ء سے مقیم ہوں ۔
●میرے 3 بچے ہیں ۔
●دو بیٹیاں اور ایک بیٹا
تینوں ابھی پڑھ رہے ہیں ۔
● میری اب تک
5 کتب شائع ہو چکی ہیں ان میں 4 شعری مجموعے بنام
1۔۔۔ مدت ہوئی عورت ہوئے
(2011ء شعری مجموعہ کلام )

2۔۔۔۔ میرے دل کا قلندر بولے
(2014ء شعری مجموعہ کلام)

3۔ ۔۔۔سچ تو یہ ہے (2016ءمجموعہ مضامین۔ میرے منتخب کالمز)
4۔۔۔ اے شہہ محترم صلی اللہ علیہ وسلم۔ (2019ء پہلا نعتیہ مجموعہ کلام )

5۔۔۔سراب دنیا
(2020ء شعری مجموعہ کلام )

۔اور چھٹی کتاب اب طباعت کے مراحل میں ہے ۔
● شاعری کیا ہے ؟
شاعری کسی انسان پر اللہ کا کرم ہے ۔۔
انسان کی روح کی اس کے دل کی آواز ہوتی ہے ۔ میں ہمیشہ کہتی ہوں پیغمبروں پر وحی اترتی ہے تو عام آدمی پر کوئی عطا ہو تو اسے   ردھم اور ترتیب کے ساتھ محسوسات کو قرطاس پر بکھیر دینے کو شاعری کہتے ہیں ۔
شاعر ،مصور، اداکار ، گلوکار یہ سب پیدائشی ہوتے ہیں ۔ دنیا میں آنے سے پہلے ہی اپنے ساتھ لیکر آتے ہیں ۔
کوئی بھی یہ کام سیکھ یا سکھا نہیں سکتا بس اس کی نوک پلک سنوار سکتا ہے یا اسے پالش کیا جا سکتا ہے ۔
●دنیا سے غربت کبھی بھی ختم نہیں کی جا سکتی ہاں کم کرنے کی کوشش کی جا سکتی ہے ۔ حقداروں کو ان کا حق بروقت پہنچا کر ۔
ختم اس لیئے نہیں کی جا سکتی کہ یہ خدائی راز ہے ۔ اسی میں وہ دے کر شکر کو آزماتا ہے اور لیکر صبر کو آزماتا ہے ۔ دنیا میں نہ کوئی ہمیشہ غریب رہتا ہے اور نہ ہی امیر کبیر ۔ امارت اور غربت دھوپ چھاوں جیسے ہیں۔ آج تیرے سر تو کل میرے سر ۔
●اتنا ادب شائع ہونے کے بعد بھی لوگوں کے دلوں سے نفرتیں نہیں گئیں کیا وجہ ہو سکتی ؟؟
 لکھنے والا جتنا مرضی لکھ لے دنیا پڑھنے والوں نے بدلنی ہے ۔ اور پڑھنے سے ہمیں قومی طور پر شدید پرہیز ہے ۔
کتاب خریدنا ہمارے ہاں فضول خرچی ہے ۔ جہاں ادبی پروگراموں شرکت وقت کا زیاں ہے۔
نصآبی کتب بھی بس پاس ہونے کے لیئے رٹی جائیں
 وہاں آپ نفرتیں اور منافقتیں ہی تو پالیں گے ۔ کیونکہ دنیا منافق کی جنت ہے اور سچے کی امتحان گاہ۔

●منافق اوردھوکہ باز لوگوں کی پہچان کیسے کی جا سکتی ہے ؟
جو بنا کچھ کیئے موج میں ہے۔۔
جو سب کو خوش کرنا جانتا ہے ۔۔
جو سب کی گڈ بک میں ہے ۔۔
 سمجھ جائیں منافقت مقابل ہے ۔
 ●آپ جب مایوس ہوتی ہیں تو کیا کرتی ہیں ؟
میں دکھی تو ہو جاتی ہوں اکثر ہی لوگوں کے رویوں اور جھوٹ اور منافقین سے لیکن مایوس  شاذونادر ہی کبھی ہوئی ہونگی۔ میں بہت مثبت سوچ رکھتی ہوں اور سمجھتی ہوں کہ اللہ کے ہر کام میں ہماری ہی بھلائی پوشیدہ ہوتی ہے ۔ ہاں یہ اور بات ہے کہ وہ بھلائی ہمیں نظر اور سمجھ ذرا دیر سے آتی ہے لیکن آتی ضرور ہے ۔
انسان ہوں بہرحال تو جب  کبھی مایوسی کا دورہ پڑا تو اپنا محاسبہ کرتی ہوں ۔ اپنے اللہ سے باتیں کرتی ہوں ۔ اپنے وہ کام ڈھونڈنے کی کوشش کرتی ہوں جس کی وجہ سے مجھ پر کوئی مشکل یا آزمائش آئی ہو۔ نہ بھی یاد آئے تو شدت سے استغفار کرتی ہوں۔
۔باقی وہ بڑا معاف کرنے والا ہے ۔

(ممتازملک.پیرس )

پیر، 22 مارچ، 2021

● مقالہ / اعزازات


Wajid Ali Shah 
Nåveed Umår 

💐صوابی یونیورسٹی کے پی کے پاکستان میں ممتازملک کی کتاب سراب دنیا پر لکھا گیا مقالہ ۔ بلاشبہ مجھ ناچیز کے لیئے  بڑے اعزاز کی بات ہے ۔ 
صوابی یونیورسٹی کے  شعبہ اردو کے مقبول استاد جناب واجد علی شاہ صاحب کی نگرانی اور مقالہ نگار ہونہار طالبعلم نوید عمر کو اس کام کے مکمل ہونے پر دلی مبارکباد ۔  💐💐
 اور میری جانب سے تہہ دل سے شکریہ۔ سدا سلامت رہیں خوش رہیں ۔
   (ممتازملک ۔پیرس)





منگل، 16 مارچ، 2021

یہ ‏آنسو ‏بھی ‏کیا ‏چیز ‏ہیں ‏/ ‏کوٹیشنز ‏

یہ آنسو بھی کیا چیز ہیں 
کہیں آنسو صرف درد کا اظہار ہوتے ہیں ،
تو کہیں یہ شکرگزاری کا اظہار ہیں ،
کہیں یہ  بے بسی بیان کرتے ہیں ،
تو کہیں یہ کامیابی کا اعلان ہوا کرتے ہیں ،
کہیں یہ دکھ بیان کرتے ہیں، 
تو کہیں یہ الحمد کی تعریف بن جاتے ہیں ،
آنسوؤں کی قدر کیجیئے یہ بنا کہے آپ کے جذبات کے ترجمان  بن جاتے ہیں ۔ 
      (چھوٹی چھوٹی باتیں)
            (ممتازملک ۔پیرس)

ہفتہ، 13 مارچ، 2021

* ● عجب ‏ہوا/ ‏اردو شاعری ‏۔ اور وہ چلا گیا


        عجب ہوا                 



اب کے برس بہار نہ آئی عجب ہوا
شاید گناہ حد سے زیادہ تھے تب ہوا

فطرت کا جب مذاق اڑانا رواج ہو
بربادیوں پہ کیسے کہو گےغضب ہوا 

گمراہیوں کے طوق اتارے نہ جائینگے  
چاہے کوئی پہننے کا انکے سبب ہوا

جب تک تھے باادب تو ہراک سمت خیر تھی
سنتے ہیں رل گیا ہے جب سے بے ادب 
ہوا

جس جان پہ اکڑ تھی تکبر تھا زعم تھا 
اس جان پہ بنی ہے اب تو جاں بہ لب ہوا

جینے کا حق تو رب کا عطاکردہ تھا مگر 
ممتاز کیسے اپنوں کے ہاتھوں سلب ہوا
  
       ●●●                ۔

پیر، 1 مارچ، 2021

● ◇ کہاں پہ حور اور کہاں پہ عورت / نظم۔ سراب دنیا ۔ جا میں نے تجھے آزاد کیا


 کہاں پہ حور اور 
       کہاں پہ عورت          
     
 

وہ جس کو چھو کر ہوا نہ گزری 
غموں کی کوئی گھٹا نہ گزری
نہ میلے ہاتھوں کی وہ پہنچ میں 
نہ گندی نظروں گناہ سے گزری

جمال اس کا کمال ٹہرا 
ادا میں اس کی قتال ٹہرا 
سبک خرامی ہے اس کی واللہ
کوئی نہ اس پر سوال ٹہرا


اسے کیا کس طرح مقابل
جو ایک عورت کا حال ٹہرا

کہاں بھلا یہ دکھوں کی ماری 
غموں میں جکڑی ہوئی یہ ناری
ہر اک قدم پر نیا فسانہ 
ہر اک قدم سوچتی بیچاری

بچائے خود کو کدھر کدھر سے 
کسی کے ہاتھوں سے یا نظر سے 
بچائے جاں یا کہ روح اپنی
یا اپنی عزت کو جھاڑ گھر سے

ادھر مقابل تو آ ذرا تو 
مجِھے اے حور اصل بتا تو 
کبھی ہے کاٹا کوئی بھی فاقہ
کبھی جنا تو نے کوئی بچہ
کبھی دریدہ بدن ہوئی ہے 
کبھی تو سردی میں جا کے سوئی 
کبھی تو کھا کھا کے مار روئی
کبھی اٹھائے ہیں زخم تو نے  
کبھی جو عزت کہیں گنوائی
کہیں پہ لگ کر قطار میں تو 
ملا نہ راشن تو موت آئی
تمہاری چوٹی پکڑ کے بولو
نکالا گھر سے کبھی کسی نے 
خلاف مرضی کبھی کسی نے
نکاح کے بدلے تمہیں رگیدا 
نہیں۔۔۔ نہیں نا
کبھی نہیں نا.... 
کبھی اتر کر زمیں پر آ تُو
جو مجھ پہ گزرے گزار پا تُو
میں مان لونگی مقام تیرا 
تجھے بھی پہنچے سلام میرا 
میرے مقابل نہ آ سکو گی 
مجھے یقیں ہے کہ میرے رب کو 
میرے ہر اک درد کی خبر ہے 
میرے مقابل وہ آئے گا جو 
میرے ہر اک غم کے ہو برابر
خدا ہے منصف وہی ہے عادل
 نہیں ہے ممتاز تو  مقابل
         ●●●


● نفاذ اردو ایک نشست/ رپورٹ




      27 فروری2021ء بروز ہفتہ 
تحریک نفاذ اردو کی جاندار آواز و کردار محترمہ فاطمہ قمر صاحبہ نے پیرس سے آئی ہوئی معروف لکھاری اور شاعرہ محترمہ ممتازملک اور دوبئی سے تشریف لائی ہوئی دوست محترمہ یاسمین ظفر صاحبہ کے لیئے اپنی رہائشگاہ پر ایک خصوصی نشست کا اہتمام کیا ۔ جس میں نفاذ اردو کے سلسلے میں خواتین کے کردار پر روشنی ڈالی گئی ۔ بحث میں حصہ لینے والوں میں محترمہ فاطمہ قمر ، معروف پنجابی ادیبہ اور شاعرہ شگفتہ غزل ، معروف لکھاری و کالمنگار ناہید نیازی ،  تنظیم چادر انٹرنیشنل کی صدر معروف شاعرہ و کالمنگار ذرقا نسیم ، جگنو انٹرنیشنل کی صدر معروف شاعرہ و لکھاری ایم ذیڈ کنول نے ممتازملک اور یاسمین ظفر نے بھرپور حصہ لیا ۔ جس میں خواتین میں بڑھتے ہوئے منفی رجحانات کی نشاندہہ کی گئی اور اس کی رقک تھام کے لیئے مختلف آراء پیش۔کی گئیں ۔۔
پروگرام کے آخر میں فاطمہ قمر صاحبہ اور انکی ہونہار صاحبزادی ڈاکٹر سلمی نے پرتکلف عصرانے کا اہتمام کر رکھا تھا ۔ جس کے سلیقے کی سبھی نے تعریف کی ۔ آخر میں نفاذ اردو کے مشن کے لیئے دعا زرقا نسیم صاحبہ نے کی ۔ یوں بہت سی نیک خواہشات اور تمناوں کیساتھ اس یادگار محفل کا اختتام ہوا ۔ پیش ہیں اس پروگرام کی  چند تصویری جھلکیاں
رپورٹ:(ممتازملک۔لاہور) 





                        ●●●

 

ہفتہ، 13 فروری، 2021

● زمین ‏ہلتی ‏ہے/ ‏کوٹیشنز ‏


         زمین ہلتی ہے

قرآن پاک پر حلف اٹھا کر جھوٹ بولنے والے جھوٹے مسلمانوں زمین ہلے بنا بھی خدا کو یاد رکھا کرو کیونکہ ہر بار زمین صرف ہلتی ہی نہیں ہے تم جیسوں کو زمیں بوس بھی کر دیتی ہے۔
                   (چھوٹی چھوٹی باتیں)
                         (ممتازملک.پیرس)

اتوار، 7 فروری، 2021

● می ‏لارڈ ‏توجہ ‏فرمائیں/ کالم

        

          
          می لارڈ توجہ فرمائیں  
       (تحریر: ممتازملک.پیرس)



ہم آہ بھی بھرتے ہیں تو ہو جاتے ہیں بدنام
وہ قتل بھی کرتے ہیں تو چرچا نہیں ہوتا 
جس پاکستان کے تھانوں میں عام آدمی صرف چالان نہ بھرنے پر اور ایف آر کٹوانے کے لیئے مہینوں خوار ہو جاتا ہے  جہاں  اپنی سائیکل کا چالان نہ بھر پانے پر معصوم لوگ سالہا سال سے جیلیں کاٹتے ہیں ۔ جہاں کے لائق وکیل اور جج صرف شک کی بنیاد پر ان کی زندگیوں کو تاریخ پر تاریخ کا کھیل بنا کر بیس بیس سال تک کھیلتے ہیں ۔ جہاں پیشی کا مطلب منشی کی جیب گرم کر کے اگلی تاریخ کی بھیک مانگنا ہے جبکہ معلوم ہے کہ اس اگلی تاریخ میں بھی یہ ہی ڈرامہ دہرایا جائے گا ۔ جہاں عام آدمی کو کبھی  جج سے بھی براہ راست اپنا مدعا بیان کرنا توہین عدالت قرار دے دیا جاتا ہے ۔ جہاں لوگ اپنے حق کے چار دن کی پنچایت میں ہو جانے والے فیصلے والے معاملات کے لیئے اپنی گاڑھے خون پسینے کی کمائیاں بھر بھر کر کبھی دیوانے ہو جاتے ہیں کبھی دیوالیہ تو کہیں اپنی جان کی بازی ہار جاتے ہیں لیکن می لارڈ آپ کو کیا پتہ جس قیدی کو کل آپ نے معصوم قرار دیکر اپنی طرف سے بہت مہربانی فرماتے ہوئے صرف 20 ہا تیس سال بعد ہی بری کرنے کا حکم صادر فرمایا ہے وہ کئی سال قبل ہی اس قید خانے میں اپنی زندگی کی بازی ہار چکا ہے ۔ 
اور آپ کے لیئے وہ قیدی چچچچچچچ کے سوا اور کسی رد عمل کا نہ قائل تھا نہ قابل۔۔
اس ملک میں اگر کوئی خاتون کشمالہ طارق بن جائے تو اس کا بیٹا چاہے نشے میں دھت ہو ، چاہے کسی کی عزت اپنے پیروں میں کچل دے اور چاہے کسی کی جوانیاں زندگیاں اور امیدیں اپنی عالی شان گاڑی کے پہیوں کے نیچے روند جائے ۔ اسے  تو چار ہی گھنٹوں میں ضمانت بھی مل جائے گی اور ہماری پولیس فورس اس کی حفاظت و تواضح بھی فرمائے گی ۔ آخر کو وہ قوم کا عظیم سپوت کچھ "غیر ضروری" لوگوں کو ہی کچل کر آیا تھا۔ بچہ ہے یہ تو بچوں سے ہو ہی جاتا ہے ۔ اتنا پیسہ ہے اتنے اختیارات ہیں  وہ اس وقت میں کام نہیں آئینگے تو اور کس وقت کام آئینگے ۔  وہ نوجوان ہی بیوقوف تھے انہیں معلوم ہونا چاہیئےتھا کہ پاکستان کی سڑکوں اور عدالتوں پر  پہلا حق یہاں کی ایلیٹ ٹائپ ایڈیٹس کلاس کا ہے جو ہمارے مال اور خون نچوڑ نچوڑ کر اسی لیئے تو پیدا کیئے جاتے ہیں کہ  ہم جیسوں کا اس ملک سے صفایا کر سکیں ۔ 
می لارڈ  آپ کی عدالتیں بھی طوائف کے کوٹھے سے کم ہر گز نہیں ہیں یہاں بھی جو نوٹ برساتا ہے گھنگھرو اسی کے لیئے بجتے ہیں اور طوائف کو اس سے کیا کہ نوٹ لٹانے والا کسی کی جیب کاٹ کر لایا ہے یا کسی کی گردن ۔۔۔
می لارڈ فرصت ہو تو کشمالہ طارق جیسی اعلی ہستیوں کے قاتل بیٹے کے ضمانت نامے کے آرڈرز پر چار گھنٹوں میں دستخط کرنے کے بعد ان مقدمات پر بھی رحم کی نظر ضرور ڈال لیجیئے گا جو سالوں سے آپ کی میز پر آتے ہیں اور جاتے ہیں کیونکہ آپ ان کے مقدر میں یہ کالک لکھ چکے ہیں کہ میرے جج ہونے تک تو تم لوگ اس عدالت سے فیصلہ پا کر نہ چھوٹے۔ 
می لارڈ ایک عدالت آپکی پیشی کی بھی منتظر ہے ۔ وہاں آپکو بچانے کے لیئے کون آئے گا؟
وہ کچلے ہوئے لاشے ، جیلوں میں ہی مر چکے معصوم،  عزتیں لٹوائے بیچارے ، مال و دولت گنوائے ہوئے دھوکے کھائے ہوئے بے یارومددگار پاکستانی ان کی آہیں اور سسکیاں انکے برباد خاندان کیا آپ کو دوزخ کی آگ سے باہر نکلنے دینگے ۔ قاضی کے منصب پر بیٹھا ہوا ہر شخص خدا کیوں بن جانا چاہتا ہے ؟ 

                             ●●●

ہفتہ، 6 فروری، 2021

دھوکہ ‏کھا ‏بیٹھے ‏ہو ‏/ ‏شاعری ‏


تم اک اچھے قصہ گو ہو 
لوگوں سے بھی کم ملتے ہو
 
کیسے دھوکہ کھا بیٹھے ہو
چودہ طبق جلا بیٹھے ہو

چہرے پر واضح لکھا ہے
دل کا درد دبا بیٹھے ہو
 
اور تمہارے پاس بچا کیا 
سارے اشک بہا بیٹھے ہو

اپنوں سے یوں دور ہوئے کہ 
غیروں کے سنگ جا بیٹھے ہو

لٹنے کا کچھ خوف نہیں اب
جب سے مال لٹا بیٹھے ہو

اپنی جیب کے کھوٹے سکے
دنیا میں چلا بیٹھے ہو

وہ ہی تمہاری ہڈیاں  بیچیں 
جنکو ماس کھلا بیٹھے ہو

بہروں کی سنوائی کو تم
سارا زور لگا بیٹھے ہو

دیواریں ممتاز  ہلی  ہیں  
قہر رب  بلوا بیٹھے ہو

        ●●●

بدھ، 3 فروری، 2021

● جبری انگریزی نصاب/کالم


             جبری انگریزی نصاب
               (تحریر: ممتازملک.پیرس)



ہم تارکین وطن پاکستانی خصوصا شعراء اور لکھاری دنیا بھر میں اردو زبان کی حفاظت اور پھیلاو میں تن من دھن وار رہے ہیں اور پاکستان میں ہمارے بچے انگریزی کے رٹے مار مار کر پاگل ہوئے جارہے ہیں ۔ انگریزی کیا قہر خداوندی ہے اس قوم پر؟
ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ اردو کے ملک میں اردو کو بے آبرو کرنے والے لوگ تخت نشیں ہیں ۔ دنیا کی ہر زبان سیکھیں لیکن بطور زبان کے ۔
اسے بطور نظام تعلیم قوم پر مسلط نہ کریں ۔ کیونکہ دنیا کی کسی قوم نے کسی دوسرے کی زبان میں کبھی ترقی نہیں کی ۔ اس کی سب سے بدترین مثال پاکستان اور بھارت ہیں ۔ جو ساری عمر  انگریزی سیکھنے اور پھر انگریزی  کی غلطیاں نکالنے میں گزار دیتے ہیں ۔ یا پھر اس کا طرز زندگی سمجھنے اور اپنانے میں آدھے تیتر آدھے بٹیر بن کر نہ گھر کے رہتے ہیں نہ گھاٹ کے ۔ 
جسم پر پورا تھان لپیٹ کر سر کی ٹنڈ کروا کر ایک موٹی سی ماتھے برابر بندیا لگا کر سگریٹ کے کش لگاتی ہوئی خواتین وحضرات انگریزی فرفر جھاڑتے ہوئے خود کو کس جہان کا باسی ثابت کرنا چاہتے  ہیں ؟ 
شاید اس جہان کا نام ہے کنفیوز نگر
کیونکہ زبان بول چال کی سیکھنا اور بات یے اور زبان کا نظام تعلیم رائج کرنا گویا آپ نے اپنے زندگی کے ہر اثاثے کو ،انداز فکر کو، کھانا پینا رہنا اوڑھنا بچھونا سب کچھ اس تہذیب کے حوالے کر دیا ہے اور خود کو زیرو قرار دیدیا ہے ۔ انگریزی کو بطور زبان ضرور سیکھئے لیکن اس کی تہذیب میں ڈبکیاں مت لگایئے ۔ بس یہی سچائی ہے۔
اگر آپ نے کہا کہ انگلش بین الاقوامی زبان ہے جو ساری دنیا میں بولی جاتی ہے تو یہ بھی آپ کی ہی خام خیالی ہے اور آپ کے ہمخیال لوگوں نے ہی ایسا مفروضہ رائج کر رکھا ہے جبکہ حقیقت میں امریکہ کے چند ممالک اور انگلستان کے علاوہ شاذونادر ہی کسی ملک میں انگریزی بولی جاتی ہے ۔ اور نظام تعلیم تو کسی دوسرے کی زبان میں ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔ ہمیں ضرورت ہے اسی لنڈے کی سوچ سے باہر نکلنے کی۔ 
 لیکن
 اسے ایک زبان کے طور پر بطور مضمون رکھنے میں کوئی قباحت نہیں ہے جو کہ لازمی نہیں اختیاری مضمون ہونا چاہیئے ۔
دنیا کا کون سا ترقی یافتہ ملک ہے جس نے اپنے ملک کی زبان کے بجائے دوسرے کے زبان  انگریزی میں ترقی کی ہے پلیز رہنمائی فرمائیں 
کیا فرانس ، جرمنی۔ اٹلی، سپین، سوئزرلینڈ، ناروے ،  ڈنمارک ،چین ، جاپان ، انڈونیشیا   وغیرہ وغیرہ 
اور کیا یہ سب ترقی یافتہ ممالک دوسری زبانوں میں اپنے طلبہ کو تعلیم دیتے ہیں ۔۔؟
وضاحت پلیز

اور اگر کسی کو سیکھنی ہے تو وہ بطور زبان سال بھر کا لینگویج کورس کر کے اسے بول چال کے قابل ہو سکتا ہے ۔ پھر اسے بچوں کی نصابی کتب میں ٹھونس کر انہیں زبردستی پڑھانے کی کیا تک ہے؟
یہ بات درست ہے کہ  آج کی نسل کی تباہی کی وجوہات میں دین سے دوری اخلاقی اقدار کا زوال اورمعاشی اور معاشرتی ناانصافی بڑے اہم عوامل ہیں لیکن ان وجوہات و عوامل کی تہہ میں جائیں تو معلوم ہو گا کہ دین سے دوری کا سبب بچوں کی تعلیم جبرا اس زبان میں دلوانا ہے جس کا ہمارے مذہب سے تہذیب سے معاشرت سے ہر گز کوئی لینا دینا نہیں ہے ۔ وہاں پر انگریزی زبان کا قہر ہم پر قہر خداوندی ہی تو بن چکا ہے جہاں ہماری عقل پر قفل لگ چکا ہے ۔ اور ہم بے عقل، بے رشدو ہدایت بھاگے جا رہے ہیں بنا کسی منزل کے تعین کے ۔ ہم ہزار سال بھی انگریزی یا کسی اور زبان کے نظام تعلیم کیساتھ علم کے حصول میں دوڑتے رہیں تو بھی کبھی اس کی منزل نہیں پا سکتے اور اگر پالیں تو اپنے سارا تہذیبی دینی سماجی ڈھانچہ تباہ و برباد کر کے بلکہ خس و خاشاک کر کے ۔ کیا ہم یہ قیمت ادا کر کے خوش رہ سکتے ہیں یا آذاد قوم کہلا سکتے ہیں ؟ 

سوال یہ ہے کہ کیا ہمارے پیارے پاکستان میں کوئی اردو بولنا چاہتا ہے ؟ کیا اردو بولنے والے کو ہندوستانی کا نام نہیں دیتے ہم لوگ ؟ کیا اردو زبان میں اتنی صلاحیت ہے کہ وہ جدید علوم کا ترجمہ کر سکے؟
جی ہاں  آپ کا درد دل آپ کی بات سے چھلکتا ہے ۔ پاکستان میں تحریک نفاذ اردو کے نام سے  تحریک بھرپور انداز میں کام کر رہی ہے اور قانونی طور پر اجراء کا فیصلہ بھی لے چکی ہے لیکن کچھ انگریزوں کے ذہنی غلام جو اپنے بچے پالتے ہی گورا صاب بننے کے لیئے ہیں وہ اسکے عملی نفاذ کی راہ میں سب سے بڑا روڑا ہیں کیونکہ انہیں ہر وقت اپنا بچہ گھوڑے پر سوار گورا صاب دیکھنے کا ارمان ہے اور پاکستانی قوم و  نسل ان کے گھوڑے باندھنے اور رگڑنے والے سائیس کے طور پر چاہیئے ۔ اس  وقت پاکستانیوں کی کمائیوں  کا ستر فیصد اپنے بچے کے منہ میں انگریزی ٹھونسنے اور اسے گورا صاب بنانے کی دوڑ پر خرچ ہو رہا ہے ۔ اور یقین مانیئے دنیا کی ہر زبان کے لفظ  کا ترجمہ کرنے کی صلاحیت اردو زبان   میں بدرجہ اتم موجود ہے ۔ ہم سب اسے غالب کے زمانے کی متروک اردو میں نہ ڈھالیں بلکہ اسے جدید اردو زبان میں (جو کہ رائج الوقت ہے میں) ڈھال کر بہت آسانی سے دنیا بھر کا علم اردو میں منتقل کر سکتے ہیں ۔ آج کمپیوٹر کے زمانے میں ایسا سوال کہ کونسی زبان کس زبان میں ڈھل سکتی ہے ترجمہ ہو سکتی ہے بالکل بچگانہ ہو کر رہ گیا ہے ۔ اصل مسئلہ جو زبان سے منسلک ہے وہ ہے ہماری شناخت اور تہذیب بچانے کا ۔ ۔ ہر زبان اپنی تہذیب آپکو سکھاتی ہے ۔ کوئی بھی زبان زبان کے طور پر سیکھیئے تو کوئی مضائقہ نہیں لیکن اسے اپنی زندگی کا مقصد بنا کر اپنے گرد آکاس بیل بنا کر لپیٹ لیں گے تو یہ آپ کا سارے کا سارا ورثہ نچوڑ کر پی جائے گی ۔ یعنی گہرائی سے سوچیئے تو قومی  زبان کا نفاذ ہماری نسلوں کی ترقی یا  تباہی کا سوال ہے ۔
ہمارے ملک میں ترقی کے نام پر کمائی کا ستر فیصد حصہ انگریزوں کے نام نہاد پاکستانی  ایجنٹ پاکستانیوں سے نچوڑ رہے ہیں ۔ اور اس کی تہذیبی اور دینی بنیادوں میں انگریزی زبان کے زریعہ ان کی تہذیب کے زہریلے ٹیکے لگائے جا رہے ہیں  اور یہ تمام دولت پاکستان سے باہر  بیرون ملک بھیجی جا رہی ہے ۔ جب تک یہ بیرونی رسد نہیں روکی جائے گی ۔ انگریزی زہر طلب کے نام پر  یونہی بکتا رہیگا ۔ ہماری قوم ہر لحاظ سے تباہ و برباد ہوتی چلی جائے گی اور ہمارے دشمن ہمارا خون چوس چوس کر طاقت حاصل کرتے رہینگے ۔ اخلاقی زوال اور مذہبی تنزلی کی مثالیں ہر روز بلکہ ہر لمحہ ہمارے معاشرے میں ماتم کناں ہیں اور ان سب برائیوں کی جڑ تک جائیں تو اخلاقی اور دینی علوم سے دوری اور دوری کی وجوہات میں سب سے بڑا عذاب  جبری انگزیزی نصاب۔ 
                         ●●●

شاعری / /مدت ہوئ عورت ہوۓ/ ممتاز قلم / سچ تو یہ ہے/ اے شہہ محترم/ سراب دنیا/ نظمیں/ پنجابی کلام/