ممتازملک ۔ پیرس

ممتازملک ۔ پیرس
تصانیف : ممتازملک

پیر، 11 مارچ، 2019

● نعت ۔ آق یہ بندہ عاصی ۔ اے شہہ محترم صلی اللہ علیہ وسلم


آقا یہ بندہ عاصی
(کلام/ ممتازملک ۔پیرس)




آقا  یہ بندہ عاصی مشکل سے دل سنبھالے
ایسی کوئی خطاء ہے جس سے نہ وہ بچا لے

اس نفس کی غلامی نے جسطرح ہے جکڑا 
کوئی اسے وہاں سے اب کسطرح نکالے

راہوں کے سارے دیپک بجھتے ہی جارہے ہیں 
توفیق اسکو دینا دیپک نئے جلا لے

طوفان میں ہے کشتی اور سامنے بھنور ہے
وہ چاہے تو بھنور میں رستہ نیا بنا لے

بے سود میری کوشش ہر دم رہی ہمیشہ
میں صاف کر سکوں نہ دل پر لگے یہ جالے

سورج تو روز گھر میں آتا ہے میرے لیکن
اس دل کو کر دے قابل جو لے سکے اجالے

ممتاز خوش نصیبی آ کر کسی طرح سے
در زندگی میں دوجی بار آ  کے کھٹکھٹا لے
●●●




تبصرہ پنجابی سنگت ۔ اے شہہ محترم صلی اللہ علیہ وسلم



فرانس پیرس میں شعراء کرام کی معروف تنظیم "پنجابی سنگت" کی جانب سے کیا گیا ایک ایک مشترکہ تبصرہ 
         بسم اللہ الرحمن الرحیم 
تمام حمد وثنا اللہ وحدہ لاشریک کے لیے ہے جس نے میرے ، آپ کے اور پوری کائنات کے رسول کو محمد صلی اللہ علیہ وسلم  کو احمد، محمود اورحامد بنا کر بھیجا جن کا وجود مسعود تمام عالموں کے لیے رحمت ہے۔

حضور آگۓ ہیں حضور آگۓ ہیں 
  حضور آگۓ ہیں حضور آگۓ ہیں

   وہ طیبہ کی گلیاں وہ روضے کی جالی  
 نگاہیں میری بن گئی ہیں سوالی
  نگاہوں کا میری غرور آگئے ہیں
   حضور آگئے ہیں حضورآگئے ہیں 

  وہ جن کے لیئے یہ  زمیں آسماں بھی
جھکائے ہیں سر اورسجی کہکشاں بھی  
 وہ رنگوں کا لیکر ظہور آگئے ہیں  
حضور آ گئے ہیں حضور آ گئے ہیں 

وہ کیا تھی عنایت وہ کیا دلکشی تھی  
جو سب کی عقیدت کی وجہ بنی تھی

   وہ حسن و عمل کا شعور  آگئے ہیں
  حضور آ گئے ہیں حضور آ گئے ہیں  

اس کلام میں محترمہ ممتاز ملک صاحبہ کی نبی اکرم صلی اللّٰہ علیہ وسلم سے محبت اور عقیدت آسماں پہ چودہ  چاند کی طرح چمک رہی ہے ۔ ان کی اس نعت سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ ان کی اسلام سے دلی وابستگی ہے ۔ اور اسلامی رجحان کا پہلو ان کی تحریروں اور نعتوں میں واضح طور پر نظر آتا ہے
احساسات و جذبات سے لبریز حقیقت پسند شاعرہ محترمہ ممتاز ملک صاحبہ کی  نظموں،  غزلوں ، قطعات اور نعتوں  پر مشتمل کلام " علمی، فکری، سماجی، سیاسی حقائق و مشاہدات، قومی و بین الاقوامی مدو جزر کا مجموعہ ہے۔ ان کے ہر شعری مجموعے میں ملکی و بین الاقوامی صورتحال اور طاقتور لوگوں کے ننگے ناچ کو حقیقت بیانی کے ساتھ الفاظ کے موتیوں کو دھاگے میں پرو کر غور و فکر کے لئے سنجیدہ لوگوں کے گلے میں ڈالنے کا کام کیا گیا ہے۔
سیاست، ظلم و بربریت، فساد، انتشار، تباہی و بربادی، فریب کاری، دھوکہ دہی، مہنگائی، بے روزگاری، رشوت خوری، بدعنوانی،عوام کی بے چارگی، حکومت کی کوتاہ بینی، لاقانونیت، خود غرضی، انارکی، انفرادی، اجتماعی اور ریاستی دہشت گردی، مسلمانوں کی پامالی، رسوائی اور جدو جہد، کیا کچھ نہیں ہے ان کی شاعری میں! ایسا لگتا ہے شاعرہ نے ان سارے مسائل کو سامنے لا کر عوام الناس کی آنکھیں کھولنے کا بیڑا اٹھا لیا ہے۔
ان کی شاعری میں جگہ جگہ  اسلامی فکر کی جھلک نیز دنیا بھر میں مسلمانوں کی صورتحال سے واقفیت اور ان کے درد و غم میں شرکت اور حق گوئی کا خاصہ ان کے اسلامی رجحان کی علامت ہے ۔ وہ انسانوں اور خصوصا مسلمانوں کی حالت زار پر جہاں افسوس ظاہر کرتی ہیں وہیں انہیں اپنا طرز حیات بہتر کرنے اور اپنے قدم آگے بڑھانے کی دعوت دیتی بھی نظر آتی ہیں۔ یہی چیز انہیں ایک اسلامی شاعرہ کی پہچان بھی عطا کرتی ہے ۔
ان کے جلد منظر عام پر  آنے والے  ایک شعری مجموعے (سراب دنیا ) سے ان کے چند اشعار پیش ہیں :
ظلمت شب کو بہرطور تو ڈھلنا ہو گا 
اب ہر اک سیپ سے موتی کو نکلنا ہو گا 
سوچکےہیں جوسبھی خواب جگاو لوگو 
دل کوتعبیرکی خواہش پہ مچلناہو گا 
اب تو گرگر کے سنبھلنے کا روادار نہیں 
ٹھوکروں سےتمہیں ہربارسنبھلنا ہو گا 
اپنےاعصاب کو،جذبات کو فولادی کر 
دل اگر موم بنا، اس کو پگھلنا ہو گا 
                       ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 الغرض پورا مجموعہ تعمیری اور فکر افزا ہے۔ایسا محسوس ہوتا ہے کہ شاعرہ نے اپنے صحافتی تجربے کو شاعری میں بھی آزمایا ہے۔اس مجموعے کو پڑھنے کے بعد شاعرہ کے تعلق سے جو تصویر ابھرتی ہے اس سے لگتا ہے کہ شاعرہ نے ہم عصر ماحول اور مسائل کا نہ صرف نہایت سنجیدگی اور باریک بینی سے مطالعہ کیا ہے بلکہ وہ تاریخ اور تہذیب و ثقافت کا گہرا ادراک بھی رکھتی ہیں۔ 
دور حاضر میں ایسی سنجیدہ شاعری پڑھنے کو بہت کم ملتی ہے۔ جس طرح سے محترمہ ممتاز ملک صاحبہ نے نعت گوئی میں ادب واحترام کا خیال رکھا ہے ٹھیک اسی طرح معاشرتی اور حقیقی شاعری میں بھی اپنا معیار برقرار رکھا ہے۔ دعا ہے اللہ تعالیٰ ان کے تخیل میں مزید اضافہ کرے۔ اور ان پر اپنی رحمتوں کا سایہ رکھے۔  آمین۔ 
تبصرہ نگار۔ 
 پنجابی سنگت
 پیرس ، فرانس

جناب مقبول الٰہی شاکر صاحب
جناب راجہ زعفران ظفر صاحب
جناب عاشق رندھاوی صاحب
جناب ممتاز احمد ممتاز صاحب
جناب راجہ دیوان صاحب
جناب عمران حیدر قریشی صاحب

کیچڑ خور بطخیں پکڑیں ۔ ممتاز قلم

کیچڑ خور بطخیں پکڑیں
(تحریر/ممتازملک۔پیرس)


 حکومت وقت متوجہ ہو، اس بار کا یوم خواتین پر ہونے والا آذادی تماشا کس کے اشارے اور کس  کی پشت پناہی پر کیا گیا ؟ 
یہ ہے آج کی ہر غیرتمند باحیا پاکستانی عورت اور مرد کا سوال۔۔۔
 ان مظاہروں میں اٹھائے گئے  بے حیا پلے کارڈذ اور حرکات نے مردوں ہی کے کیا ، عزت دار خواتین کے سر بھی شرم سے جھکا دیئے ہیں ۔۔۔
معلوم کیجیئے وہ کون سی بدقماش خواتین ہیں جنہیں کپڑوں سے آذادی چاہیئے ،ننگے ہونے کے لیئے ، شوہر سے آذادی چاہیئے کھل کر زنا کرنے کے لیئے ، رشتوں سے آذادی چاہیئے ،اپنی قیمت ہر راہ چلتے سے لگوانے کے لیئے، نکاح سے آذادی چاہیئے  طوائف بننے کے لیئے ۔۔۔ 
ان این جی اوز کی آڑ میں مکروہ دھندے کرنے والی تمام خواتین کا مالی اور کیریکٹر ریکارڈ منگوا کر اس پر بھرپور تحقیقات اور تفتیش کی جائے ۔  غریب بھوکی مزدور عورتوں  کا مجمع ایک وقت کے کھانے کا لالچ دیکر اکٹھا کرنے والیوں کو فورا گرفتار کیا جانا چاہیئے ۔ جو ان کے ہاتھوں میں من چاہے پلے کارڈز پکڑا کر انہیں اپنے گناہوں میں شامل کرنے پر تلی ہیں ۔یہ دو نمبر مادر پدر آذاد عورتیں کس کی شہہ پر یوں کھلم کھلا پاکستانی ہی نہیں ایک اسلامی ملک کے عقائد اور معاشرت کا مذاق اڑانے کے لیئے میدانوں میں امڈ آئی ہیں ۔ یہی عورتیں  وہ ٹڈی دل ہیں جو رحمتوں اور حیا کی فصلوں کو لمحوں میں اجاڑ کر اس قوم کو قحط آبرو میں مبتلا کر دیتی ہیں ۔ 
اور سونے پر سہاگہ قومی اسمبلی میں انہیں عورتوں کے گماشتوں نے وہ واہیات بل عورتوں کے حقوق کے نام پر اسمبلی میں پیش کیا ہے کہ اس ملک میں اس پر عملدرامد کے بعد نہ تو کوئی لڑکی اور عورت شریف اور باکرہ بچے گی اور نہ ہی اس ملک میں دین اور مذہب کے نام پر کوئی زندگی گزارنے کا اصول باقی بچے گا  ۔۔۔
اگر حکومت نے فی الفور ان بازاری عورتوں کے خلاف عملی کاروائی نہ کی تو مجبورا ہمیں سوشل میڈیا پر اور ضرورت پڑی تو میدان میں آکر مہم چلانی پڑے گی ۔۔ 
عورت کے حقوق کے نام پر اسے طوائف بنانا نامنظور نامنظور 
عورت کو تعلیم کا حق دیجیئے،
اپنا جیون ساتھی چننے کا حق دیجیئے ۔  مرضی کے شعبے میں تعلیم حاصل کرنے اور اپنی مرضی سے کسی بھی شعبے میں ملازمت کا حق دیجیئے ۔
اپنا خاندان اپنی خوشی سے بنانے کا حق دیجیئے ۔
باپ اور شوہر کی جائیداد میں حق دیجیئے۔
 طلاق کی صورت میں اس کی زندگی کی حفاظت اور دوسری شادی کا حق دیجیئے۔ 
اپنے پیروں پر کھڑے ہونے کا حق دیجیئے۔ 
یہ وہ تمام حقوق ہیں جو ہمارا دین اسلام ہمیں چودہ سو سال پہلے ہی دے چکا ہے ۔ لیکن ہماری ہندونواز ذہنیت نے ان حقوق کو عورت تک پہنچانے میں اتنی دیر کر دی کہ آج سارا یہود و ہنود مل کر ہماری عورتوں کو گمراہ کرنے کے لیئے ہمارے ہی معاشرے سے نام نہاد مسلمان اور مادر پدر آذاد عورتوں کو ان کا لیڈر بنانے چل پڑا ہے ۔ ہماری یہ ڈسکو نسل عورت و مرد  اگر آج  انگریزی سکول کا دو نمبر نصاب پڑھ کر بے دین اور گمراہ نہ ہو چکی ہوتی تو وہ دین اور حیا کے دائرے کو کبھی پار نہ کرتی ۔ تالا لگائیں بلکہ آگ لگائیں ایسے انگریزی سکولوں کو جن سے نکلنے والی ایک بھی لڑکی یا لڑکا نہ باکردار نکلا  ، نہ مسلمان نکلا ، نہ خوش گفتار نکلا ، نہ حیادار نکلا ۔
سرکاری سکولوں کو آباد کیجیئے تاکہ کل کو آپ کے جنازوں پر فیشن پریڈ نہ لگی ہو  بلکہ چار ہاتھ اور خاص طور پر  آپ کی اولاد کے ہاتھ آپ کی مغفرت کی دعا کو اٹھ سکیں۔ چند آیات کی تلاوت سے آپ کو ایصال ثواب کر سکیں ۔آج اونچے پاجامے پہن کر بڑے بڑے گلے پہنے، باریک لبادوں میں ادھ ننگی عورتیں ، جو قیامت کی کھلی نشانی بنے قوم کی آدھی آبادی کو گمراہ کر رہی ہیں حکومت سے درخواست ہے کہ فورا ان کے اثاثے اور بینک اکاونٹ کی چھان بین کا حکم دیں اور ان کو جیلوں میں ڈالیں ۔ غیر ملکی آقاوں سے حرام کے فنڈز کھانے والی یہ کیچڑ خور بطخیں کسی طور شکنجے نے نہیں بچنی چاہیئے ۔ 
                    ۔۔۔۔۔۔۔۔


اتوار، 10 مارچ، 2019

گھر یا کوڑے دان ۔ چھوٹی چھوٹی باتیں




ہوشیار
بیوقوف عورت آذادی کے نام پر خود کو ٹشو پیپر مت بنانا ۔۔
ورنہ تمہارا مقام کوئی گھر نہیں بلکہ کوڑے دان ہوگا۔۔۔۔۔
(چھوٹی چھوٹی باتیں)
(تحریر۔ممتازملک۔پیرس)


حمد ۔ تو خدا ہے۔ اے شہہ محترم صلی اللہ علیہ وسلم

حمد            
تو خدا ہے
(کلام/ ممتازملک.پیرس  )  

             
تو خدا ہے تیری دنیا ہے خطاوں والی
میں تو بندہ ہوں میری ذات کی توقیرکہاں

اک تیری آنکھ جو پاتال  کو تعمیر کرے
اک میری آنکھ کہ خود کی بھی ہے تصویر  کہاں

خلد کا کھیل ہے تیرے لیئے آنا جانا
میں یہ چاہوں بھی تو بن جائے گی تقدیر کہاں

تو جو چاہے تو دعاوں سے بدل دے قسمت
بے رضا تیرے بھی آئے گی یہ تاثیر کہاں

نام تیرا ہے جو منزل کی نشانی دیدے
یہ جہاں میرے ارادوں کی ہے جاگیر کہاں

اے خدا سوچ کے جگنو کو سلامت رکھنا
ذات کی سیاہی میں اس کے سوا تنویر کہاں

میں ہوں ممتاز مگر میری یہ اوقات کہاں
تو نہ چاہے تو قلم میرا ہے شمشیر کہاں
۔۔۔۔۔۔۔۔

نعت ۔ دیارِ نبی (صلی اللہ علیہ وسلم)۔ اے شہہ محترم ص



نعت 

🌻دیار نبی کا ارادہ کیا ہے
     (کلام/ممتازملک ۔پیرس)
           

دیارِ نبی کا ارادہ کیا ہے 🌻
کہ خود سے ہی ہم نے یہ وعدہ کیا ہے
🌻سجائیں گے صحن حرم آنسوؤں سے
تو مانگیں گے ان کا کرم آنسوؤں سے
🌻وہ رکھیں گے اپنا بھرم آنسوؤں سے
انہیں سب بتائیں اعادہ کیا یے
             دیار نبی کا......

🌻وہاں جالیاں اپنے دل سے لگا کر
میں کھو جاؤں ان کے محلے میں جا کر
🌻میں جنت بقیع سے سفارش کرا کر
سمجھ دل سفر پاء پیادہ کیا ہے
               دیار نبی......

🌻سلامی کا ہم کو بھی موقع عطا ہو
عمل میں  نہ ہم سے کہیں  کچھ خطا ہو
🌻سبھی حرمتوں کا صحیح سے پتہ ہو
یقیں ہو کہ اب استفادہ کیا ہے 
     🌻دیارِ نبی کا ارادہ کیا ہے 
کہ خود سے ہی ہم نے یہ وعدہ کیا ہے 

             (کلام/ممتازملک. پیرس)    


حمد ۔ خوف خدا ۔ اے شہہ محترم صلی اللہ علیہ وسلم


حمد

خوف خدا


اس  دل کا کیا کروں ، جسے خوف خدا نہ ہو 
وہ علم کیا کروں ،جس سے نفع نہ ہو

وہ نفس کیا کروں جسے، حاصل نہیں سیری
مقبولیت نہ پا سکے ، ایسی دعا نہ ہو 

عاجز ہو جائیں تیرے سوا،  اور کسی کے
وہ حال کر کہ عجز میں ، یوں مبتلا نہ ہو

ایسی بزرگی اور، بڑھاپے کا کیا کروں 
جس میں نصیب تیرے، کرم کی عطا نہ ہو

سو نعمتیں اور رحمتیں بخشی گئیں ہمیں 
کیا فائدہ کہ کوئی نفع ، باوفا نہ ہو 

تقوی عطا کیا نہ اگر میرے نفس کو
گویا کہ نفس بار جو تقوی عطا نہ ہو

جتنی گزر گئی ہے اسے معاف کرکے اب
یارب یہ التجا ہے کہ کوئی خطا نہ ہو 

ممتاز رب سے پاک بھلا کوئی ذات ہے
وہ بدنصیب جسکا کوئی آسرا  نہ ہو
۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہفتہ، 9 مارچ، 2019

نعت ۔ نبی وہ آیا ۔ اے شہہ محترم صلی اللہ علیہ وسلم


نعت
نبی وہ آیا
(کلام/ممتازملک۔پیرس)


آیا نبی وہ آیا 
اعلی نظام لایا

سارے جہاں پہ جسکی
ہے رحمتوں کا سایا 

وہ منفرد تھا سب سے 
اعلی مزاج پایا

اس کے قدم مبارک
پلٹی ہے سبکی کایا 

در یتیم سوہنا
وہ آمنہ کا جایا

ممتاز امتی کا 
درد اپنے سر اٹھایا

۔۔۔۔۔





نعت ۔ ماہیئے

ماہیئے نعت
(کلام/ممتازملک.پیرس)

آقا دنیا پہ آئے ہیں 
بخشش کا وہ ہم سب کو، پیغام سنائے
ہیں 

ہم جشن مناتے ہیں
صدقہ ہے نبی جی کے، دربار کا کھاتے
ہیں

کوئی ماہ تمام اپنا
جو اسوہ حسنہ پر ،چلیں پائیں مقام اپنا

کیا خوب مہینہ ہے 
جس میں نہیں ایماں، اس کا کیا جینا ہے 

جہاں آب زمزم ہے 
سرکار کی گلیوں میں، گم جانا مقدم ہے 


کوئی میٹھا میوہ ہے 
اس کو ملا جس نے، کی ماں باپ کی سیوا ہے 


کہیں بارش کا پانی
 مجھے در پہ بلاتے ہیں، آقا کی مہربانی 


دانہ عجوہ کھجور کا ہے 
 سرکار کی محفل میں ،نہ ذکر غرور کا ہے 

کوئی جوڑا ست رنگی 
رب مہر کرے ہم پر ، ہو دور ہر اک تنگی

ہے قبر مکان اپنا
 صرف جمع وہ کر، جو یہاں لائے سامان اپنا 

نہ وقت گوایا کر
فرصت جو ملے لب کو، کلمہ دہرایا کر 


نہ قہر کمایا کر
 کوئی واسطہ دے  رب کا، تو ڈر بھی
جایا کر


اے مست ہوا سپنا  
ہم دوش پہ تیرے ہی پہنچائیں سلام اپنا 
۔۔۔۔۔۔۔                   






دعا / میری قسمت روشن کر دے ۔ اے شہہ محترم


دعا

میری قسمت روشن کر دے
(کلام/ممتازملک ۔پیرس)

تیرا میں جس گھڑی میں نام لے لوں
   میری قسمت کو تُو روشن بھی کر دے  

 تُو مجھ پہ کر کے بارش رحمتوں کی
 بھلے سے تنگئ دامن بھی کر دے

 کہ جو ہر راستہ گلشن بنا دے
 مجھے ایسی کوئ مالن ہی کر دے

 وہ جسکی ہر صدا تیرے لیۓ ہو  
 میرے دل کی وہی دھڑکن بھی کر دے

   سرایت خون میں ممتاز  گر ہو 
حیا داری میری چلمن ہی کر دے
..............

حمد / کسی کوشش ۔۔۔/ اے شہہ محترم


حمد 

کسی کوشش کو
(کلام/ ممتازملک ۔پیرس)




کسی کوشش کسی خواہش کو میں کب مانتی ہوں 
مگر کوئی تو ایسا تھا جسے میں جانتی ہوں 

بھری دوپہر میں سر پر میرے سایہ ہے کرتا 
میں حِدّت کے شروع ہوتے ہی اسکو تانتی ہوں 

میری ہر بھوک میں ہر لمحہ وہ مجھ کو کھلائے
بہت پہلے کہ  کر کے التجا کچھ مانگتی ہوں

مجھے ان سارے صدموں کے سمندر سے نکالے
جنہیں میں خود بلا کر ان میں خود ہی جھانکتی ہوں 


مجھے ممتاز کرتا ہے سبھی دنیا سے اور پھر 
بچاتا ہے مجھے ہر حد سے جو میں 
لانگتی ہوں 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دعا ۔ جینا سکھا مجھے / اے شہہ محترم

دعا
جینا سکھا  مجھے
(کلام/ممتازملک.پیرس)
یارب غم حسین میں جینا سکھا  مجھے
ان کی طرح سے درد کو پینا سکھا 
مجھے

ہر بات پر میں دوسرے کا بغض نہ پالوں 
نکلے گا دل سے کسطرح کینہ سکھا مجھے

 اچھائیاں بھی دوسروں کی دیکھ پائے جو 
نابینا ہو گا کسطرح بینا سکھا مجھے

صبر ورضا کے ساتھ جو رب کو منا سکوں 
ایسا وہ زندگی کا  قرینہ سکھا مجھے

اپنے پرائے سب کے دلوں میں بھی گھر کروں 
چڑھتے ہیں کیسے پیار کا زینہ سکھا مجھے

ممتاز گھر نہ اسکو گناہوں کا بننے دوں 
دل کو بناوں کیسے نگینہ سکھا مجھے
۔۔۔۔۔۔۔۔


نعت ۔ یہ مقام عاشقی ہے / اے شہہ محترم


 نعت 
مقام عاشقی
(کلام/ممتازملک۔پیرس)



دل مضطرب ٹہر جا یہ مقام عاشقی ہے
یہاں زندگی ہے لیکن وہاں اوج زندگی ہے 
تیرےگھرکےسامنے ہےیہ میراوجود فانی 
جو نہ بجھ سکی ابھی تک تو یہ کیسی تشنگی ہے

وہاں جا کے میں نے جانا وہاں جا کے میں نے سمجھے
میری زندگی نے کی جو میرے ساتھ دل لگی ہے

سنی ہردعا خدا نےدرمصطفی کےصدقے
بھلا اس سے اور آگے کیا مقام بندگی ہے 


مجھے شوق بندگی ہے انہیں ذوق آگہی ہے
در مصطفی سے پائی ممتاز سادگی ہے
                        ۔۔۔۔۔۔




اہل بیت کے نام /جنت کے سردار کا غم ہے / اے شہہ محترم

اہلبیت کے نام 
پرسہ 
(کلام/ ممتازملک.پیرس)



ہم سب مسکا پائیں کیسے 
جنت کے سردار کا غم ہے


سر کا صدقہ دیکے بتایا 
نبیوں کی دستار کا غم ہے


جس نے جھلایا باہوں میں اُس
احمد مختار کا غم ہے


جس کے سبب تخلیق جہاں ہے 
دو جگ کے دلدار کا غم ہے


کیسے آنکھیں خشک ہوں میری 
یہ میرے سرکار کا غم ہے


ان کے بنا کیا کوئی مسلماں
دین کے پہریدار کا غم ہے


ان سے مخلص ہونا میرے 
اس دل ذمّہ دار کا غم ہے


عورت ہو کر زندہ ہوں میں 
یہ میرے پندار کا غم ہے


کیا ممتاز انکار ہو اسکا
یہ اللہ کے یار کا غم ہے
۔۔۔۔۔۔

دعا ۔ اللہ ہو اللہ ہو / اے شہہ محترم

               
        دعا

               اللہ ہو ، اللہ ہو

دم دم دے نال ورد کراں تے ہووے اللہ ہو 
اللہ ہو اللہ ہو اللہ ہو اللہ ہو

بخشش تیری میں کر لاں حاصل ایہو جستجو
اللہ ہو، اللہ ہو، اللہ ہو، اللہ ہو

میریاں خطاواں شمار نہ کریو میں نہیں شماریاں جو
اللہ ہو ،اللہ ہو ،اللہ ہو، اللہ ہو

اپنی عطاواں دا بوہا کھولیں میرے اوپر تو
اللہ ہو ، اللہ ہو، اللہ ہو، اللہ ہو 

جان بلاں توں نکلے جس دم لب تے ہووے  تو
اللہ ہو ،اللہ ہو، اللہ ہو، اللہ ہو

تیری پسند دے باہر نہ میں کراں کدی گفتگو
اللہ ہو ، اللہ ہو، اللہ ہو،  اللہ ہو 


مرن توں پہلے پاک ہوجاواں ایہو آرزو 
اللہ ہو، اللہ ہو ،اللہ ہو، اللہ ہو 

وقت نزع آسان کریں جیویں نکلے پھلاں توں بو 
اللہ ہو، اللہ ہو ، اللہ ہو ، اللہ ہو

 طالب دعا
(ممتازملک۔پیرس)


● انٹرویو ممتازملک بائے رقیہ غزل کا تبصرہ / انٹرویو ۔ تبصرے



                                 /
اس لنک کو کلک کیجیئے /



8


  




اس بار کی’’ پرسنیلٹی آف دا ویک‘‘ اردو ادب کا ایک معروف روشن ستارہ ممتاز ملک ہے ۔آپ خود توپیرس میں مقیم ہیں مگر دل پاکستان میں ہے۔حب الوطنی کے جذبے سے سرشار ہیں یہی وجہ ہے کہ اپنی گرانقدر سیاسی اور سماجی تحریروں کے ذریعے پاکستانی مسائل کو اجاگر کرتی رہتی ہیں ۔ادبی اور صحافتی حلقوں میں یکساں مقبول ہیں اور فن شعر گوئی میں اپنے منفرد لہجے اور اسلوب کی بدولت نمایاں مقام حاصل کر چکی ہیں ۔بلاشبہ نسوانی جذبات کا اظہار پروین شاکر نے نمایاں طور پر بہت اچھا کیا ہے ۔ویسے بھی نسوانی جذبات کا اظہار ایک عورت سے بہتر کوئی نہیں کر سکتا کیونکہ وہ عملاً ان تجربات سے گزرتی ہے اس لیے کسی بھی عورت نے جب قلم اٹھایا تو عورت کی بے توقیری ، جذبوں کی پامالی ،مرد کی بے وفائی کے دکھ کو اپنا موضوع سخن بنایا ۔۔ جسے’’ فیمینسٹ ادب‘‘ کا نام بھی دیا جاتا ہے درحقیقت یہ ادبی شعبدہ بازوں کے مفروضے ہیں کیونکہ مرد بھی اسی قسم کے حالات سے گزر سکتا ہے لیکن پھر بھی فی زمانہ عورت جن مراحل سے گزرتی ہے مرد ان کیفیات اور حالات کا اندازہ بھی نہیں کر سکتا ۔اسی لیے بانو قدسیہ نے لکھا تھا کہ محبت میں مرد مشرک ہے جبکہ عورت مواحد ہے ۔عورت ایک ہی خدا کو دل میں سجا کر تمام عمر اس کی پوجا کرتی ہے جبکہ مرد بے شمار چھوٹی چھوٹی مورتیوں کو پوجتا رہتاہے۔ بس یہی وجہ ہے کہ عورت کی شاعری میں مرد کی بہ نسبت درد ،شکوے اور بے وفائی کے تذکرے زیادہ ملتے ہیں جسے اہل ادب’’ فیمینسٹ ادب‘‘ کا نام دیتے ہیں ممتاز ملک نے بھی انھی جذبات و احساسات کو اپنا موضوع سخن بنایا ہے ۔ ہاں ۔۔ مگریہ تسلیم کرنا ہوگا کہ ماضی میں اردو ادب میں جو مقام اور احترام مردوں کو حاصل تھا وہ عورتوں کو خال خال ہی ملا مگر اب ایسا نہیں ہے کیونکہ خواتین نے ہر میدان میں خود کو منوایا تو ادب میں بھی بہترین تخلیقات اور وقار کے ذریعے خود کو ثابت کیا ہے بلاشبہ اپنی پہچان بنانے میں خواتین کے لیے انٹرنیٹ بہت مددگار ثابت ہوا ہے یہی وجہ ہے کہ اچھے اچھے لکھاری سامنے آرہے ہیں اور ذاتی تعلقات کے بل بوتے پر معروف ہونے والے منظور نظر فنکار اوجھل ہوتے جا رہے ہیں ۔ اب سوشل میڈیا کے ذریعے نئے لوگوں کی اچھی شہرت سے تنگ نظر لکھاری خوفزدہ دکھائی دے رہے ہیںاور اکثر و بیشتر اپنی تنگ دلی اور پریشانی کا اظہار کرتے رہتے ہیں کیونکہ وہ نئے لوگوں کے عروج سے سہمے رہتے ہیں کہ یہ کہیں زیادہ عزت حاصل نہ کر لیں ۔بل گیٹس نے تو بہت پہلے کہا تھا کہ :’’انٹرنیٹ ایک طلاطم خیز لہر ہے جو اس لہر میں تیرنا سیکھنے سے احتراز کریں گے ، اس میں ڈوب جائیں گے ‘‘۔بل گیٹس کی بات سچ ثابت ہوچکی ہے کہ آج ہر جگہ انٹرنیٹ کی حکمرانی ہے ۔ سوشل میڈیا بہت حد تک الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کو پچھاڑ چکا ہے۔ جس سے بعض مفاد پرستوں کی بلیک میلنگ رک چکی ہے اور نئے لوگوں کی حوصلہ افزائی اور قدر دانی ہوئی ہے ۔اس کا ثبوت گاہے بگاہے ملتا بھی رہتا ہے مگر ادبی طور پر بھی سوشل میڈیا نے لکھاریوں کے کام کو عوام الناس تک پہنچانے میں اہم کردار ادا کیا ہے یہی وجہ ہے کہ ممتاز ملک رہتی پیرس میں ہیں مگر ان کا کلام اور کالم ان کے پاکستان میں ہونے کا احساس دلاتے ہیں ۔ 
ممتاز ملک کی شخصیت کا احاطہ تو بہت مشکل ہے کیونکہ وقار و تمکنت ان کا خاصہ اور شائستگی انکی فطرت کا حصہ ہے وہ لفظوں سے کھیلنا خوب جانتی ہیں ۔جہاں ان کے لفظوں کی کاٹ قاری کو بڑھکاتی ہے وہاں رم جھم سے گنگناتے ہوئے اشعار ذہنوں پر مثبت اور روحانی سکون چھوڑتے ہیں ۔ انسان بہتے پانیوں کی طرح ان کے سحر انگیز کلام کے زیر اثر شعری تصور کی رو میں بہتا چلا جاتا ہے ۔اور یوں ایک قاری اور سامع ان کا کلام دل و دماغ میں یوں اٹھا ئے پھرتا ہے جیسے وہ کوئی جاگیر لئے پھرتا ہے کیونکہ ان کا اندازواقعی دلپذیر ہے ۔۔کیا خوب کہا ہے ! 
بہت سی ان کہی باتوں کے افسانے بھی بنتے ہیں 
جو ہوتے ہیں کبھی اپنے وہ بیگانے بھی بنتے ہیں 
ممتاز ملک کا شمار ایسے قلمکاروں میں ہوتا ہے جو اپنے محسوسات ،مشاہدات اور عملی تجربات کو دوسروں تک پہنچانے کا فن جانتی ہیں ۔دو شعری مجموعوں کے بعد ـ’’سچ تو یہ ہے ‘‘ کے نام سے مضامین اور کالموں کی کتاب بھی طبع ہو چکی ہے ۔انھوں نے نہایت سادہ اور عام فہم انداز بیان کو اختیار کر کے مختلف مگر بے شمار موضوعات پر طبع آزمائی فرمائی ہے جو کہ قابل داد ہے ۔وہ اس خوبصورت پہچان پر ہماری مبارکباد کی مستحق ہیں ۔ہماری نیک خواہشات اور دعائیں ان کی نذر ہیں۔ وہ سدا سلامت رہیں ۔آ پ کو ان سے کئے گئے سوال و جواب میں ان کی ذات اور کام سے مزید آگاہی حا صل ہوگی ۔ 
                  ۔۔۔۔۔۔۔۔


سوال : آپ کو نثر نگاری یا شعر گوئی کا خیال کیسے آیا یا یہ کہ آ پ ایک لکھاری بننے کیلئے کیسے آمادہ و تیار ہوئیں؟ 
وہی پرانی لیکن سچی بات کہونگی کہ فنکار ، شاعر، لکھاری ، مصور سب پیدائشی ہوتے ہیں۔ ان کی صلاحیتوں کو زیادہ سے زیادہ پالش کر کے نکھارا جا سکتا ہے ۔ انہیں بنایا نہیں جا سکتا ۔ بچپن میں کورس کی کتابیں خریدتے ہی دو تین روز میں ہی ساری پڑھ لیا کرتی تھی ۔ صرف یہ ہی ہوتا تھا ذہن میں کہ اس میں نیا کیا لکھا ہے ۔ یوں جو کتاب سامنے آتی اچھا برا ، بڑوں کا چھوٹوں کا کوئی بھی موضوع ہوتا بلالحاظ و تفریق پڑھنے بیٹھ جاتی تھی ۔ اسی مطالعے نے مجھے بولنے کے لیئے الفاظ کا ذخیرہ عطا کر دیا ۔ جو بعد میں میرے قلم کی سیاہی بن گیا ۔زندگی میں ایک وقت ایسا بھی آیا جب مجھے لگا ایک ایک بندے کیساتھ کھپ کھپ کے اور اس کے ساتھ بحث کر کے اسے کسی بات پر قائل کرنے سے کہیں اچھا ہے کہ میں اسے لکھ کر ہزاروں لوگوں کے سامنے بیک جنبش قلم پیش کر دیا کروں ۔ کچھ لوگ مخالف ہونگے تو وہ اس پر سوچیں گے ۔ اور جو اس بات کے حامی ہونگے وہ اسے مزید آگے بڑھائینگے ۔ سو جناب 2008ء میں ایک مذہبی ادارے کی جنرل سیکٹری منتخب ہونے کے بعد مجھے اس بات کا شدت سے احساس ہوا کہ یہ مائیک کسقدر اہم ہے جسے لوگ مفاد پرستی اور منافقت کے لیئے استعمال کرتے ہیں جبکہ اسے بہت پاورفل انداز میں مثبت تبدیلیوں کے لیئے بھی استعمال کیا جاسکتا ہے ۔ سو میں نے بطور جنرل سیکٹڑی کیساتھ سٹیج سیکٹری کی ذمہ داری بھی سنبھال لی ۔ تین گھنٹے کا پروگرام مکمل مطالعے کے تحت کسی ایک ہی موضوع پر ہوتا ۔ جس میں اس موضوع پر آیات و احادیث و واقعات تجربات ،مشاہدات سبھی کچھ شامل ہوتا تھا ۔ جس کے لیئے میں ایک یا دو پروگرامز کے لیئے سارا مہینہ دیوانہ وار تیاری کیا کرتی تھی۔ بس یہ سمجھیں وہ میرا لکھاری بننے کی جانب ایک بڑا بھرپور اور یقینی قدم تھا ۔ 

سوال : آپ کتنے عرصہ سے اس میدان میں طبع آزمائی فرما رہی ہیں ؟ 
بچپن سے کچھ نہ کچھ لکھا ۔ لیکن میں اپنے سکول کے دنوں میں انتہائی شرمیلی سی شرارتی بچی ہوا کرتی تھی ۔ جو کسی کے بھی اپنی جانب متوجہ ہونے پر گھبرا جایا کرتی تھی ۔ اس لیئے اپنی کوئی تحریر کسی کو سنانے کی کبھی جرات نہیں ہوئی ۔ نہ ہی کبھی چھپوانے کا سوچا ۔ ابو جی بھی بہت سخت مزاج تھے ۔ جن کی وجہ سے یہ شوق دل ہی میں کہیں دفن رہا ۔ ان تحریروں کو سنبھالنے کا خیال بھی تب ہوتا جب وہ مجھے خود بھی اہم لگتا۔ اور یقین ہوتا کہ میں انہیں کبھی کہیں شائع کروا پاونگی ۔ لیکن یہ جراثیم تب سے ہی مجھ میں موجود رہے ۔لیکن باقاعدہ آغاز 2008 ء ہی میں ہوا۔ 

سوال : آپ کوئی سے ایسے دو واقعات بتائیں جنہوں نے آپ کو اس مقام پر پہنچنے کیلئے جنونی یا ہمہ تن مصروف بنا دیا ہے ؟ 
جب مئی 2010 ء میں ایک مذہبی ادارے میں ہی میری مدت عہدہ بطور جنرل سیکٹری مکمل ہوئی ۔ اور مجھے لکھنے لکھانے کی پروگرامز تیار کرنے کی عادت پڑ چکی تھی ۔جبکہ دوسری جانب میرے مخالف گروپ میں خواتین کا وہ گروہ جن سے میری کامیابیاں اور مہمان خواتین کی جانب سے میری پذیرائی برداشت نہیں ہو رہی تھی ، نے ادارے کے انتظامی معاملات پر قابض اپنے باپوں بھائیوں ، شوہروں ، کے ذریعے میرا پتہ کاٹنے اور عہدے عہدے کھیلنے کا پروگرام بنایا ۔ حاسدین اور منافقین کے اس گروہ کا مقصد مجھے بے نام کرنا تھا ۔ لیکن ایک مخلص دوست کو جب میں نے کہا کہ میں اتنی محنت کی عادی ہو چکی ہوں ۔ تو اب یہ تو میرے کام سے فائدہ اٹھانے کو تیار نظر نہیں آتیں تو میں کیا کروں گی ۔؟ تو انہوں نے مسکرا کر کہا ۔ جس خدا نے تمہیں اتنی صلاحتیں دی ہیں وہ تمہیں اس سے بھی اچھا ان صلاحتیوں کو بروئے کار لانے والا کام بھی دیگا ۔ اور واقعی وہ بات ایک ہی ماہ میں سچ ہو گئی ۔ جب مجھ سے میری شاعری کو شائع کروانے کی فرمائش کر دی گئی اور اسکے 6 ماہ بعد ہی مجھ سے کالمز لکھنے کا اصرار ہوا تو مجھے ہمت کرنا ہی پڑی ۔ 

سوال : آپ کوئی سے ایسے دو واقعات بتائیں کہ جب جب آپ کی حوصلہ شکنی ہوئی یا یہ کہ کسی سینئر لکھاری نے آپ کے فن کی بد تعریفی کرتے ہوئے آپ کو بد دل کرنے کی کوشش کی تو آپ نے کیا رویہ یا انداز اپنایا ؟ 
جب 2011ء میں میری پہلی کتاب (مدت ہوئی عورت ہوئے ) کی جلد اشاعت کا اعلان ہوا اور کچھ پروگرامز میں مجھے کلام پڑھنے کے لیئے بھی دعوت دی گئی ۔ بارسلونا ریڈیو پر بھی مجھے ٹیلی فونک مہمان بنایا گیا ۔ تو فرانس میں ایک ہی خاتون کا نام بطور شاعرہ کے زیادہ سنا جاتا تھا ۔ انہیں یہ بات کچھ اچھی نہیں لگی جو کہ بعد میں میں کافی عرصے تک خود بھی محسوس کرتی رہی کہ بطور شاعرہ ان کو میرا کام کرنا ہضم نہیں ہو رہا ۔ ایک دوسری خاتون جو کہ بطور کالمنگار کے کام کرتی رہی ہیں اور میری شروع میں انہوں نے ہی بہت ذیادہ حوصلہ افزائی کی ۔ یا سمجھیں مجھے گھسیٹ کر اس میدان میں اپنی شاعری لانے پر مجبور کیا لیکن جیسے ہی مجھے کالمز لکھنے کی دعوت ملی تو انہوں نے بھی اسے قبول کرنے سے انکار کر دیا ۔ اور مجھے لگے لپٹے اس بات پر قائل کرنے لگیں کہ کہ آپ کی شاعری سے آپ کی توجہ ہٹ جائے گی تو آپ کالمز کی جانب مت جائیں ۔ کیونکہ یہاں شاید انہوں نے مجھے اپنا مدمقابل سمجھنا شروع کر دیا تھا ۔ میں نے انہیں ایک ہی بات کہی تھی کہ نہ تو میں شاعری سوچ سمجھ کر پروگرام بنا کر کرنے بیٹھتی ہوں اور نہ ہی کالم ۔جبکہ میں ذاتی طور پر نہ کل نہ آج کسی کے مد مقابل تھی اور نہ ہوں ۔ ہر ایک کے کام کرنے کا اپنا انداز ہوتا ہے ۔ ہر ایک کا اپنا انداز بیاں ہوتا ہے ۔ اور ہمیں ان سب کی عزت کرنی چاہیئے اور ہر ایک کو اپنا کام پیش کرنے کا موقع دینا چاپیئے اور اس کی کامیابیوں کو بھی خندہ پیشانی کیساتھ قبول کرنے کا ہم میں حوصلہ ہونا چاہییے ۔سو اسی سوچ کے تحت میں نے اپنی ساری توجہ اپنے کام پر مرکوز رکھی اور خوامخواہ کی نمبرداری گیم سے خود کو باہر ہی رکھا ۔ فیس بک زندہ باد جس پر مجھے ہزاروں قارئین مل گئے ۔ جو ایک کلک پر میرے ساتھ موجود تھے ۔ سو میں نے کسی کی منتیں کر کے اپنا کام بھیجنے کے بجائے جن لوگوں نے خود سے مجھ سے رابطہ کیا ، کام بھیجنے کی درخواست کی، انہیں کو کام بھیجا ۔ اور جو ملا اسے خوشی سے قبول کیا ۔ سو آج کی ممتاز ملک اسی مستقل مزاجی اور قناعت کے ساتھ مذید حوصلہ اور جرات لیئے آپ کے سامنے ہے ۔ 

سوال : آپ کوئی سے چند ایسے احباب کا تذکرہ فرمائیں جنھوں نے اس ادبی میدان میں سرگرداں رہنے کے لیے آپ کی سر پرستی فرمائی ؟ 
مجھے اس میدان میں لانے کی کوشش کرنے والی خاتون کو فرانس میں سبھی جانتے ہیں ان کا نام لینا میں اس جگہ مناسب نہیں سمجھتی کیونکہ سرپرستی کرنے والی یہاں کوئی کہانی نہیں تھی ۔ انہوں نے مجھے واحد شاعرہ (اپنی مخالفت میں ) کی چپقلش میں اس میدان میں اتارا جبکہ میرے کالمز کی ابتداء سے وہ خود کو غیر محفوظ سمجھنے لگیں کہ فرانس کی واحد کالمنگار خاتون کا مرتبہ اب ان سے چھن گیا ہے ۔ اس لیے کسی کی جانب سے ایسی کوئی مدد یا راہنمائی مجھے حاصل نہیں رہی ۔ بلکہ میرے کام کو جب پذیرائی ملنے لگی تو مجھے لانے والی خاتون خود بھی تحفظات کا شکار ہو کر میری راہ میں ہر قدم پر روڑے اٹکانے اور میرے خلاف لوگوں کو بھڑکانے والے کاموں میں مصروف ہو گئیں اور یہ مخالفت آج تک جاری ہے 

سوال : آپ چند ایسے لکھاریوں کا ذکر فرمائیں جن کی ادبی خدمات یا انداز یا شخصیت سے متاثر ہیں اور اس سے آپ کے فن میں کیا نکھار یا تبدیلی پیدا ہوئی ؟ 
شاعری میں بڑے ناموں کو تو ہم سب نے ہی پڑھ رکھا ہے اور پسند بھی کرتے ہیں ۔ لیکن مجھے خصوصا جن کے کلام نے ہمیشہ ہی متاثر کیا ہے ان میں حبیب جالب روایت شکن اور انقلابی نظریات لیئے ہوئے ہیں تو محسن نقوی سچ کا آئینہ یوں دکھاتے ہیں کہ دیکھنے والا اپنے عکس سے بھی انجان لگتا ہے ،منیر نیازی جب لفظوں کی مالا پروتے ہیں تو پڑھنے والا ملنگ ہو ہی جاتا ہے ۔ اشفاق احمد کی زندگی کے تجربات ہمیں روشنی کا مینارہ دکھاتے ہیں ۔ تو مشتاق احمد یوسفی اور یونس بٹ کی تحریروں سے تھکی ہوئی زندگی کے اندھیرے میں ڈسکو لائٹس کا سواد آ جاتا ہے ۔ یہ سب مجھے متاثر کرتے ہیں ۔ اور مجھے خوشی محسوس ہوتی ہے کہ میں ان کے ساتھ ایک ہی دور میں موجود ہوں ۔ اور ہمیشہ گنی جاونگی ۔ 

سوال: آپ اپنے چند اہم اور یادگار شعر یا کالم کا تذکرہ فرمائیں جسے بہت زیادہ سراہا گیا ؟ 
میرے پہلے شعری مجموعے کی ٹائٹل نظم مدت ہوئی عورت ہوئ بہت زیادہ سراہی گئی۔ اس کے علاوہ اسی کتاب سے غزل 
جانے کیا بات ہے ہنستے ہوئے ڈر جاتے ہیں 
اب تو ڈرتے ہوئے ہم اپنے ہی گھر جاتے ہیں 
یوں نہ مغرر ہو تو اپنی مسیحائی ہر 
زخم کی رسم ہے اک روز یہ بھر جاتے ہیں 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 
محبت بانٹنے نکلے تھے پتھر لے کے گھر لوٹے 
بہت سے دشت چھانے اور ہو کے در بدر لوٹے 
تمہارے شہر میں ہم نے بڑی رسوائیاں پائیں 
مگر آخر غریباں شہر اپنے شہر لوٹے 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 
ظلمت شب کو بہرطور تو ڈھلنا ہو گا 
اب ہر اک سیپ سے موتی کو نکلنا ہو گا 
سوچکےہیں جوسبھی خواب جگاو لوگو 
دل کوتعبیرکی خواہش پہ مچلناہو گا 
اب توگرگرکے سنبھلنے کا روادار نہیں 
ٹھوکروں سےتمہیں ہربارسنبھلنا ہو گا 
اپنےاعصاب کو،جذبات کو فولادی کر 
دل اگر موم بنا، اس کو پگھلنا ہو گا 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 
کالمز میں بہت زیادہ سراہے گئے جو ہائے بیچارہ مرد، بابائی وبا، بہو ڈھونڈنے کی آڑ میں ۔ علم روزگار=زندگی۔ نتھ بنی نکیل شادی کی رات دولہا کا پہلا خطاب۔ اسلام کے چوکیدار۔۔۔اور بہت سے دوسرے کالمز 
سوال: کہا جاتا ہے کہ شعر گوئی قلبی واردات سے مشروط ہے ۔کیا آپ متفق ہیں ؟ 
جی ہاں جو بات آپ کے دل تک نہیں پہنچتی آپ کی روح کو نہیں جھنجھوڑتی وہ کسی اور پر کیا اثر چھوڑے گی ۔ لیکن اگر اس کا اشارا عشق وشق کی ناکامی کی جانب ہے تو میں اس سے بالکل اتفاق نہیں کرتی۔ پیغمبر پر وحی خدا کی دین ہے تو شاعر پر شعر اللہ کی عطاء ہے ۔ وہ چاہے تو آپ کے دل کو حساسیت کے ساتھ الفاظ کی ترتیب و ترنم عطاء فرمادیگا۔وہ نہ دے تو کوئی شعر کوئی نغمہ ترتیب نہیں پا سکتا ۔ 

سوال : آپ کس صنف سخن کو اپنے لیے سہل اور موافق طبع پاتی ہیں ؟ 
میری شاعری اور نثر نگاری دونوں شروع سے ہی ساتھ ساتھ چل رہے ہیں ۔ کون سی صنف میرے لیئے زیادہ سہل ہے یا موافق ہے اس کا فیصلہ میرے لیئے مشکل ہے ۔ اپنی سمجھ سے بنا کر کریں تو دونوں مشکل اور آمد ہو تو دونوں آسان ۔ 

سوال:اس وقت حکومتی اور نجی سطح پر جو مشاعرے منعقد ہو رہے ہیں ان کے بارے آپ کی کیا رائے ہے ؟ 
پاکستان میں تو مجھے سرکاری مشاعروں میں جانے کا کوئی اتفاق نہیں ہوا ۔ اس لییے کوئی تبصرہ نہیں کر سکتی ۔ ہاں فرانس میں ہماری ایمبیسی کے تحت جب بھی کوئی پروگرام ہوتا ہے تو اس میں ان کے من پسند قصیدہ گو ہی بلائے جاتے ہیں ۔ جو کہ میں نہیں ہوں ۔بلکہ مزے کی بات یہ ہے کہ اردو زبان کے نام پر بھی جو دو چار پروگرام ایمبیسی کے تحت ہوئے بھی ان میں فرانس میں اردو شاعروں اور لکھاریوں میں سے کوئی نمائندگی نہیں تھی ان پروگراموں میں کیا ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے یہ ہمارے سفیر صاحب ہی بہتر بتا سکتے ہیں ۔ جو یہاں پر بادشاہ سلامت کا رول ادا کر رہے ہیں۔ 

سوال : آپ اپنی چند ایسی تخلیقات کا ذکر فرمائیں جو ُآپ کو بہت پسند ہوں ؟ 
میں سماجی اور اخلاقی موضوعات پر لکھنا زیادہ پسند کرتی ہوں ۔ آپ مجھے معاشرتی اور گھریلو مسائل پر بات کرتے ہوئے ذیادہ پائیں گی ۔ کیونکہ میں سمجھتی ہوں ہر گھر معاشرے کی ایک بنیادی اکائی ہے اور جب بہت ساری اکائیاں اکٹھی ہوتی ہیں تو ہی کوئی معاشرہ تشکیل پاتا یے ۔ اور وقت کے ساتھ ساتھ معاشرے میں ہونے والی تبدیلیوں پر نظر رکھ کر اپنے معاشرے کی خرابیوں کی نشاندہی کرتے رہنا اور اس کی اصلاح کے لیئے تجاویز پیش کرتے رہنا ہی ایک اچھے لکھاری اور کالمنگار کی ذمہ داری ہے ۔ جو میں بھی پوری کرنے کی کوشش کرتی ہوں ۔ اسی سلسلے میں میری گھریلو مسائل پر لکھی گئی تحاریر اور بچوں کی پرورش اور بڑھتی عمر کیساتھ ان کے مسائل پر لکھی گئی تحاریر میرے دل سے بہت ذیادہ قریب ہیں ۔ جیسے کہ بچے ،بچپن اور تحمل ۔ پاس نہیں قریب رہو ۔ مائیں بور نسلیں تباہ ۔ گھروں کو گھر ہی رہنے دیں ۔ اور بہت سے دوسرے کالمز میرے دل کی آواز ہیں ۔ 

سوال : اگر آپ کا کالم یا ادبی شہ پارے پرنٹ ہوتے ہیں تو ان کا نام بتائیں ؟ 
میرے کالمز چالیس (40) سے زیادہ ویب نیوز پیپرز میں جاتے ہیں ۔ جن میں جنگ اوورسیز، آذاد دنیا،ڈیلی پکار ، سویرا نیوز ، جذبہ نیوز۔ دی جائزہ ، ڈیلی میزبان ، عالمی اخبار اور بہت سے دوسرے۔ 
میری اب تک تین کتابیں شائع ہو چکی ہیں ۔ 
1۔ مدت ہوئی عورت ہوئے (شعری مجموعہ2011) 
2۔میرے دل کا قلندر بولے( شعری مجموعہ 2014) 
3۔سچ تو یہ ہے(مجموعہ مضامین2016) 
اس سال انشاءاللہ نعتیہ مجموعہ متوقع ہے ۔ 

سوال :آپ پاکستانی سیاست کا کیا مستقبل دیکھتی ہیں اور کیا ہمارے وزیراعظم کرپشن سے پاک پاکستان کا عہد پورا کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے ؟ 
پاکستانی سیاست میں جب تک اسٹیبلشمنٹ کی دخل اندازی ختم نہیں ہو گی ۔ اور جادوئی فیصلوں کی جگہ منصفانہ اور میرٹ پر فیصلے نہیں ہونگے تب تک غیر یقینی کی صورتحال برقرار رہےگی۔ وزیر اعظم صاحب سے ہم اچھی توقعات رکھتے ہیں ۔ 

سوال:پوری دنیا میں خواتین کا عالمی دن منایا جا رہا ہے ۔آپ کی جائے پیدائش پاکستان ہے ۔پاکستان میں خواتین کی جو حالت ہے اس سے آپ بخوبی آگاہ ہیں مگر اب آپ پیرس میں مقیم ہیں اور مغربی خواتین کسی حد تک آزاد ہیں تو کیا آپ سمجھتی ہیں کہ پاکستانی خواتین مغربی خواتین کی نسبت مغربی اپنے حقوق کی حفاظت کرنا جانتی ہیں ؟ 
پاکستانی خواتین کو پاکستان میں اگر کچھ زیادتیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو انہیں یورپئین خواتین کے مقابلے میں بے شمار سہولتیں اور فوائد حاصل ہیں ۔ معاشی بوجھ بھی ان کے کندھوں پر اتنا زیادہ نہیں ہے ۔ ایسی صورت میں اگر پاکستانی خواتین ہر شعبے میں ہنر مند نہ ہوں اور پیشہ ورانہ تعلیمی اورعملی میدانوں میں نام پیدا نہ کریں تو نہایت افسوس ہو گا ۔ اور یورپ میں زیادہ تر آفس ورک یورپی خواتین ہی کرتی ہیں جو مجھے بہت اچھا لگا ۔ پاکستان میں خواتین کو سکولز کے علاوہ بینکنگ ،پولیس ،ہاسپٹلز،اور باقی تمام شعبہ جات میں بھی صرف آفس ورک کا ہی مکمل سٹاف بنا دیا جائے جن کی ہیڈ بھی اہل قابل خواتین ہی ہوں تو نہ صرف ہمارے آدھی آبادی کو بہترین روزگار میسر آئے گا بلکہ انہیں اپنی بھرپور ذہنی صلاحیتیں جو کہ ماسٹرز کرنے کے بعد بھی ٹی وی دیکھنے فون پر چغلیاں کرنے، شاپنگ میں پیسہ اڑانے ،بیوٹی پالرز میں اور بوتیکس پر اپنے زندگی کے قیمتی گھنٹے اور میاں اور باپ کی کمائی اڑانے میں ضائع کرتی ہیں ، کے بجائے موثر انداز میں ملک کی خدمت اور اپنے خاندان کے لیئے آمدنی کا موثر ذریعہ بن سکتی ہیں ۔ اور فضول کاموں سے بچ سکتی ہیں ۔ 
رہی بات یورپ میں پاکستانی خواتین کی تو وہ بہت حوصلے اور ہمت والی ہوتی ہیں ۔ لیکن زیادہ تر ان کے گھروں سے ان کے شوہروں کی حمایت نہ ہونے کے سبب وہ اپنی صلاحیتوں کو منظر عام پر کبھی نہیں لا پائی ہیں ۔ شاید اس کی وجہ ان خواتین کا زیادہ تعلیم۔یافتہ ہونا اور ان کے شوہروں کا کم پڑھا لکھا ہونا یا اکثر ان پڑھ ہونا بھی ہے ۔ پیرس اور یورپ کے نام پر ان کو پڑھی لکھی بیویاں تو مل گئی ہیں لیکن ان کا احساس کمتری اور اپنی کم مائیگی کا احساس شدت اختیار کر چکا ہے ۔ جس کا ثبوت کام کرنے کی اجازت تو چھوڑیئے اپنی پڑھی لکھی بیگمات کو بھی کبھی کسی پبلک پروگرام یا فیملی پروگرام میں بھی نہیں لیکر جاتے ۔ لیکن اب جب اپنی بیٹیاں پڑھ لکھ کر مختلف شعبوں میں کام کرنے کو نکل رہی ہیں تو اب فرماتے ہیں کہ کیا کریں جی وقت کی ضرورت ہے ۔ یعنی کسی کی بیٹی بیاہ کر لائے تو اس کا کسی کے سامنے آنا بھی وقت کی ضرورت کے خلاف تھا جبکہ اپنے بیٹیاں اب جو مرضی کر لیں سب وقت کی ضرورت ہے ۔ جبکہ سچ یہ یے کہ اب یہاں کی پڑھی لکھی بچیاں اپنے فیصلے خود کرنا پسند کرتی ہیں ۔ جو کسی حد تک بہت اچھی بات ہے ۔ کہ ماں کی حالت دیکھ کر وہ اس حال کو پہنچنا یا اس جیسی زندگی گزارنا پسند نہیں کرتی ہیں ۔ وہ عملی میدان میں بھی اپنے ہنر دکھانا چاہتی ہیں ۔ 

سوال : نیا لکھاری آپ سے کوئی راہنمائی حاصل کرنا چاہے کہ وہ بھی آپ کی طرح معروف و مقبول بن سکے تو آپ کیا مشورہ دیں گی ؟ 
پہلی بات تو یہ ہے کہ میرے نزدیک معروف ہونا ایک الگ معاملہ ہے اور مقبول ہونا دوسرا ۔ 
۔اگر اپ کو معروف ہونا ہے تو قصیدے لکھیئے ۔قصیدے کامیابی کی پہلی سیڑھی ہوتے ہیں ۔ اچھا اچھا بولیے کریلے کے عرق کو جوس بولیے، لیکن اگر آپ کو مقبول ہونا ہے تو سچ بولیئے اور سچائی کی خاطر کبھی سمجھوتہ مت کیجیئے۔ اس میں ہو سکتا ہے آپ کو مال تو زیادہ نہیں ملے گا لیکن سکون کی دولت سے آپ کا دامن کبھی خالی نہیں ہو گا ۔ کام کیجیئے پورے خلوص اور صبر کیساتھ اور سیکھنے کے لیئے ہمیشہ تیار رہیے ۔ یہ سوچے بنا کہ آپ کو کوئی مشورہ یا سیکھ دینے والا آپ سے جونئیر ہے یا سینئر ۔ اسی میں کامیابی کا راز پوشیدہے ۔ 

سوال : آپ نے اگر کوئی اعزازات ،انعامات یا اسناد حاصل کر لی ہیں تو ان کا ذکر فرمانا مناسب سمجھیں گی ؟ 
سنا ہی ایوارڈ و اسناد حاصل کرنے کے لیئے ہمارے ملک میں آپکی بڑی واقفیتیں اور گٹھ جوڑ ہونے چاہیئیں ۔ ایوارڈ کی رقم میں حصہ داریاں دینے والے جلدی جلدی اعلی نام و مقام حاصل کر لیتے ہیں ۔ 
میری کیونکہ ایوارڈ دینے والوں سے ابھی ایسی کوئی شناسائی نہیں ہوئی اس لیئے جو خود سے ملے اس میں چکوال پریس کلب کی جانب سے 2016 ء میں دھن چوراسی ایوارڈ۔ اور 2018ء میں ٹونی ٹی وی امریکہ کی جانب سے حرا فاونڈیشن نے ایوارڈ دیا ہے ۔ 




جمعہ، 8 مارچ، 2019

نعت ۔ یکسر بدل گئے

نعت پاک

یکسر بدل گئے 
(کلام/ممتازملک۔پیرس)

آئے میرے نبی تو  عناصر  بدل گئے 
حالات شرق و غرب میں یکسر بدل گئے

ہربات پرجو دست و گریباں تھے وہ سبھی 
بیرحم تھےجو قابل زنداں تھے وہ سبھی
ایماں کی روشنی میں وہ آ کر سنبھل گئے
حالات شرق و غرب میں یکسر بدل گئے 


یہ آپ نے سکھایا کہ پابندی عہد کر 
انسان تو خدا سے امانت کو لے کے ڈر 
بدتر تھے جو وہ وقت سے بہتر نکل گئے
حالات شرق و غرب میں یکسر بدل گئے 

بنجر حیات تھی جو وہ گل پوش ہو گئی
مایوسی بے یقینی تھی روپوش ہو گئی
کوئی کسی سےکم نہ تھا کہکر عمل گئے 
حالات شرق و غرب کے یکسر بدل گئے

                     ۔۔۔۔۔۔۔     

نعت ۔ اے میرے دل



نعت 
اے میرے دل 
(کلام/ممتازملک.پیرس )



اے میرے دل تو مجھے چھوڑ کے آگے نہ نکل
راستے عشق کے ہیں تو ذرا محتاط سا چل

اتنا ناپاک کیا سارے زمانے نے تجھے 
 پاک ہونے کے لیئے  جسم   پہ  اس خاک کو مل 

لوگ کہتے ہیں تو رک دل میرا بولے کہ نہیں 
سخت وحشت ہے مدینے کی طرف  آج نکل 


خار پیارے ہیں نبی پاک کی گلیوں کے ہمیں 
پھول دنیا کے کسی طور نہیں ان کا بدل 


جب تعین میرے سرکار کریں منزل کا 
راہ میں چھوڑ دے دنیا کے یہ سب مال و محل 


جلد سرکار کے دربار  سے ائے گا بلاوہ ممتاز
اور کچھ دن ہیں نہ بیتابی سے اس طور مچل 
                   ۔۔۔۔۔۔





جمعرات، 7 مارچ، 2019

حمد ۔ جو لامحدود ہے/ اے شہہ محترم صلی اللہ علیہ وسلم


حمد

جو لامحدود ہے
(کلام/ممتازملک.پیرس)

کہاں گم وسعتوں میں تو کھڑ اہے
   جو لا محدود ہے میرا خدا ہے

   وہ نظروں  سے میری  باہر بھی ہے اور  
  وہ نظروں میں بھی لیکن بس رہا ہے  

کوئی رحمت پہ بھی خوش ہو نہ پائے
کوئی نعمت پہ بھی الجھا ہوا ہے 

کسے دیگا کسے محتاج رکھے 
یہ اسکا بھید ہے وہ جانتا ہے

 تجھے ضد لے گئی  طوفان میں اور  
 جو تھا عاجز حفاظت میں  کھڑا ہے

  تکبر خودسری دشمن خدا کی 
بھلا ممتاز بندہ کیوں اڑا ہے 
۔۔۔۔۔

نعت ۔ سدا صلی علی ہے / اے شہہ محترم


نعت 
سدا صلی علی ہے
(کلام۔ ممتازملک.پیرس)


نبی کا نام لیوا ہر جگہ ہے 
سدا صلی علی صلی  علی ہے

کمائی وہ جو میرے ساتھ جائے
بھلائی وہ جو میرے کام آئے 
 وگرنہ سب یہاں ماٹی ملا ہے 
سدا صلی علی صلی علی ہے

میری سچائی ہو آئینہ تیرا 
امانت اور دیانت جینا تیرا
اصولوں پر گواہی سلسلہ ہے
سدا صلی علی صلی علی ہے


پڑھی سیرت تو آنکھیں نم ہوئی ہیں 
بڑے کردار سے باہم ہوئی ہیں 
کمال ضبط کا عقدہ کھلا ہے 
سدا صلی علی صلی علی ہے 

                ۔۔۔۔۔۔                
اے شہہ محترم صلی اللہ علیہ وسلم             


دعا ۔ میں بھی فرشتہ ہوتی ۔ اے شہہ محترم


دعا
میں بھی فرشتہ ہوتی
(کلام/ ممتازملک.پیرس) 



تیرا کیا جاتا اگر میں  بھی فرشتہ ہوتی
لے کے قرآن کسی کونے میں بیٹھی ہوتی

رات دن تیری عبادت میں بسر میں کرتی
تیرے ہر حکم کو بند آنکھوں میں مانا کرتی

تو جو کہتا کہ سحر ہے تو میں کہتی ہاں ہے 
تو جو کہتا کہ نہیں ہے تو میں سچ ہے کہتی

پاک ہوتی میں گناہوں سے عذابوں سے تیرے
اک تیرا نام میں لے لیکے خوشی سے جیتی

حاضری تیری ہی خدمت میں مقدر ہوتی
اور اسی چاکری پہ میں بڑی نازاں ہوتی

پھر میرا نام بھی ممتاز بھلے نہ ہوتا
غیر ممتاز ہی رہتی تیری ہو کر رہتی 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

انٹرویو رقیہ غزل کا ممتازملک سے



https://youtu.be/wY
RZbb-Ibsk

پاکستان میں خواتین ماسٹرز کرنے کے بعد بھی چغلی کرتی ہیں
نامور شاعرہ و کالم نگار ممتاز ملک ںے حیران کن انکشاف کردیا۔
انکشافات سے بھرپور گفتگو پڑھیے آپکی بات ڈاٹ کام کے خصوصی سلسلہ "پرسنیلٹی آف دا ویک" میں
مکمل اور واضح پڑھنے کے لیے مندرجہ ذیل لنک پر کلک کریں

https://www.apkibat.com/new.php?id=5529



نعت ۔ سرکار کے پاس


سرکار کے پاس
(کلام/ممتازملک.پیرس) 


ہم بڑی دور سے سرکار کے پاس آۓ ہیں 
بھیگا دامن یہ تیرے سامنے پھیلاۓ ہیں 

اپنے دامن میں ندامت کے سوا کچھ بھی نہیں 
آسرا تیرا ہے قدموں میں چلے آۓ ہیں 

نہ جہاں خوش ہے نہ رب کو ہی کیا ہے راضی
جانے کیا ہو گا ہمارا بڑے گھبراۓ ہیں 

اس جہاں پار خدا جانے کریں گے کیسے 
پار دنیا کے پل صراط نہ کر پائے ہیں 

فیصلے اپنے فہم سے جو کیئے تھے ہم نے
آج انہی فیصلوں کی راکھ اڑا آۓ ہیں 

اپنے پہلو میں ہی آرام کا موقع دیدو
ہم بڑی دیر سے سرکار نہ سستاۓ ہیں

اس جہاں کی ہے مشقت بڑی ظالم آقا
آزمائش کے یہاں ساۓ ہی لہراۓ ہیں 

کون اپنا ہے یہاں کون پرایا آقا
چار سو ہم نے تو اغیار یہاں پاۓ ہیں 

ہم نے تو آنکھ اٹھا کر ہے جدھر بھی دیکھا
غم و اندوہ کے ممتاز یہاں ساۓ ہیں 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

شاعری / /مدت ہوئ عورت ہوۓ/ ممتاز قلم / سچ تو یہ ہے/ اے شہہ محترم/ سراب دنیا/ نظمیں/ پنجابی کلام/