ممتازملک ۔ پیرس

ممتازملک ۔ پیرس
تصانیف : ممتازملک

منگل، 14 فروری، 2017

یوم محبت

یوم محبت
ممتازملک. پیرس

کیا ہمارا مذہب ہمیں خوش ہونے سے روکتا ہے ؟
یا
کیا ہمارا مذہب ہمیں ہمارے رشتوں اور دوستوں سے محبت کے اظہار سے روکتا ہے ؟
بلکل نہیں اسلام تو رشتوں کو ایک دوسرے سے باندھے رکھنے کی ترغیب دیتا ہے .
رشتہ داروں سے محبت،
رقابت داروں سے محبت،
اپنے پڑوسیوں سے محبت،
اپنے بچوں سے محبت،
اپنے باپ کے دوستوں سے محبت ،
اپنی ماں کی سہیلیوں سے محبت،
اپنے دوستوں اور سہیلیوں سے محبت ،
اپنے بہن بھائیوں سے محبت،
اپنے ماں باپ سے محبت،
اپنے ساتھ کام کرنے والوں سے محبت،
اپنے شوہر سے محبت،
اپنی بیوی سے محبت، 
ذرا دیکھیئے تو اسلام تو سراپا محبت ہی محبت ہے ...
سڑکوں پر پلنے والے عاشقی معشوقی کے کھیل کو محبت کہہ کر اس کی تذلیل نہیں کرنی  چایئے.  کیونکہ
محبت گھروں سے نہیں بھگاتی. .
محبت چھپ چھپ کر ملنے پر مجبور نہیں کرتی ...
محبت اپنے ماں باپ کے منہ پر کالک نہیں  ملواتی...
محنت بڑوں کے سر میں راکھ نہیں ڈلواتی..
محبت اپنوں سے بغاوت نہیں کرواتی...
محبت گھر سے زیور پیسہ لیکر غائب ہونے  کا مشورہ نہیں  دیتی ...
محبت لڑکیاں برباد نہیں کرواتی.....
محبت دوسرے کا مال نہیں کھلکواتی...
محبت بدکار نہیں ہوتی..
سو جسے اعتراض ہوا ،
میاں بیوی کی یوم محبت پر اپنی تصویر پوسٹ کرنے پر ،اسے بھی پڑھ لیجیئے.ہمیں پوچھا گیا ...
سوال....
کیا آپ مسلمان ہیں ؟
جواب....
جی نہیں صرف آپ مسلمان ہیں ..
اب خوش...
کسی کی بھی ذاتی خوشی میں منہ مارنے سے پرہیز کریں پلیز
دوسرے کی ذاتی آذادی میں مداخلت نامنظور مسٹر بہت زیادہ مسلمان ...
اپنے جائز رشتوں کیساتھ یوم محبت منانے میں کسی کی کیا مجال کے ہمیں روکے . یہ تو اللہ کو پسند ہے کہ اپنے رشتوں سے محبت کا اظہار کرو .
ویسے بھی رشتوں میں پیار کا اظہار ہوتا رہے تو وہ ہمیشہ تروتازہ رہتے ہیں ..
سو رشتوں کی آبیاری اظہار محبت کے پانی سے کیجیئے . آزمائش شرط ہے ..
ہیپی ویلنٹائین کہنا کوئی لازمی نہیں ہے . اسی بہانے  اس مصروف ترین بھاگتی دوڑتی زندگی میں ، سال کا کوئی دن بنام  "یوم محبت" اپنے پیاروں  کے نام ضرور کیجیئے
سوال ..
اسلام میں ذاتی آذادی نہیں چلتی ہے.
جواب ...
کیوں نہیں چلتی  ہے ؟
آپ کوئی نیا اسلام ایجاد نہ کریں ...
اسلام تو کسی کے کھلے دروازے  سے بھی بلا اجازت کسی  کے گھر اور کمرے میں جانے کی اجازت نہیں دیتا .
یہاں تک کے سگے  رشتے بلا اجازت کسی کے کمرے میں داخل نہیں ہو سکتے ...
کسی کے دروازے پر دستک دو. .
تو دروازے کے ایک طرف کھڑے ہو کر .. تاکہ اندر کسی پر ایک دم آپ کی نظر نہ پڑے .
کیونکہ یہ اس کی ذاتی آذادی ہے ...
اسلام سے زیادہ کون سا مذہب انسان کی شخصی آذادی کا علمبردار ہے ...
جا کر اپنے علم کی اصلاح کریں بھیا جی . خوش رہیں
کہتے ہیں عورتیں اپنے گھروں میں بیٹھتی ہیں اور اپنی تصاویر یوں غیر لوگوں میں شئیر نہیں کرتیں ...
ہم اپنے ہی گھر میں بیٹھے ہیں الحمداللہ ...
ویسے ..
اللہ نے یہ نہیں فرمایا کہ عورتوں کی آئی ڈیز پر جا کر گپیں نہ لگاو  .
دوسروں کی عورتوں کی تصویریں نہ دیکھو...
ان بکس میں چاتیاں نہ مارو.
یہ آدھا اسلام ہی غرق کر گیا ہمیں خیر سے...
ہائے اس کچے مسلماں کا مسلماں ہونا 😲😲😲😲

جمعہ، 10 فروری، 2017

یورپ پر اعتراض ۔ کالم




یورپ پر اعتراض؟ ؟؟
(تحریر:ممتازملک. پیرس)



مجھے کہا گیا کہ آپ اس یورپ کی بات کر رہی ہیں جہاں یہ یہ یہ عیب ہیں ...
ان میں یہ یہ اور یہ خرابیاں ہیں ....
بلکل میں اسی یورپ کی بات کر رہی ہوں جسکے لیئے میرا نقطۂ نظر ہے کہ
جہاں
لاکھوں مسلمان عزت اور حفاظت  کیساتھ اپنے مذہب کے مطابق زندگی گزار رہے ہیں ..
جہاں مسلمان سالوں گھر بیٹھے یورپی حکومتوں سے وظیفے کھاتے ہیں ..
اولڈ ہاوس کا طعنہ دینے والے سن  لیں کہ
جہاں بہووں  اور بیٹوں کے ہاتھوں زہر دیئے جانے اور ماں باپ سے اپنے بچے پلوانے اور
جائیدادیں زبردستی اپنے نام پر  کروانے،
اور گھر کا چوکیدارہ کروانے
کی بجائے ہزاروں روپے ماہانہ دیکر ان کی عمر کے لوگوں کی صحبت  میں، انہیں نوجوانوں کے لیئے اپنے زندگی بھر کے تجربات سے کام لینے کے لیئے مشاورت اور ان کی بہترین دیکھ بھال کے لیئے داخل کیا جاتا ہے...
اور وہاں وہ قیدی نہیں ہوتے فعال رکن ہوتے ہیں جہاں ان کی مرضی بھی چلتی ہے اور خواہش بھی پوری کی جاتی ہے ...
اور انہیں تنہائی میں بیٹے اور بیٹی کے انتظار میں تڑپتا نہیں چھوڑا جاتا ...
اپنی مرضی سے لڑکا لا کر  ماں باپ سے شادی کا اعلان کرنے کا طعنہ +اعتراض کرنے والو
جہاں لڑکی قرآن سے بیاہنے،
اس کی کمائی کھانے،
یا اس کا جبری نکاح =زنا شادی کے نام پر یا
گھر کی جائیداد باہر نہ چلی جائے کہہ کر، باپ بھائی گھر نہیں بٹھاتے
بلکہ جہاں اس لڑکی کو کوئی اچھا لگے ،
اسے ماں باپ سے ملوا کر اسے اس کی پسند کے اپنے گھر بیاہ کر بھیج دیا جاتا ہے ...
جہاں بن بیاہی بیٹیاں گھر پر بٹھا کر انہیں گناہ پر مجبور کر کے اور پھر  ان کے گناہ چھپا کر کسی کے متھے  نہیں لگائے جاتے،
اسی کے نام پر ڈالے جاتے ہیں ،
چاہے وہ مرد  اسے اپنائے یا نہ اپنائے،
اپنا نام اور دامن نہیں بچا سکتا کہ "جا سارا محلہ گواہی میں لاو تو مانیں گے کہ یہ معصوم سا مرد گناہگار بھی ہو سکتا ہے" ...
آپ کا یہ اخلاقی معیار آپ کومبارک ہو جہاں ہر گھر میں عورت ماں بنکر  بھی پٹ رہی ہے. اور ماں باپ کے اللہ بخشے ہونے تک وہ ہمیں عذاب ہی لگتے ہیں کہ کیا ہر وقت بولتے ہی رہتے ہیں جان ہی نہیں چھوڑتے ...
بیوی بن کر بھی ہر طرح کے استحصال کا شکار ہے. ہر خدمت کے بعد بھی یہ بے تنخواہ کا مزدور  اپنی دو روٹی کے لیئے  ہمیں بوجھ لگتا ہے ..
بچے بچیاں زانیوں  کے ہاتھ چڑھ رہے ہیں اور پھر بھی حکم ہے کہ سشششش کسی کو پتہ نہ چلے خاندان کی عزت کا سوال ہے  ...
کاش ہمیں ہمارے گریبان میں جھانکنا آجائے ۔
اور رہا مسلمانوں کا قتل عام کا سوال ۔۔۔
تو نہ کروائیں اپنا قتل عام ..
کریں ان کی ایجادات کا مقابلہ
ان کے علم کا مقابلہ
ان کی تہذیب کا مقابلہ ..
جب اللہ بھی آپ کی مدد نہیں کر رہا تو  جھانکیئے اسی قرآن پاک  میں کہ جہاں وہ فرماتا ہے ،
میں ہر اس قوم کو عروج عطا کرتا ہوں کہ جو محنت کرتی ہے اور آگے بڑھنے کا عزم اور ارادہ رکھتی ہے .
خدا اس قوم کی حالت کبھی نہیں بدلتا جو خود محنت ، علم اور ہنر میں کمال حاصل نہیں کرتی.
خواب دیکھنے پر کوئی پابندی نہیں ہے جناب ...
جہاں بات بات پر ہم جیسے کمزور اعمال والے اپنے لیئے نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  اور آل نبی کی مثالیں دیتے نہیں تھکتے .ان سے صرف اتنا ہی عرض کرنا ہے کہ
خود کو کربلا والوں کیساتھ ملانے سے پہلے
ہمیں ہماری کرتوتوں کا بھی ایک بار جائزہ ضرور لینا چاہیئے . شاید ہمیں شرم آ جائے اور ہم ان مقدس ہستیوں کا نام لینے سے پرہیز کریں ...
مگر ہم سچائی کا آئینہ اس لیئے توڑ دیتے ہیں کہ یہ ہمیں ہماری مکروہ صورت دکھاتا ہے .
آج ہم دو ارب سے زیادہ کی آبادی ہو کر تین سو تیرہ جتنا ایمان اور عمل حاصل نہ کر سکے...
افسوس یہ وہی زمانہ ہے جسے سوچ کر ہمارے نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آنکھیں بھیگ جایا کرتی تھی .
😢😢😢😢.......ھ
  (ممتازملک. پیرس)

منگل، 7 فروری، 2017

● (57) سخت مشکل میں ہوں / شاعری ۔سراب دنیا



 (57) سخت مشکل میں ہوں 
           ( کلام:ممتازملک۔پیرس)



میں محبت کے ماروں کی دنیا سے ہوں 
مجھ سے کیجیے وفا سخت مشکل میں ہوں

دور تک درد کی سرحدیں جا چکیں
کوئی دیدو دوا سخت مشکل میں ہوں

زندگی قید میں اک زمانے سے ہے
اب توکر دو رہاسخت مشکل میں ہوں

تجھ سے کوئی بھلائی توقع نہیں 
کوئی کر دے بھلا سخت مشکل میں ہوں

اسکی جاتی ہےجسکی ہو عزت کوئی 
کیا گیا ہے تیرا سخت مشکل میں ہوں

ہر گھڑی جس نے مشکل میں ڈالا مجھے
مجھ سے وہ کہہ گیا سخت مشکل میں ہوں

چھین کر پوچھتا ہے ٹھکانے سبھی 
ہے کہاں آسراء سخت مشکل میں ہوں

جس کو سونپے تھے درجے حفاظت کے وہ
راہزنوں سے ملا سخت مشکل میں ہوں

کہہ کے ممتاز یوں آزمائے گئے 
ہو گئی انتہاء سخت مشکل میں ہوں

اب شش و پنج میں مجھ کو رہنا نہیں 
ہو کوئی فیصلہ سخت مشکل میں ہوں

بھول بیٹھے ہیں پرواز کی جب ادا

در قفس کا کھلا سخت مشکل میں ہوں 
●●●
کلام: ممتازملک.پیرس 
مجموعہ کلام: سراب دنیا
اشاعت: 2020ء
●●● 



پیر، 6 فروری، 2017

نکاح اور نگاہ


"جو عورت" نگاہ" میں رہتی  ہے وہ" نکاح" میں نہیں رہتی ...
اور جو "نکاح" میں رہتی ہے وہ" نگاہ" میں نہیں رہتی ...."
یہ اور اس جیسی تھیوری پر سوچنے اور عمل کرنے والوں سے سوال ہے کہ اماں حوا سے لیکر نبیوں کی بیٹیوں اور بیبیوں تک ...
اور ان محترم ہستیوں سے لیکر ہماری آزادی کی مجاہدات تک
رانا لیاقت علی ، فاطمہ جناح ،
آج کی بلقیس ایدھی....
دن رات کھیتوں میں کام.کرنے والیاں ، فیکٹریوں کارخانوں میں کام کرنے والیوں ...
جہاز اڑانے والیاں ،
آپ کے زخموں پر مرہم اور پھاہے رکھ کر نرسنگ کرنے والیاں،
میدان جنگ میں جان دینے والیاں ،
آپ کی نسلوں کو استاد بنکر تعلیم دینے والیاں ،
آپ کے بچے پیدا کرنے کو دن رات موجود ڈاکٹر کی صورت مسیحائی کرنے والی ،  آپ کی وکالت کرنے والیاں ،
جج بن کر فیصلے کرنے والیاں ،
رپورٹر بن کر ہر موسم کا مقابلہ کرنے والیاں...
اور یہ بھی سب چھوڑ دیں ،
جیتے جی بھی اور میدان کربلا میں بھی امام حسین علیہ السلام کی شہادت کے بعد حق و انصاف اور سچائی کا علم بلند کرنے والی خاتون بی بی ذینب السلام اللہ علیہ ....
کیا یہ سب خواتین کردار میں کسی سے کم تھیں ؟
کیا یہ سب قیامت تک کے لیئے نگاہ  میں نہیں تھیں یا نکاح میں نہیں تھیں ؟
اگر آپ کو اپنے گھر کی خواتین پر اعتبار نہیں ہے تو اسکا ہر گز یہ مطلب نہیں ہے کہ دنیا کی ہر عورت بے اعتبار ہے یا بے کردار ہے ....
ممتازملک. پیرس
چھوٹی چھوٹی باتیں

ہفتہ، 4 فروری، 2017

بانو قدسیہ


ادب کی دنیا کا مایہ ستارہ آج ڈوب گیا ...
محترمہ بانو قدسیہ نے آج اس دارفانی کا سفر مکمل کر لیا ..
ان کی تحریروں اور زندگی کے سفر نے بے شمار لوگوں کو رہنمائی فراہم کی . محترم اشفاق احمد جیسے باکمال شوہر کی رفاقت اور محبت انہیں میسر آئی .
تحریر کا سفر بھی اپنے  محبوب شوہر کی ہمراہی  میں شروع کیا . اپنی گھریلو زندگی کیساتھ ساتھ اپنا قلمی سفر بھی نہایت کامیابی سے مکمل کرتی رہیں.  یہاں تک کہ وہ ہر ایک کی" آپا بانو قدسیہ "بن گئیں .
ہر عمر اور ہر جنس کی آپا ہو گئیں . اور ہر ایک سے عزت پا گئیں .
ان کی زندگی جہد مسلسل کی اک داستان رہی . انہوں نے "کم میں خوش رہنا آج بھی  ممکن ہے " سکھایا . صوفی مزاج صاحب کردار جوڑے "اشفاق احمد، بانو قدسیہ " کا نام ادب اور خاص طور پر اردو ادب میں ہمیشہ روشن رہیگا . آنے والے شاعر اور ادیب ان کی ذات  اور کام سے ہمیشہ رہنمائی حاصل کرتے رہینگے .
اللہ پاک ان کی اگلی منازل کو آسان کرے اور ان کی بخشش و رہنمائی فرمائے.
آمین
ممتازملک. پیرس

جدائی


جدائی کسی بھی رشتے میں ہو اگر دوستانہ انداز میں رضامندی سے ہو تو کسی بھی چیز کو
پیار سے چھری  اور قینچی سے نفاست سے کاٹنے جیسی ہو گی جسے پھر ملایا اور ساتھ جوڑا جا سکتا ہے .
جبکہ
یہ برے  اور زبردستی الگ کر دیا جائے تو اس کی مثال  کسی بھی چیز کو بے ترتیبی سے پھاڑ دینے کے برابر ہوتا ہے. جس میں کوئی ریشہ کبھی دوبارہ کسی ریشے سے جوڑے نہیں جا سکتے ...
گویا
ہاتھ الجھے ہوئے ریشم میں پھنسا بیٹھی ہوں
جانے اب کون سے دھاگے کو جدا کس سے کروں 😢😢😢
ممتازملک. پیرس
چھوٹی چھوٹی باتیں

جمعرات، 2 فروری، 2017

گھر کا سکون چاہیئے تو


گھر کا سکون چاہیئے تو ....

ساس کو "ساس پنے" سے نکلنا ہو گا
اگر
اسے اپنے بیٹے کو اس کے گھر کو بسائے رکھنا ہے . کیوں کہ
وہ بڑی ہے اور اسے بڑا پن اور بڑا دل دکھانا ہے کہ یہ سب (اپنی بیٹی دینا اور دوسرے کی لانا) اللہ کی رضا کے لیئے ہے اور وہ اسے بدل نہیں سکتی ..
یہ سمجھ کر...
اور لڑکی کو "بہو پنے" سے نکل کر
یہ سوچنا ہو گا کہ
کوئی بھی شوہر کسی پتھر سے پیدا نہیں ہوتا،بلکہ اسے ایک ماں نے ہی اس کے لیئے جنم دیا ہے .
اور اسے
اس ماں کی تمام جائز باتوں کو قبول اور ناجائز باتوں کو نظرانداز کرنا ہے ایک کامیاب پرسکون اور آباد گھر کے لیئے ...
کیونکہ
اس کے سوا اس کے پاس کوئی چارہ نہیں  ہے...
چھوٹی چھوٹی باتیں /
ممتازملک.پیرس

پیر، 16 جنوری، 2017

2017 / Jan

Checkout Photo Calendar App I use https://play.google.com/store/apps/details?id=com.km.photocalendar2017&referrer=utm_source%3Dsocialshare%26utm_medium%3Dgenericshare

جمعہ، 13 جنوری، 2017

کنوارے بدھو/ کالم


کنوارے بدھو
(تحریر/ممتازملک. پیرس)
سارے کنوارو کان کھول کر سن لو دنیا میں صرف بیوی ہی کا وہ واحد رشتہ ہے جو اپنا سب کچھ اپنا حسن جوانی ،صحت  ،طاقت، سوچ، شخصیت سب کچھ آپ کی ذات پر وار دیتی ہے ..
آپ سے کچھ مانگتی بھی ہے یا بقول آپ جیسے کسی بدھو کے چھینتی بھی ہے تو آپ ہی کے لیئے،یا آپ کی ہی اولاد کے بھلے اور ان کی آسانی کے لیئے ہی ایسا کرتی  ہے.
یہاں تک کہ اکثر بقول آپ کے، سیروں  سونے کی مالک ہونے اور لاکھوں کروڑوں روپے کے لاکرز بھرے ہونے پر بھی اپنے نام پر دو کمرے کا گھر تک نہیں خریدتی. .. اور مسافروں کی طرح آپ کی اولاد کے در پر ہی مر جاتی ہے .....
دنیا میں  ماں باپ بھی ڈنڈی مار کر کسی نہ کسی اولاد کو زیادہ اور کم میں نواز جاتے ہیں ...
بہن بھائی بھی اس کے مال پر نظر رکھے اپنی اولاد کو اس کی اولاد کے مقابلے میں بھرنے کے لیئے اسے ٹھگتے رہتے ہیں اس کے حصے کے مال و متاع پر گدھ کی طرح نظر جمائے بیٹھے ہوتے ہیں ....ایسے میں صرف  آپ کی مخلص بیوی ہی آپ کیساتھ جھگی ہو یا محل ہر سانس میں ساتھی بن کر موجود ہوتی ہے.
بات یہ ہے کہ بیوی کا رشتہ کچھ دوسرے لوگوں کی ہٹ لسٹ پر رہتا ہے ہمیشہ خوامخواہ ہی ....
حالانکہ سچ یہ ہے کہ بیوی کتنی بھی بری بنا کر پیش کر دی جائے،
تب بھی
شوہر اداس ہے تو اس کی بیوی کبھی خوش نہیں ہو سکتی،
وہ پریشان ہے تو اس کی بیوی کبھی اس کی پریشانی سے بے فکر یا لاتعلق نہیں رہ سکتی..
کیونکہ یہ براہ راست اس کی اپنی زندگی پر اثرانداز ہوتا ہے.
وہ کنوارے جو کسی تلخ تجربے کی وجہ سے ہر طرح کامیاب ہونے کے باوجود شادی کرنے سے کتراتے ہیں ان سے ہی سوال ہے کہ
یوں تو بطور خواتین جیسے ہمیں بھیڑ بکریوں کی طرح دیکھا جاتا ہے،
کئی بار منگنیئوں کے بعد یا رخصتی سے پہلے نکاح کے بعد مردوں کی جانب سے ذلالتوں کا سامنا کرنا پڑتاہے . اس کے بعد تو دنیا کی کسی لڑکی کو کسی لڑکے کی شکل بھی نہیں دیکھنی چاہیئے ..
لیکن وہ شادی بھی کرتی ہیں .اور وفا بھی ...چند مثالوں کو ہم اپنی پوری زندگی پر لاگو نہیں کر سکتے
کنوارو
گرنا اٹھنا،
ٹھوکر کھانا،
سنبھلنا،
سب اسی زندگی کا حصہ ہیں . اب آپ یہ سب اکیلے کریں یا کسی کا ہاتھ تھام لیں ..یہ آپ کی مرضی پر منحصر ہے.
میں ایک ایسی عورت کو بھی جانتی ہوں کہ اس کا شوہر جب ملک سے باہر نوکری کے سلسلے میں جاتا تو اسے کبھی  پیٹ بھر کھانا کھاتے نہیں دیکھا ... دسترخوان پر اپنے بچوں کو روز سستی سبزی اور پتلی دال  کھلاتے ہوئے بھی
(کہ میاں کے پیسے بچیں گے تو وہ جلد آ کر اپنا کاروبار کریگا .کہیں نہیں جائے گا دوبارہ )
نوالہ منہ میں رکھتے ہوئے رک جاتی اور کہتی...
پتہ نہیں تمہارے ابو بے نے کھانا کھایا ہو گا کہ نہیں ....دو آنسو چھلک ہی پڑتے....
اور میاں ہر بار چند ماہ میں اس بات پر لڑ کر نوکری چھوڑ کر آ جاتا کہ
یہ کیا مصیبت ہے ہر روز مرغی ...ہر روز مرغی ...
.ہم نہیں  کھاتے یہ کھانا .....
جبھی تو فرمایا گیا ہے کہ دنیا میں سب سے اچھا تحفہ کسی بھی مرد کے لیئے اس کی اچھی بیوی ہے .
جسے اچھی بیوی مل گئی اسے دنیا ہی میں جنت مل گئی ..
اور جسے نہیں ملی وہ جلدی جنت میں جا کر پا لے گا 
ممتازملک

جمعرات، 12 جنوری، 2017

بچے بڑے کریں غلام نہیں

بچے بڑے کریں غلام نہیں
ممتازملک. پیرس

اللہ پاک نے انسان کو زمین پر اپنا خلیفہ بنا کر بھیجا اورانسان نے  اپنے ہی جیسے انسانوں کو اپنے  آگے غلام کی قطار میں کھڑا کر دیا ..جب تک یہ غلام اس کے کوکھ اور نسل سے نہ تھی اس کی یہ رعونت اور خود غرضی سمجھ میں آتی بھی تھی .. لیکن وہاں کیا کہیئے گا کہ جب اپنی ہی جنی ہوئی اولادوں کو بھی ہم نے اپنا غلام بنانا شروع کر دیا اور سمجھنا بھی شروع کر دیا .
*خبردار یہ نہیں کرنا
*چلو جلدی کرو تمہیں یہ ابھی کرنا ہے
*تمہاری یہ جرات کہ تم مجھ سے یہ سوال کرو
*میری آنکھوں میں آنکھیں ڈالنے کی ہمت کیسے ہوئی تمہیں
*تم مجھ سے سوال کرو گے (کرو گی )کیا
*میں دیکھتا  (دیکھتی) ہوں کہ تم ایسا کیسے کرتے ہو
*دو روٹی کی اوقات نہیں تمہاری میرے بغیر
یہ اور اس جیسے بہت سے جملے ...
اگر ہم اپنی روزانہ کی گفتگوکا جائزہ لیں تو ہم ہر روز کسی نہ کسی سے اپنے ہی گھر میں یہ جملے کہہ رہے ہوتے ہیں . کبھی اپنی اولاد سے، کبھی اپنے بہن بھائیوں سے، کبھی اپنے دوستوں سے ، کبھی اپنے ملازمین سے..
پہلے یہ احکامات ماں باپ کی جانب سے ہمیں  پیدا کرنے کے بدلے ہمیں سنائے جاتے ہیں ..
بڑے ہونے تک، بیاہ ہونے تک، ہر روز ان جملوں کے کوڑے سے ہماری کھال ادھیڑی جاتی ہے ..
جہاں آپ تھکے یا ذرا بیزار ہوئے وہیں سے آپ کی تمام تابعداری اور محنت و محبت پر نافرمانی اور ناہنجاری کا تیزاب  انڈیل دیا جائیگا. .
اور دوبارہ سے نیکیوں اورخدمتوں کی گنتی شروع کر دی جائیگی.
لیکن ہمیں یہ کبھی یاد نہیں رہا کہ
بچوں سے غلاموں کی طرح برتاؤ کرنے والوں نے صرف غلام ہی پیدا کیئے .. ہمارے بزرگوں نے اپنی اولادوں کو صرف اپنا ہتھیار بنایا اس رویئے سے ..
اگر وہ پچھلی نسل کو پیار اور اعتماد دیتے تو آج کے والدین کی اکثریت اپنی اولادوں کو بے لگام آزادی کبھی نہ دیتی ...
وجہ ...
*جو احساس محرومی ان لوگوں نے اپنے بچپن میں دیکھے.
*جہاں ماں باپ نے کبھی اپنے بچوں کو گلے سے نہ لگایا
*کبھی ان کی کامیابی پر کسی کے سامنے کیا، ان کے سامنے بھی خوشی کی کا اظہار نہیں کیا
*کبھی ان کی پسند ناپسند کا خیال نہیں رکھا
*کبھی ان کی عزت نفس کا احترام نہیں کیا
*کبھی انہیں اپنے دل کی بات کہنے کی اجازت نہیں دی .
تو ان ترسے ہوئے بچوں کو جب اللہ نے والدین بنایا تو یہ موقع ملتے ہی اکثر اپنے بچوں کو وہ آزادی بھی دے بیٹھے جو ابھی ان کی عمر کے لیئے مناسب نہیں تھی. اور اسی سبب وہ آج کی بگڑی ہوئی نسل بن گئے ...
جبکہ جن ماں باپ نے سوچ سمجھ کر ان کی عمر کی ضروریات کے حساب سے ان سے تعلق کو دوستی میں بدل کر ان میں جھانک  کر استعمال کیا انہیں اس پر اچھے نتائج ہی ملے ہیں ..
آپ کے بچے ہمارے بچے اللہ نے ہمارے دوست بنائے ہیں نہ کہ دشمن ...
اپنے بچوں کو یہ بات بتانے اور ثابت کرنے کی اشد ضرورت ہے کہ ہم  ان کی ہر دلچسپی اور تحریک میں شریک ہیں  ..ان کے مضامین چننے سے لیکر ان کے زندگی کے ساتھی تک چننے کی انہیں وہ ساری آزادی دی ہے اس کی حدود بتا کر .. کہ یہ آپ کا دائرہ ہے اس کے اندر جو جی چاہے اپنے بارے میں جو بھی فیصلہ کرو گے ، اپنے ماں باپ کو اپنے ساتھ کھڑا پاو گے.
صرف اسی طرح ہم اپنے بچپن میں اپنے  ساتھ ہونے والی زیادتیوں کا ازالہ  کر سکتے ہیں . جب ہماری اولاد میں وہ محرومیاں اور کمیاں پیدا ہونے سے روکی جا سکیں ..
  انشاءاللہ

منگل، 10 جنوری، 2017

شب ازل سے


تعز چھپا ہے تزل کی چادر میں جانے کب دے
شب ازل سے ..
شب ازل سے

ہمارا معاشرہ عورت کی بیچاری قبول کرتا ہے اس کی مضبوطی اور خوداعتمادی سے اسے اخلاقی ہیضہ ہو جاتا ہے .
بقول منٹو کے کہ
ہمارا معاشرہ عورت کو تانگہ چلانے کی اجازت نہیں دیتا لیکن کوٹھا چلانے پر اسے کوئی اعتراض نہیں ...
وجہ.....
اگر وہ عزت سے کمانے لگی تو اس کی بےچارگی پر اپنے ترس کی رال ٹپکانے  کے شوقین کہاں جائیں گے ...
اس کے ننگے بدن کو  اس کی غربت سمجھ کر مدد کے بجائے ہوس کے کیل  کون ٹھونکے  گا .....
گویا کہ معززین شہر کا "تعز" انہی فقیروں کے "مذل" ہونے پر قائم ہے ....
سچ کہا ہے شاعر نے کہ
نہ ملتا غم تو بربادی کےافسانے کہاں جاتے
اگر دنیا چمن ہوتی تو ویرانے کہاں جاتے

سچی بات ہے ہمارا معاشرہ تماش بین معاشرہ ہے اب اس کے سامنے بندر ناچے یا کسی کی مفلسی. ..
بس تماشا ہونا چاہیئے ....
ممتازملک.پیرس

پیر، 9 جنوری، 2017

آنٹی نامہ


آنٹی کوئی رشتہ نہیں ہے لوگو
کتنے ہی عرصے کے غور و خوض کے بعد ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ ہم  لوگ کوئی بات نہ تو سوچ کر بولتے ہیں اور نہ ہی سمجھ کر سنتے ہیں . ہم ٹائم پاس  کرنے کے لیئے ہمیشہ جان چھڑاو کام کرنا ہی پسند کرتے ہیں .
ایک چھوٹی سی مثال دیکھ لیں ہمیں جانے اپنے رشتوں کو اس کے رشتے سے پکارتے ہوئے کیا تکلیف ہوتی ہے . کہ ہر اپنا بیگانہ  انکل اور آنٹی کے ڈنڈے سے ہی ہانکا جاتا ہے . نہ کسی کی عمر جانتے ہیں نہ اس سے کوئی رشتے داری دیکھی جاتی ہے ...بس
جس کے دو بال سفید دیکھے
جس کا وزن ذیادہ دیکھا
جس کو ماں یا باپ کیساتھ دوست یا سہیلی دیکھا  تو سمجھ لیا بس یہ ہمارا آنٹی یا انکل ہی ہے .
کیا یہ کوئی قانون یا فارمولا ہے کہ آپ کی ماں کی دوست یا ابا کے دوست انہیں کی عمر کے ہی ہونگے ؟
کیا آپ کے والدین کے دوست آپ کے برابر یا آپ سے سے پانچ دس سال بڑے نہیں ہو سکتے ؟
پہلے پاکستان میں تھے تو اس لفظ کے فیشن میں سنا کہ انگریز اور یورپین سب کو  انکل اور آنٹی کہتے ہیں لیکن ہمیں تو آج انیس سال ہونے کو ہیں ہم نے اپنی کمیونٹی ہی میں یہ بیماری دیکھی ہے کسی بھی یورپین کو تو اس میں کہیں بھی مبتلا نہیں دیکھا .
ہم نے تو کسی کو یورپ میں آنٹی انکل کہتے نہیں سنا .
یہ وبا ہمارے پاکستانیوں میں ہی عروج پر ہے ..ہر انسان کا اپنا ایک  نام موجود ہے تو یہ زبردستی کے رشتے بنانے کا کیا مرض ہے؟ اصلی رشتے موجود ہیں انہیں اسی رشتے سے پکارا...یہ تو سمجھ میں آتا ہے پھر ہر جانے انجانے سے رشتے گانٹھنے کیوں چل پڑتی ہے ہماری کنفیوز قوم ؟؟
اتنے سال سے یورپ میں رہتی ہوں . آج تک کسی کو نہ کسی بھی یورپین، کسی بھی عمر کے مرد و زن سے نہ تو انکل آنٹی کہا نہ سنا ...
بڑی عزت سے سے نام لیتے ہی .اور جیسے ہی اپنی کمیونٹی میں داخل ہوتے ہیں ہر بوڑھی بن بیاہی ،اپنی عمر کی بچوں والی خاتون کو اور مرد کو انکل آنٹی کہہ کر یا تو اپنا احساس محرومی نکال رہی ہوتی ہے یا حسد اور جلن.
بھئی نام لینا اتنا ہی نامناسب لگتا ہے تو نام کیساتھ جی لگا دیں یا صاحب اور صاحبہ لگا دیں بہترین ہے ...
کل تک تو یہ انکل آنٹی برگر فیملیز کے چونچلے ہوا کرتے تھے لیکن اب تو
ہم نے گلی محلوں میں بھی یہ ہی حال دیکھا ہے. جبکہ اپنے رشتے سے کسی کو بلانے سے  اپنی ہی محبت اور اپنائیت جھلکتی ہے .
میں ایک سکول میں ایک کورس کے سلسلے میں کام کر رہی تھی ...وہاں پہلے روز تین سال کے معصوم سے بچے نے کہا
کیا ہم آپ کو مادام (جیسے آپ میڈم کہتے ہیں ) کہیں یا ممتاز ؟
تو میں نے کہا میرا نام ممتازملک ہے اور مجھے اچھا لگتا ہے کہ مجھے ممتاز ہی پکارا جائے ..
تو ان سب نے مجھے ممتاز اتنے پیار سے پکارنا شروع کیا کہ مجھے سچ میں ان سب بچوں اور بڑوں  سے محبت ہو گئی... 
ممتازملک

جمعرات، 5 جنوری، 2017

جج سے جرم تک


جج سے جرم تک. ...

اسلام آباد 30/12/2016

سیشن کورٹ جج راجہ خرم علی خان ....کاش میرا بس چلتا تو میں تمہیں جج کی کرسی سے گھسیٹ کر تمہاری بدمعاش بیوی سمیت  تاحیات سڑک پر بھیک مانگ کر پیاز کیساتھ روٹی کھانے کی سزا دیتی . اور ہر آنے جانے والے کو تمہیں ایک لات مار کر جانے کی سزا لازمی قرار دیتی . 

تمہارے جرائم....

دس سال کی معصوم بچی کو گھر میں ملازم رکھنا 

اسے بھوکا پیاسا رکھنا 

اس پر جسمانی اور ذہنی تشدد کرنا 

اس کو حبس بیجا میں رکھنا 

اس کے ماں باپ سے انسان کے بچے کی خریدوفروخت کرنا 

ایک انسان کے بچے پر ایک جھاڑو کو قیمتی سمجھ کر اسے فوقیت دینا 

ملازمہ دس سالہ بچی کو چولہے پر جلانا

اور اس کے جسم کو داغنا

کیا آپ بھی اہل دل ہیں ؟

اس ملک کا ایک  بصورت منسٹر اپنے گھر سے 70 ارب روپے کا مہا ڈاکو رنگے ہاتھوں پکڑا گیا اور دو ارب کی ہڈی منصف  یا ججہ بدمعاش کے منہ میں  ڈال کر باعزت و باکردار کا سرٹیفیکیٹ جاری کروا لیتا ہے اور ایک مجبور عورت اپنے پیٹ کی آگ بجھانے کے لیئے روٹی کا ٹکڑا یا دودہ کے دو گھونٹ کے  لیئے چند ٹکے چراتے ہوئے اس ملک کے ججے بدمعاشوں کے منہ پر چانٹے بننے کے بجائے 

مجرم اعلی بنا کر میڈیا پر پیش کر دی جاتی ہے . اور اس ملک کی عوام تماشے دیکھنے اور بنانے اور بننے کے شوق میں  ڈھائی ماہ کی معصوم بچی کا لاشہ اٹھائے سردی اور بھوک سے مرنے والی 

اور اسکی ماں کو عبرت کا نشان ہونا ہی چاہیئے....😢😢😢😢

اے چاند یہاں نہ نکلا کر

یہ دیس ہے اندھے "منصفوں " کا

یہ تو ہوئے میرے یا مجھ جیسوں کے ذاتی جذبات ...

لیکن ہمارے ملک میں ہر پیشے کے لوگوں نے اپنی تنظیموں کے نام پر اپنے اپنے مافیاز بنا رکھے ہیں . 

ان میں آج کئی سالوں سے سر فہرست ہے وکیل مافیا اور جج مافیا .

کیا کوئی شخص ایسا ہے کہ جس کا واسطہ کبھی بھی قانونی یا عدالتی معاملات سے پڑا ہے وہ ان لوگوں کی کرپشن سے آگاہ نہیں ہے ...اور کسی بھی چور بازاری کی صورت میں یہ پولیس گردی کا عملی نمونہ پیش نہیں کرتے .

اس خاص کیس سے پہلے بھی ججوں اور وکیلوں کی ایسی ہی گھناؤنی حرکتیں  منظر عام پر نہیں آئی ہیں اور وہ سب کیسز کس کے اشارے پر دبا لیئے گیئے؟؟؟

اس کیس میں بچی کو بیچنے والے ماں اور باپ کو گرفتار کر کے دس دس سال کے لیئے جیل کیوں نہیں بھیجا گیا  ..

ایک نشئی آدمی کو نامرد کر کے اسے بچے پیدا کرنے سے معذور کیوں نہیں کیا گیا .کہ جنہیں وہ پال نہیں سکتا تھا انہیں دنیا میں گھسیٹ کر لا کر ان کا سودا کر کے نشہ کرنے کی عیاشی کا حق اسی کس نے دیا؟

اور بچے پیدا کرنے والی اس ڈائن کو ماں کی فہرست خارج کر کے یہ بچی اب تک کسی اچھے چائلڈ سینٹر کے  حوالے کیوں نہیں کی گئی؟

اس عورت کو ماں کے درجے کا مذاق اڑانے پر بیس سال قید با مشقت دی جائے . تاکہ یہ باقی عورتوں کے لیئے بچے پیدا کرنے سے پہلے انہیں پالنے والے باپ کی کمائی اور کردار کی گارنٹی بن سکے . کہ آیا اس کا شوہر بننے والا مرد اس کے بچے کا باپ بننے کا بھی حقدار اور اہل ہے یا نہیں ....

عدالت عالیہ سے گزارش ہے کہ خود کو بھی اس مقدمے میں پیش کیجیئے اور اپنے "پیٹی بند بھراوں" کو بچانے کی ناپاک  کوششوں کا قلعہ قمع کیا جائے .

اور مجرم وکیلوں اور ججوں کو قرار واقع سزائیں دیکر عوام کا اعتماد عدالتوں اور قانون کی عملداری پر بحال کیا جائے...

ممتازملک پیرس

اتوار، 1 جنوری، 2017

دعا خیر . 01/01/2017


اعوذ باللہ من الشیطن الرجیم
بسم اللہ الرحمن الرحیم

یا اللہ ہمیں دنیا اور آخرت کی کامیابیاں  عطافرما . ہمارے گناہوں کو معاف فرما دے . پچھلے سال ہم سے جو گناہ ہوئے ان کی معافی اور جو غلطیاں سرزد ہوئیں انکی تلافی کی توفیق عطا فرما.
یااللہ ہمیں اور ہماری اولادوں کو دنیا اور آخرت کے ہر امتحان میں کامیابی عطا فرما.
ہماری عمروں میں نیکی کے بے شمار مواقع ،عمل کی توفیق کیساتھ برکت عطافرما.
یا اللہ ہمیں صحت ایمان اور عزت والی زندگی عطا فرما.
بے اولادوں کو نیک اور صالح اولاد عطا فرما.
شادی کے قابل لوگوں کو ہم ذہن اور ہم مزاج رشتے عطافرما .
نکاح کے ذرائع کو آسان فرما .
ہمیں ہماری زبانوں اور شرمگاہوں کی حفاظت کرنے والا بنا .
یااللہ ہمارے اعمال ،اقوال  اور افعال کی حفاظت فرما. 

یا اللہ ہمیں حلال طیب اور پاکیزہ رزق روزگار فراغت کیساتھ عطافرما. 

ہمارے دسترخوان کو ہر حلال نعمت کیساتھ ہر اپنے بیگانے کے لیئے وسیع فرما دے. 
ہمیں تو اپنے پسندیدہ لوگوں میں شامل ہونے کی توفیق عطا فرما.
یا اللہ ہمارے تمام رکے ہوئے جائز کاموں کو باآسانی مکمل فرما دے .
ہمیں کم میں خوش رہنے والا، علم سے محبت کرنے والا ،دوسروں کو معاف کرنے والا، ہر ایک کے حقوق بنا مانگے دینے والا ، ضرورت مندوں کے کام آنے والا، نیک کاموں میں  ایکدوسرے پر سبقت لیجانے والا ، ہر کام صرف اور صرف تیری رضا کے لیئے کرنے والا بنا .
ہمیں گناہوں سے نفرت کرنے والا بنا .
ہمیں دنیا کو امن کا گہوارہ بنانے والوں میں شامل فرما.
یا اللہ ہمیں ہمیشہ اپنی رحمتوں  کے سائے میں رکھ .
آخرت کی تیاری کا ہمیں  بہترین توشہ تیار کرنے کی توفیق  عطا فرما. 
یا اللہ ہمارے گناہوں  کو معاف فرما دے .
آمین
یا رب العالمین
متمنی دعا
ممتازملک. پیرس
01/01/2017 - بروز  اتوار

پیر، 26 دسمبر، 2016

نصاب،درسگاہ اور استاد۔ کالم


        نصاب ،درسگاہ اور استاد
تحریر:
          (ممتازملک ۔پیرس)


سنتے آئے ہیں کہ بچے کی پہلی درسگاہ اس کی ماں کی گود ہوتی ہے .
لیکن جس گود میں یہ آنے والے وقت کے بچے پلنے ہیں اس بچی کے پیدا ہونے سے لیکر صاحب اولاد ہونے تک خود وہ بچی کن کن امتحانات سے گزاری جاتی ہے اور کیسے پروان چڑھائی جاتی ہے اس پر کوئی لب کشائی کرنا ضروری  نہیں سمجھتا . کہنے والے نے پھر بھی کہا کہ
" تم مجھے اچھی مائیں دو ، میں تمہیں اچھی قوم دونگا "
لیکن  پھر بھی ہم ایشیائی   یا جنوبی ایشیا اور افریقہ کی عورت کو پیدائش کے بین اور بچپن کی گھرکیوں اور ٹھڈے جبکہ جوانی کا ایک جبری رشتہ بطور شوہر کے ہی ملا ...
اب اس جبری رشتے سے پیدا ہونے والی نسل کو کون کس خیال سے پروان چڑھائے گا یہ اندازہ  ہمارے معاشروں میں پھیلے ہوئے بے ترتیب، بے ڈھنگی، زندگی گزارتے ہوئے نوجوانوں کو دیکھ  کر بخوبی لگایا جا سکتا ہے ...
پھر اس پر یہ غضب بھی ڈھایا گیا کہ جو کام حکومت کے ذمے تھا کہ اچھی قوم بنانے کے لیئے ان بچوں کو اچھا سکول سسٹم ،اچھا متناسب یکساں تعلیمی نصاب ، خوشگوار اور کارآمد تعلیمی ماحول ،مہربان ، شفیق اور قابل اساتذہ، پر اعتماد ہنر مند مستقبل ،
فراہم کیا جائے.  لیکن حکومتوں کی بے پروائی اور پرائیویٹ سیکٹر کی تعلیم کو کمائی کی انڈسٹری بنانے کی سوچ نے ہماری پوری نسل کو ایک چابی کا ٹٹو بنا دیا. نہ انہیں چھوٹے بڑے سے بات کرنے کی تمیز ہے ،نہ ان میں مطالعے کا شوق ہے،نہ انہیں کوئی باخبر رہنے اور معلومات عامہ سے کوئی لگاو ہے  .اور کچھ کو منہ مروڑ کر انگریزی بولنا ہی دنیا بھر کے علم کا نعم البدل لگتا ہے .

ہمیں آج بھی یاد ہے کہ 80ء اور 85ء کے سن میں اگر 1100 میں سے بھی کوئی آٹھ سو نمبر لے لیتا تھا تو سمجھ لیں کہ سارے زمانے کا علم اور قابلیت اس کے پاس ہوتی تھی . اور آج جسے پوچھو وہ گیارہ سو میں سے پانچ یا دس نمبر کم لیکر ریکارڈ بنا رہا ہے لیکن ان سے سوال کیا جائے کہ
اقبال کا مزار کہاں ہے؟
یا
قائد اعظم کا اصل نام اور جائے پیدائش کہاں ہے ؟
تو جانئے جیسے ان سے جانکنی کے لمحات کی تفصیل پوچھ لی گئی ہو ...
کبھی ان سے جاں کنی کے مطلب پوچھ کر دیکھیئے گا ...
 سو واضح رہے کہ والدین کو پرورش کا ذمہ دار قرار دینے والے بھی جانتے ہوں گے کہ 
بچوں کی تعلیم اور تربیت صرف وہ والدین ہی اچھی کر سکتے ہیں جن کی اپنی پرورش محبت، سچائی اور اعتماد کی فضاء میں ہوئی ہو ...
ورنہ دوسری صورت میں انہیں  اپنے خوف، اپنے درد چھپا کر اور دبا کر اپنے بچوں کو  پروان چڑھانا ہوتا ہے .سو ان کے ہاں بھی اپنا نفسیاتی معائنہ اور رہنمائی لینا بے حد ضروری ہوتا ہے ...
اب یہ سب ہونے کے  بعد باری آتی ہے اساتذہ کی .
کیا وہ اتنے اہل ہیں؟ کیا وہ  پروفیشنل ٹیچنگ کے عالمی معیار پر پورے اترتے ہیں ؟
سفارشی لوگ اور نوکری کہیں  نہیں ملی تو " چلو استاد بن جاؤ " کی سوچ رکھنے والے لوگ استاد کے نام پر دھبہ ہیں .
تیسری بات ہمارا نصاب جسے ازسر نو معنی اور مطالب کیساتھ ایک جیسا مرتب کرنا ہو گا . جو نیچے سے اوپر تک ہر بچے کے لیئے ایک سا ہو ،تبھی اس قوم میں یک رنگی اور ذہنی ہم آہنگی پیدا ہو سکتی ہے .
سو یہ نصاب کا فیصلہ ایسا ہی ہے جیسا بدن میں خون کا کردار ..
تو جب خون ہی فاسد ہو جائے تو اس بدن کو کیا تقویت دیگا، بلکہ  اسے موت تک لیجائیگا .اصل بات یہ ہی  ہے کہ 
دینی تعلیم کے لیئے سب سے بڑا نصاب تو ہمارے گھر کی سب سے اونچی شیلف پر سجے سجائے جلدان میں موجود ہے جناب ..
قرآن سے بڑا بھی کوئی نصاب ہو گا کیا؟ ...اور پھر احادیث کے لیئے صحیح مسلم و بخاری سے زیادہ کوئی مستند کتابیں نہیں ہیں ..
ہمارے ہاں اول تو مذہب کے ان ہی حصوں کو عوام کے سامنے پیش کیا جاتا ہے جس کے پیش کرنے والے کو اپنا کوئی مفاد اس میں نظر آئے. اس سلسلے میں پیش کرنے والے کو اپنے مطلب کی کوئی بات نہ ملے تو گھڑ کر سنانے میں بھی کوئی شرم حیا انہیں بلکل درکار نہیں ہے . اس لیئے کوئی بھی حدیث پاک یا آیات مبارکہ سننے کا موقع ملے تو صرف یہ یاد رکھنے کی ضرورت ہے کہ ہمارا دین، دین فطرت ہے . اور جو بات فطرت سے ٹکرائے گی . وہ ہمارے دین کا حصہ ہو ہی نہیں سکتی . اسی لیئے
بہت سے واقعات مذہب کے نام پر گھڑے گئے ہیں . لوگوں کی عقیدت اور اندھے اعتقاد کو اپنے مقاصد کے لیئے استعمال کرنے کے لئے انہیں ہر مذہب میں آلہ کار بنایا گیا ہے ..
لیکن یہ مشکل صرف اسلام کی نہیں ہے.
دنیا کے ہر مذہب کے ٹھیکیدار نے یہ کام کیئے ہیں اور دھڑلے سے کیئے ہیں ...

ہمارے ہاں دینی تعلیم کے نام پر ایک الگ ملا مافیا کام کر رہا ہے اور جدید تعلیم اس قدر مہنگی کر دی گئی ہے کہ لوگ دو سسٹم نہیں بلکہ چکی کے  دو پاٹوں میں پس رہے ہیں .
سرکاری سکولوں کو ہی دینی تعلیم کا پیریڈ رکھنا چاہیئے . اور ہنڈی  کرافٹ اور دستکاری کے پروفیشنل اساتذہ کیساتھ سکول کے آخری دو گھنٹے مخصوص کیجیئے .
اور سب سے اہم بات دین کا مذاق بند کر کے اپنے گھر کا سائیں بچہ اللہ کی راہ پر زبردستی لگا کر طالبان اور داعش پیدا کرنے کی بجائے . کم از کم میٹرک کے بعد دین کا شوق رکھنے والے بچے اور بچی کو اس راہ میں پڑھائی پر لگایئے . تبھی ہم اچھے مسلمان کی اصطلاح سے انصاف کرنے کا سوچ سکیں گے .
جس انسان کو دنیاوی علم سکھا دیا جائے ہنر سکھا دیا جائے . جس سے وہ عزت سے روزی کما سکے اور اپنی کنبے کو پروان چڑھائے تو اس کے ہر لقمے پر اس تعلیم کا انتظام کرنے اور کروانے والے کے لیئے بے شمار صدقہ جاریہ کا وعدہ ہے . بیشک اللہ پاک  ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے. آمین


■ محرم بنن لئی / پنجابی کلام ۔ او جھلیا


محرم بنن لئی

اک میرا محرم بنن لئی
کئی نامحرم تیار جے

پرجناں دے محرم اے ہوندے
نہیں اناں دے سچے یار وے

جتھے ایناں نوں ہوناں چاہیدا
اوتھے چولاں جاندے ماروے

اے کسے دے اپنے ہوندے نئیں
نہ کرن اے سچا پیار وے

چھڈن  لمیاں عشق اندر
اوتوں لمیاں لمیاں ماردے

ایہہ دو چھلاں نہ سہہ سکدے
نہ لان کسے نوں پار وے

سچ پچھو تے ہورکی دسیئے جی
نہ گھر دے نہ اے بار دے

ممتاز نہ کول جے قدر کوئی
کلے ہون تے واجاں ماردے
●●●

شاعری / /مدت ہوئ عورت ہوۓ/ ممتاز قلم / سچ تو یہ ہے/ اے شہہ محترم/ سراب دنیا/ نظمیں/ پنجابی کلام/