ممتازملک ۔ پیرس

ممتازملک ۔ پیرس
تصانیف : ممتازملک

بدھ، 28 ستمبر، 2016

سلگتا کشمیر یا رائے ونڈ




سلگتا  کشمیر یا رائے ونڈ
ممتازملک. پیرس




ہم نے بڑی کوشش کی کہ ہم ڈھونڈ سکیں کہیں دنیا میں کوئی ایک مثال کہ جہاں ملک حالت  جنگ میں ہو ،بارڈر پر فوجیں آمنے سامنے ہوں اور اس ملک کی کوئی بھی سیاسی پارٹی نوجوانوں کو ورغلا کر اور سیاسی لیڈر وزیراعظم کی خار میں دھرنے دے رہا ہو . یا جلسے جلوس کر  رہا ہے.  
اور ہمارے جوان بجائے اپنے لیڈر کو مت دینے کے اس لیڈر  کی جانب سے ان کو سمجھانے والوں کو ہی گالیاں دے دے کر اپنا شعور اجاگر کر رہے ہیں . ظاہر ہے ہم جس کے پیچھے چلتے ہیں تو شاید ہم  اپنی آنکھیں اپنا دماغ اور اپنا ضمیر سب کچھ اس کے پاس گروی رکھ دیتے ہیں . اور اسی کی زبان بھی بولنے لگتے ہیں . ان جیسے ناپختہ ذہن کے لوگوں کے ہاتھ میں حکومت کی باگ دوڑ دینا کیا بندر کے ہاتھ میں استرا  دینے جیسا تو نہیں ہے ؟
  یہ ہی وجہ ہے ہمارے دنیا سے بہت پیچھے رہ جانے کی . 
کہ ہمیں اس بات کا اندازہ ہی نہیں ہو پاتا کہ کون سا وقت کس کام کے لیئے موزوں ہے  ہمیں ہماری ترجیحات کا تعین کرنا ہی نہیں آتا .
ایک طرف ہندو دہشتگرد وزیراعظم اپنی دہشتگرد فوج کو گجرات کے بعد کشمیریوں کے خون کی ہولی کھلا رہا ہے . دوسری جانب دنیا کو بے وقوف بنانے کے لیئے پاکستان کی کشمیر پر اٹھائی ہوئی موثر آواز کو دبانے کے لیئے جنگ کا ہوا کھڑا کر رہا ہے . اور دنیا کی توجہ کو  بھٹکا رہا ہے ایسے میں ہر پاکستانی اور کشمیری کا فرض ہے کہ وہ پاکستان میں ہے یا دنیا کے کسی بھی کونے میں بھرپور انداز میں کشمیر کاز  اور کشمیریوں پر ہونے والے مظالم کو دنیا پر آشکارہ کرے . بڑی بڑی ریلیاں دنیا کے ہر ملک میں منظم انداز میں نکالی جائیں . مقامی لوگوں کو بھارت کی بربریت سے آگاہ کیا جائے .
اس وقت ہمارے مستقبل ہمارے  جوانوں  کا مارچ کشمیریوں کے  قتل عام کے خلاف انڈین  بارڈر پر نکلتا تو یقین جانیں ہمیں  بے حد خوشی ہوتی . قوموں پر جب  بھی کوئی آزمائش آتی ہے تو سیاستدان اس پر سیاست کرنے کا کوئی حق نہیں رکھتا . اسوقت اس کا سیاست کا حق موقوف  ہو جاتا ہے . کیونکہ محبت میں سیاست نہیں ہوتی . وہ بھی وطن کی محبت میں تو بلکل بھی نہیں .
اس وقت اسے اپنے ملک کی بقاء کی فکر ہوتی ہے اور وہ اپنے ووٹرز یا سپوٹرز کو ملک پر آئے خطرات سے آگاہ اور  بچاؤ اور حب الوطنی کے جذبے کو بیدار کرنے والے اقدامات اٹھاتا ہے . نہ کہ ترجیحات کی ناکامی پر خود ہی اپنی طاقت کو توڑنے والے حربے آزماتا  ہے .
ہماری پارٹیاں سوچیں کہ 2018 میں ووٹر کے پاس آپ اور آپ کے  رہنما کیا لیکر جائیں گے کہ دیکھو ہم نے پانچ سال دھرنے دیئے، جلوس نکالے .سارے ملک کو مفلوج کر کے کھربوں  کے قوم کو ٹیکے لگائے اور کروڑوں ڈی جے بٹ کو دیکر جوان نچائے .اور  عورتوں پر  اپنے بے حیا لونڈوں سے حملے کروائے . کراچی جیسے شہر کے کچرہ اٹھانے والے ادارے تک کے پچیس کروڑ کھاگئے اور پورے شہر کو کچراکنڈی میں تبدیل کر دیا ،تھر کے بچے مرتے رہے اور ہم وہاں جشن بہاراں مناتے رہے ،
ایک طرف آپ کی یہ خدمات ہونگی اور دوسری جانب ن لیگ پل،  ٹرینیں ،میٹرو ،لوڈ شیڈنگ کی کمی، سڑکیں ، چائنا راہداری،  گوادر پورٹ .....گنوائے گی اور آپ دھاندلی  دھاندلی  کا رآگ الاپ کر مزید قوم کی نظروں  میں گر جائیں گے بس 
بات  کریں تو پارٹی کے بدتمیز  پڑھے لکھے فورا اعتراض پیش کریں گے کہ ہماری قوم کو انکی  بنائی سڑکوں اور میٹروز کی کوئی ضرورت نہیں ہے.
ہو سکتا ہے جناب آپ ہوا  میں گاڑی چلا کر ترقی کر سکتے ہوں اور ہیلی کاپٹر میں اڑتے پھرتے موج کرتے ہوں ، لیکن ہم کیا کریں  ہمیں تو زمین پر ہی رہنا ہے .
ہم لوگوں نے سڑکوں پر سفر کرنا ہے میٹرو اور گاڑیاں ہماری ضرورت ہیں . ہم اپنے نمائندوں سے امید کرتے ہیں کہ وہ بجٹ کا پیسہ اس کام پر لگائیں . نہ کہ دبئی کے بینکوں میں جمع کر کے ڈبل ہونے کا انتظار کریں .  اور اپنے علاقے میں آپ کوچیہ بھی نہ سمجھ آئے کہ سال بھر کا  بجٹ کا ایک تہائی پیسہ  بھی کہاں استعمال کرنا ہے . وہ کون سی کمیٹی اس پیسے سے آپ کے لیڈر نے ڈالی ہے کہ آئندہ انتخابات سر پر آگئے ہیں اور وہ نکل کر ہی نہیں دے رہی .
  ہمیں ہمارے درامدات اور برآمدات میں راستے چاہیئیں . ...اور ہم بجلی چاہتے ہیں تاکہ ہماری ملیں چلیں تو ہمارا مزدور کام کرے . ہمیں امن چاہیئے . جو کئی پارٹیاں اپنے صوبے کو آج تک نہیں دے پائی ہیں  . ...ہاں ہمیں یہ سب چاہیئے اور ہماری قوم کیا د نیا کی ہر قوم ان کاموں پر ہی نمائندے چنتی ہے . ... ہمارا گزارہ ڈی جے بٹ کو اٹھارہ کروڑ اور بیگم کو اکیس کروڑ کی ادائیگی سے نہیں ہوتا . چاہے وہ رقم آپ نے اپنی ذاتی  جیب سے ہی دی ہو تو کیا یہ اصراف میں اور فضول خرچی میں نہیں  آتا . اگر کوئی اپنے ذاتی پیسے کو آگ لگا رہا ہو تو اسے یہ سوچ کر نہ روکا جائے کہ یہ اس کا اپنا مال ہے ؟ جی نہیں اسے روکنا ہر سمجھدار انسان کا فرض ہے اور یہ اور بھی ضروری ہو جاتا ہے جب یہ سب کرنے والا تبدیلی کے نعرے بھی لگاتا ہو  ...
جبھی تو کہتے ہیں ہوش کریں ........ 2018 بہت دور نہیں اپنے کاموں کی لسٹ تیار رکھیں . اب کے رن کاموں پر ہی پڑے گا اور آپ کی پارٹیاں  آنکھوں پر مٹھیاں رکھ رکھ کر دھاندلی دھاندلی روئیں  گی . کیونکہ کام نہ کرنے والی پارٹیاں  اب کے وہ سیٹیں بھی بھول جائیں جو پچھلی بار آپ کو مل چکی ہیں.  
کام کام اور صرف کام 
مقابلہ ہے کام کا
                                ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
                  

ہفتہ، 24 ستمبر، 2016

تحفظ کا حصار



تحفظ کا حصار
ممتازملک ۔ پیرس



ابھی چند روز قبل کسی خاتون نے کسی کی بات پر کومنٹ کیا کہ'' آپ کی بیوی کہیں آپ کوچپل سے نہ مارے '' ۔   
بات چاہے مذاق ہی میں کہی گئی تھی لیکن پڑھ کر بے حد افسوس ہوا ۔ اور یہ لکھنے کی شدید ضرورت محسوس ہوئی کہ 
عورت چاہے کتنی بھی ماڈرن ہو جائے ،
کتنی بھی پڑھ لکھ جائے ،
کتنی بھی بااختیار ہو جائے ،
اس کے تحفظ کا حصار شوہر کے نام سے ہی بنتا ہے .
پھر چاہے وہ کتنا ہی احمق ہو ، ہم اس سے لڑیں، جھگڑیں، ناراض ہوں گلے کریں لیکن شوہر کے سوا دنیا میں ایسا کوئی رشتہ نہیں ہے جو آپ کو چاہ سکے یا تحفظ دے سکے . یہاں تک کے کہ باپ بھائی اور بیٹا بھی آپ کی عزت تب کریں گے جب آپ کی پشت پر آپ کے شوہر کے نام کی تختی موجود ہوگی .
ہماری بیٹیوں کو یہ لہجہ زیب نہیں دیتا کہ وہ شوہر کے لیئے اس حد تک کہ'' جوتے سے مارنے ''کا سوچے بھی .
مجھے یاد ہے ایک بار میرے چھوٹے  بھائی میرے میاں کا نام بھائی کہے بنا لیا کہ وہ کیسے ہیں .میں نے اسی وقت اس کی زبان پکڑ لی اور خوب کلاس لی . وہ دن اور آج کا دن میرے کسی بھائی کی جرات نہیں کہ ان کا نام بھائی کہے بنا لے سکے .
شوہر چاہے اپنی بیوی کو اپنے گھر والوں میں ذلیل کروا کر خوش ہوتا ہو، لیکن ایک باکردار بیوی کبھی اسے اپنے میکے میں شرمندہ ہوتے دیکھنا گوارہ نہیں کر سکتی . ہمارے ماں باپ ہمیں بیس بائیس سال تک ساتھ رکھتے ہیں اور سو پابندیاں اور کمیاں دیکھ کر بھی ہم ان کے گھر کا دم بھرتے ہیں . لیکن شوہر جو ہمیں تادم مرگ (یا تادم طلاق) کھلاتا پلاتا، پہناتا، سجاتا،سنوارتا ہے. گھر بار کی مہارانی  بناتا ہے . ..اس کے کبھی کبھار کڑوے  بول ہمیں اس قدر بھاری لگتے ہیں . کہ ہم ہر بدزبانی کو اپنا حق سمجھ لیں . نہیں ایک غیرت مند اور اعلی ظرف خاتون کا یہ بلکل شیوہ نہیں ہونا چاہیئے .
ہمیں اپنے شوہر سے حق تلفی کی شکایتیں ضرور ہو سکتی ہیں اور وہ اس کی تلافی نہ کرنے پر گناہگار بھی ضرور ہی ہوتا ہے ۔ لیکن ہمارا کام برائی کے بدلے میں برائی کر کے کبھی زندگی کو آسان نہیں بنایا جا سکتا۔ ہم میں بھی بہت سی باتیں بطور بیوی ایسی ہونگی جو ہمارے شوہر کو پسند نہیں ہونگی ۔ تو کچھ عادتیں وہ ہماری بدل لیتے یا برداشت کر لیتے ہیں اور کچھ عادتیں ان کی ہم بدل لیتے یا برداشت کر لیتے ہیں  ۔  جبھی یہ ساتھ نبھتے ہیں جہاں یہ برداشت ختم ہو جاتی ہے ۔ وہیں یہ رشتہ بھی ختم ہو جاتا ہے۔ اس لیئے بطور شوہر اس کی حیثیت کو کبھی بھی مقابلے پر نہیں لانا چاہیئے ۔ ہم ان کی عزت یہ ہی سوچ کر کر لیں کہ یہ اللہ پاک کی رضا کا باعث بنتی ہے یا اس کی ہم پر جو بھی مہربانیاں  ہیں یا احسانات ہیں ہم اسی کا بدلہ چکا رہے ہیں تو بہت کچھ آسان ہو جاتا ہے ۔ 
اللہ پاک ہمیں ہر حقدار کا حق احسن انداز میں ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے . آمین 
                                   ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بدھ، 21 ستمبر، 2016

آسان شکار



آسان شکار
(تحریر/ممتازملک - پیرس)




پچھلے دنوں ایک دوست سے بہت ہی تکلیف دہ واقعہ اسکی کسی جاننے والی خاتون کا سننے کو ملا .جو آج کل کے پرآشوب اور بے راہ رو زمانے میں ہمیں آئے دن سننے کو ملنے والے واقعات ہی میں سے ایک ہے. اس میں وہ لڑکی پانچ برس کی عمر میں جوائنٹ فیملی میں رہتی تھی . بھائیوں کے نام نہاد اتفاق میں انہیں  شاید یاد ہی نہیں رہا کہ ان کے بچے انکے  کہنے سے بھائی بہن نہیں بن جائیں گے. نہ ہی ان کی بیویاں ایک دوسرے  کے بھائیوں کی محرم بن جائیں گی . یہ سب اپنے بچے گھر کے ایک بھائی کے بیس سالہ لڑکے کے سپرد کر کے بے فکری سے گھر سے باہر چل دیتے ہیں. بقول اس لڑکی کے یہ لڑکا ہمارا کزن جسے ہم "بھیا" کہتے تھے ،بچوں کو ٹی وی لگا کر ایک کمرے میں بٹھا دیتا تھااور مجھے سب سے بہانہ کر کے وہاں سے اٹھا لے جاتا تھا . اور میں اس کی درندگی  کا شکار بنا کرتی  تھی . ماں سے ہر بار یہ بچی ضد  کرتی کہ مجھے بھی آپ کے ساتھ جانا ہے . مجھے آپ کے بنا گھر پر نہیں رہنا . بھیا گندہ ہے .....
لیکن ماں اسی کبھی مار پھٹکار،  کبھی لالچ بہانوں سے گھر پر چھوڑ گھر کی خواتین کیساتھ گھر سے باہر ہی رہتی تھی . اور یہ سلسلہ پورے پانچ سال تک چلتارہا. 
اب وہ خبیث مکروہ لڑکا خود تو شادی کر کے گھر بسائے بیٹھا ہے اور لڑکی بڑی ہو چکی ہے تو سوال کرتی ہے کہ
وہ کیا کرے ؟
وہ کہاں غلط تھی ؟
اس پورے  واقعے میں اس کا کیا قصور تھا؟
اور اب اسے کیا کرنا چاہیئے ؟

میں بارہا اس بات پر شور مچا چکی ہوں کہ خدا کے لیئے مردوں کی آنکھیں کھولنے کی کوشش کریں کہ وہ اپنی بچت  کے لیئے یا بہن بھائیوں کے عشق میں مبتلا ہے ،
یا امی جی اور ابا جی کی دھوتی پکڑ کر چلتا ہے ، تو خدا کے واسطے شادی نہ کرے . شادی تب کرے جب وہ جسے بیاہ کر لائے اسے ایک کمرے کا ہی سہی گھر دے سکے . جس میں کون آئے گا اور کون نہیں یہ وہ آنے والی عورت اپنے اور اپنے بچوں کے لیئے خود طے کرنے کا اختیار رکھتی ہو . 
یعنی ہمارا دین ہی ہمیں محرم اور نامحرم کی حدود کے اندر بھرپور حفاظت فراہم کرتا ہے . 
اس کیس میں بھی محبت اور سلوک کے نام پر  گھر میں  محرم اور نامحرم کی کوئی تخصیص نہیں رکھی گئی اور بدکار نوجوان کے سامنے معصوم بچی کو  شکار کے طور پر چھوڑ دیا گیا . اور اس بات کی کیا گارنٹی ہے کہ اس "بھیا بدکار" نے اس گھر کی دوسری بچیوں کا شکارنہیں کیا ہو گا ؟
اب سوال یہ ہے  کہ
اب کیا کیا جائے ؟
ایسے بچوں کو کیسے سمجھایا جائے؟
تو اس بچے کو اس بات کی ہمت دلانا ہو گی کہ آج کا زمانہ موبائل کا زمانہ ہے.
پن کیمرہ ہر جگہ سے باآسانی خریدا جا سکتا ہے .ایسے کسی بھی بچے یا بچی کو چاہیئے کہ موبائل  کو سائلینٹ پر ڈال کر کہیں چھپا کر اس کی گندی گفتگو اور حرکات کو ریکارڈ کرے . اور اسے اپنے اور اسکے والدین کے سامنے ایک ہی وقت میں اس بدکار کی موجودگی میں پلے کر دے . اس کے بعد کی کاروائی اس کے  ماں باپ کی ہے کہ شرم کریں.
بہت دولت بچا لی اب اپنی بیوی اور بچوں کی عزت بچائیں . اور بہن بھائیوں کے جوتوں کے نیچے سے نکلیں . اور اللہ کی حدود میں پناہ لیں . 
جب تک ہم خود اس بات پر یقین نہیں رکھیں گے کہ میں جو کچھ کہہ یا کر رہی/ رہا ہوں، وہ درست ہے، تب تک ہم کوئی بھی فیصلہ نہیں کر سکتے . اور آپ نے دیکھا ہو گا کہ ہمارے ہاں لوگوں  میں سب سے بڑا مسئلہ ہی یہ ہے  کہ ہم دو ٹوک بات نہیں کرتے . ہمارے مسائل پیدا ہی اس لیئے ہوتے ہیں کہ 
اچھا ایسا کرتے ہیں... ویسا  کرتے ہیں . ہوں ... ہاں ... دیکھتے  ہیں... سوچتے ہیں.. جیسے مبہم الفاظ اور خیالات سے ہوتے ہیں . 
وقت گزر جانے کے بعد ہر بات اور اقدام سوائے سانپ گزر جانے کے بعد لکیر پیٹنے کے اور کچھ نہیں ہے . 
اس پورے کیس میں ایک ماں کی شدید ناکامی چھلکتی  ہے .  جو اپنی بچی کی بدلتی حالت اور تڑپ کو نوٹس ہی نہ کر سکی .  اس حساب سے وہ خاتون پوری مجرم ہے اس بچی کی معصومیت کے قتل کی . 
اب یہ لڑکی شادی شدہ ہے اور وہ خنزیر بھی . تو اسے اپنے بچوں کیساتھ وہ غفلت ہر گز نہیں برتنی چاہیئے جو اس کی ماں نے کی . اور کسی بھی رشتے پر اپنے بچوں کی عزت اور حفاظت کے لیئے اعتبار نہ کرے . اور اپنے بچوں پر عقابی نگاہ تو رکھے لیکن بچوں کو خود میں اتنا اعتماد دیں کہ بچے ہر بات آپ سے کھل کر بیان کر سکیں . اور انہیں فی زمانہ ہونے والی ایسی باتوں کو واقعات کو سنا کر اس سے محفوظ رہنے کی تدابیر بھی بتاتے رہیئے . اور جس عورت یا مرد پر ایسی کسی بھی قسم کی گندی سوچ یا منفی لہر محسوس ہو اس سے اپنے فاصلے کو محفوظ انداز میں ہی بڑھا لیجیئے . ہر ایک کو ہاتھ کے مذاق اور بہت قریب  آنے سے پہلی ہی بار روک دیجیئے . اکیلے میں کہیں کسی کے پاس بیٹھنے سے پرہیز کیجیئے .کچھ لوگوں پر تو بلکل کسی بھی بات کا اعتبار مت کیجیئے. خاص طور پر اس کیس جیسی  اپنی ماں پر جو آپکے بچوں کی نانی ہے . اس کے سائے سے بھی اپنے بچوں کو بچا کر رکھئیے .
اللہ پاک ہم سب کو ایسے حالات سے اپنی پناہ میں رکھے . آمین                                ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


جمعہ، 16 ستمبر، 2016

بھانڈ




بھانڈ

ممتازملک. 




بھانڈ دراصل بھانڈے سے مستعار لیا گیا ہے جسکا مطلب پنجابی میں برتن ہے . جب برتن  بجتے ہیں، تو آواز پیدا کرتے ہیں .
سو جس آدمی کے منہ سے بہت  سے سچ بنا سوچے سمجھے فٹاک فٹاک باہر نکلتے ہیں لوگ اسے بھانڈ  کہہ کر اپنے بے ایمان دل کو سکون پہنچانے کی ناکام کوشش کرتے ہیں . حالانہ اندر  سے "یرکے"ہوئے ہوتے ہیں قسمے.......

ممتازملک.  از لغت ممتازیہ




پیر، 12 ستمبر، 2016

عید آئی بھی چلی بھی گئی ۔ سراب دنیا




وہ گھڑی آئی نہ گئی
کلام/ممتازملک۔پیرس 


عید آئی بھی گزر بھی گئی خاموشی سے
دل کو جس کی تھی طلب وہ گھڑی آئی نہ گئی


اک خودی  تھی جو بچا کرکہیں رکھ چھوڑی تھی
ہم نے ڈھونڈا تو بہت پر وہاں پائی نہ گئی

خارکی باڑ سے گزرے تو گلوں تک پہنچے
زیست کی سیج آسانی سے سجائی  نہ گئی

مدتوں جس کے لیئے لفظ پروئے ہم نے 
باوجود اس کے بھی وہ بات بتائی نہ گئی

خوش نہ ہو جسم کولاشوں میں بدلنے والے
حق کی آواز کسی طور دبائی نہ گئی

گفتگو تیری مدلٌل ہے مگر کیا کیجیئے
عدل کی کوئی بھی زنجیر ہلائی نہ گئی

کیوں میں کردار کی ہر روز وضاحت دیتی
شک کی دیوار کسی طور گرائی نہ گئی

اتنی تاریک تھی وہ راہ چلے جس پہ سبھی
روشنی کےلئے مشعال جلائی نہ گئی

اس نے ممتاز جتایا جو کبھی کر نہ سکا
ہم سے کر کے بھی کوئی بات جتائی  نہ گئی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اتوار، 11 ستمبر، 2016

ڈر گئے سارے






اک قلندر سے ڈر گئے سارے 
موت پہ اس کی مر گئے سارے 

جیتنا چاہتے ہیں لوگوں کو 
دل سے لیکن اتر گئے سارے 

Add caption

ہفتہ، 10 ستمبر، 2016

قربانی کیجیئے تماشا نہیں

قربانی کیجیئے تماشا نہیں 
ممتازملک. پیرس

آج کل بیرونی برائے فروخت اذہان  خرید کر ہمارے نیم ملا اور ملانیاں کماو ٹی وی پر زور و شور کیساتھ فرضی عبادات میں کیڑے نکالنے اور انہیں متنازعہ بنانے میں دن رات ایک کیئے ہوئے ہیں . انہیں ہر اسلامی عبادت وقت کا ضیاں اور اللہ کی راہ میں  خرچ فضول خرچی لگتا ہے . لیکن نہیں دکھے گا تو اپنے ہاتھ میں پکڑا ہوا ستر ہزار کا موبائل اور جثے پر پہنا تیس ہزار کا جوڑا کبھی  بھی فضول خرچی نہیں لگے گا . اور نہ وہ اس کی رقم کسی ضرورت مند کو دینے کا کبھی سوچیں گے. 
یہ سچ ہے کہ حج زندگی میں ایک ہی بار فرض ہے. اس سے زیادہ کی استطاعت ہے تو اس رقم کو کسی اور کو پہلی بار کے لیئے حج بدل میں دیا جا سکتا ہے. لیکن سال میں ایک بار عید الاضحی کے موقع پر قربانی ہر کمانے والے، اپنے گھر اور سواری رکھنے والے پر اللہ کی راہ میں جانور کی صورت پیش  کرنا اللہ کا حکم ہے اور اسے کوئی بھی مائی کا لعل  چیلنج نہیں کر سکتا . اور جو ایسی ناپاک جسارت کرے اسے  دین اسلام سے اپنا تعلق ختم سمجھنا چاہیئے .
دوسری جانب معاشرے میں نگاہ دوڑائیں تو گھر میں دس لوگ بھی کما رہے ہیں سارا سال سارے اللے تللے،  ہوٹلنگ، شاپنگ ہر موقع پر دس دس ہزار کے چار چار جوڑے بن رہے ہیں لیکن جیسے ہی عید قرباں  کا موقع آتاہے تو گھر بھر میں فقر و فاقہ کا رونا پڑ جاتا ہے . اکثر تو خود کو سچا ثابت کرنے کے لیئے دو چار ہزار روپے کسی سے قرض بھی لے لیا جاتا ہے. تاکہ قسم کھا سکیں کہ بھائی ہم تو مقروض ہیں ہم پر قربانی فرض نہیں ہے . اور ملک سے باہر  بیٹھے باپ، بھائی اور بیٹے کو آرڈر بک کروا دیا جاتاہے کہ بھئی اتنے بکرے کرنے ہیں ، اس اس کے گھر تو ران جانی ہے ورنہ ہماری ناک کٹ جائے گی . 
گویا قربانی کرنا اسی قربانی کے دنبے کا فرض ہو گیا .جو پہلے ہی پاکستان میں بیٹھے مفت خوروں کے لیئے روز ذبح ہوتا ہے .
اکثر دیکھا گیا ہے کہ ایک گھر میں چھ چھ لوگ کما رہے ہیں لیکن قربانی کا ایک ہی بکرا آئیگا اور اکثر باہر والے کی کمائی کا آئے گا . 
چاہے اس بھیجنے والے نے اپنے بچوں کو قربانی کا گوشت سنگھایا بھی نہ ہو اس دن. کہ ایک کی کمائی پر ایک  ہی قربانی  کی گنجائش تھی .
سو وہ تو پچھلوں  کو رانیں،دستیاں اور تکے کھلانے کو بھیج دیا .
اور اپنے بچوں کو کھلاتے ہیں اس دن بھی قصائی سے خرید کر گوشت. 
گویا آپ دو طرح سے گناہگار ہوئے.
1- اس کے گھر میں فساد ڈالا( جو سسرالیوں کا پسندیدہ شیوہ ہوتا ہے ).
2- اسے قربانی کی سنت اپنی اولاد کو دکھانے اور سکھانے سے محروم کر دیا .
(وہ تو آپ کی آنتوں اور چھچھورپنے کی نظر ہو گئی ).
سب سے خاص بات قربانی ہر انسان کے اپنے مال ہر لگتی ہے . اپنے گھر میں رہنے والا ،اپنی سواری رکھنے والا ، ہر مسلمان صاحب نصاب ہوتا ہے . سارا سال موج اڑانے والے اور قربانی پر دبئی سے، امریکہ سے ،یورپ سے، باپ، بھائی اور بیٹے کی کمائی  کا انتظار کرنے والے یاد رکھیں کہ وہ قربانی اس رقم کے بھیجنے والے کی ہوئی نہ کہ آپ کی جانب سے . اس لیئے محلے میں ٹیڑھے  ٹیڑھے ہو کر چلنے سے پرہیز کریں . مرنے کے بعد آپ کے کام اس قربانی کے  جانور کی اوجڑی بھی نہیں آنے والی 😲
ممتازملک
                     ..............

جمعرات، 8 ستمبر، 2016

ایکسرے مشین

ایکسرے مشین 😲

پاکستانی مردانہ نظریں ایکسرے مشین کو پھاڑ کر اس کا بھی ایکسرے کرنے میں ماہر قرار دی گئی ہیں .
بقول شخصے
ایکسرے اور سونو گرافی ماہرین نے ہاتھ جوڑ کر کر ان سے اپنی خدمات پیش کرنے کی درخواست کی ہے کیونکہ ان کا کہنا ہے کہ
استاد جی جہاں ہمارا کام  ختم ہوتا ہے آپ تو شروع ہی وہاں سے ہوتے ہیں .....😲😲😲😲
او تیری ی ی ی ی
ممتازملک

بدھ، 31 اگست، 2016

شہزادی


           شہزادی
(تحریر/ممتازملک.پیرس)


ہر گز وہ شخص مسلمان نہیں ہے کہ جس کے ہاتھ، آنکھ اور زبان سے کوئی مسلمان محفوظ نہیں ہے .....
اس حساب  پر ہم میں سے کوئی بھی مسلمان نہیں .لہذا ہم سب کو  تجدید دین کی اشد ضرورت ہے.
رہی بات ڈیانا  کی
تو وہ واقعی شہزادی تھی . پیدائشی شہزادی۔ شہزادی ڈیانا
اسکی ہر ادا سے شہزادگی ٹپکتی تھی .
حسین
نرم خو
ہمدرد
مہربان
شوخ
پھرتیلی
اس پر خدا مہربان تھا جو اتنی عنایت کیں پر اس کی قسمت مہربان نہ تھی .
سو سکون اسے کبھی نصیب ہی نہیں ہوا .....
سنو جنت کا فتوی اور مغفرت کا سوال اٹھانے والو..
اپنے گارنٹی کارڈ تو دکھاو جنت کا کوئی پاس تو بنوا ہی رکھا ہو گا آپ  سب نے ...
اور یہ دعوی باعث شرم نہیں کہ
وہ اپنی باقی تخلیقات کو بھول جائے گا بخششیں بانٹتے ہوئے جبکہ وہ ہر  بھول چوک سے آزاد ہے . وہ انسانوں کو ان کے نیتوں کا پھل دیتا ہے ۔ وہ ان کے اعمال پر ان کو جزا و سزا دیتا ہے ۔ تو دنیا کا ہر انسان اسی کا دیا ہوا رزق بھی کھاتا ہے ۔ اس کے بنائے ہوئے مقدر کی تلاش میں بھی رہتا ہے ۔ اور  اسی کی لکھی ہوئی خوشیاں اور غم بھی پاتا ہے ۔ پھر جوابدہی کس بات کی ؟
جی ہاں جوابدہی اسی راستے کو منتخب کرنے کی ، کہ جس پر چل کر ہم بے اپنے نصیب کو پانے کی جستجو کی ۔۔اچھا راستہ تو اچھا پھل،  برا راستہ تو بری منزل ۔ کیونکہ ہمیں صرف خواہش خرنے والا دل ہی نہیں دیا گیا ۔ بلکہ فیصلہ کرنے کے لیئے دماغ اور اس میں سمائی عقل سے بھی نوازہ گیا ہے۔ 
۔۔۔۔۔۔۔۔

جمعہ، 19 اگست، 2016

پھپھے کٹنی

جو پھوپھی پھوپھا کو روز کوٹتی  تھی کیونکہ وہ تھا ہی" قابل کٹ " اسی  لیئے جس دن وہ اسے نہ کوٹتی تو محلے کے من چلے اسے گلی سے گزرتے وقت خاص آواز لگاتے کہ
پھپھا کٹ نی...
یوں یہ بات زبان زد عام ہو گئی . اور بگڑتے  بگڑتے ہوئے پھاپھا کٹنی بن گیا.
ممتازملک

بدھ، 17 اگست، 2016

قربانی کیجیئے تماشا نہیں


آج کل بیرونی برائے فروخت اذان خرید کر ہمارے کم او ےی وی زور و شور کیساتھ فرضی عبادات میں.کیڑے نکالنے اور انہیں متنازعہ بنانے میں.دن رات ایک.کیئے ہوئے ہیں . انہیں.ہر اسلامی عبادت وقت کا ضیاں اور اللہ.کی راہ میں  خرچ فضول خرچی لگتا ہے . لیکن نہیں دکھے گا تو اپنے ہاتھ میں پکڑا ہوا ستر ہزار کا موبائل اور جثے پر پہنا تیس ہزار کا جوڑا.کبھی  بھی فضول خرچی نہیمنلگے گا . اور نہ وہ اس کی رقم کسی ضرورت مند کو دینے کا کبھی سوچیں گے.
یہ سچ ہے کہ حج زندگی میں ایکنہی بار فرض ہے اس سے زیادہ کی استطاعت ہے تو اس رقم کو کسی اور کو پہلی بار کے لیئے حج بدل میں دیا جا سکتا ہے لیکن سال میں ایک بار عید الضحی کے موقع پر قربانی ہر کمانے والے، اپنے گھر اور سواری رکھنے والے پر اللہ کی راہ میں جانور کی صورت پیڈ کرنا اللہ کا حکمنہے اور اسے کوئی بھی مائی کا لعل  چیلنج نہیں کر سکتا . اور جو ایسی ناپاک جسارت کرے اسے  دین اسلامنسے اپنا تعلق ختم سمجھنا چاہیئے .
دوسری جانب معاشرے میں نگاہ دوڑائیں تو گھر میں دس لوگ بھی کما رہے ہیں سارا سال سارے اللے تللے،  ہوٹللنگ،شاپنگ ہر موقع پر دس دس ہزار کے چار چار جوڑے بن رہے ہیں لیکن جیسے ہی عید قرباں  کا موقع آتاہے تو گھر بھر میں فرق فاقہ کا رونا پڑ جاتا ہے . اکثر تو خود کو سچا ثابت کرنے کے لیئے دو چار ہزار روپے کسی سے قرض بھی لے لیا جاتا ہے تاکہ قسم کھا سکیں کہ بھائی ہم تو مقروض ہیں ہم قربانی فرض نہیں ہے . اور ملکنسے باہے بیٹھے باپ بھائی اور بیٹے کو آرڈر بک.کروا دیا جاتاہے کہ بھئی اتنے بکرے کرنے ہیں اس اس کے گھر تو ران جانی ہے ورنہ ہماری ناک کٹ جائے گی .
گویا قربانی کرنا اسی قربانی کے دنبے کا فرض ہو گیا .جو پہلے ہی پاکستان میں بیٹھے مفت خوروں کے لیئے روز ذبح ہوتا ہے .
اکثر دیکھا ہے ایک گھر میں چھ چھ لوگ کما رہے ہیں لیکن قربانی کا ایک ہی بکراآئیگا اور اکثر باہر والے کی کمائی کا آئے گا .
چاہے اس بھیجنے والے نے اپنے بچوں کو قربانی کا گوشت سنگھایا بھی نہ ہو اس دن. کہ ایک کی کمائی پر ایک  ہی قربانی  کی گنجائش تھی .
سو وہ تو پچھلوں  کو رانیں،دستیاں اور تکے کھلانے کو بھیج دیا .
اور اپنے بچوں کو کھلاتے ہیں اس دن بھی قصائی سے خرید کر گوشت.
گویا آپ دو طرح سے گناہگار ہوئے.
1- اس کے گھر میں فساد ڈالا( جو سسرالیوں کا پسندیدہ شیوہ ہوتا ہے ).
2- اسے قربانی کی سنت اپنی اولاد کو دکھانے اور سکھانے سے محروم کر دیا .
(وہ تو آپ کی آنتوں اور چھچھورپنے کی نظر ہو گئی ).
سب سے خاص بات قربانی ہر انسان کے اپنے مال ہر لگتی ہے . اپنے گھر میں رہنے والا ،اپنی سواری رکھنے والا ، ہر مسلمان صاحب نصاب ہوتا ہے . سارا سال موج اڑانے والے اور قربانی پر دبئی سے، امریکہ سے ،یورپ سے، باپ، بھائی اور بیٹے کی کمائی  کا انتظار کرنے والے یاد رکھیں کہ وہ قربانی اس رقم کے بھیجنے والے کی ہوئی نہ کہ آپ کی جانب سے . اس لیئے محلے میں ٹیڑھے  ٹیڑھے ہو کر چلنے سے پرہیز کریں . مرنے کے بعد آپ کے کام اس قربانی کے  جانور کی اوجڑی بھی نہیں آنے والی 😲
ممتازملک

پیر، 15 اگست، 2016

غوآں کی سیر


                       غوآں کی سیر

                    ممتازملک. پیرس

فیس بک ہر تو ہزاروں کی فرینڈ لسٹ موجود ہے لیکن کچھ لوگ اپنی تہذیب ،شائستگی ،خلوص اور ہم.مزاجی کی وجہ سے دل میں الگ ہی جگہ بنا لیتے ہیں . 

ایسے ہی دوستوں میں سے کچھ بہت اہم دوست ہیں فرانس کے شہر" غوآں "   Rouen میں رہنے والے  سلیم خان اور بیگم طاہرہ سلیم خان ہیں . جو کچھ ماہ قبل ڈیڑھ دو گھنٹے کی ڈرائیو کر کے بطور خاص مجھے ملنے کے لیئے تشریف لائے اور بڑی محبت سے مجھے اپنے شہر آنے کی دعوت بھی دی .
کل چودہ اگست 2016 مجھے اپنی فیملی کے ساتھ اس پیارے سے دوست جوڑے کیساتھ دن گزارنے کا موقع ملا . موٹر وے سے پیرس سے غوآں کا فاصلہ گاڑی میں ڈیڑھ سے دو گھنٹے کا اور  دو تین مقامات پر یہ ٹریفک رش اور بلاک ہونے سے تین.سے چار گھنٹے ہر محیط یو گیا . موسم بھی 29 ڈگری سینٹی گریڈ یعنی خوب گرم تھا . شیخ صاحب گاڑی ڈرائیوو کرتے اور بچئ اونگھتے رہے . اور میں موبائل پر نیٹ پر ادھورا کام مکمل کرتی رہی یا آپ سب کے لیئے راستے میں آنے والی ہر خوبصورت عمارت اور منظر کو موبائل کیمرے پر قید کرتی رہی .
اس شہر میں بہت خوبصورت پرانی اور نئی تعمیرات کی آمیزش نے اسے میری نظر میں  پرانی ہالی وڈ کی فلموں میں نظر آنے والا شہر بنا دیا ہے
بہت سے خوبصورت چرچز،دریا اور ساحل سمندر کے علاوہ ہرے بھرے کھیت، شپنگ، چونے جیسی سفید پہاڑیوں نے اسے ایک دلکش سیاحتی مقام بنا دیا ہے .

سلیم خان اور بیگم طاہرہ سلیم خان کی مہمان  ہمیشہ یاد رہیگی . 

اس خوبصورت سفر کی تصویری داستان پیش ہے آپ سب کے لیئے .......

جمعہ، 12 اگست، 2016

دعوت نامہ ۔ تقریب رونمائی / سچ تو یہ ہے




دعوت نامہ   
تقریب رونمائی  & سچ تو یہ ہے ? نثری مجموعہ کلام
  
                          


 معزز خواتین و حضرات   
  26 اگست 2016 بروز جمعہ / 3بجے
                                  ایک خصوصی پروگرام کا انعقاد کیا جا رہا ہے.
  پروگرام کی صدارت فرانس میں تعینات
 سفیر پاکستان جناب معین الحق صاحب
 فرمائینگے.
مہمان خصوصی ڈنمارک کی معروف
 شاعرہ ،لکھاری اور محقق 
 محترمہ صدف مرزا صاحبہ
 ہونگی. جس میں پیرس کی 
 جانی مانی شاعرہ اور کالمنگار
  محترمہ ممتاز ملک کے پہلے
  نثری مجموعہ کلام ''سچ تو یہ ہے'' 
کی رونمائی ، محفل مشاعرہ اورایک خوبصورت 
 محفل موسیقی کا اہتمام کیا جا رہا ہے ۔
 آپ سب کی شرکت ہمارے لیئے
 باعث مسرت و افتخار ہو گی 
تاریخ  : 26 .8.2016
دن               :جمعتہ المبارک
پتہ : Maison de quartier
                 
    Les Vignes blanches









 Avenue Anna de Noailles 

شمیم خان
صدر پاکستان پیپلز پارٹی اور
 سوشل ورکر

روحی بانو

*شاعرہ ، کالمسٹ 
ممتاز ملک









بدھ، 10 اگست، 2016

انٹرویو . ممتازملک

https://youtu.be/iKOB4_3EYq4

شاعری / /مدت ہوئ عورت ہوۓ/ ممتاز قلم / سچ تو یہ ہے/ اے شہہ محترم/ سراب دنیا/ نظمیں/ پنجابی کلام/