ممتازملک ۔ پیرس

ممتازملک ۔ پیرس
تصانیف : ممتازملک

ہفتہ، 3 جنوری، 2015

صدف مرزا کا دورہ پیرس ۔۔ وہ آئیں گھر میں میرے ۔۔ ممتازملک ۔ پیرس









معروف شاعرہ صدف مرزا کا دورہ پیرس
وہ آئیں گھر میں میرے
ممتازملک ۔ پیرس



ایئر پورٹ آمد





ایئر پورٹ آمد 






صدف مرزا کا دورہ پیرس
وہ آئے گھر مین میرے
ممتازملک ۔ پیرس



ریلکس موڈ تیسرا دن




پیرس کےمعروف شاعرعاکف غنی22/12/2014 
 اپنی کتاب پیش کرتے ہوئے




                                                                  23/12/2014ایک تقریب


                                 23/12/2014     ایک تقریب   







                                                          25/12/2014   ایک تقریب   









                                              26/12/2014 
پیرس میں تعینات  سفیر پاکستان جناب غالب اقبال صاحب کو
   ممتاز ملک اپنی تصنیفات پیش کرتے ہوئےساتھ میں  صدف مرزا صاحبہ       



 سال 2014 جہاں اور بہت سی یادیں چھوڑ کر گیا وہیں میرے لیئے سب سے حسین لمحات میری بہت پیاری دوست محترمہ صدف مرزا کی اس سال کے آخری دو ہفتے میں ڈنمارک سےآمد اور میرے ساتھ ان کا قیام ، ان کے ساتھ گزارے روزوشب ، ان سے کی گئیں ڈھیروں باتیں ،کیا کیا ہے،میں بتا نہیں سکتی ۔ ان کو تفصیلا بعد میں تحریر کروں گی انشاءاللہ ۔ ڈنمارک سے اپنے بزی شیڈول میں سے پورے دو ہفتے نکالنا ، اور مجھے قیام کا شرف بخشنا ،میرے لیئے کبھی نہ بھولنے والا وقت رہا ۔ مجھے سمجھ نہیں آ رہا کہ میں ان لمحات کی خوشی کو آپ سے کن الفاظ میں بیان کروں ۔ صدف مرزا صاحبہ سے اس وقت میں بہت کچھ سیکھنے کو اور جاننے کو ملا ۔ میری کوئی بہن نہیں ہے اس لیئے مجھے نہیں معلوم کہ بہنوں کی توجہ اور لاڈ کیسے ہوتے ہیں ۔ اس لیئے اگر کوئی کمی بیشی آپ سے محبت میں ہو گئی ہو، تو مجھے ناسمجھ جان کر درگزر کیجیئے گا ۔ میں چاہوں گی کہ یہ وقت بار بار آئے ۔ اور مجھے بار بار آپکی میزبانی کا موقع ملے ۔ آپ کا علم ،آپ کی سادگی ، آپکا خلوص ،آپ کی لگاوٹ سب کچھ آپ کی کامیابیوں کی وجہ بیان کرتا ہے ۔ سچ ہے کہ کچھ بھی بنا محنت نہیں ملا کرتا اور اگر مل بھی جائے تو اسے سنبھالنے کے لیئے بھی انسان میں  بھی                                                                     اوووووووووو                                                                                             جدائی کی                                                                       گھڑی    

                                                                                  31/12/2014
کچھ گُن ہو نے چاہیئں ورنہ کامیابی جتنی تیزی
 سے آتی ہے اس کا جانا بھی اسی تیزی سے دکھائی دیتا ہے ۔ یہ ایک چھوٹی سی سفر کہانی بھیج رہی ہوں ۔ امید ہے یہ آپ کو ہمیشہ اپنے دل کے قریب لگے گی ۔
            اس امید کیساتھ کہ پھر ملیں گے انشاء اللہ بہت جلد

                         ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جمعرات، 1 جنوری، 2015

قارون مٹی میں دفن ہو گیا / ممتازملک ۔ پیرس




قارون مٹی میں دفن ہو گیا
ممتاز ملک ۔ پیرس


کوئی بھی بات جب تک محبت کے دائرے میں رہے تب تک تو ٹھیک ہے لیکن جب یہ ہی محبت حرص اور ہوس کی چادر اوڑھ لے اور اس میں مقابلے بازی کا رنگ شامل ہو جائے ، تو سب کچھ ملیا میٹ ہو جاتا ہے ۔ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ ہم سب سے زیادہ نقصان انہیں لوگوں سے اٹھاتے ہیں جو ہمارے سب سے ذیادہ قریب ہوتے ہیں ۔اور ہم سے سب سے ذیادہ محبت کے دعویدار ہوتے ہیں ۔  لیکن کیا کریں کہ محبت کا جنازہ اسی کے دعویدار آج کل خوب دھوم سے اٹھاتے ہیں ۔ فی زمانہ  محبت اور دوستی کا نام لیکر پیٹھ میں خنجر گھونپنے والوں کا راج ہے اور وہی لوگ  وقتی طور پر کامیاب بھی ہو جاتے ہیں لیکن پھر خیال آتا ہے کہ یہ لوگ حلق سے لقمہ کیسے نیچے اتار لیتے ہیں یا کیا یہ لوگ رات کو سو جاتے ہیں سکون سے ۔ دھوکا کھانے والا تو شاید غم کی شدت سے نیند نہیں تو بے ہوشی کی نیند میں چلا ہی جاتا ہو گا لیکن  ان لوگوں کا کیا نیند آ جاتی ہے ؟ 
 انسان کی بھی عجیب خصلت ہے جب وہ کسی سے محبت کرتا ہے تو اس کی عیب بھی اسے اس کی خوبیاں لگنے لگتے ہیں۔  اس پر اس محبت کے صدقے میں سات خون بھی معاف ہوتے ہیں ۔ جبکہ اسی شخص سے جس وہ ناراض ہو جاتا ہے یا نفرت کرنے لگتا ہے تو اس کے ہر اچھے کام میں بھی اسے خوامخواہ ہی کیڑے نظر آنے لگتے ہیں ۔ وہ جان بوجھ کر اس میں عیب تلاش کرتا رہے گا ۔ موقع ڈھوندتا رہے گا کہ کیسے اسے ہر جگہ نیچا دکھایا جا سکے ۔
 ایک وقت ہوتا ہے جب آپ کسی کی چوٹ اور اس کے درد کو بتائے بغیر سمجھتے ہی نہیں محسوس بھی کرنے لگتے ہیں ، چاہے وہ دنیا کے کسی بھی کونے میں کیوں نہ ہو ۔ اسی کیفیت کو محبت کہاجاتا ہے اور ایک وقت وہ بھی ہوتا ہے کہ وہ آپ کی آنکھوں کے سامنے تڑپ رہا ہوتا ہے اور آپ بے حسی کی تصویر بنے دیکھتے بھی ہیں اور اسے مذید درد دیکر خوشی اور تسکین بھی محسوس کرتے ہیں ۔ شاید اسی کیفیت کو نفرت کہا جاتا ہے ۔ 
اس وقت سمجھ میں نہیں آتا کہ کون سا جذبہ سچا تھا ؟ کس وقت وہ سچ بول رہا تھا ؟ اس وقت جب وہ اسکی محبت میں مبتلا تھا یا اس وقت جب وہ اس کی نفرت میں سرتاپا ڈوب چکا ہے ۔ لیکن شاید یہ دونوں ہی جذبے انسان سے جھوٹ بلواتے ہیں ۔ سچ وہی ہوتا ہے جو انسان کسی کو چاہے یا نہ چاہے دونوں صورتوں میں اپنے دل کی آواز پر بولے ۔ حضرت علی کرم اللہ وجہ نے فرما یا کہ'' جب کسی سے دوستی کرنا چاہو تو پہلے اسے غصہ دلاؤ، اگر وہ غصّے میں بھی حق بات پر قائم رہے تو اس سے دوستی کرو ورنہ اس کی دوستی سے بچو ۔ '' اسی طرح ایک موقع پر ارشاد فرمایا کہ خوشی میں وعدہ اور غصّے میں کبھی فیصلہ مت کرو ''۔
کیونکہ انہی دونوں مواقعوں پر کئے گئے فیصلے انسان کو نہ صرف نقصان پہنچاتے ہیں بلکہ اسے اکثر بلکل تن تنہا بھی کر دیتے ہیں ۔  اور کون نہیں جانتا کہ اچھے دوست بنانے اور ڈھونڈنے میں تو عمریں بیت جاتی ہیں جبکہ انہیں گنوانے میں ایک ٹیڑھی نظر ،ایک ہتک آمیز جملہ یا ایک متکبرانہ ادا ہی کافی ہوتی ہے ۔  ادائیں دکھاتے ہوئے تو شاید ہمیں اس کے اگلے اثرات کا اندازہ نہیں ہوتا لیکن جب اداؤں کا طوفان تھمتا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ آبادیوں کی آبادیاں جو سالوں بلکہ صدیوں کی محنتوں اور مشقتوں کیساتھ تعمیر ہوئی تھیں وہ سب کی سب خس و خاشاک کی طرح بہہ گئیں ۔ جیسے قارون مٹی میں دفن ہو گیا اپنے سارے خزانوں اور اپنی ساری اکڑی ہوئی گردن سمیت ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
                                      ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اتوار، 28 دسمبر، 2014

ابھی نہیں تو کبھی نہیں ۔/ کالم

                                  


      ابهی نہیں تو کبهی نہیں             تحریر:
        (ممتازملک . پیرس)



ہم منافق اور بے غیرت لوگ سالوں سے اپنے معصوموں کے جنازے اٹها رہے ہیں .لیکن اُس قوم کو جنہیں ہم کبهی کافر کہتے ہیں تو کبهی جہنمی لیکن کیا انہوں نے دو پتهروں سے بنی عمارتیں گرانے والوں کے شک میں ہم نام نہاد مسلمانوں کے ملکوں کے ملک بموں سے پهاڑ نہیں ڈالے. اور ہم بے غیرت اپنی مائیں ،بہنیں ،بوڑهے ،جوان اور اب معصوم بچے ان خنزیر طالبانوں اور بدشکل درندوں جیسے حلیئے والے جانوروں جیسی شکلوں اور سؤر جیسی سوچوں والے دماغی مریضوں  کے ہاتھوں گنوا کر بھی ان کے لیئے مذاکرات مذاکرات کے ڈھونگ رچاتے ہیں ۔ ان جانوروں کو اپنی جانوں اور عزتوں پر اختیار دیتے ہوئے ہم کیا  یہ بهول جاتے ہی  کہ بے غیرت کون ہے ہم یا وہ ،جنہوں نے اپنے چار لوگو ں کے بدلے ہمارے کروڑوں لوگوں کو عذاب میں مبتلا کیا ہے ،تو ہاں وہ غیرت مند ہیں کہ ان کی ہر جان ان کے لیئے سب سے زیادہ قیمتی ہوتی ہےاورہاں ہم بےغیرت ہیں کہ ہماری ہر کٹی ہوئی گردن اور دم توڑتی ہوئ جان خود ہمارے لیئے صرف اور صرف ایک نمبر شمار ہے بس.
یہ پندرہویں صدی کے تاجر عالم اور دوزخ کے آخری حصے میں غلاظت کهانے والے فاسق وفاجر عالم اور ملا کیا یہ ہمیں دین سکهائیں گے جو خود ہر دس منٹ کے بعد اپنی ہی کہی ہوئ باتوں کا پاس نہیں رکه سکتے. جو قاتلوں اور جانوروں سے یارانے کو اپنے لیئے فخر یہ پیشکش سمجھتے ہیں .اس پوری اسمبلی کے نام نہاد دو نمبر لیڈروں کے سامنے اس پوری قوم اور ان کے معصوم بچوں کے خون کا قصاص دیں اور انکے خاندان کے خاندان ان کی آنکهوان کے سامنے اسی طرح زبح کریں تو یہ ہی انصاف یو گا ۔ ان معصوم شہیدوں کے ساتھ. لال مسجدکے دلال کو اب تک پهانسی کیوں نہیں دی گئی.  ؟اس لال مسجد اور اسی طرح کے ساری مساجد جہیں اس جیسے دلال اورقاتل پناہ گاہ اور اڈابنا چکے ہیں انہیں نبی پاک صل اللہ علیہ وسلم کی سب سے بڑی سنّت کو نبهاتے ہوئے کیوں بلڈوز نہیں کر دیا گیا  .جبکہ مسجد ضرار بهی ایسے ہی خبیثوں کا گڑھ بننے جا رہی تهی.جسے ہمارے پیارے نبی ﷺنے گروا کر اس شر کے خلاف ایک عملی مثال پیش کر دی .ان کے شرپسند عالموں اور اماموں ملاءوں سمیت انہیں زمیں دوز کر دیا جائے. ہمیں کتنا مسلمان ہونا ہے یہ ہمیں اور ہمارے خدا کو طے کرنے دیا جائے. ہمیں اس کے لیئے کسی بهی لال مسجد کے برقع برانڈ خبیث کی ضرورت نہیں ہے. ہر آدمی اپنی قبر کا خود ذمےدار ہے کبهی کوئ کسی کے کردار کا ذمّہ دار جب خدا نے قرار نہیں دیا تو ان فرقہ پرور بے حیا ملاؤؤں یا عالموں  کی کیا اوقات جو ہمیں آکے ڈکٹیٹ کریں کہ کون کب نماز پڑهے گا ،اور کون کتنا مسلمان ہو گا. بند کریں پاکستان میں اسلام کا کاروبار. اس ملک کے صدراور وزیراعظم  کےعہدے پر بیٹهنے والوں پر لعنت ہے . ہم بهی تمہیں ایسے ہی قتل کرتے ہیں اس کے بعد غم نہ کرو ہم بهی ایک کمیٹی بنا دیں گے چا ر دن اسی کمیٹی کے نام پر ہمارے ہاں مذید حرام خور گروپ اور عیاشی کر لیں گے. ورلڈ ریکاڈ قتل  عام کا ریکارڈ بنانے والے حکمران کب تک عالموں اور مولویوں کے ذرخرید فتووں کے باڈی گارڈ بنے رہیں گے.  انہیں بتانے کی شدید ضرورت ہے کہ صبح اپنے پیاروں کو ماتها چوم کر گهروں سے رخصت کرنے والوں کو جب شام کو اپنے پیاروں کے لاشے کے ٹکڑے سمیٹنے پڑتے ہیں تو ان کے دل پر کیا گزرتی ہیں ان تمام عالمان ،طالبان جانوران کو اب اس درد سے گزارنا اللہ کا ویسا ہی حکم ہے جیسا اللہ کا یہ حکم کہ کسی بهی ایک انسانی جان کی قیمت سارے کائنات کی سلامتی جیسی محترم ہے. 
ان سب خبیثوں کو چوراہوں میں لٹکایا جائے ان کی گردنیں کاٹ کر ان پر پبلک ٹائلٹ بنائے جائیں جہاں لوگ صبح شام ان کو خراج تحسین پیش کریں . و ہ لوگ جو ان جیسے بد کرداروں سے رتی بهر بهی ہمدردی رکھتے ہیں انہیں بھی ان کے ساته عبرت کا نشان بنایا جائے. سعودیہ کے چاند پر دو نمبر عیدیں منانے والوں کو آج سعودیہ کے قاتل اور غنڈے کیوں نظر نہیں آ رہے. کیوں کے دیکهنے والواں نے گردنیں ریت میں دبا رکهی ہیں . جو گردن ریت میں داب کر خود کو محفوظ سمجهتےہیں تو بہتر ہے کہ انہیں اسی ریت میں دفن کر دیا جائے. کہ ان کی زندگیاں اسلام کی خدمت کے نام پر اتنا انتشار پیدا کر چکی ہیں کہ اس کا خاتمہ ان انہیں ختم کیئے بنا کسی صورت ممکن نہیں ہے ۔ اب وقت آ گیا ہے کہ سیاست کو واقعی دین سے جدا کر دیا جائے اور ہر انسان کو اس کی مرضی سے اپنے رب کو پوجنے اور اسکی عبادت کا حق دیا جائے ۔ 
                                      ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


urdunewsonline.com


                                  ::::::::::::::::::::::






اتوار، 21 دسمبر، 2014

سلام سلمان خان / ممتازملک -پیرس


سلام سلمان خان
ممتازملک / پیرس

ہم ان تمام ہندوستانی دوستوں کے انتہائ مشکور ہیں جنہوں نے پاکستان میں  ہونے والے خوفناک قتل عام میں ہم سے  اپنی دلی اور جذباتی ہمدردی کا اعلانیہ اظہار کیا بلکہ ہم نے کئی کو مسلمان نہ ہوتے ہوئے بلک بلک کر روتے ہوئے بهی دیکها.کہ یہ درد کا رشتہ ہے. جس کا کوئی بھی مقابلہ نہیں ہو سکتا. . اس سلسلے میں تمام فنکاروں کا بهی شکریہ. اور خاص طور پر ہم زکر کرنا چاہتے ہیں ایک مہنگے اور بڑے ہندوستانی ٹی وی شو بگ باس کا جس میں ایک ایک منٹ میں کسی بهی مصالحہ دار حرکت سے کروڑوں روپے کمائے جاتے ہیں .خاص طور پر ویک اینڈ میں ان کے معروف فنکار سلمان خان جب یہ شو کرتے ہیں تو شرارتیں بهی زیادہ متوقع ہوتی ہیں  لیکن گزشتہ رات 20 دسمبر 2014 کو ہونے والا شو اس لحاظ سے منفرد رہا کہ اس میں تجارت سے زیادہ انسانیت نظر آئ.اورپروگرام کرنے والا اداکار سلمان خان نہیں بلکہ ایک ہمدرد دل رکھنے والا بہترین انسان باپ بهائ اور بیٹے جیسا کلیجہ رکهنے والا سلمان خان نظر آیا. یہ محض ایک منٹ کا روایتی اظہار ہمدردی نہیں تها بلکہ پورا ایک گھنٹہ یہ بات دهیان میں رکهی گئ کہ ان کی کسی بات سے کوئ شوخی یا شرارت نہ چھلکے.  پورے پروگرام میں انسانیت کو اہمیت دی گئ. ہم سبهی پاکستانی اس بات پرسبهی ہندوستانی فنکاروں اور خاص طور پر سلمان خان کے مشکور ہیں. جنہوں نے یہ ثابت کیا کہ وہ ایک ااچھے اداکار ہی نہیں بلکہ بہت اچهے انسان بھی ہیں.اس جرات اظہار پر ہم سلمان خان کو دل سے سلام پیش کرتے ہیں.
.                                          ......................       

ہفتہ، 20 دسمبر، 2014

سایہ خدائے زوالجلال. ممتازملک


                                


                         سایہ خدائے زوالجلال
                                                ممتازملک. پیرس





کیسے کیسےپیارے لوگ اس جہاں سے کس کس انداز میں رخصت ہو جاتے ہیں. اورہم انہیں سپرد خاک کر کے صبر کے سہارے باقی زندگی گزار لیتے ہیں. لیکن یہاں تووطن کی حفاظت کے وعدے کرتےمعصوم اده کھلے گلاب, وطن کےلئے سایہ خدائے زوالجلال کی آرزو کرتے حسین  چاند چہرے اس لیئے اپنے ہی خون میں بے دردی سے نہلا دیئے گئے کہ حکومت پاکستان غیر ملکی بهیک مانگنے کے لیئے غیر ملکی آقاوں کے تلوے چاٹ سکے. اور اس کے بدلے میں دنیا جہاں کا خنزیر اس کے نہتے عوام اور اب تو معصوم بچوں کو بهی جب چاہے قتل کر سکے. توہین رسالت اور توہین رسول کا ڈرامہ کرنے والوں کو ان مکروه قاتلوں کے منحوس تهوپڑوں پر یہ سنت توہین رسالت نہیں لگتی کیا؟ پاکستان میں کیوں ازبک اور افغان کتے لوگوں کو  کاٹتے پهر رہے ہیں؟ کیوں انہیں واقعی دن دہاڑے کتے ہی کی موت نہیں دی جاتی. کیوں انہیں پهانسیوں پر چڑهاکر ان کو ان کی خیالی جنت میں جانے کا راستہ آسان نہیں کیا جاتا. .جو ممالک ان کی حفاظت کے لئیے مرے جا رہے ہیں انہیں لولا لنگڑا کر کے انہیں ممالک کو کیو ں نہیں بهیج دیا جاتا اوران کی لے پالک این جی اوز جوان کی سلامتی کے غم میں گهلی جا رہیں ان پر کیوں بین نہیں لگایا جاتا.؟ ہمارے نااہل حکمرانوں کی صبر پا جاتے ہیں لیکن ہمارے بهانڈ حکمرانوں کویہ بات سمجھنے میں کتنی صدیاں لگیں گی , اور کتنے گهر اجاڑ کر سمجه آئے گی کہ ازبک اور افغان بڑے عہدوں یا نمایاں مقام پر کام کر ے والوں کے سوا ہر آدمی کو 24 گهنٹے میں پاکستان چھوڑنے کا حکم دیا جائے اور ایسا نہ کرنے والوں پر عوام کو کهل کر ان کی تکہ بوٹی کرنے کی اجازت دے دی جائے. جو لوگ ان سے دین کے نام پر یا انسانیت کے نام پر کوئ لاڈیاں کرنے کے موڈ میں ہیں. انہیں بهی انہیں کے ساته انجام تک پہنچایا جائے. پاکستان کی جیلوں میں ہزاروں درندوں کو اس لیئے پالا جا رہا ہے کہ وہ جہاں بهی اور جب بهی ان کی سودا بازی کرنا اور خون کی ہولی کهیلنا چاہے , بے دھڑک اپنا شوق پورا کر سکے. .اس ملک میں انسانوں کے خون کی قیمت کو پانی سے زیادہ سستا کرنے کا سہرا ہر لحاظ سے مذہبی منافرت پھیلانے والے علماء اور ملا کے سر ہے.جنہوں نے اپنے کھاتے بهرنے اور لوگوں کو اپنا بے دام غلام بنانے کے لیئے لوگو ں کو تقسیم در تقسیم کر دیا. اتنا کہ خود اپنی پرستش کااعلان ہی باقی رہ گیاہے .اس ملک کو بچانا ہے یا اس دین کو مزید لٹنے اور بدنام ہونے سےبچانا ہےتو ان تمام دین فروش علماء اور ملاءوں کے ساته وہی سلوک ہونا چاہیئے جو چنگیز خان نے ان کے ساتھ کیا. .آج ان دین فروش مفتیوں کے ہاتهوں کوئ مسلمان محفوظ نہیں. اور مسلمانوں کو جتنا خطرہ ان علماء اور ملاءوں سے ہے اور کسی سے نہیں.اسی لیئے آج ہمیں چنگیز خان بهی ہیرو لگنے لگا ہے. کیا اب اس زیادہ بهی کوئ برا وقت ہو گا کہ چوراہوں پر ہمیں ان مکروه صورت قاتلوں کو لٹکادیکهنے کے لیئے اور کتنا اور کس بات کا انتظار ہے. اب تو انہیں جھولی پهیلا کر بددعا بهی دینا ہے اور جوتا اٹها کر انہیں ان کی اوقات بهی یادکرا ناہےان حکمرانوں کو بهی خدا لمبی عمر اور ہوش و حواس دیکر ایسے ہی اپنی اولادوں کے غم دکها ئے تاکہ انہیں پتہ چلے کہ یوں جب ایک ایک پل اپنا کوئ پیارا جب ایسی درندگی سے گزر رہا ہوتا ہے تو اپنے رشتوں پر کیا گزرتی   ہے. جبهی ہماری قوم پاک سرزمین کو شاد باد بهی کر سکے گی اور سایہ خدائے زوالجلال کی امید بهی.
                                         ....................


                                                    

اتوار، 14 دسمبر، 2014

پنجابی نعت ۔ دساں کی حلیمہ ۔ اے شہہ محترم صلی اللہ علیہ وسلم


پنجابی  نعت 

  دساں کی حلیمہ تیری بکریاں جو چاردا
   خوبیاں کی دساں اوتے یار سوہنڑیں یار دا


کدی وی سواد نال معاملے نبھاۓ نہ
 اج وی جے میرے گھر سن لو او آۓ نہ
 میں تے گناہگار ہاں ڈر گھر بار دا  
 خوبیاں کی دساں اوتے یار سوہڑیں یار دا
  دساں کی حلیمہ ........


 اک دن سامڑیں تیرے میں کھلوڑاں اے
 پلے میرے کج وی نہیں  اس دن ہوڑاں اے
  رحمتاں تے آسرا اے میرے ہر بھار دا  
  خوبیاں کی دساں اوتے یار سوہڑیں یار دا 
 دساں کی حلیمہ تیری .........


 من چاہی گل کیتی من چاہی کم  وی  
 ویچ کے آخیر مینوں ملڑیں سی غم وی  
 اوناں دا خلوص ممتاز واجاں ماردا
    خوبیاں کی دساں اوتے یار سوہڑیں یار دا
  دساں کی حلیمہ ........
.......

جمعہ، 12 دسمبر، 2014

خواتین کی ڈگری یا سٹیٹس سمبل / ممتازملک ۔ پیرس





خواتین کی ڈگری یا سٹیٹس سمبل 
ممتازملک ۔ پیرس



 لیجیئے آخر کو حکومت کو خیال آ ہی گیا کہ خواتین کے لیئے علیحدہ سے میڈیکل کالج کی ضرورت ہی کیا ہے ۔ جن خواتین کو علم حاصل کرنا ہے یا جن لڑکیوں کو ان کے ماں باپ نے کسی معزز پیشے میں جانے کی اجازت دینی ہی ہے انہیں اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ ان کی بیٹی ڈاکٹر بن کر کسی مرد کا علاج کرتی ہے یا کسی خاتون کا ، ویسے بھی معالج تو معالج ہی ہوتا ہے اس کی جنس سے کسی کو کوئی مطلنب نہیں ہو سکتا ۔ پہلے ہی خواتین کے الگ سیٹوں نے میڈیکل کالج کے لیئے لڑکوں کی حد سے زیادہ حق تلفی کر لی ۔ یہ ایک شرمناک حقیقت ہے کہ ہمارے معاشرے میں 90 فیصد خواتین  یا ان کے والدین یہ سوچ کر یونیورسٹی یا میڈیکل کالج میں داخلہ کرواتے ہیں کہ چلو جی کسی اچھے گھر کا لڑکا ہاتھ آ جائے گا ۔  اگر یہ بات سچ نہیں ہوتی تو کون سا ایسا احمق ہو گا کہ وہ اپنی زندگی کے 8 یا 10 سال ایک پیشے کی تعلیم حاصل کرے ملک و قوم کا لاکھوں روپیہ خرچ کروائے اور اس کے بعد یہ کہہ کر ڈگری لپیٹ کر یا فریم کروا کر رکھ دے کہ نہیں جی ہمارے ہاں لڑکیاں نوکری نہیں کرتی ہیں یا لڑکا نہیں مانتا یا سُسر کام نہیں کرنے دیتے یا ابو پسند نہیں کرتے تو ایسی تمام ہڈ حرام خواتین سے درخواست ہے کہ آئندہ اپنی بیٹیوں کے لیئے بھی یہ سروے کر لیا کریں کہ انہیں کن سے اجازت لیکر بچی کو کہیں داخلہ دلوانا ہے ۔کس کس کی اجازت لینا ہو گی اپنا کیرئیر شروع کرنے کے لیئے ۔ ورنہ کیا ضرورت ہے کسی لڑکے کا حق مار کر یوں میڈیکل کے پروفیشن کا مذاق اڑانے کا ۔ ہمارے خیال میں تو یہ لڑکے لڑکیوں کا کوٹہ سسٹم ہی غلط ہے ۔ ہماری حکومت سے درخواست ہے کہ لڑکیوں کی تمام ترجیحی سیٹس ختم کی جائیں ۔ بلکہ لڑکیوں کے 99 نمبرز پر لڑکوں کے 70 نمبرز کو ترجیح دی جائے کیونکہ ان لڑکوں نے کل کو فیلڈ میں آ کر ملک قوم کی خدمت کرنا ہے ۔ان لڑکیوں کی طرح گھر کے چولہے میں ڈگری نہیں جھونکنی ۔ ہر لڑکی جو میڈیکل یا انجینئیرنگ یا ایسی ہی کسی پروفیشن کو  چنتی ہے تو اس سے خصوصی فارم بھروایا جائے ۔ جس میں انہیں اس بات کا پابند کیا جائے کہ وہ ڈگری لینے کے بعد لازمی فیلڈ میں پریکٹس کرینگی اور سوائے بچوں کی پیدائش یا بیماری کے کسی بھی صورت میں دو یا تین سال سے زیادہ اپنے پیشے سے چھٹی نہیں کر سکتیں ۔ اور اگر وہ ایسا نہیں کرینگی تو انہیں کم از کم دس لڑکوں کو اس شعبے کی ڈگری دلوانے کے اخراجات بطور جرمانہ ادا کرنے ہوں گے ۔  اس قانون کے بعد یا تو لڑکیاں اس  شعبے میں آئیں گی نہیں اور جو آئیں گی وہ پوری ایمانداری سے اور اپنا ذہن بنا کر اس پیشے کا انتخاب کریں گی ، اور اپنے ملک کے لیئے پوری طرح سے ایک مفید شہری ثابت ہونگی ۔ اور جو لوگ سٹیٹس سمبل کے طور پر لیڈی ڈاکٹر یا وکیل کا انتخاب تو کر لیتے ہیں تاکہ معاشرے میں انکی ناک اونچی ہو جائے تو انہیں پھر یہ سوچ کر لڑکی کا انتخاب کرنا ہو گا کہ اس لڑکی کو اپنے پیشے میں کام بھی کرنا ہے ۔ ایک اور بات جو لڑکیاں ان پیشوں کا انتخاب کرتی ہیں ان میں خود بھی اتنی اخلاقی جرات ہونی چاہیئے کہ وہ اپنے رشتے کے وقت  لڑکوں کو یہ بات واضح کہہ سکیں کہ  مجھے شادی کے بعد اپنے پیشے کو جاری رکھنا ہے اگر وہ اس کے لیئے راضی ہے تو بات آگے بڑھائے ورنہ یقیناََ وہ کوئی اس دنیا کا آخری لڑکا ہر گز نہیں ہے ۔ خدا نے اُس شخص کو آپ کے لیئے منتخب کیا ہے۔ جو آپ کی تعلیم آپ کی سوچ اور آپ کی فیلڈ کی دل سے عزت کریگا ۔ اور جو ایسا نہ کر سکے اسے صرف ایک باندی چاہیئے ۔ اور اگر آپ کو خود باندی ہی بننے کا شوق ہے تو کوئی آپ کے لیئے کچھ نہیں کر سکتا ۔ حکومت کو اس بات کا سختی سے نوٹس لینا ہو گا کہ ہر سو میں سے کتنی لڑکیاں ڈگری لیتی ہیں، کتنی فیلڈ میں جاتی ہیں اور کتنی گھروں میں بیٹھ جاتی ہیں ۔ کہ یہ صرف ایک فرد کی مرضی کا نہیں بلکہ قوم کے آٹھ سے دس سال اور لاکھوں روپے کی ایک فرد پر سرمایہ کاری کا معاملہ ہے ۔ 
                                      ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

منگل، 9 دسمبر، 2014

تاج محل ،بحبت کا مقبرہ یا دولت کا غرور


تاج محل ،
محبت کا مقبرہ یادولت کا غرور
ممتازملک۔ پیرس



پچھلے دنوں اپنی بہت ہی پیاری دوست معروف شاعرہ محترمہ صدف مرزا کی بھارت یاترا کی دلچسپ کہانی ہڑھتے ہوئے ان کی تصاویر کئی یادگار مقامات پر دیکھتے ہوئے بہت سے جذبوں نے سر اٹھایا ، خاص طور پر تاج محل کو دیکھ کر اسکے تعمیر کروانے والے شہزادہ خرم المعروف شہنشاہ ہند شاہجہاں اور انکی بیگم ارجمند بانو المعروف ملکہ ہندوستان ممتاز محل کے عشق کی داستان کے بارے میں  ایک ایک پڑھا ہوا لفظ میرے ذہن کے گوشوں سے چیختا چنگھاڑتا ہوا مجھے جھنجھوڑتا ہوا میرے دماغ کی فصیلیں توڑتا ہوا محسوس ہوا ۔ یہ کیسی محبت تھی جس میں ایک شہزادہ اپنی سوتیلی ماں جو کہ ملکہ وقت نور جہاں جیسی پاورفل عورت ہو  سے لڑ کر اسی کے بھائی کی بیٹی سے محبت میں مبتلا ہوتا ہے اس سے ایک بڑے مقابلے کے بعد بیاہ رچاتا ہے ۔ پھر اسے حاصل کرنے کے بعد اسے ہر سال ایک بچے کی پیدائش کی ذندگی اور موت کی اذیت سے گزارتا ہے ۔ اس کے ساتھ کا شادی کے بعد کا عرصہ اس کی بیوی نے اس کی اولاد پیدا کرتے کرتے موت کو گلے لگا لیا ۔  کہاں گئی وہ محبت ۔ جب اسے اولاد کا تحفہ دینے کے سوا شاید اسے اپنی اس محبوب بیوی سے بیٹھ کرکھل کر بات کرنا بھی نصیب نہیں ہوا ہو گا جب کہ  وہ اس کی اکلوتی بیوی بھی نہیں تھی پھر بھی ممتاز محل مسلسل چودہ سال تک بچوں کی پیدائش کے اذیت ناک مرحلے سے دوچار رہی اور بلآخر چودھویں بچے کی پیدائش کے دوران ہی اس دنیا سے چل بسی ۔ یہ کیسی محبت تھی جس نے اس معصوم عورت کو کبھی ایک نارمل انسان کی طرح صرف ایک وجود کی طرح جینے کا حق بھی نہ دیا اور اسکی موت کے بعد کوئی ایسا فلاحی کام جس میں کوئی اور ایسی تکلیف سے نہ گزرے ،کرنے کی بجائے آج کا اربوں روپیہ لگا کر ایک عظیم الشان مقبرہ تعمیر کروا دیا۔ دوسرے لفظوں میں بتا دیا کہ محبت کا آخیر یہ مقبرہ ہی ہوا کرتا ہے اور مجبت کرنے والوں کی شادی بھی ہو جائے تب بھی اسے چین ایک قبر میں ہی آتا ہے ۔ یہ محبت کی یادگار ہے یا رہتی دنیا تک ایک عورت کے وجود کی نفی ہے یا ایک بادشاہ کی جانب سے دنیا کے دل میں  اپنے اثاثوں کی دھاک بٹھانے کا ایک طریقہ ہے ۔ کیا ہےیہ ؟ ایک شعر بڑی شدت سے یاد آ رہا ہے کہ                                                             
                       اک شہنشاہ نے بنوا کے حسیں تاج محل
                       ہم غریبوں کی محبت کا اڑایا ہے مذاق
محبت میں کسی کو پھانس چھبونا بھی خود پر تلوار چلنے جیسا لگتا ہے ۔ انسان ایک کی بات دوسرے سے کہے بنا سمجھ جاتا ہے ۔ایک کی غیر موجودگی میں اسکے میلوں دور ہوتے ہوئے بھی اسکے ساتھ کچھ اچھا یا برا ہو جانے کو محسوس کر لیتا ہے ، لیکن یہ کیسا بادشاہ محبت تھا جس نے اپنی بیوی کو کبھی زچگی کی تڑپ کے سوا کچھ نہ دیا۔ یہ اس کی محبت تھی یا اس عورت سے کوئی تاریخی بدلہ ۔ کہ دیکھا کیسے ایک مرد تاحیات ایک عورت کو زندگی اور موت کے امتحان میں مبتلا کرتا ہے اور بعد میں ایک قاتل  محبت کہلانے کے بجائے باشاہ محبت بھی کہلاتا ہے ۔ اگر یہ محبت ہے تواللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے  کہ ہم اس محبت سے محفوظ ہی ہیں کہ جس کا انجام کسی مقبرے کی صورت میں دنیا کے کلیجے پر کھڑا نظر آئے ۔ اور جسے اس سنگی مقبرے میں جدائی کی تڑپ اور زچگی کے خوفناک عمر قید بخشی گئی ہو اسے مظلوم بھی نہ سمجھا جائے بلکہ اسے بھی ایک قاتل بادشاہ کی خوش نصیب بیگم قرار دیا جائے ۔ اُففففففففف کیسی بھیانک حقیقت ہے ۔ میرا زہن اس سے آگے کچھ بھی سوچنے کی ہمت کرنے کو تیار نہیں ۔ ارجمند بانو عرف ممتاز محل ایک شہید تھی ۔ اور ہم میں سے کوئی بھی اس کی بیچارگی کا تصور بھی نہیں کر سکتا ۔ اللہ پاک ان کی روح کو سکون عطا فرمائے ۔ آمین 

                                     ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہفتہ، 6 دسمبر، 2014

خدا اور مجازی خدا / کالم


                                

        خدا اور مجازی خدا
        تحریر: ممتاز ملک. پیرس


عورت دنیا کی وہ مخلوق ہے جس میں جذباتی پن باقی تمام مخلوقات سے کہیں ذیادہ پایا جاتا جاتا ہے .مردوں کی دنیا نے عورت کے جذبات کو اپنے مقاصد کے لئے خوب خوب استعمال کیا. جب وه جوان ہوتا ہے تو کسی اور کی بیٹی کو محبت کےدهوکے میں اٹھارہ بیس سال تک پالنے اور پڑھانے لکھانے دنیا میں جینے کے قابل بنانے والے اپنوں کو اپنے ہی ماں باپ کے خلاف کھڑا کر دیتا ہے۔ اسے ہر بات پر بغاوت کے لئیے اکساتا ہے. ہیر رانجھا، سسی پنوں، سوہنی ماہیوال اورلیلی مجنوں کو اس کی زندگی کاآئیڈیل بنا دینا چاہتا ہے. اور اگر وہ اس کےدکهائے رستے پر آنکهیں بند کر کے چلنے پر راضی نہ ہو جائے تو کبهی اسے بیوفائی کا طعنہ دیگا تو کبهی اسے خود غرض کہے گا. ایک وقت آتا ہے کہ وہ لڑکی گوڈے گوڈے اس کے عشق میں مبتلا ہو کر ہر رشتہ ہر تعلق توڑنے کو تیار ہو جاتی ہے اس کے ساته اپنا گهر بار چھوڑ کر نیا جہاں آباد کرنے کو گهر کی دہلیز بهی لانگ جاتی ہے. یہ وہ قدم ہوتا ہے جو کسی بهی عورت کے لیئے عزت اور وقار کیجانب لوٹنے والے سارے دروازے بند کر دیتا ہے.
پهر شروع ہوتا ہے کہانی کا دوسرا حصہ, اب اس لڑکے یا آدمی کی مرضی کہ کبهی تو اسے اپنے مصرف میں لاکر کسی سڑک پر کچرے کے ڈھیر میں پھینک آئے, چاہے تو کسی بازار میں بٹھا کر چار پیسے کهرے کر لے, یا پهر کوئی رتی بھر بهی کبهی لگاؤ رہا تها تو اس کے صدقے اس سے کسی مسجد یا کچہری میں نکاح کر لے گا. لڑکی چار دن کے عشق کے بخار کے بعد اپنے بیوی والے حقوق چاہتی ہے. تو موصوف کی جب اور جتنی مرضی کوئی حق دے یا ہش کہہ کر اسے ایک طرف دھکیل دے. ہر مرد کی یہ دلی خواہش ہوتی ہے کہ اسکی بیوی شادی سے پہلے ایک بڑے اور اعلی خاندان سے تعلق رکهتی ہو لیکن شادی کے بعد اسے بلکل لاوارث ہونا چاہیئے. تاکہ وہ جب اور جیسے چاہے اس لڑکی کی تواضع کر سکے. اس لیئے گهر سے بھاگی ہوئی لڑکی اسے ذیادہ مناسب لگتی ہے. کیونکہ جب بھی یہ لڑکی کوئی گلہ کرے تو پہلا جواب جو اس کی زبان کی نوک پر دھرا ہو گا وہ یہ ہی ہو گا کہ میں کون سا تیری ڈولی اٹھانے آیا تھا یا میں کونسا بارات لیکر تیرے دروازے پر کھڑا تھا کہ آنکهیں دکھاتی ہے. میری مرضی سے رہنا ہے تو رہ ورنہ رستہ لے, کیونکہ وہ اچهی طرح جانتا ہے کہ رستے تو سارے وہ اس کے عشق کےاندهیرے میں گنوا آئی ہے.
دوسری جانب جب خود بیٹی کا باپ بنتا ہے تو چاہتا ہے کہ ہوا بهی اس سے پوچھ کر اس کی بیٹی کو چھوئے. اس کے لئے یہ ہی ہیر رانجھا, سسی پنوں آوارہ لوگ ہو جاتے ہیں. عزت سے گهر پر رشتہ لانےوالوں میں بھی ہزاروں کیڑے نظر آنے لگتے ہیں. بیٹی کا صرف  اپنی مرضی کا اظہار بهی بدبختی قرار دیا جاتا ہے. سمجه میں نہیں آتا کہ جو حق اس نے کسی کی بیٹی کو بیوی بنا کر نہیں دیا اس کا تقاضا وہ کسی اور سے اپنی بیٹی کے لئے کس منہ سے کرتا ہے.
 اس لئے کہ اسے اپنا مجازی خدا ہونا تو یاد رہتا ہے لیکن کاش اسے کسی اور ذات کا خدا ہونا بهی یاد رہے .                     ............

منگل، 2 دسمبر، 2014

سرجی پونتواس میں عید ڈنر



سرجی پونتواس میں عید ڈنر

 سرجی پونتواس میں  19 اکتوبر 2013 کو ایک عید ملن کا اہتمام کیا گیا جس میں ایک پاکستانی فیمیلیز کے علاوہ بڑی تعداد میں  انڈین ، فرنچ ، عرب  اور افریقی خواتین و حضرات نے شرکت کی ۔ یہ پروگرام ایک جمنازیم ہال میں تھا جس میں سارا ہال لوگوں سے بھرا ہوا تھا اور منتظمین کو فالتو میز بھی لگانے پڑے ۔ پروگرام کے مہمان خصوصی میں پاکستانی سفیر جناب غالب اقبال صاحب اور  سرجی پونتواس کے میئر اپنی ٹیم کیساتھ شامل تھے ۔ جنہوں نے ایک ہی مقام پر پاکستانیوں کے اتنے بھرپور اجتماع کو بہت سراہا ۔ اور اپنے اندر ڈسپلن پیدا کرنے اور اتحاد کی ضرورت پر زور دیا ۔ انہوں نے پاکستانی کمیونٹی کو عید کی بھرپور مبارکباد بھی پیش کی ۔ پروگرام میں بچوں کے لیئے کافی اچھے انعمات  کی لاٹری بھی رکھی گئی  ۔ اور انعمات تقسیم بھی کیئے گئے ۔ بچوں کے لیئے کئی مقابلے بھی اناؤنس کیئے گئے ۔ پروگرام کے آخر میں ایک پرتکلف عشائیہ دیا گیا ۔ بلاشبہ کھانا بہت ہی لذیذ تھا اور بہت ہی وافر بھی ۔ جس میں مرغ پلاؤ ، چکن بروسٹ ، حلیم ، مٹن قورمہ ، نان اور رائیتہ اور میٹھے میں حلوہ تھا جبکہ بعد میں کلفیاں بھی ہر فرد کو تقسیم کی گئیں  ۔ انتظامیہ میں شامل خواتین و حضرات نے لوگوں کی اچھی میزبانی کی ۔  یہ پروگرام ایک یادگار پروگرام رہا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تہمتیں لگاتے ہو


تہمتیں
(کلام/ممتازملک۔پیرس)





 تہمتیں لگاتے ہو تہمتیں لگانے دو
 شرم کسطرح آئے ہو سکے تو آنے دو

 کتنے سال بھٹکے تھےجوشقیں بنانے کو
 عزتیں نہ دے پائیں وہ  شقیں  مٹانے  دو

 روشنی ضروری ہے یہ خبر تو ہےہمکو 
 جو کبھی نہ بجھ  پائیں وہ  دیئے جلانے دو 

بھول بیٹھے ہو اپنی جو روایتیں تم سب
گر سکھانے آئے ہیں ہمکو وہ سکھانے دو


             ۔۔۔۔۔۔۔۔

بہت ممکن ہے میں شاعر نہ ہوتی ۔ سراب دنیا




بہت ممکن ہے میں شاعر نہ ہوتی 



بہت ممکن ہے میں شاعر نہ ہوتی 
تو بن کر میں مجاور
کسی درگاہ پر جھاڑو لگاتی
یا بن کے میں کوئی مجذوب ہستی
ہواؤں میں کہیں رستے بناتی
یہ دنیا پھر بھی میرے گرد
 اک مجمہ لگاتی
کبھی ہنستی 
کبھی ٹھوکر لگاتی
میں اپنی رال سے لکھتی فسانے
بدلتے یہ سبھی منظر 
اگر پُتلی میں آنکھوں کی گھماتی
تُو پیچھے بھاگ دنیا کے
یہ تجھ سے دور جائے
تو ٹھوکر دے اسے جس دن
تیرے پیچھے یہ آئے
اگر تُو پاس دنیا کے تو
رب سے دور ہو گا
اگر ہو پاس رب کے تو 
یہ قدموں میں سمائے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اتوار، 30 نومبر، 2014

میراہاتھ اسکی ناک / ممتازملک ۔ پیرس

                                          

                                   میراہاتھ اسکی ناک
                                   ممتازملک ۔ پیرس



اللہ پاک نے انسان کو حیران کر دینے والی صلاحیتوں کیساتھ دنیا میں بھیجا ۔ اسے مختلف رنگ روپ دیئے اسے جدا گانہ نین نقش دیئے ، اسے کتنی مختلف آوازوں سے نوازہ ،اسے ایک سے بڑھ کر ایک خوبیاں عطا کیں. اسے بڑے سے بڑا غم جھیلنے کی ہمت دی اسے بڑی سے بڑی خوشی کو سنبھالنے کا حوصلہ دیا ، ایک چھوٹا سا دل بھی دیا جو کبھی نہ کبھی ضرور اپنی من مانی کرنے کو ایک بچے کی طرح مچلتا ہے ۔ اب اس کی ننھی ننھی خواہشوں کو اگر قابو کر لیا جائے اور جائز اور ناجائز کی حدود میں باندھ دیا جائے تو کوئی مضائقہ نہیں کہ اس کی بے ضرر خواہشات کو پورا بھی کر لیا جائے .جیسا کہ نبی پاک ﷺنے بھی فرمایا کہ اللہ پاک فرماتے ہیں کہ ''لوگو تم پر تمہارے نفس کا بھی حق ہے ۔'' اب سمجھنے کی بات یہ ہے کہ اس حق کا دائرہ وہاں پر ختم ہو جاتا ہے جہاں کسی اور کے حق کا دائرہ شروع ہو جاتا ہے ۔ یعنی یہ کہنا بلکل ٹھیک رہے گا کہ آپ کے ہاتھ کی پہنچ وہاں ختم ہو جاتی ہے جہاں سے اگلے کی ناک شروع ہوتی ہے ۔ آج کل نیٹ کا زمانہ ہے اس ٹیکنالوجی کو اور آگے سے آگے بڑھنا ہے ، بہت سے پردے ہمارے آنکھون سے ہٹ رہے ہیں۔ یہ نیٹ انہیں بھی میسر ہے جو دن رات ہر طرح کے کاموں میں ملوث ہیں اور انہیں بھی جو مشکل سے اسے آن کرنا ہی جانتے ہیں ۔ اس صورت میں کیونکہ سب لوگوں کا آئی کیو لیول ایک سا نہیہں ہوتا اس پر طُرّہ یہ کہ ہمارے ملک میں ویسے بھی خواتین کا ہر کام کرنا ایک ہوّا بنا لیا جاتا ہے ایسے میں فیس بک کی دنیامیں خواتین کو دیکھنا  ان کے لیئے ایسے ہی ہوتا ہے جیسے ٹافیوں کی دکان پر بے شمار ٹافیاں پڑی ہوں ،دکان کا مالک انہیں نظر نہ آ رہا ہو اور کوئی سمجھ لے کہ اسے دیکھنے اور پکڑنے والا کوئی نہیں ہے ،لہذا جتنی چاہے ٹافیاں اٹھا کر فرار ہو سکتا ہے ۔ جبکہ مالک کسی خفیہ مقام سے ان پر نظر رکھے ہوئے ہو اور پتہ اس وقت چلتا ہے جس اس کی گردن پر ایک زور کا ہاتھ پڑتا ہے ۔ ان میں اکثر زنانہ نام تو زنانے مردوں نے فرضی طور پر اختیار کیئے ہوتے ہیں ،جنہیں ہم فیک اکاؤنٹس کہتے ہیں یہ وہ زنانے کردار ہیں جو خاتون بنکر کسی بھی مرد کی بینڈ بجانے کا کام کرتے ہیں ۔ اس میں ان کا مردوں سے نازیبا گفتگو ، گھروں کے حالات تک رسائی ،ان کے اغوا اور اب تو قتل کی وارداتوں تک بات پہچ چکی ہے ۔ لیکن اس کے لیئے ٹیکنالوجی ذمہ دار نہیں ہے یہ تو ختم کبھی نہیں ہو گی بلکہ  مذید جدید شکل اختیار کرتی جائی گی ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اس کے مثبت استعمال کو فروغ دیا جائے اسے سڑک پر کھڑے ہو کر بات کرنا ہی خیال کیا جائے اپنے بیڈ روم یا کسی نیٹ کیفے میں چھپ کے اس پر بات کرنے کو یہ نہ مسمجھ لیا جائے کہ کوئی آپ کو نہیں دیکھ رہا یا کوئی آپ کو نہیں پڑھ رہا یا نہیں پکڑ سکتااور آپ جو چاہیں گل کھلاتے رہیں ۔ یاد رکھیں یہ وہ اعمال نامہ ہےجو ہم اپنے ہاتھوں سے تیار کر رہے ہیں ۔ اور یہ وہ کمبل ہے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ''میں تو کمبل کو چھوڑتا ہوں کمبل مجھے نہیں چھوڑتا ۔"  کسی بھی خاتون کو یہ کہنا تو آپ کو بڑا کمال لگتا ہے کہ" میں آپ کو بیسٹ فرینڈ بنانا چاہتا ہوں" لیکن جب اس سے یہ پوچھا جائے کہ" کیا یہ سہولت آپ نے اپنی بہن کو بھی مہیا کر رکھی ہے" تو فورََا حضرات کی دم پر ایسا پاؤں پڑتا ہے کہ الامان اور الحفیظ ۔ ایک منٹ میں یہ بات ثابت ہو جاتی ہے کہ وہ مرد کس ذہنیت کا مالک  ہے ۔ بھئی اپنے کام کی بات کرو کام سے مطلق سوال کرو اور اپنی عزت اپنے ہاتھ میں رکھو ۔ اپنے ہاتھ کو دوسرے کی ناک تک پہنچاؤ گے تو جواب تو سننا ہی پڑیگا. ان لوگوں کو جب کسی دوسرے میں ڈھونڈنے پر بهی کوئ عیب نہ ملے تو یہ فوراً دوسرے کی فزکس پہ جملہ بازی فرمانے لگیں گے. یہ کالا ہے یہ موٹا ہے. .یہ ناٹاہے .یہ لمبا ہے.یہ.بهینگا ہے بلا بلا بلا. جب بهی کوئ آپ کی ذات پہ ایسی بات کرے تو فوراً سمجه جائیں کہ انہیں آپ میں کوئی اور عیب نہیں مل سکا. اور اپنی جلن مٹانے کے لئیے یہ سب کہہ رہے ہیں. ویسے بهی انگور کهٹےہوں تو انسان کامنہ تھوڑی دیر کے لیئے تو سکڑ ہی جاتا ہے. جب تک آپ ایسے مردوں کی باتوں کو نظر انداز کرتے رہیں یا خاموش رہیں یہ خواتین کو میم ، میڈم، محترمہ کہتے رہیں گے جیسے ہی آپ نے انہیں کسی بات سے منع کیا تو فوراً سے پیشتر اپنی اوقات آپ کو دکها دینگے.  اور اپنی زبان سے اپنے خاندان کا تعارف بهی پیش کر دینگے. .لہذا ہم تمام خواتین کو یہ بات زہن نشین کر لینا چاہیئے .کہ جھوٹی تعریف میں کبهی اپنا دماغ خراب نہیں ہونے دینا چاہیئے..اور بے مقصد اور بے تکی باتوں کا جواب دینے سے ہمیشہ پرہیز کرنا چاہیے. تاکہ کسی کا بهی ہاته ہماری ناک تک نہ پہنچ سکے.اور ہم بھی اپنا ہاته انکی ناک سے دور رکھیں. 
                                        ....................

جمعرات، 27 نومبر، 2014

● (21)کیسا نصف ایمان / کالم۔ سچ تو یہ ہے

                                    
          (21) کیسا نصف ایمان
             تحریر:ممتازملک۔ پیرس


بحیثیت ایک مسلمان کے ہم سب بچپن سے ایک حدیث پاکﷺ اکثرہی سنتے رہے ہیں کہ ''صفائی نصف ایمان ہے'' لیکن اس بات کا بهید تب کھلتا ہے جب ہم مسلمان اور خاص طور پر پاکستانی کبھی بهی پبلک ٹائلٹ کا استعمال کرتے ہیں. پهر چاہےجہاز ہو یا ٹرین ،کسی ریسٹورنٹ کے ٹائلٹ ہوں یا سینما کے اور تو اور ہاسپٹل میں بلکہ کسی سکول یا مسجد کے ٹائلٹ ہی جا کر دیکھ لیں کہ ہمیں اپنے مسلمان ہونے پر باقاعدہ شک ہونے لگتا ہے ۔ غرض کوئی بهی جگہ ہو، بس کسی پاکستانی کے وہاں سے نکلنے کے بعد ایک نظر اس ٹائیلٹ یا واش روم پر ڈال لیں وہ جگہ خود چیخ چیخ کر بتائے گی کہ وہاں سے کون ہو کر آیا ہے. اور تو اور واش بیسن کے استعمال کے بعد اس کی حالت ان پر آنسو بہا رہی ہوتی ہے. ہمارے پیارے نبی ﷺ نے جس صفائی کو ہمارا نصف ایمان فرمایا ہے اس نصف ایمان تک پر ہم پورا نہیں اترتے تو باقی نصف کہاں سے مکمل ہو گا. کیا ہمارا دین خود پسندی کی کوئی گنجائش رکھتا ہے ۔ اس کا جواب نہیں ہے تو ہم یہ کیسے سمجھ لیتے ہیں کہ ہم نماز کی نام پر زمین پر ماتھا رگڑ لیں گے یا ہر لغو بات کیساتھ صبح سے شام تک روزے کے نام پر فاقہ کر لیں گے یا لوگوں کو دکھانے کے لیئے حج کا ٹیگ ماتھے پر لگا لیں گے تو ہمارا ایمان مکمل ہو جائے گا ۔ جب کہ ان میں سے کوئی بھی چیز ایسی نہیں ہے جسے ایمان کا اتنا بڑا حصہ قرار دیا گیا ہو ۔ یہ سب فرائض ہیں جو ہمارے ذاتی مفاد کی باتیں ہیں جو کسی کمی کے بعد بھی انسان کو ایمان سے خارج نہیں کرتیں لیکن جو چیز ہمیں ایمان سے خارج کرتی ہے اس میں حقوق العباد کو اہم ترین قرار دیا گیا جو کہ ساری دنیا کے انسانوں پر اثر انداز ہوتے ہیں ۔ اس کے بعد ہمیں صفائی کی جانب متوجہ کیا گیا اس قدر سختی کیساتھ اسے ہمارے ایمان کا آدھا حصہ بنا دیا ۔ جس تک ہم اس پر عمل نہیں کریں گے ہم مسلمان ہی نہیں ہو سکتے اور یہ حکم ہمیں صرف اپنے گھروں کے باتھ روم ٹائلٹس ہی صاف رکھنے کے لیئے نہیں دیا گیا ہے بلکہ اسے ہماری پوری زندگی پر محیط کر دیا گیا ہے ۔ لیکن ہم لوگ اپنے پورے ملک اور عوام کے کسی بھی طبقے پر نظر ڈالیں افسوس صد افسوس  کہ ہمیں لگے گا کہ صفائی سے ہمیں خدا واسطے کا بیر ہے ۔ اپنے گھر کا کوڑا دوسروں کے گھر کے آگے ڈال دینا ، گھروں کا کچرا سو روپے کسی جمعدار کو نہ دینے کے لیئے گھر کے قریب کسی بھی پلاٹ میں یا کسی ندی میں پھینک کر اسے نالہ بنا دینا ،  ہمارے لیئے کبھی بھی باعث شرم نہیں رہا ۔ کیونکہ باعث شرم تو وہ کام ہوتا ہے جو سب نہیں کرتے کوئی ایک آدھ ہی کر رہا ہو جبکہ جہاں سب ہی ایک کام میں برابر کے شریک ہیں تو پھر شرم کیسی وہ تو رواج ہو گیا نا ۔ پبلک پلیس پر لگے کوڑا دان اول تو کوڑا ڈلنے کا انتظار ہی کرتے رہتے ہیں اور اگر شومئی قسمت کسی کوڑے دان کو بھرنا نصیب ہو بھی جائے تو مجال ہے کہ صفائی والی گاڑیاں کبھی بھی باقاعدگی سے آ کر اس کوڑا دان کو خالی کرنے کی تکلیف گوارہ کر لیں جب تک کہ اس میں کوڑا اُبل اُبل کر باہر گرنا نہ شروع کر دے یا علاقے کے لوگ ناک پر رومال باندھ کر صفائی والوں کو گالیاں دیتے ہوئے گزرنا شروع نہ کر دیں ۔ لگتا ہے ان گاڑیوں کو سال میں ایک دو بار ہی صفائی کی تنخواہ دی جاتی ہے ان کے ہاں ایک دو دن بعد کا کوئی ٹائم ٹیبل کم از کم ہم نے تو کبھی کہیں نہیں دیکھا ۔ اس گندگی میں صرف مرد ہی نہیں ہماری خواتین بهی کسی لحاظ سے کم نہیں ہیں. کیا واش روم کے استعمال کے بعد خواتین کو اس بات پر کبھی شرم محسوس ہوئی کہ وہ واش روم کو کس حالت میں چھوڑ کر جا رہیں ہیں اپنے بچوں کے نیپی جنہیں استعمال کرنا اور پھینکنا ہی نہیں آتا وہ محترمائیں بھی نیلی پیلی لپ اسٹک پوتنا نت نیا فیشن کرنا تو جانتی ہیں لیکن یہ نہیں جانتی ہیں کہ بچے کو کیسے صاف کیا جائے ، اس کے نیپی کیسے رول کیئے جائیں اور انہیں کہاں پھینکنا ہے ؟ اور تو اور انہیں تو شاید اتنی بھی تمیز نہیں ہوتی کہ واش روم پبلک پلیس کا بلکل یہ مطلب نہیں ہے کہ اب یہاں سے دنیا کا کوئی اور بندہ نہیں گزرے گا ، یا  اسے کسی بھی حالت میں چھوڑ دیا جائے اور وہاں اپنی نشانیاں لوگوں کو دکھانے کے لیئے چھوڑ آئیں ۔ کہ  دیکھو یہاں سے کس گندے آدمی یا یا عورت کا گزر ہوا ہے ۔ ایک بات کوئی بھی حرکت کرتے ہوئے یاد رکھیں کہ ایک خاتون کی بے شرمی یا گندگی سبھی خواتین کی بے شرمی اور گندگی سمجھی جاتی ہے اسی طرح ایک مرد کی گندگی اور ، بےحیائی کو بھی سبھی مردوں کی گندگی اور بے حیائی سمجھا جاتا ہے ۔ اگر ہم اپنے آسانی سے مکمل ہونے والے ایمان کے آدھے حصے کو ہی مکمل نہیں کر سکتے تو باقی ایمان کا تو اللہ ہی حافظ ہے ۔
●●●
تحریر: ممتازملک.پیرس 
مجموعہ مضامین: سچ تو یہ ہے
اشاعت: 2016ء
●●●

                  



جمعہ، 21 نومبر، 2014

ضد کا تالا



                                       ضد کا تالا
                                    ممتازملک ۔ پیرس


انسان کی فطرت ہے کہ وہ جو بات سمجھنا چاہیے بس وہی سمجهتا ہے اور جو بات نہ سمجھنا چاہے وہ اسے دنیا کا بڑےسے بڑا حکیم لقمان ہو یا عالم فاضل پروفیسر یہاں تک کہ پیغمبر ہی کیوں نہ ہو نہیں سمجها سکتا . کیونکہ سمجھنے کے لئے سمجھنے کا ارادہ ضروری ہے ۔ جبهی توآپ اپنے دماغ کی کھڑکیاں کهولیں گے۔ جب کھڑکی کھلے گی تو ہی دماغ نامی گهر میں تازہ ہوا جائے گی ورنہ اس گهر میں گندگی اور بدبو کا ہی راج رہے گا. آپ کتنی بهی خوشبو چھڑک لیں لیکن یہ خوشبوئیں تازہ ہوا کا مقابلہ کبھی نہیں کر سکتیں. یہ ہی حال انسانی سوچ اور سمجه کا بهی ہے ۔ انسان وہیں پر زہنی ترقی کرتا ہے جب وہ اپنےنظریات اور سوچ کو ضد نہیں بناتا بلکہ اس میں دوسروںسے اچھی باتیں بآسانی لینے اور اپنی اچھی بری باتیں چهانٹنے کا عمل کھلے دل سے جاری رکھے ۔ جبهی اس کا شمار کامیاب انسانوں میں ہوتا ہے ۔ ورنہ سوچ کے گهر کو ضد کا تالہ لگا ہو تو وہاں انا پرستی اور ناکامی و تنہائی کے آسیب بسیرا کر لیتے ہیں. اللہ پاک نے بهی اپنے کلام پاک میں واضح طور پر فرمایا ہے کہ !
" ہدایت انہی لوگوں کو ملتی ہے جو ہدایت لینا چاہتے ہیں" یاہدایت مانگتے ہیں یعنی جو انسان سمجهناچاہتا ہے رب بهی اسی کو سمجھاتا ہے. ورنہ وہ چاہتا تو ہر ایک کو سمجھنے اور اس کی بات ماننے پر مجبور کردینا کیا اس کے لئے کچه مشکل تها؟
اللہ پاک نے عقل تو ہر انسان کو عطا کی ہے. دنیا میں آج تک ایسا نہیں ہوا کہ کسی بهی ڈاکٹر یا سرجن نے یہ دعویٰ کیا ہو کہ اس نے کسی زندہ انسان کی کهوپڑی دماغ کے بغیر پائ ہو. جبکہ ہمیں اس بات کی بے شمار مثالیں آئے دن دیکھنے کو ملتی ہیں جب دماغ رکھتے ہوئے بهی لوگ عقل سے عاری ہوتے ہیں. یہ ایسے ہی ہے کہ کسی کے پاس کوئی گهاس کاٹنے کی مشین تو ہے لیکن وہ اس سے گهاس  کاٹنے کا کام نہیں لیتا . اور وہ مشین زنگ کها جاتی ہے.  تو نتیجے میں اس کا باغیچہ بهی ہر طرح کی خودرو جھاڑ جھنکار کا بدہیئت کچراگهر بن جائے گا.جبکہ یہ ہی مشین استعمال کرنے والا اپنے باغیچے کو آئے دن مرضی کی شکل دیتا
. .اور مرضی کے پهول اور بوٹے اگاتا نظر آئیگا. اور اس کی مشین بهی بہترین حالت میں رہے گی. یہ ہی حال لوگوں کا بهی ہے لوگ دماغ کے بغیر نہیں لیکن عقل کے بغیر ضرور گھومتے نظر آئیں گے. ان کی ایک نشانی یہ ہوتی ہے کہ بےمقصد بحث کریں گے. .کوئی اپنی بات کے ہزار دلائل دیے لے لیکن انکے مرغے کی ایک ہی ٹانگ ہو گی . یہ بغیرعقل گهومنے والے ایک ہی کام شوق سے کرتے نظر آتے ہیں دوسروں کو گھمانے کا..وہ بهی انتہائ بے شرمی اور ڈھٹائی کیساتھ.
ایسے لوگوں کو یہ ہی کہا جا سکتا ہے کہ جب تک اپنےدماغ کےگهر پر لگا ضد کا تالا نہیں کهولیں گے. سمجھ کی ہوا اس گهر سے نہیں گزرے گی. تب تک آپ کی سوچ کبھی تازہ نہیں ہو گی بلکہ اس گلی سڑی سوچ کی سڑاند آپ کو لوگوں کے احترام سے تو محروم کرے گی ہی ،لیکن آپ کی اپنی ذات اس کی بو سے فنا ہو جائے گی.  ہمارے اردگرد ایسے لوگ بهی ہمیشہ موجود ہوتے ہیں جن کی باتوں سے ہم بظاہر اتفاق نہ بهی کریں تب بهی ہمارا ضمیر ہمیں دل میں ان کا احترام رکھنے پر مجبور کرتا رہتا ہے . انا پرستی کی دوڑ میں ہم ان کی سچائی کو اعتراف کرنے سے اور خاص طور پر مخلوق کے سامنے اعتراف کرنے سے ہمیشہ گریزاں رہتے ہیں اور یہ بات بھول جاتے ہیں کہ کسی کو موقع دینے والا کسی کی بات کی سچائی کا اعتراف کرنے والا اور  کسی کو راستہ دینے والا کسی کی سچی تعریف کرنے والا اللہ کی جانب سے نہ تو دنیا میں ذلیل ہوتا ہے اور نہ ہی اسے آخرت کی ذلت اٹھانی پڑے گی ۔ اگر انسان سیکھنا اور سمجھنا چاہے تو غور کریں ہم اپنے گھر میں چھوٹے چھوٹے بچوں کے منہ سے بے ساختہ نکلنے والے جملوں  سے کیا کچھ سیکھ سکتے ہیں ۔ بلکہ اپنے دشمنوں کے منہ کی بات کو اگر مثبت انداز میں لینے کی عادت ڈال لیں تو ہمارا دعوی ہے کہ ہمارے اکثر کام ہمارے دشمن ہی آسان کر دیتے ہیں ۔ بات صرف اتنی سی ہے کہ!
"عقل مند اور سمجھدار وہ ہے جو  کبھی بھی یہ نہیں دیکھتا کہ!
 کووووووون کہہ رہا ہے بلکہ ہمیشہ یہ دیکھتا ہے کہ کیاااااااااااااااااااااا کہہ رہا ہے۔" ۔ 
                                        ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 

منگل، 18 نومبر، 2014

● (20) بین المذاہب شادیاں/کالم۔سچ تو یہ ہے



(20)بین المذاہب شادیاں 
تحریر: ممتازملک۔ پیرس



ایک وہ وقت تھا جب اسلام نیا نیا دنیا میں اپنی پہچان بنا رہا تھا تو صحابہ رض کی ٹولیوں کو مختلف ممالک میں دین کی ترویج و تبلیغ کے لیئے بھیجا جاتا تھا ۔ اس زمانے میں سفر کی سہولیات آج جیسی نہیں تھیں ۔ سفر تجارت پر بھی جانے والے مہینوں اور کئی بار تو سالوں بعد گھروں کو لوٹا کرتے تھے ۔ تو گویا اپنے عزیزوں سے اسے طرح مل کر نکلتے تھے جیسے آخری بار مل رہے ہوں ۔ کیوں کہ زندگی میں اب وہ دوبارہ واپس آئینگے یا نہیں۔ کوئی کٓچھ نہیں کہہ سکتا تھا ۔ اسی بنیاد پر جب دنیا میں وفود کے جانے کا سلسلہ شروع ہوا تو انہیں اس بات کی اجازت بھی نبی پاک ﷺکے زمانے ہی میں ملنے لگی کہ وہ جہاں آباد ہوں گے وہیں کے نومسلم نیک نام خاندانوں میں شادیاں بھی کرتے جائیں ۔ تاکہ ان علاقوں میں انہیں جان پہچان بھی مل سکے اور لوگوں کا ساتھ بھی میسر آسکے ۔ اور اسی میل ملاقات میں انہیں اپنا کردار ان آبادیوں کے سامنے پیش کرنے کا موقع بھی ملیگا اور اسلام تیزی سے  وہاں اپنی جگہ بنائے گا ۔  مسلمان مردوں کو تو ایک قدم اور بڑھکر اجازت ملی کہ جو خواتین اہل کتاب ہیں  اور اسلام کی جانب راغب نظر آتی ہیں اور آپ خود بھی باعمل مسلمان ہیں تو ایسی خواتین سے بھی نکاح کریں ۔ تاکہ آپ کے اعلی کردار سے متاثر ہو کے انہیں بھی اسلام کی روشنی اور رہنمائی نصیب ہو ۔ لیکن اب نہ وہ زمانہ رہا نہ ہی وہ مسلمان رہے۔ بلکہ اب تو مسلمان ہی اسلام کے نام پر دھبہ بن چکے ہیں ۔ یہاں اس اجازت کو استعمال کرنے والے اہل افراد ہی موجود نہیں ہیں۔ تو اس پر عمل کرنے کا بھی کسی کا کوئی حق نہیں بنتا ۔ یہاں تو ایسی مسلم خواتین بھی دکھائی دیتی ہیں۔ جنہوں نے صرف نکاح نامے پر خانہ پری کرنے کے لیئے مولانا صاحب کے سامنے غیر مسلم لڑکے کو بٹھا کر کلمے کے الفاظ دہرا دیئے جسکا اسے مطلب بھی  معلوم نہیں ہو گا  کہ چلو جی ہمارے ضمیر پر کوئی بوجھ نہ رہے باقی دیکھی جائے گی ۔ یا پھر ایسے مرد  بھی دیکھے ہیں جنہوں نے 18 ، 18 سال یا اس سے بھی ذیادہ وقت غیر مسلم خواتین کے ساتھ نکاح کر کے گزار دیئے اور انہیں تو کیا کردار سے متاثر کرتے ـ( کردار ہوتا تو متاثر بھی کرتے ۔) الٹا رہا سہا ایمان بھی گنوا بیٹھے ، نماز سو کبھی پہلے عید کے عید پڑھ لیتے تھے اب اس سے بھی گئے ۔ روزہ جو کبھی خدا کے خوف سے نہیں لوگوں کے خوف سے ہی رکھ لیتے تھے اس سے بھی گئے اور بڑی ڈھٹائی سے فرمائیں گے کہاں جی یورپ میں کون سا روزہ ۔ یعنی اپنے بدکرداری کا ملبہ سارے یورپ میں رہنے والے مسلمانوں پر ڈال دینا، (جبکہ یورپ کا مسلمان  اور پاکستانی، پاکستان میں رہنے والوں سے کہیں ذیادہ اسلامی تعلیمات کی پابندی کرنے کی کوشش کرتا ہے)۔  غیر مسلم بیگم ایک برتن میں سؤر پکاتی ہیں تو موصوف اسی دیگچی میں حلال حلال کھیلتے پائے جاتے ہیں ۔  پیگ بھی بیگم کیساتھ مل کر پیتے پائے جاتے ہیں ۔ ایک بار ہم نے ایسے ہی ایک موصوف سے پوچھ ہی لیا کہ آپ نے اپنی بیگم کو اپنی زبان کیوں نہیں سکھائی تو موصوف بولے ، چھوڑیں جی اب پاکستان سو باتیں فون پر میں کرتا ہوں اچھا ہے نا کہ نہیں سمجھتی ۔ ورنہ کس کس بات کا جواب دیتا ۔ (واہ کیا تاویل پیش کی ہے ۔ اتنا ہی ڈر اللہ کو جواب دینے کا بھی ہوتا تو شاید موصوف یہ گُل نہ کھلا رہے ہوتے ۔) لہذا ایسی تمام شادیوں کو اسلام کی ڈھیل نہ سمجھیں اس پر شدید گرفت کو ہمیشہ یاد رکھیں ۔ پہلے خود کو باعمل مسلمان بنائیں کہ کوئی آپ کے کردار کو دیکھ کر اسلام پر طعنے نہ کسے بلکہ اسلام میں داخل ہونا خوش نصیبی سمجھے ۔ ورنہ پھر ہم دیکھ ہی رہے ہیں کہ ایک ہاتھ میں رنگین بوتل ایک میں نامحرم عورت کا ہاتھ اور ڈھونڈتے ہیں حلال گوشت کی دکان ۔ ( بندہ پُچھے جب کرنا حرام، بھرنا حرام ، اٹھنا حرام بیٹھنا حرام ، کمائی حرام، جمائی حرام، سونا حرام، جاگنا حرام ، پینا حرام تو بھیا  کھا بھی حرام لو ) چھوڑو یہ تکلف ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 
●●●
تحریر: ممتازملک.پیرس
مجموعہ مضامین: سچ تو یہ ہے 
اشاعت:2016ء
●●●

جمعہ، 14 نومبر، 2014

خوشبو کے بھبھکے / ممتازملک / پیرس



                              خوشبو کے بھبھکے
                                  ممتازملک / پیرس



انسان جہاں جاتا ہے جن  لوگوں میں اٹھتا بیٹھتا ہے. ان کی کچھ نہ کچه عادات اور خیالات ضرور اپنے ساتھ لے کر آتا ہے یہ ایسے ہی ہے کہ جیسے کو ئ مکهی جب گندگی پر بیٹھتی ہے تواپنے پروں اور پیروں ميں چاہے نہ چاہے وه گندگی نہ صرف اٹهاکرلیجانی ہے ۔ بلکہ اسےجہاں جائے گی اور بیٹهے گی وہاں وہاں پھیلائے گی ۔ اسی طرح جب یہ ہی مکھی پھول پر بیٹھے گی تو انہیں پروں میں پھول کے بیج چپکا لائے گی اور اسی پھول کی پنیری بنانے کاسبب بھی بن جائے گی ۔
 بچپن سے سنا کرتے تھے کہ کوئلہ بیچنے والوں کے پاس بیٹھو گے تو کوئلے بیچو نہ بیچو دامن پر کالک ضرور لیکر اٹھو گے ۔ جبکہ عطر والوں کے پاس بیٹھو گے تو عطر خرید سکو یا نہ خرید سکو خوشبو کے بھبکے تو لیکر ہی اٹھو گے  اس وقت یہ باتیں ہمارے لئے جانے کس جہاں کے قصّے ہوتے تهے لیکن آج خود زمانے کے سرد گرم دیکه کر ہم اس مقام پر ہیں جہاں دوسرے ہمارے لہجے کی سختی کبھی ہمارے دنیا سے پروائی کا گلہ کرتے ہیں ۔ کبھی ہمیں سب کو خوش رکھنے کا مشورہ دیا جاتا ہے تو کبھی ڈپلومیسی  کا نام دیکر منافقت کق پرچار کرو اور خوش رہو کا فارمولا سکھایا جاتا ہے ۔ انہیں یہ نہیں تو معلوم ہوتاہے کہ یہ لفظوں کی سختی اصل میں اس تجربے یامشاہدے  کایقین ہوتا ہے یا خود زندگی کے تجربات کے بعد آنے والا بهروسہ ، اپنے لفظوں پر اعتبار ہوتا ہے جسے ناسمجھ لوگ ہم جیسے ناسمجھوں کو بدنام کرنے کے لیئے سخت مزاج یابدمزاج کاٹیگ لگانے کی کوشش کرتے ہیں.
انسان کے دوست بهی مکھی کےپروں سے چپکی گندگی یاپهولوں کے بیج جیسے ہوتے ہیں .ان کی صحبت بهی کوئلے کی کالک یا خوشبو کے بھبکے جیسی ہوتی ہے .ہم اکثر اپنے بہن بهائوں سےوہ باتیں نہیں بانٹ سکتے جو ہم اپنے دوستوں سے بانٹتے ہیں۔ .حضرت علی کرم اللہ وجہ نے بهی بهائ کو سونا تو دوست کو ہیرا کہا ہے .
 دوست کو دوست کا آئینہ کہا جاتا ہے.
 دوست کا مشورہ خلوص پر جبکہ بهائ کا مشورہ مفاد پر مبنی ہوتا ہے.
 دوست کا جھگڑا کسی نقطے اور دلیل پر ہو گا جبکہ بہن یابهائ کا جھگڑا ضد اوز ضرورت پر ہو گا.
 اسی لیے کہا گیا کہ اچها دوست جتنی بار روٹھے اسے اتنی بار منا لینا چاہیئے کیونکہ موتیوں کی مالا یاتسبیح جتنی بار ٹوٹتی ہے موتی اتنی ہی بار پھر سے چُن لیئے جاتے ہیں پھر سےتسبیح بنا لی جاتی ہے.
حکیم لقمان نے بیٹے کو وصیّت کی کہ دنیا سے جانے کے وقت تک تمہارے دو مخلص دوست بهی تم نے پا لئے تو جان لینا کہ تم نے دنیا کی زندگی بیکار نہیں گنوائی. اس سے معلوم ہوا کہ ایک اچها دوست کس قدر کرانقدر سرمایہ ہے ۔دنیا کی دولت روپے پیسے کی تو آپ حفاظت کرتے ہیں جبکہ دوست ایسی دولت ہے جو خود آپکی آپکے وقار کی حفاظت کرتے ہیں.
                         ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔




شاعری / /مدت ہوئ عورت ہوۓ/ ممتاز قلم / سچ تو یہ ہے/ اے شہہ محترم/ سراب دنیا/ نظمیں/ پنجابی کلام/