ممتازملک ۔ پیرس

ممتازملک ۔ پیرس
تصانیف : ممتازملک

اتوار، 27 اگست، 2023

* جس میں خوشی کا نام نہ آیا ۔ مصرعہ طرح۔ اور وہ چلا گیا

مصرع طرح
جس میں خوشی کا نام نہ آیا
(سوہن راہی)

جشن کی ہلڑ بازی میں تو
ہاتھ ہمارے جام نہ آیا 

تو ہی لے جا ناکارہ دل 
اپنے تو یہ کام نہ آیا 

جان لٹا دی بے فیضوں پر
یاد کبھی انجام نہ آیا 

داد سمیٹی مفت بروں نے
کہیں بھی اپنا نام نہ آیا 

کوئی سودا ایسا نہ تھا
آڑے جسکے دام نہ آیا 

جیون کا کوئی ایک بھی لمحہ؟
جس میں خوشی کا نام نہ آیا

ڈوبا تھا کل شام جو سورج
کیا وہ صبح بام نہ آیا 

سب کچھ وار کے پھر بھی جانے
کیوں مجھکو آرام نہ آیا

دیکھ تبسم اس نے سمجھا
جیون میں ہنگام نہ آیا

اپنی پشتیں بھریں جبھی تو
ملک میں استحکام نہ ایا

اب ممتاز نے جان لیا ہے
صبح کا بھولا شام نہ آیا 
                ------

ہفتہ، 26 اگست، 2023

جنت ‏بچا ‏لی/ ‏افسانہ ‏۔ قطرہ قطرہ زندگی


شیزوفینیا کے مریضوں پر کہانی

جنت بچا لی

بیٹی نے سودا لیا اورباقی پیسے اپنے پرس میں رکھے ۔ 
وہ اکثر اپنی ماں کو حساب دینا ضروری نہیں سمجھتی تھی ۔ ماں خود سے یاد آنے پر پوچھ لے تو بتا دیا ورنہ بقایا اپنی جیب میں رکھ لیا۔ 
آج بھی اس نے ایسا ہی کیا ۔ نگار اب اپنے حال سے بے خبر ہو چکی تھی ۔ کوئی آکر  زبردستی منہ  ہاتھ دھلا دیتا تو ٹھیک ورنہ اکثر آتے جاتے وضو کر کے منہ ہی منہ میں کوئی نہ کوئی ورد بڑبڑاتی رہتی ۔ یہ بھی اس پر اللہ کا کرم ہی تھا کہ
شیزو فینیا نے اس سے ہر شناخت چھین لی تھی تب بھی اسے اپنی پاکیزگی اور اللہ کی یاد بخش رکھی تھی ۔ 
جب تک بال رنگتی تھی تو اپنی عمر سے آدھی دکھائی دینے والی نگار اب بیرنگ کھچڑی بالوں کے ساتھ صدیوں پرانی لگنے لگی ۔ کسی اولاد کو نہ اتنی توفیق تھی اور نہ اتنا شوق کہ مہینے بھر میں ماں کے بال رنگ سکے اسے سنوار سکے ۔ اس کے رکھ رکھاو کا خیال رکھ سکے ۔ 
کتنی عجیب بات ہے ماں باپ اپنے جس بچے کوسنوار سنوار کے تھکتے نہیں اور وہی اولاد  ان کا ہاتھ منہ دھلانا بھی خود پر بوجھ سمجھنے لگتی ہے ۔ 
آج بھی وہ بیٹی کے ساتھ سٹور سے باہر ہی اس کی گاڑی میں بیٹھی تھی ۔ بیٹی نے اس کے لیئے اسی کے پرس میں سے 50 یورو کا نوٹ نکال کر کچھ 10 یورو کی چیزیں خریدیں اور بقایا اپنے پرس میں رکھ لیا ۔ نگار کو اس کے گھر چھوڑا ۔
آج گھر واپسی پر جانے عجیب سی بیچینی اس کے حواس پر سوار تھی  ۔ اس نے ماں کے پیسے رکھ لیئے تھے ۔ گھر میں کھانے کو بھی کچھ نہیں بنا تھا ۔ اور آدمی ہوش میں ہو یا بدحواس کمبخت بھوک تو کبھی نہیں رکتی۔ یہ تو آدمی کو نچا کر ہی دم لیتی ہے ۔ ماما کے پرس میں ایک ہی تو نوٹ تھا جو میں نے نکال لیا تھا ۔ آج انہیں ڈاکٹر کے پاس بھی جانا تھا ۔ پتہ نہیں وہ کچھ کھا کر بھی گئی ہو گی یا نہیں ۔ 
اسکی غیر موجودگی میں اکثر نگار کی پڑوسن ہی اسے کسی بھی اپائنٹمنٹ پر لیجاتی تھی۔
 ماما دو نہ ۔۔ اپنے دو سال کے بیٹے کے منہ سے آواز سن کے وہ چونکی چمچ لیئے وہ اسے کھانا کھلانے بیٹھی تھی ۔ اسے بھی ماں ایسے ہی کھلایا کرتی تھیں ۔ کیسے کیسے تنہا کر دیا  تھا میں نے انہیں ۔ یہ سوچتے ہی اس کہ آنکھیں بھیگ گئیں ۔ 
جیسے تیسے اپنے بیٹے کو کھانا کھلاتے ہی اس نے گاڑی نکالی۔ پڑوسن کو فون کیا تو اس نے بتایا نگار تو آج شاید اکیلے ہی چلی گئی تھی میں نے کافی دیر دروازے کی گھنٹی بجائی لیکن کوئی جواب نہیں آیا تو میں واپس چلی آئی ۔ سوچا شاید وہ تمہارے ساتھ چلی گئی ہو گی ۔ لیکن اب تمہارے فون نے مجھے بھی پریشان کر دیا ہے  ۔ یہ سنتے ہی اس کے اوسان خطا ہو گئے۔ اس نے گلی گلی گاڑی دوڑانا شروع کر دی جہاں جہاں ہو سکتا تھا وہ ہر بس اسٹاپ پر سڑک پر راہگیروں میں اپنی ماں کو تلاش کرنے لگی ۔ ٹریفک سگنل پر رکے ہوئے اس کی نگاہ بھیڑ پر گئی جہاں اسے  نگار ایک قطار میں کھڑی دکھ گئی۔ 
اس نے گاڑی بڑی مشکل سے دور ملی جگہ پر پارک کی اور ماں کو جہاں دیکھا تھا وہاں دوڑ لگا دی ۔ 
اس نے دیکھا کہ ماں ویلفیئر والوں کی جانب سے لگائے ہوئے کھانے کے سٹال کے آگے لائن میں کھڑی تھیں جس میں غریب لاچار  لوگوں کے لیئے کھانا تقسیم کیا جاتا تھا ۔ اس نے آگے جانے کی کوشش کی تو انتظامیہ نے اسے روک دیا ۔ ماں کو یہاں دیکھ کر وہ دکھ اور شرمندگی سے گڑھی جا رہی تھی ۔ اس نے ماں کو آواز دینا چاہی لیکن یہاں شور مچانے سے اسے انتظامیہ نے منع کر دیا گیا ۔ وہ فورا انچارچ کے کمرے کی جانب بھاگی کہ وہاں اسکی ماں ہے اسے باہر لایا جائے ۔
انچارچ ایک مہربان خاتون تھی اس نے اس سے اس کی تعلیم عہدہ اور آمدن کا پوچھا تو اس کے حلیئے پر ایک طائرانہ نظر ڈالتے ہوئے بولی اگر آپ کو اپنی والدہ کی آپ کی لیئے قربابیاں اور محبتیں یاد ہوتیں تو آج وہ اس قطار میں کھڑی دکھائی نہ دیتیں ۔ آپ انہیں لے جائیے لیکن اگر آپ ان کا خیال نہیں رکھ سکتیں تو ہمیں بتائیے گا ہم ان کا خیال بھی رکھ سکتے ہیں اور ان کی حفاظت بھی  کر سکتے ہیں ۔ لیکن بس آپ کو اپنی جنت کی دعویداری سے دستبردار ہونا پڑیگا ۔ 
ایک چوٹ کی تال اس کے دل پر پڑی اس کی گونج نے اس کے دماغ کو جھنجھنا کر رکھ لیا۔ 
اس نے انچارج کا شکریہ ادا کیا اور اس کے اجازت نامے کے ساتھ کھانے کے بڑے ہال میں داخل ہوئی ۔ بھرے ہوئے پانچ سو لوگوں  کے ہال میں ماں کو ڈھونڈنے میں وقت لگا کھانا کھاتے ہوئے لوگوں میں  دور سے  اسے نگار دکھائی دے گئی ۔ وہ بھاگم بھاگ ماں کے قریب گئی۔ اس کا پہلا نوالا ابھی اسکے منہ کے قریب تھا کہ اس نے ماں کا ہاتھ پکڑ لیا۔ سور کے شوربے میں پڑا ہوا سبزی کا سالن اس  کے منہ میں جانے سے روک دیا ۔ نگار نے اسے اجنبی نظروں سے دیکھا اور  اس نے اپنی ماں کو کہا ماں یہ حرام ہے ۔ نگار کے چہرے پر کوئی تاثر نہیں تھا بس اتنا بولی بھوک لگی ہے ۔ پیسے نہیں ہیں ۔ 
اس نے اپنی ماں کے سر کو اپنے سینے سے لگا لیا ۔ آنسووں کا سیلاب بند توڑ کر نکل پڑا ۔ 
میری ماں کو میں سب کچھ خود لا کر دونگی ۔ چلیں میرے ساتھ ۔ 
دور سے اس پر نگاہ رکھے ہوئے ادارے کی انچارج نے اپنے چشمے کے نیچے سے بہتے ہوئے بے خبر آنسو اپنی انگلیوں کے پوروں سے پونچے اور مسکرا دی ۔ آج ایک جنت کما لی گئی  یا بچا لی گئی۔ 
                 ۔۔۔۔۔۔۔

میں مائی تو بابا/ افسانہ


میں مائی تو بابا
افسانہ:
(ممتازملک ۔پیرس)


کافی دنوں سے کسی نے ہمارے ہاں چکر نہیں لگایا فضل دین نے رشیدہ سے سوال کیا ۔ میں کیا کہوں میاں ۔ ہم تم بڈھوں سے گپ لگانا آج کے لوگوں کو ہی نہیں اپنی جنی اولاد کو بھی وقت کا زیاں لگتا ہے تو انہیں اپنا قیمتی وقت گزارنے کے نت نئے مشغلے ہر زمانے میں مل ہی جاتے ہیں ۔ 
لیکن پہلے تو ایسا نہیں تھا رشیدہ ۔ ہم تو اپنے بڑوں کے پاس بیٹھ کر ان سے زندگی کی گھتیاں سلجھانے کا علم مفت میں حاصل کیا کرتے تھے ۔ پھر آج بوڑھوں اور بزرگوں کی باتیں بیکار کیسے ہو سکتی ہیں ۔
آخر ہم نے بھی اسی دنیا کے دشت کی سیاحی کی ہے جسے لوگ زندگی کہتے ہیں ۔ کیا ہمارے پاس جوانوں کو سکھانے کو دینے کو کچھ بھی نہیں ہے جو اس کھاٹ پر پڑے پڑے اپنی موت کا انتظار کرتے رہیں ۔
فضل دین کی آواز میں آنسووں کی نمی گھل گئی ۔ وہ خاموش ہوا تو رشیدہ نے اس کی چارپائی کی پائننی پر بیٹھ کر اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا اسے دلاسا دیا ۔ اس کا کمبل اچھی طرح سے اوڑھا دیا ۔
کیوں ہر روز ایک سی باتیں سوچ کر اپنا دل جلاتے ہو۔ 
ہم بوڑھے میاں بیوی ہی ایکدوسرے کے دوست بھی ہیں اور غمگسار بھی ۔ ہمارا دو کمروں کا یہ کچا پکا جھونپڑا ہمارا مقدر ہے ۔ اگر اس کی جگہ عالیشان بنگلہ ہوتا تو ہمارے بچے بھی بھاگ بھاگ کر آتے بلکہ یہیں ڈیرا ڈال لیتے ۔ایکدوسرے کو اس بنگلے پر قبضہ کرنے کے لیئے مار ڈالتے ۔ عدالتوں میں گھسیٹتے ۔ ایکدوسرے کا حق کھانے کو ایڑی چوٹی کا زور لگا دیتے ۔ میں آج اگر زیوروں سے لدی ہوئی ہوتی، چار ملازم میرے آگے پیچھے جی حضوری کرتے تو میں مائی نہیں ہوئی ۔ میڈم ہوتی ماں جی ہوتی ۔ بیگم صاحبہ ہوتی۔ پرانے بوسیدہ کپڑوں میں میں مائی اور تو بابا ۔ بس یہی ہماری اوقات ہے ۔ بہت گزر گئی تھوڑی باقی ہے وہ بھی کٹ ہی جائے گی ۔ 
رشیدہ  نے لکڑی کے چولہے پر  چڑھی ہانڈی میں پانی چڑھا رکھا تھا مگر اس میں ڈالنے کے لیئے اس نے ایک ایک ڈبہ الٹ دیا دال کے کچھ دانے بھی نہ پا کر پریشانی سے فضل دین کو دیکھا جو چارپائی پر گھسے ہوئے کمبل میں اپنے بوڑھے وجود کو گرمانے کی ناکام کوشش کر رہا تھا ۔
کافی دنوں سے اس کے چاروں کڑیل جوان بیٹوں کی جانب سے بھی انکی کوئی خیر خبر نہیں لی گئی تھی ۔ پاس پڑوس والوں کو بھی کبھی اتنی توفیق نہیں ہوئی کہ آکر جھانک ہی لیں کہ انہیں کسی مدد یا چیز کی ضرورت تو نہیں ہے ۔  پہلے لوگ کتنے اچھے ہوتے تھے ایکدوسرے کا حال سے باخبر رہنا اپنا فرض سمجھتے تھے ۔ نیکی کرنے کے مواقع ڈھونڈا کرتے تھےاور آج ۔۔۔فضل دین نے بات ادھوری چھوڑ دی ۔ ایک ہوک سے اس کے دل سے نکل کے کہیں ہوا میں تحلیل ہو گئی۔
ہمدرد تو آج بھی ہیں لوگ لیکن فضل دین میں نے تو یہ جانا ہے کہ یہ بے اولاد بڑے فائدے میں رہتے ہیں ۔ لوگوں کی ہمدردیاں بھی انہیں حاصل ہوتی ہیں اور مدد کو بھی تیار رہتے ہیں ۔ ایک ہم اولاد والے ہی زیادہ دربدر ہوتے ہیں ۔
فضل دین نے اسے چونک کر دیکھا 
وہ کیسے رشیدہ؟
دیکھو نا بے اولاد کو لوگ بے سہارا سمجھتے ہیں حالانکہ نہ انہوں نے کوکھ میں اولاد کا بوجھ اٹھایا ،نہ انکی گندگیاں صاف کیں ، نہ ان پر اپنی جوانی اور پونجی لٹائی ، نہ ان کی خاطر آدھا پیٹ سوئے ۔ ساری عمر صرف اپنے اوپر ہی خرچ کیا ، اپنے لیئے جیئے اور پھر بھی زمانے بھر کی ہمدردیاں سمیٹ لیں اور ایک ہم ہیں اولاد والے جنہیں یہ سارے ستم سہہ کر خون پسینے سے اس اولاد کو پروان چڑہایا اور بڑہاپے میں آکر ان کی ملاقات کے وقت کا انتظار کرتے ہیں جیسے قیدی جیل میں اور بوڑھے زندگی میں ۔ کہ کسی کی دید ہو جائے ۔ کوئی ہمیں راشن پانی ہی ڈال دے کہ  جب تک ہم مر نہیں جاتے یہ کمبخت پیٹ تو کھانے کو بار بار مانگتا ہی ہے ۔ 
رشیدہ نے اپنے گھسے ہوئے ملگجے دوپٹے سے آنسو پوچھتے اور فضل دین سے  چھپاتے ہوئے کہا۔
کڑیل جوان اولادوں کا لیبل ہمارے ماتھے پر ایسا چپکتا ہے کہ سارا معاشرہ ہماری خبر لینی ہی چھوڑ دیتا ہے ۔ کوئی نہیں جاننے کی زحمت کرتا کہ ہم کس حال میں ہیں ۔ وہ سمجھتے ہیں اولادیں جوان ہو گئی ہیں اور  میاں بیوی خوب مزے اور آرام میں ہیں ۔ اور یہاں اولاد سمجھتی  ہے مائی بابا کو نئے کپڑے مت لے کر دینا کل کو مر گئے تو خوامخواہ ہی پیسے ضائع ہو جائینگے ۔کون پہنے کا انکے جوٹھے کپڑے ۔۔۔رشیدہ کے اس استفسار نے فضل دین کا دل دہلا دیا ۔


بابا فضل دین  نے چھت کی جانب نظریں اٹھائیں اور اللہ سے فریاد کی یا اللہ ہمیں بہت سا مال دے تاکہ اس بے بسی سے تو نجات ملے ۔ اپنے رشتے تو اس کی بو سونگھتے ہوئے یہاں پر دکھائی دیں ۔
کافی دیر سے خود کو روکے ہوئے مشکل ہو گیا تو باہر نکل کر اسے پیشاب کرنے کو جانا ہی پڑا۔  فارغ ہوتے ہی اس کی نظر وہاں  رکھے ایک مرتبان جیسے برتن پر نظر پڑی۔  اس کا ڈھکن اٹھا کر دیکھا تو وہ ذیورات سے بھر ہوا تھا ۔
اس نے  ہنس کر آسمان کی جانب دیکھا اور جانے کس لمحے اور لہجے میں خدا سے مخاطب ہوا کہ الہی تو بھی مجھے بوڑھا اور لاچار بنا کر اب میرے ساتھ مذاق کرتا ہے تو جانتا ہے یہ مٹکا میں کیا ہم دونوں میاں بیوی بھی اٹھا کر  اپنے گھر تک نہیں لیجا سکتے  تو یہاں دینے کا کیا مقصد ؟  ترساتا یے تو بھی مجھے ۔ ان داتا دینا ہے تو دے مجھے۔ لاچار کرنے والے اس بستر تک محدود کرنے والے مجھے یہ سب چاہیئے پر میرے ہی بستر پر میری ہی چارپائی پر چاہیئے ۔ اور تو یہ کر سکتا ہے کیسے ؟ یہ میں نہیں جانتا ۔ 
یہ عجیب سی فرمائش کر کے فضل دین گھر کے دروازے کی جانب چل پڑا ۔ گھر میں داخل ہوتے ہی ہنستے ہوئے بیوی رشیدہ سے مخاطب ہوا 
یہ اللہ کو بھی ہم جیسے لوگوں کیساتھ مذاق کرنا اچھا لگتا ہے کیا ۔
کیوں بھی کیا ہو گیا ؟ 
تو بابا فضل نے مٹکے کی کہانی سنا ڈالی۔
دیوار کے پار سے ایک راہگیر نے ان میاں بیوی کی گفتگو سن لی۔ اسے مٹکے کی لالچ نے اس جگہ جا کر دیکھنے پر مجبور کیا ۔
وہاں واقعی مٹکا موجود تھا۔ اس نے جیسے ہی مٹکے کا ڈھکن اٹھایا بھڑوں کے گروہ نے اسے کاٹ لیا ۔ غصے اور درد کے مارے اس کا برا حال ہو گیا ۔ اس نے اس بابا سے بدلہ لینے کا سوچا اور مٹکا فورا ڈھانپ دیا ۔ اٹھایا اور بابا فضل کے جھونپڑے کی جانب چل دیا ۔ اس نے گھر میں داخل ہونے را راستہ دیکھا تو ایک چمنی دکھائی دی ۔ اسے بابا کی آواز اسے کے نیچے باتیں کرتے سنائی دی تھی۔ اس نے سوچا آج اس بابے کو بھی بھڑوں کے کاٹے سے جھوٹ بولنے پر سزا دونگا۔ 
ادھر بابا فضل نے رشید سے کہا بجلی لوگ کوئی دو چار لکڑیاں تو جلا دے اس انگیٹھی کو بھی آگ کی تپش یاد دلا دے ۔ 
رشیدہ  بولی لکڑی کا بھاؤ بھی معلوم ہے کیا ۔ ۔۔ بھول جاؤ کہ ہم کبھی انگیٹھی بھی گرم کیا کرتے تھے۔ ہاں کل سے یہ مٹی کا چولہا انگیٹھی کی جگہ پر رکھ دونگی اس ایک پنتھ دو کاج اسی طرح ہو جائے گا ۔ 
ابھی یہ بات ہو رہی تھی کہ اس راہگیر نے وہ مٹکا دھن کھسکاتے ہوئے چمنی پر الٹ دیا ۔۔
یہاں بابا جی پر چمنی سے چھنتے ہوئے سونے کے زیورات کی  بارش  ہونے لگی ۔ 
رشیدہ رشیدہ دیکھ تو دینے والے نے ہمیں نواز دیا ۔۔۔ رشیدہ کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں ۔ راہگیر جو سزا دینے آیا تھا وہ مٹکا چمنی پر الٹا کر رکھتے ہی بھاگ چکا تھا اور مائی اور بابا کی قسمت بدل چکی تھی ۔
اللہ نے ہر ایک کا نصیب اسی کو دینا ہے کوئی کسی سے اس کا مقدر نہیں چھین سکتا۔ 
                 ........

جمعرات، 17 اگست، 2023

سرفہرست قومی مسئلہ۔ کالم

سرفہرست قومی مسئلہ
تحریر: 
       (ممتازملک ۔پیرس)

پاکستان کے اصل مسائل میں سرفہرست انگریزی ہے جس کا جبری استعمال اس ملک میں علم کو عام نہیں ہونے دیتا بلکہ رٹے بازی کے سبب علم سے بیزاری کا سبب ہے ۔ اردو کا نفاذ وہ بھی غالب کے زمانے کی اردو نہیں بلکہ آج کی رواں اور مروجہ زبان کو رائج کیجیئے ۔ دنیا کی کوئی زبان ایسی نہیں ہے جو آج بھی اپنی سو دوسو سال پرانی لغت کیساتھ رائج ہے ۔ اس لیئے اردو کے نفاذ کے لیئے کوشش کرنے والوں کو بھی یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ہم اپنے نوجوانوں کو خصوصاً اور عام لوگوں کو عموما مشکل الفاظ کے جھنجھٹ میں ڈال کر خود اس زبان کے نفاذ کے راستے میں کھڈے کھود رہے ہیں ۔جس انسان کے منہ کا دہانہ اٹھارہ سال کی عمر تک جن الفاظ کو ادا کرنے کا عادی نہیں ہوتا اس کے لیئے بھاری بھرکم الفاظ کی ادائیگی آسان نہیں ہوتی۔ ویسے بھی ہر زبان ترقی کا سفر طے کرتی ہے ۔ اردو زبان کا دامن بہت وسیع رہا ہے یہ ہر زبان کے لفظ کو اپنے اندر باآسانی جذب کر لیتی ہے۔ اس لیئے آج لاؤڈ سپیکر کو الہ مکبر الصوت نہ بھی کہیں تو اس سے اردو زبان کو کوئی فرق نہیں پڑتا لہذا اس بات پر ضد کرنے کے بجائے اردو زبان بولنے کی خواہش رکھنے والوں کو آسانی دینے پر بات کیجیئے ۔یا پھر آوز بڑھاؤ اسکا اور آسان ترجمہ ہو سکتا ہے۔
اردو زبان کے نفاذ میں سب سے بڑی رکاوٹ لوگوں کی یہ سوچ ہے کہ انہیں اردوئے معلی کے زمانے کے مشکل اردو اور متروک الفاظ نئے سرے سے سیکھنے پر مجبور  ہونا پڑیگا۔ جبکہ دنیا بھر میں زبان اپنا ارتقائی سفر جاری رکھتی ہے ۔ آج جو اردو بول چال جو عام طور پر بولی سمجھی جاتی ہے ۔ لہذا جدید اردو زبان کے نفاذ پر کام کیا جائے۔ آج ہم جگ ،گلاس، پلیٹ کے الفاظ کو اردو زبان میں قبول کر چکے ہیں تو اس میں کیا قباحت ہے۔  کسی کو پرانی زبان پڑھنی ہے تو اسے اپنے شوق سے بطور مضمون پڑھ سکتا ہے۔ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک اپنی ہی زبان میں پڑھتے اور بولتے ہیں ۔۔وہ انکی اپنی زبان آج کی جدید زبان ہوتی ہے ۔ صدیوں پرانے الفاظ زبردستی سے بول چال میں شامل نہیں کیئے جاتے۔ متروک الفاظ کا ذخیرہ ہر زبان میں ہوتا ہے ۔ اسے زبان کی  بے عزتی نہیں سمجھنا چاہئے۔  
آسان اردو زبان میں سرکاری کاغذات کی تیاری احکامات عدالتی فیصلے اسناد ہونگے تو عام اور کم پڑھے لکھے آدمی کو بھی دھوکا دینا آسان نہیں ہو گا۔ وہ ہر بات کو زیادہ سے زیادہ سمجھ سکیں گے اور انگریزی زبان میں دی گئی چکر بازیوں سے بچ سکیں گے۔  زبان کسی بھی قوم کی سوچ ہوتی ہے اس کی تہذیب ہوتی ہے اس کا طرز زندگی ہوتی ہے اس کی مکمل شناخت ہوتی ہے ۔ گزشتہ دنوں عدالتی کاروائی کی براہ راست نشریات نے وکلاء کی قابلیت اور علمیت کا بھانڈا چوراہے میں پھوڑ دیا ۔ کہ کیسے یہ انگریزی کی بیساکھیوں کے سہارے اپنے  سائلیں کو بلا وجہ سالہا سال تک عدالتوں میں رولتے ہیں ۔ بیگناہوں کو اپنی نااہلیوں کے سبب جیل کی کال کوٹھریوں میں سسک سسک کر مرںے پر مجبور کر دیتے ہیں جبکہ یہی کیسز کسی اہل وکیل کے ہاتھ میں ہو تو تو وہ ان بیگناہوں کو چار چھ پیشیوں میں ہی آزاد کروا چکا ہوتا ۔ جبکہ انگریزی کا پردہ سائلین کی آنکھوں پر ڈال کر یہ وکلاء معصوم لوگوں کواپنا بکرا سمجھ کر روز کاٹتے اور روز بیچتے ہیں۔ یہاں تک کہ دستاویزات میں ایسی ایسی چالبازی کے نکات مکاری کیساتھ شامل کیئے جاتے ہیں کہ عام ان پڑھ تو چھوڑیئے، اچھے بھلے پڑھے لکھے لوگوں میں سے بھی شاید ہی کسی نے انکے وہ پلندے پورے پڑھے ہونگے ، سمجھنے کی تو بات ہی جانے دیں ۔ سائل سو فیصد اپنے وکیل پر اعتماد کے سہارے عدالت میں قانون کا سہارا لیتا ہے اور وکیل اکثر نہ صرف اپنے سائل سے منہ مانگی رقمیں بٹورتا رہتا ہے بلکہ جب چاہتا ہے مخالف پارٹی کو اس مجبور اور بے خبر سائل کا کیس بیچ دیتا ہے ۔ وہ سائل جو اپنے حق کی فتح کے لیئے انتظار میں ایک ایک دن کر کے اپنی زندگی کے قیمتی سال  گنوا رہا ہوتا ہے، اپنی صحت اپنا سکون ، اپنا پیسہ گنوا رہا ہوتا ہے، وہیں اسکا وکیل دھڑلے سے اپنا بینک بیلنس ، اپنی توند ، اپنے کوٹھی کا سائز ،اپنی زندگی کی رنگینیاں بڑھا رہا ہوتا ہے۔ اسے حلال سے غرض نہیں مال سے غرض ہے۔  غور کیجیئے تو اس ساری واردات میں جس چیز کو ان واردتئے وکلاء نے استعمال کیا وہ کیا تھی ؟ وہ تھی زبان ۔ایک بیرونی زبان انگریزی میں اپنے لوگوں کی زندگیوں کو کبھی تل تل  سلگایا جا رہا ہے، کبھی دہکایا جا رہا ہے۔  چیف جسٹس صاحب ،قاضی القضاء صاحب 76 سال سے ہماری قوم کو اس زبان کی انگیٹھی پر  سلگانے والوں کو قرار واقعی سزا دیجیئے اور اس قوم کی اپنی قومی زبان کو اس کا درجہ اور حق دلوا کر اس زبان کے دھوکا جال سے ہمیں آزاد کروا دیجیئے، تو یہ قوم تاقیامت آپکی احسان مند رہے گی۔  ہر صوبے میں اس کے سائل کی مرضی کے مطابق اسے اپنی صوبائی زبان میں یا قومی زبان میں اپنے وکیل کو بات کرنے اور دستاویزات بنا کر دینے کا بھی پابند کیجیئے۔ تاکہ لوگوں تک انصاف بھی پہنچے اور پوری بات بھی پہنچے۔ اس زبان میں جو انکی ماں بولتی ہے، جو ان کا باپ بولتا ہے۔ جو ان کا استاد بولتا ہے ۔ 
                     ۔۔۔۔۔۔۔

* بیاں ہوتی ہے۔ اردو شاعری ۔ اور وہ چلا گیا


بیاں ہوتی ہے

لب نہ کہہ پائیں وہ آنکھوں سے بیاں ہوتی ہے
ہر محبت میں عقیدت یہ کہاں ہوتی ہے 

ہم نے محسوس کیا خود کو بھی بے بس اس جاء
والہانہ سی یہ زنجیر جہاں ہوتی ہے

دل کی دنیا کے ہیں دستور نرالے لوگو 
جو کہیں اور نہیں ہے وہ یہاں ہوتی ہے

کیا ضروری ہے اٹھے شور بلند و آہنگ 
بات الفاظ کے پیچھے بھی نہاں ہوتی ہے 

کچھ ملاقاتوں میں کھل جائیں حجابات تبھی
اصل کردار کی صورت بھی عیاں ہوتی ہے 

وہ تیری ذات کے آدھے کو مکمل کرتی
جسم کیساتھ جو پرچھائی گماں ہوتی ہے

ساتھ ممتاز ملے جسکو اگر من چاہا 
رات پھر اور بھی مخمور و جواں ہوتی ہے 
--------


منگل، 15 اگست، 2023

رپورٹ ۔ فرانس میں 14 اگست کی تقریب

اس سال بھی فرانس میں پاکستانی سفارتخانہ میں پرچم کشائی کی تقریب کا انعقاد روایتی جوش و خروش کیساتھ کیا گیا لیکن اس بار پاکستانی کمیونٹی کی سفارخانے کی تقریبات میں شرکت نے خوشگوار ریکارڈ قائم کیئے ۔
اس کی وجہ فرانس میں تعینات نئے سفیر پاکستان جناب عاصم افتخار احمد صاحب کی ملنسار حلیم طبع  اور دھیمی باوقار شخصیت ہے جو پہلی ملاقات میں ہی ہر ایک کو اپنے دل سے قریب محسوس ہوتی ہے۔ اسی سبب  سفارت خانے کے ہال میں تل دھرنے کی جگہ نہ بچی مرد و زن اور بچوں نے بھرپور انداز میں اس تقریب میں حصہ لیا ۔
پروگرام کا اغاز مقررہ وقت پر صبح دس بجے کر دیا گیا۔ فرانس میں چھٹی کا دن نہ ہونے کے باوجود پاکستانیوں کی اتنی بڑی تعداد میں شرکت نے پروگرام کو یادگار بنا دیا۔ سب سے پہلے تلاوت کلام پاک سے پروگرام کا آغاز ہوا سفیر پاکستان جناب عاصم افتخار احمد صاحب نے قومی ترانے کی گونج میں پرچم لہرایا۔
صدر و وزیراعظم پاکستان کے قوم کے نام پیغامات پڑھکر سنائے گئے۔ لیکن انگریزی زبان میں ان پیغامات کا سنایا جانا کیا مقصد رکھتا ہے ۔ کیونکہ انگریزی نہ تو فرانس کی قومی زبان ہے نہ پاکستان کی ۔ اس بات کا افسوس ہوا ۔ کہ یہ پیغامات جس ملک میں کوئی پروگرام ہو اس ملک کی زبان میں اور آسان اردو زبان میں ہونا چاہیئے ۔ تاکہ اسے سنانے کا مقصد ہمارے لوگوں تک پہنچ سکے۔ امید ہے اگلے کسی بھی پروگرام میں سفارتخانہ پاکستان اس بات کا خیال رکھے گا۔ بچوں نے ملی نغموں پر ٹیبلوز اور تقاریر پیش کیں۔  گلوکار ریاض جاوید نے ملی نغمے سنا کر حاضرین سے داد سمیٹی۔ پریس کونسلر دانیال عزیز صاحب اپنی مدت ملازمت کامیابی کیساتھ مکمل کر کے اپنی ذمہداریاں محترمہ سجیلہ نوید صاحبہ کو سونپ چکے ہیں ۔ جن کی کمیونٹی سے اس پروگرام میں پہلی باقاعدہ ملاقات بھی ہوئی۔ان سے ہم سب اچھی امیدیں وابستہ کر سکتے ہیں کہ وہ ایک ملنسار اور ہمدرد ذہین خاتون ہیں ۔ 
سبھی تعریفی خط وصول کرنے والے ادبی دوستوں کو دلی مبارکباد پیش کی گئی ۔ الحمدللہ ہم تمام ادبی تنظیمات نے شاز ملک صاحبہ کی قیادت میں جو تیرہ نکات کی ایک درخواست پیش کی تھی اس پر دانیال عزیز صاحب اور احسان کریم صاحب کی ذاتی کوششوں سے ہمارا تیسرا نقطہ منظور ہوا اور فرانس کی تاریخ میں پہلی بار ہماری ادبی خدمات کو تسلیم کیا گیا۔ عزت دی گئی اور اس پر تعریفی خطوط دیئے گئے ۔ شاز ملک صاحبہ کی ذاتی کوشش بھی لائق تحسین رہی ۔ ابھی بہت سا کام اس حوالے سے مزید ہونا ہے اور ان شاءاللہ ہم سب اس میں اپنی حیثیت کے مطابق کردار ادا کرینگے۔ پاک ایمبیسی کے منتظمین کا اور سفیر پاکستان جناب عاصم افتخار احمد صاحب کا خصوصی شکریہ ادا کیا گیا۔ پروگرام کا اختتام بھی وقت مقررہ پر بارہ بجے کیا گیا ۔۔اس کے بعد مہمانوں کی تواضع گرما گرم حلوہ پوری نان چنے اور چکن تکہ اور چائے کافی سے کی گئی۔ یہ یادگار تقریب پاکستان کی سلامتی اور کامیابی کی دعاؤں پر اختتام پذیر ہوئی۔
پاکستان زندہ باد 🇵🇰💚
رپورٹ:ممتازملک.پیرس

تبصرہ۔انور کمال انور کی شاعری پر

شاعری کی نہیں جاتی بلکہ کروائی جاتی ہے ۔ہم جتنا چاہیں زور لگا لیں لیکن جب تک پروردگار اپنی مہربانی سے ہم ہر لفظوں کی ایک سریلی ترتیب نہیں اتارتا تو کوئی شعر وجود میں آ ہی نہیں سکتا۔ اس عطا کیساتھ ہر شاعر اپنے ارد گرد کے ماحول اور رویوں سے شدید متاثر ہوتا ہے وہ بات جو کسی عام فرد کے لیئے چٹکیوں میں اڑا دینے والی ہو وہی بات جب کسی شاعر کو پیش آتی ہے تو اس کے دل و دماغ کیساتھ چپک جاتی ہے اور جب تک وہ اسے شعر کے اوزار سے کھرج نہیں لیتا اسے سانس لینا محال ہو جاتا ہے۔ یہی کیفیت ہمیں ابھرتے ہوئے شاعر انور کمال انور کی شاعری میں جا بجا دکھائی دیتی ہے ۔ ان کی شاعری غم زندگی ، غم دوستی کیساتھ ساتھ وقت کی پلٹا بازیوں کو بھی بیان کرتی دکھائی اور سنائی دیتی ہے ۔ ان کا کلام پڑھتے ہوئے جو شاعر نہیں ہیں انہیں بھی اپنے دل کا بوجھ ہلکا ہوتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر انکی غزل
اشک الم ہیں دیدہ بیدار کے لیئے
مایوسیوں کی رات ہے فنکار کے لیئے 
ہی پڑھ کر دیکھ لیئے ۔ فیصلہ کرنا مشکل لگتا ہے کہ کس شعر کو اچھا کہیں اور کس شعر کو بہت اچھا کہا جائے۔ میری بہت سی دعائیں انور کمال انور کے لیئے۔ میں اللہ سے انکی کامیابیوں کے لیئےملتمس رہوں گی۔
والسلام
ممتازملک
(پیرس۔فرانس)
(شاعرہ ۔لکھاری۔کالمنگار۔ نعت گو۔ عزت خواں۔ بلاگر۔ ٹک ٹاکر)

منگل، 8 اگست، 2023

مصرع طرح ۔ تنقید کر کے دیکھتے ہیں اردو شاعری

مصرع طرح ۔۔
(اک آفتاب پہ تنقید کر کے دیکھتے ہیں)

پگھلتے ہیں یا ہمیں خاکستر یہ کرتا ہے
اک آفتاب پہ تنقید کر کے دیکھتے ہیں
 
کبھی کیا تھا کسی سوچ کے تحت تم سے
چلو اس عہد کی تجدید کر کے دیکھتے ہیں

ہمیں انوکھے تجربات سے محبت ہے
اسی ادا کو بھی تمہید کر کے دیکھتے ہیں

نشانے پر ہے سدا میری منزلوں کا پتہ
ہم اسکے تیر کی تائید کر کے دیکھتے ہیں

اثر بھی ہو گا مجھے اس کا کچھ گمان نہیں 
نگاہ نیک کی تاکید کر کے دیکھتے ہیں

سوائے ایک نئے زخم کے وہ کیا دیگا
بدوں سے اچھے کی امید کر کے دیکھتے ہیں

شگوفہ چھوڑتے ہیں وہ خبر کے نامے پر
گرفت ہونے پہ تردید کر کے دیکھتے ہیں 

انہیں بھی عقل سے ممتاز رب نوازتا ہے
ہم اپنے چھوٹوں کی تقلید کر کے دیکھتے ہیں
                  .......

سمندر انٹرنیشنل جرمنی کی جانب سے زوم آن لائن طرحی مشاعرہ ۔ 
اسحاق ساجد صاحب کی دعوت  پر ۔ 27/08/2023

جمعرات، 27 جولائی، 2023

تعلیمی ادارے یا گناہوں کا اڈا / کالم

تعلیمی ادارے یا گناہوں کا اڈا
تحریر۔
(ممتازملک۔پیرس)

میں اب تک اس سکینڈل پر اپنی کوئی رائے اس لیئے نہیں دینا چاہتی تھی کہ ہمارے ملک میں پروفیشنل جیلسی میں لوگ ایک دوسرے کے کاروبار پر، اداروں پر ، کردار پر کیا کیا کیچڑ اچھالتے ہیں اور کیسے کیسے رقیق حملے کرتے ہیں یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے ۔ ایک طرف اس یونیورسٹی کی ترقی کے قصے ہیں تو دوسری جانب یہاں گندگی کی کہانیاں ۔۔
میں نے آج تک بہاولپور نہیں دیکھا ۔ 25سال سے فرانس میں مقیم ہوں ۔ اس کافر ملک میں ہم نے آج تک انتظامیہ کی سرپرستی میں ایسی خبریں کبھی نہیں سنیں ۔ اور ایک ہے ہمارا اسلامی جمہوریہ پاکستان جس میں عورت سے بڑا کوئی کاروبار ہی نہیں ۔ عورت سے بڑی کوئی سیڑھی نہیں ۔ عورت سے آگے کسی کے دماغ میں اور کوئی سوچ ہی نہیں ۔ اس میں دین سے دوری نے آج کا دن دکھایا ہے ۔ ہر تعلیمی ادارے میں غلاظتوں کے قصے عام ہیں ۔ دین کے ٹھیکیدار ٹھنڈے ملکوں میں اسلام پھیلانے کے ڈرامے کر رہے ہیں اور اپنی منجھی تھلے ڈانگ پھیرنے کو تیار نہیں ہیں ۔ اپنا ملک کفر میں ڈوبا ہوا ہے۔ پاکستان میں ہر شخص کو ایک کافر کی طرح اس دین کا مطالعہ کرنا ہوگا اور پھر سے اسلام قبول کرنا ہو گا۔ ایک غیر مسلم کی طرح اس دین کی امان میں آنا ہو گا۔ وگرنہ ہمارے ملاوں نے یا تو دہشت گرد پیدا کیئے ہیں یا پھر اپنی ضد میں کاٹھے انگریز کھڑے کر لیئے ہیں ۔ ہمارے یورپ میں پیدا ہوئی نسل جب ہم  سے پوچھتی ہے کہ یہ ہے آپ کا اسلامی جمہوریہ پاکستان ؟
تو شکر ہیں ہم یہاں نہیں رہتے۔۔۔ یہ سنکر ہمارا دل کتنے ٹکڑوں میں تقسیم ہو جاتا ہے اور ہم جیتے جی زمین میں گڑ جاتے ہیں ۔ پاکستانی بے حس قوم سوچ بھی نہیں سکتی 😪
مائیں فیشن اور موج مستی میں لتھڑی ہوئی ہیں  اور باپ ریڑھی سے لیکر افسری تک زیادہ سے زیادہ حرام کمانے میں مصروف ہے ۔ انکے بیٹے بیٹیاں پھر کچھ بھی کر لیں کوئی حیرت نہیں ۔ یہ یاد رہے کہ یہ سب اسی کمائی کے کمالات ہیں ۔ گن پوائنٹ پر کچھ بھی نہیں ہو رہا۔ حرام کے نوالے حرامی اولاد کی صورت آپکے سامنے ضرور کھڑے ہوتے ہیں ۔ یہ اللہ کا حساب کتاب ہے جو ہو کر رہتا ہے۔ 
اس طرح کے کسی بھی واقعے کی تہہ میں جا کر دیکھیں تو یہ بس جوانیاں کہیں عیاشی کے لیئے، تو کہیں ٹائم پاس کے لیئے، کہیں ایکسائٹمنت کے نام پر تو کہیں تجسس کے تحت ان تمام گناہوں کا بخوشی شکار ہونے جاتے ہیں ۔ نہ ان میں کوئی لڑکا اغواء کر کے لیجایا گیا ہے اور نہ ہی کوئی لڑکی زبردستی لیجائی گئی ہے ۔  اس تعلیمی ادارے کو ٹارگٹ کرنے سے باقی سبھی تعلیمی ادارے پارسا ثابت نہیں ہو جائینگںے۔  جب آپکی اولاد نے کاغذی ڈگریوں کی دوڑ میں 18 سال کی عمر تک بھی اپنا جیب خرچ تک اپنی محنت سے اور کسی ہنر سے کمانا نہیں سیکھا وہ 25,30 سال کی عمر میں بھی باپ کی کمائی پر عیش کر رہی ہے۔ لیکن کپڑے اور موجیں انہیں مارک اور برانڈز والی چاہیئے تو انکے پاس اپنے جسم کو دکان بنانے کے سوا ہوتا ہی کیا ہے۔ پھر جب ان دکانوں پر چھاپہ پڑتا ہے تو کئی دوپٹے اور پگڑیاں عہدیداران کے پیروں میں جس عزت کی دہائی دیتے ہوئے گرائے جاتے ہیں ۔ وہ عزت تو کب سے قفس عنصری سے پرواز کر چکی تھی ۔ اب اس بت کو چاہے جلا دیں ، دفنا دیں یا سولی چڑھا دیں ۔ اللہ کی رسی کھینچی جا چکی ہے۔  
                    -------

منگل، 18 جولائی، 2023

ہنسی نہیں زندگی ۔ کوٹیشنز ۔ چھوٹی چھوٹی باتیں

ہنسی نہیں زندگی

ہنستے رہیئے، لیکن زندگی کو کبھی ہنسی مت سمجھئیے ۔ کیونکہ اسے ہنسی سمجھ لیا تو کمبخت بڑا رلاتی ہے۔ 
   (چھوٹی چھوٹی باتیں)
         (ممتازملک۔پیرس)

بدھ، 28 جون، 2023

ایم اے خالق بھٹی کو انٹرویو۔


1_ آپکے خاندان کاادبی پس منظر؟
جواب_
جی نہیں میرے خاندان میں میرے علم میں تو کسی کا بھی تعلق ادب کی دنیا میں لکھنے لکھانے کے حوالے سے تو نہیں رہا۔ البتہ پڑھنے کا اچھا ذوق ضرور رہا ہے۔ 
2- آپکی جنم بھومی کس شہرکی ہے؟
جواب -
میں 22 فروری 1971ء میں راولپنڈی پاکستان میں پیدا ہوئی۔
3- تعلیم کن اداروں سے حاصل کی ہے؟
جواب-
میں نے گورنمنٹ گرلز ہائی سکول نمبر 2 ۔ مری روڈ راولپنڈی سے میٹرک کیا ۔ جبکہ ایف اے اور بی اے پرائیویٹ کیا۔ کچھ کورسسز کیئے۔ کیونکہ مجھے میرے والد صاحب سے کالج جانے کی اجازت نہیں ملی ۔ 
4- ادب میں کس سن میں آئی ہیں ؟ کن اصناف میں لکھتی ہیں؟
جواب -
لکھنے لکھانے کا شوق بچپن ہی سے ہی تھا ۔ لیکن کبھی سوچا نہیں تھا کہ اپنا کام کبھی یوں پبلک کرنے کا یا چھپوانے کا موقع ملے گا۔ 2008ء کچھ دوستوں کی تحریک پر اپنا لکھا ہوا مواد سنبھالنا رکھنا شروع کیا۔ 2010ء میں پھر باقاعدہ کتاب شائع کروانے کا خیال آیا ۔ اسی سال میں نے کالمز لکھنے کا بھی باقاعدہ آغاز کیا۔  تو پہلا اردو شعری مجموعہ کلام "مدت ہوئی عورت ہوئے" کے نام سے 2011ء میں منظر عام پر آیا ۔ 
میری شاعری میں حمد ،نعت، مناجات، غزل، نظم سبھی کچھ شامل ہے۔
جبکہ نثر میں کالمز، کوٹیشنز، مختصر کہانیاں، افسانے،   کہانیاں شامل ہیں ۔ سب کچھ ملا کر تین ہزار سے زیادہ تحریریں لکھ چکی ہوں۔ کچھ بھی سوچ کر لکھنے نہیں بیٹھتی ۔ جس طرح کی آمد ہو، حالات ہوں، ویسی ہی تحریر رقم ہو جاتی ہے۔ سب کچھ خدائی تحفہ ہے۔ میرا اس میں کوئی کمال نہیں ہے ۔ اللہ کی عطا ہے الحمدللہ 

5-  "سراب دنیا " اردو شعری مجموعہ کلام (2020ء).
6- "او جھلیا "۔ پنجابی شعری مجموعہ کلام ۔ (2022ء)
7لوح غیر محفوظ" ۔ مجموعہ مضامین (2023)
جبکہ زیر طبع کتب 8 ہیں ۔
5- ادب شاعری اورمضمون نگاری میں کس سے متاثرہیں؟
شاعری میں غالب ،اقبال ، فیض کے علاوہ منیر نیازی، حبیب جالب، محسن نقوی ، قتیل شفائی ، امجد اسلام امجد مجھے پسند ہیں ۔ مضمون نگاری میں خاص طور پر یونس بٹ ، شفیق الرحمن ، عطاء الحق قاسمی پسند ہیں ۔ 
6.بیرون شہر بھی ادبی تقریبات میں شریک ہوئی ہیں؟
میں  پاکستان کے علاوہ ڈنمارک ، اٹلی، انگلینڈ میں پروگرامز میں شرکت کر چکی ہوں جبکہ فرانس میں تو ہمارے ہاں ادبی محافل اور میری اپنی کتب کی رونمائی کی پروگرامز بھی ہو چکی ہیں ۔ 
7-کہاں کہاں کی سیرکی ہے؟
میں اب تک  ڈنمارک ، اٹلی، انگلینڈ، جرمنی، سعودی عرب، ابوظہبی، بیلجیئم ، ناروے کا دورہ کر چکی ہوں۔ الحمدللہ 
8-دوستوں میں بیٹھنا انجوائے کرتی ہیں یااکیلے؟
مجھے لوگوں کیساتھ بات کرنا تبادلہ خیال کرنا پسند ہے۔ اس سے آپکو حالات حاضرہ کا علم ہوتا ہے  اور حقیقی مسائل کا ادراک ہوتا ہے۔ لیکن خوامخواہ کی یاریاں دوستیاں وقت ضائع کرنے والی ،گھروں میں محفلیں بے مقصد جمانے والی مجھے بالکل پسند نہیں ہیں ۔ ہر محفل کا یا بیٹھک کا کوئی مقصد ہونا چاہیئے۔ زندگی اتنی لمبی بھی نہیں ہے کہ اسے بیکار باتوں میں گنوا دیا جائے۔  کبھی کبھی تنہائی کا دورہ بھی پڑتا ہے لیکن اس کا دورانیہ زیادہ طویل نہیں ہوتا۔ 
9-کونساموسم شہراورتفریح مقام پسندہے؟
موسم شہر تفریح سب کچھ ہی اچھا لگتا ہے اگر میری ہم خیال و ہم مزاج کمپنی میرے ساتھ ہو تو میں بری سے بری جگہ اور موقع کو بھی جھیل سکتی ہوں ۔ 
10-کھانے زیادہ کیاپسند ہے؟
میں ہر طرح کا حلال کھانا صفائی سے اور اچھا بنا ہو تو خوشی سے کھا لیتی ہوں ۔ چاہے دال ہو سبزی ہو گوشت ۔ نخرہ نہیں کرتی کھانے میں۔ لیکن دال چاول ، نان چنے ، یا چکن بروسٹ ہو تو کیا بات ہے۔ 
11-کوئی انعام شیلڈ یا ایوارڈ بھی ملاہے؟
 میری کتاب سراب دنیا پر ایک ایم فل کا مقالہ ۔ طالب علم نوید عمر (سیشن 2018ء تا 2020ء) صوابی یونیورسٹی پاکستان سے لکھ چکے ہیں ۔ 
1 مقالہ بی ایس کے طالب علم مبین  نے بہاوالدین زکریا یونیورسٹی ملتان سے لکھا ۔سراب دنیا پر۔ جو میرے لیئے اعزازات ہیں۔ اسکے علاوہ 
1۔ دھن چوراسی ایوارڈ 
 چکوال پریس کلب 2015ء/
2۔حرا فاونڈیشن شیلڈ 2017ء/
3۔کاروان حوا اعزازی شیلڈ 2019ء/
4۔ دیار خان فاونڈیشن شیلڈ 2019ء/
 5۔عاشق رندھاوی ایوارڈ 2020ء/
6۔ الفانوس ایوارڈ 2022ء/ گوجرانوالہ 
  اور بہت سے دیگر اسناد۔
12-کیاخواہش؟
فرانس میں "اردو گھر" کے نام سے ایک لائبریری بنانا چاہتی ہوں ۔ ایک اردو اور پاکستانی علاقائی زبانوں کا ریڈیو اور ٹی وی چینل بنانا میرا خواب ہے۔ اللہ نے چاہا تو پورا ہو جائے گا ۔ شاید
13- ادب کے علاوہ کیاایکٹیویزہیں؟
گھرداری، ویب ٹی وی ہوسٹنگ ( ondesi tv)
تربیتی لیکچرز دینا، پروگرام ہوسٹنگ ،نعت خوانی ۔ ویسے
اردو کی سب سے بڑی ویب سائیٹ "ریختہ "اور "اردو پوائنٹ" پر بھی میرا کلام موجود ہے ۔  فیس بک ۔ ٹک ٹاک ۔ یو ٹیوب ، گوگل ، انسٹاگرام ، ٹیوٹر بھی بھی مجھے ڈھونڈا جا سکتا ہے ۔ 
14-لاہورکی سیرکی ہے تاریخی عمارات سے دلچسپی ہے؟
دلچسپی تو بہت ہے لیکن ابھی تک لاہور کی باقاعدہ سیر کا موقع اچھی سنگت کیساتھ نہیں مل سکا ۔ سنا ہے لاہور میں ان تاریخی مقامات کی سیر کے لیئے خصوصی بس سروس شروع کی گئی ہے ۔ تو اس بار ان شاءاللہ پاکستان کے دورے میں اس بس کا سفر ضرور کرنا چاہوں گی۔ 
 

ہفتہ، 24 جون، 2023

نعت ۔ کوشش کی ہے


کوشش کی یے 
(کلام/ممتازملک.پیرس)

میں نےاللہ کوخوش کرنےکی کوشش کی ہے
تب نبی  پاک نے اُمَِی کی سفارش کی ہے

مجھ کو وہ سب ہے ملا جس کا تصور بھی نہ تھا 
  ہر قدم پر میرے آقا نے نوازش کی ہے 

مجھکو مایوس نہیں ہونے دیا ہر لمحہ 
لاکھ دنیا نے میرے واسطے سازش کی ہے 

وہ نہ چاہیں تو بلندی  کا سفر ناممکن 
پھر بھلے اپنی طرف سے بڑی دانش کی ہے

ان کا دربار کرم جوش میں رہتا ہے جبھی 
بات چھوٹی تھی بڑی اسکی ستائش کی ہے

وہ ہیں محبوب خدا تیرے بھی محبوب  ہوئے 
اپنے کردار کی جس روز زیبائش کی ہے

خاک ہوں میں جو بلندی پہ پہنچ بھی جاؤں 
صرف اس کی ہی میرے دل نےپرستش کی ہے

وہ جو کرتے ہیں  محبت تو نظر رکھتے ہیں 
تبھی ہر حال میں ممتاز کی پرسش کی ہے

۔۔۔۔۔

منگل، 13 جون، 2023

جیب نہیں دل بھی ہے/ کوٹیشنز ۔ چھوٹی چھوٹی باتیں

پردیسیوں کے پاس صرف جیب نہیں ہوتی ایک دل بھی ہوتا ہے ۔ کبھی شرم آئے یا اللہ توفیق دے تو اس میں بھی جھانک لیا کریں ۔ 
(چھوٹی چھوٹی باتیں)
  (ممتازملک۔پیرس)

جمعہ، 19 مئی، 2023

یہ مائیں کیوں مر جاتی ہیں ۔ اردو شاعری ۔ مدت ہوئی عورت ہوئے

یہ مائیں کیوں مر جاتی ہیں؟
کلام: 
(ممتازملک ۔پیرس)

(پوچھ رہا ہے ننھا منّا بچہ مجھ سے،
6 سال کے معصوم بچے کی ماں سے جدائی پر تحریر کلام )

💔آنکھوں میں خوابوں کو بھر کر
پھر اِن میں کچھ سپنے دے کر
مجھکو اِک نئی راہ کھڑا کر
منزل کی پرچھائیں دیکر
چھپ سے کیوں چھُپ جاتی ہیں
یہ مائیں کیوں مر جاتی ہیں

💔بستہ لیکر آج صبح جب
میں اِسکول کو جاؤں گا
ماتھا چومنے والی کو جب
سامنے میں نہ پاؤں گا
اُس کا لمس ہوائیں مجھ کو
اب تک دے کر جاتی ہیں
یہ مائیں کیوں مر جاتی ہیں


💔جب اِسکول سے آتا ہوں میں
اُس کو پھر نہ پاتا ہوں میں
تنہا بیٹھ کے ٹیبل پر
تنہا ہی کھانا کھاتا ہوں
لُقمہ بھی اب میرے منہ میں
وہ تو رکھ نہ پاتی ہیں
یہ مائیں کیوں مر جاتی ہیں


💔رات اکیلا بستر پر میں
ہلکے سسکی لیتا ہوں
ہاتھ کو رکھ کر آنکھوں پر
میں تجھ کو صدائیں دیتا ہوں
کیا میری آوازیں بھی اب
تجھ تک پہنچ نہ پاتی ہیں
یہ مائیں کیوں مر جاتی ہیں

💔پہلے تو سینے سے اپنے
مجھے لگا کر سوتی تھی
چوٹ مجھے لگ جاتی تو
تُو مجھ سے پہلے روتی تھی
نیند مجھے نہ آتی تو
رس کانوں میں ٹپکاتی ہیں
یہ مائیں کیوں مر جاتی ہیں

💔تیرے بعد میں جتنے سال جیا
ہر لمحہ گنتی کرتا ہوں
تیری یاد کے لمحے جیتا ہوں
پھر اِس کے بعد میں مرتا ہوں
ٹیسیں جو ذہن میں اُٹھتی ہیں
دل تک وہ تڑپ کر جاتی ہیں
یہ مائیں کیوں مر جاتی ہیں
          ●●●
کلام: ممتازملک 
مجموعہ کلام: مدت ہوئی عورت ہوئے۔
اشاعت: 2011ء
     ........

بدھ، 17 مئی، 2023

بلیک لسٹ قانون ۔۔۔کالم

 
بلیک لسٹ قانون واحد علاج
تحریر:
  (ممتازملک۔پیرس)

آج جو کچھ اس ملک میں ہو رہا ہے ۔ فتنے نے اپنے پنجے کہاں کہاں گاڑے ہیں ۔ یہ سب کچھ ایک ہی رات میں یا چند روز میں برپا نہیں ہوا ۔ یہ کہانی پچاس سال پر محیط ہے ۔ جبکہ اس خطرے کی بو کب سے محسوس ہو رہی تھی۔ 
میں گزشتہ دس سال سے یہی سب کچھ دکھا رہی ہوں اپنی تحریروں میں۔ بیانوں میں۔  جس کے بدلے مجھے کیسے کیسے کردار کشی کے حملوں کا سامنا کرنا پڑا، اس دہشت گرد جماعت کے کارندوں سے۔ انکی غلیظ اور لمبی زبانیں گٹر سے زیادہ ناپاک ہیں۔  تو انکی سوچیں ہر فکر سے دور۔ بلکہ سوچ کا انکے پاس سے گزر تک نہیں ہوا ۔ انکے پاس کسی کے ہر سوال کا جواب یہ ہے کہ اپنے منہ کا گٹر کھول دو ۔۔۔۔۔اگلا جواب کے بجائے اس کی بو سے ہی میلوں دور بھاگ جائے ۔ 
ایک بات اور لکھ کر رکھ لیجیئے۔ فتنہ خان کی ڈوری جمائما (پاکستان کی بدترین دشمن) ہلاتی ہے اور جمائما اس را ئیل کی ہیروئن ہے پاکستان تباہی کے منصوبے میں ۔ یہ فتنہ خان بطور عیاش مرغا 70ء کے عشرے میں ہی اپنے پہلے برطانوی دورے میں اگلوں کی نگاہوں نے چن لیا تھا جو اپنی عیاشی کے لیئے کسی بھی حد تک گر سکتا تھا۔ سو کام اسی وقت شروع کر دیا گیا ہے ۔ جس کا عروج آج ہم دیکھ رہے ہیں اور جس کا انجام خدانخواستہ 2030ء سے پہلے پہلے پاکستان کا نام نقشے سے مٹانا ہے ۔ اور جو گندی نسل وہ ہمارے تعلیمی نصاب، مادر پدر آوارہ لوگوں کی تقرریاں بطور استاد ، سکولز بشکل کاروبار عام کروا چکے ہیں اور والدین آنکھ  کے اندھوں کی طرح بچے انگلش میڈیم میں ٹھونستے رہے ہیں ۔ یہ جانے بغیر کہ وہاں پڑھایا کیا جاتا ہے؟ اب نتیجہ نکل آیا ہے کہ نہ دین نہ ایمان ، نہ کردار نہ تہذیب ، نہ شرم نہ حیا، نہ علم نہ عمل، نہ جغرافیہ نہ سائنس ۔ تیار ہوئے یہ زونبیز۔۔۔یہ زونبیز تیار ہو کر اپنے ہی گھروں میں ٹائم بم بن چکے ہیں ۔ اب جہاد اپنے ہی ملک میں ان زونبیز کے خلاف کرنا لازم ہے ، اگر ہمیں یہ ملک بچانا ہے ۔ ورنہ مجھے تو کچھ اچھا دیکھنے کی امید ہی رہیگی۔ اس ملک کو بچانے کے لیئے مزہبی جماعتوں تحریک لبیک۔ جماعت اسلامی ۔ اور مولانا فضل الرحمٰن کو ہی آگے لانا پڑیگا ۔ اس ملک کو برگروں سے، اس فتںے سے پاک کرنا ، کرونا سے بچاؤ جیسا ہی ہے ۔ بہت سوں کو درگور ہونا پڑیگا۔ وقت جب حساب لینے پر آتا ہے تو پھر چھوٹی چھوٹی لغزشوں کا بھی بیرحم حساب کتاب کرتا ہے ۔
ملک کے اندر ہر جماعت جب پرتشدد کاروائیوں میں ملوث پائی جائے ۔ اسے کلعدم قرار دیا جائے ۔ موجودہ واقعات میں ہر آدمی کو بلا لحاظ و تفریق مرد، عورت، جوان، بڈھا۔۔۔ اسے گھسیٹ کر قانون کے کٹہرے تک لایا جائے فوجی عدالتوں میں دہشت گردی کی دفعات کے تحت ان پر مقدمات آڈیو وڈیو تصویری شواہد کیساتھ پیش کیئے جائیں۔ ہر مجرم کو کم سے کم دس سال اور زیادہ سے زیادہ سزائے موت سنائی جائے ۔ اس کی تمام منقولہ و غیر منقولہ جائیداد بحق سرکار ملکی قرضوں اور املاک کی مد میں ضبط کی جائے ۔ جس کی جائیداد نہیں اس کے گردے جگر آنکھیں جو کچھ عطیہ ہو سکتا ہے ۔ اسے سزائے موت دیکر عطیہ کر دی جائیں ۔ چاہے بیچ کر پیسے خزانے میں جمع کرائے جائیں۔ سزاؤں کو بلا تفریق امیر غریب اونچی نیچی کلاس اور ذات پات کے عبرتناک اور یقینی بنائیے ۔ کیونکہ ملک ٹھٹھوں اور قانون کیساتھ کھلواڑ کے ساتھ نہیں چلا کرتے۔ نہ ہی ملک بار بار آزاد ہوا کرتے ہیں۔ اس کی آزادی کی حفاظت ہم سب کا فرض ہے ۔ سزاؤں کا  بند باندھیئے اس مادر پدر آزادی پر۔ 
ملک سے باہر پاکستان کی عزت و وقار کی دھجیاں اڑانے والے جمائما کے کرائے کے ۔۔۔۔کے لیئے بڑا قدم اٹھانے کا وقت آ چکا ہے ۔  فوری  قانون بنائیئے اور نافذ کیجیئے ۔کسی بھی جماعت کی حکومت اس قانون کو تبدیل نہ کر سکے ۔ کہ وہ تارکین وطن جو کسی بھی ملک میں پاکستان کے وقار کے خلاف کسی بھی قسم کی کاروائی میں ملوث پایا گیا ،گئی ۔ پاکستان کے کسی بھی ادارے کے خلاف کسی قسم کے جلسے جلوسوں نعرہ بازیوں میں شامل ہوئے ، یا سوشل میڈیا کے کسی بھی پلیٹ فارم سے  پاکستان یا اسکے اداروں کے خلاف بکواس کی گئی یا کسی بھی پاکستانی چاہے وہ سیاسی، سماجی، مذہبی، میڈیا سے متعلق ہو، اس پر آوازے کسے گئے یا اسے ہراساں کیا گیا ۔ تو ایسی ہر صورت میں وہاں کے سفارت خانے کو تین روز کے اندر اندر اس شخص کو پاکستان کے پاسپورٹ اور نادرا کارڈ سے ہمیشہ کے لیئے فارغ کر دیا جائے ۔ اسے پاکستان کے قانون میں بلیک لسٹ کر دیا جائے ۔ اب وہ ساری زندگی پاکستان نہیں جا سکتا ۔ نہ زندہ نہ مردہ۔ کچھ لوگ کہیں گے یہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے تو کچھ کہیں گے کہ یہ تو دنیا کے کسی ملک میں نہیں ہوتا ۔ تو ان سب کو ایک ہی جواب دیجیئے کہ انسانی حقوق انسانوں کے ہوتے ہیں اور جن کو سزا ملی ہے انہیں انسان کہنا بھی انسانیت کی توہین ہے۔ انکے ہمدرد اپنے ممالک میں اس کی کرتوتوں کو فالو کر لیا کریں ہمیں کوئی اعتراض نہیں اور رہی بات کسی اور ملک میں ایسا نہ ہونا تو انہیں یاد دلائیں کہ دوسرے ممالک میں جو ہوتا ہے وہ ہمارے ہاں بھی نہیں ہوتا ۔ اس لیئے جو ہمارے ہاں ہو رہا ہے اسے ہم اپنے حالات و واقعات کے تناظر میں دیکھیں اور پرکھیں گے ۔ کسی کے پیٹ کا مروڑ پاکستانی دور کرنے والے نہیں ہیں۔ 
 خدا پاکستان کی حفاظت فرمائے.آمین
  (ممتازملک ۔پیرس)

باران رحمت ۔ کوٹیشنز ۔ چھوٹی چھوٹی باتیں

باران رحمت

اچھے دوست ہمیشہ باران رحمت جیسے ہوتے ہیں ۔ جب بھی برستے ہیں ہرا بھرا کر دیتے ہیں ۔ 
 (چھوٹی چھوٹی باتیں)
( ممتازملک۔پیرس)

ہفتہ، 13 مئی، 2023

کھلا خط

کھلا خط
ممتازملک ۔پیرس
جنرل عاصم منیر صاحب آپ کا ہنی مون دورانیہ اب ختم ہو چکا ہے اور آنکھیں کھول کر اپنے اندر پلنے والے سنپولیوں کو چن چن کر انکے انجام تک پہنچائیں ورنہ آپ بھی اپنے گھر جائیں ۔ پچھلے پچھتر سال سے یہ قوم آپ کو اس لیئے اپنا خون پلا پلا کر نہیں پال رہی کہ جب مشکل وقت آئے تو ہم آپکی پتلونوں کا جھنڈا لہرا کر دنیا کو دکھائیں کہ ہمارے ہاں مٹھی بھر دہشت گرد جب چاہیں ہماری بینڈ بجا کر چلے جائیں ۔ تمام اعلی فوجی قیادت جو آدھے سے زیادہ پاکستان کی سرزمین و کاروبار کی رجسٹریشن جیب میں لیئے گھومتی ہے، مرتے دم تک جونک بن کر ہمارا خون پیتی ہے اور وقت پڑنے پر ملک جل رہا ہو اور نیرو کی طرح بانسری بجا رہی ہو, "امب چوپنے" میں مصروف ہو۔ ایسے فوجی عہدیداروں اور شناخت شدہ تمام دہشت گردوں کے بشمول فتنہ خان کے ان سب کے کورٹ مارشل اور جائیدادوں کو ضبط کر کے تمام سرکاری اور غیر سرکاری املاک کا نقصان پورا کیا جائے۔ قوم کو آپ سے فوری ایکشن کا انتظار ہے ۔ ۔۔۔۔۔ اگر آپ اس قابل نہیں ہیں تو ہمیں اعلانیہ برطانیہ کی کالونی بنا دیجیئے ۔ ملک چلانا اور سنبھالنا اس ملک کے جرنیلوں کے بس کا کام نہیں ہے ۔ جائیے جا کر کسی جزیرے پر آپ بھی اپنے پیٹی بھائیوں کیساتھ عیاشی کیجیئے۔ ۔۔۔۔
                   ۔۔۔۔۔۔۔۔

بدھ، 10 مئی، 2023

آگ اور آئینہ ۔ کالم

آگ اور آئینہ
تحریر:
    (ممتازملک۔پیرس)

پی ٹی آئی کے دہشتگردوں نے کل لاہور کی تاریخی عمارت  جناح ہاؤس کو آگ لگا کر محمد علی جناح کو خراج تحسین پیش کیا اور جناح ہاؤس کی مسجد کو آگ لگا کر اللہ کے گھر اور دین کو اپنے ریاست مدینہ کا نمونہ بنا دیا۔ حکومت اب انہیں اس خراج تحسین کا انعام کب دیتی ہے  ؟
ساری قوم منتظر ہے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔
معاف کر دیجیئے گا  قائد اعظم!
 آپ نے اس نسل کے لیئے تاعمر جد وجہد کر کے گھر حاصل کیا جسے کسی نالی میں رہنے کا بھی کوئی حق نہیں تھا ۔۔۔۔
یہ وہ دو نمبر نام نہاد مسلمان تھے جنہیں کسی غیر مسلم کے منہ سے نبی پاک ص ع و کی توہین جانے بغیر بھی غیرت دلا کر انکے قتل کروا دیتی ہے ۔ جنہیں خود کبھی مسلمان لفظ کا مطلب سیکھنے کی توفیق نہیں ہوئی ۔ یہ بے دین اور بے کردار ہجوم اور ریوڑ ٹھیکہ لے رہے ہیں ریاست مدینہ کا تو پھر ہمیں ایسی ریاست مدینہ نہیں چاہیئے۔ ۔۔۔ 
انا للہ وانا الیہ راجعون 
(ممتازملک۔پیرس)

گھر کا مرد۔ کوٹیشنز ۔

اپنے گھر کے مرد کو مہربان ہونا چاہیئے بدمعاش نہیں اگر اسے اپنی عورت کو وفادار اور محفوظ رکھنا ہے تو ۔۔۔
(چھوٹی چھوٹی باتیں)
      (ممتازملک۔پیرس)

منگل، 9 مئی، 2023

مصرع طرح ۔ پروردگار تیرا ساتھ ہے۔۔

مصرع طرح:
پروردگار تیرا سہارا ہے  اور میں 
کلام: 
(ممتازملک۔پیرس، فرانس)

پھر ظلمتوں نے مجھ کو پکارا ہے اور میں
"پروردگار تیرا سہارا ہے اور میں"

کیسے یہ وقت پر تھا سدا مشکلات سے 
کیسے یہ اس نے ساتھ گزارا ہے اور میں 

دل کا دبا کے درد کٹا دن کراہ کر
راتوں کو آنسوؤں سے نتھارا ہے اور میں

ریشم الجھ چکا تھا میری کائنات کا
پھر چاہتوں سے کیسے سنوارا ہے اور میں 

قدموں کی خاک بن کے اڑوں اس زمین پر 
عالم میں تجھکو جان سے پیارا ہے اور میں

صدقے میں اسکے مجھ کو عطا کر دے رحمتیں
چاہت سے جسکو تو نے اتارا ہے اور میں 

ہم نے تو اعتبار پہ سب کچھ لٹا دیا 
اب میرے پاس دل یہ بیچارہ ہے اور میں 

منزل کی رہبری کو بہت ہے میرے لیئے
میرے نصیب کا جو ستارہ ہے اور میں 

ممتاز روشنی کی کرن جھانکتی دکھی
تیرے کرم کا پھر سے اشارہ ہے اور میں

اتوار، 7 مئی، 2023

ناشتہ دعوت معروف شخصیات کیساتھ۔ رپورٹ

رپورٹ:
(ممتازملک۔پیرس۔فرانس)

پیرس میں معروف سماجی کارکن ، شیف محترمہ سائرہ کرن میمن نے معروف ادبی اور صحافتی اور کاروباری شخصیات کے اعزاز میں ناشتہ دعوت کا اہتمام کیا ۔۔جس میں خواتین میں شامل تھیں معروف سماجی و سیاسی شخصیت، پروگرام آرگنائزر ، پیپلز پارٹی کی ویمن ونگ کی صدر محترمہ روحی بانو صاحبہ ، معروف ناول نگار و افسانہ نگار ، کالمنگار ، ادبی تنظیم پا فرانس پاک انٹرنیشنل رائیٹرز فورم کی صدر محترمہ شازملک صاحبہ ، معروف شاعرہ ، کالمنگار ،  نعت خواں و نعت گو ، لکھاری ،ٹک ٹاکر اور ادبی تنظیم راہ ادب کی صدر محترمہ ممتازملک صاحبہ ، معروف نعت خواں ستارہ ملک صاحبہ ، معروف صحافی محترمہ ناصرہ خان صاحبہ ، پی ٹی آئی رہنما محترمہ آصفہ ہاشمی صاحبہ، اصحاب میں شامل تھے معروف تاجر ابوبکر گوندل صاحب، ملک سعید صاحب، معروف صحافی شاہزیب ارشد صاحب، بیورو چیف سچ ٹی وی سلطان محمود صاحب ، ملک منیر صاحب،  پکار انٹرنیشنل کے بانی راحیل رؤف صاحب ، طارق محمود صاحب ، اختر شیخ صاحب شامل تھے ۔  مہمانوں نے نہایت خوشگوار ماحول میں مختلف موضوعات پر تبادلہ خیال کیا۔ فوٹو سیشن ہوا ۔ مہمانوں کی تواضع نان ، پائے، حلوہ ، پوری ، چنے،  اچار میٹھی لسی اور کڑک چائے کیساتھ کی گئی ۔ پروگرام کے اختتام پر سبھی مہمانوں نے محترمہ سائرہ کرن صاحبہ کا دل سے شکریہ ادا کیا جن کے سبب سب کو یوں مل بیٹھنے کا موقع ملا۔ پیش ہے دعوت کی کچھ تصویری جھلکیاں۔۔۔


پیر، 1 مئی، 2023

* لاد دیتے ہو۔ اردو شاعری۔ اور وہ چلا گیا

لاد دیتے ہو 

 یہ جو پندونصاح کا بوجھ مجھ پر لاد دیتے ہو
کیئے ہو پاؤں من بھر کے سفر برباد دیتے ہو

تمہاری بیڑیاں گھس کر کہیں ہلکی نہ ہو جائیں
کبھی ہم بھاگ پائے جب دل ناشاد دیتے ہو

سسکتے خواب ہنستے ہیں میرے انجام کو دیکھے
جڑوں سے بیوفائی کی ہمیں  
فریاد دیتے ہو

ہمیں معلوم ہوتا قید ہی اپنی حفاظت ہے
تو سیر حاصل ہمیں ہوتی جو اب پرساد دیتے ہو

پتہ رستے کا ہی اصلی کہانی کار ہوتا ہے
یہ پہلے مل چکا ہوتا جو آ کر بعد دیتے ہو 

بھنور ممتاز میری تاک میں میرے جنم سے ہے
میرے کردار کی ہر دم مجھے بس یاد دیتے ہو
۔۔۔۔۔۔۔

جمعرات، 20 اپریل، 2023

بچے یا انسان کے بچے؟ چھوٹی چھوٹی باتیں

بچے پیدا کرنے کا نشہ ہے پاکستانی قوم کو اور اس پر جوڑیاں بنانے کا الگ جوش۔
ان بچوں میں سے مسلمان یا انسان کا بچہ چاہے کسی ایک کو بھی نہ بنا سکیں۔ جوڑیاں بنا لیں لائنیں لگا لیں ۔ 11 , 11 بچوں 7, 7 بیٹوں کی ماؤں کو میں نے رلتے ہوئے دیکھا ہے...
کیوں ؟
 کیونکہ ان میں انسان کا بچہ ایک بھی نہیں تھا. 
بچے پیدا کریں لیکن انسان کے بچے پیدا کریں اور انسانوں جتنے پیدا کریں ۔🤰🤱

منگل، 4 اپریل، 2023

ایک ہی وقت میں ۔ چھوٹی چھوٹی باتیں

ایک پہ میں دنیا بھر میں ہر انسان ایک الگ کہانی سے گزر رہا ہوتا ہے ۔ کوئی پیدا ہو رہا ہوتا ہے تو کوئی مر رہا ہوتا ہے۔ کوئی آباد ہو رہا ہوتا ہے تو کوئی برباد ہو رہا ہوتا ہے ۔ کسی کی نیا ڈوب رہی ہوتی ہے تو کسی کی لاٹری نکل رہی ہوتی ہے ۔ کوئی لٹ رہا ہوتا ہے تو کوئی لوٹ رہا ہوتا ہے۔ گویا زندگی کا ہر لمحہ ایک الگ ہی کہانی بیان کر رہا ہوتا ہے ۔ جتنی زندگیاں اتنے ہی احساسات ۔ اتنے ہی جذبات ۔ وقت بھی کتنا بڑا مداری ہے اس کی تال پر ایک ہی پل میں بے حساب و کتاب نفوس الگ الگ تھرکتے ہیں مگر مجال ہے کہ غم ہو یا خوشی کوئی اس تال سے بے تالا ہو جائے ۔ 
(چھوٹی چھوٹی باتیں)
      (ممتازملک۔پیرس)

پیر، 3 اپریل، 2023

پروین شغف کی شاعری پر تبصرہ

پروین شغف سے میرا تعارف آن لائن مشاعروں کے توسط سے ہوا ۔ وہ بھارت کی نئی تازہ دم ابھرتی ہوئی شاعرہ ہیں ۔ ان کا کلام پڑھتے ہوئے اندازہ ہوا کہ غزل کا آہنگ نئی کروٹیں بدلنے کو بے چین ہے ۔ ان کی شاعری میں سادگی ہے ۔ کبھی کبھی اداسی عود کر آتی ہے تو اسے نئی امید کیساتھ وہ پھر سے زندہ کرنے کو کمر کس لیتی ہیں ۔  پروین شغف کی شاعری میں آپکو کہیں بھی مایوسی دکھائی نہیں دیتی اور یہی انکی شاعری کا انوکھا پن ہے ۔ میری دعا ہے کہ پروین شغف کے کلام کو قارئین کا بھرپور پیار ملے ۔ اور یہ نوجوان شاعرہ کبھی کسی مایوسی اور دکھ کا شکار نہ ہو۔ ہم انہیں ہنستا مہکتا اور آگے بڑھتا ہوا دیکھتے رہیں ۔ میری بہت سے دعائیں اور نیک تمنائیں پروین شغف کے نام 
والسلام 
شاعرہ ،کالمنگار، لکھاری 
ممتازملک
پیرس ۔فرانس
3.04.2023

ہفتہ، 1 اپریل، 2023

@ کوسا کوسا۔ پنجابی کلام۔ او جھلیا

کوسا کوسا

چوک وچ مار کے تے بندہ کسے سلیا
کوسا کوسا لہو اوہدا میرے آتے ڈلیا

آسے پاسےچارچویرے میں گھنگھالیا
کوئی نہ قصور اوہدا میرے اتے کھلیا

پت کس ماں دا تے تاج کس سر دا
کنوں پچھاں جا کے دس ہن مینوں بلیا

تھوڑا تیل تھوڑا  کولا سارے پاکے پچھدے
آگ تیرے وچ کتھوں آندی اے وے چلیا

کج تے نصیباں نال میری وی لڑائی سی
کیوں نہ ہووے ساریاں نوں دتا مینوں بھلیا

عزتاں تے زلتاں دا اکو سچا ٹھیکیدار
خوار ایویں کرن لئی جگ سارا تلیا

لوکی تیری سادگی تو فیدے چک لیندے  نے
سمجھاں نہ آیاں تینو ہائے وے پڑلیا

نخرہ نہ کوئی تیرا نہ ہی ٹکار اے
کوئی نہ خریدے جیڑا ملے بن ملیا

چندریا دلا آپو آپ نوں سنبھال لئیں
جیڑا من مانیوں دے  اتے آج  تلیا
 

ممتاز پھلاں والی ٹوکری چہ سٹیا
تکڑی چہ وٹیاں دے نال پاویں  تلیا 
         

                   °°°°°°°               
     
  ( تلیا. Tulya. کسی بات پر تل جانا)  
(تلیا۔ تولنا)   
°°°°°°°          

جمعہ، 24 مارچ، 2023

یہ سوہنا مہمان۔ اردو شاعری ۔ کلام رمضان

یہ سوہنا مہمان
کلام: 
(ممتازملک۔پیرس)

اے ماہ رمضان اے ماہ رمضان
گیارہ مہینے بعد آتا ہے یہ سوہنا مہمان

چھانٹ کے اپنے نفس کے، چن چن عیب یہ دھوئے
مان کے اسکے ضابطے بس، پائے کچھ نہ کھوئے
روح معطر کرنے کو، رب بھیجا یہ گلدان 
اے ماہ رمضان ، اے ماہ رمضان

آس پاس میں رحمت بانٹو، تم پر رحمت ہووے
دردمندی بیدار کرو کہ، اس میں عظمت ہووے
چاہے سمیٹو اس میں جتنا، بخشش کا سامان 
اے ماہ رمضان، اے ماہ رمضان 

محرومی محسوس کرو، اوروں کی شکر بجاو
جھوٹ کو ظلم کو باندھو، سچ کی زنجیریں پہناو
یہی ہمیشہ رہنے والے، رب کا ہے فرمان 
اے ماہ رمضان ، اے ماہ رمضان 

اس کے ہر اک عمل میں برکت، نہیں کوئی نقصان 
ماہ مبارک کی ممتاز، گر ہے بڑھانی شان
بھوک میں سجدے اور نوافل، اور پڑھو قران
اے ماہ رمضان، اے ماہ رمضان 
               °°°°°°

بدھ، 22 مارچ، 2023

پاکستانی بے قابو شادیاں۔ کالم




     پاکستانی بے قابو شادیاں
     تحریر:
      (ممتازملک ۔پیرس)

پاکستان میں اپنی اولاد کی شادی کسی بھی انسان کے لیئے خوشی سے زیادہ پریشانی اور ڈپریشن کا موقع بن چکا ہے ۔ منہ مانگی رسمیں اور پھر ان رسموں کا بوجھ اکثر لڑکی والوں کے سر منڈھ دیا جاتا ہے، پھر پانی کی طرح ان رسموں کو پورا کرنے کے لیئے  پیسہ بہایا جاتا ہے ۔ لڑکے والوں کی اکثریت مصنوعی زیورات پر سونے کا پانی چڑھا کر اور مانگے تانگے کے ایسے ملبوسات کا بکسہ اٹھائے لڑکی کے سر سوار ہو جاتے ہیں جو کھلنے کے بعد پتہ چلتا ہے کہ اس میں سے کون سا کپڑا پہننے لائق ہے ۔ کونسا لڑکے کی باجی نے اپنا مسترد کردہ یا استعمال شدہ جوڑا بھائی پر قربان کیا ہے، اور کونسا لڑکے کی امی جی کی اپنی شادی کے وقت کا تیس سال پرانا نمونہ لڑکی کو جبرا پہنانے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔ اور لڑکا بھی بڑی بے شرمی کے ساتھ یہ سارا بری ڈرامہ اسی طرح دیکھ رہا ہوتا ہے جیسے بلی کو دیکھ کر کبوتر آنکھیں بند کیئے پڑا ہوتا ہے۔ یہ بھول کر کہ یہ سوغاتیں جب وہ لڑکی (جو اسکی دلہن بنکر آ رہی ہے ) جب دیکھے گی تو ساری عمر اس کی مٹی پلید کرتی رہے گی ۔ گویا وہ سیج تک پہنچنے کا خواب پورا کرنے کے لیئے اندھادھند اپنی ماں بہنوں کی تقلید میں دنبے کی طرح سر جھکائے ہاں جی، ہاں جی، کی جگالی میں مصروف رہتا ہے ۔ یہاں تک کہ آنکھ کھلنے کے بعد شروع ہوتی ہے اسکی تاحیات "بزتی". تب مائیں بہنیں پھر اپنے مٹھو کو پٹی بازی کی چوری کھلاتی ہیں کہ ہائے ہائے ہمارے بھائی کے تو نصیب ہی جل گئے جو ایسی منہ زور بدتمیز لڑکی بیاہ لائے ۔ اس وقت ان زبان دراز عورتوں کو یہ ہر گز یاد نہیں رہیگا کہ اس لڑکی کے ارمانوں بھرے دن پر جو آپ نے اپنی جوٹھن ، دھوکے اور کمینگی کی جھاڑو پھیری ہے اسے تو اب ساری عمر برداشت کرنا ہی پڑیگا آپکو بھی اور آپکے بھائی اور بیٹے کو بھی ۔ اس کے بعد شروع ہو گا  لڑکی کی جانب سے ملے تحائف میں کیڑے نکالنے کا سلسلہ۔ یوں جیسے انہوں نے تحفے نہیں دیئے بلکہ انکے آگے پیسے لیکر کوئی سودا بیچا ہے جو ناقص نکل آیا ہو۔ اس کے باوجود کہ اعلان کر دیا گیا کہ  لڑکی کے گھر والوں کو دینے دلانے کی کوئی تمیز نہیں ۔ انکا انتخاب بھی بیحد گھٹیا ہے لیکن بے شرمی ہے کہ ہر چوتھے دن کوئی نئی رسم گھڑ کر اس کے نام پر فقیروں کی طرح نئے تحائف کا فرمائشی پروگرام جاری کر دیا جاتا ہے ۔ بیٹی دیکر پاکستان میں لوگ گویا اپنی جان ان سسرالیوں کے ہاتھوں سولی پر چڑھا لیتے ہیں ۔ آئے روز انکی کسی نہ کسی بہانے اب دعوتیں ہوتی رہنی چاہیئیں ۔ جن میں ہر بار کوئی نہ کوئی نئی فسادی شرلی چھوڑی جاتی رہے گی ۔  
ان تمام مسائل کا حل نکالنے کے لیئے ہماری حکومتوں کو مستقل بنیادوں پر قانون سازی کی ضرورت ہے ۔ جسے کسی بھی حکومت کے آنے یا جانے سے کوئی فرق نہ پڑے اور اس میں کسی تبدیلی کو اس وقت تک منظور نہ کیا جائے جب تک اس پر کوئی حقیقی قومی سروے نہ کروا لیا جائے ۔ اس پر عوامی بحث مباحثے نہ کروا لیئے جائیں ۔ خدا کے لیئے شادیوں کو کسی قانون کے تحت لایا جائے جس نے عام آدمی کی زندگی اجیرن کر رکھی ہے۔ گھروں میں بیٹھی لڑکیاں لڑکے یا تو بوڑھے ہو رہے ہیں یا پھر بے راہ روی کا شکار ہو رہے ہیں ۔ اور تو اور شادی کے یادگار دن کو بے قابو طوفان مہنگائی و بے حیائی کا موقع بنا دیا گیا ہے ۔ لوگ قرض لے لیکر اس موقع پر اپنی ناک اونچی رکھنے کا اہتمام کرتے ہیں ۔ دیکھا جائے تو خود لڑکیوں نے لمبے لمبے فرمائشی پروگرام بنا بنا کر، لمبے لمبے خرچوں کی فرمائشوں سے اپنے ہی والدین کے ناک میں دم کر رکھا ہے ۔ انہیں اس بات سے کوئی غرض نہیں ہوتی کہ والدین یہ کب اور کہاں سے لائیں گے انہیں تو ڈراموں اور فلموں کی تھیمز پر اپنی شادی کو بھی پوری فلم ہی بنانا ہے ۔کوئی انہیں بتائے کہ فلمی اور ڈرامے کی شادیوں کے مناظر پر خرچ کیا ہوا پیسہ انہیں ہزاروں گنا کما کر واپس ملتا ہے جبکہ عام شادی پر والدین کا خرچ کیا ہوا پیسہ انہیں کئی سال کے لیئے مقروض اور فقیر کر جاتا ہے ۔اپنے والدین پر رحم کھائیں ۔ اور لوگوں کو اپنی جعلی امارت کے رعب میں ذہنی مریض بننے اور جرائم کی راہ اختیار کرنے پر مجبور مت کریں ۔ شادیوں کے اخراجات کو ایک حد میں لانے کے لیئے ہم حکومت پاکستان کو چند تجاویز پیش کرتے ہیں جس کے لاگو ہونے سے لوگوں کی زندگی کو کافی ریلیف ملنے کا امکان پیدا ہو سکتا ہے ۔ 
1.شادی کو  ٹوٹل سو سے ڈیڑھ سو لوگوں کے اجتماع تک محدود کر دیا جائے ۔ 
2. مخلوط محافل کو بین کیا جائے۔ 
3.شادی میں دس سال سے چھوٹے بچے لانے پر پابندی لگائی جائے۔ (جو تمام پروگرام اور انتظامات کا ستیاناس مار دیتے ہیں۔)
4.ون ڈش کی پابندی کروائی جائے۔ 
5. جہیز میں لڑکی کو اسکے لیئے سات جوڑے ،صرف اسکا  بیڈ روم فرنیچر اور کچھ کچن اور لانڈری کا لازمی سامان دیا جائے ۔ 
6.بری میں سات نئے اور بھاری جوڑے کپڑے لڑکی کے ، حسب توفیق ایک آدھ سونے کا سیٹ
7.ذیادہ سے ذیادہ دس ہزار روپے تک کا شادی اور ولیمے کا جوڑا دلہن اور دولہے دونوں کا۔۔
8. آپ کتنی بھی مالی حیثیت رکھیں لڑکے والے  بارات میں اور لڑکی والے ولیمے میں ذیادہ سے ذیادہ صرف 50 افراد ہی لا سکتے ہیں ۔
9. شادی میں کرائے کے عروسی ملبوسات کو رواج دیا جائے۔ 
10.دولہے کی ماں بہنوں کو سونے کے زیورات تحفے میں دینے پر پابندی لگائی جائے۔ 
11.نکاح مسجد میں کرنے کا رواج عام کریں۔ اور نکاح میں صرف دولہا دلہن انکے والدین سگے بہن بھائی اور دو گواہوں کے سوا کسی کو شامل ہونے کی اجازت نہ ہو۔  رخصتی کے روز باقی سبھی مہمانوں کے سامنے  اس نکاح کی ویڈیؤ چلائی جا سکتی ہے ۔ 
12. شادی کے بعد کسی قسم کے تحائف کے لین دین جیسی تمام رسومات کو بین کیا جائے ۔ جسکے مواقع لڑکے والے آئے دن پیدا کرتے اور لڑکی والوں کی زندگی اجیرن بناتے رہتے ہیں ۔ 
جیسے کے مکلاوہ ، عیدیاں ، گود بھرائیاں ، بچے کی پیدائش وغیرہ وغیرہ ۔ ہم امید کرتے ہیں کہ کوئی بھی بااختیار ان تجاویز کو غور کرنے اور لاگو کرنے میں اپنی ذمہ داری ادا کر کے بیشمار لوگوں کی دعائیں لینے کا وسیلہ ضرور بنے گا ۔     
                  °°°°°

منگل، 21 مارچ، 2023

عورت کی گھریلو ناکامیاں ۔ کالم ۔ خواتین



   عورت کی گھریلو ناکامیاں 
     (تحریر/ممتازملک ۔پیرس)

ہمارے تجربات اور مشاہدات کی روشنی میں  عورت کو اپنے شوہر اور اپنی سسرال کی نفسیات کے تناظر میں انہیں ہینڈل کرنا آنا چاہئے ۔
ہماری مائیں اپنی بیٹیوں کو یہ تو سکھاتی ہیں کہ میاں کو کیسے قابو کرنا ہے یا عرف عام میں کیسے نیچے لگانا ہے لکن یہ سکھانا بھول جاتی ہیں کہ سب کے دل کو کیسے قابو میں کرنا ہے ۔ میاں کے گھر پہنچتے ہی دنیا بھر کی خبریں اور خصوصا بری خبریں اس کے کان میں پھونکنا، گھر داری سے جان چھڑانا، کھانے پکانے سے جان چھڑانا، مرد کے غصے میں برابر کی زبان چلانا، اپنے اور اس کے گھر والوں کا ہر وقت بلا ضرورت  کا تقابل کرتے رہنا ،اپنے میکے کو بھرنے میں لگے رہنا، اپنی آمدنی سے ذیادہ کے شوق پالنا، ہر عورت کا اپنی بہن کو اچھے عہدے یا کمائی والے دیور سے بیاہنے کے جبری منصوبے، اس کے گھر والوں کو نظر انداز کرنا،
یہ سب باتیں میاں بیوی کے رشتے میں زہر بھرنے کا باعث بنتی ہیں ۔ ہم ہر بات کا الزام مردوں یا شوہر کے  سر پر ڈال کر بری الذمہ نہیں ہو سکتے ۔
ہمارے سامنے آنے والے کئی گھریلو تشدد کے واقعات  بیحد افسوسناک ہیں، لیکن ان سب حالات کا کوئی دوسرا رخ بھی ضرور ہو گا ۔ اگر حالات ایسے خوفناک رخ پر جا رہے تھے ، لوگ اتنے برے تھے، شوہر اتنا جابر تھا تو کیوں طلاق نہیں لی ان بہنوں نے ؟ سو ہر بات پر جذبات کے بجائے عقل  کا استعمال کیا جائے تو بہت کچھ واضح ہو جاتا ہے ۔۔بجائے اس کے کہ طلاق کو ایک کلنک کا ٹیکہ سمجھ کر تو احتراز کیا جائے لیکن قاتل یا قاتلہ کا جھومر سر پر سجا لیا جائے ۔ کیا مطلقہ ہونا یا طلاق دینا  قاتل یا قاتلہ بننے سے بھی زیادہ قابل نفرت ہے ؟ تو کیا اللہ نے ایک قابل نفرت کام کی اجازت دے رکھی ہے ؟
پھر یہ کہنا کہ حالات ایسے تھے، ویسے تھے طلاق نہیں لی جا سکتی تھی تو اس صورت میں دو ہی کام ہو سکتے ہہں یا تو صبر کیجیئے یا قتل کر دے یا  قتل ہو جائے ۔۔۔آپ اسے اگر حل سمجھتے ہیں تو ۔۔ معاشرے کو یہ بات ذہن نشیں کرانی ہو گی کہ طلاق لینا ایکدوسرے کو قتل کرنے سے ہزار گنا بہتر ہیں ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بیبیوں بیٹیوں اور صحابیات نے جو عمل کیا اسی میں معاشرے کی بقاء ہے ۔ کئی نام نہاد مسلمان جو دین کی بنیاد تک سے نابلد ہیں وہ بہت زور و شور کیساتھ عورت مرد کی بحث میں اپنی ذاتی پسند اور ضرورت کے معاملات پر  غیر اسلامی فتوے تھوپ کر خود کو عالم ثابت کرنے کی کوشش کرنے میں اپنا زور بیان صرف کرنے میں مصروف رہتے ہیں ۔ جو کم علم اور دین سے نابلد لوگوں کے لیئے کھلی گمراہی کا سبب بنتا ہے اور وہ ان نیم ملا جیسی معلومات سے معاشرے میں شر پھیلانے کا سبب بھی بنتے ہیں ۔ جیسا کہ ان کے نزدیک طلاق دینا بس مرد کا حق ہے عورت خود سے اپنے شوہر کو چھوڑنے کا کوئی فیصلہ نہیں کر سکتی ۔ چاہے وہ کیسا ہی کیوں نہ ہو۔ جو کہ صریحا گمراہی ہے ۔ دین اسلام کو دین فطرت اسی لیئے کہا گیا ہے کہ اس میں صرف مرد یا عورت نہیں بلکہ ہر انسان کی فطرت میں شامل عادات و خصائل کو مد نظر رکھ کر قانون سازی کی گئی ہے اور احکامات مرتب کیئے گئے ہیں ۔ اور کسی کے ساتھ رہنا یا نہ رہنا زندگی کا سب سے بڑا اور سب سے اہم فیصلہ ہوتا ہے اس میں اللہ تعالیٰ کے قوانین میں ناانصافی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔ ایسی باتیں کرنے والے خود اللہ پاک پر جانبداری کی تہمت کے مرتکب ہوتے ہیں ۔ انہیں دن کا علم حاصل کرنا چاہیئے ورنہ کسی قابل عالم سے ایسے معاملات میں رائے لینا چاہیئے ۔ طلاق دینا مرد کا حق ہے تو خلع لینا اس کے برابر کا حق ہے جو اللہ پاک نے عورت کو دے رکھا ہے ۔ اگر وہ اپنے شوہر کیساتھ خوش نہیں ہے یا محفوظ نہیں ہے یا وہ اسکی جانب سے مسائل کا شکار ہے تو وہ اپنا حق خلع استعمال کر سکتی ہے ۔ جیسا کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے دو صاحبزادیوں کے لیئے انکی رخصتی سے قبل ہی استعمال کروایا ۔ کیونکہ اسلام آ چکا تھا نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم اعلان نبوت فرما چکے تھے اور جہاں طلاق سے متعلق احکامات نازل ہو چکے تھے وہیں خلع کا حق بھی عورت کے لیئے دیا جا چکا تھا ۔ 
 اسے گالی کی حیثیت دیکر ان سب معزز خواتین کی توہین مت کیجیئے ۔ یہ بات سمجھ کر ہی ہمارے معاشرے سے قتل و غارت کا خاتمہ ہو گا ۔اور یہ کام ہماری ماؤں کو کرنا ہو گا جو اپنے کنوارے تو کیا چار بار بیاہے ہوئے  بیٹے کے لیئے بھی ان ٹچ  18 سالہ دوشیزہ ڈھونڈنے پر تلی رہتی ہیں ۔ لیکن کسی مطقہ یا بیوہ لڑکی کو نا تو باکردار سمجھتی ہیں اور نہ ہی گھر بسانے کے لائق ۔ انہیں یہ بات سمجھانے کی ضرورت ہے کہ یہ ضروری نہیں ہے  کہ ایک جوڑے میں جدائی کی وجہ ان میں سے کسی کا بدکردار ہونا یا گھر نا بسا سکنا ہو بلکہ اس کی اور بھی بے شمار وجوہات ہو سکتی ہیں ۔ ان کا ذہنی طور پر ایک دوسرے کو قبول نہ کرنا بھی اس کی ایک بڑی وجہ ہے اور ان سب سے بڑی اور مستند وجہ تو یہ ہے کہ اللہ پاک نے اس جوڑے کے درمیان اس رشتے کا وقت ہی اتنا لکھا تھا ۔ پھر وہ چاہتے یا نہ چاہتے انہیں الگ ہو ہی جانا تھا۔ چاہے اس کی وجہ کچھ بھی اور کتنی بھی معمولی بات ہی کیوں نہ بن جاتی ۔۔۔ 
                   ۔۔۔۔۔۔۔  

ہفتہ، 18 مارچ، 2023

دوبارہ / نعت ۔ شاعری ۔ اور وہ چلا گیا

دوبارہ

سرکار پھر بلا لیں ہم کو وہاں دوبارہ 
جس در سے دیکھ پاوں جنت کا میں نظارہ

یہ دل میرا ہے عآصی اور آپ  شافعی ہیں 
پھر دور آپ سے یہ کیسے رہے بیچارہ

 رب کو کیا ہے ناخوش ہم نے ہر اک عمل سے
راضی اسے کریں ہم سن لیجیئے خدارا

جس جاء پہ ہم کو کوئی رستہ دکھائی نہ دے
آقا وہاں پہ ہم نے ہے آپکو  پکارا 

حرص و ہوس میں گر کر خود کو تباہ کیا ہے
ہم جیسے بدنصیبوں کو آپ کا سہارا 

ظالم جہان والے دیتے نہیں ہیں جینے
دل ان کے ہاتھوں آقا اپنا رہا سیپارہ 

ممتاز کر گدائی آقائے دو جہاں کی
کیا بیچتا ہے پھر یہ حاسد سماج سارا
●●● 
 

بدھ، 1 مارچ، 2023

مصرعہ طرح ۔ میرا بھی حال زار ہے اردو زبان سا

مصرعہ طرح 
(میرا بھی حال زار ہے اردو زبان سا)
کلام:
      (ممتازملک ۔پیرس)

بیٹھا کیئے تھے جس پہ  بوسیدہ دیوان سا
دل رہ گیا تھا ویسے ہی خالی مکان سا

جس گھر میں رہتے کوئی تحفظ نہ مل سکے
ویرانہ ہے کھنڈر ہے بجز سائبان سا 

وسعت میں اسکے سارا زمانہ سما سکے
دیکھو تو آزما کے ملے آسمان سا

اچھی دنوں کی بات تو رہنے ہی دیجیئے 
اچھے دنوں کا خیال ہے وہم و گمان سا 

کوشش کے باوجود ملن ہو نہی سکا 
رشتہ ہمارا اس سے رہا درمیان سا

سب جانتے ہوئے بھی تعارف طلب کریں
میرا بھی حال زار ہے اردو زباں سا 

پہچانتے تھے جو وہ مجھے روندتے رہے
ممتاز مرحلہ یہ رہا امتحان سا
         
            °°°°°°°°

جمعہ، 24 فروری، 2023

@ انتساب ۔ او جھلیا



انتساب / او جھلیا

تہاڈے ہتھ وچ ایہہ میرا پنجابی زبان وچ پہلا کویتاواں دا مجموعہ  اے۔ ایس توں پہلاں میریاں 6 کتاباں تہاڈے تک اپڑ چکیاں نیں ۔ جیڑیاں سبھے اردو کویتاواں تے لیکھا دیاں سن ۔ ایہہ کل ملا کے میری ستویں پستک اے۔ پر پنجابی زبان وچ ایہہ میری پہلی کتاب اے۔  میری پنجابی بہتی گوڑھی تے کلاسیک تے بالکل نہیں اے، پر ایس زبان دے وچ میری اپنی ماں بولی دے نال میری  باقاعدہ جڑت اے۔ ایس کتاب دا انتساب انہاں سبھے قوی تے لکھاریاں دے ناویں لانی آں ۔ جنہاں نے ایس زبان نوں زندہ رکھن لئی  اپنی جند لا چھڈی اے۔۔جیڑھیاں قوماں اپنی زبان تے ماں بولی دی قدر نہیں کردیاں ، تے ایس دی بڑھوتری لئی کم نہیں کردیاں، تے زبان وی انہاں تو رس کے ویلے دے ہنیریاں وچ گواچ جاندی اے۔ 
میری دعا اے کہ ایس مٹھی تے سچی زبان پنجابی نوں رب سدا جیوندہ رکھے۔ تے ترقیاں دوے ۔
 آمین 
ممتازملک
پیرس ۔ فرانس
MumtazMalikParis.Com
MumtazMalikParis.BlogSpot.Com
میرا کم 
 ریختہ ، گوگل، یوٹیوب، انسٹا، فیس بک، ٹک ٹاک
 تے ویکھیا جا سکدا اے۔
                    _______


بدھ، 15 فروری، 2023

@ پتر کر تباہ / پنجابی کلام۔ او جھلیا


پتر کر تباہ


ماواں تی تی سال دے لاڈاں، پتر کر تباہ دیندیاں نیں 
باقی عمرے سب الزام او ،نوہ دے سرتے پا  دیندیاں نیں

برقیاں منہ وچ رکھ کے اونہوں، اٹھ کے پانی پین نہیں دیندیاں
کوئی جے کر سمجھاوے تے ،اونوں اگوں جین نہیں دیندیاں 
گھر وچ پا کھلارے ہر دم، اتھرا بن کے پھردا رہندا
عشق چہ پتر دے اے سب دے، سروں پیروں لا دیندیاں نیں
باقی عمرے سب الزام او، نوہ دے سرتے پا دیندیاں نیں۔۔۔۔

ذمہ داری پیو جے پاوے٫ پتر دے سر پان نہیں دیندیاں
اونہوں چوپڑیاں کھوان دی خاطر، دھی نوں سکیاں کھان نہیں دیندیاں
پتر دے سر وار کے اکثر، دھیاں صدقے وچ دیندیاں نیں
پتر دے ہر لاڈ کھڈاون، دھی دے مار او چاہ دیندیاں نیں
باقی عمرے سب الزام او، نوہ دے سرتے پا دیندیاں۔۔۔۔۔

ایخو جیہے پتراں ہتھوں ، اک دن ماواں رل جاندیاں نیں
اوہدی صورت اکھی لے کے ٫باقی ہر شے بھل جاندیاں نیں 
ویچ کے گھر در موہ پتر وچ٫ لاوارث اکھوا جاندیاں نیں
ممتاز ایہہ چپ چپیتے اوہدی، یاد چہ اپنے ساہ دیندیاں نیں 
باقی عمرے سب الزام او، نوہ دے سرتے پا دیندیاں۔۔۔۔۔
           
                 🌚🌚🌚۔                     





جمعرات، 2 فروری، 2023

جی نہ بہہ سکا۔ کوٹیشنز ۔چھوٹی چھوٹی باتیں


سوال : جو انسو آنکھ سے بہہ نہیں پاتا وہ کدھر جاتا ہے؟
جواب:
جو نہ بہہ سکا تو وہ تھم گیا ۔ اور جو تھم گیا وہ تو  جم گیا ۔ کہ وہ آنسو بہہ جاتا تو شاید مٹی میں مل کر فنا ہو جاتا لیکن جم کر وہ انسو ظالم کے لیئے بددعا بن گیا اک سزا بن گیا ۔ وہ آہ بن گیا۔ جس نے عرش ہلا دیا اور وہ مظلوم بن گیا جس نے  رب کعبہ کو رحمن سے جبار بنا دیا ۔ اور ظالم کی سزا کا اعلان کروا دیا وہ سزا جواب کبھی نہیں ٹل سکتی ۔ جبھی کہتے ہیں اس نہ بہنے والے اشک سے ڈرو کہ یہ بہہ کر رلتا نہیں، نہ بہہ کر رول دیا ہے ۔
        (چھوٹی چھوٹی باتیں) 
              (ممتازملک۔پیرس)

بدھ، 1 فروری، 2023

صحافت کے 75 سال/ مقالہ

اردو صحافت کے 75 سال
   مقالہ:
  (ممتازملک۔پیرس)                 
               فرانس)

پاکستان دنیا کے ان ممالک میں شامل ہے جس کی تخلیق اور ارتقاء میں صحافت اور رپورٹنگ کو قطعا نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ۔ معاملات مذہبی ہوں دینی ہوں یا پھر سیاسی ۔ ہر ایک رپورٹنگ کے مرہون منت رہا ہے ۔ یہ اور بات ہے کہ اس میں اچھی اور بری رپورٹنگ یا یوں کہہ لیں کہ سچی اور جھوٹی رپورٹنگ نے بھی اپنا کمال خوب دکھایا ہے ۔ جہاں یہ کہا جائے کہ پاکستان کی تخلیق  بہترین رپورٹنگ  اور صحافت کے مرہون منت  ہے تو بے جا نہ ہوگا۔ وہیں اگر آج یہ کہا جائے  کہ پاکستان کی تباہی  اور بربادی کی ذمہ دار بھی  آج کی بدترین رپورٹنگ اور صحافت  ہے تو بھی بے جا نہ ہوگا۔
صحافت کے لیے جواں مردی اولوالعزمی اور بلند حوصلگی نمایاں شرائط ہیں۔ دبو اور ڈرپوک لوگوں کا صحافت کے میدان  میں نہ تو کوئی مرتبہ ہے اور نہ ہی  کوئی مقام لیکن تباہ کن  کردار ضرور موجود ہے ۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ آج کی اردو صحافت  محض خوشامد پرستی، سیاست بازی  اور سستی شہرت پر مشتمل ہے۔   آج کی صحافت  میں پیسہ  پیسہ پیسہ کا راگ پوری شدت کے ساتھ الاپا جارہا ہے۔ آج مشہور و معروف صحافیوں کے اثاثے اس بات کے گواہ ہیں کہ حق گوئی  اور صداقت کا اس وقت کی اردو صحافت سے کوئی لینا دینا نہیں رہا ۔ جس کا پلڑا بھاری دیکھا صحافت اور صحافی  دونوں  اس کے گھر کی باندی بن گئی ۔ 
آج کے اخبارات  اور میڈیا مالکان  نے ان میڈیمز  کو دکان بنا کر رکھ دیا ہے۔ آج کی صحافت کا لوگوں کی زندگیوں پر پر پڑنے والا اثر کہیں  نہایت شرمناک  ہے تو کہیں فسادی۔ آج جسے اپنے کاروباری روابط  بڑھانے ہیں۔ بڑے بڑے خاندانوں کے ساتھ سیاست ،حیثیت اور اختیار کا مقابلہ کرنا  ہے وہ اخبارات  اور ٹی وی کا کاروبار شروع کر دیتا ہے۔  اسے قوم کے مفادات سے ، قوم کی بھلائی اور بہتری کے کاموں سے کوئی غرض  نہیں جس کے لیے  اردو اخبارات  کی بنیاد رکھی گئی تھی۔
جسکو سمجھنے کے لیئے تھوڑا سا تاریخی حوالہ دینا بیحد ضروری ہے۔ 
اردو زبان میں شائع ہونے والا پہلا اخبار ’جامِ جہاں نما‘ تھا جس کے بانی ہری ہر دت تھے اور انھوں نے اس اخبار کو 1822 میں کلکتہ سے شائع کیا۔ انگریزی اور بنگالی زبان کے بعد یہ اخبار ہندوستان میں کسی تیسری زبان میں شائع ہونے والا پہلا اخبار تھا۔ یہ 1888 تک شائع ہوتا رہا۔
اردو صحافت کے آغاز سے متعلق کئی متضاد دعوے کیے گئے ہیں۔ اکثر نے مولوی محمد باقر دہلوی کے سر اس کا سہرا باندھا ہے جو تحریک آزادی کے لیے شہید ہونے والے 77 سالہ بزرگ  پہلے  صحافی تھے جنہیں انگریزوں نے 16 ستمبر 1857کو تحریک آزادی کی سچی اور بیباک رپورٹنگ کے جرم میں  توپ سے باندھ کر اُڑا دیا تھا۔ یاد رہے کہ مولوی محمد باقر کا اردو اخبار " اخبار دہلی" کے نام  سے 1836سے 1857ء تک جاری رہا۔ یوں انہیں پہلا شہید صحافت کہا جا سکتا ہے۔
اب ہم پاکستان سے باہر یورپ میں اردو صحافت پر نظر ڈالتے ہیں تو اس وقت تک عام طور پر فرانس میں ہونے والی اردو صحافت خصوصا اور پاکستان میں عموما 40 ٪ رپورٹنگ پر مبنی ہے جبکہ 5٪ معلومات پر 3٪ تعلیم و تربیت پر جبکہ  42 ٪ سیاسی شعبدہ بازیوں پر 10٪ اشتہاری مہمات پر مشتمل ہے۔  آج صحافت کسی کاروبار کی شکل اختیار کر چکی ہے۔ اور یہی آج سب سے زیادہ منفعت بخش کاروبار ہے۔ اس کے لیئے اس کے پہلے سچے صحافی  مولوی باقر شہید کی روح ہر روز نہ جانے کتنی بار پرواز کرتی ہو گی ۔
فرانس میں ہم اردو ٹی وی چینل  کے لیئے سال ہا سال سے گفتگو کر رہے ہیں لیکن یہ کام تب تک نہیں ہوسکتے جب تک یہاں کے مخیر حضرات اس میں دلچسپی نہ لیں اور اس میں مالی معاونت نہ کریں۔ اردو کیلئے یہاں پر آن دیسی ٹی وی کے نام  سے ایک نوجوان شاعر  وقار بخشی  نے کام کیا اور اس پر مختلف طرح کا مواد بھی پیش کیا گیا لیکن آج کئی سال گزرنے کے بعد بھی وہ اسے ابھی تک باقاعدہ ٹی وی چینل کی صورت پر نہیں لا سکے اور ویب ٹی وی کی حیثیت سے ہی کام کر رہے ہیں کیونکہ اس کے لیئے انہیں مطلوبہ  مالی معاونت حاصل نہیں ہے ۔ ہم لوگ اپنی ایمبیسی سے بھی ہمیشہ اس بات کی درخواست کرتے رہتے ہیں انہیں یاد دلاتے رہتے ہیں کہ یہاں پر اردو ٹی وی چینل اور ریڈیو کی بے حد ضرورت ہے۔ لیکن اس مطالبے کیساتھ ڈرتے بھی رہتے ہیں کہ باقی شعبوں میں جس طرح سے اردو صحافت کو استعمال کیا گیا اور کاروباری بنا دیا گیا اور اسے پیسہ کمانے اور اثر رسوخ بڑھانے کا ذریعہ بنا دیا گیا اگر یہاں بھی اسی طرح سے ہونا ہے اور وہی سب کچھ کرنا ہے تو پھر نہ ہونا ہی بہتر ہے کم از کم یہ تو نہیں کہ ہمارے پاس  میڈیم موجود ہے اور کچھ کر نہیں رہے ۔ ریڈیو کی طرف دیکھیں تو یہ آج بھی  بڑا مضبوط میڈیم ہے۔  لیکن ہمیں خود یہاں 25 سال ہو گئے ہیں اس پر  بات کرتے ہوئے۔  ہم لوگ  اتنے وسائل نہیں رکھتے کہ اسکی سکیورٹی گارنٹی وغیرہ جمع کروانا اور باقی جو سارا طریقہ کار اس کو پورا کرسکیں تو جو پورا کرسکتے ہیں وہ سوچتے رہتے ہیں کہ اچھا جی چلیں یہ بھی کام کریں گے ان کے لئے یہ چیز ترجیحات میں شامل ہی نہیں ہے۔ یہاں پر کتاب پڑھنا جب ترجیحات میں شامل نہیں ہے۔ یہاں پر اپنی زبان سیکھنا ترجیحات میں شامل نہیں ہے۔ یہاں  اپنے بچوں کے لیئے کوئی کلچرل پروگرام ادب و صحافت کے حوالے سے ہو، ہماری جو بھی حمایت کی بات ہو وہ لوگ اس میں حصہ لینا، اپنے گھر سے خود شامل ہونا پسند کرتے ہیں نہ اپنے گھر سے خواتین کو بچوں کو لانا پسند کرتے ہیں۔ جب وہ اس چیز کو ضروری نہیں سمجھتے تو پھر اردو صحافت صرف اور صرف کاروباری نظریے کے ساتھ کہ میں کیا لگاؤں گا اور مجھے کیا ملے گا، کس کو اوپر اٹھانا ہے کس کو نیچے گرانا ہے صرف اور صرف یہی ایک نظریہ رہ جاتا ہے اور یہ نظریہ صرف تباہی کی طرف لے کر جاتا ہے ۔ کسی بھی قوم کے لیئے صحافت کی جدوجہد میں تہذیب، اپنی زبان، اپنے کلچر، اپنی معاشرت کو بچانے کے لئے ،حق بات کی طرف لوگوں کی رہنمائی کرنے کے لیئے آپ کی سوچ نہیں ہوگی آپ کی اپروچ نہیں ہوگی اس وقت تک صحافت محض مذاق ہے اور یہی سبب ہے کہ  ان پچھتر سالوں میں اگر آپ دیکھیں تو ہماری صحافت نیچے سے اوپر جانے کے بجائے اوپر سے نیچے کی طرف ہی آئی ہے۔  فرانس میں اردورپوٹنگ کی 90٪ صحافت کا معیار نوٹ کیجیئے  کہ فلاں فلاں کے ساتھ آج اپنے بیٹے کی سالگرہ کی خوشی میں کھانا کھانے آیا ہے۔ فلاں  فلاں  کے ساتھ آج دوستوں سے ملاقات کر رہا ہے۔ فلاں شخص عمرہ کرکے آیا لہذا اس کا دوست اس کو لینے کے لئے آیا ہے۔ فلاں سیر کرنے جا رہا ہے ۔ فلاں سیر سے واپس آ رہا ہے۔ جہاں پر رپورٹنگ کا یہ معیار ہوگا ۔ فلاں نے آج اس ریسٹورنٹ میں کھانا کھایا یا کھلایا۔ اور یہ سب فلاں فلاں نہ تو کوئی پرسنالٹی ہیں ۔ نہ ہی کوئی اداکار ہیں نہ ہی کوئی اور کمیونٹی کے فعال کردار ہیں ۔ بس جو جس نام نہاد صحافی کی جیب میں نوٹ رکھ دیگا وہ اپنی فی تصویر ادائیگی سے صحافتی خدمات سے مستفید ہو سکتا ہے۔ یا پھر کرائے کے صحافی جو پاکستان اور باہر ہر جگہ بکثرت پائے جاتے ہیں اور اپنا قلم کسی بھی سیاسی تنظیم کو کرائے پر دے دیتے ہیں ۔ وہ اس سیاسی تنظیم کے سارے کالے کوے ہر قیمت پر سفید کرنے کے لئے اپنا دین ایمان ضمیر سب کچھ نچھاور کرنے کو تیار ہو جاتا ہے۔ 
تو آپ  سوچ سکتے ہیں کہ ان کا ذہنی معیار کیا ہوگا ، اخلاقی درجہ کیا ہوگا ۔ یعنی اگر ہم پیچھے مڑ کر دیکھتے ہیں تو پاکستان میں مجموعی طور پر اردو صحافت  خاص طور پر ان گزرے بیس سالوں میں بڑی تیزی سے زوال پذیر ہوئی ہے اور  ٹی وی چینل پر صحافت اگر ہم اپنے ملک میں بھی دیکھ لیں تو وہ ٹی وی چینل جس طرح کسی نہ کسی خاص آدمی کے ماتحت ہیں یا اس کی ملکیت ہیں یا ملکیت میں آجائیں گے تو وہ پھر کاروبار کے نظریے سے کام کریں گے اسے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ لوگ کس طرف جا رہے ہیں۔ لوگوں کی تربیت کیسی ہونی چاہئے۔ گاڑی میں بیٹھے ہیں ۔ ہم نے سیٹ بیلٹ لگائی ہے یا نہیں لگائی ہے۔ اس سے کیا فرق پڑتا ہے اسے یہ فرق پڑتا ہے کہ اس کی گاڑی کس برانڈ کی ہے؟ کس ماڈل کی ہے؟ اور وہ کتنے میں اچھی بک سکتی ہے؟ اس کا اشتہار کتنے میں اچھا بک سکتا ہے؟ کتنے اچھے پیسے مل سکتے ہیں؟ تو آپ دونوں باتوں کا فرق  خود جان سکتے ہیں. مجموعی طور پر صورت حال بالکل بھی اردو صحافت کے لیے نہ پاکستان میں, نہ پاکستان سے باہر ، کہیں بھی خوش آئند نہیں ہے۔ ہاں کاروباری لوگوں کے لیے یہ خوش آئند ہو سکتی ہے۔ لیکن اگر ہم اس کو کسی بھی حوالے سے نظریاتی، معاشرتی ، سیاسی ، سماجی ، تربیتی حوالے سے دیکھیں  تو کہیں بھی اس کا معیار بلند نہیں ہوا بلکہ پست سے پست تر ہوتا چلا گیا۔
 ضرورت اس امر کی ہے کہ ملک سے محبت کرنے کا دعویٰ کرنے والے اپنی زبان تہذیب اور ثقافت کے علاوہ صحافی اس ملک کی سالمیت پر کوئی سمجھوتہ نہ کریں اور خود کو  اس ملک کے وفادار کے طور پر پیش کریں۔ جس کے لیے پہلی شرط ہے سچائی۔ اور صحافت کے لئے بھی ،ایک صحافی ہی آج  اینکر کے روپ میں ہمارے سامنے آتے ہیں انکے لئے بھی اس شعبے  میں ایمانداری اور سچائی پہلی شرط ہونی چاہیے۔ جب تک ہم سچائی کی پہلی سیڑھی پر قدم نہیں رکھیں گے۔ آگے کامیابی کی آخری منزل تک نہیں پہنچ سکتے۔  ہم دکان دار بننا چاہتے ہیں تو وہ ہر شعبے میں بن چکے ہیں۔ صحافی دکاندار، رپورٹر دکاندار، اینکر دکاندار۔۔۔۔۔۔اس لیئے ہمیں اپنی اردو صحافت کی بنیادوں کو پھر سے مضبوط کرنا ہوگا۔

          °°°°°°°°

شاعری / /مدت ہوئ عورت ہوۓ/ ممتاز قلم / سچ تو یہ ہے/ اے شہہ محترم/ سراب دنیا/ نظمیں/ پنجابی کلام/