ضد کا تالا
ممتازملک ۔ پیرس
ممتازملک ۔ پیرس
انسان کی فطرت ہے کہ وہ جو بات سمجھنا چاہیے بس وہی سمجهتا ہے اور جو بات نہ سمجھنا چاہے وہ اسے دنیا کا بڑےسے بڑا حکیم لقمان ہو یا عالم فاضل پروفیسر یہاں تک کہ پیغمبر ہی کیوں نہ ہو نہیں سمجها سکتا . کیونکہ سمجھنے کے لئے سمجھنے کا ارادہ ضروری ہے ۔ جبهی توآپ اپنے دماغ کی کھڑکیاں کهولیں گے۔ جب کھڑکی کھلے گی تو ہی دماغ نامی گهر میں تازہ ہوا جائے گی ورنہ اس گهر میں گندگی اور بدبو کا ہی راج رہے گا. آپ کتنی بهی خوشبو چھڑک لیں لیکن یہ خوشبوئیں تازہ ہوا کا مقابلہ کبھی نہیں کر سکتیں. یہ ہی حال انسانی سوچ اور سمجه کا بهی ہے ۔ انسان وہیں پر زہنی ترقی کرتا ہے جب وہ اپنےنظریات اور سوچ کو ضد نہیں بناتا بلکہ اس میں دوسروںسے اچھی باتیں بآسانی لینے اور اپنی اچھی بری باتیں چهانٹنے کا عمل کھلے دل سے جاری رکھے ۔ جبهی اس کا شمار کامیاب انسانوں میں ہوتا ہے ۔ ورنہ سوچ کے گهر کو ضد کا تالہ لگا ہو تو وہاں انا پرستی اور ناکامی و تنہائی کے آسیب بسیرا کر لیتے ہیں. اللہ پاک نے بهی اپنے کلام پاک میں واضح طور پر فرمایا ہے کہ !
" ہدایت انہی لوگوں کو ملتی ہے جو ہدایت لینا چاہتے ہیں" یاہدایت مانگتے ہیں یعنی جو انسان سمجهناچاہتا ہے رب بهی اسی کو سمجھاتا ہے. ورنہ وہ چاہتا تو ہر ایک کو سمجھنے اور اس کی بات ماننے پر مجبور کردینا کیا اس کے لئے کچه مشکل تها؟
اللہ پاک نے عقل تو ہر انسان کو عطا کی ہے. دنیا میں آج تک ایسا نہیں ہوا کہ کسی بهی ڈاکٹر یا سرجن نے یہ دعویٰ کیا ہو کہ اس نے کسی زندہ انسان کی کهوپڑی دماغ کے بغیر پائ ہو. جبکہ ہمیں اس بات کی بے شمار مثالیں آئے دن دیکھنے کو ملتی ہیں جب دماغ رکھتے ہوئے بهی لوگ عقل سے عاری ہوتے ہیں. یہ ایسے ہی ہے کہ کسی کے پاس کوئی گهاس کاٹنے کی مشین تو ہے لیکن وہ اس سے گهاس کاٹنے کا کام نہیں لیتا . اور وہ مشین زنگ کها جاتی ہے. تو نتیجے میں اس کا باغیچہ بهی ہر طرح کی خودرو جھاڑ جھنکار کا بدہیئت کچراگهر بن جائے گا.جبکہ یہ ہی مشین استعمال کرنے والا اپنے باغیچے کو آئے دن مرضی کی شکل دیتا
اللہ پاک نے عقل تو ہر انسان کو عطا کی ہے. دنیا میں آج تک ایسا نہیں ہوا کہ کسی بهی ڈاکٹر یا سرجن نے یہ دعویٰ کیا ہو کہ اس نے کسی زندہ انسان کی کهوپڑی دماغ کے بغیر پائ ہو. جبکہ ہمیں اس بات کی بے شمار مثالیں آئے دن دیکھنے کو ملتی ہیں جب دماغ رکھتے ہوئے بهی لوگ عقل سے عاری ہوتے ہیں. یہ ایسے ہی ہے کہ کسی کے پاس کوئی گهاس کاٹنے کی مشین تو ہے لیکن وہ اس سے گهاس کاٹنے کا کام نہیں لیتا . اور وہ مشین زنگ کها جاتی ہے. تو نتیجے میں اس کا باغیچہ بهی ہر طرح کی خودرو جھاڑ جھنکار کا بدہیئت کچراگهر بن جائے گا.جبکہ یہ ہی مشین استعمال کرنے والا اپنے باغیچے کو آئے دن مرضی کی شکل دیتا
. .اور مرضی کے پهول اور بوٹے اگاتا نظر آئیگا. اور اس کی مشین بهی بہترین حالت میں رہے گی. یہ ہی حال لوگوں کا بهی ہے لوگ دماغ کے بغیر نہیں لیکن عقل کے بغیر ضرور گھومتے نظر آئیں گے. ان کی ایک نشانی یہ ہوتی ہے کہ بےمقصد بحث کریں گے. .کوئی اپنی بات کے ہزار دلائل دیے لے لیکن انکے مرغے کی ایک ہی ٹانگ ہو گی . یہ بغیرعقل گهومنے والے ایک ہی کام شوق سے کرتے نظر آتے ہیں دوسروں کو گھمانے کا..وہ بهی انتہائ بے شرمی اور ڈھٹائی کیساتھ.
ایسے لوگوں کو یہ ہی کہا جا سکتا ہے کہ جب تک اپنےدماغ کےگهر پر لگا ضد کا تالا نہیں کهولیں گے. سمجھ کی ہوا اس گهر سے نہیں گزرے گی. تب تک آپ کی سوچ کبھی تازہ نہیں ہو گی بلکہ اس گلی سڑی سوچ کی سڑاند آپ کو لوگوں کے احترام سے تو محروم کرے گی ہی ،لیکن آپ کی اپنی ذات اس کی بو سے فنا ہو جائے گی. ہمارے اردگرد ایسے لوگ بهی ہمیشہ موجود ہوتے ہیں جن کی باتوں سے ہم بظاہر اتفاق نہ بهی کریں تب بهی ہمارا ضمیر ہمیں دل میں ان کا احترام رکھنے پر مجبور کرتا رہتا ہے . انا پرستی کی دوڑ میں ہم ان کی سچائی کو اعتراف کرنے سے اور خاص طور پر مخلوق کے سامنے اعتراف کرنے سے ہمیشہ گریزاں رہتے ہیں اور یہ بات بھول جاتے ہیں کہ کسی کو موقع دینے والا کسی کی بات کی سچائی کا اعتراف کرنے والا اور کسی کو راستہ دینے والا کسی کی سچی تعریف کرنے والا اللہ کی جانب سے نہ تو دنیا میں ذلیل ہوتا ہے اور نہ ہی اسے آخرت کی ذلت اٹھانی پڑے گی ۔ اگر انسان سیکھنا اور سمجھنا چاہے تو غور کریں ہم اپنے گھر میں چھوٹے چھوٹے بچوں کے منہ سے بے ساختہ نکلنے والے جملوں سے کیا کچھ سیکھ سکتے ہیں ۔ بلکہ اپنے دشمنوں کے منہ کی بات کو اگر مثبت انداز میں لینے کی عادت ڈال لیں تو ہمارا دعوی ہے کہ ہمارے اکثر کام ہمارے دشمن ہی آسان کر دیتے ہیں ۔ بات صرف اتنی سی ہے کہ!
"عقل مند اور سمجھدار وہ ہے جو کبھی بھی یہ نہیں دیکھتا کہ!
کووووووون کہہ رہا ہے بلکہ ہمیشہ یہ دیکھتا ہے کہ کیاااااااااااااااااااااا کہہ رہا ہے۔" ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایسے لوگوں کو یہ ہی کہا جا سکتا ہے کہ جب تک اپنےدماغ کےگهر پر لگا ضد کا تالا نہیں کهولیں گے. سمجھ کی ہوا اس گهر سے نہیں گزرے گی. تب تک آپ کی سوچ کبھی تازہ نہیں ہو گی بلکہ اس گلی سڑی سوچ کی سڑاند آپ کو لوگوں کے احترام سے تو محروم کرے گی ہی ،لیکن آپ کی اپنی ذات اس کی بو سے فنا ہو جائے گی. ہمارے اردگرد ایسے لوگ بهی ہمیشہ موجود ہوتے ہیں جن کی باتوں سے ہم بظاہر اتفاق نہ بهی کریں تب بهی ہمارا ضمیر ہمیں دل میں ان کا احترام رکھنے پر مجبور کرتا رہتا ہے . انا پرستی کی دوڑ میں ہم ان کی سچائی کو اعتراف کرنے سے اور خاص طور پر مخلوق کے سامنے اعتراف کرنے سے ہمیشہ گریزاں رہتے ہیں اور یہ بات بھول جاتے ہیں کہ کسی کو موقع دینے والا کسی کی بات کی سچائی کا اعتراف کرنے والا اور کسی کو راستہ دینے والا کسی کی سچی تعریف کرنے والا اللہ کی جانب سے نہ تو دنیا میں ذلیل ہوتا ہے اور نہ ہی اسے آخرت کی ذلت اٹھانی پڑے گی ۔ اگر انسان سیکھنا اور سمجھنا چاہے تو غور کریں ہم اپنے گھر میں چھوٹے چھوٹے بچوں کے منہ سے بے ساختہ نکلنے والے جملوں سے کیا کچھ سیکھ سکتے ہیں ۔ بلکہ اپنے دشمنوں کے منہ کی بات کو اگر مثبت انداز میں لینے کی عادت ڈال لیں تو ہمارا دعوی ہے کہ ہمارے اکثر کام ہمارے دشمن ہی آسان کر دیتے ہیں ۔ بات صرف اتنی سی ہے کہ!
"عقل مند اور سمجھدار وہ ہے جو کبھی بھی یہ نہیں دیکھتا کہ!
کووووووون کہہ رہا ہے بلکہ ہمیشہ یہ دیکھتا ہے کہ کیاااااااااااااااااااااا کہہ رہا ہے۔" ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔