ممتازملک ۔ پیرس

ممتازملک ۔ پیرس
تصانیف : ممتازملک

اتوار، 25 جولائی، 2021

تباہی ‏کا ‏اگلا ‏مرحلہ / ‏کالم

     تباہی کا اگلا مرحلہ

سو سال سے زائد عرصہ گزر چکا ہے بھارتی فلموں کے ذریعے بے راہ روی کو فروغ دینے اور مذہب کو بیوقعت کرنے کی عملی کوششوں کو ۔  جن میں ہر طبقے کی لڑکیوں کو اپنے گھروں سے بھاگنے کی تربیت دی گئی ۔ لڑکوں کو لڑکیوں کو ورغلانے کے نت نئے انداز سکھائے گئے۔  والدین کے فیصلوں کو بیوقوفی ثابت کرنے کا بیڑا اٹھایا گیا ۔ ناجائز رشتوں کو بڑھاوا دیا گیا ۔ بن بیاہی ناجائز اولادوں کو پیار کی نشانی قرار دیکر سارے بھارت ملک کی لڑکیوں کو بن بیاپی مائیں بنا دیا ۔ جہاں نکاح اور پھیروں کو غیر  ضروری قرار دیکر ان کی کھلی اڑائی گئی ۔ اس عذاب کو آج سارا بھارت بھگت رہا ہے۔ جہاں نہ حیا رہی نہ رشتے اور نہ ہی مذہب ۔ کسی کو اپنی ماں کا پتہ نہیں تو کوئی اپنے باپ کو ڈھونڈ رہا ہے ۔  اس پڑوسی کی گندگی کے چھینٹے ہمارے ملک پاکستان پر بھی خوب پڑے ۔ جہاں ناچ گانا دیکھنے کے شوق میں یہ سارے عیب ہماری عوام نے فیشن سمجھ کر اپنانے شروع کر دیئے۔
چلیئے آج اب نئی مہم  کو ملاحظہ فرمائیں تو عورت و مرد کے کالے کاموں کے تحفظ کے بعد اب اس میں مذید جدت لائی گئی ہے۔ مرد کو مرد اور عورت کو عورت کی جانب جنسی  طور پر راغب کرنے کی بات اتنے پیرائے میں کی جاتی ہے کہ اسے آسانی سے پہنچ ہونے والا مزہ سمجھ کر بھارت میں متعارف کروایا گیا ۔جہاں اب اسے حق سمجھ کر اس پر قانون بھی بن چکا ہے ۔ یعنی جو برائی ختم نہیں  کی جا سکے ہر بزدل اورکمزور حکمران کی ریت ہے کہ اسے قانونی  سند قبولیت بخش دی جائے ۔ ہمیں فکر ہے ہمارے ملک پاکستان کی ۔۔۔جہاں  قوم لوط کا یہ کھیل آج  گلی گلی میں  کھیلا جا رہا ہے ۔ وہ کھیل جس کے عوض ایک پوری قوم کو نیست و نابود کر دیا گیا ۔ اللہ پاک نے جسے اپنے کلام پاک میں پوری وعید کے ساتھ سنا دیا ۔  حضرت لوط علیہ السلام کی قوم کا واقعہ کسی بھی ایمان والے کی آنکھیں کھولنے اور دماغ روشن کرنے کے لیئے کافی ہے ۔ 
اللہ پاک نے انسان کو مردوعورت کے جوڑے سے پیدا فرمایا ۔ ازل سے ابد تک اللہ کا یہ قانون رہیگا ۔ لیکن اب عورت اور عورت مل کر خود پر سیاہی پوت رہی ہیں تو مرد اور مرد مل کر اللہ کی حدود کو پھلانگ رہا ہے ۔ گویا حالات یہاں تک پہنچ چکے ہیں کہ کوئی عورت بھی کسی عورت کیساتھ تنہائی میں وقت گزارے تو اس کے کردار پر بھی شک کیا جا سکتا ہے ۔ جبکہ مرد اور مرد ایکدوسرے کیساتھ زیادہ چپک رہا ہو تو اس کے کردار کی گندگی بھی محسوس ہونے لگتی ہے ۔ یہ سب کس جانب ہمیں لے جا رہا ہے۔ کیا اب مخلوق اپنے خالق کو چیلنج کرنے جا رہی ہے ۔ اسکی حدود اور احکامات کا مذاق اڑا کر وہ کون سی بلندی سر کرنے جا رہی ہے؟ حکومت پاکستان پر اگر ابھی ہم جنس پرستوں کا غلبہ نہیں ہوا تو خدا کے لیئے ایک مسلمان ملک میں اس ہم جنسیت کے کھیل کھیلنے والوں کو سرعام کڑی سزاوں سے نوازہ جائے۔ 
لیکن اس سے قبل سچے اور حقیقی علماء کرام کی خدمات حاصل کی جائیں جو مقامی ہوں اچھی شہرت رکھتے ہوں اور اللہ کے بھیجے ہوئے اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے لائے ہوئے سچے دین اسلام کی تعلیم اس بھٹکی ہوئی قوم کو دے سکیں ۔ جو لوگوں کو  مسلک اور فرقوں کے عذاب میں مبتلا نہ کریں بلکہ اللہ کے احکامات کو کھول کھول کر بیان کریں ۔  اگر اس فتنے پر قابو نہ پایا گیا تو  ہماری دنیا و آخرت تہذیب و تمدن ہر شے کو یہ آگ کی طرح کھا جائیگا۔ اپنی اولادوں پر نظر رکھیئے اور جو بھٹک کر یا اس کام کو پیسہ کمانے کا آسان ذریعہ سمجھ کر اس گناہ میں مبتلا ہو رہے ہیں انہیں یاد دلائیں کہ ہمارا ہر پل ہمیں اس واپسی کی جانب بڑھا رہا ہے جہاں ہمیں اپنے ان سبھی اعمال کا جواب دینا ہے ۔ اور جہاں نہ کوئی سفارش کام آئے گی اور نہ کوئی رشتہ۔ اس لیئے اپنے اخلاق اور کردار پر توجہ دیں ۔
 خود کو اللہ کے قریب کریں تاکہ وہ آپکو گناہوں اور عذابوں سے دور کر دے ۔ آمین
                    ●●●

جمعرات، 22 جولائی، 2021

● اہمیت/ ‏کوٹیشنز ‏


                اہمیت

کسی کو اپنی زندگی میں اتنی ہی اہمیت دو جتنی وہ آپکو  دیتا ہے 
ورنہ آپ کی اپنی ہی نظر میں بھی نہ تو اہمیت رہیگی اور نہ ہی کوئی عزت ۔
             (چھوٹی چھوٹی باتیں)
                  (ممتازملک ۔پیرس)

پیر، 19 جولائی، 2021

شاخسانہ ‏/ ‏کوٹیشنز ‏

          شاخسانہ

عجیب بات ہے کہ
اکثر بے تکے جوڑے لو میرج کا شاخسانہ نکلتے ہیں ۔۔۔🤪
جنہیں دیکھ کر یقین آجاتا ہے کہ واقعی محبت اندھی ہوتی ہے ۔😂 
  ( چھوٹی چھوٹی باتیں)
         (ممتازملک۔پیرس)

جمعہ، 16 جولائی، 2021

کون ‏دوست/ ‏کوٹیشنز ‏

      کون دوست؟ 

دوست وہ نہیں ہوتا جس کیساتھ مقابلے پر دعوتوں کے میز سجائے جائیں 
بلکہ دوست وہ ہوتا ہے جس کی خوشی آپ کے ہونٹوں پر مسکراہٹ بکھیر دے اور جس کا غم آپکے چہرے پر چھلکے اور دل میں اتر جائے ۔ اس کی آنکھ کا ہر آنسو آپ کے دل پر گرتا ہے ۔ اور فی زمانہ ایسا دوست جس کو میسر ہے اس سے زیادہ خوش نصیب اور کوئی نہیں ہو سکتا ۔ 
     (چھوٹی چھوٹی باتیں)
           (ممتازملک۔پیرس)

پیر، 12 جولائی، 2021

روندے ‏کارکردگی ‏نوں ‏/ ‏کالم

روندے کارکردگی نوں

فرانس کی چھ کروڑ کی آبادی  میں جہاں ہر روز کرونا سے  دو تین سو لوگ مر رہے تھے تو  وہاں کے تعلیمی ادارے کھول دیئے گئے
اور ایک ہم پاکستان کی 22 کروڑ کی آبادی میں 40 سے 50 لوگوں کے مرنے پر دو سال سے تعلیمی نظام کو تہس نہس کر دیا گیا ۔ کاش اس تعلیمی منسٹر اور اس کے مشیروں کو اس ملک کے جھنڈے🇵🇰 کے ڈنڈے سے  پیٹا 👊 جا سکتا اور اس وزیر کو اس بیرونی اجینڈے کی پیروی پر سزائے موت دلوائی جا سکتی ۔

کیونکہ آج کی دنیا  میں کسی بھی ملک کو تباہ کرنے کے لیئے اس پر بم گرانے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ اس کی معیشت کو تباہ کر دو یا اس کے تعلیمی نظام کو برباد کر دو ۔ اور بلاشبہ آج کے حکمرانوں نے یہ دونوں کام اپنے بیرونی آقاوں کے ایجنڈے پر جی جان سے پورے کیئے ہیں ۔ 

اس ملک کی وہ نسل انصافی حکومت نے تیار کر دی ہے جس کا پڑھائی لکھائی سے کوئی تعلق ہے نہ رغبت ۔ جو کتابیں اٹھانے کا نام لو تو ہتھیار اٹھانے کو تیار ہو چکی ہے ۔سکول کا نام لو تو "دھرنا دو " کا قومی سبق دہراتی ہے ۔ وہ نالائق ترین طلباء جو دو سال سے بنا امتحانات اور کتابیں کھولے اگلی جماعتوں میں بڑھائے  جا چکے ہیں یہ کل کس کس عہدے تک پہنچ کر اس ملک کے جڑوں میں اور کیا کیا زہریلے ٹیکے لگائیں گے ہمارے اکثر بے حس لوگوں کو ابھی تک اس کا شعور ہی نہیں ہے ۔ گویا  اندھے ہاتھ میں ڈرائیونگ لائسنس لیئے گاڑیاں چلانے کو تیار ہیں ۔ اب انکی زد میں کون کب اور کیسے آئے گا یہ سوچ کر ہی روح کانپ جاتی ہے ۔ پاکستانی نئی نسل کو جاہل گنوار دیکھنے کا بھارتی ایجنڈا ہمارے تعلیمی وزراء نے جس تندہی سے پورا کیا ہے اس پر انہیں کڑی سزاوں کے بجائے مذید ترقیوں سے نوازنا چہ معنی دارد۔۔۔

یہ وہی لوگ ہیں جن کے گھروں میں لارڈ صاحب اور میم صاب پل رہے ہیں اور ہم بلڈی عوام اپنی عمر بھر کی پونجی ان کے انگریزی بولنے والے ملازمین پیدا کرنے میں صرف کر کر کے پاگل ہوئے جا رہے ہیں ۔ اپنی قومی زبان کو دیوار سے لگانے کے لیئے یہ خاص ٹولہ اپنے سر دھڑ کی بازی لگا چکا ہے ۔ لیکن فیصلہ عوام کو خود کرنا ہو گا ۔ اپنی زبان پڑھ کر علم حاصل کرنا ہے اپنی تہذیب اور افکار بچانے ہیں یا پھر انگریزی کی گرائمر سدھارتے سدھارتے دنیا سے رٹے بازی کی دوڑ لگاتے ہوئے اس جہان سے گزر جانا ہے ۔ فیصلہ خود کیجئے۔ 

دنیا کی ترقی یافتہ اقوام  نے سب سے پہلے اپنی زبانوں پر فخر کرنا سیکھا ۔ اسے رائج کیا اور دنیا فتح کر لی۔ مٹھی بھر یہودیوں  نے اپنی اس زبان کو زندہ کر کے دکھا دیا جو  بولنے والے بھی محض دس بارہ لوگ ہی بچے تھے۔ لیکن انہوں نے اسی زبان کو اپنا زریعہ تعلیم بنایا اوردنیا کو اپنی زبان کی اہمیت اور افادیت کا بین ثبوت فراہم کر دیا ۔ کیا ہمارے حکمرانوں کو اپنے ان عزیزوں اور رشتہ داروں کی روشن مثال سے سبق حاصل نہیں کرنا چاہیئے؟ 

                      ۔۔۔۔۔۔

تہذیب/ ‏کوٹیشنز ‏


       تہذیب

ہم تب تک مہذب ہیں جب تک بات
 ہماری من چاہی چل رہی ہو جبکہ ہماری تہذیب کا اصل امتحان اس وقت شروع ہوتا ہے جب بات ہمارے مزاج کے خلاف ہو رہی ہو ۔ 
  (چھوٹی چھوٹی باتیں)
        (ممتازملک۔پیرس)

بدھ، 7 جولائی، 2021

خواب ‏اور ‏ائینے/ ‏کوٹیشنز ‏


لوگ خواب بیچتے ہیں اورمیں آئینے۔۔۔ جو ان خوابوں کو توڑ دیتے ہیں سو مجھ پر پتھر زیادہ برستے ہیں کہ انہیں اصلی صورت  دیکھنے پر مجبور جو کرتی ہوں ۔۔۔
       (چھوٹی چھوٹی باتیں)
            ( ممتازملک۔پیرس)

جمعہ، 28 مئی، 2021

● مسلم ‏اقلیت ‏نظر نہیں ‏آتی؟/ ‏کالم

      
          مسلم اقلیت نظر نہیں آتی؟
         (تحریر:ممتازملک۔پیرس)
             

دنیا بھر میں انسانی حقوق کی ٹھیکیدار تنظیمات کو ہر اقلیت کا اس ملک میں دکھ اور اس پر خوردبینی  زیادتی نظر آ جاتی ہے جہاں  مسلم اکثریت آباد ہے ۔ لیکن دنیا بھر میں مسلمانوں پر بطور اقلیت جو جو خوفناک مظالم ڈھائے جاتے ہیں یا ڈھائے گئے ہیں اس سے یہ تنظیمات خود کو اندھا گونگا اور بہرا کیسے کر لیتی ہیں ؟
کیا پسند کی شادی کر کے مسلم ہونے والی لڑکی کا غم اس سے زیادہ ہے جہاں مسلم عورتوں اور بچیوں کیساتھ اجتماعی زیادتی کے جرائم اعلانیہ کیئے گئے۔ 
کیا کسی غیر مسلم کا کہیں کسی جھگڑے میں مارا جانا اس سے زیادہ بڑی خبر ہے جہاں بیگناہ معصوم لوگوں کو محض مسلم ہونے کی پاداش میں گاجر مولی کی طرح کاٹ کر عالمی میڈیا نے خوب خوب داد سمیٹی؟  
کیا یورپ اور امریکہ جو کسی جھوٹے انسان کو محض غیر مسلم اقلیت کا لیبل دیکر کیش کرانے اور اس مسلم ملک کو بدنام کرنے کی کوشش کرتا ہے اسے کشمیر ، فلسطین اور روہنگیا کے ہاں خوفناک جنگی جرائم  کا شکار ہونے والے یتیم بچے عورتیں مرد  نظر نہیں آتے ؟ 
کیا ببوسنیا اور شام میں قتل ہونے والے مسلمان انسان نہیں تھے؟
کیا یورپ بھر میں امریکہ میں تعصب کے ہاتھوں قتل ہونے والے اور  بے عزت ہونے والے اقلیتوں کا شمار انسانوں میں نہیں ہوتا کیونکہ وہ مسلمان تھے۔ 
کاش کہ عالمی انسانیت کے ٹھیکیدار انسانیت کے عظیم فلسفے میں جانبداری کا زہر نہ گھولتے تو شاید دنیا امن کا گیوارہ ہوتی ۔ 
غیر مسلم قوتوں نے ہمیشہ اقلیتیوں کے لیئے آواز سیاسی شعبدہ بازی کے طور پر اٹھائی ۔ حکومتوں کو بلیک میل کرنے کے لیئے اور اپنے وقتی مفادات کے حصول کے لیئے۔ ورنہ ابو الغریب کی جیل میں صرف مسلمان ہونےکی پاداش میں انسانوں کو غیر انسانی سلوک کا شکار نہ بنایا جاتا ۔ ورنہ افغانستان میں چالیس سال سے انکے قتل عام اور تباہی کو بھی عالمی جرائم میں شمار کیا جاتا اور عالمی طاقتوں کو اس کا جواب اور حساب  دینا پڑتا ۔ 
لیکن مسلمانوں کے لیئے ایک دوسری عدالت کا فیصلہ اور اس کی حقانیت پر انکا یقین ہی انکی اصل طاقت ہے ۔ انسانی حقوق کی عالمی تنظیمات اپنی جعلسازی جاری رکھیں ۔ 
دنیا بھرمیں یہ ڈرامہ انسانی حقوق تنظیمات مسلم اقلیتوں کے اوپر ہونے والے  مظالم پر منہ میں گھ گھنیا ڈال کر بیٹھ جاتے ہیں اور جہاں ان کے کانوں پر  ڈالرز اور یوروز کی چوٹ پڑتی ہے تو غیر مسلموں  ہی کیا ان کے کسی کتے کی موت پر آسمان سر پر اٹھا لیا جاتا ہے ۔ پھر چاہے وہ غیر مسلم خود ہی چیخ چیخ کر کہتا رہے کہ میرے ساتھ ایسا کچھ نہیں ہوا لیکن یہ بینڈ خاموش ہونے کا نام نہیں لیتا ۔ جب تک کہ کسی مسلم ملک کو باقاعدہ نشانہ بناا کر اس جرم میں نشان عبرت نہ بنا دیا جائے ۔ اور اس کی عوام کو دنیا بھر میں زرخرید میڈیا کے ذریعے خوب بدنام نہ کر لیا جائے ۔ سچ کہیں تو آج کے دجالی فتنہ پرور میڈیا کا کام ہی مسلمانوں کی نسل کشی اور انہیں ہر لحاظ سے نقصان پہنچانا ہی ہے ۔ کیونکہ اسے چلانے والے غیر مسلم  عالمی اجارہ دار اسے اپنا مذہبی فریضہ سمجھ کر ہی انجام دیتے ہیں ۔ جب مسلمان ایسا کوئی مذہبی فریضہ ادا کرنا چاہے تو اسے دہشت گرد قرار دیکر  دیوار سے لگا دیا جاتا ہے ۔ انسانی حقوق کا نام لیکر ایسا تماشا دنیا کے لیئے کوئی نئی بات نہیں ہے۔
                    ●●●

بدھ، 21 اپریل، 2021

پاکستان میں ڈر لگتا ہے/ کالم


                پاکستان میں ڈر لگتا ہے

پاکستان کی محبت میں ہم تارکین وطن اپنا خون پسینہ اس لیئے بہا کر بھیجتے ہیں کہ ہمارا ملک ترقی کرے گا ۔ یہاں لوگوں کا طرز زندگی بہتر ہو گا ۔ لوگ ان کے شکرگزار تو کیا ہی ہونگے بلکہ ان کی ہر چیز ، جان ، مال اور عزت پر اس طرح جھپٹتے اور غصب کرتے ہیں کہ انہیں بتانے پر آج ہم مجبور ہو چکے ہیں کہ اس ملک میں جائیدادیں بنانے سے باز آ جاو ۔ یہاں پیسہ لگانے سے باز آ جاو ۔ یہاں رشتے کرنے سے باز آ جاو ۔افسوس صد افسوس میں نے یہ کبھی نہیں سوچا تھا کہ ایک روز مجھ جیسی وطن پرست انسان بھی ایسا سوچنے پرمجبور ہو جائے گی ۔وہ لوگ جو اسے میری تنگ نظری اورچھوٹی سوچ کا فتوی لگا کر مجھے احمق اور جانے کیا کیا ثابت کرنے کی کوشش کرینگے ۔ ان کے سامنے دست بستہ یہ اقرار کرتی ہوں کہ اس ملک میں آ کر ہم سب تارکین وطن خود کو مہا گدھا ثابت کرنے کے خود ساختہ کوششیں کیا کرتے ہیں تاکہ آپ کی اس سوچ  کو درست ثابت کر سکیں ۔ ورنہ دنیا کے حسین مناظر، خوبصورت لوگ، دلکش مقامات ہمارے لیئے بانہیں کھولے منتظر ہیں  کہ آو ہم اللہ کے بنائے ہوئے ان لوگوں اور ان کی ترقی سے تمہیں ملائیں جن سے خدا راضی ہے ۔ جنہیں علم سے محبت ہے ۔ جنہیں انصاف سے عشق ہے جنہیں انسانیت کی قدر ہے ۔ جہاں قانون کا تحفظ ہے ۔ جہاں آپ کی بطور انسان عزت بھی ہے اور اہمیت بھی ، لیکن نہیں ہمیں تو پھانکنی ہے پاکستان کی خاک ۔چکھنی ہے پاکستانیوں کی فریب و ریا کاریوں کی دھول ۔ کھانی ہے ملاوٹ سے بھرے رشتوں کی چاٹ ۔ کیوں ؟
کیونکہ ہمیں صاف اور  خالص چیزیں ہضم نہیں ہوتیں ۔۔۔۔
اس وقت پاکستان میں یہ حالت ہے کہ آپکو جج کو دیکھ کر ڈر لگتا ہے کہ یہ آپکو کتنے سال خوار کریگا ؟
وکیل کو دیکھ کر ڈر لگتا یے کہ یہ آپکو کس کس بہانے نچوڑے گا ؟
ڈاکٹر کو دیکھ کر ڈر لگتا ہے کہ یہ آپکو کس مرض کے بہانے ٹکڑوں میں بیچ ڈالے گا ؟
پولیس کو دیکھ کر ڈر لگتا ہے کہ یہ آپکو کس کس جرم بیگناہی میں ملوث کر دیگا؟کب آپکو دہشت گرد قرار دیدے گا؟
استاد کو دیکھ کر ڈر لگتا ہے کہ یہ آپکے مستقبل کو کیسے داو پر لگائے گا؟
شاگرد کو دیکھ کر ڈر لگتا ہے کہ یہ آپکو کس طرح اپنی نالائقی کی بھینٹ چڑھائے گا؟
کسی بھی افسر کو دیکھ کر کیا، اس کے چپڑاسی کو دیکھ کر بھی ڈر لگتا ہے کہ یہ میرے کسی بھی مسئلے میں منہ پھاڑ کر رشوت اور کمیشن کے نام پر  مجھ سے کتنی جیب خالی کروا لے گا ؟
مولانا کو دیکھ کر ڈر لگتا ہے کہ یہ مجھے کس بہانے دین سے بھٹکا کر کسی فرقے کی گود میں ڈال دیگا؟
پڑوسی کو دیکھ کر ڈر لگتا ہے کہ یہ اپنے مفاد کے لیئے کب کہاں جھوٹ بول کر  میری گردن پھنسا دیگا ۔
رشتے دار کو دیکھ کر ڈر لگتا ہے کہ وہ کب مجھے لوٹ لیگا۔
دوستوں کو دیکھ کر ڈر لگتا ہے کہ کب یہ نظریں بدل کر مجھے پہچاننے سے انکار کر دینگے ۔
آج کے پاکستان میں مجھے ڈر لگتا ہے یہ وہ پاکستان تو نہیں جو میرا تھا ۔ یہ تو کوئی اور ہی جگہ ہے ۔ شاید میں پاکستان کا رستہ کھو بیٹھی ہوں ۔۔
یا یہ قوم اپنی منزل گم کر بیٹھی ہے
اب یہاں کوئی کسی سے بغیر مطلب کے نہیں ملتا ۔ 
کوئی کسی سے بغیر مفاد کے رابطہ نہیں کرتا۔
کوئی کسی کو یونہی یاد بھی نہیں کرتا ۔ 
 اس کے بوڑھوں کو اپنی موت یاد نہیں ۔ اس کے جوانوں کو اپنا دین یاد نہیں ۔ اس کی عورت کو اپنی حیا بوجھ لگنے لگی ہے ۔ اس کے مردوں کو اپنی آنکھیں جھکانا  بھول چکا ہے ۔ اس کے بچوں کو اپنے بڑوں سے بات کرنے کی تمیز بھول چکی ہے جبھی تو  مجھے پاکستان  سے ڈر لگنے لگا ہے ۔ کون کریگا اس ریوڑ کی نگہبانی ؟
                     ●●●


ہفتہ، 10 اپریل، 2021

● روحانیت ‏سے ‏شیطانیت ‏تک/ ‏کالم


       روحانیت سے شیطانیت تک
         (تحریر: ممتازملک۔پیرس)

دنیا میں ہر انسان بیک وقت دو دنیاوں کا سفر کر رہا ہوتا ہے ۔ ایک اس کی جسمانی دنیا اور ایک اس کی روحانی دنیا ۔
ہر ایک کا سفر دوسرے سے جدا ہوتا ہے ۔ ہر ایک کے درجات دوسرے سے الگ ہوتے ہیں ۔
بہت ممکن ہے ایک ہی ماں کی کوکھ سے جنم لینے والا ایک انسان عظمتوں  کے مینارے تعمیر کر رہا ہو اور اسے لمحے میں اسی  ماں کی دوسری اولاد شیطانیت کو  شرمسار کر رہی ہو۔ 
کچھ لوگوں کا سفر دنیا خریدنے  اور اسے مذید سے مذید تر اپنی جیب میں اور پیٹ میں بھرنے کے لیئے وقف ہوتا ہے ایسا انسان نہ کسی رشتے کا سگا ہوتا ہے اور نہ ہی خدا کی لکھی تقدیر کا قائل۔  اسے بدبخت بھی کہا جا سکتا ہے ۔جو اپنے رشتوں کو اپنے لیئے آہنی دیوار بنانے کے بجائے ریت کی ڈھیری میں بدل لیتا ہے ۔ اور جب بھی مٹھی کھولتا ہے خود کو خالی ہاتھ ہی پاتا ہے ۔
اس عمل میں وہ شیطانی دنیا کے وہ وہ گر آزماتا ہے جو کبھی اسے شرک کا مرتکب کر دیتا ہے اور کبھی کفر کی دنیا کا فرد شمار کروا دیتا ہے ۔ وہ سمجھتا یے میری چالبازیاں میرے جادو ٹونے ، میری لمبی زبان اور میرا گندہ کردار لوگوں کو مجھ سے دہشت زدہ رکھے گا اور یہ کسی حد تک سچ بھی ہے۔  آپ نے اپنے ارد گرد ایسے بہت سے چلتے پھرتے شیطان صفت جسم دیکھے ہونگے جن پر ایک حدیث پاک صلی اللہ علیہ وسلم  کا یہ مفہوم سو فیصد صادق آتا ہے کہ " ایک وقت آئے  گا لوگ دوسروں کی عزت ان کے اچھے کردار اور طرز عمل کی وجہ سے نہیں کرینگے بلکہ انکے شر سے محفوظ رہنے کے لیئے کیا کرینگے ۔ "
یہ خود ساختہ اور نام نہاد کامیاب لوگ ہوتے ہیں ۔ انکی جیب میں پیسہ تو کسی اور کا ہوتا ہے ۔ لیکن پھوں پھاں  انکی زوردار ہوتی ہے ۔ یہ وہ خالی غبارے ہوتے ہیں جنہیں وقت کا بچہ جب چاہے حکم خداوندی سے پھونک مار کر پھلا لیتا ہے اور جب چاہے اسے ایک ہاتھ سے مار کر اسکا زبردست پٹاکا نکال سکتا ہے ۔  

دوسری جانب وہ لوگ جن کا سفر خیر کے لیئے روشنی کی لکیر کے لیئے طے ہوتا ہے ۔ وہ دل کے خالص ہوتے ہیں ۔
 اب ان کا نصیب کہ جسے انہوں نے اپنے نورانی منزل کا چراغ سمجھا وہ آخر میں جا کر ایک ٹرک کی بتی نکلا اور انکی راہ کھوٹی کر گیا ۔ وقت کا یہی تو اچھا پہلو بھی ہے اور برا بھی کہ یہ کبھی پلٹ نہیں سکتا سو اس شخص کے خلوص کے سفر کو کیا خاک میں ملا دیا جائے گا ؟ نور کا متلاشی کیا اندھیروں میں اتار دیا جائے گا ؟ 
نہیں۔۔۔ کیونکہ یہ تو رب العالمیں کی شان کے خلاف ہو جائے گا ۔ جبھی تو وہ فرماتا ہے کہ انما الاعمال بالنیات ۔ یعنی اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے ۔ اور یہی بات اس نیک فطرت انسان کی روحانی سربلندی اور ذہنی سکون کے لیئے آب حیات کی سی حیثیت رکھتی ہے ۔ ایسے لوگ بے سکون نہیں ہوتے۔ ہار کر بھی مطمئن ہوتے ہیں کہ ابدی جیت کا وعدہ تو ازلی سے ابدی تک کے مالک نے خود ان سے کر رکھا ہے اور بیشک اس سے بڑا کون ہے اپنے وعدوں کو وفا کرنے والا ، حکومت کرنے والا اور راہنمائی فرمانے والا ۔ انتظار اور یقین کا یہ سفر بیحد صبر آزما تو ہے لیکن بے ثمر کبھی نہیں ہوتا ۔ اسی کو ایمان کہتے ہیں ۔۔
                    ●●●   

اتوار، 4 اپریل، 2021

● ڈھنگ کا کام/ کوٹیشنز

      

       ڈھنگ کا کام

ہم اس دیس کے باسی ہیں جہاں لکھاریوں اور شاعروں کو خود انکے اپنے گھر والے مشورہ دیتے ہیں کہ یہ کیا بیکار شوق پال رکھا ہے کوئی ڈھنگ کا کام کیوں نہیں کرتے تم لوگ؟ اس قوم کی تربیت کا پھر اللہ ہی حافظ ہے ۔
                   (چھوٹی چھوٹی باتیں) 
                       (ممتازملک ۔پیرس)  
                       ●●●  

● دھوکے بازوں کی پہچان / انٹرویو


       (ایک میگزین کو دیا گیا انٹرویو)

منافق اوردھوکہ باز لوگوں کی پہچان کیسے کی جا سکتی ہے ؟


●میں راولپنڈی سول ہاسپٹل میں
  22 فروری 1971ء میں پیدا ہوئے۔
●پیدائشی نام ۔ ممتازملک
●قلمی نام۔ ممتاز
●تعلیم۔ بی اے پرائیویٹ
راولپنڈی سے ہی پڑھائی کی۔
●پاکستان میں بچوں کو کچھ عرصہ پڑھاہا ۔ پھر ایک پرائیویٹ ادارے تھوڑا عرصہ تجربے کے لیئے  کام کیا ۔
●کچھ کورسز وغیرہ کیئے جیسے ٹائپنگ شارٹ ہینڈ ۔ سلائی ۔ کڑھائی۔ وغیرہ
●میری شادی لاہور کے محمد اختر شیخ سے
 7 جنوری 1996ء میں ہوئی ۔ جو کہ پیرس میں جاب کرتے تھے۔  ●الحمداللہ انہیں کیساتھ پیرس میں 7 مارچ 1998ء سے مقیم ہوں ۔
●میرے 3 بچے ہیں ۔
●دو بیٹیاں اور ایک بیٹا
تینوں ابھی پڑھ رہے ہیں ۔
● میری اب تک
5 کتب شائع ہو چکی ہیں ان میں 4 شعری مجموعے بنام
1۔۔۔ مدت ہوئی عورت ہوئے
(2011ء شعری مجموعہ کلام )

2۔۔۔۔ میرے دل کا قلندر بولے
(2014ء شعری مجموعہ کلام)

3۔ ۔۔۔سچ تو یہ ہے (2016ءمجموعہ مضامین۔ میرے منتخب کالمز)
4۔۔۔ اے شہہ محترم صلی اللہ علیہ وسلم۔ (2019ء پہلا نعتیہ مجموعہ کلام )

5۔۔۔سراب دنیا
(2020ء شعری مجموعہ کلام )

۔اور چھٹی کتاب اب طباعت کے مراحل میں ہے ۔
● شاعری کیا ہے ؟
شاعری کسی انسان پر اللہ کا کرم ہے ۔۔
انسان کی روح کی اس کے دل کی آواز ہوتی ہے ۔ میں ہمیشہ کہتی ہوں پیغمبروں پر وحی اترتی ہے تو عام آدمی پر کوئی عطا ہو تو اسے   ردھم اور ترتیب کے ساتھ محسوسات کو قرطاس پر بکھیر دینے کو شاعری کہتے ہیں ۔
شاعر ،مصور، اداکار ، گلوکار یہ سب پیدائشی ہوتے ہیں ۔ دنیا میں آنے سے پہلے ہی اپنے ساتھ لیکر آتے ہیں ۔
کوئی بھی یہ کام سیکھ یا سکھا نہیں سکتا بس اس کی نوک پلک سنوار سکتا ہے یا اسے پالش کیا جا سکتا ہے ۔
●دنیا سے غربت کبھی بھی ختم نہیں کی جا سکتی ہاں کم کرنے کی کوشش کی جا سکتی ہے ۔ حقداروں کو ان کا حق بروقت پہنچا کر ۔
ختم اس لیئے نہیں کی جا سکتی کہ یہ خدائی راز ہے ۔ اسی میں وہ دے کر شکر کو آزماتا ہے اور لیکر صبر کو آزماتا ہے ۔ دنیا میں نہ کوئی ہمیشہ غریب رہتا ہے اور نہ ہی امیر کبیر ۔ امارت اور غربت دھوپ چھاوں جیسے ہیں۔ آج تیرے سر تو کل میرے سر ۔
●اتنا ادب شائع ہونے کے بعد بھی لوگوں کے دلوں سے نفرتیں نہیں گئیں کیا وجہ ہو سکتی ؟؟
 لکھنے والا جتنا مرضی لکھ لے دنیا پڑھنے والوں نے بدلنی ہے ۔ اور پڑھنے سے ہمیں قومی طور پر شدید پرہیز ہے ۔
کتاب خریدنا ہمارے ہاں فضول خرچی ہے ۔ جہاں ادبی پروگراموں شرکت وقت کا زیاں ہے۔
نصآبی کتب بھی بس پاس ہونے کے لیئے رٹی جائیں
 وہاں آپ نفرتیں اور منافقتیں ہی تو پالیں گے ۔ کیونکہ دنیا منافق کی جنت ہے اور سچے کی امتحان گاہ۔

●منافق اوردھوکہ باز لوگوں کی پہچان کیسے کی جا سکتی ہے ؟
جو بنا کچھ کیئے موج میں ہے۔۔
جو سب کو خوش کرنا جانتا ہے ۔۔
جو سب کی گڈ بک میں ہے ۔۔
 سمجھ جائیں منافقت مقابل ہے ۔
 ●آپ جب مایوس ہوتی ہیں تو کیا کرتی ہیں ؟
میں دکھی تو ہو جاتی ہوں اکثر ہی لوگوں کے رویوں اور جھوٹ اور منافقین سے لیکن مایوس  شاذونادر ہی کبھی ہوئی ہونگی۔ میں بہت مثبت سوچ رکھتی ہوں اور سمجھتی ہوں کہ اللہ کے ہر کام میں ہماری ہی بھلائی پوشیدہ ہوتی ہے ۔ ہاں یہ اور بات ہے کہ وہ بھلائی ہمیں نظر اور سمجھ ذرا دیر سے آتی ہے لیکن آتی ضرور ہے ۔
انسان ہوں بہرحال تو جب  کبھی مایوسی کا دورہ پڑا تو اپنا محاسبہ کرتی ہوں ۔ اپنے اللہ سے باتیں کرتی ہوں ۔ اپنے وہ کام ڈھونڈنے کی کوشش کرتی ہوں جس کی وجہ سے مجھ پر کوئی مشکل یا آزمائش آئی ہو۔ نہ بھی یاد آئے تو شدت سے استغفار کرتی ہوں۔
۔باقی وہ بڑا معاف کرنے والا ہے ۔

(ممتازملک.پیرس )

پیر، 22 مارچ، 2021

● مقالہ / اعزازات


Wajid Ali Shah 
Nåveed Umår 

💐صوابی یونیورسٹی کے پی کے پاکستان میں ممتازملک کی کتاب سراب دنیا پر لکھا گیا مقالہ ۔ بلاشبہ مجھ ناچیز کے لیئے  بڑے اعزاز کی بات ہے ۔ 
صوابی یونیورسٹی کے  شعبہ اردو کے مقبول استاد جناب واجد علی شاہ صاحب کی نگرانی اور مقالہ نگار ہونہار طالبعلم نوید عمر کو اس کام کے مکمل ہونے پر دلی مبارکباد ۔  💐💐
 اور میری جانب سے تہہ دل سے شکریہ۔ سدا سلامت رہیں خوش رہیں ۔
   (ممتازملک ۔پیرس)





منگل، 16 مارچ، 2021

یہ ‏آنسو ‏بھی ‏کیا ‏چیز ‏ہیں ‏/ ‏کوٹیشنز ‏

یہ آنسو بھی کیا چیز ہیں 
کہیں آنسو صرف درد کا اظہار ہوتے ہیں ،
تو کہیں یہ شکرگزاری کا اظہار ہیں ،
کہیں یہ  بے بسی بیان کرتے ہیں ،
تو کہیں یہ کامیابی کا اعلان ہوا کرتے ہیں ،
کہیں یہ دکھ بیان کرتے ہیں، 
تو کہیں یہ الحمد کی تعریف بن جاتے ہیں ،
آنسوؤں کی قدر کیجیئے یہ بنا کہے آپ کے جذبات کے ترجمان  بن جاتے ہیں ۔ 
      (چھوٹی چھوٹی باتیں)
            (ممتازملک ۔پیرس)

ہفتہ، 13 مارچ، 2021

* ● عجب ‏ہوا/ ‏اردو شاعری ‏۔ اور وہ چلا گیا


        عجب ہوا                 



اب کے برس بہار نہ آئی عجب ہوا
شاید گناہ حد سے زیادہ تھے تب ہوا

فطرت کا جب مذاق اڑانا رواج ہو
بربادیوں پہ کیسے کہو گےغضب ہوا 

گمراہیوں کے طوق اتارے نہ جائینگے  
چاہے کوئی پہننے کا انکے سبب ہوا

جب تک تھے باادب تو ہراک سمت خیر تھی
سنتے ہیں رل گیا ہے جب سے بے ادب 
ہوا

جس جان پہ اکڑ تھی تکبر تھا زعم تھا 
اس جان پہ بنی ہے اب تو جاں بہ لب ہوا

جینے کا حق تو رب کا عطاکردہ تھا مگر 
ممتاز کیسے اپنوں کے ہاتھوں سلب ہوا
  
       ●●●                ۔

پیر، 1 مارچ، 2021

● ◇ کہاں پہ حور اور کہاں پہ عورت / نظم۔ سراب دنیا ۔ جا میں نے تجھے آزاد کیا


 کہاں پہ حور اور 
       کہاں پہ عورت          
     
 

وہ جس کو چھو کر ہوا نہ گزری 
غموں کی کوئی گھٹا نہ گزری
نہ میلے ہاتھوں کی وہ پہنچ میں 
نہ گندی نظروں گناہ سے گزری

جمال اس کا کمال ٹہرا 
ادا میں اس کی قتال ٹہرا 
سبک خرامی ہے اس کی واللہ
کوئی نہ اس پر سوال ٹہرا


اسے کیا کس طرح مقابل
جو ایک عورت کا حال ٹہرا

کہاں بھلا یہ دکھوں کی ماری 
غموں میں جکڑی ہوئی یہ ناری
ہر اک قدم پر نیا فسانہ 
ہر اک قدم سوچتی بیچاری

بچائے خود کو کدھر کدھر سے 
کسی کے ہاتھوں سے یا نظر سے 
بچائے جاں یا کہ روح اپنی
یا اپنی عزت کو جھاڑ گھر سے

ادھر مقابل تو آ ذرا تو 
مجِھے اے حور اصل بتا تو 
کبھی ہے کاٹا کوئی بھی فاقہ
کبھی جنا تو نے کوئی بچہ
کبھی دریدہ بدن ہوئی ہے 
کبھی تو سردی میں جا کے سوئی 
کبھی تو کھا کھا کے مار روئی
کبھی اٹھائے ہیں زخم تو نے  
کبھی جو عزت کہیں گنوائی
کہیں پہ لگ کر قطار میں تو 
ملا نہ راشن تو موت آئی
تمہاری چوٹی پکڑ کے بولو
نکالا گھر سے کبھی کسی نے 
خلاف مرضی کبھی کسی نے
نکاح کے بدلے تمہیں رگیدا 
نہیں۔۔۔ نہیں نا
کبھی نہیں نا.... 
کبھی اتر کر زمیں پر آ تُو
جو مجھ پہ گزرے گزار پا تُو
میں مان لونگی مقام تیرا 
تجھے بھی پہنچے سلام میرا 
میرے مقابل نہ آ سکو گی 
مجھے یقیں ہے کہ میرے رب کو 
میرے ہر اک درد کی خبر ہے 
میرے مقابل وہ آئے گا جو 
میرے ہر اک غم کے ہو برابر
خدا ہے منصف وہی ہے عادل
 نہیں ہے ممتاز تو  مقابل
         ●●●


● نفاذ اردو ایک نشست/ رپورٹ




      27 فروری2021ء بروز ہفتہ 
تحریک نفاذ اردو کی جاندار آواز و کردار محترمہ فاطمہ قمر صاحبہ نے پیرس سے آئی ہوئی معروف لکھاری اور شاعرہ محترمہ ممتازملک اور دوبئی سے تشریف لائی ہوئی دوست محترمہ یاسمین ظفر صاحبہ کے لیئے اپنی رہائشگاہ پر ایک خصوصی نشست کا اہتمام کیا ۔ جس میں نفاذ اردو کے سلسلے میں خواتین کے کردار پر روشنی ڈالی گئی ۔ بحث میں حصہ لینے والوں میں محترمہ فاطمہ قمر ، معروف پنجابی ادیبہ اور شاعرہ شگفتہ غزل ، معروف لکھاری و کالمنگار ناہید نیازی ،  تنظیم چادر انٹرنیشنل کی صدر معروف شاعرہ و کالمنگار ذرقا نسیم ، جگنو انٹرنیشنل کی صدر معروف شاعرہ و لکھاری ایم ذیڈ کنول نے ممتازملک اور یاسمین ظفر نے بھرپور حصہ لیا ۔ جس میں خواتین میں بڑھتے ہوئے منفی رجحانات کی نشاندہہ کی گئی اور اس کی رقک تھام کے لیئے مختلف آراء پیش۔کی گئیں ۔۔
پروگرام کے آخر میں فاطمہ قمر صاحبہ اور انکی ہونہار صاحبزادی ڈاکٹر سلمی نے پرتکلف عصرانے کا اہتمام کر رکھا تھا ۔ جس کے سلیقے کی سبھی نے تعریف کی ۔ آخر میں نفاذ اردو کے مشن کے لیئے دعا زرقا نسیم صاحبہ نے کی ۔ یوں بہت سی نیک خواہشات اور تمناوں کیساتھ اس یادگار محفل کا اختتام ہوا ۔ پیش ہیں اس پروگرام کی  چند تصویری جھلکیاں
رپورٹ:(ممتازملک۔لاہور) 





                        ●●●

 

ہفتہ، 13 فروری، 2021

● زمین ‏ہلتی ‏ہے/ ‏کوٹیشنز ‏


         زمین ہلتی ہے

قرآن پاک پر حلف اٹھا کر جھوٹ بولنے والے جھوٹے مسلمانوں زمین ہلے بنا بھی خدا کو یاد رکھا کرو کیونکہ ہر بار زمین صرف ہلتی ہی نہیں ہے تم جیسوں کو زمیں بوس بھی کر دیتی ہے۔
                   (چھوٹی چھوٹی باتیں)
                         (ممتازملک.پیرس)

اتوار، 7 فروری، 2021

● می ‏لارڈ ‏توجہ ‏فرمائیں/ کالم

        

          
          می لارڈ توجہ فرمائیں  
       (تحریر: ممتازملک.پیرس)



ہم آہ بھی بھرتے ہیں تو ہو جاتے ہیں بدنام
وہ قتل بھی کرتے ہیں تو چرچا نہیں ہوتا 
جس پاکستان کے تھانوں میں عام آدمی صرف چالان نہ بھرنے پر اور ایف آر کٹوانے کے لیئے مہینوں خوار ہو جاتا ہے  جہاں  اپنی سائیکل کا چالان نہ بھر پانے پر معصوم لوگ سالہا سال سے جیلیں کاٹتے ہیں ۔ جہاں کے لائق وکیل اور جج صرف شک کی بنیاد پر ان کی زندگیوں کو تاریخ پر تاریخ کا کھیل بنا کر بیس بیس سال تک کھیلتے ہیں ۔ جہاں پیشی کا مطلب منشی کی جیب گرم کر کے اگلی تاریخ کی بھیک مانگنا ہے جبکہ معلوم ہے کہ اس اگلی تاریخ میں بھی یہ ہی ڈرامہ دہرایا جائے گا ۔ جہاں عام آدمی کو کبھی  جج سے بھی براہ راست اپنا مدعا بیان کرنا توہین عدالت قرار دے دیا جاتا ہے ۔ جہاں لوگ اپنے حق کے چار دن کی پنچایت میں ہو جانے والے فیصلے والے معاملات کے لیئے اپنی گاڑھے خون پسینے کی کمائیاں بھر بھر کر کبھی دیوانے ہو جاتے ہیں کبھی دیوالیہ تو کہیں اپنی جان کی بازی ہار جاتے ہیں لیکن می لارڈ آپ کو کیا پتہ جس قیدی کو کل آپ نے معصوم قرار دیکر اپنی طرف سے بہت مہربانی فرماتے ہوئے صرف 20 ہا تیس سال بعد ہی بری کرنے کا حکم صادر فرمایا ہے وہ کئی سال قبل ہی اس قید خانے میں اپنی زندگی کی بازی ہار چکا ہے ۔ 
اور آپ کے لیئے وہ قیدی چچچچچچچ کے سوا اور کسی رد عمل کا نہ قائل تھا نہ قابل۔۔
اس ملک میں اگر کوئی خاتون کشمالہ طارق بن جائے تو اس کا بیٹا چاہے نشے میں دھت ہو ، چاہے کسی کی عزت اپنے پیروں میں کچل دے اور چاہے کسی کی جوانیاں زندگیاں اور امیدیں اپنی عالی شان گاڑی کے پہیوں کے نیچے روند جائے ۔ اسے  تو چار ہی گھنٹوں میں ضمانت بھی مل جائے گی اور ہماری پولیس فورس اس کی حفاظت و تواضح بھی فرمائے گی ۔ آخر کو وہ قوم کا عظیم سپوت کچھ "غیر ضروری" لوگوں کو ہی کچل کر آیا تھا۔ بچہ ہے یہ تو بچوں سے ہو ہی جاتا ہے ۔ اتنا پیسہ ہے اتنے اختیارات ہیں  وہ اس وقت میں کام نہیں آئینگے تو اور کس وقت کام آئینگے ۔  وہ نوجوان ہی بیوقوف تھے انہیں معلوم ہونا چاہیئےتھا کہ پاکستان کی سڑکوں اور عدالتوں پر  پہلا حق یہاں کی ایلیٹ ٹائپ ایڈیٹس کلاس کا ہے جو ہمارے مال اور خون نچوڑ نچوڑ کر اسی لیئے تو پیدا کیئے جاتے ہیں کہ  ہم جیسوں کا اس ملک سے صفایا کر سکیں ۔ 
می لارڈ  آپ کی عدالتیں بھی طوائف کے کوٹھے سے کم ہر گز نہیں ہیں یہاں بھی جو نوٹ برساتا ہے گھنگھرو اسی کے لیئے بجتے ہیں اور طوائف کو اس سے کیا کہ نوٹ لٹانے والا کسی کی جیب کاٹ کر لایا ہے یا کسی کی گردن ۔۔۔
می لارڈ فرصت ہو تو کشمالہ طارق جیسی اعلی ہستیوں کے قاتل بیٹے کے ضمانت نامے کے آرڈرز پر چار گھنٹوں میں دستخط کرنے کے بعد ان مقدمات پر بھی رحم کی نظر ضرور ڈال لیجیئے گا جو سالوں سے آپ کی میز پر آتے ہیں اور جاتے ہیں کیونکہ آپ ان کے مقدر میں یہ کالک لکھ چکے ہیں کہ میرے جج ہونے تک تو تم لوگ اس عدالت سے فیصلہ پا کر نہ چھوٹے۔ 
می لارڈ ایک عدالت آپکی پیشی کی بھی منتظر ہے ۔ وہاں آپکو بچانے کے لیئے کون آئے گا؟
وہ کچلے ہوئے لاشے ، جیلوں میں ہی مر چکے معصوم،  عزتیں لٹوائے بیچارے ، مال و دولت گنوائے ہوئے دھوکے کھائے ہوئے بے یارومددگار پاکستانی ان کی آہیں اور سسکیاں انکے برباد خاندان کیا آپ کو دوزخ کی آگ سے باہر نکلنے دینگے ۔ قاضی کے منصب پر بیٹھا ہوا ہر شخص خدا کیوں بن جانا چاہتا ہے ؟ 

                             ●●●

ہفتہ، 6 فروری، 2021

دھوکہ ‏کھا ‏بیٹھے ‏ہو ‏/ ‏شاعری ‏


تم اک اچھے قصہ گو ہو 
لوگوں سے بھی کم ملتے ہو
 
کیسے دھوکہ کھا بیٹھے ہو
چودہ طبق جلا بیٹھے ہو

چہرے پر واضح لکھا ہے
دل کا درد دبا بیٹھے ہو
 
اور تمہارے پاس بچا کیا 
سارے اشک بہا بیٹھے ہو

اپنوں سے یوں دور ہوئے کہ 
غیروں کے سنگ جا بیٹھے ہو

لٹنے کا کچھ خوف نہیں اب
جب سے مال لٹا بیٹھے ہو

اپنی جیب کے کھوٹے سکے
دنیا میں چلا بیٹھے ہو

وہ ہی تمہاری ہڈیاں  بیچیں 
جنکو ماس کھلا بیٹھے ہو

بہروں کی سنوائی کو تم
سارا زور لگا بیٹھے ہو

دیواریں ممتاز  ہلی  ہیں  
قہر رب  بلوا بیٹھے ہو

        ●●●

بدھ، 3 فروری، 2021

● جبری انگریزی نصاب/کالم


             جبری انگریزی نصاب
               (تحریر: ممتازملک.پیرس)



ہم تارکین وطن پاکستانی خصوصا شعراء اور لکھاری دنیا بھر میں اردو زبان کی حفاظت اور پھیلاو میں تن من دھن وار رہے ہیں اور پاکستان میں ہمارے بچے انگریزی کے رٹے مار مار کر پاگل ہوئے جارہے ہیں ۔ انگریزی کیا قہر خداوندی ہے اس قوم پر؟
ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ اردو کے ملک میں اردو کو بے آبرو کرنے والے لوگ تخت نشیں ہیں ۔ دنیا کی ہر زبان سیکھیں لیکن بطور زبان کے ۔
اسے بطور نظام تعلیم قوم پر مسلط نہ کریں ۔ کیونکہ دنیا کی کسی قوم نے کسی دوسرے کی زبان میں کبھی ترقی نہیں کی ۔ اس کی سب سے بدترین مثال پاکستان اور بھارت ہیں ۔ جو ساری عمر  انگریزی سیکھنے اور پھر انگریزی  کی غلطیاں نکالنے میں گزار دیتے ہیں ۔ یا پھر اس کا طرز زندگی سمجھنے اور اپنانے میں آدھے تیتر آدھے بٹیر بن کر نہ گھر کے رہتے ہیں نہ گھاٹ کے ۔ 
جسم پر پورا تھان لپیٹ کر سر کی ٹنڈ کروا کر ایک موٹی سی ماتھے برابر بندیا لگا کر سگریٹ کے کش لگاتی ہوئی خواتین وحضرات انگریزی فرفر جھاڑتے ہوئے خود کو کس جہان کا باسی ثابت کرنا چاہتے  ہیں ؟ 
شاید اس جہان کا نام ہے کنفیوز نگر
کیونکہ زبان بول چال کی سیکھنا اور بات یے اور زبان کا نظام تعلیم رائج کرنا گویا آپ نے اپنے زندگی کے ہر اثاثے کو ،انداز فکر کو، کھانا پینا رہنا اوڑھنا بچھونا سب کچھ اس تہذیب کے حوالے کر دیا ہے اور خود کو زیرو قرار دیدیا ہے ۔ انگریزی کو بطور زبان ضرور سیکھئے لیکن اس کی تہذیب میں ڈبکیاں مت لگایئے ۔ بس یہی سچائی ہے۔
اگر آپ نے کہا کہ انگلش بین الاقوامی زبان ہے جو ساری دنیا میں بولی جاتی ہے تو یہ بھی آپ کی ہی خام خیالی ہے اور آپ کے ہمخیال لوگوں نے ہی ایسا مفروضہ رائج کر رکھا ہے جبکہ حقیقت میں امریکہ کے چند ممالک اور انگلستان کے علاوہ شاذونادر ہی کسی ملک میں انگریزی بولی جاتی ہے ۔ اور نظام تعلیم تو کسی دوسرے کی زبان میں ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔ ہمیں ضرورت ہے اسی لنڈے کی سوچ سے باہر نکلنے کی۔ 
 لیکن
 اسے ایک زبان کے طور پر بطور مضمون رکھنے میں کوئی قباحت نہیں ہے جو کہ لازمی نہیں اختیاری مضمون ہونا چاہیئے ۔
دنیا کا کون سا ترقی یافتہ ملک ہے جس نے اپنے ملک کی زبان کے بجائے دوسرے کے زبان  انگریزی میں ترقی کی ہے پلیز رہنمائی فرمائیں 
کیا فرانس ، جرمنی۔ اٹلی، سپین، سوئزرلینڈ، ناروے ،  ڈنمارک ،چین ، جاپان ، انڈونیشیا   وغیرہ وغیرہ 
اور کیا یہ سب ترقی یافتہ ممالک دوسری زبانوں میں اپنے طلبہ کو تعلیم دیتے ہیں ۔۔؟
وضاحت پلیز

اور اگر کسی کو سیکھنی ہے تو وہ بطور زبان سال بھر کا لینگویج کورس کر کے اسے بول چال کے قابل ہو سکتا ہے ۔ پھر اسے بچوں کی نصابی کتب میں ٹھونس کر انہیں زبردستی پڑھانے کی کیا تک ہے؟
یہ بات درست ہے کہ  آج کی نسل کی تباہی کی وجوہات میں دین سے دوری اخلاقی اقدار کا زوال اورمعاشی اور معاشرتی ناانصافی بڑے اہم عوامل ہیں لیکن ان وجوہات و عوامل کی تہہ میں جائیں تو معلوم ہو گا کہ دین سے دوری کا سبب بچوں کی تعلیم جبرا اس زبان میں دلوانا ہے جس کا ہمارے مذہب سے تہذیب سے معاشرت سے ہر گز کوئی لینا دینا نہیں ہے ۔ وہاں پر انگریزی زبان کا قہر ہم پر قہر خداوندی ہی تو بن چکا ہے جہاں ہماری عقل پر قفل لگ چکا ہے ۔ اور ہم بے عقل، بے رشدو ہدایت بھاگے جا رہے ہیں بنا کسی منزل کے تعین کے ۔ ہم ہزار سال بھی انگریزی یا کسی اور زبان کے نظام تعلیم کیساتھ علم کے حصول میں دوڑتے رہیں تو بھی کبھی اس کی منزل نہیں پا سکتے اور اگر پالیں تو اپنے سارا تہذیبی دینی سماجی ڈھانچہ تباہ و برباد کر کے بلکہ خس و خاشاک کر کے ۔ کیا ہم یہ قیمت ادا کر کے خوش رہ سکتے ہیں یا آذاد قوم کہلا سکتے ہیں ؟ 

سوال یہ ہے کہ کیا ہمارے پیارے پاکستان میں کوئی اردو بولنا چاہتا ہے ؟ کیا اردو بولنے والے کو ہندوستانی کا نام نہیں دیتے ہم لوگ ؟ کیا اردو زبان میں اتنی صلاحیت ہے کہ وہ جدید علوم کا ترجمہ کر سکے؟
جی ہاں  آپ کا درد دل آپ کی بات سے چھلکتا ہے ۔ پاکستان میں تحریک نفاذ اردو کے نام سے  تحریک بھرپور انداز میں کام کر رہی ہے اور قانونی طور پر اجراء کا فیصلہ بھی لے چکی ہے لیکن کچھ انگریزوں کے ذہنی غلام جو اپنے بچے پالتے ہی گورا صاب بننے کے لیئے ہیں وہ اسکے عملی نفاذ کی راہ میں سب سے بڑا روڑا ہیں کیونکہ انہیں ہر وقت اپنا بچہ گھوڑے پر سوار گورا صاب دیکھنے کا ارمان ہے اور پاکستانی قوم و  نسل ان کے گھوڑے باندھنے اور رگڑنے والے سائیس کے طور پر چاہیئے ۔ اس  وقت پاکستانیوں کی کمائیوں  کا ستر فیصد اپنے بچے کے منہ میں انگریزی ٹھونسنے اور اسے گورا صاب بنانے کی دوڑ پر خرچ ہو رہا ہے ۔ اور یقین مانیئے دنیا کی ہر زبان کے لفظ  کا ترجمہ کرنے کی صلاحیت اردو زبان   میں بدرجہ اتم موجود ہے ۔ ہم سب اسے غالب کے زمانے کی متروک اردو میں نہ ڈھالیں بلکہ اسے جدید اردو زبان میں (جو کہ رائج الوقت ہے میں) ڈھال کر بہت آسانی سے دنیا بھر کا علم اردو میں منتقل کر سکتے ہیں ۔ آج کمپیوٹر کے زمانے میں ایسا سوال کہ کونسی زبان کس زبان میں ڈھل سکتی ہے ترجمہ ہو سکتی ہے بالکل بچگانہ ہو کر رہ گیا ہے ۔ اصل مسئلہ جو زبان سے منسلک ہے وہ ہے ہماری شناخت اور تہذیب بچانے کا ۔ ۔ ہر زبان اپنی تہذیب آپکو سکھاتی ہے ۔ کوئی بھی زبان زبان کے طور پر سیکھیئے تو کوئی مضائقہ نہیں لیکن اسے اپنی زندگی کا مقصد بنا کر اپنے گرد آکاس بیل بنا کر لپیٹ لیں گے تو یہ آپ کا سارے کا سارا ورثہ نچوڑ کر پی جائے گی ۔ یعنی گہرائی سے سوچیئے تو قومی  زبان کا نفاذ ہماری نسلوں کی ترقی یا  تباہی کا سوال ہے ۔
ہمارے ملک میں ترقی کے نام پر کمائی کا ستر فیصد حصہ انگریزوں کے نام نہاد پاکستانی  ایجنٹ پاکستانیوں سے نچوڑ رہے ہیں ۔ اور اس کی تہذیبی اور دینی بنیادوں میں انگریزی زبان کے زریعہ ان کی تہذیب کے زہریلے ٹیکے لگائے جا رہے ہیں  اور یہ تمام دولت پاکستان سے باہر  بیرون ملک بھیجی جا رہی ہے ۔ جب تک یہ بیرونی رسد نہیں روکی جائے گی ۔ انگریزی زہر طلب کے نام پر  یونہی بکتا رہیگا ۔ ہماری قوم ہر لحاظ سے تباہ و برباد ہوتی چلی جائے گی اور ہمارے دشمن ہمارا خون چوس چوس کر طاقت حاصل کرتے رہینگے ۔ اخلاقی زوال اور مذہبی تنزلی کی مثالیں ہر روز بلکہ ہر لمحہ ہمارے معاشرے میں ماتم کناں ہیں اور ان سب برائیوں کی جڑ تک جائیں تو اخلاقی اور دینی علوم سے دوری اور دوری کی وجوہات میں سب سے بڑا عذاب  جبری انگزیزی نصاب۔ 
                         ●●●

منگل، 2 فروری، 2021

● افضل ‏ساحر ‏کی ‏کتاب ‏نال سجن ‏دے ‏رہیئے/ ‏تبصرہ


افضل ساحر دی پنجابی شعری کتاب
نال سجن دے رہیئے 
تے تبصرہ  ممتاز ملک.پیرس 




افضل ساحر دی شاعری پڑھن تے اودے گیت سنن دا موقع تے کئی وار ملیا تے دل بیساختہ داد دین تے وی مجبور ہویا پر اس ویلے ہور خوشگوار جئی حیرت ہوئی جد اوہدا تعارف پڑھن دا موقع ملیا ۔ 
افضل ساحر اک پڑھیا لکھیا تے بڑا ہی فنکار مزاج بندہ لگا ۔ او نہ صرف ریڈیو دی دنیا وچ اپنے کم تے اپنی آواز دے نال اک  نویکلی پہچھان رکھدا اے تے دوجے پاسے او ڈرامہ لکھن دے میدان وچ وی اپنی پوری صلاحیت دے نال وکھائی دیندا اے ۔  اودے گیت سنیئے تے لگدا اے دل اودے نال نال اسے کیفیت دا شکار ہوندا جاندا اے جیڑی شاید لکھن ویلے ہر شاعر دی طرح اوس تے وی طاری ہوئے گی ۔ 
افضل ساحر نے پنجابی شاعری دی ہر  صنف وچ طبع آزمائی کیتی اے تے خوب کیتی اے۔  
دوہے، غزل ، کافی،  گیت جیڑی  وی شے پڑھو گے افضل ساحر دی ٹھیٹھ  پنجابی زبان دے وچ دسترس دے قائل ہوندے جاو گے ۔ 
انہاں دے کلام دے وچ پجھارتاں دی صورت،  تے کدی بولیاں دی صورت سچ دا شیشہ ویکھن دا خوب موقع ملدا اے۔ 
جیویں کہ ملاحظہ کرو۔۔۔
ہر دو لعن سیاستاں ، میں ای میں پردھان
آپو وچ لڑائیکے ، کوڑ پنچیتاں لاڑں
                       ۔۔۔۔

جگ کوڑھ پسارا زہر دا
سانوں چسکا لگا زہر دا
دل پارا کتے نہ ٹہردا
سانوں دھڑکو اٹھے پہر دا
اک پاسا مریا شہر دا 
وچ پکھا پھینئر لہردا
                       ۔۔۔۔
اینہاں کلاماں اندر افضل ساحر دی اندر تے باہر دی دنیا تے رکھی ہوئی نظر تے سمجھن دی صلاحیت تے قدرت صاف دسدی اے۔ 
میری نظر وچ افضل ساحر دی کتاب  "نال سجن دے رہیئے"
اج دے زمانے وچ (جد پنجابی اپنے اصل رنگ توں کافی دور ہو چکی اے) ٹھیٹھ پنجابی دی ایک بہترین مثال اے ۔ 
میں دلوں دعا گو آں کہ افضل ساحر کامبیابیاں دیاں  پوڑیاں چڑھدا جائے تے دوناں جہاناں وچ عزت تے نام کمائے۔ آمین
ممتازملک۔پیرس
2 فروری 2021ء
                          ●●●

جمعرات، 28 جنوری، 2021

● (1) اے رب ذوالجلال \ حمد ۔ سراب دنیا



(1) حمد باری تعالی 
    اے رب ذوالجلال

اے رب ذوالجلال تیری عظمتوں کے نام
ہر چیز تیرے حکم کے تابع تیری غلام 

 چلتی ہوائیں ہوں کہ ٹہرتی سی سانس  ہو 
ہر پل بتائیں قادر و مطلق کا انصرام

مبہوت عقل رہتی ہے عاجز یہ سوچ کر
کیسے تیرے سوائے چلا پائے انتظام 

 تو نےعطا کیئے ہیں جو شام و سحر ہمیں 
اور پھر دوپہر میں بھی تیرے ذکر کا قیام

ممتاز ہیں یہ رشتے ہمارے سکون کو 
مالک اسی سبب سےہے انساں کا احترام

●●●
کلام: ممتازملک 
مجموعہ کلام:
سراب دنیا 
اشاعت: 2020ء 
●●●

بدھ، 27 جنوری، 2021

● ماں اتنی اہم کیوں؟/ کوٹیشنز


ماں اتنی اہم کیوں؟


جانتے ہیں کسی انسان کے لیئے ماں اتنی
 اہم کیوں ہوتی ہے؟
اس لیئے کہ وہ اسے ہمیشہ یہ احساس دلاتی ہے کہ وہ دنیا کا سب سے اہم اور خاص انسان ہے۔ 
(چھوٹی چھوٹی باتیں)               
(ممتازملک.پیرس )                    

●●●                          
              
            
            

پیر، 25 جنوری، 2021

● (63) کس کے پاس/ اردوشاعری ۔ میرے دل کا قلندر بولے



(63) کس کے پاس 




خدا سے دور ہوتے ہیں تو کس کے پاس ہوتے ہیں 
خدا کے پاس ہوتے ہیں تو کس سے دور ہوتے ہیں 

یہ ہی اب جان لینا ہے یہ ہی سامان کرنا ہے
کہ جس کے پاس جانا ہے اسی کے حکم چلنا ہے

مجھے میرے نبی کی ہی غلامی مستند ٹہری
نہ اسکو چھوڑ کر ہر گز مجھے رستہ بدلنا ہے

اگر روشن ضمیری مجھ کو ملتی ہے مقدر سے
تو نافرمانی کی سیاہی نہیں  اب منہ پہ ملنا ہے

کوئی سورج کسی بھی بام پر پہنچے مگر سچ ہے
کبھی تو شام ہونی ہے کبھی تو اسکو ڈھلنا ہے

مجھے مکڑی کے جالے کی طرح اس نفس نے جکڑا 
کوئی صورت نکالو یانبی  اس سے نکلنا ہے 
●●●
کلام: ممتازملک 
مجموعہ کلام:
میرے دل کا قلندر بولے
اشاعت: 2014ء
●●●

● (61) فصل جلا دے گی/ اردو شاعری ۔ میرے دل کا قلندر بولے


 (61) فصل جلا دے گی



بارش جو آگ کی برسے گی
تیار یہ فصل جلا دے گی 

نہ ہوئی بلند جو جرات سے 
آواز تو دنیا دبا دے گی

جو بات ابھی نہ ہوئی سرزد
اس بات کی تم کو سزا دے گی 

گر ظلم کا ہاتھ نہیں پکڑا 
تو موت کی نیند سلا دے گی

پر سچ کی کوئی آہٹ ہو گی 
زنجیر عدل ہلا دے گی

تو بھیڑ میں گم بھی ہو جائے
تیری خوشبو تیرا پتہ دے گی

ممتاز جو جھوٹ کا حبس ہوا
سکھ جنت کی ہوا دے گی
●●●
کلام:ممتازملک 
مجموعہ کلام: 
 میرے دل کا قلندر بولے
اشاعت: 2014ء 
●●●

اتوار، 24 جنوری، 2021

● دوست ‏سے ‏رشتہ ‏داری/ ‏کوٹیشنز ‏



دوست سے رشتہ داری 

دوستوں سے کبھی رشتہ داری مت کیجیئے۔ کیونکہ رشتے کی سولی پر دوستی کو پھانسی ہو جاتی ہے ۔ 
         (چھوٹی چھوٹی باتیں)
               (ممتازملک.پیرس)



جمعہ، 22 جنوری، 2021

● تارکین ‏وطن کی ‏جائیداد ‏کے ‏لٹیرے/ ‏کالم ‏



   تارکین وطن کی جائیدادوں پر قبضے 
        (تحریر: ممتازملک.پیرس)



حکومت کی جانب سے تارکین وطن کے 
لیئے فاسٹ ٹریک کے نام سے عدالتی نظام وضح کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے ۔ جس کے ذریعے پاکستان میں تارکین وطن کی زمینوں پر ہونے والے قبضے چھڑانے کے لیئے تیس روز کے اندر فیصلہ سازی کو یقینی بنایا جائیگا ۔ یہ قبضے اکثر ان لوگوں کے رشتےداروں یا قبضہ مافیاز کے ذریعے کیئے جاتے ہیں ۔ یا پھر تارکین وطن کی جانب سے جائیدادوں کی فروخت کے لیئے جو بیعانہ وغیرہ لینے کا اختیار کے لیئے مختار نامہ عام دیا جاتا ہے ۔ لیکن افسوس یہی مختار نامہ یا اٹارنی حاصل کرنے والے ہی اس اجازت نامے کو مال مفت دل بیرحم سمجھ کر لوٹنے کا منصوبہ بنا لیتے ہیں۔ کہیں تو وہ ان جائیداوں کو مالک بن کر بیچ ڈالتے ہیں کہیں ان جائیدادوں پر کرائے نامے اپنے نام سے بنوا کر وہ کمائیاں کھانے کا منصوبہ بنا لیتے ہیں اور کہیں وہ انہیں اپنے نام کروا کر مالک بن بیٹھتے ہیں ۔ اور ظلم کی حد تو یہ ہے کہ خصوصی اختیارات میں بھی ان جائیدادوں سے ہونے والی کمائی کا دھیلہ بھی اصل مالک اور تارک وطن تک پہنچنے نہیں دیا جاتا ۔ گویا تارکین وطن وہ گنگا ہے جو ان فراڈیئے قابضین اور دوسروں کے مال پر عیاشی کرنے والے ہڈ حرام پاکستانی عزیزوں رشتے داروں  کے گند دھو دھو کر سیاہ ہو چکی ہے ۔ اس لیئے فاسٹ ٹریک عدالتی نظام جو آجکل اپنی تکمیل اور نفاذ کے آخری مراحل میں ہے تو اس بات پر غور کرتے ہوئے اس کے قوانین بنائے جائیں کہ 
بیشک یہ ایک اچھا اقدام ہو گا لیکن اس فاسٹ ٹریک عدالتی نظام کو صرف زمینوں تک ہی محدود نہ رکھا جائے  بلکہ تارکین وطن کے گھروں اور فلیٹس کے بھی قبضے چھڑائے جائیں ۔ اور مختار نامہ عام دینے کی صورت میں بھی فل اور فائنل فروخت کا حق استعمال کرتے وقت اصل مالک  کو ویڈیو کال کے ذریعے مجسٹریٹ کے سامنے کال پر براہ راست بیان دینے کا پابند کیا جائے  اور تارک وطن مختار نامہ عام یا خاص کال پر مجسٹریٹ کو خود پڑھ کر سنائے اور خود اس کے نام پتہ رابطہ نمبرز بیان کرتے ہوئے اس فروخت کی اجازت دے ۔ ویڈیو کال کی ریکارڈنگ اور سکرین شارٹ کو محفوظ کر کے اس کا عکس اس ڈیل اور مجسٹریٹ کے ریکارڈ کے ساتھ نتھی کیا جائے ۔  تبھی یہ سودا فل اور فائنل ہو اور یہ رقم اصل مالک کے بینک اکاونٹ میں اسی وقت مجسٹریٹ کے سامنے  ٹرانفسر کی جائے اس کے بعد وہ اصل مالک تارک وطن جس کے بھی اکاونٹ میں چاہے 3 روز کے اندر اندر اس رقم کو منتقل کر سکتا ہے ۔ 
اس طرح ہر لمحے اصل مالک تارک وطن اپنی پراپرٹی کی ہر ڈیل میں براہ راست ملوث ہو گا اور بہت زیادہ محفوظ ہو جائے گا ۔ حکومت اس طرح کے مقدمات کو عدالت میں جانے سے روک کر عدالتی  بوجھ کو بھی کم کرنے میں معاون ثابت ہو گی ۔ تارکین وطن میں پاکستان میں زمین جائیداد خریدنے کے رجحان میں  میں تیزی سے کمی آنے کا سبب قابضین کا خوف اور یہی غیر محفوظ کمزور قوانین اور عوامی رویہ ہے جس میں نہ تو ان کی کمائی کو تحفظ حاصل ہے اور نہ ہی گھر بار اور زمینوں کو قبضہ گروپس سے اور رشتےداروں سے ۔ لہذا  ضروری ہے کہ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کا اعتماد بحال کیا جائے اور اس سلسلے میں فوری عملی اقدامات اٹھائے جائیں ۔ بصورت دیگر پاکستانی اپنی گاڑھے خون پسینے کی کمائی پاکستانی ہڈحراموں کے ہاتھوں مزید لٹوانے کو تیار نہیں ہیں ۔ 
                   ●●●

بدھ، 13 جنوری، 2021

● شازملک کی کتاب روح عشق۔ آن لائن پذیرائی


     شازملک کے شعری مجموعہ کلام
 روح عشق کی آن لائن  تقریب پذیرائی اور مشاعرہ
ممتازملک کا تبصرہ اور کلام

1h17mn to 1h25mn 
ممتازملک کا تبصرہ شاز ملک کی شخصیت پر سنیئے۔
2h35mn to 2h43mn
ممتازملک کا کلام سنیئے ۔
https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=4985783554797571&id=100000979260120

جمعہ، 8 جنوری، 2021

● پیسہ اور محبت/ کوٹیشنز


          پیسہ اور محبت

  پیسے کے دم پر بنی محبتوں پر کبھی     اعتبار مت کرنا ۔کیونکہ یہ پیسے کیساتھ     ہی تمہاری زندگی سے رخصت ہو                  جائینگی۔ 
        (چھوٹی چھوٹی باتیں)
              (ممتازملک۔پیرس)
                        ●●●



اتوار، 3 جنوری، 2021

● کسان ‏سے ‏گاہگ ‏تک/ ‏کالم

          

           کسان سے گاہگ تک
            (تحریر:ممتازملک.پیرس)




سال بھر کی یا چھ ماہ کی محنت کے بعد ایک کسان اپنا خون پسینہ ایک کر کے جو فصل اگاتا ہے اسے بڑے بڑے مافیاز کوڑیوں کے بھاو اٹھا کر ان کسانوں کو اس بات پر مجبور کر دیتے ہیں کہ وہ سارا سال عزت سے زندہ رہنے کے بجائے خودکشی کر لیں ۔ ہمارے جنوبی ایشیائی  ممالک میں یہی مافیاز حکومتیں  بناتے بھی ہیں اور حکومتیں چلاتے بھی ہیں ۔ ان پر ہاتھ ڈالنا وہ سوچے جو ان کے ذریعے سے فائدے نہ اٹھا رہا ہو ۔ انہیں ڈاکو مافیاز کے مال پر حکومتیں بنانے والے یہ سوچ بھی کیسے سکتے ہیں ۔ اس لیئے پاکستان میں کسانوں کے حالات آئے روز بد سے بدتر ہوتے چلے گئے ہیں ۔ نتیجہ شہروں کی جانب بڑھتی ہوئی ہجرت ، جب اگانے والے ہی نہ رہیں تو باہر سے مہنگا غلہ خریدنے کے سبب ہوشربا مہنگائی، قابل کاشت رقبے پر مکانات کی تعمیر ، پرانے درختوں کو کاٹ کاٹ کر سیلابی ریلوں کے ساتھ زمینوں کے کٹاو اور آبادیوں کی تباہی ، بے حساب سیلاب  اور بے شمار مسائل کسانوں کی فصلوں کو بروقت اور بہترین قیمت پر نہ اٹھانے کے سبب درپیش آتے ہیں ۔ لیکن ہم سب کانوں میں روئی ٹھونسے ان کے رونے کی آوازوں سے خود کو بےخبر کیئے ہوئے ہیں ۔ ایسے میں جب ہماری حکومتیں بھی ان مافیاز کے ساتھ ساز باز میں شامل ہیں تو بہتر ہو گا کہ کسانوں کو مل کر اپنی تنظیمات بنانی چاہیئیں ۔ جو ان کے مسائل کو تحریری شکل میں لائے ۔ کسانوں کو باقاعدہ رجسٹر کرے انہیں کسان کارڈز دیئے جائیں ۔ جس پر انہیں سستے اور اچھے بیج بروقت ملنے کا انتظام کیا جائے ۔ فصلوں کو بروقت فروخت کرنے کے جدید طریقے اپنائے جائیں ۔ اس سے سب سے پہلے تو ہر کسان کے گھرانے کے ہر فرد کو کام مل سکتا ہے ۔ بجائے اپنی سبزیاں چاول گنا مکئی جوار اور دیگر فصلوں کو حکومتی لٹیرے کارندوں کو بیچنے کے بجائے خود سے ان کی فروخت کے لیئے بازار اور میلے لگائیں ۔ تازہ مال کو خشک کرنے کے مختصر کورسز کیجیئے اور باقی لوگوں کو بھی تربیت دیجیئے تاکہ تازہ فصل بکنے کے بعد بچنے والی فصل کو بڑے بڑے دالانوں، میدانوں  یا اپنے گھروں کی چھتوں پر خشک کرنے کا انتظام کیا جا سکے ۔ ان خشک سبزیوں کو اچھی طرح  پلاسٹک پیکنگ میں محفوظ کرنے کا طریقہ سیکھ کر سارا سال یہ سبزیاں بیچی جا سکتی ہیں اس سے کسان اور گاہگ کے بیچ آنے والے بہت سے ایجنٹس کی جیبوں میں جانے والا ناجائز اور ہوشربا منافع کسان اور گاہک ہی کی جیب میں محفوظ ہو جائے گا ۔ کسانوں کی مختلف گروھ مل کر ان کی فروخت کے لیئے مخصوص بازاروں میں سٹال اور میلے لگا سکتے ہیں ۔ 
ملکی ضروریات کے علاوہ یہی فاضل فصلیں سکھا کر اور جما (فریز) کر کے بیرون ملک بہترین منڈیاں حاصل کی جا سکتی ہیں ۔ جس کا منافع براہ راست ہمارے کسانوں کی جیبوں میں جائے گا اور ملکی ترقی میں اہم کردر ادا کرے گا ۔ اور لوگ اس منافع کو دیکھتے ہوئے کبھی بھی اپنے علاقے چھوڑ کر پیشہ بدلنے اور زمینیں بیچنے کا نہیں سوچیں گے ۔ اگر شہروں جیسی سہولیات جیسے عبادتگاہیں ، پانی بجلی، گیس ، اچھے سکولز، کالجز، ہسپتال ، پکی گلیاں سڑکیں ریسٹورینٹ، شاپنگ اور فوڈ پوائنٹ  انہیں اپنے ہی قصبے اور گاوں میں مل جائیں تو وہاں کی صاف ستھری فضا چھوڑ کر کوئی آلودہ اور  پرشور شہروں کی جانب رخ نہیں کرے گا اور اوپر بیان کی گئی تمام پریشانیاں اور شہروں پر بڑھتا ہوا آبادی کا بوجھ وسائل کی کمی کا رونا خود بخود یہ سلسلہ رک جائے گا ۔ آخر ترقی یافتہ ممالک میں دیہاتوں  سے شہروں کی جانب ہجرت کیوں نہیں کی جاتی ۔ انہیں سہولتوں کے سبب ۔ یاد رکھیئے خوشحال کسان ہی کسی ملک کی زراعت کی ترقی کی علامت ہوتا ہے ۔ 
                          ●●●
        

* ● امید ‏روشن/ اردو ‏شاعری ۔ اور وہ چلا گیا ‏

امید روشن 
کلام: ممتازملک.پیرس 

امید روشن
کلام:(ممتازملک ۔پیرس)

تجھ سے امید روشن ہماری رہے 
نہ کہ اب کہ برس بیقراری رہے 

نہ جدائی کسی کا مقدر بنے 
ایسی لہجوں میں اب انکساری رہے

اتنی مضبوط ہو حق کی آواز کہ
تیری میری نہ ہو  اب ہماری رہے 

نہ مصائب سے ڈرنا یہ طے ہو گیا
مشکلوں سے لڑائی یہ جاری رہے

سوچ کر دل پہ رکھنا ہے ایسا قدم
وار ہر اک عدو پر جو کاری رہے 

راگ کردار و گفتار کا چھیڑ کر 
وجد ممتاز روحوں پہ طاری رہے

●●●

● غور کیجیئے/ کوٹیشنز ۔ چھوٹی چھوٹی باتیں






غور کیجیئے

ہماری اردو زبان کو ہماری  سبھی معروف شخصیات کو درست کرنے کی ضرورت ہے۔ 
غور کیجیئے کہ اپنی قومی زبان کا اکثر مذاق ہماری اردو بولنے کی دعویدار کمیونٹی ہی بناتی ہے سو پلیز اس کی تصحیح کیجیئے۔ جیسے
جذبہ + جذبات
لفظ +الفاظ 
خیال + خیالات
کمال + کمالات
حال + حالات
تصویر + تصاویر
ایسے ہی بیشمار الفاظ کا قتل مت کیجیئے ۔ سو سیکھنے کی اور اسے استعمال میں 
درست طریقے سے لانے کی عادت  اپنائیے۔ 
     (چھوٹی چھوٹی باتیں)
    (ممتازملک۔پیرس)

●●●●●●


جمعہ، 1 جنوری، 2021

● مہاجری انسائیکلوپیڈیا - 2.


       2018ء میں مہاجری انسائیکلوپیڈیا کے لیئے دیا گیا تعارف ۔ جو ورلڈ اردو ایسوسیشن کے روح رواں پروفیسر خواجہ اکرام الدین کو ارسال کیا گیا ۔ 
                           ۔۔۔۔۔


تصانیف / تخلیقات - 3
دو شعری مجموعے 
1- مدت ہوئی عورت ہوئے (2011ء)
2- میرے دل کا قلندر بولے  (2014ء)
ایک مجموعہ برائے مضامین 
1- سچ تو یہ ہے (2016ء )
* پسندیدہ مضمون, غزل, نظم, نعت, افسانہ, انشائیہ, خاکہ 
میں اس وقت جن مضامین پر کام کر   رہی ہوں وہ سبھی میرے پسندیدہ بھی ہیں.  جن میں غزل, نظم, نعت, کالمز, افسانے, مختصر تحریریں معقولے  وغیرہ شامل ہیں.  

غزل کا نمونہ پیش خدمت ہے :


تیرادل میرا گھر
تیرے دل کے راستے میں میرا گھر کہیں نہیں تھا
جو تجھے عزیز ہوتا وہ ہنر کہیں نہیں تھا 

تجھے ڈھونڈنے نکلتے کسی روز پا ہی لیتے
مگر ان ہتھیلیوں میں وہ سفر کہیں نہیں تھا
  
یوں تو وقت ہے مقرر کسی کام کا مگر کیوں
میری روح کو شاد کرتا وہ گجر کہیں نہیں تھا 

نہ ہی دلنواز ادائیں نہ ہی شوق جاں سوزی
میرے دل کا یہ مسافر کہیں دربدر نہیں تھا 

میں ہوں خوش گمان ورنہ مجھے سوچنا تھا لازم
میرے جانے سے اُجڑتا وہ شہر کہیں نہیں تھا

نہ تو جسم کی طلب ہے نہ ہی حسن کی تمنا
یہ معیار نہ تھا میرا میں بھی منتظر نہیں تھا 

مجھے ہے تلاش اس کی جو ہے قدرتوں سے باہر
مجھے اس سے اور بہتر کوئ چارہ گر نہیں تھا 

میری ساری آرزوئیں ممتاز پوچھتی ہیں
تُو یہ کیسے کہہ سکے گاتیرا راہبر نہیں تھا
(کلام / ممتازملک .ہیرس)
مجموعہ کلام /میرے دل کا قلندر بولے
                     ..............                   
  

بدھ، 30 دسمبر، 2020

* ● اے سال 2020 / اردو شاعری۔ اور وہ چلا گیا ‏


یہ سال 2020ء
کلام/ ممتازملک.پیرس 



کتنے پیاروں سے بچھڑنے کے دیئے ہیں صدمے 
آنسووں میں تو ہمیں یاد رہیگا اے سال 

درد ہی درد رہا رنج و الم سے پر تھا 
کیا بھلا اپنی صفائی میں کہے گا اے سال

جب بھی اپنا کوئی ہم کو نہ دکھائی دیگا  
آنکھ سے اشک کے جیسے تو بہے گا یہ سال

ڈوبتے وقت کی سرخی وہ ٹہرتی نبضیں
ساتھ سورج کے میرا دل بھی سہےگا اے سال 

یہ جہاں یوں بھی مکمل ہے تیرے میرے بنا
  ہمکو ممتاز سکھا کر ہی رہیگا اے سال   

      ●●●

منگل، 29 دسمبر، 2020

■ ● (54) بیوپار/ پنجابی کلام ۔ میرے میرے دل کا قلندر بولے ۔ او جھلیا



(54) بیوپار



اک تصویر دی مار نے لوکی
کر دے کی بیوپار نے لوکی

سوہڑیاں رناں کار بیٹھا کے
کوجیاں دے ہوڑں یار اے لوکی

اک پل نوں جے ساہ رُک جاوے
فیر پھلاں دے ہار نے لوکی

کمزوراں نوں زور وکھاوڑں
زور آور اگے ہار دے لوکی

سامڑیں آ کے جپھیاں پاوڑں
بچھوں خنجر مار دے لوکی

دھیاں والے جاڑندے نے اے
کیوں ہوندے لاچار نے لوکی

سچ بولن جے ودے کوئی
طعنے لکھ لکھ مار دے لوکی

حوصلہ مند نوں اگے کر کے
کلیاں سولی چاڑھدے لوکی

چنگا قدم اُٹھاون دے لئی
ممتاز کرن تکرار اے لوکی
●●●
کلام: مُمّتازملک
مجموعہ کلام:
میرے دل کا قلندر بولے 
اشاعت:2014ء
 ۔   ●●●                         

شاعری / /مدت ہوئ عورت ہوۓ/ ممتاز قلم / سچ تو یہ ہے/ اے شہہ محترم/ سراب دنیا/ نظمیں/ پنجابی کلام/