ممتازملک ۔ پیرس

ممتازملک ۔ پیرس
تصانیف : ممتازملک

بدھ، 30 دسمبر، 2020

* ● اے سال 2020 / اردو شاعری۔ اور وہ چلا گیا ‏


یہ سال 2020ء
کلام/ ممتازملک.پیرس 



کتنے پیاروں سے بچھڑنے کے دیئے ہیں صدمے 
آنسووں میں تو ہمیں یاد رہیگا اے سال 

درد ہی درد رہا رنج و الم سے پر تھا 
کیا بھلا اپنی صفائی میں کہے گا اے سال

جب بھی اپنا کوئی ہم کو نہ دکھائی دیگا  
آنکھ سے اشک کے جیسے تو بہے گا یہ سال

ڈوبتے وقت کی سرخی وہ ٹہرتی نبضیں
ساتھ سورج کے میرا دل بھی سہےگا اے سال 

یہ جہاں یوں بھی مکمل ہے تیرے میرے بنا
  ہمکو ممتاز سکھا کر ہی رہیگا اے سال   

      ●●●

منگل، 29 دسمبر، 2020

■ ● (54) بیوپار/ پنجابی کلام ۔ میرے میرے دل کا قلندر بولے ۔ او جھلیا



(54) بیوپار



اک تصویر دی مار نے لوکی
کر دے کی بیوپار نے لوکی

سوہڑیاں رناں کار بیٹھا کے
کوجیاں دے ہوڑں یار اے لوکی

اک پل نوں جے ساہ رُک جاوے
فیر پھلاں دے ہار نے لوکی

کمزوراں نوں زور وکھاوڑں
زور آور اگے ہار دے لوکی

سامڑیں آ کے جپھیاں پاوڑں
بچھوں خنجر مار دے لوکی

دھیاں والے جاڑندے نے اے
کیوں ہوندے لاچار نے لوکی

سچ بولن جے ودے کوئی
طعنے لکھ لکھ مار دے لوکی

حوصلہ مند نوں اگے کر کے
کلیاں سولی چاڑھدے لوکی

چنگا قدم اُٹھاون دے لئی
ممتاز کرن تکرار اے لوکی
●●●
کلام: مُمّتازملک
مجموعہ کلام:
میرے دل کا قلندر بولے 
اشاعت:2014ء
 ۔   ●●●                         

پیر، 28 دسمبر، 2020

● ایمانداری ‏/ ‏کوٹیشنز ‏


ایمانداری انسان کو کبھی نیچے نہیں گرنے دیتی ۔ نہ نظروں سے نہ مقام سے ۔ 
ہمیشہ سربلند رکھتی ہے ۔ 
(چھوٹی چھوٹی باتیں)
(ممتازملک۔پیرس)

جمعہ، 25 دسمبر، 2020

● جناح سے قائد تک اسوہ حسنہ و نظریہ پاکستان / کالم




جناح سے قائد اعظم تک
 نظریہ پاکستان 
تحریر: ممتازملک.پیرس



پاکستان کی تخلیق ایک خواب تھی تو پاکستان کا بانی بھی کسی طلسماتی شخصیت سے کم نہ تھا ۔ انگریزی بولتا تھا انگریزی سوٹ پہن کر جوان ہوا ۔ لیکن دل میں عشق محمدی صلی اللہ علیہ وسلم  کی ایسی تڑپ رکھتا تھا کہ سوچنا شروع کیا تو اپنے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے افکار کو سینے سے لگا لیا ۔ پھر چاہے سولہ برس کا جناح برطانیہ کی یونیورسٹی میں داخلہ لیتے وقت اس کے ماتھے پر لکھا اسم محمد ص ع و  دیکھ کر اپنے قدم وہیں جما لیتا ہے تو بھلے یورپ کی چکاچوند میں اپنے کردار کی حفاظت کرتا ہوا، ہر وقتی مفاد سے دامن بچاتا ہوا، ہر منافقت سے الگ تھلگ رہ کر اپنے تقوی کا حقیقی امتحان دیکر یہ ثابت کرتا ہوا نظر آتا ہے کہ انسان کا لباس کیا ہو،  سے زیادہ کتنا مہذب ہو ، مکمل ہو یہ ضروری ہے اور اس کے کردار کی پاکیزگی اسے ہر حال میں مدنظر رکھنی چاہیئے ۔ 
محمد علی جناح سے قائد اعظم بننے کے سفر کے دوران ہر قدم پر اسوہ حسنہ کو اپنے فرمودات، نکات،  گفتار و کردار کا لازمی حصہ بنائے رکھا۔ 
مثلا سادہ الفاظ میں بیان کریں تو نظریہ پاکستان پیش کرنے والے کی اپنی زندگی  ایمان داری، امانت داری ، خودداری ، حیاداری، کردار کی پاکیزگی کی اعلی مثال تھی۔  پاکستان کا حصول اس لیئے کہ یہاں مسلمان اپنی مذہبی آزادی کیساتھ اور اقلیتیں اپنے عقائد کے مطابق محفوظ اور آذاد زندگی گزار سکیں ۔ جہاں قانون سب کے لیئے یکساں ہو۔ تمام صوبوں کو ان کی ضرورت کے حساب سے آسانیاں حاصل ہوں ۔ پاکستانی ہونا سب سے بڑی قومیت ہو اور ہر ایک کے لیئے قابل فخر ہو ۔ بنیادی انسانی حقوق کا احترام ہو ۔ میرٹ کی بنیاد پر روزگار اور عہدوں کی تقسیم ہو ۔ انصاف ہر ایک کی دسترس میں ہو ۔ معاشی طور پر کوئی طبقہ کسی دوسرے کے حقوق کو پامال نہ کر سکے ۔ مذہب کی بنیاد پر کسی کو شرانگیزی پھیلانے کی اجازت نہ ہو۔ ادارے خود کو عوام کا ملازم سمجھیں ۔ قومی خزانہ کسی کی ذاتی ملکیت نہ ہو ۔ وطن کی ترقی اور خوشحالی ہر پاکستانی کی زندگی کا مشن  ہو۔ 
سبھی علاقائی زبانوں کو ان کے علاقوں میں احترام ملے اور اردو ہماری قومی زبان ہو۔ دنیا میں ہم باوقار قوموں میں شمار کیئے جائیں ۔ آج ہم قائد کے اسی نظریئے کی گرد کو بھی نہیں پہنچ سکے ۔ ہماری بدنیتیاں ، ہوس زر ، کردار کی کمزوری نے آج ہمیں اس نظریے سے چوہتر سال کی دوری پر لا کھڑا کیا ہے ۔ اپنا اپنا احساب ہمیں خود کرنا ہو گا  اپنے اللہ کے سامنے  خود کو  جوابدہ مانتے ہوئے۔
قائد کے حسین خواب کو تعبیر میں ڈھالنا ہم پر قائد کی جانب سے فرض ہے ۔ یہ وہی قائد ہے جنہیں ہمارے اجداد نے سچ کی آواز سمجھ کر گواہی دی تھی کہ یہ جو کہتا ہے سچ کہتا ہے اس لیئے دنیا کو دکھا دو کہ تن من دھن یعنی جان مال آبرو آل اولاد ہر شے کو ایک ارادے کے  لیئے قربان کرنا کیسا ہوتا ہے ۔ اس اعتبار نے دنیا میں ہجرت اور قربانیوں کی  تاریخ رقم کر دی ۔ ایک ایسے تاریخ جس پر  آج تک وہ لوگ شرمندہ ہیں جو اس وقت اس آواز پر لبیک کہنے کی جرات نہ کر سکے اور آج ہر قدم پر انہیں "بابا جی ٹھیک کہتے تھے" کہہ کر اشک بہاتے ہیں۔ دو قومی نظریہ کا مذاق اڑانے والے آج قائد کے پیغام کو یاد کر کے اپنی زخم چاٹنے پر مجبور ہیں کہ آج کے بعد بھارت میں رہنے والا ہر مسلمان  ہر روز ہندووں کو اپنی وفاداری کا یقین دلاتے دلاتے مر جائے گا  اور  وقت نے ثابت کیا کہ محمد علی جناح کا قائد اعظم تک کا سفر ہر لمحہ ہر گھڑی اور لفظ لفظ ایک باکردار اور سچے رہنما کا سفر تھا ۔ آج تک دنیا کا کوئی دوست یا دشمن جس کے کردار میں چاہ کر بھی کوئی کمی کوئی برائی تلاش نہ کر سکا ۔ 
     اے قائد اعظم تیرے مشکور رہینگے 
دل تیری محبت سے یہ معمور رہینگے


ہم آج بھی تیرے دیئے اسباق کو لیکر
کرتے ہیں چراغاں رہ عشاق کو لیکر 
دل لے کے ہتھیلی پہ یہ منصور رہینگے 
اے قائد اعظم تیرے مشکور رہینگے 
                          ●●●

منگل، 22 دسمبر، 2020

● (41) دنیا تیرے کتنے رنگ/ اردو شاعری ۔ میرے دل کا قلندر بولے


(41) دنیا تیرے کتنے رنگ
 


دنیا کتنے رنگ بدل کر میرے سامنے آئے گی
اور تو کتنے دھوکے دیگی کتنے ناچ نچائے گی

نہ تجھ میں تہذیب کہیں ہے نہ تیرا ایمان کوئی 
جو تیرا اعتبار کریگا اسکو جل دیجائے گی

دل پر ایسا وار کریگی دل کے ٹکڑے چار کریگی 
روشن آنکھ اور سنتے کان میں کتنا زہر ٹپکائے گی

جو بھی تیرے پیچھے آیا رسوا ہوا بدنام ہوا 
جتنا تجھ سے دور میں بھاگوں اتنا پیچھے آئے گی

اپنے اپنے ظرف کے جیسا سب کا تیرے ساتھ رویہ
لیکن تو تو اک لاٹھی سے سب کو ہانکے جائے گی

تجھ سے تو ممتاز کی راہیں کبھی بھی مل نہ پائیں گی
تجھ میں ہے گر رتی غیرت منہ نہ مجھے دکھلائے گی 
●●●
کلام: ممتازملک 
مجموعہ کلام: میرے دل کا قلندر بولے اشاعت: 2014ء
●●●

● (23) حساب/ اردو شاعری ۔ میرے دل کا قلندر بولے


(23) حساب  



عورت کیساتھ ظلم کیوں یہ بے حساب ہے
اس ظلم پہ لکھی ہوئی کوئی کتاب ہے

ہر بار ایک چوٹ نئی منتظر رہی
اسکے کسی سوال کا کوئی جواب ہے

ہر بار چھری اسکے کلیجے پہ چلی ہے
ہر بار اسی کے واسطے بنتا نصاب ہے 

لہجہ بدل بدل کے ملیں سب کی دھمکیاں 
جھگڑا کوئی بھی ہو وہی وجہ خطاب ہے 

جس نے کیا خراب اسی کا بیاں ہے کہ 
عورت کے واسطے یہ زمانہ خراب ہے 

کتنے نقاب وقت کے چہرے پہ ڈال دو
ممتاز موضوع پردوں میں یہ بے نقاب ہے 
●●●
کلام: ممتازملک
مجموعہ کلام:
میرے دل کا قلندر بولے 
اشاعت:2014ء
●●●

بدھ، 16 دسمبر، 2020

● ◇ ہر ماں کو پرسہ/ نظم ۔ جا میں نے تجھے آزاد کیا


ہمارا پرسہ ہر ایک ماں کو 



کیا ہو گا وہاں عالم
 جب پھولوں نے پھولوں کو 
پھولوں کے جنازوں پر
ہر سمت بچھے دیکھا 
کیا ہو گا وہاں عالم
جب دل نے وہاں دل کے 
ٹکڑوں کو کٹے دیکھا  
کیا ہو گا وہاں عالم جب 
اشکوں نے آنکھوں کو 
خوں رنگ سنے دیکھا
دل رک سا گیا ہو گا 
دم سادھ لیا ہو گا 
لاشہ جو پڑے دیکھا
مجبور وہاں ہر اک 
دلسوز جگر لیکر 
پیارے کو کھڑے دیکھا  
😪😪😪😪
(کلام:ممتازملک ۔پیرس)

ہفتہ، 12 دسمبر، 2020

● متفرق اعزازت/ اعزازت


ممتاز ملک کو ملنے والے متفرق اعزازت و اسناد











نزم صدائے وطن ایوارڈ ، سند و میڈل
۔۔۔۔۔



دیار خان فاونڈیشن ء۔2019 دسمبر12
۔۔۔۔۔۔۔

  روزنامہ مناقب 
25
 دسمبر 2020ء
۔۔۔۔۔



● اردو ادب کا سفر / شعری مقابلے۔ اعزازات


فیس بک کے ادبی گروپ 
                "اردو ادب کا سفر "
میں وقتا فوقتا ہونے میں شعری مقابلے میں حاصل پوزیشنز۔ ممتازملک.پیرس 




















● تعمیر نو گروپ / اسناد ۔ اعزازات



اسناد گروپ تعمیر نو 

اصلاحی کہانی برائے اطفال



مضمون برائےحرمت رسول صلی اللہ علیہ وسلم 



مضمون برائے اقبال کا تصور عشق
●●●



جمعہ، 11 دسمبر، 2020

● [47] ڈور / اردو شاعری ۔ مدت ہوئی عورت ہوئے





[47]  ڈور  



رشتے نبھا رہی ہوں
rishte nibha rahi hoon
ریشم کی ڈور بُن کر
resham ki door bun kr
ہاتھوں میں زخم پاۓ
hathoon mein zakhm epay
کانٹوں سے پھول چُن کر
kantoon se phool chun kr
کوئ کہاں جیا ہے
koi khan jia hai
دنیا کی بات سُن کر
dunya ki bat sun kr
اپنا جہاں بسا لے
apna jahan basa le
اپنے ہی سر کو دُھن کر
apne hi sr ko dhun kr
ممّتاز مانگ رب سے
Mumtaz mang rab se
اس کے ہی گایا گُن کر
os k hi gaya gun kr
●●●
کلام: ممتازملک.پیرس 
مجموعہ کلام:
مدت ہوئی عورت ہوئے 
اشاعت: 2011ء
●●●

 

جمعہ، 27 نومبر، 2020

● اردو ‏رائیٹرز فیسٹیول ‏۔ ‏برلن ‏جرمنی ‏/ ‏رپورٹ


جرمنی کے دارالحکومت برلن سے ریڈیو آواز ادب نے سجایا یورپیئن اردو رائٹرز فیسٹول 
رپورٹ: عشرت معین سیما 
              (برلن جرمنی)




۱۷-۱۸اکتوبر ۲۰۲۰  کوریڈیو آواز ادب برلن اور عالمی افسانہ فورم کے زیر اہتمام دو روزہ یورپئن اردورائٹرز فیسٹول منایا گیا ۔یورپی سطح پر اس دو روزہ پورپین اردو رائٹرز فیسٹول میں یورپ کے دس سے زائد ممالک کے مصنفین، شعراء اور صحافی حضرات نے حصہ لیا اور اپنی تخلیقات و نگارشات پیش کرنے کے ساتھ ساتھ اردو زبان کی اپنے ممالک میں موجودہ صورتحال اور ادب کا جائزہ پیش کیا اور اردو ادب و زبان کے فروغ کے لیے متحدہ طور پر اپنی کوششوں اور سرگرمیوں کو مذید بڑھانے کا ارادہ ظاہر کیا۔
یورپ میں اردو زبان و ادب کی جدید بستیوں میں جرمنی کی سرزمین ایک اہم اردو بستی کے طور پر سامنے ابھر کر سامنے آرہی ہے۔ گذشتہ دنوں برلن میں پہلے ادبی ریڈیو کا باقائدہ آغاز کیا گیا ہے۔  جس کے تحت عالمی افسانہ فورم جرمنی اورروزنامہ نیا نظریہ بھوپال کے تعاون سے پہلا دو روزہ یورپین اردو رائٹرز فیسٹول آن لائین  نہایت کامیابی سے منایا گیا ۔ اس فیسٹول  میں جرمنی و انگلینڈ سمیت یورپ کے دس سے زائد ممالک کے اردو شعراء، ادباء، اساتذہ اور محقیقین نے شرکت کی۔ اس فیسٹول میں مجموعی طور پر یورپ میں اردو کی صورتحال کا جائزہ لیا گیا اور اردو زبان و ادب کو پیش آنے والے مسائل کی نشاندہی کی گئی اور ان کے حل کے لیے تجاویز وگفتگو کی گئی ۔یہ دو روزہ ادبی میلہ تین اہم نشستوں پر مبنی تھا جس میں پہلی نشست میں یورپی ممالک کے اردو زبان کے مفکرین و دانشوروں نے اپنے ممالک میں اردو کی صورتحال کے حوالے سے اپنے مقالے پیش کئے۔ اس افتتاحی نشست کی صدا رات ڈنمارک کے معروف ادیب و شاعر اور مترجم جناب قیصر ملک نے کی جب کہ نظامت کی ذمہ داری برلن سے ڈاکٹر عشرت معین سیما نے ادا کی ۔ 
پروگرام کے آغاز سے قبل ریڈیو آواز ادب برلن کے سربراہ سید انور ظہیر رہبر نے اپنے افتتاحی خطبے میں بتایا کہ یورپئن اردو رائٹرز فیسٹول کا بنیادی مقصد اردو زبان و ادب کی ترویج اور نسل نو کو اردو زبان کی ثقافت و تہذیب سےمتعارف کروانا  اور یورپ میں اجتماعی طور پر اردو زبان و ادب کی صورتحال جاننا اور اردو کو پیش آنے والے مسائل کی نشاندھی اور اس حل تلاش کرنے کی جانب اجتماعی طور پر متحرک ہونا ہے۔اس ادبی میلے کے اغراض و مقاصد بیان کرنے کے بعد جرمنی میں پیدا ہونے اور اردو زبان سیکھنے والی نسل نو کی جانب سے ایک تہنیتی ویڈیو پیغام پیش کیا گیا جہاں اردو سیکھنے والے طلبہ و طالبات نے اردو کو محبت و امن کی زبان قرار دیتے ہوئے ریڈیو آواز ادب برلن کی جانب سے منعقد کردہ دو روزہ یورپیئن اردو رائٹرز فیسٹول کے لیے نیک خواہشات کا اظہار اور مبارکباد پیش کی۔
بعد ازاں پروگرام کا باقائدہ آغاز کرتے ہوئے جناب نصر ملک ڈنمارک کی صدارت میں میزبان ملک جرمنی سے ادب و زبان کی صورتحال کا ایک جائزہ عشرت معین سیما نے پیش کیا۔ عشرت معین سیما اس حوالے سے اپنی ایک کتاب “ جرمنی میں اردو تاریخی و لسانی زاویے اور سماجی رابطے” کے عنوان سے تحریر کر چکی ہیں۔ اس کے بعد انگلینڈ سے معروف شاعرہ ،  مضمون نویس اور براڈ کاسٹر و اینکر پرسن فرزانہ خان نینا نے اپنا مقالہ بہ عنوان “ برطانیہ اُردو ادب کی ایک بستی ، بیلجئم سے معروف صحافی اور مقبول شاعر عمران ثاقب چودھری نے اپنا مقالہ زبانِ اردو یورپیئن پارلیمنٹ کے آس پاس، اسپین سے جناب ارشد نظیر ساحل نے اپنا مقالہ “ اسپین میں زبانِ اُردو کی بہاریں ، فرانس سے معروف میڈیا پرسن اور شاعرہ محترمہ ممتاز ملک نے اپنا مقالہ با عنوان فرانس میں اردو زبان سے محبت ، اٹلی سے معروف ادیب و شاعر جناب جیم فے غوری نے اپنا مقالہ اٹلی میں اردو ایک جائزہ ، سوئیزرلینڈ سے معروف افسانہ نگار شاہین کاظمی نے اپنا مقالہ “ سر زمین جنت سوئیزرلینڈ میں اردو، سوئیڈن سے ممتاز ادیب ڈاکٹر عارف کسانہ نے سوئیڈن میں اردو، فن لینڈ سے معروف ادیب ارشد فاروق  نے اپنا مقالہ “ فن لینڈ میں بھی پہچانی جاتی ہے اردو” ڈنمارک سے جناب نصر ملک صاحب نے ڈنمارک میں اردو زبان کی آبیاری “ پیش کئے اور اپنے اپنے ممالک میں اردو زبان و ادب کا جائزہ لیتے ہوئے اپنے تفصیلی صورتحال سے آگاہ کیا اور زبان اردو کو  پیش آنے والے مسائل اور ان کے حل کی جانب توجہ دلائی۔ اس نشست میں جرمنی سے عالمی افسانہ فورم کے بانی وحید قمر اورروزنامہ  نیا نظریہ کے ڈائریکٹر چیف ڈاکٹر نظر محمود نے بھی شرکت کی۔ 
 یورپیئن اردو رائٹرز فیسٹول کی دوسری نشست اردو افسانے سے متعلق تھی جس میں یورپ اور خاص طور پر جرمنی کے افسانہ نگاروں کے بہترین اردو افسانے اور تراجم پیش کئے گئے۔ افسانے کی نشست “ آئیے افسانہ سنیں” کی صدارت سوئزرلینڈ سے معروف افسانہ نگار محترمہ شاہین کاظمی نے کی جب کہ نظامت کے لیے زبان اردو کے ثقافتی شہرکراچی کی نہایت عمدہ منتظم فاطمہ بنت علی موجود تھیں جن کی بہترین نظامت نے اس پروگرام کا وقار مذید بڑھایا۔اس نشست میں جرمنی میں مقیم افسانہ نگاروں نے اپنے افسانے پیش کئے۔ جن جرمنی کے افسانہ نگاروں نے اس میں حصہ لیا ان کے نام اور افسانوں کے عنوانات مندرجہ ذیل ہیں۔
جناب عامر عزیز: آؤ رقص کریں 
جناب سرور غزالی: لمبارڈی
محترمہ ہما فلک: امیج 
جناب انور ظہیر رہبر: بند مٹھی
محترمہ عشرت معین سیما : پہاڑ ہل گیا معروف جرمن افسانہ نگار زبینے پاہلر کے افسانے سے ترجمہ
محترمہ شاہین کاظمی : چمبے دی بوٹی 
افسانے کی یہ نشست دو گھنٹے جاری رہی جس میں نہایت پر فکر اور عصری موضوعات کے حوالے سے سنجیدہ اور بہترین افسانے پیش کئے گئے۔ 
اس دو روزہ ادبی میلے کی آخری نشست اٹھارہ اکتوبر کو یورپی وقت کے مطابق شام چار بجے اردو مشاعرے سے شروع ہوئی اور اپنے مقررہ وقت پر اختتام پزیر ہوئی ۔ اس مشاعرے کی صدارت یورپ اور اردو زبان کے معروف شاعر، مدرس اور ادیب جناب باصر سلطان کاظمی نے کی جب کہ اس مشاعرے کی نہایت عمدہ نظامت تہذیب اردو کے پالن ہار شہر لکھنو سے ڈاکٹر عشرت ناہید نے انجام دی اور مشاعرے کو آغاز سے اختتام تک دلچسپ بنائے رکھا ۔ مشاعرے میں جرمنی کے شہر فرینکفرٹ سے جناب طاہر عدیم ، برلن سے جناب انور ظہیر رہبر اور محترمہ عشرت معین سیما ، انگلینڈ سے جناب باصر کاظمی اور جناب سہیل ضرار، بیلجئم سے جناب عمران ثاقب چودھری ، اسپین سے محترم ارشد نظیر ساحل، فرانس سے محترم عاکف غنی، اٹلی سے جناب جیم فے غوری، ڈنمارک سے عدیل احمد آسی اور بزرگ شاعر محترم نصر ملک نے شرکت کی۔ 
یورپی سطح پر شعراء و شاعرات کی تعداد خاصی مستحکم ہے تمام شعراء کو اس فیسٹول کے مشاعرے میں شامل نہیں کیا گیا تھا کیونکہ یہ پروگرام براہ راست ریڈیو آواز ادب برلن سے اور دیگر سوشل میڈیا کے زریعے پیش کیا جارہا تھا اور معینہ وقت کے مطابق پروگرام کا آغاز و اختتام لازمی تھا۔اس پورے ادبی میلے کو  دنیا بھر کے ناظرین و سامعین نے یو ٹیوب  اور فیس بک پر بھی دیکھا اور اپنی پسندیدگی کا اظہار کیا۔ اس مشاعرے میں تمام شعراء نے اپنا بہترین کلام پیش کیا جسے سراہتے ہوئے صدر مشاعرہ باصر کاظمی نے یورپ سے ہونے والے شاعری کی ایک بہترین مثال قرار دیا اور اپنے صدارتی خطبے میں تمام شعراء کی پیش کردہ شاعری کو عہد حاضر اور یورپ کے شعراء کا ایک نہایت عمدہ اوربے مثال خزینہ گردانا۔
آخر میں اس ادبی میلے کے منتظم سید انور ظہیر نے تمام شرکاء کا خصوصی شکریہ ادا کیا اور بتایا کہ ریڈیو آواز ادب برلن کے زیر اہتمام منعقد کئے جانے والا یہ دو روزہ یورپیئن اردو رائٹرز فیسٹول ۲۰۲۰ سترہ اور اٹھارہ اکتوبر کو برلن سے کرونا کی یورپ میں بگڑتی صورتحال کے تناظر میں آن لائین منایا گیا۔ جب کہ اس پروگرام کو فیزیکلی طور پر برلن میں منعقد کرنے کی تیاری گذشتہ سال سے جاری تھی۔ انہوں نے دیگر شرکاء کے ساتھ اس موقع پر اس بات کا عہد بھی کیا کہ اردو زبان و ادب کی آبیاری اور حفاظت کے لیے یورپ کے ادیب، شعراء اور اساتذہ اپنے فرائض کی ادائیگی میں کوئی کسر نہیں چھوڑیں گے اور یورپی یونین کے اتحاد کی طرح اردو زبان و ادب کے اتحاد کو بھی ایک مثال بنا کر اردو زبان و ادب کو عالمی زبان میں ایک اعلیٰ و ارفع مقام دلوانے کی بھر پور کوشش جاری رکھیں گے۔ پروگرام کے آخری حصے میں کراچی اور لکھنو ء سے کی جانے والی نظامت کا شکریہ  ریڈیو آواز ادب برلن  کی جانب سے کیا گیا اور میڈیا پارٹنر نیا نظریہ کے چیف ایڈیٹر ڈاکٹر نظر محمود صاحب کا تہنیی پیغام پڑھ کر سنایا گیا۔ یہ ادبی میلہ اپنے طے شدہ پروگرام کے مطابق دو دن جاری رہا اور دنیا بھر کے سامعین و ناظرین نے اس کو براہ راست سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ کے دیگر زرائع کے توسط سے دیکھا اورسن کر اپنی پسندیدگی کا برملہ اظہار کیا۔ اس ادبی میلے کے مشاعر ے میں شریک شعراء کے کلام مندرجہ ذیل ہیں۔

عدیل احمد عاسی : ڈنمارک
کس گھڑی اب مرے  سینے میں رہا کرتا ہے
دل  تو  ہر  وقت  مدینے   میں  رہا  کرتا  ہے 

ارشد نظیر ساحل : اسپین
اگر توحید کے قائل سب ہی  ہوجائیں  دنیا  میں
میں اکثر سوچتا ہوں ان صنم خانوں کا کیا ہوگا

عشرت معین سیما : جرمنی 
یادِ رفتہ کا خزانہ مجھے بھاری ہے بہت
حافظے  کی نئی زنبیل  کہاں ممکن ہے 

عاکف غنی : فرانس
ایک قطرہ بھی مسرت کا نہیں ملتا ہے
غم  و اندوہ  سے  لبریز  ہے  کوزہ  میرا

طاہر عدیم : جرمنی 
مرے قاتل بھی مرے حق میں گواہی دیں گے
میں  نہ   تڑپا   نہ   ذرا  سا    بھی  کراہا    شاہا!

عمران ثاقب چودھری: بیلجئم
تیرے ہونٹوں سے ادا ہوکے نکھر جاتے ہیں
تو   ہے   اشعار   کی     تاثیر    بدلنے     والا  

سرور غزالی : جرمنی 
وبا کے   درمیاں کوئی  نہ اپنا  منہ   کھولے
سلے نقاب میں لب ، اب نہ کوئی کچھ بولے

سہیل ضرار : انگلینڈ
میری یادیں سنبھال رکھئے گا 
اتنا  رشتہ   بحال  رکھئے   گا

نصر ملک : ڈنمارک
روزِ غم  سے  جناب ہوگئی ہے
اب کے برکھا عذاب ہوگئی ہے

انور ظہیر رہبر : جرمنی 
پتھر کے ہو چلے ہیں مرے ہاتھ اے خدا
لاتی ہے کب اثر  وہ  دعا  دیکھ  رہا  ہوں 

باصر کاظمی: انگلینڈ
خموش بیٹھے ہو کب سے “ کرونا “ بات کوئی
یہ بات سُن کے  وہ  کچھ  اور   دور  جا  بیٹھا

جمعرات، 26 نومبر، 2020

● ممتازملک ‏کون ‏ہے؟ ‏رپورٹ ‏


      ممتازملک کون ہے؟
         (خصوصی رپورٹ)

 ●ممتاز ملک میری ماں جیسی ہیں۔
ادارہ منہاج القران فرانس کے موجودہ  صدر جناب بابر حسین صاحب ۔۔۔
ممتازملک میری بڑی بہن ہیں جن کی خدمات کا میں اعتراف کرتا ہوں ۔
ادارہ منہاج القران کے سرپرست اعلی جناب ظفر ککرالی صاحب۔۔
 
● میں  دو خواتین کی نعت بہت شوق سے سنتا ہوں ان میں ایک ممتازملک ہیں ۔جن کا کام میں ضرور دیکھتا اور پسند کرتا ہوں ۔ 
منہاج القران فرانس کے نائب میڈیا کوآرڈینیٹر طارق چوہدری صاحب ۔
 
ممتازملک میری بہن بھی ہیں اور میری بیٹی بھی ہیں ۔ 
منہاج القرآن کے سینیئر رفیق اور نائب صدر صوفی ارشد صاحب۔

 بروز جمعہ شام 6 بجے (13 نومبر 2020ء)پیرس کے ایک ریسٹورنٹ میں  میری کردار کشی کی غلیظ مہم کا اور  اس سارے ہنگامے کا اختتام اس میٹنگ پر کیسے ہوا؟ 
فرانس  میں پاکستانی کمیونٹی کی معزز ترین شخصیات کیساتھ   اس مسئلے پر صدر منہاج القران فرانس جناب راجہ بابر حسین  کی جانب سے رابطہ کیا گیا ۔ جن میں  خصوصا   جناب ابرار کیانی صاحب اور صاحبزادہ عتیق الرحمن صاحب سے درخواست کی گئی کہ وہ مجھ سے رابطہ کریں اور مجھ سے اس سارے معاملے کو ختم کرنے کی درخواست کریں ۔ لہذا ان دونوں معزز حضرات  نے  مجھ ( ممتاز ملک ) سے رابطہ کیا اور مجھ سے درخواست کی کہ فیس بک پر جو کچھ چل رہا ہے یہ کسی بھی فریق کے لئے بہتر نہیں ہے۔ خدا کے لئے اس کو ختم کیا جائے اور مل بیٹھ کر اس کا کوئی حل نکالا جائے۔
لہذا معروف کاروباری و سماجی شخصیت جناب ابرار کیانی صاحب  اور صاحبزادہ عتیق الرحمن صاحب کے اصرار پر یہ میٹنگ بلائی گئی ۔ جس میں آن دیسی ٹی وی کے سی ای او وقار ہاشمی صاحب نے بھی شرکت فرمائی۔ جبکہ ادراہ منہاج القران فرانس کی جانب سے 
موجودہ صدر بابر اعوان صاحب،
سرپرست اعلی جناب ظفر ککرالی صاحب، میڈیا کوآرڈینیٹر جناب طارق چوہدری صاحب، سینیئر نائب صدر صوفی ارشد صاحب شریک ہوئے۔ جنہوں نے منہاج القران کی جانب سے میری کردار کشی کی مہم کی مذمت کی اور میری خدمات کا کھلے دل سے اعتراف بھی کیا ۔ اور آئندہ کے لیئے ایسی گھٹیا مہمات کی حوصلہ شکنی پر ذور دیا ۔ انہوں  نے میری جانب سے  شیئر کردہ  کچھ پوسٹس پر الفاظ کے چناو پر اعتراض  کیا اور اسے حذف کرنے کی درخواست کی ۔ جسے میں نے خیر سگالی کے طور پر حذف کیا  اور اس بے دھیانی اور منہاج القران یا طاہرالقادری صاحب کے معتقدین کی دلآزاری پر معذرت کی ۔ آئندہ کے لیئے کوئی بھی پوسٹ شیئر کرنے میں احتیاط کی یقین دہانی بھی کروائی۔ 
پیرس فرانس کے آٹھ معتبر ترین لوگوں کے سامنے جب ممتازملک کو اتنی عزت اور احترام سے نوازہ جائے تو پھر اسے گالی دینے اور اس پر کیچڑ اچھالنے والے کسی بھی ایسے غلیظ شخص کو اپنے گریبان میں ضرور جھانک لینا چاہیئے کہ وہ کتنا پانی میں ہے ۔ کیونکہ پھر وہ یہ گالی ممتازملک کو نہیں بلکہ  صدر  بابر حسین صاحب  کی ماں کو دیگا ، 
منہاج القران کے محترم و معتبر سرپرست اعلی ظفر ککرالی صاحب کی بہن کو دیگا ، 
میڈیا کوآرڈینیٹر طارق چوہدری صاحب  کی بہن کو دیگا۔
سینیئر نائب صدر صوفی ارشد صاحب کی بیٹی کو دیگا۔
اور اتنا تو میرا بھی یقین ہے کہ میری سولہ سالہ خدمات کا کھلے دل سے اعتراف کرنے والے ان معززین میں اتنا دم بھی ہے اور اتنی غیرت بھی کہ وہ ایسے بکواس کرنے والے کا منہ توڑ جواب بھی دے  سکیں اور اسے اس کی اوقات بھی یاد دلا سکیں ۔ 
میٹنگ بہت ہی اچھے ماحول میں ہوئی ۔ جس کے آخر میں کمیونٹی کے اتحاد و اتفاق اور ایسی شرانگیزیوں سے بچنے کے لیئے معروف شاعر (اور سی ای او آن دیسی ٹی وی ) وقار ہاشمی صاحب نے دعائے خیر فرمائی۔ 
  رپورٹ: 
   (ممتازملک.پیرس)
                         ۔۔۔۔۔۔۔

اتوار، 22 نومبر، 2020

● تخلیق انسانی کیوں ؟/ چھوٹی چھوٹی باتیں


     


    انسان کی تخلیق کیوں ؟


اللہ تعالیٰ نے انسان کو زمین پر اپنا نائب بنا کر اتارا.  اسے ہر مخلوق پر اشرف کیا.  اسی لیئے اس  میں اپنے ہر وصف کی ایک تجلَی بھی بھر دی. تاکہ جس طرح وہ ان اوصاف کی بنیاد پر کل جہانوں کو چلاتا ہے اسی طرح انسان اپنی حد نگاہ , حد رسوخ اور حد رسائی میں ان کا استعمال کر کے اس دنیا کے سسٹم کو چلائے،  اپنے حقوق کا تحفظ کرے اور اپنے فرائض ادا کرے.  یہ ہی اس کا امتحان بھی ہے اور کمال بھی...
اب اگر کوئی یہ کہے کہ اللہ کو اس کی کیا ضرورت تھی کہ وہ انسان کو تخلیق کرتا تو اس کا  سیدھا اور سچا جواب یہ ہی ہے کہ اسکی مرضی وہ جو چاہے کرے کیونکہ وہ کر سکتا ہے..
                  (چھوٹی چھوٹی باتیں)
                (تحریر۔ممتازملک.پیرس)



جمعہ، 20 نومبر، 2020

● پردہ ‏مذہب ‏اورشرمندگی/کالم


پردہ مذہب اور شرمندگی 
تحریر: ممتازملک.پیرس 



دنیا بھر کے ڈراموں اور فلموں میں اپنے مذہبی عقائد کو بڑے اہتمام کیساتھ دکھایا جاتا ہے چاہے وہاں عام آدمی اتنا مذہبی لگاو رکھتا ہو یا نہ رکھتا ہو ۔ اور تو اور خود کو سیکولر کہنے والا ہندوستان بڑے ہی تواتر کیساتھ اپنی فلموں اور ڈراموں میں کئی کئی منٹ کے مناظر اپنے مذہبی عقائد دکھانے پر صرف کرتا ہے ۔ لوگوں  کو اپنے مذہب کی جانب متوجہ کرتا ہے جبکہ اس کے برعکس پاکستانی ڈارامہ ہو یا فلم ہمیں تو برسوں گزر چکے ہیں اس امید میں کہ شاید کہیں آپ کو اپنی عید  کا تہوار مناتے دکھایا جائے کہیں عید قرباں کا اہتمام اور اغراض مقاصد دکھائے جائیں ۔ کئی دہائیاں گزر چکی ہیں ہمیں عیدین پر    ابنے تہواروں کے بارے میں کوئی فلمی گیت سنے ہوئے ۔ لے دے کر ان کے موضوعات عاشقی سے شروع ہوتے ہیں اور گھر سے فرار پر ختم ہوتے ہیں ۔ کہیں شب برات کا تہوار دکھایا جاتا ہے نہ ہی کسی جگہ ربیع الاول کے تقریب دکھائی جاتی ہے ۔ 
اور تو اور نماز کی ادائیگی تک کہیں پر درست انداز میں نہیں دکھائی جاتی ۔ خواتین کا باریک دوپٹہ ، سارا بدن ڈھکے بغیر فیشن ایبل لباس میں آدھی آستینوں کے ساتھ ننگے بال میں نماز کی ادائیگی کون سے اسلام میں ہو سکتی ہے ؟ ہم کون سا اسلام دکھانا چاہتے ہیں ؟
حوالے کے طور پر صرف ایک حالیہ ڈرامہ سیریل کشف دیکھیئے جس میں پیرنی بنی خاتون تک کا آدھا سر نماز کے دوران بھی ننگا رہا ۔ نکاح کی تقریب میں خواتین مریدنیاں بال کھولے دعا کے لیئے ہاتھ اٹھائے کھڑی ہیں ۔ کس چیز کی نمائش کرنا چاہتے ہیں اسے بنانے اور دکھانے والے ۔ ۔۔۔

 اپنے مذہب پر ہم شرمندہ ہیں یا اپنے کلچر پر ہمیں افسوس ہوتا ہے ۔ آخر ہم کس جانب کو رواں ہیں ۔ ہم کیسے توقع کرینگے کہ ہماری نسل اپنے دین سے محبت کرے گی یا اپنے مذہب کو دل سے قبول کرینگے ۔ 

آخر کون سے بدبخت ڈرامہ نگار اور غلام کہانی کار ہیں جو  محض پیسہ کمانے کے لیئے سوچے سمجھے منصوبے کے تحت اپنے دین اور معاشرت کا جنازہ نکال رہے ہیں۔  اپنی نسلوں کو تباہ کرنے پر تلے بیٹھے ہیں ۔ ہمارا میڈیا تو ہماری قوم کی ذہنی اور اخلاقی تعمیر کا ذمہ دار رہا ہے اسے اس کے کردار کی تباہی کا ٹھیکہ کس نے دے دیا ۔ ہمیں بہت سی ایسی باتیں جو عام زندگی میں ہم سوچ بھی نہیں سکتے لیکن وہ شرمناکی بڑے سہل انداز میں ہمارا ڈرامہ ہمیں  اس روپ میں انجیلٹ کر رہا ہے ۔ نتیجہ کچے ذہن ماں باپ کے منہ ہر آکر کھڑے ہونے لگے ہیں ۔ لڑکیاں گھروں سے بھاگنے کو فن اور حق سمجھنے لگی ہیں ۔ والدین کی آبرو اب مذاق میں اڑائی جانے لگی ہے ۔ والدین کی نافرمانی اور اپنے دین کی پیروی کرنے والے کا باقاعدہ مذاق اڑایا جاتا ہے ۔ مولانا کا دکھایا جانا ڈرامہ کو فلم کو رسک میں ڈالنا لگتا ہے ۔  کیا دنیا میں نوٹ کمانے کی دھن میں آخرت کا سودا ہو چکا ہے یا ہمیں خدا کے وجود کا یقین کرنے کے لیئے ہر بار پتھروں کی بارش کا انتظار کرنے کا شوق ہے ۔ تو یاد رکھیئے یہ بارش دیکھنے والے خواہشمندوں کی یہی خواہش ان کی آخری خواہش بھی بن جاتی ہے ۔ اللہ کے ہاں جواب طلبی کا احساس ہمارا ایمان ہے ۔ اگر ہمارا ایمان کمزور ہو چکا ہے تو اس کی فکر کیجیئے ۔ اپنے اولادوں کو میڈیا کے ذریعے تربیت دینا ہے تو پہلے اس میڈیا کا قبلہ درست کیجیئے ۔ 
                        ●●●

بدھ، 18 نومبر، 2020

● منشیات موت اور مال/ کالم

           
             منشیات موت اور مال 
             ( تحریر: ممتازملک.پیرس)


اس دولت کے حصول کے لیئے انسان نے روز اول سے کیا کیا پاپڑ ہیں جو نہیں بیلے 
کہیں اپنے رشتے قربان کر ڈالے کہیں اپنی محبتیں بیچ ڈالیں اور کہیں دوسروں کے اعتبار کو چور چور کیا ۔ لیکن اس کے  بدلے کیا پایا بہت سی بے سکونی، بہت سا درد اور بہت سی بدعاوں کے ساتھ مزید اور کا بہت سا لالچ ...
کسی نے سچ ہی کہا ہے کہ حرص کا پیٹ بس قبر کی مٹی ہی بھر سکتی ہے۔

دولت کمانے کا شوق جب ایک حد سے بڑھ جاتا ہے تو ایک مرض اور ایک جنون  کی صورت اختیار کر لیتا ہے ۔ اسی جنون میں  لوگ کیسے کیسے ناجائز اور غیر قانونی کام اس کا انجام سوچے بنا ہی سرانجام دے ڈالتے ہیں ۔ اس سلسلے میں سب سے زیادہ گھناونی مثالیں ہمیں دکھائی دیتی ہیں منشیات کی خرید و فروخت اور سمگلنگ کی صورت میں ۔۔

گذشتہ دنوں ایک صاحب نے ایک اور اعتبار کا چورا بناتے ہوئے کمال دکھا دیا ۔ ایئر پورٹ پر ایک صاحب  کو کسی سبب روک کر تلاشی کے دوران چالیس سے زیادہ شادی کارڈز لیجانے پر پوچھا گیا کیونکہ وہ بکس کی صورت میں بنے ہوئے تھے اور کچھ وزنی بھی تھے ۔  سوال و جواب میں آفیسر کو کچھ بات کھٹکی تو انہوں نے وہ کارڈ الٹ پلٹ کر دیکھا ۔ ویسے کارڈذ آجکل شادیوں پر اکثر لوگ بنواتے ہیں ۔ لیکن اس کا وزن زیادہ محسوس ہونے پر آفیسر نے ایک کارڈ کو  چاقو سے چاک کرنا شروع کیا تو اس وقت حیرت کی انتہاء نہ رہی جب اس کے اوپر کی پرت کے  اندر سے بڑی صفائی کیساتھ سفید رنگ کا پاوڈر برابر سائز میں بڑی چالاکی سے پیک کیا گیا تھا ۔ اس شک پر باقی سبھی کارڈز کو ضبط کر کے کھولا گیا تو سبھی میں 125 گرام کی فی کارڈ کے حساب سے برامدگی ہوئی ۔ آپ سوچیئے اس کے بعد وہ معصوم لوگ جو واقعی سیدھے سادھے کارڈز یا کتب لیکر جاتے ہیں وہ بھی کس قدر پابندیوں اور مسکلات کا شکار ہو جائینگے ۔ قوانین ہماری ہی حفاظت کے لیئے بنائے جاتے ہیں لیکن ہمیں میں سے کچھ کالی بھیڑیں ہم سب  کی زندگیوں کو اس وقت تنگ کر  دیتی ہیں جب ان کی قانون شکنی یا لالچ کی سزا باقی ان تمام لوگوں کو بھگتنی پڑتی ہے جن کے خیال سے بھی اس بات کا گزر نہیں تھا ۔ اپنی زندگی سے آر یا پار کا کھیل کھلینے والے خود تو ساری زندگی جیل کی سلاخوں کے پیچھے گزاریں گے ہی ، باقی لوگوں کے لیئے  بھی قوانین کی سختی کے طور پر گناہگار ہونگے ۔
کیا ہے یہ منشیات کا دھندہ ۔ دوسرے کو موت بیچ کر اپنے لیئے عیش و عشرت خریدنے کا جنون ۔ ۔ کسی کی لاش پر کھڑے ہو کر جام لنڈھانے کا  مرض ۔ 
اپنے ہی دوستوں اور عزیزوں کو سامان زیادہ ہے زرا پکڑ لیجیئے یا  دیدیجیئے کہہ کر اس  کی زندگی کو جوئے کا پانسا بنا دینے کا خوفناک کھیل ۔ جو شخص پانسا بن گیا اس کا قصور صرف یہ تھا کہ اس نے آپ پر اعتبار کر لیا ۔ آپ کو مجبور سمجھ کر آپ کی مدد کرنے کی حامی بھر لی ۔ اب اسے اس بات کی ایسی عبرت ناک سزا دے دی جائے کہ آئندہ وہ تو کیا اس کے ارد گرد بسنے والے بھی   کسی کیساتھ نیکی کرنے کا سوچیں گے بھی نہیں ۔
کبھی تو حیرت ہوتی یے جب ایک خاتون کسی لڑکی یا خاتون کو یہ کہہ کر مدد طلب کرے کہ مجھے واش روم جانا یے ذرا میرا گود کا بچہ تو پکڑ لیجیئے ۔ بھلا وہ کونسی ماں ہو گی جو اپنا گود کا شیرخوار بچہ کسی اجنبی کو یوں پکڑا کر جانے کا رسک لے گی ۔ لیکن دماغ کی گھنٹی بجائیے اور ہوشیار ہو جائیے کہ وہ بچہ اس کا ہو ہی نہی  سکتا ۔ ہو سکتا ہے وہ کسی مردہ بچے کے وجود میں کچھ ڈال کر لیجا رہی ہے ۔ اگر وہ بچہ زندہ ہے تو کیا وہ کسی کا بچہ اسمگل کر رہی ہے ؟ اور  اگر آپ سلامتی سے امیگریشن سے نکل گئے تو آپ سے بچہ وصول کر لیا جائیگا ورنہ بصورت آپ کی گرفتاری کے وہ چپکے سے کھسک لے گی یا  لینگے۔ بہت احتیاط کیجیئے۔ کسی بھی صورت میں اپنا سامان کسی کو نہ دیجیئے اس کے کسی بھی کونے میں کچھ بھی ڈال کر آپکو مشکل میں ڈالا جا سکتا ہے ۔ اور لیجیئے مت ورنہ آپ خود ہی اپنی مشکل کے موجب ہونگے ۔ 
دوران سفر کسی بھی مسافر کو اپنے ذاتی حالات اور معاملات سے باخبر مت کیجیئے ۔ اپنے گھریلو معاملات پر گفتگو مت کیجیئے ۔ اپنے پاس موجود کیش زیورات یا دستاویزات کا ذکر یا معائنہ مت کیجیئے ۔ کسی سےکھانے کی کوئی چیز لیکر کھانے کی غلطی مت کیجیئے ۔ یاد رکھیئے موت کے سوداگر نہ تو ایمان رکھتے ہیں، نہ دل رکھتے ہیں اور نہ ہی جذبات ۔ یہ دولت کے حصول کے لیئے سانپ جیسی فطرت رکھتے ہیں جو وقت پڑنے پر اپنے انڈے بھی پی جاتا ہے اور بچے بھی کھا جاتا ہے ۔ 
                      ۔۔۔۔۔۔۔

ہفتہ، 14 نومبر، 2020

● تنہا ‏/ ‏کوٹیشنز ‏


تنہا 

سچ بولنے والا بظاہر تنہا نظر آتا ہے لیکن وہ تنہا ہوتا نہیں ہے ۔ اگر ایسا ہوتا تو اللہ کے وعدے انسان کے دل سے اپنا یقین کھو بیٹھتے ۔
(چھوٹی چھوٹی باتیں)
(ممتازملک.پیرس)

جمعرات، 12 نومبر، 2020

● سوال/ ‏کوٹیشنز ‏

سوال        

سوال یہ نہیں ہے کہ جیئے اور مر گئے بلکہ پوچھا یہ جائے گا کہ کیسے جیئے اور کس مقصد پر مر گئے ۔۔۔۔
  (چھوٹی چھوٹی باتیں)    
(ممتازملک.پیرس)   
  

منگل، 10 نومبر، 2020

راو ‏خلیل ‏معافی ‏مانگو/کالم

راو خلیل معافی مانگو
(ممتازملک.پیرس)

کچھ مخلص بہن بھائیوں نے مجھے منہاج القران کے چھوڑے ہوئے آوارہ کتے راو خلیل کی بکواس اور گھٹیا بازاری الزامات کے لیئے ان کے پول کھولنے سے باز رکھنے کو درخواست کی کہ باجی ساری کمیونٹی بدنام ہو رہی ہے آپ پلیز اس بھونکنے والے کو جواب نہ دیں یہ معذرت کریگا بلکہ ادارہ منہاج القران اس غلاظت نامے پر آپ سے معذرت کریگا ۔ تو میں نے بھی خاموشی اختیار کی کہ دیکھتی ہوں منہاج القران میں کتنے غیرت مند مرد موجود ہیں جو اس جھوٹے کو مسجد تک لیکر آئیں گے اور اس کے الزامات کے ثبوت دلوائینگے یا پھر اسکے منہ پر جوتا لگائینگے ۔ لیکن حسب توقع ادارہ منہاج القران جنہیں اپنا نام منہاج القادری یا طاہری رکھ لینا چاہیئے ۔ (کیونکہ یہاں درود تو نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم  پر پڑھا جاتا ہے لیکن پوجا طاہرالقادری کی کی جاتی ہے)سے یہ ثابت ہو گیا کہ میں سو فیصد سچی تھی اور ہوں ۔ اور اس سارے گند خانے میں شرفاء پر کیچڑ اچھالنے میں خود طاہرالقادری کی بھرپور آشیر باد شامل ہے اس کے گماشتے اسی کے اشاروں پر شریف خواتین و حضرات کو ہراساں کرتے ہیں ۔ ابھی تک مجھے کوئی معذرت موصول نہیں ہوئی ۔ اس لیئے میں اپنے محترم بہن بھائیوں سے کیئے ہوئے زباں بندی کے وعدے سے خود کو آذاد سمجھتی ہوں ۔ اور "ممتاز ملک کا سفر منہاج القران میں 1998ء سے 2014ء تک " کی روداد حرف بحرف سچ اور حلفا بیان کرنے کا آغاز کرنے جا رہی ہوں ۔ جس میں آپکو وہ قصے پڑھنے کو ملیں گے جو میں کسی بھی مسجد میں قسم اٹھا کر بیان کرنے کو تیار ہونگی ۔ کب میں نے ادارہ منہاج القان جوائن کیا ؟ وہاں کیا کیا طریقہ کار دیکھا؟ 
طاہرالقادری کی آمد پر کیسے جوان لڑکیاں گل پاشی کے لیئے کھڑی کی جاتیں؟
 کیسے اس نامحرم کے پیر دھوتیں ؟ 
کیسے جوان لڑکیاں جنہیں اردو تک بولنی نہیں آتی تھی وہ طاہرالقادری کے نام کے ترانوں پر بیہوش ہو ہو کر گرنے کے ڈرامے کیا کریں ؟ 
کیسے زیر لب مسکراتے ہوئے طاہرالقادری اسے انجوائے کیا کرتے ؟ 
تیتر بٹیرے بھون بھون کر کون کون سے خواتین لایا کرتی تھیں ؟ 
جنہوں نے اپنے شوہر کو چائے کی پیالی بھی شاید بنا کر نہ پلائی ہو وہ اس نامحرم کی خدمت میں کیسے ہاتھ باندھے کھڑی رہتیں ؟
کیسے لنگر خانے اور مالیات کے شعبے پر ٹھیکیداری کے لیئے (ایکدوسرے کے بال نوچ کر یہاں کے میرا بائیکاٹ بائیکاٹ کھیلنے والی) مٹھی بھر مشاق خواتین نے ایک دورے کے منہ توڑے؟ 
ان کے کھڑپینچ اپنی بیویاں اور بیٹیاں یہاں کیوں نہیں لاتے ؟ 
کیسے یہاں گردنیں کٹوائیں گے جیسے دہشت گردانہ نعرے لگوانے کا آغاز ہوا ؟ 
کیوں میں نے اپنے بچوں کو 2010ء میں یہاں اس ادارے سے دور کر دیا ؟
کیوں میں نے 2014 ء میں ادارہ منہاج القران فرانس کا بائیکاٹ کر دیا ؟
یہ اور اس  جیسے بہت سے مزیدار اور شرمناک واقعات کا پٹارہ کھولنے جا رہی ہوں دوستو ۔۔۔
میرے خلاف لکھی ہوئی ہر بکواس کو مسجد میں قسم اٹھا کر راو خلیل  سے ثابت کرواو یا پھر معافی مانگو ۔ ادارہ منہاج القران اس ساری مجرمانہ کاروائی پر معذرت کرے بصورت دیگر میں جو بھی قسم اٹھا سکتی ہوں وہ سارے واقعات یہاں بیان کرنے کا ذہن بنا چکی ہوں اور میری ہر تحریر ایک مستند دستاویز ہو گی ان شاء اللہ ۔۔۔
جو دو تین دن سے زیادہ کے انتظار کی زحمت کبھی گوارہ نہیں کریگی ۔ عورتوں کے عزتیں اچھالنے والوں کی عورتوں کے نام بھی دینے پڑے تو میں نام اور فوٹو بھی لگانے پر مجبور ہونگی ۔ اور پڑھنے والے یاد رکھیں یہ سارے کارنامے منہاج القران فرانس کے حوالے سے ہونگے کیونکہ میں اس کے سوا کسی بھی دوسرے ملک کے ادارے کے عہدیداران کی کارکردگی اور معاملات کی گواہ ہر گز نہیں ہوں ۔۔
                  ۔۔۔۔۔

پیر، 9 نومبر، 2020

● آن لان مشاعرہ ۔ برٹش پاکستانی ویمن سوسائٹی



برٹش پاکستانی ویمن سوسائٹی انٹرنیشنل کے زیر اہتمام آن لائن عالمی 
بیاد اقبال مشاعرہ 
9 نومبر 2020ء 
بروز سوموار 
پاک وقت : رات9 بجے
فرانس وقت: شام  5 بجے 
پیرس  فرانس سے شرکت ممتازملک 



https://youtu.be/sAmJOvIveNw



بدھ، 4 نومبر، 2020

● نعت ۔ حبیب خدا۔ اے شہہ محترم


وہ حبیب خدا

(کلام/ممتازملک۔پیرس)

ذکر جن کا بلندی پہ رب نے کیا
ہیں وہ محبوب رب وہ حبیب خدا


جن کا نعلین  اپنے لہو سے بھرا 
پھر بھی نکلی نہ دل سے کوئی بددعا
آپ کے بعد ہے کیا میرا آسرا
 ہیں وہ محبوب رب، وہ حبیب خدا

عرش والوں نے دی ہے سلامی جسے 
فرش والے  بھی چاہیں غلامی جس سے
ہمکو قدموں میں مل جائے تھوڑی  جگہ 
 ہیں وہ محبوب رب، وہ  حبیب خدا 


آپکے گھر کی خالص روایت کا ہے 
راستہ روشنی اور ہدایت کا ہے 
تاقیامت یہ قائم رہے سلسلہ
ہیں وہ  محبوب رب، وہ حبیب خدا 
۔۔۔۔۔۔۔



پیر، 2 نومبر، 2020

ایک بیچارہ/ ‏کالم


ایک بیچارہ 
(تحریر ممتازملک.پیرس)


کہتے ہیں وقت کے ولی کے پاس ایک نودولتیئے کا آنا ہوا اس نے انہیں اپنے انداز دکھا کر اپنے لباس کی قیمت  اور زیورات کی چمک دمک سے مرعوب کرنے کے تادیر کوشش کی ۔ اس ولی اللہ نے اسے کافی دیر تک یہ کرتب دکھانے کا موقع دیا اور جب اس آدمی کو کوئی ردعمل دیکھنے کو نہ ملا  وہ تھک ہارا تو بزرگ نے فرمایا اب آپ اپنا  منہ کھولیئے، یعنی گفتگو فرمایئے تاکہ میں آپ کی حیثیت کا اندازہ لگا سکوں ۔ ۔۔۔
کیونکہ انسان جب منہ کھولتا ہے تو وہ اس کی تربیت ، اسکے خاندان اور اس کی علمیت کا کھاتہ بھی کھول دیتا ہے ۔  
یہ ہی کچھ فرانس میں پچھلے دو روز سے ہو رہا ہے ۔ حسد ،جلن، دل کی سیاہی اور بھرپور زہر کیساتھ یہ منہاج مافیا کا عظیم سپوت میری کردار کشی کی مہم کے لیئے چھوڑا گیا ہے ۔ اس کے ایک ایک جملے سے اس کی ہر اصلیت ٹپک رہی ہے ۔ مجھے دھمکیاں دے رہا ہے، کبھی مجھے ہراساں کر رہا ہے ۔ کل تک یہ مردوں کے گلے پڑتا تھا پھر اس نے کئی خواتین کیساتھ منہ ماری کی اور اب میری کامیابیوں اور ترقی نے اس کی ایسی نیندیں اڑائی ہیں کہ بیچارہ کبھی اپنے بال نوچتا ہے تو کبھی اپنے پنجوں سے اپنا منہ نوچتا ہے ۔ حالانکہ نہ میں اسے ذاتی طور پر جانتی ہوں ، نہ میں اس کی پڑوسی ہوں اور الحمداللہ اس غلاظت کے ڈھیر کی میں رشتہ دار بھی نہیں ہوں ۔ نہ اسکے ساتھ میری جائیداد بٹنی ہے اور نہ کاروباری شراکت ہے اور تو اور یہ میری فرینڈ لسٹ تک میں شامل نہیں ہے ۔ہماری تو سالوں سے  آپس میں کبھی سلام علیکم جتنی بھی گفتگو بھی نہیں ہوئی ہے تو جھگڑے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔ 
 آپ کو سمجھ تو آ ہی گئی ہو گی کہ جو لوگ دو دن سے اس کا مداری پنا دیکھ کر لطف اندوز ہو رہے ہیں یقینا وہ ماسٹر مائنڈ اس منہاجی سپوت کو اپنا کیا سمجھتے ہیں ۔ کسی نے سچ ہی کہا ہے کہ دشمن کو تکلیف دینی پے تو اپنے کام میں سر دھڑ کی بازی لگا دو ۔ تاکہ تم نہیں تمہاری کامیابی شور مچا دے ۔ 
میں نے بہت سوچا کہ اس کا کیا علاج ہونا چاہیئے کہ اسے حیا کا دامن تھامنے کا موقع مل سکے ۔ بہت سے مخلص بہن بھائیوں نے ایک انسان کو جلن اور حسد کا مریض بتا کر اپنی کمیونٹی کی بدنامی کا واسطہ دیکر مجھے کوئی بھی ایسا قدم بڑھانے سے روکا جس سے اس آدمی کو ہمیشہ کا نقصان اٹھانا پڑے ۔ سو سوچا عزت اور ذلت تو خدائے لم یزل کے ہاتھ میں ہے ۔ کوئی چاند پر تھوکتا ہے تو چاند میلا نہیں ہوتا یہ تھوک اسی کے منہ پر گرتا ہے ۔ جو شص دس منٹ کسی مرد کیساتھ بیٹھ کر احترام کیساتھ گفتگو نہیں کر سکتا اور ناقابل برداشت ہو جاتا ہے ۔ جسے خواتین جن ناموں سے پکارتی ہیں وہ میں خوب اچھی طرح جانتی ہوں ۔ اس کے ساتھ صرف ہمہمدردی کیجیئے ۔ بیچارہ دل کا مریض ہے ۔ شرپسندوں کے بہکاوے میں اپنی عزت خود ہی داو پر لگا بیٹھا ہے ۔ آپ سب سے گزارش ہے کہ اس کی اصلاح اور جسمانی و ذہنی صحت کے لیئے دعا کیجیئے ۔ روحانی بیمار انسان کی اخلاقی امداد کیجیئے ۔ اللہ تعالی اسے اپنے بچوں کے سر پر سلامت رکھے ۔ اور کمیونٹی میں آنے والے کام کرنے والی ، باصلاحیت اور نیک نام خواتین کی عزت کرنے کی توفیق عطا فرمائے  تاکہ وہ محفوظ ماحول میں اپنی ذمہ دارہداریاں سرانجام دے سکیں ۔ ۔ آمین
انسان اپنی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کھو دے تو لوگ اسے پاگل کہتے ہیں ۔ لیکن مہذب الفاظ اور دنیا  میں اسے نفسیاتی مریض کہا جاتا ہے ۔ جو لوگ دوسروں کے اظہار رائے کو اپنی انا کا مسئلہ بنا لیتے ہیں وہ نہ زندگی میں کبھی سکون نہیں پا سکتے نہ مر کر چین ۔ 
آپ سب سے اس مریض کے لیئے دعا کی اپیل ہے ۔ 
اور بیشک اللہ بہتر دلوں کا حال جاننے والا ہے 

ہفتہ، 31 اکتوبر، 2020

● لفافے ‏بولتے ہیں ‏/ ‏شاعری ‏

  
              لفافےبولتے ہیں جی
           (کلام: ممتازملک.پیرس)


انہیں تم چھیڑنے کا سوچنا بھی مت 
سچائی ان کے اندر کی کبھی تم کھوجنا بھی مت
یہ آنکھیں لال کر کے جب ڈراتے ہیں 
سمجھ جاتے ہیں ہم اس دم لفافے بولتے ہیں جی 

انہیں کردار پہ کیچڑ  گرانے کا تجربہ ہے 
نہ جب کمزوریاں ہاتھ آئیں عورت کی یہ حربہ ہے 
ازل سے ہے ابد تک ہی یہ مردانہ حقارت کہ
یہ آنکھیں کھولتے ہیں جی لفافے بولتےہیں جی

کبھی سچ بولنے کی تم نے کی جرات سمجھ جانا
کہ اب ہے سامنے میدان حریت سمجھ جانا 
مقابل ہے سماجی گدہ زرا ہشیار ہو جانا
پروں کو تولتے ہیں جی لفافے بولتے ہیں جی

انہیں ایمان سے  ہے کب غرض اور 
عقل سے کیا ہے
بھرو جب جیب تو پھر خر بھی اسپہہ شکل سے کیا ہے
اگر ائینہ دکھلاو تڑپتے ہیں بدکتے ہیں 
بڑا ہی ڈولتے ہیں جی لفافے بولتے ہیں جی
                     ۔
                         ●●●                       
         

بدھ، 28 اکتوبر، 2020

● نعت ۔ جس جاء پہ نظر پڑ گئی۔ اے شہہ محترم ص



جس جاء پہ نظر پڑ گئی
کلام/ممتازملک 



جس جاء پہ نظر پڑ گئی سرکار کی لوگو
آذاد ہوا فکر سے گھر بار کی لوگو

جو پا گیا ہے انکے پسینے کی مہک کو
کیا اسکو تمنا کسی عطّار کی لوگو

جو شہر مدینہ کی کبھی خاک ہی پا لے 
کیا ہو گی کشش پھر گل و گلزار کی لوگو

جو آپ کے قدموں ہی میں سر اپنا جھکا لے
نہ پالے کوئی فکر وہ بیکار کی لوگو

بکتے ہیں جو سرکارکی قربت کی طلب میں 
کھٹکے ہیں سدا آنکھ میں اغیار کی لوگو

طائف کی گلی سےجو گزر جاو گے اک بار
یاد آئے گی پھر تو کسی بازار کی لوگو

اک بار جسے آپکی چاہت نے نوازہ
پرواہ نہ دنیا کے کسی پیار کی لوگو

 سر میرا یہ ارزاں نہیں اس در پہ جھکا ہے
حاجت نہیں اب دوسرے دربار کی لوگو

آنکھیں جو ہوں سرکار کے چہرے سےمنور
کیا آرزو ممّتاز کو انوار کی لوگو
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


پیر، 26 اکتوبر، 2020

● سیاحتی ‏مقامات ‏کی ‏تباہی / کالم


سیاحتی مقامات کی تباہی
تحریر:(ممتازملک.پیرس)















اگر آپ اسلام آباد جانے کا ارداہ کریں اور وہاں موجود حسین پہاڑی چوٹی کے حسین مقام پیر سوہاوہ نہ جائیں تو آپ کی سیر ادھوری ہے ۔۔ یہ چوٹی آپکے سامنے اسلام آباد اور راولپنڈی کا نظارا جیسے ایک تھال میں رکھ کر پیش کر دیتی ہے۔ 
 کچھ سال پہلے جب ہمارا وہاں جانا ہوا تھا تو اس کی چوٹی پر ایک ڈھابہ اسٹائل کا ریسٹورنٹ تھا جہاں چارپائیاں بچھی ہوتی تھیں   یا پلاسٹک کی میز کرسیاں ۔ اور خلق خدا کا خصوصا فیمیلیز کا  رش تھا جس سے اس مقام کی پسندیدگی کا اندازہ کیا جا سکتا  تھا۔ اس ریسٹورنٹ میں ملنے والا چکن ایک بار کھائیں  تو بار بار اسی  کی لذت میں آپ وہاں جانے   پر مجبور ہو جائیں ۔ اور قیمت بھی انتہائی مناسب۔ وہ نظارہ آپکی یادداشتوں میں ہمیشہ لیئے نقش ہو جاتا تھا ۔ ہر غریب امیر کی یہاں تک رسائی بھی تھی اور یہ سیر اسکی جیب پر اتنی بھاری بھی نہیں تھی ۔ 
اس بار چار پانچ سال بعد 2019ء میں جب وہاں جانے کا موقع ملا تو یہ دیکھ کر شدید  صدمہ پہنچا کہ اس ڈھابے کی جگہ ایک بلند و بالا ریسٹورنٹ تعمیر ہو چکا ہے ۔ ساتھ میں ڈیکوریشن پیسز اور جیولری کے سٹال لگ چکے ہیں ۔ جن کی قیمت ہوشربا تھی ۔ جس قیمت میں وہاں سے بہترین چکن تکہ کھا کر لوگ نکلتے تھے اب اسی قیمت میں اس ہائی فائی ریسٹورنٹ سے آپ چائے بھی نہیں پی سکتے ۔ جس پہاڑی کی چوٹی سے لوگ شہر کا دلکش نظارا کیا کرتے تھے اب وہاں اونچی اونچی دیواریں بنا دی گئی ہیں ۔ نیچے نظارا کرنا بیحد مشکل ہو گیا ہے ۔ ظاہر ہے اس ریسٹورنٹ کا فضلہ اس جگہ سے اسی پہاڑی سے نیچے گرا کر اس کے جنگل اور چھوٹی چھوٹی خوبصورت آبگاہوں کو برباد کر رہا ہے۔ عام آدمی کے اس سیاحتی مقام کو ہائی جیک کر کے اشرافیہ اور دو نمبر مالداروں کا  خصوصی ٹھکانہ بنا دیا گیا ہے ۔ جب کہ ان لوگوں کے لیئے وہاں پہلے سے ہی ایک گیسٹ ہاوس موجود تھا ۔  تو اسے عام آدمی کی پہنچ سے دور کیوں کر دیا گیا ہے ۔ ایک عجیب سے نحوست برستی دکھائی دی وہاں ۔ کوئی رش بھی نہیں تھا۔ ظاہر ہے ڈھائی سو روپے کی چائے کی ایک پیالی  پینے ایک عام آدمی تو فیملی کے ساتھ وہاں جانے سے رہا ۔ 
دوسرا سیاحتی مقام جہاں ہر بار ہمارا جانا ہوتا ہے وہ ہے مالاکنڈ (کے پی کے ) مالاکنڈ کا بڑا بس اڈا بٹخیلہ کی خوبصورت اور زور آور نہر کے کنارے واقع ہے ۔ اس کے پل کے آر پار مارکیٹ اور بازار اب کافی زیادہ بن چکے ہیں ۔ یہ ایک مقامی اہم بس اڈا ہے ۔ یہیں سے ہمیں لوکل طور پر کہیں جانے کے لیئے  جہاں بیس سال پہلے تک  تانگے چلا کرتے تھے وہاں اب چینکچی ،رکشہ ، سوزوکیاں اور پرائیویٹ گاڑیاں بھی مل جاتی ہیں ۔ یہاں کی اچھی بات یہ پرائیویٹ آرام دہ گاڑیاں ہیں جنہیں آپ روک کر پوچھ سکتے ہیں کہ آپ فلاں جگہ تک جا رہے ہیں کیا ؟اگر وہ کہے ہاں تو آپ اس سے کرایہ پوچھ کر بے خطر اس کے ساتھ بیٹھ کر سفر کر سکتے ہیں اور وہ آپ کو باحفاظت آپ کے مطلوبہ مقام پر اتار دیتے ہیں ۔ ویسے تو یہاں کے لوگ بیحد مددگار اورمخلص ہوتے ہیں  لیکن اگر آپ  اکیلے ہیں یا زبان نہیں جانتے تو  ایسا رسک نہ ہی  لیں تو اچھی بات ہے۔ کسی زبان جاننے والے کو ساتھ لے لیں تو بہتر  ہو گا  ۔ یہاں کے اکثر نوجوان لوگ اردو جانتے بولتے اور سمجھتے ہیں ۔ اس نہر کے کنارے قانونی طور پر تعمیرات کی اجازت نہیں تھی لیکن اس بار جو دیکھا وہ بیحد افسوسناک تھا ۔ اس نہر کے ساتھ ساتھ کئی مقامات پر گھر اور ہوٹلز بنا دیئے گئے ہیں جس کا فضلہ اس نہر کی جانب گرایا جا رہا ہے ۔ اگر اسے فوری طور پر نہ روکا گیا تو یقین جانیئے یہ خوبصورت رواں دواں تاریخی نہر  راولپنڈی کے نالہ لئی کی صورت اختیار کر جائے گی ۔ خدا کے لیئے اس جانب توجہ دیجیئے اس نہر اورباقی تمام نہروں  اورندیوں کو نالہ بننے سے بچایئے ۔ دنیا سے سیکھیئے کہ وہ اپنی سیرگاہوں ، نہروں اور آبی گزرگاہوں کی کیسے حفاظت کرتی ہیں ۔ حکومت وقت کو اس پر فوری اقدام لینا چاہیئے ۔۔ایک اور اہم ترین مسئلہ  اسی بٹخیلہ سے جب درگئی کی جانب جانے کے لیئے روانہ ہوتے ہیں تو انخلاء پر ہی اس قدر شدید ٹریفک جام  کا سامنا کرنا پڑتا ہے کہ اس وقت میں باآسانی ایک شہر سے دوسرے شہر تک سفر کیا جا سکتا ہے ۔ اس پر توجہ دیجیئے۔ یہاں ٹریفک سگنلز لگائیے۔ گول چکر بنایئے اور باقاعدہ ٹریفک پولیس تعینات کیجیئے ۔ یہیں سے گزر کر مینگوہ، سوات ، کافرستان اور مالم جبہ کی گزرگاہوں تک پہنچا جاتا ہے اسے نظر انداز کرنا سیاحتی نقطہ نظر سے بھی نقصان دہ ہے بلکہ مقامی آبادیوں کے لیئے بھی باعث آزار ہے ۔ سیاحتی مقامات کے حسن کو بچایئے اور اس کے نزدیک آبادیاں  بنانے اور ہوٹلز کی تعمیرات کو روکنے کے لیئے فوری اقدامات کیجیئے ۔ ورنہ خدانخواستہ  یہ قدرتی نظارے بھی "ہیں" سے "تھے" میں جا کر کھو جائینگے ۔ 
                       ۔۔۔۔۔۔۔

شاعری / /مدت ہوئ عورت ہوۓ/ ممتاز قلم / سچ تو یہ ہے/ اے شہہ محترم/ سراب دنیا/ نظمیں/ پنجابی کلام/