ممتازملک ۔ پیرس

ممتازملک ۔ پیرس
تصانیف : ممتازملک

منگل، 30 اکتوبر، 2012

● [38) یہ مائیں کیوں مر جاتی ہیں/ شاعری ۔ مدت ہوئی عورت ہوئے


[38] یہ مائیں کیوں مر جاتی ہیں؟

yeh   maein   kyon   mer   jati     hain


پوچھ رہا ہے ننھا منّا بچہ مجھ سے
pooch raha hai nanha munna bchcha mujh se 


آنکھوں میں خوابوں کو بھر کر
aankhoon mein khaboon ko bher kr
پھر اِن میں کچھ سپنے دے کر
phir in mein kuch sapne de kr
مجھ کو اِک نئی راہ کھڑا کر
mujh ko ik nai rah khara kr
منزل کی پرچھائیں دے کر
manzil ki perchaein dy kr
چھپ سے کیوں چھُپ جاتی ہیں
chap se kiyon chup jati hain
یہ مائیں کیوں مر جاتی ہیں
ye maain kiyon mr jati hain

بستہ لیکر آج صبح جب
basta le kr aaj subah jab
میں اِسکول کو جاؤں گا
main iskool ko jaon ga
ماتھا چومنے والی کو جب
matha chomne wali ko jab
سامنے میں نہ پاؤں گا
samne main na paon ga
اُس کا لمس ہوائیں مجھ کو
os ka lams hawaein mojh ko
اب تک دے کر جاتی ہیں
ab tak de kr jati hain
یہ مائیں کیوں مر جاتی ہیں
ye maein kiyon mr jati hain

جب اِسکول سے آتا ہوں میں
jab iskool se aata hoon main
اُس کو پھر نہ پاتا ہوں میں
os ko phir na pata hoon main
تنہا بیٹھ کے ٹیبل پر
tanha baith k tabel pr
تنہا ہی کھانا کھاتا ہوں میں
tanha hi khana khata hoon main
لُقمہ بھی اب میرے منہ میں
luqma bhi ab mere monh mein
وہ تو رکھ نہ پاتی ہیں
wo to rakh na pati hain
یہ مائیں کیوں مر جاتی ہیں
ye maain kiyon mr jati hain

رات اکیلا بستر پر میں
raat akaila bister pr main
ہلکے سسکی لیتا ہوں
halke siski leta hoon
ہاتھ کو رکھ کر آنکھوں پر
hath ko rakh kr aankhoon pr
میں تجھ کو صدائیں دیتا ہوں
main tujh ko sdaein deta hoon
کیا میری آوازیں بھی اب
kia meri awazein bhi ab
تجھ تک پہنچ نہ پاتی ہیں
tujh tak pohonch na pati hain
یہ مائیں کیوں مر جاتی ہیں
ye maein kiyon mr jati hain

پہلے تو سینے سے اپنے
pehle tu seene se apne
مجھے لگا کر سوتی تھی
mujhe laga kr soti thi
چوٹ مجھے لگ جاتی تو
chout mujhe lag jati to
تُو مجھ سے پہلے روتی تھی
tu mujh se pehle roti thi
نیند مجھے نہ آتی تو
neend mujhe na aati to
رس کانوں میں ٹپکاتی ہیں
ras kanoon mein tapkati hain
یہ مائیں کیوں مر جاتی ہیں
ye maain kiyon mr jati hain

تیرے بعد میں جتنے سال جیا
tere baad main jitne saal jia
ہر لمحہ گنتی کرتا ہوں
hr lamha ginti krta hoon
تیری یاد کے لمحے جیتا ہوں
teri yaad k lamhe jita hoon
پھر اِس کے بعد میں مرتا ہوں
phir is k baad main mrta hoon
جو ٹیس ذہن میں اُٹھتی ہیں
jo tees zehen mein othti hain
دل تک وہ تڑپ کر جاتی ہیں
dl tak wo tarap kr jati hain
یہ مائیں کیوں مر جاتی ہیں
ye maain kiyon mr jati hain
●●●
کلام: ممتازملک 
:مجموعہ کلام
مدت ہوئی عورت ہوئے 
:اشاعت
2011ء
●●●

پیر، 29 اکتوبر، 2012

● [37] حیرت/ شاعری ۔ مدت ہوئی عورت ہوئے





[37حیرت

HEIRAT


ہر بار قدم سوچ کے رکھتی ہوں جہاں میں
hr baar qadam soch k rakhti hoon jahan mein
رفتارِ جہاں مجھ کو پنپنے نہیں دیتی
raftar e jahan mujh ko panapne nahi deti
ہر اشک پہ پہرا ہے ہر آہ پہ قدغن
hr ashq pe pehra hai hr aah pe qadghen
یہ قتل تو کرتی ہے تڑپنے نہیں دیتی
ye qatl to kerti hai tarapne nahi deti
کس طرح اپنی ذات کا حصہ اسے سمجھوں
kis tarah apni zaat ka hissa osey samjhoon
جو آنکھ کو خطرے میں پھڑکنے نہیں دیتی
jo aankh ko khatre mein phrakney nahi deyti
چنگاریوں سے کھیلنے کا شوق پھر اس پر
chingarion se khelne ka shooq phir os pr
اُمید یہ کہ آگ بھڑکنے نہیں دیتی
ommeed ye k aag bharakne nahi deyti
اِنصاف کا پیمانہ جہاں سے وہ خریدیں
insaf ka paimana jahan se wo kharidein
فطرت میری اُس سمت لپکنے نہیں دیتی
fitrat meri os samt lapakne nahi deti
ممّتاز کیسے نیند کی رخصت پہ میں جاؤں
Mumtaz kaise neend ki rukhsat py main jaon
حیرت تو پل کو آنکھ جھپکنے نہیں دیتی
hairat to pal ko aankh 
jhapakne nahi deti
●●●

● [36] کاجل / شاعری ۔ مدت ہوئی عورت ہوئے


(36)  کاجل
KAJAL


اِنسان زمانے میں بھلا کیا نہیں سہتا
حالات کا دریا کبھی اِک رُخ نہیں بہتا
insan zamane mein bhala kia nahi sehta
halat ka derya kbhi ik rukh nahi behta

اپنا ہی جگر خون کیئے جاتا ہوں ہر دم
پھر بھی تُو سمجھتا ہے کہ میں کچھ نہیں کہتا
apna hi jiger khoon kiye jata hoon hr dum
phir bhi to samajhta hai k main kuch nahi kehta

کچھ دیر کا صدمہ ہے کچھ دیر کا غم ہے
اب دل میں میرے کوئی مسلسل نہیں رہتا
kuch dair ka sadma hai kuch dair ka gham hai
ab dl mein mere koi mosalsal nahi rehta

کوئ بھی جدا ہو یہ ہمیں یاد ہے رکھنا
کاجل بھی سدا آنکھ کے گھر میں نہیں رہتا
koi bhi juda ho ye hamein yad hai rakhna
kajal bhi sada aankh k ghar mein nahi rehta

چٹکی ہوئ کلیاں ہوں کھلتے ہوۓ گُل ہوں
موسم کے بدلنے کو ہر ایک ہے سہتا
chatki hoi kalyan hoon khilte hoey gul hoon
mosam k badalne ko hr aik hai sehta

ممّتاز بتایا ہے یہ صدیوں نے گھڑی کو
جو آنکھ جھپک جاۓ وہ ہی پل نہیں رہتا
Mumtaz bataya hai ye sadyon ne ghari ko
jo aankh jhapak jaey wohi pal nahi rahta
●●●
کلام : ممتازملک
مجموعہ کلام :
 مدت ہوئی عورت ہوئے
اشاعت:2011ء
●●●

● [35] دوست مار/ نظم ۔مدت ہوئی عورت ہوئے


[35 دوست مار

DOST MAAR


[35 دوست مار

DOST MAAR


کس طرح سے جانے لوگ
kis tara se jane loog
اپنے ایک چہرے پر
apne aik chehre pr
شانِ بےنیازی سے
shan e beniyazi se
دوسرا سجا چہرہ
dosra saja chehra
کہتے ہیں مکّاری سے
kehte hain makkari se
آؤ دوستی کر لیں 
aao dosti kr lein
مجھ سے دوستی ماروں
mujh se dosti maroon
کو یہ خوب ڈستے ہیں
ko ye khoob daste hain
اعتبار کو چاٹیں
aitbar ko chatein
اور خلوص کو چوسیں
aur kholoos ko chosein
مجھ سے یہ توقع بھی
mujh se ye twqqa bhi
دوستی کا دم بھر لیں
dosti ka dam bhar lein
یاخدایا دنیا میں
ya khudaya duya mein
بےضمیر لوگوں کو
be zameer logon ko
اِتنی چھوٹ کیوں دی ہے
itni chot kiyun di hai
کیا یہ ہو نہیں سکتا
kia ye ho nahi sakta
اپنے سارے کرموں پر
apne sare kermon pr
یہ کبھی شرم کر لیں
Ye kbhi sharam kr lein
دوسروں کو لُوٹیں اور
dosron ko lutein aur
مانگ کر یہ کھاتے ہیں
mang kr ye khate hain
بِسکِٹوں پہ سونے کے
biskitoon pe sone k
بیٹھ کر یہ گاتے ہیں
baith kr ye gate hain
دنیا سے بھی جانا ہے
dunya se bhi jana hai
سوچ کر کرم کر لیں
soch kr karam kr lein 
  ●●●       
کلام: ممتازملک      
:مجموعہ کلام   
مدت ہوئی عورت 
ء2011:اشاعت  
    ●●●       .

● [34] دنیا والے/ شاعری ۔ مدت ہوئی عورت ہوئے


[34]  دنیا والے

DUNYA WALE



 (34) دنیا والے

DUNYA WALE


زہن کی سنتے ہیں دنیا والے
zehn ki sunte hain dunya wale
عشق والے تو فقط دل کی سنا کرتے ہیں
ishq wale to faqat dl ki sona kerte hain
پھول والوں کی گلی چھوڑ کے یہ
phool waloon ki gali chorr k ye
خود سے ہی کانٹوں بھری راہ چُنا کرتے ہیں
khud se hi kantoon bhari rah chuna kerte hain
دنیا والے جو اُدھیڑیں کبھی محنت سے بُنے
dunya wale jo odheirrein kabhi mehnat se bone
یہ بڑے پیار سے اُدھڑے کو بُنا کرتے ہیں
ye bare pyar se odhre ko buna kerte hain
ہم دیئے شام کی دہلیز پہ رکھ دیتے ہیں
hum diye sham ki dehleez py rakh dete hain
جب بھی قدموں کی کوئی چاپ سنا کرتے ہیں
jab bhi qadmon ki koi chap sona kerte hain
اچھے لفظوں کو یونہی بانٹتی رہنا ممّتاز
achey lafzoon ko yonhi banti rehna Mumtaz
ہاتھ زخمی ہی سدا پھول چنُا کرتے ہیں
hath zakhmi hi sada phool chona kerte hain
●●●
کلام: ممتازملک 
:مجموعہ کلام 
مدت ہوئی عورت ہوئے 
:اشاعت 
2011ء
●●●

اتوار، 28 اکتوبر، 2012

بھید کی مٹھی / BHEID KI MOTHTHI


 بھید کی مٹھی

[ ممتاز ملک ۔پیرس ]
آج پھر ایک بیوی اپنے نشہ باز شوہر سے پٹ کر لائن میں آٹھ بچے کھڑے کر کے اپنے غم کی کہانی سناتی ہوئ نظر آئ ۔ میاں نے اسکی آواز پر ایک اور الٹا ہاتھ گھما کر اس کی پشت پر رسید کیا ۔اور غراتے ہوۓ بولا تیرے باپ کا کھاتے ہیں جو میرے بچے گن رہی ہے ۔ میں جتنی مرضی لمبی لائن لگاؤں اپنے بچو ں کی ۔تمہیں اسسے کیا ۔ ایک راہگیر سے یہ سب سن کر صبر نہ ہو سکا تو اس نے بھیبیوی کو پیٹتا ہوا ہاتھ جھٹکا دیکر پکڑ لیا ۔اور اس کی بیوی  اس کے چنگل سے      چھڑاتے ہوۓ بولا،،،،،،،،،،،،،،،                                     
بڑا افسوس ہے آپ کی بات پر ۔ آپ نے کیا خود کو بابا آدم سمجھ لیا ہے یا پھر ہر عورت کو اماں حوا سمجھ کر اسے بچے پیداکرنے کا سامان بنا لیا ہے ۔ کھانے کو دو وقت کی روٹی تو مرد پیدا کر نہیں سکتا اس کے لیۓ بھی اپنی بیوی کو گھروںمیں پوچھا لگانے تک بھیجتا ہے تو اپنی مردانگی کی نویں نشانی بھی ساتھ چپکا دیتا ہے ۔اسے بھی زبردستی خوش خبری  کا نام دے دیتا ہے خود نالیوں کے کنارے بیٹھا اسی بیوی کی مزدوری چھین کر دھویں میں اڑا رہا ہوتا ہے ۔،[ تو کہیں پر اونچےدرجے میں پہنچ جاتا ہے تو اپنی ترقی کے لیۓ اپنی ہی بیوی کو اپنے افسر کو خوش کرنے کے بھی بھیج دیتا ہے ] یہ نو بچے جنکو پیٹ بھر کھانا نہیں ملتا تن ڈھانپنے لائق کپڑا نہیں ملتا سکولوں میں مرد استادوں اور مولویوں سے جنسی بد فعلی کا شکار ہو کرخوف اور بیچارگی میں پروان چڑھتے ہوۓ عمر کی دسویں منزل پر بمشکل قدم رکھنے جاتے ہیں تو دس سال کی عمر تک یہبدقماشوں کا روپ دھار چکے ہوتے ہیں ان بچوں کے اندر ایک شیطان بدروح پیدا ہو چکی ہوتی ہے ۔                                                         
جو صرف روٹی اور کپڑے کی لالچ کے لیۓ کوئ بھی قیمت ادا کرنے کے لیۓ تیار ہوتے ہیںاب وہ قیمت کسی کا سر ہو یا ان کا اپنا جسم ۔                                                            
اور بار بار جو مولوی صاحبان یہ راگ الاپ کر ان پڑھ ۔،جاہل قوم کو یہ سبق پڑھاتے ہیں کہ ھر انسان اپنا رزق لے کر آتا ہے ۔ تو یہ کیوں نہیں پڑھاتے کہ رزق ڈھونڈنے بھی اس انسان کو ایک عمر ،ایک تعلیم اور تربیت کے بعد جانا ہوتا ہے گھر
بیٹھے منہ میں نوالہ تو پیغمبروں کے بھی خدا نے کبھی نہیں ڈالا ۔ یہ مولانا صاحبان خود بھی گھر میں ہی کیوں نہیں بیٹھ جاتے  کہ ان کا رزق بھی خدا نے تو لکھ ہی دیا ہے منہ میں    بھی خود ہی پڑ جاۓ گا ۔                                              
اللہ پاک نے ہر کام کو ایک سسٹم کے تحت رکھا ہے ۔اس سسٹم سے باہر یا خلاف جو بھی جاتا ہے تباہ ہوجاتا ہے ۔اللہ نے کسی زمانے میں اونٹ کو حرام کیا تو کسی میں حلال کر دیا ۔کیوں ،،،، کیوں کہ جب اونٹ دنیا سے نایاب ہونے لگا تو اللہ پاک نے اس کا کھانا حرام قرار دیکر اس کی نسل کو بچانے کا سامان کیا جب اس کے نسل خوب پروان چڑھی تو اس کو کھانا بھی حلال کر دیا تاکہ جیسے جیسے اس کی نشونما ہو گی اسی  طرح اسےانسان استعمال بھی کرتا رہے گا ۔                       
اسی طرح جب جب انسان کی تخلیق کے بعد آبادیوں کو آباد کرنا تھا انسان کو زیادہ اولاد کی ضرورت بھی رہی ۔لیکن اس وقتہمارے ضروریات بہت محدود تھیں ۔دوٹائم کی سادہ خوراک جس میں ایک ٹائم گھر کا بنا اچار بھی چل جاتا تھا سال
بھر میں دوجوڑے سادے سے عیدین پر اور بہت ہوا تو ایک جوڑا سال بھر کے لیۓ سکول کا دو جوڑے جوتے کے ۔
لو جی سال خوشی سے گزر گیا ،آج ہم میں کوئ ان چیزوں پر سال گزار کر تو دکھاۓ ۔ تو جیسے جیسے زندگی گزرنے کے اسباب بدلے تو بہت ساری باتیں جو کل ضروری نہیں تھیں آج ضروریاتکا روپ دھار چکی ہیں ۔آج ٹی وی بھی ضروری ہے تو فون کے بنا بھی گزارا مشکل ہے نیٹ بھی ضروری ہے
تو گاڑی کے بنا بھی کہیں جانا بہت مشکل ہے تو کہیں جہاز کے بنا سفر ناممکن ہے اعتراض کرنے والے مولوی
حضرات معذرت کے ساتھ آج بھی کم ازکم حج ہی کرنے کے لیۓ اونٹ پر سفر کیوں نہیں کرتے
کیوں کہ یہ ان کے لیۓ آج کے زمانے کی آسانی ہے۔
تھوڑے وقت میں بہت سا کام کرنے کے لیۓ وقتی سہولتوں کو استعمال کرنا ان کے لیۓ مفید ہے تو اسی طرحہر وہ چیز جو آج کے زمانے میں خدائ احکام سے ٹکراۓ بغیر ہمیں آرام پہنچاۓ ہم سب کے لیۓ بھی وہ اتنی ہی اچھی ہے ۔ اور جب اللہ نے خود فرما دیا کہ اس نے اس کائنات میں انسان کے لیۓ مختلف راز پوشیدہ کر رکھے  ۔ ہیں تو اسے ڈھونڈنا تو گویا
 انسان کے لیۓ اللہ کا حکم ہے ۔جب حکم ہے تو آپ کیسے ڈھونڈیں گے کیا کندھے پر پوٹلی
باندہ کر ناک کی سیدھ میں چلتے ہوۓ ۔نہیں ،،،،،،،،،بلکہ اسکے لیۓ آپ نے جو ڈھونڈنا ہے اس کے متعلق باقاعدہ
علم حاصل کریں گے ۔اور اس علم کی روشی میں خدا کے چھپے ہوۓ رازوں کو جاننے کا کام کریں گے اور جب آپ کی
محنت کو رب تعالی قبول فرماۓ گا ،
تو اس کی رحمت مسکرا کر اپنے بھید کی مٹھی آپ کے سامنے کھول دے گی ۔
بس آپ کا نام کامیاب لوگوں میں لکھ دیا جاۓ گا کیوں کہ اللہ نے آپکی محنتوں کو قبول کر لیا ۔ یہ ہی جذبہ لیکر جب بھی
کوئ مسلمان چلنے کا ارادہ کرتا ہے ہمارے ہی میر صادق اور میر جعفر انگریزوں کے زرخرید بن کر اسے راستے سے ہٹانے کےلیۓ سرگرم عمل ہو جاتے ہیں ۔کہیں ان پرعزم لوگوں کو زہر دے دیا جاتا ہے کہیں گولی مار دے جاتی ہے کہیں معزول کر دیا جاتا ہے کہیں ان کی اتنی کردار کشی اور تذلیل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ دوبارہ وہ شخص کسی بھی اچھےکام کے لیۓ خواب میں بھی نہ سوچے ۔
کہیں اسے دھمکیاں دی جاتی ہیں تو کہیں رشوتیں ۔ یعنی ان بدمعاش قوتوں سے جو بن پڑتا ہے وہ کرتی ہیں ۔ اگر یہ شیطانی قوتیں اس قدر متحد ہو سکتی ہیں تو کیا بات ہے ایمانی قوتیں کیوں اکٹھیہو کر اچھے کام کرنے والوں کو تحفظ فراہم نہیں کرتیں ۔ ملالہ یوسف زئ پر جو لوگ یہ اعتراض کرتے ہیں کہ اس نےاوبامہ کو اپنا آئیڈیل کہا تھا یہ اس کا جرم ہے تو بچے تو چاند کو بھی چندا ماما کہتے ہیں ۔کیا ان پر بھی فتوی  لگا دیا جاۓ ۔                                                               
کئ لوگ تو کے ایف سی پر لگی بابا جی کی فوٹو کو اپنا نانا جان تک کہہ دیتے ہیں ۔کیا انہیں سولی پر چڑھا دینا چاہیۓ ۔
یہ ہر بچے کی اپنی اپنی وقتی سوچ ہوتی ہے ۔جو وقت کے ساتھ ساتھ بدلتی رہتی ہے ۔ہمارے مولانا حضرات بچوں
کی باتوں پر جلنے کی بجاۓ اپنا طرز عمل اوراپنی زندگی کو اتنا خوبصورت آسان نمونہ بنائیں کہ ہمارے بچے ان کے
کہنے کی بغیر ہی ان جیسا بننے کی آرزو کریں ۔ کوئ بھی کسی کا آئیڈیل ڈنڈے کے زور پر نہیں بن سکتا ۔
ایک اور دوووووووووووووووووووووووووووووور
کی کوڑی لایا کہ جیسے حضرت موسی علیہ السلام اور حضرت خضر علیہ السلام کے ساتھ
سفر کے دوران حضرت موسی علیہ السلام نے یہ کہہ کر ایک بچے کو مار دیا ، کہ کل کو یہ بچہ زمین پر فساد برپا کرے گا ۔
تو اسی طرح ہم نے بھی اس بچی کو اس لیۓ مارا کہ آئندہ کے لیۓ یہ بچی فساد کا باعث بنے گی ۔تو کوئ پوچھے اس نیم
حکیم سے کہ بھائ تمہاری اوقات کیا ہے۔ تم موسی ہو یا پھر خضر کہ تمہیں یہ فیصلہ کرنے کا اختیار مل گیا کہ کون
فساد برپا کرے گا اور کون امن قائم کرے گا ۔ پھر اس قانون کے تحت تو سب سے پہلے اس کہنے والے کے ساتھیوں کو چاہیۓکہ اس کا خاتمہ کر دیں کہ اس کہنے والے کی وجہ سے تو سب سے زیادہ زمیں پر فساد برپا ہے ۔اور یہ تو ہر کوئ جانتا ہےکہ اللہ نے قرآن میں واضح طور پر فرما دیا کہ
،،اللہ زمین پر فساد پھیلانے والوں کو پسند نہیں  کرتا۔،
لہذا علم کے راستے پر کوئ بھی چلے ۔کسی کو حق نہیں ہے کہ اگر وہ اسکا راستہ آسان نہیں کر سکتا تو اسے
اس کی راہ میں کانٹے بچھانے کا اختیار بھی کسی قیمت پر نہیں دیا جا سکتا ۔
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،        

اتوار، 21 اکتوبر، 2012

● [33] معصوم لڑکیاں/ شاعری ۔ مدت ہوئی عورت ہوئے


[33] معصوم لڑکیاں

MASOOM LARKIYAN


[33] معصوم لڑکیاں

MASOOM LARKIYAN

کتنا عجیب شخص ہے یہ جانتے ہوۓ
kitna ajeeb shakhs hai ye jante hoye
میں اور ہی گلی کی کسی راہگیر ہوں
main aur hi gali ki kisi rahgeer hoon
پھر بھی بچھا کے پھول میرا منتظر رہا
phir bhi bicha k phool mera muntazir raha
اور چاہتا ہےراستے بھی دلپذیر ہوں
aur chahta hai raste bhi dlpzir hoon
مجھ کو نہیں یہ وقت اِجازت ہے دے رہا
mujh ko nahi ye waqt ijazat hai de raha
ہنسنے سے میرےلوگ کئی اشک گیر ہوں
hany se mere loog kai ashqgeer hoon
اپنی خوشی سے کون جیا کون مر سکا
apni khushi se kon jia kon mer saka
یہ حادثے ہیں جاء بجاء جو بغلگیر ہوں
ye hadse hain ja bja jo baghlgeer hoon
معصوم لڑکیاں ہیں جوصیّاد و پنجرہ
masoom larkiyan hain jo syyad o pinjra
خود ڈھونڈتی ہیں خود ہی اسکی اسیر ہوں
khud dhondti hain khud hi os ki aseer hoon
ممّتاز کون اپنی خوشی سے یہ چاہے گا
Mumtaz kon apni khushi se ye chahe ga
دامن بھرے ہوں پھر بھی لہجے فقیر ہوں
daman bhare hoon phir bhi lehje fqeer hoon
●●●
کلام:ممتازملک 
:مجموعہ کلام 
مدت ہوئی عورت ہوئے 
:اشاعت 
2011ء
●●●


● [32] غُنچہ/ شاعری ۔ مدت ہوئی عورت ہوئے


[32] غُنچہ

GHONCHA


[32] غُنچہ

GHONCHA


اپنے اور اُسکے بیچ کے پردے گرا دیئے 
apne aur os k beech k perde gira diye
سارےہی حجابات جو آکر ہٹا گئے
sare hi hijabat jo aa kr hata gaye

لفظوں کی سلوٹوں کو تھا یوںدُور کر دیا
lafzoo ki silwatoon ko tha yon door kr dia
شِکنیں میرے خیال کی ساری مِٹاگئے
shiknein mere khayal ki sari mita gaye

کتنے دِنوں سے کرب میں یہ دل تھا مبتلا 
kitne dinon se karb mein ye dl tha mubtila
مجھ کو ہر ایک درد کی دے کر دوا گئے
mujh ko hr eik dard ki de kr dawa gaye

دل کو کسی لمحے کبھی آزاد بھی 
چھوڑو 
dl ko kisi lamhe kbhi azad bhi chorro
مجھ کو وہ ہنس کے بات یہ گُر کی بتا گئے
mujh ko wo bat has k ye gur ki bata gaye

اپنے نصیب پر کبھی تکیہ تو کر کے دیکھ 
apne naseeb pr kbhi takia to kr k dekh
کیسے وہ خشک ٹہنی کا غنچہ بنا گئے
kaise wo khushk tehni ka ghuncha bna gaye

جس سے ہے مجھ کو پیار بڑا بے مثال ہے 
js se hai mujh ko pyar brra bemisal hai
اِک لفظ سے وہ سارے ویرانے بسا گئے
ik lafz se wo sare wirane bsa gaye 

ممّتاز اس کےنام کی تسبیح کر کے دیکھ 
Mumtaz os k naam ki tasbih kr k dekh
کیسے وہ اطمینان کی دنیا بسا گئے
kaise wo itminan ki dunya bsa gaye
●●●
کلام: ممتازملک 
:مجموعہ کلام
مدت ہوئی عورت ہوئے 
:اشاعت 
2011ء
●●●


ہفتہ، 20 اکتوبر، 2012

● [31] اکثر / شاعری ۔ مدت ہوئی عورت ہوئے


[31] اکثر

akser


[31] اکثر

akser


جب درد کی زنجیر ہلا کرتی ہے اکثر
jab dard ki zanjeer hila kerti hai akser
ہم اپنے وطن کو بھی مڑا کرتے ہیں اکثر
hum apne watan ko bhi murra karte hain akser
آزادی کی تحریک پرندوں میں بھی جاگے
aazadi ki tehreek parindon mein bhi jage
تو لے کے جال کو بھی اُڑا کرتے ہیں اکثر
to le k jaal ko bhi urra kerte hain akser
یادوں کی گرد جھاڑنے بیٹھوں جو ذہن سے
yadoon ki gard jharrne baithoon jo zehn se
کیا کیا حسین لمحے جھڑا کرتے ہیں اکثر
kia kia haseen lamhe jhara kerte hein akser
دہلیز پہ ماضی کے قدم سوچ کے رکھنا
dehleez pe mazi k qadam sooch k rakhna
ہر ایک قدم ہم تو اڑا کرتے ہیں اکثر
her eik qadam hum to arra karte hain akser
کچھ وقت سے میں قیمتی لمحوں کو چُرا لوں
koch waqt se main qeemti lamhoon ko chura loon
اِس بات پہ دل زہن بھِڑا کرتے ہیں اکثر
is bat pe dil zehn bhirra kerte hain akser
جو دُور ہیں اُن کے لیئے خوں رنگ ہیں آنکھیں
jo door hain on ke liey khoon rang hain aankhein
جو ساتھ ہیں وہ ِاس پہ چِڑا کرتے ہیں اکثر
jo sath hain wo is pe chirra kerte hain akser
ہم کہتے ہیں ممّتاز کا دل چیر کے دیکھو
hum kehtey hain Mumtaz  ka dil cheer k dekho
جو شرم سے خود بھی تو گڑا کرتے ہیں اکثر
Jo  shrm se khud bhi to garra kerte hain akser
●●●
کلام: ممتازملک 
:مجموعہ کلام 
مدت ہوئی عورت ہوئے 
:اشاعت 
2011ء
●●●

● [30] پیاس / شاعری ۔ مدت ہوئی عورت ہوئے

(30) پیاس

PYAS


[30] پیاس

PYAS

کبھی دیکھا کسی پیاسے کو
Kabhi dekha kisi pyase ko
اُس کی آنکھ میں آنسو نہیں ہوتا
os ki aankh mein aansoo nahi hota
وہ دھاڑیں مار کر
wo dharrein maar kr
میری طرح
meri tarah
تیری طرح
teri tarah
ہر گز نہیں روتا
hr giz nahi rota
لۓ ویران آنکھوں کو
liye weeran ankhoon ko
وہ اپنے خشک ہونٹوں پہ 
wo apne khushq hontoon py
زباں سے
zuban se
تر کیئے جانے کی
ter kiye jane ki
اِک
ik
بےنام کوشش سے
be naam koshish se
زبان کو پھیرتا ہے
zuban ko pherta hai
کوئی
koi
کب جانتا ہے
kb janta hai
اس کی تِشنہ خواہشی کو
os ki tishna khahishi ko
 یہ تو وہی بس جانتا ہے
yeh to wohi bus janta hai
جو کبھی اِس بے بسی 
jo kabhi is be basi 
اور
aur
پیاس کے ِاس دورسے
pyas k is daur se
گزرا ہوا ہے
guzra howa hai
اور
aur
 پھر اِس پیاس کی شدت سے 
phir is pyas ki shiddat se
 اِک دن مر گیا ہے
 ik din mer gya hai
●●●
کلام: ممتازملک 
:مجموعہ کلام
مدت ہوئی عورت ہوئے 
:اشاعت 
2011ء
●●●

شاعری / /مدت ہوئ عورت ہوۓ/ ممتاز قلم / سچ تو یہ ہے/ اے شہہ محترم/ سراب دنیا/ نظمیں/ پنجابی کلام/