ممتازملک ۔ پیرس

ممتازملک ۔ پیرس
تصانیف : ممتازملک

اتوار، 15 دسمبر، 2019

کاروان حوا کی ادبی شام/ رپورٹ




کاروان حوا کی ادبی شام
(رپورٹ : ممتازملک)

13 دسمبر 2019ء بروز جمعتہ المبارک 
پشاور میں خواتین لکھاریوں کی معروف تنظیم کاروان حوا نے ایک  بھرپور ادبی نشست کا اہتمام کیا ۔ نشتر آباد پشاور میں عبادت ہاسپٹل کے حق بابا اڈیٹوریم کے خوبصورت ہال میں خواتین کی تنظیمات  شرکت گاہ ،  حورائزن  ، بلیو وینز اور نور ایجوکیشن ٹرسٹ نے پروگرام کو اپنے تعاون سےنوازا۔  پروگرام کی مہمان خصوصی اسلام آباد سے معروف ڈرامہ نگار ، افسانہ نگار اور شاعرہ فرحین چوہدری صاحبہ تھیں ۔ جبکہ مہمان اعزازی محترمہ ممتازملک صاحبہ تھیں ۔ جبکہ خالد مفتی صاحب کو بھی خصوصی طور پر مدعو کیا گیا ۔ تنظیم کی صدر معروف فنکارہ اور ایوارڈ یافتہ شاعرہ محترمہ بشری فرخ صاحبہ  ، جنرل سیکٹری محترمہ فرح اسد صاحبہ نے پروگرام کو خوبصورتی سے منظم کیا ۔
پروگرام کا آغاز نادیہ حسین کی تلاوت کلام پاک سے ہوا ،جبکہ نعت رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم  پیش کرنے کی سعادت تابندہ فرخ کو حاصل ہوئی ۔
 پروگرام کے پہلے حصے میں پیرس سے آئی معروف شاعرہ،د  کالم نگار، نعت خواں ، ٹی وی ہوسٹ ممتازملک کے شعری مجموعہ کلام اے شہہ محترم (صلی اللہ علیہ ) کی تقریب رونمائی پر مشتمل تھا ۔ جس میں شاہین آمین ،سلمی قادر اور عزیز اعجاز صاحب اور خالد مفتی صاحب  نے بھرپور انداز میں ممتاز ملک کے کام اورمجموعہ کلام پر روشنی ڈالی ۔ 
ممتازملک نے اپنے کام پر اتنے خوبصورت انداز میں بات کرنے پر سبھی معزز دوستوں کا دل سے شکریہ ادا کیا ۔ 
پروگرام کے دوسرے حصے میں خواتین پر تشدد کے حوالے سے خواتین کے مشاعرے کا اہتمام کیا گیا ۔ جس میں خواتین نے اردو ، ہندی ، پشتو زبانوں میں شاعری کے زریعے معاشرے  کے اس سنگین مسئلے کو اجاگر کیا ۔
خواتین و حضرات نے  شاعرات کے کلام کو بہت سراہا . شاعرات میں شامل تھیں  ثمینہ قادر ، غزالہ غزل،
شاہین امین ، روشن کلیم ، سلمی قادر، ممتازملک،  بشری فرخ اور فرح اسد شامل تھیں . 
پروگرام کے اختتام پر چائے اور لوازمات سے مہمانوں کی تواضح کی گئی. 
یوں ایک یادگار شام اپنے اختتام تک پہنچی . 
                    ......
                








منگل، 10 دسمبر، 2019

ہمارا ایمان ہمارے ہاتھ/ کالم



         ہمارا ایمان ہمارے ہاتھ
       (تحریر :ممتازملک. پیرس)



ہم نے اکثر لوگوں کو اپنی اولادوں سے یا ایکدوسرے سے یہ کہتے سنا ہے کہ بھئی ہم تو اپنے والدین کے بہت فرمانبردار تھے ، نیک تھے ، مخلص تھے لیکن ہماری اولاد ایسی نہیں ہیں ۔ جانے کیوں؟ 
جبکہ بڑے کہہ گئے ہیں کہ جو بوو گے وہ کاٹو گے۔ ببول کے پیڑ پر آم تو نہیں لگ سکتے ۔ اسی طرح انسان اپنی جوانی میں جو اعمال انجام دیتا ہے اسے بڑھاپے میں انہیں کی جزا اور سزا اس کے ساتھ پیش آئے معاملات میں ملتی ہے ۔ گویا جوانی عمل کے لیئے ہے، تو بڑھاپا سامنے سے ملنے والے ردعمل کا زمانہ ہوتا ہے ۔ 
ہم جب ایسے لوگوں کے ماضی میں یا اپنے گریبان میں جھانکتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ہماری اپنی ہی والدین سے کی ہوئی نافرمانیاں ،بہن بھائیوں سے کی ہوئی ذیادتیاں ، اور دوستوں سے کی ہوئی وعدہ خلافیاں ہی ہماری اولاد میں ان کے اخلاق و کردار کی صورت میں ظاہر ہو جاتے ہیں ۔ پھر ہم خود کو لاکھ فرشتہ ثابت کرنے کی کوشش کریں لیکن سچ کو بدلا نہیں جا سکتا ۔ ہم نے جو بیج جوانی میں بوئے تھے انہیں کا پھل جب پک کر تیار ہوجاتا ہے تو ہم اسے قبول کرنے سے انکار کر دیتے ہیں ۔ 
لیکن اس انکار سے ہم اپنی اولاد کو کیا پیغام دے رہے ہیں ؟ 
کیا یہ نہیں کہ ہم تو بڑے نیک اور باکردار تھے لیکن ہماری اولاد نافرمان اور بےکردار پیدا ہو گئی ہے جس کا مطلب ہے کہ اولاد اپنے ذہن میں اس بات پر یقین کر لے کہ  اچھا ہونے کا کیا فائدہ اس کے بدلے میں ہمیں سزا اور آزمائش ہی تو ملنی ہیں ۔ تو پھر چھوڑو نیک بننے کے چکر کو ۔ جو چاہے وہ کرو ۔ تو کیا اس پیغام سے ہم اپنےاور اپنی اولاد کے  ایمان کو خطرے میں نہیں ڈال رہے ؟ 
جبکہ ہونا تو یہ چاہیئے کہ عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ ہم ایمانداری سے اپنا احتساب کرنے کی جرات کا مظاہرہ کریں ۔ اپنی غلطیوں اور خطاوں کو تسلیم کریں اور اپنی اولادوں کو سمجھائیں کہ آج ہم اگر اپنی اولادوں سے پریشان ہیں یا مالی تنگی کا اور بے سکونی کا شکار ہیں تو اس کی وجہ ماضی میں ہماری اپنے والدین کو دی گئ پریشانیاں اور اللہ کے احکامات کی خلاف ورزیاں ہیں ۔ اللہ کسی پر ظلم نہیں کرتا بلکہ ہم خود اپنی جانوں پر ظلم کرتے ہیں اور جب بڑھاپے میں ہم میں گناہ کرنے کی، بدزبانی کرنے کی،  دھوکے دینے کی ہمت نہیں ہوتی تو ہم سب ہی تسبیح پکڑ کر بیٹھ جاتے ہیں اور  اللہ اللہ کر کے خود کو پارسا ثابت کرنے کی بھرپور کوشش کرنے میں جت جاتے ہیں ۔ کیا ہی اچھا ہو کہ ہم جوانی ہی میں (جب ہم میں جسمانی اور ذہنی طاقت بھی موجود ہوتی ہیں ، اختیارات بھی حاصل ہوتے ہیں ، آسودگی بھی ہوتی ہے )اس بات کا پختہ یقین کر لیں کہ ہمارے آج کے اعمال ہی ہمارے بڑھاپے کے نتائج ہونگے۔ جبھی تو اللہ پاک نے جوانی کی توبہ اور جوانی کہ عبادات کو افضل ترین قرار دیا ہے ۔ 
                     ۔۔۔۔۔۔۔


بدھ، 4 دسمبر، 2019

ساتھی کے چناو میں اہم نکات / کالم


       ساتھی کے چناو میں اہم نکات
         (تحریر:ممتازملک۔پیرس)


آج کل میڈیا کی چکا چوند نے لوگوں خصوصا نوجوانوں کی عقل پر پردے ڈال دیئے ہیں ۔ ہر جوان ہر چمکتی ہوئی چیز کو سونا سمجھ کر اس کے پیچھے بھاگ رہا ہے ۔ اپنی زندگی کے کئی قیمتی سال ان چیزوں کے حصول میں برباد کرتے ہیں تب انہیں اندازہ ہوتا ہے کہ وہ ہیرے سمجھ کر پتھروں کے ڈھیر اکٹھے کرتے رہے ہیں ۔ ایسا ہی ہوتا ہے جب ہم محنت اور عقل و شعور کو طاق پر رکھتے ہوئے مشاورت سے دوری اختیار کرتے ہیں اور خود کو عقل کل سمجھتے ہوئے من مانی راہوں کا انتخاب کرتے ہیں ۔ ایک کہاوت ہے کہ "مشورہ دیوار سے بھی کیا ہو تو کبھی نہ کبھی کام آ جاتا ہے ۔ "
ایسے ہی غلط انتخاب کا شکار ہمارے نوجوان اپنی زندگی کے ساتھی کے انتخاب کے سلسلے میں بھی بہت زیادہ ہیں ۔ اس کا ثبوت آج  کے دور میں طلاق کی بڑھتی ہوئی شرح بھی ہے ۔ شادی کے لیئے ساتھی کا انتخاب کرتے ہوئے کچھ چیزوں اور باتوں کا دھیان رکھنا لڑکے اور لڑکی دونوں کے لیئے بیحد اہم ہے ۔ 
جیسا کہ آج کل میک اپ سے لپی تھپی اور اداوں سے لبریز لڑکیاں لڑکوں کو پاگل کرنے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں ۔ انہیں اگر سمجھایا جائے کہ برخوددار لڑکی کی اصل شکل دیکھ لو اسے گھر سنبھالنے کا کوئی سلیقہ ہے کہ نہیں ، تو جواب آئیگا میں بیوی لا رہا ہوں کوئی کام والی ماسی نہیں ۔  کہو کہ  وہ کھانے پکانے کا کوئی شغف رکھتی ہیں تو شادی پر اتاولے جوان کا جواب آئے گا ، ارے بھئی میں بیوی لا رہا ہوں کوئی باورچن نہیں ۔
بیٹا سوچ لو لڑکی کے لچھن اچھے نہیں ہیں ، چھوڑیں اماں آپ تو ہر لڑکی میں کیڑے نکالتی رہتی ہیں۔ وہ ایسی نہیں ہے ۔۔۔۔
 اور جب شادی کے چار دن کا بخار اترتا ہے تو اسی جوان کو بیوی میں ماسی بھی چاہیئے ، باورچن بھی چاہیئے ، دھوبن بھی چاہیئے ، نرس بھی چاہیئے، گھر کی نگران بھی چاہیئے ۔ وفادار بھی چاہیئے ، باکردار بھی چاہیئے، لیکن اب کیا ہو سکتا ہے "جب چڑیاں چگ گئیں کھیت" تو۔۔۔
اسی طرح لڑکیاں شادی کے بخار میں یہ سوچنا تک بھول جاتی ہیں کہ لڑکا کتنا پڑھا لکھا ہے ، کتنا ہنر مند ہے، کتنا کماتا ہے ، کتنا مہذب ہے،  کتنا باکردار ہے ،
اس وقت وہ بس یہ سوچتی ہیں کہ یہ مجھے جھونپڑی میں بھی بھی  رکھے گا تو میں رہ لونگی ، گھاس بھی کھلائے گا تو میں کھا لونگی ۔ بس اس کا پیار ہی میرے لیئے کافی ہے، کیونکہ اس وقت تک نہ انہوں نے جھونپڑی  دیکھی ہوتی ہے اور نہ ہی گھاس کھائی ہوتی ہے بس خواب فروش شاعروں کی جذبات بھڑکاتی بازاری شاعری پر سر دھن دھن کر خود کو ہوا کے دوش پر سوار کیا ہوتا ہے ۔  ابا کی کمائی پر عیش کر کے انہیں ہر بات کھیل اور مذاق لگتی ہے۔ شادی کے پہلے ہی ہفتے میں جب خوابوں کے  آسمان سے حقیقت کی زمین پر گرائی جاتی ہیں تو دماغ ٹھکانے آتا ہے لیکن چہ معنی دارد ؟؟؟
بیشک عورت کا حسن اور سیرت دونوں ہی چیزیں بیحد اہم ہیں ۔ اگر اس میں اس کے سگھڑ پن اور خوش گفتاری کی خوبیاں بھی شامل ہو جائیں  تو سونے پر سہاگہ ہے وگرنہ خالی خولی حسن والیاں رلتی کھلتی اور تباہ ہوتے ہی دیکھی ہیں ۔ سیانے کہتے ہیں کہ
"روپ والی روئے اور مقدر والی کھائے"

عورت بدشکل بھی ہو تو مرد کیساتھ چل سکتی ہے ، کم پڑھی لکھی بھی چل جائے گی ، غریب بھی چل سکتی ہے ، پھوہڑ بھی شاید برداشت کر لی جائے۔ لیکن بدزبان اور بدکردار لڑکیاں چاہے جنت کی حور جیسی صورت بھی لے آئیں تب بھی چار ہی دن میں لات مار کر زندگی سے نکال دی جاتی ہیں ۔ اور ایسا ہی ہوتا ہے جب مرد کا صبر ختم ہو جاتا ہے ۔ 
جبکہ مرد کمانے کیساتھ حفاظت کرنے اور عزت دینے والا ہو تو گویا عام سی شکل کا مرد بھی اپنی بیوی کا ہیرو ہو سکتا ہے  ۔ اور اگر وہ خوشگفتار اور مزاح بھی مزاج میں رکھتا ہو تو زندگی واقعی آسان ہو جاتی ہے ۔

لیکن شکی ، بدزبان ، نکھٹو اور بدکردار مرد کسی بھی لڑکی کی زندگی میں ایک بددعا کی طرح داخل ہوتا ہے اور اسکے زندگی کے سارے رنگ ، سارے ہنر چاٹ جاتا ہے۔ 
مرد اور عورت کو  اپنی زندگی کے ساتھی میں حقیقت پسندانہ خوبیوں اور خواص کو نظر میں رکھنا چاہیئے ۔ تاکہ ان کی زندگی کے ساتھی میں انہیں ایک بہترین دوست بھی میسر آ سکے ۔ 
                    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔



اتوار، 1 دسمبر، 2019

وقت کی ضرورت فوری پھانسیاں/کالم



  وقت کی ضرورت فوری پھانسیاں
     (تحریر: ممتازملک ۔پیرس)
           
کیا ہی بدنصیبی ہے اس قوم کی کہ جہاں بیٹیاں محفوظ نہ رہیں ، مائیں ہر گھنٹے میں بیدردی سے قتل کر دی جائیں ، بہنیں جلا کر راکھ کر دی جائیں ۔ بچیاں پالنے ہی میں ریپ کر کر کے دفنا دی جائیں ۔ 
اور ان کے قاتل اور  بربادی کے ذمہ داران کو مدعی بنکر یا معافی نامے کی سطروں کے عوض سودے بازی کر کے چھوڑ دیا جائے ۔ ایسے ہی چھوڑے جانے والے لوگ ہمارے ہاں اپنے ہی رشتوں کے لیئے،  پڑوسیوں کے لیئے، ملنے والوں کے لیئے ایک ٹائم بم کی حیثیت اختیار کر جاتے ہیں ۔ اور ان کو یوں معاشرے میں چھوڑ دینا گویا اپنے آپ کو کسی خود کش بمبار کے حوالے کر دینے جیسا ہے جو کبھی بھی ، کہیں بھی پھٹ سکتے ہیں اور اپنے ساتھ بہت سی جانیں کسی بھی بہانے لے سکتے ہیں ۔ ایسے افرادجو ایک بار قتل اور ذیادتی جیسے واقعات میں ملوث ہو چکے ہوتے ہیں وہ دوبارہ زندگی بھر کبھی بھی نہ تو قابل اعتبار رہ سکتے ہیں اور نہ ہی نارمل ۔ 
نفسیاتی طور پر ہلے ہوئے یہ لوگ اپنے اندر کی شیطان کو راضی کرنے کے لیئے کسی نہ کسی کی عزت یا زندگی کی بلی دینے کو شکار کی تلاش میں رہتے ہیں ۔ 
ایسے میں جب نو سال کی بچی کو سنگسار کر کے مار ڈالا جائے ،
کہیں اپنی بیوی کے پیسے خرچ کر دینے والا باپ اس بات کو چھپانے کے لیئے اپنی ہی چھ سال کی مصوم بیٹی کو بلی کا بکرا بنا کر قتل کر دے ،صرف اسے ڈکیتی کا رنگ دینے کے لیئے۔۔۔
جہاں بہنوں کی جائیداد کے حصے ہڑپ کرنے کے لیئے اس کے کردار کی دھجیاں اڑانے  بھائی ان کے مال پر عیش کرنے کے لیئے ان پر تہمتوں کے پہاڑ توڑ کر ان کے کردار کو قتل کر رہا ہو ، ان حالات میں 
پاکستان میں سزائے موت کے قانون پر فوری نفاذ کی جس قدر ضرورت ہے وہ شاید کسی اور ملک میں نہ ہو ۔ 
خدا کے سوا کون ہے جسے انسانی جان یا عزت کے لینے کا اختیار ہے ؟ تو یہ کام اپنے ہاتھوں میں لینے والے مجرمان کو خدائی قانون کے تحت بھی قتل کیا جانا چاہیئے اور انسانیت کے قانون کے تحت بھی ٹکڑے ٹکڑے کر دیا جانا چاہیئے تاکہ اس معاشرے سے بے حسی اور  سنگدلی کی بیخ کنی کی جا سکے ۔ معاشرے کو محفوظ بنانا جن قانون دانوں اور منصفین کا ذمہ ہے انہیں آنکھیں کھولنے اور ہوش میں آنے کی ضرورت ہے کہ وہ ان قوانین پر عمل درامد کو یقینی بنائیں جنہیں سالہا سالہا سے قانون اور دستور کی کتابوں میں  دفن کیا گیا ہے ۔ 
ان مردوں کو ذندہ کیجیئے اس دن سے پہلے کہ جس روز ہمارے مردے حساب کیلیئے ذندہ کر دیئے جائیں ۔ 
                     ۔۔۔۔۔۔۔۔

پیر، 18 نومبر، 2019

سینٹورس کی سیر/ رپورٹ



سینٹورس اسلام آباد
کی سیر
(تحریر:ممتازملک۔پیرس)
کئی دنوں سے سینٹورس کا نام سن سن کر اسے دیکھنے کا اشتیاق ہو چلا تھا لیکن بھلا ہو دھرنے والوں کا کہ اس طرف جانے والے میٹرو کی بندش  سے اور کبھی اپنے دوسرے پروگرامز کی مصروفیات کے سبب ہم جا نہ پائے ۔ لیکن 17 نومبر 2019ء بروز اتوار یہ شوق بھی پایہ تکمیل کو پہنچا۔
میٹرو سے ہی ہم سب پمس اسلام آباد  کے سٹاپ پر اس شاندار سی بلڈنگ کے سامنے اترے۔ باہر سے واقعی بلڈنگ بہت خوبصورت تھی ۔ لیکن اس کے سیکیورٹی انتظامات اور بھی اچھے تھے۔ یہ بالکل ایک بین الاقوامی سطح کا  کثیر المنزلہ شاپنگ مال ہے ۔ جس میں بہت سے انٹرنیشنل برانڈز بھی موجود ہیں ۔ کھانے پینے ، بوتیکس ، کراکری ، جیولری ،  بچوں کی تفریحات غرضیکہ ہر شے موجود ہے ۔ اکثر اشیاء کی قیمتیں یورو،  پاونڈز اور ڈالرز کے متبادل رکھی گئی ہیں جو کہ عام آدمی کی تو پہنچ سے باہر ہیں ۔ پھر بھی ہم 5، 6 ہزار روپے لٹا ہی آئے 🤔😜
مال اتنا بڑا ہے کہ ایک ہی دورے میں اس کی سیر ممکن ہی نہیں ہے اور شاپنگ وہ تو کئی دوروں میں بھی ناممکن 😜
پھر بھی مہذب سے ماحول میں سکون سے گھومنا بہت اچھا لگا ۔ سب سے اچھی بات یہ کہ یہاں اکیلے نوجوانوں کا بنا کسی خاتون کے ساتھ  کے داخلہ منع ہے۔ جس کے سبب ٹھرکیوں اور ٹائم پاس لوگوں سے فیملیز محفوظ رہ کر شاپنگ کر سکتی ہیں ۔ ویسے  میرا بس چلے تو میں یہ حکم سبھی بازاروں پر لاگو کر دوں ۔ ماسوائے ان بازاروں کے جہاں مردانہ شاپنگ ہوتی ہے۔
ایک اور بات، جتنا بڑا مال ہے اتنے ہی یہاں سوٹڈ بوٹڈ خواتین و حضرات کے چور گروہ بھی گھوم رہے ہوتے ہیں ۔ لہذا جب بھی کہیں جائیں تو چوروں اور جیب کتروں اور خود سے ٹکرا کر گزرنے والوں کو نوٹس کر کے "اپنے سامان کی آپ حفاظت" والا پیغام اپنے ذہن میں رکھیں ۔
ایک ہی منزل پر گھومتے ہوئے تھک گئے تو کرکرے اور کوک لیکر باہر نکلے اور خوبصورت فضاء میں سینٹورس کے باہر بنے بنچز پر بیٹھ کر دعوت اڑائی۔ ایک پیاری سی بلی ہم سے خوامخواہ ہی مانوس ہو گئی ۔ اور ہمارے ساتھ ساتھ ہی ہمارے اردگرد گھومتی رہی ۔ اور  ہم اسے کرکرے پیش کریں تو موصوفہ کو پسند نہ آئے ۔ اس کی پسند کا ہمارے پاس کچھ تھا نہیں ۔ پیسوں سے اسے شغف نہ تھا ورنہ کہتے جا بہن کچھ پیسے لے اور جا کر کچھ کھا لے 😁
یوں خوب تھک کر اور پھر آنے کا سوچ  کر میٹرو سے واپسی کی راہ لی۔
ایسے مالز پاکستان سے باہر اور ہمارے ہاں یورپ میں تو عام ہیں لیکن پاکستان اور خصوصا راولپنڈی اور اسلام آباد میں خوبصورت اضافہ ہیں ۔ جسے دیکھ کر خوشی ہوئی ۔ بس ذرا سستا بھی ہو جائے تو کیا ہی بات ہے ۔
پیش ہیں چند تصاویر




بدھ، 13 نومبر، 2019

اعتدال پرملال / کالم



          اعتدال پرملال
    (تحریر:ممتازملک. پیرس)
       


اللہ حسین ہے اور وہ حسن کو پسند فرماتا ہے ۔ حسن کیا ہے ؟ حسن دیکھنے والے کی آنکھ کا ایک زاویہ ہے ، ذہن  کی کوئی اختراع ہے یا اعتدال اور توازن کا کوئی امتزاج ۔ تو یقینا یہ اعتدال و توازن کے میل کا ہی نام ہے ۔ اس کا ثبوت  اللہ کا اپنی مقدس کتاب میں بار بار اعتدال پر رہنے کا حکم ہے ۔ جب تک ہم نے اس حکم کی پاسداری کی ہماری زندگیوں میں سکون رہا ۔ جیسے ہی ہم اس حد کو پار کرتے ہیں، بے سکونی ، پریشانیاں اور جرائم ہماری زندگی میں ناگ کی طرح پھن پھیلا کر بیٹھ جاتے ہیں ۔ بالکل ایسے ہی جیسے بجلی کے سوئچ کا احتیاط اور حفاظتی طریقے سے سوئچ بورڈ میں لگایا  جانا اس کے کرنٹ کو بحفاظت ہمارے آلات کو کام میں لاتا ہے تو وہی سوئچ بورڑ  اگر ڈائریکٹ  انگلیوں سے یا بے احتیاطی سے چھو لیا جائے تو وہی کرنٹ منٹوں میں کسی بھی چیز کو جلا کر خاکستر کر دیگا ۔ 
سمندر جب تک اپنی حد کے اندر رہتا ہے ہماری زندگیوں کے لیئے نعمتیں پالتا ہے جوں ہی یہ   اپنی حدود سے باہر نکلتا ہے تو سونامی برپا کر دیتا ہے ۔ جو ہر شے کو تباہ و برباد کر دیتا ہے ۔ یہ ہی حال ہمارے رشتوں کا بھی ہے ۔ رشتے جب جائز حدود سے باہر جانے لگتے ہیں تو ذلت و تباہی ان کا مقدر بن جاتی ہے ۔
مشرقی معاشروں میں جہاں اب آذاد خیالی کا چلن اس قدر عام ہو چلا ہے کہ اکثر برائیوں کو بھی کہیں فیشن اور کہیں مجبوری سمجھ کر ،کہیں ضرورت اور کہیں جدت سمجھ کر قبولیت کی  سند عطا کی جا رہی ہے . ہمارے معاشرے میں جہاں ہم مذہب کا دکھاوا بھی کرتے ہیں اور نیکی کا زبانی پرچار بھی خوب زوروں پر ہوتا ہے وہاں اب حرمت کی بات کرنا یا اللہ تعالی کی بتائی ہوئی حدود کا ذکر کرنا بھی گویا اپنے گلے جنجال ڈالنے والی بات بن چکی ہے . پہلے جہاں گھر سے باہر کام کرنے والی خواتین و حضرات بے راہ روی اور ناجائز رشتوں کے عذاب میں مبتلا سمجھے جاتے تھے وہاں تو اب عام گھریلو خواتین  اپنے گھروں کے دروازوں میں شوہروں کے دوستوں اور ملاقاتیوں کو یوں بے دھڑک تن تنہا داخل کر رہی ہیں کہ ان کے کردار پر کوئی بھی دھبہ باآسانی قبول کیا جا سکتا ہے . . پردہ تو چھوڑیئے اب تو گھروں میں ہی باقاعدہ قحبہ خانوں جیسا ماحول بنتا جا رہا ہے .
ملک میں ہڈ حرام اور کام چور مردوں کا بڑی تعداد میں  اضافہ ہو چکا ہے .
جو کہیں بہن بھائیوں کا مال نچوڑ کر اس پر عیش کر رہے ہیں تو کہیں اپنی بیوی و بیٹیوں کو پیسہ کمانے کا ایک ذریعہ بنا کر ملائی کھا رہے ہیں . ایسے لوگوں کو پہچاننا قطعی مشکل نہیں ہے وہ مردوزن جو بنا کسی کاروبار یا روزگار کے بہترین پہننے کے مرض میں مبتلا ہیں ، بہترین ہوٹلوں اور کھانوں کے شوق میں مبتلا ہیں ، ہر دم بے مقصد و بیکار پائے جاتےہیں لیکن اس کے باوجود موج اڑا رہے ہیں
تو جان جائیے کہ یہ سب حرام کے راستوں سے حاصل کیا جا رہا ہے .
ان کی اولادیں انکی خوشی و رضا سے ہی گناہوں کے گٹر میں غوطے کھا رہی ہیں . ان میں اکثر کسی کے قتل اور ہنگامے کی خبر آتی ہے تو حیران مت ہوں یہ کسی غیرت کا شاخسانہ ہر گز نہیں ہوتا بلکہ یہ کسی جلن یا مال میں حصہ داری کے کم ملنے کا نتیجہ ہوتا ہے .  ان کے نزدیک عزت تو گھر کی مولی ہے اسے کسی بھی وقت اگایا جا سکتا ہے جبکہ پیسہ ان کا ایمان ہے وہ کہیں سے آئے، کسی بھی قیمت پر آئے بس اس کا راستہ کھلا رہنا چاہیئے.۔۔
اس لیئے ضروری ہے کہ زندگی کو اعتدال پر لائیے ورنہ یہ بس ملال ہی رہ جائے گی ۔
                       ۔۔۔۔۔۔۔

لٹیرے معالج/کالم

     لٹیرے معالج 
(تحریر: ممتازملک.پیرس)
پاکستان میں جہاں اور بہت سے شعبوں میں زبوں حالی کا دور دورہ ہے تو وہیں کئی ایسے پیشے بھی اس تباہی کا شکار ہو چکے ہیں جن کا مقصد خالصتا انسان کی فلاح و بہبود پر مبنی تھا ۔ جیسے کہ ایک  شعبہ طب یعنی مسیحائی ۔ ایک معالج اپنی تعلیم اور تربیت کے کئی مراحل میں انسانیت کی خدمت اور فلاح و بہبود کی قسمیں  کھاتا ہے ۔ لیکن معالج یعنی ڈاکٹر بنتے ہی اس میں نجانے کہاں سے ایک قصاب کی روح  بیدار ہو جاتی ہے ۔ وہ ایک کاروباری کی طرح ایک بیمار کو اپنا گاہگ بنا لیتا ہے ۔ جس کی نظر صرف گاہگ کی جیب پر ہوتی ہے ۔ اس کا بس نہیں چلتا کہ وہ اپنی پڑھائی کے خرچے کے بدلے لوگوں کی کھالیں اتار کر فروخت کرنا شروع کر دے ۔ تو دھوکے سے معصوم  اور لاچارلوگوں کو نام نہاد بیماریاں بتا بتا کر  انکے جگر ، گردے، آنکھیں اور جانے کیا کیا بیچنا شروع کر دیتا ہے ۔ مسیحا نما یہ قصاب اپنے سٹیٹس کو کے لیئے ، اپنے معیار زندگی کی بلندی کے جنون میں انسانوں کیساتھ قربانی کے دنبوں جیسا سلوک کرتا ہے ۔ نہ انہیں تڑپتے ہوئی ماوں کے ہاتھوں دم توڑتے بچے دکھائی دیتے ہیں اور نہ ہی اولاد کو جنتی ہوئی موت کی آغوش میں جاتی ہوئی ماں دکھائی دیتی ہے ۔ نہ اسے جوان لوگوں کے ہاتھوں ان کی زندگی کی ڈور چھوٹتی ہوئی دکھائی دیتی ہے نہ ہی بوڑھوں کی اذیت کا کوئی احساس ہوتا ہے ۔ وہ ہے تو بس ایک دکاندار ۔ مال دو تال لو ۔ 
منہ پھاڑ کر  بیماری پر مریض سے یوں لاکھوں روپے مانگے جاتے ہیں جیسے وہ مریض کا علاج نہیں کر رہے بلکہ کسی مشین کے پرزے خرید کر دے رہے ہیں جس کے ساتھ اسے بس ایک ہی بار میں تاحیات کی ضمانت مل جائے گی کہ اب وہ نہ کبھی بیمار ہو گا اور نہ یہ پرزہ ناکارہ ہو گا ۔ لاکھوں روپے کے تقاضے وہ لٹیرے ڈاکٹر تو اپنا حق سمجھ کر کرتے ہیں ۔ جو صبح کا وقت سرکاری ہسپتالوں میں دلاسے بانٹ کر حرام کی تنخواہ جیب میں ڈالتے ہیں تو شام کو ذاتی مطب یعنی پرائیویٹ کلینکس پر جا کر  مسکراہٹیں بانٹتے اور لاکھوں کا ٹیکہ لگا لگا کر شفا بانٹتے نظر آتے ہیں صرف مشاورت کا وقت لیکر  دو چار منٹ مریض سے ملنے کے عوض ہزاروں روپے فی کس وصول کیئے جاتے ہیں ۔ چاہے مریض کا علاج محض دس روپے والی ڈسپرین کی گولی ہی کیوں نہ لکھ کر دینی  ہو ۔ اپنے کاونٹر پر ایڈوانس میں ہزاروں روپے جمع کروا چکا ہوتا ہے ۔  ایسے میں سرکاری ہسپتال میں رلتے کھلتے غریب مریضوں کو بس دلاسوں کی خوراک دیکر ہسپتال کی راہداریوں میں دوڑا دوڑا کر موت کی میراتھن میں جبرا شامل رکھا جاتا ہے جب تک کہ اس کا دم نہ نکل جائے ۔ صرف اس لیئے کہ سرکار کا خزانہ اپنے وزیروں سفیروں کو اندرون و  بیرون ملک علاج کے نام پر موج کروانے پر خرچ ہو جاتا ہے تو بیت المال سے علاج کے لیئے کارڈ بنوانا اور اس پر دوا وصول کرنے والے کو اس قدر ہتک آمیز نگاہوں اور رویے کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور اس کا معاشرتی طور پر  ایسا اشتہار لگایا جاتا ہے جیسے اس کی کم حلال  آمدنی اس کے لیئے ایک سنگین جرم بن چکی ہے جبکہ دوسری جانب بیشمار حرام کی کمائی والوں کو اٹھ اٹھ کر سلام کرنا اور اپنی خدمات پیش کرنا ان دکاندار کاروباری ڈاکٹروں کے ایمان کا حصہ ہے ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ان معالجین کی کمائی پر کڑی نظر رکھی جائے۔ ان کی مشاورت کی فیس کی حد مقرر کی جائے۔ سرکاری ہسپتالوں میں ان کی حاضری اور موجودگی کو یقینی بنایا جائے۔ کمائی کی اندھی دوڑ میں انہیں انسانیت کا سپیڈ بریکر دیکھنے پر مجبور کیا جائے۔ 
ہمارے جیسے ممالک میں باقی عوام پر بھی عموما اور  ڈاکٹر پر  خصوصا ایک وقت میں ایک ہی گھر کی ملکیت رکھنے کی پابندی لگائی جائے۔ بے تحاشا دولت اکٹھی کرنے کی حوصلہ شکنی کی جائے ۔ نصاب تعلیم میں قرآنی اسباق کے حقوق العباد کے حصوں کو بطور مضمون ہر بچے کو بچپن ہی سے پڑھایا جائے ۔ تاکہ کل یہ بچہ زندگی کے کسی بھی شعبے میں جائے تو جسم و جان کا سوداگر بن کر نہ جائے بلکہ ایک بہترین راہبر ، رہنما، ماہر ، اور معالج بنکر جائے۔ اسے معلوم ہی نہیں یقین بھی  ہو کہ زندگی ضرورت کے دائرے میں رہے تو عزت بھی دیتی ہے اور سکون بھی ۔ جب یہ تعیش کے بھنور میں داخل ہو جاتی ہے تو نہ اس میں ہوش رہتا ہے، نہ ہی قرار۔ دولت اتنی ہی کمائی اور اکٹھی کی جائے جو آپ کی زندگی کو عزت سے بسر کرنے کو کافی ہو۔ ورنہ لالچ کا منہ واقعی صرف قبر کی مٹی ہی بھر سکتی ہے ۔ اور یقینا ہر مریض کی طرح ہر معالج کو بھی ایکدن موت کا مزا ضرور چکھنا ہے ۔ 
                   ۔۔۔۔۔۔۔۔
(نوٹ: یہ تحریر سو فیصد افراد پر لاگو نہیں ہوتی۔)

منگل، 8 اکتوبر، 2019

شمع خالد صاحبہ سے ملاقات/رپورٹ




 شمع خالد صاحبہ کیساتھ ایک خوبصورت ملاقات ❤
رپورٹ:
(ممتازملک ۔راولپنڈی)





7 اکتوبر 2019ء بروز پیر
میں نے فون کیا میم کیا میں آج آپ سے مل سکتی ہوں ؟
پیاری سے مہربان سی بے تکلف سے آواز آئی ۔۔آ جاو آجاو جلدی سے ۔
اور میں اڑتی ہوئی شام 5 بجے ان کی خدمت میں حاضر تھی ۔ محبت سے تپاک سے گلے لگا کر ویسے ہی استقبال کیا جیسے کوئی ماں اپنی پردیسن بیٹی کا استقبال کرتی ہے ۔
جیسے میری اپنی ماں زندہ ہوتی تو یقینا  میرا  استقبال کرتی۔ 🙇‍♀️
بہت سی باتیں ہوئیں ۔ دکھ سکھ ہوئے۔ کچھ ماضی کے قصے کچھ حال کی خبریں
اورساتھ کیئے تحفے میرے لیئے اپنی پیاری سی خودنوشت 
"اوراق گم گشتہ"
سندھ کی بنی خصوصی اجرک 
خانہ خدا کے پاس سے آیا مسحور کن عطر
اور کیا چاہیئے کسی کو اپنے رب سے ❤❤❤
کچھ لمحے بیحد خالص اور بیحد اپنے ہوتے ہیں ۔ انہیں لمحوں میں سے ایک میری پیاری سی ماں جیسی دوست ، میری بچپن کی آئیڈیل معروف ریڈیو ٹی وی پروڈیوسر، ڈائریکٹر ، افسانہ نگار 
شمع خالد صاحبہ 
آپ کی محبتوں اور عنایتوں کا میرے پاس کوئی بدل نہیں ہے ۔ اللہ پاک آپ کو جلد از جلد صحت کاملہ عطا فرمائے اور میں آپکو آپکے اپنے پیروں  پر چلتا ہوا دیکھوں تو سمجھوں گی کوئی خاص گھڑی اللہ پاک کے ہاں باریاب ہو گئی ۔ 
بہت سا پیار 
(ممتازملک۔ راولپنڈی )
Thanks a lot Facebook  ❤

ہفتہ، 5 اکتوبر، 2019

نمودونمائش کے چھچھورے انداز/کالم


نمود و نمائش کے چھچھورے انداز
   (تحریر:ممتازملک۔پیرس)

پیسے کی نمودونمائش میں ہم پاکستانیوں اور ساوتھ ایشینز کا کوئی ثانی نہیں ہے۔ کہیں ہم درختوں پر اپنے نام کھود کھود کر تاریخ میں زندہ رہنا چاہتے ہیں ،  تو کہیں ہم ٹائلٹس میں بسوں کی سیٹوں پر،  جہاز کے آلات پر اپنے نام لکھ لکھ کر تاریخی شخصیات بننے کی جاہلانہ کوششیں کرتے نظر آتے ہیں ۔
قومی طور پر ہمیں اپنی مشہوری کے آسان ترین طریقوں پر عبور حاصل ہے ۔ کوئی ہمیں کچھ پڑھانے یا کچھ سکھانے کی کوشش کرے تو وہ شخص ہمیں اپنا دشمن اول دکھائی دینے لگتا یے ۔
ہمیں اس پر بھی ملکہ حاصل ہے کہ کوئی شخص محنت سے کوئی ہنر حاصل کرے یا کوئی چیز بنائے اور ہم اس بنی بنائی تیار چیز پر اپنے نام کا سٹیکر چپکا دیں ۔ نہ تو ہمارا ضمیر ہمیں ایسے کاموں میں ملامت کرتا ہے اور نہ ہی ہمیں اس پر کوئی شرمندگی محسوس ہوتی ہے ۔
کسی کی تحریر اپنے نام سے شائع کر کے ہم خود کو دانشور سمجھنے لگتے ہیں تو کبھی کسی کی شاعری اسی کے منہ پر دھڑلے سے اپنے نام سے سنانے پر بھی ہمیں کوئی شرم یاد نہیں رہتی۔ اب سوشل میڈیا کا دور ہے تو جو چاہے جس کی چاہے ٹوپی اتار کر جس کے مرضی سر پر منڈھ دے ۔  جس کے نام سے جو چاہے پوسٹ لگا دے ۔ اور اگر وہ اصل صاحب تحریر  موجود ہے تو دیکھ دیکھ کر صلواتہ سناتا ہے اور اگر دنیا سے سدھار چکا ہے تو عالم ارواح میں بھی اسے پتنگے ہی لگ جاتے ہونگے ۔ لیکن جناب کسی چور کو اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ اس کی اس واردات سے کسی مالک پر کیا گزری۔ 
کہیں شادی بیاہ کے موقع پر اپنی چادر پھاڑ کر پاوں باہر نکال کر ناک اونچی کی جاتی ہے چاہے اس کے بعد پاوں ساری عمر چادر سے باہر ہی لٹکتے رہیں ۔ لیکن اس سے بہتر موقع دکھاوے کے لیئے اور لوگوں کے دل میں حسد و حسرت کے بیج  بونے کے لیئے اور کونسا ہو سکتا ہے ؟ 
سرکاری طور پر ہمارے دکھاوے کا یہ عالم ہے ہم بھیک مانگنے بھی دنیا بھر میں چارٹرڈ طیاروں میں گھومتے ہیں ۔ دنیا ہم پر ہنستی ہے تو ہنسے،  ہمیں دنیا کو ہی دکھانا ہے اور دنیا ہی کے ہنسنے سے کوئی سبق بھی نہیں سیکھنا ۔ کمال کے لوگ ہیں ہم ۔ 
اپنی زندگی کو دکھاوے اور دو نمبری کی بھینٹ چڑھا کر مشکل  بھی کرتے ہیں اور اسی مشکل پر آہ و بقا کر کے دوسروں سے ہمدردی کی امید بھی لگاتے ہیں ۔ 
عقل۔سے ہمیں خدا واسطے کا بیر ہے ۔ جانے وہ دن کب آئیگا جب ہم خود اپنی ذات میں اللہ کے دیئے ہوئے خوائص جواہر کو تلاش کرینگے اور  اسی کے بل بوتے پر خالصتا اپنی محنت اور رب کی رضا پر بھروسہ کرتے ہوئے اپنی حیثیت اور مقام پر صبر و شکر بجا لائیں گے ۔
                       ۔۔۔۔۔۔

جمعہ، 20 ستمبر، 2019

بھارت کا اصل کردار ٹوپی ڈرامے سے باہر دیکھیں




بھارت کا اصل کردار
ٹوپی ڈرامے سے باہر دیکھیں


مجھے ایک ہندو دوست کی جانب سے  ایک ویڈیو ان بکس بھیجی گئی ۔ جس کی سرخی تھی کہ "بھارت کا اصل کردار دیکھنا ہے تو اس ویڈیو میں دیکھیئے" جس میں بھارتی علاقے بہار کے ایک علاقے کا بتایا گیا جہاں کوئی مسلمان نہیں رہتا لیکن وہاں ایک پرانی مسجد ہے جسے علاقے کے لوگ صاف ستھرا رکھتے ہیں اور ریکارڈڈ  آذان بھی مائیک سے دی جاتی ہے ۔  میں نے اس ویڈیو کو دیکھ کر پہلی بات تو یہ سوچی کہ آخر اس علاقے کے مسلمان اتنے پرامن اور محبت بھرے ماحول سے پھر چلے کیوں گئے ؟ ایک بھی مسلمان نے یہاں پر خود کو محفوظ تصور کیوں نہ کیا؟ تو عقلی طور پر یہ بات سمجھ میں آئی کہ
یہ مسجد دنیا کو دکھانے کے لیئے ایک  سیکولر اشتہار کے طور استعمال کرنے کو قائم رکھی گئی ۔ وگرنہ پورے بھارت میں مسلمان جس حالت میں زندگی گزارتے ہیں وہ بہترین تو چھوڑیں بہتر کیوں نہیں ہے ؟
معذرت کیساتھ جناب میں  وہاں اصل بھارت کا کردار دیکھوں، جہاں ایک بھی مسلمان نہیں  چھوڑا گیا
لیکن ایک مسجد کو محض "شگن" کے لیئے رکھا گیا ہے،
لیکن میں وہاں بھارت کا اصل کردار کیوں نہ دیکھوں جہاں کروڑوں مسلمانوں کو انہیں کی وادی کشمیر میں اپنی لاکھوں کی فوج اور غنڈوں کو لائسنس ٹو کل اور لائسنس ٹو ریپ اور ٹیررازم دیکر بھیجا گیا ہے ۔ 72 سالوں سے ان کی نسل کشی جاری ہے، جہاں ان کے ہر تہوار پر انہیں انہی کے لہو میں نہلا دیا جاتا ہے۔ جہاں انکی مرضی کے خلاف جبرا تہہ تیغ کیا جاتا ہے ۔
جہاں ان کے جنازے تک پر گولیاں برسائی جاتی ہیں ۔ لاشیں پامال کی جاتی ہیں ۔ معصوم بچیوں سے لیکر ستر سال کے مائیں دادیاں نانیاں تک ریپ کی جاتی ہیں ،
جہاں" کشمیر چاہیئے کشمیری نہیں" کے بھارتی ناپاک نعرے کیساتھ ہلہ بولا جاتا ہے ،
جہاں گوری کشمیری لڑکیوں کو بندر کی شکلوں والے غنڈوں اور درندوں کے آگے چارہ بنا کر پیش کیا جا رہا ہے ،
جہاں کسی غیر مسلم سے رشتہ نہ ہو تو آپ پورے بھارت میں ترقی کا ت بھی نہیں سوچ سکتے ۔ پھر چاہے وہ شاہ رخ خان اور سلمان خان ہی کیوں نہ ہو۔ ذرا انہیں غیر مسلم رشتے داروں سے خارج کر کے دیکھیئے یہ بھی کہیں ٹائلٹ صاف کر رہے ہوتے یا پھر کلرکی کر رہے ہوتے ۔ 
سچ بہت کڑوا ہے جناب
عمارتوں کی پوجا کرنے سے انسانوں کا لہو،  ان پر ظلم معاف نہیں ہو جاتا ۔
آج کسی بھی قوم کو جبرا اپنے ساتھ جوڑ کر رکھنا اور خصوصا اگر وہ مسلمان ہیں تو ان کے لہو میں غسل کرنے کا شوق ہر یہود و ہنود کی اولین ترجیح ہے ۔ اقوام متحدہ کا کردار مسلمانوں کی حفاظت میں محض غیر مسلموں کے طوائف جیسا ہے ۔ جسے محض ایک ربڑ سٹیمپ کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے ۔ اور مسلم حکمرانوں کو خرید خرید کر انہیں عیاشی کروا کروا کر دنیا بھر کے مسلمانوں کا قتل عام جاری ہے ۔
نہ ان نام نہاد انصاف پسندوں کے نزدیک مسلمان ممالک کی تباہی غلط ہے اور نہ مسلمان کا خون ناجائز ہے ۔ "ان کا کتا ٹومی اور ہمارا کتا کتا ہے" کی مثال یہاں حرف بحرف لاگو ہوتی ہے۔ مسلم ممالک سے راتوں رات اپنے غیر مسلم مجرم اٹھا کر انہیں اپنے ممالک میں اعزازت سے نواز کر بیشمار بار یہ بات ثابت کی جا چکی ہے ۔ کہ ہمارے کدو حکمران جھوٹ بول بول کر  ہمارے عوام کو ٹھنڈا کرنے اور مسلم دشمنوں کو حلوہ بنا کر پیش کیئے جانے کے لیئے ہیں ۔ ان مسلم کش ممالک کو جو خود کو انصاف کا ٹھیکیدار سمجھتے ہیں اور ہمارے ممالک میں موم بتی مافیا کے آقا و موجد ہیں، کی زر خرید موم بتیاں کشمیر کی لٹتی بیٹیوں اور کٹتے ہوئے جوانوں کے لیئے کیوں نہیں جلتیں ؟
معصوم کشمیری بچے جو آج ڈیڑھ ماہ سے دودہ ، دوائیوں  اور خوراک کو ترس کر ایڑیاں رگڑ رگڑ کر ماوں کی گود میں جان دے رہے ہیں ،ان کے لیئے کیوں نہیں جلتیں ؟
کیونکہ بھارت کا اور اقوام متحدہ کا اصل کردار دیکھنا ہے تو ٹوپی ڈرامے سے باہر آ کر دیکھیئے ۔
یہ یورپی و امریکی ممالک میں  سیکولر منڈوا محض اپنے ممالک میں امن و آشتی قائم رکھنے کے لیئے سجایا جاتا ہے ۔ ورنہ ان کے ممالک سے باہر نہ انہیں انصاف کی ضرورت ہے نہ احساس۔ جبکہ ان کی پشت پناہی کے بل پر بھارت کی غنڈہ گرد پالیسیز کو تو کسی منڈوے کی اپنے ملک کے اندر بھی کبھی کوئی ضرور محسوس نہیں ہوئی ۔ جہاں ایک گائے کے بدلے بیسیوں مسلمان ذبح کر دینا ان کا دھرم گنا جاتا ہے ۔ وہاں اسے ٹوپی ڈرامے کی بھی قطعا کوئی ضرورت اب محسوس نہیں ہوتی۔ وہ اعلانیہ کل بھی غنڈہ تھا ، آج بھی غنڈہ ہے اور اپنے خاتمے اور تقسیم در تقسیم تک غنڈہ ہی رہیگا ۔ اس کے سامنے ہر غیر ہندو ہی کیا اپنے ہی ہندو چھوٹی ذاتوں کے لوگ بھی جو اذیت ناک زندگی گزار رہے ہیں وہ ہے بھارت کا اصل کردار۔۔۔۔۔
سچ پوچھیں تو دنیا اس وقت تک پرامن تھی جب تک اس پر منصف مسلمان حکمرانوں کی حکومت رہی ۔ جیسے ہی اس دنیا پر غیر مسلم قبضہ ہوا یہ تب سے یہ تباہ و برباد ہو گئی۔
                    ۔۔۔۔۔۔

منگل، 17 ستمبر، 2019

بے ہنر ڈگریاں / کالم


بے ہنر ڈگریاں 
تحریر:
(ممتازملک.پیرس)

ہمارے ہاں تعلیمی نتائج میں  آجکل گیارہ سو میں سے گیارہ سو نمبر ہی حاصل کرنے کا فیشن چل رہا یے ۔ اس کے باوجود ہمارا طالبعلم بیس تیس سال پرانے  ساڑھے آٹھ سو میں  سے ، پانچ سو اور ساڑھے پانچ سو نمبر لیکر پاس ہونیوالے کا ذہانت میں مقابلہ نہیں کر سکتے۔ اس کی وجہ ہمارا تعلیمی معیار ہے جو اس حد تک گر چکا ہے  جو شاید باقاعدہ سکول کالج سے وابستہ طالبعلم( ریگولر  سٹوڈنٹ) کو محض  اس وابستگی کی وجہ سے ڈھیروں ڈھیر نمبر ٹھیکے پر دے رہا ہے کیوں کہ اس سکول کالج سے پرچوں کی جانچ کے دوران انہیں شاید کچھ لفافے اور فوائد کا ایک پیکج بھی مل جاتا ہے کہ ہمارے سو میں سے دو چار بچے فیل کر دیجیئے گا باقی سب کو بہترین نمبروں سے پاس کر دیا جائے۔ یوں جسے دیکھو نمبروں کی لوٹ سیل سے مستفید ہو رہا ہے ۔ جبکہ علمی لحاظ سے نہ بچوں کو ڈھنگ کی اردو لکھنی پڑھنی آتی ہے نہ ہی بولنی۔ نہ انہیں انگریزی پر عبور حاصل ہے اور نہ ہی حساب میں انہیں مہارت ہے ۔ سوچنے کی بات ہے کہ یہ پرچے کون چیک کر رہا ہے ؟ اس استاد کی اپنی تعلیمی قابلیت ، اپنے مضمون پر دسترس کتنی ہے؟  اس کا بولنے کا لب و لہجہ اس قابل ہے کہ اس کا شاگرد اس کے نقش قدم پر چل سکے ۔ اکثر سکولوں میں پرائیوٹ کہہ کر ہزاروں روپے کی فیس اکٹھی کرنے کے باوجود صرف اور صرف رٹے باز طوطے پیدا کیئے جا رہے ہیں ۔ ڈگریوں کے حصول کے لیئے امتحانات کے دوران والدین کی ایڑی چوٹی کا زور اس بات پر صرف ہوتا ہے کہ ان کا بچہ فیل نہیں ہونا چاہیئے اور اس کے نمبر 90 فیصد سے کسی طور کم نہیں ہونے چاہیئیں ۔ آتا جاتا چاہے اسے ککھ نہ ہو ۔ بس ڈگری ہونی چاہیئے ۔ بالکل ہمارے ایک سیاہ ست دان کے بقول ڈگری اصلی ہو یا نقلی ڈگری ڈگری ہوتی ہے ۔ 
اور اسکے بعد شروع ہوتا ہے یا تو بیروزگاری کا سفر یا پھر کوئی نوکری خریدنے کی دوڑ دھوپ۔ 
کیونکہ ہمارے ہاں لوگوں کو اتنی سمجھ نہیں ہے کہ ہر سوکھی ڈگری والا کسی کرسی پر نہ تو افسر بن سکتا ہے اور نہ ہی ہر ایک کو وائٹ کالر جاب مل سکتی ہے ۔ جبکہ دنیا پروفیشنل تعلیم میں نام بنا رہی ہے ۔ وہاں ہمارے لوگ ساری عمر کی جمع پونجی سے بچوں کے لیئے بے ہنر اور بیروزگاری کی ضمانت والی ڈگریاں خرید رہے ہیں ۔ 
جبکہ ماسٹرز کرنے کے بعد بھی وہ نوجوان اپنے لیئے دو وقت کی روٹی کمانے کے لائق نہیں ہو سکتا ۔ کیونکہ اس کے ہاتھ میں کوئی پیشہ ورانہ ڈپلومہ نہیں ہے ۔ ہنر نہیں ہے ۔ اس نے تو اب تک صرف اور صرف کتابوں کے رٹے لگائے ہیں ۔ اسے کام سیکھنے کا کہو تو اب اس کی شان کے خلاف ہے ۔ اپنے باپ دادا کے کاروبار میں ہاتھ بٹانے کا کہو، ان کی کوئی دکان سنبھالنے کا کہو تو برخوددار کی ناک کے نیچے یہ سب جمتا نہیں ہے ۔ 
ان پڑھے لکھوں کی کھیپ  میں سے ایک بھی اپنے باپ کے کاروبار یا پیشے کی عزت نہیں کرتا لیکن اسی پیشے کہ کمائی سے اس باپ کا خون چوستا رہتا ہے ۔
اگر بیٹا یا بیٹی ان پڑھ ہے تو اسے ہنر سکھا کر ماہر تو بنا دیا جاتا ہے ۔ لیکن جب وہ اپنی زندگی کے سولہ سال بنا کسی ہنر یا پیشہ ورانہ تعلیم کے عملی زندگی میں قدم رکھتا ہے تو وہاں صرف مایوسیاں اس کی منتظر ہوتی ہیں ۔ 
ضرورت اس امر کی ہے کہ بچے کو مڈل کلاس کے بعد ہی پروفیشنل تعلیمی سسٹم میں داخل کیا جائے ۔ جہاں وہ جس بھی کام میں دلچسپی رکھتا ہے اسے اسی کام میں سپیشلائز کروایا جائے۔ تاکہ اگلے آٹھ سال میں وہ تھیوری اور پریکٹیکل کے ساتھ اپنے ڈگری اور ڈپلومے مکمل کرے اور معاشرے میں ایک قابل فخر ، باروزگار ، مفید اور بااعتماد نوجوان بن کر نکل سکے ۔ وہ اپنے گھر والوں کا مددگار بن سکے نہ کہ مایوسی  نشے اور بری صحبت کا شکار ہو کر معاشرے کے لیئے عذاب بن جائے۔ 
                      ۔۔۔۔۔۔

جمعہ، 13 ستمبر، 2019

◇ صبح ہونا مقدر ہو چکا ہے۔ نظم۔ جا میں نے تجھے آزاد کیا



صبح ہونا مقدر ہو چکا ہے 


میں اپنے ناتواں کندھوں پہ کتنا بوجھ سہہ پاوں 
میری ہر آرزو حسرت میں ڈھلنے جا رہی ہے
میرا ہر خواب ٹکڑے ہو رہا ہے
میرا ہر ایک سچ بیچا گیا ہے
میری امید کا ہر باغ تیزابی ہوا ہے
میری ہر آرزو کا،خواب کا،خواہش کا لوگو
جو میرے سامنے لاشہ پڑا ہے  
برائے نام ہے امت جہاں میں 
جو ٹھیکیدار ہے دنیا میں اس کے 
انہیں عیاشی سے فرصت نہیں ہے 
وہ سوچیں امت مسلم کی خاطر 
انہیں اس بات کی ہمت نہیں ہے 
سروں پر باندھ کر صافے 
دماغوں کو یہاں دم دے رہے ہیں 
نگاہوں پر بڑی ہی بےحیائی سے کسی پٹی میں اپنے 
بے ایماں ہونے کا وہ احساس کیا کم دے رہے ہیں 
میرا کشمیر جو خوں رو رہا ہے
جوان و پیر و طفل و زن جو خود کو کھو رہا ہے 
ہمارا حکمراں جا کر کرے سودا حیا کا 
تو پھر اس قوم پر لازم ہے پڑھنا انا للہ 
میرے کشمیر آذادی تو ہے تیرا مقدر 
بھلے سے رات یہ کالی بہت ہے 
مگر یہ یاد رکھنا کہ
اجالا بھی اسے تاریکی کے پیچھے چھپا ہے 
صبح ہونا مقدر ہو چکا ہے ۔۔۔۔۔
                        ●●●


 

منگل، 10 ستمبر، 2019

دوسرا پہلو۔ کالم



                 دوسرا پہلو
      (تحریر: ممتازملک.پیرس)



جس طرح ہر سکے کے دو رخ ہوتے ہیں اسی طرح ہر انسان کی شخصیت کے بھی دو پہلو ہوا کرتے ہیں ۔ ایک وہ جو ہم سب کو دکھائی دیتا ہے اور ایک وہ جو پشت پر موجود ہے اور ہماری آنکھوں سے اوجھل ہے لیکن اس انسان سے منسلک لوگوں پر اس کا ظاہری اور باطنی دونوں ہی پہلو اثر انداز ہو رہے ہوتے ہیں ۔ سامنے والا ظاہری پہلو کی برائیوں سے تو خود کو بچانے کی کوشش کر سکتا ہے لیکن باطنی اور پوشیدہ وار سے خود کو بچانا بیحد مشکل اور کبھی کبھی تو ناممکن ہو جاتا ہے ۔ خاص طور پر اس وقت جب وہ آپ کے سب سے قریبی رشتے کا فرد ہو ۔ 
جیسا کہ شادی کا رشتہ ۔ جسے ایکدوسرے کا لباس کہا گیا ۔ اور ظاہر ہے کسی بدن کی خوبی و نقائص اس کے لباس سے زیادہ کس پر عیاں ہو سکتی ہیں ۔ یہ وہ رشتہ ہے جو ایک مرد اس وعدے پر کسی عورت کیساتھ باندھتا ہے کہ وہ اس کی عزت کی حفاظت کریگا ، اس کی ضروریات کو پورا کرنے کی تگ و دو کریگا اور اس کی خواہشات کی تکمیل میں حتی الوسع اسکا ساتھ دیگا ۔ اور اس سے وفادار رہیگا ۔  جبکہ وہ عورت اس سے اس کی عزت کی حفاظت  ، گھر بار سنبھالنے، اسے آرام پہنچانے اور اس کی اولاد کی پیدائش و پرورش کا ذمہ اٹھاتی ہے۔ اس سے وفاداری کا عہد باندھتی ہے۔ 
اکثر مردوزن اپنے وعدوں کی پاسداری کو پوری ایمانداری سے نبھانے کی کوشش بھی کرتے ہیں ۔ جو نہیں کر سکتے اس کی مختلف وجوہات اور تاویلیں پیش کی جاتی ہیں ۔ 
اس وقت ہم ایک ہی پہلو پر بات کریں گے جو شاید اکثر ہی نظرانداز ہو جاتا ہے ۔ وہ ہے مردوں کا شادی شدہ ہونے کے بعد بھی  اپنے بہن بھائیوں کو ناجائز حد تک اپنے ہر رشتے پر مسلط کر دینا ۔ یہ مرد فطرتا بزدل اور بیوفا ہوتے ہیں ۔ یہ پیدائشی طور پر اپنے والدین اور بہن بھائیوں کے غلام ہوتے ہیں ۔ ان میں سوچنے اور خود سے فیصلہ کرنے کی صلاحیت برائے نام یا پھر ناپید ہوتی ہے ۔ ان کی نشانی یہ ہوتی ہے کہ یہ اپنے بیوی اور پھر بچوں کی پل پل کی خبریں اپنے والدین اور بہن بھائیوں کو پہنچا کر اپنے شوہر اور باپ ہونے کی حیثیت کی تذلیل کرتے ہیں ۔ وہ صرف اچھے بیٹے اور اچھے بھائی بننے کا میڈل لینے کے چکر میں اپنی ہی بیوی کے جاسوس شوہر اور اپنے ہی بچوں کے مخبر باپ بن جاتے ہیں ۔ یہ کبھی پکڑے جائیں تو جھوٹی قسمیں اٹھانے سے بھی دریغ نہیں کرتے۔ یہ کبھی اپنے چوری نہیں مانتے ۔ ان کے پاس اپنے گھر کا کرایہ دینے کی رقم یا بجلی کا بل بھرنے کی آخری تاریخ پر کسی بہن بھائی کا فرمائشی پروگرام آ جائے تو یہ اپنا میٹر کٹوا لیگا ، اپنے گھر کے کرائے کی ادائیگی پر جرمانہ چڑھا لیگا لیکن اس کی فرمائش ضرور پوری کریگا ۔ اسے اول خویش بعد درویش میں اپنے بیوی بچے کبھی بھی "اول خویش" نہیں لگیں گے بلکہ وہ ہمیشہ "بعد درویش" کے مقام پر ہی رہیں گے ۔ 
ایسے لوگ ساری عمر اپنے بیوی بچوں کی نظروں میں مجرم کی سی زندگی گزارتے ہیں ۔ اور ایک وقت آتا ہے جب وہ تنہا رہ جاتے ہیں ۔ جو کہ اصل میں ایسے غلاموں کے ان عزیزوں کی خواہش ہوا کرتی ہے جن کے لیئے یہ ساری عمر اپنے زندگی میں تلخیاں گھولتے رہے ۔ اور جب انہیں اس خطرے کا احساس دلایا جائے تو یہ بڑے ڈھیٹ پنے کیساتھ ہر نقصان اٹھآنے کو تیار ہو جاتے ہیں لیکن اپنی اصلاح کرنے یا خود کو اس نقصان سے بچانے کی کوشش ہر گز نہیں کرتے ۔ ان باتوں کو خاتون پر بھی لاگو کر کے دیکھا جا سکتا ہے ۔ اصل میں ایسے ہی  مردوزن اپنے  بہن بھائیوں کی محبت میں اپنی زندگی کا  توازن کھو بیٹھتے ہیں ۔ اور ان کی حیثیت گھر میں ایک گدھے جیسی ہوتی ہے ۔ جس پر صرف اور صرف وزن ہی لادنا ہے ، ڈنڈے ہی برسانے ہیں ۔ ان زندگی میں سکون ، اعتماد اور خوشی کا تناسب بہت ہی کم ہوتا ہے ۔ اگر آپ میں ان سب میں سے کچھ جھلکیاں خود میں نظر آئی ہیں یا کسی دوست میں دکھائی دیتی ہیں تو اس کی مشاورت کیجیئے ۔ یا اسے کسی اچھے ماہر نفسیات سے رابطہ کرنے ک مشورہ ضرور دیجیئے۔ ہو سکتا ہے آپ کی چھوٹی سی کوشش کسی انسان کو اس کے گھر میں بیوی (شوہر) بچوں کی طرف ایمانداری سے اپنی ذمہ داریاں نبھانے پر راغب کر سکے  اور اسے اول خویش اور بعد درویش کا حقیقی معنی سمجھا سکے ۔ 
                    ۔۔۔۔۔۔۔

پیر، 9 ستمبر، 2019

منقبت ۔ حسین بننا کمال ٹہرا/ اے شہہ محترم


منقبت
حسین بننا کمال ٹھہرا 
(کلام/ممتازملک ۔پیرس)




یزید بننا رزیل ٹہرا
 حسین بننا کمال ٹہرا

میری نبی  کی جھلک ہو جس میں
 حسین کا وہ جمال ٹہرا

بہت بڑا فرق ان میں ہے گر
نظر میں تیری نہ بال ٹہرا

حسین دے دے کے بھول جائیں
 یزید سکے اچھال ٹہرا

جواب جس کا نہ دے سکیں وہ
نہ ایسا کوئی سوال ٹہرا

جہاں پہ حق مستند کھڑا ہو
وہاں پہ باطل محال ٹہرا

چلے ہیں ممتاز جس سفر پر
عروج کو نہ زوال ٹہرا
          ........


منگل، 3 ستمبر، 2019

تقریب دعوت

دعوت نامہ💐

3ستمبر 2019ء
بروز منگل
سہہ پہر 4 بجے،
پیرس میں مقیم نامور شاعرہ ' ادیبہ ' صحافی ' کالم نگار' اینکر پرسن  محترمہ ممتاز ملک کے  اعزاز میں ایک خصوصی نشست منعقد  کی جارہی ہے۔ جس میں  انکی چوتھی کتاب اور پہلے نعتیہ مجموعہ کلام
اے شہہ محترم (صلی اللہ علیہ)کی رونمائی بھی کی جائے گی۔
آپ تمام دوستوں کو  شرکت کی دعوت دیجاتی ہے ۔
منتظر میزبان :
فاطمہ قمر پاکستان قومی زبان تحریک
ایم ذیڈ کنول،چیف ایگزیکٹو جگنو انٹرنیشنل،
محمد جمیل،اکیڈمی آف لیٹرز
پتہ یہ ہے :
Pakistan academy of letters
22 J Gullberg -3 .
Near Firdos Market. Lahore.
0333 4305319
(جمیل صاحب (لاہور))

جمعہ، 23 اگست، 2019

PIA تجھے کیا ہوا / کالم

   

    پی آئی اے تجھے کیا ہوا
          (تحریر:ممتازملک۔پیرس)



11 اگست 2019ء کی رات  8 بجے ہم لوگ پیرس سے  PK 770 میں سوار ہو چکے تھے ۔ 
میری سیٹ نمبر 42B تھی۔ جہاں پر پاکستان سے سوار ایک خاتون اور پیرس سے سوار ایک پختون نوجوان کے کیساتھ ہی میری سیٹ تھی ۔ جو میں نے درخواست کر کے کھڑکی والی سیٹ سے بدل لی ۔
نہ جہاز میں کوئی اخبار ، نہ رسالہ،  نہ ٹی وی ، نہ مووی نہ ڈرامہ ، دنیا کا سب سے بورنگ (بیزار کن ) سفر کرنا ہو تو پی آئی اے میں آیئے ۔ بوڑھے بچے جوان مرد و زن ، مجال ہے جو کسی کی بھی وقت گزاری کا یا دلچسپی کا کوئی سامان اس جہاز پر موجود ہو ۔ اس میں دو طرح کے لوگ ہی سفر کر سکتے ہیں جنہیں دو چار گھنٹے بچانے ہوں یا دو تین سو یورو ٹکٹ کے۔۔ورنہ دنیا کی اور کوئی وجہ ایسی نہیں ہے، نہ اس ایئر لائن کی کوئی خوبی یا سروس ایسی ہے کہ اس کی وجہ سے اس میں سفر کیا جائے ۔ 
ہم سے پہلے جہاز میں پاکستان سے بارسلونا جانے والے مسافر 8 گھنٹے کا سفر کرتے ہوئے اس میں موجودتھے ۔ جن میں بوڑھے بھی تھے اور بچے بھی ۔ ان میں کسی کے پاس نہ تو کوئی تکیہ تھا اور نہ  ہی کوئی کمبل تھا ، اور تو اور جہاز میں اے سی بھی نہ ہونے  کے برابر شاذو و  نادر ہی چلایا گیا تھا ۔
یہاں بھی میرا ہاتھ والا پنکھا ہی کام آیا ۔
بچے بیچارے سیٹ کی دستیوں پر سر رکھے سوتے جاگتے بیچین ہو رہے تھے ۔
بزرگ شرما شرمی کچھ ضرورتا بھی نہ مانگ پا رہے تھے ۔ وہ بھی سوچ رہے تھے جب جوان اور بچے بار بار لائٹ جلا کر انہیں بلاتے ہیں تو مجال ہے کہ کریو کا کوئی فرد آ کر دریافت کرے کہ
ہمارے بیٹھنے کے 3 گھنٹے  بعد جہاز پر کریو نے ایک ایک لنچ نکس تقسیم کیا ۔ اور ایک کپ چائے اور پیپسی کا گلاس دیا گیا ۔ لنچ بکس کھولا تو تو اس میں ایک عدد3 انچ لمبا کوئی بند کباب ٹائب تھا ، ایک عدد دو انچ کا پیٹیز ،
ایک عدد چھوٹا سا سادہ کیک کا ٹکڑا ، یہ اب رات کے 11 بجے ڈنر تھا، یا ناشتہ تھا ، یا مذاق تھا سمجھ نہیں آئی ۔ ۔ اس کے بعد جلدی جلدی 15 منٹ میں ہی خالی  ڈبے واپس سمیٹے گئے ۔ اور تمام جہاز کی روشنیاں بجھا دی گئیں اور کریو غائب ۔
ڈیڑھ گھنٹے کے بعد بارسلونا پہنچ کر جہاز اترنے سے محض پندری بیس منٹ پہلے روشنیاں کی گئیں ۔ جہاز میں اور تو اور پرواز کی خئی ڈائریکشن کسی سکرین پر نمودار نہیں ہو رہی تھی ۔ جہاز مسافروں سے مکمل طور پر بھرا ہوا تھا مجھے وہاں کوئی سیٹ خالی دکھائی نہیں دی ۔ کریو میں سے کوئی بھی پوچھنے ہر نہیں بتا پا رہا تھا کہ ہم کس مقام پر سفر کر رہے ہیں یا ہم کتنی دیر تک اپنی منزل پر پہنچیں گے ۔ بارسلونا پہنچ کر ساتھ کی نوجوان خاتون رخصت ہوئی اور مزید پاکستانی مسافر بارسلونا سے اسلام آباد کے لیئے جہاز میں سوار ہوئے۔ ہمارے ساتھ کی سیٹ پر ایک اور مہذب  پختون نوجوان کی آمد ہوئی ۔
رات کے دو بجے تک کئی بار لوگ لائٹ جلا کر سروس کریو کو کبھی بچوں کے دودھ کے لیئے ، کبھی پانی کے لیئے کبھی کسی اور ضرورت سے  بلا چکے تھے مجبورا مجھے سیٹ پر گھٹنے کے بل کھڑا ہو کر باآواز بلند احتجاج کرنا پڑا کہ بھائی کوئی ہے یہاں جو بار بار لائٹ بجھانے کے بجائے آ کر پوچھ سکے کہ جناب آپ کو کیا چاہیئے ۔ ۔ مجھے اپنی ساتھ والی سیٹ پر سے نوجوان لڑکے کو درخواست کرنے پڑی کہ بیٹا  جاکر کچن سے مردے جگائے اور پانی کی بوتل ہی لا دے ۔ اسے کافی دیر کھڑا رکھ کر ایک گلاس پانی دیا گیا ۔ جبکہ میں نے پوری بوتل کا مطالبہ کیا ۔ اور کہا کہ جناب ہم لائٹ آپ کا دیدار کرنے کو نہیں جلا رہے کسی کام سے ہی بلا رہے ہیں ۔ پوچھنے کی زحمت تو فرمائیں، کیا ہم شمر کے جہاز میں سوار ہو چکے ہیں ؟
میری سیٹ کے دائیں جانب کا پیڈل موجود ہی نہیں  تھا اور بائیں جانب کا بالکل فری تھا جو پاوں کو سہارا دینے کے بجائے پاوں کو تھکانے کا کام کر رہا تھا کیونکہ میں سیٹ بدل کر اس پر موجود تھی۔ کئی واش رومز اور ٹائلٹ کام ہی  نہیں کر رہے تھے اور مسافر سارے جہاز میں ٹوائلٹ کے لیئے آگے اور پیچھے واک کرتے رہے ۔
صبح کے ڈھائی بجے کھانا سروو کیا گیا ۔ جس میں سب سے ہلکے برانڈ کے چاول کے چار کھانے کے چمچ (یاد رہے یہ چاول یورپ کے ان مسافروں کو پیش کیئے گئے جو ایک سے ڈیڑھ انچ لمبا شاندار چاول کھانے کے عادی ہیں )  ،ایک جانب اس پر چار عدد مٹن کی بوٹیاں موٹے قیمے کی سائز کی اور دوسری جانب تڑکا لگے چاول پر مسور کی پرانی دال کا ایک چمچ ڈالا گیا تھا جو تقریبا سوکھ چکا تھا ۔ ایک پیالی میں سلاد کے پتوں پر دو انگوری سائز ٹماٹر اور ڈبے کی توں مچھلی کا قیمہ ایک چمچ پتوں پر ڈال رکھا تھا ۔ جبکہ میٹھے کے نام پر کھیر جیسا کچھ لگا چکھا تو معلوم  ہوا سیویاں دو چمچ دودھ ڈال کر اوپر بادام کی ہوائیاں چھڑکی گئی ہیں ۔ اور کافی دیر پرانی ہیں سو کھانے کے لائق نہیں تھیں ۔۔
4 بجکر 25 منٹ پر لائٹس آف کر دی گئیں ۔
چلیں ہمارے بولنے اور ساتھ میں کچھ اور مسافروں کے میری بات کی تائید کرنے اور شور کرنے پر کریو کو بھی تھوڑی مہمان نوازی دکھانی ہی پڑی ۔ اسی بہانے کھانا آرام سے کھانے اور پانی بھی ایک دو بار پوچھ لیا گیا ۔ 
یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ آخر پورے جہاز میں جو کام چار لوگ کر سکتے ہیں وہ کام دس لوگوں کو کرنے کو کیوں رکھا گیا ہے ؟  یہ تنخواہیں ہی تو سروس کی تباہی کا باعث ہیں ۔
برائے مہربانی ارباب اختیار ان شکایات کا جائزہ لیں ۔ اور تھوڑی سی حب الوطنی دکھاتے ہوئے جہاز کی حالت (مینٹیننس) اور عملے کی تربیت پر توجہ دیجیئے ۔ تاکہ ہم مسافروں کو یہ ایک آرام دہ اور یادگار سروس مہیا کر سکے ۔ سچ پوچھیں تو جس حالت میں اس وقت پی آئی اے کے جہاز سفر کر رہے ہیں،  دنیا کی کوئی ائیر لائن ایسے جہاز چلانے کا سوچ بھی نہیں سکتی ۔ اپنے مسافروں کو پی آئی اے کے کرتا دھرتاوں نے خود اس بات پر مجبور کیا ہے کہ وہ دوسری ایئر لائنز پر سفر کریں ۔ آخر کو ہم اپنا حق حلال کا پیسہ آپ کے پھٹے پرانے ناکارہ جہازوں پر  نالائق اور کام چور عملے کیساتھ سفر کر کے کیوں برباد کریں ؟ جبکہ دنیا کے بہترین جہاز ہماری میزبانی کرنے کو تیار ہیں تو ؟
کیا یہ ہماری حب الوطنی کی سزا ہے ؟
                       ۔۔۔۔۔

منگل، 13 اگست، 2019

لہو لہو کشمیر اور طوفان بدتمیزی /کالم


لہو لہو کشمیر اورطوفان بدتمیزی
(تحریر:ممتازملک۔راولپنڈی)




اس وقت پاکستان میں سائلنسرز نکال کر بھدی آوازوں میں گا گا کر خود کو سب سے بڑا پاکستانی ثابت کرنے والے جوانوں 
کشمیر پاکستان کی وہی شہہ رگ ہے جس پر بھارت نام کے گیدڑ نے اپنے دانت گاڑ رکھے ہیں ۔کشمیر کے عورتوں کی عزتیں ہندوں دہشتگردوں کے نشانے پر ہیں ، کشمیری بچے ماوں کی گود سے چھین کر ہندو دہشتگروں کی بندوق کی گولی کھا رہے ہیں ، کشمیری جوان اور بوڑھے پاکستان کے اس جھنڈے کو اپنے مردہ جسموں لیکن زندہ روحوں پر کفن بنا کر پہن رہے ہیں جسے لہراتے ہوئے تمہیں بھونڈے ڈانس اور واہیات بھوں بھوں بجاتے ہوئے ذرا بھر حیا نہیں آتی۔ 
ملک پر لہراتے خطرات تم سے ذمہ داری کا تقاضا کرتے ہیں نہ کہ بھونڈے پن اور گھٹیا حرکات کا ۔ 
دشمن کو بتاو کہ ہم جاگ رہے ۔ یہ مت بتاو کہ ہم ناچ رہے ہیں ۔ 
جو قومیں اپنی غیرت پر تماچا برداشت کر لیتی ہیں ۔ انہیں پھر تماچے کھانے کا عادی ہونا پڑتا ہے ۔ 
اس وقت 13 اگست کی رات سے شروع ہونے والا طوفان بدتمیزی عروج پر ہے ۔ نہ کوئی سڑک پر اپنے گھر کی کسی خاتون کیساتھ نکل سکتا ہے ۔ نہ کوئی بیمار کسی ہسپتال تک پہنچایا جا سکتا ۔ نہ کوئی اپنے گھر جانے والا اپنے گھر پہنچ سکتا ہے ۔ وجہ سڑکوں پر بے قابو جوانوں کی ہلڑ بازیاں ، بدتمیزیاں ، اور بدمعاشیاں ۔ لگتا ہے آج انہوں نے ہر تمیز تہذیب سے آزادی حاصل کر لی ہے اور انہیں انہیں کے والدین کے اندھے مال نے بے غیرتی و بے حیائی لائسنس جاری کر رکھا ہے ۔ ان والدین کو یہ کون سمجھائے کہ طوفان پالنے والےسب سے پہلے اس طوفان کی نذر ہو جایا کرتے ہیں ۔ 
جوانوں کو پیروں کا استاد ہونا تھا لیکن یہاں تو جوانوں نے پیروں کی نیندیں حرام کر رکھی ہیں ۔ زندہ قومیں اپنی آزادی کے دن بھرپور وعدے وعید اور خود احتسابی کیساتھ منایا کرتی ہیں ۔ اپنی غکطیوں سے سیکھتی ہیں اور اپنے اگلی کل کے لیئے بہترین منصوبہ بندی کیا کرتی ہیں ۔ 
لیکن باجے بھوں بھوں ، بے تحاشا فائرنگ ، اونچے اونچے میوزک ٹریک لگا کر اپنے ارد گرد کے لوگوں کی نیندیں اجاڑ کر آپ کو یہ تک یاد نہیں رہا کہ جہاں دوسرے کی تکلیف شروع ہوتے ہیں وہاں آل کی آزادی کی حد ختم ہو جاتی ہے ۔ ہو سکتا ہے آپ کے پڑوس میں کوئی بیمار ہو ، کوئی طالبعلم مطالعہ کر رہا ہو ، کوئی بزرگ آرام کر رہے ہوں کوئی بچہ سو رہا ہو ۔ لیکن آپ کا یہ طوفان بدتمیزی ان کے دل سے آپ کے لیئے ایسی بدعا نکلنے کا باعث بن جائے کہ آپ ساری عمر اس کے حصار سے نہ نکل سکیں۔ 
اپنے ملک کی سلامتی اور کشمیر کی آذادی اور کشمیریوں کی سلامتی کے لیئے اپنا کردار ادا کیجیئے۔ کشمیر لہو لہو ہے ۔ اس کی آواز پر لبیک  کہیئے۔ دنیا کو بتا دیجیئے کہ زندہ قومیں اپنی عزتوں کی حفاظت کرنا جانتی ہیں ۔ 
                      ۔۔۔۔۔

منگل، 6 اگست، 2019

رپورٹ تقریب رونمائی اے شہہ محترم (صلی اللہ علیہ وسلم )



تقریب رونمائی
"اے شہہ محترم"
(صلی اللہ علیہ وسلم )

4اپریل 2019ء بروز اتوار  کی شام پیرس کے ایک مقامی ریسٹورنٹ میں معروف شاعرہ ممتازملک کی چوتھی کتاب ، ان کے پہلے نعتیہ  مجموعہ کلام "اے شہہ محترم" (صلی اللہ علیہ وسلم)کی خوبصورت تقریب رونمائی کا انعقاد فرانس میں پاکستانی خواتین کی پہلی ادبی تنظیم "راہ ادب" کے زیر اہتمام کیا گیا ۔ جسمیں میں مقامی ادبی تنظیمات ، شعراء کرام اور شرکاء نے بھرپور شرکت کی ۔
پروگرام کی نظامت ممتازملک اور روحی بانو نے کی ۔  پروگرام کا باقاعدہ آغاز قاری جاذب کی تلاوت کلام پاک سے ہوا ۔ زاہد محمود چشتی نے خوبصورت لحن کیساتھ نعت رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم پیش کرنے کی سعادت حاصل کی۔
اسکے بعد پروگرام کو دو حصوں میں پیش کیا گیا ۔ پہلے حصے میں شعراء کرام نے ممتاز ملک کے نعتیہ مجموعے کی اشاعت پر انہیں مبارکباد پیش کی اور اس کتاب پر اپنے بھرپور تبصرے پیش کیئے ۔ جبکہ دوسرے حصے میں  شعراء کرام نے اپنا اپنا کلام پیش کیا ۔ جسے شرکاء نے دل کھول کر داد دی ۔ شعراء کرام میں بزم اہل سخن کی جانب سے عاکف غنی ، ایاز محمود ایاز، نبیلہ آرزو ،
پنجابی ادبی سنگت سے عظمت نصیب گل، وقار ہاشمی ،
بزم صدائے وطن سے مقبول شاکر، راجہ زعفران ، عاشق حسین رندھاوی ، ممتازاحمد ممتاز،
راہ ادب کی جانب سے ممتازملک ، شمیم خان ، روحی بانو نے شرکت کی اور اپنا اپنا کلام سنا کر سامعین و حاضرین سے داد وصول کی ۔
  ان کے علاوہ ممعروف ناول نگار،  افسانہ نگار ، کالمنگار اور شاعرہ محترمہ  شاز ملک صاحبہ نے خصوصی شرکت فرمائی اور کتاب پر اپنا خوبصورت اور جامع تبصرہ پیش کیا ۔ اپنے کلام سے حاضرین کو نوازہ اور خوب داد پائی ۔
 نئے شاعر قاری جاذب نے اپنا کلام پیش کیا ۔ جبکہ دو نئے خوش لحن گلوکاروں ظل عمر اور  ضیاء صاحب نے اپنی آواز میں صوفیانہ کلام کا جادو بکھیرا۔
اس پروگرام کی خاص بات ایک نئے شاعر اور دو گلوکاروں کی پہلی بار شرکت تھی وہیں خواتین کی بڑی تعداد میں شرکت نے ادبی محفل کو حوصلہ بخشا۔ جبکہ تقریب کا وقت پر شروع ہونا اور وقت پر اختتام  اور شرکاء کا وقت پر پہنچنا ایک بہت ہی خوبصورت تجربہ رہا ۔ اس نعتیہ مجموعہ کلام اے شہہ محترم (صلی اللہ علیہ وسلم ) کی اشاعت سے ممتازملک کا نام فرانس کی پہلی خاتون نعتیہ شاعرہ کے طور پر ہمیشہ یاد رکھا جائیگا ۔ جبکہ یورپ بھر میں بھی شاید چند ہی خواتین ہیں جنہیں نعتیہ مجموعہ کلام لکھنے کی سعادت حاصل ہوئی ہے ۔ جس کے لیئے انہیں تہہ دل سے سراہا گیا۔
پروگرام کے مہمان خصوصی راز میں تھے ۔ جو ان کے شوہر محمد اختر شیخ تھے۔ ممتاز ملک نے انہیں کتاب کا فیتہ کاٹنے کے لیئے یہ کہہ کر بلایا کہ میری زندگی کی سب سے خاص اور مبارک کام کے لیئے مجھے میرے شوہر سے زیادہ کوئی بھی مہمان خصوصی کے طور پر موزوں دکھائی نہیں دیا ۔ کیونکہ ان کی پشت پناہی اور حوصلہ افزائی کے سبب ہی آج میں ممتازملک ہوں ۔
حاضرین و شعراء کرام نے کامیاب پروگرام کے انعقاد پر ٹیم راہ ادب کو اور "اے شہہ محترم" (صلی اللہ علیہ وسلم )کی شاعرہ ممتاز ملک کو دلی مبارکباد پیش کی ۔
پروگرام کے اختتام پر مہمانوں کے لیئے کھانے کا اہتمام کیا گیا۔
                 ۔۔۔۔۔۔ 
فی الحال جو تصاویر مل پائی ہیں وہ حاضر ہیں ۔ مذید تصاویر موصول ہوتے ہیں شامل کر دی جائینگی۔









پیر، 5 اگست، 2019

شکریہ شرکت پروگرام/ رپورٹس

شکریہ دوستو

8
السلام علیکم دوست
آپ کی آمد کا بیحد شکریہ ۔
آپ نے ہماری محفل میں اپنی شرکت سے روشنی بھر دی۔جس کیلیئے ہم تہہ دل سے آپ کے ممنون ہیں ۔ امید ہے محبت اور خلوص کا یہ سفر جاری رہیگا ۔ خوش رہیں سلامت رہیں ۔    
والسلام:ٹیم راہ ادب ممتازملک ،شمیم خان، روحی بانو

جمعرات، 1 اگست، 2019

دعوت نامہ/رونمائی/اے شہہ محترم

السلام علیکم دوستو
معروف شاعرہ ممتازملک کی چوتھی کتاب اور پہلے نعتیہ مجموعہ کلام
اے شہہ محترم
(صلی اللہ علیہ وسلم )
کی تقریب رونمائی
4اگست 2019ءبروز اتوار
سہہ پہر 4 بجے
منعقد کی جارہی ہے۔جسمیں آپکی شرکت ہمارے لیئے باعث مسرت ہو گی ۔
والسلام : ٹیم راہ ادب
ممتازملک،  شمیم خان، روحی بانو
بمقام :    Restaurant Kerwan
119 Boulevard Charles de Gaulle, 93380 Pierrefitte-sur-Seine
Contact :07 50 00 87 86
      //      :06 24 09 24 35

پیر، 29 جولائی، 2019

نکاح نامے کیساتھ کچھ اور بھی/ کالم



نکاح نامے کیساتھ کچھ اور بھی 
                   (تحریر: ممتازملک.پیرس)

سنا ہے ایک نئے حکم کے تحت حکومت نے شادی کے لیئے شناختی کارڈ کی شرط، اٹھارہ سال کی عمر کو لازمی قرار دے دیا ہے ۔ میں حکومت کے اس اقدام کی بھرپور حمایت کرتی ہوں ۔
کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ یہ غلط ہے اور اس سے  بے راہ روی کو فروغ ملے گا ۔ جبکہ ہم سمجھتے ہیں کہ بےراہ روی کو فروغ تو ہمارے ہاں کے اکثر شادی شدہ اور رنگین مزاج بوڑھوں نے ویسے ہی دے رکھا ہے ۔ بچوں کی یہ ٹین ایج ان کی پڑھائی اور مستقبل کے لیئے کوئی ہنر سیکھنے اور اپنے پاوں پر کھڑا ہونے کی عمر ہوتی ہے ۔ سو طرح کے جذباتی مدوجزر کا دور ہوتا ہے یہ۔جس میں نوجوان پل پل نئے سوچ کے تجربات سے گزرتے ہیں اور ہوا کے گھوڑے پر سوار ہوتے ہیں ۔ جب وہ اپنے آپ کو سنبھالنے کے لائق بھی نہیں ہوتے ، یہاں تک کہ تمیز سے بات کربے اور چھوٹے بڑے کی تمیز سے بھی نالاں ہوتے ہیں  تو ایسے میں لڑکے پر ایک جیتی جاگتی لڑکی مطلب ضروریات کی پوٹ کو لاد دینا کہاں کی عقلمندی ہے ؟ 
اور لڑکی پر ایک پورے کنبے اور اپنے بھی بچوں کی پیدائش و پرورش کا بوجھ لادنا کہاں کی سمجھداری ہے؟
 اب اگر کوئی پھر سے پہلے زمانے کی مثالیں دینے لگے تو یاد رکھیئے ہر زمانہ پہلے زمانے سے مختلف ہوتا ہے ۔ اس کے اپنے تقاضے ہوتے ہیں ، اس کی اپنی سوچ اور طرز زندگی ہوتا ہے ۔ 
پہلے زمانے میں  وہ طرز زندگی تھا جو آج ہے ؟
وہ خوراک اور پکوان تھے جو آج ہیں ؟
وہ پہناوے تھے جو آج ہیں ؟
ان چیزیوں کا کوئی تصور تھاجو آج لازمی سمجھی جاتی ہیں ؟(جیسے کہ  ہنی مون ، نیٹ ، کمپیوٹرز ،LED , موبائل ، ککنک رینج ۔۔۔)
پہلے سال بھر میں ہر شخص کے تین جوڑے کپڑے،  ایک جوڑا جوتے، اور پیٹ بھر گندم دال، چاول، گڑ ، گندم گودام میں موجود ہے تو بندہ بادشاہ ہوا کرتا تھا ۔ 
ائک ہی کمرے میں پچیس بندے سو جاتے تو بھی انہیں کوئی فرق نہیں پڑتا تھا ۔ نہ محرم تھا نہ نامحرم۔
لیکن آج تو ان چیزوں پر گزارے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔ زندگی کے تقاضے بدلے ہیں ، سوچ بدلی ہے ، تو انداز بھی بدلنا ہو گا ۔ 
تتلیاں پکڑنے کی عمر ، خواب دیکھنے کی عمر  ، شرارتیں کرنے کی عمر ، کھل کر ہنسنے کی عمر کو بچوں اور کنبے کی پرورش کے چولہے میں مت جھونکیئے خدارا۔
وقت سے پہلے بوڑھے ہوتے ہوئے ان جوڑوں پر ترس کھائیے، جو پینتیس سال کی عمر تک پہ پہنچتے پہنچتے  سر سفید ، کمر ٹیڑھی کروا چکے ہوتے ہیں ، دس بیماریوں میں مبتلا ہو چکے ہوتے ہیں ۔ اپنی عمر سے بیس سال بڑے لگنے لگتے ہیں ۔ 
رہی بات بے راہ روی کی تو اس کے لیئے عمر کی کوئی شرط عائد نہیں ہوتی ۔ انسان باکردار ہو اس کی اخلاقی و دینی تربیت اچھی ہو ، تو وہ ٹین ایج جیسی آزمائشی عمر میں بھی پارسائی اختیار کر سکتا ہے ، اور اگر انسا بدکردار ہو تو ستر برس کی عمر میں بھی ایک پاوں قبر میں اور ایک پاوں بدکرداری کے کیلے کے چھلکے پر ہی رکھے گا ۔ 
ہم سمجھتے ہیں کہ  18 سال کی عمر کے بجائے لڑکی کی عمر شادی کے لیئے  کم از کم بیس بائیس سال ضرور ہونی چاہیئے خاص طور پر ہمارے ایشین معاشروں میں جہاں شادی کے روز شوہر کے گھر کی دہلیز پر قدم رکھتے ہی اس سے چالیس سال پختہ کار خاتون کی سی توقعات وابستہ کر لی جاتی ہیں ایسے میں وہ معصوم بچی جس کی نہ ابھی تعلیم مکمل ہوئی ہے ، نہ اسے کوئی ہنر آتا ہے ، نہ اسے گھر بار سنبھالنے کی سمجھ ہوتی ہے بیچاری رل کھل جاتی ہے ۔
 لڑکے کی عمر بھی کم از کم 26 ، 27 سال ہونی چاہیئے تاکہ وہ شادی کو کوئی کھیل نہ سمجھے بلکہ پڑھ لکھ کر ، باہنر ہو کر اپنے پاوں پر کھڑا ہو اور اپنی بیوی کی ذمہ داریاں بحسن و خوبی اٹھا سکتا ہو ۔ ہم اس سے کم سنی کی شادیوں کو انتہائی تکلیف دہ سمجھتے ہیں ۔
 ہم حکومت کی اس اقدام کی حمایت کرتے ہیں  بلکہ مذید یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ ہمارے ہاں بڑھتی ہوئی آوارگی اور بدکردار پیروں اور بابوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کے پیش نظر اب نکاح نامے کیساتھ لڑکے اور لڑکی کا اس کے والدین کیساتھ DNA رپورٹ اور بڑی بیماریوں اور اپاہج اولاد کی پیدائش کی  آزمائش سے بچنے کے لیئے میڈیکل رپورٹ بھی ضرور نتھی کی جائے ۔ تاکہ ان پیچیدہ اور عمر بھر کا روگ بن جانے والے معاملات سےحتی المقدور بچا جا سکے۔ 
                ۔۔۔۔۔۔۔


ہفتہ، 27 جولائی، 2019

جلدی کھلنا/ چھوٹی چھوٹی باتیں


کھلنا رلنا



جو جتنی جلدی کھلتا ہے 
وہ اتنی جلدی رلتا ہے 
               (چھوٹی چھوٹی باتیں)
             (تحریر:ممتازملک.پیرس)

بدھ، 24 جولائی، 2019

سوچیئے زرا دور تک /کالم


          سوچیئے زرا دور تک
                     (تحریر:ممتازملک۔پیرس)

ے
دنیا کے حسین ممالک کا نام لیا جائے تو بلا شبہ پاکستان کا شمار ان ابتدائی ایک درجن ممالک میں کیا جا سکتا ہے  جنہیں پروردگار نے بہترین لینڈ سکیپ سے نواز  رکھا ہے ۔ کھلے میدان ہوں یا چٹیل پہاڑ ، ریگزار ہوں یا گلزار وادیاں ، دریا ہوں یا سمندر، برف پوش وادیاں ہوں یا نمکین اور خزانوں سے پر پہاڑ ۔ موسم دیکھیں تو کونسا موسم ہے جو قدرت نے اس حسین ملک کو عطا نہیں کر رکھا ۔ لوگوں کو دیکھیں تو بلا کی خوبصورتی اور ذہانت سے مالامال قوم ۔ پھر بھی ہم کرپشن میں، جھوٹ میں ، منافقت میں ،جرائم میں کیوں گنے جاتے ہیں ۔ ہمیں اس بات کی شدید ضرورت ہے کہ ہم اپنی کردار سازی پر خصوصی توجہ دیں ۔ ہمارا آئیڈیل مذہب میں ہمارے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات مبارکہ ہے کہ جس کی کسی بھی میدان میں اس سے اچھی مثال موجود ہی نہیں ہے تو ایک محنتی انسان اور رہنما کے طور پر بہترین انسان کی صورت محمد علی جناح قائد اعظم کی صورت ہمارے سامنے ہے جن کی وفات کو بھی ستر برس سے زائد گزر چکے ہیں لیکن آج بھی ان کے مخالفین ان کے کردار و گفتار میں کبھی کوئی غلطی نہ نکال سکے ۔ پھر کیا وجہ ہے کہ ہم نے اپنی اچھی مثالوں کو چھوڑ کر بری عادتوں کو  اپنی زندگی  میں شامل کر لیا ہے ؟ 
محض چھوٹے چھوٹے وقتی مفادات کی خاطر ہم اپنے اعتبار اور ایمان دونوں کو کرچی کرچی کروا لیتے ہیں ۔ کہیں بھی جائیں اور وہاں سے گندگی چھوڑے بنا واپس آنا ہمیں مشکل لگتا ہے ۔ ہر ایک کو ہماری چھوڑی ہوئی گندگی ہی سے کیوں یہ یاد رہے کہ ہاں یہاں سے کوئی پاکستانی گزرا ہے۔ اس کے لیئے ہماری نفاست اور شائستگی بھی تو ہمارا تعارف بن سکتی ہے ۔  
ہم آہستہ اور تمیز سے بولنے ، سچ بولنے ، ہر چھوٹی سے چھوٹی بات میں  شکریہ ادا کرنے ، ہر معمولی سی بات  پر  بھی "معاف کیجیئے گا" کہنے کو اپنی عادت اور  اپنے بچوں کی گھٹی میں  ڈال لیں تو کیا ہی بات ہے ۔ ہم عورتوں کی بچوں کی عزت اور حفاظت کو خود پر اسی طرح فرض کر لیں جیسے ہمارے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم اور قائد اعظم کا طرز عمل تھا تو کون ہے جو ہمیں پاک ستان بننے سے روک سکے، ہم نے پاکستان  تو بہتر برس قبل ہی حاصل کر لیا تھا لیکن اسے پاک لوگوں کی سرزمین بنانے میں اور کتنے سال درکار ہیں ؟
ہمارے اس دنیا سے جانے کے وقت کیا ہم اس پاکسان سے بہتر پاکستان چھوڑ کر جا رہے ہونگے جو ہمیں ہماری پیدائش پر ملا تھا ؟
پاکستان صرف نعروں سے زندہ باد نہیں ہو سکتا بلکہ اسے اپنے عمل سے زندہ باد کیجیئے۔ 
اس ملک سے پیار کیجیئے ۔ اس کی قدر کیجیئے ۔ کیونکہ بےقدروں کی دنیا میں کوئی جگہ نہیں ہوتی ۔ 
                         پاکستان زندہ باد
                      ۔۔۔۔   


  

شاعری / /مدت ہوئ عورت ہوۓ/ ممتاز قلم / سچ تو یہ ہے/ اے شہہ محترم/ سراب دنیا/ نظمیں/ پنجابی کلام/