ممتازملک ۔ پیرس

ممتازملک ۔ پیرس
تصانیف : ممتازملک

بدھ، 6 اپریل، 2016

شکریہ پریس کلب فرانس




شکریہ پریس کلب فرانس 

ممتازملک. پیرس





2اپریل 2016 بروز ہفتہ پریس کلب فرانس کے زیر اہتمام یوم قرارداد پاکستان کے حوالے سے ایک منفرد تقریب کا انعقاد کیا گیا تقریب میں شرکت دعوت ناموں کے ذریعے رکھی گئی تھی. تمام شرکاء محفل نہایت احترام کیساتھ دعوت نامہ سے مدعو کئے گئے تھے اس لیئے کسی قسم کی ہڑبونگ کہیں بھی کسی موقع پر دیکھنے میں نہیں آئی . پروگرام کے منتظمین میں صدر پریس کلب فرانس  صاحبزادہ عتیق الرحمن صاحب ، سیکٹری میاں امجد صاحب ، صدر خواتین ونگ محترمہ آصفہ ہاشمی صاحبہ شامل   تھیں .  تمام سیاسی اور سماجی اداروں اور پارٹیز  کے مرکزی عہدیداروں اور صحافیوں کی نمائندگی موجود تھی. پروگرام کی صدارت  فرانس میں تعینات ہر دلعزیز سفیر پاکستان محترم غالب اقبال صاحب نے کی . جنہوں نے ہمیشہ کی طرح محفل میں موجود ہر شخص اور ہر بات پر اپنی توجہ مرکوز رکھی . تقریب کی نظامت  میاں امجد صاحب نے فرمائی .پاکستان کے حالات پر تمام مقررین نے اپنے اپنے انداز میں روشنی ڈالی اور اسے بدلنے کے لیئے خود کو بدلنے پر زور دیا . جب تک ہم خود  اپنے آپ کو تبدیل نہیں کریں گے اپنی عادات میں مثبت تبدیلیاں نہیں لائیںگے تب تک یہ سب باتیں محض باتیں ہی رہیں گی . تقریب کی خاص بات تمام کمیونٹی کی جانب سے سفیر محترم جناب غالب اقبال صاحب  کو ان کی خدمات کے اعتراف میں  اعزازی شیلڈ پیش کی گئی . جبکہ ایسے فرنچ پاکستانی نوجوانوں کو شیلڈ پیش کی گئی جنہوں نے کسی نہ.کسی میدان میں بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا . شیلڈ حاصل کرنے والوں میں بہادری کی شیلڈ واصفہ اسلم کو دی گئ جس نے پیرس سے دور اپنی عمارت  میں آگ لگنے پر بروقت فائر برگیڈ کو بھی اطلاع دی اور اپنی جان پر کھیل کر اس عمارت  سے بہت سی جانوں کو بچایا . جس پر تمام فرانسیسی پریس اور میڈیا نے ان پر شاباشی تبصرے بھی شایع کیئے اور اعزازات سے بھی نوازا. جبکہ اس کے علاوہ ڈاکٹر رضوانہ جمیل ، تبسم سلیم ،عاکف غنی  ، کے ٹو سرکل کے ذاکر صدیق ، مسلم ہینڈز کے مبشر ملک  ، یاسر الیاس ،علی اشفاق ، کو بھی شیلڈ پیش کی گئی . تقریب میں پچھلے دنوں سفیر صاحب پر ہونے والے نازیبا الفاظ اور اعتراضات پر مبنی آ رٹیکلز بھی زیر بحث رہے . اور سبھی نے اس پر افسوس کا اظہار کیا اور قرار داد مذمت بھی منظور کی . جبکہ غالب اقبال صاحب نے تمام لوگوں پر زور دیا کہ انہیں اپنے تین سالہ دور سفارت کاری میں جب بھی کوئی شکایت موصول ہوئی انہوں نے اس پر سنجیدگی سے نوٹس لیا ہے جب کسی نے ملاقات کا وقت مانگا اسے ہر ممکن وقت دیا گیا ہے . جب کہیں مدعو کیا گیا اور وہ ان تاریخوں پر دستیاب تھے تو ضرور  وہاں  شامل ہوئے ہیں . اس صورت حال میں مجھ پر لچر الزامات کا لگنا میری کردار کشی کرنا نہایت افسوسناک ہے . انہوں نے مزید کہا کہ مجھ پر کیچڑ اچھالنے والوں کو میں چیلنج کرتا ہوں کہ دو بار یہ بے ہودہ حرکت ہو چکی ہے جسے میں نظر انداز کر چکا ہوں لیکن اب میں یہ اعلانیہ کہتا ہوں کہ ایک اور بار یہ حرکت دہرایئے تو میں آپ سب کے سامنے یہ اقرار کرتا ہوں کہ اسے جو بھی شرعی اور قانونی حدود کے اندر سزا موجود ہے اسے وہ دلوا کر رہونگا . 

ہم نے آج تک غالب اقبال صاحب کو بڑی ٹھنڈی میٹھی باتیں کرتے ہی سنا تھا لیکن آج پہلی بار ان کا یہ گرما گرم خطا سن کر معاملے کی سنگینی کا احساس شدت اختیار کر گیا  .خطاب  کے دوران سفیر محترم نے اپنے ماتھے پر آیا پسینہ بھی کئی بار پونچھا  اور  پانی کے دو گلاس بھی پیئے . یہ موسم کا اثر تھا یا سفیر محترم کے جذبات یا دونوں ...
لیکن ان کی ہر بات مدلل تھی اور ہمیں ان سے مکمل اتفاق تھا . 
پروگرام کے اختتام پر وہ ایک ایک سے فردا فردا آ کر ملے انکی خیریت دریافت کی اور  ان کے مسائل بھی دریافت کیئے . امید ہے آئندہ بھی فرانس میں پاکستانی نوجوانوں اور افراد کی محنتوں کو اسی طرح سراہا جاتا رہیگا . اعزازات کی تقسیم کے سلسلے  کو شفاف اور بلا کسی تفریق کے جاری  رکھا جائیگا . یہ ایک بے حد خوبصورت پروگرام تھا.  جسے مزید تیاری سے اور بھی خوبصورت بنایا جائیگا . اس پروگرام میں مجھ ناچیز کو بھی شرکت کی دعوت دی گئی . جس کے لیئے میں صاحبزادہ عتیق الرحمن، میاں امجد اور آصفہ ہاشمی صاحبہ کی تہہ دل سے ممنون ہوں . ایسے پروگرام کی ضرورت کافی عرصے سے محسوس کی جا رہی تھی.  اس پروگرام کی کامیابی پر ہم دل کی اتھا ہ گہرائیوں سے پریس کلب فرانس کو مبارکباد پیش کرتے ہیں .





:::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::









منگل، 5 اپریل، 2016

آپ کی اہمیت




                                                         آپ کی اہمیت


کسی کے لیئے آپ تب تک اہم ہیں جب تک اسے آپ سے بہتر کوئی نہ مل جائے . 
چاہے وہ" بہتر" بعد میں کچرے کاڈھیر ہی ثابت ہو . لیکن اس نے ہمیشہ کے لیئے آپ کو، آپ کی محبت کو، آپ کے اعتبار کو کھو دیا . اور کسی انسان کو اس دنیا میں اس سے بڑا اور کوئی نقصان نہیں ہو سکتا . 
 ممتازملک. پیرس



ہم اور ہماری پہنچ




                                         ہم اور ہماری پہنچ

ہم اور ہماری پہنچ یہیں تک ہے کہ کوئ ہمارے گھر والوں سے پوچھے کہ ہم پہنچے ہوئے ہیں تو وہ بتائے ہاں جی پہنچے ہوئے ہیں . بلکہ آج تو سیدھے ہی پہنچ گئے تھے .راستہ پوچھے بنا ہی....
 ممتازملک - پیرس

یا اللہ ہمارے گناہوں کو




یا اللہ ہمارے گناہوں کو

یا اللہ ہمارے گناہوں کو معاف فرما ہمیں نیکی کے مواقع عمل کی توفیق کیساتھ عطافرمااور زلزلے سے لرزتی زمین کو سکون عطا فرما.پاکستان کی خیر پاکستانیوں کی خیر فرما.آمین ممتازملک. پیرس

کسی بھی انسان کا کردار




                                   کسی بھی انسان کا کردار

کسی بھی انسان کا کردار ہی اس کی عظمت کو ظاہر کرتا ہے اور اسے بڑا آدمی بناتا ہے.
 ممتازملک. پیرس

مذہب یا انسانیت

ہم کسی کے دین اور مذہب کو کم نہیں کہہ سکتے ہر انسان اپنے رب سے اپنی حیثیت میں محبت بھی کرتاہے اور رابطہ بھی . میری نظر میں کسی کا مذہب کبھی اہم نہیں ہو سکتا جب تک اس میں انسانیت نہ ہو . مجھے ڈوبتے وقت کوئی ہاتھ بچانے کو ملے تو میں اس ے یہ نہیں ہوچھقں گی کہ بھائی تم مسلمان ہو کہ نہیں . بلکہ سب سے پہلے میرا دماغ یہ ہی گواہی دیگا کہ یہ ایک اچھا انسان ہے جو خدا نے مجھے بچانے کے لیئے بھیجا ہے .

کبھی کبھی صدیوں کا فاصلہ





کبھی کبھی صدیوں کا فاصلہ



See original image

کبھی کبھی صدیوں کا فاصلہ
 لمحوں
 میں طے ہو جاتا ہے 
 تو کبھی دو قدم طے کرنے
 میں عمر بیت جاتی ہے....... 
ممتازملک. پیرس

معاہدے انسانوں کے لیئے










دل یا معاہدہ

See original imageمعاہدے انسانوں کے لیئے ہوتے
 ہیں ناکہ انسان معاہدوں کے لیئے.
 جہاں دل ٹوٹ رہا ہو وہاں معاہدہ 
توڑ دینا زیادہ بہتر ہے.
 ممتازملک. پیرس

ماں چاہے سارے زمانے کی ۔۔۔۔۔۔






ماں چاہے سارے زمانے کی۔۔۔ 



ماں چاہے سارے زمانے کی ماں بن جائے لیکن سچ تو یہ ہے کہ وہ رہتی اپنے ہی بچے کی ماں ہے. جو جگہ جو مرتبہ وہ اپنے بچے کو دے گی وہ اس کے مقابل کسی کو دینے کا حوصلہ نہیں کر سکتی . کوئی مانے یا نہ مانے .......
 ممتازملک. پیرس

اتوار، 3 اپریل، 2016

محبت کبھی بھی جسم سے نہیں

محبت کبھی بھی جسم سے نہیں ہوتی بلکہ رویئے سے ہوتی ہے . ورنہ بدصورت اور بدہیئت لوگ کبھی کسی کے ہمسفر نہ ہوتے . ممتازملک - پیرس

غربت ہو نیا امارت

غربت ہو یا امارت ,ان کا اشتہار لگانے کی ضرورت نہیں پڑتی , یہ خود بخود حالات کے تھیلے سے کود کر باہر آجاتے ہیں . ہم چاہیں یا نہ چاہیں. ممتازملک. پیرس

ساری دنیا میں مسکراہٹ

ساری دنیا میں مسکراہٹ مرد کی ہو یا خاتون کی اچھے اخلاق کی علامت اور ایک ہمارے ہاں کے کم ظرفوں میں ایک ہی شرمناک اصول "ہنسی تو پھنسی" ممتازملک .پیرس

سارا زمانہ جنہیں فالو کرتا ہے

سارا زمانہ جنہیں فالو کرتا ہو ،اس سے مشاورت کرتاہو،اسکی عزت کرتا ہو ،لیکن اس کے گھر سے اسےیہی سنائی دے گا کہ "پتہ تمہیں کچھ ہے نہیں اور....... " ممتازملک. پیرس

دوسروں کو بات کرنے کا حق

دوسروں کو بات کرنے کا حق نہ دینے والے اور خود ہر وقت بولتے رہنا اپنا ہی حق سمجھنے والے ہی بہت جلد پاگل ہو جاتے ہیں . ممتازملک. پیرس

جس تعلق.میں جس رشتے میں

جس تعلق میں جس رشتے میں ایمانداری اور وفا ہی نہ رہے اس پر بھروسہ کرنا ریت کی دیوار پر تکیہ کرنے جیسا ہے . تو پھر یہ دیوار آج گری یا کل گری کیا فرق پڑتا ہے. ممتازملک. پیرس

جانتے ہیں کسی انسان کے لیئے ماں

جانتے ہیں کسی انسان کے لیئے ماں سب سے اہم کیوں ہوتی ہے؟ کیونکہ وہ اسے ہمیشہ یہ احساس دلاتی ہے کہ وہ دنیا کا سب سے اہم اور خاص انسان ہے. ممتازملک. پیرس

یہ عورت ہی کا ظرف ہے

یہ عورت ہی کا ظرف اور حوصلہ ہے کہ اپنی آنکھوں کے سامنے کوٹھے کی سیڑھیوں سے اترتے ہوئےدیکھکر بھی اسے جھاڑپونچھکرشوہرسمجھکر سینے سے لگا لیتی ہے . اور ایک مرد کا ظرف ہے کہ عورت کے ساتھ ہوئے کسی حادثے کے بعد اسےساری عمرکیباکرداری اورخدمت کے باوجود کوڑھ کے پھوڑے کی طرح نوچ کر اپنے آپ سے الگ کر دیگا اور اعلان کرتا پھرے گا، "بچ کےرہنایہ بڑی بدکردار ہے بھئی" ممتازملک - پیرس

تبدیلیاں کبھی ایک دم سے

تبدیلیاں کبھی ایک دم سے اور بہت بڑے کاموں سے نہیں آیا کرتیں . بلکہ اس کا آغاز ہمیشہ چھوٹی چھوٹی باتوں کو اپنانے سے ہوتا ہے . ممتازملک. پیرس

بندہ اب ہر وقت

بندہ اب ہر وقت اتنا بھی سمجھدار نہ بنے کہ ہارٹ اٹیک کروا کر بیٹھ جائے . زندگی میں کبھی کبھی بیوقوف بھی بن جانا چاہئے. زندگی آسان ہو جاتی ہے. ممتازملک. پیرس

سوال کیوں ؟ چھوٹی چھوٹی باتیں ۔ کوٹیشنز


سوال کیوں؟

اگر سوال کیا جائے کہ"ارے آپ نے یہ کیوں سوچا""آپ نے اس موضوع پر کیوں لکھا " "آپ کو تو بس کچن کہانی لکھنی چاہیئے""آپ بس رومینٹک موضوعات پر لکھا بولا کریں" "بس گھریلو کہانیاں لکھا کریں" تو انہیں بھرپور جواب دیں کہ جناب جب اللہ نے مجھے ایک موضوع پر مخصوص نہیں کیا تو آپ ہیں کون یہ صلاح دینے والے....
         (چھوٹی چھوٹی باتیں)
               (ممتازملک.پیرس)
                    ...........

اپنے دوستوں کو سیڑھی

اپنے دوستوں کو سیڑھی بنا کر بلندی حاصل کرنے کے شوقین کبھی بلندی نہیں پا سکتے.کیونکہ دوست کا کندھا جب بھی ہلے گا آپ کو اسی پل دھول چٹا دیگا . ممتازملک . پیرس

ساری قوم کو 23 مارچ

ساری قوم کو 23 مارچ 1940 کی ڈھیروں مبارک باد قبول ہو. بنا یہ سوچے کہ ہم نے پورا سال اس ملک کے لیئے کون سا تیر مارا ہے...... کتنے برے کام چھوڑے.... کتنے اچھی عادات اپنائیں ..... ممتازملک. پیرس

میں نے بڑی بڑی امیر عورت

میں نے بڑی بڑی امیر عورت دیکھی لیکن کبھی کسی سے یہ نہ سنا کہ میں پرانا شوہر چھوڑ کر نیا لے رہی ہوں . جبکہ ہر امیر مرد کی پہلی سوچ نئی بیوی لے آوں. یہ ہی بات دونوں کے کردار کو ثابت کرتی ہے. ممتازملک. پیرس

انسان کے مشورے میں ہی اس کی

انسان کے مشورے میں ہی اس کی محبت یا نفرت چھپی ہوتی ہے . ممتازملک. پیرس

انسان بھی کیا چیز ہے

انسان بھی کیا چیز ہے.......... بلند ہوتا ہے تو اتنا کہ فرشتے بھی اس کے سامنے سر جھکا دیں اور پستیوں میں اترتا ہے تو ایسا کہ کیڑے مکوڑے اور شیطان بھی پناہ مانگنے لگے . ممتازملک. پیرس

یہ سچ اب ہمیں مان لینا

یہ سچ اب ہمیں مان لیا چاہیئے کہ ملک چلانے کے لیئے مذہب کی نہیں قانون کی ضرورت ہوتی ہیں جو انسانوں کو بحیثیت انسان انصاف ،تحفظ اور برابری عطا کرے. ممتازملک. پیرس

تہذیب اور اخلاق کے دائرے

تہذیب اور اخلاق کے دائرے میں رہ کر اختلاف بھی برا نہیں لگتا . جبکہ اخلاق سے باہر تو تعریف بھی زہر لگتی ہے. ممتازملک. پیرس

آپ نے کب سے سوچ لیا ۔ کوٹیشنز۔ چھوٹی چھوٹی باتیں


       بازار 

آپ نے کب سے سوچ لیا
 کہ دنیا محبت کا بازار ہے .یہ تو درد کا بازار ہے . ہر موڑ پر محبت ،خوشی،وفا کے ڈبے سے درد کی ہی کوئی نئی تصویر نکل کر ہمارے ہاتھ میں ہوتی ہے.
  (چھوٹی چھوٹی باتیں)
       (ممتازملک. پیرس)

وقت گزرنے کیساتھ

وقت گزرنے کیساتھ ساتھ دنیا کے ممالک اور قوموں نے اپنی برائیوں کو خود سےدور کیا اور ہم وہ ہیں کہ جنہوں نے اپنی خوبیوں کو خود سے دور کر دیا . ممتازملک. پیرس

حق کی لڑائی

حق کی لڑائی ایسی ہی ہوتی ہے کہ سر دیکربھی سرخرو ہوجاتا ہےحسین، اور باطل کی لڑائی ایسی ہی ہوتی ہے جس میں جیت کر بھی ذلیل وخوار ہوجاتا ہے یذید ممتازملک. پیرس

حق کی لڑائی ایسی ہی

حق کی لڑائی ایسی ہی ہوتی ہے کہ سر دیکربھی سرخرو ہوجاتا ہےحسین، اور باطل کی لڑائی ایسی ہی ہوتی ہے جس میں جیت کر بھی ذلیل وخوار ہوجاتا ہے یذید ممتازملک. پیرس

سچ بولیئے اس دن سے پہلے

سچ بولیئے .... اس دن سے پہلے کہ جب آپ جھوٹ بولنے کے بھی قابل نہ رہیں . ممتازملک -پیرس

دھوکا بڑا ہی وفادار

دھوکا بڑا ہی وفادار ہوتا ہے. یہ کسی کو بھی دے آئیں پلٹ کر آپ کے پاس پہنچ ہی جاتا ہے . ممتازملک -پیرس

ضرورتوں کے دامن

یاد رکھو ضرورتوں کے دامن ہمیشہ بھرے اور خواہشوں کے دامن ہمیشہ خالی ہی رہتے ہیں . ممتازملک. پیرس

ابا جی کی اماں جی کے سامنے

ابا جی کی اماں جی کے سامنےخاموشی مصلحت ،محبت،سمجھداری اور بیٹے کی بہو کے سامنے خاموشی بے غیرتی ؟؟؟؟؟؟؟ ممتازملک - پیرس

دنیا بہت بڑی ہے

آج کی خاص بات دنیا بہت بڑی ہے مگر اتنی بڑی بھی نہیں کہ ہم دوبارہ کبھی مل ہی نہ سکیں . لہذا ہر بات اور ہر کام میں وہ حد باقی رہنے دیں کہ جس کے سبب ہمیں دوبارہ ملنے پر ایک دوسرے سے نظریں نہ چرانی پڑیں . ممتازملک .پیرس

منگل، 29 مارچ، 2016

مذہبی جنونیت ناقابل قبول / کالم


     مذہبی جنونیت ناقابل قبول 
       ( تحریر:ممتازملک. پیرس)




یہ سچی بات ہے کہ ہر انسان ہر کام میں ماہر نہیں ہوتا بلکہ ہو ہی نہیں سکتا . اس کا ایک ثبوت سابقہ گلوکار اور موجودہ نعت خواں جنید جمشید نے بارہا اپنے غیر محتاط انداز بیاں سے دیا ہے . کہ بات کرتے ہوئے انہیں یہ یاد ہی نہیں رہتا کہ وہ کس ہستی کے بارے میں بات کر رہے ہیں؟
  کیا انداز تخاطب برت رہے ہیں ؟
اور کس کے سامنے موجود ہیں ؟
لوگوں نے ہی انہیں ڈھیل دے دیکر مولوی صاحب بنا دیا جبکہ حد ادب کاکبھی مطالبہ ہی نہیں کیا گیا . تو انہیں بھی اپنی باتوں کو ڈرامہ بنانے کے لیئے آیات اور احادیث و واقعات کو آوازیں بنا بنا کر ایک عام آدمی کی کہانی بنانے کی بھونڈی کوششوں نے بے حد شرمناک حرکت تک گرا دیا  . اس واقعے کی روشی میں ان پر تاحیات منبر پر بیٹھنے اور درس دینے کی پابندی لگنی چاہیئے . اور ہم بھی جنید جمشید کی اس بھونڈی ڈرامہ بازی پر ان کی بھرپور مذمت کرتے ہیں .
لیکن اس کے مقابل کسی بھی شخص کو سر عام روک کر اس کی اہانت  کرنا اور اس پر حملہ کرنا کیا کسی قوم کے اعلی کردار کا آئینہ دار ہو سکتا ہے . کسی صورت نہیں کہ ہمارا دین ہمیں صبر تحمل اور بردباری کا درس  دیتا ہے . جبکہ یہ حرکتیں نیم ملا خطرہ ایمان کی نشاندہی کر رہی ہیں .  دنیا بھر میں ان  نیم ملاوں  کے شر پسند شاگردوں نے پاکسان کو بدنام کر رکھا ہے . ان پر گرفت کرنا  بے حد ضروری ہے.  ورنہ یہاں کسی کے ہاتھوں کسی کی عزت محفوظ نہیں رہیگی  . ہم.اس کی پرزور الفاظ میں مذمت کرتے ہیں اور ایسا کرنے اور کرانے والوں اور انہیں اکسانے والوں کی مرمت کرنے کا بھرپور مطالبہ کرتے ہیں . یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے کہ یہ  سب کرنے والے را کے ایجنٹس ہیں جو پاکسان میں بدامنی پھیلانے اور دنیا بھر میں ایک منتشر قوم کی شبیہہ پیش کرنے کے لیئے ایسے ٹٹووں کو خرید کر انہیں دین کی آڑ میں استعمال کر رہی ہے جب کہ ان کا دین کی د سے بھی کوئی واستہ نہیں ہے . اس کا علاج تبھی ممکن ہو گا جب ہم مولوی صاحبان اور علماء کرام میں اصل.اور نقل کی پہچان کر سکیں . اس کا فی زمانہ سب سے بڑا مددگار ہر ایک مولوی صاحب اور عالم کی ڈی این اے رپورٹ بنوائی جائے . جو ان کی ذات اور نسل کی صحیح پہچان با سکتی ہے 
کہ یہ لوگ واقعی پاکستانی اور مسلمان ہیں یا نہیں ...
اور اگر نہیں  تو ان کو سر عام پھانسی دی جائے جنہوں نے ہمارے دین کا مذاق بنانے کی نا پاک جسارت کی . 
  ہر انسان آذاد پیدا کیا گیا ہے اور اللہ اسے ایک الگ دل اور دماغ دیکر یہ ثابت کرتا ہے کہ ہر  انسان اپنی سوچ میں آزاد ہے . رب کائینات نے یہ حق کسی انسان کو نہیں دیا کہ وہ دوسرے انسان کی سوچ پر مسلط  ہونے کی کوشش کرے اگر ایسا ہوتا تو صدیوں کی تبلیغ کرنے کی کسی پیغمبر کو کوئی ضرورت نہ تھی . اللہ پاک انہیں خود سے مجبور کر دیتا کہ مخلوق اس کے تابع آ جائے . جب کہ ایسا ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبروں میں سے کسی کو اختیار نہیں دیا گیا . اور ہر انسان کو اپنی سوچ اور فکر میں آذاد رکھا گیا ہے . تو آج کیا ایسا نرالا ہو رہا ہے وہ بھی ہمارے ہی ملک میں کہ کبھی ہم غیر مسلموں کو ذبردستی ڈنڈے کے زور پر مسلمان کرنا چاہتے ہیں تو کبھی ہم مسلمانوں کو بھی ہماری مرضی کے خلاف بات کرنے پر کہیں کافر تو کہیں مرتد کہہ کر کبھی سر راہ انکی عزت اچھالنے اور ان کے قتل کے احکامات جاری کرتے پھرتے ہیں . ہر انسان اپنی رائے رکھنے میں خواہ وہ.کسی بھی موضوع پر ہو مکمل آذاد ہے . ہم صرف اپنے اچھے اخلاق اور اپنے اچھے کردار سے اسے اپنی جانب مائل کر سکتے ہیں .ڈنڈا  ہاتھ میں.لیکر اسے قتل تو کر سکتے ہیں مرعوب نہیں ......
                   ..  . . ... .....

جمعہ، 11 مارچ، 2016

اپنے بچوں کا بچپن بچائیں


اپنے بچوں کا بچپن بچائیں
کل تک ہم لوگ سنا کرتے تھے کہ لڑکیوں کی عزت بہت نازک ہے اس کی حفاظت کریں . لڑکیاں گھر  سے اکیلی نہ جائیں . دیر تک گھر سے باہر نہ رہیں . لڑکیاں یہ نہ کریں وہ نہ کریں . زیادہ دوست نہ بنائیں وغیرہ وغیرہ لیکن کیا آج آپ جانتے ہیں کہ لڑکیاں  ہی نہیں لڑکے بھی اتنے ہی زیادہ غیر محفوظ  ہوتے ہیں.  ان کی بھی عزت ہوتی ہے. ان کا بچپن بھی اتنا  ہی معصوم اور اہم ہوتا ہے جتنا کہ کسی بھی لڑکی کا . والدین نے اپنی آسانی یا مجبوری کی بنا پر کہیں بچوں کو گھروں میں ملازمین کے حوالے کر دیا . تو کہیں گھر میں آئے ٹیوٹر اور مولوی صاحب کے حوالے کر دیا  .  اور اس کے بعد ہمیں لگتا ہے کہ بس ہم نے اپنا فرض ادا کر دیا . بچہ اگر کسی کی شکایت کرتا ہے یا ایک جگہ جانے ،کسی سے ملنے یا کسی کے پاس بیٹھنے یا پڑھنے سے انکار کرتا ہے تو اسے بچوں کا روز کا بہانہ یا معمول سمجھ کر خود  کو اور اپنے بچے کی جان اور عزت کو خطرے میں مت ڈالیں . ایسی صورت میں بچے کو مارپیٹ کر زور زبردستی سے سکول ،ٹیوشن سینٹر یا کسی اور جگہ جانے پر مجبور مت کریں .  بلکہ اس کی بات پر کان دھریں  اور اس کی شکایت کی تحقیق کریں . اسے اکیلے کسی کے پاس مت چھوڑیں .  چاہے وہ آپ کا اپنا گھر ہی کیوں نہ ہو . یا جس کے پاس چھوڑ رہے ہیں وہ آپ کا سگا بھائی یا بہن کیوں نہ ہو . بچے کے بدکنے کو اپنے لیئے خطرے کی گھنٹی سمجھیں . اپنے گھریلو ملازمین اور ڈرائیوروں پر کبھی اندھا اعتبار مت کریں . بلکہ بچوں کو سکول لیجانے یا لانے کی ذمہ داری خاتون خانہ کو خود ادا کرنی چاہیئے یا بصورت دیگر باپ کو چاہیئے کہ وہ اپنے بچوں کو سکول میں نہ صرف لائے لیجائے بلکہ انہیں سکول کے اندر جانے تک وہاں رکے . ان کی سکول رپورٹس میں ہونے والی ان کی اچھی بری کارکردگی پر نظر رکھیں اور اساتذہ کو بھی چاہیئے کہ بچوں کے رویئے اور پڑھائی کے معمول میں آنے والی ہر تبدیلی سے نہ صرف خود باخبر رہے بلکہ ان کے والدین کو بھی باقاعدہ اس سے خبردار کرتے رہیں .اور ہر مہینے میں کم از کم ایک بار ضرور  ان کی ملاقات بچوں کے والدین سے ہوتی رہیں چاہیئے. یہ معمولی بات نہیں ہے بلکہ یہ ہمارے بچوں کے مستقبل کا سوال ہے .انہیں ایسے شیطانوں سے بچانے کے لیئے آپ کی تھوڑی سی توجہ اور تھوڑی سی باخبری آپ کو آنے والے کسی بھی  طوفان سے بچا سکتی ہے .خاص طور پر  کمرے کا دروازہ بند کروانے والے استاد کی خبر لیں . بچے کی پڑھائی کے دوران اس کے کمرے میں وقتا فوقتا جھانکتے رہیں اور اس کمرے کے ہی ایک کونے میں اپنی موجودگی کو یقینی بنائیں . اکثر گھروں میں بچوں کے دوست آ جائیں تو والدین انہیں ان کے بیڈ روم میں بھیج دیتے ہیں جہاں ایک بیماری ٹی وی کی صورت بھی موجود ہوتی ہے . بچوں کو کبھی کسے بڑے کی موجودگی کے بغیر اکھٹے ہونے کا موقع مت دیں . بچے کی عمر سے زیادہ عمر کے دوست بنانے کی اجازت مت دیں .  اس کے دوستوں کی آمد پر انہیں بیڈ رومز میں جانے کی یا ہاتھ میں یا بیگز لے کر جانے کی کبھی اجازت مت دیں . بچوں کو کسی ذمہ دار بڑے کی موجودگی کے بغیر کبھی بھی ٹی وی دیکھنے کے لیئے اکھٹے ہونے کی اجازت مت دیں . ٹی وی کو بیڈ رومز میں کبھی مت رکھیں . ایسی خواتین پر بھی خصوصی نظر رکھیں جن سے آپ کا بچہ گھبراتا یا کتراتا ہے . یاد رکھیں بچپن میں ملے ہوئے صدمات یا دکھ ساری عمر بھلائے نہیں جا سکتے . اس لیئے ان کے معصوم بچپن کی حفاظت کرنا آپ کی ذمہ دای ہے . اور آپ اس بات کے لیئے خدا کو جواب دہ ہیں . اپنے کنبے اور گھر کا سائز اتنا ہی رکھیں جس میں آپ فردا فردا سب کا خیال رکھ سکیں . اس کی ہر خوشی اور پریشانی کے احساس سے باخبر رہ سکیں . اور اس کی ضروریات کو پورا کر سکیں .ورنہ کئی بار بچے اپنی چھوٹی چھوٹی خواہشات کی لالچ میں اپنی معصومیت اور اپنا بچپن قربان کر بیٹھتے ہیں . اور کئی بار گھر جانے کس لالچ میں اتنے بڑے بنا لیئے جاتے ہیں کہ خود بھی ہر روز اپنے ہی گھر کا بھی پورا چکر نہیں لگایا جا سکتا . کیا فائدہ ایسے گھر کا کہ اس میں رہنے والے چار افراد بھی روز ایک دوسرے کا احوال نہ جان سکیں . اور تحفظ اور آسائش دینے کے فوبیا میں انجانے میں  ہمارے بچے ہمارے ہی ہاتھوں اپنا بچپن اپنی معصومیت کہیں کھو بیٹھے.....

اتوار، 28 فروری، 2016

سنت رسول یا زن مریدی





سنّتِ رسول ﷺ
 یا زن مریدی
ممتازملک ۔ پیرس






مولانا فضل الرحمن جا کر اپنا دین پھر 
سے پڑھ کر آئیں کہ جسے لیکر آنے والے نبی پاک صلی  اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی بیویوں کو  بہترین شوہر بن کر دکھایا اور اپنی ساری زندگی میں کسی ایک بیوی پر بھی کبھی ہاتھ نہیں اٹھایا  اور ان بیویوں کے ہوتے ہوئے بھی اپنے ہاتھ سے پھٹے ہوئے کپڑے سیئے  . بکریوں کا دودھ دوہتے تھے .  گھر میں جھاڑو لگاتے تھے . اور یہاں تک فرمائے تھے کہ " تم میں سے سب سے اچھا وہ ہے جو اپنی بیوی کے حق میں سب سے اچھا ہے "
کہیں فرمایا "بیوی کے منہ میں محبت سے رکھا ہوا نوالہ بھی تمہارے لیئے صدقہ جاریہ ہے"
آج کے ہندووں سے متاثر مولانا ہمیں بتاتے ہیں کہ عورت گھر کے مردوں سے پہلے کھانا کھائے تو جہنمی ہے . عورت مرد سے پوچھے بنا چھینک  مارے تو جہنمی ہے . عورت مرد سے اپنے لیئے خرچ مانگے تو جہنمی ہے اور جانے سانس بھی مرد سے پوچھے بنا لے تو کافر ہے . مولانا صاحب کسی بھی عورت کو  آپ کے راج میں  اپنی مرضی کا کوئی اختیار ہی حاصل نہیں ہے تو جایئے جا کر اسلام کا مطالعہ کیجیئے اور اپنا تجدید دین کیجیئے کہیں جہنم کی بکنگ آپ ہی کے نام پر نہ ہو چکی ہو . ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے تو جتنے حقوق ہمیں دیئے ہیں آپ جیسا بخیل  آدمی اس کا ہزارواں حصہ بھی ہمیمں دینے پر تیار نہیں ہے تو اسے یہ مذہب ہی چھوڑ دینا چاہیئے اور اپنی پسند کا وہ مذہب چن لیجیئے جو آپ کے اندر چھپے ہوئے بھیڑیے کو سکون فراہم کرے . کیونکہ نہ تو آپ جیسے بیمار سوچ والوں کو بدکار اور زانی مردوں کی سزائے موت کے لیئے آواز اٹھانے کی توفیق ہوئی ہے کبھی، نہ آپ اور آپ جیسوں کو بچوں کو ذبح کرنے والوں اور انکے   معصوم جسموں اور عزتوں  کو تار تار کرنے والے جانوروں کے خلاف کوئی جلسہ جلوس کرنے کی کبھی توفیق ہوئی ہے . کیا کبھی چولہے پھٹنے  سے قتل کی جانے والی کسی عورت کے قاتل کی سزائے موت مانگنے کی توفیق ہوئی ہے ؟ 
کیا کبھی تیزاب سے جھلسی عورت کے مجرم کو پھانسی لٹکانے کا مطالبہ کیا ہے آپ نے ؟ کیا کبھی کاری کاری کھیلنے والے، عورتوں کو قتل کرنے والے بہانہ باز قاتل مردوں کو آپ نے سزائیں دلوائی ہیں .
نہیں کبھی نہیں . 
کیا ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کے ہوتے یہ سب کچھ ہو سکتا تھا ؟ 
نہیں 
تو یہ ہی فرق ہے نبی سے محبت کرنے والوں میں اور محبت کا ڈرامہ کرنے والوں میں . 
آپ جیسا آدمی اپنی کرسی کے لیئے اور اپنے حلوے  کے لیئے اپنا دین بیچ دے تو کیا حیرت ہے  کہ ہماری ستر سال کی تاریخ میں آپ نے  اس کے سوا اور کیا بھی کیا ہے. 
آج کچھ غیرت مند اور باضمیر لوگوں کی وجہ سے عورتوں  اور بچوں کو کوئی تحفظ ملنے کی کوئی امید ایک نئے قانون کے تحت ہو رہی ہے تو آپ کے پیٹ میں خوب مروڑ اٹھنے شروع ہو گئے ہیں . 
لیکن آپ پر توہین رسالت کا قانون لاگو ہونا چاہیئے کہ ہمارے نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے بیویوں سے جو رویہ رکھا آپ نے اسے نعوذ بااللہ، نعوذبااللہ، نعوذ بااللہ زن مریدی کانام دے دیا . لعنت ہے ایسا سوچنے والوں پر کہ جنہیں سنت رسول  کو ایسا نام دیتے ہوئے رتّی  بھرشرم نہ آئی . ایک بات یاد رکھیں اور آئندہ اس لفظ زن مرید  کو اپنی ڈکشنری سے پھاڑ کر پھینک دیں . کہ بیوی سے حسن سلوک شوہر پر بیوی کا اللہ کی جانب سے ملا ہوا حق ہے اور ہر مرد کا فرض ہے کہ اپنی بیوی سے اچھا سلوک کرے کہ وہ اپنے نبی کی سنت پوری کرتا ہے . اور سنت میں بیاہ کرنا تو قبول ہے تو ایک قدم اور آگے آیئے اور اسی بیاہی ہوئی بیوی سے انسانوں والا سلوک کر کے اس کے دل میں اپنی عزت پیدا کریں بجائے اس کے کہ اس کے ذہن میں آپ کے ہونے سے خوف اور بے عزتی کا احساس پیدا ہو . اللہ پاک ہمیں مکمل ایمان عطا فرمائے.آمین 

                                       ..................

جمعرات، 25 فروری، 2016

بول مگر سوچ کر


بول مگر سوچ کر
ممتازملک ۔ پیرس


کچھ باتیں کچھ کام اگر مناسب وقت پر ہی منہ سے نکالے جائیں تو ہی بہتر ہوتے ہیں . لیکن ہمارا عمومی رویہ یہ ہی ہے کہ کام کرنے یا ہونے سے پہلے ہی اس کا اتنا ڈھنڈھورا پیٹ لیا جاتا ہے کہ وہ ہونے والا کام بھی اکثر نہیں ہو پاتا . اور ہمیں نا حق شرمندہ ہونا پڑتا ہے . حالانکہ ہم جھوٹ نہیں بول رہے تھے. لیکن جھوٹے کہلائے جاتے ہیں . اس لیئے تھوڑی سی احتیاط اور  اپنے دانتوں کے نیچے تھوڑی دیر کے لیئے اپنی زبان دبا لی جائے تو سوچیں ہم کتنی مشکلوں  سے بچ سکتے ہیں. زبان کا سوچ سمجھ کر استعمال ویسے بھی سمجھداری اور بردباری  کی نشانی ہے . خوشی ہو یا پریشانی جو لوگ اپنی زبان ہی نہیں سنبھال سکتے وہ کسی کے ساتھ اپنے معاملات کو کیسے سنبھال سکتے ہیں . انسان کی حکمت اس کی زبان میں پوشیدہ ہوتی ہے . انسان کا جیسے ہی منہ کھلتا ہے اس کا خاندان بھی سب کے سامنے کھل جاتا ہے اور جیسے ہی اس کی زبان کھلتی ہے اس شخص کی قابلیت، علم،اوقات،کردار سب کچھ کھل کر سامنے آ جاتا ہے . جیسے ایک انجن پر گاڑی کی حالت کا انحصار ہوتا ہے. اسی طرح گویا انسان کے پورے احوال ظاہری اور پوشیدہ کا بھید اور کنٹرول  اس کی زبان میں ہے.
ایک بار ایک شخص بہت قیمتی لباس اور تیاری کے ساتھ کر وفر سے سقراط کے سامنے آ بیٹھا اور کچھ دیر اسے اپنے رعب میں لانے کے لیئے ادائیں دکھاتا رہا تو سقراط نے اسے دیکھ کر تاریخی جملہ کہا کہ
" جناب اب کچھ بولیئے تاکہ میں آپ کی قابلیت  کا اندازہ لگا سکوں."
یہ بات اس بات کو ثابت کرتی ہے کہ لباس اور طمطراق انسان کی اصلیت کے آئینہ دار کبھی نہیں ہو  سکتے.  بلکہ اس کی شناخت اس کی زبان اور اس کی گفتگو سے ہی ہوتی ہے . اور یہ بھی حقیقت ہے کہ انسان جیسے ماحول میں اٹھتا بیٹھتا ہے وہ بھی اس کے آداب گفتگو پر اثراندازہوتے ہیں . اس لیئے جب گھر میں کسی کی گفتگو کا انداز بدلنے لگے تو اس کی صحبت پر ضرور نظر ڈالیں کہ وہ شخص کن لوگوں میں بیٹھنے لگا ہے، کیسے پروگرامز دیکھ رہا ہے ، کن مصروفیات میں وقت گزار رہا ہے اور کیسا مواد پڑھ رہا ہے کیونکہ یہ سب چیزیں مل کر ہی ایک انسان کی گفتگو اور کردار کی تعمیر کرتی ہیں . 
کاموں کے مکمل ہونے کا انتظار کیجیئے ۔ ویسے بھی پنجابی میں کہتے ہیں کہ
                        '' چن چڑھے کُل عالم ویکھے ''
 یعنی جب چاند نکلتا ہے تو ساری دنیا دیکھتی ہے ۔
جو عزت اور اعتماد آپ کو کام کو مکمل کسی کے سامنے پیش کرنے میں محسوس ہو گا وہ ادھورے کام یا ہونے والے کام کے بارے میں بات کر کے کبھی محسوس نہیں ہوگا۔
 لیکن اس کے برعکس کئی بار ایسا بھی ہوتا ہے کہ ہم اپنی رائے یا رد عمل ظاہر کرنے میں اتنی دیر کر دیتے ہیں کہ تب تک اس بات اور عمل کی افادیت ہی ختم ہو چکی ہوتی ہے اور منیر نیازی جیسا صوفی بھی یہ کہنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ 
ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں ہر کام کرنے میں 
ضروری بات کرنی ہو کوئی وعدہ نبھانا ہو
اسے آواز دینی ہو اسے واپس بلانا ہو 
ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں 
 لہذا بات ضرور کیجیئے اور موقع پر کیجیئے - بے موقع بات کہنا بھی بے وقت کی نمازوں جیسا ہی ہے ۔ کہ وہ ادا تو ہو جاتی ہیں لیکن وقت پر پڑھی ہوئی نماز جیسا مقام کبھی حاصل نہیں کر پاتیں ۔ 
یا پھر  بقول شیخ سعدی کے
" انسان کو بولنا سیکھنے میں تو ایک سال لگتا ہے لیکن کون سا لفظ کہاں بولنا ہے یہ سیکھنے میں ساری عمر گزر جاتی ہے ". 
اور انسان کو یہ سیکھنے میں بھی زمانہ لگ جاتا کہ کہ کہاں کہاں خاموش رہنا ہے . 
کیونکہ خاموشی بھی کئی بھید کھل کر حالات کو آپ کے سامنے لانے کا موقع فراہم کرتی ہے.کئی جھگڑوں سے بچاتی ہے . خاص طور پر نئی جگہ پر،نئے لوگوں میں، نئے حالات میں سب سے بہتر مشورہ کسی کے لیئے بھی یہ ہی ہو سکتا ہے کہ بولیں کم اور سنیں زیادہ . کہ چند روز کی یہ خاموشی یا کم گوئی آپ کو آنے والے حالات کو سمجھنے کے بہترین ہنر عطا کریگی. آزمائش شرط ہے.

                                      ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یادش بخیر . ایک شعر




یادش بخیر ایک شعر
ممتازملک. پیرس




آج ایک وال پرایک شعر کسی نے پوسٹ کیا  .
ویسے تو پوسٹ کرنے والے نے شعر کی حسب توفیق ہڈیاں ٹانگیں خوب توڑی تھیں لیکن اصل شعر بھی دھم سے ہمارے ذہن میں آن پہنچا
" اے رفیق زندگی اے مسافر الوداع
زندگی میں پھر ملیں گے جب کبھی موقع ملا"
یہ پچھلی صدی کی بات ہے .
ہمارے سکول کی اس روز گرمی کی چھٹیاں ہونے جا رہی تھیں .ہمارے ہائی سکول میں نویں جماعت کے دن تھے . اس روز سکول کا گرمی کی چھٹیوں سے پہلے کا آخری دن تھا  . 
ہماری شرارتی کلاس کی موج مستیاں عروج پر تھیں . سب چھٹیوں کے لیئے اپنے اپنے پروگرام ذوروشورسے بیان کر رہی تھیں .
کوئی بلیک بورڈ پر کسی ٹیچر کا کارٹون بنا رہی تھی ، تو کوئی اپنی کاپیاں کتابیں الماری سے نکالنے میں خوشی خوشی مصروف تھیں ،
کچھ اتنے دن کی جدائی پر اظہار  اداسی کر رہی تھیں اور ایک" میں" جسے یہ سوچ کر موت پڑ رہی تھی
کہ" لو جی ہن سارے گھر دا کم مینوں کرنا پے گا "ہائے ہائے کیا بتائیں ہمارا دل کیسے صدمے سے دوچار تھا . یہ نہیں کہ ہم کوئی کام چور ہستی تھے. لیکن اس لیئے کہ ہماری اماں حضور بلکل ہی ہاتھ پاوں چھوڑ کر ہمیں نیک پروین بننے کے تمام سنہری مواقع فراہم کرنے کے موڈ میں آ جاتی تھیں . 
یہ ہی سب سوچتے ہم نے بھی یہ ہی شعر بلیک بورڈ پر یہ دیکھے بنا جڑ دیا کہ اسکے عین نیچے ہماری پرنسیپل کا کارٹون بنا ہوا ہے .
شو مئی قسمت ہماری کلاس فیلوز نے سکول کے آخری پریڈ میں جو ہا ہا کار مچارکھی تھی اسے سن کر ہماری محترمہ پرنسپل مسز نذیر کی اچانک آمد ایسے ہی ہوئی جیسے کسی نے ہمیں بھنگ بیچتے ہوئے پکڑ لیا ہو . 
کیونکہ ہماری ساری کلاس کیا پورے سکول کی مشترکہ  حکیمانہ رائے تھی کہ عزرائیل کو تو اللہ پاک بھیجتے ہیں جان لینے کو لیکن ہم  (اپنی طرف سے معصوم )بچوں کی جان لینے کو مسز نذیر کو باقاعدہ تنخواہ ہی نہیں اس کے بعد پینشن بھی منظور کروا کر بھیجا گیا ہے . وہ نہ صرف بڑی دبنگ خاتون تھیں بلکہ اللہ نے انہیں گرجدار آواز اور فل والیم سے خوب نوازہ تھا. سکول کے ایک کونے سے ان کی دھاڑ  گونجتی تھی کہ 
"کیا ہو رہا ہے "
اس کے بعد گویا کسی کے چراغوں میں روشنی  کیا تیل ہی نہیں رہتا تھا.
پورا سکول اس آواز کے بعد گونگوں کے سکول کا منظر پیش کیا کرتا تھا .ڈسپلن کے معاملے میں شاید وہ اپنے بچوں کو بھی گھر سے باہر مرغا بنا دیتیں تو بھی ہمیں کوئی حیرت نہ ہوتی .
ہمارے ہوشربا شور شرابے میں ہمیں خبر بھی نہ ہوئی اور سناٹا اس وقت طاری ہوا جب باقاعدہ ایک آواز آئی 
"کدھر کو جا رہے ہیں تمہارے ڈولے"
لو جی اس دن پتہ چلا کہ
ڈولی چڑھدیاں ماریاں کیوں ہیر چیکاں ں ں ں ں ں 
شاید اس کا ڈولی کے دروازے  میں ہاتھ آ گیا تھا یا اس کی بھی پرنسپل نے چھاپا مار دیا تھا.  
کلاس ساری صم بکم
"کس نے لکھا ہے یہ بلیک بورڈ پر "
انہوں نے ہماری سانولی سلونی باریک سی مانیٹر ثمینہ سے پوچھا وہ بیچاری تھر تھر کانپتی کبھی مجھے دیکھے کبھی پرنسپل کو . کیونکہ ادھر کنویں ادھر کھائی کے مصداق مار اسے دونوں طرف سے پڑنی تھی . حالانکہ ہمارا کبھی کسی سے جھگڑا نہیں ہواتھا لیکن اللہ کے فضل سے اپن کا رعب بڑا تھا .
آخر کار پرنسیپل کی پھٹکار  کے بعد اس نے کھائ  میں کودنے  کا فیصلہ کر لیا. یعنی ہمیں بلی چڑھا دیا. اب پرنسپل نے ہمیں یوں گھور کر دیکھا جیسے کسی سبزی خور کو گوشت بلکہ گدھے کا گوشت کھاتے پکڑ لیا جائے . کیوں کہ اس سے پہلے ہماری معصوم صورت کی وجہ سے ہمارا ریکارڈ نہایت معصومانہ تھا . اس روز انہیں معلوم ہوا کہ
ہیں ںںں
"ممتازملک بھی شرارتی بچہ ہے"
بس جی ان کے آرڈر پر میں بڑی مجرم اور دو دوسری چھوٹی مجرمات ان کے آفس کے باہر انتظار میں کھڑی کر دی گئیں . 
بنا کچھ کہے بنا کچھ بتائے،
اب پانچ منٹ میں سکول کی بیل بجی سارا سکول رخصت ہو رہا تھا اور ہم اپنی پیشی کے انتظار میں سوکھ رہے تھے ہماری جونیئر کلاسز کی کچھ لڑکیوں نے گزرتے ہوئے پوچھا بھی کہ
" آپی آپ یہاں کیوں کھڑی ہیں" ؟
تو ہم نے بھی کھسیانی ہو کر انہیں مرعوب کرنے کو کہا ہمیں پرنسپل صاحبہ سے ضروری کام ہےانہوں نے بلوایا ہے آپ جاو جاو شاباش.  
لیکن دل کا حال تو ہم ہی جانتے تھے . کہ ہمارے گھر کا رستہ  پندرہ منٹ کا ہے تو سولہویں منٹ میں اماں کا برقعہ ان کے سر پر ہو گا اور وہ ہماری تلاش کی مہم پر روانہ ہو جائیں گی  . پھر حسب توفیق ہماری اتنی دھوم مچائیں گی کہ کیا ہی آج کل کے دھوم مچا دے گانے نے مچائی ہو گی.
ہم پرنسپل کے بلاوے کے انتظار میں تھے سکول کی تقریبا ساری لڑکیوں کے جانے سے پہلے ہمیں بلا ہی لیا گیا ہمیں " بڑی شرارتی" کا اعزاز دیتے ہوئے انہوں  نے ایک تاریخی ایگریمنٹ پر ہم سے سائن لیئے. جس پر ہمارے ہی مبارک  ہاتھوں سے لکھا تھا.
"آئندہ ہم کبھی ایسی شرارت نہیں کریں گے "
انہوں نے جب اپنی گھومنے والی کرسی کا رخ دیوار کی جانب کیا تو ہمیں پورا یقین ہے وہ خوب ذور سے ہنسی ہوں گی. 
لیکن ہمیں وہ ہنسی سننے کا ہوش کہاں تھا
ہم نے کودتے پھاندتے اپنی کلاس روم سے بیگ اٹھائے اور گھر کی جانب سرپٹ  دوڑ لگا دی .  
اللہ کا شکر ادا کیا کہ ہماری سپیڈ نے اماں کے گھر سے نکلنے سے پہلے ہی ہمیں گھر پہنچا دیا . اور ہم مزید امّاں کی نظر میں خوار بلکہ رسوا ہونے سے بچ گئے . ورنہ جو ہوتا کم تھا.
                               
      ..................


جمعہ، 12 فروری، 2016

کندھے یا پیڑھے




کندھے یا پیڑھے
ممتازملک .پیرس






بچپن میں اپنی ماں سے ایک کہانی سنی تھی کہ
ایک گاوں میں ایک بڑا امیر اور متکبر شخص رہا کرتا تھا .گاوں والوں کی کسی خوشی غمی میں اپنے گھر سے کسی کو بھی شامل ہونے نہیں بھیجتا  تھا . ہاں موت والے گھر  میں ایک پیڑھا بھجوا دیتا . کہ یہ اس کی جانب سے شرکت کا اعلان ہوتا . کافی سال یہ سلسلہ چلا . پھر ایک روز اس کے ہاں بھی کسی کی موت ہو گئی. اس نے جب میت تیار کروا کر اس کی آخری  رسومات کے لیئے اپنے گھر کے باہر دالان میں جھانکا تو لوگوں کی جگہ پیڑھوں کاڈھیر لگا پایا . 
نوکر سے پوچھا کہ یہ کیا ہے .
 تو نوکر نے جواب دیا سرکار
" یہ دنیا کا دستور ہے کہ جیساکوئی کسی کے ساتھ کرتا ہے ویسا ہی اس کیساتھ بھی کیا جاتا ہے . آپ نے جو سب کو بھیجا وہ سب نے آپ کو لوٹا دیا ہے . آپ کے گھر کی ڈولی اور جنازہ یہ ہی پیڑھے  اٹھائیں گے . اگر آپ نے کندھے بھیجے ہوتے تو آج کندھے بھی مل جاتے''.
...........

بدھ، 10 فروری، 2016

ملاقات



پاکستان سے واپسی پر 6مارچ 2016 ایسوایشن فم دی موند  کی صدر اور معروف شاعرہ محترمہ شمیم خان . حق باہو وویمن ونگ کی صدر محترمہ روحی بانو صاحبہ اور دیگر خواتین سے ایک.خصوص ملاقات کا اہتمام کیا گیا .




منگل، 9 فروری، 2016

پیرس میں پہلا عالمی مشاعرہ 7 جون 2015



 پیرس میں پہلا عالمی مشاعرہ
7 جون 2015


















پیر، 8 فروری، 2016

بڑے لوگ چھوٹے دل

کیا آپ کا اشارہ میری جانب ہے سر . میری تو ان کے ساتھ کوئی تصونہیں ہے ہاں ان کی آخری ملاقاتوں میں سے میرے ساتھ ہونے والی بھی وہ ملاقات شامل تھی . میرا تو ان سے ملنا ہی میرے لیئے ایک اعزاز کی بات تھی .  آپ لوگ بھی تو اپنے ابتدائی دنوں میں کسی کو کام کے حوالے سے پسند کرتے ہوں گے . ان سے ملنا چاہتے ہوں گے . ان کو دیکھنا چاہتے ہونگے تو اس کا ذکر بھی اس وقت کے میسر ذرائع سے کرتے ہوں گے . اس میں کیا عیب ہے . یہ آج کا زمانہ ہے یہاں آج کے انداز میں ہم سب اپنی خوشی کا تجسس کا اظہار کرتے ہیں . کیا یہ بڑی بات ہے؟؟کیا ساری دنیا میں ایسا ہی نہیں ہوتا؟؟

بہت شکریہ.  لیکن میں پھر بھی کہوں گی کہ جانے والا کوئی ایسا ویسا ہو تو کوئی کیا ذکر کریگا لیکن اگر جانے والا اتنا بڑا اپنے کام کا ماہر ہو تو ہر ایک اس کے نام سے کسی بھی حوالے سے جوڑنا چاہے گا . یہ انسانی فطرت ہے جناب . ہاں جو لوگ اس میں جھوٹ کا تڑکہ لگاتے ہیں . انہیں شرم آنی چاہیئے.

میری کیا جرات ہے جناب کہ میں آپ کی بات کو رد کروں . میں تو ایک.عام فطری رجحان کا ذکر کر رہی ہوں
آپ کی بات سے سو فیصد متفق ہوں لیکن تصویر  کا دوسرا رخ آپ.کے سامنے پیش کرنے کی جرات کر رہی ہوں . معذرت کیساتھ . جو لوگ جھوٹ ملاتے ہیں وہ قابل لعنت ہیں . جانے والا خود تو اپنی سچائی بیان نہیں کر سکتا لیکن دنیا میں رہنے والا اس پر جھوٹ باندھ کر اس کی روح کو تکلیف پہنچانے کا موجب  ضرور بن رہا ہوتا ہے . اللہ ہمیں معاف فرمائے.

تو   بے حد احترام اور معذرت کیساتھ جن لوگوں کے جانے پر کوئی نہیں بولتا تو بھی آپ جیسے لوگ ہی فرمائے ہیں کہ دیکھو کیسا بے ضمیر معاشرہ ہے .
دوسری جانب نئے لکھنے والے یا بقول آپ کے" لالچی رائیٹرز " اگر یہ کہیں کہ آپ جیسے لوگ تعزیت کرنے والوں کی آڑ لیکر   نئے آنے والوں سے اپنا حسد اور بغض نکال رہے ہیں یا جانے والوں کا نام لیکر اپنے نمبر بنا رہے ہیں . تو اس میں کیا جھوٹ ہو گا ؟ کیونکہ ہمارے ملک میں جو آدمی کسی مقام  پر خاص طور پر لکھاری کسی مقام پر پہنچ جائے تو وہ چاہتا ہے بس اب اس رستے کی طرف آنے والے ہر آدمی کو بے عزت کر کے رکھ دو کیونکہ آخری طرم خان وہی تھا جو پیدا ہو گیا . اس قدر تکبر اور اس قدر خود پسندی کی کوئی مثال میں نے اور دنیا میں کہیم نہیں دیکھی. خود کو خدا سمجھنے سے اچھا نہیں ہے کہ ہمارے بزرگ رائٹرز خود کو اچھا انسان بھی ثابت کریں اور آنے والوں کو رہنمائی کریں ان کی حوصلہ افزائی کریں . ورنہ وقت تو انہیں آگے لے ہی آئے گا .
بہت بہت شکریہ  ان چند بڑے دل والے سینئیرز کا کہ سچ میں اگر آپ جیسے چند لوگ اس میدان میں ہمیشہ نہ ہوں تو  ہر شخص اس میدان میں پہلا اور آخری ہی ہوتا . کسی کو اپنا پہلا دن یاد ہی نہیں ہوتا کہ وہ بھی اسی طرح ایک روز نیا تھا .  بقول.ان لوگوں کے بونے تھے.کسی نے ان کی رہنمائی کی تو وہ اس کے لیئے راہبر ہو کر اچھے لفظوں میں جی گیا لیکن  جس نے اس کا راستہ روکا وہ یہ بھول گیا کہ راستے خدا بناتا ہے کسی انسان کی کیا اوقات ہے کہ وہ یا اس کا نام کسی کے لیئے راستہ بنے . جب تک کہ رب کائینات نے کامیابی یا نام اس کے مقدر میں لکھ نہ دیا ہو. یہ تو اللہ کی جانب سے ہمارے لیئے بہانے ہوتے ہیں .

جمعرات، 4 فروری، 2016

پرانا پاپی


پرانا پاپی 
ممتازملک ۔ پیرس




ملک بھر میں ہونے والے قتل عام اور چن چن کے اس ملک سے قیمتی ترین لوگوں کو قتل کرنے والے دوسرے کئی گینگز  کی طرح لیاری گینگ کا عذاب بھی کچھ کم تباہی پھیلانے کا سبب نہیں رہا . اسی کے سرغنہ عزیز بلوچ نے اپنی گرفتاری کا یقین ہونے پر ایسا مکارانہ  کھیل کھیلا ہے کہ جس سے اس کیس کو اور اس کے مجرم ہونے کو جہاں تک ہو سکے اس قدر کمزور اور مشکوک  کر دیا جائے کہ ہر سیاسی آدمی اپنی عزت بچانے کے لیئے اسے چھڑانے اور اپنا دامن بچانے کی فکر کرنے لگے . پیپلز پارٹی کا یہ پرانا کارندہ ایک ایسا اجرتی  قاتل ہے جو باقاعدہ گروہ بنا کر معصوم شہریوں کو  خود بھی لوٹتا رہا ہے اور سالہا سال تک ان سیاسی نمائندوں کو بھی پالتا  رہا ہے . پھر طریقہ واردات کسی کا قتل ہو ،کھالوں  کی لوٹ ہو ، صدقے فطرانے  کے نام  پر جگا ٹیکس ہو یا یا پھر اغواء برائے تاوان ،گو ہر طریقے سے اس نے اپنے مشن جاری رکھے . اس پر اس  نے ہر ہر موقع پر ہر نامی گرامی  شخصیت کیساتھ  اپنی تصاویر بھی ان کے جانے انجانے میں یوں بنا کر انہیں ایسے ایسے مواقع پر پیش کیا کہ ہر آدمی ہی مشکوک ہو جائے اور ہماری عدالتیں جو  پہلے ہی لولے لنگڑے فیصلے کرنے اور ایسے مجرموں کو آذاد کرنے کے بہانے ڈھونڈتی ہیں انہیں مذید عذر در عرض دے دیئے جائیں . کیونکہ ہماری عدالتیں سائیکل چور اور گاڑی کے چالان والوں کو تو سالہا سال لٹکا سکتی ہیں . لیکن قاتل چاہے ریمنڈ ڈیوس ہو ،شاہ ذیب ، یا کسی بھی نام سے ہو. اسی عدالت کی ناک کے نیچے سے وکٹری بناتا ہوا اس کی حرمت پر منہ چڑھاتا ہوا گزر جائے گا . کاش یہ رہائی ہماری عدالتوں میں معصوموں کے لیئے اتنی آسان ہوتی . لیکن یہ آسانی اور شکوک کے فائدے میسر بھی ہیں تو ایسے قاتلوں لٹیروں اور ڈاکوؤں کو . 
اس شخص نے نہ صرف ہر نامور شخصیت کیساتھ تصاویر بنائیں ان میں ہر طبقے کے لوگ شامل ہیں سیاستدان ہوں یا کھلاڑی،  صحافی ہوں یا  میڈیا والے . اس کے وار سے کوئی بچا ہوا نہیں ہے. 
اب ضرورت اس امر کی ہے کہ اس کے خلاف انکوائری میں اس بات کو مدنظر رکھا جائے کہ وہ کس شخص کیساتھ کس حد تک اور کس حوالے سے رابطے میں تھا ۔ وہ کون لوگ تھے. جو اس کے ایک ایک جرم پر پولیس سٹیشن فون کر کر کے اسے اور اس کے کارندوں کو نہ صرف چھڑایا  کرتے تھے بلکہ انہیں ہر طرح کی سہولتیں اور پناہ گاہیں بھی فراہم کیا کرتے تھے ۔ 
یہ کوئی معمولی آدمی نہیں ہے جس کا دماغ ایک وقت میں کہاں کہاں  کس کس کو ٹپکاتا تھا، کبھی اڑاتا  تھا اور کبھی غائب کرواتا تھا ، جس کی ہاتھوں نہ کسی کی عزت محفوظ تھی اور نہ ہی کسی کی جان اور مال ۔ ایسے لوگ ہمیشہ ہی  سیاسی کارندے اور انکے خاص گلو بٹ رہے ہیں  . ان کا ہر طبقے کے لوگوں میں کھڑے ہو کر، بیٹھ کر سیلفی بنوانا یا تصویر بنوانا کوئی بڑی بات نہیں . ہمارے ساتھ دائیں بائیں جانے کون کون ہمیں اپنے کیمرے میں قید کر رہا ہے. یہ ہم نہیں جان سکتے . لیکن ہاں جو لوگ ان کے ساتھ  ان کے گھروں میں بیٹھے  ہیں، ان کے ہاں دعوتوں اور شادی بیاہ میں شریک ہوتے رہے ہیں. تو ہاں دال  میں کالا کیا کہیں پوری دال ہی تو کالی نہیں ؟؟؟؟؟؟
                  ----------

عجب میں ہوں ۔ اردو شاعری۔ سراب دنیا


عجب میں ہوں

عجب میں ہوں پاگل عجب میں نرالی
کیئے اپنے کام اور پھر گھر کی راہ لی

نہ کوئی غرض رکھی بازیگروں سے
ہمیں جیت پایا نہ کوئی کمالی

یہ موقع پرستوں کی رسمیں پرانی
کہ ہر راہ کے بدلے نئی ایک راہ لی

بھلائی کی چاہت کسی کو نہیں تھی
برائی نے آ کےجو گدّی سنبھالی

مجھے دینے والوں نےعزت جودی تھی
ہاں جتنا ہوا میں نے قیمت چکا لی

 ہمیں دوسروں کے لیئے اپنا ایماں 
بدلنا نہ آیا توجہ ہٹا لی

گندھی اپنی مٹی میں ایسی وفا تھی
نہ در در پہ جا کے  بنے ہیں سوالی

تعزُ تذلُ لکھا جا چکا ہے
بہت ہے جو ممّتاز عزت کما لی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

شاعری / /مدت ہوئ عورت ہوۓ/ ممتاز قلم / سچ تو یہ ہے/ اے شہہ محترم/ سراب دنیا/ نظمیں/ پنجابی کلام/