کتاب اور پراٹھا
ممتازملک ۔ پیرس
ممتازملک ۔ پیرس
ہمارے ہاں لوگ 3000 کا پیزا کھا لیں گے اور شکایت نہیں کریں گے لیکن 300 روپے کی کتاب کبھی نہیں خریدیں گے کہ نہیں بھئ یہ تو بہت مہنگی ہے ِ اول تو ہماری قوم کو کتاب پڑھنے کا دورہ کبھی پڑتا ہی نہیں اور اگر قسمت سے کہیں یہ دورہ پڑ بھی جاۓ تو دوسروں سے مانگ تانگ کر کام چلانا پسند فرماٰئیں گے،کیوں کہ ہمارے ہاں کتاب پر خرچہ کرنا فضول خرچی سمجھا جاتا ہے اور فضول خیال کیا جاتا ہے ِ دنیا کی ترقی یافتہ ممالک کی ترقی کا راز آج بھی کتاب سے محبت میں پوشیدہ ہے ۔
جس کا ایک سب سے بڑا ثبوت آپ کہیں بھی دیکھ سکتے ہیں ۔ کوئ بھی غیر پاکستانی جب بھی سفر کرتا ہے اس کے دستی سامان میں چند نہیں تو ایک دو کتابیں ضرور موجود ہوتی ہیں ۔ جسے وہ دوران سفر مطالعہ میں رکھتا ہے ۔ جبکہ پاکستانیوں کے دستی سامان میں مردوں کے لیئے کھانے پینے کے لوازمات اور سگریٹ کے برانڈذ جبکہ خواتین کے سامان میں میک اپ ،جیولری کی بھرمار ہو گی ۔ تمام سفر میں یا تو شور شرابہ ہو گا یا کھانا پینا ۔ اور اگر سفر ٹرین کا ہے تو پراٹھوں اور کبابوں کے بغیر تو ہو نہین سکتا ۔
یہ دنیا کتاب کو اس لیئے پسند کرتی ہے کہ اس سے علم کی راہیں کھلتی ہیں عقل کے روشن دان سے تازہ ہوا آتی ہے ۔ گھر بیٹھے دنیا کے حالات و واقعات سے آگاہی ہوتی ہے ۔ جبکہ ہمیں کتاب اس لیئے پسند ہے کہ اس پر رکھ کر پراٹھا کھانا ہوتا ہے یا پھر پکوڑے لپیٹنے ہوتے ہیں ۔ کیوں کہ یہ کاغذ گھی کو خوب جذب کرتا ہے ۔ بندہ پوچھے بھئ سمندر میں سے ایک چمچہ نکال بھی لیا جائے تو کیا فرق پڑتا ہے ۔
قسمت سے خریدی ہوئ کتاب تو شاید کھل کبھی جاتی ہو ، پڑھ بھی لی جاتی ہو ، جبکہ مانگے کی یا مفت کی کتابیں تو اکثر سالوں بک شیلف میں دھول چاٹتی رہتی ہیں اور کسی کو انہیں کھولنا نصیب نہیں ہوتا ۔ اور تو اور شکر ہے کہ سال میں ایک بار رمضان کا مبارک مہینہ آ جاتا ہے تو دنیا کی سب سے مقدس کتاب قرآن پاک کو بھی کھولنے کا بہانہ بن جاتا ہے ۔ ورنہ سال بھر تو یہ توفیق بھی حاصل نہیں ہوتی ۔
سچ ہے جو قومیں کتاب سے محبت نہیں کرتیں وہ علم کی قدر نہیں جانتیں ، اور جو قومیں علم کی قدر نہیں جانتیں وہ ہمیشہ دوسروں کی ٹھوکروں میں ہی رہتی ہیں ، دور کیوں جاٰئیں ۔ ہمارا اپنا ملک ہماری اپنی قوم اس بدنصیبی کی سب سے بڑی مثال ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جس کا ایک سب سے بڑا ثبوت آپ کہیں بھی دیکھ سکتے ہیں ۔ کوئ بھی غیر پاکستانی جب بھی سفر کرتا ہے اس کے دستی سامان میں چند نہیں تو ایک دو کتابیں ضرور موجود ہوتی ہیں ۔ جسے وہ دوران سفر مطالعہ میں رکھتا ہے ۔ جبکہ پاکستانیوں کے دستی سامان میں مردوں کے لیئے کھانے پینے کے لوازمات اور سگریٹ کے برانڈذ جبکہ خواتین کے سامان میں میک اپ ،جیولری کی بھرمار ہو گی ۔ تمام سفر میں یا تو شور شرابہ ہو گا یا کھانا پینا ۔ اور اگر سفر ٹرین کا ہے تو پراٹھوں اور کبابوں کے بغیر تو ہو نہین سکتا ۔
یہ دنیا کتاب کو اس لیئے پسند کرتی ہے کہ اس سے علم کی راہیں کھلتی ہیں عقل کے روشن دان سے تازہ ہوا آتی ہے ۔ گھر بیٹھے دنیا کے حالات و واقعات سے آگاہی ہوتی ہے ۔ جبکہ ہمیں کتاب اس لیئے پسند ہے کہ اس پر رکھ کر پراٹھا کھانا ہوتا ہے یا پھر پکوڑے لپیٹنے ہوتے ہیں ۔ کیوں کہ یہ کاغذ گھی کو خوب جذب کرتا ہے ۔ بندہ پوچھے بھئ سمندر میں سے ایک چمچہ نکال بھی لیا جائے تو کیا فرق پڑتا ہے ۔
قسمت سے خریدی ہوئ کتاب تو شاید کھل کبھی جاتی ہو ، پڑھ بھی لی جاتی ہو ، جبکہ مانگے کی یا مفت کی کتابیں تو اکثر سالوں بک شیلف میں دھول چاٹتی رہتی ہیں اور کسی کو انہیں کھولنا نصیب نہیں ہوتا ۔ اور تو اور شکر ہے کہ سال میں ایک بار رمضان کا مبارک مہینہ آ جاتا ہے تو دنیا کی سب سے مقدس کتاب قرآن پاک کو بھی کھولنے کا بہانہ بن جاتا ہے ۔ ورنہ سال بھر تو یہ توفیق بھی حاصل نہیں ہوتی ۔
سچ ہے جو قومیں کتاب سے محبت نہیں کرتیں وہ علم کی قدر نہیں جانتیں ، اور جو قومیں علم کی قدر نہیں جانتیں وہ ہمیشہ دوسروں کی ٹھوکروں میں ہی رہتی ہیں ، دور کیوں جاٰئیں ۔ ہمارا اپنا ملک ہماری اپنی قوم اس بدنصیبی کی سب سے بڑی مثال ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔