ممتازملک ۔ پیرس

ممتازملک ۔ پیرس
تصانیف : ممتازملک

اتوار، 7 اپریل، 2013

● (10) سچائی/ شاعری ۔میرے دل کا قلندر بولے


(10) سچائی




 لہجوں کے بدلنے میں بھلا دیر کیا لگتی
ہم نے تو نظارے بھی بدلتے ہوئے دیکھے

تُو آگ کی فطرت سے شکایت نہ کیا کر
پانی میں بھی پتھر ہیں پگھلتے ہوئے دیکھے

اجناس کی صورت ہمیں بکتے وہ دکھے ہیں
پھولوں کے بچھونوں پہ جو پلتے ہوئے دیکھے

عُشاق کو رستے کی مشقت سے بھلا کیا
بے فکر وہ انگاروں پہ چلتے ہوئے دیکھے

کچھ راز ہیں قدرت کی ہی اسرار پسندی
صحرا میں بھی چشمے ہیں ابلتے ہوئے دیکھے

ممتاز جنہیں زعم تھا خوش بختی پہ اپنی
ہاتھ ایسے سر راہ ہیں ملتے ہوئے دیکھے
                      ●●●
کلام:مُمتاز ملک
مجموعہ کلام:
 میرے دل کا قلندر بولے
اشاعت:2014ء
●●●

بدھ، 3 اپریل، 2013

کھاۓ لاہور اور روۓ پنجاب / ممتازملک ۔ پیرس



کھاۓ لاہور اور روۓ پنجاب
ممتازملک ۔ پیرس


پاکستان کا ایک بازو جن حرکتوں کی وجہ سےٹوٹا آج پھر ہم اپنے ملک کو اسی دوراہے پر لا کر کھڑا کر چکے ہیں ۔ اسوقت بھی الزام تھا کہ ملک کا ایک حصہ دوسرے حصے کے وسائل کو کھا رھا ہے ۔ افسوس آج بھی ملک کا ایک حصہ اپنے پورے صوبے کے وسائل کو ہڑپ کر کے اسے سارے ملک کے سامنے مجرم بنا کر کھڑا ہونے پر مجبور کر رھا ہے لیکن مجال ہے کہ کاغذی شیروں کے کانوں تک جہاں پناہ کے آگے کی کوئ صدا پہنچ رہی ہو ۔ حالانکہ وقت نے ان شہنشاہی پسند بھائیوں کو ایک سنہری موقع عنایت کیا کہ وہ ایک ہی صوے میں سہی مگر اتنا اچھا ترقیاتی کام کر کے دکھاتے کہ باقی تمام ملک اس بات کی خواہش کرتا کہ کاش یہ ہی پارٹی ان کے پورے ملک کا نظام بھی چلاتی ۔ اور حکومت میں آکر اس ملک کو کامیابی کی منزلوں تک لیجاۓ ۔ مگر نہیں یہاں تو معاملہ ہی الٹ گیا ہے ۫ضیاء الحق کی ڈکٹیٹر شپ میں پروان چڑھنے والا یہ پودا نہ تو دو دو بار حکومت میں آنے کے باوجود ملکی سطح پر عوام کے آگے اپنا کوئ قد کاٹھ بڑھا سکا نہ ہی اپنے دماغ کو لاہور سے آگے لیجا سکا ۔ پاکستان کی بڑی بدنصیبی یہ ہی ہے کہ ایک پارٹی لاڑکانہ کے نام پر سندھ کارڈ کی بدمعاشی کرتے نہیں تھکتی تو دوسری تخت لاہور کے شاہی محلوں سے آگے سوچنے کے قابل 30 سال بعد بھی نہ ہو سکی ۔اندھوں میں کانا راجہ کے مصداق بنے دو گروپس 40 سال سےعوام کا خون چوسنے میں مصروف ہیں ۔ ایک نوجوان نے جب ہم سےیہ سوال کیا کہ کسی صوبے کو سب سے ذمہ دار عہدہ کون سا ہے تو ہم نے جواب دیا کہ وزیر اعلی ، اس پر اس نوجوان نے جواب دیا کہ نہیں نہیں بھئ وزیر اعلی تو پرانے کونسلر کی نئ تشریح ہے پنجاب کا تو 30 سال سے کوئ وزیر اعلی ہی نہیں ہے ایک شہر لاہور ہےجہاں وزیر اعلی ٹائپ کا کوئ کونسلر ہے جو کبھی کبھار نالیاں سڑکیں وغیرہ بنواتا ادھڑواتا رہتا ہے ۔ لیکن ہم بھی پنجاب میں رہتے ہیں ہمارا بھی کوئ ایسا ہی وزیر اعلی ہونا چاہیۓ ، ایک لمحے کو یہ بات شاید آپ کو مذاق لگے لیکن غور کریں تو یہ ہی بات کسی آنے والے خطرے کی گھنٹی بھی ہے جہاں لاہوری راج نے شدت سے اپنے ہی صوبے میں احساس محرومی پیدا کر دیا ہے ۔ پورے صوبے کے وسا ئل کوایک ہی شہر پر کسی نہ کسی بہانے خرچ کیا جا رہا ہے ۔ صوبہ بہاولپور پر اعتراض کرنے والے ڈریں اسوقت سے جب پنجاب کا ہر شہر اپنی بقا ء کے لیۓ خود کو صوبہ بنانےکی کوئ تحریک شروع کر دے لہذا ہر صوبے کی حکومت کسی بھی ایک شہر پر توجہ دینے کی بجاۓ ہر شہر اور گاؤں کی ترقی کے لیۓ تمام تر وساائل بروۓ کار لاۓ ۔اور اس احساس محرومی کا ازالہ کرے تاکہ عوام کو آۓ روز احتجاج کرنے کی ضرورت ہی نہ محسوس ہو ۔ جان مال اور عزت کا تحفظ کسی بھی ملک میں اس کی حکومت کی ذمہ داری ہوتا ہے کوئ احسان نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،

بدھ، 27 مارچ، 2013

سفیر پاکستان / کالم


سفیر پاکستان
جناب غالب اقبال صاحب
خوش آمدید
(تحریر/ممتاز ملک ۔ پیرس)

             غالب اقبال صاحب 
     
23 مارچ 2013 کے موقعے پر تقاریب کا سلسلہ تمام ممالک میں جاری ہے دو بہت ہی خاص تقاریب میں جن میں ایک منعقد ہوئ ادارہ منہاج القران جبکہ دوسری تقریب کا انعقاد صبرینہ ہال میں ہال کے مالک جانے پہچانے راجہ اظہر صاحب نے کیا ۔ان تقریبات میں ہمیں بھی
چند ماہ قبل فرانس میں تعینات کیۓ گۓ سفیر محترم جناب غالب کمال صاحب کو دیکھنے سننے کا موقع ملا ۔ ویسے تو کسی سفیر کی تعیناتی ہم تارکین وطن کے لیۓ نہ تو کوئ نئ بات ہے نہ ہی انوکھی ۔ لیکن اس بار شاید کوئ خاص بات ہے ۔ جس نے سب کو اپنی جانب متوجہ کیا ، وہ یہ کہ آپ یہاں پہلے سفیر ہیں جو اتنی آسانی سے یہاں پاکستانیوں کو دستیاب ہو رہے ہیں ورنہ تو پاکستانی سفیروں کی شہرت بھی ہمارے سیاستدانوں سے کوئ زیادہ مختلف نہیں رہی ہے ۔ جو پاکستان میں حد درجہ بدنام ہو جاۓ یا پھر متنازعہ یا پھر سیاسی تحفہ دیناہو یا پردہ پوشی کی ضرورت ہو تو اسے سفیر بنا کر بھیج دیا جاتا ہے کہ جاؤ اور اب باہر جا کر اپنے ملک کی مٹی پلید کرو ۔ پھر یہاں سواۓ موج مستی یا پاکستان کا پیسہ برباد کرنے کے سوا ہم نے اکثر سفیروں کو کچھ کرتے دیکھا بھی نہیں ہے ،اس لیۓ آپ کی تعیناتی اور خوش اخلاقی ہمارے لیۓ ایک خوش گوار حیرت کا باعث بنی ہے ۔ آپ نے اپنی مختصر اور جامع تقاریر میں جو جو اعلانات کیۓ وہ سب ہمارے ہی پرانے مطالبات رہے ہیں ، ہمیں خوشی ہے کہ آپ نے ان آسانیوں کو فراہم کرنے کا وعدہ کیا ہے جن میں خاص یہ ہیں ،
ایمبیسی سے گھر تک کوریئر سروس کے زریعے ڈاکومنٹس       کا پہنچانا ،                                                               
ایمبیسی کے عملے کی بدتمیزیوں کو قابو کرنے کے لیۓ     شکایت بکس کی تنصیب ،                                         
 24 گھنٹے کے اندر شکایت پر ایکشن لینا ،                       
ایک ہی مقام پر تمام پاکستانیوں کے لۓ قومی پروگرامز کا اہتمام ،                                                                  
          ،پاکستانیوں کے نام نمبرز اور پتوں کا باقاعدہ اندراج 
پاکستان کے بارے میں مضمون نویسی کا مقابلہ ،             
یہ تمام باتیں اور نہایت مختصر نوٹس پر آپ کا کمیونٹی تقاریب میں شامل ہونا آپ کو ایک دم سے پاکستانیوں کے نزدیک لے آیا ہے ۔ امید کرتے ہیں کہ یہ سب باتیں زبانی جمع خرچ ہی نہیں رہیں گی بلکہ آپ کے ہاتھوں عملی صورت میں جلد ہی ہم سب کے سامنے آئیں گی ۔ ان پروگرامز میں خواتین کے بیٹھنے کے لیے زیادہ بہتر انتطامات کی بھی امید کرتے ہیں، اور کمیونٹی کے مردوں کو پابند کیا جاۓ کہ وہ کسی بھی ایسی تقریب کو صرف مردوں تک محدود رکھنے کی بجاۓ اسے اپنی فیمیلیز کے ساتھ تشریف لا کر ایک مکمل پروگرام بنانے میں اپنا کردار ادا کریں کیوں کہ پھر یہ ہی لوگ روتے ہوۓ نظر آتے ہیں کہ ہمارے بچے پاکستاں سے کوئ دلچسپی نہیں رکھتے ۔ جب تک ان مردوں کو یہ احساس نہیں دلایا جاۓ گا کہ ملکی اور دینی دونوں ہی پروگرامز میں خواتین اور بچوں کی شرکت خود آپ کی شرکت سے بھی زیادہ ضروری ہے تب تک یہ پروگرامز اپنے مقاصد حاصل ہی نہیں کر سکتے ۔ اور ہم آپ سے اُمید رکھتے ہیں کہ ایسا کر کے آپ ایک صحت مند اور خوبصورت روایت کی بنیاد رکھیں گے ۔ او رہم آپ کو اسم با مُسمی سفیر کے طور پر بھی ہمیشہ یاد رکھیں گے انشاء اللہ ۔ ہماری دعائیں بھی آپ کے ساتھ ہیں اور تعاون بھی ۔ آپ کی ایک بات جو ہم سب کو بہت اچھی لگی اور ہم بھی اپنے پاکستانی بہن بھایئوں سے یہ ہی درخواست کرینگے کہ وہ عام طور پر بھی اور خاص طور پر جب بھی کسی دفتری کام کے لیۓ رابطہ کریں تو براۓ مہربانی جھوٹ مت بولیں ، کیوں کہ کئ بنتے بنتے کام ہم نے صرف جھوٹ کی وجہ سے ایسے بگڑے دیکھے ہیں کہ کئ سچ مل کر بھی پھر اس جھوٹ کی تلافی نہیں کر پاتے ہیں ۔ ہم سب امید کرتے ہیں کہ آپ اسی محبت اور خلوص کے ساتھ ہم لوگوں کے ساتھ کسی بھی مشکل میں کھڑے ہوں گے او ر ہمیں فرانس میں پاکستان یا پاکستانیوں سے متعلق درپیش مسائل کو حل کرنے میں رہنمائ فراہم کرتے رہیں گے ۔ اور قائد اعظم کا یہ فرمان بھی ہمیشہ یاد رکھیں گے کہ،، سیاستدان تو آج ہیں کل نہیں ہیں لیکن بیورو کریٹس اور افسران یاد رکھیں کہ انہوں نے اس ملک کی خدمت بیس ، پچیس سال تک کرنی ہے ۔ اس لیۓ آپ کو ایمان دار رہنا ہے ۔ اس لیۓ اب پاکستان کی عزت آپ کے ہاتھ میں ہے اور ہمارا دل یہ سمجھنا چاہتا ہے کہ یہ محفوظ ہاتھوں میں ہے ۔ آپ کے تمام اچھے ارادوں میں خدا آپ کو کامیاب کرے ۔ آمین                                              ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


ہفتہ، 16 مارچ، 2013

ونڈر لینڈ کی سیر


ونڈر لینڈ کی سیر
ممتاز ملک ۔ پیرس

کون کہتا ہے کہ ہم اس دنیا میں اپنی مرضی سے کچھ نہیں کر سکتے ۔ آیۓ ہم آپ کو متعارف کرواتے ہیں ایک ایسی جگہ سے جہاں آپ جب چاہیں دن کو رات اور رات کو دن بنا سکتے ہیں ۔ جہاں چوروں کو شاہ بنانے کا ہر ہنر آپ کو سکھایا جاۓ گا ۔ بم بنانے سے لیکر بم چبانے تک کے تمام راز بتاۓ جائیں گے ۔ راتوں رات بڑے سے بڑے قاتل کو کسی بھی حکومت میں کیا ایوان صدر تک میں پہنچانے کی مکمل معلومات بہم پہنچائ جائیں گی ۔ جن عورتوں کو آپ نے اختیارات دیۓ ہوۓ ہیں ان پر اپنا سارا غیض وغضب نکا لنے کے لیۓ اس سر زمین کا دورہ کیجیۓ اور جہاں جب جس عورت کو چاہے وہ کسی بھی رشتے میں ہو گھما گھما کر لگانے کے سارے گر آزمائیں ۔ کسی کی مجال ہے جو آپ پر آنکھ بھی اٹھا لے ۔ بچوں کو جہاں چاہیں جس طرح چاہیں اپنے مصرف میں لائیں چاہیں تو استاد کا لبادہ اوڑہ کر چاہیں تو مولوی صاحب بن کر ۔
ارے یہ ہی کیا آپ جب چاہیں 50 ، 50 کروڑ روپیہ تو مذاق ہی مذاق میں معاف کروا سکتے ہیں ۔ فیکٹریوں اور کارخانوں کواتنی جلدی بنائیں اور ملکیت میں لیں کہ اتنی دیر میں بانس بھی نہین بڑھتا ہو گا جتنی جلدی آپ کے کارخانوں کی تعداد بڑھے گی ۔ ہے کوئ ا یسا ملک اس جہاں میں کہ جہاں پیدا ہوتے ہی بچہ اپنے باپ سے بھی زیادہ مالدار ہو ؟ نیہیننننننننننننننننن نہیں نا لیکن ہم آپ کو بتاتے ہین ایسے ہی ملک کا پتہ ۔ جہان آپ کا بچہ پیدا ہونے سے پہلے ہی کسی بھی شہر کا کنفرم گورنر ہو سکتا ہے ، وزیر اعلی ہو سکتا ہے جناب پراٰئم منسٹر ہو سکتا ہے ، صدر تک ہو سکتا ہے ۔ آُپ کا کچھ بھی بننے کا ارادہ ہو بس سوچیۓ دو چار دو نمبریۓ ساتھ ملایئے ایک ہاتھ میں شراب اور ایک ہاتھ میں شباب کی انگلی پکڑیۓ اور داخل ہو جائے اس ونڈر لینڈ میں ۔ پرچون فروش ہیں تو جب اور جتنا چاہے کنکر پتھر پیس کر دالوں مصالحوں میں ملائیۓاور کئ گنا منافع کمایۓ۫ ایوریج ہم نہیں بتائینگۓ گے کہ کتنا۔ کیوں کہ یہ تو عام اور فضول ملکوں کا معیار ہے کہ جہاں ایک بار قیمتیں اعلان ہوئیں تو اس کے بعد سال بھر کے لیۓ ترقی کاہر موقع ہی موقوف ہو جاۓ ۔ نہیں جی ہم ایسا کیوں کریں ۔ ہمارا ونڈر لینڈ زندہ باد ۔ مہینے تو کیا ہر گھنٹے کے بعد جب آپ کا جی چاہے جتنا چاہے ریٹ بڑھائیں کسی کی مجال ہے جو آپ کی ترقی کی راہ میں روڑے اٹکاۓ ۔دوا فروش ہیں تو اپنے گھر کیا گھر کے ٹوائلٹ ہی میں دوا کے نام پر گند بنا کر یا زہر بنا کر منہ مانگی قیمت پر بیچیں اور مزے کریں ۔کہاں دنیا بھر میں ایڑی چوٹی کا زور لگا کر ایک عدد ریوالور رکھنے کی اجازت لیتے ہیں آپ ۔ ہمارے ونڈر لینڈ میں چلیۓ ریوالور کیا راکٹ لانچر بھی سڑکوں میں رکھے پیاز آلو کی طرح اسی کے ریٹ پر خرید کر اور بیچ کر دیتے ہیں ۔ ملازم کو تنخواہ نہیں دینا چاہتے تو بلے بلے بلے نہ دیں جی کسی بھی سردار ، وڈیڑے لٹیرے سے یارانہ گانٹیھۓ اور اس کے بیگار کیمپ سے جتنے چاہیئں مفتے غلام حاضر ۔ اور تو اور قانون سے دل بھر مذاق کیجیۓ ۔ ۔کھلواڑ کیجیۓ ۔ جہاں جو لکھا ہو اس کی کھل کر خلاف ورزی کیجیۓ ۔ ورنہ کوئ آپ کو ڈرپوک ہی نہ سمجھ لے نا ۔ ارے آپ کوئ ڈرپوک تھوڑی ہیں ۔ جیسے یہ باقی دنیا والے ڈرپوک ہیں آپ تو شی یییییییییییییییییییییییی جوان ہیں جی ۔جب چاہیں جہاں چاہیں قانون توڑیں ۔ آخر کو قانون بنایا ہی کس لیۓ جاتا ہے اسی لیۓ نہ کہ آپ جیسے معصوم سے بھاگڑ بلے اس سے کھیلیں ۔ تو جناب کھیلیں کھیلیں جم جم کھیلیں ۔ اس ملک میں ایک ایک شہر میں آپ کی حفاظت کے لیۓ ایسے پہلوان رکھے گۓ ہیں کہ جن کی صحت کا خیال رکھنے کے لیۓ سپیشل حمام بناۓ گۓ ہی ں ، اور مزےکی بات جانتے ہیں کیا ہے ۔ مزے کی بات یہ کہ اس حمام میں سسسسسسسسسسسسسسسسب ننگے ہیں ۔
ششششششششششششش اس ونڈر لینڈ کا نام ارے آپ بھی بڑے چالاک ہیں ہمارے بتاۓ بنا ہی سمجھ گۓ ۔ جی ہاں تو نعرہ لگایۓ ۔
ونڈر لینڈ زندہ باد ۔ پاکستان پائندہ باد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جمعرات، 7 مارچ، 2013

رپورٹ ۔ ممتاز ملک ۔ پیرس ... یوم اقبال اور ادارہ منھاج القران





+++ قائد حزب اختلاف چوہدری نثار علی خان نے نگراں وزیراعظم کے لئے 3نام تجویزکر دیے،رسول بخش پلیجو، جسٹس ریٹائرڈ ناصر اسلم زاہد اور جسٹس ریٹائرڈ شاکر اللہ جان شامل +++ سید منورحسن کی ترک وزیراعظم رجب طیب اردگان سے انقرہ میں ملاقات +++ مسلم لیگ ن کے ہوتے ہوئے پرویزمشرف کے جانشین جمہوریت اورمعیشت کوتختہ مشق نہیں بناسکتے، زرداری لیگ نے پانچ سال میں جوکچھ بویاوہ انہیں کاٹناپڑے گا، راجہ رحیل جنجوعہ +++ ایم کیو ایم اورپی پی پی کراچی حالات کی ذمہ دارہیں،انسانی جانوں پر سیاست کی جارہی ہے،دونوں پارٹیاں کراچی کا امن تباہ کررہی ہیں اورلوٹ کھسوٹ کا بازارگرم کیاہواہے،چوہدری منورگوندل ایڈووکیٹ +++ ایم کیو ایم فاشسٹ گروہ ہے جسے انسانی اور جمہوری اقدار سے کوئی سروکار نہیں ،گن پوائنٹ پر کراچی میں ڈاکہ زنی کا مینڈیٹ پاکستان کیلئے انتہائی خطرناک ہوگا، ٹرین مارچ کے شرکاء کا خطاب +++ پیپلزپارٹی بلوچستان کے سابق صوبائی صدر لشکری رئیسانی سمیت 22رکنی وفد ن لیگ میں شامل،بلوچستان کوسیاسی بحران کاسامنا ہے، نواز شریف کی قیادت پر اعتماد کااظہار +++
رپورٹ ۔ ممتاز ملک ۔ پیرس ... یوم اقبال اور ادارہ منھاج القران
ادارہ منہاج القران میں منہاج ٹی وی پر دنیا بھر میں براہ راست ٹیلی کاسٹ کرنے کے لیۓ نو نومبر 2012 کو لاکورنیوو کے ادارے میں یوم اقبال کے موقع پر ایک خاص تقریب کا انعقاد کیا گیا جس میں منہاج القران کی تنظیمات کے علاوہ بھی لوگوں کی ایک بڑی تعداد نے شرکت کی ، تقریب کی نظامت علامہ اقبال اعظم صاحب نے کی ۔ پروگرام کی خاص بات یہ تھی کہ تمام پروگرام کو اقبال ہی کی شاعری سے آراستہ کیا گیا تھا جس نے پروگرام کو بہت ہی دلکش بنا دیا ۔ پروگرام کا آغاز علامہ اعظم نے اس شعر سے کیا ۔کہ ،
فقط نگاہ سے ہوتا ہے فیصلہ دل کا
نہ ہو نگاہ میں شوخی تو دلبری کیا ہے
تلاوت کلام پاک کا شرف انتہائ خوش الہان قاری صداقت کو حاصل ہوا جن کی تلاوت سننے والوں کو اپنے حصار میں لے لیتی ہے ۔ ماشااللہ ۔ یوتھ لیگ کے نوجوانوں عامر ، یسین ، اور رضوان نے حمد خودی کا سر نہاں پیش کی ۔ اس کے بعد نعت رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پیش کی گئ ۔عامر بٹ نے فرنچ زبان میں اقبال کے فلسفۂ خودی پر روشنی ڈالی ۔بلال بٹ نے بہت ہی خوبصورت انداز میں کلام اقبال ،، اٹھو میری دنیا کے غریبوں کو جگا دو ،، پیش کیا ۔
امیر یورپ علامہ حسن میر قادری صاحب نے اپنے مخصوص اور نپے تلے انداز میں اقبال کی زندگی اور فکر پر روشنی ڈالی ۔ اور علامہ اقبال کو خاموش عاشق رسول صلہ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا خطاب دیا ۔ جن کے ایک ایک لفظ میں خدا اور رسول کی محبت اور قوم کی بے حسی کا درد چھلکتا ہے ۔ جنہوں نے مسلمانان ہند کو ایک حسین ملک کا خواب دیا ۔ جسے قائد اعظم نے پاکستان کی صورت میں قوم کی بیمثال قربانیوں کے ساتھ دنیا کے نقشے پر نمودار کر کے ایک حقیقت کی صورت میں ڈھال دیا ۔ اور آج اسی خوشبو کو لیکر شیخ الاسلام پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہر القادری پاکستانی قوم کو اس غلیظ سیاسی نظام سے نکالنے کے لۓ 23 دسمبر 2012 کو پاکستان تشریف لے جا رہے ہیں جہاں مینار پاکستان پر اس تحریک کا پہلاعوامی جلسہ کیا جاۓ گا اور اس کے بعد اس بیداری تحریک کو ملک بھر میں بھیلا دیا جاۓ گا ۔ تاکہ لوگوں کے اندر ووٹ کے استعمال اور رہنماؤؤن کے چناؤ کے کے بارے میں شعور پیدا کیا جا سکے ۔ اس کے علاوہ شیخ الاسلام کے حالیہ دنوں میں ہونے والی نوبل پرائز کے لیۓ نامزدگی پر بھی مبارکباد دی گئ ۔
پروگرام کے آخر میں اقبال کی روح کے لیۓ ایصال ثواب کیا گیا اور پاکستان کی سلامتی کے لیۓ دعاۓ خیر کی گئ ۔ مہمانوں کی تواضح کے لیۓ کھانے کا اہتمام بھی کیا گیا تھا ۔

FacebookFlickrYoutube

دنیا ٹی وی لائیو

ہمارے ہاں 55 مہمان آن لائن ہیں




پیرس: ممتاز ملک کی کتاب کی تقریب رونمائی ۔ رپورٹ



  1. پیرس: ممتاز ملک کی کتاب کی تقریب رونمائی منہاج القرآن کے عہدیداروں کا خطاب

  2. 04 دسمبر 2011

پیرس (صاحبزادہ عتیق الرحمن حمن سے) ادارہ منہاج القرآن فرانس کی ذیلی تنظیم پاکستان جرنلسٹ فورم کے زیر اہتمام ایک تقریب کاانعقاد کیا گیا جس میں سابق جنرل سیکریٹری ادارہ منہاج القرآن محترمہ ممتاز ملک کی شاعری کی کتاب \\\"\\\" مدت ہوئی عورت ہوئے " کی تقریب رونمائی ہوئی۔ یہ تقریب صرف فیمیلیز کے لئے مخصوص تھی اور بیشتر حضرات اپنی فیمیلیز کے ہمراہ تشریف لائے لیکن ادارہ منہاج القرآن کے چند ممبران کو خصوصی رعائیت دی گئی۔ تقریب کا باقاعدہ آغازتلاوت کلام پاک سے کیا گیا ۔ بچیوں نے نہایت خوبصورت انداز میں نعت رسول مقبول پیش کی اور حاضرین سے بھرپور داد حاصل کی ۔صدر ادارہ منہاج القرآن فرانس عبدالجبار بٹ نے اپنے خطاب میں خواتین کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھے ہو کر کام کرنے پر مبارکباد پیش کی اور محترمہ ممتاز ملک صاحبہ کی بامقصد اور اصلاحی شاعری کو سراہتے ہوئے انہیں مبارکباد پیش کی ۔امیر یورپ ادارہ منہاج القرآن علامہ حسن میر قادری نے اس تقریب کو آغاز سے انجام تک ایک بامقصد اورمکمل پروگرام قراردیتے ہوئے کہا کہ یہ پہلا پروگرام وہ دیکھ رہے ہیں جس میں کسی کی برائی یا عیب جوئی نہیں کی گئی بلکہ سب کو ملانے کی ساتھ دینے کی باتیں ہوئی۔ ادارہ منہاج القرآن فرانس کی ذیلی تنظیم پاکستان جرنلسٹ فورم کے اعزازی چئیرمین اور پاکستان عوامی تحریک فرانس کے جنرل سیکریٹری چوہدری محمد اعظم نے اپنے خطاب میں ممتاز شاعرہ ممتاز ملک صاحبہ کو ان کی کتاب کی رونمائی کے موقعہ پر نیک خواہشات کا اظہار کیا اور بہترین شاعری پر انکو مبارکباد دی ،۔ انہوں نے اپنے خطاب میں پاکستان جرنلسٹ فورم کے ممبران کو خصوصی تاکید کی اور کہا کہ وہ دیارِ غیر میں رہتے ہوئے مثبت صحافت کریں اور ایسی صحافت سے اجتناب کریں کہ جس سے کمیونٹی میں انتشار پیدا ہو ، اور ہمیں پاکستانی کمیونٹی کے سامنے شرمندگی کا سامنا کرنا پڑے۔ تقریب سے پاکستان جرنلسٹ فورم کے ایگزیکٹو ممبراور صدر منہاج میڈیا کو آرڈینیشن بیورو یورپ راو خلیل احمدنے کہا کہ محترمہ ممتاز ملک صاحبہ کی شاعری اپنے اندر جامعیت اور مقصدیت لیے ہوئے ہے ۔پاکستان جرنلسٹ فورم کے ایگزیکٹو ممبر مرزا خالد بشیر اور آصف القادری نے اپنے خطاب میں ایسی تقریبات کے انعقاد کو حوصلہ افزا قرار دیا اورممتاز ملک صاحبہ کو ان کی شاندار شاعرانہ خدمات پر خراجِ تحسین پیش کیا ۔ تمام مقررین نے ایسے شاندار پروگرام کے انعقادپرمبارکباد دیتے ہوئے اس کو ایک مکمل فیملی پروگرام قرار دیا اور اس کا سہرا سینئیر رکن پاکستان جرنلسٹ فورم محترمہ شاہ بانومیر کے سر باندھا اورمحترمہ شاہ بانو میر صاحبہ کو زبردست خراج تحسین پیش کرتے ہوئے امید ظاہر کی کہ ان کی سربراہی میں خواتین ونگ مزید بہترین پروگرامز کا انعقاد کرے گا۔

بدھ، 27 فروری، 2013

کیا تارکین وطن مجرم ہیں ؟ / کالم


 کیا تارکین وطن مجرم ہیں؟
       (ممتازملک ۔پیرس)
اپنی ساری زندگی اپنوں کی خاطر اپنے پیاروں سے دور رہنے والوں نے کیا کیا دکھ نہ جھیلے ۔کسی
نے اپنے ماں باپ کے جنازوں کو کندھا نہ دیا تو کسی نے بہنوں کی ڈولیاں بھی نہ رخصت کیں ۔
کسی نے بھائیوں کے مستقبل کے لیۓ خود کو مشقت کے ہل میں بیل کی طرح جوت لیا ،
تو کسی نے بیوی بچوں کے آرام کے لیۓ خود کو انہیں کی نظروں میں اجنبی بنا لیا ۔
اور تو اور جہاں اپنے لوگوں کےلیۓ مذید کچھ اچھا کر سکنے کی امید نظر آئی تو اپنی ہی پیاری
زمیں کے نام کے ساتھ ایک اور مُلک کی وفاداری تک ساتھ لگانے کا حلف اٹھا لیا ۔
دیکھیۓ تو یہ سب سننے میں کتنا آسان لگتا ہے لیکن بھگتۓ تو یہ اپنے ہی دل پر پاؤں رکھ کر کھڑا
ہو جانے کے برابر ہی اقدام ہے ۔اس زمانے میں کہ جب ایک ہی ملک سے وفاداری
نبھانا پاکستانیوں کے لیۓ بہت مشکل لگتا ہے ۔ وہاں یہ تارکین وطن دو ، دو ملکوں کے ساتھ
وفاداری نبھا رہے ہیں ۔کسی اور ملک کے لوگوں نے اپنے ملک کے لیۓ اس سے آدھا بھی کیا
ہوتا تو وہ لوگ انہیں اپنا ہیرو بنا لیتے ۔لیکن بھلا ہو پاکستان کے سب سے بڑے منصف کا کہ
جس نے ایک ہی وار سے تارکین وطن کو بد نییت ، غدار اور جانے کیا کیانام دیدیا ۔ افسوس
صد افسوس اسی پاکستان کے یہ لٹیرے لیڈر جب مصیبتوں میں بھیک مانگنے کے لیۓ انہیں
تارکین وطن کی جوتیاں سیدھی کرنے کے لیۓ دورے کرتے ہیں ۔ان کو پاکستان ، پاکستان کا بھوں
بھوں سناتے ہیں،  اس وقت جب انہیں تارکین وطن کی منتیں کی جاتی ہیں۔ کہ بھوکے مر گۓ ہیں،
خودکھاؤ نہ کھاؤ ہمیں کھلاؤ ، تب انہیں شرم نہیں آتی ، لیکن جب ان سے راۓ دینے کا حق مانگا
جاتا ہے، جس ملک میں اپنے خون پسینے کی کمائی بھیجی جاتی ہے ، وہاں کے معاملات میں حصہ
لینے کا حق مانگا جاتا ہے ، تو بڑی ہی بے حیائی کے ساتھ کہا جاتا ہے کہ آپ کون ہوتے
ہیں یہاں کے معاملات میں دخل دینے والے ؟ یہ ہی وہ نمک حرامی کی صفت ہے کہ جس
کی وجہ سے پاکستانی بیرون ملک اپنی کوئی عزت بنانے میں ناکام ہو جاتے ہیں ۔ پاکستانی
قانون سازوں کو قوانین بناتے ہوۓ اپنی عقل کے گھوڑے بھی دوڑا لینے چاہیئں تاکہ
آپ کو پتہ چلے کہ جس ملک کی روزی روٹی کےاتنے بڑے حصے کا انحصار تارکین وطن کے خون
پسینے پر ہو وہ انہیں آنکھیں نہیں دکھایا کرتے ۔پاکستان میں رہنے والے تمام پاکستانی حکومت
پاکستان کی ذمہ داری ہیں کہ وہ انہیں روزگار ، تعلیم اور صحت کی سہولتیں فراہم کرے ۔ملک سے باہر رہنے والے اگر ان کی مالی امداد کا سلسلہ بند بھی کر دیں تو دنیا کاکوئ قانون انہیں اس بات
پر مجبور نہیں کر سکتا کہ وہ اپنے خاندانوں کو سپورٹ کرنے کے نام پر پاکستانی بینکس کو بھرنے کا کام کریں ۔
کیوں کہ کوئی بھی شخص جہاں رہتا ہے وہیں اپنی زندگی کو مینج کرتا ہے ۔ یورپ میں دو ، دو کمروں کے
فلیٹ میں رہنے والوں نے پاکستان میں رہنے والے رشتہ داروں کو کروڑوں روپے کے گھر بنا کر دیۓ ۔
دکانیں خرید کر دیں ۔ کاروبار کروا کر دیۓ ۔ ٹرانسپورٹ ، پٹرول پمپس ۔ میرج ہالز ، سکولز ،
کالجز ،ٹیکسٹائل ملز ، امپورٹ ایکسپورٹ ، پراپرٹیز اور جانے کس کس شعبے میں
انویسٹمنٹ کر کے پاکستانی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کا کردار ادا کیا ہے ۔
ٹھیکیدارو ۔۔۔۔۔۔۔
زرا اپنے اردگرد نظر ڈالو تو پتہ چلے کہ کماؤ پوتوں کے ساتھ بات کرنے کے آداب کیا ہوتے ہیں ؟کیوں کہ
سگی ماں بھی کمانے اور گھر چلانے والی اولاد کو اپنی نکمی اولاد پر ہمیشہ فوقیت دیتی ہے ۔لیکن ہمارے
ہاں معاملہ یہ ہے کہ نکمی اور لٹیری اولاد گھر کے بارے میں فیصلے کر رہی ہے اور کماؤ اولاد کو گلے میں پھندا لگانے اور منہ پر ٹیپ لگانے کا حکم دیدیا گیا ہے۔ یا پھر یہ سب کرنے اور انہیں عزت
دینے کا حوصلہ نہیں ہے ، تو جرٔات کر کے ان تارکین وطن کا پیسہ کھانے سے بھی
انکار کر دیں انہیں اپنی پراپرٹیز بھی یہاں سے بیچ کر غیر ملکی قرار دیےدیجیۓ ۔
تاکہ جب وہ پاکستان آئیں تو غیر ملکیوں کی طرح ہی آئیں اور انہیں کی طرح اپنے رائٹس
بھی استعمال کریں ۔کم از کم کوئی بھرم تو نہ رہے پاکستانیوں اور ان
تارکین وطن غیر ملکیوں کے بیچ ۔
،،،،،،،،،،،،،،




جمعرات، 21 فروری، 2013

واہ چیف جسٹس صاحب


 واہ چیف جسٹس صاحب
ممتازملک ۫۔ پیرس
کیا بات ہے آپ کی ۔کہاں تو کسی ایک بھی شخص کے لیۓ آپ سوووموٹو ایکشن لیتے نہ تھکتے تھے اور کہاں اٹھارہ کروڑ لوگوں کی زندگی کے بارے میں اُٹھے ہوۓ نکات کی اہم ترین پٹیشن کو آپ نے سننا تو کیا گوارہ کرنا تھا ۔الٹا یہ بات لانے والے ہی کو بدنیت ، بےایمان اور ،، آپ ہوتے کون ہیں ،،کہہ کر خود کو ایک بہت بڑی اور شاطرانہ گیم کا حصہ بھی بنا لیا ۔ چیف صاب کیا آپ بھی یہ بھول گۓ کہ کون کہہ رہا ہے سے زیادہ اہم ہوتا ہے کہ کیا کہہ رہا ہے ۔ کیوں کہ یہ ہی ہمارا مجموعی قومی المیہ ہے کہ ہم آج تک یہ بات سمجھ ہی نہیں سکے کہ بات اہم ہوتی ہے مقاصد اہم ہوتے ہیں نا کہ کون اور لوگ ۔ ڈوول نیشنیلٹی کا بہانہ بنا کر آپ نے ان لاکھوں لوگوں سے بات کرنے کا حق ہی چھین لیا ۔ جنہوں نے اپنی نسلیں اس ملک کے لیۓ زر مبادلہ کمانے کے لیۓ قربان کر دیں ۔ آپ نے علامہ صاب سے یہ اس وقت نہیں پوچھا جب علامہ صاب ایک ایک پروجیکٹ پر کروڑوں روپیہ لگا رہے تھے ۔ اور لگا رہے ہیں ۔ جب یہ ہی علامہ صاحب دینا کے ایک سو نو ممالک میں پاکستانیوں کو متحد کر کے انہیں پاکستان کے قریب رکھنے کا جرم کرتے رہے ہیں ان کے دلوں میں اپنے پاکستان اور وہاں رہنے والوں کو اپنا بہن بھائ کہہ کر ان کے لیۓ سینکڑوں سکولز ، کالجز ، یونیورسٹیز ، ہاسپٹلز ، جہیز فنڈز ۔ یتیم خانے اور کیا کیا کچھ ان تارکین وطن کی فنڈنگ سے بناتے رہے ۔تب کسی نہیں پوچھا یہ پیسہ کہاں سے آرہا ہے ، کون کس کا ایجنٹ ہے ۔ یا کس کے کیا مقاصد ہیں ، یا یہ تو ہمارے حکومت کا کام ہے آپ کیوں کر رہے ہیں اب جب ایک عام پاکستانی کے حقوق کے لیۓ آواز اٹھانے کی کوشش کی گئ اور پاکستانیوں کے ساتھ ہونے والے65 سالہ دھوکے کا پردہ چاک کرنے کے لیۓ کوشش کی گئ تو آپ نے وہ آواز ان لٹیروں کو خوش کرنے کے لیۓ سنے بنا ہی دبا دی ۔ جو ملک کو جونکوں کی طرح چوس چوس کر قریب المرگ کر چکے ہیں کوئ بھی پٹیشن رد کرنے کا آپ کو پورا پورا حق ہے لیکن اتنے اہم قومی معاملے کو نہ سننا ضرووووووووور خطرے کی گھنٹی بجاتا ہے ۔کتنے ہی مواقع پر آپ کے فیصلوں کی کھلی اڑائ گئ لیکن عوام آپ کے ساتھ کھڑی رہی ۔ لیکن اب جبکہ عوام کے لیۓ کچھ سب سے اہم کرنے کا وقت آیا تو آپ نے انتہائ بچگانہ رد عمل دکھا کران کروڑوں پاکستانیوں کو مایوس کر دیا جنہوں نے اس ملک میں آپ کو اپنا نجات دہندہ سمجھ لیا تھا نہ صرف یہ بلکہ آپ نے اپنی ساکھ بھی مٹی میں ملا دی ۔کبھی آپ کو گیلانی آرڈر مان کر نہیں دیتا ۔ تو کبھی راجہ رینٹل کی گرفتاری کا حکم آپ کے فیصلوں پرآپ کی گرفت کو ظاہر کرتا ہے۔ ان سب باتوں کے باجود آپ کے فیصلوں کا احترام کرنے والوں کو بھی آپ نے مایوس کر دیا ۔کیوں اور کس کے اشارے پر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اس کی وضاحت تو بس آپ ہی کر سکتے ہیں ۔ یا تو اپنے اس اقدام کی وضاحت کیجیۓ یا پھر تارکین وطن کو بھی بہاری قرار دے دیجیۓ ۔ کیجیۓ کچھ تو کیجیۓ ۔
جو آپ کو آسان لگے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جمعرات، 7 فروری، 2013

کہیں کی اینٹ اور کہیں کا روڑا / کالم


کہیں کی اینٹ اور کہیں کا روڑا
(ممتازملک۔ پیرس)



ایک عجیب سا طوفان بدتمیزی بپا ہے کہ جس کا کوئ سر پیر نہیں ہے کوئ جان کر خود کو زیادہ ہی عزت دے رہا ہے تو کوئ جانتے بوجھتے ہوۓ کسی کی عزت کو کم کرنے کے لیۓ سارا زور لگانے میں مصروف ہے ۔ ابھی پچھلے کئ دنوں سے ہم نے نیا آرٹیکل لکھنے کے بجاۓ دوسروں کا لکھا پڑھنے میں وقت گزارا ۔ کئ باتیں بہت ہی کھٹکتی رہیں ۔ جس پر آج ہمہیں سوچنا ہے ۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ ہمیں بات کرتے ہوے معلوم ہونا چاہیے ایک مولوی ، مولانا ، اور سکالر کا فرق ۔ یہان بار بار لفظ مولانا کی گردان کی گئ جو کہ لکھنے والے کی معلومات کا گراف بتاتی ہے ۔ دوسری بات کہ علامہ صاحب نے ملٹری کو دخل اندازی کی دعوت دی۔ تو یہ بھی غلط اندازہ ہے۔ کسی بھی ملک کی فوج اس ملک کی سلامتی کی زمہ دار ہوتی ہے اسی کے پیش نظر علامہ صاحب کا یہ مطالبہ پاکستان جیسے ملک کےحالات میں ایک بہت ہی ضروری نقطہ ہے جسے نظر انداز کرنا انتہائ بڑی حماقت ہو گا ۔ کیوں کہ پاکستان کے الیکشن کے زمانے کو قریب سے دیکھنے والے اچھی طرح جانتے ہیں کہ کیسے ان پڑھ لوگوں کے ساتھ پولنگ بوتھ میں انہی پارٹیز کے جیالے متوالے زبردستی سٹیمپس لگواتے ہیں ۔ کیسے انہین دھمکایا جاتا ہے ۔
کیسے بھرے ہوۓ ڈبے لاکر پولنگ سٹیشنز پر بدل کر من چاہا امیدوار جسے چاہے اپنے گھر کے لوگ بھی ووٹ دینے کے روادار نہ ہوں بھاری کامیابی سے جتا دیا جاتا ہے۔ اس میں مرے پہ سو درے والا حساب ہو جاتا ہے کہ انہیں کرپٹ سسٹم کے ہی ٹھیکیدارو ں میں سے ہی لوگوں کو اٹھا کر انہی کی نگرانی میں الیکشن الیکشن کھیلا جاۓ ۔ جب کہ پاکستان کو اس نام نہاد جمہوریت نے جس طرح گوڈے گوڈے قرضوں کی دلدل میں دھنسا دیا ہے وہاں ہم انہیں کے چیلوں کی زیر نگرانی مزید ایسے ہی الیکشنی خودکشی کی متحمل کسی طور بھی نہیں ہو سکتے ۔ اس کے لیۓ ضروری ہے کہ الیکشن فوج کی نگرانی میں منعقد کرواۓ جاۓ اور ا سے ے تک تمام لوگوں کو برخواست کیا جاۓ ۔ تبھی صادق اور امین لوگوں کو لا کر ایک عبوری حکومت تشکیل دی جا سکےگی ۔ اب وہ حکومت اپنا کام 90 دن میں کرے یا 190 دن میں اس سے زیادہ اہم پاکستان کی سلامتی ہے ۔ کیا ہم 2، 4 مہینے کرسی پر جلدی بیٹھنے کی قیمت پاکستان کی سلامتی کی شکل میں دینا چاہتے ہیں یا پھر ایک باقاعدہ سسٹم کے تحت ہمیشہ کے لیۓ چوروں کے آنے کا راستہ بند کر کے آئندہ کے لیۓ ایک منظم طریقہ دے کر اس کی حفاظت کو یقینی بنانا چاہیں گے ۔ اس وقت پاکستان نام کے مریض کو وقتی بیہوشی کی نہیں ایک نیٹ اینڈ کلین آپریشن کی ضرورت ہے کیونکہ اس کے اندر کے تمام ناسور کاٹ کر اسے حقیقی صحت کی جانب لایا جا سکتا ہے ۔ اور یہ علاج ملٹری کی نگرانی کے بغیر قطعی ناممکن ہے ۔ فوج بھی ہمارے ہی لوگوں پر مشتمل ہے اور اسکے تمام اراکان اسی معاشرے میں اپنے خاندانوں سمیت رہتے ہیں اور ہمیں اس بات کا یقین ہے کہ وہ سب ہم سب سے کہیں زیادہ اس ملک سے محبت کرتے ہیں اور بہادر و وفادار ہیں ۔زرا سوچیۓکہ آج ھی زرداری ٹولہ 5 سال کی عیاشی کے بعد جاتے جاتے ایسے قوانین کیوں بنوا رہا ہے کہ کئ محکموں میں آج 5 سال گزار کر بھرتیاں کھولی جارہی ہیں ایسے قوانین بنواۓ جا رہے ہیں جو اگر اپنی حکومت میں بنواۓ گۓ ہوتے تو کہیں انہیں اس پر عمل کر کے اپنے خزانے کم نہ کرنے پڑ جائیں ۔ ایک بھی میگاواٹ بجلی نہ پیدا کرنے اور اربوں روپیہ ملک سے باہر بھجوانے کے انعام کے طور پر ایک راجہ رینٹل کو وزیر اعظم کا منصب بادشاہ سلامت کی جانب سے تحفے میں عنایت کر دیا جاتا ہے ۔ اور جاتے جاتےاسی بجلی کے پیداواری منصوبوں کے فیتے کاٹے جارہیےہیں ۔ ان سے کوئ یہ نہیں پوچھتا کہ اچکو 5 سال میں آتے ہی یہ فیتے کاٹ لیتے تو ابھی تک ہم بجلی میں خود کفیل ہوتے لیکن پھر سوئس بینک کون بھرتا ۔ آج فیتہ کاٹ کاٹ کر کبھی لاشوں پر لوگوں سے بھیک مانگ کر ووٹ لیاجانا ہے اب انہیں فیتوں کی تصویریں کیش کرواۓ جانے کی تیاری ہے ۔کل کی آنے والی حکومت اگر یہ منصوبے روکے گی تو ہم شہید کہ ھا ھا ہم نے تو سب کچھ کیا آنے والوں نے آکر ملیامیٹ کر دیا لو جی ہم شہید سیاست ۔ اور اگر کسی حکومت نے اسے پورا کرنے کا نیک کام کر لیا تو ہم کہیں گے کہ دیکھا یہ ہمارا وائیدہ تھا جو ہم نے پورا کیا تھا ۔ جو ہم نے شروع کیا تھا ۔ لہذا اب بھی ہم ہی سیاسی فاتح ۔ خدایا کیا کھلا دھوکہ ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اب پاکستانی قوم کو یہ بات سمجھ جانی چاہیۓ کہ فیتے کاٹنے والے ہیرو نہیں ہوتے بلکہ اس منصوبے کو کامیابی سے مکمل کر کے عوام کو اس کا فیض پہنچانے والے اصل ہیرو اور عوام دوست ہوتے ہیں ۔ لہذا اب رنگین وعدوں اور بلیک میلنگ والے نعروں کے دور کا آغاز ہو گیا ہے ۔ ہمیں یہ فیصلہ ابھی سے کرنا ہے کہ ووٹ ضرور دینا ہے اسے دینا ہے جو ہمارے علاقے میں نیک نامی اور ایمانداری میں شہرت رکھتا ہے ، جو ہم میں سے ہے چاہے وہ کسی بھی پارٹی کا ہو ۔ کیوں کہ ایسا کرنے سے ہی پارٹیز کو بھی نیک اور ایماندار کارکنوں کی قدر ہو گی اور اگلے الیکشن میں وہ انہیں ٹکٹ دینے پر بھی مجبور ہوں گے۔ اب پاکستانی کسی کو سیاسی شہید بننے کا موقع نہ دیں ۔ اور جو لوگ اپنے مخصوص شہروں میں ہی سیاست کرتے رہیں ہیں انہیں وہیں تک رہنے دیا جاۓ کیوں کہ وہ اس سے زیادہ کے قابل ہی نہیں تھے ۔ ورنہ جہاں تک کے علاقے ان کی ذمہ داری میں آتے تھے انہیں میں اتنا بہترین کام دکھاتے کہ آج انہیں کہیں کی اینٹ اور کہیں کا روڑا اکٹھا کر کے بھان متی کا کنبہ جوڑنے کی نوبت ہر گز پیش نہ آتی ۔ آئۓ سب مل کراپنے اپنے حصے کی عملی کوشش بھی کریں اور دعا بھی تاکہ خدا پاکستان کی حفاظت فرماۓ۔ آمین
                  ۔۔۔۔۔

شاعری / /مدت ہوئ عورت ہوۓ/ ممتاز قلم / سچ تو یہ ہے/ اے شہہ محترم/ سراب دنیا/ نظمیں/ پنجابی کلام/