ممتازملک ۔ پیرس

ممتازملک ۔ پیرس
تصانیف : ممتازملک

ہفتہ، 30 مارچ، 2024

تبصرہ برائے بیباک ڈیروی ۔ تبصرہ

تبصرہ برائے
بیباک ڈیروی
ڈی جی خان

ملک محمد ظریف تخلص بے باک ڈیروی اس شاعر کا نام ہے، جنہوں نے پنجاب کے علاقے ڈیرہ غازی خان کا نام اردو اور سرائیکی شاعری میں بلند کرنے کی ٹھانی ۔   مزاحیہ شاعری اور نثر کے ذریعے اپنے لکھنے کے شوق کو نکھارا ۔
 ان کی دو کتابیں اب تک منظر عام پر آ چکی ہیں اور پذیرائی پا چکی ہیں۔ ان دونوں کتابوں کا زیادہ تر مواد مزاحیہ شاعری پر مشتمل ہے۔ وہ مسائل کو ہلکے پھلکے انداز میں لے کر آگے چلتے ہیں اور گھریلو معاملات اور پریشانیوں کو ہلکے پھلکے پیرائے میں بیان کرنا خوب جانتے ہیں۔ ان کی کامیابی کے لیے میری بہت سی دعائیں 
ممتاز ملک
 پیرس فرانس
( شاعرہ  کالمنگار نعت خواں۔ نعت گو۔ نظامت کار)

ہفتہ، 23 مارچ، 2024

اے عشق ولی کر دیندا اے۔ پنجابی۔ اکھیاں نمانیاں کلام ۔ صوفیانہ کلام


     اے عشق ولی کر دیندا اے 
            (کلام/ممتازملک۔پیرس)



اے عشق ولی کر دیندا اے 
اے عشق ولی کر دیندا اے

کی کرنا دعویداراں دا
کی کرنا اے بیماراں دا
جد من دا پیتل میلا ہوئے 
اے عشق قلعی کر دیندا اے

اے عشق ولی کر دیندا اے
اے عشق ولی کر دیندا اے 

جد راہ کسے تھاں کھوٹی ہوئے
جد دل دل بوٹی بوٹی ہوئے
جد بند ہون سارے رستے تے 
اے عشق گلی کر دیندا اے

اے عشق ولی کر دیندا اے
اے عشق ولی کر دیندا اے 

قسمت دی ہر تحریر مٹے
 جو کی جائے تدبیر مٹے
 مٹدی مٹدی تحریراں نوں
 اے عشق جلی کر دیندا اے

اے عشق ولی کر دیندا اے
اے عشق ولی کر دیندا اے

جد پیار ہر ایک نوں جان دا اے
رونا ہی اوس دی آن دا اے
  ہر خواہش نوں ہر راحت نوں
اے عشق بلی کر دیندا اے

اے عشق ولی کر دیندا اے
اے عشق ولی کر دیندا اے

انج موت دے بستر تے سوئے
 کہ خوف وی اپنے تے روئے
 دنیا چہ نہ آیا کوئی ایسا
 اے عشق علی کر دیندا اے

اے عشق ولی کر دیندا اے 
اے عشق ولی کر دیندا ہے
-----


جمعہ، 22 مارچ، 2024

پر کیف ہیں ہوائیں۔ اردو نعت۔ خمار مدینہ

پر کیف ہیں ہوائیں
 اردو نعت

ایسے حسین نظارے پرکیف ہیں ہوائیں
 لاکھوں کرم سمیٹیں آقا کے شہر جائیں
 پرکیف ہیں ہوائیں پرکیف ہیں ہاں ہوائیں

وہ ہی دکھائی دیں گے ہم جس جگہ کھڑے ہوں
 محسوس ہوں وہیں پر دل کو جہاں بٹھائیں
 پرکیف ہیں ہوائیں پرکیف ہیں ہوائیں

آنکھوں کو چین ملتا ٹھنڈک پڑے کلیجے
آنسو نہیں ہیں رکتے جب حال دل سنائیں
 پرکیف ہیں ہوائیں پرکیف ہیں ہوائیں

غم کے سمندروں سے ممتاز وہ نکالیں
ملتا سکون دل کو قدموں میں جب بٹھائیں 
پرکیف ہیں ہوائیں پرکیف ہیں ہوائیں
-----

جمعرات، 21 مارچ، 2024

ویران حویلیوں میں بستے بھوت۔ کالم

  

   ویران حویلیوں میں بستے    بھوت
 تحریر :  (ممتازملک۔ پیرس)


ہمارے ملک کے  بہت سے گاؤں اور چھوٹے چھوٹے علاقے جہاں سے آئے ہوئے لوگ یورپ اور امریکہ میں دن رات محنت اور مشقت کی زندگی گزار رہے ہیں ۔ جو آج بھی یہاں چھوٹے چھوٹے گھروں میں دو دو تین تین کمرے کے اکثر سرکاری فلیٹوں  میں کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ اپنے بیوی بچوں کو انہوں نے وہ لائف سٹائل نہیں دیا جو انہیں پسند ہے۔ لیکن جن علاقوں سے یہ آئے ہیں۔ وہاں پر بڑی بڑی شاندار حویلیاں اور نت نئے ڈیزائن کی کوٹھیاں بنا کر اپنے بچپن کے احساس کمتری اور احساس محرومی کو دبانے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ اس سفر میں انہوں نے اپنی زندگی کے 40 سال 50 سال گنوا دیئے۔ اپنی زندگی بھر کی ساری کمائیاں پیچھے بڑے بڑے گھر بنانے میں لگا دیں۔ وہ گھر جو ویران حویلیوں کا منظر پیش کرتے ہیں۔ جہاں کوئی نہیں رہتا۔ جہاں صرف ان کے بچپن کے ادھورے خواب اور ناآسودہ خواہشیں دفن ہیں، لیکن وہاں دوسروں کو دکھانے کے لیئے انہیں ہر بننے والے گھر سے بڑا گھر چاہیئے۔ ہر پڑوسی سے بڑی گاڑی چاہیئے، لیکن کس کے لیئے؟ ان گھروں میں آباد بھوتوں کے لیئے. انہیں کون بتائے کہ گھر دیواروں سے نہیں بنتے، گھر گھر کے لوگوں سے بنتے ہیں۔ کتنی بدنصیبی کی بات ہے جہاں آپ کے گھر کے افراد اور لوگ رہ رہے ہیں۔ وہاں آپ نے سہولتوں کا فقدان کر رکھا ہے۔ ان کی زندگی اجیرن کر رکھی ہے ۔ انہیں ترس ترس کے جینے پہ مجبور کر رہے ہیں اور جہاں کوئی رہنے والا نہیں، وہاں بھوتوں کے لیئے بڑے بڑے بنگلے بنا کر دیئے۔ آپ میں  ایسے لوگ، جو اس قسم کے خلجان میں مبتلا ہیں، انہیں پہلی فرصت میں ضرور کسی اچھے ذہنی نفسیاتی معالج سے رجوع کرنا چاہیئے، کیونکہ یہ کوئی نارمل بات نہیں ہے۔ دنیا کا کوئی بھی آدمی جہاں رہتا نہیں، وہاں پر اتنے بڑے بڑے بے مقصد گھروں پر اپنی ساری زندگی کی اپنی 18، 18 گھنٹے کی کمائیاں، یہاں تک کہ اپنی پینشنیں بھی لگا رہا ہو، جبکہ جہاں اس کے بچے آباد ہوں، جہاں اس کا اپنا مستقل ٹھکانہ ہو، جہاں اس نے سال کے 11 مہینے رہنا ہو، وہاں پر وہ مفلوک الحال لوگوں جیسی زندگی گزار رہا ہو اور اگر  مفلوک الحال سے ایک قدم اوپر اٹھ جائیں تو بمشکل ایک لوئر مڈل کلاس کی زندگی گزارتا ہے۔ ضروری یہ ہے کہ ان لوگوں کو احساس دلایا جائے۔ ان کی وہ ذہنی کمیاں ، کوتاہیاں دور کرنے میں ان کی مدد کی جائے اور انہیں یہ بات سمجھنے کے لیئے تیار کیا جائے، راغب کیا جائے کہ انسان جہاں رہتا ہے اسے وہیں پر اپنی آمدنی، اپنے اخراجات اور اپنے لائف سٹائل کو مدنظر رکھنا چاہیئے۔ اپنی زندگی کو آسان بنانے پر اپنی کمائی کو خرچ کرنا چاہیئے۔ اس کمائی کا کیا فائدہ جو آپ کے اپنے گھر والوں، اپنے بیوی بچوں کے کام نہ آ سکی، اور ساری زندگی کے لیئے آپ نے اپنی کمائی ویران حویلیوں کے نام پر ایک خاموش قبرستان میں جھونک دی۔ آج آپ کے مرنے کے بعد آپ کا کوئی بچہ یورپ امریکہ سے اٹھ کر ان ویران حویلیوں کو آباد کرنے نہیں جائے گا اور آپ کی ساری عمر کی کمائی 50 سال 60 سال 70 سال کی کمائی اس دلدل میں ڈوب گئی۔ آپ نے کہیں کسی سے دعا نہیں لی۔ ان ویران حویلیوں کے بجائے یا تو وہاں کوئی ہسپتال بناتے، بوڑھوں کے لیئے کوئی سینٹر بنا دیتے , کوئی یتیم خانہ بنا دیتے, کوئی سکول بنا دیتے, کوئی ڈسپنسری بنا دیتے, کوئی ہنر سکھانے کا ادارہ بناتے تو شاید کوئی صدقہ جاریہ اور دعا کی جگہ آپ کے مرنے کے بعد بھی رہتی ہے اور دنیا میں بھی آپ کو یاد رکھا جاتا، لیکن اتنے بڑے بڑے گھر اور حویلیاں بنانے کے بعد آپ کو اس دنیا سے جانے کے بعد کون یاد کرے گا۔ ہمارے معاشرے کے گھٹیا دستور کے مطابق آپ وہاں پکارے تو اسی نام سے جائیں گے کہ دیکھا بھئی موچیوں کے منڈے نے بھی کوٹھیاں بنا لی ہیں ۔ سنا تم نے نائیوں کا بیٹا بھی بنگلہ بنا رہا ہے ۔ دھوبیوں نے بھی حویلی خرید لی ہے ۔ ۔۔۔
جبکہ دراصل بھوت پریت جنات  کے بسیرے کے لیئے تو آپ نے ٹھکانے بنائے اسکے بجائے آپ زندہ انسانوں کے بسیرے یا مفاد کے لیئے ٹھکانے بناتے تو وہ انسان آپ کو یاد بھی رکھتے۔
 حقیقت میں یہاں آپ کی وفات کے بعد آپ کے بچے یا ان کے بچے آپ کے جنازوں کے ساتھ اس لیئے نہیں جاتے کہ آپ کے جنازے کو مٹی دینا ضروری ہے۔ بلکہ اس لیئے جاتے ہیں کہ وہاں جلدی سے جلدی اسی گرما گرمی میں ان ساری زمینوں، حویلیوں، دکانوں کا ریٹ لگا کر فوراً سے پہلے انہیں بیچ کر ان پریشانیوں سے بچا جا سکے جو وہاں ان زمینوں، جائیدادوں اور گھروں کو چھوڑنے کی صورت میں قبضوں اور پھر قانونی کاروائیوں کی صورت میں نئے جھمیلے تیار کئے جا سکتے ہیں ۔ کیونکہ وہ لوگ یہاں آ کر اتنی لمبی قانونی لڑائیوں میں پڑ کر مزید اپنی زندگیاں کمائیاں تباہ نہیں کر سکتے اور یہاں رہنے کے حالات ان کے لیئے ویسے ہی موزوں نہیں ہوتے۔ اس لیئے وہ انہیں اونے پونے بیچ کر بھی نکلنا مناسب سمجھتے ہیں۔
 اپنے سوچنے کا نظریہ بدلیئے اور اپنے آپ کو قیامت تک کے لیئے دنیا میں آیا ہوا مت سمجھیں۔ اپنی زندگی کو اس غم میں غرق نہ کریں کہ فلاں جگہ میرے خواب ادھورے رہ گئے اور میں وہاں مکمل کرنے کے لیئے جاؤں گا اور اگلے 20 سال میں یہ کروں گا اور اگلے 40 سال میں یہ کروں گا۔ زندگی کی اگلی گھڑی کا کوئی اعتبار نہیں۔ زندگی وہی ہے جو آج آپ گزار رہے ہیں۔ آنے والے لمحے میں کیا ہے ؟ کوئی نہیں جانتا اور جو کل گزر چکا ہے۔ وہ ہمارے بس میں نہیں تھا۔ نہ ہم اسے واپس لا سکتے ہیں۔ نہ ہم اس میں جا کر اسے بدل سکتے ہیں۔ تو پھر بے وقوفوں کی طرح سانپ گزر جانے کے بعد اس لکیر کو پیٹنے کا کیا فائدہ۔ ماضی وہ سانپ ہے جو گزر چکا ہے۔ ہماری زندگیوں پر اپنے نشان چھوڑ کر۔ اسے جانے دیجیئے۔ اگے بڑھئیے۔ زندگی آج میں جی کر آنے والے وقت کے لیئے کچھ ایسا کر کے جائیئے۔ جو آپ کو آج بھی اور آنے والے وقت میں بھی اچھے ناموں کے ساتھ یاد رکھا جائے۔ 
نائی، موچی، دھوبی کے بنگلے دیکھ کر انکی تضحیک اور تمسخر اڑانے والے ان کے بنائے سکول، ہسپتال، کارخانے اور فلاحی ادارے دیکھ کر عقیدت سے نظریں جھکانے پر مجبور ہو جائیں اور انہیں سلام پیش کریں کہ جو کام وہاں کے مقامی مخیر حضرات سارے وسائل ہونے کے باوجود نہ کر سکے ان چھوٹے گھروں کے مفلس لوگ پردیس کاٹ کر ، اپنی حق حلال کی کمائیوں سے وہاں کر گئے۔ تاریخ میں مشہوری تو تاج محل بنانے والے کو بھی ملی، لیکن عزت کنگ ایڈورڈ اور کملا دیوی جیسے ہسپتال بنانے لوگ والے لوگوں نے ہی پائی۔ تو اپنی زندگی کے مقاصد میں مشہور ہونے سے زیادہ عزت کمانے کو ترجیح دیجیئے اور عزت ان کاموں سے ملتی ہے، جس سے معاشروں میں لوگوں کو آسانیاں اور روزگار میسر ہو سکیں ۔
                   -------

        
          

پیر، 18 مارچ، 2024

* نبھانے والے. اردو شاعری ۔ اور وہ چلا گیا


ساتھ نبھانے والے 
کلام:ممتازملک۔پیرس

اب کہاں ملتے ہیں وہ ساتھ نبھانے والے
میرے ہاتھوں میں چھپے راز بتاتے والے

مانگ کے جن کے شب و روز گزر جاتے ہیں
خود سے ہو سکتے نہیں نام  کمانے والے 

دل میں تیرے چھپی خواہش کے سراپے جیسی
اک حسینہ سے شباہت میں  ملانے والے

زندہ رہنے کی کچھ امید تو بندھ جاتی تھی
چاہے جھوٹے ہی سہی خواب
دکھانے والے

    خود کو دھوکے میں نہ رکھنا ہی سمجھداری ہے
ساتھ کیا دینگے  نظر مجھ سے چرانے والے

ہم خفا ہو کے بہت دور نکل جاتے ہیں
دیر کر دیتے ہیں اکثر ہی منانے والے

اے تصور تیرے انداز انوکھے کب تھے 
زخم تو نے بھی دیئے ہم کو زمانے والے 

ہم تو ممتاز سمجھتے ہیں اسی کو ہیرو
ڈوبنے والے کو ہر طور بچانے والے
      -----

اتوار، 17 مارچ، 2024

رضی امروہوی کی یاد میں ۔

رضی امروہوی (علیگڑھ ۔انڈیا)
کی یاد میں
وفات : 16 مارچ 2024ء

اتنی خاموشی سے زمانے سے 
ہم نے جاتے کسی کو کب دیکھا

مسکراتے ہوئے انہیں دیکھا 
رضی امروہوی کو جب دیکھا
 
بات سنجیدہ ہو یا شوخی کی 
شہسوار فن ادب دیکھا 

اپنا ممتاز یہ رہا اعزاز
ساتھ تھوڑا تھا پر غضب دیکھا

مسکراتے ہوئے انہیں دیکھا 
رضی امروہوی کو جب دیکھا
                 ------

جمعہ، 15 مارچ، 2024

پر کیف نے ہواواں ۔ پنجابی نعت۔ اکھیاں نمانیاں


پر کیف نے ہواواں 
پنجابی نعت

ایسے حسیں نظارے پر کیف نے ہواواں
لکھاں کرم سمیٹاں آقا دے شہر جاواں 
پرکیف نے ہواواں ، پر کیف نے ہواواں 

اوہی دکھائی دیندے میں جس جگہ کھلوواں 
محسوس ہون اوتھے دل نوں جتھے بٹھاواں
 پر کیف نے ہواواں ، پرکیف نے ہواواں 

اکھاں نوں چین ملدا ٹھنڈ پیندی اے کلیجے
اتھرو میرے نہیں رکدے جد حال دل سناواواں
پرکیف نیں ہواواں ، پرکیف نے ہواواں 

غم دے سمندراں چوں ممتاز نوں او کڈدے
 ملدا سکون دل نوں قدماں چہہ تھاں جو پاواں 
پر کیف نے ہواواں، پرکیف نے ہواواں
------

 پر کیف ہیں نظارے
 اردو نعت


ایسے حسین نظارے پر کیف ہیں ہوائیں
 لاکھوں کرم سمیٹیں آقا کے شہر جائیں
 پر کیف ہیں ہوائیں پر کیف ہیں ہاں ہوائیں

وہی دکھائی دیں گے ہم جس جگہ کھڑے ہوں
 محسوس ہوں وہیں پر دل کو جہاں بٹھائیں
 پر کیف ہیں ہوائیں پر کیف ہیں ہوائیں

انکھوں کو چین ملتا ٹھنڈک پڑے کلیجے
آنسو نہیں ہیں رکتے جب حال دل سنائیں
 پرکیف ہیں ہوائیں پرکیف ہیں ہوائیں

غم کے سمندروں سے ممتاز وہ نکالیں
ملتا سکون دل کو قدموں میں جب بٹھائیں 
پرکیف ہیں ہوائیں پرکیف ہیں ہوائیں
-----

اتوار، 10 مارچ، 2024

عیاں ہو گئے۔ پنجابی کلام ۔ نعت۔ اکھیاں نمانیاں


عیاں ہو گئے

راز کتنے جہاں تے عیاں ہو گئے
عقل دے سارے پردے اتاں ہو گئے

رب نے گل کوئی چھوڑی ادھوری کدی
مصطفی دی زباں توں بیاں ہو گئے

اوس ویلے تیکر نہ سکوں پا سکے
کفر دے معاملے نہ نہاں ہو گئے

آپ دی دوستی دے علاوہ سبھی 
دوستاں کولوں دل بد گماں ہو گئے

آپ دی اک نگاہ کرم پے گئی
جو زمین تو اٹھے آسماں ہو گئے

جد قدم ودھ گئے رب دے محبوب ول
منزلاں دی طرف دے نشاں ہو گئے

سوہنے محبوب نوں کی مکاناں دی کی لوڑ
او تے جنت نیں  جنت مکاں ہو گئے

سوہنے محبوب اسوہ جو چھڈ کے گئے
بے ایماناں دے لئی امتحاں ہو گئے 

۔۔۔۔۔۔۔۔

جمعرات، 7 مارچ، 2024

26سال۔ کالم



26 سال۔۔۔۔ 
دھواں نہیں اجالا
تحریر:
     (ممتازملک ۔پیرس)


26 سال کا ایک طویل عرصہ آج مجھے فرانس میں رہتے ہو گیا ہے۔ آج کے دن 7 مارچ 1998ء بروز ہفتہ پی آئی اے کی فلائٹ سے جب اپنے گھر سے چلی تھی تو میری ماں تھی ، بھائیوں سے بھرا ہوا گھر تھا ۔ خوشیاں تھیں۔   بہت سی امیدیں تھیں اور پھر ایک سال میں ہی ماں کے دنیا سے جانے کی خبر سنی۔ دیکھ نہیں سکی۔ پھر اپنے بھائیوں کے گھر بستے دیکھے۔ کسی میں جا سکے، کسی میں نہیں ۔ ڈولیاں اترتی نہیں دیکھ سکے۔ ان 26 سالوں  میں فرانس میں فرانک سے یورو تک سفر کیا ۔تنخواہ سے اپنی کمائی تک اور پھر اپنی کمائی سے تنخواہ تک۔ ایک یورو کی چیز کو تین یورو تک ہوتے دیکھا۔
اداروں کو بنتے ہوئے دیکھا۔ بگڑتے ہوئے دیکھا۔ کئی جنگوں کے احوال سے اس ملک کو متاثر ہوتے دیکھا۔ عالمی جنگ کے خطرات کو محسوس کیا۔ کئی سال سے "زیلے جون" نامی تنظیم کا مہنگائی کے خلاف رونا دیکھا۔ کئی وزارتیں بدلتے ہوئے دیکھیں۔
 یہاں پر ایک نسل کو جوان ہوتے دیکھا۔ والدین اور اس کی نئی نسل کے تضادات کو دیکھا۔
انکے خیالات کو  بدلتے دیکھا۔ میں نے لچکدار لوگوں کو بے حد کرخت ہوتے دیکھا اور بے لچک لوگوں کو نرم خو ہوتے دیکھا۔ ایک چوتھائی صدی گزارنے کے بعد آپ اس قابل ہو جاتے ہیں کہ جب آپ لوگوں کے درمیان تقابلے جائزہ لے سکیں ۔ جب آپ عوامی طور پر زندگی گزارتے ہوئے اور اسے پاکستان سے جوڑ کر دیکھیں تو وہاں کے حالات کے اثرات یہاں پر اپنی کمیونٹی پر دیکھیں۔ پاکستان میں ہونے والے وہاں کی مہنگائیوں، وہاں کے ہنگاموں، وہاں والی دہشت گردیوں، وہاں کی سیاست کو لوگوں پر اثر انداز ہوتے ہوئے دیکھا۔ انہیں پاکستان کے غم میں تڑپتے ہوئے دیکھا۔ کئی لوگوں کو جہان سے گزرتے ہوئے دیکھا۔ ڈاکٹر کی یہ صلاح سنی کہ اپنے ملک سے رابطہ توڑو گے تو سکون میں رہو گے۔ جہاں رہتے ہو وہاں جیو۔
 لیکن
 دل ہے کہ مانتا نہیں۔۔۔
 اسے ہر وقت  ہی اس ملک کی خبریں چاہئیں۔ کیوں چاہیں؟ یہ خود بھی نہیں جانتا۔ اس ملک میں ہم نے جوانی سے بڑہاپے تک کا سفر طے کیا۔ تو گود کے بچوں نے گود سے جوانی تک کا سفر طے کیا۔ انگلی پکڑ کر چلنے والے اب ہمیں رستہ دکھا رہے ہیں ، سمجھا رہے ہیں کہ کیا کرنا ہے اور کیا نہیں کرنا ۔ ایسا کرو اور ایسا مت کرو۔ اس میں انہیں برا نہیں کہا جا سکتا۔ اس میں ان کی ہم سے محبت جھلکتی ہے۔ جیسے ناہنجار اولادیں ہوتی ہیں یقین کیجئیے والدین بھی ناہنجار ہوتے دیکھے ہیں۔ جو اچھے لفظوں کو بھی برے پیرائے میں بیان کرتے ہیں ۔
 جو ہماری اولادوں کی ہمارے لیئے  فکر کو ان کی نافرمانی میں شمار کر دیتے ہیں۔ اسے ان کی گستاخیوں کی لسٹ میں ڈال دیتے ہیں۔ حالانکہ ایسا نہیں۔  وہ ہمارا خیال رکھتے ہیں ۔ ہم کہاں گئے، کیا کھایا، کیا پیا ،سوئے کہ نہیں، کچھ چاہیئے کہ نہیں۔ کیا یہ سب کچھ ہم نہیں پوچھتے تھے اپنے بچوں سے؟ ایک عمر کے بعد پھر جگہ بدل جاتی ہے۔ اولاد والدین کی جگہ اور والدین اولاد کی جگہ پر آ جاتے ہیں. اگر کل آپ ان سے محبت کرتے تھے. تو آج ان کی محبت پر شک مت کیجیئے۔ آج کے زمانے ، آج کے وقت، آج کی ضرورت کے حساب سے ہمیں خود کو ڈھال لینا چاہیئے۔ ہم کل اپنے بچوں کو آسانیاں دیتے تھے تو آج بھی اپنے دل پر درد بنانے کے بجائے بچوں کے مسائل ان کی مجبوریوں کو سمجھ کر ان کے ساتھ جینے کی کوشش کریں ۔ ہر قدم پر، ہر خاندان میں، ہر رشتے میں ،کچھ نہ کچھ کھٹاس مٹھاس وقت کے ساتھ چلتی رہتی ہے۔ کہیں رشتے ٹوٹتے دیکھے۔ کہیں رشتے جڑتے دیکھے ۔کہیں بنتے دیکھے۔ کہیں بگڑتے دیکھے۔ خود اپنی زندگی میں بہت سا اتھل پتھل دیکھا۔ رشتوں کو رنگ بدلتے ہوئے دیکھا۔ رشتوں کو آپ کا حق مارتے ہوئے دیکھا۔ خون کو سفید ہوتے ہوئے دیکھا ۔خون کے آنسو بہتے ہوئے دیکھے۔ خون تھوکتے ہوئے دیکھا۔ لفاظی میں نہیں حقیقت میں۔ بڑے بڑے زور آور ٹوٹتے ہوئے دیکھے، اور بڑے بڑے کمزوروں کو زور پکڑتے ہوئے دیکھا ۔ یہی دنیا ہے یہی اللہ کا قانون ہے۔ ہر صبح کے بعد شام اور ہر شام کے بعد ایک نیا سویرا طلوع ہوتا ہے۔ الحمدللہ زندگی نے بہت کچھ دیا۔ بہت کچھ سکھایا ۔ بہت سے پردے نظروں سے ہٹائے اور کئیوں کے عیبوں پر پردہ ڈالنے کی ہمت اور توفیق بھی عطا کی۔ اللہ سے یہ توفیق مانگتے رہنا چاہیے کہ کوئی اچھا کام کریں تو اسے بھول جائیں اور کوئی غلطی ہو جائے تو اپنی اس غلطی کو یاد رکھیں اور اسے ٹھیک کرنے کی کوشش کریں ۔ بہت بہت شکریہ فرانس۔ اس  زندگی میں، اس ملک میں ہمیں عزت ملی، تحفظ ملا، روزگار ملا، وقار ملا، عزت سے سر اٹھا کر جینے کا موقع ملا، اچھے دوست ملے ، جینے کا ایک نیا انداز ملا ، دنیا کو دیکھنے کی نئی نظر ملی،  آگے بڑھنے کے مواقع ملے ، اچھے استاد ملے، اچھے شاگرد بھی ملے، خود بھی شاگرد کی زندگی جینے کا موقع ملا ، بہت کچھ وابستہ ہے ان سالوں کیساتھ۔ انسان کہیں بھی رہے وہاں یہ سب حالات زندگی میں پیش آتے ہیں۔ لیکن ایک پاکستانی لڑکی اس زبان سے بھی نابلد اجنبی  دیس میں جو کبھی اپنی گلی سے باہر نہ نکلی ہو ، محلے سے باہر کی دنیا نہ دیکھی ہو، اس کے لیئے شہر سے باہر بیاہ کر جانا اور پھر ملک سے باہر سات سمندر پار کا یہ سفر بالکل ایسا ہی تھا جیسے اڑن قالین پر کوئی ایک دنیا سے دوسری دنیا کا سفر کر لے۔ آج بھی یاد ہے ایک سال بھر کی بچی کو گود میں لیئے پیرس کے چارلس ڈیگال ایئرپورٹ پر جب میں اتری تب مجھے احساس ہوا کہ میں کتنی دور آ چکی ہوں۔ کہ میری ماں اتنی شدت سے اس بچی سے لپٹ کر، مجھ سے لپٹ کر کیوں روئی تھی؟ کیونکہ وہ ہماری آخری ملاقات تھی۔ اس کے بعد سال بھر میں ماں بھی نہ رہی۔ اور آج تک میں یہ سوچتی ہوں کہ وہ ایک سال یا میں نہ آتی تو شاید ماں زندہ رہتی یا شاید وہ چلی جاتی تو میں پھر آتی اسے رخصت کر کے دل کو یقین تو ہوتا کہ واقعی وہ چلی گئی ہے۔ لیکن کہتے ہیں نا اللہ کے ہر کام میں کوئی بھی حکمت وہی جانتا ہے۔ یہاں ہم نے آ کر اولادیں پیدا بھی کی اور کسی اولاد کو اپنے ہاتھوں مٹی بھی دی ۔ اپنی گودوں میں بھی کھلایا ۔ ہر درد، ہر خوشی آپکی زندگی میں آتی ہی ہے لیکن اس کے ساتھ وہ جو ہم نے جیا ۔ شاید وہ اپنے ملک میں کوئی نہیں جیتا۔ وہ تھا تنہائی کا عذاب جو ہمیشہ وابستہ رہا۔ یہ درد اپنی ذات سے کبھی جدا نہیں ہو سکا۔ جب آپ کے پاس کوئی ایسا بھی نہ ہو جس کے سینے سے لپٹ کر ، کندھے پر سر رکھ کر آپ رو سکیں ۔ جس کے ساتھ آپ بیٹھ کر دل کی بات کر سکیں۔ ہنس سکیں۔ دل کھول کر رکھ سکیں۔ یہ کمی ہمیشہ رہے گی اور یہ کمی ہر پردیسی کے حصے میں آتی ہے ۔ ساری خوشیوں پر یہ کمی حاوی ہو جاتی ہے۔ بس اسی درد کا نام پردیس ہے۔ ورنہ کیا نہیں ہے یہاں۔ سب کچھ تو ہے۔ الحمدللہ شکریہ فرانس۔ شکریہ زندگی اور شکریہ میرے ہمسفر اختر شیخ صاحب۔ جن کی سنگت میں جس کی ہمت افزائی، مجھ پر کیئے بھروسے،  حوصلے اور مجھے دی ہوئی میری انسانی آزادی نے مجھے کچھ کرنے کا حوصلہ دیا ۔ اپنے بیگانوں کس کس نے اسے  کیسے کیسے نہ ورغلایا کہ اسے چھوٹ مت دے ، یہ تیرے ہاتھ سے نکل جائے گی۔ بھاگ جائے گی ۔ یہ کر لے گی۔ وہ کر لے گی ۔ مگر شاباش ہے اختر شیخ صاحب کی استقامت کو  جن کی وجہ سے میں اپنے قدموں پر کھڑی ہو سکی۔ ورنہ میں بھی صرف چولہے اور چوکے میں اپنا آپ جھونک کر یہاں اس کمیونٹی کی ہزاروں ڈگریوں کی دعویدار عورتوں کی طرح صرف دھواں ہو چکی ہوتی۔ لیکن اس نے مجھے دھواں نہیں ہونے دیا۔ اس نے مجھے روشنی بننے کا موقع دیا۔ میں جہاں جاؤں اجالے کی طرح پھیل جاؤں۔ اس  عنایت کا کریڈٹ واقعی میرے شوہر کو جاتا ہے۔ ہر وہ عورت جو میدان میں کچھ کر رہی ہے اور اس کا شوہر اس کے ساتھ کھڑا ہے اور وہ اچھے راستوں پر گامزن ہے۔ اس کی شاباش اس کی شوہر کو بنتی ہے۔ بالکل اسی طرح جس طرح کسی کامیاب مرد کے لیئے اس کی بیوی کا ساتھ ہمت حوصلہ اسے شاباشی کا مستحق بناتا ہے۔  میں نے اپنے گھر کی ہر ذمہ داری کو بخوشی نبھایا ۔ میرا شوہر میرے گھر اور اپنے بچوں کی طرف سے جبھی بے فکر رہ سکا ۔ اس کے بچے صاف ستھرے، تمیزدار پڑھائی پر توجہ دینے والے ہوں ۔ وہ گھر آئے تو میرا گھر کسی ملازمہ کے بغیر صاف ستھرا ، دھلے دھلوائے کپڑے، گرم کھانا تیار انکے آگے پیش کیا۔  میں نے میرا گھر ہمیشہ میرے شوہر کی کمائی سے ہی چلایا۔  اس نے مجھے جتنی چادر دی۔ میں نے اسی میں خود کو پورا کر لیا ۔ وہ ہڈ حرام،  نکما ، ویلیاں کھانے والا نہیں تھا ، اور میں فیشن پرست ، مارک کی ماری، پھوہڑ ، فضول خرچ اور ناشکری نہیں تھی ۔ اس لیئے زندگی میں پیسے کی وجہ سے تماشے کم ہی ہوئے۔ کئی ملکوں کی سیر کی ۔ اللہ کا گھر دیکھا ۔ پاکستان میں مہینوں بھی رہنا چاہا تو الف سے لیکر ے تک کا خرچ میری جیب میں اس نے اپنی کی کمائی کا دیکر بھیجا ۔ مجھے میرے یا اپنے رشتےداروں کا دست نگر نہیں ہونے دیا۔ کہیں میری کسی ضرورت کے لیئے مجھے ترسنے نہیں دیا۔ اور میں نے بھی کبھی اپنے آپ کو ضرورت سے نکل کر خواہش کے گٹر میں گرنے نہیں دیا ۔ کیونکہ جو ایک بار خواہشات کے گٹر میں گر گیا اسے دوبارہ سے اس سے پاک کرنے کے لیئے سمندروں کا پانی بھی کم پڑ جاتا ہے ۔
زندگی کی تمام کامیابیاں مجھے اسی کے حوصلے ہمت کے طفیل زندگی نے عطا کیں ۔ زندگی آسان ہے اگر آپ اسے سادگی اور کسی مقابلے کے بغیر گزارنا سیکھ لیں ۔ لیکن زندگی بہت مشکل ہے جب ہر وقت آپ کو خواہشوں کے گھوڑے پر سرپٹ بھاگتے رہنا ہے ۔ کیونکہ بھاگتے ہوئے آپ راستے کی دلکشی کا لطف کبھی نہیں لے سکتے۔ اس کے لیئے تو آپ کو دھیما چلنا پڑتا ہے ۔ کہیں رکنا بھی پڑتا ہے ۔ 
                               الحمدللہ
                   ۔۔۔۔۔۔




پیر، 4 مارچ، 2024

خاموشی نعمت ۔ چھوٹی چھوٹی باتیں۔ کوٹیشنز

بہت عرصے کے بعد یہ بات سمجھ میں آئی کہ خاموشی واقعی ہزار نعمت ہے۔
خاموشی آپ کو رک کر سوچنا سکھاتی ہے۔ 
سمجھنا سکھاتی ہے۔ 
بہت سارے نقصانات سے بچنا سکھاتی ہے۔
اور سامنے والے کو جواب دینے سے پہلے خود اس جواب سے مطمئن ہونا سکھاتی ہے۔
 تو
 واقعی خاموشی ہزار نعمت ہے ۔
(چھوٹی چھوٹی باتیں)
     (ممتاز ملک. پیرس)

اتے پتے بچپن کے۔ کالم


اتے پتے بچپن کے
تحریر:
     (ممتازملک ۔پیرس)

بچپن کے دوست بے حد قیمتی ہوتے ہیں۔ کئی بار والدین کو کسی مجبوری سے ،چاہتے نہ چاہتے اپنا گھر بدلنا پڑتا ہے۔ اپنا شہر بدلنا پڑتا ہے۔ اپنے علاقوں سے دور ہونا پڑتا ہے۔ یا اپنے بچوں کے اسکولز بدلنے پڑتے ہیں ۔  وہ بڑے ہوتے ہیں انہیں شاید یہ بات اتنا دکھ نہ دیتی ہو۔ ان کی زندگیوں میں آنے والی تبدیلیاں شاید اتنی غیر متوقع نہ ہوں، لیکن یاد رکھیں آپ کے ساتھ آپ کے چھوٹے بہن بھائی یا آپ کے بچے جو ابھی ان تبدیلیوں کے اثرات کو ایک دم سے نہ سمجھ سکتے ہیں، نہ قبول کر سکتے ہیں۔ ان کے لیے کسی جھٹکے سے کم نہیں ہوتے ۔کبھی بھی ان کو اچانک حیرت میں ڈالتے ہوئے ان کا سکول بدلنے اور علاقہ بدلنے کا ایسا جھٹکا مت دیجئے کیونکہ اس کے اثرات ساری زندگی ان پر حاوی رہتے ہیں۔ بچپن کے دوست زندگی کا سب سے قیمتی اثاثہ ہوتے ہیں ۔بچپن کی یادیں ہمیشہ دلوں پر نقش ہو جاتی ہیں۔ وہ اچھی ہوں یا بری ۔ اگر کہیں کوئی بری یاد بھی وابستہ ہو تب بھی اپنے سکول کے دوست ، خاص طور پر آپ کی زندگی کا سرمایہ ہوتے ہیں انہیں ایک دم سے ان سے چھیننے کی کوشش مت کیجئے۔ اکثر دیکھا گیا ہے کہ ہمارے ہاں کسی کا سکول بدل جانا یا شہر دور ہونے کے بعد اپنے دوستوں سے رابطہ رکھنے کے لیے ان کو اپنے نئے گھر کے پتہ دینا یا فون نمبر دینا یا کوئی اور رابطہ ان کو دینا والدین ضروری ہی نہیں سمجھتے کہ ان کے اپنے بچوں کے کچھ احساسات ہیں، جذبات ہیں دوستیاں ہیں، جنہیں وہ یاد کریں گے۔ ساری زندگی مس کریں گے۔ اس لیے ضروری ہے کہ وہ ان سے رابطے میں رہیں۔ کبھی کبھار ہی صحیح، کیونکہ زندگی کی مصروفیات میں ہی  انسان اتنا آگے بڑھ جاتا ہے کہ ویسے بھی ہر وقت ایک دوسرے سے رابطے میں رہنا یا ایک دوسرے سے ملاقات کرنا  کبھی ممکن ہو ہی نہیں سکتا ۔ ایسے میں کبھی کبھار بھولے بھٹکے کوئی چٹھی ، کوئی پتر، کوئی فون کال، کوئی میسج آپ کو پھر سے تازہ ہوا کے جھونکے کی طرح ماضی کی میٹھی میٹھی سی یادیں تازہ کر جاتا ہے۔  اس لیئے ان کا سکول یا شہر بدلتے ہوئے اپنے بچوں کو پہلے تیار کیجیےُ۔ انہیں بتائیئے کہ ہمیں شہر یا علاقہ چھوڑنا ہے یا تبدیل کرنا ہے، کہ آپ کا تبادلہ ہو گیا ہے۔ یا آپ کاروبار کے لیئے جا رہے ہیں. یا آپ بہتر مواقع کی تلاش میں جا رہے ہیں ۔ یا آپ ان کی بہترین تعلیم کے لیئے جا رہے ہیں یا کسی پریشانی کی وجہ سے آپ کو وہ جگہ چھوڑنی ہے ، تو بچوں کو ذہنی طور پر اس صورتحال کے لیئے کچھ عرصہ پہلے تیار کیجئے اور انہیں اس بات کی اجازت دیجئے کہ جو ان کی خاص دوستیاں ہیں۔ جو بہت قریبی دوست یا سہیلیاں ہیں ان دو چار لوگوں کو ضرور وہ اپنا پتہ یا رابطہ دے کر جائیں۔  ان کا رابطہ اپنے ساتھ اپنی ڈائریوں میں لکھ کر لے کر جائیں ۔ ایک دوسرے سے نمبر ایکسچینج کریں تاکہ جب کبھی وہ بچپن کے اس دور کو شدت سے مس کرنے لگیں  تو خود کو کچھ دیر کے لیے اس رابطے میں لا کر بہلا سکیں۔  نفسیاتی طور پر بھی اس کے بہت اچھے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔  کیونکہ وہ کسی گہرے ٹروما سے بچتے ہیں۔  یاد کرنے کی وہ جو ایک تکلیفدہ اذیت ہے وہ اس سے بچ جاتے ہیں اور یوں اگر انہیں ایک دوسرے سے کوئی توقع بھی ہوتی ہے تو وہ زیادہ مایوس نہیں ہوتے۔ 
وقت کے ساتھ ساتھ انہیں خود اس بات کا احساس ہوتا چلا جاتا ہے کہ سب کچھ کبھی ایک جیسا نہیں رہتا اور یوں وہ کسی تکلیف کا شکار بھی نہیں ہوتے۔  سچ پوچھے تو سچی دوستیاں تو یہی بچپن کی دوستیاں ہوتی ہیں نہ کوئی غرض نہ کوئی مفاد۔ ایک دوسرے کی مسکراہٹیں ہی ایک دوسرے کے لیے انعام ہوا کرتا تھا۔
کیونکہ کوئی نہیں جانتا کہ ایک ہی سکول میں پڑھنے والے ایک ہی کلاس میں ایک ہی بینچ پر بیٹھنے والے ان بچوں میں سے کون کل کو راجہ بنے گا ۔ کون رانی بنے گی۔ کون شہزادہ ہوگا، اور کون فقیر۔ کون حکمران ہوگا اور کون مزدور۔  اس لیے اس بے غرض دوستی کے دور کو یاد رہنے دیجیئے اور آپ انہیں کاٹنے والی تلوار مت بنئیے۔ ضروری نہیں ہوتا کہ بچپن کے یہ دوست ایک دوسرے کے ساتھ صرف غلط توقعات میں ہی وابستہ رہیں۔ بہت سی چھوٹی چھوٹی معصوم سی باتیں، معصوم سی یادیں ، پہلی بار کی ہوئی شرارتیں،  پہلی بار کے تجربات ان بچپن کی یادوں سے وابستہ ہوتے ہیں۔ سو خدارا اپنے بچوں سے بچپن کا یہ معصوم سا خزانہ مت چھینا کیجئے ۔جسے وہ ساری عمر تلاشتے رہتے ہیں۔
                   --------



جمعرات، 29 فروری، 2024

حروف کا احترام . کالم

حروف کا احترام 
تحریر :
(ممتاز ملک۔ پیرس)
 

پچھلے دنوں ایک خاتون کے لباس پر ایک بڑا ہنگامہ اور فساد ہوتے ہوتے رہ گیا۔ اس لباس پر عربی کے الفاظ تحریر تھے۔ اس خاتون نے اس کا ایک لمبا سا فراک ٹائپ کا لباس پہن رکھا تھا۔ دیکھنے میں وہ عربی کی ایات سے مشابہ تھا۔ ظاہر ہے کسی مسلمان ملک میں جب آپ ایسی حرکت کرو گے تو اس کا مطلب انہیں جان بوجھ کر مشتعل کرنا ہے اور جب کہ وہ خود بھی خاتون مسلمان ہیں۔ سوچنے کی بات ہے کہ کیا الفاظ کی حرمت ہم لوگوں کے ذہن سے بالکل نکل چکی ہے ہم لوگ دین سے تو بیزار ہیں، لیکن حرمت اور تقدس کے معاملات سے بھی بیزار ہو چکے ہیں کیا ۔ الفاظ صرف عربی کے ہی کیوں ہوں، چاہے وہ اردو کے ہوں، ہندی کے ہوں، چائنہ کے ہوں، فرینچ ہوں، کسی بھی زبان کے الفاظ کیوں نہ ہوں، ان کی حرمت اور عزت قائم رہنی چاہیے اور بار بار اس چیز کو دہرایا گیا کہ عربی زبان سمجھ کر عربی سمجھ کر ایسا کیا گیا، سوال یہ ہے کہ
صرف عربی ہی کیوں کوئی بھی زبان ہو اس کے الفاظ کی حرمت ہوتی ہے یہی لباس پہن کر آپ کہیں بیٹھتے ہیں، اٹھتے ہیں، ٹوائلٹ میں جاتے ہیں اور کئی صاف اور گندے کام آپ اس لباس کے ساتھ کر رہے ہوتے ہیں ان میں جب حروف آ جاتے ہیں۔ انہی حروف سے نام بنتے ہیں۔ کلمات بنتے ہیں۔ انہی حروف سے ساری علمی چیزیں تیار ہوتی ہیں ۔ 
اس میں کوتاہی ہم سب لوگوں کی بھی ہے اس لیے کہ جب انگریزی زبان کے الفاظ کو ان کے اخبارات کے نمونوں کو فیشن بنا کر لباس میں استعمال کیا گیا۔ انگریزی الفاظ کو ڈیزائن کہہ کر ان کو استعمال کیا گیا تو ہم لوگوں کو اس وقت بھی اعتراض کرنا چاہیے تھا۔ آواز اٹھانی چاہئے تھی اگر ہم میں سے کسی نے اواز اٹھائی بھی تھی تو اتنی کمزور تھی کہ ذمہ داران تک پہنچی ہی نہیں۔ اس لیئے جب بات بڑھتے بڑھتے اپنی زبانوں کے الفاظ تک آ گئی تب ہمیں پتہ چلا ۔ یہ وہی حساب ہے کہ جب کسی کے گھر میں آگ لگی ہو تو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا، لیکن جب وہ تبش اپنے گھر تک آتی ہے تو پھر ہمیں اپنی فکر پڑتی ہے کہ لو اب ہم جلنے والے ہیں اس میں۔ تو ہم شور بھی مچاتے ہیں آواز بھی اٹھاتے ہیں، تو اس میں مجرم ہم سب برابر کے ہیں کہ آج ہمیں اپنی مذہبی زبانوں کو بھی اس طرح سے دیکھنا پڑا۔
 "اقراء" سے ہماری جو ابتدا ہوتی ہے کہ اللہ پاک فرماتا ہے کہ پڑھ اپنے رب کے نام سے تجھے وہ علم عطا کیا جو تو نہیں جانتا تھا ۔
تو یہاں پہ "پڑھ"  کا لفظ خالی عربی زبان سے منسوب تو نہیں کیا گیا۔  ۔
 اس لیے حروف کا احترام کرنا چاہیے جو ہمیں جینے کا، دنیا اور اخرت کا طریقہ و آداب سکھاتے ہیں پھر وہ کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتے ہوں۔ کسی بھی ملک سے تعلق رکھتے ہوں۔
 رہی بات قبروں پر ، مزارات پر چادریں ڈالنے کی تو ان پر پاؤں نہیں رکھے جاتے یہ بھی یاد رکھیئے۔
 فرق دیکھیئے وہ ٹھیک ہے یا نہیں ٹھیک ہے لوگوں کی اپنی مرضی اور صوابدید  پہ چھوڑ دیجیئے۔
 لیکن ان کے اوپر کوئی پاؤں نہیں رکھتا۔ آپ نے کبھی نہیں دیکھا ہوگا کہ ان پہ ایات لکھی یا کچھ یا اگر وہ تبرکن بھی کسی کے گلے یا سر پہ رکھی جائیں تو کوئی  ان پہ  پاؤں رکھتا ہے یا انہیں کوئی گندی اور نجس جگہ پہ رکھتا ہو یا ساتھ لے کر جاتا ہو ۔
ایسے نہیں ہوتا تو برائے مہربانی اس فرق کو ملحوظ رکھتے اور میں ہر طرح کے الفاظ چاہے وہ انگریزی ہو ، چائنیز ہو ہندی ہو اردو ہو کوئی بھی زبان ہو ہر طرح کے الفاظ کا احترام کرنا ضروری سمجھتی ہوں اور ان کو اپنے بدن پر لپیٹ کر سر پر رکھنا ایک اور چیز ہے۔ سر عزت والی جگہ ہے۔ اس پر کچھ لکھا ہے تو اپ کہیں جاتے ہوئے اس کو اتار کے رکھ دو گے، لیکن آپ اپنے بدن پر لپیٹ کر اس کو جب آپ کے بدن سے  اچھی بری بو بھی نکل رہی ہے۔ آپ کے بدن سے پسینہ بھی نکل رہا ہے۔ آپ کے بدن سے پاکی ناپاقی بھی وابستہ ہے۔ لہذا اس بات کا خیال رکھنا چاہیے ۔ کہ اپنے بدن پر الفاظ کو لپیٹ کر انہیں بے توقیر نہ کیا جائے۔ 
کچھ کا اعتراض ہے کہ خانہ کعبہ اور مسجد نبوی کی تصویر والے جائے نماز بھی تو لوگ استعمال کرتے ہیں اور ان پر چوکڑی مار کر بیٹھ بھی جاتے ہیں۔ تو ان کو یاد رکھنا چاہیے کہ وہ لوگ جو ایسی  جائے نماز استعمال کرتے ہیں وہ بے خبری میںکرتے رہے۔  ان کو بھی اب جیسے جیسے معلوم ہو رہا ہے وہ بھی اس کو استعمال نہیں کر رہے۔ احتیاط کر رہے ہیں۔ آپ نے دیکھا ہوگا کہ جو اب نئی جائے نمازیں  آ رہی ہیں تقریبا  سادی ہی جائے نماز آ رہی ہیں اور ان پر جو بیٹھتے ہیں تو وہ سجدے والی سائیڈ پہ تصویر ہوگی جہاں پہ سجدہ کیا جاتا ہے آپ کبھی بھی نہیں دیکھیں گے کہ پیروں کی سائیڈ پہ تصویر یا اس کے اوپر الفاظ لکھے ہوں  اور وہ جو نقش ہوتا ہے وہ شاید وہ لوگ جو تبرکن بناتے رہے ہیں کہ جہاں وہ اس تصور کو اجاگر کرنے کے لیے کہ مسجد نبوی کی یا خانہ کعبہ کی تصویر اگر بنتی ہے تو ان کی سجدے والی جگہ پہ ہوتی ہے۔ میں نہیں مان سکتی کہ کوئی بھی مسلمان جو رتی بھر بھی علم رکھتا ہو یا احساس رکھتا ہو وہ جان بوجھ کر ایسی تصویر یا  ایسے حروف کے اوپر بیٹھے گا۔ سو احتیاط کیجیئے کہ ایک ہی نقطہ کافی ہے ہمیں محرم سے مجرم بنانے کے لیئے ۔
                 -----

■ ● حسن/ پنجابی کلام ۔ او جھلیا

حسن 
(گیت)

کی دساں تہانوں میں ، کنی سوہنی لگدی آں 
نکی نکی گل اتے ، منہ جدوں وٹدی آں

 کنا ہوئے زور آور ، میرے اگے ٹکدا نہیں 
 پل وچ زور اوناں ، ساریاں دا کڈدی آں 

 ناں میرا حسن اے تے، اکھ چہ غرور بڑا 
من ہوئے سٹیا وی ، کئی وار چکدی آں 

 اپنے غرور دے وچ ، کسے نوں نئیں تکدی میں 
وسے ہوئے گهر آپی ، کئی وار پٹدی آں 

 اپنے مزاج دی میں،  آپ اک ملکہ واں 
اپنی تے ہٹ تو میں،  کدی وی نہ ہٹنی آں 
●●●


■ کول تیرے بہندے ۔ پنجابی کلام۔ او جھلیا






جے کول تیرے بہندے

غم دور ساتھوں رہندے
فیر درد جدائیاں دے
ہنس ہنس کے اسی سہندے
           جے کول تیرے رہندے


پچھیا نہ کدی تُوں وی
دسیا نہ کدی میں وی
دل وچ نہ کدی رکھدے
گل دل دی تینوں کہندے
          جے کول تیرے رہندے 

اِتراؤ نہ صورت تے
مٹی جئی مورت تے
اناں اکھیاں نے تک لےنے
چن چڑھدے کئی لیندے
جے کول تیرے۔۔

 رسوا ہوئے پیمانے
 برباد اے میخانے
معصوم بھلے کیونکر
بے قدراں دے وس پیندے 
جے کول تیرے۔۔۔۔۔

شمع جو جلے بیٹھی
  پروانے ملے بیٹھی
ممتاز اونوں ساڑے 
جو کول کدی ویندے
جے کول کدی۔۔۔۔۔
●●●



■ کارے دن/ پنجابی کلام۔ او جھلیا



 کارے دن


کاریاں راتاں کارے دن
بُھلی پے گئے سارے دن

ہن او یاداں وچ رہندے نیں 
جیڑے ساتھ گزارے دن

اسی وفاواں کردے رہ گئے
طعنیاں دے تُو چارے دن

دل میرے توں پچھے کوئی
ہنجووان دے پچکارے دن

 ممتاز لنگائیاں  بے بس راتاں 
نہیں لنگدے بیچارے دن
۔۔۔۔۔۔۔۔۔


کارے دن تے کالیاں راتاں
بدبختاں لئی چنگیاں باتاں 

■ پیپسی ‏کولے/ ‏پنجابی ‏کلام۔ او جھلیا


چھڈو سارے پیپسی کولے
گیساں بھریاں جھوٹے رولے

لسی شربت پی کے دیکھو 
کیویں بند نساں نوں کھولے

گرمی گرمی سڑ گئے لوکی
کدی سکنجبیں پی کے بولے

چاواں پی پی ساڑ کلیجے
شکر کولا سٹ خاں اولے

تخ ملنگا ستو ورگا
ہے کوئی جیڑا گرمی رولے
 


■ حال سنایا/ پنجابی کلام/ او جھلیا

حال سنایا

کل جد گلاں گلاں دے وچ 
اونہے دل دا حال سنایا 

تد من اے گل مننی پے گئی
ککرے کنج انگور چڑہایا

سچی کہہ گئے کہون والے
 ہر گچھہ کیونکر زخمایا

ہر بندے نے مینوں لوگو
اک نوا ای سبق پڑھایا

سوچاں دے گھنگھرو بندھ جیون
تا تا تھیا ناچ نچایا 

روٹی بن کے اکھاں اتے
جیب نوں گروی جا رکھوایا

او نہیں اگے بولن دیندا 
جو ہڈی پربندھ کرایا 

آس دا دیپک بال کے رکھیں 
تاں کر جانیں کدھروں آیا 

کج انوکھا نال نہیں ہویا
کیوں ممتاز سیاپا پایا
●●●

■ مر جاڑاں اے/ پنجابی کلام ۔ او جھلیا

مر جاڑاں اے

اک دن میں وی مر جاڑاں اے
واپس جان نوں کر جاڑاں اے

موڈھے اتے لے کے لوکاں
چھڈ کے میرے گھر آڑاں اے

رب سوہنے توں بخش دویں تے
اگے راہ سنور جاڑاں اے

جے تو رسیو نال میرے تے
میں تے ہر دم سڑ جاڑاں اے

اس دن کلا چھڈیں نہ تو
جد ہر شے  بکھر جاڑاں اے

اناں کرم ممتاز تے کر دئیں 
رحم تیرے تے تر جاڑاں اے
●●●

■ جی ہوندا اے/ پنجابی کلام ۔ او جھلیا

جی ہوندا اے

جی نوں جی نال جی ہوندا اے
من لوو جی کی ہوندا اے

دھوکھے دے نال جے کر نہ دو
زہر وی کدھرے پی  ہوندا اے

ہتھ مسیحا دا ہووے تے 
پھٹ فیر ہر اک سی ہوندا اے

جیڑا شک توں اولے ہووے
اکثر مجرم ہی ہوندا اے

ہاسا بہتا جس دن ہس لو
اس دن رونڑاں وی ہوندا اے

سچا رشتہ پیسے دا بس 
باقی سب فرضی ہوندا اے

مثل محافظ دی ممتاز 
بوہے دی کنڈی ہوندا اے
             ●●●

روح دے کپڑے سیون والا
ستھرا جا درزی ہوندا اے

قرضی ہوندا اے
منشی ہوندا اے
(جو کج اکھاں ویکھن سچ اے)

■ ادھیڑ دتے/ پنجابی کلام ۔ او جھلیا


ادھیڑ دتے


زبان دے وچ زہر سی بھریا کلام سارے ادھیڑ دتے 
لحاظ کوئی نہ رہن دتا مقام سارے ادھیڑ دتے

فرعونیت دے خدائی دعوے دے اپنے پلے تے کچھ نہیں سی
جو چل ریا سی نہ او وی چھڈیا نظام سارے ادھیڑ دتے

 سبق سی جس وچ برابری دا کتاب خورے گواچ گئی اے
حفیظ موہن وکی تے سندھو شیام  سارے ادھیڑ دتے

بہتیرے موسم گزار دتے دلاں تے صدمے اٹھا کے پر ہن
غماں نوں کڈیا اے اپنے اندروں الام سارے ادھیڑ دتے 

ہزار واری سی جان حاضر جے دوستاں نے پکار ماری
مگر انہاں دوستاں نے ساڈے نیام سارے ادھیڑ دتے

کسے دے پلے وی کچھ نہیں پر عجیب ممتاز دوڑ سب دی
سزا جزا اک مذاق بن گئی انعام سارے ادھیڑ دتے 
●●●

■ اوچا نک/ پنجابی کلام/ او جھلیا


اوچا نک

ایڈا اوچا نک ہر تھاں، پھس جاندا اے
نکی نکی گل اتے، نس نس جاندا اے 

نک دی اچائی نوں ،گھٹاڑں  وچ فیدا اے 
گلاں ہون سدھیاں تے ، رچ رس جاندا اے

جھگڑے مکان لئی، لمبے چوڑے کم نہیں 
لنگدیاں بندہ بس، زرا ہس جاندا اے

اینی جئی گل ، راہ دل والے کھولدی
پہل کرے جیڑا اوہو، وچ  وس جاندا اے
 
ویلا جدوں آوے فیر، لگ پتہ جاوے جی
اپنا بیگانہ کون ،موقع دس جاندا اے

اینا نہ غرور کرو، اپنے مقام تے 
پیچ سارے ٹلیاں دے ، ٹیم کس جاندا اے

عزتاں وچ فیدہ، ممتاز  نقصان نہیں 
بڑا کچھ گنوا کے، پا چس جاندا اے
●●●

■ مینوں باہر نہ کر ۔ پنجابی کلام۔ او جھلیا


مینوں باہر نہ کر


جدوں دل کردا گتوں پھڑ کے 
توں گھر توں مینوں باہر نہ کر

ذرا جئی دیدے عزت مینوں 
بھلے فیر کدی تو پیار نہ کر

لیکے میراحسن  جوانی تے
کھو طاقت تے لاچار نہ کر

میتھوں لیکے جند میری ساری
ایویں رند والی تکرار نہ کر

تو  گھر دا دے مینوں ناواں 
 در در نہ رلا انکار نہ کر

میں ود کے پائے تیری جھولی
جذبے نوں پس دیوار نہ کر

 تیرے جئے ویکھے ممتاز کئی 
         میرے دل تے اوچھے وار نہ کر
                        ●●●




■ بھار بنا کے / پنجابی کلام۔ او جھلیا


  بھار بنا کے
کلام:
 (ممتازملک ۔پیرس)

ہاسے دی گل رکھ لیندے نے دل دے اتے بھار بنا کے 
 میری جے کر سننی نہیں سی کی فیدہ وچکار بٹھا کے

جس گل پئے گا اوہو جانے جس تن لگے اوہو سیکے
پھاہ نوں سوہنا ناں دتا اے پھلاں دا اک ہار بنا کے

سدھے سادے شرفا دی گل بن گئی کیکھڑ بدبختاں دا
اج کل لوکی جت جاندے نے جیب اپنی تلوار بنا کے

عمراں لگیاں عزتاں دے نال جد تک پردے کلے کول سی
شملے نیویں کرنے پے گئے شریکیاں نوں غمخوار بنا کے

جو کچھ لبھے شاکر ہو جا نہ لبھے تے صاہر ہووو 
کی ملنا اے نااہلاں نال امیداں بیکار لگا کے

چل ممتاز تماشا مکیا شاماں پہلے گھر نوں پہنچو
کھڈے تھاں تھاں راہی پے گئے  بے فیضے دلدار بنا کے
                  ●●●


■ انمول نی مائے/ پنجابی کلام۔ او جھلیا




 انمول نی مائے 
کلام: (ممتازملک ۔پیرس)


اے جذبے انمول نی مائے 
نہ ایناں نوں پَھول نی مائے

 مڑ کے اے نہیں آون والے
بول نہ ایسے بول نی مائے

لُکدے لُکدے لُکا بیٹھی آں 
درد بڑے انمول نی مائے

اونوں یاد میں کر کر روواں 

سا وچ وسے ڈھول نی مائے

اک نافرمانی دے بدلے 
ککراں  وچ نہ رول نی مائے 

رہ گئے ہارسنگھار وی میرے 
رہ گئے ٹھٹھے ٹھول نی مائے 

ممتاز سیاڑاں آپ نوں  کیویں 
شیشہ کرے مخول نی مائے 
●●●


■ مک جاندی/ پنجابی کلام۔ او جھلیا

مک جاندی


اگے ود کے سنبھالو  نئیں تے فیر
گل مکدے مکدے مک جاندی

جھڑی اتھرو والی وس پے تے 
فیر سکدے سکدے سک جاندی

چین کچھنی پیندی کج پہلاں
گڈی رکدے رکدے رک جاندی

کئی واری دھوکے اتے وی  
اکھ ٹکدے ٹکدے ٹک جاندی

 میوہ لدیا ہووے لچکیلی جئی 
ڈالی جھکدے جھکتے جھک جاندی

نہ ویلے سر ہوش آوے تے 
جند رلدے رلدے رل جاندی

ممتاز لکاوے دل جناں 
کہانی کھلدے کھلددے کھل جاندی
●●●

■ کیہوں جیہا ویلہ ۔ پنجابی کلام۔ او جھلیا

کیہو جیہا ویلہ اے

کیہو جیا ویلا اے جدے وچ جینے آں 
لیکھاں وچ لکھیا اے کیسا زہر پینے آں 

پہلاں اساں ماپیاں دے اگےاکھ چکی نہیں 
عزتاں دے ڈر تو اولاداں اگے  مکی نہیں 
سچ پچھو دلاں والے پھٹ اسی سینے آں
کیہو جیہا ویلا اے جدے وچ جینے آں۔۔۔۔


وڈے چھوٹے اپنے بیگانے دی نہ حد رہی
دلاں وچ جگہ وی تے رشتیاں دی کد رہی
خبراں دی حد تک دوجے نوں دسینے آں 
کیہو جیہا ویلا اے جدے وچ جینے آں ۔۔۔

ہوئی ممتاز بڑی پیڑی ساڈے نال اے
پردیسیاں دی بڑی جندڑی محال اے
دندیاں دے وچ اسی دوواں پاسوں پینے آں
کیہوں جیہا ویلا اے جدے وچ جینے آں 
●●●




■ مار دیندے او/ پنجابی کلام ۔ او جھلیا


مار دیندے او


چڑی اک چھڈدے او کاں مار دیندے او
دشمناں دی گل نال ماں مار دیندے او

جیڑا تہاڈے  عیش وچ زرا جے خلل پائے
اوہدے فیر عزت تے ناں مار دیندے او

پاک وچ عظمی تے عالیہ دا راج اے
زور اتے جتھے چاہو اتھاں مار دہندیے او

فوجیو  تہاڈا وی کمال اے قسم نال
جتھے جی کردا اے تھاں مار دیندے او

زرا سانوں ساہ تے  بحال کر لین دو 
نواں نواں حوصلہ اے تاں مار دیندے او

بلڈی اے سویلین دھپ  وچ سڑ گئی 
سڑکاں بلاک کر چھاں مار دیندے او

تہاڈے کولوں سکھیا اے قوم اک گاں اے
قربانی دینی ہوئے گاں مار دیندے او

اے سوچ ماواں نے تے فوجی نہیں جمے سی
ممتاز لوکاں دی  دیاں متاں مار دیندے او
                 ●●●

■ دسدے مینوں/ پنجابی کلام ۔ او جھلیا

دسدے مینوں 

میں تینوں نہیں پالیا، تو پل گیا ایں احسان تیرا 
مینوں  سزا کسطرح، تو دینگا اے دسدے مینوں 

روا روا کے مکا تے دتا،  اے پہلاں مینوں 
تو میرے نال ہور کی، کرینگا اے دسدے 

تیرے ہنیرے مٹان دے لئی ، جلایا خود نوں 
 میری سوا ہن کتھے ، اڑاویں گا دسدے مینوں 

 جے تینوں اپنا مشیر رکھ لاں، تے کیسا رہیگا 
میری تباہی دا مشورہ ،کنے دن چہہ دینگا اے دسدے مینوں 

محبتاں دے سراں تے ممتاز ، بھار احسان دا نہ رکھو
نہیں اے سوکھا جے ، لاڑاں پے گا اے دسدے مینوں 
                  ●●●            

■ لاڈو رانی ۔ پنجابی کلام۔ او جھلیا


لاڈو رانی

کنے  چن چڑھا بیٹھی آں 
اکھیاں نوں چندھیا بیٹھی آں

منزل اپڑن والیاں  نوں وی 
پٹھے رائے  پا بیٹھی آں

چنگےبھلے ٹبر نوں میں 
کیڑے پاسے لا بیٹھی آں

کلیاں  کھاڑاں کی ہوندا اے
دنیا نوں سمجھا بیٹھی آں

کلی آں میں لاڈو رانی 
جگ تے رولا پا بیٹھی آں

اک سی میرا ڈھول سپاہی
او وی بنے لا بیٹھی آں

ابا جی نو جھلیاں کر کے
ماں نوں لمیاں پا بیٹھی آں

دس ممتاز نوں کنے مرشد
اپنے پچھے لا بیٹھی آں 
●●●

■ چھڈ توں/ پنجابی کلام ۔ او جھلیا

چھڈ توں 


چل وے سودائیا ایویں لمیاں نہ چھڈ توں
چھاں دین والیاں  نوں جڑاں توں نہ
وڈ توں 

وڈی وڈی گل اتے اکھ تیری پجی نہیں 
نکی نکی گل اتے دندیاں  نہ کڈ توں 

باز رہیں  ممتاز ایسیاں دی یاری توں 
ہر ویلے جدے اگے سٹیں کوئی  ہڈ توں
●●●

ونڈ توں

بہتے دی اڈیک وچ تھوڑا تو گنوائیں نہ
جیڑا تیرے وس ہوئے اوہوں شے ونڈ توں 

ہر شے تثیر وچ دوجے کولوں وکھ اے 
 کدی وی نہ کہہ سکیں مرچاں نوں کھنڈ توں 

ہڈیاں جما دوے قہر پلے پا دوے
ایڈی ٹھنڈ چنگی نہیں بچ اینی ٹھنڈ توں 

 سکھے نے حیاتی نون لنگان والے سبھی ول
استاداں دیاں جھڑکاں تے وڈیاں دے ڈنڈ توں 

گلہ کدی کرو نہ کہ اے تے سکول نیں 
سانوں تے سبق ملے ماپیاں دی چنڈ توں

لاوارثاں دے وانگوں حال اودا ہوندا سی جیڑا اج دور نسے  رشتیاں دی گنڈ توں 

مشکلاں چہہ ممتاز بندے دی شناخت ہووے
نسدیاں ہوندے نوں پچھان اوہدی کنڈ توں

●●●
  

■ لگ جاندے نیں / پنجابی کلام ۔۔او جھلیا

   

    لگ جاندے نیں


دیر سویر جے ہو جاوے تے ، دل نوں دھڑکے لگ جاندے نے
وچھڑن والے نوں تے اے غم ، تڑکے تڑکے لگ جاندے نیں 

کج لوکاں دی سنگت نالوں ، کلیاں رہناں بہتر اے 
روگ اولڑے ایناں لوکاں ، دے پتھ پھڑ کے لگ جاندے نیں 

اینا چیتا رکھیں حاسد ، رب نال جھگڑا پا لیندا اے
دونواں جہاناں دے سارے غم، اونہوں  سڑ کے لگ جاندے نیں

وید نے کنی واری دسیا ، دل دیاں شریاناں  دے بارے
  لہو دے رستے صاف نہ ہون تے، روگ سکڑ کے لگ جاندے نیں 

ہر گل ہر اک رشتے دے نال ، کرن دا وکھرا چج ہوندا اے
وڈے جھگڑے نکی نکی گل،  پکڑ کے لگ جاندے نیں 

جد اتھرے رویئے حاکم ہون،  لحاظ وی انا ہوئے
نہیں لگنے  سی  او وی سب الزام، اکڑ کے لگ جاندے نیں 

اک دوجے دے بارے  جو نہ سمجھے، کٹھیاں رہ ممتاز
اکو وار او سارےپتے، یار وچھڑ کے لگ جاندے نیں 
                   ●●●


■ ذمہ داری/ پنجابی کلام۔ او جھلیا

ذمہ داری 

دنیا دے وچ ہر کوئی آندا لیکے کوئی ذمہ داری
اونہوں بھل کے وقت لنگاویں کانوں تیری مت گئی ماری

اک اک پل دی گنتی ہونی اک اک کم دا لیکھا چوکھا  
رب نوں جا کے کی دسیں گا کیویں تو اے عمر گزاری 

کربل برپا ہوندے نے تے پکے پیری ثابت قدمی 
شملے لئی سر دینے پیندے ایویں نہیں لبدی سرداری

سالاں دی آزمیش لنگا کے بندہ خود نوں ثابت کردا
مہنگی پے جاندی اے اکثر راہ چلدیاں دی دلداری

جند دی دوڑ چہہ جتن دے لئی ہوش ضروری سب توں پہلاں
عزتاں ملے پے جاندیاں نیں رول کے رکھ دے گی مئے خواری

ہتھ تیرے نوں عادت نہیں اے اپنا کر کے کھاون دی تے
کی تو کھٹیا دس دنیا نوں پیو دے مال تے عیش جے ساری

جے ممتاز نہ فرض نبھائے حق نہ دتے غم نہ ونڈے
تیرا جمنا مرنا اک جیہا کاہدی تیزی کی ہشیاری
              ●●●

■ بہانے/ پنجابی کلام ۔ او جھلیا

بہانے

وکھرے وکھرے ،ون سوونے، بہانے اونوں آندے سن
جد  اوہناں دا ،جی چاہندا سی ،نوی کہانی پاندے سن

ویلے اینے، کم نہیں کوئی ، لتے لیڑے دی لت پئی اے
الماری وچ ،تھاں کوئی نہیں، اک پاندے اک لاندے سن

چنگا ویلہ سی، جد لوکی ،سچ دے اتے کٹھ کردے سی
اوچی مسند، دے اتے او، اوچے بندے بہاندے سن

غربت دے، مارے لوکاں دا ،ناں لے کے عہدے ہتھیائے
فیر انہاں ، غربت دے ماریاں،  دے حق ہنس کے کھاندے سن

ہر شے ہوندیاں، خوش نہ ہونا، جیویں اوہدی عادت بن گئی
رب دے ناں تو ، ضد کردے سی، خورے او کی چاہندے سن

نور جیا ہر پاسے ،جیویں کھلر کھلر ،جاندا سی
پردہ اپنی ،باری دا جد، ہلکا جا سرکاندے سن

شکوے کر کر ،بھکے مر مر، تھک گئے لوکی  مہنگائی نال
سڑکاں اتے، آکے سارے ،روندے تے کرلاندے سن 

وجد اندر ، دنیا دا چرخہ ، گھمدا سی ممتاز اوہدوں 
عشق دے نغمے ، اک تارے دے،  اتے جد وی گاندے سن
                 ●●●

■ دوچار گلاں/ پنجابی کلام۔ او جھلیا

دو چار گلاں


اسے تسی مل پہیئے گلاں دو چار ہون
آسے پاسے لنگھیا جو اوس دا وچار ہون

کوئی دن ایسا ہووے کنڈیاں دی چھٹی ہووے 
ہر پاسے کھلڑے پھل بے شمار ہون

کدی کدی انج ہووے کہی گل پوری ہووے 
من لیئاں لگدا اے محو  انتظار ہون

دل والے ڈول وچ رنگلی مدھانی  چلے
یاداں والے مکھن اوس ڈول وچوں پار ہون 

کی ماحول ہووے محفل دے وچ تاں 
مدتاں دے بعد ملے گوڑھے دو یار ہون

اے وی کوئی گل ہوئی اکو بولی جائے کلا
دوجا وی تے حال دسے جے رازدار 
ہون

اوتھوں دل تنگ پوے زرا وی نہ بہنا چاوے
جتھے  شوبازی ہووے گلاں بیکار ہون 

دھرماں تے مذہباں دے ٹھیکے سر چک کے
فتنے فساد لبھن سوچاں جے بیمار ہون 

امن تے آشتی نوں اگ لان والیو
ہر بندے نال وسے کئی سنسار ہون

سچا اوہو ساتھ ہوندا جنوں ممتاز گل 
 دسیئے تے بھار لوے  دل دا قرار ہون
               ●●●


■ کیویں ساڑ جاندا اے/ پنجابی کلام۔ او جھلیا


        کیویں ساڑ جاندا اے 
کلام: ممتازملک 

مائے میریئے وچھوڑا کیویں ساڑ جاندا اے
لکھ جگ توں لکایئے جگ تاڑ جاندا اے

کدی اوچیاں نوں کھچ نیویں لا چھڈدے 
پباں بھار والیاں نوں گھوڑی چاڑھ جاندا
 اے

تیرے لاریاں تے رول دتا موسماں  دا رنگ
ایویں لنگھیا بیساکھ جیویں ہاڑ جاندا اے

سال لہنگ گئے بتیہرے پلے پیا تو نہ میرے 
پہلاں ندی وانگوں آیا بن باڑ جاندا اے

ممتاز کدی  دل والے وین نہ سنیں 
سر زورا زوری سولاں وچ واڑ جاندا اے
●●●




■ پنڈیاں میں پا لیاں / پنجابی کلام ۔ او جھلیا



پنڈیاں 


تیرے نال یاداں دیاں پنڈیاں میں پا لیاں 
چنگیاں تے مندیاں چھنڈیاں چھنڈا لیاں 

کم آگئی جے سمجھو رب دا کرم سی
جان دیکے کئیاں دیاں عزتاں بچا لیاں 

ایہو تے اصول ایہہ اپنا بنان دا
کج تیری من کج اپنی منا لیاں 

شکر اے کہ خواباں اتے کسے دا وی زور نہیں 
تائیوں اساں خواباں دیاں بستیاں وسا لیاں 

جدوں گل کوئی کرے ہنس کے تے خوامخواہ
چندرے جئے دل نے امیداں  جگا لیاں 

کسے چنگی گل دے سنن دی آس تے
ہتھ دیاں لیکاں اے نجومی نوں وخا لیاں 

اک کلا رب سوہنا بندے نئیو سجدے
ممتاز حال دل سنیا سنا لیاں 
●●●

■ مولا دا/ پنجابی کلام۔ او جھلیا

مولا دا

شرم اکھیاں دی ویچنے والو، کیوں نہ آئے عذاب مولا دا
بے نیازی نو بے خبر نہ سمجھ، یاد رکھنا حساب مولا دا

قہر رب تو وی بچ گیا ہوندا، اے مقدر سیاہ نہ ہوندا 
ساری جندڑی سنور گئی ہوندی، جے تو پڑھدا نصاب مولا دا

یاد رکھ بے وجہ کدی کج وی، نہیں ہوندا ایہو سچائی اے 
کج وجہ سی کہ سارے میلے وچ، تو بناانتخاب مولا دا 

ہتھ تو تیرے زبان تو تیری ، عزتاں خلق جو بچا لیندی
شر توں اپنے جے تو فتح پاندا، تینوں ملدا خطاب مولا دا

تو جے ممتاز دل اٹھا لیندیوں، ایس دنیا دے جھوٹے عشقاں توں 
تیرے ہر اک سوال دے بدلے، آپ آندا 
جواب مولا دا
    ●●●   


■ رب کولوں ڈر/ پنجابی کلام۔ او جھلیا


رب کولوں ڈر 

جادواں دے زور تے حکومتاں نہ کر
رب کولوں ڈر چناں رب کولوں ڈر 

جناں وی خزانہ تو لکا لینگا ہن ایتھے
ہاواں والے سیک نال پا لینگا تن اوتھے
کج وی نہ کم آوڑاں جدوں  ایکدم گئے مر  
رب کولوں ڈر چناں رب کولوں ڈر

جیندے جی وی لوکاں کولوں لعنتاں پوا لیاں 
سیاستاں چہ  پچھلیاں عزتاں  گنوا لیئاں 
داغ سارے دھو جائے چنگا کوئی کم کر
رب کولوں ڈر چناں رب کولوں ڈر 

آتا دال چینی چول بجلی تے گیس تیل
گھر دے کرائے تے سکول دیاں فیساں فیل
پوری کیتی رناں دیاں فیشناں  کسر
رب کولوں ڈر چناں رب کولوں ڈر 

مہنگائی ممتاز  فیشناں دے رولے نے
پالراں نے اگ لائی گھر گھر کھولے نے
 ہوٹلاں دے چسکے چہ ہوئے دربدر
رب کولوں ڈر چناں رب کولوں ڈر 
                   ●●●

■ ہار بناواں/ پنجابی کلام ۔ او جھلیا

ہار بناواں

دل کردا اے تیریاں ساریاں ،کرتوتاں دے موتی چن کے
وڈیاں وڈیاں گالاں دے میں ،ایخو جیہے ہار بناواں

جتیاں دے نال فیر پرو کے ، تیرے گل انج میں پاواں 
تینوں تیری ہر اوقات میں جاگدی اکھی خوب وخاواں 

ماں دے جمیاں دے حق کھو کے، جعلی رشتیاں جھولی پائے
غیرت کتھوں لیا کے دواں ،کیڑی کیڑی گل جتاواں

شکر اے رب دا اونے مینوں، اے کرنے دے طاقت دتی
ود کے شکر کہ صبر دتا جو ، رب دے فیصلے نوں ازماواں  

شکر کیتا ممتاز نے ہر دم ، ود کے ہر اک فیصلہ پایا
دشمن رب نے خوار او کیتے ، مٹی چٹی ٹٹیاں باواں 
      ●●●

■ اج راتی رک جا/ پنجابی کلام/ او جھلیا

             اج راتی رک جا

اج راتی رک جا نی،  مائے میرے کول تو
بولدی رہ میرے نال ، مٹھے مٹھے بول تو

پھینج لاں میں مٹھیاں تے، پوچھاں دس کی اے
خوامخواہ تو آکھیں ،نہیوں چیتا بس کی اے
ہار جاویں جان کے تے، جتیں بن مول تو
بولدی رہ میرے نال، مٹھے مٹھے بول تو  ۔۔۔۔۔۔۔

کدی میری نکیاں ، ہوندیاں  شرارتاں 
رکھ متھے  پٹیاں  نسائیاں حرارتاں 
دس کے تو مینوں کوئی، بھید میرا کھول تو
بولدی رہ میرے نال، مٹھے مٹھے بول تو۔۔۔

اج میں نہیں رسڑاں ، تیری کسے گل توں
ودیا نہ کوئی، تیرے نال لنگے پل توں 
میرے نال رج کے، کر لے مخول تو 
بولدی رہ میرے نال ، مٹھے مٹھے بول تو۔۔۔۔

آپاں  نوں وی اپنا،  دس کوئی حال نی
تیری وی تے سوچ کوئی،  ہوئے گا خیال نی
یاداں دی پٹاری وچوں ، یاد کوئی پھول تو
بولدی رہ میرے نال، مٹھے مٹھے بول تو۔۔۔۔۔

رات ساری سینے نال،  لا ممتاز نوں 
ڈر ساری دنیا دے ، مٹ جان ناز توں 
پہلو چہ اپنے ،سووا لے مائے کول تو
بولدی رہ میرے نال،  مٹھے مٹھے بول تو۔۔۔۔
                   ●●●

بدھ، 28 فروری، 2024

■ کتھے گئےاو / پنجابی کلام ۔ او جھلیا

کتھے گئے او

جینا اوکھا سی جناں بن کتھے گئے او
ویلہ لنگدا سی دن گن گن کتھے گئے او

میں اوناں دے نال بہتیرے ربط ودائے 
فیر وی بن پائے نہ محسن کتھے گئے او

کہندے سی جو سپنے ویکھی جاو کیونکہ
پورے ہو جاون گے اک دن کتھے گئے او

شاید سکی دھرتی جل تھل ہو جاوے
لا کے کن سندے سی کن من کتھے گئے او

بے سد ہو کے بیخود ہوکے اپنے غم نوں آپئی رو کے
چپ ممتاز آپئی ہوندے سن کتھے گئے او 
●●●




■ پاگل لوگ/ پنجابی کلام ۔او جھلیا


پاگل لوگ

ملک نوں چھڈ کے، لوکاں پچھے لگ جاندے نیں پاگل لوک
فیر ہنیرے قسمت کرکے، دور  جاندے نیں پاگل لوگ
 
کیہو جئے بدبخت نیں  جیڑے ، اگے ودن دی تھائیں تے
ٹوئے دے وج ڈگن دے لئی، رولا پاندے نیں پاگل لوگ

جنہاں دی گنتی وی کوئی معنی، رکھدی نہیں اونہاں لئی
اپنیاں نسلاں ون سونے ، ناویں لاندے نیں پاگل لوگ
 
اک مٹی دا رب بنا کے ،اودی پوجا کردے نیں 
اپنے لہو وچ ڈبی ہوئی ،خیرات کھاندے نیں پاگل لوگ 

ضد بضدی زورا زوری ، مقصد ناں دی شے وی کوئی نہیں 
آپوں وی نہ سمجھ سکن ،کی چاہندے نے پاگل لوگ 

اک ویلے دی روٹی دے پاء، وک جاندے نیں کملے جئے 
جتیاں کھا کے پنج سال فیر ،ممتاز  گاندے نیں پاگل لوگ 
                   ●●●                  

شاعری / /مدت ہوئ عورت ہوۓ/ ممتاز قلم / سچ تو یہ ہے/ اے شہہ محترم/ سراب دنیا/ نظمیں/ پنجابی کلام/