ممتازملک ۔ پیرس

ممتازملک ۔ پیرس
تصانیف : ممتازملک

جمعہ، 8 فروری، 2019

بابا تیری باہیں ۔ سراب دنیا


             بابا تیری باہیں
                          (کلام/ممتازملک ۔پیرس)


  بابا تیری باہوں کے سہارے پہ چلے ہم
لہجہ تیرا ہوتا تھا میرےواسطے سرگم  


جس دن سے سمجھنے لگا دنیا کے مسائل
  اس دن سے تیری قدر  بلندی پہ ہے ہر دم



  دنیا جو میرا دل کبھی ٹھوکر میں پٹختی
  تُو سر پہ میرے ہاتھ کو رکھتا بڑا مدھم  

 اور مجھکو اٹھا کر تُو کھڑا کرتا برابر  
کہتا کہ زمانہ بڑا بے رحم ہے جانم

  ابا کے لیئے  بڑھ کے کوئی تجھ سا نہیں ہے
  پر کیا کروں دکھلا نہیں سکتا میں اپنا غم

  جب باپ اپنے زخم دکھانے لگے تم کو
   بیٹا کبھی ہو سکتا نہیں دنیا میں سرگرم  

کونے میں کہیں جا کے میرے واسطے رویا
  پر سامنے میرے کبھی ہوتا نہ تھا برھم

  ممتاز جو طوفان  زمانے کے  چھپا کر
  بیٹے کے لیئے باپ ہے اک عزم مصمم 
                     ......


بدھ، 6 فروری، 2019

■ اسلام کے چوکیدار / کالم ۔ لوح غیر محفوظ




اسلام کو کسی چوکیدار کی ضرورت نہیں ہے 
                              (تحریر/ممتازملک ۔پیرس)

اسلام محبت اور بھائی چارے کا مذہب  ہے ۔ لیکن فی زمانہ مسلمان گھرانوں میں پیدا ہونے والے خوش نصیب ہی  ان بدنصیب لوگوں میں شامل ہیں جنہیں اسلام کے نہ بنیادی فرائض کا علم ہے اور نہ ہی اسلامی اصولوں کا ان کی زندگیوں میں کوئی گزر ہے ۔ ہم مسلمان ہیں اس لیئے کہ ہم مسلمان باپ کے گھر میں پیدا ہوئے ۔ 
زیادہ سے زیادہ ہم میں سے کوئی  کبھی کبھار یا دن  میں کبھی نماز ہی پڑھ لیتا ہے۔ پیسہ ہوا تو حج اور عمرہ ادا کر لیا ۔
 وہ بھی محض دنیا دکھاوے کے لیئے، ورنہ ہر سال 40 پچاس لاکھ مسلمان حج ادا کر کے بھی واپسی پر اپنے کردار میں کسی قسم کی کوئی مثبت تبدیلی کیوں نہیں لا پاتے ۔ کیونکہ انہوں نے یہ نماز ، حج اور روزے محض رسما ادا کیئے ۔ اس کی روح سے ناواقف اس کے فیوض و برکات سے محروم ۔ ہم اس وقت تک خود کو مسلمان نہیں کہہ سکتے جب تک ہمارے کردار ،قول و فعل سے متاثر ہو کر کسی غیر مسلم کو  اس مذہب کی جانب رغبت حاصل نہ ہو سکے ۔ 
 اس کی تازہ مثال ہالینڈ کا وہ ممبر پارلیمنٹ جو سالوں سے اسلام دشمنی میں پیش پیش رہا ۔ مسلم دشمنی میں ان کے  شدت انگیز بیانات جن کی شناخت رہے ہیں ۔ یہاں تک کہ انہوں نے اپنے ان اسلام مخالف خیالات کو کتابی شکل دینے کا آغاز کر دیا ۔ اسلام کے ہر نکتے پر اعتراضات ڈھونڈنے کے ارادے سے انہوں  نے اسلام کو پڑھنا شروع کیا ۔ جیسے جیسے اسلام میں اندھیرے ڈھونڈنے والے نے اس کے جس نکتے کو ہاتھ لگایا وہ ایک چراغ کی صورت اس کے دل میں روشن ہوتا چلا گیا ۔۔ اندھیرے کی یہ کتاب کیا مکمل ہوتی اس کی روح میں ایمان کا فانوس روشن ہو گیا ۔  
وہ خود اس بات پر حیران ہے کہ وہ کس ارادے سے اسلام کو پڑھنے بیٹھا اور کیا لیکر واپس لوٹا ۔ تو ثابت ہوا کہ دین کو پڑھنے اور سچے دل سے پڑھنے کی شرط بھی ہے اور ضرورت بھی۔  آپ کے دل و دماغ کیا آپکی روح تک میں پہنچنے کے سارے راستے وہ خود ہی بنا لیگا ۔ 
ہم پیدائشی مسلمان ساری عمر خود کو دوسرے سے بہتر ثابت کرنے کے گمان میں ہر ایک کو کافر قرار دینے میں گزار دیتے ہیں ۔ فرقہ بازیوں نے ہمیں کبھی اللہ کی کتاب کھولنے کی توفیق ہی نہ ہونے دی ۔ اور ہم نے اپنا دین مولویوں اور علماء کی زبانوں کے سپرد کر دیا ۔ گویا ہمارے حصے کا دین بھی انہوں نے پڑھنا ہے اور ہمارے حصے کی سزائیں بھی انہوں نے ہی کاٹنی ہیں ۔ بس جب وہ ہمیں آواز دینگے ہم اندھے،گونگے،بہرے بن کر، دین کے چوکیدار بن کر وہ جس پر کہیں اس پر حملہ کر دیں ۔ اسے کاٹ دیں ۔ اسے تباہ کر دیں ۔ کیونکہ 
 اس طرح ہمیں اللہ کے دین کی چوکیداری کے بدلے میں جنت ملے گی ۔ کیا واقعی ؟؟؟
جس اللہ نے کن کہہ کر یہ کائناتیں تخلیق کیں، وہ ہماری ہی چوکیداری کے سہارے اپنے دین کو بچائے ہوئے ہے ؟ 
وہ ابابیلوں سے ہاتھیوں کو مروانے والا ہم جیسے کمزور ایمان اور رنگ برنگے عقائد کے سوداگروں کے ذریعے اس دین کو باقی رکھے ہوئے ہے ؟
انا للہ وانا الیہ راجعون ہماری ایسی سوچ اور گمان پر بھی ۔۔
دنیا بھر میں آج بھی  جب بھی کوئی ایمان لاتا یے تو اسلام دشمنی ہی میں اللہ کے کلام کو کھنگھالنے بیٹھتا ہے اور پھر اس بحر بیکراں میں نایاب موتی چنتے چنتے اتنی دور، اتنی حسین اور مکمل دنیا میں گم ہو جاتا ہے کہ نہ اسے اپنی تاریک آذادیاں یاد رہتی ہیں اور نہ کھوکھلی خوشیاں ۔۔۔
سو ہم سب کو بھی اللہ کی کتاب کو خود سے کھول کر صرف اپنے ایمان کی اصلاح کرنے کی شدید ضرورت ہے ۔ تاکہ ہم بھی اس سمندر سے موتی نہیں تو نہ سہی کچھ سیپ ہی چن سکیں ۔ اس دین کو اللہ نے مکمل کر دیا ہے ۔ اس کی حفاظت کا وعدہ اس نے کیا ہے اور اس سے بڑھکر کوئی وعدے نبھانے والا بھی نہیں ہے ۔ اس لیئے اس کے دین کے چوکیدار بننے سے اچھا ہے کہ ہم اپنے ایمان اور کردار ، اپنے اعمال اور اپنے نفس کی چوکیداری کریں ۔ اسی میں ہماری بخشش و فلاح دونوں پوشیدہ ہیں ۔ 
                    ●●●



پیر، 4 فروری، 2019

گدی نشین مفت خورے۔کالم



        گدی نشین مفت خورے 
                     (تحریر/ممتازملک۔پیرس)



ہر سال اوقاف کے زیر انتظام ہونے کے باوجود ہزاروں درباروں خانقاہوں پر زائرین کی جانب سے چڑھایا جانے والا اربوں روپیہ کہاں جاتا یے ۔  اس کا حساب کتاب کون لیگا ۔ 
یہ وہ اربوں روپیہ ہے جس کی کوئی پوچھ تاچھ نہیں ہے ۔ کبھی خاندان میں کسی ایک بزرگ نے اللہ سے لو لگائی، کم کھایا کم سویا ، تقوی اختیار کیا ۔ اور اللہ کی محبت میں لوگوں کو اپنے علم کا فیض بانٹتے ہوئے دنیا سے رخصت ہو گئے ۔ اب خاندان کو فکر ہوئی کہ ابا جی نے جو شہرت اور عزت کمائی ہے ۔ مراقبے اور چلے کاٹے ۔ وہ سب ان کیساتھ ہی دفن ہو چکے ہیں ۔ باقی گھرانے میں سے شاید کوئی نماز کا پابند بھی ہو یا نہ ہو ۔ لیکن ابا جی  یا دادا یا نانا جی کی پگڑی کو کسی نہ کسی کے سر فکس کر دیا جائے تاکہ رونق میلہ لگا رہے ۔ لیکن ہاں اب یہ سب مفت میں نہیں ہو گا بلکہ کوئی صندوق بھی رکھا جائے جہاں ہر آتا جاتا اپنی خوشی سے کچھ نہ کچھ ڈالتا جائے ۔ تو پھر وہ بکسے بھرنے لگے ۔میلے ٹھیلے پر لوگوں کی توجہ مبذول کرا کے انکی تعداد بڑھائی گئی ۔ چرس اور گانچے کے شوقینوں کے لیئے بھی کئی ترکیبیں اختیار کی گئیں ۔ لنگر خانے بھی  کھولے گئے اچھا کیا ۔ لیکن اس لنگر خانے کی آڑ میں بھی ہر حکومت کے آئے گئے کو خصوصی خدمات پیش کی گئیں ۔
جس کا مطلب ہوتا ہے "سرکار آنکھیں بند رکھو "۔ کیوں کہ اس گدی دو گدی پر بیٹھنے والا گدی نشین نہ تو کوئی خاص دینی علم رکھتا ہے ، نہ اس کی کوئی روحانی حیثیت اور درجہ ہے ، نہ اس کا کوئی کوئی مثالی کردار ہے ، نہ کوئی چلہ نہ کوئی مراقبہ۔۔   یعنی وہ ایک پھوکا کردار ہے جسے اس پگڑی کے نیچے چھپا دیا گیا ہے ۔۔ 
اس لیئے حکومت سرکار آنکھیں بند رکھتی ہے کہ نہ کوئی اس صندوق اور صندوق کے نیچے بنے زیر زمین کمروں میں نوٹوں کی بوریوں کا حساب کتاب ہوتا ہے ،نہ اس پر ٹیکس لگتا ہے اور نہ ہی اس پیسے کو کسی فلاحی کام میں استعمال کیا جاتا ہے ۔ یہ گدی نشین خاندان اس مال مفت پر بنا محنت کے عیاشی کی  زندگی بسر کرتے ہیں ، اثررسوخ کے مالک بن جاتے ہیں اور لوگوں کو دینی بلیک میلنگ کا شکار کر کے جس سیاسی ٹولے کو چاہیں اس کے آگے قربانی کے دنبے کی طرح پیش کر دیتے ہیں ۔ بلکہ بیچ دیتے ہیں کہا جائے تو زیادہ موزوں ہو گا ۔ 
ہمارے ملک میں جب بھی حساب کتاب کا شوراٹھتا ہے تو اسے صرف اور صرف سیاسی انتقام کے لیئے ایک پارٹی کسی دوسری پارٹی پر یا کوئی خاص طاقت کسی دوسری حکومت سے مخصوص مفادات کے حصول کے لیئے ایڑی چوٹی کا ذور لگانے پر خرچ کر دیا جاتا  ہے ۔ یوں جب وہ مفادات حاصل ہو جاتے ہیں تو کل کا چور پھر سے آج کا شاہ بنا دیا جاتا یے ۔ یہ ہی وجہ ہے کہ یہ سارا سلسلہ محض مذاق بن کر رہ گیا ہے ۔ ہمارے ٹیکسیشن ،اوقاف نیب اور ایسے دوسرے اداروں کی توجہ  آخر باقی شعبوں میں ملک کو چونا لگانے والوں کی جانب کیوں نہیں جاتی ۔ جس میں سب سے بڑا کاروبار ان مزاروں کی مفت کی کمائی پے ۔ اس کمائی کا ایمانداری استعمال کیا جائے تو ملک بھر میں ہر یتیم اور بیواہ کو بہترین وضائف دیکر پڑھایا لکھایا اور اہل ہنر بنا کر اپنے پیروں پر کھڑا کیا جا سکتا ہے ۔  ضرورت مندوں کو  اپنے پیروں پر کھڑا کرنے کے لیئے  کارخانے لگائے جا سکتے ہیں ۔ آسان بلا سود کاروباری قرضے دیئے جا سکتے ہیں ۔ غریب خاندانوں کو مفت راشن فراہم کیا جا سکتا ہے ۔ دستکاری سکول اور سینٹر بنائے جا سکتے ہیں ۔ ہسپتالوں میں ہر شہری کو مفت ادویات و علاج فراہم کیا جا سکتا ہے ۔  غرض کہ بہت کچھ کیا جا سکتا ہے ۔ ۔ لیکن اس مال پر دربار بنا کر چند خاندان مسلط ہیں ۔ اوراس مال کو جیسے چاہیں اڑا رہے ہیں ۔ خدارا اس جانب توجہ دیجیئے ۔ ملک بھر سے غربت کے خاتمے میں ان درباروں کی کمائی اپنا بھرپور کردار ادا کر سکتی ہے ۔ 
لیکن اس کے لیئے ضروری ہے کہ ان حساب کتاب لینے والے محکموں میں بھی ایماندار لوگ تعینات کیئے جائیں جنہیں ان گدی نشینوں سے زیادہ خدا کو جواب دینے کی فکر اور اس کا ہی خوف بھی ہو ۔ جنہیں احساس ہو کہ اپنے ذاتی فائدے کے لیئے "سب اوکے" کی رپورٹ دیکر وہ اس ملک کے کروڑوں لوگوں تک پہنچ سکنے والے ممکنہ فوائد کو ملیامیٹ کر کے دونوں جہانوں میں دوزخ کی راہ ہموار کرتے ہیں ۔ اس لیئے ایمانداری اور خدا خوفی کی شرط جتنی ان افسران پر لاگو ہوتی ہے ۔ اس کا انہیں بھرپور احساس دلانے کی بھی اشد ضرورت ہے ۔   
                      ۔۔۔۔۔۔

اتوار، 3 فروری، 2019

آپ تو ایسے نہ تھے/ کالم ۔ میاں بیوی راضی


آپ تو ایسے نہ تھے 
ممتازملک.  پیرس 

ہمارے ہاں اکثر دیکھا جاتا ہے کہ شادی سے پہلے لڑکے لڑکیاں اپنا خوب خیال رکھتے ہیں اور ٹپ ٹاپ رہنا پسند کرتے ہیں.  اپنے وزن کے لئے فکر مند ہوتے ہیں.  اپنی بول چال کو بہتر بنانے کی کوششوں میں لگے رہتے ہیں . 
لیکن یہ کیا  کہ جہاں ان کی شادی کی شہنائی بجی تو دیکھتے ہی دیکھتے ان کے سارے رکھ رکھاؤ کا بھی بینڈ بج جاتا ہے 😀
گویا شادی ہی وہ دنیا کا سب سے ضروری اور بڑا معرکہ تھا جس کے لیئے یہ سارے تردّد کیئے جا رہے تھے.  وہ سر ہو گیا سو اب کیسا خیال کیسی دیکھ بھال... 
مردوں کی توند , گنج اور بدمزاجی اس کی بیفکری کو ظاہر کرتی ہے تو خاتون کی اپنے لباس اور حلیئے سے بے نیازی , چڑچڑاہٹ اور بدزبانی اس کے اطمینان کا سرٹیفکیٹ ہو جیسے... 
کیوں؟ کیا ان دونوں کا شادی کے بعد اپنے آپ سے جی اوبھ جاتا ہے یا پھر یہ دونوں اپنے آپ کو فاتح دنیا و دیں سمجھ لیتے ہیں ؟
شادی کرنے کا یا بچے پیدا کر لینے کا یہ ہر گز مطلب نہیں ہے کہ آپ اپنے وجود سے بے خبر ہو جائیں یا سجنا سنورنا آپ کا حق نہیں رہا ہے. اسی لیئے ہم کہتے ہیں  کہ عورت بچے اتنے ہی پیدا کرے جتنے وہ سنبھال سکے ، پال سکے . ورنہ اکثر وہ سمجھتی ہے کہ زیادہ بچے پیدا کر کے اس نے اپنے میاں کو جکڑ لیا ہے.  جبکہ ایسا ہر گز نہیں ہے.  ہم نے اکثر ہی زیادہ بچوں والی عورت کو ہی زیادہ پٹتے اور زیادہ در بدر ہوتے دیکھا ہے.  زرا سی تحقیق کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ
جس عورت سے اس کا مرد شادی سے پہلے یا شادی کے وقت شدید محبت کرتا تھا اس نے تو خود کو کچن کے فرش کا پوچھا ہی بنا ڈالا ہے یا پھر بچوں کے پوتڑوں میں اپنی ذات گم کر دی ہے.  اپنے میاں کے لیئے خود اس نے ہی کوئی وقت رکھا نہ ہی جذبہ.  ...
تو ایسے میں اپنے شوہر کی جیب سے آگے اسے کچھ دکھائی دینا بھی بند ہو گیا... اب ایسے میں وہ صاحب باہر کہیں خوش پوشاک سجی سنوری خاتون سے بات کر کے یا تعلق استوار کر کے سکون کے چند لمحات  حاصل کرنا چاہتا ہے تو اس میں مرد کو کسی طور بھی قصوروار نہیں سمجھا جا سکتا.  
بطور شوہر یا بیوی آپ کو اتنا ہی بوجھ اٹھانا چاہئے جو آپ آسانی سے اٹھا سکیں.  اپنے رفیق حیات کو اس کے جذبات کو نظرانداز کیئے بنا اپنی پرسنالیٹی کو برقرار ہی نہ رکھیں بلکہ تاحیات اپنی سیلف گرومنگ بھی کرتے رہیں .. ورنہ بعد میں بھیں بھیں کر کے رونے سے کچھ واپس نہیں آتا.  
یاد رکھیئے¡
جس طرح کسی بھی مشین کو چلانے کے لیئے تیل کی ,گریس کی , صفائی اور  مرمت کی ضرورت رہتی ہے اسی طرح میاں بیوی کا رشتہ اصل میں دو چیزوں کی وجہ سے ہی پائیداری اختیار کرتا ہے وہ ہے رومانس اور حس مزاح..یہ دو چیزیں آپ کی شادی شدہ زندگی کو گریس مہیا  کرتی ہیں جبھی تو آپ
کا جوڑا گریس فل لگتا ہے 😊
خاتون خانہ آپ کا رومانس یقینا آپ کی بساند بھرے جوڑے اور جسم سے اور تیل کی مارکیٹ بنے سر سے تو پھوٹے گا نہیں.  شوہر کے گھر آنے سے پہلے اپنے گھر کے کام سمیٹ کے نہا دھو کے صاف ستھرے اس کی پسند کے حلیئے میں تیار ہو کر اسے مسکرا کر خوش آمدید کہیئے.  ایسی موقع پر ساس یا نند یا کوئی اور کوئی فضول جملہ بازی کرے تو اسے بے نیازی کیساتھ ایک کان سے سن کر دوسرے  کان سے نکال دیجئیے.  اور جان لیجیئے کہ وہ آپ کو ایک بار دو بار تین بار چلیئے تین سو بار بھی طنز و تشنع کریں گی تو  مجبوراً اپنے بیٹے سے ہی کسی روز جواب سن لیں  گی.  آپ کا شوہر خوش ہے تو باقی سب کے لیئے اس بات میں بہری ہو جائیں.  اسی میں آپ کا سکون بھی ہے اور محبت بھی. 
یہ بھی یاد رکھیں اگر دوسروں کی سنکر آپ کا شوہر آپ سے متنفر ہو گیا تو یہ ہی ساس نندیں اور دیگر آج جملے کسنے والیاں ہی پھر بھی زہریلے جملوں سے آپ پر ہی وار کریں گی.  کہ اپنا میاں تو سنبھال نہیں سکی اب روتی ہو بیٹھ کر..
بالکل یہ اصول شوہر نامدار یعنی صاحب خانہ پر بھی لاگو ہوتا ہے.  گھر سے باہر خوش لباس ,  مہذب تمیز دار اور باوقار  کے لیبلز رکھنے والے کے اپنے گھر میں داخل ہوتے ہی زبان پر کانٹے کیوں اگ آتے ہیں؟ منہ سے آگ کیوں نکلنے لگتی ہے؟ . آپ کو ہمیشہ اپنی بیوی سے ہر موضوع پر  کھل کر محبت سے واضح الفاظ میں بات کرنی چاہئے کہ آپ کو اپنے لیئے  کیا اچھا لگتا ہے اور کیا نہیں.  اور جہاں جہاں ضروری ہو وہاں ایکدوسرے کے لیئے لچک کا مظاہرہ بھی فراخدلی کیساتھ کیجیئے.
 یاد رکھئے زندگی کوئی دو جمع دو برابر چار کا حساب نہیں ہے.  اس میں کئی بار ہم بہت کچھ جیت کر بھی ہار جاتے ہیں اور کئی بار  سب کچھ ہار کر بھی جیت جاتے ہیں. ایک دوسرے کے لیئے اسی طرح سجیئے سنوریئِے جس طرح پہلی ملاقاتوں میں سج کر ملا کرتے تھے.  ہاں یہ ٹھیک ہے کہ زندگی  میں بہت سے نئے معاملات اور نئی مصروفیات  بھی شامل ہو جاتی ہیں جو  وقت کو بہت تنگ کر دیتی ہیں.  لیکن  اگر آپ دو  سب سے اہم رشتے میں سب سے اہم لوگ ایک خاندان کی بنیادی اکائی  ہی ایک دوسرے سے خوش نہ رہے ,مطمئن نہ رہے تو پھر یہ کہنے کا گلہ کرنے کا بھی آپ کو کوئی حق نہیں ہے کہ ارے آپ تو ایسے نہ تھے ۔
                          ●●●


جمعہ، 1 فروری، 2019

شکر خدا


شکر خدا
(تحریر:ممتازملک ۔پیرس)

لاہور کے عجائب گھر سے صیہونی دجالی نشانی والا مجسمہ ہٹا دیا گیا ۔  شکر خدا۔۔پاکستانیوں پارٹی بازیوں میں گھسنے کے بجائے اپنے خدا کے خوف اور اس کی مغفرت کو اپنے سامنے رکھو ۔ اور ہر بات پر منہ میں گھنگھنیاں ڈال کر مت بیٹھ جایا کرو ۔ زندہ ہو تو زندہ قوموں کی طرح اپنے زندہ ہونے کا ثبوت دیا کرو۔ اچھی بات کو بلا امتیاز اچھا ، اور بری بات کو بلالحاظ برا کہا کرو۔ ورنہ کل کو ہماری نئی نسل انہیں ہندو دیوتاوں اور صیہونی دجالوں کے آگے پوجا پاٹ کرتے اور ان کی سالگرہیں مناتے نظر آئینگے ۔ اللہ پاک نے آپ کو والدین کے رتبے پر فائز کیا ہے تو اسکی کڑی جواب طلبی بھی ہونی ہے ۔ یونہی اولادوں کو تباہ ہوتا دیکھ کر خاموش رہنے پر سستے میں نہیں چھوڑ دیئے جاو گے، معاف نہیں کر دیئے جاو گے۔ 
یاد رکھو۔۔۔۔
تقدیرکےقاضی کایہ فتوی ہےازل سے 
ہےجرم ضعیفی کی سزامرگ مفاجات
                    ۔۔۔۔۔۔۔۔


جمعرات، 31 جنوری، 2019

بدھ، 30 جنوری، 2019

محترم استاد ۔ سراب دنیا


محترم استاد
(کلام/ممتازملک ۔پیرس)

بڑے محترم ہیں یہ استاد سارے 
پڑھاتے ہیں قرآن کےہم کو پارے 

بروں کو یہ حق کی نشانی دکھائیں 
جو اچھے ہیں انکو بشارت سنائیں 
یہ گمراہ کے واسطے راہنما ہیں 
سبھی پائیں منزل انہی کے سہارے


بڑے محترم ہیں یہ استاد سارے 
پڑھاتے ہیں قرآن کے ہم کو پارے 

جو استاد اچھا تو ہے خوش نصیبی
ہے شاگرد اچھا تو دنیا اُسی کی
بھلے سے نہ پھر کتنے طوفان آئیں 
پہنچ جائینگے ہم بھی اک دن کنارے

بڑے محترم ہیں یہ استاد سارے 
پڑھاتے ہیں قرآن کے ہم کے پارے 

انہی کی عطا سے خدا مل گیا ہے
اسی رہنمائی میں رب کا پتہ ہے 
یہ قرآں سے جوڑیں سبھی بھید کھولیں 
عنایت ہے انکی کہ یہ ہیں ہمارے 

بڑے محترم ہیں یہ استاد سارے 
پڑھاتے ہیں قرآن کے ہم کو پارے 

حقیقت دکھائیں ہمیں زندگی کی
کہ فرما کے تفسیر یہ بندگی کی
تڑپ یہ سبھی کے دلوں کی مٹائیں 
مسائل کو سلجھائیں دےکے اشارے

بڑے محترم ہیں یہ استاد سارے 
پڑھاتے ہیں قرآن کے ہم کو پارے 

نہ سالوں یہاں وقت کا کچھ ضیاں ہے
یہاں منفرد ہر کسی کا بیاں ہے   
نہیں اور کچھ یہ تو نورالقراں ہے
جہاں پر تراشے ہیں ہیرے یہ سارے


بڑے محترم ہیں یہ استاد سارے 
پڑھاتے ہیں قرآن کے ہم کو پارے 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


جمعہ، 25 جنوری، 2019

دیکھیں یا نہ دیکھیں . چھوٹی چھوٹی باتیں





کہتے ہیں نا کہ 
"ہو دیکھنا تو دیدہ عبرت نگاہ ہو "
بس یہ ہی معاملہ ہے ،
ہم اکثر وہ باتیں دیکھتے ہیں جو ہمیں نظرانداز کر دینی چاہئیں،
 لیکن ہم اکثر وہ باتیں نہیں دیکھتے جو  ہمیں ضرور دیکھنی چاہیئیں ۔
 شاید یہ ہی ہمارا قومی المیہ ہے۔
(چھوٹی چھوٹی باتیں )
(ممتازملک ۔پیرس) 
MumtazMalikParis.BlogSpot.com 




بدھ، 23 جنوری، 2019

میرا خدا ناانصاف نہیں



            میرا خدا ناانصاف نہیں 
                              (تحریر: ممتازملک )




اس پولیس کو  دیکھو پاکستانی غنڈہ پولیس والو۔۔
یہ بھی اسی دنیا میں بستے ہیں، 
اسی زمین کا رزق کھاتے ہیں  ،
یہ سب بھی تنخواہ دار ہیں اور بغیر رشوت کے اپنی تنخواہ کی چادر میں پاوں سمیٹ کر زندگی گزارتے ہیں ،
لیکن جو کچھ یہ کرتے ہیں تمہارے فرشتے بھی شاید اس درجے تک سماجی خدمت کی خ تک بھی نہیں پہنچ سکتے۔ 
کیوں ؟
کیونکہ یہ صرف کلمہ نہیں پڑھتے لیکن یہ ہر کام اسی طرح کرتے ہیں جس طرح ہمیں کلمہ پڑھانے والے نے پسند فرمایا ۔۔
تو پھر جنت کی دعویداری تم جیسے غنڈوں کے لیئے کیوں؟ جن کے سائے میں نہ کسی کی عزت محفوظ ہے ،نہ جان اور نہ مال ۔۔بلکہ ہر بڑے سے بڑے اور چھوٹھے سے چھوٹے جرم کے ڈانڈے جا کر کسی نہ کسی پولیس والے سے ہی ملتے ہیں ۔۔
جبکہ یہ پولیس والے جنت کے حقدار کیوں نہیں ۔۔جو اپنی جان ہتھیلی پر لیئے اپنے ہر شہری کی جان مال اور عزت کا تحفظ کرنے کے لیئے چاک و چوبند اور مستعد رہتے ہیں ۔۔۔
ہم پاکستان میں اپنے گھر والوں ، اپنے بچوں اور خصوصا اپنی خواتین کو گھر سے نکلتے ہوئے لازمی ہدایت کرتے ہیں کہ سنو جہاں کہیں پولیس نظر آئے یا پولیس کا معاملہ ہو تو فورا وہاں سے کھسک جاو، غائب ہو جاو۔ ورنہ تم خطرھ میں پڑ جاو گے۔
جبکہ یہ پولیس، یورپ کی پولیس جسے دیکھ کر ہماری جان میں جان آ جاتی ہے ۔ ہم اپنے بچوں اور عورتوں کو خصوصا یہ کہہ کر گھر باہر بھیجتے ہیں کہ کسی بھی مشکل میں ہو، کوئی پریشان کرے تو جہاں کہیں پولیس نظر آئے تو فورا ان کے پاس پہنچو ۔ تمہاری جان ،مال اور عزت محفوظ ہو جائے گی ۔ اب تم ہی بتاو جنت کس پر واجب ہوتی ہے؟ تم جیسے کلمہ پڑھکر منافقت حرامخوری ،بدکاری ، اورمعصوموں کو قتل کرنے والوں پر ۔۔۔
یا ان بنا کلمہ پڑھے ایماندار، محنتی ، باکردار،اور زندگیاں اور عزتیں بچانے والوں پر ۔۔۔
مجھے پورا  یقین ہے کہ میرا خدا ناانصاف تو ہر گز نہیں ہو سکتا ۔۔
                  ۔۔۔۔۔۔۔

ہفتہ، 19 جنوری، 2019

میرے ہاتھوں میں تتلی ہے




*میری مٹھی میں تتلی ہے جگنو ہیں ستارے ہیں 
مگر پھر بھی تہی داماں مقدر کیوں ہمارے ہیں 

*کبھی گرنا پڑے  تو سب نقاب اترے ہوئے دیکھو
کوئی کتنے کرے دعوے سبھی جھوٹے سہارے ہیں 

*انوکھے کھیل ہم سے زندگی نے خوب کھیلے ہیں 
وہی غیروں میں جا بیٹھے جو کہتےتھے تمہارے ہیں 

*اندھیرے اور اجالے میں بدل جاتے ہیں سائے بھی 
تو پھر کیسے نہ یہ بدلیں کہ بے بس ہیں بیچارے ہیں 

* ہم اکثر چاہ کر بھی کام نہ ممتاز آ پائے 
یہ ہی ہے شومئی قسمت سبھی قسمت کے مارے ہیں 
                        ۔۔۔۔۔

حب بتان سیاہ ست ۔ کالم


         حب بتان سیاہ ست
                    (تحریر: ممتازملک ۔پیرس) 


آج جب ہر طرف پاکستان سے باہر رہ کر بھی  پاکستانی سیاسی پارٹیوں کے عشق اور بخار میں غرق ہو چکے ہیں انہیں بات کرتے ہوئے نہ کسی دلیل  کی پرواہ ہوتی ہے ، نہ کسی کے احترام سے غرض ۔ منہ سے جھاگ اڑاتے ، ہذیان بکتے ہوئے یہ لوگ سیاسی پارٹیوں کی جانب سے ہماری قوم کے ماتھے پر وہ کلنک کا ٹیکہ ہیں جو اپنی روح بجا طور پر  سیاسی مفاد پرست شیطانوں کے پاس گروی رکھ چکے ہیں ۔ 

 ۔ اور کسی بات کا کریڈٹ ہماری سیاسی پارٹیوں کو، ان کے لیڈران کو جائے یا نہ جائے لیکن بیہودگی ، بدزبانی اور لچر پن کا کلچر متعارف کروانے میں ان کا نام بجا طو پر سر فہرست رہیگا ۔ ۔ دنیا بھر کے ممالک میں سیاسی  پارٹی کا کام صرف اپنے ملک کے اندر سیاسی بحث مباحثے کرنا  اور لوجک کی بنیاد پر دوسرے کی رائے سننا بھی ہے ، اس پر غور بھی کرتے ہیں اور بڑی اعلی ظرفی کیساتھ اس کی مخالفت ہی نہیں  حمایت بھی کرتے ہیں اس کے لیئے سامنے والا چاہے کتنی ہی شدید مخالفت رکھنے والی پارٹی کا نمائندہ یا کارکن ہی کیوں نہ ہوں ۔ لیکن بھلا ہو ہماری سیاسی جماعتوں کا، جنہوں نے کوئی نہ کوئی بت تراش کر سارے کارکنان کو اس بت کی پرستش پر لگا دیا ۔ اب بت پرستوں کے مذہب میں  اس کی اپنی پیدائش پر کسی کا اعتراض تو قبول ہے ، لیکن اگر نہیں قبول تو اس بت کی شان میں کوئی بھی سچ سننا یا اعتراض کرنا کسی صورت قابل قبول نہیں ہے ۔ یہ ہی فرق ہے پاکستان کی  ناکامی اور دنیا کی ترقی کا ۔ جب تک ہمارے ملک میں سیاسی بت تراشی اور بت پرستی ختم نہیں ہو گی، یہاں سے بت پرستوں کا خاتمہ ناممکن ہے ۔ ملک سے محبت بھی توحید کی طرح ہی ہوتی ہے ۔ جس طرح  خدا ایک ہے اسی طرح ہر انسان کی مدر لینڈ ، دھرتی ماں،  مادر وطن بھی ایک ہی ہوا کرتی ہے ۔ قومیتیں یا نیشنیلٹیاں چاہے وہ کتنے بھی ممالک کی حاصل کر لے، لیکن اس کا خمیر جس مٹی سے اٹھا ہے ۔ نہ وہ اس سے انکار کر سکتا ہے اور نہ ہی اسے نظرانداز کر سکتا ہے ۔ اسی لیئے اس ملک سے وفاداری ہمارے خون میں بہنی چاہیئے ۔ یہ کیسی وفاداری ہے جو کسی بھی ایک لیڈر یا بت کے نام سے وقف ہونے کے بعد ، نہ ہمیں کچھ سنائی دیتا ہے اور نہ ہی دکھائی دیتا ہے ۔ اور آنے والا ہر طوفان ہمیں برباد کرنے کو تیار ہو اور ہمارا اسے پھونک سمجھ کر نظر انداز کرنا، بہت بڑی حب ال بتاں سمجھ لیں ۔
یاد رکھیں :
ایمان کی لڑائی میں بس ایمان ہوتا ہے  نہ اس میں کوئی کسی کا باپ ہلوتا ہے اور نہ بیٹا ۔ نہ کوئی رشتہ ہوتا ہے اور نہ مفاد ۔ ہمارا مقصد صرف سچائی اور ایمان ہوتا ہے ۔ جس میں ایمان نہیں، اسمیں سچائی نہیں ، ہمارے ملک کی بھلائی نہیں ، پھر نہ وہ ہمارا لیڈر ہو سکتا ہے اور نہ ہی وہ ایک اچھا انسان ہو سکتا ہے ۔      
             ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اک میں ہی نہیں تنہا


اک میں ہی نہیں تنہا 


اک میں ہی نہیں ان پر قربان زمانہ ہے
جو ربِ دوعالم کا محبوب یگانہ ہے

کل جسنے ہمیں پُل سےخود پارلگانا ہے
زہرہ کا وہ بابا ہے ، سبطین کا نانا ہے


اس ہاشمی دولہا پر کونین کو میں واروں
جوحسن وشمائل میں یکتائے زمانہ ہے


عزت سےنہ مرجائیں کیوں نام محمد پر
ہم نے کسی دن یوں بھی دنیا سے تو جانا ہے


آؤ درِ زہرہ پر پھیلائے ہوئے دامن
ہے نسل کریموں کی، لجپال گھرانا ہے


ہوں شاہِ مدینہ کی میں پشت پناہی میں
کیا اس کی مجھے پروا دشمن جو زمانہ ہے


یہ کہہ کر درِ حق سے لی موت میں کچھ مُہلت
میلاد کی آمد ہے، محفل کو سجانا ہے

قربان اُس آقا پر کل حشر کے دن جس نے
اِس امت آسی کو کملی میں چھپانا ہے


سو بار اگر توبہ ٹوٹی بھی تو کیا حیرت
بخشش کی روایت میں توبہ تو بہانہ ہے


پُر نور سی راہیں بھی گنبد پہ نگاہیں بھی
جلوے بھی انوکھے ہیں منظر بھی سہانا ہے

ہم کیوں نہ کہیں اُن سے رودادِ الم اپنی
جب اُن کا کہا خود بھی اللہ نے مانا ہے


محرومِ کرم اس کو رکھئے نہ سرِ محشر
جیسا ہے "نصیر" آخر سائل تو پرانا ہے


(کلام/ سید نصیر الدین نصیر ر ح ع)

جمعہ، 18 جنوری، 2019

اچھا بننے کا دکھاوا ۔ چھوٹی چھوٹی باتیں



MumtazMalikParis.BlogSpot.com



اچھا "بننے کا دکھاوا" کرنے والوں کو یہ کون بتائے کہ
 "اچھا بن جانا" کس قدر شاندار اور کس قدر اطمینان بخش ہوتا ہے ۔
(چھوٹی چھوٹی باتیں)
(ممتازملک ۔پیرس)


زندگی آسان بھی مشکل بھی







زندگی اتنی آسان بھی نہیں جتنی ہم سمجھتے ہیں،
اور 
اتنی مشکل بھی نہیں جتنی ہم اسے بنا لیتے ہیں۔
  
(چھوٹی چھوٹی باتیں)
(ممتازملک۔ پیرس)

پیر، 14 جنوری، 2019

سال نو دعوت راہ ادب




رپورٹ :
ممتازملک۔پیرس
 

 





13 جنوری 2019ء بروز اتوار پیرس کے ایک  مقامی ریسٹورنٹ میں خواتین کی ادبی تنظیم "راہ ادب" کی  صدر کی جانب سے ادب نواز خواتین کو خصوصی ظہرانہ دیا گیا ۔ جس میں  سال نو کی مبارکباد اور نیک خواہشات کا اظہار کیا گیا ۔ راہ ادب کی صدر ممتاز ملک نے تنظیم  کے اغراض و مقاصد سے انہیں آگاہ کیا اور  نئی لکھنے والی خواتین کو اپنی راہنمائی  کا یقین دلایا ۔ اس ظہرانے میں خواتین سے متعلق مختلف مسائل پر تبادلہ خیال کیا گیا ۔ اور راہ ادب کے پلیٹ فارم سے آئندہ پروگرامز کی منصوبہ بندی اور مشاورت بھی کی گئی ۔ محفل کا ماحول بیحد دوستانہ اور خوشگوار رہا ۔ بہترین کھانوں سے مہمان خواتین کی تواضح کی گئی ۔
پروگرام میں راہ ادب کی صدر ممتاز ملک ، نائب صدر محترمہ شمیم خان صاحبہ کے علاوہ روبینہ جہانگیر، فاخرہ اکرم ، ارم فیصل ، نگہت بٹ ، تحریم شیخ، ذنیرا اور زہراء نے شرکت کی ۔ 
ممتاز ملک نے تمام تشریف لانے والی خواتین کو اپنا قیمتی وقت نکال کر پروگرام میں شرکت کرنے پر شکریہ ادا کیا ۔  
یوں ہنستے مسکراتے اگلی ملاقات کے وعدے پر سب نے دعاوں کیساتھ ایکدوسرے سے رخصت لی ۔ 
                ۔۔۔۔۔۔
https://www.facebook.com/DaisPerdaisNews/videos/2055448021206827/
https://www.facebook.com/DaisPerdaisNews/videos/2055448021206827/

جمعہ، 11 جنوری، 2019

خالد دانش کا تبصرہ

تبصرہ کار:خالد دانش 
8جبوری 2019ء 

ممتاز ملک۔۔۔خوشبو میں بسا اک نرم ہوا کا جھونکا۔۔۔
محترمہ ممتاز ملک صاحبہ متعدد شعری مجموعوں کی تخلیق کار۔۔جن کی علمی استعداد اشعار سے عیاں ہے۔۔ممتاز ملک وہ شاعرہ ہیں جو لفظوں کو اہتمام سے برتنے کا سلیقہ جانتی ہیں۔علم،حسن،رعنائی،فکر،دور اندیشی اور شاعری کا شعور انکے اضافی اوصاف ہیں۔۔۔اپنے اشعار میں لفظوں سے کھیلنا اور کرب و طرب،غم و مسرت اور ماحول کی پیچیدگیوں کو اپنے قلم سے قرطاس کی زینت بنانا اور اس احسن اسلوب سے سنوار کر لکھنا کہ پڑھنے والے کی آنکھ سے دل میں سرایت کر جائے۔۔ممتاز ملک کا کہنا ہے کہ۔۔۔۔اس خوبی پر عبور و دسترس حاصل کرنےکے لیے تپتے ہوئے ریگستانوں میں آبلہ پائی کرنی پڑتی ہے۔۔تب کہیں جا کر عرفان نصیب ہوتا ہے۔۔۔۔۔
راقم کے نذدیک ایک سچے شاعر کی پہچان یہ ہے کہ اسکا کلام پڑھ کر یا سن کر کیف و سرور طاری ہو جائے۔۔۔اور یہ خوبی ممتاز ملک کے اشعار میں مضمر پاتا ہوں۔۔دعا ہے کہ ممتاز ملک صاحبہ کے علم میں برکت ہو اور چار سو انکی ناموری کا نقارہ سنائی دے۔۔آمین۔


شمیم خان صاحبہ





محترمہ شمیم خان صاحبہ
 ایک بردبار متحمل اور معاملہ فہم شخصیت ایک پیاری اور مخلص انسان  . جو ہر ایک پر پیار اور محبت نچھاور کرنا جانتی ہیں . میں جب بھی ان سے بات کرتی  ہوں مجھے محسوس ہوتا ہے کہ میں اپنے کسی بڑے پیارے دوست سے بات کر رہی ہوں. جس پر اعتبار کیا جا سکتا ہے . اپنوں بیگانوں سب کے لیئے چھاوں جیسی، ماوں جیسی شمیم خان جنہوں نے اپنے شریک حیات کی جدائی کو بھی اتنی شدت سے محسوس کیا کہ ان کی شاعری میں ان کا درد بخوبی جھلکتا ہے . ان کے کلام میں لوگوں کے رویوں ،دنیا کی بے ثباتی اور معاشرتی  بے انصافی پر تڑپ واضح دیکھی جا سکتی ہے .
اللہ تعالی انہیں لمبی عمر ایمان عزت اور صحت کیساتھ عطا فرمائے.  آمین
ممتازملک. پیرس

ساجد علی کا تبصرہ


  تبصرہ کار:معروف گلوکار و موسیقار ساجد علی 

8جنوری 2019ء
آج یہ اجلی بشارت سن کر بے حد خوشی ہوئی کہ محترمہ ممتاز ملک صاحبہ کا نیا شعری مجموعہ۔۔۔۔۔۔۔۔کے نام سے منظر عام پر آنے والا ہے۔راقم کے نزدیک تصویر کی حیرت،قوس و قزح کے رنگ،موسیقی کا طلسم،کھتک کا بھاو،اشعار کا حسن ،توازن اور ایک میٹھی و توانا آواز کو یک جا کر کے لفظی پیراہن دیا جائے تو بلا مبالغہ محترمہ ممتاز ملک صاحبہ کی تصویر بنے گی۔۔۔
مجھے مسلم یقین ہے کہ سچے جذبوں اور خوابوں کی نمو پزیری کا عمل دوسری روحوں میں اس وقت پھلتا پھولتا ہے جب شاعر قوت،محبت اور باطنی سچائی کے ساتھ روح شاعری میں جلوہ گر ہوتا ہے۔۔اور محترمہ ممتاز ملک صاحبہ کو میں نے شاعری کے عمیق سمندر  میں غوطہ زن ہی پایا ہے وہ اس قدر گہرائی میں جا کر لفظوں کے موتی نکالتی ہیں کہ ہر لفظ کو جیسے قوت گویائی میسئر آ گئی ہو۔ان کے اشعار میں لفظ چاندنی میں نہائے اپنی پاکیزگی کا احساس دلاتے ہیں۔۔یاد رکھیے۔۔سماعت سے ٹکرا کر جو شعر دل سے ہم آہنگ ہو جائے وہ جاذب توجہ تخلیق صرف ممتاز ملک صاحبہ کی ہو سکتی ہے۔۔۔حمد و نعت لکھتی ہیں تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ پلکوں سے بارگاہ الہی اور در حبیب پر دستک دے رہی ہوں۔۔روشنی اور خوشبو سے ملاقات سعادت عظمی ہے اور حمد و نعت میں  آپ کے قلم سے چمکتا ہر ہر لفظ قلب و نگاہ میں نور پھیلاتا دکھائی دیتا ہے۔۔اور دوسری جانب انکے اشعار ذہنی انتشار اور روحانی خلفشار کے اندھیروں کو دور کرنے میں روشن لکیر مانے جاتے ہیں۔۔الغرض انکی اس کتاب کو میں گلدستے سے تعبیر کرتا ہوں جسمیں انواع و اقسام کے رنگ برنگے پھول اشعار میں ڈھلے ہوں گے جو یقینا کیف و سرور کا ذریعہ بنیں گے اور یہی ایک سچے شاعر کی پہچان ہے کہ اسکا کلام وجدانی کیفعیت سے سرشار کر دے۔۔رب کریم ممتاز ملک صاحبہ کے علم میں خیر و برکت عطا فرمائے آمین۔

پاس نہیں قریب رہو


   
پاس نہیں قریب رہو
   (تحریر: ممتازملک ۔پیرس)


ایک ماہر نفسیات کا مضمون پڑھنے کا اتفاق ہوا ۔ جس میں ویت نام کی جنگ سے جان بچا کر امریکہ میں آباد ہونے والی خاتون کی کہانی تھی ۔ جس نے چون برس کی عمر میں تین جوان بچوں کے ہوتے، پیار کرنے والے شوہر اور گھر بار کے ہوتے ہوئے بھی خودکشی کر لی ۔ اس کے حالات اور اس کی آخری حرکات و سکنات اور اس کے بیان کو سن کر اس کا اپنا شوہر اور بچے حیرت کے سمندر میں غوطہ زن تھے اور انہیں  معلوم ہوا کہ اصل میں تو وہ اپنی ماں کے اندر کے انسان سے کبھی ملے ہی نہیں ۔ اس کا ایک کامیاب پتھالوجسٹ سے پناہ گزین بننے کا درد،  اس نئے ملک میں انگریزی مکمل لب و لہجے میں نہ سیکھ پانے کی ناکامی کا شدید احساس، اپنے زمانے سے پیچے رہ جانے کا صدمہ اور پھر عراق پر حملے میں روز سامنے آتی اموات، لہو، چیخ و پکار، بچوں کی دلخراش چیخیں ، عورتوں کی بیچارگی و بیحرمتی غرض ہر جنگ میں اپنی ہی بیچارگی اور خوف اسے بار بار ہر روز  مار  ڈالتا۔۔۔درد کے  اس بوجھ کو جسے بالآخر وہ  اٹھا نہ سکی تو خوکشی کی صورت اتار پھینکا ۔ کیونکہ وہ سکون کی نیند سونا چاہتی تھی جو اتنے سالوں میں ان چیخوں کے ہنگام میں ،خوف کے سائے میں وہ کبھی سو نہ پائی ۔ وہ  اتنی ذہنی اذیت میں تھی کہ اسے موت آسان لگی ۔ 
اسکی  زندگی سے یہ سبق ملتا ہے کہ   جنگ ، دہشت،  خوف سبھی انسانوں پر مختلف انداز میں اثرانداز ہوتا یے۔ اسی طرح پڑھے لکھے  ذہین اور کامیاب لوگ جب جنگ کی بھٹی میں جھونکے جاتے ہیں تو ان کی مثال ان لکڑیوں کی سی ہوتی ہے جو سب سے ذیادہ چٹختی ہیں جن کے شعلے اڑ اڑ کر اپنے جلنے کی خبر دیتے ہیں ۔  وہ دوسروں کو اپنے غم اور صدمات سے بچانے کے لیئے اپنے ناکامیوں کے درد کو کبھی کھل کر بیان نہیں کرتے ۔ دنیا سمجھتی ہے کہ اولاد کا رشتہ ہی سب سے قریبی رشتہ ہوتا ہے جبکہ میں سمجھتی ہوں کہ یہ ہی آپ کے احساسات اور جذبات سے  سب سے بے خبر رشتہ ہوتا ہے ۔ بظاہر ہم اپنے ماں باپ کے ساتھ زندگی کے سب سے زیادہ سال گزارتے ہیں لیکن حقیقتا ہم ان کیساتھ زندگی کے سب سے کم گھنٹے گزارتے ہیں ۔ اس سے زیادہ وقت تو شاید ہم اپنے کسی پالتو جانور کیساتھ گزار لیتے ہیں ۔ والدین کی اندر کی خوبیاں، اس اولاد کے  دنیا میں  آنے کے پہلے کی زندگی،  ہنر ، کمالات ، ذہانتیں یہ سب کتنی اولادیں ہیں جو جانتی ہیں ؟ کتنی اولادیں اپنے  والدین کے پاس بیٹھ کر ان کے بچپن ، انکی جوانی اور کیرئیر کر قصے سننا اہم سمجھتے ہیں ؟ بلکہ اکثر وہ کچھ بتانا بھی چاہیں تو اولاد بڑی بے زاری سے انہیں نظرانداز کرتے پہلو بچاتے گزر جاتی ہے ۔
او نو بابا اور نو ماما آپ کو کیا پتہ یہ کیسے ہوتا ہے ؟
چھوڑ دیں ماما یہ آپ نہیں کر سکتیں ۔۔
آپ یہ نہیں سیکھ سکتیں ۔۔۔
کتنا فرق ہوتا یے نا اولاد اور والدین ے رویے میں،  والدین نالائق سے نالائق بچے کو بھی ہمیشہ اس کی صلاحتیوں سے بڑھ کر بتاتے ہیں تم کر سکتے ہیں ۔۔
تم کر لو گے۔۔
تم ذہین ہو ،
تم حسین ہو،
تم سے زیادہ عقلمند اور کوئی نہیں ۔۔
کرو کرو شاباش تم کر لو گے ۔۔
یہ فرق  ہے اولاد اور والدین کے اظہار خیال اور انداز خیال کا ۔۔۔۔ سو ساری دنیا کو دریافت کرنے سے پہلے اپنے گھر والوں کو، اپنے والدین کو، اپنے شوہر کو ،اپنی بیوی کو دریافت کیجیئے کیونکہ آپ کی زندگی میں ڈائناسور  کی تخلیق کو نہ جاننا اتنا بڑا احساس محرومی یا گلٹ نہیں ہو سکتا جتنا بڑا ان رشتوں میں چھپے انسان کو دریافت نہ کر سکنے کا ہو گا ۔ اس لیئے خود کو نزدیک کے رشتے میں چھپے انسان سے متعارف کروائیے۔ یقین جانیئے یہ تجربہ آپ کی اپنی ذات کو بیزاری کے بہت سے اندھیروں سے نکال کر  محبت کی روشنی میں کھڑا کر دیگا ۔ تاکہ کسی کو یہ نہ کہنا پڑے کہ
وہ میرے پاس تھے لیکن میرے قریب نہ تھے

میرے رفیق بہت تھے مگر حبیب نہ تھے 
                   ۔۔۔۔۔۔۔
                  ۔۔۔۔۔۔۔

نسیم بانو تبصرہ


محترمہ نسیم بانو صاحبہ 

11 جنوری 2019ء 
فرماتی ہیں کہ

ممتاز ملک جی دیارِ غیر میں اردو کی ترقی وترویج کے لیے جو خدمات انجام دے رھی ھیں وہ قابلِ قدر ھیں۔۔اللہ ممتاز ملک کی ھمت کو پروان چڑھائے۔۔انھیں زورِ قلم عطا کرے۔۔آمین💐💕🌷🌺
سلیقے سے ھواؤں میں جو خوشبو گھول سکتے ھیں🌷🌹🌺🌹
ابھی کچھ باقی ھیں جو اُردو بول سکتے ھیں🌺🌺🌹

جمعرات، 10 جنوری، 2019

مٹھاس کو ڈھانپ کر رکھو


مٹھاس کو ڈھانپ کر رکھو
 ہزاروں لاکھوں سالوں سے یہ دنیا مرد کی آنکھ کو حیا نہیں دلا سکی تو ہم اس بے نتیجہ کام پر اپنی کوششیں کیوں ضائع کریں ۔ 
جب مکھیاں ختم نہیں کی جا سکتیں اور میٹھا بھی چاہیئے تو یہ ہی بہتر ہے کہ میٹھا ڈھانپ کر رکھا جائے نہ کہ مکھیوں کو چلا چلا کر میٹھے پر بیٹھنے سے روکا جائے ۔۔۔ 
(چھوٹی چھوٹی باتیں)
(ممتازملک۔پیرس  )


خالد دانش صاحب کا تبصرہ



خالد دانش صاحب کا تبصرہ 


ممتاز ملک۔۔۔خوشبو میں بسا اک نرم ہوا کا جھونکا۔۔۔
محترمہ ممتاز ملک صاحبہ متعدد شعری مجموعوں کی تخلیق کار۔۔جن کی علمی استعداد اشعار سے عیاں ہے۔۔ممتاز ملک وہ شاعرہ ہیں جو لفظوں کو اہتمام سے برتنے کا سلیقہ جانتی ہیں۔علم،حسن،رعنائی،فکر،دور اندیشی اور شاعری کا شعور انکے اضافی اوصاف ہیں۔۔۔اپنے اشعار میں لفظوں سے کھیلنا اور کرب و طرب،غم و مسرت اور ماحول کی پیچیدگیوں کو اپنے قلم سے قرطاس کی زینت بنانا اور اس احسن اسلوب سے سنوار کر لکھنا کہ پڑھنے والے کی آنکھ سے دل میں سرایت کر جائے۔۔ممتاز ملک کا کہنا ہے کہ۔۔۔۔اس خوبی پر عبور و دسترس حاصل کرنےکے لیے تپتے ہوئے ریگستانوں میں آبلہ پائی کرنی پڑتی ہے۔۔تب کہیں جا کر عرفان نصیب ہوتا ہے۔۔۔۔۔
راقم کے نزدیک ایک سچے شاعر کی پہچان یہ ہے کہ اسکا کلام پڑھ کر یا سن کر کیف و سرور طاری ہو جائے۔۔۔اور یہ خوبی ممتاز ملک کے اشعار میں مضمر پاتا ہوں۔۔دعا ہے کہ ممتاز ملک صاحبہ کے علم میں برکت ہو اور چار سو انکی ناموری کا نقارہ سنائی دے۔۔آمین۔

خالد دانش


تبصرہ کار ۔ خالد دانش 

10جنوری 2019ء 

 ایک اہم بات ممتاز ملک کے حوالے سے ضرور کہوں گا کہ ایسے شاعر و ادیب جو دیار غیر میں قیام پذیر ہیں اور اردو کی خدمت کر رہے ہیں میں انھیں نہ صرف اردو بلکہ پاکستان کے محسنوں میں شمار کرتا ہوں۔۔۔قابل رشک ہیں ممتاز ملک جیسے پاکستانی جو دلجمعی سے اردو کی فروغ و تشہیر میں جتے ہیں۔۔۔اور وطن سے دور رہ کر بھی پاکستان کا نام روشن کرنا مقصد حیات سمجھتے ہیں۔۔۔سلام پیش کرتا ہوں اردو کے ان شیدائیوں کو۔۔۔جو ہمارا ناز ہیں۔

پیر، 7 جنوری، 2019

شہر دغا ۔ سراب دنیا







شہر دغا
کلام / ممتاز ملک


وہ تجھے پیار کے بولوں سے دیوانہ کر کے
چھوڑ جائے گا کسی روز بہانہ کر کے

زہر بنیاد میں تھا شہد چٹایا برسوں
پھر اسے منہ میں رکھا اس نے زُبانہ کر کے

جانے کتنے تهے مسافر جنہیں منزل نہ ملی
میں بھی آیا یہ کہا جن کو روانہ کر کے

سادگی دیکھ تیری مجھکو بھی رونا آیا
فطرتیں کون بدل پایا زمانہ کر کے

بھول جا اسکو تیری یاد کے قابل وہ نہیں
کیا ملے گا یوں اسے یاد روزانہ کر کے


ہم فسانے کو بھی سچائ سمجھ کر روئے
بات سچی بھی وہ کرتا ہے فسانہ کر کے

 قہقہے پهیل  گئےاسکے ہوا میں اکثر   
سسکیاں جس نے دبائ ہیں خزانہ کر کے    
                                                      ان میں جرات نہ تھی کہ  ہم سے مخاطب ہوتے   
   بات اوروں سے کہی ہم کو نشانہ کرکے 

دوستی نام ہے ٹھوکر پہ نئی ٹھوکر کا 
جو بھی آیا وہ گیا مجھ کو سیانا کر کے

تو منافق نہیں ممتاز یہ ہے شہر دغا
ہو جا بےفکر تو اس دل کو توانا کرکے
۔۔۔۔۔

ایک سا سوچیں


ایک سا سوچیں ؟




سب لوگ ایک ہی بات سوچیں اور بس میری طرح ہی سوچیں 🤔
بھئی یہ کام تو اللہ نے ہی ہمارے ساتھ نہیں کیا تو ہم کیوں کرنا چاہتے ہیں🙄

(چھوٹی چھوٹی باتیں)
 (ممتازملک۔پیرس)

اتوار، 6 جنوری، 2019

رنگ بتا ۔ اردو شاعری

رنگ بتا
کلام/ممتازملک ۔پیرس 


اے میرے ہم سفر زمانہ شناس
مان جاونگی میرا رنگ بتا

کیا کوئی بےوفائی کا لمحہ 
وہ جو بیتا تمہارے سنگ بتا

تو میرے میں تیرے لیئے راضی 
مجھکو آجائے ایسا ڈھنگ بتا

کیوں ہے مایوس ان جھمیلوں سے
زندگی نے کیا ہے تنگ بتا

آئینہ ہوں تمہاری ذات کا میں 
بن تیرے ہے کوئی ترنگ بتا

ہم کو اک دوسرے سے ملتی ہے 
یہ جو جینے کی ہے امنگ بتا

ساری باتیں ہیں صرف قصے ہیں 
کون چاہت میں ہے ملنگ بتا

کیا نہیں ساحلوں پہ اڑتی ہوئی
تیرے ہاتھوں کوئی پتنگ بتا

اک سہارا تیرا ہی کافی ہے 
کیوں نہ ممتاز ہو دبنگ بتا
۔۔۔۔۔۔۔

شاعری / /مدت ہوئ عورت ہوۓ/ ممتاز قلم / سچ تو یہ ہے/ اے شہہ محترم/ سراب دنیا/ نظمیں/ پنجابی کلام/