انتخابات یا حادثات و مغلظات کا طوفان
ممتازملک. پیرس
پاکستان جوسالہا سال تک دہشگردی کا شکار رہا. بیشمار جانی اور مالی قرنیایاں دینے والی اس قوم اور اس کی بہادر افواج نے کبھی ہمت نہیں ہاری.
پاکستان کے حالات میں انہی بےلوث اور بے مثال قربانیوں کے بعد سدھار آیا. تو عوام نے سکھ کا سانس لیا. لیکن جیسے ہی انتخابات کا زمانہ شروع ہوا. عجیب و غریب عدالتی فیصلوں نے ساری قوم کو بے چین کر دیا اور ایک افراتفری کی سی صورتحال پیدا کر دی.
صاف دکھائی دے رہا ہے کہ ساری جماعتوں کے کارنامے کارپٹ کے نیچے کر کے صرف اور صرف ایک ہی جماعت کو نشانہ بنایا جا ریا ہے اور دوسری جانب
ایک مخصوص جماعت کو آگے لانے کے لیئے یک طرفہ اور جانبدارانہ فیصلوں نے عوام کو یہ سوچنے پر مجبور کر دیا کہ کیا ہم پھر سے زبان بندی کے دور میں دھکیلے جا رہے ہیں . کیونکہ آپ کے پاس زبان تو ہے لیکن آپ بول نہیں سکتے. آنکھیں تو ہی لیکن آپ کو دیکھنے کی اجازت نہیں ہے. دماغ تو ہے لیکن سوچنے کی زحمت مت کیجئے. سیاسی جماعتوں کو دیکھیں تو جس کی جماعت کے خلاف کوئی اعتراض پیش کیا جائے وہ اس کا جواب دینے کے بجائے لوگوں کی ماں بہن کو یوں خراج عقیدت پیش کرنا شروع کرتے ہیں جیسے کہ نہ ان کی اپنی ماں ہے نہ بہن. اگر یہ کہیں کہ پاکستانی مردوں کی بدزبانی کا عروج دیکھنا ہو تو الیکشن کے زمانے کو دیکھئے, یا عام دنوں میں ان مردوں کی سیاست پر گفتگو کو ہی ملاحظہ فرما لیجیئے. ہر آدمی اس بات کو تیار بیٹھا ہوتا ہے کہ کب اسے موقع ملے اور کب وہ سامنے والے کی گردن کاٹ ڈالے یا پھر اور کچھ نہ کر پائے تو اس کی عزت کے پرخچے تو ضرور ہی اڑا کر رکھ دے. گویا انتخابات کا زمانہ نہیں ہے بلکہ اپنے اندر کا سارا گند اور سارا زہر دوسروں پر انڈیل دینے کا زمانہ ہے. یہ مت بھولیں کہ انتخابات تو ہو ہی جائینگے . یہ وقت گزر ہی جائے گا. لیکن آپ کے کردار و اخلاق کے بھانڈا پھوڑ کر ہی جائیگا. اور اس زمانے کے جاتے جاتے آپ کے کئی رشتے اور کئی دوست آپ کی زندگی سے جا چکے ہونگے.
دوسری جانب ملک میں ایسے مواقع پر کچھ خاص قوتیں ہمیشہ ہی سرگرم ہو جاتی ہیں جن کا مقصد حالات کو اپنی مرضی کے رخ پر موڑنا ہوتا ہے. پھر اس کے لیئے انہیں کتنے ہی محبان وطن ہارون بشیر بلور یا سراج رئیسانی اور سینکڑوں معصوم پاکستانیوں کے خون کی ہولی ہی کیوں نہ کھیلنی پڑے.
پشاور سے بلوچستان تک ان معصوم شہیدوں کی لاشیں, ان کے برباد خاندان ان کے مقصد کی راہ میں بددعاؤں کا پہاڑ لیئے ہی کیوں نہ کھڑے ہوں .
ان حالات میں یہ یاد رکھیں کہ آپ کتنی بھی اچھی نیت کر لیں , لیکن جھوٹ, بہتان تراشی ,دھوکہ, دھونس دھاندلی آپ کو کبھی بھی اچھی منزل تک نہیں پہنچا سکتا . پھر بھی
یہ ہی تو پاکستانی سیاست کا طُرَہ امتیاز ہے
ہم ہندوؤں کیساتھ رہ رہ کر انہیں جیسا تصور زندگی اتنا خود میں بسا چکے ہیں کہ اسلام بس اپنی زندگی کی ہندو ڈش پر بگھار کے طور پر ہی استعمال کرتے ہیں یہ بھی تو وہیں سے آیا ہے کہ اپنے مقصد کو پانے کے لئے کچھ بھی کرو
چھل بل کھپٹ
دھوکہ, یوٹرن, بہتان تراشی. ..
.بس تم جیت جاؤ چاہے ساری عزت, سارے رشتے, سارے بھرم, سارے اعتبار ہار جاؤ....
...........