ممتازملک ۔ پیرس

ممتازملک ۔ پیرس
تصانیف : ممتازملک

اتوار، 1 جولائی، 2018

سانس لینا میری ضرورت ہے / کالم


سانس لینا میری ضرورت ہے
ممتاز ملک. پیرس



آئے دن سڑکوں پر آنے والی گاڑیوں نے جہاں صوتی آلودگی میں کماحقہ اضافہ کیا ہے وہیں اس کے ایندھن سے نکلنے والی فضائی آلودگی نے اس دنیا کے حسن کو برباد کر ڈالا ہے.  انسانی صحت اور ماحول دونوں ہی خطرے سے دوچار ہیں  . گرمی کی شدت بڑھتی جا رہی ہے.  گلیشئرز تیزی سے پگھل رہے ہیں. اگر فضا سے دنیا کے مختلف شہروں کا جائزہ لیا جائے.  تودنیا کے سب سے زیادہ فضائی آلودگی  کا میڈل ہمیں بھی ضرور
ملتا ہے. 
ہمارے شہر محض اینٹ پتھروں کے مقبروں کا منظر پیش کرتے ہیں.  جب کے بیچ کسی ہرے بھرے پودے کا نظر آ جانا بلکل ایسا ہی ہے جیسے ہاتھی کے جسم پر بیٹھا کوئی مچھر.  جسے آپ کی آنکھ تلاش کے لے تو آپ کی نظر کا کمال ہے.
اس میں قصور وار اور کوئی نہیں ہمارے اپنے ہی عوام ہیں جنہیں سب کچھ حکومت کر کے دے.  بلکہ کبھی کبھی تو محسوس ہوتا ہے کہ ہمارے عوام نے ہر احساس ذمہ داری کے حقوق بحق سرکار ضبط کرا رکھے ہیں اور ان کا کام صرف شور مچانا اور آوازیں بلند سے بلند کرنا ہے. 
کام چور عوام کو اس طرف متوجہ کیا جائے توبہانوں کی ایک لمبی فہرست آپ کو سنانے کا بہت وقت ہو گا انکے پاس..  ارے بھائی کیا بتاؤں پودے لگانے کے لیئے جگہ نہیں ہے ..پانی نہیں ہے... وقت نہیں ہے ..پیسے نہیں ہیں.. پودے سنبھالنے نہیں آتے... جبکہ پودے نہ لگانا  کی کوئی وجہ قابل قبول نہیں ہو سکتی.
نہ صرف لانز میں بلکہ چھتوں پر بالکونیوں میں گھروں کے صحن میں گملوں میں ,تھابڑوں میں, اور بوتلوں میں ,دیواروں پر کہیں بھی پودے لگائے جا سکتے ہیں.  ہم نے بہت چھوٹے گھروں میں بڑے ہی سلیقے سے لگے پھول اور پودے دیکھے ہی جو نہ صرف اس گھر کی خوبصورتی میں اضافہ کرتے ہیں بلکہ اس گھر کے رہنے والوں کی صحت اور سوچ پر بھی مثبت اثرات مرتب کرتے ہیں.  اور کچھ نہیں تو جہاں کچھ دھوپ میسر ہے اس کھڑکی کے  پاس ہی گملے میں کچن گارڈننگ کے طور پر دھنیا, پودینہ, ٹماٹر, لیموں, مرچیں اور ایسی ہی سبزیاں بو سکتے ہیں . اگر دو چار فٹ لمبی اور دو فٹ چوڑی جگہ میسر ہے تو اسی میں کوئی پھلدار  درخت کا تین چار فٹ کا تیار درخت لا کر لگا دیجیئے.  یہ درخت تھوڑے ہی عرصے میں آپ کو پھل بھی دیتا رہیگا اور سایہ بھی.
عمران خان نے اس سلسلے میں ایک بڑا اعلان کیا  لیکن انہوں نے ایک ارب درخت لگانے کی پھلجھڑی کسی شرارتی مشیر کے کہنے پر چھوڑ دی.  جس سے ایک سنجیدہ کاز بھی مذاق بن گیا.  بات اتنی ہی کرنی چاہیے جو پوری کی جا سکے.  اس میں ہم سب کو بھی حقیقت پسند بننا چاہیئے .
چلیں اربوں نہ سہی لاکھوں درخت تو ضرور خان صاحب نے لگوا ہی لیئے ہونگے. انہوں نے  ایک اچھے کام کی طرف توجہ تو دلائی ہے سب کی .  اس پر ان کی تعریف تو بنتی ہے.  دل بڑا کریں .  ایکدوسرے کے اچھے کاموں کی تعریف کرنا بڑی اعلی ظرفی کی بات ہوتی ہے.
  ویسے بھی درخت لگانا کسی ایک حکومت کی ہی ذمہ داری نہیں ہے  بلکہ یہ ہر باشعور انسان کا فرض ہے کہ وہ ہر سال کم از کم ایک درخت لگائے اور اس کی آبیاری بھی کرے.
کیا ہم اپنی اولادوں کو ایک گنجا , پتھریلا اور ریتیلا پاکستان دیکر جائیں گے. 
پاکستانی قوم نے تو عرب کے صحراؤں کو اپنی محنت سے گل و گلزاز بنا دیا.  چاول اور گندم کا مزا چکھا دیا.  کیا ہم اپنے ملک کو عرب صحرا بنتا دیکھتے رہینگے ؟
کسی نے سچ ہی کہا کہ ہم دنیا کے وہ بدنصیب لوگ ہیں جو اتنا حسین ملک ہرا بھرا کرنے کے بجائے اسے ریگستان بنانے پر تل گئے ہیں.  اللہ پاک ہمیں عقل و ہدایت عطا فرمائے.
دنیا کے وہ تمام خوبصورت اور ہرے بھرے ملک جن کی ہم مثالیں دیتے نہیں تھکتے . وہ اپنے بچوں کو پیدا ہوتے ہی فطرت کے قریب کرنے کا انتظام کرتے ہیں.  انہیں مٹی میں کھیل کر, اس میں گوڈی کر کے بیج بو کر , اس سے محبت کرنا سکھاتے ہیں.  جبکہ ہمارے نودولتیئے اپنے بچوں کو مٹی پر ہاتھ رکھنے سے اس لیئے روکتے ہیں کہ میلے ہو جائیں گے جبکہ غریب مٹی کو غربت کی نشانی سمجھ کر اسے خود سے دور کرنے کی کوشش میں مگن رہتے  ہیں. ایسے میں سانس لینا کیسے آسان ہو سکتا ہے.
درخت لگائیے پھول اور پودے لگائیے خدا کے لیئے. اس دن سے پہلے کہ جب ہر آدمی کو سانس لینے کے لیئے اپنا اپنا سلنڈر اپنی پیٹھ پر لاد کر چلنا پڑے ..
                  ●●●

اتوار، 17 جون، 2018

مرضی سے جینے کی سزا موت



   مرضی سے جینے کی سزا موت                 ( تحریر /ممتاز ملک.  پیرس)                 
          
اللہ پاک نے انسان کو دنیا میں آذاد
پیدا کیا.  اس آذادی میں اس کی سوچ اس کا اسی طرح بنیادی حق قرار دیا جس طرح اس کا سانس لینا, کھانا کھانا ,پانی پینا.. اسی سوچ کے حق میں اس کا یہ فیصلہ کرنا کہ اسے کیا طرز زندگی اپنانا ہے,  کونسا مذہب اختیار کرنا ہے, کن سے دوستی کرنی ہے,  کن سے کاروباری معاملات رکھنا ہیں اور کئی ایسے ہی دوسرے معاملات ...
ان سبھی حقوق میں سر فہرست ہے اس کا یہ حق کہ وہ خود سے یہ فیصلہ کرے کہ وہ کس شخص کیساتھ اپنی زندگی گزارنا چاہتا ہے یا چاہتی ہے. یعنی وہ کس کے ساتھ شادی کے بندھن میں بندھنا چاہتا ہے.  یہ اس قدر اہم حق ہے کہ اللہ پاک نے اپنی آخری کتاب اور آخری نبی صلی اللہ علیہ والہ وسلّم کی زبانی اس بات کا حکم دیا   اور اس پسند اور رضامندی کے بغیر اس رشتے کو ہی جائز قرار نہیں دیا. 
لیکن ہم اپنے معاشرے پر نظر دوڑائیں تو صورتحال خوفناک بھی ہے اور عجیب و غریب بھی.  چند فیصد لوگوں کے سوا باقی سبھی کے ہاں شادیاں عملی طور پر جبری ہی ہوتی ہیں.  لڑکی کی خصوصاً اور لڑکے کی عموماً وہیں پر شادی کرنے میں روڑے اٹکائے جاتے ہی جہاں اس رشتے میں ان کی اپنی رضامندی شامل ہوتی ہے.
لڑکی کے ابّا اور بھائیوں کی مونچھ کا بال داؤ پر لگ جاتا ہے کہ لڑکی ہو کر اس نے اپنی مرضی سے کیسے اپنا بَر چن لیا. اللہ نے اجازت دی ہو تو دی ہو  , انہیں   اس کیا فرق پڑتا ہے فرق پڑتا ہے تو لڑکی کے ابَا اوربھائیوں کی اجازت سے . کہ انہیں یا تو اس شادی کے بدلے من چاہے مفادات حاصل ہوں یا پھر اور کچھ نہیں تو ان کی انا کی تسکین تو ضرور ہونی چاہئے  ورنہ پھر یہ شادیی کبھی نہیں ہو سکتی.  اور لڑکے نے اپنے لئیے کوئی لڑکی پسند کر لی تو لڑکے کی امّاں اور بہن کے پیٹ میں بل پڑنا لازمی ہیں .  کیونکہ وہ گھر کے لیئے غلامانہ اور ملازمانہ مزاج بہو لانا چاہتی ہیں جبکہ لڑکا تو لے آیا ہنر مند یا ان کے مقابلے اور ٹکر کی سیانی بہو تو اس شادی سے انہیں کیا آرام ملا .
ایشئین ممالک میں ہونے والے نام نہاد غیرت کے نام پر قتل یعنی آنر کلنگ کا سرا بھی کہیں نہ کہیں انہیں واقعات کے ساتھ جا کر جڑتا ہے. آنر کلنگ  تعداد اس قدر خوفناک ہے کہ اس پر شرم سے ہی ڈوب مرنے کو جی چاہتا ہے.  پاکستان میں اس کی شرح کا اندازہ اسی بات سے لگا لیجیئے کہ ایک عالمی اندازے کے مطابق دنیا بھر میں ہونے والے عزت کے نام پر اگر پانچ قتل ہوتے ہیں تو ان میں سے ایک قتل پاکستان میں ہوتا ہے . 
افسوس صد افسوس ہمارے ہاں سالہا سال تک ویسے بھی دورے کیسز میں بھی نہ تو قاتلوں کو سزائے موت ہوتی ہے اور نہ ہی زانیوں کو سولی پر چڑھایا جاتا ہے... لیکن ماراجاتا ہے تو محبت سے عزت سے اپنا گھر بسانے والے معصوم لوگوں کو چن چن کر اور ڈھونڈ  ڈھونڈ کر بیدردی سے مار دیا جاتا ہے...
آپ جانتے ہیں ہمارے ہاں دہشت گرد اورچور ڈاکو  کیوں زیادہ ہو گئے ہیں؟
آپ جاننا چاہتے ہیں کہ ہمارے ہاں ہماری اولادوں کی آنکھ سے حیا اور زبان سے لحاظ کیوں رخصت ہو گیا ہے؟ تو غور کیجیئے اپنے ارد گرد ایسے لوگوں ان چوروں ڈاکوؤں قاتلوں اور زانیوں کے والدین کے حالات زندگی پر اور ان کی شادیوں کے معاملات پر.. ان میں ننانوے فیصد وہ لوگ ہیں جن کے والدین کو جبراً ایک دوسرے کا شوہر یا بیوی بننے پر مجبور کیا گیا.  جبکہ وہ ایک دوسرے کی ذات سے کیا وجود سے بی نفرت کرتے تھے .  گزارنے کو شاید انہوں نے ساری زندگی بھی ایک ہی گھر میں گزار دی ہو گی.  لیکن اس میں بے ان کی رضا سے زیادہ ان کی مجبوری یا خوف ہی حائل رہا یا اولاد پیدا ہونے پر اس کی محبت نے انہیں اپنا دل مارنے ہر مجبور کر دیا.  اورجب اولاد اپنے پاؤں پر کھڑی ہوئی تو اپنی مرضی کی زندگی گزارنے کی راہ میں وہی  اولاد ہی چٹان بن کر کھڑی ہو گئی.
گویا ایک جبری فیصلے سے آپ کے ہاں پیدا ہونے والی پوری نسل کو مشکوک بھی بنا دیا اور مجرم اورنفسیاتی مریض بھی .  حرام کے رشتے سے حلال کی اولاد کی توقع  بالکل ایسا ہی ہے جیسا سورج سے ٹھنڈک اور سائے کی تمنا ..
جہاں ایک فریق  نے  شادی سے انکار کیا تو دوسرے فریق  کو اس سے اپنی سوچ کا دائرہ بدل لینے کے بجائے اسے  اپنی ضد اور انا بنا کر اسے سبق سکھانے کی سوجھی اور اپنے اس مجرمانہ عمل کو نام دیدیا عزت کی خاطر قتل کا .   کمال ہے نا اتنے بڑے بے غیرتی کے کام کو( جس میں کس کا حق فیصلہ اللہ اور رسول کیساتھ قانون کا بھی دیا ہوا اپنی زندگی اپنی مرضی اور پسند کے انسان کے ساتھ گزارنا ) کو بدمعاشی اورغنڈہ گردی کے ذریعے سلب کر لیا جائے.  ایک انسان کی زندگی کو اس کی خواہشات اور احساسات کا مقبرہ بنا دیا جائے.  یا اسے موت کے گھاٹ اتار دیا جائے یا اسے زندہ جلا دیا جائے... اور نام دیدیا جائے عزت کے نام پر قتل.   ....
اور قتل بھی نوے فیصد کیسز میں صرف خواتین کے ہی قتل...
اس کا مطلب ہے غیرت صرف مرد میں ہوتی ہیں اسے جننے والی عورت کا غیرت سے کوئی لینا دینا نہیں ہے.  اس لحاظ سے مرد میں غیرت کہاں سے آئی؟ انسان تو جو کچھ دنیا میں لیکر آتا اپنی ماں کے خون سے ہی لیکر آتا ہے .
تو ڈرئیے اس دن سے جب عورت نے مرد کو اپنی خون سے دی ہوئی غیرت خود بھی کھانی شروع کر دی تو گھر گھر غیرت کے نام پر مردوں کی لاشیں بچھ جائینگی . اس دن سےخدا کی پناہ مانگیں . اور اپنی اولادوں اور بہن بھائیوں کی شادیوں  میں ان کی رائے اور مرضی کو اہمیت دیکر انہیں حرام کی زندگیاں گزارنے سے بچائیں. ورنہ یہ بوجھ آپ کی گردن سے قیامت
تک نہیں اتر سکتا.  دنیا میں تو برباد ہونگے ہی آخرت بئ نہ بچا پائیں گے. 
                        ...........
نوٹ.  یہ تحریر سو فیصد افراد پر لاگو نہیں ہوتی.  شکریہ

جمعرات، 24 مئی، 2018

● حمد ۔ میرے مولا / اے شہہ محترم


میرے مولا 
کلام . ممتاز ملک 


🌸میرے مولا تو سب سے بڑا ہے
بخش دے جو بھی میری خطا ہے

ساری دنیا کو پرکھا تو جانا 🌸
تیری رحمت کا بس آسرا ہے

چھیننے والے لاکھوں ہیں لیکن🌸 
تو ہی دیتا ہے دیتا گیا ہے 

کیوں کسی در پہ دامن پساروں 🌸
جو ملا تیرے در سے ملا ہے

میں نے پھیلائی جھولی جہاں سے🌸
کوئی خالی نہ ہر گز گیا ہے 

اس سے آگے کہاں جاؤں مولا 🌸 
تیری چوکھٹ پہ سر رکھ دیا ہے

جان جاتی ہے ممتاز جائے🌸
تو ہی لے گا تیری ہی  عطا ہے 
🌸🌸🌸





اتوار، 13 مئی، 2018

مجھے جو معتبر کر دے / شاعری



مجھے جو معتبر کر دے 
ممتاز ملک. پیرس 

کڑکتی دھوپ میں سایہ❤
اندھیروں میں اجالا ہے
کوئی ثانی نہیں اس کا. ❤     
مجھےجس ماں نے پالا ہے

محض اک سیپ تھی میں تو❤
گوہر اُس نے نکالا ہے
ہمیشہ مشکلوں میں جس نے❤   
اس  دل کو سنبھالا ہے

مجھے جو معتبر کر دے ❤
میری ماں کا حوالہ ہے
مجھے ممتاز کرنے کو ❤         
دعاؤں کا وہ ہالہ ہے


اتوار، 6 مئی، 2018

"رفتہ رفتہ" کی تقرری رونمائی

رفتہ رفتہ کی تقریب رونمائی
ممتاز ملک.  پیرس  

فرانس میں خواتین کی تنظیمات "لے فم دو موند " اور پاکستانی خواتین کی پہلی  ادبی تنظیم "راہ ادب" کے زیر اہتمام پیرس کے علاقے سارسل میں 5 مئی 2018 ء بروز ہفتہ ایک خوبصورت تقریب کا انعقاد کیا گیا . جس میں معروف شاعرہ اور کالمنگار محترمہ شمیم خان صاحبہ کے دوسرے شعری مجموعے "رفتہ رفتہ " کی رونمائی کی گئی . پروگرام کی نظامت " راہ ادب " کی آرگنائزر اور ہر دلعزیز سیاسی سماجی کارکن اور شاعرہ روحی بانو اور معروف کالمنگار ,شاعرہ اور ٹی وی ہوسٹ اور راہ ادب کی جنرل سیکٹری ممتاز ملک نے کی .
پروگرام کا آغاز پاکستان کے قومی ترانے سے ہوا . جس کی تعظیم میں سبھی شرکاء کھڑے ہو کر اس میں شریک ہوئے.
اس کے بعد تمام مہمانان خصوصی کو سٹیج پر بلا کر عزت دی گئی .  
ایک بچی آسیہ کی پیاری آواز میں تلاوت کلام پاک سے پروگرام کا باقاعدہ آغاز ہوا .
  جس کے بعد معروف شاعر عاکف غنی نے اپنی خوبصورت  آواز میں نعت رسول پاک ص ع و پڑھنے کے سعادت حاصل کی . سبھی مقامی شعراء نے اپنے کلام سے محفل کو نوازہ اور بھرپور داد سمیٹی . شعراء میں شامل تھے عاکف غنی صدر (اہل سخن ), ایاز محمود ایاز (جنرل سیکٹری اہل سخن) آصف عاصی , معروف شاعرہ اور ناول نگار شاز ملک (صدر ویمن ونگ اہل سخن ) فیشن ڈیزائنر اور شاعرہ  نبیلہ آرزو (جنرل سیکٹری ویمن ونگ اہل سخن)  روحی بانو اور ممتاز ملک .
جبکہ سماجی ,سیاسی اور صحافی دوستوں میں اظہار خیال کرنے والوں میں شامل تھے محترمہ طاہرہ سحر (ڈیلی تاریخ کی ریذیڈنٹ ایڈیٹر اور کالمنگار) , ناصرہ خان ( بیورو چیف گجرات لنک اور اوور سیز فائل  )  نیناں خان (جذبہ ) , شبانہ چوہدری (کشمیر کمیٹی ,سویرا نیوز) . صاحبزادہ عتیق الرحمان (سینئر صحافی سابقہ صدر پاکستان پریس کلب )
سبھی  دوستوں نے محترمہ شمیم خان صاحبہ کی شخصیت کو خراج تحسین پیش کیا  . جن کے صبر تحمل اور بردبار لہجے نے سبھی کو ہمیشہ ایک بڑی بہن اور ماں جیسا احساس نوازہ ہے.  ان کے کام میں ان کی وہی سنجیدگی متانت اور وقار بولتا ہے . 
پروگرام کی مہمان خصوصی پیرس ادبی فورم کی صدر اور معروف شاعرہ محترمہ ثمن شاہ صاحبہ تھیں . جنہوں نے اپنے کلام سے بھی شرکاء کو محظوظ کیا .
میڈیا کے نمائندگان نے بڑی تعداد میں اس پروگرام میں شرکت سے اس پروگرام کو یادگار بنا دیا .
جبکہ پروگرام میں سب سے خاص اور خوبصورت  بات پہلی بار  پیرس میں موجود سبھی پاکستانی ادبی تنظیمات کی ایک ہی جگہ موجودگی اور بنا کسی کھینچا تانی اور مقابلہ بازی کے بھرپور اور پرجوش شرکت تھی . جس نے پروگرام کو ایک یادگار پروگرام بنا دیا .
شمیم خان صاحبہ نے سبھی مہمانان گرامی کا خصوصی شکریہ ادا کیا .اور اپنے کلام سے بھی نوازا .
پروگرام کے آخر میں محترمہ شمیم خان صاحبہ کو پھولوں کے گلدستے پیش کیئے گئے  . اور کیک کاٹا گیا . اور یوں  ہنستے مسکراتے اس یادگار شام اختتام ہوا .

جمعہ، 27 اپریل، 2018

دوپہر کی ہنڈیا



دوپہر کی ہنڈیا

تحریر :
(ممتازملک. پیرس)













ہمارے ہاں عام طور پر  صبح صبح ہی گھر کی خواتین کی چہل پہل کا آغاز ہو جاتا ہے .کیونکہ اپنے بچوں کو سکول بھیجنے اور اپنے شوہر کو اس کے کام پر روانہ کرنے لیئے ناشتے کی تیاری کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے.  کیونکہ دن کے کھانے کا وقت عام طور پر ایک ڈیڑھ بجے کا ہوتا ہے تو اس کی تیاری کا آغاز بھی ساتھ ہی ہو جاتا ہے. 




 ایسے میں وہ خواتین جن کی ہانڈی سہہ پہر کے چار بجے تک چڑھ کے ہی نہیں دے رہی یا پکنے پر ہی نہیں آ رہی تو غور کیجئے کہ ماجرا کیا ہے ؟

*  کیا یہ خواتین اپنے ابَا کے گھر میں بھی چار بجے دوپہر کی ہانڈی چولہے پر چڑھانے ک عادی تھیں؟ تو جواب سو فیصد آتا ہے کہ سوال ہی  پیدا نہیں ہوتا.. 

*  اب کیا اپنے بچوں کو وہ چار بجے تک بھوکا رکھے گی ؟ جواب.. کبھی ہو ہی نہیں سکتا... 
* اپنے میاں کو چار بجے تک دوپہر کے کھانے کے لیے لٹکائے گی ؟ تو جواب ہو گا کہ ہاں ہو سکتا ہے بازاری کھانے کے چسکے میں میاں کو لٹکائے کہ غریب بازار سے ہی کچھ لا کر اسے لذت کام ودہن فراہم کر دے ... 
*  یا پھر اس عورت کو گھرداری کی الف ب کا ہی پتہ نہیں ہے .
ایسی عورت کو ہی پھوہڑ اعظم کا خطاب بلا شک و شبہ دیا جا سکتا ہے.  
اب اگر ایسا کچھ نہیں ہے اور یہ ہانڈی چار بچے کچھ خصوصی مواقع پر ہی چڑھتی ہے تو یقیناً وہ موقع گھر پر خاتون کی ساس یا نند کہ آمد ہی ہو سکتی ہے.  اکثر جب چلترباز بہو یا بھابھی اپنی ساس یا نند کو اچھی طرح سے اپنے فائدے میں نیمبو کی طرح نچوڑ لے اور اسے مزید ان تِلوں میں تیل دکھائی نہ دے تو شروع ہوتی ہے مکار بہو کی آخری کاروائی...
یعنی کہ وہ ہر روز آٹھ بجے ہونے والا ناشتہ  دس گیارہ بجے تک گھسیٹ لے گی یا پھر دوپہر کا کھانا ایک بجے پیش ہونے والا دن چار بجے تک "ہانڈی چڑھاتی ہوں ابھی" کہہ کر آپ کو گیٹ لاسٹ کا پیغام دیتی رہیگی.  اس وقت تک کہ جب تک آپ دوبارہ اس کی تجوری بھرنے کا انتظام نہ کر لیں.. 
اور پھوہڑ اعظم خواتین کو ایک  ہی سبق دیا جا سکتا ہے کہ نالائیقو کل کیا پکانا ہے ایک دن پہلے ہی سوچ کر اس کا سامان (دال سبزی گوشت جو بھی پکنا ہے) وہ منگوا لیا جائے.  اور صبح گھر کا ناشتہ نمٹاتے ہی ساتھ یہ دوپہر کی ہانڈی بھی چڑھا دی جائے. ساتھ میں آٹا گوندھنے اور برتن دھونے تک نہ صرف کھانا تیار ہو جائے گا بلکہ آپ کے کچن کی صفائی بھی ایک ہی بار میں ہو جائے گی اور آپ کے باقی گھر کو سمیٹنے کے وقت میں دوپہر کے کھانے سے بے فکری اور وقت کی بچت بھی ہو جائے گی.. 
کام کرنے کی ترتیب درست ہو اور نیت کام چوری کی نہ ہو تو گھر کا کام کوئی ہوَا نہیں ہوتا.  کہ ختم ہی نہ ہو پائے. 
سو بہنوں جس کا بیٹا آپ کو ساری عمر کی موج مستی فراہم کر رہا ہے اگر اس کی ماں بہن کبھی آپ کے گھر کچھ روز کے لئے آ ہی جائیں تو انہیں حقیر جاننے کی بجائے ان کی عزت اور تواضع آپ کا فرض ہے.  اپنے ہی میکے کو تین سو پینسٹھ دن  بھرنے والیو اگر اللہ توفیق دے تو اپنے سسرال والوں کو بھی عزت دیکر دیکھیں اس سے آپ کی عزت میں اضافہ ہی ہو گا کمی کبھی نہی آ ئے گی.  اکثر اپنے باپ کے گھر میں بیٹھی بوڑھی ہوتی لڑکیاں جب رُل رُل کر وظیفے تسبیحات  کر کر کے شوہر پا ہی لیں تو شوہر ملتے ہی وہ وہ پینترے بدلتی ہیں کہ اللہ ہی معاف کرے.  ایسے میں ان کے دماغ میں ان کی جاہل ماؤں کا بھرا ہوا یہ خناس کہ" میاں کو قابو میں رکھ بس... باقی جائیں بھاڑ میں " یا" اب وہ تجھے چھوڑ کر کہیں نہیں جا سکتا" ہی ان کی بربادی کی سب سے بڑی وجہ بنتا ہے.  ایسے میں ان کا شوہر کسی مصلحت کی خاطر خاموشی اختیار کر بھی لے تو بھی نہ تو ایسی بیویاں اس کی نظر میں عزت پا سکتی ہیں اور نہ ہی ان کے گھر میں سکون ہو سکتا ہے.  ہر مرد کی عام طور پر تین ہی خواہشات ہوتی ہیں 
ایک...  اچھا صاف ستھرا گھر کا پکا ہوا لذیذ کھانا, 
دوسرا... صاف ستھرا سلیقے سے سجا گھر, 
اور تیسرا.... صاف ستھری اچھا پہنے اوڑھے  ہوئے اس کی مہذب بیوی 
یہ تین چیزیں نہ صرف اس کی تھکن اتار دیتی ہیں.  بلکہ وہ ایسی بیوی کی اکثر باتی بھی بخوشی مانتا رہتا ہے.  اور اسے ناراض کرنا بھی پسند نہیں کرتا.  ...
جبکہ چار بجے ہانڈی چڑھانے والیاں شوہر کو پاگل بنانے کے لیئے اکثر تعویذ دھاگوں اور بابوں کے حجروں میں ہی لائنوں میں ہی عمریں گزارتی پائی جاتی ہے.  لیکن یہ بھول جاتی ہیں کہ جو محبت اور عزت خدمت اور بُردباری میں ملتی ہے وہ ان غلیظ لوگوں اور بابوں  کے اڈوں پر کبھی نہیں مل سکتی . ان سے بچیں اور اپنے روزمرہ کے معمولات کو صحیح ڈگر پر لائیے... 
                         ............


منگل، 24 اپریل، 2018

"راہ ادب" پروگرامز کی تاریخیں


فرانس میں پاکستانی خواتین کی پہلی ادبی تنظیم "راہ ادب " کا قیام کا اعلان  11.4.2018 بروز بدھ فلانات سارسل پیرس میں ٹیم راہ ادب کے ساتھ مل کر مشاورت کیساتھ کیا گیا
. تنظیم کا نام بھی اسی بیٹھک میں متفقہ طور پر منظور کیا گیا.
اس میں ٹیم کی طور پر بنیادی اراکان جو شامل ہیں .  ان کے نام ہیں
شمیم خان صاحبہ  . روحی بانو صاحبہ.  ممتاز ملک صاحبہ

نمبر شمار. تاریخ. دن. موقع. مقام تقریب
1- 21.4.2018.بدھ. اقبال ڈے دعائیہ تقریب.
رہاشگاہ شمیم خان سارسل فرانس

اتوار، 22 اپریل، 2018

اقبال ڈے پر راہ ادب میں دعائیہ تقریب

   21 اپریل 2018ء
     بروز ہفتہ
یوم اقبال کے موقع پر
خواتین کی پہلی ادبی تنظیم راہ ادب کے زیر اہتمام محترمہ شمیم خان صاحبہ کی رہائشگاہ پر ایک دعائیہ محفل کا انعقاد کیا گیا.  جس میں ادب سے محبت رکھنے اور آئندہ نسل کو پاکستانی اور اردو تہذیب سے جوڑے رکھنے کی خواہش رکھنے والی بہنوں اور بیٹیوں نے بھرپور شرکت کی.  اس محفل میں  ختم کلام پاک  کی نشست ہوئی.  سورہ یٰسین کا ورد کیا گیا.  اور اس کے بعد ممتاز ملک ,شمیم خان,  غزالہ صاحبہ نے گلہائے عقیدت بحضور حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پیش کرنے کی سعادت حاصل کی.
اور "راہ ادب" کے اغراض و مقاصد بیان کئیے گئے.  جس سے سبھی بہنوں نے نہ صرف مکمل اتفاق کیا بلکہ اس کے ساتھ ساتھ محفل میں شریک ہر خاتون کو جب اپنے اظہار خیال کا موقع دیا گیا تو انہوں نے اپنی بہترین تجاویز بھی  پیش کیں اور اپنی خدمات بھی پیش کرنے کا بھرپور اظہار کیا.  متفقہ طور پر اس بات کی ضرورت پر زور دیا گیا کہ ہمیں فرانس میں اپنی جوان ہوتی ہوئی نسل کو اپنی زبان اور اپنی تہذیب سے اس طرح جوڑ کر رکھنے کی ہر وہ بھرپور کوشش کی جائے کہ جس سے وہ ہمارے جیتے جی ہی نہیں بلکہ ہمارے اس دنیا سے جانے کے بعد بھی فخریہ انداز میں منسلک بھی رہی اور اسےآگے بھی بڑھائیں.  اپنے ادبی اور تہذیبی اثاثے کو اپنی بیٹیوں میں منتقل کرنے کی جتنی ضرورت آج ہے اس سے پہلے شاید اس کی ضرورت کو اتنی شدت سے محسوس نہیں کیا گیا تھا.  اور ہر بار ہر پلیٹ فارم پر بات اکھٹے ہو کر  گپ شپ لگانے اور زبانی جمع خرچ پر ہی ختم کر دی جاتی تھی.  جبکہ "راہ ادب" کی ٹیم اپنی کمیونٹی کی سبھی بہنوں کیساتھ مل کر اس تفریق کے بنا کہ کون کس سیاسی جماعت سے تعلق رکھتی ہیں یا کون کس تنظیم سے وابستہ ہیں یا کون کس مذہبی جماعت کا حصہ ہیں ؟ سبھی کو پاکستانی ہونے کی حیثیت سے ان شاءاللہ ایک ایسا پلیٹ فارم مہیا کرنے کی کوشش کریگی جس میں ماں کی لوری سے لیکر باپ کی قربانیوں اور محبتوں, بہنوں کے لاڈ ,بھائیوں کا مان, رشتوں کی مٹھاس اور معافی کا مزا کھیلوں کی روایت دوستوں کے بے غرض ساتھ ,اپنے شاعروں اور لکھاریوں  سے تعارف.... نئے لکھاریوں کی حوصلہ افزائ , غرض کہ ہر تہذیبی اور معاشرتی رنگ کو اپنی بہنوں اور بیٹیوں تک پہنچانے کی کوشش کی جائے گی.  کہ آج کی بیٹی ہی اگلی نسل کی ماں بن کر یہ امانت اپنی اولاد تک پہنچا سکے. 
تقریب میں شمیم خان, روحی بانو, ممتاز ملک, شاز ملک ,ناصرہ خان, صومیہ بابری, صائمہ بابری, ریشمین شیخ, تحریم شیخ, سعدیہ, مہتاب, غزالہ اور دیگر بہنوں نے بھی بھرپور شرکت کی.
آخر میں ان الفاظ کیساتھ سبھی شریکان محفل کا شکریہ ادا کیا گیا
محفل میں شریک سبھی پیاری بہنوں اور بیٹیو آپکی آمد کا اور خوبصورت محفل سجانے کا بہت شکریہ ہم ان ادب سے محبت کرنے  والی اپنی سبھی بہنوں بیٹیوں کا شکریہ ادا کرتی ہیں جنہوں نے آکر ہماری حوصلہ افزائی کی. اور اپنی قیمتی آراء سے نوازہ .
اللہ پاک راہ ادب کے راستے کو کامیابیوں سے بھر دے. آپ کا ساتھ سلامت رہے.  امین🌹🌹🌹🌹
ٹیم "راہ ادب "
(شمیم خان, روحی بانو, ممتازملک)
پروگرام کے اختتام پر ممتاز ملک نے خصوصی دعا کروائی.  پروگرام کے اختتام پر شمیم خان صاحبہ نے  مہمانان گرامی کے لیئے  پرتکلف عشائیہ کا اہتمام کیا گیا. 
                       ...........

منگل، 17 اپریل، 2018

عاشقان ساگ

ہمارے ایک کرایہ دار تھے ایسے ہی عاشقان ساگ
سرگودھا سے انکے ہاں بوری بھر کر ساگ آتا تھا اور اس کے ختم ہونے سےپہلے ہی اگلی ساگ کی بوری پہنچ جاتی تھی .
ہمیں تو انہوں نے ساگ کےنام سےہی نفرت کرا دی تھی 😖😖😖
لیکن آج کسی کا سرسوں کا ساگ, مکی کی روٹی اور لسِّی کیساتھ کیک پر لکھا "ساگ مبارک " دیکھ کے مجھے پکا یقین ہو گیا کہ

لگتا ہے کوئی بہت ہی بڑا عاشقِ ساگ ہے 😮
   اس کی تو تُنَِی بھی ہرے رنگ کی ہو گی یقیناً 😜😜😜

اتوار، 15 اپریل، 2018

کوئی کام چھوٹا نہیں ہوتا ۔ کالم



        کوئی کام چھوٹا نہیں ہوتا 

            (تحریر/ممتازملک.پیرس) 



دنیا کے پہلے انسان سے لیکر اس کے آخری انسان تک ہر ایک کو زندہ رہنے کے لیئے حرکت کرنا ہے اور اس حرکت کو اگر کسی کے کام آنے یا کچھ بنانے اور خریدوفروخت کے نام سے پیش کیا جائے تو اسے کہتے ہیں مزدوری کرنا.  اس لحاظ سے اس دنیا کا ہر انسان کسی نہ کسی کے لیئے مزدوری کرتا ہے.  . ایک کارآمد انسان ہر پل کسی نہ کسی مزدوری میں جتا ہوا ہے . نبیوں پیغمبروں کی سنت بھی ہے اور روایت بھی کہ کسی پر بوجھ بننے کے بجائے  خود محنت کر کے اپنا رزق پیدا کیا جائے.  ہمارے ہاں کسی کا کام کرنا اس کی عظمت کی نشانی کم اور مجبوری زیادہ سمجھا جاتا ہے.  اسی بنیاد پر ہمارے ہاں کچھ ایسے رواج پیدا کر دیئے گئے  ہیں کہ انسان پچاس سال کی عمر میں کام کرنے کو اپنے لیئے بوجھ اور دوسروں کی نظر میں قابل رحم سمجھ لیا گیا ہے جبکہ دنیا بھر میں ستر اور اسی سال کے لوگ بھی اس عمر میں ہر طرح کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں.  
ہمیں ہر کام میں اپنے آپ کو صرف حکم دینے والے درجے پر ہی رکھنا پسند ہے . جبکہ محنت کرنا کسی چھوٹے درجے پر گنا جاتا ہے . 
آپ ملک سے باہر جاتے ہیں تو ہر وہ کام کرنے پر بخوشی راضی ہو جاتے ہیں جو اپنے ملک میں آپ کے معیار کو کمتر کر رہے ہوتے تھے.   آپ وہی ہیں نا جو کل تک پانی کا گلاس اپنے  ہاتھ سے لانا خلاف شان سمجھتے تھے لیکن آج پردیس میں بیٹھ کر گھر کیا گھر سے باہر بھی جھاڑو لگانا,  کچن باتھ صاف کرنا, کوڑا نکالنا برتن دھونا اور بھی بہت کچھ کرتے ہیں اور کسی کے پوچھنے پر جواب دیتے ہیں یہ ہمارا ہی تو کچرا ہے تو اس کے سمیٹنے میں اس قدر شرم کیوں ؟
کیا یہ محنت نہیں ہے ؟
ہم نے یہاں یورپ میں ڈاکٹر کو آواز لگا کر کپڑے بیچتے دیکھا ہے...
جھاڑو لگاتے دیکھا ہے برتن دھونے کی نوکری کرتے دیکھا ہے...
ہر ایک کو بابو بننے کا ہی شوق ہے تو باقی کام آسمان سے فرشتے آ کر کیا کریں گے کیا؟
اگر آپ سمجھتے ہیں ہمارے ملک میں لوگوں کو اہل ملازمتیں نہیں ملتی ہیں اور باقی دنیا میں ہر آدمی ڈگری لیتے ہی کرسی میز کی ملازمت کرتا ہے تو آپ نے غلط بات کی ہے جناب ....
جس ملک میں ہم رہتے ہیں  یہاں لاکھوں ڈبل ایم اے سڑکوں پر معمولی نوکری کے لیئے  خاک چھانتے ہیں اور سوچتے  ہیں کہ کاش پاکستان میں ہوتا تو ریڑھی ہی لگا لیتا  ..
یہاں تو آپ خواب میں بھی سڑک پر اپنی مرضی سے ریڑھی بھی  نہیں لگا سکتے . اس لیے اپنے ملک میں رہ کر اپنے حالات کو صرف محنت کے بل پر  تبدیل کرنے کی کوشش کیجئے.  جو اپنے ملک میں محنت نہ کر سکے وہ دنیا میں کہیں بھی کچھ نہیں کر سکتا.  کوئی کام چھوٹا یا بڑا نہیں ہوتا. کام کو ہمیشہ کام سمجھ کر کیجئے.  اسی میں عظمت ہے.  
                       ..........

محبت بانٹنے نکلے ۔ اردو شاعری۔ سراب دنیا



محبت بانٹنے نکلے


(کلام /ممتازملک. پیرس)

محبت بانٹنے نکلے تھے پتھر لے کے گھر لوٹے
بہت سے دشت چھانے اور ہو کے در بدر لوٹے

تمہارے شہر میں ہم نے بڑی رسوائیاں پائیں 
مگر آخر غریباں شہر اپنے شہر لوٹے

ہماری سوچ سے دل تک بڑی لمبی مسافت ہے
چلو اب دیکھتے ہیں کہ کہاں سے یہ نظر لوٹے

جہاں میں مسندیں اب بے ہنر آباد کرتے ہیں 
جبھی تو لے کے آنکھیں نم سبھی اہل ہنر لوٹے

لیئے ہم کانچ کا دل برسر بازار بیٹھے ہیں 
تھے پتھر جنکی جھولی خوش وہی تو بازیگرلوٹے

وہ جھوٹے لوگ جومل کر ہمیں کو جھوٹ کردیں گے
انہیں کو آزما کر ہم بھی اپنی راہگزر لوٹے

قرار جاں بنانے کو بہانے اور کیا کم تھے
بھلا ممتاز لے کے کون یوں زخمی جگر لوٹے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔



جمعرات، 12 اپریل، 2018

خواتین کی پہلی ادبی تنظیم "راہ ادب فرانس "کا قیام


پیرس میں خواتین کی پہلی ادبی تنظیم 

"راہ ادب " کا قیام 
رپورٹ :
(ممتازملک.پیرس)

پیرس میں کافی عرصے سے یہ دیکھا جا رہا تھا کہ لکھنے والوں میں خواتین کی تعداد ایک تو ویسے ہی کم ہے اور جو ہے وہ بھی اپنی باقاعدہ شناخت کے لیے یہاں کے لکھاری حضرات کی پشت پناہی کی محتاج ہے.  اس صورتحال میں نئی لکھنے والی خواتین کو کوئی ایسا پلیٹ فارم میسر نہیں تھا جہاں وہ اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو بلا جھجھک اور وقار کیساتھ پیش کر سکیں.  اس سے پہلے ایک دو خواتین نے مردوں کے ساتھ مل کر یا الگ سے کوئی گروپ بنانے کی جو سعی کی وہ انہیں کی اندرونی سیاستوں اور خودنمائی کے شوق میں دفن ہو گئیں.  ان پلیٹ فارمز پر کسی بھی خاتون کے ادبی کام کو جِلا تو کیا ملتی الٹا ان کے اپنے کام کا معیار بھی شدید متاثر ہوا .  یوں ان کوششوں میں اخلاص کی کمی اور شوق خودنمائی کی ذیادتی نے انہیں کوئی باوقار مقام حاصل ہی نہیں کرنے دیا   . بلکہ ان کی وجہ سے خواتین کا کام ایک مذاق بن گیا.  
کہنے کو ہم بیشک یورپ میں رہتے ہیں لیکن ہمارے دماغ آج بھی ڈنگہ, بھائی پھیرو, کلرسیداں , قصور,  جہلم, گجرات,  گجر خان کی تنگ و تاریک گلیوں میں پھنسے ہوئے ہیں.  ہمیں ہر کام میں خاتون صرف ٹائم پاس ہی نظر آتی ہے.  اس کا کام اور ہنر کوسوں دور بھی ہماری سمجھ سے پرے رہتا ہے.  کوئی بھی خاتون جب لکھتی ہے یا گھر سے باہر اپنی ذمہ داریوں کے بعد اپنے تجربات اور مشاہدات کو اپنے معاشرے اور کمیونٹی کے لوگوں کی تربیت کے لئے استعمال کرتی ہے تو مردوں سے کہیں زیادہ مسائل سے نبرد آزما ہونے کے بعد اپنے کام کو ان تک پہنچا پاتی ہے سو اس  کے لئے اسے بجاء طور پر زیادہ حوصلہ افزائی کی ضرورت ہوتی ہے.  جبکہ یورپ بھر میں اور خصوصا ہمارے اپنے شہر پیرس میں  ہمیں شدت سے اس بات کا احساس ہو رہا تھا کہ خالصتاً اپنا کام کرنےوالی خواتین کو جان بوجھ کر پیچھے دھکیلا جا رہا ہے.  جس کا ایک ثبوت یہ ہے کہ یورپ میں پاکستانی خواتین پاکستانی مردوں سے کہیں زیادہ پڑھی لکھی اور باشعور ہونے کے باوجود ان کی تعداد ادبی میدان میں نہ ہونے کے برابر ہے.  وہ حضرات جنہیں اردو میں ایک جملہ ادا کرتے ہوئے جبڑے میں درد محسوس ہونے لگتا ہے وہ بھی یہاں خود کو استاد ثابت کرنے پر تلے رہتے ہیں.  جبکہ خواتین جو ان  سے زیادہ اچھی زبان دان بھی ہیں اور پڑھی لکھی بھی وہ منظر سے ہی غائب کر دی جاتی ہیں.  انہیں اپنی مرضی سے ہی متنازعہ اور غیر متنازعہ کے خانوں میں بانٹ دیا جاتا ہے. خواتین میں غلط فہمیاں پیدا کرنا ان میں سے اکثر کا ہسندیدہ مشغلہ رہا ہے . اب یہ ان کے اندر کا چھپا ہوا بغض ہے یا احساس کمتری ..
ہم کچھ کہنا  نا تو مناسب سمجھتے ہیں اور نہ ہی ضروری.  سو پیرس میں ہم نے خواتین سے کافی عرصے کی مشاورت کے بعد ایک ایسی تنظیم بنانے کا فیصلہ کیا.جہاں پر خواتین کا کام خواتین کے ساتھ ہی دنیا کے سامنے پیش کیا جائے. 
آپ سوچتے ہونگے کہ اگر پہلے دو تنظیمات اپنی سیاست بازیوں اور خودنمائی کے اثرات سے نہ بچ سکیں تو یہ نئی تنظیم کیونکر اس سے بچ پائے گی ؟  تو اس کی سب سے بڑی تین وجوہات یہ ہیں کہ ایک تو اس میں کسی بھی مرد کے عمل دخل کا راستہ بند کر دیا گیا ہے.  دوم اس کی تشکیل میں شامل تینوں خواتین اپنے اپنے کام میں پہلے سے ہی اپنا اپنا نام اور مقام  رکھتی ہیں .  اور  سوم انہیں ایکدوسرے کو نیچا دکھانے کے لیے کسی چھچھورے انداز کی قطعی کوئی ضرورت نہیں.  ان کی اچھی شہرت ہی انہیں ان باتوں سے دور رکھنے کے لئے کافی ہے.  
اس تنظیم کی تشکیل میں شامل خواتین میں اپنے بیس سالہ تخلیقی سفر کے بعد میں ناچیز ممتاز ملک, معروف سماجی کارکن اور ہر دلعزیز محترمہ روحی بانو صاحبہ اور ہمارے بہت پیاری دوست محترمہ شمیم خان صاحبہ شامل ہیں.  
اس تنظیم کا نام باہمی مشاورت کے بعد "راہ ادب " تجویز کیا گیا ہے.
اس نام کا پس منظر یہ ہی ہے کہ اس تنظیم کے ذریعے خواتین کے ادب اور تحریر کے راستے کو آسان اور روشن بنایا جا سکے اور وہ تکالیف جو ہم نے اس سفر میں اٹھائی ہیں , آنے والی لکھاریوں کو ان تکالیف سے بچایا جا سکے.  
  اس تنظیم  "راہ ادب " میں شامل ہونے کے لیے کسی بھی خاتون کا اردو, پنجابی, فرنچ یا کسی بھی  زبان کا لکھاری ہونا لازمی ہے.  جبکہ انتظامی ذمہ داری نبھانے کے لئے صاحب کتاب ہونا لازم ہے . پروگرام کی ساری انتظامیہ صرف خواتین پر مشتمل ہو گی.  اس کی ممبر بننے کے لیے کوئی بھی لکھنے  کی شوقین خاتون ہم سے بلا جھجھک رابطہ کر سکتی ہے.  اصلاح لے سکتی ہے اور اپنے کام کو مزید بہتر بنانے کے لیے ان کی ہر طرح سے ادبی راہنمائی کے لیے ہم سے رابطہ کر سکتی ہے.  
اس سلسلے میں  تنظیم "راہ ادب" کی پہلی بیٹھک کل شام سات بجے, بروز بدھ بتاریخ 11 اپریل 2018ء 25 رجب المرجب کو ایک مقام

ی ریسٹورنٹ میں منعقد ہوئی.   جس میں مندرجہ بالا تمام نکات طے پائے. بیٹھک کی کچھ تصاویر بھی اس تحریر کیساتھ پیش کی جا رہی ہیں.  

ہماری اس تنظیم کا مقصدِ قطعی طور پر اپنے لکھاری بھائیوں کے ساتھ کوئی بھی مقابلہ بازی یا کسی بھی قسم کی مخاصمت نہیں ہے بلکہ اس کا مقصد ان کا اس کام میں ہاتھ بٹانا ہے جو وہ خواتین کے لئے کرنا چاہتے تھے لیکن بوجوہ کر نہیں پاتے تھے.  اب ایک بااختیار پلیٹ فارم سے  وہ زیادہ بہتر انداز میں ہمارا ساتھ دے سکتے ہیں اور ہماری حوصلہ افزائی کر سکتے ہیں.  ہم اپنے پروگرامز میں اپنے بھائیوں کو نہ صرف مدعو کیا کرینگے بلکہ ان کی تصانیف کے لئے رونمائی اور پذیرائی کا بھی کھلے دل سے انعقاد کیا کرینگے ان شاءاللہ آئیئے مل کر اپنی اپنی ماؤں بہنوں اور بیٹیوں کے لئے راہ ادب کو آسان بنائیں.  تاکہ آپ کو اپنے آدھے حصے کے تجربات مشاہدات اور سوچ بچار سے آگاہی حاصل ہو سکے


پیر، 26 مارچ، 2018

ظلم کرنے سے سہنے تک



     ظلم کر ے سے ظلم سہنے تک 
        (تحریر/ممتازملک ۔پیرس)




جن گھروں میں بہوؤں کو نماز کے بعد پانچ سات منٹ سے زیادہ تسبیح کرنے کی اجازت یہ سوچ کر نہ دی جاتی ہو کہ وہ گھر والوں کے خلاف وظائف کرنے لگیں گی، جہاں خواتین کے استعمال کی مخصوص اشیاء تک سسر صاحب ہی لا کر دیں گے، جہاں سسر صاحب کی ٹانگیں دبانے کی ذمہ داری بیٹوں کے بجائے بہوؤں کی ہو گی، جہاں پردے کے نام پر میکے جانے پر پابندی جبکہ دیور جیٹھ ایک گھر میں رہ رہے ہوں وہاں شوہر اور تمام سسرال والوں سے چھپ چھپ کر اپنے پاس موبائل رکھنا اور اُس سے ایک سال قبل ملی ہوئی ماں کو میسج کرنا یا بات کر لینا کیا یہ جرم ہے .
یہ ہیں وہ مسائل جو ہمیں سننے کو ملے کچھ بہنوں کی زبانی .
اب کوئی ایمانداری سے بتائے کہ یہ سب جس کی بہن یا بیٹی کیساتھ  ہوا ہو تو ظلم ہے, 
اور اگر بیوی یا بہو کیساتھ ہو تو ہماری خاندانی روایت یا رواج ...
کچھ لوگ یہ بھی سوچتے ہونگے کہ جناب کس زمانے ک بات کر رہی ہیں. آجکل ایسا کہاں ہوتا ہے ؟ تو جناب سو فیصد نہیں تو  چالیس فیصد گھروں میں آج بھی ایسا ہی ہو رہا ہے باقی تیس فیصد  گھروں میں یہ مظالم کم ہو جانے کی وجہ ان حالات میں الگ گھر بسا لینا ہوتا ہے . جبکہ باقی تیس فیصد گھرانوں می بہوؤں نے ظالمانہ انداز حکمرانی اختیار کر رکھا ہے..  اور بیاہ کر آتے ہی سسرال والوں کو مرچی کی دھونی دینے کا مشن لیکر کر ہی ڈولی سے اتری ہیں... 
ہم سے یہ سب جب پڑھی لکھی خواتین نے کہا  کہ کیا کریں ظلم سہنے پر مجبور ہیں تو بہت افسوس ہوا.. ان کے لئے ایک ہی جواب ہے کہ جی نہیں پیاری بہنوں ہم خود اپنے لیئے مجبوریاں پیدا کر لیتے ہیں. 
سب سے پہلے تو بچے پہ بچہ پیدا کر کے آپ اپنے آپ کو خود آزمائشں کی بھٹی میں جھونک رہی ہیں کہ جن کی نہ اس سسرال کو ضرورت ہے نہ ہی میاں کو ضرورت  یا خوشی تو کیوں آپ اپنی اکیلی جان کو دلدل میں دھنسا رہی ہیں.  اوراس پر طرًہ یہ کہ اس قسم کے حالات اور غلامانہ انداز زندگی میں آگر آپ کے باپ یا بھاٹی ہمدردی دکھا کر آپ کا ساتھ دینے کی کوشش   بھی کریں تو خاتون اپنے بچے اپنے ساتھ چمٹا کر میاں کو سانڈ کی طرح کھلا اور آذاد چھوڑ دیتی ہیں کہ جاؤ میاں چھڑے چھانٹ عیش کرو ہم بچے اپنے باپ بھائی سے پلوا لینگی..یا خود خوار ہو کر پالیںنگی جوان ہو جائینگے کسی قابل ہو جائینگے تو اٹھا کر لیجانا ہو ابا بنکر آ جانا. ۔...
ایسی ہی عورت کی عزت نہ باپ کی گھر میں رہتی ہے اور نہ ہی اس کی وجہ سے اس کےب ھائیوں کے  گھروں میں سکون رہتا ہے... سو الگ ہونیا ناراض ہونا فیصلہ کریں تو بچے ہمیشہ میاں کی گود میں ڈال کر نکلو کہ یہ میکے کا تحفہ نہیں ہے تمہاری نسل ہے میاں پالو اسے....
چار دن میں دماغ ٹھکانے پر آ جائیگا موصوف کا . اور چھوڑے گا  تو بھگتے گا بھی خود ہی
سچ پوچھیں تو ہم تو اس قسم کی خواتین میں قطعا شامل نہیں ہیں جو سسر کی ٹانگیں دبائے بلکہ اس کے بجائے گلہ نہ دبا دیں ایسے سسرے بے حیا کا ..
اور کوئی روک کر تو دکھائے ہمارے ماں باپ  بہن بھائیوں سے ملنے سے ہمیں ..جب تک کہ اس کی کوئی مضبوط شرعی اور سماجی وجہ نہ ہو.کیونکہ  ہم بیاہ کر آئے ہیں بک کر نہیں. 
رہی بات یہ سوچنا کہ میرا میاں مجھے چھوڑ نہ دے 
تو یہ یقین رکھیں جناب 
ہمارا جوڑا جب تک اللہ پاک نےجوڑ رکھا ہے تب تک کوئی طاقت اسے توڑ نہیں سکتی چاہے میں کتنی بھی بری ہو جاؤں 
اور 
نہیں جوڑا تو میں اسے کبھی  جوڑے نہیں رکھ سکتی چاہے میں فرشتہ ہی کیوں نہ ہو جاؤں.
اس لیئے شادی کے رشتے میں میں کسی دھونس دھمکی یا  بلیک میلنگ پر  یقین نہیں رکھتی . یہ محبت اور اعتبار کا رشتہ ہے.  یہ ہمدردی اور پیار کا رشتہ ہے.  سو اسے محبت اور پیار سے ہی چلنا چاہئے. کسی سے ناانصافی مت کیجئے.  عورت کو خصوصاً ہمارے معاشرے میں بہو اور بیوی کے روپ میں بہت زیادہ ہمدردی کی ضرورت ہے اسے انسان سمجھنے کی ضرورت ہے.  لیکن اس کا مطلب اسے سر پر چڑھا کر باقی رشتوں کی توہین ہر گز ہیں ہے.  بطور مرد یہ آپ کی ذمہ داری ہے کہ اپنے رشتوں کے بیچ محبت میں توازن پیدا کیجئے.  اور بطور عورت یاد رکھیں کہ ظلم اسی پر ہوتا ہے جو ظلم سہتا ہے . اور اللہ نے دونوں کی سزا ایک ہی مقرر کر رکھی ہے.. ..
نوٹ(کوئی بھی بات سو فیصد لوگوں کے متعلق نہیں ہے) .

جمعہ، 23 مارچ، 2018

پاکستانی سرحد پر کوئی مذاق نہیں


پاکستانی سرحد پر کوئی مذاق نہیں. ...
دوستی صرف دوستی کی شرط پر 
ممتازملک. پیرس


کچھ روز قبل ایک بھارتی دوست سے اس کی پوسٹ پر پاکستانی سرحد کو (ان کے حسب عادت ) غلطی کہنے پر کہا سنی ہوئی . جسے انہوں نے ہمارا غصہ اور تابڑ توڑ جوابات دیکھتے ہوئے مذاق قرار 5

پیر، 19 مارچ، 2018

یورپ اور انگلینڈ کی مسلم مخالف مہمات

یورپ اور امریکہ کی مسلم مخالف مہمات
ممتازملک.پیرس

مسلمانوں نے یورپ میں اپنی نسلوں کیساتھ اس لیئے آباد ہونا شروع کیا کہ انکے ممالک میں انہیں امریکہ اور یورپ کی پھیلائی ہوئی شورشوں اور انتہا پسندوں اور سازشوں نے عام آدمی کی زندگی کو عذاب میں مبتلا کر رکھا ہے . کہیں ہمارے جغرافیائی صورتحال کے تناظر میں,کہیں سونے  چاندی اور جواہرات سے بھرے پہاڑوں پر رال ٹپکاتے ہوئے اور کہیں گرم پانیوں تک پہنچ کے ارمان نے ان مالک کو سیاسی طور پر اپنے ٹٹّوؤں کے ذریعے  چلانے کی سازشوں نے ان ممالک کے عوام پر زندگی کو تنگ سے تنگ سے تنگ کر دیا ان حالات میں مسلم ممالک کے وسائل ہڑپ کرنے والے ممالک جب ترقی کے نئے پیمانے  قائم کر رہے تھے . تو اپنے ممالک میں بیروزگاری اور غربت سے بر سر پیکار افراد کو غربت کی چکی میں پستے ہوئے  یورپ ہی اپنی جائے پناہ نظر آنے لگا .
3 اپریل 2018 ء کو مسلمانوں کے خلاف انگریز طالبانوں کے کھلم کھلا دہشت گردی کی اعلانات اور  دھمکیوں کے باوجود انگلینڈ کی حکومت دم سادھے بیٹھی ہے .کیوں؟ کیا چاہتی ہیں یہ انگلینڈ اور یورپ کی حکومتیں ..؟؟؟.
وہ لوگ جو اپنی ساری عمر ان ممالک میں اپنی خدمات پیش کرتے رہیں ...اپنی نسلیں ان ممالک کو سونپ دیں جہاں عالمی جنگوں نے کہیں مرد ختم کر دیئے تھے تو کہیں آبادیاں ہی صاف ہو چکی تھیں ان لوگوں کو اس ملک میں رہنے کی سزا دینا چاہتے ہیں یا انہیں ان کے کم تر ہونے کا نفسیاتی آزار پہنچانا چاہتے ہیں .
اگر ان افراد کو اپنے ممالک میں آباد ہونا آپ کے کلیجے پر اتنا بھاری بوجھ بن چکا ہے تو اس کا عملی علاج کیجیئے . نکال لیجئے دنیا بھر کے مسلم ممالک سے اپنی افواج ...ِ
لوٹا دیجیے ان ممالک سے لوٹی ہوئے بے حساب دولت جن پر آپ ناگ بنے بیٹھے ہیں ...
ان کے حوالے کر دیجیے وہ تمام بھگوڑے اور مجرمان جن کی اعلی کارکردگی پر آپ نے انہیں اپنے ممالک میں پناہ اور شہریتیں دے رکھی ہیں ..
واپس بلا لیجیئے ان مسلم ممالک میں جبرا گھسائی ہوئے اپنی افواج
دور ہو جائیے ان مسلم ممالک میں ہونے والی تمام سیاسی  تبدیلیوں اور اتار چڑہاؤ سے ....
اور چھوڑ دیجیے ان ممالک میں ہر طرح کی دخل اندازیاں ...
اور ی  سب کرنے کے بعد اس بات کا یقین کر لیجیئے کہ یہ لوگ اکثر اپنے ملکوں کی غربت سے بھاگ کر نہیں آئے بلکہ ان کی اکثریت اپنے ممالک میں پھیلائی گئی بدامنی اور ناانصافی س بھاگ کر اسے خیرباد کہنے پر مجبور ہوئے. 
3 اپریل کے دن مسلمانوں پر حملے کرنے کے شوقین گورے طالبان یہ دھیان میں رکھیں کہ سامنے والے نے بھی انہیں جواباً چوٹ پہنچا دی تو اس کا الزام کسی بھی مسلمان پر نہیں آنا چاہیئے.  اور ہماری امن پسندی کو ہماری کمزوری سمجھنے کی غلطی مت کیجئے.  کیونکہ ہم تو اس پہلے ہی اپنی ساری کشتیاں جلا کر یہاں آباد ہوئے ہیں. 
                       ...............

ہفتہ، 17 مارچ، 2018

ہم پر عذاب کیوں آتے ہیں. ..




ہم پر عذاب کیوں آتے ہیں؟
(تحریر/ممتازملک . پیرس)



ہم کس قدر  بےحس اور غیر  مہذب لوگ ہیں جو کسی بھی شخص پر کوئی الزام لگانا تو جانتے ہیں لیکن اس کی تحقیقات کرنا ضروری نہیں سمجھتے . ہم کیا ہمارے جج صاحبان نے عدالتوں میں فیصلوں کی وہ اعلی ترین غیر منصفانہ انصاف کے مثالیں قائم کی ہیں کہ ان پر خدا کا قہر بھی نازل ہو جائے تو کم ہے ...سالہا سال سے معصوم لوگوں کی زندگیاں جیل کی سلاخوں کے پیچھے  آزادی اور عزت کا سورج ابھرتا ہوا دیکھنے کی خواہش  میں ہر روز امید کا سوج ڈوبتے دیکھتی رہتی ہیں  . لاکھوں ایسے مقدمات پاکستانی  عدالتی بوسیدہ  سسٹم کے تحت لاکھوں خاندانوں کا خون کئی کئی دہائیوں سے چوس رہے ہیں لیکن ہمارے وکیل دکاندار بنے شقوں اور پیشیوں کے پکوڑے تل رہے ہیں اور ہمارے جج اپنے منافع کا سودا بیچ رہے ہیں. پھر بھلے سے کوئی بیگناہ آبرومندانہ آزادی کا ارمان دل میں لیے "باعزت بری کیا جاتا ہے "  کے الفاظ سننے سے دو دد چار چار سال پہلے ہی جیل کی کوٹھریوں میں اپنی زندگی  کی بازی ہار گیا ہو ...
چاہے اس کا خاندان وکیلوں کے لارے لبوں پر فیسیں بھر بھر کر تباہ و برباد ہو گیا ہو ...
اس کے بچے اس کے جیتے جی بےگناہ ہونے کے باوجود مجرم کا ٹھپہ اپنے ماتھے پر لیئے اس معاشرے میں تماشا بن گئے ہوں...
بیٹوں کی ڈولیاں اٹھنے سے رہ گئی ہوں یا کسی کی بہنوں کی باراتیں اس کے اس ناکردہ گناہ کے جرم میں واپس لوٹ گئی ہوں .
کسی وکیل کو اور کسی جج کو اس سے کوئی فرق نہیں  پڑتا ...
کیوں کہ ان کے پاس سیاسی ملزمان اور مجرمان کی دو نمبر قید اور سزاوں سے ہی فرصت نہیں ہے جہاں بظاہر لوگوں کے جان مال اور عزتوں سے کھیلنے والے کیس میں   روز روشن جیسے ثبوت رکھنے والے  عوامی مجرم  کو ایک دروازے سے سزا سنا کر جیل بھیجا جاتا ہے تو  دوسرے دروازے سے اسے کسی بنگلے کی جانب چار ملازمین دیگر  باہر  منتقل کر دیا جاتا ہے ... 
خدمت میں ساری رنگینیوں کا انتظام کر کے قوم کی آنکھوں میں دھول جھونکی جاتی ہے . جسے عوام قیدی سمجھ رہی ہوتی ہے وہ کئی  سال قید کے نام پر عیاشی اور تفریح کے بعد پہلے سے زیادہ ہٹا کٹا اور بکرا بن کر باہر نظر آٹا ہے اور پھر سے اپنے دانت قانونی طور ہر بیوقوف بنائے گئے عوام کی رگوں میں اتار دیتا ہے ...ستر سال سے یہ کھیل تماشے چل رہے ہیں. ...ہم عوام بچہ جمہورہ  بنے اس قانونی ڈگڈگی پر نچائے جا رہے ہیں ..معصوم افراد ہمارے جیل کی کال کوٹھریوں میں  گمنام موت  مارے جا رہے ہیں اور بدنام زمانہ اشرافیہ اور سیاستدان  مجرم ہوتے ہوئے بھی جیل کے نام پر  ہنی مون ٹرپ منا کر  زندہ سلامت دندناتے ہوئے باہر آ جاتے ہیں ...افسوس صد افسوس نہ ان میں سے کسی کو پھانسی ہوتی ہے نہ ہی قید بامشقت جہاں عام قیدی انہیں اپنی آنکھوں سے پتھر توڑتے ہوئے چٹائیاں بنتے ہوئے دیکھتے ..جیل کے فرش پر سوتے اور دال روٹی کھاتے ہوئے دیکھتے تو ان کے دلوں میں بھی قانون اور منصفین پر یقین اور اعتماد پیدا ہوتا ....
لیکن ہمیں ہر بار نبی پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی یہ آب ذر سے لکھی  بات یاد آ ہی جاتی ہے کہ 
تم سے پہلے قومیں اسلیئے تباہ و برباد کر دی جاتی تھیں کہ ان میں جب کوئی  صاحب حیثیت آدمی جرم کرتا تو معاف کر دیا جاتا اور اگر کوئی غریب جرم کرتا تو سزا پاتا....
ہمارے منصفین گلے گلے تک ان بے گناہوں کے لہو میں ڈوبے ہوئے ہیں جہاں آج ایک اور پندرہ سال کی عمر میں بیوہ ہو جانے والی رانی  اپنی زندگی کے بیس سال کال کوٹھری میں گزار کر  باعزت بری کر دی گئی. ....اب کون ان طاقتور منصفین سے پوچھے گا کہ 
جج صاحب میری آزادی اور بے گناہی کے اعلان کیساتھ جیل میں میرے ساتھ سسک سسک کر مر جانے والے باپ کی زندگی بھی لوٹا دو ....
جج صاحب میرے جواں سال بھائی کی جیل میں ایڑیاں رگڑ رگڑ کر  گزاری ہوئی جوانی بھی لوٹا دو ....
جج صاحب میرے ماتھے پر لگے اس قاتلہ نام کی مہر کیساتھ میری معصومیت عزت نفس اور  اور بھری جوانی کے وہ دن  بھی واپس لوٹا دو ......
لیکن ہمارے معاشرے میں ہر روز کسی نہ کسی بہانے بیکار اور بے مصرف  اشیاء پر ہزاروں روپے خرچ کرنے والے لاکھوں لوگوں کے ذہن میں کبھی ایک بار بھی یہ بات آئی ہے کہ ہر روز نہیں تو سال میں اپنے خوشی کے دو چار مواقع ہر ہی سہی کسی جیل کا دورہ کیا جائے تاکہ آئندہ کوئی بیگناہ رانی چار سو روپے کے جرمانے یا چھ سو ہزار روپے کا چالان بھرنے کے انتظار میں  جیل کی کوٹھری میں اپنی زندگی  تباہ ہونے کا  نوحہ نہ کر سکے ....
پھر بھی ہم پوچھتے ہیں کہ ہم پر عذاب کیوں آتے ہیں ? کیونکہ ہمیں اپنے ارد گرد سے آتی ہوئی سسکیاں اور آہیں سنائی نہیں دیتیں .............



پیر، 12 مارچ، 2018

دوسری اقوام میں عیب جوئی



دوسری اقوام میں عیب جوئی 
(تحریر/ممتاز ملک . پیرس)


ہمارے ہاں انگریزوں کے بہت سارے فیشن بڑی آسانی سے
 اپنا لیئے جاتے ہیں لیکن آج تک ان کا اپنے ماں یا باپ کو بار بار محبت جتانا اور گلے لگانا  کیوں نہیں سیکھتے؟
یورپ کی اچھی باتوں میں یہ بات  بھی شامل ہے کہ سکول جاتے ہی سب سے پہلے اسے لو یو ممی اور لو یو پاپا سکھایا جاتا ہے
مدر اور فادر ڈے اور اس کے علاوہ ہر  موقع پر  تین سال کے بچے کے ہاتھ سے مدد کر کے چھوٹے چھوٹے کارڈز بنائے  جاتے ہیں اپنی ماں اور باپ کو پیش کرنے کے لیئے .
پھر ان سے پوچھا جاتا یے کہ آپ نے اپنی ممی کو بوسہ دیا
آپ نے اپنے پاپا کو گلے لگا کر پیار کیا .
یہ آج تک آپ کو کسی نے نہیں بتایا ہو گا یورپ کے بارے میں .....
اور یہ جو اولڈ ہاوس کے نام کا طعنہ دیا جاتا یے گوروں کو ...
تو یہ جان لیں کہ جب میاں بیوی دونوں کام کرتے ہیں تو وہ گھر کی چوکیداری کروانے اور انہیں اکیلا جھوڑنے سے اچھا سمجھتے ہیں . اسے بہتر سمجھتے ہیں کہ ممی پاپا یا دونوں کو ہی ایسے گھر جوائن کروائے جائیں جہاں انکو ان کی عمر کے لوگوں کیساتھ گھلنے ملنے  اور گپ شپ کرنے کا وقت مل سکے . کسی بیماری یا تکلیف میں وہاں فوری طور ہر ڈاکٹرز کا بندوسبت ہوتا  ہے.  ان کے کھانے پینے اور دوا دارو کا بھرپور خیال رکھا جاتا ہے . ان کی کنڈیشن کے حساب سے وہ روزانہ یا ہفتے یا مہینے بعد اپنے بچوں کے پاس یا بچے ان کے پاس آتے ہیں ان کیساتھ دن گزارتے ہیں . اور ہر لمحہ فون پر ان سے رابطے میں رہتے ہیں .
اور یاد رکھیں یہاں پر ماں باپ کی جائیداد بچوں کو ملنا کوئی لازمی نہیں ہے وہ صرف  میاں بیوی کی ہوتی ہے اب  انکی مرضی وہ اسے کسی اولاد کو دیں یا کسی کتے بلی کے نام کر جائیں . یا پھر کسی ٹرسٹ میں دے جائیں . 
اس لیئے اولاد  کی  محبت میں کوئی لالچ شامل نہیں ہوتا .
اور ایک ہم منافق 
مطلب نہ ہو تو ماں باپ سے سلام دعا کرنا  بھی گوارہ نہیں کرتے.
بیوی مل جائے تو ماں کو بچوں کی آیا اور باپ کو اپنے گھر کا ملازم بنا لیتے ہیں  اور
لفافے چھپا چھپا کر اپنے کمروں میں گھستے  ہیں اور
عیب نکالتے ہیں دوسری قوموں میں ...کمال ہ
ممتازملک

اتوار، 11 مارچ، 2018

ذاد راہ پر ہے ۔ سراب دنیا


ذاد راہ 
(کلام/ممتازملک.پیرس)

اسی کے کہنے پہ منحصر ہے 

یہ سارا اسکی سراہ  پر ہے


کمال داد اس کو اس قدر ہے

یہ زور  اس کی ہی واہ پر ہے


کہاں کہاں کس کو کیا ملے گا 

یہ فیصلہ سربراہ پر ہے


کسی کی آنکھوں کے اشک پر ہے

کسی کے ہونٹوں کی آہ پر ہے


بدل تو لوں راستہ مگر پھر

نظر ابھی ذاد راہ پر ہے


چلے گا اب کتنی دور تک تو

یہ اپنے زور نباہ پر ہے


ہر ایک محور ہر ایک مرکز

ابھی تک اس کج کلاہ پر ہے


وہ بخش دے چاہے مار ڈالے

یہ فیصلہ آج شاہ پر ہے


لو آ ج ڈوبیں کہ پار اتریں 

یہ سب تو ممتاز چاہ پر ہے
۔۔۔۔۔۔

شاعری / /مدت ہوئ عورت ہوۓ/ ممتاز قلم / سچ تو یہ ہے/ اے شہہ محترم/ سراب دنیا/ نظمیں/ پنجابی کلام/