ممتازملک ۔ پیرس

ممتازملک ۔ پیرس
تصانیف : ممتازملک

اتوار، 13 نومبر، 2016

چھوڑ دینا آسان


صحیح کو کیوں چھوڑ  دیا جاتا ہے غلط کے لیئے ....
کیونکہ
چھوڑنا آسان جو لگتا ہے .اور قائم رہنا مشکل....
اور ہر انسان آسانی کے چکر میں ہی غلط کے ساتھ ہوتا چلا جاتا ہے . اور ایک دن آتا ہے اسے وہ غلط ہی صحیح لگنے لگتا ہے .اسے کہتے ہیں ضمیر کی موت
ممتازملک . پیرس

ہفتہ، 12 نومبر، 2016

دو سیانے


بقول سیانے آدمی کے ...
کہ کوئی حسین اور امیر  بڑھیا اگر ہو توعشق ضرور کیا جائے اس سے
بہت فائدہ ہوگا :)
اور بقول میرے ...
اگر بڑھیا خود ہی امیر ہو  تو...
اس نے گھاس ہی کھائی ہو گی اگر وہ کوئی دم چھلا کھاوں کھاوں اپنے ساتھ باندھے گی تو 😆😆😆😆
سوری ذاتی ریڈیو
ممتازملک

جمعہ، 11 نومبر، 2016

باپ کی کمائی


ہم سب اس بات کو مانتے ہیں کہ ترقی یافتہ ممالک میں زندگی کی رفتار ہم سے زیادہ تیز ہے اور اور ہمیں ان کا ہر انداز بھاتا بھی بہت ہے لیکن آخر اس ترقی کے راز ہے کیا ؟
ترقی یافتہ ممالک کی ترقی کا ایک راز تو یہ ہے کہ ہر بچے  کو (لڑکا ہو یا لڑکی چاہے صدر اور وزیر کی ہی اولاد کیوں نہ ہو)  تیرہ سال کی عمر سے سکول کی چھٹیوں میں ایک ہفتہ سے ایک مہینہ کہیں بھی خود نوکری ڈھونڈنی  اور کرنی ہوتی ہے . بنا تنخواہ کے ..اور اس کا آپ کے اخلاق، بات چیت، تہذیب، وقت کی پابندی، صفائی ستھرائی گویا ہر ایک نقطے پر ایک گواہی کا سرٹیفیکیٹ لینا ہوتا ہے .
اس کے بنا آپ اپنا سالانہ امتحان پاس نہیں کر سکتے .
اس سے ان بچوں کو اپنے والدین کی کمائی کی ویلیو  اور محنت کا احساس پیدا ہوتا ہے  ...
جبکہ ہمارے ہاں تو ماشااللہ 
          بھی    P H D 
   والدین کی کمائی پر ہو رہی ہے .  تو پھر ہم دنیا میں  خود کو ان کے برابر کیسے کر سکتے ہیں . کیونکہ ہمارے اور ان کے تجربات اور احساسات میں زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے .
ہمارے ہاں غریب لوگوں کے بچے زندگی میں  اکثر اپنا کوئی (ٹارگٹ) نشانہ بنا لیں تو مالدار لوگوں کی اولاد سے زیادہ بہتر انداز میں اسے حاصل  بھی کر لیتے ہیں  . اسکی وجہ بھی یہ احساس اور جذبہ ہوتا  ہے کہ انہیں محنت کرنا بھی آتی  ہے اور محنت کرنے  والوں کی قدر کرنا بھی آتی یے .
ویسے بھی جس انسان نے اپنے ہاتھ سے کبھی کوئی محنت  ہی نہ کی ہو.  کبھی کسی محنت کے کام میں پسینہ نہ بہایاہو وہ کسی اور کے پسینے کو بھی جم کے پسینے سے زیادہ کی اہمیت کیسے دیگا .
اکثر باپ اپنے بیٹے یا بیٹی کو اپنی محبت کے مارے ہی بٹھا کر سست، کاہل  اور کام چور بنا دیتے ہیں . اور نتیجہ اس آرام طلبی میں وہ بہت آسانی سے بری عادات  کا شکار ہو جاتے ہیں . ظاہر ہے یہ انسانی فطرت ہے کہ اسے کچھ نہ کچھ مصروفیت تو بہرحال  چاہیئے ہوتی ہے . تو جب یہ مثبت  مصروفیت آپ یعنی والین اسے مہیا نہیں کرتے تو ماحول ،صحبت  اور سنگت انہیں مہیا کر دیتی ہے . اور آپ تک یہ سب صورتحال جب تک پہنچتی ہے تب تک پانی سر سے گزر چکا ہوتا ہے .
سو ہمارا فرض ہے کہ ہم اپنی اولادوں کو بے مقصد زندگی دینے کی بجائے محنت کرنے کے جذبے سے بھرپور صحت مند اور معاشرے کے لیئے فعال زندگی عطا کریں .
ورنہ کھانا پینا سونا جاگنا اور بچے پیدا کرنا تو دنیا کی ہر مخلوق جانتی ہے . انسان کو اگر اشرف المخلوقات کہا گیا ہے تو ہمیں اس بات کو  اپنی محنت  اور انسانیت سے ثابت بھی کرنا ہے کہ واقعی انسان اللہ کی بنائ ہوئی سب سے زیادہ شرف رکھنے والی مخلوق یے .
                     ................

تاجر یا رہنما

تاجر تب تک ہی تاجر رہے جب تک وہ حکومت کی کرسی پر منتخب نہیں ہوا تب تک تو زود ہضم ہے لیکن اس کرسی کے تشریف تک پہنچنے کے بعد اسے تجارت کرنے کا حق دینا گویا خود اپنی گردن پر خنجر چلانے کے مترادف ہے . کیونکہ دولت آزمائش ہے اور جو شخص پہلے ہی آزمائش (دولت کی) میں مبتلا ہو وہ قوم کا غم اور تکلیف کیسے دور کریگا.
ممتازملک .پیرس

عمر یا تجربہ

عمر یا تجربہ
ممتازملک. پیرس

پہلے ہمارے ابا جب ہمیں اصل اور بے اصل کا فرق بتایا کرتے تھے تو ہم بڑے روشن خیال پھنے خاں کی طرح اسے نظرانداز کر دیا کرتے تھے اور انہیں دقیانوسی بھی قرار دے دیا کرتے تھے ....
لیکن آج جب ہر قدم زندگی ایک نئے انسان اور اس انسان کے نئے رویوں اور بدلتے انداز سے روشناس کراتی ہے تو دل بے اختیار شرم سے پانی پانی ہو جاتا ہے اور صدا دیتا ہے کہ
 سوری ابا آپ ٹھیک کہتے تھے زندگی عمر سے نہیں تجربے سے آدمی کو بڑا کرتی ہے.
ممتازملک.پیرس

جمعرات، 3 نومبر، 2016

آیئے پیارے بلوچستان کی ترقی کے لیئے آواز اٹھائیں

جی ہاں  بلوچستان کے حالات بے حد تشویشناک بلکہ شرمناک ہیں  .
جہاں ستر سال سے سردار اور بگٹی اور کون کون سے نام وفاقی  حکومت سے بھاری بھرکم بجٹ وصول کرتے ہیں . اس پر عیشہ کرتے ہی . کبھی ایک ہی وزیر اپنے گھر میں کروڑوں کا خزانہ ساتھ لیکر سوتاہے . کوئی ریلوے کی پٹریاں یہ بیچ کر کھا جاتا ہے کہ یہاں کون سی ٹرین آتی ہے  . اس پہ طرہ یہ کہ لڑکیوں کے سکول بنانے  کو اس لیئے روایات  کا نام دیکر بننے سے روک دیا جاتا ہے کہ مزید غلام کون پیدا کریگا . زاتی جیلیں بنا کر پورا پورا خاندان اس اکیسویں صدی میں جانوروں سے بدتر زندگی گزارنے پر مجبور کیئے جاتے ہیں ....
اف خدایا کیا کیا کریں اور  لکھیں . دل میں تو بیان تک کرنے کی تاب نہیں ہے .
بلوچستان کے عوام کیا انسان نہیں ہیں یا ہماری وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے کارندوں کی رگوں میں کوئی خاص برانڈ کا خون بہتا ہے . خدا کا خوف کریں پلیز ..
ان لوگوں کی محبتوں کو مزید آزمائش میں مت ڈالیں ...
پیارا بلوچستان
ممتازملک
آیئے بطور پاکستانی اپنے پیارے بلوچستان کے لیئے آواز اٹھائیں ...
ممتازملک
اسے بھرپور شئیر کریں.اپنے کمنٹس بھی اس پر پوسٹ کریں .
سب سندھی پنجابی اور پختون بہن بھائی  اس وقت پیارے بلوچستان کے لیئے صرف پاکستانی بناکر آواز اٹھائیں . تاکہ ہم میں  کوئی کمزورنہ رہے . ہم سب ایکدوسرے کے لیئے اسی طرح باری باری مظبوط کندھا بن جائیں . اور قطرہ قطرہ سمندر ہو جائیں .
آیئے آواز اٹھائیں .
ممتازملک
ہم سب کا فرض ہے کہ ہم چاہے کسی بھی صوبے سے تعلق رکھتے ہیں بھرپور انداز میں بطور پاکستانی بلوچستان کی ترقی خصوصا تعلیم اور صحت کی سہولیات کے  لیئے آواز اٹھائیں اور اسے ایک مہم کی طرح چلائیں .
میں ایک پنجابی ہوتے ہوئے بطور پاکستانی اس مہم کا آج اور ابھی سے آغاز کرتی ہوں..
آیئے اپنے سوا کسی اور کے لیئے بھی آواز اٹھانے کی رسم ڈالیں.
ممتازملک

منگل، 1 نومبر، 2016

عمران خان چکر کیا ہے ؟


عمران خان کیا چکر یے ؟؟؟

دنیا بھر  میں کشمیری نوجوانوں سے اپنی آزادی اور الحاق پاکستان کی تحریک کو اپنا جوان خون پلایا ...ماوں کے دوپٹے کو  پاکستان کا جھنڈا بنا دیا ...بہنوں کی آبرووں کا صدقہ کر دیا اور دنیا نے ان کے خلاف منظم ہندوستانی دہشت گردی پر  آواز اٹھانا شروع کی اور ساتھ ہی خان صاحب نے پاکستان میں بدامنی کا ایسا بگل  بجا دیا کہ آج مہینہ ہونے کو ہے میڈیا ان کے پیچھے دم ہلا رہا ہے اور دنیا کو کشمیر کا قتل عام بھلانے میں جو کام مودی اپنی ساری مشینری کیساتھ نہ کر سکا وہ خان صاحب نے کر دیا . آج دنیا کو پھر سے کشمیر پوائنٹ یاد ہے نہ وہاں ہونے والی دہشت گردی 😲😲😲 ارے جاو جاو
کوئی اندر کی خبر تو لاو
آخر چکر کیا ہے
کیونکہ سنا ہے کہ
جو مودی کا یار ہے
غدار ہے غدار ہے
ممتازملک

جمعہ، 28 اکتوبر، 2016

شام کا منظر / شاعری





اتنا اداس شام کا منظر کبھی نہ تھا 
آنکھوں میں اسکی درد کا ساگر کبھی نہ تھا
اس بار توڑ ڈالا محبت کے بوجھ نے
ورنہ تو اس سے پہلے وہ لاغر کبھی نہ تھا 
 (کلام/ممتازملک۔پیرس)



بدھ، 26 اکتوبر، 2016

بے رنگ بے محبت مگر کامیاب شادیاں

ایک کامیاب شادی کیا ہوتی ہے ؟
ایک کامیاب بیاہتا جوڑا کون سا ہوتا ہے ؟
ہم میں سے ننانوے فیصد لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ہر وہ شادی ایک کامیاب شادی ہے جس میں زیادہ سے زیادہ عرصہ  میاں بیوی نے ایک ہی گھر میں گزار لیا . یعنی دوسرے لفظوں میں جن کی طلاق نہیں ہوئی وہ بڑا خوشگوار اور کامیاب بیاہتا جوڑا ہے اور ان کی شادی بھی بڑی کامیاب شادی ہے .جبکہ حقیقت بلکل ہی عجیب ہے ایک تو یہ کہ ان کی اکثریت میں آپس میں پیار محبت نام کی کوئ چیز موجود د ہی نہیں ہوتی .
تو پھر ایک جگہ کیوں رہتے ہیں ؟
کسی کے بقول اب بچے ہو گئے ہیں اس لیئے ،
کسی کے بقول لوگ کیا کہیں گے،
اب بچے بڑے ہو رہے ہیں ،
خاندان میں دشمنی پڑ جائے گی،
وغیرہ وغیرہ وغیرہ
رہی بات طلاق کی  تو نہیں لینی. لیکن
کئی جگہ تو اس آپسی ناچاقی کا علاج ایک دوسرے سے بھرپور بےوفائی کر کے نکالا جاتا ہے .صاحب تو صاحب ان کی بی بی بھی کسی سے پیچھے نہیں رہتی ہیں . یعنی صاحب کے نام کا ٹیگ بھی لگا رہے اور محبت کی کمی کا رونا کہیں اور جا کر  بھی نہ صرف رو لیا جائے بلکہ اس کی کمی کو پورا کرنے  کا ہر اقدام بھی اٹھا لیا جائے . حالانکہ کوئی ذرا سی عقل اور شرافت رکھنے والا بھی  یہ بخوبی سمجھ سکتا  یے کہ ایک باقاعدہ بیوی یا
  شوہر کے ہوتے ہوئے محبت کا ناجائز کھیل کھیلا  جائے تو یہ بیمار نفسیات کی علامت ہے . اس لیئے اگر وہ محبت کرنے والا اتنا ہی مخلص ہے تو طلاق لیکر اسے اپنا کیوں نہیں لیتا ؟
اور اگر وہ سچا نہیں ہے تو عورت یہ میٹھا زہر کیوں پھانک  رہی ہے ؟
جبکہ اس کا انجام سو فیصد تباہی ہے.خاص طور پر جب اپنے شوہر کے سوا کسے کا خیال دل میں بس جائے اور اس کے ساتھ زندگی گزارنے کا خبط سوار ہو جائے تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ایک حدیث کے معانی  ہیں کہ اپنے شوہر سے طلاق لیکر اسی دوسرے آدمی سے شادی کر لو ...
ورنہ دوسری صورت میں تباہی صرف عورت کا ہی مقدر بنتی ہے دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی ..
رہی بات یہ ثابت کرنے کی کہ جس کے جتنے زیادہ بچے ہیں ان کی آپس میں اتنی ہی زیادہ محبت ہے تو یہ ایک بہت ہی بڑی غلط فہمی ہے.
بچے پیدا کر لینا اس بات کا قطعی ثبوت نہیں ہے کہ اس جوڑے کے بیچ محبت بھی یے .
اس کا ثبوت کہ عورت کا ریپسٹ ایک بار کسی کو  بربادکر کے اس کی جھولی میں بچہ ڈال جائے تو کیا وہ د ونوں ایک دوسرے کی محبت میں گرفتار تھے ؟
جبکہ دونوں میں ایک لٹنے والی تھی اور ایک لٹیرا تھا 😲
کسی بھی رشتے کو گھسیٹنے سے کہیں اچھا ہے کہ اس کو آر یا پار کر دیا جائے .
رہی بات بچوں کی تو بچے باپ کے پاس رہنے چاہیئیں . کیونکہ سوتیلا باپ  سوتیلی ماں سے کہیں زیادہ خوفناک کردار ہوتا ہے یا پھر ماں اس  صوررت میں اپنے بچے اپنے پاس رکھے جب وہ مالی اور معاشرتی طور پر ایک مضبوط حیثیت رکھتی ہے . اگر باپ یہ مضبوط حیثیت رکھتا ہے تو وہ اپنے بچوں کو ان کی ماں کے ساتھ رہنے کی صورت میں بہترین نان  نفقہ  بخوشی ان کے تعلیمی اخراجات اور شادی بیاہ تک ادائیگی کرتا  رہے تو بھی یہ بچے محفوظ ماحول میں پل سکتے ہیں . اور ان کی ماں کو دوسری  شادی نہ کرنے کی بلیک میلنگ کسی طور پر نہیں کرنا چاہیئے . تاکہ وہ کسی گناہ میں مبتلا نہ ہو جائے . کیونکہ اس کا ایسا کرنا بھی آپ کے ہی بچوں پر اثرانداز ہو گا .
اور بچوں نے اپنے اپنے راستے ہو لینا ہوتا ہے.جبکہ عورت ان سے لپٹ کر ساری عمر کی خواری  اپنے نام کروا لیتی ہے .
ممتازملک

ہفتہ، 8 اکتوبر، 2016

گفٹ یا بھتہ ۔ کالم






ہمارے گھرون مین زیورات خریدنے اور پہننے کی شوقین آبادی کی تو کوئی کمی نہیں ہے لیکن جب بات آتی ہے اس سونے پر یا زیورات پر زکوات ادا کرنے کی تو گھروں میں جھگڑے ہونا شروع ہو جاتے ہیں ۔ ساس اور شوہر کا حکم ہوتا ہے کہ خاتون اس زیور کی مالک ہے تو وہی اس پر اپنے پاس سے زکواتہ ادا کرے ۔ اب وہ خاتون اپنی کو ذاتی کمائی کا ذریعہ نہیں رکھتی تو اسے کیا کرنا چاہیئے تو ظاہر ہے اپنے زیور میں سے ہی چاہپے کوئی چیز بیچ کر ہی اس کی ذکواتہ ادا کرے لیکن بیچنے کی بات پر اس شوہر اور اس کی امان ہی ولن بن کر کھڑے ہو جائیں گے کہ خبردار تمہاری کیا جرات ہے کہ تم اس زیور کو ہاتھ بھی لگاؤ ۔ بیچنے کا تو سوچا بھی کیسے ۔ 
اگر وہ خاتون جاب کرتی ہے اور اپنی تنخواہ میں سے اس کی زکواتہ ادا کرتی ہے تو بھی میاں جب چاہے وہ زیورات اٹھا کر کبھی کاروبار کے نام پر اور کبھی قرض کی ادائیگی کے نام پر اس سے پوچھے بیچ آتا ہے . اور اگر کبھی پوچھے بھی تو حکم دینے کے انداز میں اس سے چھین کر بیچ آئے گا ۔ ہر دوسرے چیز کے طعنے کی طرح کہ یہ میرا مال ہے تم کیا اپنے باپ کے گھر سے لائی ہو ۔۔۔۔۔۔۔۔
 ایسے زیور کو خاتون کے حوالے کرنا اور اسے مالک قرار دینا اور پھر جب چاہے چھین لینا یہ کون سی ملکیت ہے ؟
اللہ پاک فرماتا ہے کہجو کچھ ایک مرد اپنی بیوی کو دیتا ہے وہ اس جانب سے اس کا تحفہ ہے اور وہ تحفے واپس لینا اس آدمی کی شان کے خلاف ہے ۔ 
تحفہ اس کی ملکیت ہوتا ہے اور ملکیت وہ چیز ہوتی ہے جسے انسان جیسے چاہے استعمال کر سکے ۔ اسے استعمال کرے ، کسی کو دیدے ، پھینک دے ،بیچ دے یہ سب اس کے اختیارات میں شامل ہوتا ہے ۔
گفٹ تب ہوتا ہے جب کوئی چیز آپ کی ملکیت اور استعمال میں ہو . اور آپ کے حالات آپ کو اجازت دیں کہ اس چیز کے دینے سے آپ کی ضروریات پر کوئی اثر نہیں پڑتا . وگرنہ اپنے بچے بھوکے ہوں تو گفٹ تو کیا آپ کی دی ہوئی تو خیرات بھی خدا کو قبول نہیں . کیونکہ
اول خویش بعد درویش
دوسری  بات
تحفہ اپنی خوشی سے دیا جاتا ہے اور جو دوسرے کے دھمکانے اور مجبور کر کے دینا پڑے اسے بھتہ کہتے ہیں
اور بھتہ لینے والے کو صرف گالیاں اور بددعائیں ملتی ہیں محبت نہیں ...
ممتازملک

ہفتہ، 1 اکتوبر، 2016

زندگی کیا ہے ۔ سراب دنیا












زندگی کیا ہے....


کسی تتلی کے پر جیسی
بہت رنگین اور نازک
ذرا سا ہاتھ لگ جائے
 قضاء کا
اور
 قضاء ہو جائے 
یک دم سے 
          (کلام/ممتازملک. پیرس)




بدھ، 28 ستمبر، 2016

کرتب ۔ سراب دنیا


کرتب 


کرتب 

یا مدارت مانگتی ہے 
یا حقارت مانگتی ہے 

آرزووں کے نگر میں 
شدھ بصارت مانگتی ہے 

زندگی کرتب نہیں ہے 
یہ مہارت مانگتی ہے

دل اگر بوجھل بہت ہو 
اک شرارت مانگتی ہے

خون رگ جمنے لگے تو
پھر حرارت مانگتی ہے 

کوئی حق تلفی کہیں ہو 
بس جسارت مانگتی ہے

زندگی ممتاز تجھ سے
اب صدارت مانگتی ہے 

ممتازملک. پیرس
.............


زندگی کی زلف کو

سلگتا کشمیر یا رائے ونڈ ۔ کالم


     سلگتا  کشمیر یا رائے ونڈ
          (ممتازملک. پیرس)


ہم نے بڑی کوشش کی کہ ہم ڈھونڈ سکیں کہیں دنیا میں کوئی ایک مثال کہ جہاں ملک حالت  جنگ میں ہو ،بارڈر پر فوجیں آمنے سامنے ہوں اور اس ملک کی کوئی بھی سیاسی پارٹی نوجوانوں کو ورغلا کر اور سیاسی لیڈر وزیراعظم کی خار میں دھرنے دے رہا ہو . یا جلسے جلوس کر  رہا ہے. 
اور ہمارے جوان بجائے اپنے لیڈر کو مت دینے کے اس لیڈر  کی جانب سے ان کو سمجھانے والوں کو ہی گالیاں دے دے کر اپنا شعور اجاگر کر رہے ہیں . ظاہر ہے ہم جس کے پیچھے چلتے ہیں تو شاید ہم  اپنی آنکھیں اپنا دماغ اور اپنا ضمیر سب کچھ اس کے پاس گروی رکھ دیتے ہیں . اور اسی کی زبان بھی بولنے لگتے ہیں . ان جیسے ناپختہ ذہن کے لوگوں کے ہاتھ میں حکومت کی باگ دوڑ دینا کیا بندر کے ہاتھ میں استرا  دینے جیسا تو نہیں ہے ؟
  یہ ہی وجہ ہے ہمارے دنیا سے بہت پیچھے رہ جانے کی .
کہ ہمیں اس بات کا اندازہ ہی نہیں ہو پاتا کہ کون سا وقت کس کام کے لیئے موزوں ہے  ہمیں ہماری ترجیحات کا تعین کرنا ہی نہیں آتا .
ایک طرف ہندو دہشتگرد وزیراعظم اپنی دہشتگرد فوج کو گجرات کے بعد کشمیریوں کے خون کی ہولی کھلا رہا ہے . دوسری جانب دنیانکو بے وقوف بنانے کے لیئے پاکستان کی کشمیر پر اٹھائی ہوئی موثر آواز کو دبانے کے لیئے جنگ کا ہوا کھڑا کر رہا ہے . اور دنیا کی توجہ کو  بھٹکا رہا ہے ایسے میں ہر پاکستانی اور کشمیری کا فرض ہے کہ وہ پاکستان میں ہے یا دنیا کے کسی بھی کونے میں بھرپور انداز میں کشمیر کاز  اور کشمیریوں پر ہونے والے مظالم کو دنیا پر آشکارہ کرے . بڑی بڑی ریلیاں دنیا کے ہر ملک میں منظم انداز میں نکالی جائیں . مقامی لوگوں کو بھارت کی بربریت سے آگاہ کیا جائے .
اس وقت ہمارے مستقبل ہمارے  جوانوں  کا مارچ کشمیریوں کے  قتل عام کے خلاف انڈین  بارڈر پر نکلتا تو یقین جانیں ہمیں  بے حد خوشی ہوتی . قوموں پر جب  بھی کوئی آزمائش آتی ہے تو سیاستدان اس پر سیاست کرنے کا کوئی حق نہیں رکھتا . اسوقت اس کا سیاست کا حق موقوف  ہو جاتا ہے . کیونکہ محبت میں شہادت نہیں ہوتی . وہ بھی وطن کی محبت میں تو بلکل بھی نہیں .
اس وقت اسے اپنے ملک کی بقاء کی فکر ہوتی ہے اور وہ اپنے ووٹرز یا سپوٹرز کو ملک پر آئے خطرات سے آگاہ اور  بچاؤ اور حب الوطنی کے جذبے کو بیدار کرنے والے اقدامات اٹھاتا ہے . نہ کہ ترجیحات کی ناکامی پر خود ہی اپنی طاقت کو توڑنے والے حربے آزماتا  ہے .
ہماری پارٹیاں سوچیں کہ 2018 میں ووٹر کے پاس آپ اور آپ کے  رہنما کیا لیکر جائیں گے کہ دیکھو ہم نے پانچ سال دھرنے دیئے، جلوس نکالے .سارے ملک کو مفلوج کر کے کھربوں  کے قوم کو ٹیکے لگائے اور کروڑوں ڈی جے بٹ کو دیکر جوان نچائے .اور  عورتوں پر  اپنے بے حیا لونڈوں سے حملے کروائے . کراچی جیسے شہر کے کچڑہ اٹھانے والے ادارے تک کے پچیس کروڑ کھاگئے اور پورے شہر کو کچراکنڈی میں تبدیل کر دیا ،تھر کے بچے مرتے رہے اور ہم وہاں جشن بہاراں مناتے رہے ،
ایک طرف آپ کی یہ خدمات ہونگی اور دوسری جانب ن لیگ پل،  ٹرینیں ،میٹرو ،لوڈ شیڈنگ کی کمی، سڑکیں ، چائنا راہداری،  گوادر پورٹ .....گنوائے گی اور آپ دھاندلی  دھاندلی  کا رآگ الاپ کر مزید قوم کی نظروں  میں گر جائیں گے بس 
بات  کریں تو پارٹی کے بدتمیز  پڑھے لکھے فورا اعتراض پیش کریں گے کہ ہماری قوم کو انکی  بنائی سڑکوں اور میٹروز کی کوئی ضرورت نہیں ہے.
ہو سکتا ہے جناب آپ ہوا  میں گاڑی چلا کر ترقی کر سکتے ہوں اور ہیلی کاپٹر میں اڑتے پھرتے موج کرتے ہوں ، لیکن ہم کیا کریں  ہمیں تو زمین پر ہی رہنا ہے .
ہم لوگوں نے سڑکوں پر سفر کرنا ہے میٹرو اور گاڑیاں ہماری ضرورت ہیں . ہم اپنے نمائندوں سے امید کرتے ہیں کہ وہ بجٹ کا پیسہ اس کام پر لگائیں . نہ کہ دبئی کے بینکوں میں جمع کر کے ڈبل ہونے کا انتظار کریں .  اور اپنے علاقے میں آپ کون یہ بھی نہ سمجھ آئے کہ سال بھر کا  بجٹ کا ایک تہائی پیسہ  بھی کہاں استعمال کرنا ہے . وہ کون سی کمیٹی اس پیسے سے آپ کے لیڈر نے ڈالی ہے کہ آئندہ انتخابات سر پر آگئے ہیں اور وہ نکل کر ہی نہیں دے رہی .
  ہمیں ہمارے درامدات اور برآمدات میں راستے چاہیئیں . ...اور ہم بجلی چاہتے ہیں تاکہ ہماری ملیں چلیں تو ہمارا مزدور کام کرے . ہمیں امن چاہیئے . جو کئی پارٹیاں اپنے صوبے کو آج تک نہیں دے پائی ہیں  . ...ہاں ہمیں یہ سب چاہیئے اور ہماری قوم کیا د نیا کی ہر قوم ان کاموں پر ہی نمائندے چنتی ہے . ... ہمارا گزارہ ڈی جے بٹ کو اٹھارہ کروڑ اور بیگم کو اکیس کروڑ کی ادائیگی سے نہیں ہوتا . چاہے وہ رقم آپ نے اپنی زاتی جیب سے پہ دی ہو تو کیا یہ اصراف میں اور فضول خرچی میں نہیں  آتا . اگر کوئی اپنے ذاتی پیش کو آگ لگا ہو تو اسے یہ سوچ کر نہ روکا جائے کہ یہ اس کا اپنا مال ہے ؟ جی نہیں اسے روکنا ہر سمجھدار انسان کا فرض ہے اور یہ اور بھی ضروری ہو جاتا ہے جب یہ سب کرنے والا تبدیلی کے نعرے بھی لگاتا ہو  ...
جبھی تو کہتے ہیں ہوش کریں ........ 2018 بہت دور نہیں اپنے کاموں کی لسٹ تیار رکھیں . اب کے رن کاموں پر ہی پڑے گا اور آپ کی پپارٹیاں نکھوں پر مٹھیاں رکھ رکھ کر دھاندلی دھاندلی روئیں گی . کیونکہ کام نہ کرنے والی پارٹیاں  اب کے وہ سیٹیں بھی بھول جائیں جو پچھلی بار آپ کو مل چکی ہیں. 
کام کام اور صرف کام
مقابلہ ہے کام کا
                   ..............

سلگتا کشمیر یا رائے ونڈ




سلگتا  کشمیر یا رائے ونڈ
ممتازملک. پیرس




ہم نے بڑی کوشش کی کہ ہم ڈھونڈ سکیں کہیں دنیا میں کوئی ایک مثال کہ جہاں ملک حالت  جنگ میں ہو ،بارڈر پر فوجیں آمنے سامنے ہوں اور اس ملک کی کوئی بھی سیاسی پارٹی نوجوانوں کو ورغلا کر اور سیاسی لیڈر وزیراعظم کی خار میں دھرنے دے رہا ہو . یا جلسے جلوس کر  رہا ہے.  
اور ہمارے جوان بجائے اپنے لیڈر کو مت دینے کے اس لیڈر  کی جانب سے ان کو سمجھانے والوں کو ہی گالیاں دے دے کر اپنا شعور اجاگر کر رہے ہیں . ظاہر ہے ہم جس کے پیچھے چلتے ہیں تو شاید ہم  اپنی آنکھیں اپنا دماغ اور اپنا ضمیر سب کچھ اس کے پاس گروی رکھ دیتے ہیں . اور اسی کی زبان بھی بولنے لگتے ہیں . ان جیسے ناپختہ ذہن کے لوگوں کے ہاتھ میں حکومت کی باگ دوڑ دینا کیا بندر کے ہاتھ میں استرا  دینے جیسا تو نہیں ہے ؟
  یہ ہی وجہ ہے ہمارے دنیا سے بہت پیچھے رہ جانے کی . 
کہ ہمیں اس بات کا اندازہ ہی نہیں ہو پاتا کہ کون سا وقت کس کام کے لیئے موزوں ہے  ہمیں ہماری ترجیحات کا تعین کرنا ہی نہیں آتا .
ایک طرف ہندو دہشتگرد وزیراعظم اپنی دہشتگرد فوج کو گجرات کے بعد کشمیریوں کے خون کی ہولی کھلا رہا ہے . دوسری جانب دنیا کو بے وقوف بنانے کے لیئے پاکستان کی کشمیر پر اٹھائی ہوئی موثر آواز کو دبانے کے لیئے جنگ کا ہوا کھڑا کر رہا ہے . اور دنیا کی توجہ کو  بھٹکا رہا ہے ایسے میں ہر پاکستانی اور کشمیری کا فرض ہے کہ وہ پاکستان میں ہے یا دنیا کے کسی بھی کونے میں بھرپور انداز میں کشمیر کاز  اور کشمیریوں پر ہونے والے مظالم کو دنیا پر آشکارہ کرے . بڑی بڑی ریلیاں دنیا کے ہر ملک میں منظم انداز میں نکالی جائیں . مقامی لوگوں کو بھارت کی بربریت سے آگاہ کیا جائے .
اس وقت ہمارے مستقبل ہمارے  جوانوں  کا مارچ کشمیریوں کے  قتل عام کے خلاف انڈین  بارڈر پر نکلتا تو یقین جانیں ہمیں  بے حد خوشی ہوتی . قوموں پر جب  بھی کوئی آزمائش آتی ہے تو سیاستدان اس پر سیاست کرنے کا کوئی حق نہیں رکھتا . اسوقت اس کا سیاست کا حق موقوف  ہو جاتا ہے . کیونکہ محبت میں سیاست نہیں ہوتی . وہ بھی وطن کی محبت میں تو بلکل بھی نہیں .
اس وقت اسے اپنے ملک کی بقاء کی فکر ہوتی ہے اور وہ اپنے ووٹرز یا سپوٹرز کو ملک پر آئے خطرات سے آگاہ اور  بچاؤ اور حب الوطنی کے جذبے کو بیدار کرنے والے اقدامات اٹھاتا ہے . نہ کہ ترجیحات کی ناکامی پر خود ہی اپنی طاقت کو توڑنے والے حربے آزماتا  ہے .
ہماری پارٹیاں سوچیں کہ 2018 میں ووٹر کے پاس آپ اور آپ کے  رہنما کیا لیکر جائیں گے کہ دیکھو ہم نے پانچ سال دھرنے دیئے، جلوس نکالے .سارے ملک کو مفلوج کر کے کھربوں  کے قوم کو ٹیکے لگائے اور کروڑوں ڈی جے بٹ کو دیکر جوان نچائے .اور  عورتوں پر  اپنے بے حیا لونڈوں سے حملے کروائے . کراچی جیسے شہر کے کچرہ اٹھانے والے ادارے تک کے پچیس کروڑ کھاگئے اور پورے شہر کو کچراکنڈی میں تبدیل کر دیا ،تھر کے بچے مرتے رہے اور ہم وہاں جشن بہاراں مناتے رہے ،
ایک طرف آپ کی یہ خدمات ہونگی اور دوسری جانب ن لیگ پل،  ٹرینیں ،میٹرو ،لوڈ شیڈنگ کی کمی، سڑکیں ، چائنا راہداری،  گوادر پورٹ .....گنوائے گی اور آپ دھاندلی  دھاندلی  کا رآگ الاپ کر مزید قوم کی نظروں  میں گر جائیں گے بس 
بات  کریں تو پارٹی کے بدتمیز  پڑھے لکھے فورا اعتراض پیش کریں گے کہ ہماری قوم کو انکی  بنائی سڑکوں اور میٹروز کی کوئی ضرورت نہیں ہے.
ہو سکتا ہے جناب آپ ہوا  میں گاڑی چلا کر ترقی کر سکتے ہوں اور ہیلی کاپٹر میں اڑتے پھرتے موج کرتے ہوں ، لیکن ہم کیا کریں  ہمیں تو زمین پر ہی رہنا ہے .
ہم لوگوں نے سڑکوں پر سفر کرنا ہے میٹرو اور گاڑیاں ہماری ضرورت ہیں . ہم اپنے نمائندوں سے امید کرتے ہیں کہ وہ بجٹ کا پیسہ اس کام پر لگائیں . نہ کہ دبئی کے بینکوں میں جمع کر کے ڈبل ہونے کا انتظار کریں .  اور اپنے علاقے میں آپ کوچیہ بھی نہ سمجھ آئے کہ سال بھر کا  بجٹ کا ایک تہائی پیسہ  بھی کہاں استعمال کرنا ہے . وہ کون سی کمیٹی اس پیسے سے آپ کے لیڈر نے ڈالی ہے کہ آئندہ انتخابات سر پر آگئے ہیں اور وہ نکل کر ہی نہیں دے رہی .
  ہمیں ہمارے درامدات اور برآمدات میں راستے چاہیئیں . ...اور ہم بجلی چاہتے ہیں تاکہ ہماری ملیں چلیں تو ہمارا مزدور کام کرے . ہمیں امن چاہیئے . جو کئی پارٹیاں اپنے صوبے کو آج تک نہیں دے پائی ہیں  . ...ہاں ہمیں یہ سب چاہیئے اور ہماری قوم کیا د نیا کی ہر قوم ان کاموں پر ہی نمائندے چنتی ہے . ... ہمارا گزارہ ڈی جے بٹ کو اٹھارہ کروڑ اور بیگم کو اکیس کروڑ کی ادائیگی سے نہیں ہوتا . چاہے وہ رقم آپ نے اپنی ذاتی  جیب سے ہی دی ہو تو کیا یہ اصراف میں اور فضول خرچی میں نہیں  آتا . اگر کوئی اپنے ذاتی پیسے کو آگ لگا رہا ہو تو اسے یہ سوچ کر نہ روکا جائے کہ یہ اس کا اپنا مال ہے ؟ جی نہیں اسے روکنا ہر سمجھدار انسان کا فرض ہے اور یہ اور بھی ضروری ہو جاتا ہے جب یہ سب کرنے والا تبدیلی کے نعرے بھی لگاتا ہو  ...
جبھی تو کہتے ہیں ہوش کریں ........ 2018 بہت دور نہیں اپنے کاموں کی لسٹ تیار رکھیں . اب کے رن کاموں پر ہی پڑے گا اور آپ کی پارٹیاں  آنکھوں پر مٹھیاں رکھ رکھ کر دھاندلی دھاندلی روئیں  گی . کیونکہ کام نہ کرنے والی پارٹیاں  اب کے وہ سیٹیں بھی بھول جائیں جو پچھلی بار آپ کو مل چکی ہیں.  
کام کام اور صرف کام 
مقابلہ ہے کام کا
                                ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
                  

ہفتہ، 24 ستمبر، 2016

تحفظ کا حصار



تحفظ کا حصار
ممتازملک ۔ پیرس



ابھی چند روز قبل کسی خاتون نے کسی کی بات پر کومنٹ کیا کہ'' آپ کی بیوی کہیں آپ کوچپل سے نہ مارے '' ۔   
بات چاہے مذاق ہی میں کہی گئی تھی لیکن پڑھ کر بے حد افسوس ہوا ۔ اور یہ لکھنے کی شدید ضرورت محسوس ہوئی کہ 
عورت چاہے کتنی بھی ماڈرن ہو جائے ،
کتنی بھی پڑھ لکھ جائے ،
کتنی بھی بااختیار ہو جائے ،
اس کے تحفظ کا حصار شوہر کے نام سے ہی بنتا ہے .
پھر چاہے وہ کتنا ہی احمق ہو ، ہم اس سے لڑیں، جھگڑیں، ناراض ہوں گلے کریں لیکن شوہر کے سوا دنیا میں ایسا کوئی رشتہ نہیں ہے جو آپ کو چاہ سکے یا تحفظ دے سکے . یہاں تک کے کہ باپ بھائی اور بیٹا بھی آپ کی عزت تب کریں گے جب آپ کی پشت پر آپ کے شوہر کے نام کی تختی موجود ہوگی .
ہماری بیٹیوں کو یہ لہجہ زیب نہیں دیتا کہ وہ شوہر کے لیئے اس حد تک کہ'' جوتے سے مارنے ''کا سوچے بھی .
مجھے یاد ہے ایک بار میرے چھوٹے  بھائی میرے میاں کا نام بھائی کہے بنا لیا کہ وہ کیسے ہیں .میں نے اسی وقت اس کی زبان پکڑ لی اور خوب کلاس لی . وہ دن اور آج کا دن میرے کسی بھائی کی جرات نہیں کہ ان کا نام بھائی کہے بنا لے سکے .
شوہر چاہے اپنی بیوی کو اپنے گھر والوں میں ذلیل کروا کر خوش ہوتا ہو، لیکن ایک باکردار بیوی کبھی اسے اپنے میکے میں شرمندہ ہوتے دیکھنا گوارہ نہیں کر سکتی . ہمارے ماں باپ ہمیں بیس بائیس سال تک ساتھ رکھتے ہیں اور سو پابندیاں اور کمیاں دیکھ کر بھی ہم ان کے گھر کا دم بھرتے ہیں . لیکن شوہر جو ہمیں تادم مرگ (یا تادم طلاق) کھلاتا پلاتا، پہناتا، سجاتا،سنوارتا ہے. گھر بار کی مہارانی  بناتا ہے . ..اس کے کبھی کبھار کڑوے  بول ہمیں اس قدر بھاری لگتے ہیں . کہ ہم ہر بدزبانی کو اپنا حق سمجھ لیں . نہیں ایک غیرت مند اور اعلی ظرف خاتون کا یہ بلکل شیوہ نہیں ہونا چاہیئے .
ہمیں اپنے شوہر سے حق تلفی کی شکایتیں ضرور ہو سکتی ہیں اور وہ اس کی تلافی نہ کرنے پر گناہگار بھی ضرور ہی ہوتا ہے ۔ لیکن ہمارا کام برائی کے بدلے میں برائی کر کے کبھی زندگی کو آسان نہیں بنایا جا سکتا۔ ہم میں بھی بہت سی باتیں بطور بیوی ایسی ہونگی جو ہمارے شوہر کو پسند نہیں ہونگی ۔ تو کچھ عادتیں وہ ہماری بدل لیتے یا برداشت کر لیتے ہیں اور کچھ عادتیں ان کی ہم بدل لیتے یا برداشت کر لیتے ہیں  ۔  جبھی یہ ساتھ نبھتے ہیں جہاں یہ برداشت ختم ہو جاتی ہے ۔ وہیں یہ رشتہ بھی ختم ہو جاتا ہے۔ اس لیئے بطور شوہر اس کی حیثیت کو کبھی بھی مقابلے پر نہیں لانا چاہیئے ۔ ہم ان کی عزت یہ ہی سوچ کر کر لیں کہ یہ اللہ پاک کی رضا کا باعث بنتی ہے یا اس کی ہم پر جو بھی مہربانیاں  ہیں یا احسانات ہیں ہم اسی کا بدلہ چکا رہے ہیں تو بہت کچھ آسان ہو جاتا ہے ۔ 
اللہ پاک ہمیں ہر حقدار کا حق احسن انداز میں ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے . آمین 
                                   ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بدھ، 21 ستمبر، 2016

آسان شکار



آسان شکار
(تحریر/ممتازملک - پیرس)




پچھلے دنوں ایک دوست سے بہت ہی تکلیف دہ واقعہ اسکی کسی جاننے والی خاتون کا سننے کو ملا .جو آج کل کے پرآشوب اور بے راہ رو زمانے میں ہمیں آئے دن سننے کو ملنے والے واقعات ہی میں سے ایک ہے. اس میں وہ لڑکی پانچ برس کی عمر میں جوائنٹ فیملی میں رہتی تھی . بھائیوں کے نام نہاد اتفاق میں انہیں  شاید یاد ہی نہیں رہا کہ ان کے بچے انکے  کہنے سے بھائی بہن نہیں بن جائیں گے. نہ ہی ان کی بیویاں ایک دوسرے  کے بھائیوں کی محرم بن جائیں گی . یہ سب اپنے بچے گھر کے ایک بھائی کے بیس سالہ لڑکے کے سپرد کر کے بے فکری سے گھر سے باہر چل دیتے ہیں. بقول اس لڑکی کے یہ لڑکا ہمارا کزن جسے ہم "بھیا" کہتے تھے ،بچوں کو ٹی وی لگا کر ایک کمرے میں بٹھا دیتا تھااور مجھے سب سے بہانہ کر کے وہاں سے اٹھا لے جاتا تھا . اور میں اس کی درندگی  کا شکار بنا کرتی  تھی . ماں سے ہر بار یہ بچی ضد  کرتی کہ مجھے بھی آپ کے ساتھ جانا ہے . مجھے آپ کے بنا گھر پر نہیں رہنا . بھیا گندہ ہے .....
لیکن ماں اسی کبھی مار پھٹکار،  کبھی لالچ بہانوں سے گھر پر چھوڑ گھر کی خواتین کیساتھ گھر سے باہر ہی رہتی تھی . اور یہ سلسلہ پورے پانچ سال تک چلتارہا. 
اب وہ خبیث مکروہ لڑکا خود تو شادی کر کے گھر بسائے بیٹھا ہے اور لڑکی بڑی ہو چکی ہے تو سوال کرتی ہے کہ
وہ کیا کرے ؟
وہ کہاں غلط تھی ؟
اس پورے  واقعے میں اس کا کیا قصور تھا؟
اور اب اسے کیا کرنا چاہیئے ؟

میں بارہا اس بات پر شور مچا چکی ہوں کہ خدا کے لیئے مردوں کی آنکھیں کھولنے کی کوشش کریں کہ وہ اپنی بچت  کے لیئے یا بہن بھائیوں کے عشق میں مبتلا ہے ،
یا امی جی اور ابا جی کی دھوتی پکڑ کر چلتا ہے ، تو خدا کے واسطے شادی نہ کرے . شادی تب کرے جب وہ جسے بیاہ کر لائے اسے ایک کمرے کا ہی سہی گھر دے سکے . جس میں کون آئے گا اور کون نہیں یہ وہ آنے والی عورت اپنے اور اپنے بچوں کے لیئے خود طے کرنے کا اختیار رکھتی ہو . 
یعنی ہمارا دین ہی ہمیں محرم اور نامحرم کی حدود کے اندر بھرپور حفاظت فراہم کرتا ہے . 
اس کیس میں بھی محبت اور سلوک کے نام پر  گھر میں  محرم اور نامحرم کی کوئی تخصیص نہیں رکھی گئی اور بدکار نوجوان کے سامنے معصوم بچی کو  شکار کے طور پر چھوڑ دیا گیا . اور اس بات کی کیا گارنٹی ہے کہ اس "بھیا بدکار" نے اس گھر کی دوسری بچیوں کا شکارنہیں کیا ہو گا ؟
اب سوال یہ ہے  کہ
اب کیا کیا جائے ؟
ایسے بچوں کو کیسے سمجھایا جائے؟
تو اس بچے کو اس بات کی ہمت دلانا ہو گی کہ آج کا زمانہ موبائل کا زمانہ ہے.
پن کیمرہ ہر جگہ سے باآسانی خریدا جا سکتا ہے .ایسے کسی بھی بچے یا بچی کو چاہیئے کہ موبائل  کو سائلینٹ پر ڈال کر کہیں چھپا کر اس کی گندی گفتگو اور حرکات کو ریکارڈ کرے . اور اسے اپنے اور اسکے والدین کے سامنے ایک ہی وقت میں اس بدکار کی موجودگی میں پلے کر دے . اس کے بعد کی کاروائی اس کے  ماں باپ کی ہے کہ شرم کریں.
بہت دولت بچا لی اب اپنی بیوی اور بچوں کی عزت بچائیں . اور بہن بھائیوں کے جوتوں کے نیچے سے نکلیں . اور اللہ کی حدود میں پناہ لیں . 
جب تک ہم خود اس بات پر یقین نہیں رکھیں گے کہ میں جو کچھ کہہ یا کر رہی/ رہا ہوں، وہ درست ہے، تب تک ہم کوئی بھی فیصلہ نہیں کر سکتے . اور آپ نے دیکھا ہو گا کہ ہمارے ہاں لوگوں  میں سب سے بڑا مسئلہ ہی یہ ہے  کہ ہم دو ٹوک بات نہیں کرتے . ہمارے مسائل پیدا ہی اس لیئے ہوتے ہیں کہ 
اچھا ایسا کرتے ہیں... ویسا  کرتے ہیں . ہوں ... ہاں ... دیکھتے  ہیں... سوچتے ہیں.. جیسے مبہم الفاظ اور خیالات سے ہوتے ہیں . 
وقت گزر جانے کے بعد ہر بات اور اقدام سوائے سانپ گزر جانے کے بعد لکیر پیٹنے کے اور کچھ نہیں ہے . 
اس پورے کیس میں ایک ماں کی شدید ناکامی چھلکتی  ہے .  جو اپنی بچی کی بدلتی حالت اور تڑپ کو نوٹس ہی نہ کر سکی .  اس حساب سے وہ خاتون پوری مجرم ہے اس بچی کی معصومیت کے قتل کی . 
اب یہ لڑکی شادی شدہ ہے اور وہ خنزیر بھی . تو اسے اپنے بچوں کیساتھ وہ غفلت ہر گز نہیں برتنی چاہیئے جو اس کی ماں نے کی . اور کسی بھی رشتے پر اپنے بچوں کی عزت اور حفاظت کے لیئے اعتبار نہ کرے . اور اپنے بچوں پر عقابی نگاہ تو رکھے لیکن بچوں کو خود میں اتنا اعتماد دیں کہ بچے ہر بات آپ سے کھل کر بیان کر سکیں . اور انہیں فی زمانہ ہونے والی ایسی باتوں کو واقعات کو سنا کر اس سے محفوظ رہنے کی تدابیر بھی بتاتے رہیئے . اور جس عورت یا مرد پر ایسی کسی بھی قسم کی گندی سوچ یا منفی لہر محسوس ہو اس سے اپنے فاصلے کو محفوظ انداز میں ہی بڑھا لیجیئے . ہر ایک کو ہاتھ کے مذاق اور بہت قریب  آنے سے پہلی ہی بار روک دیجیئے . اکیلے میں کہیں کسی کے پاس بیٹھنے سے پرہیز کیجیئے .کچھ لوگوں پر تو بلکل کسی بھی بات کا اعتبار مت کیجیئے. خاص طور پر اس کیس جیسی  اپنی ماں پر جو آپکے بچوں کی نانی ہے . اس کے سائے سے بھی اپنے بچوں کو بچا کر رکھئیے .
اللہ پاک ہم سب کو ایسے حالات سے اپنی پناہ میں رکھے . آمین                                ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


جمعہ، 16 ستمبر، 2016

بھانڈ




بھانڈ

ممتازملک. 




بھانڈ دراصل بھانڈے سے مستعار لیا گیا ہے جسکا مطلب پنجابی میں برتن ہے . جب برتن  بجتے ہیں، تو آواز پیدا کرتے ہیں .
سو جس آدمی کے منہ سے بہت  سے سچ بنا سوچے سمجھے فٹاک فٹاک باہر نکلتے ہیں لوگ اسے بھانڈ  کہہ کر اپنے بے ایمان دل کو سکون پہنچانے کی ناکام کوشش کرتے ہیں . حالانہ اندر  سے "یرکے"ہوئے ہوتے ہیں قسمے.......

ممتازملک.  از لغت ممتازیہ




پیر، 12 ستمبر، 2016

عید آئی بھی چلی بھی گئی ۔ سراب دنیا




وہ گھڑی آئی نہ گئی
کلام/ممتازملک۔پیرس 


عید آئی بھی گزر بھی گئی خاموشی سے
دل کو جس کی تھی طلب وہ گھڑی آئی نہ گئی


اک خودی  تھی جو بچا کرکہیں رکھ چھوڑی تھی
ہم نے ڈھونڈا تو بہت پر وہاں پائی نہ گئی

خارکی باڑ سے گزرے تو گلوں تک پہنچے
زیست کی سیج آسانی سے سجائی  نہ گئی

مدتوں جس کے لیئے لفظ پروئے ہم نے 
باوجود اس کے بھی وہ بات بتائی نہ گئی

خوش نہ ہو جسم کولاشوں میں بدلنے والے
حق کی آواز کسی طور دبائی نہ گئی

گفتگو تیری مدلٌل ہے مگر کیا کیجیئے
عدل کی کوئی بھی زنجیر ہلائی نہ گئی

کیوں میں کردار کی ہر روز وضاحت دیتی
شک کی دیوار کسی طور گرائی نہ گئی

اتنی تاریک تھی وہ راہ چلے جس پہ سبھی
روشنی کےلئے مشعال جلائی نہ گئی

اس نے ممتاز جتایا جو کبھی کر نہ سکا
ہم سے کر کے بھی کوئی بات جتائی  نہ گئی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اتوار، 11 ستمبر، 2016

ڈر گئے سارے






اک قلندر سے ڈر گئے سارے 
موت پہ اس کی مر گئے سارے 

جیتنا چاہتے ہیں لوگوں کو 
دل سے لیکن اتر گئے سارے 

Add caption

شاعری / /مدت ہوئ عورت ہوۓ/ ممتاز قلم / سچ تو یہ ہے/ اے شہہ محترم/ سراب دنیا/ نظمیں/ پنجابی کلام/