حضور آ گئے ہیں
ممتازملک ۔ شاعرہ
حضور آ گئے ہیں حضورآ گئے ہیں
حضور آ گئے ہیں حضور آ گئے ہیں
وہ طیبہ کی گلیاں وہ روضے کی جالی
نگاہیں میری بن گئی ہیں سوالی
نگاہوں کا میری غرور آ گئے ہیں
حضور آ گئے ہیں حضور آ گئے ہیں
کہ جن کے لیئے یہ زمیں آسماں بھی
جھکائے ہیں سر اور سجی کہکشاں بھی
وہ رنگوں کا لیکر ظہور آگئے ہیں
حضور آ گئے ہیں حضور آ گئے
وہ کیا تھی عنایت وہ کیا دلکشی تھی
جو سب کی عقیدت کی وجہہ بنی تھی
وہ حسن و عمل کا شعور آگئے ہیں
حضور آ گئے ہیں حضور آگئے ہیں
،،،،،،
مقالہ
مقالہ
یوں تو اٹھارھویں صدی میں فرانس دنیا کا سب سے مہذب ، متمدن اور ترقی یافتہ ملک تھا۔ تہذیب و اخلاقیات ، تعلیم ، حقوق انسانی ، سیاسیات ، غرضیکہ ہر موضوع پر اس کے ممتاز مفکرین اور ادیبوں نے دنیا میں عروج حاصل کیا ۔ لیکن مالی بے ضابطگیوں اور بڑھتے ہوئے شاہی من مانی کے دستور نے اس زمانے کے انہیں باکمال لکھاریوں اور مفکرین کے ذریعےعوام کے ذہنوں میں انقلاب کی راہ کو ہموار کرنا شروع کر دیا ۔ 1789 میں "خزانہ خالی ہے اور اسے بھرنے کے لیئے عوام مذید قربانیاں دیں "کے جیسے بیانات نے جیسے جلتی پر تیل کا کام کیا
ہے کہ اس دوران 14 جولائی 1789ء کا وہ واقعہ بھی پیش آیا جس
میں اہل پیرس نے باستیل کے جیل خانے کو منہدم کردیا۔
ہے کہ اس دوران 14 جولائی 1789ء کا وہ واقعہ بھی پیش آیا جس
میں اہل پیرس نے باستیل کے جیل خانے کو منہدم کردیا۔
نیشنل اسمبلی کے انقلاب انگیز مشیروں بالخصوص بادشاہ کے بھائیوں اور ملکہ
نے بادشاہ کو ملک سے بھاگنے کی ترغیب دی ۔ بادشاہ اور ملکہ کو پکڑ کر پیرس
واپس لایا گیا۔ یہ واقعہ 20۔25 جون 1791ء کو پیش آیا۔ لوئی کی گرفتاری سے
ملک کے طول و عرض میں سنسنی پھیل گئی اور اس طرح حکومت وقت کا رہا
سہا اقتدار بھی ختم ہوگیا ستمبر 1791ء تک بادشاہ نظر بند رہا۔ اس کے بعد نئے دستور
کا نفاذ ہوا
20 جون اور 10 اگست 1792ء کو عوام نے شاہی محل پر حملہ کردیا۔ اور بادشاہ
اور ملکہ کی گرفتاری کا مطالبہ کیا۔ بادشاہ اور ملکہ کو پھر قید کر لیاگیا۔ 21
جنوری 1793ء کو شاہ فرانس کو جبکہ 16 اکتوبر 1793ء کو ملکہ فرانس کو بھی
عوامی عدالتی کاروائی کے بعد موت کی سزا دےدی گئی۔ 10 نومبر 1793ء کو
خدائی عبادت کے خلاف قانون پاس ہوا۔ اس کے بعدفرانس میں کسی کی گردن
محفوظ نہ تھی۔ ۔ 94۔1793 کے درمیان ہزاروں افراد کوموت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔
آخر کار 8 جون 1795ء کوفرانس کے ولی عہد کو بھی قتل کردیا گیا۔ یوں صدیوں
کی بادشاہت اپنے انجام کو پہنچی ۔ مئی 1804ء میں نپولین بونا پارٹ برسر اقتدار
آیا اور فرانس کی تاریخ کا نیا باب شروع ہوا۔
دنیا بھر کی خواتین کی طرح فرانس کی خواتین کو اپنے ماں بیوی اور بیٹی کے
رول کو کبھی کھلے دل سے تسلیم نہیں کیا گیا تھا ۔ اس لیئے یہاں بھی خواتین نے
بھی اپنے حقوق کے لیئے بیسویں صدی میں بے مثال جدو جہد کی ۔ یوں تو فرانس
میں شاہی ادارے نےصدیوں لوگوں پر حکومت کی ۔ لیکن وقت کےساتھ ساتھ
انفرادی اور اجتماعی حقوق کی پامالی اور ایوان شاہی کی بڑھتی ہوئی من مانیوںکا
زور جب ناقابل برداشت ہونے لگ گیا تو عوامی غصے نے بلآخر اسے انقلاب
فرانس پر منتج کرنے کا فیصلہ کر ہی لیا ۔ اور شاہ کو لوگوں کے غضب کا اندازہ
لگاتے ہوئے اپنے اختیارات کا دامن سمیٹ کر عوام کو ملکی فیصلوں میں شامل کرنا
ہی پڑا ۔ انقلاب فرانس ابھی عوامی حقوق کی ادائیگی کا نقطہ آغاز تھا ابھی اور
بہت سے اختیارات منشور کا حصہ بنائے جانے تھے ۔
انقلاب کے دوران خواتین کو بلکل ہی غیر فعال اور ناکارہ سمجھا گیا ۔ اس کے
باوجود کہ اس وقت 1791 کا تیار کردہ آئین جسے کون دوغسے '' کا نام دیا گیا ،
کے مطابق خواتین کے ووٹ کے حق کی شق موجود تھی ۔اپیل کے باوجود بھی
انہیں یہ حق نہیں دیا گیا ۔ جو کہ انہیں سیاسی شہریت دینے سے انکاری ہونے کی
بات تھی ۔ انیسویں اور بیسویں صدی کے اوائیل میں ووٹ کا حق صرف مالی
حیثت کی وجہ سے زمین کے مالکان یا اس کے جائیدا کے وارثان کو ہی دیا گیا ۔
خواتین کو علماء پر غیر ضروری انحصار اور مذہبی اعتقاد رکھنے اور فیصلہ کر
نے میں جلد بازی کی وجہ سے اس حق سے محروم کیا گیا ۔
اسی سسلے میں (1882 ) میں فرانسسی لیگ
اور فرانسسیسی یونین کے "SUFFRAGETTETS KI " سُفغاژیٹ کی "
"OLYMPE dE GOUGES " اولامپ دُو گوز"
"خواتین کے حقوق اور شہری اعلامیئے " (1791)(1905)
اور کئی اور تنظیموں نے بڑا کردار ادا کیا ۔اور مذید کئ مراحل حقوق کے حصول
میں پیش پیش رہے ۔
لیکن فرانس کی خواتین کی قسمت کے ااس فیصلے میں سب سے زیادہ روشن اور
تاریخ ساز دن اس خبر کیساتھ شروع ہوا جب 1935ء میںJuliot Curie جیولیٹ
کیوری نے دنیا کا سب سے بڑا نوبل ایوارڈ کیمسٹری جیسے مشکل شعبے میں
حاصل کیا ۔ یہ ایوارڈ حاصل کر کے فرانسیسی خواتین نے دنیا کو فرانس کی
خواتین کی صلاحیتیں ماننے پر مجبور کر ہی دیا ۔
فرانسسی مزاحمتی ہیرو پی ایغ بروسولیٹ کی بیوہ گلبرٹ بروسولیٹ کے بےمثال
کردار نے اس جدو جہد کو بلآخر بیلٹ بکس تک پہنچا ہی دیا ۔
اس کامیابی نے خواتین کے ووٹ کے حق کی بحث اور ضرورت کو عروج پر
پہنچا دیا اس کے باجود اس سفر کو منزل تک پہنچنے میں مزید 10 سال لگ گئے ۔
1944 ء 21 اپریل میں جنرل چارلس ڈیگال نے ایک تاریخ ساز فیصلہ کرتے ہوئے
ایک حکم جاری کیا جس کے تحت فرانس میں خواتین کے لیئے ووٹ کے حق کا
اعلان کر دیا گیا ۔اور اس بات کو قانونی شکل دیدی گئ کہ خواتین نہ صرف ووٹ
میں مردوں کے برابر حق رکھتی ہیں بلکہ خواتین کو ہر شعبے میں مردوں کے
برابر مساوی حقوق کی ضمانت دیدی گئ ۔
یوں اگلے سال 1945 ء 21اکتوبر بمیں خواتین نے پہلے بار اپنے حق رائے دہی
کو استعمال کیا ۔ یہ ایک ایسا قدم تھا جس نے خواتین میں اپنی اہمیت اور وقار کے
احساس کو اجاگر کیا ، اور انہوں نے ایک نئے جذبے کے ساتھ فرانس کی ترقی
مین کردار ادا کرنا شروع کیا ، سچ یہ ہی ہے کہ جب آپ کی صلاحتیوں کا اعتراف
کیا جاتا ہے تو آپ میں اپنے کام کو مذید نکھارنے کو آگے لیجانے کی نہ صرف
خواہش پیدا ہوتی ہے بلکہ کچھ کر گزرنے کا حوصلہ بھی پیدا ہو جاتا ہے ۔
فرانس زندہ باد ۔ پاکستان پائندہ باد
.......................
شہر دغا
city of betrayers
کلام / ممتاز ملک
POETES / MUMTAZ MALIK
وہ تجھے پیار کے بولوں سے دیوانہ کر کے
They will make u crazy with their sweet talks
چھوڑ جائے گا کسی روز بہانہ کر کے
one day they will leave u make an excusse
زہر بنیاد میں تھا شہد چٹایا برسوں
poison was in his basse years of years irock them honey
پھر اسے منہ میں رکھا اس نے زُبانہ کر کے
then he keep in the mouth by name of tongue
جانے کتنے تهے مسافر جنہیں منزل نہ ملی
many were travlers who can't find the destination
میں بھی آیا یہ کہا جن کو روانہ کر کے
i am also coming say whom after sending
سادگی دیکھ تیری مجھکو بھی رونا آیا
i weaped to see your simpelsity
فطرتیں کون بدل پایا زمانہ کر کے
nature can't change after years too
بھول جا اسکو تیری یاد کے قابل وہ نہیں
forget him he can't able to memorise
کیا ملے گا یوں اسے یاد روزانہ کر کے
what will u get to memorise him daily
ہم فسانے کو بھی سچائ سمجھ کر روئے
we weaped on fiction like a reality
بات سچی بھی وہ کرتا ہے فسانہ کر کے
he talk about reality like a fiction
قہقہے پهیل گئےاسکے ہوا میں اکثر
his lafter spreed in the air often
سسکیاں جس نے دبائ ہیں خزانہ کر کے
who hide there sob like a treasures
ان میں جرات نہ تھی کہ ہم سے مقابل ہوتے
they can't dear to compeat me
بات اوروں سے کہی ہم کو نشانہ کرکے
he talk to another and make target me
دوستی نام ہے ٹھوکر پہ نئی ٹھوکر کا
friendship is the name of knock after new knock
جو بھی آیا وہ گیا مجھ کو سیانہ کر کے
whatever came ، he went ،to gave me a wisdom
تو منافق نہیں ممتاز یہ ہے شہر دغا
u r not hypocrite Mumtaz this is the city of betrayers
ہو جا بےفکر تو اس دل کو توانا کرکے
unconcern about it ،make heart strong
......................
نوحہ غم ہے
wailing grife
کلام / ممتازملک
poetes/ Mumtaz malik
نوحہ غم ہے اس پہ کیا کہئیے
this is wailing grife what i say on this
ہر گھڑی آنکھ نم ہے کیا کہئیے
the eye is moist in every moment what i say
چیرتی جا رہی ہے روحوں کو
it is ripping the souls
درد جتنا ہو کم ہے کیا کہئیے
how many pain is bit now what i say
زہر لفظوں میں گُھل گیا اتنا
poison micksed in my words
چاشنی اب عدم ہے کیا کہئیے
how many suger is nill now what i say
ہائے آوارگی کا کیا شکوہ
ah what is the complain about wandring
سب کا شکوہ ستم ہے کیا کہئیے
all complains r oppress what i say
اتنے پهولوں پہ خاک ڈالی ہے
how many flowers buried
میری گردن بهی خم ہے کیا کہئیے
my neck is falldown what i say
ہم نہ پہچان پائے لاشے کو
we can't recognize the body
دوستی سرقلم ہے کیا کہئیے
friendship is severed head what i say
گھر میں میرے ہو روشنی کیسے
how can light in my house
کب چراغوں میں دم ہے کیا کہئیے
when the power in the lamps
ماتمی شور کر گیا بہرا
the noise of mourning make me deaf
اور بصارت الم ہے کیا کہئیے
and the vision is another pain what i say
جس کی چادر چهنی اجالے میں
who lost theire onner in the light
زندگی شام غم ہے کیا کہئیے
life is sorrow evning for him what i say
جو بهی اٹھتا ہے امن کی جانب
whatever arise towards the peace
لڑکهڑاتا قدم ہے کیا کہئیے
it's floundring step what i say
منزلوں تک پہنچ نہیں پاتا
can't reache on the destination
سوچ میں ہی سُکم ہے کیا کہئیے
the fault in the thinking whats i say
اب تو ممتاز دل کی تختی پر
now Mumtaz on the bord of my heart
درد ہی تو رقم ہے کیا کہئیے
the write only pain what i say
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مدّت ہوئ عورت ہوۓ
مجھ سے سہیلی نے کہا
my friend say to me
ممتاز ایسا لکھتی جا
Mumtaz write something like this
جس میں ہوں کچھ چوڑیوں
whatever anounce the voice of bangeles
چھنکارکی باتیں
talk of their sound
کچھ تزکرے ہوں چنریوِں کے
some mentions about fola
اِظہار کی باتیں
talks of expretion
اُڑتے سنہری آنچلوں میں
in the golden flying sckarf
موتیوں کی سی لڑی
like string of pearls
پہلی وہ شیطانی میری
my first naughty
پہلی وہ جو میری ہنسی
my first lafght
بالی عمر کی دِلکشی
attraction of young age
وہ بچپنے کی شوخیاں
pranks of chaildhood
خوابوں میں خواہش کے سراب
wisheland in the dreams
دھڑکن کی وہ سرگوشیاں
conspirecy of heat beat
گوٹا کِناری ٹانکتے
make embroidery and lasess
اُنگلی میں سوئیوں کی چُبھن
stuknuss of needle in the fingur
دانتوں میں اُنگلی داب کر
prees the fingur in the teeth
ہوتی شروع پھر سے لگن
start again that dedication
پہلی دفعہ دھڑکا تھا کب
when was sound first
یہ دل تجھے کچھ یاد ہے
this heart ،do u remember
وہ خوشبوؤں رنگوں کی دنیا
wrold of colors and perfumes
اب بھی کیا آباد ہے
still alive
میں نے کہا میری سکھی
i said my friend
دنیا کیا تو نے نہ تکی
u don't saw this wrold
مصروف اِتنی زندگی
the life was so busy
کہ چُوڑیاں پہنی نہیں
i don't wear bangels
جو چُنریاں رنگین تھیں
colorfull scarfs
وہ دھوپ لیکراُڑ گیئں
flying after took sunlight
میری عمر کی تتلیاں
butterflies like my age
اب اور جانِب مڑ گئیں
they move another sides
اب دوپٹوں پر کبھی نہ
now never on the scarf
گوٹا موتی ٹانکتی ہوں
make me embroidery
سوئیاں ہاتھوں پر نہیں اب
not stuk the needle in my fingur
د ل کو اپنے ٹانکتی ہوں
i sew my heart
خوشبوؤں کے دیس سے
to the wrold of perfumes
میں دُور اِتنی آگئ
i came to far
جینے کی خاطر
for servaival
مرد سا
like a man
انداز میں اپنا گئ
i change my self
رِشتوں کو ناطوں کو نبھاتے
fulfill the relations
فرض ادا کرتے ہوۓ
and done my duties
تُو نے جو چونکایا لگا
u startled me
مدّت ہوئ عورت ہوۓ
long time passed when i was a women
MUDDAT HOI AURAT HOEY
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سربستہ رازوں کو اب میں جان رہی ہوں
چھپے ہوۓ لہجوں کو اب پہچان رہی ہوں
سیدھے رستوں کی متلاشی رہی ہمیشہ
اس کے ہر اک موڑ سے میں انجان رہی ہوں
اپنا لکھا آپ جو پڑھنے بیٹھی جانا
میں تو سب کے غم کا اک دیوان رہی ہوں
جس کی دیواروں میں درد بسیرا کر لیں
میں خاموش سا ایسا ایک مکان رہی ہوں
مجھ میں آوازوں کی گونج سنی جاتی ہے
صدیوں سے ہی شاید میں ویران رہی ہوں
کبھی یہاں نقارے گونجا کرتے تھے
حیرت کا اب لوگوں کے سامان رہی ہوں
ہر اک چوٹ کے بعد قدم جماۓ پھر سے
جینے کا میں ہر باری امکان رہی ہوں
کبھی خوشی کا اوڑھ لبادہ کبھی غموں کی چادر
ہر اک رنگ مِیں مَیں تو بس مہمان رہی ہوں
روشن امیدوں کو قأیم رکھنا ہو گا
ہمت والوں کی میں تو مسکان رہی ہوں
اب اک ہی افسوس مجھے مُمتاز رہے گا
دیر بہت کر کے میں یہ سب مان رہی ہوں
....................
بنا تیرے بھی مکمل ہے
بنا تیرے بھی مکمل ہے یہ حیات میری
اسی سفر مین رواں ہے یہ کائینات میری
ادھوری چھوڑ گئے تم جو اک زمانے میں
اکیلے آج مکمل کروں گی بات میری
فلک کے چاند ستاروں نے حال دیکھا ہے
حیات کس نے کی دنیا میں بے ثبات میری
ہوا کے رخ کو بھی میں اپنے حق میں کر لوں گی
بڑے عذاب لگائے ہوئے ہیں گھات میری
جو مجھ سے واسطہ رکھے اسے پتہ ہو گا
میں تم کو عیب بتاؤں یا پھر صفات میری
جنہوں نے نام سے ممتاز پہلی بار کہا
وہ سن چکے تھے کسی طور مناجات میری
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ جورُخ پہ میرے ملال ہے
یہ تیری وفا پہ سوال ہے
مجھے غم نہ تم نےکبھی دیا
یہ محض تمہارا خیال ہے
میں تیرے لیئے ہی بکھر گئی
تو نہ جان پایا کمال ہے
یہ جو ساز زیست ہے بج رہا
نہ ہی سر ہے اب نہ ہی تال ہے
ممتاز اس کو یہ کہہ بھی دو
تیرا ساتھ ہے یا وبال ہے
ممتاز اس کو یہ کہہ بھی دو
تیرا ساتھ ہے یا وبال ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عورت
یاد رکھنا کہ اک عورت سے ہوئے ہو پیدا
یاد رکھنا کہ اک عورت ہی کی آغوش میں ہو
اب تیرے ہاتھ سے محفوظ نہیں وہ عورت
کیا کیئے جاتے ہو بتلاؤ تو کچھ ہوش میں ہو
پہلے ہی گھر میں چراغوں کی بڑی قلت ہے
کیوں دیئے گھر کے بجھانے کیلیئے جوش میں ہو
ساری دھرتی کو نہ آآ کے یوں ناپاک کرو
جانے بربادی کی کس لہر میں کس دوش میں ہو
رحم آتا نہیں کھلتی ہوئی کلیوں پہ جنہیں
باغ ویران ہوئے خوابئہ خرگوش میں ہو
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کبھی ملی نہیں بے فکریاں
کبھی ملی نہیں بے فکریاں زمانے کی
تگ و دو ہم نےبڑی کی تھی انکو پانے کی
نہ بچنا جس کامقدر تھا کیسے بچ پاتا
بھلے سے کی تھیں بڑی کوششیں نبھانے کی
مجھے منانا کوئی اسقدر گراں تو نہ تھا
ہے دیر اب بھی بھلے تیرے اک بہانے کی
ازل سے معاف کیئے جا رہے ہیں ہم انکو
پڑی ہے آج ضرورت یہ کیوں جتانے کی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
قدرت کے تحا ئف ہیں
دکھ درد کی کوئی بھی گھڑی ایسی نہیں ہے
اے ماں تیری ہستی میں میرا نام چُھپا ہے
خدمت ہو محبت ہو کہ قُربانی کا جذبہ
کیسی ہے عجب بات تیرے بعد بھی اب تک
ہر چوٹ میں لب سے ہے تیرا نام نکلتا
مُدت ہوئی بچھڑے ہوئے پرسوچ میں اب بھی
مُمتازاس کے ساتھ بجے چین کی بنسی
کلام/ممتازملک
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
قدرت کے تحا ئف ہیں تیری ذ ات میں شامل
قسمت سے ہوئی اپنی ملاقات میں شامل
دکھ درد کی کوئی بھی گھڑی ایسی نہیں ہے
جب نہ ہو تیری یاد بھی حالات میں شامل
اے ماں تیری ہستی میں میرا نام چُھپا ہے
یہ بات الگ ہے تیرے درجات میں شامل
خدمت ہو محبت ہو کہ قُربانی کا جذبہ
کچھ خاص ہیں یہ تیرے کمالات میں شامل
کیسی ہے عجب بات تیرے بعد بھی اب تک
ہائے ماں میرا کہنا بھی وظیفات میں شامل
ہر چوٹ میں لب سے ہے تیرا نام نکلتا
ہے ذکر تیرا میری عبادات میں شامل
مُدت ہوئی بچھڑے ہوئے پرسوچ میں اب بھی
جیسے ہو یسیری سی خیالات میں شامل
مُمتازاس کے ساتھ بجے چین کی بنسی
بعد اسکے زندگی بھی ہے ظلمات میں شامل
کلام/ممتازملک
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بھوک
اے کاش ایسا ہوتا
تصویر دیکھکر ہی
کاغذ پہ بھوک مٹتی
کوئی بھوک سے نہ مرتا
کوئی دودھ کو نہ روتا
کوئی جاں سے نہ گزرتا
نہ کہیں پہ جسم بکتا
نہ ہی رقص مرگ ہوتا
کوئی جرم بیگناہی
کی سزا کبھی نہ بھرتا
کوئی آنسوؤن سے اپنے
یوں گلے کو تر نہ کرتا
کوئی خون میں کسی کے
ہاتھوں کو تر نہ کرتا
کوئی مجرموں کے گھرکا
پانی کبھی نہ بھرتا
بم باندھ کر بدن سے
بچہ کبھی نہ مرتا
راشن کی لائنوں میں
کوئی ماؤں کو نہ ہرتا
اور رات کے قہر میں
ماں نہ تلاش کرتا
بجلی جو اس پہ گرتی
ماں کے لیئے نہ ڈرتا
عزت کے دشمنوں سے
سودے کبھی نہ کرتا
نہ کہیں قرار لٹتا
نہ کہیں مزار ہوتا
نہ ہی میں بھی ہوتی عورت
نہ ہی تو بھی یار ہوتا
نہ میں بیچتی حیا کو
نہ تو بے قرار ہوتا
نہ ہی میں بھی ہوتی عورت
نہ ہی تو بھی یار ہوتا
نہ میں بیچتی حیا کو
نہ تو بے قرار ہوتا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خاموشی دکھ کے دریچوں سے گزر کر اکثر
میرے دل کے کسی ویرانے میں بس جاتی ہے
کسی سہمے ہوئے معصوم سے بچے کی طرح
بے وجہ اپنے ہی دکھ پہ خودی ہنس جاتی ہے
منتظر آنکھ ہمیشہ سے کسی دید کو ہے
پر کبھی دید بھی آنکھوں کو ترس جاتی ہے
جو کوئی پیار سے اس دل کو دلاسا دیدے
بس اسی لمحے بنا سوچے برس جاتی ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
محبت بانٹنے نکلے
محبت بانٹنے نکلے تھے پتھر لے کے گھر لوٹے
بہت سے دشت چھانے اور ہو کے در بدر لوٹے
تمہارے شہر میں ہم نے بڑی رسوائیاں پائیں
مگر آخر غریباں شہر اپنے شہر لوٹے
ہماری سوچ سے دل تک بڑی لمبی مسافت ہے
چلو اب دیکھتے ہیں کہ کہاں سے یہ نظر لوٹے
جہاں میں مسندیں اب بے ہنر آباد کرتے ہیں
جبھی تو لے کے آنکھیں نم سبھی اہل ہنر لوٹے
لیئے ہم کانچ کا دل برسر بازار بیٹھے ہیں
تھے پتھر جنکی جھولی خوش وہی تو بازیگرلوٹے
وہ جھوٹے لوگ جومل کر ہمیں کو جھوٹ کردیں گے
انہیں کو آذما کر ہم بھی اپنی راہگزر لوٹے
قرار جاں بنانے کو بہانے اور کیا کم تھے
بھلا ممتاز لے کے کون یوں زخمی جگر لوٹے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لیئے ہم کانچ کا دل برسر بازار بیٹھے ہیں
تھے پتھر جنکی جھولی خوش وہی تو بازیگرلوٹے
وہ جھوٹے لوگ جومل کر ہمیں کو جھوٹ کردیں گے
انہیں کو آذما کر ہم بھی اپنی راہگزر لوٹے
قرار جاں بنانے کو بہانے اور کیا کم تھے
بھلا ممتاز لے کے کون یوں زخمی جگر لوٹے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سنو
عورت سے لڑنے کی
کبھی کوشش نہیں کرنا
اگر یہ ہار جاتی ہے
تو حیرت اس پہ مت کرنا
کہ رونے بیٹھ جاتی ہے
مگر جب جیت جاتی ہے
تو تب حیران کرتی ہے
کہ رونے بیٹھ جاتی ہے
بھلا کیوکر یہ سمجھو گے
کہ وہ جو ہارنے والا تھا
وہ بھی اس کا اپنا تھا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سُن محرم ميرے
سُن محرم ميرے آج زار
تو ركھ لے ميری لاج زار
نہ رول مجهے مطلب كے لئے
تو بن جا صحيح سرتاج زار
سن باتيں جاہل لوگوں کی
نه مجهکو کر محتاج زرا
یه دنیا اڑیل ٹٹو ہے
نه سمجه انہیں الحاج بڑا
گر میری نظرمیں رہنا ہے
تک چهوڑکے جهوٹا سماج ذرا
کوئی آنکه نہ مجھ پر اٹھ پائے
کر غیرت کا اندراج زرا
ممتاز نه جس میں ره پائے
کس کام محل یه تاج زرا
.......
...........................
شہر دغا
city of betrayers
کلام / ممتاز ملک
POETES / MUMTAZ MALIK
They will make u crazy with their sweet talks
one day they will leave u make an excusse
poison was in his basse years of years irock them honey
then he keep in the mouth by name of tongue
many were travlers who can't find the destination
i am also coming say whom after sending
i weaped to see your simpelsity
nature can't change after years too
forget him he can't able to memorise
what will u get to memorise him daily
we weaped on fiction like a reality
he talk about reality like a fiction
his lafter spreed in the air often
who hide there sob like a treasures
they can't dear to compeat me
he talk to another and make target me
friendship is the name of knock after new knock
whatever came ، he went ،to gave me a wisdom
u r not hypocrite Mumtaz this is the city of betrayers
unconcern about it ،make heart strong
......................
نوحہ غم ہے
wailing grife
کلام / ممتازملک
poetes/ Mumtaz malik
this is wailing grife what i say on this
the eye is moist in every moment what i say
it is ripping the souls
how many pain is bit now what i say
poison mixed in my words
how many suger is nill now what i say
ah what is the complain about wandring
all complains r oppress what i say
how many flowers buried
my neck is falldown what i say
we can't recognize the body
friendship is severed head what i say
how can light in my house
when the power in the lamps
the noise of mourning make me deaf
and the vision is another pain what i say
who lost theire onner in the light
life is sorrow evning for him what i say
whatever arise towards the peace
it's floundring step what i say
can't reache on the destination
the fault in the thinking whats i say
now Mumtaz on the bord of my heart
the write only pain what i say
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مدّت ہوئ عورت ہوۓ
my friend said to me
Mumtaz write something like this
whatever anounce the voice of bangeles
talk of their sound
some mentions about fola
talks of expretion
in the golden flying sckarf
like string of pearls
my first naughty
my first lafght
attraction of young age
pranks of chaildhood
wisheland in the dreams
conspirecy of heat beat
make embroidery and lasess
stuknuss of needle in the fingur
prees the fingur in the teeth
start again that dedication
when was sound first
this heart ،do u remember
wrold of colors and perfumes
still alive
i said my friend
u don't saw this wrold
the life was so busy
i don't wear bangels
colorfull scarfs
flying after took sunlight
butterflies like my age
they move another sides
now never on the scarf
make me embroidery
not stuk the needle in my fingur
i sew my heart
to the wrold of perfumes
i came to far
for servaival
like a man
i change my self
fulfill the relations
and done my duties
u startled me
long time passed when i was a women
MUDDAT HOI AURAT HOEY
...........................
مدّت ہوئ عورت ہوۓ
مجھ سے سہیلی نے کہا
ممتاز ایسا لکھتی جا
جس میں ہوں کچھ چوڑیوں
چھنکارکی باتیں
کچھ تزکرے ہوں چنریوِں کے
اِظہار کی باتیں
اُڑتے سنہری آنچلوں میں
موتیوں کی سی لڑی
پہلی وہ شیطانی میری
پہلی وہ جو میری ہنسی
بالی عمر کی دِلکشی
وہ بچپنے کی شوخیاں
خوابوں میں خواہش کے سراب
دھڑکن کی وہ سرگوشیاں
گوٹا کِناری ٹانکتے
اُنگلی میں سوئیوں کی چُبھن
دانتوں میں اُنگلی داب کر
ہوتی شروع پھر سے لگن
پہلی دفعہ دھڑکا تھا کب
یہ دل تجھے کچھ یاد ہے
وہ خوشبوؤں رنگوں کی دنیا
اب بھی کیا آباد ہے
میں نے کہا میری سکھی
دنیا کیا تو نے نہ تکی
مصروف اِتنی زندگی
کہ چُوڑیاں پہنی نہیں
جو چُنریاں رنگین تھیں
وہ دھوپ لیکراُڑ گیئں
میری عمر کی تتلیاں
اب اور جانِب مڑ گئیں
اب دوپٹوں پر کبھی نہ
گوٹا موتی ٹانکتی ہوں
سوئیاں ہاتھوں پر نہیں اب
د ل کو اپنے ٹانکتی ہوں
خوشبوؤں کے دیس سے
میں دُور اِتنی آگئ
جینے کی خاطر
مرد سا
انداز میں اپنا گئ
رِشتوں کو ناطوں کو نبھاتے
فرض ادا کرتے ہوۓ
تُو نے جو چونکایا لگا
مدّت ہوئ عورت ہوۓ
MUMTAZ MALIK
.........................
MUMTAZ MALIK
.........................
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔