ممتازملک ۔ پیرس

ممتازملک ۔ پیرس
تصانیف : ممتازملک

ہفتہ، 13 فروری، 2021

● زمین ‏ہلتی ‏ہے/ ‏کوٹیشنز ‏


         زمین ہلتی ہے

قرآن پاک پر حلف اٹھا کر جھوٹ بولنے والے جھوٹے مسلمانوں زمین ہلے بنا بھی خدا کو یاد رکھا کرو کیونکہ ہر بار زمین صرف ہلتی ہی نہیں ہے تم جیسوں کو زمیں بوس بھی کر دیتی ہے۔
                   (چھوٹی چھوٹی باتیں)
                         (ممتازملک.پیرس)

اتوار، 7 فروری، 2021

● می ‏لارڈ ‏توجہ ‏فرمائیں/ کالم

        

          
          می لارڈ توجہ فرمائیں  
       (تحریر: ممتازملک.پیرس)



ہم آہ بھی بھرتے ہیں تو ہو جاتے ہیں بدنام
وہ قتل بھی کرتے ہیں تو چرچا نہیں ہوتا 
جس پاکستان کے تھانوں میں عام آدمی صرف چالان نہ بھرنے پر اور ایف آر کٹوانے کے لیئے مہینوں خوار ہو جاتا ہے  جہاں  اپنی سائیکل کا چالان نہ بھر پانے پر معصوم لوگ سالہا سال سے جیلیں کاٹتے ہیں ۔ جہاں کے لائق وکیل اور جج صرف شک کی بنیاد پر ان کی زندگیوں کو تاریخ پر تاریخ کا کھیل بنا کر بیس بیس سال تک کھیلتے ہیں ۔ جہاں پیشی کا مطلب منشی کی جیب گرم کر کے اگلی تاریخ کی بھیک مانگنا ہے جبکہ معلوم ہے کہ اس اگلی تاریخ میں بھی یہ ہی ڈرامہ دہرایا جائے گا ۔ جہاں عام آدمی کو کبھی  جج سے بھی براہ راست اپنا مدعا بیان کرنا توہین عدالت قرار دے دیا جاتا ہے ۔ جہاں لوگ اپنے حق کے چار دن کی پنچایت میں ہو جانے والے فیصلے والے معاملات کے لیئے اپنی گاڑھے خون پسینے کی کمائیاں بھر بھر کر کبھی دیوانے ہو جاتے ہیں کبھی دیوالیہ تو کہیں اپنی جان کی بازی ہار جاتے ہیں لیکن می لارڈ آپ کو کیا پتہ جس قیدی کو کل آپ نے معصوم قرار دیکر اپنی طرف سے بہت مہربانی فرماتے ہوئے صرف 20 ہا تیس سال بعد ہی بری کرنے کا حکم صادر فرمایا ہے وہ کئی سال قبل ہی اس قید خانے میں اپنی زندگی کی بازی ہار چکا ہے ۔ 
اور آپ کے لیئے وہ قیدی چچچچچچچ کے سوا اور کسی رد عمل کا نہ قائل تھا نہ قابل۔۔
اس ملک میں اگر کوئی خاتون کشمالہ طارق بن جائے تو اس کا بیٹا چاہے نشے میں دھت ہو ، چاہے کسی کی عزت اپنے پیروں میں کچل دے اور چاہے کسی کی جوانیاں زندگیاں اور امیدیں اپنی عالی شان گاڑی کے پہیوں کے نیچے روند جائے ۔ اسے  تو چار ہی گھنٹوں میں ضمانت بھی مل جائے گی اور ہماری پولیس فورس اس کی حفاظت و تواضح بھی فرمائے گی ۔ آخر کو وہ قوم کا عظیم سپوت کچھ "غیر ضروری" لوگوں کو ہی کچل کر آیا تھا۔ بچہ ہے یہ تو بچوں سے ہو ہی جاتا ہے ۔ اتنا پیسہ ہے اتنے اختیارات ہیں  وہ اس وقت میں کام نہیں آئینگے تو اور کس وقت کام آئینگے ۔  وہ نوجوان ہی بیوقوف تھے انہیں معلوم ہونا چاہیئےتھا کہ پاکستان کی سڑکوں اور عدالتوں پر  پہلا حق یہاں کی ایلیٹ ٹائپ ایڈیٹس کلاس کا ہے جو ہمارے مال اور خون نچوڑ نچوڑ کر اسی لیئے تو پیدا کیئے جاتے ہیں کہ  ہم جیسوں کا اس ملک سے صفایا کر سکیں ۔ 
می لارڈ  آپ کی عدالتیں بھی طوائف کے کوٹھے سے کم ہر گز نہیں ہیں یہاں بھی جو نوٹ برساتا ہے گھنگھرو اسی کے لیئے بجتے ہیں اور طوائف کو اس سے کیا کہ نوٹ لٹانے والا کسی کی جیب کاٹ کر لایا ہے یا کسی کی گردن ۔۔۔
می لارڈ فرصت ہو تو کشمالہ طارق جیسی اعلی ہستیوں کے قاتل بیٹے کے ضمانت نامے کے آرڈرز پر چار گھنٹوں میں دستخط کرنے کے بعد ان مقدمات پر بھی رحم کی نظر ضرور ڈال لیجیئے گا جو سالوں سے آپ کی میز پر آتے ہیں اور جاتے ہیں کیونکہ آپ ان کے مقدر میں یہ کالک لکھ چکے ہیں کہ میرے جج ہونے تک تو تم لوگ اس عدالت سے فیصلہ پا کر نہ چھوٹے۔ 
می لارڈ ایک عدالت آپکی پیشی کی بھی منتظر ہے ۔ وہاں آپکو بچانے کے لیئے کون آئے گا؟
وہ کچلے ہوئے لاشے ، جیلوں میں ہی مر چکے معصوم،  عزتیں لٹوائے بیچارے ، مال و دولت گنوائے ہوئے دھوکے کھائے ہوئے بے یارومددگار پاکستانی ان کی آہیں اور سسکیاں انکے برباد خاندان کیا آپ کو دوزخ کی آگ سے باہر نکلنے دینگے ۔ قاضی کے منصب پر بیٹھا ہوا ہر شخص خدا کیوں بن جانا چاہتا ہے ؟ 

                             ●●●

ہفتہ، 6 فروری، 2021

دھوکہ ‏کھا ‏بیٹھے ‏ہو ‏/ ‏شاعری ‏


تم اک اچھے قصہ گو ہو 
لوگوں سے بھی کم ملتے ہو
 
کیسے دھوکہ کھا بیٹھے ہو
چودہ طبق جلا بیٹھے ہو

چہرے پر واضح لکھا ہے
دل کا درد دبا بیٹھے ہو
 
اور تمہارے پاس بچا کیا 
سارے اشک بہا بیٹھے ہو

اپنوں سے یوں دور ہوئے کہ 
غیروں کے سنگ جا بیٹھے ہو

لٹنے کا کچھ خوف نہیں اب
جب سے مال لٹا بیٹھے ہو

اپنی جیب کے کھوٹے سکے
دنیا میں چلا بیٹھے ہو

وہ ہی تمہاری ہڈیاں  بیچیں 
جنکو ماس کھلا بیٹھے ہو

بہروں کی سنوائی کو تم
سارا زور لگا بیٹھے ہو

دیواریں ممتاز  ہلی  ہیں  
قہر رب  بلوا بیٹھے ہو

        ●●●

بدھ، 3 فروری، 2021

● جبری انگریزی نصاب/کالم


             جبری انگریزی نصاب
               (تحریر: ممتازملک.پیرس)



ہم تارکین وطن پاکستانی خصوصا شعراء اور لکھاری دنیا بھر میں اردو زبان کی حفاظت اور پھیلاو میں تن من دھن وار رہے ہیں اور پاکستان میں ہمارے بچے انگریزی کے رٹے مار مار کر پاگل ہوئے جارہے ہیں ۔ انگریزی کیا قہر خداوندی ہے اس قوم پر؟
ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ اردو کے ملک میں اردو کو بے آبرو کرنے والے لوگ تخت نشیں ہیں ۔ دنیا کی ہر زبان سیکھیں لیکن بطور زبان کے ۔
اسے بطور نظام تعلیم قوم پر مسلط نہ کریں ۔ کیونکہ دنیا کی کسی قوم نے کسی دوسرے کی زبان میں کبھی ترقی نہیں کی ۔ اس کی سب سے بدترین مثال پاکستان اور بھارت ہیں ۔ جو ساری عمر  انگریزی سیکھنے اور پھر انگریزی  کی غلطیاں نکالنے میں گزار دیتے ہیں ۔ یا پھر اس کا طرز زندگی سمجھنے اور اپنانے میں آدھے تیتر آدھے بٹیر بن کر نہ گھر کے رہتے ہیں نہ گھاٹ کے ۔ 
جسم پر پورا تھان لپیٹ کر سر کی ٹنڈ کروا کر ایک موٹی سی ماتھے برابر بندیا لگا کر سگریٹ کے کش لگاتی ہوئی خواتین وحضرات انگریزی فرفر جھاڑتے ہوئے خود کو کس جہان کا باسی ثابت کرنا چاہتے  ہیں ؟ 
شاید اس جہان کا نام ہے کنفیوز نگر
کیونکہ زبان بول چال کی سیکھنا اور بات یے اور زبان کا نظام تعلیم رائج کرنا گویا آپ نے اپنے زندگی کے ہر اثاثے کو ،انداز فکر کو، کھانا پینا رہنا اوڑھنا بچھونا سب کچھ اس تہذیب کے حوالے کر دیا ہے اور خود کو زیرو قرار دیدیا ہے ۔ انگریزی کو بطور زبان ضرور سیکھئے لیکن اس کی تہذیب میں ڈبکیاں مت لگایئے ۔ بس یہی سچائی ہے۔
اگر آپ نے کہا کہ انگلش بین الاقوامی زبان ہے جو ساری دنیا میں بولی جاتی ہے تو یہ بھی آپ کی ہی خام خیالی ہے اور آپ کے ہمخیال لوگوں نے ہی ایسا مفروضہ رائج کر رکھا ہے جبکہ حقیقت میں امریکہ کے چند ممالک اور انگلستان کے علاوہ شاذونادر ہی کسی ملک میں انگریزی بولی جاتی ہے ۔ اور نظام تعلیم تو کسی دوسرے کی زبان میں ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔ ہمیں ضرورت ہے اسی لنڈے کی سوچ سے باہر نکلنے کی۔ 
 لیکن
 اسے ایک زبان کے طور پر بطور مضمون رکھنے میں کوئی قباحت نہیں ہے جو کہ لازمی نہیں اختیاری مضمون ہونا چاہیئے ۔
دنیا کا کون سا ترقی یافتہ ملک ہے جس نے اپنے ملک کی زبان کے بجائے دوسرے کے زبان  انگریزی میں ترقی کی ہے پلیز رہنمائی فرمائیں 
کیا فرانس ، جرمنی۔ اٹلی، سپین، سوئزرلینڈ، ناروے ،  ڈنمارک ،چین ، جاپان ، انڈونیشیا   وغیرہ وغیرہ 
اور کیا یہ سب ترقی یافتہ ممالک دوسری زبانوں میں اپنے طلبہ کو تعلیم دیتے ہیں ۔۔؟
وضاحت پلیز

اور اگر کسی کو سیکھنی ہے تو وہ بطور زبان سال بھر کا لینگویج کورس کر کے اسے بول چال کے قابل ہو سکتا ہے ۔ پھر اسے بچوں کی نصابی کتب میں ٹھونس کر انہیں زبردستی پڑھانے کی کیا تک ہے؟
یہ بات درست ہے کہ  آج کی نسل کی تباہی کی وجوہات میں دین سے دوری اخلاقی اقدار کا زوال اورمعاشی اور معاشرتی ناانصافی بڑے اہم عوامل ہیں لیکن ان وجوہات و عوامل کی تہہ میں جائیں تو معلوم ہو گا کہ دین سے دوری کا سبب بچوں کی تعلیم جبرا اس زبان میں دلوانا ہے جس کا ہمارے مذہب سے تہذیب سے معاشرت سے ہر گز کوئی لینا دینا نہیں ہے ۔ وہاں پر انگریزی زبان کا قہر ہم پر قہر خداوندی ہی تو بن چکا ہے جہاں ہماری عقل پر قفل لگ چکا ہے ۔ اور ہم بے عقل، بے رشدو ہدایت بھاگے جا رہے ہیں بنا کسی منزل کے تعین کے ۔ ہم ہزار سال بھی انگریزی یا کسی اور زبان کے نظام تعلیم کیساتھ علم کے حصول میں دوڑتے رہیں تو بھی کبھی اس کی منزل نہیں پا سکتے اور اگر پالیں تو اپنے سارا تہذیبی دینی سماجی ڈھانچہ تباہ و برباد کر کے بلکہ خس و خاشاک کر کے ۔ کیا ہم یہ قیمت ادا کر کے خوش رہ سکتے ہیں یا آذاد قوم کہلا سکتے ہیں ؟ 

سوال یہ ہے کہ کیا ہمارے پیارے پاکستان میں کوئی اردو بولنا چاہتا ہے ؟ کیا اردو بولنے والے کو ہندوستانی کا نام نہیں دیتے ہم لوگ ؟ کیا اردو زبان میں اتنی صلاحیت ہے کہ وہ جدید علوم کا ترجمہ کر سکے؟
جی ہاں  آپ کا درد دل آپ کی بات سے چھلکتا ہے ۔ پاکستان میں تحریک نفاذ اردو کے نام سے  تحریک بھرپور انداز میں کام کر رہی ہے اور قانونی طور پر اجراء کا فیصلہ بھی لے چکی ہے لیکن کچھ انگریزوں کے ذہنی غلام جو اپنے بچے پالتے ہی گورا صاب بننے کے لیئے ہیں وہ اسکے عملی نفاذ کی راہ میں سب سے بڑا روڑا ہیں کیونکہ انہیں ہر وقت اپنا بچہ گھوڑے پر سوار گورا صاب دیکھنے کا ارمان ہے اور پاکستانی قوم و  نسل ان کے گھوڑے باندھنے اور رگڑنے والے سائیس کے طور پر چاہیئے ۔ اس  وقت پاکستانیوں کی کمائیوں  کا ستر فیصد اپنے بچے کے منہ میں انگریزی ٹھونسنے اور اسے گورا صاب بنانے کی دوڑ پر خرچ ہو رہا ہے ۔ اور یقین مانیئے دنیا کی ہر زبان کے لفظ  کا ترجمہ کرنے کی صلاحیت اردو زبان   میں بدرجہ اتم موجود ہے ۔ ہم سب اسے غالب کے زمانے کی متروک اردو میں نہ ڈھالیں بلکہ اسے جدید اردو زبان میں (جو کہ رائج الوقت ہے میں) ڈھال کر بہت آسانی سے دنیا بھر کا علم اردو میں منتقل کر سکتے ہیں ۔ آج کمپیوٹر کے زمانے میں ایسا سوال کہ کونسی زبان کس زبان میں ڈھل سکتی ہے ترجمہ ہو سکتی ہے بالکل بچگانہ ہو کر رہ گیا ہے ۔ اصل مسئلہ جو زبان سے منسلک ہے وہ ہے ہماری شناخت اور تہذیب بچانے کا ۔ ۔ ہر زبان اپنی تہذیب آپکو سکھاتی ہے ۔ کوئی بھی زبان زبان کے طور پر سیکھیئے تو کوئی مضائقہ نہیں لیکن اسے اپنی زندگی کا مقصد بنا کر اپنے گرد آکاس بیل بنا کر لپیٹ لیں گے تو یہ آپ کا سارے کا سارا ورثہ نچوڑ کر پی جائے گی ۔ یعنی گہرائی سے سوچیئے تو قومی  زبان کا نفاذ ہماری نسلوں کی ترقی یا  تباہی کا سوال ہے ۔
ہمارے ملک میں ترقی کے نام پر کمائی کا ستر فیصد حصہ انگریزوں کے نام نہاد پاکستانی  ایجنٹ پاکستانیوں سے نچوڑ رہے ہیں ۔ اور اس کی تہذیبی اور دینی بنیادوں میں انگریزی زبان کے زریعہ ان کی تہذیب کے زہریلے ٹیکے لگائے جا رہے ہیں  اور یہ تمام دولت پاکستان سے باہر  بیرون ملک بھیجی جا رہی ہے ۔ جب تک یہ بیرونی رسد نہیں روکی جائے گی ۔ انگریزی زہر طلب کے نام پر  یونہی بکتا رہیگا ۔ ہماری قوم ہر لحاظ سے تباہ و برباد ہوتی چلی جائے گی اور ہمارے دشمن ہمارا خون چوس چوس کر طاقت حاصل کرتے رہینگے ۔ اخلاقی زوال اور مذہبی تنزلی کی مثالیں ہر روز بلکہ ہر لمحہ ہمارے معاشرے میں ماتم کناں ہیں اور ان سب برائیوں کی جڑ تک جائیں تو اخلاقی اور دینی علوم سے دوری اور دوری کی وجوہات میں سب سے بڑا عذاب  جبری انگزیزی نصاب۔ 
                         ●●●

منگل، 2 فروری، 2021

● افضل ‏ساحر ‏کی ‏کتاب ‏نال سجن ‏دے ‏رہیئے/ ‏تبصرہ


افضل ساحر دی پنجابی شعری کتاب
نال سجن دے رہیئے 
تے تبصرہ  ممتاز ملک.پیرس 




افضل ساحر دی شاعری پڑھن تے اودے گیت سنن دا موقع تے کئی وار ملیا تے دل بیساختہ داد دین تے وی مجبور ہویا پر اس ویلے ہور خوشگوار جئی حیرت ہوئی جد اوہدا تعارف پڑھن دا موقع ملیا ۔ 
افضل ساحر اک پڑھیا لکھیا تے بڑا ہی فنکار مزاج بندہ لگا ۔ او نہ صرف ریڈیو دی دنیا وچ اپنے کم تے اپنی آواز دے نال اک  نویکلی پہچھان رکھدا اے تے دوجے پاسے او ڈرامہ لکھن دے میدان وچ وی اپنی پوری صلاحیت دے نال وکھائی دیندا اے ۔  اودے گیت سنیئے تے لگدا اے دل اودے نال نال اسے کیفیت دا شکار ہوندا جاندا اے جیڑی شاید لکھن ویلے ہر شاعر دی طرح اوس تے وی طاری ہوئے گی ۔ 
افضل ساحر نے پنجابی شاعری دی ہر  صنف وچ طبع آزمائی کیتی اے تے خوب کیتی اے۔  
دوہے، غزل ، کافی،  گیت جیڑی  وی شے پڑھو گے افضل ساحر دی ٹھیٹھ  پنجابی زبان دے وچ دسترس دے قائل ہوندے جاو گے ۔ 
انہاں دے کلام دے وچ پجھارتاں دی صورت،  تے کدی بولیاں دی صورت سچ دا شیشہ ویکھن دا خوب موقع ملدا اے۔ 
جیویں کہ ملاحظہ کرو۔۔۔
ہر دو لعن سیاستاں ، میں ای میں پردھان
آپو وچ لڑائیکے ، کوڑ پنچیتاں لاڑں
                       ۔۔۔۔

جگ کوڑھ پسارا زہر دا
سانوں چسکا لگا زہر دا
دل پارا کتے نہ ٹہردا
سانوں دھڑکو اٹھے پہر دا
اک پاسا مریا شہر دا 
وچ پکھا پھینئر لہردا
                       ۔۔۔۔
اینہاں کلاماں اندر افضل ساحر دی اندر تے باہر دی دنیا تے رکھی ہوئی نظر تے سمجھن دی صلاحیت تے قدرت صاف دسدی اے۔ 
میری نظر وچ افضل ساحر دی کتاب  "نال سجن دے رہیئے"
اج دے زمانے وچ (جد پنجابی اپنے اصل رنگ توں کافی دور ہو چکی اے) ٹھیٹھ پنجابی دی ایک بہترین مثال اے ۔ 
میں دلوں دعا گو آں کہ افضل ساحر کامبیابیاں دیاں  پوڑیاں چڑھدا جائے تے دوناں جہاناں وچ عزت تے نام کمائے۔ آمین
ممتازملک۔پیرس
2 فروری 2021ء
                          ●●●

جمعرات، 28 جنوری، 2021

● (1) اے رب ذوالجلال \ حمد ۔ سراب دنیا



(1) حمد باری تعالی 
    اے رب ذوالجلال

اے رب ذوالجلال تیری عظمتوں کے نام
ہر چیز تیرے حکم کے تابع تیری غلام 

 چلتی ہوائیں ہوں کہ ٹہرتی سی سانس  ہو 
ہر پل بتائیں قادر و مطلق کا انصرام

مبہوت عقل رہتی ہے عاجز یہ سوچ کر
کیسے تیرے سوائے چلا پائے انتظام 

 تو نےعطا کیئے ہیں جو شام و سحر ہمیں 
اور پھر دوپہر میں بھی تیرے ذکر کا قیام

ممتاز ہیں یہ رشتے ہمارے سکون کو 
مالک اسی سبب سےہے انساں کا احترام

●●●
کلام: ممتازملک 
مجموعہ کلام:
سراب دنیا 
اشاعت: 2020ء 
●●●

بدھ، 27 جنوری، 2021

● ماں اتنی اہم کیوں؟/ کوٹیشنز


ماں اتنی اہم کیوں؟


جانتے ہیں کسی انسان کے لیئے ماں اتنی
 اہم کیوں ہوتی ہے؟
اس لیئے کہ وہ اسے ہمیشہ یہ احساس دلاتی ہے کہ وہ دنیا کا سب سے اہم اور خاص انسان ہے۔ 
(چھوٹی چھوٹی باتیں)               
(ممتازملک.پیرس )                    

●●●                          
              
            
            

پیر، 25 جنوری، 2021

● (63) کس کے پاس/ اردوشاعری ۔ میرے دل کا قلندر بولے



(63) کس کے پاس 




خدا سے دور ہوتے ہیں تو کس کے پاس ہوتے ہیں 
خدا کے پاس ہوتے ہیں تو کس سے دور ہوتے ہیں 

یہ ہی اب جان لینا ہے یہ ہی سامان کرنا ہے
کہ جس کے پاس جانا ہے اسی کے حکم چلنا ہے

مجھے میرے نبی کی ہی غلامی مستند ٹہری
نہ اسکو چھوڑ کر ہر گز مجھے رستہ بدلنا ہے

اگر روشن ضمیری مجھ کو ملتی ہے مقدر سے
تو نافرمانی کی سیاہی نہیں  اب منہ پہ ملنا ہے

کوئی سورج کسی بھی بام پر پہنچے مگر سچ ہے
کبھی تو شام ہونی ہے کبھی تو اسکو ڈھلنا ہے

مجھے مکڑی کے جالے کی طرح اس نفس نے جکڑا 
کوئی صورت نکالو یانبی  اس سے نکلنا ہے 
●●●
کلام: ممتازملک 
مجموعہ کلام:
میرے دل کا قلندر بولے
اشاعت: 2014ء
●●●

● (61) فصل جلا دے گی/ اردو شاعری ۔ میرے دل کا قلندر بولے


 (61) فصل جلا دے گی



بارش جو آگ کی برسے گی
تیار یہ فصل جلا دے گی 

نہ ہوئی بلند جو جرات سے 
آواز تو دنیا دبا دے گی

جو بات ابھی نہ ہوئی سرزد
اس بات کی تم کو سزا دے گی 

گر ظلم کا ہاتھ نہیں پکڑا 
تو موت کی نیند سلا دے گی

پر سچ کی کوئی آہٹ ہو گی 
زنجیر عدل ہلا دے گی

تو بھیڑ میں گم بھی ہو جائے
تیری خوشبو تیرا پتہ دے گی

ممتاز جو جھوٹ کا حبس ہوا
سکھ جنت کی ہوا دے گی
●●●
کلام:ممتازملک 
مجموعہ کلام: 
 میرے دل کا قلندر بولے
اشاعت: 2014ء 
●●●

اتوار، 24 جنوری، 2021

● دوست ‏سے ‏رشتہ ‏داری/ ‏کوٹیشنز ‏



دوست سے رشتہ داری 

دوستوں سے کبھی رشتہ داری مت کیجیئے۔ کیونکہ رشتے کی سولی پر دوستی کو پھانسی ہو جاتی ہے ۔ 
         (چھوٹی چھوٹی باتیں)
               (ممتازملک.پیرس)



جمعہ، 22 جنوری، 2021

● تارکین ‏وطن کی ‏جائیداد ‏کے ‏لٹیرے/ ‏کالم ‏



   تارکین وطن کی جائیدادوں پر قبضے 
        (تحریر: ممتازملک.پیرس)



حکومت کی جانب سے تارکین وطن کے 
لیئے فاسٹ ٹریک کے نام سے عدالتی نظام وضح کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے ۔ جس کے ذریعے پاکستان میں تارکین وطن کی زمینوں پر ہونے والے قبضے چھڑانے کے لیئے تیس روز کے اندر فیصلہ سازی کو یقینی بنایا جائیگا ۔ یہ قبضے اکثر ان لوگوں کے رشتےداروں یا قبضہ مافیاز کے ذریعے کیئے جاتے ہیں ۔ یا پھر تارکین وطن کی جانب سے جائیدادوں کی فروخت کے لیئے جو بیعانہ وغیرہ لینے کا اختیار کے لیئے مختار نامہ عام دیا جاتا ہے ۔ لیکن افسوس یہی مختار نامہ یا اٹارنی حاصل کرنے والے ہی اس اجازت نامے کو مال مفت دل بیرحم سمجھ کر لوٹنے کا منصوبہ بنا لیتے ہیں۔ کہیں تو وہ ان جائیداوں کو مالک بن کر بیچ ڈالتے ہیں کہیں ان جائیدادوں پر کرائے نامے اپنے نام سے بنوا کر وہ کمائیاں کھانے کا منصوبہ بنا لیتے ہیں اور کہیں وہ انہیں اپنے نام کروا کر مالک بن بیٹھتے ہیں ۔ اور ظلم کی حد تو یہ ہے کہ خصوصی اختیارات میں بھی ان جائیدادوں سے ہونے والی کمائی کا دھیلہ بھی اصل مالک اور تارک وطن تک پہنچنے نہیں دیا جاتا ۔ گویا تارکین وطن وہ گنگا ہے جو ان فراڈیئے قابضین اور دوسروں کے مال پر عیاشی کرنے والے ہڈ حرام پاکستانی عزیزوں رشتے داروں  کے گند دھو دھو کر سیاہ ہو چکی ہے ۔ اس لیئے فاسٹ ٹریک عدالتی نظام جو آجکل اپنی تکمیل اور نفاذ کے آخری مراحل میں ہے تو اس بات پر غور کرتے ہوئے اس کے قوانین بنائے جائیں کہ 
بیشک یہ ایک اچھا اقدام ہو گا لیکن اس فاسٹ ٹریک عدالتی نظام کو صرف زمینوں تک ہی محدود نہ رکھا جائے  بلکہ تارکین وطن کے گھروں اور فلیٹس کے بھی قبضے چھڑائے جائیں ۔ اور مختار نامہ عام دینے کی صورت میں بھی فل اور فائنل فروخت کا حق استعمال کرتے وقت اصل مالک  کو ویڈیو کال کے ذریعے مجسٹریٹ کے سامنے کال پر براہ راست بیان دینے کا پابند کیا جائے  اور تارک وطن مختار نامہ عام یا خاص کال پر مجسٹریٹ کو خود پڑھ کر سنائے اور خود اس کے نام پتہ رابطہ نمبرز بیان کرتے ہوئے اس فروخت کی اجازت دے ۔ ویڈیو کال کی ریکارڈنگ اور سکرین شارٹ کو محفوظ کر کے اس کا عکس اس ڈیل اور مجسٹریٹ کے ریکارڈ کے ساتھ نتھی کیا جائے ۔  تبھی یہ سودا فل اور فائنل ہو اور یہ رقم اصل مالک کے بینک اکاونٹ میں اسی وقت مجسٹریٹ کے سامنے  ٹرانفسر کی جائے اس کے بعد وہ اصل مالک تارک وطن جس کے بھی اکاونٹ میں چاہے 3 روز کے اندر اندر اس رقم کو منتقل کر سکتا ہے ۔ 
اس طرح ہر لمحے اصل مالک تارک وطن اپنی پراپرٹی کی ہر ڈیل میں براہ راست ملوث ہو گا اور بہت زیادہ محفوظ ہو جائے گا ۔ حکومت اس طرح کے مقدمات کو عدالت میں جانے سے روک کر عدالتی  بوجھ کو بھی کم کرنے میں معاون ثابت ہو گی ۔ تارکین وطن میں پاکستان میں زمین جائیداد خریدنے کے رجحان میں  میں تیزی سے کمی آنے کا سبب قابضین کا خوف اور یہی غیر محفوظ کمزور قوانین اور عوامی رویہ ہے جس میں نہ تو ان کی کمائی کو تحفظ حاصل ہے اور نہ ہی گھر بار اور زمینوں کو قبضہ گروپس سے اور رشتےداروں سے ۔ لہذا  ضروری ہے کہ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کا اعتماد بحال کیا جائے اور اس سلسلے میں فوری عملی اقدامات اٹھائے جائیں ۔ بصورت دیگر پاکستانی اپنی گاڑھے خون پسینے کی کمائی پاکستانی ہڈحراموں کے ہاتھوں مزید لٹوانے کو تیار نہیں ہیں ۔ 
                   ●●●

بدھ، 13 جنوری، 2021

● شازملک کی کتاب روح عشق۔ آن لائن پذیرائی


     شازملک کے شعری مجموعہ کلام
 روح عشق کی آن لائن  تقریب پذیرائی اور مشاعرہ
ممتازملک کا تبصرہ اور کلام

1h17mn to 1h25mn 
ممتازملک کا تبصرہ شاز ملک کی شخصیت پر سنیئے۔
2h35mn to 2h43mn
ممتازملک کا کلام سنیئے ۔
https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=4985783554797571&id=100000979260120

جمعہ، 8 جنوری، 2021

● پیسہ اور محبت/ کوٹیشنز


          پیسہ اور محبت

  پیسے کے دم پر بنی محبتوں پر کبھی     اعتبار مت کرنا ۔کیونکہ یہ پیسے کیساتھ     ہی تمہاری زندگی سے رخصت ہو                  جائینگی۔ 
        (چھوٹی چھوٹی باتیں)
              (ممتازملک۔پیرس)
                        ●●●



اتوار، 3 جنوری، 2021

● کسان ‏سے ‏گاہگ ‏تک/ ‏کالم

          

           کسان سے گاہگ تک
            (تحریر:ممتازملک.پیرس)




سال بھر کی یا چھ ماہ کی محنت کے بعد ایک کسان اپنا خون پسینہ ایک کر کے جو فصل اگاتا ہے اسے بڑے بڑے مافیاز کوڑیوں کے بھاو اٹھا کر ان کسانوں کو اس بات پر مجبور کر دیتے ہیں کہ وہ سارا سال عزت سے زندہ رہنے کے بجائے خودکشی کر لیں ۔ ہمارے جنوبی ایشیائی  ممالک میں یہی مافیاز حکومتیں  بناتے بھی ہیں اور حکومتیں چلاتے بھی ہیں ۔ ان پر ہاتھ ڈالنا وہ سوچے جو ان کے ذریعے سے فائدے نہ اٹھا رہا ہو ۔ انہیں ڈاکو مافیاز کے مال پر حکومتیں بنانے والے یہ سوچ بھی کیسے سکتے ہیں ۔ اس لیئے پاکستان میں کسانوں کے حالات آئے روز بد سے بدتر ہوتے چلے گئے ہیں ۔ نتیجہ شہروں کی جانب بڑھتی ہوئی ہجرت ، جب اگانے والے ہی نہ رہیں تو باہر سے مہنگا غلہ خریدنے کے سبب ہوشربا مہنگائی، قابل کاشت رقبے پر مکانات کی تعمیر ، پرانے درختوں کو کاٹ کاٹ کر سیلابی ریلوں کے ساتھ زمینوں کے کٹاو اور آبادیوں کی تباہی ، بے حساب سیلاب  اور بے شمار مسائل کسانوں کی فصلوں کو بروقت اور بہترین قیمت پر نہ اٹھانے کے سبب درپیش آتے ہیں ۔ لیکن ہم سب کانوں میں روئی ٹھونسے ان کے رونے کی آوازوں سے خود کو بےخبر کیئے ہوئے ہیں ۔ ایسے میں جب ہماری حکومتیں بھی ان مافیاز کے ساتھ ساز باز میں شامل ہیں تو بہتر ہو گا کہ کسانوں کو مل کر اپنی تنظیمات بنانی چاہیئیں ۔ جو ان کے مسائل کو تحریری شکل میں لائے ۔ کسانوں کو باقاعدہ رجسٹر کرے انہیں کسان کارڈز دیئے جائیں ۔ جس پر انہیں سستے اور اچھے بیج بروقت ملنے کا انتظام کیا جائے ۔ فصلوں کو بروقت فروخت کرنے کے جدید طریقے اپنائے جائیں ۔ اس سے سب سے پہلے تو ہر کسان کے گھرانے کے ہر فرد کو کام مل سکتا ہے ۔ بجائے اپنی سبزیاں چاول گنا مکئی جوار اور دیگر فصلوں کو حکومتی لٹیرے کارندوں کو بیچنے کے بجائے خود سے ان کی فروخت کے لیئے بازار اور میلے لگائیں ۔ تازہ مال کو خشک کرنے کے مختصر کورسز کیجیئے اور باقی لوگوں کو بھی تربیت دیجیئے تاکہ تازہ فصل بکنے کے بعد بچنے والی فصل کو بڑے بڑے دالانوں، میدانوں  یا اپنے گھروں کی چھتوں پر خشک کرنے کا انتظام کیا جا سکے ۔ ان خشک سبزیوں کو اچھی طرح  پلاسٹک پیکنگ میں محفوظ کرنے کا طریقہ سیکھ کر سارا سال یہ سبزیاں بیچی جا سکتی ہیں اس سے کسان اور گاہگ کے بیچ آنے والے بہت سے ایجنٹس کی جیبوں میں جانے والا ناجائز اور ہوشربا منافع کسان اور گاہک ہی کی جیب میں محفوظ ہو جائے گا ۔ کسانوں کی مختلف گروھ مل کر ان کی فروخت کے لیئے مخصوص بازاروں میں سٹال اور میلے لگا سکتے ہیں ۔ 
ملکی ضروریات کے علاوہ یہی فاضل فصلیں سکھا کر اور جما (فریز) کر کے بیرون ملک بہترین منڈیاں حاصل کی جا سکتی ہیں ۔ جس کا منافع براہ راست ہمارے کسانوں کی جیبوں میں جائے گا اور ملکی ترقی میں اہم کردر ادا کرے گا ۔ اور لوگ اس منافع کو دیکھتے ہوئے کبھی بھی اپنے علاقے چھوڑ کر پیشہ بدلنے اور زمینیں بیچنے کا نہیں سوچیں گے ۔ اگر شہروں جیسی سہولیات جیسے عبادتگاہیں ، پانی بجلی، گیس ، اچھے سکولز، کالجز، ہسپتال ، پکی گلیاں سڑکیں ریسٹورینٹ، شاپنگ اور فوڈ پوائنٹ  انہیں اپنے ہی قصبے اور گاوں میں مل جائیں تو وہاں کی صاف ستھری فضا چھوڑ کر کوئی آلودہ اور  پرشور شہروں کی جانب رخ نہیں کرے گا اور اوپر بیان کی گئی تمام پریشانیاں اور شہروں پر بڑھتا ہوا آبادی کا بوجھ وسائل کی کمی کا رونا خود بخود یہ سلسلہ رک جائے گا ۔ آخر ترقی یافتہ ممالک میں دیہاتوں  سے شہروں کی جانب ہجرت کیوں نہیں کی جاتی ۔ انہیں سہولتوں کے سبب ۔ یاد رکھیئے خوشحال کسان ہی کسی ملک کی زراعت کی ترقی کی علامت ہوتا ہے ۔ 
                          ●●●
        

* ● امید ‏روشن/ اردو ‏شاعری ۔ اور وہ چلا گیا ‏

امید روشن 
کلام: ممتازملک.پیرس 

امید روشن
کلام:(ممتازملک ۔پیرس)

تجھ سے امید روشن ہماری رہے 
نہ کہ اب کہ برس بیقراری رہے 

نہ جدائی کسی کا مقدر بنے 
ایسی لہجوں میں اب انکساری رہے

اتنی مضبوط ہو حق کی آواز کہ
تیری میری نہ ہو  اب ہماری رہے 

نہ مصائب سے ڈرنا یہ طے ہو گیا
مشکلوں سے لڑائی یہ جاری رہے

سوچ کر دل پہ رکھنا ہے ایسا قدم
وار ہر اک عدو پر جو کاری رہے 

راگ کردار و گفتار کا چھیڑ کر 
وجد ممتاز روحوں پہ طاری رہے

●●●

● غور کیجیئے/ کوٹیشنز ۔ چھوٹی چھوٹی باتیں






غور کیجیئے

ہماری اردو زبان کو ہماری  سبھی معروف شخصیات کو درست کرنے کی ضرورت ہے۔ 
غور کیجیئے کہ اپنی قومی زبان کا اکثر مذاق ہماری اردو بولنے کی دعویدار کمیونٹی ہی بناتی ہے سو پلیز اس کی تصحیح کیجیئے۔ جیسے
جذبہ + جذبات
لفظ +الفاظ 
خیال + خیالات
کمال + کمالات
حال + حالات
تصویر + تصاویر
ایسے ہی بیشمار الفاظ کا قتل مت کیجیئے ۔ سو سیکھنے کی اور اسے استعمال میں 
درست طریقے سے لانے کی عادت  اپنائیے۔ 
     (چھوٹی چھوٹی باتیں)
    (ممتازملک۔پیرس)

●●●●●●


جمعہ، 1 جنوری، 2021

● مہاجری انسائیکلوپیڈیا - 2.


       2018ء میں مہاجری انسائیکلوپیڈیا کے لیئے دیا گیا تعارف ۔ جو ورلڈ اردو ایسوسیشن کے روح رواں پروفیسر خواجہ اکرام الدین کو ارسال کیا گیا ۔ 
                           ۔۔۔۔۔


تصانیف / تخلیقات - 3
دو شعری مجموعے 
1- مدت ہوئی عورت ہوئے (2011ء)
2- میرے دل کا قلندر بولے  (2014ء)
ایک مجموعہ برائے مضامین 
1- سچ تو یہ ہے (2016ء )
* پسندیدہ مضمون, غزل, نظم, نعت, افسانہ, انشائیہ, خاکہ 
میں اس وقت جن مضامین پر کام کر   رہی ہوں وہ سبھی میرے پسندیدہ بھی ہیں.  جن میں غزل, نظم, نعت, کالمز, افسانے, مختصر تحریریں معقولے  وغیرہ شامل ہیں.  

غزل کا نمونہ پیش خدمت ہے :


تیرادل میرا گھر
تیرے دل کے راستے میں میرا گھر کہیں نہیں تھا
جو تجھے عزیز ہوتا وہ ہنر کہیں نہیں تھا 

تجھے ڈھونڈنے نکلتے کسی روز پا ہی لیتے
مگر ان ہتھیلیوں میں وہ سفر کہیں نہیں تھا
  
یوں تو وقت ہے مقرر کسی کام کا مگر کیوں
میری روح کو شاد کرتا وہ گجر کہیں نہیں تھا 

نہ ہی دلنواز ادائیں نہ ہی شوق جاں سوزی
میرے دل کا یہ مسافر کہیں دربدر نہیں تھا 

میں ہوں خوش گمان ورنہ مجھے سوچنا تھا لازم
میرے جانے سے اُجڑتا وہ شہر کہیں نہیں تھا

نہ تو جسم کی طلب ہے نہ ہی حسن کی تمنا
یہ معیار نہ تھا میرا میں بھی منتظر نہیں تھا 

مجھے ہے تلاش اس کی جو ہے قدرتوں سے باہر
مجھے اس سے اور بہتر کوئ چارہ گر نہیں تھا 

میری ساری آرزوئیں ممتاز پوچھتی ہیں
تُو یہ کیسے کہہ سکے گاتیرا راہبر نہیں تھا
(کلام / ممتازملک .ہیرس)
مجموعہ کلام /میرے دل کا قلندر بولے
                     ..............                   
  

بدھ، 30 دسمبر، 2020

* ● اے سال 2020 / اردو شاعری۔ اور وہ چلا گیا ‏


یہ سال 2020ء
کلام/ ممتازملک.پیرس 



کتنے پیاروں سے بچھڑنے کے دیئے ہیں صدمے 
آنسووں میں تو ہمیں یاد رہیگا اے سال 

درد ہی درد رہا رنج و الم سے پر تھا 
کیا بھلا اپنی صفائی میں کہے گا اے سال

جب بھی اپنا کوئی ہم کو نہ دکھائی دیگا  
آنکھ سے اشک کے جیسے تو بہے گا یہ سال

ڈوبتے وقت کی سرخی وہ ٹہرتی نبضیں
ساتھ سورج کے میرا دل بھی سہےگا اے سال 

یہ جہاں یوں بھی مکمل ہے تیرے میرے بنا
  ہمکو ممتاز سکھا کر ہی رہیگا اے سال   

      ●●●

منگل، 29 دسمبر، 2020

■ ● (54) بیوپار/ پنجابی کلام ۔ میرے میرے دل کا قلندر بولے ۔ او جھلیا



(54) بیوپار



اک تصویر دی مار نے لوکی
کر دے کی بیوپار نے لوکی

سوہڑیاں رناں کار بیٹھا کے
کوجیاں دے ہوڑں یار اے لوکی

اک پل نوں جے ساہ رُک جاوے
فیر پھلاں دے ہار نے لوکی

کمزوراں نوں زور وکھاوڑں
زور آور اگے ہار دے لوکی

سامڑیں آ کے جپھیاں پاوڑں
بچھوں خنجر مار دے لوکی

دھیاں والے جاڑندے نے اے
کیوں ہوندے لاچار نے لوکی

سچ بولن جے ودے کوئی
طعنے لکھ لکھ مار دے لوکی

حوصلہ مند نوں اگے کر کے
کلیاں سولی چاڑھدے لوکی

چنگا قدم اُٹھاون دے لئی
ممتاز کرن تکرار اے لوکی
●●●
کلام: مُمّتازملک
مجموعہ کلام:
میرے دل کا قلندر بولے 
اشاعت:2014ء
 ۔   ●●●                         

پیر، 28 دسمبر، 2020

● ایمانداری ‏/ ‏کوٹیشنز ‏


ایمانداری انسان کو کبھی نیچے نہیں گرنے دیتی ۔ نہ نظروں سے نہ مقام سے ۔ 
ہمیشہ سربلند رکھتی ہے ۔ 
(چھوٹی چھوٹی باتیں)
(ممتازملک۔پیرس)

جمعہ، 25 دسمبر، 2020

● جناح سے قائد تک اسوہ حسنہ و نظریہ پاکستان / کالم




جناح سے قائد اعظم تک
 نظریہ پاکستان 
تحریر: ممتازملک.پیرس



پاکستان کی تخلیق ایک خواب تھی تو پاکستان کا بانی بھی کسی طلسماتی شخصیت سے کم نہ تھا ۔ انگریزی بولتا تھا انگریزی سوٹ پہن کر جوان ہوا ۔ لیکن دل میں عشق محمدی صلی اللہ علیہ وسلم  کی ایسی تڑپ رکھتا تھا کہ سوچنا شروع کیا تو اپنے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے افکار کو سینے سے لگا لیا ۔ پھر چاہے سولہ برس کا جناح برطانیہ کی یونیورسٹی میں داخلہ لیتے وقت اس کے ماتھے پر لکھا اسم محمد ص ع و  دیکھ کر اپنے قدم وہیں جما لیتا ہے تو بھلے یورپ کی چکاچوند میں اپنے کردار کی حفاظت کرتا ہوا، ہر وقتی مفاد سے دامن بچاتا ہوا، ہر منافقت سے الگ تھلگ رہ کر اپنے تقوی کا حقیقی امتحان دیکر یہ ثابت کرتا ہوا نظر آتا ہے کہ انسان کا لباس کیا ہو،  سے زیادہ کتنا مہذب ہو ، مکمل ہو یہ ضروری ہے اور اس کے کردار کی پاکیزگی اسے ہر حال میں مدنظر رکھنی چاہیئے ۔ 
محمد علی جناح سے قائد اعظم بننے کے سفر کے دوران ہر قدم پر اسوہ حسنہ کو اپنے فرمودات، نکات،  گفتار و کردار کا لازمی حصہ بنائے رکھا۔ 
مثلا سادہ الفاظ میں بیان کریں تو نظریہ پاکستان پیش کرنے والے کی اپنی زندگی  ایمان داری، امانت داری ، خودداری ، حیاداری، کردار کی پاکیزگی کی اعلی مثال تھی۔  پاکستان کا حصول اس لیئے کہ یہاں مسلمان اپنی مذہبی آزادی کیساتھ اور اقلیتیں اپنے عقائد کے مطابق محفوظ اور آذاد زندگی گزار سکیں ۔ جہاں قانون سب کے لیئے یکساں ہو۔ تمام صوبوں کو ان کی ضرورت کے حساب سے آسانیاں حاصل ہوں ۔ پاکستانی ہونا سب سے بڑی قومیت ہو اور ہر ایک کے لیئے قابل فخر ہو ۔ بنیادی انسانی حقوق کا احترام ہو ۔ میرٹ کی بنیاد پر روزگار اور عہدوں کی تقسیم ہو ۔ انصاف ہر ایک کی دسترس میں ہو ۔ معاشی طور پر کوئی طبقہ کسی دوسرے کے حقوق کو پامال نہ کر سکے ۔ مذہب کی بنیاد پر کسی کو شرانگیزی پھیلانے کی اجازت نہ ہو۔ ادارے خود کو عوام کا ملازم سمجھیں ۔ قومی خزانہ کسی کی ذاتی ملکیت نہ ہو ۔ وطن کی ترقی اور خوشحالی ہر پاکستانی کی زندگی کا مشن  ہو۔ 
سبھی علاقائی زبانوں کو ان کے علاقوں میں احترام ملے اور اردو ہماری قومی زبان ہو۔ دنیا میں ہم باوقار قوموں میں شمار کیئے جائیں ۔ آج ہم قائد کے اسی نظریئے کی گرد کو بھی نہیں پہنچ سکے ۔ ہماری بدنیتیاں ، ہوس زر ، کردار کی کمزوری نے آج ہمیں اس نظریے سے چوہتر سال کی دوری پر لا کھڑا کیا ہے ۔ اپنا اپنا احساب ہمیں خود کرنا ہو گا  اپنے اللہ کے سامنے  خود کو  جوابدہ مانتے ہوئے۔
قائد کے حسین خواب کو تعبیر میں ڈھالنا ہم پر قائد کی جانب سے فرض ہے ۔ یہ وہی قائد ہے جنہیں ہمارے اجداد نے سچ کی آواز سمجھ کر گواہی دی تھی کہ یہ جو کہتا ہے سچ کہتا ہے اس لیئے دنیا کو دکھا دو کہ تن من دھن یعنی جان مال آبرو آل اولاد ہر شے کو ایک ارادے کے  لیئے قربان کرنا کیسا ہوتا ہے ۔ اس اعتبار نے دنیا میں ہجرت اور قربانیوں کی  تاریخ رقم کر دی ۔ ایک ایسے تاریخ جس پر  آج تک وہ لوگ شرمندہ ہیں جو اس وقت اس آواز پر لبیک کہنے کی جرات نہ کر سکے اور آج ہر قدم پر انہیں "بابا جی ٹھیک کہتے تھے" کہہ کر اشک بہاتے ہیں۔ دو قومی نظریہ کا مذاق اڑانے والے آج قائد کے پیغام کو یاد کر کے اپنی زخم چاٹنے پر مجبور ہیں کہ آج کے بعد بھارت میں رہنے والا ہر مسلمان  ہر روز ہندووں کو اپنی وفاداری کا یقین دلاتے دلاتے مر جائے گا  اور  وقت نے ثابت کیا کہ محمد علی جناح کا قائد اعظم تک کا سفر ہر لمحہ ہر گھڑی اور لفظ لفظ ایک باکردار اور سچے رہنما کا سفر تھا ۔ آج تک دنیا کا کوئی دوست یا دشمن جس کے کردار میں چاہ کر بھی کوئی کمی کوئی برائی تلاش نہ کر سکا ۔ 
     اے قائد اعظم تیرے مشکور رہینگے 
دل تیری محبت سے یہ معمور رہینگے


ہم آج بھی تیرے دیئے اسباق کو لیکر
کرتے ہیں چراغاں رہ عشاق کو لیکر 
دل لے کے ہتھیلی پہ یہ منصور رہینگے 
اے قائد اعظم تیرے مشکور رہینگے 
                          ●●●

منگل، 22 دسمبر، 2020

● (41) دنیا تیرے کتنے رنگ/ اردو شاعری ۔ میرے دل کا قلندر بولے


(41) دنیا تیرے کتنے رنگ
 


دنیا کتنے رنگ بدل کر میرے سامنے آئے گی
اور تو کتنے دھوکے دیگی کتنے ناچ نچائے گی

نہ تجھ میں تہذیب کہیں ہے نہ تیرا ایمان کوئی 
جو تیرا اعتبار کریگا اسکو جل دیجائے گی

دل پر ایسا وار کریگی دل کے ٹکڑے چار کریگی 
روشن آنکھ اور سنتے کان میں کتنا زہر ٹپکائے گی

جو بھی تیرے پیچھے آیا رسوا ہوا بدنام ہوا 
جتنا تجھ سے دور میں بھاگوں اتنا پیچھے آئے گی

اپنے اپنے ظرف کے جیسا سب کا تیرے ساتھ رویہ
لیکن تو تو اک لاٹھی سے سب کو ہانکے جائے گی

تجھ سے تو ممتاز کی راہیں کبھی بھی مل نہ پائیں گی
تجھ میں ہے گر رتی غیرت منہ نہ مجھے دکھلائے گی 
●●●
کلام: ممتازملک 
مجموعہ کلام: میرے دل کا قلندر بولے اشاعت: 2014ء
●●●

● (23) حساب/ اردو شاعری ۔ میرے دل کا قلندر بولے


(23) حساب  



عورت کیساتھ ظلم کیوں یہ بے حساب ہے
اس ظلم پہ لکھی ہوئی کوئی کتاب ہے

ہر بار ایک چوٹ نئی منتظر رہی
اسکے کسی سوال کا کوئی جواب ہے

ہر بار چھری اسکے کلیجے پہ چلی ہے
ہر بار اسی کے واسطے بنتا نصاب ہے 

لہجہ بدل بدل کے ملیں سب کی دھمکیاں 
جھگڑا کوئی بھی ہو وہی وجہ خطاب ہے 

جس نے کیا خراب اسی کا بیاں ہے کہ 
عورت کے واسطے یہ زمانہ خراب ہے 

کتنے نقاب وقت کے چہرے پہ ڈال دو
ممتاز موضوع پردوں میں یہ بے نقاب ہے 
●●●
کلام: ممتازملک
مجموعہ کلام:
میرے دل کا قلندر بولے 
اشاعت:2014ء
●●●

بدھ، 16 دسمبر، 2020

● ◇ ہر ماں کو پرسہ/ نظم ۔ جا میں نے تجھے آزاد کیا


ہمارا پرسہ ہر ایک ماں کو 



کیا ہو گا وہاں عالم
 جب پھولوں نے پھولوں کو 
پھولوں کے جنازوں پر
ہر سمت بچھے دیکھا 
کیا ہو گا وہاں عالم
جب دل نے وہاں دل کے 
ٹکڑوں کو کٹے دیکھا  
کیا ہو گا وہاں عالم جب 
اشکوں نے آنکھوں کو 
خوں رنگ سنے دیکھا
دل رک سا گیا ہو گا 
دم سادھ لیا ہو گا 
لاشہ جو پڑے دیکھا
مجبور وہاں ہر اک 
دلسوز جگر لیکر 
پیارے کو کھڑے دیکھا  
😪😪😪😪
(کلام:ممتازملک ۔پیرس)

ہفتہ، 12 دسمبر، 2020

● متفرق اعزازت/ اعزازت


ممتاز ملک کو ملنے والے متفرق اعزازت و اسناد











نزم صدائے وطن ایوارڈ ، سند و میڈل
۔۔۔۔۔



دیار خان فاونڈیشن ء۔2019 دسمبر12
۔۔۔۔۔۔۔

  روزنامہ مناقب 
25
 دسمبر 2020ء
۔۔۔۔۔



● اردو ادب کا سفر / شعری مقابلے۔ اعزازات


فیس بک کے ادبی گروپ 
                "اردو ادب کا سفر "
میں وقتا فوقتا ہونے میں شعری مقابلے میں حاصل پوزیشنز۔ ممتازملک.پیرس 




















● تعمیر نو گروپ / اسناد ۔ اعزازات



اسناد گروپ تعمیر نو 

اصلاحی کہانی برائے اطفال



مضمون برائےحرمت رسول صلی اللہ علیہ وسلم 



مضمون برائے اقبال کا تصور عشق
●●●



جمعہ، 11 دسمبر، 2020

● [47] ڈور / اردو شاعری ۔ مدت ہوئی عورت ہوئے





[47]  ڈور  



رشتے نبھا رہی ہوں
rishte nibha rahi hoon
ریشم کی ڈور بُن کر
resham ki door bun kr
ہاتھوں میں زخم پاۓ
hathoon mein zakhm epay
کانٹوں سے پھول چُن کر
kantoon se phool chun kr
کوئ کہاں جیا ہے
koi khan jia hai
دنیا کی بات سُن کر
dunya ki bat sun kr
اپنا جہاں بسا لے
apna jahan basa le
اپنے ہی سر کو دُھن کر
apne hi sr ko dhun kr
ممّتاز مانگ رب سے
Mumtaz mang rab se
اس کے ہی گایا گُن کر
os k hi gaya gun kr
●●●
کلام: ممتازملک.پیرس 
مجموعہ کلام:
مدت ہوئی عورت ہوئے 
اشاعت: 2011ء
●●●

 

جمعہ، 27 نومبر، 2020

● اردو ‏رائیٹرز فیسٹیول ‏۔ ‏برلن ‏جرمنی ‏/ ‏رپورٹ


جرمنی کے دارالحکومت برلن سے ریڈیو آواز ادب نے سجایا یورپیئن اردو رائٹرز فیسٹول 
رپورٹ: عشرت معین سیما 
              (برلن جرمنی)




۱۷-۱۸اکتوبر ۲۰۲۰  کوریڈیو آواز ادب برلن اور عالمی افسانہ فورم کے زیر اہتمام دو روزہ یورپئن اردورائٹرز فیسٹول منایا گیا ۔یورپی سطح پر اس دو روزہ پورپین اردو رائٹرز فیسٹول میں یورپ کے دس سے زائد ممالک کے مصنفین، شعراء اور صحافی حضرات نے حصہ لیا اور اپنی تخلیقات و نگارشات پیش کرنے کے ساتھ ساتھ اردو زبان کی اپنے ممالک میں موجودہ صورتحال اور ادب کا جائزہ پیش کیا اور اردو ادب و زبان کے فروغ کے لیے متحدہ طور پر اپنی کوششوں اور سرگرمیوں کو مذید بڑھانے کا ارادہ ظاہر کیا۔
یورپ میں اردو زبان و ادب کی جدید بستیوں میں جرمنی کی سرزمین ایک اہم اردو بستی کے طور پر سامنے ابھر کر سامنے آرہی ہے۔ گذشتہ دنوں برلن میں پہلے ادبی ریڈیو کا باقائدہ آغاز کیا گیا ہے۔  جس کے تحت عالمی افسانہ فورم جرمنی اورروزنامہ نیا نظریہ بھوپال کے تعاون سے پہلا دو روزہ یورپین اردو رائٹرز فیسٹول آن لائین  نہایت کامیابی سے منایا گیا ۔ اس فیسٹول  میں جرمنی و انگلینڈ سمیت یورپ کے دس سے زائد ممالک کے اردو شعراء، ادباء، اساتذہ اور محقیقین نے شرکت کی۔ اس فیسٹول میں مجموعی طور پر یورپ میں اردو کی صورتحال کا جائزہ لیا گیا اور اردو زبان و ادب کو پیش آنے والے مسائل کی نشاندہی کی گئی اور ان کے حل کے لیے تجاویز وگفتگو کی گئی ۔یہ دو روزہ ادبی میلہ تین اہم نشستوں پر مبنی تھا جس میں پہلی نشست میں یورپی ممالک کے اردو زبان کے مفکرین و دانشوروں نے اپنے ممالک میں اردو کی صورتحال کے حوالے سے اپنے مقالے پیش کئے۔ اس افتتاحی نشست کی صدا رات ڈنمارک کے معروف ادیب و شاعر اور مترجم جناب قیصر ملک نے کی جب کہ نظامت کی ذمہ داری برلن سے ڈاکٹر عشرت معین سیما نے ادا کی ۔ 
پروگرام کے آغاز سے قبل ریڈیو آواز ادب برلن کے سربراہ سید انور ظہیر رہبر نے اپنے افتتاحی خطبے میں بتایا کہ یورپئن اردو رائٹرز فیسٹول کا بنیادی مقصد اردو زبان و ادب کی ترویج اور نسل نو کو اردو زبان کی ثقافت و تہذیب سےمتعارف کروانا  اور یورپ میں اجتماعی طور پر اردو زبان و ادب کی صورتحال جاننا اور اردو کو پیش آنے والے مسائل کی نشاندھی اور اس حل تلاش کرنے کی جانب اجتماعی طور پر متحرک ہونا ہے۔اس ادبی میلے کے اغراض و مقاصد بیان کرنے کے بعد جرمنی میں پیدا ہونے اور اردو زبان سیکھنے والی نسل نو کی جانب سے ایک تہنیتی ویڈیو پیغام پیش کیا گیا جہاں اردو سیکھنے والے طلبہ و طالبات نے اردو کو محبت و امن کی زبان قرار دیتے ہوئے ریڈیو آواز ادب برلن کی جانب سے منعقد کردہ دو روزہ یورپیئن اردو رائٹرز فیسٹول کے لیے نیک خواہشات کا اظہار اور مبارکباد پیش کی۔
بعد ازاں پروگرام کا باقائدہ آغاز کرتے ہوئے جناب نصر ملک ڈنمارک کی صدارت میں میزبان ملک جرمنی سے ادب و زبان کی صورتحال کا ایک جائزہ عشرت معین سیما نے پیش کیا۔ عشرت معین سیما اس حوالے سے اپنی ایک کتاب “ جرمنی میں اردو تاریخی و لسانی زاویے اور سماجی رابطے” کے عنوان سے تحریر کر چکی ہیں۔ اس کے بعد انگلینڈ سے معروف شاعرہ ،  مضمون نویس اور براڈ کاسٹر و اینکر پرسن فرزانہ خان نینا نے اپنا مقالہ بہ عنوان “ برطانیہ اُردو ادب کی ایک بستی ، بیلجئم سے معروف صحافی اور مقبول شاعر عمران ثاقب چودھری نے اپنا مقالہ زبانِ اردو یورپیئن پارلیمنٹ کے آس پاس، اسپین سے جناب ارشد نظیر ساحل نے اپنا مقالہ “ اسپین میں زبانِ اُردو کی بہاریں ، فرانس سے معروف میڈیا پرسن اور شاعرہ محترمہ ممتاز ملک نے اپنا مقالہ با عنوان فرانس میں اردو زبان سے محبت ، اٹلی سے معروف ادیب و شاعر جناب جیم فے غوری نے اپنا مقالہ اٹلی میں اردو ایک جائزہ ، سوئیزرلینڈ سے معروف افسانہ نگار شاہین کاظمی نے اپنا مقالہ “ سر زمین جنت سوئیزرلینڈ میں اردو، سوئیڈن سے ممتاز ادیب ڈاکٹر عارف کسانہ نے سوئیڈن میں اردو، فن لینڈ سے معروف ادیب ارشد فاروق  نے اپنا مقالہ “ فن لینڈ میں بھی پہچانی جاتی ہے اردو” ڈنمارک سے جناب نصر ملک صاحب نے ڈنمارک میں اردو زبان کی آبیاری “ پیش کئے اور اپنے اپنے ممالک میں اردو زبان و ادب کا جائزہ لیتے ہوئے اپنے تفصیلی صورتحال سے آگاہ کیا اور زبان اردو کو  پیش آنے والے مسائل اور ان کے حل کی جانب توجہ دلائی۔ اس نشست میں جرمنی سے عالمی افسانہ فورم کے بانی وحید قمر اورروزنامہ  نیا نظریہ کے ڈائریکٹر چیف ڈاکٹر نظر محمود نے بھی شرکت کی۔ 
 یورپیئن اردو رائٹرز فیسٹول کی دوسری نشست اردو افسانے سے متعلق تھی جس میں یورپ اور خاص طور پر جرمنی کے افسانہ نگاروں کے بہترین اردو افسانے اور تراجم پیش کئے گئے۔ افسانے کی نشست “ آئیے افسانہ سنیں” کی صدارت سوئزرلینڈ سے معروف افسانہ نگار محترمہ شاہین کاظمی نے کی جب کہ نظامت کے لیے زبان اردو کے ثقافتی شہرکراچی کی نہایت عمدہ منتظم فاطمہ بنت علی موجود تھیں جن کی بہترین نظامت نے اس پروگرام کا وقار مذید بڑھایا۔اس نشست میں جرمنی میں مقیم افسانہ نگاروں نے اپنے افسانے پیش کئے۔ جن جرمنی کے افسانہ نگاروں نے اس میں حصہ لیا ان کے نام اور افسانوں کے عنوانات مندرجہ ذیل ہیں۔
جناب عامر عزیز: آؤ رقص کریں 
جناب سرور غزالی: لمبارڈی
محترمہ ہما فلک: امیج 
جناب انور ظہیر رہبر: بند مٹھی
محترمہ عشرت معین سیما : پہاڑ ہل گیا معروف جرمن افسانہ نگار زبینے پاہلر کے افسانے سے ترجمہ
محترمہ شاہین کاظمی : چمبے دی بوٹی 
افسانے کی یہ نشست دو گھنٹے جاری رہی جس میں نہایت پر فکر اور عصری موضوعات کے حوالے سے سنجیدہ اور بہترین افسانے پیش کئے گئے۔ 
اس دو روزہ ادبی میلے کی آخری نشست اٹھارہ اکتوبر کو یورپی وقت کے مطابق شام چار بجے اردو مشاعرے سے شروع ہوئی اور اپنے مقررہ وقت پر اختتام پزیر ہوئی ۔ اس مشاعرے کی صدارت یورپ اور اردو زبان کے معروف شاعر، مدرس اور ادیب جناب باصر سلطان کاظمی نے کی جب کہ اس مشاعرے کی نہایت عمدہ نظامت تہذیب اردو کے پالن ہار شہر لکھنو سے ڈاکٹر عشرت ناہید نے انجام دی اور مشاعرے کو آغاز سے اختتام تک دلچسپ بنائے رکھا ۔ مشاعرے میں جرمنی کے شہر فرینکفرٹ سے جناب طاہر عدیم ، برلن سے جناب انور ظہیر رہبر اور محترمہ عشرت معین سیما ، انگلینڈ سے جناب باصر کاظمی اور جناب سہیل ضرار، بیلجئم سے جناب عمران ثاقب چودھری ، اسپین سے محترم ارشد نظیر ساحل، فرانس سے محترم عاکف غنی، اٹلی سے جناب جیم فے غوری، ڈنمارک سے عدیل احمد آسی اور بزرگ شاعر محترم نصر ملک نے شرکت کی۔ 
یورپی سطح پر شعراء و شاعرات کی تعداد خاصی مستحکم ہے تمام شعراء کو اس فیسٹول کے مشاعرے میں شامل نہیں کیا گیا تھا کیونکہ یہ پروگرام براہ راست ریڈیو آواز ادب برلن سے اور دیگر سوشل میڈیا کے زریعے پیش کیا جارہا تھا اور معینہ وقت کے مطابق پروگرام کا آغاز و اختتام لازمی تھا۔اس پورے ادبی میلے کو  دنیا بھر کے ناظرین و سامعین نے یو ٹیوب  اور فیس بک پر بھی دیکھا اور اپنی پسندیدگی کا اظہار کیا۔ اس مشاعرے میں تمام شعراء نے اپنا بہترین کلام پیش کیا جسے سراہتے ہوئے صدر مشاعرہ باصر کاظمی نے یورپ سے ہونے والے شاعری کی ایک بہترین مثال قرار دیا اور اپنے صدارتی خطبے میں تمام شعراء کی پیش کردہ شاعری کو عہد حاضر اور یورپ کے شعراء کا ایک نہایت عمدہ اوربے مثال خزینہ گردانا۔
آخر میں اس ادبی میلے کے منتظم سید انور ظہیر نے تمام شرکاء کا خصوصی شکریہ ادا کیا اور بتایا کہ ریڈیو آواز ادب برلن کے زیر اہتمام منعقد کئے جانے والا یہ دو روزہ یورپیئن اردو رائٹرز فیسٹول ۲۰۲۰ سترہ اور اٹھارہ اکتوبر کو برلن سے کرونا کی یورپ میں بگڑتی صورتحال کے تناظر میں آن لائین منایا گیا۔ جب کہ اس پروگرام کو فیزیکلی طور پر برلن میں منعقد کرنے کی تیاری گذشتہ سال سے جاری تھی۔ انہوں نے دیگر شرکاء کے ساتھ اس موقع پر اس بات کا عہد بھی کیا کہ اردو زبان و ادب کی آبیاری اور حفاظت کے لیے یورپ کے ادیب، شعراء اور اساتذہ اپنے فرائض کی ادائیگی میں کوئی کسر نہیں چھوڑیں گے اور یورپی یونین کے اتحاد کی طرح اردو زبان و ادب کے اتحاد کو بھی ایک مثال بنا کر اردو زبان و ادب کو عالمی زبان میں ایک اعلیٰ و ارفع مقام دلوانے کی بھر پور کوشش جاری رکھیں گے۔ پروگرام کے آخری حصے میں کراچی اور لکھنو ء سے کی جانے والی نظامت کا شکریہ  ریڈیو آواز ادب برلن  کی جانب سے کیا گیا اور میڈیا پارٹنر نیا نظریہ کے چیف ایڈیٹر ڈاکٹر نظر محمود صاحب کا تہنیی پیغام پڑھ کر سنایا گیا۔ یہ ادبی میلہ اپنے طے شدہ پروگرام کے مطابق دو دن جاری رہا اور دنیا بھر کے سامعین و ناظرین نے اس کو براہ راست سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ کے دیگر زرائع کے توسط سے دیکھا اورسن کر اپنی پسندیدگی کا برملہ اظہار کیا۔ اس ادبی میلے کے مشاعر ے میں شریک شعراء کے کلام مندرجہ ذیل ہیں۔

عدیل احمد عاسی : ڈنمارک
کس گھڑی اب مرے  سینے میں رہا کرتا ہے
دل  تو  ہر  وقت  مدینے   میں  رہا  کرتا  ہے 

ارشد نظیر ساحل : اسپین
اگر توحید کے قائل سب ہی  ہوجائیں  دنیا  میں
میں اکثر سوچتا ہوں ان صنم خانوں کا کیا ہوگا

عشرت معین سیما : جرمنی 
یادِ رفتہ کا خزانہ مجھے بھاری ہے بہت
حافظے  کی نئی زنبیل  کہاں ممکن ہے 

عاکف غنی : فرانس
ایک قطرہ بھی مسرت کا نہیں ملتا ہے
غم  و اندوہ  سے  لبریز  ہے  کوزہ  میرا

طاہر عدیم : جرمنی 
مرے قاتل بھی مرے حق میں گواہی دیں گے
میں  نہ   تڑپا   نہ   ذرا  سا    بھی  کراہا    شاہا!

عمران ثاقب چودھری: بیلجئم
تیرے ہونٹوں سے ادا ہوکے نکھر جاتے ہیں
تو   ہے   اشعار   کی     تاثیر    بدلنے     والا  

سرور غزالی : جرمنی 
وبا کے   درمیاں کوئی  نہ اپنا  منہ   کھولے
سلے نقاب میں لب ، اب نہ کوئی کچھ بولے

سہیل ضرار : انگلینڈ
میری یادیں سنبھال رکھئے گا 
اتنا  رشتہ   بحال  رکھئے   گا

نصر ملک : ڈنمارک
روزِ غم  سے  جناب ہوگئی ہے
اب کے برکھا عذاب ہوگئی ہے

انور ظہیر رہبر : جرمنی 
پتھر کے ہو چلے ہیں مرے ہاتھ اے خدا
لاتی ہے کب اثر  وہ  دعا  دیکھ  رہا  ہوں 

باصر کاظمی: انگلینڈ
خموش بیٹھے ہو کب سے “ کرونا “ بات کوئی
یہ بات سُن کے  وہ  کچھ  اور   دور  جا  بیٹھا

شاعری / /مدت ہوئ عورت ہوۓ/ ممتاز قلم / سچ تو یہ ہے/ اے شہہ محترم/ سراب دنیا/ نظمیں/ پنجابی کلام/