ممتازملک ۔ پیرس

ممتازملک ۔ پیرس
تصانیف : ممتازملک

اتوار، 20 ستمبر، 2020

● اپنے ‏دل ‏کا ‏حال/ ‏کوٹیشنز ‏




     اپنے دل کا حال 



اللہ سے اپنے دل کا احوال کہہ کے دیکھ
کسی اور سے دکھ بیان کرنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں ہو گی ۔ 
            (چھوٹی چھوٹی باتیں) 
                   (ممتازملک.پیرس)

پیر، 14 ستمبر، 2020

● جیت/ کوٹیشنز



     جیت
کردار کی جیت ہی انسان کی اصل خوبصورتی ہے 
لیکن
کردار کے جیتنے تک
 اکثر 
حسن کی موت ہو چکی ہوتی ہے ۔۔۔ 😬
       ( چھوٹی چھوٹی باتیں)
              (ممتازملک.پیرس)

● ‏وراثت کے ڈاکو / کالم




         وراثت کے ڈاکو
       (تحریر:ممتازملک.پیرس)



جسے کہو کہ بھائی اولاد کم پیدا کرو اس کی تربیت کرنی پڑتی ہے تو جوابا ایک سیدھے سادھے سامنے نظر آنے والے حال احوال  کے باوجود ہمارے ہاں جاہلانہ بحث کا آغاز کر دیا جاتا ہے ۔  پچیس سال سے میں خود  اسی بات پر دلائل دیتے دیتے عاجز آ چکی ہوں لیکن اکثریت کے بھیجے میں اپنی بات نہ اتار سکی ۔ برسوں سے لکھ لکھ کر تھک چکی ہوں کہ بنا تعلیم تو شاید انسان ہنر کے زور پر زندگی گزار لے لیکن بنا تربیت کے انسان کا معاشرے  میں مقام وہی ہے جو جنگل میں درندوں کا ہوتا ہے ۔ یعنی چیرنا پھاڑنا  اور کھا جانا ۔ 
آج   وہی سب کچھ حرف بحرف سچ ثابت ہو رہا ہے ۔ بچوں کی لائنیں تو لگا لیں لیکن نہ انہیں پیٹ بھر روٹی دے سکے نہ ہی کوئی آسائش اور ویسے بھی ہمارے ہاں بچے محبت سے نہیں بلکہ ایک دوسرے پر اپنا غصہ نکالنے کے لیئے پیدا کیئے جاتے ہیں ۔ عورت سمجھتی ہے کہ وہ اپنے مرد کو اس بوجھ کے نیچے دبا رہی ہے اور وہ اس سے بھاگ خر کہیں نہیں جا سکتا  اور مرد سمجھتا ہے کہ وہ اولاد کی لائنیں لگا کر اپنی عورت کی مت مار رہا ہے تاکہ اسے کچھ اور سوچنے سمجھنے کی سدھ بدھ ہی نہ رہے اور وہ جو گل چاہے کھلاتا ۔ نتیجتا دونوں ہی اپنے گھر میں آج کی نسل کی صورت جنگلی درندوں کا جھنڈ پروان چڑھا رہے ہیں ۔ ایسے سانپ پال رہے ہیں جو انکو ہی ڈس کر خود کو زندہ رکھنا جانتے ہیں ۔ کیونکہ اسکے سوا  وہ خود رو جھاڑ جھنکار  اور درندے کسی سے کچھ سیکھ ہی نہیں سکے ۔ 
والدین کے خون پسینے کے مال پر نظریں گاڑے گھر کے ڈاکو ۔ انکی اپنی اولادیں ۔ والدین کے آپسی جھگڑوں اور جہالتوں نے  وہ نفسیاتی مریض اولادیں پیدا کی ہیں ۔ جنہیں نہ تو ڈھنگ کی تعلیم ملی اور نہ ہی باحیا باادب گھر کا ماحول ملا ' نہ ہی والدین خصوصا ماں کی جانب سے کوئی بھی تربیت ملی تو ایسے میں ہم نے جو جنگلی جانور اپنے ہی گھروں میں پروان چڑھا لیئے تو اس کا انجام وہی ہونا تھا جو آج گلی گلی دکھائی دے رہا ہے ۔ اولادیں والدین سے ایسے بات کرتی ہیں جیسے کبھی کوئی اپنے ملازم سے بھی بات نہیں کرتا تھا ۔ اور تو اور والدین سے مارپیٹ اور اب تو انکے قتل کی وارداتیں بھی روزمرہ کا معمول بنتی جا رہیں ۔  
 والدین کے مال پر اولادیں یوں نظریں گاڑے بیٹھی ہیں جیسے ان کو پیدا کرنا ان کے والدین کا حقیقی جرم ہے جس کا تاوان انہیں ہر صورت ادا کرنا ہے ۔ جیسے یہ اولاد نہ ہو بلکہ "نکال دو جو کچھ تمہارے پاس ہے " کہہ کر لوٹ لینے والے ڈاکو ہوں ۔ 
ہمارے ہاں بگڑتا اور تباہ ہوتا ہوا سماجی ڈھانچہ شدت سے اس بات کا متقاضی ہے کہ جائیداد کے لیئے وراثت کے قوانین میں فوری اور قابل عمل تبدیلیاں لائی  جائیں  ۔ ان قوانین کو بہت آسان ، اور قابل عمل ہونا چاہیئے ۔ والدین ساری عمر کی محنت شاقہ کے بعد سر پر ایک چھت یا پیروں کے نیچے زمین بنانے میں کامیاب ہوتے ہیں ۔ اپنا پیٹ کاٹ کاٹ کر اپنی اولاد پالتے اور جوان کرتے ہیں کہ کل کو وہ ہماری عزت اور گھر بار میں اضافے کا باعث بنیں گے لیکن ان  کمزور اور بوسیدہ قوانین کے طفیل گھر گھر یہ ہی جائیداد اور گھر بار اولادوں کی جوانیوں کے بھینٹ چڑھنے لگا ہے ۔ جہاں دیکھیں  والدین اپنے ہی گھر کی چھت کے لیئے اپنی ہی کم بخت اولادوں کے ہاتھوں قتل ہو رہے ہیں ۔ کہیں گھروں سے نکالے جا رہے ہیں ۔اپنے ہی والدین کے گھروں پر قبضے کے لیئے کیا بہن اور کیا ہی بھائی، ہر ایک گھات لگائے  والدین کی موت کے لیئے منصوبے بنائے بیٹھے ہیں ۔  کہاں کے مسلمان اور کہاں کی اخلاقیات ۔ ہم میں تو اتنی غیرت بھی باقی نہیں بچی کہ اگر ہم شادی کر کے اپنے گھر میں اپنے لیئے جگہ کم سمجھتے ہیں یا ہمیں  پردہ اور پرائیویسی کا مسئلہ ہے تو جائیں جا کر کہیں کرائے پر گھر یا کمرہ لیں اور الگ سے اپنی زندگی کا آغاز کریں 
 لیکن کہاں جناب پھر ہمیں ہمارا "حصہ " کیسے ملے گا ۔ کون سا حصہ ؟ وہی حصہ  جو ہم نے اس ماں کی کوکھ سے پیدا ہو کر اس باپ کے نام سے اپنے نام پیدائشی لمحے میں ہی محفوظ کروا لیا تھا ۔۔۔
 کہیں وہ باقی بہن بھائیوں کے قبضے میں نہ چلا جائے ۔ پھر کون سالہا سال عدالتوں میں دیوانی مقدمات میں دیوانہ ہوتا پھرے گا ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ شرعی حصے کو کسی بھی قیمت پر کوئی  بھی بہن یا بھائی ضبط نہ کر سکے ۔ اور والدین کسی مخصوص اولاد کو لاڈلا یا لاڈلی بنا کر اس کی جیب  بھرنے کے چکر میں باقی اولادوں کو بھی اپنا دشمن نہ بنا بیٹھیں ۔اور ایک ایسا قانون ہونا چاہیئے جس میں اگر اولادیں نافرمان نکلیں یا والدین ان کے خلاف اپنے کونسلر کے پاس یا تھانے میں شکایت درج کروائیں تو اسے پوری سنجیدگی سے لیا جائے ۔ 24 گھنٹے کے اندر اس پر نوٹس لیا جانا چاہیئے اور اس کی انکوائری غیر جانبدار اور نیک نام لوگوں سے کروائی جائے جسے وہ والدین بخوشی قبول کریں اور ایسی اولادوں کو اس گھر سے فورا بیدخل کر دیا جائے اور ان والدین میں سے کسی ایک کی موت بھی مشکوک ہو تو اسی نافرمان اولاد کو سب سے پہلے گرفتار کیا جائے اور ان پر سخت  کاروائی کی جائے ۔ تاکہ باقی لوگوں کو عبرت حاصل ہو ۔ 
شادی شدہ اولاد کو الگ رہنے کا حکم دیا جائے ۔ والدین جسے چاہیں (اپنی اولاد کے سوا بھی) اپنی جائیداد اس کے نام کر سکیں کیونکہ یہ ان کی کمائی ہے یہ ان کا حق ہے کہ وہ اس جائیداد کو کیسے استعمال کریں  ۔ اولاد کو اس پر اعتراض کا کوئی حق حاصل نہیں ہونا چاہیئے ۔ 
صرف یہی ایک طریقہ ہے جس کی وجہ سے اگر اولاد والدین سے کسی فائدے کا لالچ دیکھتی ہے تو اسے اپنے والدین کیساتھ حسن سلواک بھی کرنا ہو گا ۔ تاکہ وہ انکے  گھر میں نہیں بلکہ  انکی نظر  میں رہیں ۔ سکولوں اور مساجد میں بچوں کو ہر روز خاص طور پر حسن اخلاق پر تربیتی سبق دیا جائے ۔
انہیں ذہن نشیں کروایا جائے کہ نیکیاں ہی ہماری آخرت کا توشہ ہیں اور یہ نیکی اسی وقت تک نیکی رہتی ہے جب تک اس میں لالچ کا زہر نہ گھولا جائے۔ 
                          ●●●


● علتیں ‏/ ‏کوٹیشنز ‏

                   

    علتیں
جو حکمران جیسی علتوں میں مبتلا ہوتا ہے  اس کی قوم میں وہی علتیں رواج پا جاتی ہیں ۔ 
(چھوٹی چھوٹی باتیں)                
(ممتازملک.پیرس)                      

جمعہ، 11 ستمبر، 2020

● مرد ‏/ ‏کوٹیشنز ‏


       مرد ؟


ہر عورت اور بچے کو شکار سمجھنے والا درندہ تو ہو سکتا ہے، مرد کبھی نہیں ہو سکتا کیونکہ مرد کی ذات کیساتھ تو صرف ایک ہی بات سجتی ہے تحفظ دینے والا، عزت دینے والا،  معاف کرنے والا۔۔۔
جس میں یہ خصوصیات نہیں اسے مرد کہلانے کا بھی کوئی حق نہیں ۔۔
                  (چھوٹی چھوٹی باتیں)                             (ممتازملک.پیرس)

منگل، 8 ستمبر، 2020

● رحمت ‏کی ‏تلاش ‏/ ‏کوٹیشن


        رحمت کی تلاش ۔۔۔

ہم اس نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) کے ماننے والے ہیں جنہوں نے فرمایا تھا کہ 
خدا کی قسم اگر محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کی بیٹی فاطمہ (رضی اللہ تعالی عنہا) بھی چوری کرتی تو میں اسکے بھی ہاتھ کاٹ دیتا ۔۔۔
اور آج اسی نبی (صلی اللہ علیہ وسلم)  کی امت ہونے کے دعویدار قوم اور اسکے نمائندے  چوروں ڈاکووں اور لٹیروں کو فخریہ بغل میں لیکر گھومتے  ہیں ۔
 اس قوم پر خدا کی رحمتوں کی تلاش 
کیا واقعی ؟؟؟؟
           (چھوٹی چھوٹی باتیں)
                 (ممتازملک.پیرس)

اتوار، 6 ستمبر، 2020

● گوہر فردا آن لائن مشاعرہ/ عالمی دعوت نامہ



گوہر فردا ادبی تنظیم
نظامت ڈاکٹر ناہید کیانی 
مہمان : ممتازملک۔  پیرس فرانس
ریاض رحیم ۔ بھارت 


https://youtu.be/tIXTInkzwFw




✔ ● پاکستان ‏کو ‏بدلنا ہے ‏تو ‏۔۔۔/ ‏کالم۔ لوح غیر محفوظ




پاکستان کو بدلنا ہے تو
 پہلے خود کو بدلنا ہو گا ۔۔۔💚
پھر بدلے گا پاکستان


بھائی کب بدلو گے پاکستان ؟ 
پہلے پاکستانیوں کی سوچ اور طرز زندگی کو بدلو ۔ اپنے میڈیا کی طاقت کو  کو ایکدوسرے کے خلاف محاذ آرائی اور پگڑیاں اچھالنے  کے لیئے استعمال کرنے کے بجائے انکی اخلاقی تربیت اور معاشرتی اقدار کی بلندی کے لیئے استعمال کیجیئے ۔ ڈراموں فلموں اور گیتوں کے  ذریعے انہیں قوانین کی پاسداری کی جانب راغب کیجیئے اور سزاوں پر بلا تفریق عمدرامد کروا کر قانون اور یقینی انصاف  پر لوگوں کا اعتماد بحال کیجیئے ۔ ۔ 
پاکستان کو بدلنا ہے تو اسے اپنے ہر محکمے میں  کالی بھیڑوں کا صفایا کرنا ہو گا ۔ "کل کیا ہوا تھا" کے بجائے  "آج کیا ہو رہا ہے " سے ہی شفافیت کا یہ عمل قانون سازی اور عملدرامد کے ذریعے شروع  کروایا جا سکتا ہے ۔ 
بیس تیس اور پچاس سال پہلے کے حسابات اور ریسیدیں رسیدیں  کھیلنے کا عمل ویسا ہی ہے کہ نہ نو من تیل ہو گا اور نہ رادھا ناچے گی ۔  کیونکہ جس زمانے میں پاکستان میں نکاح تک زبانی ہوا کرتے تھے اس زمانے کے آدمی سے آپ جائیدادوں کی رسیدیں مانگ کر صرف اس قوم کا وقت اور مذید پیسہ  برباد کر رہے ہیں ۔ سو جس زمانے میں کھاتے لکھنے اور رسیدیں دینے کا رواج ہی نہیں تھا ان وقتوں سے سر پھوڑنے اور عوام کا پیسہ ان کے کیسز پر مذید برباد کرنے سے کہیں زیادہ  بہتر ہے کہ پاکستان میں دولت جمع کرنے اور جائیدادوں کے عشق میں علت کی طرح مبتلا ہونے والوں کے لیئے  اس کی ایک حد مقررکر دی جائے ۔ جس میں یہ نکات شامل ہوں کہ 
● انکے  گھروں کا حدود اربعہ زیادہ سے زیادہ دس مرلے مقرر کیا جائے ۔
● ہر فوجی و سول آفیسر یا عام آدمی کے نام و ملکیت میں  ایک وقت میں صرف ایک ہی گھر رہ سکتا ہے۔
●زرعی زمین کی ملکیت ایک آدمی کے پاس دس ایکڑ سے زیادہ کبھی نہیں ہو سکتی ۔
●گاڑی کی مالیت  اسکی تین سالہ تنخواہ سے زیادہ ہر گز نہیں ہو سکتی ۔ 
●ایک وقت میں ایک ملازم رکھنے کی اجازت ہو گی ۔ جس کی تنخواہ پر وہ اپنی جیب سے 10 فیصد ٹیکس بھرے گا ۔ 
● صحت کارڈ ہر پاکستانی کو جاری کیا جائے جس پر اس کی سالانہ ظاہر کی گئی آمدن کے حساب سے کم آمدنی والے کو زیادہ اور زیادہ آمدنی والے کو کم مراعات کے ساتھ مکمل علاج معالجہ فراہم کیا جائے ۔ جیسا کہ دنیا بھر کے ترقیاتی ممالک میں اے، بی، سی ، ڈی۔۔۔۔ کے آمدنی گریڈ مقرر کر کے فراہم کیا جاتا ہے ۔ 
●سال میں ایک بار سے زائد بیرون ملک دورے کی صورت میں ادائیگی کا ذریعہ ظاہر کرنا لازمی ہو۔ 
● ہر عمرہ کرنے واالے کو اگلے پانچ سال کے لیئے دوبارہ عمرہ کرنے سے روک دی جائے ۔ اور ہر حج کر لینے والے کو اگلے پندرہ سال تک دوبارہ حج کرنے سے منع کر دیا جائے ۔ تاکہ وہ یہ پیسہ کسی دوسرے کو وہاں بھیجنے یا کسی اور فی سبیل اللہ مقاصد پر خرچ کر سکے ۔ 
●فوج اور اسٹیبلشمنٹ  کے ہر اعلی عہدیدار کو ریٹائرمنٹ کے وقت اپنی جائیدادوں کا حساب کتاب پیش کرنے کا قانون بنایا جائے ۔ اس کی جائز آمدن کے سوا باقی سب کچھ بحق سرکار و پاکستانی عوام ضبط  کر لیا جائے ۔ 
● ایک فوجی اعلی عہدیدار کے لیئے ایک دس مرلے کا گھر ایک گاڑی اور ماہانہ 18 گریڈ آفیسرز  کے مساوی وظیفہ تاحیات مقرر کیا  جائے۔ 
● ایک آدمی کا صرف ایک ہی بینک اکاونٹ ہونا چاہیئے ۔ دوسرے اکاونٹ کے کھلوانے کے  مطالبے پر اس سے اس کی تسلی بخش وجہ دینے کا پابند کیا جائے ۔ 
● بینک میں اس کی ملکیت میں پچاس لاکھ روپے سے زائد رقم کبھی نہیں ہونی چاہیئے ۔ 
●ریٹائرمنٹ کے بعد وہ کم 5 سال تک بیرون ملک سفر نہیں کر سکتا ۔ 
اگر واقعی پاکستان کو اور پاکستانیوں کو  بدلنا ہے تو انہیں کچھ حدود و قیود میں زندگی گزارنے کا عادی ہونا پڑیگا ۔ جہاں دنیا بھر میں ترقی یافتہ ممالک کے سربراہان اور اعلی فوجی قیادت ریٹائرمنٹ کے بعد  تین تین کمروں والے فلیٹ میں  عام سی گاڑی اور سائیکل لیکر بسوں اور میٹروز میں سفر کرتے ہیں اور عزت پاتے ہیں ۔ وہاں پاکستان جیسا ترقی پذیر ملک کہ جس کا سپہہ سالار اور مٹھی بھر اشرافیہ پاکستان بھر کی رجسٹریاں اپنی جیب میں لیئے گھومتا ہے ۔ دنیا میں جزیرے خریدتا پھرتا ہے  قومی رازوں کی تجارت کرتا پھرتا ہے ۔۔۔کو یہ بتانے اور سمجھانے کی ضرورت آن پڑی ہے کہ پاکستان کسی کے باپ کی جاگیر نہیں ہے ۔ کہ جس کا جی چاہے وہ اس کی بولی لگواتا پھرے اور غریب آدمی کے خون پسینے کی کمائی کو اپنی عیاشی پر اڑاتا پھرے ۔ 
اگر آپ نے اپنے ملک کی خدمت کی ہے تو اس کے بدلے میں دوسروں سے زیادہ عزت اور مال بھی کمایا ہے ۔ اب کچھ اجر اگلی دنیا کے لیئے بھی جمع ہونے دیجیئے ۔ یا وہاں بھی ڈنڈے کے زور پر جنت کی رجسٹری اپنے نام کروانے کا ارادہ ہے ؟؟؟؟ 
                     ۔۔۔۔۔۔۔۔

جمعرات، 3 ستمبر، 2020

● درد / کوٹیشنز



               درد



والدین کو چھوڑتے ہوئے کسی کو درد ہو نہ ہو لیکن والدین کی جائیداد اور مال چھوڑنے کو بدترین اولاد بھی تیار نہیں ہوتی۔۔۔۔
اللہ کی شان
یا قیامت کی نشانیاں 
            (چھوٹی چھوٹی باتیں)
                 ( ممتازملک.پیرس)
                       ۔۔۔۔۔۔

منگل، 1 ستمبر، 2020

● ادارہ فروغ قومی زبان اسلام آباد / رپورٹ



     


       پہلی آن لائن اردو کانفرس 
                  رپورٹ: ممتازملک.پیرس 




ادارہ فروغ قومی زبان (مقتدرہ) اسلام آباد کے تحت اسلام آباد میں  12 ، 13 ، اور 14 اگست 2020ء کو  پہلی آن لائن سہہ روزہ کانفرنس کا انعقاد کیا گیا ۔ جس میں پاکستان بھر سے اور بیرون ملک سے بھی چنیدہ شرکاء کو مدعو کیا گیا ۔ اس کانفرنس کا مقصد اردو زبان کے  ارتقائی سفر اور اس کی ترویج و ترقی پر روشنی ڈالنا تھا ۔ اس پروگرام کی نظامت کے فرائض محترمہ سمدیہ کمال نے نہایت  خوبصورتی سے ادا کیئے ۔ کانفرنس کے پہلے روز کے تیسرے سیشن میں راقمہ کو بھی اظہار خیال کا موقع عنایت کیا گیا ۔ جس کا ہم نے بھرپور استفادہ کرنے کی سعی کی ۔۔
اس روز ہمارے علاوہ جو اہم شخصیات اظہار خیال کو شامل تھیں ان میں ڈاکٹر احسان اکبر، جناب اسلم کمال ، ڈاکٹر فاطمہ حسن  ، جناب یوسف شاہین ، ڈاکٹر اختر شمار ، ڈاکٹر عزیز ابن الحسن، محترمہ ممتازملک ، جناب خالد یوسفی ، ڈاکٹر محمد منیر سلیچ ، ڈاکٹر وحیدہ رحمن ، محترمہ بشری فرغ ، ڈاکٹر عبدالستار شامل تھے ۔
 اہم نکات  جن پر زور دیا گیا ان کا لب لباب یہ ہی تھا  کہ اردو زبان کو پاکستان میں ہر سطح پر تعلیم اور دفتری زبان کا درجہ دیا جائے ۔ تاکہ طلباء املاء اور گرائمر کی رٹا بازی کے بجائے اپنی قومی زبان میں حقیقی علم حاصل کر سکیں ۔ 
اردو کے  متروک الفاظ کے بجائے عام فہم اور روز مرہ کے الفاظ کو نصاب  کا حصہ بنایا جائے ۔ تاکہ اس  میں طلباء کی دلچسپی کو بڑھایا جا سکے ۔۔
بیرون ملک سفراء کو تربیت دی جائے کہ وہ وہاں کی حکومتوں سے اردو زبان کو بطور اختیاری زبان وہاں کے سکول کالجز اور یونیوسٹیز میں شامل کروائیں ۔ 
چھوٹے چھوٹے وظائف دیکر مقامی لوگوں کو  اردو کورسز کروائے جائیں ۔ 
وقتا فوقتا دوسرے ممالک کے لیئے اپنے ڈرامے اور فلمیں اردو زبان میں ڈبنگ کیساتھ بھجوائے جائیں ۔ تاکہ وہاں کی عوام ہماری زبان کو ہمارے اصل لہجے اور نام کیساتھ سن کر اس سئ آشنا ہو سکے۔ وگرنہ اردو کی جو پرورش اور خدمت ہم پاکستانیوں کو کرنی چاہیئے تھی سچائی تو یہ یے کہ وہ عزت اور خدمت اس کی بھارت نے کی ہے ۔ چاہتے نہ  چاہتے ہوئے دنیا کے کونے کونے میں بھارت نے اردو زبان کو اپنی فلموں کے ذریعے پہنچایا ہے ۔ اب چاہے وہ اسے ہندی کہہ کر بیچیں لیکن سچ یہی ہے کہ دنیا میں جہاں بھی اسوقت اردو بولی اور سمجھی جاتی ہے اس کا سہرا بھارتی فلموں کو ہی جاتا یے ۔ اب ضرورت ہے اس کے رسم الخط کو بچانے کی ۔ کیونکہ رومن اور ہندی رسم الخط اسے نقصان پہنچانے کے لیئے پوری قوت سے میدان میں ہیں ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اردو بولنے والے ان  لوگوں کو اس بات پر مائل کیا جائے کہ جو اچھی بھلی اردو پڑھنا لکھنا جانتے ہیں لیکن اس کے باوجود انگریزی حروف تہجی میں رومن میں اسے لکھتے ہیں ۔
 ان کے اندر سے اپنے رسم الخط کے بارے میں کوئی بھی ہچکچاہٹ یا احساس کمتری یے تو اسے دور کیا جائے ۔  اور اس کا آغاز ہمیں اپنے ملک پاکستان سے کرنا ہو گا جہاں کی یہ قومی زبان ہے ۔ ہماری دفتری کاروائی اور ملک بھر کا ایک جیسا نصاب تعلیم ہماری اپنی قومی زبان اردو میں رائج کرنے کی جتنی اشد ضرورت آج ہے اسے محسوس نہ کیا گیا تو دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کی ترقی کی کہانیاں بس ہماری نسلوں کے لیئے انگریزی کی گرامر کتاب اور املا کی غلطیوں اور اصلاح ہی میں قابل تقلید ملا کرینگے ۔ 
اس پہلی آن لائن اردو کانفرنس میں بہت سے مفید  مشورے اور آراء اردو کی ترقی اور بڑہوتری کے کیئے پیش کیئے گئے ۔ اب حکومت وقت کا کام ہے کہ وہ آگے بڑھے اور  اپنے حصے کی قومی زبان کو رائج کرنے کی ذمہ داری کو پورا کریں ۔ 
اس قسم کی کانفرس کا انعقاد بجا طور پر خوش آئندہ اور قابل داد  ہے ۔
                     ●●●




https://youtu.be/WuXoWGB3qkc

● Insight with Zafar Sheikh Live | Urdu Poetry !! Mumtaz Malik | Shameem K...




    ڈنمارک سے ظفر شیخ کیساتھ خصوصی گفتگو 
           
Zafer Sheikh talk to Mumtaz 
Malik Poetess
   
            


https://youtu.be/pMJqx_Q3-2o





اتوار، 30 اگست، 2020

● Turkey has released song on #Kashmir | Kashmir is my name.


Kashmir ahhhh 😢😴
Paradise in a blood river 






جمعہ، 28 اگست، 2020

● اسلام آباد کانفرس/ عالمی دعوت نامہ



قناعت / کوٹیشنز



حرام کمائی کی مجبوری اور زندگی کی ہر پریشانی سے نجات مل جائے گی 
           بس 
          قناعت کرنا سیکھ لیں ۔۔۔

          ( چھوٹی چھوٹی باتیں)
         (تحریر:ممتازملک.پیرس)

بدھ، 26 اگست، 2020

● نعتیہ محفل مشاعرہ و مسالمہ/ عالمی پروگرام



ان لائن نعتیہ مشاعرہ
محفل مسالمہ 



صدارت : زیب السناء زیبی 
مہمان اعزاز : ممتازملک.  پیرس
مہمان خصوصی : نور شمع 

نظامت: راجہ حارث دھنیال
پروگرام دیکھنے کے لیئے اس کا
 یو ٹیوب لنک نیچے موجود ہے ۔
 اسے کلک کیجیئے۔ 
15۔4بجے سے 10۔8بجے تک ممتاز ملک کو سماعت فرمائیے۔ 




● اے ‏محرم ‏/ اردو ‏شاعری ۔ منقبت۔ حسینی کلام


                       اے محرم


اے محرم تیری منڈیروں پر
 آنسووں کے چراغ جلتے ہیں 

داستانیں رقم ہوئیں خوں سے
غم جگر پاش کتنے پلتے ہیں 

 روکتے نہ حسینیوں کو اگر
سیکھتے تیر کیسے چلتے ہیں 

شہر تشنہ لبوں کا ہے جسکی
خاک اپنی جبیں پہ ملتے ہیں

جیتنا ہارنے سے بدتر تھا 
ہاتھ سارے یذید ملتے ہیں 

قافلہ جا رہا جنت کو
ہم اسی نقش پا پہ چلتے ہیں 

کیوں نہ سوچا جلا کے خیموں کو
یہ وہ سورج نہیں جو ڈھلتے ہیں

یہ تو ممتاز   ماہتاب ہیں وہ
روز صدیوں سے جو نکلتے ہیں    
 ●●●


منگل، 18 اگست، 2020

● ممتازملک ۔ آن لائن مشاعرہ ۔ شریف اکیڈمی



21 جون 2020ء




جذبہ نیوز کے تعاون سے شریف اکیڈمی جرمنی کے زیر اہتمام آن لائن مشاعرہ 



پیر، 17 اگست، 2020

● ممتازملک کا کلام انہیں کی زبانی




وہ تجھے پیار کے بولوں سے دیوانہ کر کے

ممتازملک کا کلام انہیں کی زبانی 


● پنجابی مشاعرہ / عالمی دعوت نامہ







https://m.facebook.com/photo.php?fbid=3173759489377673&id=100002309588833&set=a.612548165498831&sfnsn=scwspmo&extid=zO2d9sVKH2F19d1h

ممتاز ملک انٹرویو۔ خواجہ اکرام


ممتازملک کیساتھ آن لائن گفتگو ۔ 
خواجہ اکرام الدین 

https://m.youtube.com/watch?feature=youtu.be&v=gdE_owofQBA




● محترمہ ممتاز ملک کے ساتھ گفتگو/ ظفر شیخ ڈنمارک


SBI tv ڈنمارک سے ظفر شیخ کیساتھ خصوصی گفتگو

https://youtu.be/pMJqx_Q3-2ohttps://youtu.be/pMJqx_Q3-2o







■ دل والا چرخہ ۔ پنجابی کلام۔ او جھلیا


دل والا چرخہ


دل والا چرخہ چلا کے میں ویکھیا 
رب کولوں دور وی جا کے میں ویکھیا 

کتھے وی نہ سکھ ملے جندڑی نمانی نوں 
کوئی وی اخیر نئیں دکھ دی کہانی نوں 
ترلا وی غماں اگے پا کے میں ویکھیا 
   دل والا چرخہ چلا کے میں ویکھیا

بھار آپی چکناں اےاپنے گناہواں دا
کوئی حصہ پائے کدوں کسے دی سزاواں دا
سنگتاں نوں بڑا آزما  کے میں ویکھیا
دل والا چرخہ چلا کے میں ویکھیا 


رستے نوں موڑنے دی اپڑیں جے چاہ نئیں 
منزلاں تے پہنچنے دی فیر کوئی راہ نئیں 
ممتاز نوں خود سمجھا کے میں ویکھیا 
    دل والا چرخہ چلا کے میں ویکھیا
●●●

منگل، 11 اگست، 2020

باب ‏دعا ‏/انٹرویو ‏


اس سوالنامہ کو مکمل کرکے ہمیں سینڈ کردیں ۔ 

                  انٹرویو   
 بابِ دعا۔۔۔۔۔آپ کا نام
    ممتازملک 
باب دعا ۔۔۔۔ قلمی نام 
     ممتاز
بابِ دعا۔۔۔۔۔لکھنے کی ابتداء کب اور کیسے ہوئی ؟ ۔
راولپنڈی میں میری پیدائش ہوئی ۔ وہیں سے میٹرک گورنمنٹ گرلز ہائی سکول نمبر 2 ۔ مری روڈ سے کیا۔ ایف اے ۔بی اے پرائیویٹ ہی پڑھا ۔  مطالعے کا جنون کی حد تک شوق تھا اور ہے ۔ 
بچپن ہی سے الفاظ کا رکھ رکھاو اچھا لگتا ہے ۔ جب سے شعور کی دنیا میں قدم رکھا خود کو لکھتے پایا۔ 
باب ِدعا۔۔۔۔ ادب سے وابستہ مشاغل ؟ ۔
مختلف اصناف میں لکھتی ہوں ۔ شاعری، کالمنگاری، مختصر کہانیاں ، کوٹیشنز ، افسانے ۔۔۔۔
بلاگر بھی ہوں ۔ نعت گوئی اور نعت خوانی میرا پہلا عشق ہے۔ 
بابِ دعا۔۔۔۔۔۔آپ کے خیال میں اچھا ادب کیا ہے ؟ 
ہر وہ تحریر جو آپ کے پڑھنے والے کو کسی تجربے اور مشاہدے سے کسی دنیا کی خبر دے اور اس کے خیالات میں دنیا کو سمجھنے کی کوئی حس بہتر کر دے یا پیدا کر دے ۔ میں اسے ایک اچھا ادب کہتی ہوں ۔ 
بابِ دعا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اردو زبان کا مستقبل کیسے دیکھتے ہیں ؟
اردو زبان اپنوں کے ہاتھوں خطرے میں ہے جبکہ غیروں  کے ہاتھوں بلندی پر ۔
بابِ دعا۔۔۔۔شاعری کے بارے میں آپکا کیا خیال ہے شاعری کیا ہوتی ہے ؟
حد سے زیادہ حساس دل کی آواز جب موسیقیت کے ساتھ ایک ردھم کیساتھ تال میل رکھتے ہوئے برآمد ہوتی ہے تو اسے شاعری کہتے ہیں ۔
بابِ دعا۔۔۔۔۔ آپ کی نظر میں تخلیق کسے کہتے ہیں ؟
تخلیق وہ چیز ہے جو انسان کے اندر  اس کے جذبات کا خون پی کر پلتی ہے ۔  جس میں کوئی ملاوٹ نہ ہو ۔ جیسی آپ کے ذہن پر اتری ویسی ہی آپ نے قلم کے ذریعے صفحہ قرطاس پر بکھیر دی ۔ یہ ہی اصل تخلیق ہے۔
بابِ دعا۔۔۔۔۔۔ اب تک کتنے افسانے، نظمیں یا غزلیں / کتابیں لکھ چکے ہیں اندازاً؟
میری اب تک 5 کتابیں شائع ہو چکی ہیں ۔ 
1۔ مدت ہوئی عورت ہوئے 
  2011ء/ شعری مجموعہ کلام 
2۔ میرے دل کا قلندر بولے 
2014ء شعری مجموعہ کلام 
3۔ سچ تو یہ ہے 
2016ء منتخب مضامین /کالمز
4۔ اے شہہ محترم صلی اللہ علیہ وسلم
2019ء نعتیہ مجموعہ کلام 
5۔ سراب دنیا 
2020ء شعری مجموعہ کلام 
زیر طبع: 5 کتابیں 
1۔پنجابی مجموعہ کلام 
2۔کوٹیشنز بک بنام چھوٹی چھوٹی باتیں 
3۔کالمز کا مجموعہ 
4۔شعری مجموعہ کلام 
5۔نظموں کا مجموعہ 
بابِ دعا۔۔۔۔۔ کسی ادبی گروہ سے وابستگی ؟
فرانس میں پاکستانی خواتین کی پہلی نسائی ادبی تنظیم
"راہ ادب"کی بانی اور صدر ہوں ۔ ہماری کوشش خواتین لکھاریوں کی رہنمائی کرنا ہے ۔
بابِ دعا۔۔۔۔ ادب تخلیق ہو رہا ہے مگر تہذیب ختم ہو رہی ہے ۔ اس کی کوئی وجہ آپ کے خیال میں ؟
اس کی وجہ ہمارے ہاں اکثریت کا منافقانہ طرز زندگی ہے ۔ جو ہم کہتے ہیں وہ کرتے نہیں ہیں اور جو کرتے ہیں اسے کہنے اور تسلیم کرنے کی ہمت نہیں جٹا پاتے ۔ سو گندم بیجو گے تو گندم ہی پاو گے آم تو نہیں پا سکتے۔
جب آپ خود  تہذیب اور تمیز کے دائروں  کا احترام نہیں کرتے، تو آپ کی اولاد آپ کی باتیں سن سن کر تو مہذب ہونے سے رہی۔  وہ آپ کے اقوال سے زیادہ آپکے اعمال کی پیروکار ہوتی ہے ۔ 
بابِ دعا۔۔۔۔۔ آپ کی نظر میں اک صاحب ِ قلم کا نظریہ کیا ہونا چاہیے ؟ ۔
ایک لکھنے والے کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے معاشرے کے تغیرات سے واقف رہے اور اس کی خامیوں سے خبردار کرتا رہے ۔ اور اس کی اچھائیوں کو ابھارتا رہے۔ اس کے پیش نظر ہر صورت انسانیت کی بھلائی رہنی چاہیئے ۔ 
بابِ دعا۔۔۔نوجوان نسل کے لیے کوئی پیغام ۔
   نوجوانوں کو معلوم ہونا چاہیئے کہ جوانی سے زیادہ بیوفا اور کوئی دور نہیں ہوتا ۔ لیکن یہ بہت توانائی بھرا زمانہ بھی ہوتا ہے ۔ اپنی توانائیاں مثبت کاموں ہی میں صرف کیجیئے ورنہ یہ کاش بن کر آپ کی زندگی کا روگ بن جاتے ہیں ۔
                       ۔۔۔۔۔۔



خودمختار ‏کشمیر ‏ایک ‏فتنہ




      دنیا کی سب سے بڑی جیل 
             ہائے میرا کشمیر 


تاریخ گواہ ہے کہ برصغیر کی تقسیم اسی فارمولے پر ہوئی تھی کہ جن علاقوں میں ہندو اکثریت ہے وہ بھارت میں شامل ہونگے اور مسلم اکثریت کے علاقے پاکستان کا حصہ ہونگے۔ لیکن اس واضح  اصول کے باوجود بھارتی لیڈران نے اندرونی سازباز کے ذریعے کئی مسلم علاقوں پر جبری قبضہ کیا یا ان علاقوں کی عوام سے حق رائے دہی (ووٹنگ)  کو غضب کرتے ہوئے وہاں کے حکمرانوں سے کوڑیوں کے بھاو انسانی زندگیوں اور ان کی سرزمین کا  سودا کیا ۔ اسی کے تحت حیدر آباد ، جونا گڑھ ، بہار ، یوپی ، سی پی ، گجرات اور بہت سے علاقے جو قانونی اخلاقی مذہبی ہر لحاظ سے پاکستان کا حصہ تھے ، لیکن بھارتی ساز باز نے ان علاقوں کو دھمکا کر  یا خرید  کر یا جبرا اپنے قبضے میں لے لیا اور  اس  سے بڑی بے ایمانی  کشمیر کے حکمران کیساتھ مل کر کشمیریوں کی غیر انسانی خریدوفروخت جیسے شرمناک عمل سے کی گئی ۔ کشمیر کا کچھ حصہ ہمارے قبائلی جوانوں کی بہادری سے آذاد کشمیر  کے نام سےحاصل کر لیا گیا لیکن فوجی اسباب  کی کمی کی وجہ سے وہاں بڑی جنگ کے وسائل نہ ہونے کے سبب باقی موجودہ  مقبوضہ جموں و کشمیر پر بھارتی افواج اتار کر اس علاقے پر قبضہ کر لیا گیا ۔ جسے 5 اگست 2019ء کو اس کے ساری انسانی حقوق غصب کرتے ہوئے دنیا کی سب سے بڑی جیل بنا دیا گیا ۔ 
کشمیر کا مسئلہ دنیا بھر کے لیئے تباہی کی ایک گھنٹی ہے جو موقع موقع پر بجائی تو جاتی ہے لیکن اس کے بعد پھر سے ایک معنی خیز خاموشی چھا جاتی ہے ۔  آخر کیا وجہ ہے کہ ستر سال سے اپنی جان مال عزتوں کی بے مثال قربانیوں کی تاریخ رقم کرنے والی کشمیری قوم اپنا حق رائے دہی حاصل نہیں کر سکی ۔ اس علاقے کی قسمت کا فیصلہ اس کی عوام کے ہاتھوں نہ ہو سکا ؟ 
وجہ وہی ہے جودنیا میں ایسی تحریکوں کی ناکامی میں نظر آتی ہے یعنی ان کے رہنماوں میں شامل وہ کالی بھیریں جو آئے دن اپنے ضمیر کا سودا کر کے خود تو عیاشی کر تے  ہیں لیکن آذادی کی تحریکوں میں کیڑے کی طرح لگ جاتے ہیں ۔ روز ایک نیا شوشہ چھوڑتے ہیں اور بنتی بنتی رائے عامہ کو سبوتاژ کر دیتے ہیں ۔ اپنے سینے پر پاکستان کا پرچم لپیٹ  کر آسودہ خاک ہو جاتے ہیں  اور یہ بے ضمیر کالی بھیڑیں ان
 جوانوں کا خون  نالیوں میں بہا دیتے ہیں ۔ عزتوں کے لٹیروں کے ہاتھ مضبوط کر دیتے ہیں ۔ کشمیر میں بھی پاکستان یا بھارت کیساتھ الحاق کے بنیادی اصول کیخلاف ایسے ہی رہنماوں کی زہر فشانیاں عالمی تناظر میں اس کیس کو نہ مضبوط ہونے دیتی ہیں اور نہ ہی  سنجیدگی اختیار کرنے دیتی ہیں ۔ اسی لیئے یہ مسئلہ تصفیہ طلب ہی رکھا جا رہا ہے ۔ اس کے قصور وار اسی سرزمین سے تعلق کی دعوے داری کرنے والے یہی شرپسند نام نہاد رہنما ہیں ۔ جو خود تو کشمیر سے باہر رہ کر دنیا بھر کی نعمتوں سے مستفید ہوتے ہیں لیکن سال میں دو چار بار اس کی پستی ہوئی کشمیری عوام کی تحریکوں کی جڑوں میں زہر ڈالنے کے لیئے منظر پر آ موجود ہوتے ہیں ۔  جبکہ نہ تو کشمیر کے لیئے ہونے والے کسی مظاہرے میں ان کی اولادیں شامل ہوتی ہیں اور نہ ہی۔ان کے گھروں کی خواتین ۔ ان کے لیئے کشمیری مظاہرے کا دن گھروں میں دعوتوں اور پکنک کا دن ہوتا ہے ۔ ایسے مواقع پر مظاہروں میں اگر پاکستانی خواتین کسی کی جانب سے مدعو کرنے یا درخواست کرنے پر آ بھی جائیں تو ان جلسوں میں شامل بیہودہ چھڑے چھانٹ نوجوان ان پر اشارے بازیاں کرتے ہیں ۔ان کی کردار کشی کی جاتی ہیں اور  جانے کیا کیا زہر اگلا جاتا ہے ۔ کیونکہ خود انکے ساتھ انکے اپنے گھر کی خواتین موجود نہیں ہوتیں اور وہ دوسروں کی خواتین ان کے لیئے تماشے کا سامان ہوتی ہیں ۔ انکے یہاں آنے کا مقصد انہیں دکھائی نہیں دیتا جس کے سبب ان کی زیادہ عزت کی جائے کہ وہ اپنے تمام ضروری کام چھوڑ کر اپنے بچوں کو اس مقصد کے لیئے تحریک دلا کر یہاں تک ساتھ لیکر آئی ہیں ۔ 
لیکن یاد رکھیئے دنیا کی ایسی کوئی تحریک کبھی نہ تو  کامیاب ہوئی ہے نہ ہی ہو سکتی ہے جس میں اس کے اپنے رہنماوں کی گھر کی عورتیں ان کے ساتھ نہ کھڑی ہوں ۔ اپنے گھر کہ خواتین کو اپنی ہی تحریک سے الگ کر دینے کا مطلب ہے کہ آپ نے اپنی ہی تحریک کا آدھا بدن مفلوج کر لیا ۔ اب آپ گھسٹ سکتے ہیں کامیاب کبھی نہیں ہو سکتے ۔ 
کشمیر کے لیئے ایک شرپسندانہ نعرہ جسے ہوا دی جا رہی ہے وہ ہے خودمختار کشمیر ۔  جبکہ کشمیر کا محل وقوع، آبادی ، اور دیگر عوامل اس بات کو واضح کرتے ہیں کہ 
خودمختار کشمیر علاقے کا ایک بہت بڑا فتنہ بن جائے گا ۔  اسکی حیثیت خطے میں ایک بلیک میلنگ پوائنٹ سے زیادہ  ہر گز نہیں ہوگی ۔ بڑی طاقتیں اسے اپنے اڈے کے طور استعمال کرتے ہوئے دنیا کے لیئے ایک بڑا فتنہ بنا دینگی ۔ خود کشمیریوں کا وجود اور نسل خطرے میں پڑ جائے گی ۔ انکی آمدنی کو محظ سیاحت اور قالین بافی سے منسلک کرنا ایسا ہی ہے جیسے کسی مریض کو علاج کے بجائے خود ساختہ طور پر آکسیجن کے سلنڈر پر تمام عمر گزارنے کا مشورہ دیدیا جائے۔ ایسے مشیران اور رہنما ہی کشمیریوں کے سب سے بڑے دشمن ہیں ۔  
 کشمیریوں کو حق رائے دہی ضرور ملنا چاہیئے اسی طرح جس طرح تقسیم ہند کے وقت ریاستوں کے لیئے اصول وضح کیا گیا تھا ۔ جس کی رو سے وہ  تمام علاقے جو مسلم اکثریتی ہیں، پاکستان کا حصہ ہونگے جبکہ تمام ہندو اکثریتی علاقے بھارت کا حصہ ہونگے ۔ اسی اصول کے تحت  کشمیر کو پاکستان کا لازمی حصہ سمجھتے ہوئے پاکستان 73 سال سے بھارت جیسے مکار دشمن کیساتھ حالت جنگ میں ہے ۔ کشمیری  ووٹ کے ذریعے   پاکستان یا بھارت میں سے جس  بھی ملک کیساتھ شامل ہونا چاہیں ہو سکتے ہیں ۔ 
لیکن 5 اگست 2019ء کی بھارتی جآرحیت اور سازش کے بعد وہاں جس طرح سے مسلم کشی کی جا رہی ہے ، وہاں کی زمینوں کو غیر کشمیوں کی ملکیت بنایا جا رہا ہے اور غیر کشمیریوں کو وہاں جبرا آباد کیا جا رہا ہے ۔اس کے بعد اب اس حق رائے دہی کے لیئے مذید مضبوط مقدمے کی ضرورت ہے جس میں 5 اگست 2019ء سے پہلے سے یہاں آباد کشمیریوں کو ہی اس علاقے کے فیصلے کی لیئے ووٹ کا حق دیا جائے اور انہیں کا فیصلہ آخری ہونا چاہیئے ۔ مصنوعی کشمیریوں کو کبھی بطور ووٹر قبول نہیں کیا جا سکتا ۔ ایسا ہونا کشمیریوں کے خون اور لٹی ہوئی عزتوں کیساتھ کھلی غداری ہو گا ۔۔اور سچا کشمیری کبھی غدار نہیں ہو سکتا 
                   ۔۔۔۔۔۔۔۔

جمعہ، 7 اگست، 2020

آبگینے



آبگینے کانچ کے ہیں 
خوابگینے کانچ کے ہیں
یہ نگینے

 

منگل، 4 اگست، 2020

میرا کیا ہو گا۔ شاعری ۔ پبلشڈ



کیا ہو گا 
ممتاز ملک . پیرس 


میں نے تو کھول کےرکھدی ہے حقیقت ،میری 
تو جو ہر بھید چھپائے گا، میرا کیا ہو گا

میرے ہر گیت کی ہر تان، تیرے نام سے ہے
تو الگ گیت جو گائے گا ،میرا کیا ہو گا

چھوڑ کے سارا جہاں ہم نے ، تجھے ساتھ لیا
ساتھ جو تو نہ نبھائے گا ،میرا کیا ہو گا

تیری ہر بات قسم کھانے کی ،محتاج ہے کیوں 
نہ یقیں پھر بھی جو آئیگا  ،میرا کیا ہو گا

وہی بہتر ہے تیرے واسطے مجھ سے زیادہ 
کوئی احساس دلائیگا ،میرا کیا ہو گا 

تجھ سےوابستہ کوئی رشتہ، تیرے رشتے سے
مجھ کو دن رات ستائے گا ،میرا کیا ہو گا

میری چاہت کی جلن میں،کوئی جادو ٹونہ
کر کے تعویذ جلائے گا، میرا کیا ہو گا

دل کی دیوار پہ کھینچیں ہیں 
لکیریں اتنی 
تو نہ گر انکو مٹائے گا ، میرا کیا ہو گا

اب کوئی چہرہ کرے قید، تو آواز کوئی 
قید  آواز سنائے گا، میرا کیا ہو گا

ماسوا میرےکسی اور کو، اےدوست اگر 
کہہ کے ممتاز بلائیگا، میرا کیا ہو گا
●●●






x

اتوار، 2 اگست، 2020

کشمیر ‏بنے ‏گا ‏پاکستان ‏


تم ہم سے ہماری آنکھیں چھین سکتے ہو خواب نہیں 
تم ہم سے ہماری زبان چھین سکتے ہو آواز نہیں 
تم ہم سے دل چھین سکتے ہو جذبات نہیں 
تم ہم سے ہمارا دماغ چھین سکتے ہو سوچ نہیں ۔۔۔۔
کشمیر کا فیصلہ کشمیری کرینگے 
اور پاکستان ہر کشمیری کے لہو میں دوڑتا ہے 
ہونٹوں ہر مسکاتا ہے
آنکھعں میں بستا ہے 
اسی لیئے کشمیر بنے گا پاکستان
                   (ممتازملک۔پیرس)

پیر، 27 جولائی، 2020

بوڑھا کرتی ہیں / کوٹیشنز



بوڑھا اپکو عمر نہیں کرتی بلکہ اداسیاں کرتی ہیں
 اور اداسیاں 
انسانوں کی دین ہوا کرتی ہیں ۔ 
       (چھوٹی چھوٹی باتیں) 
            (ممتازملک.پیرس)

اتوار، 26 جولائی، 2020

قینچی / کوٹیشنز



جیسے ادھار محبت کی قینچی ہے 
بالکل اسی طرح انا کسی بھی رشتے کی قینچی ہے ۔ 
                (چھوٹی چھوٹی باتیں)
                      (ممتازملک.پیرس)

اتوار، 19 جولائی، 2020

صبر اور بے بسی کا فرق/ کوٹیشنز



     صبر اور بے بسی کا فرق

🌻صبر سکون دیتا ہے اور بے بسی بے سکون کر دیتی ہے ۔
🌷صبر میں چہرے روشن ہو جاتے ہیں اور بے بسی میں تاریک۔
🌹صبر میں حوصلہ بڑھ جاتا ہے اور بے بسی میں حوصلہ ٹوٹ جاتا ہے۔
 🍎اسی لیئے صبر کے انتظار  کا پھل اسی طرح میٹھا ہوتا ہے جیسے کچے پھل کے پکنے کا انتظار ۔
🤮 اور بےبسی کا پھل وہ انتظار ہے جس میں پھل پک پک کر سڑ جائے، زہر بن جائے۔ 
             (چھوٹی چھوٹی باتیں)
                   (ممتازملک۔پیرس)

* ● کشید ‏کر/ اردو شاعری۔ اور وہ چلا گیا



       کشید کر
              (کلام: ممتاز ملک۔ پیرس)


❤راتوں سے وحشتوں کے وہ لمحے کشید کر 
خوابوں کے رکھ دیئے تھے جہاں سر برید کر 

 💛سونے کے واسطے زرا آنکھیں تو موندیئے
ہم نے اڑا دیئے ہیں سبھی غم خرید کر

💔 دنیا بدل رہی ہے میرے اے دروغ گو
       جدت پسند بن تو بہانے جدید کر

🖤 ​​سامان قہر رب ہے بپا جو نہ پوچھئے
    رشتے گزر رہے یوں دامن درید کر 

💙رفتار سست ہے تیری گفتار تیز ہے
دعووں میں کچھ عمل کااضافہ مذید کر

💜 اپنے پروں پہ کر کے بھروسہ تو دیکھئیے 
اونچی اڑان کے لئے محنت شدید کر

🧡دیوانے سے نہ ہوش کی امید کیجیئے
  بندہ گناہگار اسے برگزید کر

💖برسوں سے سن رہے ہیں یہ احوال درد کے 
ممتاز اب خوشی کی بھی آ کر نوید کر               
●●●



اتوار، 12 جولائی، 2020

کشید کر/ شاعری





   راتوں سے وحشتوں کے وہ لمحے کشید کر
خوابوں کے رکھ دیئے تھے جہاں سر برید کر

 سونے کے واسطے زرا  آنکھیں تو موندیئے
ہم نے اڑا دیئے ہیں سبھی غم خرید کر
                (ممتازملک۔پیرس )


پیر، 6 جولائی، 2020

● ڈپریشن ‏علامات ‏وعلاج/ کالم ‏



    ڈپریشن علامات و علاج
          (تحریر: ممتازملک.پیرس)


ڈپریشن کیا ہے ؟ مایوسی ، یاسیت، نآامیدی یہ ہی تو ہے 
بے بسی کا ایک خوفناک دورہ اور اگر  اسے ہر تکلیف اور بیماری کا آغاز کہا جائے تو غلط نہ ہو گا ۔ 
انسان جب خود کو تنہا مان لے ، ہارا ہوا تسلیم کر لے تو گویا اس نے زندگی کی جنگ میں ہتھیار پھینک دیئے۔ اب اسے جیت اور ہار سے کوئی دلچسپی نہیں رہی ۔ 
ان میں سے کسی بھی کیفیت کے شکار انسان پر کسی بھی بیماری کا حملہ بیحد آسان ہو جاتا ہے ۔ کیونکہ اس کا مدافعتی نظام یعنی ایمیونٹی سسٹم کمزور تر ہوتا چلا جاتا ہے ۔ ایسی صورت میں اس پر معمولی سی بیماری کا حملہ بھی جان لیوا شکل اختیار کر سکتا ہے ۔ 
وہ کسی اور کو نقصان پہنچانے سے زیادہ اپنے آپ کو مٹانے پر تیار ہو جاتا ہے ۔ ایسا انسان خود کو ریزہ رہزہ ہوتا ہوا محسوس کرتا ہے۔ خود کو ہواوں میں بکھرتے ہوئے دیکھتا ہے ۔ اسے کبھی تنہا مت چھوڑیئے ۔ کیونکہ 
وہ باآسانی  خودکشی پر بھی آمادہ ہو سکتا ہے ۔ کیونکہ وہ اپنے آپ کو اس دنیا کا سب سے ناکارہ ترین وجود سمجھنے لگتا ہے ۔۔جس کی کسی کو کوئی ضرورت نہیں ہے ۔ جس کی کوئی عزت نہیں ہے ۔ جو ایک بوجھ ہے جسے دوسرے مجبورا ڈھو رہے ہیں ۔ 
اپنے اردگرد اپنے رشتوں اور دوستوں کے رویوں پر نظر رکھیئے۔ ایسے انسان کو جس میں اس کی ہلکی سی بھی جھلک محسوس ہو  اس کے دوست احباب اور عزیزوں پر اہم زمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اسے تنہا نہ چھوڑیں ۔ اس کا حوصلہ بڑھائیں ۔ اسے یقین دلائیں کہ وہ ان سب کے لیئے اہم ہے ۔ آپ اس سے محبت کرتے ہیں اور اس کی باتوں کو ، اسکے وجود کو اسکے ہونے اور نہ ہونے کو اہمیت دیتے ہیں ۔ اس اس کی کمی کو محسوس کرتے ہیں ۔ 
اسے اس بات کا یقین دلائیں کہ ہر طرح کا وقت ہر انسان پر آتا ہے اور  وہ ان سب کو پار کر جاتا ہے ان کے لیئے جو اس کے لیئے اہم ہوتے ہیں ۔ 
وہ لوگ جو اپنے اندر ان علامات میں سے کوئی ہلکی سی علامت بھی محسوس کریں تو اسے معمولی سمجھنے کی غلطی ہر گز نہ کریں ۔  سب سے پہلے کھلی فضا میں قدرتی ماحول میں سانس لینے کا اہتمام کریں ۔۔اللہ تعالی کا پیدا کیا ہوا سبزہ دیکھے اپنی آنکھوں کو تراوٹ دے ۔ پریشان کن ماحول سے نکلے ۔ کچھ روز کے لیئے اللہ کی بنائی زمین کے سرسبز گوشے میں گزارے لیکن اپنے دماغ کو ہر  نفع نقصان کی پرواہ سے آذاد کر کے ۔  اپنے اللہ سے اپنے تعلق کو مضبوط بنائے 
 باوضو رہے ۔ پبجگانہ نمازوں کا اہتمام کرے ۔ اپنے مقدر پر یقین رکھے ۔ اور خود کو یاد دلائیں کہ ایک وہی ذات ہے جو ہم سے زیادہ ہمارے ارادے بھی جانتی ہے اور ہمیں پسندیدہ شے دے نہ دے لیکن جو دیتی ہے وہ ہی ہمارے لیئے سب سے بہتر ہوتی ہے ۔ اس سے زیادہ ہمارا مددگار ہونے کا نہ کوئی دعوی کر سکتا ہے اور نہ ہی عمل۔ اور سب سے خاص بات کہ اتنا مہربان ہے کہ کبھی ہم سے جدا بھی نہیں ہوتا ۔ جبکہ دیکھیں تو ایک وقت میں ہمارا سایہ تک ہمارے ساتھ نہیں رہتا ۔ لیکن اللہ تو ہم سے کسی ایک پلک چھپکنے جیسے پل کے لیئے بھی ہم سے جدا نہیں ہوتا ۔ ایسے بے مثال محبت کرنے والے کے ہوتے ہوئے اگر ہم مایوس ہو جائیں تو اس محبوب کی محبت کی اس سے بڑی توہین اور کیا ہو سکتی ۔ وقتی طور پر ہمیں یہ تو نظر آتا ہے کہ مالی نقصان ہو گیا ، رشتے کھو دیئے ، کبھی کہیں عزت کم ہو گئی ، کہیں کوئی منصوبہ پورا نہ ہو سکا ، کسی امتحان میں فیل ہو گئے۔۔۔
لیکن اس کے بدلے ہمیں کن کن فوائد سے نوازہ گیا یا اس کے بدلے میں ہمیں کس کس مشکلات سے بچا لیا گیا یہ ہماری نظروں سے اوجھل ہو جانا ہی ہمیں مایوس کر دیتا ہے ۔ جبھی تو مایوسی کو کفر کہا گیا کیونکہ یہ انسان کو ناشکرگزاری کی آخری منزل تک پہنچا دیتی ہے اور انسان اپنے محبوب رب کو ناراض کر بیٹھتا ہے ۔ زندگی بھی گنواتا ہے اور آخرت بھی تباہ کر لیتا ہے ۔ 
اللہ کو اپنے دل کا حال سنائیے آدھی رات کے خاموش سجدوں میں ۔
آنسو بہائیے اپنے دل کا بوجھ اتاریئے اس مہربان کی چوکھٹ پر ۔  اس کی باتیں سنیئے اس کے کلام پاک کی تلاوت میں ۔ اور پا جائیے اپنے دل کا ابدی سکون ۔ 
                   ۔۔۔۔۔ 

جمعہ، 3 جولائی، 2020

● تمنا/ کوٹیشن


               تمنا

خود کو اس قابل کیجیئے
 کہ
 آپ لوگوں کی نہیں لوگ آپکی تمنا کریں۔
       (چھوٹی چھوٹی باتیں)
             (ممتازملک.پیرس)

جمعرات، 2 جولائی، 2020

سچے ‏ساتھی ‏کی ‏تلاش/ کالم


           سچے ساتھی کی تلاش
                (تحریر: ممتازملک.پیرس) 

کچھ عرصہ پہلے تک یا دو تین دہائیوں پہلے تک ہمارے ہاں یہ رنگ برنگی دوستیاں،  مرد و زن کا دوستیوں کے نام پر بے حجابانہ میل ملاپ ، تنہائی میں کہیں بھی کسی کے بھی ساتھ منہ اٹھا کر ملنے چل دینا ۔۔۔ ان سب چیزوں کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا ۔ (جو نہ صرف اسلامی اصولوں  کے خلاف ہیں بلکہ ہمارے معاشرتی اور اخلاقی تقاضوں کا بھی مذاق ہیں ۔)یہ سب بیماریاں اور رویئے ایلیٹ کلاس کے چونچلے اور بدنامیاں سمجھے جاتے تھے ۔ 
لیکن آج وقت نے ایسی کروٹ لی کہ اعتماد کے نام پر کچھ تو والدین نے اولادوں (خواہ لڑکے ہوں یا لڑکیاں )کو کھلی چھوٹ دیدی کہ ان کے گھر آنے جانے کا کوئی وقت مخصوص نہ رہا اور وہ خود کو والدین کے سامنے جوابدہی سے مبرا سمجھنے لگے  تو وہیں ان کے باہر کے ماحول نے انہیں گھر میں  والدین پر حکم چلانے والا وہ آقا بنا دیا جس نے قیامت کی اس نشانی کو پورا کر دیا جس میں ہمیں خبردار کیا گیا تھا کہ 
"قیامت اس وقت تک نہیں آئے گی جب تک لونڈی اپنی مالکن کو جن نہ لے۔" ۔۔ 
مطلب اولادیں اپنے والدین کے ساتھ ملازموں والا برتاو کرنا شروع نہ کر دیں ۔ 
اسی بے مہار آذادی میں جب اپنے والدین کو ہم اپنا مخلص رازدار ہی نہیں سمجھتے ۔ نہ ہم انہیں عقل والوں میں شامل کرتے ہیں ۔ عجیب بات ہے نا کہ عقل کل تو ہم خود ہی ہو چکے ہوتے ہیں  لیکن جن والدین  کی ہم پیداوار ہیں  انہیں کو دنیا کے سب سے بیوقوف اور جاہل انسان سمجھنے لگتے ہیں اور یوں  سچے دوست کی تلاش کا ایک سراب نما سفر شروع ہو جاتا ہے جہاں  ہر نخلستان پر پہنچ کر معلوم ہوتا ہے کہ نہیں یہ تو سراب تھا یا اس سے بھی اچھا کوئی اور ہو یا پھر یہ تو میرے معیار کا نہیں ۔ 
کسی نے سچ ہی کہا ہے کہ
"دوست ہوتا نہیں ہر ہاتھ ملانے والا"
دوستیاں پالنے والا انسان کبھی غیر جانبدار نہیں رہ سکتا ۔ وہ کسی نہ کسی جگہ کسی ایک کے پلڑے میں ناجائز طور پر جھک ہی جاتا ہے ۔ اس لیئے وہ اکثر ایماندار بھی نہیں رہتا ۔ سچا دوست ڈھونڈنے کے بجائے عزت کیساتھ اپنے لیئے زندگی کا ہمیشہ کا ساتھی چنیئے ۔ 
اپنے آپ کو ان دوستیوں کے عذاب سے نکالیئے ۔ سب کیساتھ اسی حد تک تعلق رکھیئے جس حد تک اس تعلق کی حقیقی جگہ ہے۔ 
اپنے لیئے کسی سچے ساتھی کی ضرورت ہے  تو عزت کیساتھ شادی کر لیجئے ۔ میاں بیوی کو اللہ پاک نے ایکدوسرے کا لباس قرار دیا ہے  ۔ کیونکہ ان میں سے کسی بھی ایک کا فائدہ دونوں کا فائدہ اور نقصان بھی دونوں کا برابر کا نقصان ہوتا ہے ۔ اس سے زیادہ اور کوئی رشتہ وفادار نہیں ہو سکتا ۔ 
(چند ناکام لوگوں کو چھوڑ کر )
اکثر لوگوں کو پرانے افیئرز اور دوستیاں مستقبل میں ڈراونے خواب لگنے لگتے ہیں ۔ اس لیئے خود کو اس حد تک کبھی گرنے مت دیں کہ آئندہ آپکو پرانے رشتوں یا دوستوں کے ہاتھوں بلیک میل ہونا پڑے ۔ اور شرمساری اٹھانی پڑے ۔
رہ گئی بات پرانے لوگوں کی (جن سے آپ کے کبھی افیئرز  رہے تھے) انکے سامنے آنے پر ان سے کیسا رویہ رکھنے کی،  تو انہیں ہمیشہ اسی طرح ملیئے جیسے آپ سبھی عام لوگوں سے ملتے ہیں ۔ کیونکہ وہ اگر آپ کے لیئے اب بدنامی کا باعث ہو سکتے ہیں تو آپ بھی انکے لیئے اتنے ہی زہریلے اور بدنامی کا باعث بن سکتے ہیں ۔ لہذا دونوں جانب سے اپنی عزت اپنے ہاتھ ہی رہنی چاہیئے ۔ جس بات پر اللہ نے پردہ اور وقت نے مٹی ڈال دی ہے تو آپ بھی ان گڑھے مردوں کو خوامخواہ اکھاڑنے کی کوشش مت کریں ۔ 
جب آپ ان کے لیئے خاص نہیں رہے تو آپ انہیں اپنے دماغ پر کیوں مسلط رکھنا چاہتے ہیں ۔
پرانی غلطیوں اور بیوقوفیوں پر اللہ سے معافی طلب کیجیئے اور خود کو اللہ کے احکامات کی جانب متوجہ کیجیئے۔ وہی ہمیں بہترین راستہ دکھانے والا ہے ۔ وہی ہمارا سچا دوست ہے ۔ 
                     ۔۔۔۔۔۔۔


اتوار، 28 جون، 2020

انسانوں ‏کا ‏شر ‏/ کالم


              انسان کا شر
          (تحریر:ممتازملک.پیرس)

اَلۡحَمۡدُ لِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۱﴾
سب تعریف اللہ تعالٰی کے لیئے ہے جو تمام جہانوں کا پالنے والا ہے ۔
سے شروع ہونے والے کلام الہی کی آخری آیات 
الَّذِیۡ یُوَسۡوِسُ فِیۡ صُدُوۡرِ النَّاسِ ۙ﴿۵﴾
جو لوگوں کے سینوں میں وسوسہ ڈالتا ہے ۔ 
مِنَ الۡجِنَّۃِ وَ النَّاسِ ٪﴿6﴾  
( خواہ )  وہ جن میں سے ہو یا 
انسان میں سے ۔
کو بغور پڑھیئے اور سمجھیئے تو زندگی کی سب سے بڑی حقیقت سے ہمارا واسطہ پڑیگا ۔ ہمارے ذہنوں میں ہمارے ہی تراشیدہ بت چٹاخ سے ٹوٹ کر ریزہ ریزہ ہو جائینگے۔ کہ وہ بات جو ہمارے پالنے والے نے ہمیں صدیوں پہلے سمجھا دی تھی وہ آج تک ہمارے کند ذہن میں راسخ کیوں نہ ہو سکی ۔ کلام پاک کی پہلی آیت ہمیں  سمجھاتی ہے کہ سارے عالمین کا رب ہی وہ واحد ہستی ہے ، وہ ذات پاک ہے، جس کی تعریف میں کسی بھی حد تک جایا جا سکتا ہے کیونکہ وہ اس کا مستحق بھی ہے اور اس کے لائق بھی ۔ کیونکہ وہی تو ہے جو ہر شے کے پالنے پوسنے ، سے لیکر کیسے پالنے اور کس حال میں رکھنے تک کی طاقت بھی رکھتا ہے اور  اختیار بھی ۔ 
وہیں وہ اسی کلام پاک کے آخری حصے میں آخری دو آیات میں ہماری آنکھوں پر پڑا غفلت کا پردہ بھی چاک کر دیتا ہے اور بتا دیتا ہے کہ خود کو بچانے کی دعا کریں اس سے ، جو لوگوں کے دلوں میں وسوے ڈالتا ہے خواہ وہ جن میں سے ہو یا انسان میں سے۔۔
یعنی انسان ہی وہ مخلوق ہے جو شر اور وسوسہ پھیلانے میں جنات اور  شیطان کے بھی مقابل کھڑا ہو جاتا ہے ۔ 
سچ کہیں تو اس پر مذید غور کریں تو دنیا کے ہر قتل میں ، ہر برائی میں ، ہر لوٹ مار میں ، ہر شرمندگی میں ہمارے سب سے قریبی لوگوں کا ہی ہاتھ ہوتا ہے اور دس میں سے ہر نو معاملات میں یہ قریبی اپنے ہی عزیز اور رشتے دار ہی ہوتے ہیں ۔ جن کے خمیر میں آپکی کامیابیوں اور نیک نامیوں سے حسد اور شر شاید گوندھا گیا ہوتا ہے یا پھر  وہ اس شر پسندی کو اپنا حق سمجھتے ہیں یا وہ اس کو اپنا فرض سمجھتے ہیں کہ جہاں جہاں اور جب جب  آپ کی کھری راہ میں کوئی بھی کھوٹ ڈال سکیں یا آپ کی تباہی میں اپنا حصہ ڈال سکیں تبھی ان سے آپ کی قرابت داری ثابت ہو سکے گی ۔ اور وہ چین کا سانس لے سکیں گے کہ شکر ہے جو ہمارے پاس نہیں تھا وہ اس کے پاس بھی نہیں رہا ۔ 
 ورنہ باقی اکا دکا واقعات میں دوست یا انجان لوگ کسی وقتی فائدے کے لیئے ایسے گناہ اپنے سر پر لے تو لیتے ہیں لیکن اپنا چین سکون رخصت کر کے ۔ 
انسانوں کی اسی خصلت پر روشنی ڈالنا اسقدر ضروری تھا کہ اسی موضوع کے لیئے ایک پوری سورہ کو ہی "الناس" کا نام دیدیا گیا ۔ اس سے اس کی موضوع یعنی "لوگ " کی اہمیت کا اندازہ لگائیے ۔ انسان زندگی میں محنت کرتا ہے، جستجو کرتا ہے، کوشش کرتا ہے تو کسی نہ کسی مقام پر اسے اللہ کا کرم پہنچا ہی دینا ہے ۔ اور کسی کسی  کو تو بنا کسی محنت، بنا کسی جستجو اور بنا کسی کوشش کے بھی بہت کچھ عطا فرما دیتا ہے ۔ دونوں صورتوں میں اس کے ارد گرد موجود اور اس سے جڑے ہوئے رشتوں کا امتحان بھی شروع ہو جاتا ہے ۔ کہ وہ کیسے اس کی کامیابیوں یا خوشیوں کو ہضم کر پاتے ہیں ۔ لیکن وائے قسمت کہ ہزاروں لاکھوں میں سے کوئی ایک ادہ رشتے دار ہی ایسا نکلتا ہے جو اس امتحان میں کامیاب ہو سکے ۔ تو آئیے مل کر دعا کریں کہ اللہ پاک ہم سب کو ہمارے عزیزوں رشتے داروں کے شر سے محفوظ رکھے کیوں کہ یہ ٹھیکہ انہوں نے بڑے طمطراق سے اٹھا رکھا ہے ۔ اور اس شر سے بچنا زندگی کا سب سے بڑا امتحان بھی ہوتا ہے اور سب سے بڑا دکھ بھی ۔۔۔۔
                       ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جمعہ، 26 جون، 2020

◇ کتنا ‏مشکل ‏ہوتا ‏ہے/نظم ‏۔ جا میں نے تجھے آزاد کیا


کتنا مشکل ہوتا ہے


اپنے پیاروں کی قبروں پر پھول چڑھانا 
کتنا مشکل ہوتا ہے 
بیٹھے بیٹھے لمحہ بھر میں ہیں سے انکو تھے کہہ جانا
کتنا مشکل ہوتا ہے 
کتنی باتیں دل میں رہ گئیں بعد میں خود کو یہ سمجھانا
کتنامشکل ہوتا ہے 
بوری بھرتے کب سوچا تھا کاندھے پر یہ کاش اٹھانا 
کتنا مشکل ہوتا ہے 
                       ●●●
            (کلام /ممتازملک.پیرس)

پیر، 22 جون، 2020

کرچی ‏خواب ‏/ شعر



         امیدوں کے بوجھ کے نیچے 
       دب کر  کرچی ہو گئے خواب 
            (کلام:ممتازملک ۔پیرس)

چائے ‏بنائی/ ‏شعر



         چائے



 کیا بتائیں کسقدر ہمکو تمہاری یاد آئی


اپنی خاطر ایک پیالی جب کبھی چائے بنائی ۔۔۔

پیر، 15 جون، 2020

● حیادار / کوٹیشنز

                حیادار

حیا بڑی ہی حیادار ہوتی ہے ۔
 جس کے اندر سے ایک بار رخصت ہو جائے وہاں اس کے  مرتے دم تک دوبارہ واپس نہیں لوٹتی ۔۔۔۔
چاہے
 پھر کوئی حج اور عمرے کرتا رہے اور چاہے زمزم سے روز غسل فرمانے لگے ۔ 
کیونکہ وہ جانتی ہے کہ 
      چور  چوری سے جا سکتا 
        ہیرا پھیری سے کبھی نہیں ۔۔۔
                     ۔۔۔۔۔
        (چھوٹی چھوٹی باتیں )
               (ممتازملک.پیرس) 



پیر، 8 جون، 2020

بے راہ روی وجہ / کوٹیشنز





          بے راہ روی وجہ

بے راہ روی کی کوئی وجہ نہیں ہوتی
بلکہ
بے راہ روی خود بہت ساری خرابیوں کی وجہ ہوتی ہے ۔
                 (چھوٹی چھوٹی باتیں)
                       (ممتازملک.پیرس)



اتوار، 7 جون، 2020

● ◇ جا میں نے تجھے آزاد کیا / نظم ۔ جا میں نے تجھے آزاد کیا





جا میں نے تجھے۔۔۔۔۔
                   آزاد کیا



جب میری محبت کی تیری
نظروں میں کوئی قیمت ہی نہیں
اظہار کا میرے  تیرے لیئے
معنی ہی نہیں وقعت ہی نہیں
جب میری حفاظت نے تجھ کو
اس درجہ ہے بیزار کیا
کہ تونے ہی میری چاہت کو
رسوا یوں سر بازار کیا
کیوں بے قدرے کے خاطر یوں
یہ وقت اپنا برباد کیا
جا میں نے تجھے ۔۔۔۔۔۔۔۔آزاد کیا

موتی کے کھلائے تھے دانے
مخمل میں تجھے ملبوس کیا
پیروں میں تیرے یہ دل تھا میرا
کوئی  اشک تیرا گرنے نہ دیا
لے میں نے محبت کے اپنے
اس پنجرے کا در کھول دیا
اب تجھ کو اجازت ہے اس کی
پرواز جہاں کر بول دیا
جانے پہ تیرے سننا ہم نے
نہ شکوہ نہ فریاد کیا
جا میں نے تجھے۔۔۔۔۔ آزاد کیا

اب پر تیرے کمزور نہیں
مجھ میں سننے کا زور نہیں
کہ قید کیا میں نے تجھ کو
یہ سنکر دل بیزار ہوا
احساس ہوا ہے شدت سے
غلطی تھی میری جو پیار ہوا
جو چاہے جہاں چاہے جاکر
تو اپنا بسیرا اب کر لے
بیکار ہی اپنے آپ کو یوں
چاہت میں تیری ناشاد کیا
جا میں نے تجھے۔۔۔۔ آزاد کیا
          جا میں نے تجھے۔۔۔۔ آزاد کیا

                          ●●●


جمعہ، 5 جون، 2020

شراکت رداری / کوٹیشنز




       شراکت داری 

اللہ کے حکم کے خلاف کسی رستے پر بلانے والے کی دوستی ایسی ہی ہے 
جیسے 
دوزخ میں شراکت داری
اور یہ شراکت آخرت تو تباہ کرتی ہی ہے لیکن دنیا کا سکون اور عزت بھی جلا کر خاک کر دیتی ہے۔
           (چھوٹی چھوٹی باتیں)
                  (ممتازملک.پیرس)
                       ۔۔۔۔۔۔

اتوار، 31 مئی، 2020

اصلی ‏جنت ‏کے ‏خیالی ‏راستے/ کالم


   اصلی جنت کے خیالی راستے
             تحریر:ممتازملک.پیرس)



ایک محفل دعا میں ایک خاتون نے اپنے محفل جمعہ میں نہ آنے کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا کہ دیکھیں بھئی میں تو جمعے کی نماز کے بعد کسی خاص الخاص کے گھر بھی نہیں جاتی ، چاہے کوئی بھی، کتنا بھی ، ضروری پروگرام ہی کیوں نہ ہو۔ پوچھا کیوں؟  تو بولیں کیونکہ میں اس روز اتنے اتنے ہزار بار فلاں فلاں وظیفہ پڑھتی ہوں اس سے ہفتے بھر میں کیئے ہوئے سارے گناہ اللہ پاک معاف فرما دیتا ہے ۔۔۔ہم نے پوچھا کہ گناہ تو آپ نے اللہ کے حضور نہیں بندوں کے ساتھ کیئے تو اللہ پاک اپنے بندوں کے معاف کیئے بنا اگر وہ گناہ اتنی آسانی سے معاف فرما دیتا ہے تو پھر اپنے ہی کلام پاک میں بار بار حقوق العباد کی تکرار کیوں کرتا ہے ؟ کیا ضرورت ہے انسانوں کی، رشتوں کے حقوق کی بات کرنے کی، اسے ادا کرنے کے لیئے سخت تاکید کرنے کی؟ 
یہ صرف ایک واقعہ تھا مثال کے طور پر، ورنہ جہاں دیکھیں گھر، باہر ،سوشل میڈیا ہر جگہ پر ہر منٹ میں ایسے ایسے وظائف بانٹے جا رہے ہوتے ہیں کہ اس کے  عوض نعوذ باللہ نہ تو حقوق اللہ کی فکر کرنے کی کوئی ضرورت ہے اور نہ ہی حقوق العباد کو کسی کھاتے میں گننے کی ۔ قتل کریں ، یتیموں کا مال کھائیں ، بیواؤں کی زندگی عذاب کر دیں ، دوسروں کی عزتیں پامال کر دیں ، چوری کریں ، ڈاکہ ڈالیں، جھوٹ بولیں  غرضیکہ کوئی بھی گناہ کر لیں ۔ اور بے فکر ہو جائیں۔ آپ کی معافی تلافی کے لیئے ایک ہزار ایک من گھڑت کہانیوں کے ساتھ وظائف کے نام پر بے فکری پیکچز موجود ہیں ۔ جنت تو آپ کے ہی انتظار میں تیار کی گئی تھی کہ کب آپ اپنے وظائف کے  زور پر اسے فتح کرتے ہیں ۔ کیونکہ اعمال کے زور پر اسے پانے کا دم خم تو اب کسی نام نہاد مسلمان میں شاید رہا نہیں ۔ تو آپ بھی اللہ کے ناموں کا ورد اس سے اپنی ذہنی طاقت میں اضافے ، اچھے نصیب کی دعا، اچھے اعمال کی توفیق طلب  کرنے کے بجائے یہ ہی سوچ کر،  کر رہے ہیں کہ اس کے زور پر سات خون آپ پر معاف ہو جائینگے تو آپکو اشد ضرورت ہے کسی اچھے ماہر نفسیات سے رابطہ کرنے کی اور ایک بار  قران پاک مکمل ترجمے اور تفسیر کیساتھ سمجھ کر پڑھنے کی، اسی طرح ، جسطرح ایک غیر مسلم اسلام میں داخل ہونے سے پہلے اسے سمجھتا ہے۔ اپنی زبان میں سمجھ کر اس پر یقین حاصل کر لیتا ہے تو پھر قران کو اسلام کا دروازہ سمجھ کر ، اس میں داخل ہو کر،  فلاح کا گھر یعنی اعمال سے حاصل کردہ جنت پا لیتا ہے ۔ اصل جنت جس میں اسے دنیا کا سکون بھی حاصل ہو جاتا ہے اور آخرت کی فلاح بھی ۔ کبھی غور کیجیئے ۔ اس طرح سے مسلمان ہوئے لوگوں کے چہروں کو غور سے دیکھیئے گا (جنہوں نے اسلام کسی سے نکاح کرنے کی غرض سے  اور نہ ہی کسی مالی مفاد میں  قبول کرنے کا ڈرامہ کیا ) اور سیکھیئے گا کہ سکون کیا ہوتا ہے ، کامیابی کسے کہتے ہیں اور مسلمان کیسا ہوتا ہے ۔ ہم جیسے تارکین وطن کم از کم اس لحاظ سے تو بیحد خوشنصیب سمجھتے ہیں خود کو ، کہ ہمیں ایسے پرسکوں نو مسلمان چہروں کو دیکھنے اور ان سے ملنے اور ان کی عملی زندگیوں سے کچھ نہ کچھ سیکھنے کا موقع  کبھی نہ کبھی مل ہی جاتا ہے ۔ 
کاش ہمارے ممالک  میں ہم پیدائشی مسلمانوں کے اندر بھی ہمیں ان نومسلموں جیسا  عملی اسلام دیکھنا نصیب ہو سکے ۔ جو وظائف کے زور پر اپنے لیئے جادوئی جنت حاصل کرنے کے لیئے اپنے دن اور اوقات مخصوص نہیں کرتے ۔ بلکہ اپنے اعمال سے اللہ کے حضور اپنی عاجزانہ کوششیں پیش کر دیتے ہیں اور  اپنے کردہ ہی نہیں ناکردہ گناہوں پر بھی اپنے آنسو نچھاور کرتے ہیں ۔ کفارے ادا کرتے ہیں ، تلافیاں کرنے کی جدوجہد میں رہتے ہیں ۔ تو اللہ ان سے پیار کیوں نہ کرے ؟ اللہ اپنی اس مخلوق سے محبت کیوں نہ کرے جو اس کے احکامات بجا لاتی ہے ؟ اور اس سے محبت کرنے پر کہاں مجبور ہے کہ وہ نافرمانوں کو بنا اعمال صالح کے جنتوں میں داخل کر کے صالحین کی دل آزاری کرے ؟ جبکہ وہ خود فرماتا ہے کہ ان نافرمانوں کیلیئے دردناک عذاب ان کا منتظر ہے ۔ 
سو وظیفے بانٹ کر اور وظیفے پڑھنے میں جو دنوں اور گھنٹوں آپ نے خود کو پابند کرنا ہے یقین کیجیئے اس سے  بیسویں حصے کے وقت میں بھی اگر اسکے بندوں کی خیر اور بھلائی کا کوئی کام سرانجام دے لینگے تو آپکو اصلی جنت کے لیئے نقلی اسباب کبھی کھوجنے نہیں پڑیں گے ۔ اصل منزل تک پہنچنے کے لیئے اصل اور درست راستہ اختیار کرنا پڑتا ہے ۔ خوابوں اور خیالی راستوں کے ذریعے حاصل ہونے والی جنت کا سفر آنکھ کھلتے ہیں ہوا ہو جاتا ہے۔  بالکل اسی طرح جسطرح خیالی پلاو سے پیٹ نہیں بھرتا اور نہ ہوائی قلعے میں رہا جا سکتا ہے ۔ 
 علماء کرام اور مولانا حضرات بھی اگر وظائف بانٹنےکے بجائے لوگوں  پر ان کے رشتوں اور انسانیت کے حوالوں سے اپنی ذمہ داریاں ، فرائض اور اللہ تعالی کے ان سے متعلق  سچے احکامات پہنچانا شروع کر دیں ۔ اسے اپنے خطبات کا محور بنا لیں تو اس سے انکی عزتوں میں نہ صرف مزید اضافہ ہو گا بلکہ لوگوں کو اپنے دین کی سمجھ بھی حاصل ہو سکے گی ۔ دین کو وظائف میں بانٹ کر لوگوں کو آپ اسی طرح سے اعمال صالح سے دور کر رہے ہیں جیسے ایک نشہ بیچنے والا، انسان کو عملی زندگی سے دور کر دیتا ہے ۔ خدارا خواب بیچنا بند کر دیجیئے ۔ اب اور کتنا تباہ ہونا رہ گیا ہے 😪😢
                 ۔۔۔۔۔۔۔۔

شاعری / /مدت ہوئ عورت ہوۓ/ ممتاز قلم / سچ تو یہ ہے/ اے شہہ محترم/ سراب دنیا/ نظمیں/ پنجابی کلام/