ممتازملک ۔ پیرس

ممتازملک ۔ پیرس
تصانیف : ممتازملک

ہفتہ، 31 جنوری، 2015

●(13) سن محرم میرے آج زرا/ کالم۔ سچ تو یہ ہے




(13) سن محرم میرے آج زرا            تحریر: ممتازملک۔ پیرس


                                         
اللہ پاک کی جانب سے قائم حدود ہی میں ہماری سلامتی اور بقاء ہے ۔ محرم اور نا محرم کے فرق کو مذاق نہیں بنانا چاہیئے۔ آج ماڈرن ازم کے نام پر ہم لوگوں نے اپنی عزتوں کو خود ہی داؤ پر لگا دیا ہے ۔ آج کی عورت کو اگر یہ بات سمجھ میں آ جائے کہ آزادی اور کامیابی کا جھوٹا خواب دکھانے والے، انکی آنکھوں کی وہ بینائی بھی چھین لیتے ہیں جو انہیں اندھیرے اجالے کا فرق بتاتی ہے ۔ تو شاید وہ اپنے آپ کو بچانے کی کوشش بھی کریں لیکن جن کے دلوں پہ اللہ نے قفل لگا دیا ہو، انہیں دن کا سورج بھی کسی اندھیرے سے نہیں نکال سکتا ۔ بدقسمتی سے ہم لوگوں نے اپنے ہی گھروں کو گناہوں کی دعوت گاہ بنا دیا ہے ۔ عام سی بات ہے گھر میں دو بیٹے ہیں ایک کی بیوی لائی جاتی ہے ۔ دوسرے بیٹے کو یعنی دیور صاحب کو بھابی سے بات کرنے اور اس کے پردے کا خیال رکھنے کی صلاح دینے والا لڑکے کی ماں کو بہت برا لگے گا ارے بھائی ہے اس کا ۔ اب ان خاتون کو کون عقل دے کہ جو بھائی اللہ نے اس کے لیئے نہیں بنایا وہ ان کے کہنے پر اسکا بھائی کیسے ہو گیا ۔ یہ فیصلہ خدا کریگا کہ کون کسکا بھائی ہے اور کون کس کا باپ ، یا ہمارے ابّا جی اور امّاں جی نیا قانون بنائیں گے ۔ اس پر دیور صاحب جتنی تانک جھانک حسب توفیق ہو سکے بھاوج سے ضرور کرینگے ۔ رہی سہی کسر گھر میں آنے والے نندوئی، بہنوئی اور دوسرے مرد رشتہ دار پوری کر دینگے۔ لڑکی اگر تھوڑی احتیاط برتنے کی کوشش کرے اور پردہ رکھنا بھی چاہے تو جھٹ سے اس پر مغرور ہونے کا لیبل لگا دیا جائے گا کہ لو جی بڑا نخرہ ہے۔ ہمیں تو اپنے لائیک ہی نہیں سمجھتی۔ جان بوجھ کراسے مجبور کیا جائے گا کہ جاؤ اس کے ساتھ چلی جاؤ۔ اس کے ساتھ آ جاؤ ۔اگر گھر میں کوئی نہیں ہے تو بھی لڑکی کسی کے لیئے گھر کا دروازہ نہ کھولے تو بھی اسے اس کی احتیاط نہیں بلکہ پورا خاندان اپنی بے عزتی کا نام دے دیگا۔ اگر گھر میں بہو اپنے کمرے کو اندر سے بند کر کے بیٹھے کہ گھر میں مرد رشتہ دار ہیں کوئی بے دھڑک نہ چلا آئے تو یہ بھی اسے بہو کا عیب ہی گنا جائے گا جبکہ یہ بہت ضروری ہے کہ گھر میں بھرے پُرے سسرال میں لڑکی اپنے آپ کو محفوظ کرنا چاہے تو اپنے کمرے میں کسی کام سے یا آرام کی غرض سے جائے تو کمرہ اندر سے بند رکھے ۔ لیکن کہاں جناب ایسا کرنے پر لڑکے کے گھر والے واویلا نہیں مچا دیں گے ۔ انہیں کسی لڑکی کی عزت سے زیادہ اپنے جعلی رسوم عزیز ہیں جس میں گھر کی بہو ایک کل وقتی ملازم ہے۔ اسکی نہ تو کوئی حرمت ہے نہ ہی کوئی عزت ۔ جبکہ اگر وہ اپنے لیئے الگ گھر کا مطالبہ کرے تو بھی اسے اس کا ناجائز مطالبہ کہا جائیگا ۔ جبکہ اسلام میں سختی سے اس بات کی تاکید کی گئی ہے ۔ کہ لڑکی کو اس کا الگ پرائیویٹ کمرہ یا گھر لے کر دینا اسکے شوہر کی ذمہ داری ہے ۔ کیونکہ لڑکی کا اس پورے سسرال میں اپنے شوہر کے سوا کوئی محرم نہیں ہوتا ۔ اسے اس گھر کے تمام مردوں سے احتیاط اور پردے کے دائرے میں رابطہ رکھنا چاہیئے ۔ دیور، جیٹھ، سسر، نندوئی ، بہنوئی ، کزنز کسی کو بھی اس کی عمر کا یا رشتے کا ناجائز فائدہ نہیں اٹھانے دینا چاہیئے ۔ ہمارے ہاں زیادہ تر اخلاقی جرائم ہم سب کے ہی گھروں میں پل رہے ہوتے ہیں اور ہم باہر والوں کو ظالم سمجھ رہے ہوتے ہیں ۔  ہمارے ہاں تو ہندوؤں اور سکھوں کے بے شرمانا محاوروں کو بھی بڑی بے حیائی سے منہ پھاڑ کر استعمال کیا جاتا ہے جیسے  "سال میں ایک مہینہ جیٹھ کا بھی آتا ہے بھابی "، "سالی آدھی گھر والی" وغیرہ وغیرہ کوئی ان بے شرموں سے یہ پوچھے کہ کیا آپ کی اپنی بیٹی کے لیئے بھی آپ کے ذہن میں یہ ہی گندے محاورے آتے ہیں ؟ وہ بھی کسی کی بھابی اور سالی ہوتی ہے تو حساب برابر کیجیئے ۔ گھر سے نکلیں تو میاں نے کبھی تعریف کے دو بول جن خواتین کو نہ بولیں ہوں وہ بیچاری ترسی ہوئی خواتین باریک لبادوں میں نت نئے انداز میں زلفیں جھٹکتی، لیپا پوتی کیئے کسی کو بھائی اور کسی کو سر کہتی اپنے لیئے ہر نامحرم کو زبردستی اپنا محرم ثابت کرنے کی ناکام کوشش کر رہی ہوتی ہیں ۔ انہیں یہ نہیں معلوم ہوتا کہ جو للچائے بھنورے اور پروانے  انہیں ان کی موجودگی میں  باجی باجی ، میم میم کہہ رہے ہوتے ہیں ان کے منظر سے ہٹنے کے بعد ان کے بارے میں کس قدر غلیظ گفتگو کر رہے ہوتے ہیں ۔ ہمیں تو اکثر ایسے مواقع پر کئی لوگوں کے منہ سے نکلی یہ بات سچ لگتی ہے کہ جی ایسی خواتین کی عقل گھٹنوں میں ہوتی ہے ۔ کیا ایسی خواتین کو خود نہیں معلوم کہ کون انہیں کس نظر سے دیکھ رہا ہے ۔ عورت تو کسی خفیہ آنکھ تک کو اپنے ارد گرد محسوس کرنے کی طاقت رکھتی ہے ۔ اس کی حس اس قدر تیز ہوتی ہے کہ کسی بھی مرد کی بات کرنے کا انداز اسے اس کے چھپے ہوئے مفہوم سے آشنا کر دیتا ہے ۔ اس کے باوجود اگر ایسی خواتین ایسا کرتی ہیں تو انہیں اس کی وجوہات جاننا چاہیئے، اور اپنے شوہر کو احساس دلائیں کہ میاں بیوی کو بھی ایک دوسرےے سے تعریفی جملوں کی ضرورت ہوتی ہے ۔ اور ایسا کرنا آپ کو نفسیاتی طور پر طاقت عطا کرتا ہے ۔ ایک شوہر اپنی بیوی کی جسمانی حفاظت ہی نہیں بلکہ اس کے جذباتی ضروریات کو بھی پورا کرنے کا ذمّہ دار ہوتا ہے ۔ یہ ہی بات آپ کی گھریلو اکائی کو مضبوط کرتی ہے اور آپ کی بیوی کو کہیں بھی بھٹکنے سے بچاتی ہے ۔ نہ صرف گھر سے باہر بلکہ سب سے پہلے اپنے گھر کے اندر بھی محرم اور نا محرم کی احتیاط کا اہتمام کریں ۔  اپنی ماؤں بہنوں کو اس بات کا احساس کرائیں کہ آپ کی بیوی صرف آپ کی بیوی ہے کسی اور کے لیئے مٹھائی کی پلیٹ نہیں ۔ اس معاملے میں آپ کی ماں آپ کو خدا کی دی ہوئی سزا سے نہیں بچا سکیں گی ۔ ساسوں کو بھی اس بات کی حیا کرنی چاہیئے کہ بہو کے سامنے دیور جیٹھ کو زیادہ بے تکلف ہونے پر مجبور نہ کریں ۔ ورنہ خدا کے ہاں اس لڑکی کی حفاظت کی پوچھ انہیں سے کی جائے گی ۔ یاد رکھیں اللہ کی حدود کو توڑنے والا اس جہاں میں وقتی مزے اور فائدے تو لے لے گا لیکن جہاں اسے ہمشہ کے لیئے جانا اور رہنا ہے اس جگہ یہ گناہگار کرنے والے رشتے اور لوگ اسے بچائیں گے کیا پہچانیں گے بھی نہیں ۔ 
●●●
تحریر: ممتازملک 
مجموعہ مضامین: سچ تو یہ ہے
اشاعت:2016ء 
●●●
                    
                              

جمعہ، 30 جنوری، 2015

کیلوری چارٹ کی بہترین سائیڈ







کیلوری چارٹ کی بہترین سائیڈ


............................

اتوار، 25 جنوری، 2015

ہاتھی کے دانت دکھانے کے اور / ممتازملک ۔ پیرس



ہاتھی  کے دانت دکھانے کے اور
 ممتازملک ۔ پیرس


 ہم سب نے اکثر ایسی باتیں ضرور سنی ہوں گی کہ  ہم اس سٹور سے شاپنگ نہیں کرتے  ، ہم نے تو کبھی مارشے  ( اتوار بازار ٹائیپ اوپن مارکیٹس جو کہ دکانوں سے کم قیمت پر ہر طرح کا سامان بیچتے ہیں ) سے خریداری نہیں کی . بلکہ ہمیں تو پتہ ہی نہیں کہ مارشے کہاں کہاں لگتے ہیں ۔ ہم اس دکان سے نہیں ، ہم تو بس فلاں فلاں دکان سے ہی خریداری کرتے ہیں ، ہم تو صرف AVS ( رجسٹرڈ حلال گوشت کی ایک مُہر ہوتی ہے )  کا ہی گوشت کھاتے ہیں باقی کسی کا حلال ہم نہیں کھاتے ۔ بھئی سوری ہم تو لوکل میں بلکلللل سفر نہیں کرتے ۔  پاکستان سے پانچ ہزار کا لباس دلہن کے لیئے رور رو کر خریدنے والے اسے بڑے فخر سے جاننے اور ملنے والوں میں پچاس ہزار کا سنا کر خوش ہو رہے ہوتے ہیں ۔ یہ باتیں اور اس جیسی بےشمار فضول باتیں ہم یہاں یورپ میں بیٹھے ہوئے  ہوں یا دنیا کے کسی بھی حصّے میں بیٹھے  لوگ اکثردوسروں پر جھوٹے رعب ڈالنے کے لیئے بولا کرتے ہیں اور اسے بڑے فخر سے بولتے بھی ہیں اور جھوٹ بھی نہیں سمجھتے ۔ یہ کیوں کرتے ہیں ہم ۔ بس ایک نفسیاتی کمتری ہے ہم سب میں جو ہم سے یہ سب کرواتی ہے ۔ حالانکہ سوچنے کی بات یہ ہے کہ مہنگا لا کر بتانا تو کوئی خوبی ہے ہی نہیں ۔ خوبی تو یہ ہوتی ہے کہ انسان کم قیمت میں بہتر چیز کی خریداری کرے ۔ سگھڑ پن اور سمجھداری اس میں نہیں ہے کہ میں نے کتنے پیسے لُٹائے ہیں ۔ بلکہ اس میں ہے کہ میں نے کم سے کم رقم کو کہاں، کتنی سمجھداری سے استعمال کیا ہے ۔ لیکن یہ شاید اب پرانے زمانے کی بات سمجھی جاتی ہے ۔اب تو ایک دوسرے سے بڑھکر قیمتیں بتانا اپنی مالی برتری جتانا سمجھا جاتا ہے ۔  ان باتوں سے اور تو کسی کو کوئی فائدہ ہو یا نہ ہو ، لیکن ایک دوسرے سے زیادہ بڑھنے کے چکر میں مذید جھوٹ بولنے اور ایک دوسرے سے بڑھکر خرچ کرنے کے لیئے کچھ بھی کرنے کو تیار ہو جاتے ہیں ۔ اس کا شکار زیادہ تر وہ سادہ لوح افراد ہوتے ہیں جو ان عادی جھوٹوں کی بات کو سچ سمجھ کر ان پر اعتبار کرتے ہیں یا ویسا ہی کچھ کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ پاکستان میں جنہیں کبھی ٹانگے میں سفر کرنا نصیب نہیں ہوتا تھا ۔ وہ ملک سے باہر آ کر بڑے تکبّر سے فرماتے ہیں جی کچھ بھی ہو جائے ہم تو کبھی لوکل میں سفر نہیں کرتے ۔ یہ ان لوکلز کی بات ہے جن میں ان مُمالک کے صدُور اور وزراء بھی لائن میں لگ کر ٹکٹ خرید کر سفر کرتے ہیں ۔ شاید یہ ہی فرق ہے ہم میں اور ان ممالک کے لوگوں کی سوچ میں جس نے ہمیں آج تک بلندیوں کےسفر پر روانہ ہی نہیں ہونے دیا ۔ کہیں بھی لائن میں کھڑے ہونا ہمیں ہماری توہین لگتی ہے ۔ کہیں بھی کسی غلطی کو ماننا ہمیں ہماری بے عزتی لگتا ہے ، کہیں بھی کسی کی تعریف کرنا ہمیں ہمارے سینے پر سانپ لوٹانے کے برابر لگتا ہے ۔ کسی کو میرٹ پر اس کا حق دینا ہمیں اپنے ساتھ اسکا مقابلہ لگنے لگتا ہے ۔ سچ بولنا ہمیں اپنے آپ کو کم کرنے جیسا لگنے لگتا ہے ۔ انتہائی غریب گھروں سے آنے والا فرد  بھی اپنے آپ کو اپنے ملک میں رئیس ترین ثابت کرنے پر ہی مُصر رہیگا ۔ اسے یہ ہی خوف رہیگا کہ کہیں کسی کو میرے غریب ماضی کا علم ہو گیا تو اس کی عزت کو بٹّا لگ جائے گا ۔ حالانکہ دنیا میں ان لوگوں کو ہمیشہ ہی عزت ملی ہے جو اپنے ماضی کو یاد رکھتے ہیں اور اپنی محنت اور سمجھداری سے اپنا مستقبل بناتے ہیں  ۔ جنہیں اپنے ماضی پر شرم نہیں آتی بلکہ جنہیں اپنے سیلف میڈ ہونے پر فخر ہوتا ہے ۔ کیونکہ ان کا ہاتھ لینے والوں میں نہیں رہتا بلکہ ہمیشہ دینے والوں میں رہتا ہے ۔ اور کون نہیں جانتا کہ  خدا بھی دینے والا ہے اور دینے والوں ہی سے محبت کرتا ہے ۔ بس ضرورت ہے تو اس بات کو سمجھنے کی کہ اپنی زندگی کو ہاتھی کے دانت نہ بنائیں اور اسے آسان بنا کر دوسروں میں بھی آسانیاں بانٹنے کو کوشش کریں ۔  

                                     ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

شہر دغا ۔ سراب دنیا


                 


شہر دغا
(کلام/
ممتاز ملک۔پیرس)


وہ تجھے پیار کے بولوں سے دیوانہ کر کے
چھوڑ جائے گا کسی روز بہانہ کر کے

زہر بنیاد میں تھا شہد چٹایا برسوں
پھر اسے منہ میں رکھا اس نے زُبانہ کر کے

جانے کتنے تهے مسافر جنہیں منزل نہ ملی
میں بھی آیا یہ کہا جن کو روانہ کر کے

سادگی دیکھ تیری مجھکو بھی رونا آیا
فطرتیں کون بدل پایا زمانہ کر کے

بھول جا اسکو تیری یاد کے قابل وہ نہیں
کیا ملے گا یوں اسے یاد روزانہ کر کے

ہم فسانے کو بھی سچائ سمجھ کر روئے
بات سچی بھی وہ کرتا ہے فسانہ کر کے

         قہقہے پهیل  گئےاسکے ہوا میں اکثر   
سسکیاں جس نے دبائ ہیں خزانہ کر کے    
                                                         
                        ان میں جرات نہ تھی کہ  ہم سے مقابل ہوتے                       بات اوروں سے کہی ہم کو نشانہ کرکے 

دوستی نام ہے ٹھوکر پہ نئی ٹھوکر کا 
جو بھی آیا وہ گیا مجھ کو سیانہ کر کے

تو منافق نہیں ممتاز یہ ہے شہر دغا
ہو جا بےفکر تو اس دل کو توانا کرکے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

SHEHR E DAGHA
Mumtaz Malik

wo tojhe pyar k bolon se diwana kr k
chorh jaey ga kisi roz bahana kr ky

 zhr bonyad mein tha shehd chataya brson
phir ose monh mein rakha os ne zobana kr ky

jane kitne the mosafr jinhen  manzil na mili
main bhi aya ye kaha jin ko rawana kr k

sadgi deikh teri mojh ko bhi rona aya
fitratein kon badal paya zamana kr k

bhol ja osko teri yad k qabil wo nhi
kia mile ga youn ose yad rozana kr k

hum fasane ko bhi sachai smajh kr roey
bat sachi bhi wo krta hai fasana kr k

qahqahey pheil gaey os k hawa mein akser
siskiyan js ne dbai hain khazana kr k

on mein jorrat na thi k hum se moaqbil hoty
bat oron se kahi hum ko nishana kr k

dosti nam hai thokr pe nai thokr ka
jo bhi aya wo gaya mojh ko siyana kr k

to monafiq nhi Mumtaz ye hai shehr e dagha
ho ja be fikr to is dil ko twana kr k

..........................

ہفتہ، 17 جنوری، 2015

نسوانیت کی توہین۔/ ممتازملک ۔ پیرس




نسوانیت کی توہین
ممتازملک ۔ پیرس

عورت ہمیشہ سے ہی پیار بھرے بولوں پر بچھتی اور کئی بار تو خود کا گراتی بھی نظر آتی ہے ۔ دنیا کے کئی معاشروں میں عورت کو ایک بے وقوف ، جذباتی اور ناقص العقل مخلوق کہا جاتا رہا ہے بلکہ اب بھی کہا جاتا ہے ۔ یہ سب کچھ عورت کی حد سے زیادہ نرم دلی کی وجہ سے اسے سننا پڑتا ہے ۔ اور مرد انتہائی شاطرانہ انداز میں اس کی خوبی کو خامی بنا کر استعمال بھی کرتا ہے اور بعد میں اسے بدنام بھی کرتا ہے ۔ گویا عورت کی اچھائی اسکے لیئے اکثر ہی وبال بھی بن جایا کرتی ہے ۔ اس لیئے عورت کو نیکی کرنا ہو اور وہ بھی کسی مرد کیساتھ تو کم از کم دس بار ضرور سوچ لینا چاہیئے ۔                                                
ایک خاتون نے بتایا کہ اس کا سابقہ شوہر اس پر دباؤ ڈال رہا ہے کہ وہ اپنے دوسرے شوہر کو چھوڑ کر دوبارہ اس سے نکاح کر لے ۔ یوں یہ حلالہ بھی ہو جائے گا ۔ جبکہ اس کا دوسرا شوہر پہلے شوہر کے مقابلے میں نہایت اچھا اور مہربان انسان ہے اور اس نے اسے کوئی تکلیف بھی نہیں دی ہے ۔ جبکہ اس نے اپنے پہلئے شوہر سے صرف اور صرف تکلیفیں اور دکھ ہی پائے ہیں ۔ بلکہ اسے طلاق بھی اس شخص نے لوگوں کے سامنے بھرے مجمے میں ذلیل کرتے ہوئے دی تھی ۔اب بات صرف اس  جذباتی عورت کی ہوتی جسے عزت کا کوئی لمحہ ملا ہی نہیں یا اسے عزت دارانہ رویے کی کوئی پہچان ہی نہ ہوتی   تو وہ دوڑ کر اس پہلے والے کے قدموں میں گر جاتی ۔ لیکن اب بات تھی اس عورت کے اس وقار اور عزت کی کہ جو اسے زندگی میں دوسرے شوہر کے روپ میں آنے والے انسان نے دی۔ فیصلہ اب جذبات اور عزت میں تھا ۔ لہذا یہ سوچنا بھی انتہائی ضروری تھا کہ !          
جس انسان نے تین بار ایک عورت کو دنیا بھر کے سامنے طلاق جیسی گالی دیکر بے عزت کر کے ذندگی سے نکال دیا ہو ۔ اور پھر اس عورت کا اسی مرد کیساتھ دوبارہ ذندگی گزارنے کے لیئے کسی اور سے بیاہ کرنا اور اپنا بسایا ہوا گھر جان بوجھ کر توڑنا صرف اس سابقہ شوہر کی  دلائی ہوئی اچھی امید کے جھانسے میں آکر اس کی طرف لوٹنا، کیا یہ نسوانیت کی بدترین توہین نہیں ہے ۔ اکثر مرد اپنی سابقہ بیوی کو کہیں اور شادی کرتا اور خوشحال ذندگی گزارتا دیکھ کر انتقامی کاروائی پر اتر آتے ہیں اور ان کا گھر تو ڑنے کے لیئے اگر انہیں سابقہ بیوی کے پیر بھی پکڑنے پڑیں تو بھی اسے جھوٹی محبت میں پھانسنے کا جال ضرور پھینکتے ہیں ۔                  
اور اکثر اگر عورت اپنی بیوقوفی میں اپنا گھر پھر سے اجاڑ کر آبھی جائے تو بھی اسے یا تو اپنانے سے انکار کر دیتے ہیں ۔یا پھر اپنا بھی لیں تو تاعمر دوسرےشوہر کا نام لے لیکر اسے انگاروں پر لوٹاتے رہیں گے ۔                                       
یہاں سوچنا اس خاتون کو ہے کہ ایک بار جو رشتہ ٹوٹ گیا ، اس میں ایسا کونسا اخلاص باقی رہ گیا تھا جو پانے کے لیئے اب وہ اسے دوبارہ اپنانا چاہ رہا ہے ۔ 
ایسا شخص تو اب دودہ سے دھلا ہو کر بھی آ جائے تو کیا نسوانیت کی توہین کا داغ مٹا سکے گا ۔ نہیں کبھی نہیں ۔                                                                
جس شخص نے آپ کو پہلی بار اپنی ذندگی میں شامل کر کے کوئی خوشی نہیں دی ، احترام نہیں دیا ، عزت نہیں دی ۔ کیونکہ یہ سب  اسکے پاس آپ کے لیئے تھا ہی نہیں ۔ تو جہاں جو چیز آپ کو پہلی بار میں نہیں ملی ، اسے آپ اسی مقام پردوبارہ       کیسے پا سکتی ہیں ۔                                                                             
حلالہ کے نام پر ہونے والا نکاح صرف اسی صورت میں کرنے کا سوچنا چاہیئے ۔ جب اس میں کوئی بہت بڑی گارنٹی موجود ہو ۔ ورنہ اسے نہ کرنا اور اجنبی ہو جانا ہی آپ کو آنے والے غموں کی شدت سے بچا سکتا ہے ۔   کیوں کہ مرد تو دس عورتوں سے بھی منہ کالا کر کے آجائے تب بھی عورت اسے معاف بھی کر دیتی ہے اور اپنا بھی لیتی ہے ۔ لیکن مرد کی شقی القلبی اپنی بیوی کو کسی اور کے نام سے صرف منسوب ہونے کا بھی سن لے تو تمام عمر یہ ہی کھوجتا رہے گا کہ وہ اس سے ملتی رہی ہو گی ؟ کیا کہتی ہو گی؟  کیا سوچتی ہو گی؟ کیا کرتی ہو گی؟ وغیرہ وغیرہ یعنی وہ ساری ذندگی اس تلاش میں رہے گا کہ کب ، کہاں، کیسے ، اپنی بیوی کو کردار کی کمزور عورت ثابت کرے۔  اسی لیئے سب سے بہتر بات یہ ہی ہے کہ جب جہاں جو رشتہ ختم ہو گیا اسے وہیں فراموش کر دیا جائے ۔ کیونکہ  کوئی ڈور اگر ٹوٹ جائے تو اسے کتنا بھی مضبوط باندھ دیا جائے بلآخر گانٹھ تو رہ ہی جاتی ہے ۔ نہ وہ پہلی سی محبت پیدا ہو سکتی ہے نہ پہلی بار کا سا اعتبار ۔  اسی لیئے کہتے ہیں کہ جوکچھ ہمیں مل جاتا ہے وہی ہمارا ہوتا ہو اور جو نہ مل سکا وہ اپنا تھا ہی کب ؟؟   تو جو اپنا تھا ہی نہیں اس کے لیئے ایک ہی بار کی خواری کیا کافی نہیں تھی ۔ جو دوسری بار پھر اس دوزخ سے گزرا جائے ۔    
                                        ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔                                                                   

ہفتہ، 10 جنوری، 2015

وہی ہوا جس کا ڈر تھا / کالم۔سچ تو یہ ہے



وہی ہوا جسکا ڈر تھا 
ممتازملک ۔ پیرس



آخر وہی ہوا جس کا ڈر تھا ۔ دنیا بھر میں مغربی میڈیا جس طرح سے مسلمانوں کو اکسانے کا کام کر رہے تھے جس میں کبھی نبی پاک ﷺ کی شان میں توہین آمیز خاکے تو کبھی صحابہ کی شان مین ہونے والی ہرزہ سرائیاں تو کبھی مسلمانوں کی مقدس ہستیوں کو نشانہ بنا کر واہیات کتابیں لکھوانا ،پھر ایسا کام کرنے والوں کو سونے کے پنجرے میں ایسے پالنا کہ ان کے پاس جب وہ کہیں بھونکو تو بھونکیں گے ،اور جب وہ کہیں کہ کاٹو تو کاٹیں گے، کیونکہ ایسا سب کچھ کرنے والوں اورلکھنے والوں کو اس کام  سے پہلے تو شاید دولت کے ڈھیر اور سونے چاندی کی چمک آنکھوں کو چُندھیا رہی تھی اس نے انہیں یہ تک سوچنے سے مفلوج کر دیا کہ جب یہ چکا چوند ختم ہو گی تو تب جو منظر نظر آئے گا وہ کس قدر سفاک اور خونی ہو سکتا ہے ۔ یہ سب کچھ کرنے والے یہ بات بھول جاتے ہیں کہ پانچوں انگلیاں ایک سی نہیں ہوتیں ۔ اور سب کی قوت برداشت بھی ایک جیسی نہیں ہو سکتی۔ دوسروں کے گھروں کو جلا کر ہاتھ تاپنے والوں کو اپنے گھر کو آگ لگا کر ہاتھ سینکنے کا شاید پہلے کوئی تجربہ نہیں تھا ۔ یورب بھر میں زندگی اپنے روز مرہ معمول کے مطابق رواں دواں تھی بلکہ حسب معمول دوڑ رہی تھی کہ اچانک ہمیں ریڈیو ٹی وی پر ایک خوفناک بریکنگ نیوز سنائی دیتی ہے کہ  خوشبوؤں کے شہر، دنیا کے ترین یافتہ اور پرسکون منظّم شہر پیرس میں گولیوں کی تڑتڑاہٹ نے لوگوں کو ہراساں کر دیا ۔ مسلمانوں کو مسلسل کئی سال سے مذہبی جنون میں مبتلا کرنے کی کوشش کرنے والے اخبار  Hebdo Charlie  کو بلآخر کامیابی مل ہی گئی۔ تین مسلح افراد نے دیکھتے ہی دیکھتے اخبار کے دفتر میں دن گیارہ بجے داخل ہو کر کلاشنکوف سے دھڑا دھڑ فائرنگ کر کے چیف اڈیٹر ، دو پولیس جوانوں سمیت کل بارہ افراد کو قتل کردیا ۔ ان  نقاب پوشوں کو براہ راست اخبار کی سڑک پر گولیاں برساتے ہوئے دکھایا گیا ۔ یہ خونی کھیل زیادہ سے زیادہ پانچ سے دس منٹ کے دورانیئے کا تھا ۔ لیکن یہ خوفناک عمل کئی سوالوں کو جنم دے گیا ۔ پیرس کی پرسکون اور مذہبی رواداری کی فضا میں اس طرح ایسے واقعے کے لیئے فضا بنانا ، کیا یہاں مسلمانوں کے لیئے دوسرا نائن الیون بنانے کی کوئی سازش تو نہیں ۔ یہاں مسلمان خوفزدہ ہیں ،پریشان ہیں ، اور سازش کی بو محسوس کر رہے ہیں ۔ کیا یہ سب اس لیئے کِیا یا کروایا گیا ہے کہ یہاں رہنے والے تقریبََا اسی لاکھ مسلمانوں پر شکنجہ کسا جا سکے کیونکہ یہاں سب سے زیادہ تیزی سے پھیلنے والا مذہب اسلام ہے ۔ یورپی میڈیا کئی بار اس بات کا خوف طاہر کر چکا ہے کہ کہیں یہاں کے مسلمان اکثریت میں آ کے ان کی حکومت پر قابض ہی نہ ہو جائیں ۔ لیکن ان سب باتوں کے باوجود یہاں پر معتدل مزاج لوگوں کی اکثریت ہے۔ جو مذہب کو انسان کا ذاتی معاملہ سمجھتے ہوئے سب کو زندگی گزارنے کا برابر حق دینے کی قائل ہے ۔  فرانس حکومت بھی مذہبی حوالے سے ایک مباحثہ کا آغاز کر چکی ہے ۔ اگر اس اخبار اور ان تمام اخبار کے رائٹرز  کو اس بات کا پابند کیا جاتا کہ آپ اپنے اظہار رائے کی آزادی  وہیں تک استعمال کریں جہاں تک دوسرے کی عزت اور احترام کی حد شروع ہوتی ہے تو ایسے خوفناک حادثات کبھی بھی پیش نہ آتے ۔ کیونکہ جب آزادی اظہار بے لگام ہو جائے تو آذادی تکرار کو بھی کوئی نہیں روک سکتا ۔ اب اگر مسلسل کئی سال تک اکسانے اور مسلمانوں کے بار بار کی تنبیہہ پر ، غصّے پر بھی  بھی اخبارات اپنا معمول نہیں بدل رہے تھے تو کیا کیا جائے ۔ مسلمان اگر نہیں بولتے تو انہیں بے غیرت اور بذدل کہا جاتا ہے اور اگر وہ احتجاج کرتے ہیں یا کوئی اقدام اٹھاتے ہیں تو انہیں دہشت گرد کہہ کر ان کی سزاؤں کی ڈیمانڈ کی جاتی ہے ۔ کوئی بتائے گا کہ اس ساری صورتحال میں مسلمان کریں تو کیا کریں ۔   یہ بات سمجھنے اور سمجھانے کی اشد ضرورت ہے کہ اسلام ایک سلامتی کا دین ہے اللہ کا پیغام قران کی صورت نبی پاکﷺ  کی زندگی اس کا عملی نمونہ بنا کر دنیا بھر کے لیئے انسانیت کے معراج کی تصویر پیش کر دی گئی ۔ اس کے بعد جو کچھ اسلام کے نام پر شامل کرنے کی کوشش کی گئی وہ صرف اور صرف اپنا  کاروبار بڑھانے کا ایک بہانہ تھا اس کا اصل دین سے کوئی تعلق نہیں تھا ۔ آج بھی جس کو جتنا اسلام چاہیئے اسے اختیار کرتا ہے اور باقی کو لپیٹ کر جلدان میں اپنی پہنچ سے بھی دور رکھ دیتا ہے ۔ اور کوئی جب چاہے اپنی منافتوں ، اور کمزور کرداری پر ایک خوبصورت پردے کے طور پر کبھی داڑھی کو استعمال کرتا ہے تو کبھی نقاب کو ۔ انہی منافق نام نہاد مسلمانوں کے ہاتھوں کہ جنہوں نے اسلام اور قران کو اپنی شخصی کمزوری کی ڈھال بنا لیا ہے ۔ جس نے دنیا کے سب سے بڑے مذہب اور مسلمانوں کی دوارب سے زیادہ کی آبادی کو ایک عذاب میں مبتلا کر رکھا ہے ۔  مسلمانوں کو کہیں سے کوئی خطرہ نہیں ہے اگر ہے تو صرف ان مسلمانوں سے جو قران کی آیات کے رٹے لگا کر اس کے آدھے ترجمے کو اپنے مطلب براری کے لیئے استعمال  کرتے ہیں ۔ اور اپنے دنیاوی مطالب کو پورا کرنے کے لیئے قران پاک کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرتے ہیں ۔ اللہ پاک ان لوگوں کی رسی کب تک دراز کریگا خدا جانے ۔ دنیا اور کتنے ہنگامے کرنے اور دیکھنے کی تیاری کر رہی ہے ۔ خدا خیر کرے ۔                
                 
۔۔۔۔۔۔۔۔ 

اتوار، 4 جنوری، 2015

ایک ملاقات پیرس میں سفیر پاکستان جناب غالب اقبال کیساتھ / ممتازملک ، پیرس




                 ایک ملاقات پیرس میں سفیر پاکستان 
                       جناب غالب اقبال کیساتھ 
                                    ممتاز ملک ۔ پیرس 


 26 دسمبر 2014 بروز جمعہ کی صبح مجھے اپنی پیاری دوست اور نامور ڈینش رائٹر محترمہ صدف مرزا صاحبہ کیساتھ پیرس میں پاکستانی ایمبیسی جانا تھا جہاں ہمارا سفیر پاکستان جناب غالب اقبال صاحب کیساتھ ملاقات کا وقت طے تھا ۔ ہم لوگ وقت مقررہ پر وہاں پہنچے ۔ مرکزی گیٹ پر اپنا تعارف کرواتے ہوئے ہم جب عمارت کے صدردروازے سے اندر داخل ہوئے تو آن ڈیوٹی آفیسر نے خوشدلی سے ہمیں خوش آمدید کہا ، اور سیکٹری صاحبہ کو فون پر ہمارے آنے کی اطلاع دی ۔ سیکٹری صاحبہ نے خود نیچے کی راہداری میں آ کر ہمیں مسکرا کر خوش آمدید کہا اور ہمیں اپنے ساتھ اوپر کی منزل پر لے کر آئیں ۔ اب ہمیں ایک ویٹنگ روم میں سفیر صاحب کے پریس اتاشی جناب طاہر صاحب نے خوش آمدید کہا اور سفیر صاحب کو ہمارے آنے کی اطلاع دی ۔ ٹھیک مقررہ وقت پر ہمیں جناب غالب صاحب نے اپنے آفس کےکمرے کا دروازہ کھول کر ویلکم کیا اور اپنے آفس روم میں آنے کی دعوت دی ۔ ملاقات کے آغاز میں ہم نے اپنا تعارف پیش کیا اور اپنی دوست کو بھی متعارف کروایا ۔ اس کے بعد باتوں کا سلسلہ چلنے سے پہلے انہوں نے اپنے ملازم سے چائے لانے کا کہا۔ اور باتوں کا سلسلہ شروع ہوا ۔  اس میں کئی معاملوں پر بات ہوئی جس میں فرانس میں اردو پر ہونے والا کام ، کمیونٹی میں آپس کے تعلقات ، بچوں کی پرورش پر ان کے اثرات ، پاکستانی مردوں کا  اپنے گھروں کی خواتین کو اپنے ساتھ باہر کے معاملات میں شامل کرنےسے گریز ، فرنچ زبان کے سیکھنے میں پاکستانیوں کی زیادہ گرمجوشی نہ ہونا ، یہاں کے بچوں کو یہاں کی سیاست اور دفتری کاموں کی جانب رغبت دلانا ، مخیر حضرات کو فرانس میں اس جانب متوجہ کرنا کہ وہ یہاں پر اردو زبان میں ڈرائیونگ سکولوں کے قیام کے لیئے کوششیں کریں اور اس میں سرمایہ کاری کریں ۔ تعلیم یافتہ نوجوانوں کو اس بات کی ترغیب دی جائے کہ وہ ہفتے میں ایک دوگھبنٹے نکال کر مختلف اداروں ، مساجد یا کمیونٹی سینٹرز میں فرنچ زبان سکھانے کا بیڑا اٹھائیں کیوں کہ جب وہ خود اچھی اردو بھی بول سکیں گے تو زیادہ آسانی کےساتھ فرانسیسی زبان کی گرائمر بھی دوسروں کو سکھا سکیں گے ۔ اس کے علاوہ یہاں کے موسمی حالات میں اکثر ڈاکٹر خطرناک بیماریوں سے بچنے کے لیئے سوئمنگ کا مشورہ دیتے ہیں لیکن یہاں خواتین کے الگ سوئمنگ پول نہ ہونے کی وجہ سے وہ ایسا نہیں کر سکتیں ۔ اگر پاکستانی اس میں بھی اپنا پیسہ لگائیں اور مناسب فیس رکھیں تو یہ بھی بہت اچھا کاروبار ہی نہیں بھلائی بھی ہو گی ۔ اس کے علاوہ کئی سالوں سے سننے کے باوجود آج تک یہاں کسی پاکستانی نے اردو ریڈیو چینل کھولنے کا کوئی کام نہیں کیا جب کہ یہاں پر دوسرے ممالک کے لوگوں نے بے تحاشا ریڈیو چینلز بنا رکھے ہیں ۔ جنہیں کمیونٹیز کو تعلیم اور تفریح دینے کے لیئے استعمال کیا جاتا ہے ۔
ان تمام باتوں کے علاوہ ہم نے انہیں اپنے دو شعری مجموعے  " مدت ہوئی عورت ہوئے " اور " میرے دل کا قلندر بولے "بھی پیش  کیئے ۔ جب ہم نے کہا کہ  ہم نہیں جانتے کہ سفیر حضرات کتابیں اور خاص طور پر شاعری کی کتابیں  پڑھنے کا شغف بھی رکھتے ہیں یا نہیں  ۔ تو غالب اقبال صاحب نے نہایت شگفتگی سے جواب دیا کہ اور لوگ پڑھتے ہیں یا نہیں یہ تو میں نہیں جانتا لیکن ہاں میں ضرور پڑھتا ہوں ۔   ان کا یہ جملہ سن کر ہمیں بہت خوشی ہوئی اور ہم پہلے ہی ان کی نیک نامی سن چکے تھے لیکن ان کی وقت کی پابندی ، کام کی لگن اور ملنے والوں کے ساتھ اتنی فراخدلی سے ملاقات کا وقت دینا ہمیں اور بھی ان کی معترف کر گیا ۔  ہم امید کرتے ہیں کہ جو باتیں انکے ساتھ زیر گفتگو رہیں ۔ ان پر بھی پورا پورا غور کیا جائے گا ۔ اور ان کے توسط سے کمیونٹی کو بھی ان سلسلوں میں فعال اور متحرک کیا جائے گا ۔ 
                                         ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہفتہ، 3 جنوری، 2015

صدف مرزا کا دورہ پیرس ۔۔ وہ آئیں گھر میں میرے ۔۔ ممتازملک ۔ پیرس









معروف شاعرہ صدف مرزا کا دورہ پیرس
وہ آئیں گھر میں میرے
ممتازملک ۔ پیرس



ایئر پورٹ آمد





ایئر پورٹ آمد 






صدف مرزا کا دورہ پیرس
وہ آئے گھر مین میرے
ممتازملک ۔ پیرس



ریلکس موڈ تیسرا دن




پیرس کےمعروف شاعرعاکف غنی22/12/2014 
 اپنی کتاب پیش کرتے ہوئے




                                                                  23/12/2014ایک تقریب


                                 23/12/2014     ایک تقریب   







                                                          25/12/2014   ایک تقریب   









                                              26/12/2014 
پیرس میں تعینات  سفیر پاکستان جناب غالب اقبال صاحب کو
   ممتاز ملک اپنی تصنیفات پیش کرتے ہوئےساتھ میں  صدف مرزا صاحبہ       



 سال 2014 جہاں اور بہت سی یادیں چھوڑ کر گیا وہیں میرے لیئے سب سے حسین لمحات میری بہت پیاری دوست محترمہ صدف مرزا کی اس سال کے آخری دو ہفتے میں ڈنمارک سےآمد اور میرے ساتھ ان کا قیام ، ان کے ساتھ گزارے روزوشب ، ان سے کی گئیں ڈھیروں باتیں ،کیا کیا ہے،میں بتا نہیں سکتی ۔ ان کو تفصیلا بعد میں تحریر کروں گی انشاءاللہ ۔ ڈنمارک سے اپنے بزی شیڈول میں سے پورے دو ہفتے نکالنا ، اور مجھے قیام کا شرف بخشنا ،میرے لیئے کبھی نہ بھولنے والا وقت رہا ۔ مجھے سمجھ نہیں آ رہا کہ میں ان لمحات کی خوشی کو آپ سے کن الفاظ میں بیان کروں ۔ صدف مرزا صاحبہ سے اس وقت میں بہت کچھ سیکھنے کو اور جاننے کو ملا ۔ میری کوئی بہن نہیں ہے اس لیئے مجھے نہیں معلوم کہ بہنوں کی توجہ اور لاڈ کیسے ہوتے ہیں ۔ اس لیئے اگر کوئی کمی بیشی آپ سے محبت میں ہو گئی ہو، تو مجھے ناسمجھ جان کر درگزر کیجیئے گا ۔ میں چاہوں گی کہ یہ وقت بار بار آئے ۔ اور مجھے بار بار آپکی میزبانی کا موقع ملے ۔ آپ کا علم ،آپ کی سادگی ، آپکا خلوص ،آپ کی لگاوٹ سب کچھ آپ کی کامیابیوں کی وجہ بیان کرتا ہے ۔ سچ ہے کہ کچھ بھی بنا محنت نہیں ملا کرتا اور اگر مل بھی جائے تو اسے سنبھالنے کے لیئے بھی انسان میں  بھی                                                                     اوووووووووو                                                                                             جدائی کی                                                                       گھڑی    

                                                                                  31/12/2014
کچھ گُن ہو نے چاہیئں ورنہ کامیابی جتنی تیزی
 سے آتی ہے اس کا جانا بھی اسی تیزی سے دکھائی دیتا ہے ۔ یہ ایک چھوٹی سی سفر کہانی بھیج رہی ہوں ۔ امید ہے یہ آپ کو ہمیشہ اپنے دل کے قریب لگے گی ۔
            اس امید کیساتھ کہ پھر ملیں گے انشاء اللہ بہت جلد

                         ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جمعرات، 1 جنوری، 2015

قارون مٹی میں دفن ہو گیا / ممتازملک ۔ پیرس




قارون مٹی میں دفن ہو گیا
ممتاز ملک ۔ پیرس


کوئی بھی بات جب تک محبت کے دائرے میں رہے تب تک تو ٹھیک ہے لیکن جب یہ ہی محبت حرص اور ہوس کی چادر اوڑھ لے اور اس میں مقابلے بازی کا رنگ شامل ہو جائے ، تو سب کچھ ملیا میٹ ہو جاتا ہے ۔ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ ہم سب سے زیادہ نقصان انہیں لوگوں سے اٹھاتے ہیں جو ہمارے سب سے ذیادہ قریب ہوتے ہیں ۔اور ہم سے سب سے ذیادہ محبت کے دعویدار ہوتے ہیں ۔  لیکن کیا کریں کہ محبت کا جنازہ اسی کے دعویدار آج کل خوب دھوم سے اٹھاتے ہیں ۔ فی زمانہ  محبت اور دوستی کا نام لیکر پیٹھ میں خنجر گھونپنے والوں کا راج ہے اور وہی لوگ  وقتی طور پر کامیاب بھی ہو جاتے ہیں لیکن پھر خیال آتا ہے کہ یہ لوگ حلق سے لقمہ کیسے نیچے اتار لیتے ہیں یا کیا یہ لوگ رات کو سو جاتے ہیں سکون سے ۔ دھوکا کھانے والا تو شاید غم کی شدت سے نیند نہیں تو بے ہوشی کی نیند میں چلا ہی جاتا ہو گا لیکن  ان لوگوں کا کیا نیند آ جاتی ہے ؟ 
 انسان کی بھی عجیب خصلت ہے جب وہ کسی سے محبت کرتا ہے تو اس کی عیب بھی اسے اس کی خوبیاں لگنے لگتے ہیں۔  اس پر اس محبت کے صدقے میں سات خون بھی معاف ہوتے ہیں ۔ جبکہ اسی شخص سے جس وہ ناراض ہو جاتا ہے یا نفرت کرنے لگتا ہے تو اس کے ہر اچھے کام میں بھی اسے خوامخواہ ہی کیڑے نظر آنے لگتے ہیں ۔ وہ جان بوجھ کر اس میں عیب تلاش کرتا رہے گا ۔ موقع ڈھوندتا رہے گا کہ کیسے اسے ہر جگہ نیچا دکھایا جا سکے ۔
 ایک وقت ہوتا ہے جب آپ کسی کی چوٹ اور اس کے درد کو بتائے بغیر سمجھتے ہی نہیں محسوس بھی کرنے لگتے ہیں ، چاہے وہ دنیا کے کسی بھی کونے میں کیوں نہ ہو ۔ اسی کیفیت کو محبت کہاجاتا ہے اور ایک وقت وہ بھی ہوتا ہے کہ وہ آپ کی آنکھوں کے سامنے تڑپ رہا ہوتا ہے اور آپ بے حسی کی تصویر بنے دیکھتے بھی ہیں اور اسے مذید درد دیکر خوشی اور تسکین بھی محسوس کرتے ہیں ۔ شاید اسی کیفیت کو نفرت کہا جاتا ہے ۔ 
اس وقت سمجھ میں نہیں آتا کہ کون سا جذبہ سچا تھا ؟ کس وقت وہ سچ بول رہا تھا ؟ اس وقت جب وہ اسکی محبت میں مبتلا تھا یا اس وقت جب وہ اس کی نفرت میں سرتاپا ڈوب چکا ہے ۔ لیکن شاید یہ دونوں ہی جذبے انسان سے جھوٹ بلواتے ہیں ۔ سچ وہی ہوتا ہے جو انسان کسی کو چاہے یا نہ چاہے دونوں صورتوں میں اپنے دل کی آواز پر بولے ۔ حضرت علی کرم اللہ وجہ نے فرما یا کہ'' جب کسی سے دوستی کرنا چاہو تو پہلے اسے غصہ دلاؤ، اگر وہ غصّے میں بھی حق بات پر قائم رہے تو اس سے دوستی کرو ورنہ اس کی دوستی سے بچو ۔ '' اسی طرح ایک موقع پر ارشاد فرمایا کہ خوشی میں وعدہ اور غصّے میں کبھی فیصلہ مت کرو ''۔
کیونکہ انہی دونوں مواقعوں پر کئے گئے فیصلے انسان کو نہ صرف نقصان پہنچاتے ہیں بلکہ اسے اکثر بلکل تن تنہا بھی کر دیتے ہیں ۔  اور کون نہیں جانتا کہ اچھے دوست بنانے اور ڈھونڈنے میں تو عمریں بیت جاتی ہیں جبکہ انہیں گنوانے میں ایک ٹیڑھی نظر ،ایک ہتک آمیز جملہ یا ایک متکبرانہ ادا ہی کافی ہوتی ہے ۔  ادائیں دکھاتے ہوئے تو شاید ہمیں اس کے اگلے اثرات کا اندازہ نہیں ہوتا لیکن جب اداؤں کا طوفان تھمتا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ آبادیوں کی آبادیاں جو سالوں بلکہ صدیوں کی محنتوں اور مشقتوں کیساتھ تعمیر ہوئی تھیں وہ سب کی سب خس و خاشاک کی طرح بہہ گئیں ۔ جیسے قارون مٹی میں دفن ہو گیا اپنے سارے خزانوں اور اپنی ساری اکڑی ہوئی گردن سمیت ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
                                      ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اتوار، 28 دسمبر، 2014

ابھی نہیں تو کبھی نہیں ۔/ کالم

                                  


      ابهی نہیں تو کبهی نہیں             تحریر:
        (ممتازملک . پیرس)



ہم منافق اور بے غیرت لوگ سالوں سے اپنے معصوموں کے جنازے اٹها رہے ہیں .لیکن اُس قوم کو جنہیں ہم کبهی کافر کہتے ہیں تو کبهی جہنمی لیکن کیا انہوں نے دو پتهروں سے بنی عمارتیں گرانے والوں کے شک میں ہم نام نہاد مسلمانوں کے ملکوں کے ملک بموں سے پهاڑ نہیں ڈالے. اور ہم بے غیرت اپنی مائیں ،بہنیں ،بوڑهے ،جوان اور اب معصوم بچے ان خنزیر طالبانوں اور بدشکل درندوں جیسے حلیئے والے جانوروں جیسی شکلوں اور سؤر جیسی سوچوں والے دماغی مریضوں  کے ہاتھوں گنوا کر بھی ان کے لیئے مذاکرات مذاکرات کے ڈھونگ رچاتے ہیں ۔ ان جانوروں کو اپنی جانوں اور عزتوں پر اختیار دیتے ہوئے ہم کیا  یہ بهول جاتے ہی  کہ بے غیرت کون ہے ہم یا وہ ،جنہوں نے اپنے چار لوگو ں کے بدلے ہمارے کروڑوں لوگوں کو عذاب میں مبتلا کیا ہے ،تو ہاں وہ غیرت مند ہیں کہ ان کی ہر جان ان کے لیئے سب سے زیادہ قیمتی ہوتی ہےاورہاں ہم بےغیرت ہیں کہ ہماری ہر کٹی ہوئی گردن اور دم توڑتی ہوئ جان خود ہمارے لیئے صرف اور صرف ایک نمبر شمار ہے بس.
یہ پندرہویں صدی کے تاجر عالم اور دوزخ کے آخری حصے میں غلاظت کهانے والے فاسق وفاجر عالم اور ملا کیا یہ ہمیں دین سکهائیں گے جو خود ہر دس منٹ کے بعد اپنی ہی کہی ہوئ باتوں کا پاس نہیں رکه سکتے. جو قاتلوں اور جانوروں سے یارانے کو اپنے لیئے فخر یہ پیشکش سمجھتے ہیں .اس پوری اسمبلی کے نام نہاد دو نمبر لیڈروں کے سامنے اس پوری قوم اور ان کے معصوم بچوں کے خون کا قصاص دیں اور انکے خاندان کے خاندان ان کی آنکهوان کے سامنے اسی طرح زبح کریں تو یہ ہی انصاف یو گا ۔ ان معصوم شہیدوں کے ساتھ. لال مسجدکے دلال کو اب تک پهانسی کیوں نہیں دی گئی.  ؟اس لال مسجد اور اسی طرح کے ساری مساجد جہیں اس جیسے دلال اورقاتل پناہ گاہ اور اڈابنا چکے ہیں انہیں نبی پاک صل اللہ علیہ وسلم کی سب سے بڑی سنّت کو نبهاتے ہوئے کیوں بلڈوز نہیں کر دیا گیا  .جبکہ مسجد ضرار بهی ایسے ہی خبیثوں کا گڑھ بننے جا رہی تهی.جسے ہمارے پیارے نبی ﷺنے گروا کر اس شر کے خلاف ایک عملی مثال پیش کر دی .ان کے شرپسند عالموں اور اماموں ملاءوں سمیت انہیں زمیں دوز کر دیا جائے. ہمیں کتنا مسلمان ہونا ہے یہ ہمیں اور ہمارے خدا کو طے کرنے دیا جائے. ہمیں اس کے لیئے کسی بهی لال مسجد کے برقع برانڈ خبیث کی ضرورت نہیں ہے. ہر آدمی اپنی قبر کا خود ذمےدار ہے کبهی کوئ کسی کے کردار کا ذمّہ دار جب خدا نے قرار نہیں دیا تو ان فرقہ پرور بے حیا ملاؤؤں یا عالموں  کی کیا اوقات جو ہمیں آکے ڈکٹیٹ کریں کہ کون کب نماز پڑهے گا ،اور کون کتنا مسلمان ہو گا. بند کریں پاکستان میں اسلام کا کاروبار. اس ملک کے صدراور وزیراعظم  کےعہدے پر بیٹهنے والوں پر لعنت ہے . ہم بهی تمہیں ایسے ہی قتل کرتے ہیں اس کے بعد غم نہ کرو ہم بهی ایک کمیٹی بنا دیں گے چا ر دن اسی کمیٹی کے نام پر ہمارے ہاں مذید حرام خور گروپ اور عیاشی کر لیں گے. ورلڈ ریکاڈ قتل  عام کا ریکارڈ بنانے والے حکمران کب تک عالموں اور مولویوں کے ذرخرید فتووں کے باڈی گارڈ بنے رہیں گے.  انہیں بتانے کی شدید ضرورت ہے کہ صبح اپنے پیاروں کو ماتها چوم کر گهروں سے رخصت کرنے والوں کو جب شام کو اپنے پیاروں کے لاشے کے ٹکڑے سمیٹنے پڑتے ہیں تو ان کے دل پر کیا گزرتی ہیں ان تمام عالمان ،طالبان جانوران کو اب اس درد سے گزارنا اللہ کا ویسا ہی حکم ہے جیسا اللہ کا یہ حکم کہ کسی بهی ایک انسانی جان کی قیمت سارے کائنات کی سلامتی جیسی محترم ہے. 
ان سب خبیثوں کو چوراہوں میں لٹکایا جائے ان کی گردنیں کاٹ کر ان پر پبلک ٹائلٹ بنائے جائیں جہاں لوگ صبح شام ان کو خراج تحسین پیش کریں . و ہ لوگ جو ان جیسے بد کرداروں سے رتی بهر بهی ہمدردی رکھتے ہیں انہیں بھی ان کے ساته عبرت کا نشان بنایا جائے. سعودیہ کے چاند پر دو نمبر عیدیں منانے والوں کو آج سعودیہ کے قاتل اور غنڈے کیوں نظر نہیں آ رہے. کیوں کے دیکهنے والواں نے گردنیں ریت میں دبا رکهی ہیں . جو گردن ریت میں داب کر خود کو محفوظ سمجهتےہیں تو بہتر ہے کہ انہیں اسی ریت میں دفن کر دیا جائے. کہ ان کی زندگیاں اسلام کی خدمت کے نام پر اتنا انتشار پیدا کر چکی ہیں کہ اس کا خاتمہ ان انہیں ختم کیئے بنا کسی صورت ممکن نہیں ہے ۔ اب وقت آ گیا ہے کہ سیاست کو واقعی دین سے جدا کر دیا جائے اور ہر انسان کو اس کی مرضی سے اپنے رب کو پوجنے اور اسکی عبادت کا حق دیا جائے ۔ 
                                      ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


urdunewsonline.com


                                  ::::::::::::::::::::::






اتوار، 21 دسمبر، 2014

سلام سلمان خان / ممتازملک -پیرس


سلام سلمان خان
ممتازملک / پیرس

ہم ان تمام ہندوستانی دوستوں کے انتہائ مشکور ہیں جنہوں نے پاکستان میں  ہونے والے خوفناک قتل عام میں ہم سے  اپنی دلی اور جذباتی ہمدردی کا اعلانیہ اظہار کیا بلکہ ہم نے کئی کو مسلمان نہ ہوتے ہوئے بلک بلک کر روتے ہوئے بهی دیکها.کہ یہ درد کا رشتہ ہے. جس کا کوئی بھی مقابلہ نہیں ہو سکتا. . اس سلسلے میں تمام فنکاروں کا بهی شکریہ. اور خاص طور پر ہم زکر کرنا چاہتے ہیں ایک مہنگے اور بڑے ہندوستانی ٹی وی شو بگ باس کا جس میں ایک ایک منٹ میں کسی بهی مصالحہ دار حرکت سے کروڑوں روپے کمائے جاتے ہیں .خاص طور پر ویک اینڈ میں ان کے معروف فنکار سلمان خان جب یہ شو کرتے ہیں تو شرارتیں بهی زیادہ متوقع ہوتی ہیں  لیکن گزشتہ رات 20 دسمبر 2014 کو ہونے والا شو اس لحاظ سے منفرد رہا کہ اس میں تجارت سے زیادہ انسانیت نظر آئ.اورپروگرام کرنے والا اداکار سلمان خان نہیں بلکہ ایک ہمدرد دل رکھنے والا بہترین انسان باپ بهائ اور بیٹے جیسا کلیجہ رکهنے والا سلمان خان نظر آیا. یہ محض ایک منٹ کا روایتی اظہار ہمدردی نہیں تها بلکہ پورا ایک گھنٹہ یہ بات دهیان میں رکهی گئ کہ ان کی کسی بات سے کوئ شوخی یا شرارت نہ چھلکے.  پورے پروگرام میں انسانیت کو اہمیت دی گئ. ہم سبهی پاکستانی اس بات پرسبهی ہندوستانی فنکاروں اور خاص طور پر سلمان خان کے مشکور ہیں. جنہوں نے یہ ثابت کیا کہ وہ ایک ااچھے اداکار ہی نہیں بلکہ بہت اچهے انسان بھی ہیں.اس جرات اظہار پر ہم سلمان خان کو دل سے سلام پیش کرتے ہیں.
.                                          ......................       

ہفتہ، 20 دسمبر، 2014

سایہ خدائے زوالجلال. ممتازملک


                                


                         سایہ خدائے زوالجلال
                                                ممتازملک. پیرس





کیسے کیسےپیارے لوگ اس جہاں سے کس کس انداز میں رخصت ہو جاتے ہیں. اورہم انہیں سپرد خاک کر کے صبر کے سہارے باقی زندگی گزار لیتے ہیں. لیکن یہاں تووطن کی حفاظت کے وعدے کرتےمعصوم اده کھلے گلاب, وطن کےلئے سایہ خدائے زوالجلال کی آرزو کرتے حسین  چاند چہرے اس لیئے اپنے ہی خون میں بے دردی سے نہلا دیئے گئے کہ حکومت پاکستان غیر ملکی بهیک مانگنے کے لیئے غیر ملکی آقاوں کے تلوے چاٹ سکے. اور اس کے بدلے میں دنیا جہاں کا خنزیر اس کے نہتے عوام اور اب تو معصوم بچوں کو بهی جب چاہے قتل کر سکے. توہین رسالت اور توہین رسول کا ڈرامہ کرنے والوں کو ان مکروه قاتلوں کے منحوس تهوپڑوں پر یہ سنت توہین رسالت نہیں لگتی کیا؟ پاکستان میں کیوں ازبک اور افغان کتے لوگوں کو  کاٹتے پهر رہے ہیں؟ کیوں انہیں واقعی دن دہاڑے کتے ہی کی موت نہیں دی جاتی. کیوں انہیں پهانسیوں پر چڑهاکر ان کو ان کی خیالی جنت میں جانے کا راستہ آسان نہیں کیا جاتا. .جو ممالک ان کی حفاظت کے لئیے مرے جا رہے ہیں انہیں لولا لنگڑا کر کے انہیں ممالک کو کیو ں نہیں بهیج دیا جاتا اوران کی لے پالک این جی اوز جوان کی سلامتی کے غم میں گهلی جا رہیں ان پر کیوں بین نہیں لگایا جاتا.؟ ہمارے نااہل حکمرانوں کی صبر پا جاتے ہیں لیکن ہمارے بهانڈ حکمرانوں کویہ بات سمجھنے میں کتنی صدیاں لگیں گی , اور کتنے گهر اجاڑ کر سمجه آئے گی کہ ازبک اور افغان بڑے عہدوں یا نمایاں مقام پر کام کر ے والوں کے سوا ہر آدمی کو 24 گهنٹے میں پاکستان چھوڑنے کا حکم دیا جائے اور ایسا نہ کرنے والوں پر عوام کو کهل کر ان کی تکہ بوٹی کرنے کی اجازت دے دی جائے. جو لوگ ان سے دین کے نام پر یا انسانیت کے نام پر کوئ لاڈیاں کرنے کے موڈ میں ہیں. انہیں بهی انہیں کے ساته انجام تک پہنچایا جائے. پاکستان کی جیلوں میں ہزاروں درندوں کو اس لیئے پالا جا رہا ہے کہ وہ جہاں بهی اور جب بهی ان کی سودا بازی کرنا اور خون کی ہولی کهیلنا چاہے , بے دھڑک اپنا شوق پورا کر سکے. .اس ملک میں انسانوں کے خون کی قیمت کو پانی سے زیادہ سستا کرنے کا سہرا ہر لحاظ سے مذہبی منافرت پھیلانے والے علماء اور ملا کے سر ہے.جنہوں نے اپنے کھاتے بهرنے اور لوگوں کو اپنا بے دام غلام بنانے کے لیئے لوگو ں کو تقسیم در تقسیم کر دیا. اتنا کہ خود اپنی پرستش کااعلان ہی باقی رہ گیاہے .اس ملک کو بچانا ہے یا اس دین کو مزید لٹنے اور بدنام ہونے سےبچانا ہےتو ان تمام دین فروش علماء اور ملاءوں کے ساته وہی سلوک ہونا چاہیئے جو چنگیز خان نے ان کے ساتھ کیا. .آج ان دین فروش مفتیوں کے ہاتهوں کوئ مسلمان محفوظ نہیں. اور مسلمانوں کو جتنا خطرہ ان علماء اور ملاءوں سے ہے اور کسی سے نہیں.اسی لیئے آج ہمیں چنگیز خان بهی ہیرو لگنے لگا ہے. کیا اب اس زیادہ بهی کوئ برا وقت ہو گا کہ چوراہوں پر ہمیں ان مکروه صورت قاتلوں کو لٹکادیکهنے کے لیئے اور کتنا اور کس بات کا انتظار ہے. اب تو انہیں جھولی پهیلا کر بددعا بهی دینا ہے اور جوتا اٹها کر انہیں ان کی اوقات بهی یادکرا ناہےان حکمرانوں کو بهی خدا لمبی عمر اور ہوش و حواس دیکر ایسے ہی اپنی اولادوں کے غم دکها ئے تاکہ انہیں پتہ چلے کہ یوں جب ایک ایک پل اپنا کوئ پیارا جب ایسی درندگی سے گزر رہا ہوتا ہے تو اپنے رشتوں پر کیا گزرتی   ہے. جبهی ہماری قوم پاک سرزمین کو شاد باد بهی کر سکے گی اور سایہ خدائے زوالجلال کی امید بهی.
                                         ....................


                                                    

اتوار، 14 دسمبر، 2014

پنجابی نعت ۔ دساں کی حلیمہ ۔ اے شہہ محترم صلی اللہ علیہ وسلم


پنجابی  نعت 

  دساں کی حلیمہ تیری بکریاں جو چاردا
   خوبیاں کی دساں اوتے یار سوہنڑیں یار دا


کدی وی سواد نال معاملے نبھاۓ نہ
 اج وی جے میرے گھر سن لو او آۓ نہ
 میں تے گناہگار ہاں ڈر گھر بار دا  
 خوبیاں کی دساں اوتے یار سوہڑیں یار دا
  دساں کی حلیمہ ........


 اک دن سامڑیں تیرے میں کھلوڑاں اے
 پلے میرے کج وی نہیں  اس دن ہوڑاں اے
  رحمتاں تے آسرا اے میرے ہر بھار دا  
  خوبیاں کی دساں اوتے یار سوہڑیں یار دا 
 دساں کی حلیمہ تیری .........


 من چاہی گل کیتی من چاہی کم  وی  
 ویچ کے آخیر مینوں ملڑیں سی غم وی  
 اوناں دا خلوص ممتاز واجاں ماردا
    خوبیاں کی دساں اوتے یار سوہڑیں یار دا
  دساں کی حلیمہ ........
.......

جمعہ، 12 دسمبر، 2014

خواتین کی ڈگری یا سٹیٹس سمبل / ممتازملک ۔ پیرس





خواتین کی ڈگری یا سٹیٹس سمبل 
ممتازملک ۔ پیرس



 لیجیئے آخر کو حکومت کو خیال آ ہی گیا کہ خواتین کے لیئے علیحدہ سے میڈیکل کالج کی ضرورت ہی کیا ہے ۔ جن خواتین کو علم حاصل کرنا ہے یا جن لڑکیوں کو ان کے ماں باپ نے کسی معزز پیشے میں جانے کی اجازت دینی ہی ہے انہیں اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ ان کی بیٹی ڈاکٹر بن کر کسی مرد کا علاج کرتی ہے یا کسی خاتون کا ، ویسے بھی معالج تو معالج ہی ہوتا ہے اس کی جنس سے کسی کو کوئی مطلنب نہیں ہو سکتا ۔ پہلے ہی خواتین کے الگ سیٹوں نے میڈیکل کالج کے لیئے لڑکوں کی حد سے زیادہ حق تلفی کر لی ۔ یہ ایک شرمناک حقیقت ہے کہ ہمارے معاشرے میں 90 فیصد خواتین  یا ان کے والدین یہ سوچ کر یونیورسٹی یا میڈیکل کالج میں داخلہ کرواتے ہیں کہ چلو جی کسی اچھے گھر کا لڑکا ہاتھ آ جائے گا ۔  اگر یہ بات سچ نہیں ہوتی تو کون سا ایسا احمق ہو گا کہ وہ اپنی زندگی کے 8 یا 10 سال ایک پیشے کی تعلیم حاصل کرے ملک و قوم کا لاکھوں روپیہ خرچ کروائے اور اس کے بعد یہ کہہ کر ڈگری لپیٹ کر یا فریم کروا کر رکھ دے کہ نہیں جی ہمارے ہاں لڑکیاں نوکری نہیں کرتی ہیں یا لڑکا نہیں مانتا یا سُسر کام نہیں کرنے دیتے یا ابو پسند نہیں کرتے تو ایسی تمام ہڈ حرام خواتین سے درخواست ہے کہ آئندہ اپنی بیٹیوں کے لیئے بھی یہ سروے کر لیا کریں کہ انہیں کن سے اجازت لیکر بچی کو کہیں داخلہ دلوانا ہے ۔کس کس کی اجازت لینا ہو گی اپنا کیرئیر شروع کرنے کے لیئے ۔ ورنہ کیا ضرورت ہے کسی لڑکے کا حق مار کر یوں میڈیکل کے پروفیشن کا مذاق اڑانے کا ۔ ہمارے خیال میں تو یہ لڑکے لڑکیوں کا کوٹہ سسٹم ہی غلط ہے ۔ ہماری حکومت سے درخواست ہے کہ لڑکیوں کی تمام ترجیحی سیٹس ختم کی جائیں ۔ بلکہ لڑکیوں کے 99 نمبرز پر لڑکوں کے 70 نمبرز کو ترجیح دی جائے کیونکہ ان لڑکوں نے کل کو فیلڈ میں آ کر ملک قوم کی خدمت کرنا ہے ۔ان لڑکیوں کی طرح گھر کے چولہے میں ڈگری نہیں جھونکنی ۔ ہر لڑکی جو میڈیکل یا انجینئیرنگ یا ایسی ہی کسی پروفیشن کو  چنتی ہے تو اس سے خصوصی فارم بھروایا جائے ۔ جس میں انہیں اس بات کا پابند کیا جائے کہ وہ ڈگری لینے کے بعد لازمی فیلڈ میں پریکٹس کرینگی اور سوائے بچوں کی پیدائش یا بیماری کے کسی بھی صورت میں دو یا تین سال سے زیادہ اپنے پیشے سے چھٹی نہیں کر سکتیں ۔ اور اگر وہ ایسا نہیں کرینگی تو انہیں کم از کم دس لڑکوں کو اس شعبے کی ڈگری دلوانے کے اخراجات بطور جرمانہ ادا کرنے ہوں گے ۔  اس قانون کے بعد یا تو لڑکیاں اس  شعبے میں آئیں گی نہیں اور جو آئیں گی وہ پوری ایمانداری سے اور اپنا ذہن بنا کر اس پیشے کا انتخاب کریں گی ، اور اپنے ملک کے لیئے پوری طرح سے ایک مفید شہری ثابت ہونگی ۔ اور جو لوگ سٹیٹس سمبل کے طور پر لیڈی ڈاکٹر یا وکیل کا انتخاب تو کر لیتے ہیں تاکہ معاشرے میں انکی ناک اونچی ہو جائے تو انہیں پھر یہ سوچ کر لڑکی کا انتخاب کرنا ہو گا کہ اس لڑکی کو اپنے پیشے میں کام بھی کرنا ہے ۔ ایک اور بات جو لڑکیاں ان پیشوں کا انتخاب کرتی ہیں ان میں خود بھی اتنی اخلاقی جرات ہونی چاہیئے کہ وہ اپنے رشتے کے وقت  لڑکوں کو یہ بات واضح کہہ سکیں کہ  مجھے شادی کے بعد اپنے پیشے کو جاری رکھنا ہے اگر وہ اس کے لیئے راضی ہے تو بات آگے بڑھائے ورنہ یقیناََ وہ کوئی اس دنیا کا آخری لڑکا ہر گز نہیں ہے ۔ خدا نے اُس شخص کو آپ کے لیئے منتخب کیا ہے۔ جو آپ کی تعلیم آپ کی سوچ اور آپ کی فیلڈ کی دل سے عزت کریگا ۔ اور جو ایسا نہ کر سکے اسے صرف ایک باندی چاہیئے ۔ اور اگر آپ کو خود باندی ہی بننے کا شوق ہے تو کوئی آپ کے لیئے کچھ نہیں کر سکتا ۔ حکومت کو اس بات کا سختی سے نوٹس لینا ہو گا کہ ہر سو میں سے کتنی لڑکیاں ڈگری لیتی ہیں، کتنی فیلڈ میں جاتی ہیں اور کتنی گھروں میں بیٹھ جاتی ہیں ۔ کہ یہ صرف ایک فرد کی مرضی کا نہیں بلکہ قوم کے آٹھ سے دس سال اور لاکھوں روپے کی ایک فرد پر سرمایہ کاری کا معاملہ ہے ۔ 
                                      ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

منگل، 9 دسمبر، 2014

تاج محل ،بحبت کا مقبرہ یا دولت کا غرور


تاج محل ،
محبت کا مقبرہ یادولت کا غرور
ممتازملک۔ پیرس



پچھلے دنوں اپنی بہت ہی پیاری دوست معروف شاعرہ محترمہ صدف مرزا کی بھارت یاترا کی دلچسپ کہانی ہڑھتے ہوئے ان کی تصاویر کئی یادگار مقامات پر دیکھتے ہوئے بہت سے جذبوں نے سر اٹھایا ، خاص طور پر تاج محل کو دیکھ کر اسکے تعمیر کروانے والے شہزادہ خرم المعروف شہنشاہ ہند شاہجہاں اور انکی بیگم ارجمند بانو المعروف ملکہ ہندوستان ممتاز محل کے عشق کی داستان کے بارے میں  ایک ایک پڑھا ہوا لفظ میرے ذہن کے گوشوں سے چیختا چنگھاڑتا ہوا مجھے جھنجھوڑتا ہوا میرے دماغ کی فصیلیں توڑتا ہوا محسوس ہوا ۔ یہ کیسی محبت تھی جس میں ایک شہزادہ اپنی سوتیلی ماں جو کہ ملکہ وقت نور جہاں جیسی پاورفل عورت ہو  سے لڑ کر اسی کے بھائی کی بیٹی سے محبت میں مبتلا ہوتا ہے اس سے ایک بڑے مقابلے کے بعد بیاہ رچاتا ہے ۔ پھر اسے حاصل کرنے کے بعد اسے ہر سال ایک بچے کی پیدائش کی ذندگی اور موت کی اذیت سے گزارتا ہے ۔ اس کے ساتھ کا شادی کے بعد کا عرصہ اس کی بیوی نے اس کی اولاد پیدا کرتے کرتے موت کو گلے لگا لیا ۔  کہاں گئی وہ محبت ۔ جب اسے اولاد کا تحفہ دینے کے سوا شاید اسے اپنی اس محبوب بیوی سے بیٹھ کرکھل کر بات کرنا بھی نصیب نہیں ہوا ہو گا جب کہ  وہ اس کی اکلوتی بیوی بھی نہیں تھی پھر بھی ممتاز محل مسلسل چودہ سال تک بچوں کی پیدائش کے اذیت ناک مرحلے سے دوچار رہی اور بلآخر چودھویں بچے کی پیدائش کے دوران ہی اس دنیا سے چل بسی ۔ یہ کیسی محبت تھی جس نے اس معصوم عورت کو کبھی ایک نارمل انسان کی طرح صرف ایک وجود کی طرح جینے کا حق بھی نہ دیا اور اسکی موت کے بعد کوئی ایسا فلاحی کام جس میں کوئی اور ایسی تکلیف سے نہ گزرے ،کرنے کی بجائے آج کا اربوں روپیہ لگا کر ایک عظیم الشان مقبرہ تعمیر کروا دیا۔ دوسرے لفظوں میں بتا دیا کہ محبت کا آخیر یہ مقبرہ ہی ہوا کرتا ہے اور مجبت کرنے والوں کی شادی بھی ہو جائے تب بھی اسے چین ایک قبر میں ہی آتا ہے ۔ یہ محبت کی یادگار ہے یا رہتی دنیا تک ایک عورت کے وجود کی نفی ہے یا ایک بادشاہ کی جانب سے دنیا کے دل میں  اپنے اثاثوں کی دھاک بٹھانے کا ایک طریقہ ہے ۔ کیا ہےیہ ؟ ایک شعر بڑی شدت سے یاد آ رہا ہے کہ                                                             
                       اک شہنشاہ نے بنوا کے حسیں تاج محل
                       ہم غریبوں کی محبت کا اڑایا ہے مذاق
محبت میں کسی کو پھانس چھبونا بھی خود پر تلوار چلنے جیسا لگتا ہے ۔ انسان ایک کی بات دوسرے سے کہے بنا سمجھ جاتا ہے ۔ایک کی غیر موجودگی میں اسکے میلوں دور ہوتے ہوئے بھی اسکے ساتھ کچھ اچھا یا برا ہو جانے کو محسوس کر لیتا ہے ، لیکن یہ کیسا بادشاہ محبت تھا جس نے اپنی بیوی کو کبھی زچگی کی تڑپ کے سوا کچھ نہ دیا۔ یہ اس کی محبت تھی یا اس عورت سے کوئی تاریخی بدلہ ۔ کہ دیکھا کیسے ایک مرد تاحیات ایک عورت کو زندگی اور موت کے امتحان میں مبتلا کرتا ہے اور بعد میں ایک قاتل  محبت کہلانے کے بجائے باشاہ محبت بھی کہلاتا ہے ۔ اگر یہ محبت ہے تواللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے  کہ ہم اس محبت سے محفوظ ہی ہیں کہ جس کا انجام کسی مقبرے کی صورت میں دنیا کے کلیجے پر کھڑا نظر آئے ۔ اور جسے اس سنگی مقبرے میں جدائی کی تڑپ اور زچگی کے خوفناک عمر قید بخشی گئی ہو اسے مظلوم بھی نہ سمجھا جائے بلکہ اسے بھی ایک قاتل بادشاہ کی خوش نصیب بیگم قرار دیا جائے ۔ اُففففففففف کیسی بھیانک حقیقت ہے ۔ میرا زہن اس سے آگے کچھ بھی سوچنے کی ہمت کرنے کو تیار نہیں ۔ ارجمند بانو عرف ممتاز محل ایک شہید تھی ۔ اور ہم میں سے کوئی بھی اس کی بیچارگی کا تصور بھی نہیں کر سکتا ۔ اللہ پاک ان کی روح کو سکون عطا فرمائے ۔ آمین 

                                     ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

شاعری / /مدت ہوئ عورت ہوۓ/ ممتاز قلم / سچ تو یہ ہے/ اے شہہ محترم/ سراب دنیا/ نظمیں/ پنجابی کلام/