ممتازملک ۔ پیرس

ممتازملک ۔ پیرس
تصانیف : ممتازملک

جمعرات، 25 فروری، 2016

یادش بخیر . ایک شعر




یادش بخیر ایک شعر
ممتازملک. پیرس




آج ایک وال پرایک شعر کسی نے پوسٹ کیا  .
ویسے تو پوسٹ کرنے والے نے شعر کی حسب توفیق ہڈیاں ٹانگیں خوب توڑی تھیں لیکن اصل شعر بھی دھم سے ہمارے ذہن میں آن پہنچا
" اے رفیق زندگی اے مسافر الوداع
زندگی میں پھر ملیں گے جب کبھی موقع ملا"
یہ پچھلی صدی کی بات ہے .
ہمارے سکول کی اس روز گرمی کی چھٹیاں ہونے جا رہی تھیں .ہمارے ہائی سکول میں نویں جماعت کے دن تھے . اس روز سکول کا گرمی کی چھٹیوں سے پہلے کا آخری دن تھا  . 
ہماری شرارتی کلاس کی موج مستیاں عروج پر تھیں . سب چھٹیوں کے لیئے اپنے اپنے پروگرام ذوروشورسے بیان کر رہی تھیں .
کوئی بلیک بورڈ پر کسی ٹیچر کا کارٹون بنا رہی تھی ، تو کوئی اپنی کاپیاں کتابیں الماری سے نکالنے میں خوشی خوشی مصروف تھیں ،
کچھ اتنے دن کی جدائی پر اظہار  اداسی کر رہی تھیں اور ایک" میں" جسے یہ سوچ کر موت پڑ رہی تھی
کہ" لو جی ہن سارے گھر دا کم مینوں کرنا پے گا "ہائے ہائے کیا بتائیں ہمارا دل کیسے صدمے سے دوچار تھا . یہ نہیں کہ ہم کوئی کام چور ہستی تھے. لیکن اس لیئے کہ ہماری اماں حضور بلکل ہی ہاتھ پاوں چھوڑ کر ہمیں نیک پروین بننے کے تمام سنہری مواقع فراہم کرنے کے موڈ میں آ جاتی تھیں . 
یہ ہی سب سوچتے ہم نے بھی یہ ہی شعر بلیک بورڈ پر یہ دیکھے بنا جڑ دیا کہ اسکے عین نیچے ہماری پرنسیپل کا کارٹون بنا ہوا ہے .
شو مئی قسمت ہماری کلاس فیلوز نے سکول کے آخری پریڈ میں جو ہا ہا کار مچارکھی تھی اسے سن کر ہماری محترمہ پرنسپل مسز نذیر کی اچانک آمد ایسے ہی ہوئی جیسے کسی نے ہمیں بھنگ بیچتے ہوئے پکڑ لیا ہو . 
کیونکہ ہماری ساری کلاس کیا پورے سکول کی مشترکہ  حکیمانہ رائے تھی کہ عزرائیل کو تو اللہ پاک بھیجتے ہیں جان لینے کو لیکن ہم  (اپنی طرف سے معصوم )بچوں کی جان لینے کو مسز نذیر کو باقاعدہ تنخواہ ہی نہیں اس کے بعد پینشن بھی منظور کروا کر بھیجا گیا ہے . وہ نہ صرف بڑی دبنگ خاتون تھیں بلکہ اللہ نے انہیں گرجدار آواز اور فل والیم سے خوب نوازہ تھا. سکول کے ایک کونے سے ان کی دھاڑ  گونجتی تھی کہ 
"کیا ہو رہا ہے "
اس کے بعد گویا کسی کے چراغوں میں روشنی  کیا تیل ہی نہیں رہتا تھا.
پورا سکول اس آواز کے بعد گونگوں کے سکول کا منظر پیش کیا کرتا تھا .ڈسپلن کے معاملے میں شاید وہ اپنے بچوں کو بھی گھر سے باہر مرغا بنا دیتیں تو بھی ہمیں کوئی حیرت نہ ہوتی .
ہمارے ہوشربا شور شرابے میں ہمیں خبر بھی نہ ہوئی اور سناٹا اس وقت طاری ہوا جب باقاعدہ ایک آواز آئی 
"کدھر کو جا رہے ہیں تمہارے ڈولے"
لو جی اس دن پتہ چلا کہ
ڈولی چڑھدیاں ماریاں کیوں ہیر چیکاں ں ں ں ں ں 
شاید اس کا ڈولی کے دروازے  میں ہاتھ آ گیا تھا یا اس کی بھی پرنسپل نے چھاپا مار دیا تھا.  
کلاس ساری صم بکم
"کس نے لکھا ہے یہ بلیک بورڈ پر "
انہوں نے ہماری سانولی سلونی باریک سی مانیٹر ثمینہ سے پوچھا وہ بیچاری تھر تھر کانپتی کبھی مجھے دیکھے کبھی پرنسپل کو . کیونکہ ادھر کنویں ادھر کھائی کے مصداق مار اسے دونوں طرف سے پڑنی تھی . حالانکہ ہمارا کبھی کسی سے جھگڑا نہیں ہواتھا لیکن اللہ کے فضل سے اپن کا رعب بڑا تھا .
آخر کار پرنسیپل کی پھٹکار  کے بعد اس نے کھائ  میں کودنے  کا فیصلہ کر لیا. یعنی ہمیں بلی چڑھا دیا. اب پرنسپل نے ہمیں یوں گھور کر دیکھا جیسے کسی سبزی خور کو گوشت بلکہ گدھے کا گوشت کھاتے پکڑ لیا جائے . کیوں کہ اس سے پہلے ہماری معصوم صورت کی وجہ سے ہمارا ریکارڈ نہایت معصومانہ تھا . اس روز انہیں معلوم ہوا کہ
ہیں ںںں
"ممتازملک بھی شرارتی بچہ ہے"
بس جی ان کے آرڈر پر میں بڑی مجرم اور دو دوسری چھوٹی مجرمات ان کے آفس کے باہر انتظار میں کھڑی کر دی گئیں . 
بنا کچھ کہے بنا کچھ بتائے،
اب پانچ منٹ میں سکول کی بیل بجی سارا سکول رخصت ہو رہا تھا اور ہم اپنی پیشی کے انتظار میں سوکھ رہے تھے ہماری جونیئر کلاسز کی کچھ لڑکیوں نے گزرتے ہوئے پوچھا بھی کہ
" آپی آپ یہاں کیوں کھڑی ہیں" ؟
تو ہم نے بھی کھسیانی ہو کر انہیں مرعوب کرنے کو کہا ہمیں پرنسپل صاحبہ سے ضروری کام ہےانہوں نے بلوایا ہے آپ جاو جاو شاباش.  
لیکن دل کا حال تو ہم ہی جانتے تھے . کہ ہمارے گھر کا رستہ  پندرہ منٹ کا ہے تو سولہویں منٹ میں اماں کا برقعہ ان کے سر پر ہو گا اور وہ ہماری تلاش کی مہم پر روانہ ہو جائیں گی  . پھر حسب توفیق ہماری اتنی دھوم مچائیں گی کہ کیا ہی آج کل کے دھوم مچا دے گانے نے مچائی ہو گی.
ہم پرنسپل کے بلاوے کے انتظار میں تھے سکول کی تقریبا ساری لڑکیوں کے جانے سے پہلے ہمیں بلا ہی لیا گیا ہمیں " بڑی شرارتی" کا اعزاز دیتے ہوئے انہوں  نے ایک تاریخی ایگریمنٹ پر ہم سے سائن لیئے. جس پر ہمارے ہی مبارک  ہاتھوں سے لکھا تھا.
"آئندہ ہم کبھی ایسی شرارت نہیں کریں گے "
انہوں نے جب اپنی گھومنے والی کرسی کا رخ دیوار کی جانب کیا تو ہمیں پورا یقین ہے وہ خوب ذور سے ہنسی ہوں گی. 
لیکن ہمیں وہ ہنسی سننے کا ہوش کہاں تھا
ہم نے کودتے پھاندتے اپنی کلاس روم سے بیگ اٹھائے اور گھر کی جانب سرپٹ  دوڑ لگا دی .  
اللہ کا شکر ادا کیا کہ ہماری سپیڈ نے اماں کے گھر سے نکلنے سے پہلے ہی ہمیں گھر پہنچا دیا . اور ہم مزید امّاں کی نظر میں خوار بلکہ رسوا ہونے سے بچ گئے . ورنہ جو ہوتا کم تھا.
                               
      ..................


جمعہ، 12 فروری، 2016

کندھے یا پیڑھے




کندھے یا پیڑھے
ممتازملک .پیرس






بچپن میں اپنی ماں سے ایک کہانی سنی تھی کہ
ایک گاوں میں ایک بڑا امیر اور متکبر شخص رہا کرتا تھا .گاوں والوں کی کسی خوشی غمی میں اپنے گھر سے کسی کو بھی شامل ہونے نہیں بھیجتا  تھا . ہاں موت والے گھر  میں ایک پیڑھا بھجوا دیتا . کہ یہ اس کی جانب سے شرکت کا اعلان ہوتا . کافی سال یہ سلسلہ چلا . پھر ایک روز اس کے ہاں بھی کسی کی موت ہو گئی. اس نے جب میت تیار کروا کر اس کی آخری  رسومات کے لیئے اپنے گھر کے باہر دالان میں جھانکا تو لوگوں کی جگہ پیڑھوں کاڈھیر لگا پایا . 
نوکر سے پوچھا کہ یہ کیا ہے .
 تو نوکر نے جواب دیا سرکار
" یہ دنیا کا دستور ہے کہ جیساکوئی کسی کے ساتھ کرتا ہے ویسا ہی اس کیساتھ بھی کیا جاتا ہے . آپ نے جو سب کو بھیجا وہ سب نے آپ کو لوٹا دیا ہے . آپ کے گھر کی ڈولی اور جنازہ یہ ہی پیڑھے  اٹھائیں گے . اگر آپ نے کندھے بھیجے ہوتے تو آج کندھے بھی مل جاتے''.
...........

بدھ، 10 فروری، 2016

ملاقات



پاکستان سے واپسی پر 6مارچ 2016 ایسوایشن فم دی موند  کی صدر اور معروف شاعرہ محترمہ شمیم خان . حق باہو وویمن ونگ کی صدر محترمہ روحی بانو صاحبہ اور دیگر خواتین سے ایک.خصوص ملاقات کا اہتمام کیا گیا .




منگل، 9 فروری، 2016

پیرس میں پہلا عالمی مشاعرہ 7 جون 2015



 پیرس میں پہلا عالمی مشاعرہ
7 جون 2015


















پیر، 8 فروری، 2016

بڑے لوگ چھوٹے دل

کیا آپ کا اشارہ میری جانب ہے سر . میری تو ان کے ساتھ کوئی تصونہیں ہے ہاں ان کی آخری ملاقاتوں میں سے میرے ساتھ ہونے والی بھی وہ ملاقات شامل تھی . میرا تو ان سے ملنا ہی میرے لیئے ایک اعزاز کی بات تھی .  آپ لوگ بھی تو اپنے ابتدائی دنوں میں کسی کو کام کے حوالے سے پسند کرتے ہوں گے . ان سے ملنا چاہتے ہوں گے . ان کو دیکھنا چاہتے ہونگے تو اس کا ذکر بھی اس وقت کے میسر ذرائع سے کرتے ہوں گے . اس میں کیا عیب ہے . یہ آج کا زمانہ ہے یہاں آج کے انداز میں ہم سب اپنی خوشی کا تجسس کا اظہار کرتے ہیں . کیا یہ بڑی بات ہے؟؟کیا ساری دنیا میں ایسا ہی نہیں ہوتا؟؟

بہت شکریہ.  لیکن میں پھر بھی کہوں گی کہ جانے والا کوئی ایسا ویسا ہو تو کوئی کیا ذکر کریگا لیکن اگر جانے والا اتنا بڑا اپنے کام کا ماہر ہو تو ہر ایک اس کے نام سے کسی بھی حوالے سے جوڑنا چاہے گا . یہ انسانی فطرت ہے جناب . ہاں جو لوگ اس میں جھوٹ کا تڑکہ لگاتے ہیں . انہیں شرم آنی چاہیئے.

میری کیا جرات ہے جناب کہ میں آپ کی بات کو رد کروں . میں تو ایک.عام فطری رجحان کا ذکر کر رہی ہوں
آپ کی بات سے سو فیصد متفق ہوں لیکن تصویر  کا دوسرا رخ آپ.کے سامنے پیش کرنے کی جرات کر رہی ہوں . معذرت کیساتھ . جو لوگ جھوٹ ملاتے ہیں وہ قابل لعنت ہیں . جانے والا خود تو اپنی سچائی بیان نہیں کر سکتا لیکن دنیا میں رہنے والا اس پر جھوٹ باندھ کر اس کی روح کو تکلیف پہنچانے کا موجب  ضرور بن رہا ہوتا ہے . اللہ ہمیں معاف فرمائے.

تو   بے حد احترام اور معذرت کیساتھ جن لوگوں کے جانے پر کوئی نہیں بولتا تو بھی آپ جیسے لوگ ہی فرمائے ہیں کہ دیکھو کیسا بے ضمیر معاشرہ ہے .
دوسری جانب نئے لکھنے والے یا بقول آپ کے" لالچی رائیٹرز " اگر یہ کہیں کہ آپ جیسے لوگ تعزیت کرنے والوں کی آڑ لیکر   نئے آنے والوں سے اپنا حسد اور بغض نکال رہے ہیں یا جانے والوں کا نام لیکر اپنے نمبر بنا رہے ہیں . تو اس میں کیا جھوٹ ہو گا ؟ کیونکہ ہمارے ملک میں جو آدمی کسی مقام  پر خاص طور پر لکھاری کسی مقام پر پہنچ جائے تو وہ چاہتا ہے بس اب اس رستے کی طرف آنے والے ہر آدمی کو بے عزت کر کے رکھ دو کیونکہ آخری طرم خان وہی تھا جو پیدا ہو گیا . اس قدر تکبر اور اس قدر خود پسندی کی کوئی مثال میں نے اور دنیا میں کہیم نہیں دیکھی. خود کو خدا سمجھنے سے اچھا نہیں ہے کہ ہمارے بزرگ رائٹرز خود کو اچھا انسان بھی ثابت کریں اور آنے والوں کو رہنمائی کریں ان کی حوصلہ افزائی کریں . ورنہ وقت تو انہیں آگے لے ہی آئے گا .
بہت بہت شکریہ  ان چند بڑے دل والے سینئیرز کا کہ سچ میں اگر آپ جیسے چند لوگ اس میدان میں ہمیشہ نہ ہوں تو  ہر شخص اس میدان میں پہلا اور آخری ہی ہوتا . کسی کو اپنا پہلا دن یاد ہی نہیں ہوتا کہ وہ بھی اسی طرح ایک روز نیا تھا .  بقول.ان لوگوں کے بونے تھے.کسی نے ان کی رہنمائی کی تو وہ اس کے لیئے راہبر ہو کر اچھے لفظوں میں جی گیا لیکن  جس نے اس کا راستہ روکا وہ یہ بھول گیا کہ راستے خدا بناتا ہے کسی انسان کی کیا اوقات ہے کہ وہ یا اس کا نام کسی کے لیئے راستہ بنے . جب تک کہ رب کائینات نے کامیابی یا نام اس کے مقدر میں لکھ نہ دیا ہو. یہ تو اللہ کی جانب سے ہمارے لیئے بہانے ہوتے ہیں .

جمعرات، 4 فروری، 2016

پرانا پاپی


پرانا پاپی 
ممتازملک ۔ پیرس




ملک بھر میں ہونے والے قتل عام اور چن چن کے اس ملک سے قیمتی ترین لوگوں کو قتل کرنے والے دوسرے کئی گینگز  کی طرح لیاری گینگ کا عذاب بھی کچھ کم تباہی پھیلانے کا سبب نہیں رہا . اسی کے سرغنہ عزیز بلوچ نے اپنی گرفتاری کا یقین ہونے پر ایسا مکارانہ  کھیل کھیلا ہے کہ جس سے اس کیس کو اور اس کے مجرم ہونے کو جہاں تک ہو سکے اس قدر کمزور اور مشکوک  کر دیا جائے کہ ہر سیاسی آدمی اپنی عزت بچانے کے لیئے اسے چھڑانے اور اپنا دامن بچانے کی فکر کرنے لگے . پیپلز پارٹی کا یہ پرانا کارندہ ایک ایسا اجرتی  قاتل ہے جو باقاعدہ گروہ بنا کر معصوم شہریوں کو  خود بھی لوٹتا رہا ہے اور سالہا سال تک ان سیاسی نمائندوں کو بھی پالتا  رہا ہے . پھر طریقہ واردات کسی کا قتل ہو ،کھالوں  کی لوٹ ہو ، صدقے فطرانے  کے نام  پر جگا ٹیکس ہو یا یا پھر اغواء برائے تاوان ،گو ہر طریقے سے اس نے اپنے مشن جاری رکھے . اس پر اس  نے ہر ہر موقع پر ہر نامی گرامی  شخصیت کیساتھ  اپنی تصاویر بھی ان کے جانے انجانے میں یوں بنا کر انہیں ایسے ایسے مواقع پر پیش کیا کہ ہر آدمی ہی مشکوک ہو جائے اور ہماری عدالتیں جو  پہلے ہی لولے لنگڑے فیصلے کرنے اور ایسے مجرموں کو آذاد کرنے کے بہانے ڈھونڈتی ہیں انہیں مذید عذر در عرض دے دیئے جائیں . کیونکہ ہماری عدالتیں سائیکل چور اور گاڑی کے چالان والوں کو تو سالہا سال لٹکا سکتی ہیں . لیکن قاتل چاہے ریمنڈ ڈیوس ہو ،شاہ ذیب ، یا کسی بھی نام سے ہو. اسی عدالت کی ناک کے نیچے سے وکٹری بناتا ہوا اس کی حرمت پر منہ چڑھاتا ہوا گزر جائے گا . کاش یہ رہائی ہماری عدالتوں میں معصوموں کے لیئے اتنی آسان ہوتی . لیکن یہ آسانی اور شکوک کے فائدے میسر بھی ہیں تو ایسے قاتلوں لٹیروں اور ڈاکوؤں کو . 
اس شخص نے نہ صرف ہر نامور شخصیت کیساتھ تصاویر بنائیں ان میں ہر طبقے کے لوگ شامل ہیں سیاستدان ہوں یا کھلاڑی،  صحافی ہوں یا  میڈیا والے . اس کے وار سے کوئی بچا ہوا نہیں ہے. 
اب ضرورت اس امر کی ہے کہ اس کے خلاف انکوائری میں اس بات کو مدنظر رکھا جائے کہ وہ کس شخص کیساتھ کس حد تک اور کس حوالے سے رابطے میں تھا ۔ وہ کون لوگ تھے. جو اس کے ایک ایک جرم پر پولیس سٹیشن فون کر کر کے اسے اور اس کے کارندوں کو نہ صرف چھڑایا  کرتے تھے بلکہ انہیں ہر طرح کی سہولتیں اور پناہ گاہیں بھی فراہم کیا کرتے تھے ۔ 
یہ کوئی معمولی آدمی نہیں ہے جس کا دماغ ایک وقت میں کہاں کہاں  کس کس کو ٹپکاتا تھا، کبھی اڑاتا  تھا اور کبھی غائب کرواتا تھا ، جس کی ہاتھوں نہ کسی کی عزت محفوظ تھی اور نہ ہی کسی کی جان اور مال ۔ ایسے لوگ ہمیشہ ہی  سیاسی کارندے اور انکے خاص گلو بٹ رہے ہیں  . ان کا ہر طبقے کے لوگوں میں کھڑے ہو کر، بیٹھ کر سیلفی بنوانا یا تصویر بنوانا کوئی بڑی بات نہیں . ہمارے ساتھ دائیں بائیں جانے کون کون ہمیں اپنے کیمرے میں قید کر رہا ہے. یہ ہم نہیں جان سکتے . لیکن ہاں جو لوگ ان کے ساتھ  ان کے گھروں میں بیٹھے  ہیں، ان کے ہاں دعوتوں اور شادی بیاہ میں شریک ہوتے رہے ہیں. تو ہاں دال  میں کالا کیا کہیں پوری دال ہی تو کالی نہیں ؟؟؟؟؟؟
                  ----------

عجب میں ہوں ۔ اردو شاعری۔ سراب دنیا


عجب میں ہوں

عجب میں ہوں پاگل عجب میں نرالی
کیئے اپنے کام اور پھر گھر کی راہ لی

نہ کوئی غرض رکھی بازیگروں سے
ہمیں جیت پایا نہ کوئی کمالی

یہ موقع پرستوں کی رسمیں پرانی
کہ ہر راہ کے بدلے نئی ایک راہ لی

بھلائی کی چاہت کسی کو نہیں تھی
برائی نے آ کےجو گدّی سنبھالی

مجھے دینے والوں نےعزت جودی تھی
ہاں جتنا ہوا میں نے قیمت چکا لی

 ہمیں دوسروں کے لیئے اپنا ایماں 
بدلنا نہ آیا توجہ ہٹا لی

گندھی اپنی مٹی میں ایسی وفا تھی
نہ در در پہ جا کے  بنے ہیں سوالی

تعزُ تذلُ لکھا جا چکا ہے
بہت ہے جو ممّتاز عزت کما لی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

منگل، 2 فروری، 2016

اردو ادب کے انتظار حسین



اردو ادب کے   انتظار حسین 
ممتازملک ۔ پیرس


مرکز میں موجود جناب انتظار حسین صاحب ۔ اوریئنٹل کالج لاہور 17 جنوری 2016 
کلک بائے ۔ ممتازملک



دنیائے ادب کے معروف لکھاری نے آج اس دنیا کو الوداع کہہ دیا . لیکن ہمیں اپنے علم و ادب کا بہت بڑا اثاثہ دیکر  رخصت ہوئے . انتظار حسین صاحب کو کچھ نہ کچھ پڑھ تو ضرور رکھاتھا . لیکن یہ کبھی نہیں سوچا تھاکہ ان سے آخری بار ملنے والوں میں مجھ ناچیز کا نام بھی شامل ہو گا . 
اوریئنٹل کالج برائے خواتین لاہور میں اپنےچند روز قبل ہونے والی 17جنوری 2016 کی اردو کانفرنس کے موقع پر جہاں اور بہت سی نایاب ہستیوں سے ملنے کا موقع ملا وہیں جناب انےظار حسین صاحب سے بھی ملاقات کا موقع ملا . موصوف نہ صرف بے حد اچھے لکھاری رہے ہیں بلکہ بے حد اچھے اور نفیس اور اپنے وعدوں کی پاسداری کرنے والے نفیس انسان بھی تھے ..جس کا ثبوت انہوں نے آخری دم تک دیا . اپنی طبیعت کی ناسازی کے باوجود وہ اس کانفرنس میں نہ صرف شریک ہوئے بلکہ ہر ایک کے ساتھ خوشدلی سے بات چیت کرتے ہنسی مذاق کرتے اور تصاویر بنوانے رہے . مجھے وہاں ان کے رخصت ہوتے وقت یہ آخری تصاویر بنانے کا موقع ملا .  انہیں اردو ادب ہمیشہ فخر سے یاد رکھے گا.

مرکز میں موجود جناب انتظار حسین صاحب ۔ اوریئنٹل کالج لاہور 17 جنوری 2016 
کلک بائے ۔ ممتازملک






مرکز میں موجود جناب انتظار حسین صاحب ۔ اوریئنٹل کالج لاہور 17 جنوری 2016 
کلک بائے ۔ ممتازملک
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔



پیر، 1 فروری، 2016

ہم کیسے لوگ ہیں ؟/ کالم . سچ تو یہ ہے






ہم کیسے لوگ ہیں ؟
ممتاز ملک ، پیرس



See original image
ہم کیسے لوگ ہیں ؟ شاید ہم ویسے ہی لوگ ہیں جن کے بارے میں کہتے ہیں " کہ 
بھوکے کو دے نہیں سکتے اور کھاتے کو دیکھ نہیں سکتے" .
یا شاید ہم ویسے بھی تو لوگ ہیں جن کے لیئے بلے شاہ نے فرمایا کہ
وے بلیا اساں مرنا ناہی  
  گور پیا کوئی ہور 
دنیا کے قانون پر جائیں تو ہر اچھے ملک کا قانون انسانوں میں سب سے پہلے عورتوں اور بچوں کے تحفظ کی بات کرتا ہے .دین پر جائیں تو ایسا بے مثال منشور رکھتا ہے کہ دشمن بھی عش عش کر اٹھے . یعنی امن تو کیا جنگ میں بھی کسے بوڑھے پر .عورت پر بچے پر یا جو نا لڑنا چاہے اس پر ہاتھ نہیں اٹھا یا جا سکتا . ان کے حفاظت کی ذمہ داری ہر فرد پر عائد کر دی گئی.  یہ ذمہ داری خالی خولی زبانی نہیں ہوتی بلکہ اس میں عورت کی یا بچے کی مالی .ذہنی اخلاقی ہر طرح کے تحفظ کی ذمہ داری ہوتی ہے .
لیکن ہم دیکھتے کیا ہیں کہ  ہمارا معاشرہ خصوصا بچوں اور خواتین کے لیئے مجرمانہ خاموشی اور منافقت کا رویہ اپنائے رہتا ہے. 
کوئی کسی کے لیئے کیا خود خواتین بھی کسی خاتون کے لیئے  یہ سوچ کر آواز نہیں اٹھاتی ہیں کہ مبادا انہیں اپنے گھر سے دیس نکالا نہ مل جائے .ان کا میاں انہیں نہ چھوڑ دے .کتنی عجیب بات ہے جو رشتے اللہ نے مقدر کر رکھے ہیں انہیں یہ سوچ کر ہم چلاتے ہیں کہ میں نے ایسا کیا تو یہ چلے گا اور ویسا کیا تو نہیں چلے گا .اگر ایسا ہوتا تو ہم نے بے شمار ایسی خواتین دیکھیں جو حسین بھی تھیں سگھڑ بھی تھیں با ہنر بھی تھیں اور باوصف و باکمال بھی تھیں لیکن پھر بھی ان کے گھر ٹوٹ گئے ان کا ساتھ کسی وجہ سے نہ نبھ سکا . اور ہم نے ایسی بھی خواتین دیکھی ہیں جو بدشکل بھی تھیں ،بدتمیز بھی تھیں ،بدزبان بھی تھیں  ،بے انتہا پھوہڑ کہ انہیں گھر میں جھاڑو دینے کو بھی نہ رکھے لیکن وہ میاں کے ساتھ ساری عمر عیش کرتے گزار دیتی ہیں . اس سے یہ ہی ثابت ہوتا ہے کہ رشتوں کو  ان کی مقررہ مدت سے زیادہ کون چلا پایا ہے اور اگر  لکھے ہیں  تو انہیں کون توڑ پایا ہے .لیکن یہ تو ہم تب مانیں جب ہمارا ایمان سلامت ہو 
.تو ایسے ماحول  میں جب کوئی ایسی خواتین  سامنے آتی ہیں چاہے گھر کے معاملات ہوں یآ گھر سے باہر ملازمتوں عہدوں یا خاص طور پر جب وہ لکھنے لکھانے جیسے شعبے سے وابستہ ہو اورجو اپنا ایمان اتنا مضبوط رکھتی ہیں کہ اس کے لیئے ہاں ہی نہیں نا بولنے کی بھی جرات رکھتی ہیں .تو انہیں جھٹ سے دو نمبر مرد ایک پلاننگ کے تحت بددماغ .بدزبان اور بدکردار  جیسے نام دینے لگتے ہیں .وجہ اس عورت کی خداداد صلاحیتوں سے خوفزدگی.  نام نہاد پڑھے لکھے سو کالڈ ادیب اور لکھاری سبھی اسے بہتی گنگا نہ بننے کے جرم کی سزا دینے کے لیئے میدان میں کود پڑتے ہیں . پھر وہ مرد یورپ کے متمدن معاشرے میں رہنے والا پی ایچ ڈی پروفیسر ہو یا معروف لکھاری اور براڈکاسٹر یا پھر شاعر عرف انٹیلکچوئیل یا کسی بھی شعبے  سے ہو .یہ سارے بہت سارے دوسرے ادبی دنیا کے بے ادب رخ کے وہ جوان و  بابے ہیں جن کی ٹانگیں تو قبر میں ہیں مگر یہ سوچ کر غلاظت پھیلانے سے باز نہیں آتے کہ
منہ تے ہالی بار اے
میری اس تحریر کا قطعی یہ مطلب اخذ نہ کیا جائے کہ سارے مردوں کو ہم ایک جیسے لپیٹے میں لے رہے ہیں .بلکہ ہمیں تو ان  حقیقی مردوں کی مدد کی اشد ضرورت ہے جو اس ماحول میں اپنے گھر کی خواتین کو باہر لاتے ہوئے گھبراتے ہیں .  قابلیت ہوتے ہوئے بھی کئی در نایاب  اسی طرح دنیا سے چلے جاتے ہیں .
اور جو خواتین اس میدان میں قدم رکھتی بھی ہیں ان کے لیئے ہر قدم پر ایک نیا امتحان کھڑا کرنا اپنا فرض سمجھا جاتا ہے . یہ خاتون شادی شدہ ہے تو اسے طلاق دلوانے کا پورا انتظام کیا جائیگا اور اگر وہ پہلے ہی اس رشتے سے آذاد ہے تو پھر تو جس سے اس نے بات کی وہ اس کا ...... بنا دیا جائے گا .اور اس خاتون کا ٹھیکیدار بننے کی پوری کوشش کریگا اور اگر خاتون نے ایک دو بار زیادہ عزت سے مسکرا کر کسی بات کا جواب دیدیا توسمجھ لیں بس خاتون تو ان کے خیال میں ان پر مر ہی مٹی ہیں .خاتون مسکرا کر بات کرے تو بدکردار کا سرٹیفیکیٹ اور اگر سنجیدگی سے صرف نپاتلا جواب دے تو بددماغی کا لائیسنس. آخر کوئی بتائے کہ عورت کرے تو کیا کرے .بات کرتی ہے یا جرات مند ہے تو کوئی جینے نہیں دیتا بات نہیں کرتی  یا کچھ نہیں جانتی تو بھی اجڈ جاہل اور مغرور کے خطابات سے نوازی جاتی ہے.
وہ تمام مرد حضرات جو ان مگر مچھروں سے واقف ہیں ان کی گندی زبانوں سے واقف ہیں ان کی بدکرداری اور خواتین کو کی گئی  بلیک میلنگ سے واقف ہیں تو خدارا  ان پر اپنی یاری دوستی کا پردہ مت ڈالئے. بلکہ انہیں یہ سوچ کر بے نقاب کیجیئے کہ کل کو ان کے نشانے پر آپ کے گھر کی کوئی خاتون بھی ہو سکتی ہے ..صرف یورپ  کی خاتون ہی آخری نشانہ نہیں ہو گی . جس نے ان ٹھرکیوں کا سالہا سال لحاظ بھی کیا اور یہ سوچ کر خاموشی اختیار کی کہ کتے  کتنی دیر  بھونکیں گے . 
لیکن اب جب یہ کاٹنے کے لیئے تیار ہیں تو ان کے دانت توڑنے کا وقت بھی ہو گیا ہے .پبلک میں کام کرنے والی کوئی خاتون کسی کے بھی باپ کا مال نہیں ہے کہ  اسے راہ چلتا کوئی بھی بکواس کرتا اور کمنٹ پاس کرتا گزر جائے . بدکاری خواہ کوئی بھی ہو ، زبان کی ہو یا آنکھوں کی ہو ، سوچ کی ہو یا عمل کی، اسے کرتے ہوئے یہ یاد رکھنا چاہیئے کہ بدکاری بدکاری ہی ہوتی ہے . اور یہ قانون قدرت ہے کہ مرد کی بدکاری ہمیشہ پلٹ کر اسی کے گھر کی عورت کو شکار کر جاتی ہے . پیشاب کی ایک چھینٹ ہی دودہ کی بھری بالٹی  کو ناپاک کرنے کے لیئے کافی ہوتی ہے. اور ہاں یاد رکھیں دنیا بدمعاشوں کی بدمعاشی کی وجہ سے خراب نہیں ہوتی بلکہ شریفوں کی خاموشی کی وجہ سے تباہ ہو جاتی ہے .ہر دور میں انسانوں کی غیرت کا امتحان ہمیشہ ہی ہوتا رہا ہے .آج کی ادبی دنیا بھی اہسے لوگوں سے بھری پڑی ہے جن کے الفاظ کاغذ پر بس واہ واہ کی سیاہی ہی بکھیرتے ہیں ان کی زندگی عمل کے یکسر خالی ہے ۔
ایسے لوگوں  کی شکلیں دیکھنے کے بعد ان کے کرتوتوں پر زیادہ غوروفکر کی ضرورت ہی نہیں پڑے گی . جیسا کہ پڑھ رکھا ہے کہ انسان کی جوانی کے کام بڑھاپے میں ان کی صورت پر آجاتے ہیں کبھی اچھے کام  نور بنکر تو کبھی برے کرتوت پھٹکار بنکر .  اب خاموشی کا وقت گزر گیا ہے تمام ماں بہنوں اور بیٹیوں والوں کی ہمت و جرات کا امتحان ہے کہ میدان میں آئیں اور ادب  کے نام پر ٹھرک بازوں اور بدکردار بلیک میلروں کے اس ٹولے کو سبق سکھائیں جو ہر جگہ پاکستان کی بدنامی کا سبب بن رہے ہیں . ہم اپنے اچھے کاموں سے ایک قدم آگے بڑھتے ہیں تو یہ خبیث اپنی کر توتوں سے ہمیں کھینچ کر ایک میل پیچھے دھکیل دیتے ہیں . ہمیں آپ سب کے ساتھ کی جتنی ضرورت  آج ہے اتنی پہلے کبھی نہیں تھی.جب علم حاصل کرنا ہر عورت اور مرد پر برابر فرض ہے تو اس کے عملی میدان پر بھی محض مردوں کی اجارہ داری کا کہیں کوئی حکم نہیں ہے .اس لیئے آگے آیئے. اپنے ضمیر کی آواز کو سنیئے .....
                     ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اتوار، 31 جنوری، 2016

بابائی وباء ۔ کالم۔ سچ تو یہ ہے


بابائی وباء
(تحریر:ممتازملک. پیرس) 




ساری زندگی محبتیں مشقتیں کر کے ہر ہر طریقے سے مال بنایا ہے. بیویوں کو صبر شکر اور تسبیح کے راستہ دکھا کر اب جب بیرون ملک خصوصا  اور یورپی بابے بالعموم بیوی بچوں کے ہوتے ہوئے بھی پاکستان جا جاکر سہرے باندھ رہے ہیں . ان کا ناقص خیال ہے کہ یہ ان کا کوئ کارنامہ  ہے کہ وہ جوان جوان لڑکیوں سے شادی شادی کھیل رہے ہیں بیس بیس پچیس پچیس سال کے فرق سے  کھیلے جانے والے اس ڈرامے میں کسی بھی جانب سے وفاداری یا محبت بلکہ تھوڑا اور آگے جائیں تو عزت کا بھی کوئ  تعلق نہیں ہوتا .  بابا جی کی جیب سے مال اور لڑکی کے دماغ سے لالچ نکال دیاجائے تو یہ رشتہ دھڑام سے منہ کے بل آ گرتا ہے .
کسی نے ایسے ہی بابے سے شادی کرنے والے نوجوان لڑکی سے پوچھا کہ آپ نے اس باپ کی عمر والے بابے سے شادی کیوں کی ؟
تو وہ اٹھلا کے بولی
ویکھو جی ،  بابے سے ویاہ کرنے کے سب سے بڑے دو فیدے
ایک تو ان کی ان کم 
دوسرے ان کے دن کم
سوچئے تو جنہیں یہ "دن "کم بابا سمجھ رہی ہوتی ہیں اکثر وہ بابا اس لڑکی کو بھی اپنے ہاتھوں قبر میں اتار جاتاہے کہ بابوں کی گارنٹی کون دیگا . یا شاید اس لڑکی کی لکھی اسی کے ہاتھوں تھی. ایسے ہی ایک بابا جی سے محلے میں لڑکیوں کو آنکھوں آنکھوں میں تاڑنے پر کسی نے پوچھا کہ 
بابا جی آپ کو شرم نہیں آتی لتاں تہاڈیاں قبر وچ تے ایسیاں حرکتاں ...
تو بابا دوزخی بولا لتاں قبر وچ نے منہ تے ہالی باہر اے...
یہ بابے پاکستان میں نوعمر  بیوی چھوڑ کر اسے اتنی رقم بھیجتے ہیں جو شاید اپنی عمر کی اپنے بچوں کی اماں کو دس سال میں بھی نہ دی ہو . اور وہاں اس مال پر اس لڑکی کا پورا خاندان  عیش کرتاہے . اور بابا جی کو ایک ہنی مون پیریڈ کی نام نہاد بیوی . 
سچ کہیں تو اگر وہ لڑکی پاکستان میں کسی گناہ میں بھی مبتلا ہو رہی ہے تو یقینا اس کے ذمہ دار یہ ہی بابا جی ہیں . اس پر طرہ یہ کہ دونوں کی ضروریات  الگ ، خواہشات الگ ، شوق الگ ۔ ایک کو چائینیز پسند تو دوسرے کو گردے کپورے ، ایک کو کیک کھانا ہے تو دوسرے کو چینی سے پرہیز  شوگر فری ، ایک کو برف کا گولہ کھانا ہے تو دوسرے کو کھانسی کا سیرپ .کون سا باہوش سمجھدار انسان اپنی زندگی کیساتھ ایسا مذاق کرنا پسند کریگا.
 ساتھی ،دوست ، بیوی اور ہمسفر جتنا پرانا ہوتا ہے اتنا ہی آپ اس کو اور وہ آپ کو سمجھنے لگتے ہیں . ایک دوسرے کی عزت اور خواہشوں کا احترام کریں تو یقین جانیئے آپ کو اپنے جیون ساتھی میں کبھی کوئ عیب نظر نہیں آئے گا اور آئے بھی تو یہ سوچیں اور گنیں کہ اس میں کوئ تو ایسی بات بھی ہو گی جو آپ کو بہت اچھی بھی لگتی ہے .اسی بات کی محبت میں ایک دوسرے کو اپنی اپنی زندگی میں سانس لینے کی جگہ دیتے رہیں گے اور سال بھر میں چند روز یا چند ماہ ایک دو سرے سے الگ رہ کر دور رہ کر بھی دیکھیں آپ کو ایک دوسرے کی ایسی بہت سی باتیں معلوم ہوں گی جو آپ کو ایک دوسرے سے مزید محبت دلائیں گی .اور اپنی پرانی بیوی یا شوہر سے بھی آپ کو اپنا رشتہ نہ تو پرانا لگے گا اور نہ ہی بوجھ محسوس ہو گا.  یہ بات صرف دو میاں بیوی کے بیچ ہی محدود نہیں ہوتی بلکہ اس رشتے کے اثرات آپ کی اولادوں تک میں سرایت کر جاتے ہیں .
       
MumtazMalikParis.BlogSpot.com
              ..................


● بہتان کیا ہوتا ہے ؟/ کالم



بہتان کیا ہوتا ہے ؟
ممتازملک ۔ پیرس


 عام طور پر خیال کیا جاتا ہے کہ کسی کے بارے میں ایسی بات کہنا جو اس میں نہیں ہے بہتان ہوتا ہے ۔ جی ہاں یہ بات درست ہے لیکن اس کی ایک اور وضاحت بھی بے حد ضروری ہے کہ صرف کسی کے بارے میں ایسی بات جس سے اس کی عزت کم ہوتی ہو کہہ دینا  صرف بہتان ہی نہیں ہے بلکہ اس کے کئی مضمرات بھی ہیں ۔ ایک تو یہ بات اس میں ہے نہیں یہ گناہ اور، اس سے بھی بڑا گناہ یہ کہ ہم اس کے کردار پر کیچڑ اچھال کر اسے لوگوں کی نظر میں اس گناہ کے ذریعے گرانے کی کوشش کر رہے ہیں ، جس کا اس نے تصور بھی نہیں کیا ۔  بلکہ کسی بھی ایسی شخصیت پر جسے آپ کبھی ایسا خاص ملے نہیں ہیں یا جسے آپ صرف زبانی ہی یاکسی کے ساتھ ہوئے تذکرے میں جانتے ہیں یا کسی کی تحریر کے حوالے سے ہی اس کو تھوڑا بہت جانتے ہیں لیکن ذاتی جان پہچان نہیں ہے خاص طور پر اگر وہ ایک خاتون ہے تو اور بھی ذیادہ احتیاط لاذم ہے تبصرے میں ، لیکن ہم لوگ اسی کی ذات پر کوئی بھی فیصلہ کن تبصرہ بڑے آرام سے فرما دیتے ہیں۔ یہ جانے بغیر کہ ہم بہتان تراشی جیسا گناہ کبیرہ انجام دے چکے ہیں ۔ اب اسی بات کو ایک اور انداز میں دیکھیئے۔ کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نےایک موقع پرایک صحابی رضی اللہ تعالی عنہ سے کسی بات پر گواہی کے سوال پر پوچھا کہ کیا تم اس شخص کے رشتہ دار ہو؟ اس نے کہا نہیں ، کیا تم اس کے پڑوسی ہو ؟ کہا نہیں ، پھر پوچھا کیا اس کا اور تمہارا کبھی کوئی لین دین ہوا ہے؟ کہا گیا نہیں ، پھر پوچھا کیا اس نے کبھی تم سے کوئی وعدہ کیا ہے؟ کہا گیا نہیں ۔ پھر آپ نے فرمایا، کہ تمہاری اس شخص کے بارے میں گواہی قابل قبول نہیں ہے ۔ کیوں کہ جب تمہارا اس شخص سے ان معاملات  کوئی تعلق ہی نہیں رہا، تو تم کیسے کہہ سکتے ہو، کہ وہ کیسا آدمی ہے ؟ ،، اس بات سے اندازہ لگائیں کہ ایسے آدمی کی گواہی ہی اللہ اور نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دربار میں  نہیں مانی جاتی تو گویا اس نے ایسے شخص کے بارے میں جو کہا وہ کمزور علمی پر یا اندازے پر مشتمل ہے۔ تو اس کی بات بھی بہتان تراشی ہی میں شمار کی جائے گی ، کیوں کہ اس میں عملی پہچان کا کوئی کردار ہے ہی نہیں ۔ اس بات پر غور کریں تو ہم ہر روز کسی نہ کسی صورت اس گناہ کبیرہ کے مرتکب ہوتے ہیں ۔ جہاں ہمہمیں کسی بھی ملنے والے کی چار لوگوں میں عزت نظر آتی ہے جھٹ سے ہمیں حسد کا کیڑا کاٹتا ہے اور ہم اس پر طرح طرح کے بہتان لگا کر اسے ان لوگوں میں ذلیل کرنے کی مہم پر روانہ ہو جاتے ہیں ۔  سب سے خاص بات یہ کہ یہ سب کرنے والے کوئی بلکل انجان بھی نہیں ہوتے ۔ بلکہ اکثر آپ کی دوستی کا دم بھرنے والے ہی ہوتے ہیں ۔ مثلا پاکستان  کے بارے میں ہم بیرون ملک مقیم لوگ کوئی بات کریں تو فورا ہمیں کہا جایئگا کہ جی لیجیئے پیرس کے محلوں میں رہنے والے ہماری جھونپڑیوں کی فکر کرتے ہیں ۔( جبکہ  پاکستان پر  مصیبت آئی ہو تو بڑھ چڑھکر ہماری غیرتوں کو للکارا جا رہا ہوتا ہے ۔ حبُ الوطنی کا جوش دلایا جاتا ہے ۔)اب انہیں یہ کون بتائے کہ ہم اپنا لہو نچوڑ نچوڑ کر پاکستان کے دیئے میں روشنی رکھنے کے لیئے نوٹوں کی صورت تیل اپنا تیل نکال کر بھیجیتے ہیں۔ان نوٹوں کے بنا تو روٹی بھی نہیں آتی ، دوا بھی نہیں آتی ، اور تو اور اب تو انہی نوٹوں کے بنا کوئی سلام کا جواب بھی نہیں دیتا ۔ اور کتنے لوگوں نے پاکستانیوں کے محل دیکھے ہیں ۔ پاکستان کے دو کمروں میں بیٹھے بھی آپ کو نوکرانیوں کی موج حاصل ہے جبکہ یورپ یا امریکہ میں آپ جان مار مار کر گھر لے بھی لیں تو بھی نوکر  رکھنے کا صرف خواب ہی دیکھ سکتا ہے ۔ کیا یہ باتیں بھی بنا کسی ثبوت کے بہتان کے زمرے میں نہیں آتی ہیں ۔ ہو سکتا ہے وقتی طور پر بہتان لگانے والا اپنے کسی مذموم مقصد میں کامیاب بھی ہو جائے۔ لیکن  کیا واپسی کا جو سفر اللہ کی جانب موت کی صورت مقرر ہے ۔ اس جگہ کی سزا کا بھی کوئی تصور اس نے کیا ہے کہ نہیں ؟ ہمیں چاہیئے کہ ان باتوں کو بھی اپنے دھیان میں رکھا کریں کیوں کہ کئی بار ہم بہت ہی چھوٹا سمجھ کربہت بڑا گناہ کرجاتےہیں۔۔ لہذا ضرورت اس بات کی ہے کہ جس شخص کو جتنا ان معاملات میں جانتے ہیں ان کے بارے میں صرف اور صرف اتنی ہی رائے دی جائے کیوں کہ شرک اور بہتان تراشی بشکل گناہ کبیرہ کی جو سزا دنیا اور آخرت میں مقرر ہے اس کا احساس ہی ہمیں ہو جائے تو ہم نہ سو سکیں، نہ کھا سکیں، نہ ہی خوف خدا سے سر کو سجدے سے اٹھا سکیں،  کیوں کہ یہ خوف ہی مار ڈالنے کے لیئے کافی ہے ۔  اللہ پاک ہم سب کو صراط مستقیم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔  آمین 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

شکریہ شرمین عبید چنائے ۔





 شکریہ شرمین عُبیدچناۓ

(تحریر:ممّتازملک۫۫۫ ۔ پیرس)




بہت دنوں کی اداسی کے بعد آج پاکستانیوں کو ایک اور بیٹی نے خوشی کا بہت بڑا تحفہ دیا ہے ۔جی ہاں جس قوم کے بیٹوں نے اپنی قوم کی بیٹیوں کو دکھ دینے کا ٹھیکہ لے رکھا ہے۔ وہاں پر ایک کے بعد ایک بیٹی خدادادصلاحیتوں کو اظہار کا جامہ پہناتے ہوۓ اپنی قو م کا سر فخر سے اونچا کرنے میں مصروف ہے کل جو خوشی ارفع کریم رندھاوا نے اپنی مختصر سی زندگی میں اس قوم کو دی وہ ہمیشہ اپنی مثال اپ رہے گی؛ تو کہیں ملالہ یوسف نے اپنی قومی محبتوں کا ثبوت دیا؛ آج ہم خوشی سے بھیگی ہوئ آنکھوں کے ساتھ ایک اور بیٹی کو سلام کرتے ہیں ۔شکریہ شرمین عبیدچناۓ آپ نے ایک بار پھر آزمائشوں میں مبتلا قوم کو بتا دیا ہے کہ اتنے ترقی یافتہ دور میں بھی جب پاکستانی مرد محض بیٹا پیداا کرنے کے لیۓ ساری زندگی اپنی بیوی کو بچے پیدا کرنے کی مشین بنا کر رکھ دیتا ہے۔ چاہے اسی چکّر میں ااسے ایک کے بعد ایک بیوی کا جنازہ ہی کیوں نہ اٹھانا پڑ جاۓ۔ وہ بیٹی کو اچھی تعلیم دینے کو تیار نہیں ہے ۔کہ اس بیٹی کی تعلیم سے اسے کیا فائدہ۔ایسے میں بھی نہ جانے قدرت پاکستانی مرد کو باربار یہ احساس دلانے میں مصروف ہےکہ جاگو میں نے جو بیٹیاں رحمت کہہ کر تمہاری جھولیوں میں ڈالی ہیں ۔ان کی قدر کرو ۔ان کی اچھی تعلیم وتربیت کرو۔ انہیں اعتماد کی دولت دو۔ تو دیکھو وہ کیسے تمہیں ارفع ؛ملالہ اور شرمیں عبید بن کر دکھاتی ہیں ۔ شرمین عبید جو کام ہمارے مخالفوں نے کروڑوں خرچ کر کے اور بیک ڈور پالیسیز کے ساتھ کیا وہ آپ نے محض اس کے پاسنگ میں ہی خرچ کر کے دکھا دیا اور ایسے معاشرے میں جہاں پر عورت کو ایسی باتوں میں بھی اپنی مرضی کی راۓ دینےکا حق نہیں دیا جاتا جو خدا نے بطور خاص اس کو عطاکیۓ ہیں ۔جہاں پر یا تو اسلام کے نام پر عورت کوتمبو نما برقع پہنا دیا جاتا ہے یا پھر اسے اپنی خواہشات کی تکمیل کے لیۓ بازار کی جنس بنا کے اس کی سودا بازی کی جاتی ہے ۔جہاں پر کوئ لڑکی کسی سے شادی سے انکار کر دے تو کہیں باپ اور بھائ کے ہاتھوں قتل کر دی جاتی ہے تو کہیں جس شخص کو انکار کر دیا جاۓ تو وہ بدمعاش بن کر اس لڑکی کی زندگی کا ٹھیکہ دار بن جاتا ہے۔ تیزاب تو ٹافیوں کی طرح دکانوں پر مردوں کو مہیا کیا جاتا ہے کہ لو اور جاؤ جو حسن خدا نے عطا کیا ہے؛ اس پر تیزاب کی ایک بوتل الٹ کر اپنے آپ کو اپنی مردانگی کو سکون پہنچاؤ۔ کیوں کہ عورت کو پاکستانی معاشرے میں ہاں ہاں کرنے کا حکم ہے نہ نہ کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ بھائ عشق لڑاتا ہے۔ تو اپنی بہن کواپنی محبوبہ کو رقعے بھیجنے کے لیۓ دلال بنا کر استعمال کرتا ہے۔ خود تو دوسرے کی بہن بیٹی بھگا کر لیجاتا ہے۔ اور خود کو ہیرو سمجھتا ہے۔ جبکہ بدلے میں یہ تک سوچنے کی زحمت نہیں کرتا کہ اس کی اپنی بہن ؛ بیٹی اور ماں اس بھگائ ہوۓ عورت کے گھر کے مردوں کے لیۓ چارہ بنا کر پیش کی جائیں گی ۔اپنا کوئ دوست اگر اس کی بہن کا رشتہ بھی بھجوا دےتو بھائ کی غیرت کو ابال آ جاتا ہے اور بھائ بہن کے ٹکڑے کرنے کو کھڑا ہو جاتا ہے۔ باپ کو کسی کے کتے پسند آجاتے ہیں تو انہیں خریدنے کے لیۓ ہاتھ میں رقم نہیں تو بدلے میں گود کی معصوم بچیاں پیش کر دیتا ہے۔کسی کی بیٹی پر نیت خراب ہوئ تو اسے حاصل کرنے کے لیۓ اس لڑکی کےسترسال کے باپ کو بھی اپنی چار سال کی معصوم بچی نکاح میں تحفے میں پیش کر دیتا ہے۔جہا ں آج تک حکمران اپنے ملک کی عورت اور معصوم بچوں کو کوئ بھی تحفظ فراہم کرتے نظر نہیں آتے۔ باتیں باتیں اور بس باتیں کر کے پانچ پانچ سال عوام کا ہی خون نچوڑنے کے بعد پھر ڈگڈگی ہاتھ میں لیۓ قوم کو اپنے ہی کسی بندر کا تماشا دکھا کر اگلے پانچ سال کے لیۓ الو کا پٹھّا بنانے کی مہم پر روانہ ہو جاتے ہیں ۔آج تک پاکستان میں معصوم بچیوں کے کسی ریپسٹ کو کسی چوراہے پر ٹانگا گیا ہے کیا ؟کیا کسے تیزاب پھنکنے والے نام نہاد مرد کو پھانسی پر لٹکایا گیا ہے؟ کیا کسے بھائ کو بھی بہن کے ہاتھوں غیرت کے نام پر قتل کرنے کی ضرورت تو نہیں پڑ گئ ؟کیا تیزاب کی خریداری اب عورتوں کو بھی کرنی پڑے گی ؟خدا کرے کہ وہ وقت کبھی نہ آے جب عورتوں کو اپنی حفاظت کے لیۓ خود اپنی جیب میں پستول لے کر نکلنا پڑے ؟ہمیں اب بھی امید ہے کہ ہماری بیٹیاں اپنے بابا جان سے؛ اپنے گود کھلاۓ بھائیوں سے بہت پیار کرتی ہیں ۔جو ہر روز ایک نیا من موہنا روپ لیۓ ہمارے سامنے کھڑی ہوتی ہیں کہ دیکھوبابا تمہاری بیٹی اب بھی تمہارانام بلند کرنے کے لیۓ کبھی ارفع کریم بن کر تمہارے سامنے آتی ہے تو کبھی ملالہ بن کر تمہارے سر پر دستار رکھتی ہے ۔اور آج دیکھو دنیا کے ٹھیکے دارو ابھی کوئ مجھے نہیں پوچھتا تو میں تن تنہا شرمیں عبید بن کر آسکر کی خوشی تم سب کی جھولی میں ڈال رہی ہوں۔ سوچواگر اس قوم کی بیٹیوں کا ہاتھ پکڑ کر باپ، بھائ اور شوہر انہیں کسی راستے پر چلنے میں رہنمائ فراہم کریں گے تو اس روز پاکستانی قوم کی کیا شان ہو گی۔صرف ان بیٹیوں کے سر پر شفقت کا ہاتھ تو رکھ کر دیکھیۓ۔یہ بیٹیاں آپ کو کبھی شرمندہ نہیں ہونے نہیں دیں گی۔شکریہ سب پیاری بیٹیو اور آج بطورِ خاص شکریہ شرمیں عبید چناۓ کہ آپ نے ہمیں دنیا میں یہ دکھانے کا موقع دیا کہ ہمیں جب بھی موقع ملے گا اور فیصلہ ایمان داری سے ہو گا تو ہم اپنے ہر 
ہنر کو ثابت کرنے میں کوئ دیر نہیں لگائیں گے۔اِنشااللہ
۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔

علی بابا چالیس چور




علی بابا چالیس چور
ممتازملک ۔ پیرس




دیکھ لیا جناب دیکھ لیا آج اس بات کا بھی دل نے نظارہ کر لیا کہ حسین کب ، کہاں اور کیسے اکیلے کیۓ گۓ ہوں گے ۫ ، غضب خدا کا کل تک قوم کے غم میں غیظ و غضب سے منہ سے جھاگ اڑاتے ہوۓ ، ایک دوسرے کا سر پھاڑتے ہوۓ ،کرسیاں چلاتے ہوۓ ایک دوسرے کی ماں بہن ایک کرتے ہوۓ جنہیں ہم روز گھربیٹے ملاحظہ فرماتے رہے اور اپنے سگے رشتےداروں میں انہیں نام نہاد لیڈروں کے نام پر رشتے ناطے تک توڑکر بیٹھ گۓ ۔ انہیں پارٹیوں اور پارٹی لیڈروں کے عشق میں خود کو ہر لحاظ سے برباد اور بدنام اور تنہا کر لیا ان کے مگر مچھ کے آنسوؤں کو ہم نے اپنے لیۓ راہ نجات سمجھ لیا ۔ لیکن یہ کیا ہوا ایک آدمی کی جرأت نے دودن کے اندر ان کی حقیقتوں کو اس بے رحمی سے بے نقاب کر دیا کہ انہیں سے محبت کرنے والے بھی تڑپ کر رہ گۓ ۔ سب نے مل کر اپنے اپنے ڈاکو راج کے تحفظ کے لیۓ ایک علی بابا یااپنے بڑے ڈاکو کےپانچ سال کی تمام گندگیوں کو اپنے اپنے دامن میں چھپا کر یہ تک یاد رکھنے کی زحمت گوارہ نہیں کی کہ یہ گند نظروں سے تو چھپا لیں گے مگر اس کی بو کو کیسے اور کہاں چھپائیں گے ۔ اسے چھپانے کے چکر میں اپنے ہاتھ ہی نہیں دامن بھی گندے کر لیۓ ۔ کیا یارانہ ہے.
 میرا ایک شعر مجھے بڑی شدت سے اس موقع پر یاد آریا ہے کہ ۔۔
 ایکا کبھی اچھوں میں بھی اتنا نہیں دیکھا 
 جتنا یہ برے اپنے اصولوں کو نبھائیں
آج تمام خود کو فرشتہ ثابت کرنے والوں نے اپنے وسیع تر قومی مفاد میں قوم کی پیٹھ میں مشترکہ خنجر گھونپ دیا ۔ چالیس چوروں کے ٹولے نے اپنے الفاظ کے ہیر پھیر سے اس بات کا اعلان کر دیا کہ پاکستان میں سب اچھاہے ۔ دودہ اور شہد کی نہریں بہہ رہی ہیں ۔ سب کی عزت محفوظ ہے ۔ لوگ اپنے گھروں کے دروازے کھلے چھوڑ کر سوتے ہیں ۔ یہاں سب لوگ اپنی اپنی بیویوں کے سوا ہر عورت کو ماں ۔ بہن اور بیٹی سمجھتے ہیں ۔ ۔ کوئ کسی سے اونچی آواز میں بھی بات نہیں کرتا قتل کا تو کوئ خواب میں بھی نہیں سوچتا ، رزق کی اتنی ارزانی ۔ اور فراوانی ہے کہ ڈاکٹروں نے کلینک اپنے باڈرز پر پڑوسی مما لک کی خدمت کے لیۓ شفٹ کر لیۓ ہیں ۔پاکستان میں لوگ چھینک بعد میں مارتے ہیں اور طبیب پہلے ہی فری سروس لے کر موجود ہوتا ہے ۔سنار اپنے دکانیں کھلے چھوڑ کر مٹر گشتی کو نکل جاتے ہیں ۔ ارے صاحب کیا کیا بتائیں ۔ یہ تارکین وطن تو گدھے ہیں انہیں کیا پتہ ان کے سامنے تو ہم ویسے ہی مزاقا کوئ نہ کوئ رونا جھوٹ موٹ کا رونے لگتے ہیں کیوں کہ ہمارے دادی جی کہا کرتی تھیں کہ اپنی خوشی کی خبریں کسی کو نہیں دیتے ورنہ نظر لگ جاتی ہے ۔ بس اسی لیۓ اتنی زیادہ ہریالی میں کبھی کبھی شوقیہ گھاس کھانے لگتے ہیں بھوک سے نہیں بلکہ ویسے ہی منہ کا ذائقہ بدلنے کے لیۓ ۔ لہذا قوم کو بہت بہت مبارک ہو ہم سب چالیس چوروں نے قوم کے وسیع تر مفاد میں آج اپنے ایکے کا اعلان کھل کے کر دیا ہے ۔ یہ جو چنددددددددددددددددد سرپھرے اکٹھے ہو کر اسلام آباد میں آگۓ ہیں انہوں نے کبھی اسلام آباد نہیں دیکھا تھاتوبس اسلام آباد کی سیر کے شوق میں یہاں تک آپہنچے .
یہ سب اتنے مالدار ہیں کہ ان کو بڑا شوق تھا کہ دیکھیں تو ، سنا ہے دنیا میں لوگ سڑکوں پر بھی سوتے ہیں تو بس اسی تھرل کو پورا کرنے چلے آۓ ہیں لیکن فکر نہ کریں ۔ سب سڑکوں پر ان کے آنے سے پہلے کارپٹ بچھا دیۓ گۓ ہیں اور ان کے نیچے ہیٹنگ سسٹم بھی لگا گیا گیا ہے ۔آپ لوگ آرام سے گھر جائیں اور چادر اوڑھ کر سو جائیں ۔ علی باباچالیس چوروں کے راج میں
سسسسسسسسسسسب اچھا ہے .

                                                                                         ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

گھروں کو گھر رہنے دیں

گھروں کو گھر رہنے دیں
                         (تحریر/ممتازملک۔پیرس)

  جانے کیا بات ہے ہم ایشیئن لوگ اپنے گھروں کو بڑے ہی فوجی انداز میں منظم کرنے کے چکر میں نہ صرف اپنے گھروں کا سکون غارت کرنے کا باعث بن جاتے ہیں بلکہ اپنی دانست میں ہم جن گھر والوں کو حفاظت یا پروٹیکشن مہیا کر رہے ہوتے ہیں ان کی محبتوں کے بجاۓ انہیں کی نفرتوں کا بھی شکار ہو جاتے ہیں ۔کسی اکیڈمی یا انسیٹیوٹ کے لیۓ تو یہ بات نہایت موزوں نظر آتی ہے کہ ہم ایک خاص وقت کا تعین کر دیں کہ کتنے بجے جاگنا ہے ؟کتنے بجے اٹھنا ہے؟کب برش ہو گا؟کتنے بجے ناشتے کی میز پر موجود ہونا لازمی ہے؟ کتنے بجے کے بعد ناشتہ نہیں ملے گا ؟ آج آپ کو سوٹ ہی پہننا ہے ۔ آج کون سے جوتے پہننےلازمی ہیں؟ کھانے میں فلاں فلاں دن بس فلاں مخصوص چیز ہی پکے گی ، اتنے بج کر اتنے منٹ پر یہ کرنا ہے، اتنے بج کر اتنے منٹ پر وہ کرنا ہے ، اور اتنے بجے تک آپ کو ہر قیمت پر آنکھوں کو حکم دینا ہے کہ نندیا آجا ری آجا ۔ ۔۔۔۔
اُف خدایا !یہ بھی کوئی گھر میں اپلائی کیئے جانے والے رولز ہیں ۔ہاں کچھ قواعد و ضوابط گھروں کے لیئے بھی ہوتے ہیں ۔ ہونے بھی چاہیئں ،مگر اس حد تک کہ انسان خاص طور پر بچے اپنے گھر سے یا ماں باپ سے نہ صرف بیزار ہو جائیں بلکہ خدانخواستہ باقاعدہ باغی بھی ہوتے دیکھے گئے ہیں۔ گھروں کو دنیا کے دکھوں سے پاک ایک محبت بھرا جاۓ پناہ ہونا چاہیۓ ،نہ کہ جیل ۔ ٹائمنگز تو جیلوں میں ہوا کرتی ہیں ۔ ماں باپ اور  بہن بھائیوں والے گھر تو ایک دوسرے سے شرارتیں کرتے ،چھیڑچھاڑ کرتے ، قہقہے بکھیرتے، ایکدوسرے سے اپنی پریشانیاں اور غم بانٹتے ،ایک دوسرے کی خوشیوں میں دل سے خوش ہوتے ہوئے ہی اچھے لگتے ہیں ۔ گھر چاہے امیر کا محل ہو یا غریب کی جھونپڑی ،گھر تو گھر ہوتا ہے ۔ محبت کی دال روٹی میں جوسکون ہوتا ہے وہ نفرت اور طعنوں کے بیچ دیئے گئے مرغ مسلم میں بھی کبھی نہیں ہوسکتا ۔ اولاد کے لیئے ماں باپ کی گود کی گرمی اور سینے کی لپٹ میں وہ سکون اور حفاظت کا وہ احساس ہوتا ہے جو دنیا کا کوئی بڑے سے بڑا ڈیفنس سسٹم بھی نہیں دے سکتا ۔ ہم کہیں بھی جائیں جب لوٹ کر اپنے گھر آتے ہیں ، چاہے وہ کیسا بھی کیوں نہ ہو، ہمیشہ شکر کا کلمہ ادا کرتے ہیں کہ یا اللہ شکر ہے کہ ہم اپنے گھر خیر سے پہنچے ۔ اس لیئے کہ گھروں کی قیمت اس کے اینٹ گارے یا اس میں رکھے فرنیچر کے قیمتی ہونے سے کبھی نہیں لگائی جاسکتی بلکہ اس کی اصل قیمت کا اندازہ تو اس گھر کے سکون اور محبت سے لگایا جاتا ہے ۔ کئی لوگ گھروں میں انگریزوں کی دیکھا دیکھی ٹائمنگ اور مینجمنٹ دکھانے کے لیئے اس حد تک سختی پر اتر آتے ہیں کہ وہ بچوں پر ذہنی یا جسمانی تشدد تک کرنے سے دریغ نہیں کرتے۔ اس سے ہو سکتا ہے کہ وقتی طور پر والدین اپنی بات منوا بھی لیتے ہیں لیکن کیوں کہ اس بچے کو آپ نے اپنی زبان سے دلائل دیکر قائل کرنے کی کوشش ہی نہیں کی تو گویا اس بچے نے وقتی طور پر آپ کی مار سے بچنے کے لیئے وہ بات مان تو لی لیکن صرف اس وقت تک جب تک کہ وہ آپ کا محتاج ہے یا جب تک وہ با اختیار نہیں ہو جاتا ، جیسے ہی اسے اپنے رہنے اور ذندگی گزارنے کے لیۓ آپ کا کوئی نعم البدل ملے گا وہ پُھر سے آپ کی شاخ سے اڑ جاۓ گا ۔ اور آپ کو مڑ کر دیکھنا بھی اسے تکلیف دہ لگے گا۔ کیوں کہ آپ کی ذات سے اس کی کوئی نہ کوئی زخمی یاد ہی جڑی ہوئی تھی جسے وہ تازہ نہیں کرنا چاہے گا ۔ اس صورتحال سے بچنے کے لیئے ضروری ہے کہ بچوں کو مذہب اور اخلاق کے دائروں میں رہتے ہوۓ سانس لینے کی ، زندگی گزارنے کی ، اپنا کیریئر چننے کی آزادی دی جائے ۔ اپنے سکول کالج کے دنوں کی جائز تقریبات میں حصہ لینے کی اجازت دی جاۓ ۔ کبھی ان کا دل اپنی روٹین سے ہٹ کر کچھ کرنے کو چاہ رہا ہے اور اس سے کسی کا کوئی نقصان بھی نہیں ہے تو انہیں کرنے دیا جاۓ ۔ان کے پسندیدہ کھیل کھیلنے یا دیکھنے کی آزادی دی جاۓ ۔ دیکھیۓ گا کہ آپ کے گھر میں کس قدر سکون اور خوشی شامل ہو جاۓ گی ۔ یاد رکھیئے ماں باپ اور بہن بھائی بھی ہمیشہ اکٹھے یا ایک ہی چھت کے نیچے تو نہیں رہتے لیکن یہ ساتھ گزارے ہوۓ دن اگر محبت بھرے ہوں ،خوشگوار ہوں تو زندگی کی کئی چوٹوں کو سہنے کا حوصلہ ضرور دے جاتے ہیں ۔
             ......            





● (23) عقائد کا کاروبار /کالم۔ سچ تو یہ ہے



(23) عقائد کا کاروبار 
تحریر:ممتازملک۔پیرس



آئے روز اخبارات جعلی عاملوں اور بابوں کی کارستانیوں اور شیطانیوں کی خبروں سے اٹے پڑے ہیں  ۔ یہ وہ گناہ ہیں جو لوگ اپنی رضاورغبت سے کیئے جا رہے ہیں ۔ جن کے اڈے  بنا کسی روک ٹوک کے گلی گلی کھلے ہیں ۔  مگر کسی مرکزی وزیر یا کسی بھی عالم دین یا مولانا نے ان خبروں کو نوٹس کرنا تو دور کی بات اسے کسی مذمتی بیان کے قابل بھی نہیں سمجھا ۔ ہماری قوم ہر روز لاکھوں روپے ان حرام کاموں اور ڈھکوسلوں پر خرچ کر رہی ہے  یا یہ کہنا ذیادہ مناسب ہوگا کہ اجاڑ رہی ہے ۔ جبکہ اس سے بھی سوا یہ کہ کروڑوں کی عزتیں بھی اپنی مرضی سے نیلام اور پامال کروا رہی ہے ۔ کسقدر شرمناک بات ہے کہ کوئی بھی عورت اپنی ساس بہو نند یا بھابی کی طلاق یا موت کا پروانہ لینے کے لیئے کسی بھی نام نہاد عامل کے پاس جاتی ہے اور اس گندے کام کے عوض اپنے میاں کی خون پسینے کی کمائی تو لٹاتی ہی ہے اسکی گندی خواہشوں کو بھی پورا کرتی ہے ۔ صرف اور صرف اپنے مخالف کو برباد کرنے کا خواب پورا کرنے کے لیئے  ۔ شاید ان میں خود سے ایسی کوئی خوبی نہیں ہوتی جو اسے ان رشتوں سے منوا سکے ۔ جبھی تو وہ اس حد تک گر جاتی ہیں ۔ ہمیں چاہیئے کہ ان  جادو ٹونے اور تعویذ گنڈوں کے چکروں میں پڑنے والی خواتین اور حضرات کی حوصلہ شکنی کی جائے ۔ اور انہیں شرمندہ کرنے کی نظر سے دیکھا جائے ۔ تاکہ یہ لوگ اس قبیح فعل سےباز آ سکیں ۔ نہ کہ ان کو مظلوم بنا کر پیش کیا جائے ۔ کیوں کہ ان بابوں کے ڈیرے انہیں مردوزن نے آباد کر رکھے ہیں ۔ یہ ان ٹھکانوں پر اپنے پیروں پر چل کر جاتے ہیں کوئی اغوا ہو کر نہیں جاتے کہ ان کی مظلومیت کا رونا رویا جائے ۔  ایسے مردوں کو بھی شرم دلائی جانی چاہیئے جو اولاد نہ ہونے پر بیوی کو ڈاکٹر کے پاس لیجانا تو برا خیال کرتے ہیں لیکن اپنی بیوی کو کسی بدکردار اور  کریح   عامل کے پاس چھوڑ کر تنہائیاں مہیا  کرنا بہت نیک کام سمجھتے ہیں ۔ یہ ساری باتیں ہماری اخلاقی دیوالیہ پن کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔  جس بھی گلی محلے میں چلے جائیں کوئی نہ کوئی بابا اپنی خدمات لیئے موجود ہے جہاں باقاعدہ ٹوکن تقسیم کیئے جاتے ہیں ۔ گھنٹوں لائنوں میں لگ کر باری کا انتظار کیا جاتا ہے ۔ فجر کی نمازپڑھنے کے لیئے  چاہے آنکھ نہ کھلے لیکن ایسے بابوں کے پاس جانے کے لیئے فجر کے وقت گھروں سے روانگی ضرور ہو جاتی ہے ۔ یہ سارے  ناجائز دھندے حکومتی کارندوں کی ناک کے نیچے جاری ہیں ۔ جسکا ایک ثبوت ان سب عاملین کے اخبارات میں آنے والے روز کے اشتہارات ہیں جہاں ہر روز سالوں کے کام منٹوں میں ، محبوب آپ کے قدموں میں ، دشمن کی تباہی ، لاٹری لگوائیں جیسے اعلانات سے بھرے پڑے ہیں ۔ کیا ہمارے ارباب اختیارات یہ سب اخبارات نہیں پڑھتے اگر پڑھتے ہیں تو ان پر کوئی ایکشن کیوں نہیں لیا جاتا ۔ کیا ہر کام اسی وقت نوٹس میں لایا جائیگا جب لوگ جلاؤ گھیراؤ کرتے ہوئے سڑکوں پر اتر آئیں گے ۔ یا پھر یہ سمجھا جائے کہ ان تمام کالے دھندوں میں ان لوگوں کو بھی خاموشی کی قیمت ادا کی جاتی ہے ۔ آخر کیا ہے جس کی پردہ داری ہے ۔  مذہب کا نام لیکر یہ لوگ مذہب ہی کو بدنام کر رہے ہیں  ۔ پیروں فقیروں کے چکر میں آنے والے یہ کیوں نہیں سوچتے کہ ان کے اصل پیر تو ان کے اپنے گھروں میں موجود ہیں جنہیں ان لوگوں نے کبھی عزت کرنا تو دور محبت سے بات کرنے کے قابل بھی نیہں سمجھا ۔ ہمارے اپنے ماں باپ سے بڑا دنیا میں کوئی پیر نہیں ہے۔ کبھی ان سے مسکرا کر بات تو کر کے دیکھیں ۔  کبھی ان کے ہاتھ پاؤں داب کر دیکھیں ۔ ان کے لیئے کوئی جوڑا بنا کر پہنائیں ۔ ان کی دوا دارو کا خیال رکھیں  ۔ یقین کریں ۔ دنیا میں ماں باپ کی خدمت کرنے والے کو کسی پیر فقیر کی کوئی ضرورت نہیں ہوتی اس کے کام خدائے پاک کی مہربانی سے خود بخود ہوتے چلے جاتے ہیں ۔  ماں باپ کی عینک بنوانے کے لیئے یا دوا کے لیئے جن کی جیب سے ٹکا نہیں نکلتا وہ کس طرح ہزاروں روپے ان ناپاک بابوں کے آستانوں پر لٹا آتے ہیں ۔  شاید یہ بھی خدا کی جانب سے ہی کوئی سزا ہوتی ہے کہ جو لوگ اپنے والدین کو کونے میں ڈال دیتے ہیں انہیں ایسے ہی ناپاک رہنما مل جاتے ہیں جو ان کی زندگیوں کو بھی کچرے کا ڈبہ ہی بنا دیتے ہیں ۔ فیصلہ آپ پر ہے کہ آپ کو ماں باپ کی خدمت کر کے موسی کے پڑوسی جیسا مرتبہ لینا ہے یا پھر  ماں پاب کا نافرمان بن کر ساری زندگی ان بدعمل لوگوں کے ہاتھوں برباد ہونا ہے ۔
●●●
تحریر: ممتازملک.پیرس 
مجموعہ مضامین: سچ تو یہ ہے
اشاعت: 2016ء 
●●●


شاعری / /مدت ہوئ عورت ہوۓ/ ممتاز قلم / سچ تو یہ ہے/ اے شہہ محترم/ سراب دنیا/ نظمیں/ پنجابی کلام/