ممتازملک ۔ پیرس

ممتازملک ۔ پیرس
تصانیف : ممتازملک

بدھ، 19 مارچ، 2014

● (19) بچوں میں تفریق/کالم۔سچ تو یہ ہے


(19) بچوں میں تفریق
تحریر: ممتازملک۔ پیرس




 ماں باپ کی مثال بچوں کے لیئے ایک سائبان کی سی ہوتی ہے۔ ایک پیڑ کی سی ہوتی ہے جو اپنی اولاد کے لیئے خود تو تمام عمر مشقت کی دھوپ میں جلتے ہیں لیکن اپنی اولاد کے لیئے پھلدار اور سایہ دار درخت ہوتے ہیں ۔ ماں باپ کی قدر وہی لوگ جانتے ہیں جنہوں نے انہیں کھو دیا ہو یا پھر ان کے ساتھ زندگی گزارنے کا جنہیں زیادہ موقع نہ ملا ہو ۔ ماں باپ اپنے بچوں کے لیئے اپنی زندگی کا ہر عیش و آرام تیاگ دیتے ہیں۔ اپنی خوشیوں کو بھینٹ چڑھا دیتے ہیں تا کہ ان کے اولاد کی خواہشات پوری ہو سکیں ۔ ان سب قربانیوں کے بعد بھی ایسی کیا وجوہات ہوتی ہیں کہ بہن بھائیوں میں اکثر وہ محبت اور رسپیکٹ (عزت) پیدا نہیں ہو پاتی جس کی ضرورت ہوتی ہے ، عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ ماں اور باپ اپنے سب سے بڑے یا چھوٹے یا کسی اکلوتے بیٹے یا بیٹی کو اپنا خاص لاڈلا بنا لیتے ہیں ۔ ہر دوسرے بچے کا حق اور محبت بھی اسی ایک مخصوص بچے کے لیئے مخصوص کر دیا جاتا ہے ، کھانا ہے تو سب سے اچھا حصہ اور سب سے پہلے اسی کو ملے گا ، کپڑا سب کے لیئے تو معمولی یا کم قیمت لیکن کسی ایک بچے لکے لیئے خاص اور مہنگے ہوں گے ، کسی کو تو سکول کے کسی پروگرام میں جانے کی اجازت ہی سرے سے نہیں ہے اور کسی کو راتوں کو بھی گھر سے باہر رہنا معاف ہے ۔ اور تو اور جیب خرچ میں بھی اکثر ہمارے گھروں میں بچوں اور لڑکوں لڑکیوں کے بیچ خاص فرق روا رکھا جاتا ہے ۔ اور تو اور نالائق لڑکے کو دھکا شاہی سے اچھے سکول اور کالج بھیجنے کی کوشش کی جائے گی چاہے وہ نہ پڑھنا چاہے یا کتنا بھی نالائق ہو، کئی کئی بار فیل ہی کیوں نہ ہوتا ہو ،  جبکہ لڑکیوں کو لائق ہونے اور سکول کالج جانے کے شوق کے باوجود، پوزیشنز لینے کے باوجود دھمکا کر گھر بٹھا لیا جاتا ہے ،کہ اس کی پڑھائی سے ہمیں کیا فائدہ ۔  اگر وہ لاڈلی ہے تو بھائیوں کا ہر حق بھی چھین کے اس کی جھولی میں ڈال دیا جائے گا ۔ جو بھی بیٹا یا بیٹی لاڈلی قرار دے دی جائے پھر اس پر سات خون معاف ہیں۔ وہ اپنی عمر کا لحاظ کیئے بنا ہر ایک پر حاکم بنا دیا جائے گا ۔ بڑے ہو جانے پر بھی اسے بہن بھائیوں کی کمائی کھانے کا حق دے دیا جاتا ہے۔ اگر بھائی کہیں باہر ہے تو اس کے سوٹ کیسز اس کی بیوی کے بجائے وہ لاڈلا یا لاڈلی کھولے گا ۔ تحفوں کی تقسیم بھی اسی کی مرضی سے ہو گی وہ کسی کو کیا دے کیا نہ دے یہ اس لاڈلی یا لاڈلے کی مرضی ہے ۔ کسی بھاوج کو بھی گھر میں رہنا ہے تو میاں یا ساس سسر کی مرضی سے نہیں بلکہ اس لاڈلے کی خوشنودی کے بعد ہی رہ سکتی ہے ورنہ گھر کا رستہ لے ۔ ماں باپ باہر رہنے والے بیٹے کا مال ایسی ہی لاڈلی یالاڈلے میں بانٹ کر اکثر اپنی قبر میں انگارے بھر لیتے ہیں ۔ کیوں کہ'' حدیث   نبی پاک ﷺ کا مفہوم ہے کہ جس نے ستر سال تک تہجد گزاری کی۔ عبادات کیں ، لیکن مرتے وقت اس نے صرف غلط وصیت کر دی تو گویا اس نے اپنی قبر میں انگارے بھر لیئے ۔ '' یہ جاننے کے باوجود ہمارے ہارے ہاں کے 70٪ والدین باہر بیٹھے ہوئے بیٹوں بیٹیوں کے مال اور جائیدادوں کو اپنے کسی لاڈلے یا لاڈلی کی جھولی میں ڈال جاتے ہیں اپنا انجام سوچے بنا اور کوئی پوچھے تو کہا جاتا ہے کہ بھئی تم تو باہر ہو تمہیں کیا کمی ہے یہ تو یہاں ہے اسے زیادہ ضرورت ہے ۔ جیسے باہر بیٹھی اولاد ان کی اولاد ہی نہیں ہے یا پھر باہر انہوں نے اس اولاد کو فیکٹریاں لگوا کر دی ہوئی ہیں جو نوٹ چھاپ رہی ہیں ۔ نہ تو خاموش رہنے والی اولاد کو کوئی عزت دی جاتی ہے نہ ہی کوئی اس کے حقوق کے لیئے آواز اٹھاتا ہے وہ چاہے کسی بھی تنگی کا شکار ہو لیکن ماں باپ کی شہہ پر دوسرے بہن بھائیوں کے مال پر پلنے والا یہ لاڈلا ان کا خون چوستا ہی رہے گا ورنہ ماں باپ کی ناجائز بددعائیں لے گا ۔ اور  خاص بات یہ کہ اسی حقوق کی پامالی میں وہ اس لاڈلی اولاد کوبھی اتنا تباہ کر چکے ہوتے ہیں کہ وہ لڑکا ہے تو دو وقت کی روٹی بھی خود کمانے کے لائق نہیں رہتا اور ساری عمر خیراتی ٹوکری بن کر گزار دیتا ہے ۔ اور بیٹی ہے تو باقی سبھی بہن بھائیوں کی زندگی کو عذاب بنائے رکھے گی ۔ ۔یاد رکھیں ماں باپ کی حقوق کی تو ہم بہت بات کرتے ہیں لیکن ان ماں باپ کو بھی یہ بات بتانے کی اشد ضرورت ہے کہ اس سے پہلے ماں باپ پر اس اولاد کے حقوق ہوتے ہیں جو ان کی مرضی سے اس دنیا میں آئی ہوتی ہے ۔ پہلے آپ اولاد کا حق ایمانداری سے ادا کریں پھر آپ دیکھیئے گا کہ اولاد کیسے آپ کے حقوق ادا کرتی ہے ۔ اور اولاد کے حقوق میں سب سے پہلا حق برابری کا ہوتا ہے بیٹا ہو یا بیٹی پہلی اولاد ہو یا آخری ماں باپ کو اس بات کا کوئی حق نہیں ہے کہ وہ ان میں حق ادا کرنے کے معاملے میں کسی قسم کا بھی کوئی فرق روا رکھیں ان کو اچھی تعلیم کا ایک جیسا موقع دینا بھی ان کا فرض ہے کیوں کہ علم حاصل کرنا ہمارے ہی دین میں ہر مرد اور عورت پر لازم کیا گیا ہے ۔ انہٰں  اپنی حیثت کے مطابق ایک ہی جیسا پہنائیں، کھلائیں اورباپ کی جائیدا میں  انہیں قانونی اور شرعی مکمل حصہ دیں ۔کسی ماں باپ کو اس بات کا کہیں بھی حق حاصل نہیں ہے کہ وہ جس بچے کا بھی چاہیں اپنی مرضی سے حق مار کر کسی کی بھی جھولی میں ڈال دیں جبکہ حصے اختیار کے ساتھ دے دینے کے بعد جس کا جو جی چاہے اسے جیسے چاہے استعمال کرے ۔ بھائیوں یا بہنوں کی کمائی ہوئی جائیداد کو باپ کی نام لگانے کی غلطی مت کریں کیوں کہ اسی بات کا فائدہ اٹھا کر بہت سے بہن بھائی لٹ چکے ہیں جو بات وہ والدین کی محبت میں کر رہے ہوتے ہیں انہیں یہ ہی نادان والدین لاڈلے یا لاڈلی کے نام کرکے  اصل اولاد کو کشکول تھما کر دنیا سے رخصت ہو جاتے ہیں ، لہذا بچوں کے حقوق میں برابری رکھیئے اور اپنے حقوق کو بھی دین کے اور قانون کے دائرے میں استعمال کیجیئے تاکہ آپ کی دنیا بھی پرسکون  ہو اور آخرت بھی بخیر ۔ یادرکھیں جو ماں باپ اپنے دینی اور قانونی دائرے میں رہتے ہوئے اپنے بچوں کے حقوق ادا کرتے ہیں انہیں کبھی بھی اپنی اولاد سے اپنے حقوق کی ادائیگی کا رونا نہیں رونا پڑتا بلکہ انہیں ان کے حقوق بنا کہے مل جاتے ہیں ۔ اولاد کا ماں باپ پر یہ حق ہے کہ انہیں ہر چیز میں برابری کا حق دیا جائے ، ایک جیسا کھلایا پلایا جائے ایک سی آذادی دی جائے، ایک سی تعلیم کا حق دیا جائے کیوں کہ ہمارا ہی دین ہے جو حکم دیتا ہے کہ ہر عورت اور مرد تعلیم حاصل کرے ۔ اپنے بچوں کو ایک سی محبت توجہ اور پیار دینا آپ پر خدا کی جانب سے فرض کیا گیا ہے ۔ اگر آپ اللہ کا حکم پورا نہیں کر رہے تو پھر اپنے حقوق کے لیئے رونا تو آپ نے اپنے مقدر میں خود ہی لکھ لیا ہے۔ آپ اپنے گھر کی باغ کے مالی ہیں اور اچھے مالی کو یہ ذیب نہیں دیتاکہ کسی پودے کو پانی دے اور کسی کو پیاسا چھوڑ دے جسے چاہے کھاد ڈالے اور جسے چاہے بنا کھاد کے برباد کر دے۔ ایسے مالی کا باغ کبھی آباد نہیں ہوتا بلکہ ایسا مالی کبھی اچھا مالی ہو ہی نہیں سکتا اور اسے کبھی اپنے باغ کا سکھ نصیب ہی نہیں ہوتا ۔ اچھے مالی بنئیے تاکہ آپ کو اس باغ کا جوبن دیکھنا نصیب ہو ۔ اچھے والدین بنیئے تاکہ آپ کو اپنی اولاد کی تابعداری نصیب ہو  ۔ 
                    ●●●
      تحریر: ممتازملک.پیرس
    مجموعہ مضامین: سچ تو یہ ہے
            اشاعت:2016ء
                  ●●●



اتوار، 9 مارچ، 2014

غریب شہر ۔ کالم


غریب شہر
تحریر:
(ممتازملک ۔پیرس)


غریب شہر تو فاقے سے مر گیا محسن
امیر شہر نے ہیرے سے خود کشی کر لی

کیا بے بسی ہے کیا ضمیر فروشی ہے کہ ایک جانب ایک پارٹی تھر کی ریت پر جنگل میں منگل منا رہی ہے اور اسی تھر کے چند میل پر بے بس عوام اپنے ایڑیاں رگڑتے ہوئے معصوم بچوں کو بھوک کے ہاتھوں اس دنیا سے جاتے ہوئے دیکھ رہے ہیں ۔ خدایا کیا قہر ہے۔ پاکستان کی انتظامیہ بے حیائی کی اور کون کون سی منازل سر کریں گی ۔ شرمیلا فاروقی صاحبہ آپ ماں نہیں ہیں لیکن ایک عورت تو ہیں ۔ ایک عورت اس قدر سخت دل کیسے ہو سکتی ہے ؟ آپ نے تو اپنی پارٹی کے عشق میں خدا کو بھی فراموش کر دیا۔ کہیں آپ بے خود ہو کر بلاول ہاوس کو اپن قبلہ قرار دیتی ہیں تو کہیں اسی پارٹی کے کالے کرتوتوں پر پردہ ڈالنے کے لیئے کیسے کیسے کالے جھوٹ بولتی ہیں اور خوب دھڑلے سے بولتی ہیں ۔ کیا ہی اچھا ہوتا آپ اور آپ جیسے تمام چرب زبان لیڈرز اپنی زبان کو اس ملک سے بے ایمانی ،چور بازاری اور کرپشن کے خاتمے کے لیئے استعمال کرتے ۔ مگر افسوس ہمارے بہن بھائی پارٹیز کے عشق میں خدا کو بھی فراموش کر بیٹھے ہیں ۔ خدا کے لیئے پارٹی کی زبان بولیں لیکن اس جگہ رک جاؤ جہاں آپ کے ضمیر کی آواز شروع ہوتی ہے ۔  آپ سب کو یہ کیوں یاد نہیں رہتا کہ جہاں دوسرے کی تکلیف یا حق شروع ہوتا ہے وہاں ہمارے حق کی  حد ختم ہو جاتی ہے ۔ آپ لوگوں کو اللہ تعالی نے عوام نامی بھیڑوں کا گلہ بان مقرر کیا ہے اس کے ایک ایک بال کی آپ سے باز پرس کی جانی ہے ۔ اور یہ کوئی آسان حساب نہیں ہے۔ خدا سے اس کی امان مانگیں اور اپنے راستے کو سیدھا راستہ بنائیں ۔ ایک بار ایک واقعہ پڑھا تھا کہ کراچی میں ہی پاکستان بننے سے کچھ عرصہ پہلے ایک نواب صاحب رہا کرتے تھے کیا ٹھاٹھ باٹ تھے ۔ نواب صاحب کا معمول تھا ہر روز صبح کی سیر کو نکلا کرتے تھے ان کے جانے کے بعد ایک نوجوان ملازمہ ان کی خواب گاہ کی صفائی کی غرض سے داخل ہوئی تو بستر کی نرماہٹ دیکھتے ہوئے اس کا بھی جی چاہا کہ اس پر بیٹھ کر اچھل کود کر کے دیکھا جائے۔ اسی موج میں اسے بستر کی نرماہٹ میں نید آ گئی۔ اس کی آنکھ تب کھلی جب نواب صاب کا ہنٹر اس کی پیٹھ پر پڑا ۔ وہ تڑپ کر اٹھی اور نواب صاحب سے معافی مانگی ۔ لیکن نواب صاحب خوب غیض و غضب میں تھے انہوں  نے اسکو خوب ہنٹر لگائے کہ تیری یہ جراءت کہ تو میرے بستر پر یوں سوئے ۔ پہلے تو وہ لڑکی کچھ دیر مار کھا کر روئی پھر ایک دم سے ہنسنے لگی اور ہر ہنٹر پر ہنستے ہنستےلوٹ پوٹ ہونے لگی ۔ نواب صاحب کا ہاتھ رک گیا، پوچھا کہ لڑکی پاگل ہو کیا ؟ مار کھا کر بھی ہنستی ہو ، کیا تمہیں درد نہی ہوتی؟تو اس لڑکی نے جواب دیا  نواب صاحب مجھے درد تو ہوئی لیکن جب میں نے یہ سوچا کہ اس بستر  پر چند لمحوں کی نیند اور آرام کی سزا جو آپ نے دی یہ ہے تو سوچیں جس نے اس بستر پر عمر گزاری اس کی سزا اس بڑے مالک اس خدائے ربّی کی ہاں کتنی شدید ہو گی ۔ بس یہ سننا تھا کہ نواب صاحب کی حالت غیر ہو گئی ۔ انہوں نے اپنے بال نوچے، گریبان چاک کیا ،ایک چیخ ماری اور اس گھر سے کہیں دور بھاگ کھڑے ہوئے ، بعد میں سنا گیا انہوں نے کہیں کسی ویرانے میں زندگی خدا کی یاد میں گزار دی ۔ کیوں کیا اس نواب صاحب نے ایسا ؟ اس لیئے کہ اسے زندگی کی حقیقت کی سمجھ آ گئ ۔ لیکن آپ کو کس زبان میں یہ بات سمجھائی جائے ۔  آج پارٹی بازوں سے پارٹی ورکرز  سے نہایت احترام سے پوچھتے ہیں کہ آپ کا خدا کون ہے ؟آپ کا لیڈر؟ آپ کا رتبہ ، آپ کی جاگیر آپ کا جھوٹ ۔ خدا کے لیئے اب تو حق کے راستے پر لوٹ آئیں آپ سب بہت قیمتی لوگ ہیں۔ لیکن اپنا راستہ بھول بیٹے ہیں۔ آٰیئے صراط مستقیم آپ کی منتظر ہے ۔ 
               ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

منگل، 4 مارچ، 2014

فیصلہ آپ پر ہے۔ کالم ۔ سچ تو یہ ہے




فیصلہ آپ پر ہے
ممتازملک۔ پیرس


 انسان کی تخلیق کی کہانی پڑھیں یا دنیا کی تاریخ پہ نظر ڈالیں  ہر جگہ یہ بات واضح نظر آتی ہے کہ ہمم ہمیشہ ہی ایک میل ڈومینیٹنگ سوسائٹی کا حصہ رہیں ہیں ، یہ دنیا یورپ کی مادر پدر آزاد سوسائٹی ہو یا انڈو پاک اور ایشینز کی مختلف رنگوں میں بٹی ہوئی معاشرت ۔ زمین پر انسانی تخلیق نے لاکھوں کروڑوں سال کا سفر مکمل کر لیا لیکن ہم آج بھی اسی بات میں الجھے ہوئے ہیں کہ یہ عورت ہے یہ مرد ہے ، جسم کی قید سے ہم اپنی سوچوں کو کبھی آذاد ہی نہیں کروا سکے ۔ ہم نے اپنی ذمہ داریوں کو عورت اور مرد کی گردان سے باہر کبھی نکلنے ہی نہیں دیا ۔  یورپ کو یہ بات سمجھ میں آئی تو اس نے دہائیوں پہلے اس کا علاج اپنے معاشرے کو سیکس فری کر کے نکالا ۔ تاکہ مرد و عورت  جو دن کےکئی گھنٹے اس سوچ وبچار میں گنوا دیتا ہے کہ میں نے یہ جسم کیسے حاصل کرنا ہے اس کے لیئے جسم اتنا ارذاں کر دو کہ وہ اسے حاصل کرنے کی فکر سے ہی آزاد ہو جائے ۔ اب یہ ایک اور بحث ہے کہ اس کے مالی فوائد و ترقی تو ہو گئی لیکن انہیں اس کی معاشرتی کیا کیا قیمت ادا کرنی پڑی ۔۔ ۔۔۔۔۔ جبکہ ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم  نے خواتین کو دو گروہوں میں بانٹ دیا ہے ایک وہ جو گھر میں بیٹھی ہوئی خاتون خانہ سے تو یہ توقع کرتے ہیں کہ وہ، خوب پڑھی لکھی ہو ، سر پہ دوپٹہ رکھنے والی ایک مکمل نوکرانہ مزاج رکھتی ہو جسے یہ بات بلکل یاد نہیں ہونی چاہیئے کہ اس کی کھوپڑی کے اندر بھی ایک دماغ یا اس کے سینے میں بھی ایک دل ہے جو اچھی بری باتوں پر کوئی عزت یا بے عزتی محسوس کرتا ہےجو اپنی بھی کوئی رائے رکھتا ہے یو اس کا اپنا بھی کوئی نقطء نظر ہو سکتا ہے ۔اس کی پسند کو کسی بھی صورت اپنے مرد کی سوچ سے مختلف ہونے کا کوئی حق نہیں ہے۔  وہ ہر خوبی رکھتی ہو لیکن ہمارے آگے چوں بھی نہ کرے ، ان کے گھر کی ہر ذمہ داری کو ہماری  مرضی سے ادا کرنے والی ہوں یہ ہے ہماری ایک گھر میں رکھی عورت کے لیئے ٹیپیکل سوچ  ۔ جبکہ دوسری جانب ہم نے وہ الٹرا موڈ خواتین رکھ دیں  جو کسی بھی عمر سے تعلق رکھتی ہوں کوئی بھی ہنر ان میں ہو یا نہ ہو ہاں یہ خوبی ان میں ضرور ہونی  دوپٹے اور حجاب کی قید سے آذاد ہوں ۔ نئے نئے بے حیائی کے حربےفیشن کے نام سے آزماتی ہوں ۔ ان کے بدن کا اتار چڑھاؤ ان پر نمایاں کرتی ہوئی بےحیا لباسی سے کرتی ہوں ۔ جنہیں دیکھ کر ہمارے سستی سوچ کے حامل مردوں کو اپنی آآنکھیں سینکنے کا موقع ملتا رہے ۔  ہم ان پر اپنی کمائی لٹانا بھی پسند کریں ان کے جلوؤں کے لیئے انہیں عہدے بھی یہ سوچ کر پیش کرتے رہیں کہ وہ اس کے لائق بھی ہیں کہ نہیں ۔ ایسی خواتین کو گھر بار والا بھی نہیں ہونا چاہیئے ورنہ کہیں ہمیں اس کے عوض اپنے ہی دانتوں کی قربانی نہ دینی پڑ جائے ۔ لہذا انہیں محبوبہ کٹیگری میں ڈالا جاتا ہے ۔ یہ بھول کر کہ کل ہم اپنی اولادوں کے لیئے آنے والی تاریخ کے لیئے کیا کالک اپنے منہ پر پوت رہے ہیں ۔ وہی بات کہ کل کس نے دیکھا ہے ؟   اب اس سارے گھپلے میں یہ بات ان کے دماغ سے نکل جاتی ہے کہ باہر کی دنیا میں خواتین کا ایک تیسرا طبقہ بھی ہے جو پوری جانفشانی کیساتھ سرگرم عمل ہے ۔ اور پوری ایمانداری کیساتھ اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں اور خاص طور پر صحافت کے میدان میں مضبوطی کیساتھ موجود ہے جو نہ صرف اپنے گھروں کو عزت سے چلا رہی ہیں بلکہ کمیونٹی میں بھی باعزت مقام رکھتی ہیں ۔  جن کے کام سے نہ تو یہ بھائی صاحبان انکار کر سکتے ہیں نہ ہی انہیں نظر انداز ۔ انہیں باجی باجی بھی کہتے ہیں ۔ لیکن اس سے آگے آتے ہی ان کے تمام خوبیوں کو ٹھٹھے میں اڑا دیتے ہیں اور اپنی مردانگی کو شاید تسکین پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں  ۔ اور کیوں کہ یہ خواتین ناجائز رویوں کو برداشت نہیں کرتیں نہ ہی مردانہ ڈیمانڈذ کو اہمیت دیتی ہیں لہذا ان کی ساری کارکردگی کو بڑی بے شرمی کیساتھ بے وقعت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ جس پر صرف ان عقل کے اندھوں سے ہمدردی ہی کی جا سکتی ہے پاکستانیوں نے پاکستان میں تو عورت پسندی میں اپنا لوہا منوایا ہی ہے جس کا انجام ساری دنیا دیکھ رہی ہے لیکن کم از کم پاکستان سے باہر تو ایسی بے حیا مقابلہ بازی سے احتراز کریں ۔ آج جو لوگ کسی بھی ذمہ  داری پر ہیں انہیں یہ بات یاد رکھنی چاہیئے کہ کل انہیں وقت کو اپنے ان تمام اختیارات کا جواب دینا ہو گا اور آپ کی اولادوں کو بھی آپ پر فخر کرنے یا افسوس کرنے کا موقع آپ کے آج کے یہ کام دیں گے اب یہ آپ پر منحصر ہے کہ آپ انہیں پاکستان میں رہنے والوں کی طرح وراثتی بے شرمی ، بددعائیں اور گالیاں دینا چاہتے ہیں یا عزت ووقار اور فخر کا احساس ۔ کیوں کہ وقت جیسا بھی ہو اس کی اچھی بات بھی یہ ہے اور بری بات بھی یہ ہی ہے کہ یہ گزر جاتا ہے ۔ اب اسے کیسے گزارنا ہے  چند لمحوں یا سالوں کی عیاشی میں یا ہمیشہ کی بعد از مرگ کی بھی عزت اور احترم کیساتھ ۔ آنکھیں کھولیئے اور اپنے ظرف کو وسیع کیجیئے ۔ کیوں کہ آنکھیں بند کر لینے سے حقیقت نہیں بدلا کرتی ۔ لیکن ایک وقت آتا ہے کہ  آپ خود اپنی ہی نظروں میں گر جاتے ہیں ۔ تو اپنی خودی کو بھی بلند کیجیئے اور اپنی ذمہ داریوں سے بھی انصاف کیجیئے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بدھ، 26 فروری، 2014

محبت بانٹنے نکلے ۔ سراب دنیا



محبت بانٹنے نکلے



محبت بانٹنے نکلے تھے پتھر لے کے گھر لوٹے
بہت سے دشت چھانے اور ہو کے در بدر لوٹے

تمہارے شہر میں ہم نے بڑی رسوائیاں پائیں 
مگر آخر غریباں شہر اپنے شہر لوٹے

ہماری سوچ سے دل تک بڑی لمبی مسافت ہے
چلو اب دیکھتے ہیں کہ کہاں سے یہ نظر لوٹے

جہاں میں مسندیں اب بے ہنر آباد کرتے ہیں 
جبھی تو لے کے آنکھیں نم سبھی اہل ہنر لوٹے

لیئے ہم کانچ کا دل برسر بازار بیٹھے ہیں 
تھے پتھر جنکی جھولی خوش وہی تو بازیگرلوٹے

وہ جھوٹے لوگ جومل کر ہمیں کو جھوٹ کردیں گے
انہیں کو آذما کر ہم بھی اپنی راہگزر لوٹے

قرار جاں بنانے کو بہانے اور کیا کم تھے
بھلا ممتاز لے کے کون یوں زخمی جگر لوٹے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔



پیر، 24 فروری، 2014

سنجیدہ لوگوں کی ایک یادگار محفل



سنجیدہ لوگوں کی ایک یادگار محفل
ممتازملک۔ پیرس











22 فروری 2014 کی ایک یادگار شام مہاراجہ ریسٹورنٹ کے خوبصورت ہال میں پیرس کی معروف شاعرہ محترمہ ممتازملک صاحبہ کے دوسرے شعری مجموعے  بنام میرے دل کا قلندر بولے کی تقریب رونمائی منعقد ہوئی ۔ پروگرام کی نظامت مدر آف پی ٹی آئی ، بانی انصاف ایسوسی ایشن ، معروف کالمسٹ ، رائٹر، تجزیہ نگار محترمہ شاہ بانو میر صاحبہ نے کی ۔ پروگرام ک آغاز معروف ابھرتے ہوئے نوجوان نعت خوان بلال بٹ کی نہایت خوش الحانی سے کی گئی  تلاوت کلام پاک سے ہوا ۔  جسکے بعد بچیوں کےایک گروپ جس میں ثمینہ خواجہ ، صومیہ خواجہ ، ریشمین اختر اور تحریم اخترشامل تھیں  نے دف پہ  ممتازملک صاحبہ کی اسی کتاب میں لکھی ہوئی حمد باری تعالی پیش کی ۔ جسے تمام محفل نے بہت پسند کیا اور ساری محفل سے انہیں خوب داد ملی ۔  جس کے بعد اسی کتاب کی نعت رسول پاک  ٌٌحضور آگئے ہیں  ٌٌ کو  ممتازملک نے نہایت خوبصورتی کیساتھ پیش کر کے داد سمیٹی ۔ پروگرام کے دوران کئی شرکاء اور مہمانان خصوصی نے کتاب سے چیدہ چیدہ کلام پڑھ کر سنایا اور داد حاصل کی ۔ جبکہ خوش گلو نوجوان بلال بٹ نے نہایت پرسوز آواز میں بہترین لے میں  ممتازملک کی اگلی آنے والی کتاب کا کلام ٌٌ بابا تیری باہیںٌٌ گا کر پیش کیا ۔ اور ہر آنکھ کو نم کیا ۔   
پروگرام میں سب سے بڑا خوش گوار لمحہ اور سالگرہ کا تحفہ معروف اسلامی سکالر جناب حافظ نذیراحمدخان صاحب کی ادارہ منہاج القران کے سابقہ صدور جناب عبد الجبار بٹ صاحب ، جناب حاجی حمیداللہ صاحب اور دی جائزہ ڈاٹ کام  ، جذبہ ڈاٹ کام ، اور دیگر کئی اخباراتی  سائیڈذ کے چیف ایڈیٹر جناب اعظم چودھدری صاحب کی  آمد تھی ۔ جس نے اس دن کواور بھی یادگار بنا دیا اور اس دن کی ہر خوشی کو دوبالا کر دیا ۔  ممتاز ملک کے کمسن بیٹے محمد مفسراختر  اور ان کے دوست محمد منان نے  حافظ نذیر احمد خان صاحبکو پھولوں کے گلدستے پیش کیئے ۔  حافظ نذیراحمد خان صاحب نے ان کے سروں پر دست شفقت رکھا اور دعا دی اور  بڑے ہی خوبصورت الفاظ میں ممتاز ملک کی اس کاوش کو سراہا کہ اس کتاب کہ سرورق نے مجھے کتاب کھولنے پر مجبور کیا اور میں نے جہاں تک پڑھا مجھے روحانی خوشی محسوس ہوئی ۔  کتاب کی رونمائیحافظ نذیراحمد خان صاحب نےاپنے دست برکت سے فرمائی۔ اور ان کی دونوں تصنیفات  '' مدت ہوئی عورت ہوئے '' اور دوسرے مجموعہ کلام  ''میرے دل کا قلندر بولے '' پر اپنے دعائیہ کلمات اور دستخط عطا فرمائے اور انکی کامیابیوں اور درازءی عمر کے لیئے دعائے خیر فرمائی ۔
پروگرام
 میں ایک اور سرپرائز ممتاز ملک کی سالگرہ کے کیک کی صورت لایا گیا ۔   جس پر تمام شرکاء نے انہیں سالگرہ کے موقع پر دعاؤں اور مبارکباد سے نوازہ ۔ ممتاز ملک صاحبہ نے تمام شرکاء کا شکریہ ادا کیا ۔ جنہوں نے آج کے دن کو ان کی زندگی کا ایک یادگار دن بنا دیا  
                                       پروگرام میں صرف  محدود اور مخصوص تعداد میں  ادب سے دلچسپی رکھنے والوں کو شرکت کی دعوت دی گئی  ۔ یہ تقریب اسلامی ماحول میں منعقد کی گئی جس میں کوئی مخلوط ٹھٹھہ مذاق ، کوئی نظر باز مناظر ، غیر اخلاقی گپ شپ نہیں تھی جس کی وجہ سے اسے رنگین میڈیا باذوں کا کوئی تعاون نہیں ملا ۔ یہاں کوئی پلو گرانے اور اٹھانے والے ناشائستہ نظارے نہیں تھے لہذا ایسی کسی بھی شمع کا کوئی پروانہ بھی نہیں تھا ۔ مزے کی بات  یہ رہی کہ گھر میں بیوی کو تالے میں بٹھانے والے ہی ایسی شمعوں کے سب سے پھرتیلے پروانے ہوتے ہیں جو اسلامی ماحول کا نام سن کر ایسے غائب ہوئے جیسے گدھے کے سر سے سینگ ھھھھھھھھھ۔                                                                  
 اور تو اور مذہبی ماحول اور رنگ کا ڈھنڈوڑا پیٹنے والے بھی اور پردے کا رونا رونے والے بھی منہ چھپا کر غائب رہے ۔ جب کہ یہ مذہب کے ٹھیکیدار رات کے 3 ، 3 بجے تک محفل موسیقی کا لطف لینے کے لیئے سب سے اگلی رو میں بیٹھے ہوتے ہیں ۔ لیکن خوشی کی بات یہ تھی کہ جیسا کہ چاہا گیا کہ یہاں وہ ہی لوگ  آئیں جو ادب اور تہذیب کا مطلب جانتے ہیں  تو بے شک ایسے ہی خواتین و حضرات نے اس محفل کو رونق بخشی ۔ جن لوگوں کی دُم پر ممتاز ملک کبھی نہ کبھی سچ کا پاؤں رکھ چکی تھی ان کے یہاں آنے کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا ۔                مہمانان خصوصی میں پیپلز پارٹی کی وویمن ونگ کی صدرحق باہوٹرسٹ کی نمائندہ خاص محترمہ روحی بانو صاحبہ نےاس موقع پر اپنے خیالات کااظہار کرتے ہوئے فرمایا کہ لکھنے والوں کو معاشرتی مسائل پر کھل کر لکھنا چاہیئے ۔ اور ان مسائل کا حل بھی پیش کرنا چاہیئے کیوں کہ یہ اصل جہاد بھی ہے اورصدقئہ جاریہ بھی ۔ ہمیں ایک دوسرے کو نہ صرف آگے بڑھنے کا موقع دینا چاہیئے بلکہ ان کے کام کو بھی کھلے دل کے ساتھ قبول کرنے کا حوصلہ دکھانا  چاہیئے ۔ ایک دوسرے کی عزت کو بھی ملحوظ خاطر رکھنا چاہیئے ۔ گھروں سے صدرمحفل بننے کی گارنٹی لیکر نکلنے کی شرمناک روایت کو اب ختم ہونا چاہیئے ۔ ہمارے قول و فعل کے تضاد نے ہی ہمیں دنیا بھی ذلیل و رسوا کر دیا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ممتازملک  کی شاعری اندھیرے  میں روشنی کی مانند ہے ۔ جو راستوں کا تعین ہی نہیں کرتی بلکہ منزل کی نشاندہی بھی کرتی ہے ۔ جو زندگی کو عشق ومحبت ۔ اور ہوس گیری کے سوا بھی کچھ سمجھتی ہے ۔ جو ہمیں رشتوں کے تقدس اور احترام کے خاتمے کے لیئے بھی خبردار کرتی ہے ۔                                                
خواتین کی فرانس میں ایسوسی ایشن لے فم دو موند کی بانی و صدر محترمہ شمیم خان صاحبہ نے بھرپور انداز مین ممتاز ملک کو خراج تحسین پیش کیا ۔ اور ان کی اس دوسری تصنیف کو بھی صوفی رنگ  کا ایک خوبصورت اضافہ قرار دیا ۔ اور اس بات پر ذور دیا کہ سنجیدہ کام کو آگے لیکر چلنا وقت کی اہم ضرورت ہے ۔ جو ہمارے بعد ہماری اگلی نسلوں کو اپنی معاشرت اور تہذیب سے جوڑ کر رکھ سکے ۔ اب بھی اس کام میں دیر کی گئی تو کہیں بہت دیر ہی نہ ہو جائے ۔ اردو ہمارے ملک کی اور ہماری پہچان ہے ،عزت ہے،اس پہچان کو بچانے کے لیئے غور و فکر کرنا انتہائی ضروری ہے  جو کہ افسوس' جانتے ہوئے بھی لوگ نہیں کرتے ۔ دنیا بھر میں 104 ملئین سے زائد لوگوں میں بولی والی زبان، ہم اس زبان کے وارث کہلانے والوں میں ہی لاوارث کی جارہی ہے ۔ جو کہ لمحئہ فکریہ ہے ۔  
محترمہ روبانہ مصطفائی صاحبہ نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا کہ  کہ میں ممتازملک صاحبہ کو ویسے تو ابھی اتنا ذیادہ نہیں جانتی ۔ لیکن تھوڑے وقت میں جتنا بھی پڑھا ہے اس سے اس بات کا بخوبی اندازہ لگا سکتی ہوں کہ کہ ممتاز ملک ایک مضبوط سوچ اور نظریئے کے ساتھ قلم اٹھاتی ہیں جو نہ صرف ہمارے مذہب کا دائرہ پار کرنے والوں پر آواز اٹھاتی ہیں بلکہ معاشرتی برائیوں پر بھی صدائے احتجاج بلند کرتی ہیں ۔ مذہب اور معاشرے کے دائرے کو قائم رکھنے کے حسن کو خوبصورتی سے بیان کرتی ہیں ۔ جس کے لیئے وہ مبارکباد کی مستحق ہیں۔                                                                                    
محترمہ نگہت صاحبہ نے اپنے رائے مین ممتاز ملک سے اپنی پہلی ملاقات اور 6 سال بعد کی جان پہچان کو نہایت خوشگوار سفرقرار دیا ۔ جس میں ہم نے کئی بار اپنے وطن اور معاشرےکی تنزلی کا رونا  ہے اور ایکدوسرے کے غم میں دل کا بوجھ بھی بانٹا ۔ انہوں نے کہا کہ ان کی تحریر ممتازملک کی عملی زندگی پر بھی لاگو ہوتی ہے ۔  یہ بات وہی جان سکتے ہیں جوان کے ساتھ کچھ وقت گزار چکے ہیں ۔  بظاہر بے فکر اور بے غم نظر آنے والی ممتاز حقیقت میں اپنی تحریروں کی ہی عملی تفسیر ہیں ۔ جو اپنی معاشرتی اور مذہبی حدود کی بے حد عزت کرتی ہیں ۔ جو مردوں اور عورتوں کو ایک دوسرے کا مددگار تو سمجھتی ہیں لیکن انہیں دین کی حدود کا مذاق اڑانے کی اجازت دینے کو بلکل تیار نہیں ہے۔ اور شاید یہ ہی ان کا جرم بھی ہے ۔ مادر پدر آذادی کے متوالوں کے لیئےممتاز ملک کے الفاظ نشتر کا کام کرتے ہیں ۔ اس لیئے ان کے پڑھنے والے بھی سنجیدہ اور متین لوگ ہی ہیں ۔  
مدر آف پی ٹی آئی ، بانی انصاف ایسوسی ایشن ، معروف کالمسٹ ، رائٹر، تجزیہ نگار محترمہ شاہ بانو میر صاحبہ نے جو کہ پروگرام کی نقابت بھی فرما رہی تھیں ، نے ممتاز ملک کو ایک حقیقت پسند
 کالمسٹ اور شاعرہ قرار دیا ۔ انہوں نے کہا کہ کیونکہ ممتازملک کی شاعری میں سستے  بازاری اندازاور گھٹیا جذبات کی ہوس نگاری نہیں ہے جو ادائیں مردوں کو لُبھا کر اپنے جال میں پھانسنے کو کامیابی نہیں سمجھتی ، تو اس کو قبول کرنا بھی ہمارے منافق معاشرے میں آسان نہیں ہے ۔ عشو'ی طرازی کے بازار میں ممتاز اپنا کانچ کا دل لیئے پتھروں کی بارش میں کھڑی ہے ۔ ہر سچ لکھنے والے کی طرح جو ہاتھ مین قلم تھامے برائیاں قلم کرنے نکلتا ہے ۔ ضد باز اقرباء پروروں ،اناپرستوں نظر بازوں اور منافقوں کے سامنے ممتاز ملک کا نام ایک گلے کی ہڈی اور ایک چٹان  کی طرح ہے ۔ایک ایسی چٹان ہستی  جو ہمت اور جراءت کے ساتھ عملا خود کو دین اور معاشرت کیساتھ وابستہ رکھنا جانتی ہے ۔ جوہر تکلیف اور نقصان میں خدا کی حکمت تلاش کرتی ہے ۔ اور بہتری کی امید بھی رکھتی ہے ۔ جو کبھی اور کسی بھی حالت میں مایوس نہیں ہوتی ۔ جو خدا کے خوف سے زیادہ اسکی محبت پر یقین رکھتی ہے ۔ جو روز حساب کو بے لگام جوانیوں اور شرمناک بڑھاپے کے لیئے ایک نقارہ سمجھتی ہے ۔معاشرے میں بڑحتے ہوئے بے راہروی کے رجحان کولگام دینے کی ضرورت ہے جس کی وجہ سے کام سے کام رکھنے والی  خواتین جب ان مخصوص ذہنوں کے آگے چلنے سے انکار کر دیں تو انکی کردار کشی اور انہیں بدنام کرنے کے لیئے ان پر کیچڑ اچھال کر تہمت لگا کر انہیں انتقام کا نشانہ بنانے کی بھرپور کوشش کی جاتی ہے اور جن کو خوشن نصیبی سے اپنے معتبر دوستوں اور خاندان کا ساتھ میسر آ جائے تو انہیں پیغام بھیجا جاتا ہے کہ ''حیرت ہے وہ ابھی تک ذندہ ہیں اور لکھتی بھی ہیں '' تو ایسے تمام خدا بننے کی کوشش میں مصروف خواتین و حضرات لیئے ممتازملک ایک بہت بڑا چیلنچ بن گئ ہے کیونکہ ان کا مقابلہ کام سے کرنے کی ان میں سے کسی میں بھی  صلاحیت ہی نہیں ہے لہذا انہوں نے ممتاز ملک کو سازشوں کے ذریعے توڑنے کی گھٹیا  کوشش شروع کر دی ۔ ممتازملک نے صرف شاعری ہی کے ذریعے نہیں بلکہ اپنے کالمز کے ذریعے بھی غضب کی جراءت کا مظاہرہ کیا ہے ۔جو مردوں کے مسائل کو مرد بن کر بیان کرتی ہے تو عورت کا درد عورت بن کر سمجھتی ہے تو بوڑھوں کے غم بوڑھا بن کر محسوس کرتی ہے اور کھل کر بیان کرتی ہے ۔ ممتازملک کی تحریر کسی خاص عمر یا جنس کے لیئے مخصوص نہیں ہے اسکا لہجہ حقیقت کی دھار لیئے ہوئے ہے ۔ جو یقین کی طاقت سے پُر ہے اور باتوں میں اثر تبھی پیدا ہوتا ہے جب آدمی قول اور فعل کے تضاد سے پاک ہو ۔ کیوں کہ یہ سب وہ لوگوں کی جیبیں خالی کرانے ، بیرون ملک دورے کی ٹکٹس بٹورنے،  پاکستان کی مفت سیروں کے لیئے نہیں بلکہ صرف اور صرف اللہ کی رضا اور صدقئہ جاریہ سمجھ کر کرتی ہے ۔ آخر میں ممتاز ملک نے اپنے مہمانوں کو اس بات کا یقین دلایا کہ سچائی کی یہ مشعل جو انہوں نے ہاتھ مین اٹھائی ہے یہ تاعمر تھامے رہوں گی ۔ حضرت علی کرم اللہ وجہ کے بقول  جو ہر ایک سے متفق ہوتا ہے وہ سب سے بڑا منافق ہوتا ہے ۔ اور ایک اور جگہ حضرت علی کرم اللہ وجہ فرماتے ہیں کہ سچے کو ایک ہی غم ہوتا ہے کہ وہ تنہا رہ جاتا ہے ۔  میں تاحیات  باب العلم حضرت علی  کرم اللہ وجہ کے اقوال سے روشنی لیتی رہی ہوں اور لیتی رہوں گی ۔ میں اللہ کی شکر گزار ہوں کہ میں اس سفر میں تنہا نہیں ہوں بلکہ آپ جیسی حق پسند ہستیاں اور میرے قارئین کی محبتیں مجھے حوصلہ دیئے ہوئے ہیں میں ان تمام احباب کا بھی شکریہ ادا کرتی ہوں جنہوں نے  دنیا بھر سے اس سالگرہ اور میرے دل کا قلندر بولے کے لیئے مجھے مبارکباد کے پیغامات فیس بک سے، فون سے مسینجرز کے ذریعے بھجوائے ۔ ایسے ہی بہن بھائی اللہ کی جانب سے میرے لیئے تحفہ بھی ہیں اور طاقت بھی ۔ لہذا وہ سب جہاں بھی خوش رہیں ، سلامت رہیں ۔ آمین 


خاص طور پراپنی پیاری ساتھی اور بہن صفیہ خواجہ صاحبہ کا دل و جان سے شکریہ ادا کرتی ہوں جنہوں نے ہر قدم پر میرا ساتھ دیا ۔جزاک اللہ
 

۔ ایک بار پھر سے تمام مہمانان گرامی کا بے حد شکریہ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 

بدھ، 19 فروری، 2014

لائیو انٹرویو ۔ شاعرہ ممتاز ملک



31 جنوری2014 بروز جمعتہ المبارک
یورپ ٹائم ۔ دوپہر 3 بجے 
پاکستان ٹائم ۔ شام 7 بجے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

● ٹائٹل / میرے دل کا قلندر بولے


ٹائیٹل کتاب



معروف  شاعرہ ممتازملک
 کے
 دوسرے شعری مجموعے کا ٹائٹل 
بنام ٌٌ میرے دل کا قلندر بولےٌٌْ کی
تقریب رونمائی ۔ 22 فروری 2014 بروز ہفتہ
بمقام ۔ مہاراجہ ریسٹورنٹ اوبرولیئے
پیرس ۔ فرانس
●●●

● دعوت نامہ رونمائی/ میرے دل کا قلندر بولے


دعوت نامہ برائے 
رونمائی پروگرام 
میرے دل کا قلندر بولے 2014ء 



بسم اللہ الرحمن الرحیم


اتنا دیا سرکار نے مجھ کو جتنی میری اوقات نہیں 

یہ تو کرم ہے آپکا ورنہ مجھ میں تو ایسی بات نہیں 
خوش آمدید ،
تقریب رونمائی 
معروف شاعرہ ممتاز ملک صاحبہ کا دوسرا شعری مجموعہ
ٌ میرے دل کا قلندر بولے ٌٌ ٹائٹل ٌ
ہم نہایت خوشی کیساتھ آپ کی خدمت میں پیش کرتے ہیں 
،02،2014 22 بروز ہفتہ دوپہر 2 بجے سے 6 بجے تک
پیرس فرانس 
یہ دل ہے عبادت گاہ صنم 
اس دل کو تُو بازار نہ کر 
جو خلقت میں رُسوا کر دے
تُو مجھ سے ایسا پیار نہ کر
شکریہ
،،،،،،،،،،،،،،،،

مہاراجہ ریسٹورنٹ ۔ سانتغ کمرشیال ۔ میلیونیغ ۔ اوبیرویلیئے 
انٹری ۔ 10 یورو پر پرسن 
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،

19 rue Madeleine Vionnet (ex rue de la Gare), Aubervillers 93300

Autoroute : A1, périphérique Est puis porte d'Aubervilliers

Métro : Ligne 12, Porte de la Chapelle 
Métro : Ligne 7, Corentin Cariou

Bus : 35, 239
●●●

پہلا شعری مجموعہ

   



                     شاعرہ ممتازملک کا پہلا شعری مجموعہ
                     بنام ۔ مدٌْت ہوئی عورت ہوئے ٓٓ
                     تاریخ رونمائی ۔ 20 نومبر 2011 بروز ہفتہ
                     بمقام رائل شاہجہاں ریسٹورنٹ پیرس
                     مہمان خصوصی شاہ بانو میر صاحبہ
                       ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 

منگل، 18 فروری، 2014

● (72) آنکھیں بیچیں / شاعری ۔ سراب دنیا


             آنکھیں بیچیں 
            (کلام/ممتازملک۔پیرس)

میں نے اپنی آنکھیں بیچیں 
مجھ کو خوابوں میں رہنا تھا 

میں نے اپنے سپنے بیچے 
مجھ کو سپنا سچ کرنا تھا 

پھر میں نے سچ کو بھی بیچا
سچ سے مجھ کو کیا ملنا تھا 

سچ کو بیچا جھوٹ خریدا
جھوٹ کی منزل سرکرنا تھا

جھوٹ کی بنیادوں میں مجھ کو
سچائی کا خوں بھرنا تھا  

اب تک نہ ممتاز یہ سمجھے 
ہم کو آخر کیا کرنا تھا
●●●

جمعہ، 31 جنوری، 2014

● (18) وہ اک جواں/کالم۔سچ تو یہ ہے


(18) وہ  اک جواں
ممتاز ملک ۔ پیرس



وہ  اک جواں جسے کہتے تھے اعتزاز احسن
حیات و موت کی کیسی ہے ساز باز احسن

 روز ہی ایک جیسی خبریں پڑھتے دل جیسے اوبھ سا گیا ہے کوئی دن نہیں جاتا جب جسموں کو لاشوں میں بدلتے دیکھے بنا سورج پاکستان میں ڈھلتا ہو  ، لیکن اس دن کچھ عجیب ہوا بہت حیران کر دینے والا ، رونگٹے کھڑے کر دینے والا کچھ ہماری نظروں کو شرم سے جھکا دینے والا ۔ لیکن ہم میں تو شرم نام کی کوئی شے ہے ہی نہیں کبھی کسی شاعر نے کیا خوب کہا تھا    کہ 
  پہلے آتی تھی ہر اک بات پہ شرم 
 اب کسی بات پر نہیں آتی 

لیکن اس عالم بے شرمی  میں بھی ایک ابھرتی ہوئی جوانی لیئے معصوم سا جوان کہ جس کی مسیں بھی ابھی نہ بھیگی ہوں ہمیں ہمشہ کے لیئے اپنے ہونے کا احساس دلا گیا ۔  حسب معمول اپنی ماں کا ہاتھ بٹا کے اپنے سکول جانے والا یہ بچہ  ابھی سکول پہنچ ہی رہا تھا کہ اسے ایک دوسرا لڑکا کچھ مشکوک انداز میں سکول کی اسمبلی میں جاتا ہوا دکھائی دیا ۔ بم دھماکوں کا تو دور ہے ہی تو ہر آدمی کا پہلا شک یہ ہو تا ہے کہ کہیں یہ کوئی دہشت گرد تو نہیں ، تقریبا ایک ہزار کے قریب بچے جو اسمبلی کے لیئے سکول گراؤنڈ میں موجود تھے ان کی جان کو خطرے میں دیکھتے ہوئے اس نوجوان نے اپنی جان کی پرواہ نہ کرتے ہوئے اسے دبوچ لیا اور اسمبلی کی جانب بڑھنے سے روک دیا اسی کشمکش میں خود کش جہنمی بمبار کے ساتہ بندھا ہوا بم ایک دھماکے سے پھٹا اور بمبار کو تو واصل جہنم کر گیا لیکن جنت کے ایک شہزادے کو بھی بہادری کی ایک لازوال تاریخ کا حصہ بنا گیا ۔ 
 سچ کہتے ہیں 
 اے پتر ہٹاں تے نئیں وکدے تُوں لبدی پھریں بازار کڑے 
اے دین اے میرے داتا دی نہ ایویں ٹکراں مار کڑے

یہ بھی ایک دھماکہ تھا ہر روز جیسا ہی دھماکہ لیکن یہ ایک نئی سوچ کا دھماکہ بھی تھا جس نے ہم سب کو جھنجھوڑ کر خواب غفلت سے جگانے کی کوشش بھی کی اور اس بے خبر قوم کو یہ احساس دلایا کہ ان تیرہ سالوں میں ہر روز جو بچے پیدا ہو رہے ہیں، جو بچے تھے جوان ہو رہے ہیں اس کی سوچوں کے دھارے اب اپنا قبلہ تبدیل کر رہے ہیں انہیں اس بات کا احساس شدت سے ہونے لگا ہے کہ ہمارے بڑے ہمیں اس خوفناک عذاب میں مبتلا تو کر سکتے تھے لیکن اس عذاب سے نکالنے میں دو سو فیصد تک ناکام ہو چکے ہیں اب ہمیں ان کھوکھلے بزرگوں اور کھوکھلے ستونوں کی جانب دیکھنے کے بجائے اپنی اور اپنی آنے والی نسلوں کو بچانے کے لیئے خود ہی عملی قدم بڑھانا ہوں گے ۔ ہم میں سے ہر ایک کو ایک ہزار کو بچانے کے لیئے کسی ایک کو ہر صورت اس موت سے لپٹنا ہوگا اور ان موت کے دوزخی سوداگروں  کو انہیں کے انداز میں شکست دینا ہو گی ۔ لیکن سوال اپنی جگہ قائم ہے کہ حکام اس بات کا جواب دیں کہ یہ سب ہو گا تو آخر کب تک ؟ اور کتنے اعتزاز اس قربان گاہ شوق میں بھینٹ کیئے جائیں گے ؟ آخر کتنے ؟
●●●
تحریر: ممتازملک.پیرس 
مجموعہ مضامین: سچ تو یہ ہے
اشاعت:2016ء
●●●






اتوار، 26 جنوری، 2014

کتاب اور پراٹھا۔ کالم۔ سچ تو یہ ہے




کتاب اور پراٹھا
ممتازملک ۔ پیرس

ہمارے ہاں لوگ 3000 کا پیزا کھا لیں گے اور شکایت نہیں  کریں گے لیکن 300 روپے کی کتاب  کبھی نہیں خریدیں گے کہ نہیں بھئ یہ تو بہت مہنگی ہے ِ اول تو ہماری قوم کو کتاب پڑھنے کا دورہ کبھی پڑتا ہی نہیں اور اگر قسمت سے کہیں یہ دورہ پڑ بھی جاۓ  تو دوسروں سے مانگ تانگ کر کام چلانا پسند فرماٰئیں گے،کیوں کہ ہمارے ہاں کتاب پر خرچہ کرنا فضول خرچی سمجھا جاتا ہے اور فضول خیال کیا جاتا ہے ِ دنیا کی ترقی یافتہ ممالک کی ترقی کا راز آج بھی کتاب سے محبت میں پوشیدہ ہے ۔ 
جس کا ایک سب سے بڑا ثبوت آپ کہیں بھی دیکھ سکتے ہیں ۔ کوئ بھی غیر پاکستانی جب بھی سفر کرتا ہے اس کے دستی سامان میں چند نہیں تو ایک دو کتابیں ضرور موجود ہوتی ہیں  ۔ جسے وہ دوران سفر مطالعہ میں رکھتا ہے ۔ جبکہ پاکستانیوں کے دستی سامان میں مردوں کے لیئے کھانے پینے کے لوازمات اور سگریٹ کے برانڈذ  جبکہ خواتین کے سامان میں میک اپ ،جیولری  کی بھرمار ہو گی ۔ تمام سفر میں یا تو شور شرابہ ہو گا یا کھانا پینا ۔ اور اگر سفر ٹرین کا ہے تو پراٹھوں اور کبابوں کے بغیر تو ہو نہین سکتا ۔
  یہ دنیا کتاب کو اس لیئے پسند کرتی ہے کہ اس سے علم کی راہیں کھلتی ہیں عقل کے روشن دان سے تازہ ہوا آتی ہے ۔ گھر بیٹھے دنیا کے حالات و واقعات سے آگاہی ہوتی ہے ۔ جبکہ ہمیں کتاب اس لیئے پسند ہے کہ اس پر رکھ کر پراٹھا کھانا ہوتا ہے یا پھر پکوڑے لپیٹنے ہوتے ہیں ۔ کیوں کہ یہ کاغذ گھی کو خوب جذب کرتا ہے ۔ بندہ پوچھے بھئ سمندر میں سے ایک چمچہ نکال بھی لیا جائے تو کیا فرق پڑتا ہے ۔
قسمت سے خریدی ہوئ کتاب تو شاید کھل کبھی جاتی ہو ، پڑھ بھی لی جاتی ہو ،  جبکہ مانگے کی یا مفت کی کتابیں تو اکثر سالوں  بک شیلف میں دھول چاٹتی رہتی ہیں اور کسی کو انہیں کھولنا نصیب نہیں ہوتا ۔ اور تو اور شکر ہے کہ سال میں ایک بار رمضان کا مبارک مہینہ آ جاتا ہے تو دنیا کی سب سے مقدس کتاب قرآن پاک کو بھی کھولنے کا بہانہ بن جاتا ہے ۔ ورنہ سال بھر تو یہ توفیق بھی حاصل نہیں ہوتی ۔
سچ ہے جو قومیں کتاب سے محبت نہیں کرتیں وہ علم کی قدر نہیں جانتیں ، اور جو قومیں علم کی قدر نہیں جانتیں وہ ہمیشہ دوسروں کی ٹھوکروں میں ہی رہتی ہیں ، دور کیوں جاٰئیں ۔ ہمارا اپنا ملک ہماری اپنی قوم اس بدنصیبی کی سب سے بڑی مثال ہے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 


● تعارف کتاب ٌمیرے دل کا قلندر بولے ٌ


تعارف کتاب  
ٌمیرے دل کا قلندر بولے ٌ


ہر انسان کے اندر ایک ہی وقت میں دو قوتیں بر سر پیکار ہوتی ہیں ۔ایک وہ جو اسے بار بار برائی کی دلدل میں کھینچتی ہے ۔ اور ایک وہ جو اسے بار بار ان کھڈوں میں گرنے سے بچاتی ہے ۔ اور کیسی عجیب بات ہے کہ ہر انسان میں یہ دونوں طاقتیں بیک وقت موجود ہوتی ہیں ۔ لیکن بھر بھی اچھائی  ہر بار کیوں ہار جاتی ہے ۔ میں نے بھی اندر کے شیطان جسے نفس کہتے ہیں   سے یہ لڑائی آپ سب کی طرح  ہمیشہ لڑی ہے ۔ لیکن اس کے سامنے اچھی قوت جسے لوگ تو ضمیر کہتے ہیں لیکن میں اسے قلندر کہتی ہوں  کو کبھی ہارنے نہیں دیا ،۔چاہے اسکے لیئے خود کو ہی کیوں نہ ہارنا پڑے ۔ کیوں کہ دل کا یہ قلندر کبھی رسوا نہیں ہونے دیتا ۔ کسی نے حضرت علی کرم اللہ وجہ سے پوچھا کہ ہمیں کیسے معلوم ہو کہ جو کام ہم کرنے جا رہے ہیں وہ اچھا ہے یا برا ۔ تو آپ نے جواب دیا کہ اگر تمہیں محسوس ہو کہ تمہارا کام کسی کے سامنے آنے پر تمہیں شرمندہ ہونا پڑے گا  تو  جان لو کہ وہ غلط ہے ۔  تو مجھے بھی لگا کہ  یہ ہی آ گہی  دینا ہمارے دل کے قلندر کی ذمہ داری ہے ۔ تو میں نے اپنے دل کے اسی قلندر سے دوستی کر لی ۔ آپ بھی اس کتاب کو پڑھ کر  جانیئے کہ میرے دل کا قلندر بولے تو کیا بولے ۔۔۔۔
صاحب کتاب:
ممتازملک ۔ پیرس
●●●


جمعرات، 26 دسمبر، 2013

● (17) سوری بابا /کالم۔ سچ تو یہ ہے




         (17) سوری بابا                تحریر:ممتازملک۔ پیرس




کیا بابا ئے قوم کا یوم پیدائش منانے کا مقصد کیک کاٹنا ، ہلہ گلہ کرنا اور چھٹی منانا ہی ہے ؟ کیا پاکستان انہیں باتوں کے لیئے ہزاروں عزتیں قربان کر کر حاصل کیا گیا تھا ؟ کیا روح قائد آج کے تماشے دیکھ کر نہال

 ہوئی جارہی ہے ؟ کیا آج ہم اس حال میں ہیں کہ اپنے آپ کو آزادی کے شہداء کے سامنے کٹہرے میں پیش کر سکیں ؟ تو پھر کیسا یوم پیدائش ؟ جس بابا کے گھر کو ہم نے آگ لگا دی اس سال اس کی سالگرہ منانے سے اچھا نہیں کہ ہم شرم سے گڑھ جائیں ۔ سوری بابا میں آپ کی سالگرہ نہیں منا رہی کیوں کہ میں خود کو اس قابل ہی نہیں سمجھتی کہ آپ کے سامنے کیا آپ کی تصویر سے بھی نظر ملا سکوں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  اسی لیئے آج میں کوئی کیک نہیں کاٹ رہی، کوئی تقریب نہیں اٹینڈ کر رہی ۔ میں آج صرف اور صرف اپنا احتساب کر رہی ہوں ۔ کیا سوچ کر آزادی کے

 رستے میں شہیدوں نے اپنے لہو کے 

دیئے روشن کیئے تھے اور کیا سوچ کر ہم نے ان چراغوں پر بڑی ہی بے رحمی سے کیچڑ انڈیل دی ۔ اپنے کردار کی کیچڑ،₩ اپنے گفتار کی کیچڑ ، خودی کو بلند کرنے کا دعوی کرتے ہیں اور پہلے سے بڑا کشکول بنا لیتے ہیں ۔ یہ کاسئہ گدائی ہماری پہچان بن گیا ہے مگر ہم ہیں کہ اکڑ کر چلنے سے باز ہی نہیں آتے ۔  دنیا 

میں بھیک مانگنے جاتے ہیں تو شان 

وشوکت میں برابری بھیک دینے والے کی کرنے لگتے ہیں ۔  سچ اس لیئے نہیں بولتے کہ ہمارے وقتی مفادات کو کوئی زک نہ پہنچ جائے ۔ باتیں ایسی توڑ موڑ کر کرتے ہیں کہ جب جس کے سامنے جائیں اسی کے گن گانے میں آسانی ہو  آخر ڈپلو   

میسی بھی کوئی چیز ہوتی ہے ۔ ہم 

دوسروں کی آگ اپنے گھر میں جلانے کے اتنے عادی ہوچکے ہیں  کہ اپنے مسائل اور اپنے غموں اور تکلیفوں کے ازالے کے لیئے ہمارے پاس وقت ہی نہیں ہے ۔ بڑی باتیں کرتے 

ہیں ہم پاکستانیت کی۔ لیکن عمل     
کرنے کا وقت آتا ہے  تو ''اندھا بانٹے   
ریوڑیاں اپنے اپنے کو ''کے مصداق یاد رہتا ہے ہی پاکستانیت ۔ میرٹ کا جنازہ تو ہم نے ہر ہر فیلڈ میں خوب دھوم دھام سے نکالا ہے ۔ تنخواہ تو ہم 30 دن کی مانگنا حق سمجھتے ہیں۔ لیکن دن کے 8 میں سے 6 گھنٹےاپنے گھروں میں 

بیڈ پر اینٹھتے یا نماز کے بہانے غائب ہو کر یا پھر کھانے چاٹنے میں نکال دیتے ہیں ۔ کوئی کسی کام سے آیا ہو یا بل جمع کرانے والا ، یا دفتری کام 

سے آیا ہوا سائل، دھکے کھا رہا 

ہے تو کھاتا رہے پہلے میری مٹھی گرم کرے ۔یہ تو میری مہربانی ہے 

کہ سائل کو میری صورت دیکھنا نصیب ہو گئی ۔ لال بتی پر رک جانا بھی میری توہین ہے ۔ کسی غریب کی مزدوری مارنا میرا کمال ہے ۔ مذہب کے نام پر دوسروں  کے عقائد پر حملہ کرنا میری مسلمانی ہے ۔ عورت کو پیٹنا ہماری مردانگی ہے ، 

معصوم بچوں کے جسموں کو نوچنا ہمارا مشغلہ ہے۔  قانون کی دھجیاں بکھیرنا ہمارا شوق ۔ 
ملاوٹ کرنا مجھے شرم نہیں دلاتا ۔ مہنگا بیچنا مجھے معیوب ہی نہیں لگتا ۔ بیواؤں اور یتیموں کا مال کھا کے بھی ہم چین سے سو جاتے ہیں ۔ دوسروں کی عزتیں بیچ کر بھی ہماری آنکھ نہیں جھکتی ۔ لمبی لمبی داڑھیاں چہرے پہ سجا کر قرآن پر ہاتھ رکھ کر جھوٹی گواہیاں دیتے ہوئے بھی ہمیں حیا نہیں آتی ۔ بہت کچھ ہے بابا  ۔ کیا کیا سناؤں ۔ میں جانتی ہوں جس صبح کی نوید  آپ نے دی تھی یہ وہ سحر بلکل نہیں ہے ۔ میں انتظار کروں گی اس صبح نو کا کہ جہاں انصاف کا بول بالا ہو گا ، تعلیم ہر ایک کا حق ہو گی ، سب کی عزت سانجھی ہو گی ،  سب کے عقیدے اس کے اپنے ہوں گے ۔ بات کرتے ہوئے سب خدا کا خوف کریں گے نا کہ اپنے مفادات کا تحفظ ۔ جہاں میرٹ کا قتل عام بند کیا جائے گا اسی امید پر میں آپ کی سالگرہ کا کیک ضرور کاٹوں گی شاید اگلے سال ۔ ۔ ۔
●●●
تحریر: ممتازملک.پیرس 
مجموعہ مضامین: سچ تو یہ ہے
اشاعت: 2016ء
●●●



                          

منگل، 26 نومبر، 2013

● (22) درد بھی ایک نعمت/ کالم ۔سچ تو یہ ہے



(22) درد بھی ایک نعمت
تحریر: ممتازملک۔ پیرس



آپ بھی کہتے ہوں گے کہ یہ کیا بات ہوئی ۔ کبھی کوئی درد بھی اچھا ہو سکتا ہے ، درد تو درد ہوتا ہے۔ دکھ دیتا ہے تکلیف دیتا ہے ۔ کئی لوگ تو باقاعدہ دعا بھی کرتے ہیں کہ یا اللہ ہمیں کبھی کوئی درد نہ ہو ۔ اور اکثر لوگ تو درد نہ ہونے کو بڑی خوش نصیبی سمجھتے ہیں ۔ لیکن دیکھیں اسی بات کا ایک اور رخ ۔ جذام کے یعنی کوڑھ کے مریضوں کے بارے میں خیال کیا جاتا  تھا اور ڈاکٹر بھی یہ بات کہتے تھے کہ اس مرض میں ایک خاص جرثومہ انسان کے اعضاء کو آہستہ آہستہ ختم کرنے لگتا ہے جس کی وجہ سے اس کے بدن کے اعضاء  اور گوشت لوتھڑے کی طرح اکٹھا ہونے لگتا ہے یا دوسرے لفظوں میں گلنے لگتا ہے ۔  لیکن اب  ایک اور تحقیق نے یہ بات ثابت کی ہے کہ ایسا نہیں ہے بلکہ اس مرض میں انسان کے اعضاء دھیرے دھیرے سُن ہونے لگتے ہیں اور ایک وقت آتا ہے کہ بلکل ہی بے حس ہو جاتے ہیں نہ انہیں ٹھنڈا گرم کا احساس ہوتا ہے نہ ہی کوئی درد ہوتا ہے ۔ جیسے کہ انسان کوئی  گرم چیز پکڑ لے تو ہماری یہ ہی حس ہمیں خبردار کرتی ہے کہ اسے چھوڑ دے یا کوئی کٹ لگ جائے تو درد کا احساس ہی ہوتا ہے جو اسے دوا لگانے یا علاج کروانے پر تیار کرتا ہے ۔  لیکن جذام کے مرض میں انسان اپنے ہی وجود سے اس طرح لاتعلق ہوتا ہے کہ رات میں سوتے وقت  کوئی چوہا اسے کتر کر اس کا گوشت کھا جائے یا اسکا کوئی عضو کاٹ دیا جائے تو خود کو بچانا یا کراہنا تو دُور کی بات بلکہ وہ جاگے گا بھی نہیں ۔ خدا معاف کرے ۔ کیسی خوفناک حقیقت ہے کہ جس درد سے ہم خلاصی چاہتے ہیں۔ یہی درد ہمیں کسی بھی بڑی تکلیف سے بچانے کے لیئے الارم کا کام کرتا ہے ۔  یہ درد ہی تو ہے جو ہمیں کسی دوسرے کی تکلیف کو سمجھنے میں مدد دیتا ہے ۔ اپنے آپ کو بچانے پر راغب کرتا ہے ۔ دوسرے کے آنسو بھی تو تبھی پونچھے جا سکتے ہیں جب آپ درد کی اس شدّت کو محسوس کر سکتے ہیں ۔ اسی لیئے تو کہتے ہیں کہ  بھوک میں بھوکے کی بھوک کا احساس ہوتا ہے تو تکلیف گزارنے والا ہی کسی دوسرے کی تکلیف کو بہتر سمجھ سکتا ہے ۔ اور ویسے بھی خدا جنہیں یاد کرتا ہے اسے کسی بھی تکلیف یا آزمائش میں ڈالتا ہے ۔ اس درد کو ایک نعمت سمجھنا چاہیئے کہ یہ ہمیں خدا کے قریب کرتا ہے ۔ خدا کی مخلوق کے دکھ درد کا احساس دلاتا ہے ۔ خدا کی طاقت کے آگے انسان کو اس کی کمتری کا احساس دلاتا ہے اور اسے یاد دلاتا ہے کہ کوئی ہے جو ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے ۔ کوئی ہے جو جب چاہے کسی کو طاقت بخش دے اور جب چاہے انسان کی طاقت  کو مٹی میں ملا دے ۔ خدا خود بھی تو دُکھی دلوں میں رہتا ہے ۔ انعام کے طور پے  یہ ہی دکھ کی درد کی گھڑیا ں ہی تو دعا کی قبولیت کو اور یقینی بنا دیتی ہیں ۔ یہاں تک کہ بابا فرید فرماتے ہیں کہ                "مسجد ڈھا دے مندر ڈھا دے،
 ڈھا دے جو کچھ ڈھیندا
پر کسے دا دل نہ توڑیں، رب دلاں وچ ریہندہ "
●●●
تحریر: ممتازملک.پیرس 
مجموعہ مضامین: سچ تو یہ ہے 
اشاعت:2016ء
●●●




جمعہ، 15 نومبر، 2013

● (2)سچ کی کوئی قیمت/ کالم۔ سچ تو یہ ہے


(2)سچ کی کوئی قیمت 
تحریر/ممتازملک ۔ پیرس


کون کہتا ہے کہ سچ کو خریدا یا بیچا جا سکتا ہے ؟ یا سچے کو خریدا  جا سکتا ہے ؟ اور ویسے بھی جو بک گیا جو سچا تھا ہی کب ؟ کئی لوگوں کے لیئے یہ افسانوی بات ہو سکتی ہے لیکن یہ کوئی افسانہ نہیں ہے کہ اسی ماہ خاص محرم الحرام میں صدیوں پہلے یہ سبق اس کائنات کے سب سے قیمتی گھرانے نے ہمیں دے دیا ۔ کہ بات اگر سچ ہے تو حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ  جیسے مخالف کی بھی مان لی اور اگر بات غلط تھی تو انہی باپ کے بیٹے یذید شیطان  کی بھی ماننے سے انکار کر دیا ۔ نہ صرف انکار کیا بلکہ علی الاعلان انکار کیا ۔ ایک ایسا انکار جس نے سچائی کی تاریخ رقم کر دی ۔ یہ کوئی ضد نہیں تھی کہ ایک فاجر ، فاسق ۔ زانی  ، شرابی اور بے دین شخص جسے دنیا یذید کے نام سے جانتی ہے ، کو کسی بھی قیمت پر لوگوں کی عزتوں کی حفاظت کا ذمہ نہیں دیا جا سکتا ۔ لوگوں کے جان اور مال کا محافظ نہیں بنایا جا سکتا  ،  جو شخص خدا کا خوف ہی نہیں رکھتا وہ کیسے خدا کی مخلوق کے لیئے مفید ثابت ہو سکتا ہے ۔ جس شخص کا اپنا کوئی کردار ہی نہیں ہے  وہ کبھی خدا کی مخلوق کے لیئے اچھا ثابت نہیں ہو سکتا ۔  ایسا  آدمی  حکمران تو کیا کسی کے گھر کا چوکیدار بننے کا بھی اہل  نہیں ہے ۔ یہ امام حسین علیہ السلام کا سچ ہی تھا جو اپنے پورے کنبے کو لیکر میدان کرب و بلا کی جانب کوچ کر گیا ۔ کیا آپ علیہ السلام نہیں جانتے تھے کہ کیا ہونے جا رہا ہے ؟ جانتے تھے اپنے بچپن سے جانتے تھے کہ ایک روز مقتل سجایا جانا ہے اور اس مقتل میں پیارے نانا صلی اللہ علیہ وسلم کے سب سے پیارے نواسے کو اپنے پورے کنبے کے ساتھ نیزے پر چڑھایا جائیگا ، جرم سچائی میں آل رسول صلی اللہ علیہ وسلم کوبھی نہیں بخشا گیا  تو ایک عام سے انسان کی کیا اوقات ہے کہ وہ سچ بھی بولے اور اسکی قیمت بھی لوگوں کو نہ چکائے ۔ کیوں کہ یہ ہی حقیقت ہے کہ سچ بولنے والے کو ہی ہمیشہ سچ کی قیمت بھی چکانا پڑتی ہے ۔ یہ قیمت کبھی تو سقراط زہر کا پیالہ پی کر چکاتا ہے ، کبھی منصور سولی چڑھ کر چکاتا ہے اور جب آخری حدوں کو چھو جائے تو حسین ابن حیدر کی طرح سر کٹا کر اور کنبے کا کنبہ قربان کر کے چکاتا ہے ۔ کہتے ہیں کہ جتنا بڑا مرتبہ ہو اتنی ہی بڑی ذمہ داری بھی ہوتی ہے اور جتنا بڑا مقام ہو اتنا ہی بڑا امتحان بھی ہوتا ہے اور جتنا بڑا کردار ہو اتنی ہی بڑی قربانی بھی دینی پڑتی ہے ۔ ایک عام آدمی جب کردار کی مضبوطی کی قیمت چکاتا ہے تو اپنی جان وار دیتا ہے لیکن جب حسین علیہ السلام  جیسا خاص انسان قیمت چکاتا ہے تو اپنا پورا خاندان اس پر وار دیتا ہے خاندان بھی وہ کہ جسے دیا بجھا کر یہ اختیار بھی دیا گیا ہو کہ جو چاہے بخوشی قربانی کے اس سفر سے واپسی کی راہ لے اس پر کوئی ملامت نہیں ۔ لیکن خاندان ہو حسین علیہ السلام کا اور سچ کے میدان سے بھاگ جائے یہ کیسے ہو سکتا ہے ۔ حسین علیہ السلام کے گھرانے کا ہر شخص  خود ایک حسین بن چکا تھا ۔  جنہیں  یہ کہنے کی بھی ضرورت نہیں تھی کہ
 جان دی دی ہوئی اسی کی تھی 
  سچ تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا 
کیوں کہ جو کچھ اس قافلے نے کیا وہ سب حق سے بھی کہیں زیادہ کی ادائیگی تھی کسی بھی انسان کے کہنے کے لیئے قیامت تک جناب حسین علیہ السلام نے یہ کہنے کا موقع ہی نہیں چھوڑا کہ جنت کے جوانوں کا سردار بننے کے لیئے تو نانا جان صلی اللہ علیہ وسلم کا نواسہ ہونا ہی کافی ہے ۔ بلکہ یہ عظیم قربانی دیکر یہ ثابت کر دیا کہ نانا جان باکمال ہیں تو نواسہ بھی بے مثال ہے اور بے مثال لوگ ہی سب سے بلند درجات کے قابل ہوتے ہیں ۔ ایسے لوگ کبھی نااہل لوگوں کی حمایت نہیں کیا کرتے ۔ سچائی کو چھپانے کی کوشش نہیں کرتے اور اس سچائی کی قیمت لیا نہیں کرتے بلکہ اس کی قیمت چکایا کرتے ہیں چاہے وہ کوئی بھی کیوں نہ ہو ۔ کبھی دنیا یہ قیمت سچائی پر بہتان لگا کر لیتی ہے کبھی اس کے خاندان کو تڑپا کر لیتی ہے کبھی اس کی یا اسکے پیاروں کی جان لیکر لیتی ہے لیکن لیتی ضرور ہے ۔   کبھی اس کے مالی نقصانات کر کے لیتی ہے ،  ہم تو ویسے بھی اس قوم سے تعلق رکھتے ہیں کہ ،
جہاں جگنو پکڑ کے ان کو آگے بیچ دیتے ہیں
یہاں سچ بولنے والوں کی سانسیں کھینچ لیتے ہیں
اگر ہم یذیدیوں کے جھوٹ میں انکا ساتھ دینے والے نہ ہوتے تو آج ان کی غلامی پر مجبور بھی نہ ہوتے ۔ انکو جھک جھک سلامیاں دینے پر بے بسی سے ہاتھ بھی نہ ملتے ، سچ بولنے کی اگر قیمت چکانی پڑتی ہے تو یاد رکھیں جھوٹ بولنے اور جھوٹ کا ساتھ دینے والوں کو بھی وقت کبھی نہیں بخشتا ، ہر ایک کو  خدا تعالی کے حکم سے وقت کے کٹہرے میں کھڑا ہونا ہی پڑتا ہے ۔  انہیں بھی اس جھوٹ کی بھاری قیمت چکانی پڑتی ہے انہیں بھی قربانی کا دنبہ بننا پڑتا ہے مگر ان دونوں قربانیوں میں ایک بہت بڑا فرق ہمیشہ نمایاں رہتا ہے کہ
جس ڈھب سے کوئی مقتل میں گیا وہ شان سلامت رہتی ہے
اس جان کی کوئی بات نہیں یہ جان تو آنی جانی ہے
کیوں کہ وقت بڑا بے رحم منصف ہے اسی لیئے سچ تو قیمت چکا کر زندہ و جاوید ہو جاتا ہے جب کہ جھوٹ کو ہمیشہ کے لیئے سزائے موت ہو جاتی ہے۔
●●●
تحریر:ممتازملک 
مجموعہ مضامین:
سچ تو یہ ہے 
اشاعت:2016ء
●●●



شاعری / /مدت ہوئ عورت ہوۓ/ ممتاز قلم / سچ تو یہ ہے/ اے شہہ محترم/ سراب دنیا/ نظمیں/ پنجابی کلام/