ممتازملک ۔ پیرس

ممتازملک ۔ پیرس
تصانیف : ممتازملک

ہفتہ، 30 دسمبر، 2023

سخت ترین آزمائش ۔ کوٹیشنز ۔ چھوٹی چھوٹی باتیں


آل (بال بچے) اور مال دونوں سخت ترین آزمائش ہیں کیونکہ یہ براہ راست آپکے اعمال پر اثرانداز ہوتے ہیں ۔ 
(چھوٹی چھوٹی باتیں)
     (ممتازملک ۔پیرس)

جمعرات، 28 دسمبر، 2023

شادی ‏کومحاذ ‏جنگ ‏نہ ‏بنائیں/ ‏کالم


شادی کو محاذ جنگ نہ بنائیں
تحریر:
(ممتازملک ۔پیرس)

اپنے رد گرد نگاہ دوڑائیں ہر طرف قمقمےجگمگا رہے ہیں، پکوان بن رہے ہیں، مہمان نوازیاں ہو رہی ہیں ،لڑکیاں اپنے پیا دیس سدھار رہی ہیں ۔ کرونا کی پابندیاں بھی ان شادیوں کی راہ نہیں روک سکیں تو سمجھ لیجیئے کہ واقعی رشتے آسمانوں پر ہی طے کیئے جا چکے ہیں ۔ 
اپنی بیٹیوں کو اگلے گھر والوں کا دل جیتنے کے لیئے بھیجیئے، گھروں کو فتح کرنے کا سبق دیکر مت بھیجیں ۔ 
معاملات پر نظر دوڑائی جائے تو ایک بات بڑی واضح دکھائی دیتی ہے کہ شادی کے تمام معاملات اور رسومات کے بیچ میں دونوں گھروں کی جانب سے دولہا، دلہن کی شادی کے جوڑوں اور تحائف کی خریداری میں ہمارے ہاں یہ رواج دیکھا گیا ہے کہ لڑکے والے لڑکی کے شادی کے ملبوسات زیورات اور متعلقہ اشیاء کی خریداری اور لڑکی والے لڑکے کے لیے جوڑوں اور تحائف خریدا کرتے ہیں اس میں قباحت اس وقت پیدا ہوتی ہے جب دونوں گھروں میں سے کچھ شرارتی لوگ، رشتہ دار لڑکی اور لڑکے کو دوسرے سے زیادہ سے زیادہ مہنگے جوڑے اور تحائف خریدنے کے لیے اکساتے ہیں یا پھر لڑکی اور لڑکا خود اس قدر حریص ہوتے ہیں کہ وہ اگلے کو نچوڑ دینا چاہتے ہیں اور بڑھ چڑھ کر مہنگی سے مہنگی اشیاء کا مطالبہ کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ سمجھداری تو یہ ہوتی ہے کہ اگر کسی کو خریداری کی پیشکش کی جائے تو وہ خریداری کرانے والے سے پوچھے کہ آپ کا کتنا بجٹ ہے؟ اور اسکے حساب سے اگر اس کا بجٹ 10 روپے ہے تو وہ 8 روپے کی خریداری کرے اور باقی بچا کر سامنے والے کو احساس دلائے کہ وہ انکی جیب کا خیال رکھنے والا یا والی ہے, لیکن ہوتا بالکل اس کے برعکس ہے. یہاں اگر کوئی 10 روپے اپنا بجٹ بتائے تو وہ 20 روپے خرچ کر کے اگلے کو پریشان کرنا اور دبانا شروع کر دیتا/ دیتی ہے۔ اب اس میں کون سی سمجھداری ہے یہ بات آج تک ہماری سمجھ میں نہیں آ سکی۔ ہم لوگ اس رشتے کو محض اس خریداری تک ہی محدود کیوں کر لیتے ہیں۔ ہمیں یہ کیوں معلوم نہیں ہوتا کہ یہ تحفے یا یہ جوڑے انہی دو تین دنوں میں ہی استعمال ہوں گے دوبارہ شاید یہ زندگی میں کبھی کھلیں گے بھی نہیں۔ لیکن ان دو تین دن کے جوڑوں کو اس قدر خاص بنا دیا جاتا ہے کہ ساری عمر انکی قیمتوں، رنگ، ڈیزائن پر، جب بھی میاں بیوی کا جھگڑا ہوتا ہے یا سسرال والوں کے ساتھ لڑکے یا لڑکی کا اختلاف ہوگا تو اسکی تان اسی بات پر ٹوٹے گی کہ جی مجھے جوڑا اچھا نہیں دیا تھا، فلاں چیز سستی ملی، فلاں چیز گھٹیا ملی، فلاں چیز تم نے نہیں دی، تو ان سب چیزوں سے یہ رشتہ محاذ جنگ اور زندگی ایک میدان جنگ بن جاتی ہے اور تاعمر آپ یہ جنگ لڑتے رہتے ہیں ، یہ رشتہ شاید اسی سبب ختم ہو جائے لیکن یہ جنگ کبھی ختم نہیں ہوتی، کیونکہ یہ باتیں کبھی بھولتی نہیں ہیں تو پھر اس کا علاج کیا کیا جائے؟ سچ پوچھیں اور نیت جھگڑوں سے بچنے کی ہو تو  اس کا علاج بہت زیادہ آسان ہے۔  ایک رواج کو بدلنے کی جرات تو کیجئے ۔ دوسروں کو مت دیکھیئے اپنے گھر سے یہ شروعات کیجئے کہ آپ کی بیٹی کی جو پہلے دوسرے تیسرے دن کے جوڑوں کی خریداری جیسے کہ مہندی، شادی اور ولیمے کا جوڑا ہے وہ ہم والدین خود اپنی بیٹی کے لیے تیار کریں۔ اپنی پسند کے ساتھ کے ساتھ جب لڑکا، لڑکی یہ ساری خریداری کرینگے تو انہیں اس بات کا لحاظ رہے گا کہ یہ سارا پیسہ انکے اپنے باپ یا بھائی کی جیب سے جا رہا ہے اور اس میں جوڑوں کے رنگ،  ڈیزائن نئے پرانے ہونے کا بھی کوئی ہنگامہ کھڑا نہیں کیا جا سکتا۔ لہذا دونوں کو سوچ سمجھ کر منہ کھولنا ہے اور ڈیمانڈز کرنی ہیں تو وہ اپنے تینوں دن کے جوڑے اور ضروری اشیاء اپنی مرضی سے خریدیں ۔ اب ان دونوں کو ایکدوسرے سے الگ خریداری کرتے ہیں تو ایک جیسا کیسے لگنا ہے، تو بالکل آسان سی بات ہے۔ جہاں بہت ساری باتوں کی آپ ایک دوسرے کو اطلاع دے رہے ہوتے ہیں وہیں پر آپ اس موقع پر پہننے والے  جوڑوں کے رنگ ایک دوسرے کے ساتھ شیئر کر سکتے ہیں کہ ہم فلاں رنگ پہن رہے ہیں یہ دونوں آپس میں طے کر لیں کہ فلاں رنگ اچھا ہے۔ ہم دونوں پہ کھلتا ہے اچھا لگ رہا ہے۔ چلو اسی حساب سے  لڑکا کوئی نہ کوئی ایک ٹچ دلہن کے کپروں کی میچنگ میں  اپنے کپڑوں میں شامل کر لے۔ جیسے  لڑکی سرخ رنگ پہننا چاہ رہی ہے اور لڑکا آف وائٹ پہننا چاہتا ہے تو لڑکی کے جوڑے کے رنگ کا کوئی بھی رومال، کلاہ یا پٹکا لڑکے کے جوڑے کیساتھ میچنگ کر لیا جائے یوں ان دونوں کا رنگ کا ملاپ بھی نظر آئے گا اور دونوں کا  اس یادگار دن پر یا دنوں پر اپنی پسند کا رنگ پہننے کا شوق بھی پورا ہو جائے گا یہ اتنا مشکل کام تو نہیں ہے۔
اس میں بھی لڑکا یا لڑکی ایک دوسرے پر دباؤ ہر گز نہ ڈالے۔ یہ رشتہ محبت کے ساتھ شروع ہونے جا رہا ہے۔ یہاں پر کوئی مقابلہ نہیں ہو رہا کہ آپ ایک دوسرے کو دبانا شروع کر دیں۔
 اور دوسری بات اگر دونوں طرف سے دینداری میں بہت زیادہ اور بھاری قیمتی تحفے، بری اور جہیز کے جوڑوں کے بجائے آج کل ہر روز اتنی ورائٹی آتی ہے کہ اکثر تو شادی بری کے سوٹ کھلتے تک نہیں اور انکے فیشن پرانے ہو جاتے ہیں اور انکے سلنے کی نوبت تک نہیں آتی۔ ادھر ادھر دے دلا کر ختم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے جو کہ بہت ہی چھوٹی حرکت ہے۔ کیونکہ یہ تحائف آپکی زندگی کے اہم موقع پر آپ کو ملے اور آپ نے انہیں برتا تک نہیں۔ اگر اپ اسے پہنتے تو ایک دوسرے کو خوشی ہوتی ہے کہ یہ تحفہ آپ کی طرف سے آیا اور پہنا گیا اس لیے بہتر ہے کہ لڑکی اور لڑکے کی جانب سے بھی لڑکی کے لیئے کام والے جوڑے بس پانچ پانچ ، سات، سات ہی ہونے چاہیئیں۔ جو انکے شروع کے پورے سال دو سال کیلیئے کافی ہیں اگر وہ سنبھال کے استعمال کریں تو دو تین سال کے لیئے کہیں آنے جانے، کسی تقریب میں پہننے کے لیے بہت ہوتے ہیں۔ باقی بیچ میں عیدین یا اور کوئی خاص موقع آتا ہے تو کپڑے بنتے رہتے ہیں ۔یہ زندگی میں آخری بار بنے ہیں کیا؟ لیکن وہ جو شروع میں پیسہ اتنا پانی کی طرح ضائع کیا جاتا ہے بری اور جہیز کے جوڑوں کے نام پر، سو سو جوڑے تک ہم نے دیکھے ہیں جو بالکل پیسے کا زیاں ہے، اور دوسری پارٹی اس میں ہر گز دخل اندازی نہ کرے کہ یہ پہننا ہے اور وہ نہیں پہننا۔ لڑکا کیا پہنے گا یہ لڑکی والوں کا درد سر نہیں ہے کہ وہ کس قیمت کا ہونا چاہیے اور لڑکی کیا پہنے  گی ، یہ لڑکے والوں کا درد سر نہیں ہونا چاہیے ۔ انہوں نے پہننا ہے جو ان کو اچھا لگتا ہے۔ جو وہ افورڈ کر سکتے ہیں، کیونکہ اسے بھی معلوم ہے کہ میری تصویریں بنیں گی فلم بنے گی سو وہ جو چاہے خود بنائیں، چاہے کرائے پر لے کر آئیں، چاہے کسی طرح بھی ارینج کریں یہ دوسری پارٹی کا درد سر کبھی نہیں ہونا چاہیے اگر آپ نے جھگڑوں سے بچنا ہے تو آپ کو اپنے رواج بدلنے ہوں گے اگے بڑھیے اور اپنے فضول رواجوں سے جان چھڑائیے  ۔
                                                      ##########۔ 

بدھ، 27 دسمبر، 2023

ممتاز ملک کی جانب سےخراج عقیدت ۔

یوسف ندیم

حلیم و نرم مزاج تھے یوسف ندیم
ادب کے سر کا تاج تھے یوسف ندیم
جو کل ملے تھے ان سے وہ بتاتے ہیں 
ویسے کے ویسے آج تھے یوسف ندیم
ممتاز کی رب سے دعا بخش دینا انکو تو
انسانیت کے نام پر خراج تھے یوسف ندیم

منگل، 26 دسمبر، 2023

نیا سال۔ نظم۔ اردو شاعری۔ جا میں نے تجھے آزاد کیا



جاتے جاتے


دسمبر جاتے جاتے
 اداسی دے رہا ہے 
 وہ یہ بتلا رہا ہے
 کہ سال اک جا رہا ہے
مگر  ممتاز سن لو
 کہ وہ سمجھا رہا ہے 
نیا لیکر کیلنڈر 
نیا سال آرہا ہے
      (ممتازملک۔پیرس)

ہفتہ، 2 دسمبر، 2023

، خوش کیسے رہیں۔ کوٹیشنز چھوٹی چھوٹی باتیں

آپ جانتے ہیں آپ خوش کب رہتے ہیں ؟
جب آپ کے پاس بہت سے پیسے ہوتے ہیں؟ نہیں..
 جب آپ کے پاس بہت سے دوست ہوتے ہیں؟ نہیں..
 جب آپ کے پاس بہت ہی جائیداد ہوتی ہے؟ نہیں..
 جب آپ کی بہت سی بیویاں ہوتی ہیں؟ نہیں..
 جب آپ کے بہت سے بچے ہوتے ہیں, آپ کے بہت سے بیٹے ہوتے ہیں؟ نہیں..
 جب آپکا بہت بڑا ایک گھر یا بہت سے گھر ہوتے ہیں؟ نہیں..🤔 آپ خوش تب رہتے ہیں،
 جب آپ خوش رہنا چاہتے ہیں پھر چاہے آپ چھوٹی سی جھونپڑی میں، ریڑھی لگانے والے ہی کیوں نہ ہوں، جھاڑو لگانے والے ہی کیوں نہ ہوں، چھلیاں بیچنے والے ہی کیوں نہ ہوں، کرائے کے گھر میں ہی کیوں نہ رہتے ہوں،
 آپ خوش رہتے ہیں کیونکہ آپ خوش رہنا چاہتے ہیں اس لیئے آپ چھوٹی چھوٹی باتوں میں سے خوش رہنے کے بہانے ڈھونڈ لیتے ہیں۔
   (چھوٹی چھوٹی باتیں)
        (ممتازملک ۔پیرس)
                 ۔۔۔۔۔۔


جمعرات، 23 نومبر، 2023

نظر بد ۔ اردو شاعری۔ جا میں نے تجھے آزاد کیا

نظر بد
کلام:
   (ممتازملک ۔پیرس)

خدایا ان پر بھی رحم فرما
جو نظر بد کا شکار ہو کر
تمام خوشیاں گنوا چکے ہیں
نگاہ حاسد کی مار ہو کر 

کہ نظر بد وہ بلا ہے جو کہ
لیجائے بندے کو قبر تک اور
ہیں اونٹ ہوتے کباب اس سے
بخیل نیت ہیں  دل کے یہ چور

خدا بچائے تمام لوگوں کو 
نظر بد کی تباہیوں سے
اسی کی لگتی ہے جسکا دل ہو
بھرا ہوا بس سیاہیوں سے

کہیں پہ مرچیں سلگ رہی ہیں
کہیں پہ صدقے دیئے گئے ہیں
معوذالتین اک علاج ربی 
ہے ہولناکی نظر بشر کی 

ہیں کامیابی سے جلنے والے
ترقیوں پر اچھلنے والے
ہے شوق ممتاز ہونے کا پر
بجائے محنت مچلنے والے

خدایا ان پر بھی رحم فرما
خدا ان پر بھی رحم فرما
   ۔۔۔۔۔

پیر، 20 نومبر، 2023

جشن ممتازملک رپورٹ ۔ حصہ دوم


موضوع :مختصر افسانہ حیات

بعنوان : "  مشرق کی بیٹی  "                
راولپنڈی کے شہر  کے ایک متومل و قدامت پسند  گھرانے  پیدا ہونے والی انتہائی شوخ  و چنچل لڑکی جس نے  گورنمنٹ گرلز ہائی سکول سے سیکینڈری کی  تعلیم مکمل کی اور اس کے بعد اس دور میں جہاں  ہزاروں لڑکیوں کی طرح  بیٹوں کو بیٹیوں پر ہمیشہ  فوقیت دی جاتی تھی ۔۔۔۔اور بیٹیوں کے تمام جائز حقوق بھی صلب کر دیے جاتے تھے ۔۔۔ وہی حال اس نازک اندام  دوشیزہ کا بھی ہوا ۔۔۔
معاشرے کی روائیتی انداز کو اپناتے ہوئے ماں باپ نے کالج میں داخلہ لینے سے منع کر دیا اور  گھر بٹھا دیا اور ساتھ یہ تنبیہ کی کہ  گھریلو کام کاج میں ماں کا ہاتھ بٹائے  کیونکہ  زندگی میں ہر لڑکی کو فقط امور خانہ داری میں  ہی ماہر ہونا  لازمی ہے ۔۔  کیونکہ ۔۔۔یہی کامیاب زندگی گزارنے کے  سنہری اصول ہیں  ۔۔۔
اس لڑکی نے ماں باپ کے حکم کو سر آنکھوں ہر رکھتے ہوئے اور  روایات کا بھرم نبھاتے ہوئے پرائیوٹ ہی اپنی باقی  تعلیم مکمل  کی  ۔۔  اور ۔ساتھ ساتھ
  گھر کے نزدیک  خواتین کے مستند  پارلر سے سے حسن و زیبائش  کے ہنر میں بھی باقاعدہ  تربیت  و سند حاصل کی 
ابھی مستقبل میں کچھ کرنے کے خوابوں کو آنکھوں میں سجائے اپنی دنیا میں مگن تھی کہ۔۔۔ایک اور پہاڑ سر پر ٹوٹا ۔۔۔۔ اسے بنا اس کی مرضی جانے شادی کے بندھن میں باندھنے پر زور  دیا گیا ۔۔۔اور جیسا کہ عام طور پر ان موقعوں پر  والدین پیٹیوں کو اپنی پرورش اور اپنی عزت کا واسطہ دے کر انھیں  کچھ کہنے سے پہلے خاموش کرا دیتے  ہیں۔۔۔ اور اگر  کوئی لڑکی  پس و پیش کرے  یا اپنے حق کے لیے کچھ کہنے کی کوشش بھی کرے تو اردگرد کے لوگ  اور قدامت پسند معاشرہ اس کی  بھر پور مخالفت کرتے ہیں ۔۔۔اور  ڈانٹ ڈپٹ اور جھڑکیاں دے کر اس  کی فریاد کو ان سنا کردیتے ہیں ۔۔۔ ۔ 
 سوچنے کی بات ہے کہ ۔۔۔۔ایک لڑکی کے لیے اس کے ماں باپ کا گھر ہی تو اس کے لیے ایک محفوظ قلعہ ہوتا ہے اور جب اس قلعہ میں ہی اسے بندی بنا دیا جائے تو وہ کےکرے ۔۔۔کہاں جائے ۔۔۔
۔۔کس سے فریاد کرے ۔۔۔  کیونکہ روایات اور رسومات  پر احتجاج کرنے پر  ۔۔۔۔عورت کے  قانونی اور شرعی کو کی رد کرنے والا زمانہ  ۔۔۔اسے نافرمان ،نا شکری  اور بگڑی اولاد ۔۔۔۔ کے طعنے دیتا ہے۔۔۔۔۔  
۔۔۔ ایک انکار اور نفرتوں اور طعنوں کی بوچھار۔۔۔۔۔۔ اور ۔۔۔۔پھر رویوں میں سرد مہری کا ماحول ۔۔۔۔ گزرتے وقت نے جہاں اتنے گھاؤ لگائے وہاں زندگی نے ایک نیا موڑ لیا ۔۔۔۔اور یہ اپنے حق کو منوانے کی ضد پر اڑی لڑکی   شادی کے بندھن میں بندھی۔۔۔۔  اس  لڑکی نے ازدواجی زندگی کی ہر خوشی اپنے ہمسفر کو دی  دو بیٹیاں اور ایک بیٹا ۔۔۔اب ان کی پرورش ہی اس کی زمہ داری تھی ۔۔۔اس نے پوری جانفشانی سے ماں باپ کے  گھٹے ماحول سے نکل کر جیون ساتھی کی توجہ اور پیار نے اسے جینے کا حوصلہ دیا  ۔۔۔اور  ۔۔۔قدم قدم پر اس کا ساتھ نبھایا  ۔۔۔ ۔۔گو کہ اس کا دل ماضی کی یادوں سے  چھلنی تھا ۔۔۔۔مگر دھیرے دھیرے یہ زخم مندمل ہونے لگے ۔۔۔ 
۔۔۔وہ  اپنے مقدر کے لکھے کو نصیب جان کر  جیون کی بہتی دھارا میں اپنی زندگی کی ڈولتی کشتی پر سوار  پر ایک  پر سکون ساحل کی تلاش میں  آگے بڑھتی  رہی ۔۔۔۔  بابل کا آنگن چھوٹا ۔۔۔۔ پھر گلی چوبارہ چھوٹا ۔۔اور پھر دیس سے پردیس سدھار گئی۔۔۔ 
مغربی طرز کا نیا ملک ۔۔۔ نئے لوگ ۔۔۔ اطراف میں پھیلی زندگی نے ۔۔۔ اس کے اندر  دوبارہ جینے کا حوصلہ پیدا کیا 
۔۔۔بچے اب دھیرے دھیرے بڑے ہو رہے تھے ۔۔۔ گھر کے کام کاج کے بعد اس کے پاس جو بھی وقت تھا اس نے خود پر توجہ دی اور  اپنی شخصیت کو پوری تندہی و  محنت سے سنوارا ۔۔۔۔  علاقے میں ہونے والی دینی و  دنیاوی تمام سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ۔۔۔ گو کہ یہ مغربی ملک تھا مگر یہاں آکر اسے پتہ چلا کہ عورت  کے حقوق کی وہاں کتنی عزت کی جاتی ہے  اور ۔۔۔۔۔  اپنے دیس میں  عورت کے ساتھ کیسا سلوک کیا جاتا ہے ۔۔۔  ابھی تک کئی  پڑھے لکھے قدامت پسند گھرانے  تک بیٹیوں کو بوجھ سمجھتے ہیں۔۔۔ ۔
پردیس آکر اس لڑکی نے جو اب ایک  ماں اور بیوی کے ساتھ ساتھ  ایک زمہ دار فلاحی ادارے کی بانی و سرپرست بھی بنی ۔ 
 دور بدلا 
 ۔وقت و حالات بدلے ۔۔۔اور ۔۔۔۔ دنیامیں اب الیکٹرانک میڈیا کی آمد پر لوگ ایک دوسرے سے رابطے میں آگئے ۔۔۔  اور پھر دنیا گویا سکڑ کر گویا  ہتھیلی میں سما گئی ۔۔۔ ہم خیال اور ہم مزاج لوگوں کے علمی و ادبی گروپ بنتے گئے ۔۔۔

2010 ء سے اس خوصورت باوقار  خاتون خانہ نے  باقاعدہ شاعری اور لکھانے لکھانے کا آغاز کیا  اور اپنی پہلی شعری تخلیق بنام "مدت ہوئی عورت ہوئے" سے اپنے ادبی سفر کا آغاز کیا ۔ نہ صرف  شاعری میں فن کے عروج کو چھوا بلکہ اپنے قلم کو تلوار بنا کر افسانے، کالم اور معاشرتی اقدار پر  کہانیاں لکھنا شروع کیں۔۔۔ وقت پر لگا کر اڑنے لگا۔۔۔ اپنی علمی و ادبی صلاحیتوں کی بنیاد پر  اب وہ ٹی وی چینلز پر اینکر اور کئی زمینی اور ان لائن پروگراموں اور ادبی محفل کی نظامت میں شب و روز مشغول رہنے لگی ۔۔ اس کے ساتھ ساتھ اس نے اپنا بلاگ بھی بنایا جہاں  سماجی اور اخلاقی موضوعات پر آسان ترین زبان میں ایک عام انداز فکر میں اصلاح معاشرہ کے نقطہء نظر لیکچر بھی دیے 
ان تمام سماجی،فلاحی اور ادبی سر گرمیوں کے ساتھ ساتھ اپنی گھریلو  زمہ داریوں کو بھی بخوبی نبھا رہی ہے
 
 جی یہ تعارف  ہے آج کی شاندار شخصیت جن کے اعتراف کمال فن کے کیے آج ہم سب جشن منا رہے ہیں 
محترمہ ممتاز ملک صاحبہ۔۔۔ تہہ دل سے خراج تحسین پیش کرتی ہوں 
۔۔۔ محترمہ ممتاز ملک صاحبہ کی زندگی کی کہانی ان دیس پردیس میں بسی ان  سینکڑوں لڑکیوں کی کہانی جیسی ہے جو معاشرے میں محض عورت ہونے کی وجہ سے ہر شعبے میں  پیچھے دھکیل دیا جاتی رہیں ۔۔۔
  مگر کہتے ہیں نا کہ وقت ہمیشہ ایک سا نہیں رہتا ۔۔۔۔ اور ہر انسان کو اپنے حقوق کے لیے آواز بلند کرنے کی آزادی حاصل ہے ۔۔۔۔
۔۔  محترمہ ممتاز ملک صاحبہ  نے بھی  حالات سے گھبرا کر ہار نہیں مانی بلکہ ۔۔۔ "دبنگ"ہو کر ہر مشکل اور  طوفان کا مقابلہ کیا ۔۔۔
اپنے غصہ اور تکلیفوں اور بیتے ماضی  کو اپنی شاعری اور اپنے تحریروں میں اتار دیا۔۔۔۔  
۔۔ گو کے ۔۔۔۔اب  آزمائشوں کا  وقت گزر گیا مگر اپنی بیتی زندگی کے تلخ  تجربات کو یاد کر کے آج بھی انکا لہجہ غمگین اور آنکھوں میں نمی آجاتی ہے۔۔
صنف نازک  کا یہی تو کمال ہے کہ اپنے دکھوں کو پال کر جیتی ہے۔۔ 
مگر اپنے عزم و حوصلے کو آگ کی تپش ہر بھی پگھلنے نہیں دیتی ۔۔۔



درج ذیل نظم کو پڑھ کر  محترمہ ممتاز ملک صاحبہ کی شخصیت پر یہ افسانہ "مشرق کی بیٹی " قلمبند کیا 
(عذرا علیم )

"ہائے"

میں تو پیدا ہوتے ہی
اپنے ہی ماں باپ کے ہاتھوں
دنوں میں بوڑھی کر دی گئی

بچپن کے سب کھیل کھلونے
بے فکری اور چنچل پن
میرا کوئی حق نہیں کہہ کر چھین لی گئی

پڑھنا مجھکو اچھا لگتا تھا تو میری ہر کتاب کبھی جلائی اور کبھی وہ پھاڑی گئی

رنگیں آنچل فیشن شوخی
چوڑیاں میک اپ 
پسند تھیں  لیکن مجھ پر حرام وہ کر دی گئی

اپنی مرضی سے جیون کا ساتھی چننا حق تھا میرا
وہ بھی چاہت مجھ سے چھین کے برتی گئی

جو ترکے میں حق تھا اس پر ماں جائے بھی نوچتے اور کھسوٹتے کتے
 ہر دم چارو چاری گئی

کسکو یہ ممتاز سنائے
ہائے میں کیسے روندی گئی
ہائے میں کیسے ماری گئی 
               ۔۔۔۔۔۔
تاج محل کو پیار نشانی کہنے والو 
عورت کو ہر سال سزا دی چاہت کی 

کیسا ہے یہ عشق کہ ساری عمر اس نے 
بچے جن جن قیمت دی ہے راحت کی 

مجھکو اپنی انسانی آزادی پیاری
نہیں تمنا مر کر ایک عمارت کی

 کیسے لوگ ہیں قبروں کو 
چاہت کی نشانی کہتے ہیں
اک عورت درد زہ میں مر گئی 
جسے پیار کہانی کہتے ہیں 

کیا اس پر بیتی چاہت میں 
کوئی نہ کبھی بتلاتے ہیں 

چاہت کے لاشے تاج محل میں کبھی گھمائے جاتے ہیں 

دولت کی نمائش کو مردے
 اندر دفنائے جاتے ہیں 
ممتاز کے غم کو دفنا کر 
پھر جشن منائے جاتے ہیں 

 قلم
ہمیں عزیز تھی حرمت قلم کی جس دم تک
تمام قوموں میں سرتاج سا مقام رہا

زمانے کے لیئے ہوتے ہیں راہنما وہ ہی 
قلم کا ہاتھ میں جن کے سدا قیام رہا

فروزاں  علم و عمل  کے جہاں چراغ رہے
زمانے میں انہیں قوموں کا احترام رہا 

جنہوں نے جان لٹا دی قلم کی حرمت پر
جہان لفظ میں انکے لیئے سلام رہا

سہل نہیں تھی وفاداری سمجھ کر ممتاز 
لبوں پہ جان نکلنے تک ابتسام رہا
---------------------------

ممتاز ملک صاحبہ ان چند خواتین میں سے ہیں جو زندگی کے مشکل  حالات میں بھی حوصلہ سے آگے بڑھیں اور اپنے مقصد کو پانے میں کامیاب ہوئیں    ۔

اب تک آپکی  7 کتابیں منظر عام پر آچکی ہیں .
1۔مدت ہوئی عورت ہوئے(-شعری مجموعہ  2011ء)
2- میرے دل کا قلندر بولے 
 (  شعری مجموعہ    2014ء)
3-  سچ تو یہ ہے 
 (  کالمز کا مجموعہ 2016ء )
4- اے شہہ محترم (صلی اللہ علیہ وسلم)  نعتیہ مجموعہ کلام (2019ء)
5-  "سراب دنیا " (اردو شعری مجموعہ کلام (2020ء).
6. "او جھلیا "۔ (پنجابی شعری مجموعہ کلام ۔ (2022ء)
7- "لوح غیر محفوظ" ۔مضامین کا  مجموعہ (2023ء)
زیر طبع کتب: 8
 الحمداللہ  اس وقت چالیس سے زیادہ ویب نیوز  سائیٹس پر آپکے  کالمز شائع ہو رہے ہیں جن میں 
جنگ اوورسیز ، ڈیلی پکار ، دی جائزہ ، آذاد دنیا،  عالمی اخبار ، اور بہت سے دوسرے شامل ہیں ۔  
💐 اعزازات ۔ 
 ممتاز ملک صاحبہ کی  کتاب سراب دنیا پر ایک ایم فل کا مقالہ ۔ طالب علم نوید عمر (سیشن 2018ء تا 2020ء) صوابی یونیورسٹی پاکستان سے لکھ چکے ہیں ۔ 
1 مقالہ بی ایس کے طالب علم مبین  نے بہاوالدین زکریا یونیورسٹی ملتان سے لکھا ۔سراب دنیا پر
1۔ دھن چوراسی ایوارڈ 
 چکوال پریس کلب 2015ء/
2۔حرا فاونڈیشن شیلڈ 2017ء/
3۔کاروان حوا اعزازی شیلڈ 2019ء/
4۔ دیار خان فاونڈیشن شیلڈ 2019ء/
 5۔عاشق رندھاوی ایوارڈ 2020ء/
6۔ الفانوس ایوارڈ 2022ء/ گوجرانوالہ 
  اور بہت سے دیگر اسناد۔۔۔۔
 ۔ 
  انٹرنیٹ پر   محترمہ ممتاز ملک کا بلاگ جو آپ کے تمام شائع مواد مفت پیش کرتا ہے .
MumtazMalikPairs.BlogSpot.com
آپکی  ویب سائیٹ 
MumtazMalikParis.com
              ●●●
اردو کی سب سے بڑی ویب سائیٹ "ریختہ "اور "اردو پوائنٹ" پر بھی ان کا  کلام موجود ہے ۔  فیس بک ۔ ٹک ٹاک ۔ یو ٹیوب ، گوگل ، انسٹاگرام ، ٹیوٹر پر انھیں  بآسانی  ڈھونڈا جا سکتا ہے ۔

آپکے کلام سے  منتخب اشعار :
 ​​ 
سامان قہر رب ہے بپا جو نہ پوچھئے
    رشتے گزر رہے یوں دامن درید کر 
رفتار سست ہے تیری گفتار تیز ہے
دعووں میں کچھ عمل کااضافہ مذید کر
اپنے پروں پہ کر کے بھروسہ تو دیکھئیے 
اونچی اڑان کے لئے محنت شدید کر
         ____________ 

شیر و  مکھن میں نہ تھا حصہ کوئی 
میری خاطر  ماں نے لیکن چھاج رکھ لی

ہے محض ممتاز دھوکہ سوچ کا تو 
اک غلامی تھی بنام راج رکھ لی
________________

اسی دعا کے ساتھ کہ اللہ کرے ہو زور قلم اور زیادہ ۔۔۔

عذرا علیم 
مسقط عمان

شاعرہ،ادیبہ،۔نظامت کار ،کالم نویس،افسانہ /افسانچہ نویس،تبصرہ /تجزیہ نگار 
  نائب مدیرہ
(مجلہ "افسانہ نما" )
                ۔۔۔۔۔۔



         

ہفتہ، 18 نومبر، 2023

عورت کیخلاف جرائم۔ کالم

عورت کے خلاف جرائم
تحریر:
(ممتازملک ۔پیرس)

آئے روز ہمارے اردگرد کہیں عورت گھریلو تشدد کا شکار ہے کہیں گولی مار کر اسے بدکردار ثابت کیا جاتا ہے، کہیں تیزاب گردی ہے اور کہیں اس کا اغوا اور آبرو ریزی، کہیں کاری تو کہیں (توہین قرآن کی سب سے بڑی اعلانیہ و فخریہ رسم) قرآن سے شادی،  آگ لگا کر مار ڈالنا،  کی خبریں اس تواتر کیساتھ سامنے آتی ہیں کہ سننے والے بھی اسے سن سن کر بے حسی کی اس منزل تک پہنچ چکے ہیں کہ انہیں اب یہ جرائم زبانی جمع خرچ سے زیادہ نہ تو جرائم لگتے ہیں اور نہ ہی قابل سزا۔
اور تو اور ہمارے معاشرے کے پڑھے لکھے اور بااثر اور بارسوخ کہلانے والے افراد بھی زیادہ تر ان جرائم میں ملوث ہیں ۔  اکثر ایسے واقعات میں ان کی رپورٹنگ اور ویڈیوز کے نیچے دی گئی آراء اور کومنٹس پڑھیں تو آپ پر یہ بات ثابت ہو جائے گی کہ عورت ہی بری تھی کیا ہوا اگر اسکی شادی اسکی مرضی کے خلاف اسکا باپ  کروانے جا رہا تھا ، پھر کیا ہوا اگر اسکا بھائی اس کی جائیداد پر حق جما رہا تھا اسے برداشت کرنا اور اسے معاف کر دینا چاہیئے تھا۔ یہ کیوں اپنے حق کا شور مچاتے کھڑی ہو گئی، بھائی کی غیرت کو کیوں للکارا ۔ پھر کیا ہوا  اگر اس کا شوہر اسے پیٹتا تھا یہ کیوں کسی کو بتانے گئی،  پھر کیا ہوا کہ اس کے بیٹے نے اسے مار ڈالا اسے اس بیٹے کی غیرت اور مرضی کے مطابق چلنا چاہیئے تھا ۔ 
ان سب سے ثابت ہوتا ہے کہ ہمارے معاشرے کا بس مرد ہی غیرتمند ہے، باکردار ہے اور عقلمند ہے ۔ جبکہ عورت ؟؟؟ اور اسی بے غیرت ، بدکردار اور بے عقل عورت سے وہ خود بھی پیدا ہوا ہے اور اپنے جیسے پیدا بھی کر رہا ہے۔۔۔ 
ہمارے معاشرے کی عورت کو سب سے زیادہ خطرہ ان مردوں سے ہوتا ہے، جن کے رشتوں سے انہوں نے انکار کیا ہو یا جن سے علیحدگی خلع یا طلاق کی شکل میں اختیار کی ہو ۔
یہ عورتیں ساری عمر ان ناکام مردوں کے نشانے پر رہتی ہیں ۔ان کا خیال آتے ہی انہیں اپنی نام نہاد مردانگی پامال ہوتی دکھائی دیتی ہے ۔ جب تک وہ ان کے رشتے میں رہیں انہوں نے انہیں اذیتناک زندگی دی اور جب وہ ان سے دامن چھڑا کر انہیں لات مار کر انکی زندگی سے نکل گئیں تو انکے لیئے ایک چیلنج بن گئیں ۔ کہ اس عورت کو مرتے دم تک چین سے نہیں رہنے دونگا ۔ 
یہ انکی کوئی محبت نہیں ہوتی کہ وہ انکے لیئے مرے جا رہے ہوتے ہیں بلکہ یہ انکی وہ شرمناک سچائی ہوتی ہے جس کا کھلنا انہیں برداشت نہیں ہوتا کہ وہ نہ تو اچھا انسان ہے اور نہ ہی اچھا شوہر۔ یہ داغ دو طریقے سے دھویا جا سکتا ہے یا تو اس خاتون کا صفایا کر دو جو کہ انکی عزیمت کے لیئے تمام عمر کوشاں رہتی ہے اور دوسرا طریقہ وہ مثبت انداز فکر ہے جس کے تحت نہ صرف وہ خود زندگی کے اس موڑ سے آگے بڑھ جاتے ہیں بلکہ کسی اور کوشریک حیات بنا کر ایسی مثالی زندگی گزارتے ہیں کہ وہ چھوڑ جانے والی  کبھی سچی بھی تھی تو ساری دنیا کے سامنے جھوٹی ثابت ہو جاتی ہے۔ لیکن یہ طرز عمل اپنانے والے مردوں کی تعداد ہمارے معاشرے میں آٹے میں نمک کے برابر ہے ۔ اس کی ایک بڑی وجہ وہ ماحول اور غلط تربیت ہے جس کے تحت مرد کے احساسات کو "مرد کو درد نہیں ہوتا، اور مرد روتا نہیں ہے، قسم کے  لایعنی تصورات کے نیچے دبا دیا جاتا ہے۔ جہاں اس کے لیئے اس درد کو بیان کرنے کا آسان طریقہ ایک ہی مل پاتا ہے وہ ہے کسی عورت کو اس کی زندگی میں ایک "پنچنگ بیگ" کے طور پر شامل کر دیا جائے ۔ وہ چیخ جو وہ کہیں نہیں مار سکتا اس عورت کو مغلظات کے طور پر اس پر دے مارے گا ۔ اور وہ مکا جو وہ اپنے کسی دشمن پر, رشتے پر نہیں برسا پاتا وہ پنچنگ بیگ بنام بیوی پر آ کر برساتا ہے ۔ اور اگر یہی مکے برسائے جانیوالا تھیلہ (پنچنگ بیگ) ہی آگے سے اپنے زندہ ہونے اور درد ہونے کی صدا بلند کرنے لگے تو وہ اسے کیونکر برداشت کر پائے گا ۔ پڑھائی میں ہی نہیں , سمجھ بوجھ میں بھی مردوں کی اکثریت اپنی بیوی سے کم ہوتی ہے، جس کے سبب وہ اسے اپنی غیرت پر تازیانہ شمار کرتا ہے۔ بدلے میں وہ اپنی قابلیت بڑہانے کے بجائے اپنی طاقت کو اپنی بیوی کی قابلیت تباہ کرنے پر مرکوز کر دیتا ہے ۔ اسی لیئے معاشرے پر نگاہ دوڑائیں تو آپ جان جائیں گے کہ اپنی گھر کی، اپنے خاندان کی سب سے لائق فائق، سمجھدار، ذہین ترین لڑکی شادی کے رشتے میں بندھتے ہی کیوں اور کیسے چند برسوں میں ہی نکمی، بیوقوف ، پاگل اور ذہنی مریضہ قرار دے دی جاتی ہے کیونکہ وہ ایسی تھی نہیں بلکہ  بنا دی جاتی ہے ۔ اور اکثر اسی  "ذہنی مریضہ" بنائی گئی لڑکی سے وہ خودساختہ قابل ترین مرد اپنے جیسے قابل ترین بچے پیدا کرنے کی مہم پر بھی روانہ رہتا ہے ۔ گویا چنے کے جھاڑ سے آم اگانا چاہتا ہے۔  عورت کو مرد کے اندر کے اس شیطان سے بچانا ہی معاشرے کو ایک صحت مند ماحول اور نسل دے سکتا ہے ۔ یہ سب کچھ کرنا یا ہوتا دیکھ کر مجرمانہ خاموشی اختیار کرنا اور پھر اپنی بیٹیوں کے لیئے نیک نصیب کی دعا کرنا خدا کو دھوکا دینا ہے یا خود اپنے آپ کو ؟
                 ---------

جمعرات، 16 نومبر، 2023

جشن ممتازملک ۔ رپورٹ ۔حصہ اول

15 اکتوبر 2023ء

آج میری زندگی میں میرے نام کا پہلا جشن منعقد کیا گیا ۔ جس کا سہرا گلوبل رائیٹرز ایسوسی ایشن اٹلی اور بزم اصحاب قلم بدایوں بھارت کے سر رہا ۔ جس کی سرپرست اعلی محترمہ زیب النساء زیبی صاحبہ ، منتظم اعلی جناب چوہدری محمد نواز گلیانہ صاحب اور ڈاکٹر کمال اختر صاحب ،جناب ہدایت بدایونی 
آج محفل سجی ممتاز کی
آؤ باتیں کریں ان کے اعزاز کی
اپنے فن میں یہ ممتاز ہیں، کیا کہیں
ان کے اعلی نظامت کے انداز کی
دے رہے ہیں ہدایت انہں یہ دعا
دنیا چرچہ کرے ان کے پرواز کی
ہدایت بدایونی
               -------

[15/11, 20:15] +92 301 8202113: جشنِ ممتاز ملک۔۔۔  15/11/2023
‌خواتین و حضرات گلوبل ولیج کے تیزی سے بدلتے اختراعی منظر نامے میں اختصار  ہی اظہار کی کنجی ہے۔
ممتاز ملک کیلئے ایک سطر لکھنی ہو تو یہ لکھا جا سکتا ہے۔۔۔۔
" ممتاز ملک ایک ہمہ جہتی شخصیت کی حامل انتہائی متحرک با اعتماد محبّ وطن قلم کار اور شاعرہ ہیں۔"
ممتاز کے منتخہ کلام سے۔۔۔
ہم تو ہیں خلوص کے شیدائی
یہ جذبوں کا بیوپار نہ کر
صدیوں میں بنائی ہے عزّت
لمحوں میں اسے بیکار نہ کر۔۔۔۔۔۔۔

اپنےپروں پہ کرکے بھروسہ تو دیکھیے
اونچی اڑان کے لیے محنت شدید کر
دنیا بدل رہی ہے میرے اے دروغ گو
جدٌت پسند بن تو بہانے جدید کر۔۔۔۔۔۔۔۔۔
قلم کی حرمت پر کہا!
فروزاں علم و عمل کے جہاں چراغ رہے
زمانے میں انھیں قوموں کا احترام رہا۔۔۔

مندرجہ بالا اشعار شاعرہ کے فکری آہنگ اور ادراک کی علامت ہیں۔
دریا کو کوزے میں بند کرنے کی حکمتِ عملی کے تناظر میں ممتاز کی شاعری پر غیر روایتی تبصرہ درجِ ذیل ہے۔

ممتاز کا اسلوب سادہ کاری پر محیط ہے۔ مضامین کو سہل اور اثر انگیز  انداز میں باندھنے کی کاوش گزار ہیں۔۔۔۔ اور کسی حد تک قاری تک ان کی کہی بات کا ابلاغ موثر طریقے پر ہوتا نظر آتا ہے۔ 
شعری نزاکتوں اور منجملہ محاسن کی بات کی جائے۔۔۔تو بات دور تلک جاتی نظر آتی ہے۔ عروض کے معاملات ماہر عروض جانیں۔ اگر شاعر مضامینِ نو کا ابلاغ موثر طریقے سے کرنے میں کامیاب ہو جاۓ تو قاری کی توجہ حاصل کر لیتا ہے ۔۔۔۔۔اور عمر چاہیے ریاضت کو زیست کم ہے۔۔۔۔۔سخن کی شہسواری کے لیئے۔
ممتاز کے ہاں برجستگی اس اداۓ وقار کے ساتھ ہے کہ وہ قاری کو اپنی سحر میں لینے کا ہنر جانتیں ہیں۔ اس جانکاری میں ان کے ذاتی زندگی کے واقعات، مشاہدات اور سماجی تجربات نے عمل انگیز  کا کام کیا ہے۔ کہ دانہ خاک میں مل کر گلِ گلزار ہوتا ہے۔ ان کا اسلوب اور شعری سفر ارتقائی منازل میں ہے ۔۔۔ تاہم یہ اپنے اندازِ بیان اور فطری تکلم سے شعری لطافتوں کو اس طرح رقم کرتی دکھائی دیتیں ہیں کہ شعریت میں ارتقائی نوید  ناقد بھی محسوس کئے بغیر نہیں رہ سکتا۔
میں اس موقعے پر انھیں مبارک باد پیش کرتا ہوں اور اپنے دعائیہ اشعار اس جشن کی مناسبت سے ان کے لیئے  موزوں کرتا ہوں۔

کبھی کرن کبھی تم آفتاب بن جانا
شبابِ گُل کبھی دلکش رباب بن جانا
سجانا گلشنِ ہستی کو غنچہ و گل سے
مہکنا ایسے کہ تازہ گلاب بن جانا
صمیمِ قلب سے الفت پیام لکھ لکھ کر
جہانِ تازہ میں تم ماہتاب بن جانا
ورق ورق جہان اخلاص ہو محبت ہو
تپاکِ جاں سے تم ایسی کتاب بن جانا
کبھی کسی کا دُکھانا نہ دل خیال رہے
خلوص و پیار میں تم بے حساب بن جانا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 
شجاع الزّ ماں خان شآد
سعودی عرب ۔۔۔۔ ریاض
[15/11, 22:58] +1 (773) 505-4900: قطعہ تہنیئت
ناظمہ بے حد ہیں اچھی باخدا
شاعری میں انکا ہے اونچا مقام
ہے درخشاں انکے دم سے انجمن 
رکھئے ممتاز ادب ہی انکا نام
رشید شیخ شکاگو
               
                -------
میں اس مشاعرے میں شرکت نہیں کر سکی کہیں مصروف تھی لیکن یہ قطعہ آپ کے لئے ہے
مشہور ہیں مقبول ہیں ممتاز آپ ہیں
الفاظ ہیں شاعر کے تو آواز آپ ہیں 
چہرے پہ تبسّم ہے نگاہوں میں تکلم
لہجے میں کھنکتا ہوا اک ساز آپ ہیں
ر(خسانہ راحت) کراچی۔
 نعت گو نعت خواں ۔ شاعرہ
                -------
بزم اصحاب قلم بدایوں۔انڈیا
گلوبل رایڑز ایسوسی ایشن ۔اٹلی
کے زیر اہتمام ۔
بتاریخ 14 نومبر 2023

. . . . . . . .جشن۔ممتاز ملک ۔۔۔۔۔ 

فکرو فن کا گلستاں ممتاز ہے
شاعری کی روح و جاں ممتاز ہے۔

جس نے بخشسی ہے غزل کو زندگی
اب ادب میں نغمہ خواں ممتاز ہے 

شہپر  پرواز شل ہو جائے گا 
کوئی کیا پہنچے جہاں ممتاز ہے 

ہر ورق پر تیری فنکاری کے پھول 
داستاں در داستاں ممتاز ہے 

تو ہے تہذیب و ادب کی زندگی 
تو ہی میر کارواں ممتاز ہے 

کاش اس کی خیریت بہتر رہے 
شاعروں کے درمیاں ممتاز ہے 

وہ فن پاروں کا سرمایہ عظیم 
تجھ میں جو زور بیاں ممتاز ہے

ریختہ اردو پواینٹ میں رضی 
دیکھتے ہیں ضوفشاں ممتاز ہے

ڈاکٹر رضی امروہوی ۔انڈیا
              ۔۔۔۔۔۔
شعر کے کہنے میں ممتاز ہیں ممتاز ملک
آج کی صاحب اعزاز ہیں ممتاز ملک
شکر کرتی رہیں رب کا کہ ہے رحمت اسکی
رب کی بخشی ہوئی آواز ہیں ممتاز ملک
جشن ان کا جو مناتے ہیں حقیقت ہے یہی
سخن قلب کی پرواز ہیں ممتاز ملک
(محسن علوی ۔امریکہ)
              -------

جمعرات، 9 نومبر، 2023

& چاند ڈوب گیا ۔ افسانہ۔ سچی کہانیاں۔ قطرہ قطرہ زندگی


چاند ڈوب گیا
 تحریر: 
         (ممتازملک ۔پیرس)

نہ بھئی نہ لڑکی کی ناک دیکھی ہے طوطے جیسی۔  مجھے تو میرے بیٹے کے لیئے ایسی لڑکی دکھاؤ کہ ہر جاننے والے کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ جائیں ۔
سکندر کی ماں رقیہ نے لڑکی کی تصویر کو نخوت سے میز پر پٹختے ہوئے کہا ۔۔
رشتے دکھانے والی رضیہ تو جیسے جل بھن کر رہ گئی ۔ اس کے جی میں تو آئی کہ بی بی شہر کی پچاسویں لڑکی ہے جو ایک سے ایک خوبصورت اور قابل تعلیم یافتہ ہے تمہیں دکھا چکی ہوں اور تم ہو کہ پروں پر پانی ہی نہیں پڑنے دیتی۔ لیکن   پھر کچھ سوچ کر خون کے گھونٹ پی کر رہ گئی۔ 
دیکھو رقیہ بہن میں جانتی ہوں کہ صرف میں ہی نہیں ہوں جس سے تم رشتے دیکھ رہی ہو ، بلکہ اس شہر کے ہر میرج بیورو اور ہر رشتے کرانے والی کے پاس سے تمہیں رشتے دکھائے جاتے ہیں ۔ اب تو لوگ تمہارا نام سنتے ہی پہلے ہی منع بھی کر دیتے ہیں کہ نہیں بھائی اس خاتون کو مت لانا اس سے ہم پہلے ہی مل چکی ہیں اس کے تو بہت نخرے ہیں ۔ 
آخر تم ایک ہی بار بتا دو کہ تمہیں اپنے بیٹے کے لیئے کیسی لڑکی چاہیئے ۔ پانچ سال سے تم اس شہر کا ہر گھر گھوم چکی ہو ۔ کہیں دوپہر کے کھانے کھاتی ہو  اور کہیں رات کی دعوتیں اڑاتی ہو۔  
رقیہ بیگم بھڑک کر ہاتھ نچاتے ہوئے بولی آئے ہائے میرا بیٹا کوئی گیا گزرا نہیں ہے چاند کا ٹکڑا ہے ۔اچھا کماتا ہے ۔ گھر بار والا ہے ایسے ہی کوئی بھی بن بتوڑی تھوڑی اٹھا کر لے آؤں گی اپنے بیٹے کے لیئے ۔ 
خدا کا خوف کرو رقیہ بیگم۔ اس تین مرلے کے گھر میں رہتی ہو۔ اور بنگلوں والی لڑکیاں تک تم مسترد کر چکی ہو ۔ بیٹا تمہارا رنگ روپ دیکھ لو تو دوسری بار کوئی ملنا نہ چاہے اور تم ہو کہ ہر ایک کی بیٹی میں عیب نکالتے نکالتے گھر میں بیٹے کو پینتیس سال کا کر چکی ہو۔
ارے پینتیس کا ہے تو کیا ہوا لڑکی تو میں بڑے گھر سے چاند کا ٹکڑا ہی لیکر آؤنگی ۔ جو کار کوٹھی ڈگری سب کچھ لیکر آئے گی اور ہاں دیکھ لینا ہاتھ باندھ کر میرے سامنے چاکری کرے گی ۔۔ بیس سے اوپر تو ایک دن کی بھی نہ ہو۔ ہاں نہیں تو ۔۔۔
ہائیں ۔۔۔
رضیہ کا تو حیرت سے منہ کھلے کا کھلا رہ گیا 
اسے پورا یقین ہو چلا تھا کہ رقیہ بیگم کا دماغی توازن جواب دے چکا ہے ۔ اس نے اپنی چادر سمیٹی اور پلیٹ میں رکھے تینوں سموسے ہاتھ میں اٹھائے اور چلتے ہوئے بولی۔۔۔
اچھا رضیہ بیگم کسی کارخانے میں تمہاری مرضی کی بہو آرڈر پر تیار ہو گئی تو مجھے بھی شادی کی دعوت دینا مت بھولنا۔۔ چلتی ہوں اللہ حافظ
رقیہ نے دروازہ بھیڑتے ہوئے چاہا تو کہ یہی دروازہ اس رقیہ کے سر پر دے مارے لیکن اپنی پیشہ ورانہ مصلحت کے سبب دل مسوس کر رہ گئی۔ 
اس کے جاتے ہوئے سامنے سے رکشے سے اترتا ہوا سکندر ملا ۔ سوکھا سڑا سا، پکا رنگ، اپنی عمر سے بھی دس سال بڑا دکھائی دیتا ہوا۔ یہ مرد اسے لڑکا تو کہیں سے نہیں لگا ۔اسے دیکھتے ہی رضیہ کی آنکھوں میں وہ تمام حسین و جمیل کم سن بہترین تعلیم یافتہ لڑکیوں کے سراپے گھوم گئے جنہیں ایک کے بعد سکندر کی ماں نے اپنے اس چاند سے بیٹے کے لیئے ٹھکرا دیا تھا ۔ جبکہ گھروں میں دو دو چار چار کنواری بیٹیوں کے بیٹھے ہونے کے سبب انکے والدین اس جیسی شکل و صورت اور حیثیت والے کو بھی داماد بنانے کو تیار تھے لیکن رقیہ بیگم شاید اپنے بیٹے کو بیاہنا ہی نہیں چاہتی تھی۔
پچھلے دس سال سے یہی بیٹا لیئے وہ ہر گھر میں کبھی دوپہر اور کبھی شام دعوتیں اڑا رہی تھی شادی کر دیتی تو پھر یہ دعوتوں کے مزے کہاں سے پورے ہوتے۔

رقیہ بیگم خدا کا خوف کرو جس بیٹے پر اتنا گھمنڈ کر رہی ہو اور دوسروں کی عزتیں اچھالتی پھرتی ہو کہیں وہ تمہارے دل کا روگ ہی نہ بن جائے ۔
رضیہ بیگم نے اسے آئینہ دکھانے کی کوشش کی تو رقیہ ںی تو جیسے ہتھے سے ہی اکھڑ گئیں۔
ارے جاؤ جاؤ بڑے آئے ہمیں روگ دینے والے ۔
منیزہ کی بیٹی کو دیکھ کر لٹکتی مٹکتی رقیہ بی  ہر بات میں کیڑے نکالتی ہوئی باہر نکلیں تو اس کی نظر سکندر سے چار ہوئی ۔
 گھر سے باہر کھڑے سکندر پر ایک نظر ڈال کر دوسری نظر جب اپنی بیٹھک کے پردے کے ساتھ لگی کھڑی اپنی حسین اور قابل بیٹی پر نگاہ پڑی تو جیسے کانپ کر رہ گئی ۔ کوئی جوڑ نہیں تھا ان کا انکی بیٹیاں پڑھ لکھ کر کسی قابل بننا چاہتی تھی اور عمیر صاحب کی آنکھوں میں  ان کا گھر بسانے کا سپنا انہیں سونے نہیں دیتا تھا ۔
 دو موٹے موٹے آنسو ان کی آنکھوں سے بے ساختہ بہہ نکلے۔
مغرور رقیہ بیگم نے رکشے والے کو پیسے ادا کیئے اور سڑک پار کرنے کو مڑی ہی تھیں کی سکندر جو اپنے ہی خیالوں میں سڑک پار کر رہا تھا ایک تیرفتار گاڑی کی زد میں آ گیا ۔ گاڑی کی ٹکر سے وہ دور جا گرا رقیہ بیگم کے تو جیسے اوسان خطا ہو گئے ۔
وہ گرتی پڑتی ہانپتی کانپتی اپنے زخمی بیٹے تک پہنچتی کہ وہاں اکٹھی ہوتی بھیڑ میں سے کسی کی آواز اس کے کانوں سے ٹکرائی۔ 
بیچارے کو گاڑی نے اڑا دیا۔ موقع پر دم توڑ دیا ہے ۔ پھر بھی اسے ہسپتال پہنچاؤ یار ۔۔
اس کے بعد رقیہ بیگم بیٹے تک پہنچنے سے پہلے ہی بے ہوش ہو چکی تھی۔ 
دونوں کو ایک ہی ایمبولینس میں ہسپتال پہنچایا گیا اس کا غرور چور چور ہو کر لاش کے طور پر اسٹریچر پر تھا تو ماں اس کی موت کا غم اٹھانے کو بیہوش دوسرے سٹریچر پر۔ اس کا کالا مریل بد صورت چاند کا ٹکڑا ڈوب چکا تھا جس نے اسے پچھلے دس سال سے اس شہر کی ہر جوان لڑکی کے گھر کی آنکھ کا تارا اور مہمان خصوصی بنا رکھا تھا ۔ 
               -------

اتوار، 22 اکتوبر، 2023

فرمانبردار ۔ افسانچہ۔ مختصر کہانی


فرمانبردار 

ارے کیا ہو گیا، کیوں بات کا پتنگڑ بنا رہی ہے ۔ اتنے اچھے ساس سسر ہیں تمہارے ۔ اتنا فرمانبردار بیٹا ہے انکا، اورکیا چاہیئے تمہیں؟ زرینہ نے میکے آئی ہوئی ناراض بیٹی کو سمجھانا چاہا۔امی یہی تو مسئلہ ہے۔ صومانہ تڑپ کر بولی ۔ایسے والدین پکے دوزخی ہوتے ہیں جو گھر کی ایک اولاد کو اسکی فرمانبرداری کے سبب نوکر بنا کر اپنے ہڈ حرام لاڈلوں کا بوجھ سارے عمر کے لیئے انکے گلے ڈال دیتے ہیں ۔ ایسے بیٹوں کی بیویاں بھی گھروں میں نوکرانیاں بنا لی جاتی ہیں اور ساری عمر ذلیل کی جاتی ہیں۔ ایسے فرمانبردار لڑکوں کے ساتھ کبھی شادی نہیں کرنی چاہیئے ۔ وہ کبھی اپنی بیوی کے اچھے شوہر نہیں بن سکتے۔

انکے لاڈلے بیٹے مفت کا کھاتے ہیں،عیش کرتے ہیں اور سارے گھر پر دھونس بھی جماتے ہیں ۔ اپنی بیٹیوں کا سکھ چاہیئے تو اسکا رشتہ گھر کے لاڈلے بیٹے کو دیں کیونکہ وہ اپنی بیوی کے بھی لاڈ اٹھوا سکتا ہے ۔ جبکہ فرمانبردار تو اپنی بیوی کو اپنے گھر والوں کے ظلم سے بچانے کے لیئے پھس بھی نہیں کر سکتا۔ امی اگلی بیٹی کا رشتہ سوچ سمجھ کر دینا۔ کمرہ دیر تک اس کی اسی بات سے گونجتا رہا۔۔

       (ممتازملک ۔پیرس)

                ۔۔۔۔۔۔

آٹے میں نمک ۔افسانچہ۔ مختصر کہانی

آٹے میں نمک

فیاض نے روٹی کا لقمہ منہ میں رکھتے ہی تھوک دیا۔ اپنی بیوی میراں کے منہ پر کھانے کی ٹرے مارتے ہوئے اسے روئی کی طرح دھنک دیا۔ بدبخت عورت اتنا نمک ہے روٹی میں کہ زہر کر ڈالا ہے۔ تجھے آٹے میں نمک کا بھی اندازہ نہیں ہے نکمی عورت۔ منہ سے جھاگ اڑاتا ہوا فیاض تو گھر سے باہر نکل گیا،کسی ہوٹل پر کھانا کھانےکو، اور میراں نے دس سالہ بیٹی مومنہ کو بانس کے جھاڑ کے دستے سے مار مار کر ادھ موا کر دیا ۔جب تھک گئی تو باقی غصہ اتارنے کے لیئے نمک بھری روٹی کے نوالے بنا بنا کر زبردستی اس کے منہ میں ٹھونسنا شروع کر دیا۔ وہ آدھ مری بچی اکھڑے سانسوں کیساتھ ہاتھ جوڑتی رہی لیکن میراں نے بھی اسے غلیظ ترین گالیوں سے نوازتے ہوئے اگلے سات روز تک اسی آٹے کی روٹی بنا کر کھلائی۔ کیونکہ میراں تو روزانہ سہیلیوں سے گپیں لگانے بیٹھ جاتی تھی گھر کے سارے کام تو اس بچی مومنہ سے کرواتی تھی جھاڑو پونچھا آٹا گوندھنا اسکے چھوٹے چھوٹے ہاتھوں کا فرض تھا کیونکہ اسکا جرم تھا کہ وہ اسکی کوکھ سے جنمی تھی۔ 
                 ۔۔۔۔۔۔

پر کٹی۔ افسانچہ۔ مختصر کہانی

پر کٹی

ملک سے باہر آئے کئی سال گزر چکے تھے وہ خود کو اپنی شخصیت کو نیا رنگ دینا چاہتی تھی اس نے آئینے میں دیکھ کر سوچا کیوں نہ اپنے بال کاٹ کر دیکھوں ۔اس نے قینچی اٹھائی اور اپنے لمبے بالوں کو کندھے کے برابر کاٹ کر خود کو دیکھا تو خوش ہو گئی۔ ارے واہ میں اتنی اچھی لگوں گی معلوم ہوتا تو کب سے یہ روپ اپنا لیتی۔ 
اگلے روز ایک محفل میں اس کی شرکت پر پہلے سے کئی پرکٹی خواتین کو اس کا اچھا لگنا، اتنا اچھا نہ لگا، تو ایک جل ککڑی سب کے سامنے کمینی سی ہنسی کیساتھ تبصرہ کر ہی بیٹھی،
 ارے واہ تم نے تو اپنے رنگ ڈھنگ ہی بدل لیئے۔ ایسا نہ ہو کل ہم سنیں کہ تم تو ساحل سمندر پر بکنی پہنے دراز تھی ھی ھی ھی ۔
 یہ سنتے ہیں وہ بلبلا اٹھی اور مسکرا کر بولی کہ
 فکر مت کیجئے بھابھی جی میں آپکے والے کام ہر گز نہیں کرونگی ۔ 
کہنے والی تو سٹپٹائی ہی لیکن سننے والیوں کے قہقہے دور تک سنے گئے ۔
                 ۔۔۔۔۔۔

ہفتہ، 21 اکتوبر، 2023

ہائے ۔ نظم۔ جا میں نے تجھے آزاد کیا



ہائے

میں تو پیدا ہوتے ہی
اپنے ہی ماں باپ کے ہاتھوں
دنوں میں بوڑھی کر دی گئی

بچپن کے سب کھیل کھلونے
بے فکری اور چنچل پن
میرا کوئی حق نہیں
 کہہ کر
مجھ سے چھین لی گئی

پڑھنا مجھکو اچھا لگتا تھا
 تو میری ہر کتاب
 کبھی جلائی جاتی تھی اور
 کبھی وہ پھاڑی گئی

رنگیں آنچل فیشن شوخی
چوڑیاں میک اپ 
پسند تھیں  لیکن
 مجھ پر حرام وہ کر دی گئی

اپنی مرضی سے جیون کا 
ساتھی چننا حق تھا میرا
وہ بھی چاہت مجھ سے
 چھین کے خود ہی برتی گئی

جو ترکے میں حق تھا اس پر
 ماں جائے بھی نوچتے اور کھسوٹتے کتے
 ہر دم چارو چاری گئی

کسکو یہ ممتاز سنائے
ہائے میں کیسے روندی گئی
ہائے میں کیسے ماری گئی 
   ۔۔۔۔۔۔

جمعرات، 19 اکتوبر، 2023

حقیقت ۔ کوٹیشنز

حقیقت 
حقیقت کی حقیقت ہی یہی ہے کہ یہ  اکثر تلخ ہوتی ہیں ۔
(چھوٹی چھوٹی باتیں)
(ممتازملک ۔پیرس)

فرمانبردار ۔ کوٹیشنز

فرمانبردار 

ایسے والدین پکے دوزخی ہوتے ہیں جو گھر کی ایک اولاد کو اس کی فرمانبرداری کے سبب نوکر بنا کر اپنے ہڈ حرام لاڈلوں کا بوجھ سارے عمر کے لیئے انکے گلے ڈال دیتے ہیں ۔ جبکہ ایسے فرمانبردار بیٹوں کی بیویاں بھی گھروں میں نوکرانیاں بنا لی جاتی ہیں اور ساری عمر زلیل کی جاتی ہیں ۔ ایسے فرمانبردار لڑکوں کے ساتھ کبھی شادی نہیں کرنی چاہیئے ۔ اپنی بیٹیوں کا سکھ چاہیئے تو اس کا رشتہ گھر کے لاڈلے بیٹے کو دیں کیونکہ وہ اپنی بیوی کے بھی لاڈ اٹھوا سکتا ہے ۔ جبکہ فرمانبردار تو اپنی بیوی کو اپنے گھر والوں کے ظلم سے بچانے کے لیئے پھس بھی نہیں کر سکتا۔

(چھوٹی چھوٹی باتیں)

(ممتازملک ۔پیرس)

                 ۔۔۔۔۔۔

بدھ، 4 اکتوبر، 2023

اصول اور ضد۔ کوٹیشنز۔

اصول اور ضد
اصول میں اور ضد میں بہت فرق ہوتا ہے ۔ اصول زندگی کو ایک متوازن پٹری پر رکھنے کیلیئے بنائے جاتے ہیں جبکہ ضد اپنی انا کو بلند رکھنے کیلیئے۔ اس لیئے زندگی گزارنے کے کچھ اصول بنائیے جہاں وہ اصول کسی اچھی بات سے ٹکرانے کا خدشہ ہو تو اپنے اصولوں میں اس اچھی بات کو اپنانے کی لچک پیدا کریں ۔ یہی آپکی کامیابی ہے۔
(چھوٹی چھوٹی باتیں)
   (ممتازملک۔پیرس)

اتوار، 1 اکتوبر، 2023

◇ فون ‏پہ ‏باتیں ‏/ ‏نظم۔ جا میں نے تجھے آزاد کیا

       فون پہ باتیں
           

ایک ہی شہر میں رہتے ہیں مگر برسوں سے
کوئی بھی بات ملاقات نہیں ہو پاتی
شکر ہے شادیاں تہوار ہی آ جاتے ہیں 
شکل اک دوسرے کی دیکھنے کو مل جاتی 
دل کی باتوں سے زرا دل یہ سنبھل جاتا ہے 
ورنہ سمجھاؤں میں جتنا بھی مچل جاتا ہے 
ویسے تو فون بھی ہے مفت میں ہمکو حاصل 
جیسے ٹہرا ہو سمندر اور سوکھا ساحل
سامنے بیٹھ کے ملتا جو مزا باتوں کا
فون پر لطف کہاں ایسی ملاقاتوں کا
اب مزا ایسا کہاں یار وہ مل پاتا ہے
سوچ کا پر  تو کہیں راہ میں جل جاتا ہے
کیا کیا جائے مگر جب سے کرونا آیا 
یہ بہانے بھی گئے اس پہ تو رونا آیا 
                   ●●●     


اتوار، 24 ستمبر، 2023

ڈاکٹرمحمد اسلم ‏پرویز کی ‏کتاب ‏رباعیات ‏پر ‏تبصرہ ‏/ ‏تبصرے


رباعی شاعری کی وہ صنف ہے جس میں چار مصروں میں کسی بھی بات کا نچوڑ پیش کیا جاتا یے ۔  بلاشبہ یہ ایک مشکل صنف یے اور اس میں ماضی ہو یا حال، چیدہ چیدہ شعراء کرام کا کام ہی دیکھنے کو ملتا ہے ۔ ایسے میں ڈاکٹر محمد اسلم پرویز جیسے شاعر کا کام دیکھنے کو ملا جو کہ اعلی تعلیم یافتہ ہیں اور بے حد حساس طبیعت کے مالک ہیں ۔ ان کی رباعی سے دلچسپی کا یہ عالم ہے کہ ان کی پی ایچ ڈی کا موضوع بھی رباعیات ہی رہا ۔ اور بہت کم ایسے شعراء کرام گزرے ہیں جنہوں نے رباعیات کے مجموعہ کلام پیش کیئے  ہوں۔  
      
ڈاکٹر محمد اسلم پرویز  کی کتاب "شخصیات" (جو کہ رباعیات کامجموعہ کلام ہے) پڑھنے کا موقع ملا ، جس میں معروف شخصیات پر،  ان کے کام پر اظہار خیال کو  رباعیات کے جامے میں ڈھال کر پیش کیا گیا ہے ۔۔ جس میں ان شخصیات کے فن کو خراج عقیدت پیش کیا گیا ہے ، تو کہیں ان کی خوبیوں کو اجاگر کیا گیا ہے ۔ کہیں ان سے اپنی محبت کا اظہار کیا گیا ہے، تو کہیں ان کی بے تحاشا عقیدت جھلکتی دکھائی دیتی ہے ۔ ۔ 
یوں تو اردو زبان میں غالب سے لیکر اقبال تک سبھی بڑے بڑے شعراء کرام نے رباعی کی صنف سخن پر طبع آزمائی کی ہے اور اسے عروج تک پہنچایا ہے ۔  لیکن اقبال کے بعد  اس صنف سخن پر شعراء کی زیادہ توجہ نہیں رہی۔ اس کی وجہ یقینا اس صنف سخن کے مشکل اوزان و بیانیہ ہے ۔ جو زیادہ وقت طلب ہے اور زیادہ توجہ چاہتا ہے ۔ 
ڈاکٹر اسلم کی اس کوشش کو میں دل سےسراہتی ہوں ۔اور امید کرتی ہوں کہ وہ اس صنف میں اپنا ایک منفرد مقام حاصل کر پائیں ۔
میری جانب سےانہیں اس خوبصورت تخلیق پر بہت سی مبارکباد اور نیک خواہشات ۔

(شاعرہ ۔کالمنگار۔ لکھاری )
ممتازملک 
پیرس۔فرانس

بدھ، 20 ستمبر، 2023

خود ترسی کی نوبت۔ کالم



خود ترسی کی نوبت
تحریر: 
(ممتازملک ۔پیرس)

میرے کالم "خود ترسی بھی ایک مرض " پر ہمارے ایک فیس بک فرینڈ کا تبصرہ تھا کہ یہ مرض یورپ کی لڑکیوں میں عام ہے جہاں اکثر مائیں اپنی لڑکیوں کو لے کر سائیکاٹرسٹ سے رجوع کرتیں ہیں  اور کہتیں ہیں کہ "اس کا کوئی بوائے فرینڈ نہیں ہے"
یہ سوچ اور اس جیسی سوچ والے دوستوں کو ایک ہی جواب دینے کی غرض سے قلم اٹھایا ہے یہ آپکی خوش فہمی ہے جناب کہ یہ مرض محض یورپ سے منسوب ہے زرا اپنے گلی محلوں میں اونچے نیچے گھروں میں جھانکیں جہاں بوڑھی ہوتی رشتوں کے انتظار میں بیٹھی لڑکیاں بیوائیں مطلقہ خواتین  جو معاشرے میں دھتکار کر تنہا  بے آسرا زندگی گزارنے پر مجبور کر دی جاتی ییں ۔ ان سے پوچھیئے جا کر بے بسی کا احساس کیا ہوتا ہے۔ اور جب کوئی ان کی پریشانی سمجھنے والا ان کے دکھ کو دکھ سمجھنے والا نہیں رہتا تو وہ خود اپنے اوپر ترس کھانے پر مجبور ہو جاتی ہیں ۔ ۔ یورپ میں نہ شادی مسئلہ ہے نہ طلاق ۔ نہ دوستیاں مسئلہ ہیں نہ معاشی مجبوری ۔ لگتا ہے یورپ کے بارے میں ایسے لوگوں کی معلومات کافی ناقص ہیں ۔ معذرت کیساتھ
جی ہاں درست ہے کہ حد سے ذیادہ تنہائی پسندی ہی بعد میں ڈپریشن کی  صورت میں سامنے آتی ہے اور یہ تنہائی کبھی کبھی بھرے پرے گھر میں بھی انسان کو اپنا شکار بنا لیتی ہے۔ کیونکہ وہاں جسم تو بہت سے ہوتے ہیں لیکن۔ کسی کی سوچ کو جذبات کو سمجھنے والا کوئی نہیں ہوتا حتی کہ کبھی کبھی تو اپنے سگے والدین آپکے جذبات کچلنے اور آپکو تماشا بنانے میں فریق بن جاتے ہیں ۔  یہ  ڈپریشن یا مایوسی بھی ایکدم سے انسان پر حملہ آور نہیں ہوتی  بلکہ قدم بقدم بڑھتی اور اثر انداز ہوتی ہے ۔ اس کے لیئے ضروری ہے کہ ہم سب اتنے حساس ہوں کہ اپنے ملنے والوں اردگرد رہنے والوں کی باڈی لینگویج  اور طرز عمل میں ہونے والی تبدیلیوں کو نوٹ کر سکیں اور برقت ہی کسی انسان کو اس کنویں میں گرنے سے بچا سکیں ۔
کسی انسان کا جہاں وجود ہے وہاں اس کا ذہنی طور پر حاضر نہ ہونا، اس کی آنکھوں کا وہاں پر اجنبیت کا اظہار، بات کچھ ہو جواب کچھ اور آ رہا ہو، اپنے لباس اور حرکات و سکنات سے  بے خبر ہونا ، بلاوجہ ہنسنے لگنا یا خوامخواہ رونے لگنا یا چڑچڑاہٹ کا شکار ہونا، جھگڑا کرنے کا بہانہ ڈھونڈنا، یہ سبھی کیفیات جو بیان کی گئی ہیں وہ ڈپریشن کی ہیں جو خود ترسی سے بہت زیادہ آگے کی یا لاسٹ سٹیج کہہ لیں ، کی ہیں  ۔ 
جبکہ خود ترسی عموما اس وقت آغاز ہوتی ہے جب بچپن ہی سے بچے کو اس کی صلاحیتوں پر حوصلہ افزائی نہیں ملتی ، ایک کا حق دوسرے کی جھولی میں یہ کہہ کر ڈال دیا کہ چلو تمہیں پھر لے دیں گے ،ابھی تمہیں اس کی زیادہ ضرورت نہیں ہے،  تم اس کا کیا کروگے/گی ، اسے اہمیت نہ دینا یا پھر اولاد  میں ہر وقت کسی کا ، دوسرے کی کسی بھی صلاحیت یا چیز سے غیر ضروری مقابلہ کرتے رہنا، مذہب سے دوری بھی اس کی ایک بڑی وجہ ہو سکتی ہے ،کیونکہ مذہب ہمارے اندر تقدیر اور نصیب کا تصور پختہ کرتا ہے ۔ برداشت اور ایثار کا جذبہ پیدا کرتا ہے جو ہمارے اندر صبر اور انتظار کی عادت کو جنم دیتا ہے ۔ ہمارے مزاج میں توازن پیدا کرتا ہے ۔ جبکہ آجکل بدنصیبی سے جو بھی شخص مذہب کی جانب متوجہ ہوتا ہے اس مذہب کے اکثر علماء اور راہب ہی اسے بھٹکا کر مذید تباہی میں دھکیل دیتے ہیں ۔ اس لیئے رہنمائی کا  یہ کردار بہرطور نزدیکی رشتوں کو ہی ادا کرنا ہو گا  ۔ خود ترسی سے شروع ہونے والا سفر اکثر گناہوں کی منزل یا خودکشی پر ہی ختم ہوتا ہے ۔ لہذا اسے نظر انداز کرنا اس معاشرے میں ٹائم ب م فٹ کرنے کے برابر ہے ۔ اپنے معاشرے کو اس سے بچائیں اور ایک صحت مند معاشرے کی تعمیر میں اپنا کردار ادا کریں ۔ جس کا آغاز آپکے اپنے گھر سے ہو گا۔ 
                     ------

بدھ، 13 ستمبر، 2023

کیا کھویا کیا پایا؟ / کالم

کیا کھویا کیا پایا؟
تحریر:
(ممتازملک ۔پیرس)

عورت کے بدلتے زمانے کے روپ اسے تیزی سے تباہی کی جانب دھکیل رہے ہیں ۔ یہ وہی عورت ہے جو ماں ہے تو انسان کی سب سے بڑی ہمدرد اور خیر خواہ کہی جاتی رہی ہے اور اگر بیوی رہی تو اسے لباس کہہ کر اس کی حیثیت کو مکمل بیان کر دیا گیا ۔ لیکن پھر حرص و ہوس کی وہ آندھی چلی کہ رشتوں کے پرخچے اڑنا شروع ہو گئے ۔ شاید اس کی سب سے بڑی وجہ ہمارے ہاں میڈیا اور معلومات کا وہ سونامی ہے جس کو سمجھنے اور اس کا مقابلہ کرنے اور اس سے کوئی فائدہ اٹھانے کے لیئے ہماری قوم کے پاس نہ تعلیم کا ہتھیار تھا ، نہ ہی ٹیکنالوجی کی سمجھ ، نہ ہی کوئی قومی شعور تھا اور نہ ہی تہذیب و اقدار کی کوئی مضبوط ڈھال۔ سو تنکے کی طرح ہمارا سارا معاشرتی ڈھانچہ بہتا چلا گیا ۔ بلکہ سچ پوچھیں تو ہمارا ہر غرور ریت کی دیوار ثابت ہوا۔ مرد نے اپنی آنکھ کا پانی اور سوچ کا دائرہ کھو دیا تو عورت نے اپنی حیا اور نسوانی وقار کو اپنے ہاتھوں تار تار کر دیا ۔سر بازار اس کی قیمت لگوا لی ۔ کیونکہ آج کے مرد نے اسے یقین دلا دیا کہ عزت کی تلاش میں نکاح کا پٹہ گلے میں ڈالو گی تو تمہیں میرا کتا بن کر رہنا ہو گا اور داشتہ بنکر میرے ساتھ مجھے خوش کرتی رہو گی تو تمہاری سوچ سے بھی پہلے ہر ممکن اور ناممکن تمہارے نام لگاتا رہونگا ۔ سو روٹی کپڑا اور  ادھار کی چاردیواری پر تکیہ کرنے والی عورت نے سوچا کہ کیا ضرورت ہے خود کو اس کے قدموں میں گرا کر بیوی بنکر کتے کی سی زندگی گزارنے اور  اس کے سارے خاندان کی چاپلوسی کے بدلے اپنے کانوں میں ان کا زہر آلود سیسہ پگھلانے اور سینے میں الاؤ دہکھانے کا۔ کیوں نہ اک گناہ (جو اس مرد کی خوشی کیساتھ) کر کے دنیا بھر کا اختیار اپنے نام کیا جائے؟  اسی سوچ نے اس معاشرے کی اینٹ سے اینٹ بجا دی ۔ مرد نے اپنی بیوی کو ہر ایک اپنے بیگانے کے سامنے ذلیل کرنے، اس پر جملے کسنے اور اس پر لطیفے بنانے کے لیئے اپنی نکاحی بیوی کو آلہ بنا لیا ۔ گویا اپنا لباس اپنے ہاتھوں اتار دیا تو بدلے میں ایک کرائے کا تعلق بخوشی اپنے گلے کا ڈھول بنا لیا ۔ جس کے لیئے وہ صرف ایک اے ٹی ایم مشین ہے۔ جہاں اس کے پہنچنے کی دیر ہے فرمائشی ریکارڈ شروع ہو جاتا ہے ۔ جہاں مشین سے نوٹ ختم ہوئے ۔ آپ کو پڑی لات اور اس عورت کے لیئے ایک نیا اے ٹی ایم پہلے سے لائن میں موجود ملے گا۔ بلکہ کئی ایک کے ایک وقت میں بیشمار اے ٹی ایم ایکساتھ اپنی خدمات پیش کر رہے ہوتے ہیں ۔ سوال یہ ہے کہ مرد اپنی نکاحی بیوی کو کیا عورت نہیں سمجھتا ؟ کیا اسے انسان نہیں سمجھتا ؟ یا اسے اس بات کا خوف لذت دیتا ہے کہ یہ کہاں جائیگی میرے دروازے کے سوا؟ کیا وہ یہ سمجھتا ہے کہ بطور بیوی اس دنیا کی ساری رنگینیاں وہ بھی نہ دیکھتی ہے ، نہ جانتی ہے اور نہ ان سب پر اختیار رکھتی ہے؟ کیا اسے یہ گمان ہے کہ اس کے اور اس کے خاندان کے ہاتھوں ذلت اور مقابلہ بازی ہی اس رشتے کا مقدر ہے؟ 
تو پھر آج کی عورت خود مختار ہو کر خود اپنی دو روٹی، چادر اور چاردیواری بنا کسی ذلت و تماشے کے بنانا چاہتی ہے اور اکیلی اپنی مرضی سے سکون کیساتھ جینا چاہتی ہے ، بنا کسی کے جوتے سیدھے کیئے خوش رہنا چاہتی ہے، تو کیا برا کرتی ہے؟ بات دینی پہلو سے ہو یا معاشرتی ۔ رشتے تحفظ اور عزت کے لیئے بنائے جاتے ہیں اور اگر یہ دونوں چیزیں ناپید ہو جائیں تو رشتوں خصوصا میاں بیوی کے رشتے کی ضرورت ہی کہاں رہتی ہے؟ ہمارے معاشرے کا مرد خود اس رشتے کو تباہی کے دہانے پر لا چکا ہے ۔ بدلے میں اسے کیا ملا ۔ نہ دل کا چین، نہ وفا نہ عزت ۔ یہ سب وہ چاہتا تو اپنی زندگی کا ٹریک ہی کیوں بدلتا ۔ ورنہ نکاح کے بدلے تو اسے یہ سب کچھ خدائی تحفے کے طور پر بنا کسی تردد کے مل ہی رہا تھا ۔ جس سے وہ بیزار ہو کر جنگلی پھولوں کی خوشبو سونگھنے کانٹوں کے جھاڑ میں ناک گھسیڑ بیٹھا ۔ اور سونگھ کر جب باہر نکلتا ہے تو نہ اس کی ناک کسی قابل رہتی ہے نہ اس کی شکل کسی کو دکھانے لائق رہتی ہے۔ عورت نے بھی اسی کے دکھائے ہوئے تجربات کی روشنی میں یہ جان لیا کہ نکاح جیسا مقدس بندھن آج کے اس پرآشوب دور میں محض دو روٹی اور سر کی عارضی چھت کے لیئے باندھنا ناقابل برداشت اور اس رشتے کیساتھ بے ایمانی ہے۔   (ظاہر ہے چھت تو مرد اپنی داشتاؤں کے نام کرتا ہے  اس کے لیئے تو جب تک نکاح تب تک پناہ والا کھاتہ ہی ہوتا ہے , تو چھت اسکی کہاں سے ہو گئی؟) اس لیئے وہ اب ہمارے  سو کولڈ پاکستانی اور مشرقی معاشرے میں یہ رشتہ اس قدر غیر محفوظ سمجھنے لگی ہے کہ خود کو معاشی طور پر اس غم سے آزاد کرنے ہی میں عافیت سمجھنے لگی ہے ۔ ایمانداری سے دیکھا جائے تو آج کی عورت کو یہ راستہ دکھانے والا ہمارا مشرقی مرد جسے اپنی عیاشی کا سامان سمجھ بیٹھا ہے وہی اسکی تباہی کا انجام بن چکا ہے ۔ اپنی نسل اصل اور دین دنیا سب کچھ داؤ پر لگا کر اسے ہوش آیا بھی تو کیا آیا ۔ اس کا حل بیحد آسان ہے کہ اپنی داشتاؤں کے بجائے اس لڑکی کو پوری عزت وقار اور تحفظ دے جو نکاح کا مقدس بندھن باندھ کر اسکی زندگی میں اپنا سب کچھ چھوڑ کر داخل ہوتی ہے۔ اسے اپنے گھر کی نوکرانی بنا کر اپنے خاندان کے قدموں میں ڈالنے کے بجائے اسے اپنی زندگی کا سکون اور مددگار سمجھے ۔ اور یہ یاد رکھے کہ اللہ کے ہاں سب سے زیادہ باز پرس جس رشتے کی ہو گی وہ اس کی بیوی ہی ہے ۔ تاکید کی گئی کہ لوگوں اپنی بیویوں کے لیئے تم اللہ سے ڈرتے رہو۔ معاشرے کو مزید  بگاڑ اور تباہی سے بچانا ہے ، ہمارے مردوں کو اپنی نسل بچانی ہے تو نکاح کے رشتے کی توقیر بچائیں۔  
                 ۔۔۔۔۔۔۔۔

اتوار، 27 اگست، 2023

* جس میں خوشی کا نام نہ آیا ۔ مصرعہ طرح۔ اور وہ چلا گیا

مصرع طرح
جس میں خوشی کا نام نہ آیا
(سوہن راہی)

جشن کی ہلڑ بازی میں تو
ہاتھ ہمارے جام نہ آیا 

تو ہی لے جا ناکارہ دل 
اپنے تو یہ کام نہ آیا 

جان لٹا دی بے فیضوں پر
یاد کبھی انجام نہ آیا 

داد سمیٹی مفت بروں نے
کہیں بھی اپنا نام نہ آیا 

کوئی سودا ایسا نہ تھا
آڑے جسکے دام نہ آیا 

جیون کا کوئی ایک بھی لمحہ؟
جس میں خوشی کا نام نہ آیا

ڈوبا تھا کل شام جو سورج
کیا وہ صبح بام نہ آیا 

سب کچھ وار کے پھر بھی جانے
کیوں مجھکو آرام نہ آیا

دیکھ تبسم اس نے سمجھا
جیون میں ہنگام نہ آیا

اپنی پشتیں بھریں جبھی تو
ملک میں استحکام نہ ایا

اب ممتاز نے جان لیا ہے
صبح کا بھولا شام نہ آیا 
                ------

ہفتہ، 26 اگست، 2023

جنت ‏بچا ‏لی/ ‏افسانہ ‏۔ قطرہ قطرہ زندگی


شیزوفینیا کے مریضوں پر کہانی

جنت بچا لی

بیٹی نے سودا لیا اورباقی پیسے اپنے پرس میں رکھے ۔ 
وہ اکثر اپنی ماں کو حساب دینا ضروری نہیں سمجھتی تھی ۔ ماں خود سے یاد آنے پر پوچھ لے تو بتا دیا ورنہ بقایا اپنی جیب میں رکھ لیا۔ 
آج بھی اس نے ایسا ہی کیا ۔ نگار اب اپنے حال سے بے خبر ہو چکی تھی ۔ کوئی آکر  زبردستی منہ  ہاتھ دھلا دیتا تو ٹھیک ورنہ اکثر آتے جاتے وضو کر کے منہ ہی منہ میں کوئی نہ کوئی ورد بڑبڑاتی رہتی ۔ یہ بھی اس پر اللہ کا کرم ہی تھا کہ
شیزو فینیا نے اس سے ہر شناخت چھین لی تھی تب بھی اسے اپنی پاکیزگی اور اللہ کی یاد بخش رکھی تھی ۔ 
جب تک بال رنگتی تھی تو اپنی عمر سے آدھی دکھائی دینے والی نگار اب بیرنگ کھچڑی بالوں کے ساتھ صدیوں پرانی لگنے لگی ۔ کسی اولاد کو نہ اتنی توفیق تھی اور نہ اتنا شوق کہ مہینے بھر میں ماں کے بال رنگ سکے اسے سنوار سکے ۔ اس کے رکھ رکھاو کا خیال رکھ سکے ۔ 
کتنی عجیب بات ہے ماں باپ اپنے جس بچے کوسنوار سنوار کے تھکتے نہیں اور وہی اولاد  ان کا ہاتھ منہ دھلانا بھی خود پر بوجھ سمجھنے لگتی ہے ۔ 
آج بھی وہ بیٹی کے ساتھ سٹور سے باہر ہی اس کی گاڑی میں بیٹھی تھی ۔ بیٹی نے اس کے لیئے اسی کے پرس میں سے 50 یورو کا نوٹ نکال کر کچھ 10 یورو کی چیزیں خریدیں اور بقایا اپنے پرس میں رکھ لیا ۔ نگار کو اس کے گھر چھوڑا ۔
آج گھر واپسی پر جانے عجیب سی بیچینی اس کے حواس پر سوار تھی  ۔ اس نے ماں کے پیسے رکھ لیئے تھے ۔ گھر میں کھانے کو بھی کچھ نہیں بنا تھا ۔ اور آدمی ہوش میں ہو یا بدحواس کمبخت بھوک تو کبھی نہیں رکتی۔ یہ تو آدمی کو نچا کر ہی دم لیتی ہے ۔ ماما کے پرس میں ایک ہی تو نوٹ تھا جو میں نے نکال لیا تھا ۔ آج انہیں ڈاکٹر کے پاس بھی جانا تھا ۔ پتہ نہیں وہ کچھ کھا کر بھی گئی ہو گی یا نہیں ۔ 
اسکی غیر موجودگی میں اکثر نگار کی پڑوسن ہی اسے کسی بھی اپائنٹمنٹ پر لیجاتی تھی۔
 ماما دو نہ ۔۔ اپنے دو سال کے بیٹے کے منہ سے آواز سن کے وہ چونکی چمچ لیئے وہ اسے کھانا کھلانے بیٹھی تھی ۔ اسے بھی ماں ایسے ہی کھلایا کرتی تھیں ۔ کیسے کیسے تنہا کر دیا  تھا میں نے انہیں ۔ یہ سوچتے ہی اس کہ آنکھیں بھیگ گئیں ۔ 
جیسے تیسے اپنے بیٹے کو کھانا کھلاتے ہی اس نے گاڑی نکالی۔ پڑوسن کو فون کیا تو اس نے بتایا نگار تو آج شاید اکیلے ہی چلی گئی تھی میں نے کافی دیر دروازے کی گھنٹی بجائی لیکن کوئی جواب نہیں آیا تو میں واپس چلی آئی ۔ سوچا شاید وہ تمہارے ساتھ چلی گئی ہو گی ۔ لیکن اب تمہارے فون نے مجھے بھی پریشان کر دیا ہے  ۔ یہ سنتے ہی اس کے اوسان خطا ہو گئے۔ اس نے گلی گلی گاڑی دوڑانا شروع کر دی جہاں جہاں ہو سکتا تھا وہ ہر بس اسٹاپ پر سڑک پر راہگیروں میں اپنی ماں کو تلاش کرنے لگی ۔ ٹریفک سگنل پر رکے ہوئے اس کی نگاہ بھیڑ پر گئی جہاں اسے  نگار ایک قطار میں کھڑی دکھ گئی۔ 
اس نے گاڑی بڑی مشکل سے دور ملی جگہ پر پارک کی اور ماں کو جہاں دیکھا تھا وہاں دوڑ لگا دی ۔ 
اس نے دیکھا کہ ماں ویلفیئر والوں کی جانب سے لگائے ہوئے کھانے کے سٹال کے آگے لائن میں کھڑی تھیں جس میں غریب لاچار  لوگوں کے لیئے کھانا تقسیم کیا جاتا تھا ۔ اس نے آگے جانے کی کوشش کی تو انتظامیہ نے اسے روک دیا ۔ ماں کو یہاں دیکھ کر وہ دکھ اور شرمندگی سے گڑھی جا رہی تھی ۔ اس نے ماں کو آواز دینا چاہی لیکن یہاں شور مچانے سے اسے انتظامیہ نے منع کر دیا گیا ۔ وہ فورا انچارچ کے کمرے کی جانب بھاگی کہ وہاں اسکی ماں ہے اسے باہر لایا جائے ۔
انچارچ ایک مہربان خاتون تھی اس نے اس سے اس کی تعلیم عہدہ اور آمدن کا پوچھا تو اس کے حلیئے پر ایک طائرانہ نظر ڈالتے ہوئے بولی اگر آپ کو اپنی والدہ کی آپ کی لیئے قربابیاں اور محبتیں یاد ہوتیں تو آج وہ اس قطار میں کھڑی دکھائی نہ دیتیں ۔ آپ انہیں لے جائیے لیکن اگر آپ ان کا خیال نہیں رکھ سکتیں تو ہمیں بتائیے گا ہم ان کا خیال بھی رکھ سکتے ہیں اور ان کی حفاظت بھی  کر سکتے ہیں ۔ لیکن بس آپ کو اپنی جنت کی دعویداری سے دستبردار ہونا پڑیگا ۔ 
ایک چوٹ کی تال اس کے دل پر پڑی اس کی گونج نے اس کے دماغ کو جھنجھنا کر رکھ لیا۔ 
اس نے انچارج کا شکریہ ادا کیا اور اس کے اجازت نامے کے ساتھ کھانے کے بڑے ہال میں داخل ہوئی ۔ بھرے ہوئے پانچ سو لوگوں  کے ہال میں ماں کو ڈھونڈنے میں وقت لگا کھانا کھاتے ہوئے لوگوں میں  دور سے  اسے نگار دکھائی دے گئی ۔ وہ بھاگم بھاگ ماں کے قریب گئی۔ اس کا پہلا نوالا ابھی اسکے منہ کے قریب تھا کہ اس نے ماں کا ہاتھ پکڑ لیا۔ سور کے شوربے میں پڑا ہوا سبزی کا سالن اس  کے منہ میں جانے سے روک دیا ۔ نگار نے اسے اجنبی نظروں سے دیکھا اور  اس نے اپنی ماں کو کہا ماں یہ حرام ہے ۔ نگار کے چہرے پر کوئی تاثر نہیں تھا بس اتنا بولی بھوک لگی ہے ۔ پیسے نہیں ہیں ۔ 
اس نے اپنی ماں کے سر کو اپنے سینے سے لگا لیا ۔ آنسووں کا سیلاب بند توڑ کر نکل پڑا ۔ 
میری ماں کو میں سب کچھ خود لا کر دونگی ۔ چلیں میرے ساتھ ۔ 
دور سے اس پر نگاہ رکھے ہوئے ادارے کی انچارج نے اپنے چشمے کے نیچے سے بہتے ہوئے بے خبر آنسو اپنی انگلیوں کے پوروں سے پونچے اور مسکرا دی ۔ آج ایک جنت کما لی گئی  یا بچا لی گئی۔ 
                 ۔۔۔۔۔۔۔

میں مائی تو بابا/ افسانہ


میں مائی تو بابا
افسانہ:
(ممتازملک ۔پیرس)


کافی دنوں سے کسی نے ہمارے ہاں چکر نہیں لگایا فضل دین نے رشیدہ سے سوال کیا ۔ میں کیا کہوں میاں ۔ ہم تم بڈھوں سے گپ لگانا آج کے لوگوں کو ہی نہیں اپنی جنی اولاد کو بھی وقت کا زیاں لگتا ہے تو انہیں اپنا قیمتی وقت گزارنے کے نت نئے مشغلے ہر زمانے میں مل ہی جاتے ہیں ۔ 
لیکن پہلے تو ایسا نہیں تھا رشیدہ ۔ ہم تو اپنے بڑوں کے پاس بیٹھ کر ان سے زندگی کی گھتیاں سلجھانے کا علم مفت میں حاصل کیا کرتے تھے ۔ پھر آج بوڑھوں اور بزرگوں کی باتیں بیکار کیسے ہو سکتی ہیں ۔
آخر ہم نے بھی اسی دنیا کے دشت کی سیاحی کی ہے جسے لوگ زندگی کہتے ہیں ۔ کیا ہمارے پاس جوانوں کو سکھانے کو دینے کو کچھ بھی نہیں ہے جو اس کھاٹ پر پڑے پڑے اپنی موت کا انتظار کرتے رہیں ۔
فضل دین کی آواز میں آنسووں کی نمی گھل گئی ۔ وہ خاموش ہوا تو رشیدہ نے اس کی چارپائی کی پائننی پر بیٹھ کر اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا اسے دلاسا دیا ۔ اس کا کمبل اچھی طرح سے اوڑھا دیا ۔
کیوں ہر روز ایک سی باتیں سوچ کر اپنا دل جلاتے ہو۔ 
ہم بوڑھے میاں بیوی ہی ایکدوسرے کے دوست بھی ہیں اور غمگسار بھی ۔ ہمارا دو کمروں کا یہ کچا پکا جھونپڑا ہمارا مقدر ہے ۔ اگر اس کی جگہ عالیشان بنگلہ ہوتا تو ہمارے بچے بھی بھاگ بھاگ کر آتے بلکہ یہیں ڈیرا ڈال لیتے ۔ایکدوسرے کو اس بنگلے پر قبضہ کرنے کے لیئے مار ڈالتے ۔ عدالتوں میں گھسیٹتے ۔ ایکدوسرے کا حق کھانے کو ایڑی چوٹی کا زور لگا دیتے ۔ میں آج اگر زیوروں سے لدی ہوئی ہوتی، چار ملازم میرے آگے پیچھے جی حضوری کرتے تو میں مائی نہیں ہوئی ۔ میڈم ہوتی ماں جی ہوتی ۔ بیگم صاحبہ ہوتی۔ پرانے بوسیدہ کپڑوں میں میں مائی اور تو بابا ۔ بس یہی ہماری اوقات ہے ۔ بہت گزر گئی تھوڑی باقی ہے وہ بھی کٹ ہی جائے گی ۔ 
رشیدہ  نے لکڑی کے چولہے پر  چڑھی ہانڈی میں پانی چڑھا رکھا تھا مگر اس میں ڈالنے کے لیئے اس نے ایک ایک ڈبہ الٹ دیا دال کے کچھ دانے بھی نہ پا کر پریشانی سے فضل دین کو دیکھا جو چارپائی پر گھسے ہوئے کمبل میں اپنے بوڑھے وجود کو گرمانے کی ناکام کوشش کر رہا تھا ۔
کافی دنوں سے اس کے چاروں کڑیل جوان بیٹوں کی جانب سے بھی انکی کوئی خیر خبر نہیں لی گئی تھی ۔ پاس پڑوس والوں کو بھی کبھی اتنی توفیق نہیں ہوئی کہ آکر جھانک ہی لیں کہ انہیں کسی مدد یا چیز کی ضرورت تو نہیں ہے ۔  پہلے لوگ کتنے اچھے ہوتے تھے ایکدوسرے کا حال سے باخبر رہنا اپنا فرض سمجھتے تھے ۔ نیکی کرنے کے مواقع ڈھونڈا کرتے تھےاور آج ۔۔۔فضل دین نے بات ادھوری چھوڑ دی ۔ ایک ہوک سے اس کے دل سے نکل کے کہیں ہوا میں تحلیل ہو گئی۔
ہمدرد تو آج بھی ہیں لوگ لیکن فضل دین میں نے تو یہ جانا ہے کہ یہ بے اولاد بڑے فائدے میں رہتے ہیں ۔ لوگوں کی ہمدردیاں بھی انہیں حاصل ہوتی ہیں اور مدد کو بھی تیار رہتے ہیں ۔ ایک ہم اولاد والے ہی زیادہ دربدر ہوتے ہیں ۔
فضل دین نے اسے چونک کر دیکھا 
وہ کیسے رشیدہ؟
دیکھو نا بے اولاد کو لوگ بے سہارا سمجھتے ہیں حالانکہ نہ انہوں نے کوکھ میں اولاد کا بوجھ اٹھایا ،نہ انکی گندگیاں صاف کیں ، نہ ان پر اپنی جوانی اور پونجی لٹائی ، نہ ان کی خاطر آدھا پیٹ سوئے ۔ ساری عمر صرف اپنے اوپر ہی خرچ کیا ، اپنے لیئے جیئے اور پھر بھی زمانے بھر کی ہمدردیاں سمیٹ لیں اور ایک ہم ہیں اولاد والے جنہیں یہ سارے ستم سہہ کر خون پسینے سے اس اولاد کو پروان چڑہایا اور بڑہاپے میں آکر ان کی ملاقات کے وقت کا انتظار کرتے ہیں جیسے قیدی جیل میں اور بوڑھے زندگی میں ۔ کہ کسی کی دید ہو جائے ۔ کوئی ہمیں راشن پانی ہی ڈال دے کہ  جب تک ہم مر نہیں جاتے یہ کمبخت پیٹ تو کھانے کو بار بار مانگتا ہی ہے ۔ 
رشیدہ نے اپنے گھسے ہوئے ملگجے دوپٹے سے آنسو پوچھتے اور فضل دین سے  چھپاتے ہوئے کہا۔
کڑیل جوان اولادوں کا لیبل ہمارے ماتھے پر ایسا چپکتا ہے کہ سارا معاشرہ ہماری خبر لینی ہی چھوڑ دیتا ہے ۔ کوئی نہیں جاننے کی زحمت کرتا کہ ہم کس حال میں ہیں ۔ وہ سمجھتے ہیں اولادیں جوان ہو گئی ہیں اور  میاں بیوی خوب مزے اور آرام میں ہیں ۔ اور یہاں اولاد سمجھتی  ہے مائی بابا کو نئے کپڑے مت لے کر دینا کل کو مر گئے تو خوامخواہ ہی پیسے ضائع ہو جائینگے ۔کون پہنے کا انکے جوٹھے کپڑے ۔۔۔رشیدہ کے اس استفسار نے فضل دین کا دل دہلا دیا ۔


بابا فضل دین  نے چھت کی جانب نظریں اٹھائیں اور اللہ سے فریاد کی یا اللہ ہمیں بہت سا مال دے تاکہ اس بے بسی سے تو نجات ملے ۔ اپنے رشتے تو اس کی بو سونگھتے ہوئے یہاں پر دکھائی دیں ۔
کافی دیر سے خود کو روکے ہوئے مشکل ہو گیا تو باہر نکل کر اسے پیشاب کرنے کو جانا ہی پڑا۔  فارغ ہوتے ہی اس کی نظر وہاں  رکھے ایک مرتبان جیسے برتن پر نظر پڑی۔  اس کا ڈھکن اٹھا کر دیکھا تو وہ ذیورات سے بھر ہوا تھا ۔
اس نے  ہنس کر آسمان کی جانب دیکھا اور جانے کس لمحے اور لہجے میں خدا سے مخاطب ہوا کہ الہی تو بھی مجھے بوڑھا اور لاچار بنا کر اب میرے ساتھ مذاق کرتا ہے تو جانتا ہے یہ مٹکا میں کیا ہم دونوں میاں بیوی بھی اٹھا کر  اپنے گھر تک نہیں لیجا سکتے  تو یہاں دینے کا کیا مقصد ؟  ترساتا یے تو بھی مجھے ۔ ان داتا دینا ہے تو دے مجھے۔ لاچار کرنے والے اس بستر تک محدود کرنے والے مجھے یہ سب چاہیئے پر میرے ہی بستر پر میری ہی چارپائی پر چاہیئے ۔ اور تو یہ کر سکتا ہے کیسے ؟ یہ میں نہیں جانتا ۔ 
یہ عجیب سی فرمائش کر کے فضل دین گھر کے دروازے کی جانب چل پڑا ۔ گھر میں داخل ہوتے ہی ہنستے ہوئے بیوی رشیدہ سے مخاطب ہوا 
یہ اللہ کو بھی ہم جیسے لوگوں کیساتھ مذاق کرنا اچھا لگتا ہے کیا ۔
کیوں بھی کیا ہو گیا ؟ 
تو بابا فضل نے مٹکے کی کہانی سنا ڈالی۔
دیوار کے پار سے ایک راہگیر نے ان میاں بیوی کی گفتگو سن لی۔ اسے مٹکے کی لالچ نے اس جگہ جا کر دیکھنے پر مجبور کیا ۔
وہاں واقعی مٹکا موجود تھا۔ اس نے جیسے ہی مٹکے کا ڈھکن اٹھایا بھڑوں کے گروہ نے اسے کاٹ لیا ۔ غصے اور درد کے مارے اس کا برا حال ہو گیا ۔ اس نے اس بابا سے بدلہ لینے کا سوچا اور مٹکا فورا ڈھانپ دیا ۔ اٹھایا اور بابا فضل کے جھونپڑے کی جانب چل دیا ۔ اس نے گھر میں داخل ہونے را راستہ دیکھا تو ایک چمنی دکھائی دی ۔ اسے بابا کی آواز اسے کے نیچے باتیں کرتے سنائی دی تھی۔ اس نے سوچا آج اس بابے کو بھی بھڑوں کے کاٹے سے جھوٹ بولنے پر سزا دونگا۔ 
ادھر بابا فضل نے رشید سے کہا بجلی لوگ کوئی دو چار لکڑیاں تو جلا دے اس انگیٹھی کو بھی آگ کی تپش یاد دلا دے ۔ 
رشیدہ  بولی لکڑی کا بھاؤ بھی معلوم ہے کیا ۔ ۔۔ بھول جاؤ کہ ہم کبھی انگیٹھی بھی گرم کیا کرتے تھے۔ ہاں کل سے یہ مٹی کا چولہا انگیٹھی کی جگہ پر رکھ دونگی اس ایک پنتھ دو کاج اسی طرح ہو جائے گا ۔ 
ابھی یہ بات ہو رہی تھی کہ اس راہگیر نے وہ مٹکا دھن کھسکاتے ہوئے چمنی پر الٹ دیا ۔۔
یہاں بابا جی پر چمنی سے چھنتے ہوئے سونے کے زیورات کی  بارش  ہونے لگی ۔ 
رشیدہ رشیدہ دیکھ تو دینے والے نے ہمیں نواز دیا ۔۔۔ رشیدہ کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں ۔ راہگیر جو سزا دینے آیا تھا وہ مٹکا چمنی پر الٹا کر رکھتے ہی بھاگ چکا تھا اور مائی اور بابا کی قسمت بدل چکی تھی ۔
اللہ نے ہر ایک کا نصیب اسی کو دینا ہے کوئی کسی سے اس کا مقدر نہیں چھین سکتا۔ 
                 ........

جمعرات، 17 اگست، 2023

سرفہرست قومی مسئلہ۔ کالم

سرفہرست قومی مسئلہ
تحریر: 
       (ممتازملک ۔پیرس)

پاکستان کے اصل مسائل میں سرفہرست انگریزی ہے جس کا جبری استعمال اس ملک میں علم کو عام نہیں ہونے دیتا بلکہ رٹے بازی کے سبب علم سے بیزاری کا سبب ہے ۔ اردو کا نفاذ وہ بھی غالب کے زمانے کی اردو نہیں بلکہ آج کی رواں اور مروجہ زبان کو رائج کیجیئے ۔ دنیا کی کوئی زبان ایسی نہیں ہے جو آج بھی اپنی سو دوسو سال پرانی لغت کیساتھ رائج ہے ۔ اس لیئے اردو کے نفاذ کے لیئے کوشش کرنے والوں کو بھی یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ہم اپنے نوجوانوں کو خصوصاً اور عام لوگوں کو عموما مشکل الفاظ کے جھنجھٹ میں ڈال کر خود اس زبان کے نفاذ کے راستے میں کھڈے کھود رہے ہیں ۔جس انسان کے منہ کا دہانہ اٹھارہ سال کی عمر تک جن الفاظ کو ادا کرنے کا عادی نہیں ہوتا اس کے لیئے بھاری بھرکم الفاظ کی ادائیگی آسان نہیں ہوتی۔ ویسے بھی ہر زبان ترقی کا سفر طے کرتی ہے ۔ اردو زبان کا دامن بہت وسیع رہا ہے یہ ہر زبان کے لفظ کو اپنے اندر باآسانی جذب کر لیتی ہے۔ اس لیئے آج لاؤڈ سپیکر کو الہ مکبر الصوت نہ بھی کہیں تو اس سے اردو زبان کو کوئی فرق نہیں پڑتا لہذا اس بات پر ضد کرنے کے بجائے اردو زبان بولنے کی خواہش رکھنے والوں کو آسانی دینے پر بات کیجیئے ۔یا پھر آوز بڑھاؤ اسکا اور آسان ترجمہ ہو سکتا ہے۔
اردو زبان کے نفاذ میں سب سے بڑی رکاوٹ لوگوں کی یہ سوچ ہے کہ انہیں اردوئے معلی کے زمانے کے مشکل اردو اور متروک الفاظ نئے سرے سے سیکھنے پر مجبور  ہونا پڑیگا۔ جبکہ دنیا بھر میں زبان اپنا ارتقائی سفر جاری رکھتی ہے ۔ آج جو اردو بول چال جو عام طور پر بولی سمجھی جاتی ہے ۔ لہذا جدید اردو زبان کے نفاذ پر کام کیا جائے۔ آج ہم جگ ،گلاس، پلیٹ کے الفاظ کو اردو زبان میں قبول کر چکے ہیں تو اس میں کیا قباحت ہے۔  کسی کو پرانی زبان پڑھنی ہے تو اسے اپنے شوق سے بطور مضمون پڑھ سکتا ہے۔ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک اپنی ہی زبان میں پڑھتے اور بولتے ہیں ۔۔وہ انکی اپنی زبان آج کی جدید زبان ہوتی ہے ۔ صدیوں پرانے الفاظ زبردستی سے بول چال میں شامل نہیں کیئے جاتے۔ متروک الفاظ کا ذخیرہ ہر زبان میں ہوتا ہے ۔ اسے زبان کی  بے عزتی نہیں سمجھنا چاہئے۔  
آسان اردو زبان میں سرکاری کاغذات کی تیاری احکامات عدالتی فیصلے اسناد ہونگے تو عام اور کم پڑھے لکھے آدمی کو بھی دھوکا دینا آسان نہیں ہو گا۔ وہ ہر بات کو زیادہ سے زیادہ سمجھ سکیں گے اور انگریزی زبان میں دی گئی چکر بازیوں سے بچ سکیں گے۔  زبان کسی بھی قوم کی سوچ ہوتی ہے اس کی تہذیب ہوتی ہے اس کا طرز زندگی ہوتی ہے اس کی مکمل شناخت ہوتی ہے ۔ گزشتہ دنوں عدالتی کاروائی کی براہ راست نشریات نے وکلاء کی قابلیت اور علمیت کا بھانڈا چوراہے میں پھوڑ دیا ۔ کہ کیسے یہ انگریزی کی بیساکھیوں کے سہارے اپنے  سائلیں کو بلا وجہ سالہا سال تک عدالتوں میں رولتے ہیں ۔ بیگناہوں کو اپنی نااہلیوں کے سبب جیل کی کال کوٹھریوں میں سسک سسک کر مرںے پر مجبور کر دیتے ہیں جبکہ یہی کیسز کسی اہل وکیل کے ہاتھ میں ہو تو تو وہ ان بیگناہوں کو چار چھ پیشیوں میں ہی آزاد کروا چکا ہوتا ۔ جبکہ انگریزی کا پردہ سائلین کی آنکھوں پر ڈال کر یہ وکلاء معصوم لوگوں کواپنا بکرا سمجھ کر روز کاٹتے اور روز بیچتے ہیں۔ یہاں تک کہ دستاویزات میں ایسی ایسی چالبازی کے نکات مکاری کیساتھ شامل کیئے جاتے ہیں کہ عام ان پڑھ تو چھوڑیئے، اچھے بھلے پڑھے لکھے لوگوں میں سے بھی شاید ہی کسی نے انکے وہ پلندے پورے پڑھے ہونگے ، سمجھنے کی تو بات ہی جانے دیں ۔ سائل سو فیصد اپنے وکیل پر اعتماد کے سہارے عدالت میں قانون کا سہارا لیتا ہے اور وکیل اکثر نہ صرف اپنے سائل سے منہ مانگی رقمیں بٹورتا رہتا ہے بلکہ جب چاہتا ہے مخالف پارٹی کو اس مجبور اور بے خبر سائل کا کیس بیچ دیتا ہے ۔ وہ سائل جو اپنے حق کی فتح کے لیئے انتظار میں ایک ایک دن کر کے اپنی زندگی کے قیمتی سال  گنوا رہا ہوتا ہے، اپنی صحت اپنا سکون ، اپنا پیسہ گنوا رہا ہوتا ہے، وہیں اسکا وکیل دھڑلے سے اپنا بینک بیلنس ، اپنی توند ، اپنے کوٹھی کا سائز ،اپنی زندگی کی رنگینیاں بڑھا رہا ہوتا ہے۔ اسے حلال سے غرض نہیں مال سے غرض ہے۔  غور کیجیئے تو اس ساری واردات میں جس چیز کو ان واردتئے وکلاء نے استعمال کیا وہ کیا تھی ؟ وہ تھی زبان ۔ایک بیرونی زبان انگریزی میں اپنے لوگوں کی زندگیوں کو کبھی تل تل  سلگایا جا رہا ہے، کبھی دہکایا جا رہا ہے۔  چیف جسٹس صاحب ،قاضی القضاء صاحب 76 سال سے ہماری قوم کو اس زبان کی انگیٹھی پر  سلگانے والوں کو قرار واقعی سزا دیجیئے اور اس قوم کی اپنی قومی زبان کو اس کا درجہ اور حق دلوا کر اس زبان کے دھوکا جال سے ہمیں آزاد کروا دیجیئے، تو یہ قوم تاقیامت آپکی احسان مند رہے گی۔  ہر صوبے میں اس کے سائل کی مرضی کے مطابق اسے اپنی صوبائی زبان میں یا قومی زبان میں اپنے وکیل کو بات کرنے اور دستاویزات بنا کر دینے کا بھی پابند کیجیئے۔ تاکہ لوگوں تک انصاف بھی پہنچے اور پوری بات بھی پہنچے۔ اس زبان میں جو انکی ماں بولتی ہے، جو ان کا باپ بولتا ہے۔ جو ان کا استاد بولتا ہے ۔ 
                     ۔۔۔۔۔۔۔

* بیاں ہوتی ہے۔ اردو شاعری ۔ اور وہ چلا گیا


بیاں ہوتی ہے

لب نہ کہہ پائیں وہ آنکھوں سے بیاں ہوتی ہے
ہر محبت میں عقیدت یہ کہاں ہوتی ہے 

ہم نے محسوس کیا خود کو بھی بے بس اس جاء
والہانہ سی یہ زنجیر جہاں ہوتی ہے

دل کی دنیا کے ہیں دستور نرالے لوگو 
جو کہیں اور نہیں ہے وہ یہاں ہوتی ہے

کیا ضروری ہے اٹھے شور بلند و آہنگ 
بات الفاظ کے پیچھے بھی نہاں ہوتی ہے 

کچھ ملاقاتوں میں کھل جائیں حجابات تبھی
اصل کردار کی صورت بھی عیاں ہوتی ہے 

وہ تیری ذات کے آدھے کو مکمل کرتی
جسم کیساتھ جو پرچھائی گماں ہوتی ہے

ساتھ ممتاز ملے جسکو اگر من چاہا 
رات پھر اور بھی مخمور و جواں ہوتی ہے 
--------


منگل، 15 اگست، 2023

رپورٹ ۔ فرانس میں 14 اگست کی تقریب

اس سال بھی فرانس میں پاکستانی سفارتخانہ میں پرچم کشائی کی تقریب کا انعقاد روایتی جوش و خروش کیساتھ کیا گیا لیکن اس بار پاکستانی کمیونٹی کی سفارخانے کی تقریبات میں شرکت نے خوشگوار ریکارڈ قائم کیئے ۔
اس کی وجہ فرانس میں تعینات نئے سفیر پاکستان جناب عاصم افتخار احمد صاحب کی ملنسار حلیم طبع  اور دھیمی باوقار شخصیت ہے جو پہلی ملاقات میں ہی ہر ایک کو اپنے دل سے قریب محسوس ہوتی ہے۔ اسی سبب  سفارت خانے کے ہال میں تل دھرنے کی جگہ نہ بچی مرد و زن اور بچوں نے بھرپور انداز میں اس تقریب میں حصہ لیا ۔
پروگرام کا اغاز مقررہ وقت پر صبح دس بجے کر دیا گیا۔ فرانس میں چھٹی کا دن نہ ہونے کے باوجود پاکستانیوں کی اتنی بڑی تعداد میں شرکت نے پروگرام کو یادگار بنا دیا۔ سب سے پہلے تلاوت کلام پاک سے پروگرام کا آغاز ہوا سفیر پاکستان جناب عاصم افتخار احمد صاحب نے قومی ترانے کی گونج میں پرچم لہرایا۔
صدر و وزیراعظم پاکستان کے قوم کے نام پیغامات پڑھکر سنائے گئے۔ لیکن انگریزی زبان میں ان پیغامات کا سنایا جانا کیا مقصد رکھتا ہے ۔ کیونکہ انگریزی نہ تو فرانس کی قومی زبان ہے نہ پاکستان کی ۔ اس بات کا افسوس ہوا ۔ کہ یہ پیغامات جس ملک میں کوئی پروگرام ہو اس ملک کی زبان میں اور آسان اردو زبان میں ہونا چاہیئے ۔ تاکہ اسے سنانے کا مقصد ہمارے لوگوں تک پہنچ سکے۔ امید ہے اگلے کسی بھی پروگرام میں سفارتخانہ پاکستان اس بات کا خیال رکھے گا۔ بچوں نے ملی نغموں پر ٹیبلوز اور تقاریر پیش کیں۔  گلوکار ریاض جاوید نے ملی نغمے سنا کر حاضرین سے داد سمیٹی۔ پریس کونسلر دانیال عزیز صاحب اپنی مدت ملازمت کامیابی کیساتھ مکمل کر کے اپنی ذمہداریاں محترمہ سجیلہ نوید صاحبہ کو سونپ چکے ہیں ۔ جن کی کمیونٹی سے اس پروگرام میں پہلی باقاعدہ ملاقات بھی ہوئی۔ان سے ہم سب اچھی امیدیں وابستہ کر سکتے ہیں کہ وہ ایک ملنسار اور ہمدرد ذہین خاتون ہیں ۔ 
سبھی تعریفی خط وصول کرنے والے ادبی دوستوں کو دلی مبارکباد پیش کی گئی ۔ الحمدللہ ہم تمام ادبی تنظیمات نے شاز ملک صاحبہ کی قیادت میں جو تیرہ نکات کی ایک درخواست پیش کی تھی اس پر دانیال عزیز صاحب اور احسان کریم صاحب کی ذاتی کوششوں سے ہمارا تیسرا نقطہ منظور ہوا اور فرانس کی تاریخ میں پہلی بار ہماری ادبی خدمات کو تسلیم کیا گیا۔ عزت دی گئی اور اس پر تعریفی خطوط دیئے گئے ۔ شاز ملک صاحبہ کی ذاتی کوشش بھی لائق تحسین رہی ۔ ابھی بہت سا کام اس حوالے سے مزید ہونا ہے اور ان شاءاللہ ہم سب اس میں اپنی حیثیت کے مطابق کردار ادا کرینگے۔ پاک ایمبیسی کے منتظمین کا اور سفیر پاکستان جناب عاصم افتخار احمد صاحب کا خصوصی شکریہ ادا کیا گیا۔ پروگرام کا اختتام بھی وقت مقررہ پر بارہ بجے کیا گیا ۔۔اس کے بعد مہمانوں کی تواضع گرما گرم حلوہ پوری نان چنے اور چکن تکہ اور چائے کافی سے کی گئی۔ یہ یادگار تقریب پاکستان کی سلامتی اور کامیابی کی دعاؤں پر اختتام پذیر ہوئی۔
پاکستان زندہ باد 🇵🇰💚
رپورٹ:ممتازملک.پیرس

تبصرہ۔انور کمال انور کی شاعری پر

شاعری کی نہیں جاتی بلکہ کروائی جاتی ہے ۔ہم جتنا چاہیں زور لگا لیں لیکن جب تک پروردگار اپنی مہربانی سے ہم ہر لفظوں کی ایک سریلی ترتیب نہیں اتارتا تو کوئی شعر وجود میں آ ہی نہیں سکتا۔ اس عطا کیساتھ ہر شاعر اپنے ارد گرد کے ماحول اور رویوں سے شدید متاثر ہوتا ہے وہ بات جو کسی عام فرد کے لیئے چٹکیوں میں اڑا دینے والی ہو وہی بات جب کسی شاعر کو پیش آتی ہے تو اس کے دل و دماغ کیساتھ چپک جاتی ہے اور جب تک وہ اسے شعر کے اوزار سے کھرج نہیں لیتا اسے سانس لینا محال ہو جاتا ہے۔ یہی کیفیت ہمیں ابھرتے ہوئے شاعر انور کمال انور کی شاعری میں جا بجا دکھائی دیتی ہے ۔ ان کی شاعری غم زندگی ، غم دوستی کیساتھ ساتھ وقت کی پلٹا بازیوں کو بھی بیان کرتی دکھائی اور سنائی دیتی ہے ۔ ان کا کلام پڑھتے ہوئے جو شاعر نہیں ہیں انہیں بھی اپنے دل کا بوجھ ہلکا ہوتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر انکی غزل
اشک الم ہیں دیدہ بیدار کے لیئے
مایوسیوں کی رات ہے فنکار کے لیئے 
ہی پڑھ کر دیکھ لیئے ۔ فیصلہ کرنا مشکل لگتا ہے کہ کس شعر کو اچھا کہیں اور کس شعر کو بہت اچھا کہا جائے۔ میری بہت سی دعائیں انور کمال انور کے لیئے۔ میں اللہ سے انکی کامیابیوں کے لیئےملتمس رہوں گی۔
والسلام
ممتازملک
(پیرس۔فرانس)
(شاعرہ ۔لکھاری۔کالمنگار۔ نعت گو۔ عزت خواں۔ بلاگر۔ ٹک ٹاکر)

منگل، 8 اگست، 2023

مصرع طرح ۔ تنقید کر کے دیکھتے ہیں اردو شاعری

مصرع طرح ۔۔
(اک آفتاب پہ تنقید کر کے دیکھتے ہیں)

پگھلتے ہیں یا ہمیں خاکستر یہ کرتا ہے
اک آفتاب پہ تنقید کر کے دیکھتے ہیں
 
کبھی کیا تھا کسی سوچ کے تحت تم سے
چلو اس عہد کی تجدید کر کے دیکھتے ہیں

ہمیں انوکھے تجربات سے محبت ہے
اسی ادا کو بھی تمہید کر کے دیکھتے ہیں

نشانے پر ہے سدا میری منزلوں کا پتہ
ہم اسکے تیر کی تائید کر کے دیکھتے ہیں

اثر بھی ہو گا مجھے اس کا کچھ گمان نہیں 
نگاہ نیک کی تاکید کر کے دیکھتے ہیں

سوائے ایک نئے زخم کے وہ کیا دیگا
بدوں سے اچھے کی امید کر کے دیکھتے ہیں

شگوفہ چھوڑتے ہیں وہ خبر کے نامے پر
گرفت ہونے پہ تردید کر کے دیکھتے ہیں 

انہیں بھی عقل سے ممتاز رب نوازتا ہے
ہم اپنے چھوٹوں کی تقلید کر کے دیکھتے ہیں
                  .......

سمندر انٹرنیشنل جرمنی کی جانب سے زوم آن لائن طرحی مشاعرہ ۔ 
اسحاق ساجد صاحب کی دعوت  پر ۔ 27/08/2023

جمعرات، 27 جولائی، 2023

تعلیمی ادارے یا گناہوں کا اڈا / کالم

تعلیمی ادارے یا گناہوں کا اڈا
تحریر۔
(ممتازملک۔پیرس)

میں اب تک اس سکینڈل پر اپنی کوئی رائے اس لیئے نہیں دینا چاہتی تھی کہ ہمارے ملک میں پروفیشنل جیلسی میں لوگ ایک دوسرے کے کاروبار پر، اداروں پر ، کردار پر کیا کیا کیچڑ اچھالتے ہیں اور کیسے کیسے رقیق حملے کرتے ہیں یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے ۔ ایک طرف اس یونیورسٹی کی ترقی کے قصے ہیں تو دوسری جانب یہاں گندگی کی کہانیاں ۔۔
میں نے آج تک بہاولپور نہیں دیکھا ۔ 25سال سے فرانس میں مقیم ہوں ۔ اس کافر ملک میں ہم نے آج تک انتظامیہ کی سرپرستی میں ایسی خبریں کبھی نہیں سنیں ۔ اور ایک ہے ہمارا اسلامی جمہوریہ پاکستان جس میں عورت سے بڑا کوئی کاروبار ہی نہیں ۔ عورت سے بڑی کوئی سیڑھی نہیں ۔ عورت سے آگے کسی کے دماغ میں اور کوئی سوچ ہی نہیں ۔ اس میں دین سے دوری نے آج کا دن دکھایا ہے ۔ ہر تعلیمی ادارے میں غلاظتوں کے قصے عام ہیں ۔ دین کے ٹھیکیدار ٹھنڈے ملکوں میں اسلام پھیلانے کے ڈرامے کر رہے ہیں اور اپنی منجھی تھلے ڈانگ پھیرنے کو تیار نہیں ہیں ۔ اپنا ملک کفر میں ڈوبا ہوا ہے۔ پاکستان میں ہر شخص کو ایک کافر کی طرح اس دین کا مطالعہ کرنا ہوگا اور پھر سے اسلام قبول کرنا ہو گا۔ ایک غیر مسلم کی طرح اس دین کی امان میں آنا ہو گا۔ وگرنہ ہمارے ملاوں نے یا تو دہشت گرد پیدا کیئے ہیں یا پھر اپنی ضد میں کاٹھے انگریز کھڑے کر لیئے ہیں ۔ ہمارے یورپ میں پیدا ہوئی نسل جب ہم  سے پوچھتی ہے کہ یہ ہے آپ کا اسلامی جمہوریہ پاکستان ؟
تو شکر ہیں ہم یہاں نہیں رہتے۔۔۔ یہ سنکر ہمارا دل کتنے ٹکڑوں میں تقسیم ہو جاتا ہے اور ہم جیتے جی زمین میں گڑ جاتے ہیں ۔ پاکستانی بے حس قوم سوچ بھی نہیں سکتی 😪
مائیں فیشن اور موج مستی میں لتھڑی ہوئی ہیں  اور باپ ریڑھی سے لیکر افسری تک زیادہ سے زیادہ حرام کمانے میں مصروف ہے ۔ انکے بیٹے بیٹیاں پھر کچھ بھی کر لیں کوئی حیرت نہیں ۔ یہ یاد رہے کہ یہ سب اسی کمائی کے کمالات ہیں ۔ گن پوائنٹ پر کچھ بھی نہیں ہو رہا۔ حرام کے نوالے حرامی اولاد کی صورت آپکے سامنے ضرور کھڑے ہوتے ہیں ۔ یہ اللہ کا حساب کتاب ہے جو ہو کر رہتا ہے۔ 
اس طرح کے کسی بھی واقعے کی تہہ میں جا کر دیکھیں تو یہ بس جوانیاں کہیں عیاشی کے لیئے، تو کہیں ٹائم پاس کے لیئے، کہیں ایکسائٹمنت کے نام پر تو کہیں تجسس کے تحت ان تمام گناہوں کا بخوشی شکار ہونے جاتے ہیں ۔ نہ ان میں کوئی لڑکا اغواء کر کے لیجایا گیا ہے اور نہ ہی کوئی لڑکی زبردستی لیجائی گئی ہے ۔  اس تعلیمی ادارے کو ٹارگٹ کرنے سے باقی سبھی تعلیمی ادارے پارسا ثابت نہیں ہو جائینگںے۔  جب آپکی اولاد نے کاغذی ڈگریوں کی دوڑ میں 18 سال کی عمر تک بھی اپنا جیب خرچ تک اپنی محنت سے اور کسی ہنر سے کمانا نہیں سیکھا وہ 25,30 سال کی عمر میں بھی باپ کی کمائی پر عیش کر رہی ہے۔ لیکن کپڑے اور موجیں انہیں مارک اور برانڈز والی چاہیئے تو انکے پاس اپنے جسم کو دکان بنانے کے سوا ہوتا ہی کیا ہے۔ پھر جب ان دکانوں پر چھاپہ پڑتا ہے تو کئی دوپٹے اور پگڑیاں عہدیداران کے پیروں میں جس عزت کی دہائی دیتے ہوئے گرائے جاتے ہیں ۔ وہ عزت تو کب سے قفس عنصری سے پرواز کر چکی تھی ۔ اب اس بت کو چاہے جلا دیں ، دفنا دیں یا سولی چڑھا دیں ۔ اللہ کی رسی کھینچی جا چکی ہے۔  
                    -------

منگل، 18 جولائی، 2023

ہنسی نہیں زندگی ۔ کوٹیشنز ۔ چھوٹی چھوٹی باتیں

ہنسی نہیں زندگی

ہنستے رہیئے، لیکن زندگی کو کبھی ہنسی مت سمجھئیے ۔ کیونکہ اسے ہنسی سمجھ لیا تو کمبخت بڑا رلاتی ہے۔ 
   (چھوٹی چھوٹی باتیں)
         (ممتازملک۔پیرس)

شاعری / /مدت ہوئ عورت ہوۓ/ ممتاز قلم / سچ تو یہ ہے/ اے شہہ محترم/ سراب دنیا/ نظمیں/ پنجابی کلام/