ممتازملک ۔ پیرس

ممتازملک ۔ پیرس
تصانیف : ممتازملک

ہفتہ، 27 جون، 2015

قومی رنگیلے




قومی رنگیلے 
ممتازملک ۔ پیرس







دنیا بھر میں قوموں کے حکمران ہوتے ہیں رہنما ہوتے ہیں یا سیاستدان ہوتے ہیں جو انہیں کامیابی کے راستوں پر لی جاتے ہیں لیکن پاکستانی  قوم کو قائداعظم کے بعد ان میں سے کچھ بھی میسر نہیں آیا . بلکہ جو بھی ملے رنگیلے ملے یا رنگیلیاں  ملیں . جو دامے ورمے سخنے کام نظر آیا وہ بھہ اللہ پاک نے اس قوم کی عزت رکھوانے کے لیئے کسی نہ کسی سے زبردستی کروا ہی لیا  اسی طرح جیسے چیونٹی سے ہاتھی مروا لیتا ہے . سبحان ہے اس کی قدرت.
دور کیوں جائیں اپنے پڑوسی کو ہی دیکھ لیں جو اتنا بے دھڑک ہو کر بدمعاشیوں  کے ریکارڈ بناتا ہے کہ ہمارے ملک کو میسر آنے والے رنگیلے اور رنگیلیاں ان کو کھل کر فٹے منہ کہنے کا حوصلہ بھی نہیں دکھا سکتے آخر کو سودا بیچنا ہے بھائ . آلو لے ، پیاز لے ، چینی لے ......
ہندوستان کے بارے کسی کو کوئ ثبوت ڈھونڈنے کی ضرورت ہی نہیں ہے کہ  اس نے خود اپنے کرتوت اپنی ہی فلمز میں  اعتراف کیئےیہ اعتراف گناہ 21دسمبر نامی فلم میں پاکستان توڑنے کے واقعات  ہوں یا بنارس کیفے نامی فلم میں سری لنکا اور جافنا میں ہونے والے خوفناک خانہ جنگی کے حالات اسے 
کھلے بندوں پیش کیا  اور اعلانیہ انہیں پیش کیا گیا.آن فلموں کو دیکھنے یا ہندو دہشت گرد پرائم منسٹر مودی کے گزشتہ کچھ عرصہ میں دکھائ جانے والی زبان درازیاں  ان سے بجا طور پر ایک کم عقل انسان بھی یہ بات سمجھ سکتا ہے کہ پاکستان کو بدنام یا برباد کرنے کے لیئے ستر سال سے یہ  بنیا بغل میں  چھری لیئے رام رام جپ کر پرایا مال اپنے نام کرنے میں مصروف ہے . اگر کوئ اور ملک پاکستان  کی بجائے ہوتا جس کے ساتھ اس کا پڑوسی یہ گل کھلا رہا ہوتا تو وہ اسی کے انہی ثبوتوں کی بنا پر دنیا میں اسکا ناطقہ بند کر دیتا.  ہندو محاورہ ہے کہ جھوٹ بولو لیکن اتنا بولو، اتنی بار بولو، ڈٹ کے بولو کہ وہ سچ لگنے لگے . اور ہندوستان  کی پوری تاریخ گواہ ہے کہ ہندوؤں  نے ہمیشہ چھل ،بل اور کھپٹ کو  اپنے ہر معاملے میں استعمال کیا اور آنکھوں میں دھول جھونکنے میں یہ قوم ید طولی رکھتی ہے . دوسری جانب ہم پاکستانیوں  کو دیکھیں تو اپنی فطری نرم مزاجی کے باعث کبھی تو انہیں ہندووں سے سال بھر میں اپنے ملک میں جاسوسی اور قتل و غارت کا  ٹھیکہ  ان 15 لآکھ پاؤنڈ کے عوض کر لیتے ہیں کہ کہ جن میں سے 10 لآکھ ڈالر ہمارے رنگیلے حکمران انہی کی ایک ایک طوائف کے گھنگھروں پر ایک رات میں نچھاور کر دیتے ہیں .   کبھی ہم سادگی بازار لگا لگا کر بے حال ہو جاتے ہیں تو کبھی اپنے ایک لندن سیکرٹریٹ  کا ماہانہ خرچہ ایک سے ڈیڑھ لاکھ پاونڈز  میں کرتے ہوئے آدھی آدھی رات کو شراب کے نشے میں دھت  ملک و قوم  کی غربت کا رونا فون کال پر روتے نظر آتے ہیں . کبھی یہ رنگیلا غیر ملکی آقاووں کے اشارے پر ملک کی اینٹ سے اینٹ بجانے کی تڑیاں لگاتے ہیں تو دوسرے ہی لمحے جب بلی کا بلونگڑا بھی ساتھ کھڑا دکھائی نہیں دیتا تو جھٹ سے جرنیلوں کے جوتے چاٹتا  اور ملک سے باہر نکلنے کے چور دروازے کھلواتا نظر آتا ہے . کچھ اتنے ہشیار  کہ راتوں  رات ان رنگیلوں اور رنگیلیوں کے سات پشتوں کے کرتوت بمعہ  ثبوت ڈھونڈ نکالتاہے تو کہیں اتنے احمق کہ 
"یار جانے دو میرا بھائ نہیں " 
کہہ کر ملک سے باہر بھگا کر خوب  عیاشی کرنے کی دعا دیکر اور بگل بجا کر رخصت کر دیتا ہے . وہ جنہیں قوم پھندے پر جھلانا چاہتی ہے اسے ہمارے دوست نواز بااختیار جہاز کا جھولا جھلا کے" جھولے مایاں" کھلاتا ہے . کیونکہ ہم گھر کا کچرا جلانے کی بجائے اسے کارپٹ کے نیچے دبا کر اپنی نآک بند کر لینا زیادہ آسان سمجھتے ہیں لیکن یہ بھول جاتے ہیں کہ دوسرے بھلااپنی ناک کیوں بند کریں گے . لیکن ایک ہی بات ان سب حالات کو دیکھ کر سمجھ آتی ہے کہ بے غیرت کا کوئ دین دھرم نہیں  ہوتا . پھر وہ رنگیلا ہو یا رنگیلی اس سے کیا فرق پڑتا ہے . نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے تو پہلے ہی فرما دیا تھا کہ " جو حیا نہیں کرتا وہ جو چاہے کرے " .
                       ....................

جمعرات، 18 جون، 2015

رمضان دسترخوان / ممتازملک ۔ پیرس



رمضان دسترخوان 
ممتازملک ۔ پیرس


زیادہ پرانی بات نہیں ہے جب رمضان المبارک کا انتظار اس امید اور تیاری کے ساتھ کیا جاتا تھا کہ شیطان قید کر لیا جائیگا اور اسے زیادہ سے زیادہ  اپنے اللہ سے بات کرنے  اور اس کی عبادت کا مزہ لینے کا موقع ملے گا . خوب مناجات کی جائیں گی ،دعاؤں کے زور پر خدا سے اپنی مرادیں  مانگی اور پائ جائیں گی اور اللہ کی رحمتوں  سے اپنے دامن خوب خوب بھرے جائیں گے . اب زمانہ بدلا روزہ داری سے زیادہ اب افطاری کی فکر دامن گیر ہوتی ہے ۔ رمضان المبارک کے مہینے کے آغاز سے کئ روز پہلے ہی اکثر خواتین  اس مصروفیت میں مبتلا ہوتی ہے کہ بھئ رمضان آ رہا ہے تیاریاں کرنی ہیں .کہیں بیٹھی ہوں کسی بھی محفل میں ہوں پورا ماہ شعبان اسی سوچ اور فکر میں دکھائ اور سنائ دینگی کہ بھئی تیاریاں کرنی ہیں رمضان کی آمد ہے ۔.ہم  بیوقوف کافی عرصہ تک سمجھ ہی نہ سکے کہ یہ تیاریاں کس قسم کی ہوتی ہیں ہم تو اسے قرآن پاک کی پڑھائ نوافل کی محافل کا.اہتمام ہی سمجھتے  رہے ۔

لیکن آیک روز کسی خاتون سے پوچھنے کی ہمت کر ہی بیٹھے کہ یہ کس قسم کی تیاریاں ہیں جو اتنی توجہ سے کی جا تی ہے تو بولیں ارے آپ نہیں کرتیں ہیں یہ سب تیاریاں ؟ ہم بے چارے شرمندہ سے سر جھکا کر بولے نہیں جی ہم تو جتنا ہو سکے اتنا.ہی کر لیتے ہیں ۔آپ سب تو ماشاللہ اللہ والی ہیں اتنا اہتمام تو آپ ہی کر سکتی ہیں .یہ سن کر وہ زور سے ہنسیں بولیں کیا آپ مذاق کر رہی ہیں . ہم نے کہا نہیں نہیں سچی بات ہے . آپ مجھے بتائیں کہ آپ کیا تیاریاں کرتی ہیں؟تو بولیں دیکھو  میں اور میری سب سہیلیاں کم از کم پچاس ساٹھ کلو مرغی کو مصالحہ لگا کر فریز کر لیتی ہیں ، پھر دو تین سو سموسے اور رولز بنانے ہوتے ہیں . اتنے ہی شامی کباب بنا کر فریز کرتی ہیں ،روزہ دار ہوتے ہیں تو شام کو چٹ پٹا کھانے کو جی چاہتا ہے. اس کے علاوہ چاٹ وغیرہ کا سامان بھی اکٹھا کرتے ہیں لوبیا اور چنے بھی پانچ سات کلو ابال کر فریز کیئے جاتے ہیں ۔ دھنیئے پودینے کترے جاتے ہیں ۔ گوشت کی یخنی بنا کر کافی پیکٹ میں فریز کر لیتے ہیں، کبھی پلاؤ کھانے کا ہی جی چاہتا ہے تودیر نہ لگے ۔ بریانی کو بھی جی چاہ سکتا ہے یا کوئی افطاری پر مدعو ہو سکتا ہے تو بریانی کا مصالحہ لگا کر بھی کافی گوشت رکھ لیا جاتا ہے ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس کے بعد بھی وہ ہماری معلومات میں  کافی اضافہ کرتی رہیں لیکن ہمیں  صرف ان کے ہلتے ہوئے لب تو دکھائی دے رہے تھے لیکن کانوں نے سننے سے بھی شاید انکار کر دیا تھا ۔ کہ یہ سب ہیں رمضان کی تیاریاں ۔ ہم نے ان کے ایک منٹ کے توقف پر سوال کر ہی دیا جو ہمیں بے چین کر رہا تھا کہ "پھر تو اتنا کچھ کرنے کے بعد آپ کے پاس عبادت کے لیئے کافی وقت بچتا ہو گا آپ تو خوب تلاوت بھی فرماتی ہوں گی اور نوافل بھی خوب ادا کرتی ہونگی ؟ تو بیچارگی سے بولیں ارے کہاں آپ کو تو پتہ ہے  روزانہ کسی نہ کسی فیملی کی افطار ہوتی ہے یا ہماری کہیں نہ کہیں افطار ہوتی ہے ۔  ظہر کے بعد تو ویسے بھی افطاری کی تیاریاں شروع ہو جاتی ہیں ہر ایک کی پسند کا خیال رکھنا ہوتا ہے آخر کو ایک ہی تو ماہ ہوتا ہے ان سب خاطر داریوں کا ۔  عید کی تیاریاں بھی ساتھ ساتھ ہی کرنا ہوتی ہیں ۔ کبھی کپڑوں کی خریداری یا پارسل منگوانا ہوتا ہے تو اس کے لیئے فون پر یا آن لائن کافی وقت لگ جاتا ہے کبھی جوتے کبھی جیولری ۔۔۔۔۔پھر پاکستان سے سکائیپ پر بھی کسی نہ کسی سے روز بات کرنا ہوتی ہے ۔ ایک دو قران  پاک تو پڑھ ہی لیتے ہیں ۔ اللہ قبول فرمائے ۔   جب یہ ہی ماہ مبارک پاکستان مین گزارنے کا موقع ملا تو حالات اس سے بھی دگرگوں نکلے  اس بات کا تو پتہ تھا کہ سموسے پکوڑے اور کچوریاں بازار سے آتی ہیں۔

 لیکن یہ کیا یہاں تو اس قدر ترقی ہو چکی تھی کہ اب تو لائن میں لگ کر چار چار گھنٹے بعد باری آنے پر نہاریاں اور پائے اب سحری میں بھی مرد بازاروں سے ڈھو رہے ہیں ۔ تراویح پڑھنے کا ٹائم مسجدیں گلی گلی میں ہونے کے باوجود کسی کسی کے پاس ہی ہے ۔ نماز کی پابندی کا کوئی حال ہی نہیں ۔ لیکن افطاریوں کا اہتمام ہے کہ ایک دوسرے سے مقابلہ کیا کہیں ۔ 

ہم یہ سوچنے لگے  ایک طرف سب کچھ گھر مین بنایا جاتا ہے اس کے پاس بھی اللہ سے بات کرنے کا وقت نہیںاور دوسری جانب سب کچھ بازار سے لا لا کر دسترخوان بھرے جا رہے ہیں تو بھی اللہ سے بات کرنے کی فرصت نہیں ۔ اس پر یہ کہ کیا اس  مہینے میں  اتنی ساری اپنی ہی خاطر مدارات کی بعد بھی انسان  کسی تزکیئہ نفس کے قابل رہتا ہے ۔ جو بھوکا ہی نہ رہا اور چند گھنٹوں کی بھوک کے بعد چار دن کا راشن اپنے شگم میں بھر لے  اسے کیا معلوم  کہ بھوک کیا ہوتی ہے ؟چار گلاس پانی کی پیاس کو چند گھنٹے روک کر اسے رنگ برنگے مشروبات کے آٹھ گلاس سے بھر لے اسے کیا معلوم کہ پیاس کیا ہوتی ہے ؟.
گویا یہ ماہ خود کو سال بھر سے چڑھی ہوئی چربی اتارنے اور اپنے اندر سے فاسد مادوں کو نکالنے کے لیئے آتا ہے لیکن ہم پہلے سے زیادہ فاسد مادے اپنے اندر بھر کر اس ماہ مقدّس کو رخصت کرتے ہیں ۔ کیا یہ ہی ہے رمضان کی تیاریاں تو شکر ہے اللہ پاک کا  کہ ہمارے پاس ایسی کوئی بھی تیاری کرنے کا نہ تو وقت ہے نہ ہی شوق ۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
.

جمعرات، 11 جون، 2015

پاکستان میانمار نہیں ۔۔ ممتازملک ۔ پیرس





 خبردار!
پاکستان میانمار نہیں
ممتازملک ۔ پیرس



 ہندوستان کے ساتھ چینی ،آلو ،پیاز اور ٹماٹر کی تجارت کرنے والے سائیں وزیر اعظم پاکستان جاگیئے اور ہندو ٹیریرسٹ کو جواب دیجیئے کہ پاکستان میں ستر سال کے دوران ہونے والے جرائم کو دھڑلے سے قبول کرنے پر اب اسے قرار واقعی سزا کے لیئے بھی تیار ہو نا چاہیئے ۔ کل تک جب یہ ہی باتیں کوئی بھی پاکستانی کرتا تھا تو اسے محض الزام تراشی قرار دیا جاتا تھا۔ لیکن اب اس بات  کو وقت نے روز روشن کی طرح ثابت کر دیا ہے کہ پاکستانی اپنے موقف میں کس قدر سچے تھے ۔ لیکن ہندو دہشتگردی کو ہوا دینے والے امریکی اور یورپی کٹھ پتلیاں ہلانے والے اسے خطے کا مزید بڑا بدمعاش بنانے کے لیئے اس کی پیٹھ تھپکتے رہے ۔ افغانستان میں افغانیوں کو اپنے پراکسی وار کے ذریعے ٹٹّو بنانے کا خواب بلی کے خواب میں چھیچھڑے ہی نہیں ثابت ہوا بلکہ پاک چائینہ راہداری کے منصوبے کے آغاز کی خبر بھی ہندو دہشتگروں پر بجلی بن کر گری ہے ۔ اس لیئے زخم چاٹتا ہوا  کل تک کے صرف ہندوستانی مسلمانون کے قاتل جانے جانے جانے والے ٹُن مردودی صاحب اب پاکستان میں بدترین قتل عام کا اعتراف ہی نہیں کر رہے بلکہ غصّے سے  منہ سے جھاگ اڑاتے ہوئے بنگلہ دیش کے پاکستان سے توڑے جانے کی بھی کرتوت مان ہی نہیں رہے بلکہ سینہ پھلائے اس پر کسی تمغے کے بھی منتظر ہیں ۔ اور پاکستانی سیاستدان منہ میں گھنگھنیاں ڈالے بیٹھے رہنے کے موڈ میں ہیں تو اب عوام کو انہیں غیرت کی سوئیاں چُبھو چُبھو کر بیدار کرنے کی ضرورت پڑ گئی ہے ۔ انیس سو اڑتالیس میں برما کے مسلمانوں نے پاکستان سے محبت کا جو قصور کیا تھا ۔ کیا ہم ستّر سال بعد بھی بے غیرتی سے اس کا تماشہ ہی دیکھتے رہیں گے تو پھر ان لیڈروں کو بھی اعلانیہ سر منڈا کر ہندو چوٹی رکھ کے دھوتی باندھ کر تلک لگا ہی لینا چاہیئے ۔ کیوں کہ مسلمان ہونے کا فرض وہ ادا نہیں کر پا رہے اور مسلمان ہونا اتنا بھی آسان نہیں ہے ۔امتحان دین میں پورا اترنے کا وقت ہے تو آگے بڑھ کر ہندو ٹیریرسٹ کو منہ توڑ جواب دیجیئے اور  اسے بتا دیجیئے کہ ہماری قوم نہ تو معمولی قوم ہے نہ ہماری افواج معمولی افواج ہیں اور نہ ہی ہمارا دین کسی بذدل کو مسلمان کہلانے کی اجازت دیتا ہے ۔ لوہے کا کلیجہ چاہیئے دین الہی کو اختیار کرنے کے لیئے ۔ تب کوئی مسلمان ہوا کرتا ہے ۔  آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اور وقتی مفادات کو ایک طرف پھینکتے ہوئے جواب دیجیئے میاں صاحبانِ ، کہ پاکستان کو میانمار سمجھنے کی بڑھک مارنے والو ایسا سمجھنے کی غلطی کبھی مت کرنا ، ورنہہ تمہیں تمہاری ہی زمین پر چُن چُن کر بھی ماریں  گے اور گنتی کرنا بھی خوشی سے بھول جائیں گے ۔ آج جو کچھ کرنا ہے اس کے لیئے ہم صرف حکومت پاکستان کو ہی نہیں دیکھیں گے بلکہ غیرت مند پاکستانی دنیا میں جہاں کہیں ہے اس کے  پاس پرنٹ میڈیا ایک طاقتور ہتھیار کی طرح موجود ہے اور ہمیں ہندو اور بدھ ٹیرررسٹ کو بتانا ہے کہ ہم ہر ہتھیار چلانا جانتے ہیں چاہے وہ تلوار کا ہو یا پیار کا ۔ اور انشاءاللہ  بہت جلد ہندوستان کو اپنے ہی کہے ہوئے الفاظ  کی قیمت بھی ُچکانی پڑے گی اور اس پر پر شدید ترین افسوس بھی کرنا ہی پڑے گا ۔  جاگ پاکستانی جاگ اور بتا دے کہ پاکستان میانمار نہیں ہے ۔ توڑ دینگے ہم ہر وہ ہاتھ جو پاکستان کی سلامتی کی جانب اٹھے گا ۔  چاہے اس کے لیئے ہمیں خود ہی کیوں نہ فنا ہو جانا پڑے ۔ 
                                         ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

منگل، 9 جون، 2015

حسین محفل / ممتازملک .پیرس



حسین محفل  
ممتازملک .پیرس






پیرس کے علاقے اوبر ویلئے کے خوبصورت ہال میں 7 جون 2015 کے روز پیرس کی تاریخ کا ایک بہت خوبصورت  اور یاد گار پروگرام  یہاں کی پیرس ادبی فورم کی جانب سے منعقد کیا گیا . جس میں پی پیرس  کی معروف شاعرہ محترمہ ثمن شاہ صاحبہ کے  دوسرے شعری مجموعے "ہمیشہ تم کو چاہیں گے" کی تقریب پذیرائی اور ایک عالمی مشاعرے کا انعقاد کیا گیا . جس میں کم از کم میرے پیرس میں اٹھارہ سالہ قیام میں سب سے زیادہ اور مستند اور معروف شعراء کا مشاعرہ بھی منعقد کیا گیا ان سب شخصیات  کی تعریف اور تعارف دونوں ہی چند الفاظ میں کرنا ابھی ممکن نہیں .ان کا تذکرہ ہم بعد میں کریں گے . اس پروگرام کے صدر محفل ناروے سے آئے ہوئے  باکمال شاعر جناب جمشید مسرور صاحب تھے .جنہوں نے بہت خوبصورت الفاظ میں  ثمن شاہ کی کتاب اور شخصیت پر تبصرہ کیا . جرمنی سے ارم بتول  صاحبہ ،حافظ احمد اور توقیر عاطف  صاحب تشریف لائے تو انگلینڈ  کے مختلف شہروں سے مہ جبیں غزل انصاری . راحت زاہد .فرزانہ نیناں صاحبہ   اورنعیم حیدر صاحب جیسی خوبصورت  شخصیات  کو دیکھنے اور سننے کا موقع ملا . ہر شخصیت اپنی ایک منفرد پہچان رکھتی ہے . سبھی نے ثمن شاہ صاحبہ کے کام کو بھرپور انداز میں سراہا اور اپنا اپنا کلام نھی پیش کیا .
میڈیا کی جانب سے وقت اور ، جیو نے اسے کور کیا جبکہ پریس فوٹو گرافرز کی بھی  بڑی تعداد موجود تھی . پروگرام کا آغاز ستارہ ملک صاحبہ کی نعت خوانی سے ہوا . مقامی شعراء میں جناں عاکف غنی ، ایاز محمود اہاز، روحی بانو ،شمیم خان صاحبہ، بخشی وقارہاشمی ،آصف اور مجھ ناچیز ممتاز ملک نے اپنا اپنا کلام پیش کیا اور ثمن شاہ صاحبہ کی کاوش کو سراہا اور ان کے لیئے نیک تمناؤں کا اظہارکیا. پروگرام کے آخر میں بہترین کھانے کا اہتمام کیا گیا تھا . کھانے کے بعد ہندوستانی گائیک انور حسین کی گائیگی نے خوب رنگ جمایا. جبکہ عاکف غنی ،نعیم حیدر، غزل انصاری، اور ثمن شاہ نے بھی ترنم سے غزلیں گاکر کے محفل میں رنگ بھرا. مجموعی طور پر یہ ایک بہت ہی خوبصورت  محفل تھی جہاں ہر ایک کے مقام و مرتبے کا خیال رکھا گیا . ایک دوسرے سے نیک تمناؤں اور کتب کا تبادلہ ہوا. بہت ہی خوبصورت  اور یادگار تصویری سیشن ہوا .یوں ہنستے مسکراتے یہ پروگرام حسین یادوں کے انمٹ نقوش چھوڑتے ہوئے اختتام پذیر ہوا.  ایسے پروگزامز میں شرکت سے ہم نہ صرف اپنے لسانی ورثے اردو زبان کی حفاظت میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں  بلکہ اپنی آنے والی نسل کو بھی اپنی زبان سے محبت کا درس دیتے ہیں 
جس درجے کے مہمان بلائے گئے تھے اس کے جساب سے پیرس والوں  کے احساس کی کمی بہت کھلی .  شرکاء کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہونی چاہیئے تھی .  لیکن جتنے بھی شرکاء موجود تھی وہ شعر کو سمجھنے اور داد دینے والے تھے. اس خوبصورت پروگرام کے انعقاد کے لیئے پیرس ادبی فورم کی ساری ٹیم مبارکباد کی مستحق ہے  .امید کرتے ہیں کہ آئیندہ بھی پیرس والوں  کے لیئے ایسے شاندار لکھاریوں کی محفل سجتی رہیگی .اور پیرس  والوں کو اس بات کا  زیادہ سے زیادہ شرکت کا شعور آتا جائے گا اور اگر اپنا ورثہ بچانا ہے تو انہیں یہ سمجھنا ہو گا  کہ ہر جگہ لنگر کھانے کی بجائے کہیں کہیں اپنے پلے سے کھا کر بھی پروگرام کا لطف لیا جانا چاہیئے . کہ اسی میں وقار بھی ہے اور عزت بھی .  ہم ثمن شاہ صاحبہ اور انکی ٹیم  کا دلی شکریہ ادا کرتے ہیں کہ جن کی وجہ سے یہ خوبصورت  پروگرام  ممکن ہوا.  ماشااللہ. 
                                                    ------------                     

جمعہ، 5 جون، 2015

اتارو بے غیرتی اور بے حسی کا لبادہ



اتارو بے غیرتی اور بے حسی کا لبادہ
ممتازملک ۔ پیرس




























ہم نے ہمیشہ سے ایک ہی بات سنی کہ بدھ بھگ شو بڑے بے ضرر لوگ ہوتے ہیں امن پسند ہوتے ہیں .نیک ہوتے ہی ہیں لیکن عملی طور پر جب ان بدھ بھگشووں کو سیکھنے کا موقع ملا تو صدمے سے زبان ہی گنگ ہو گئ. یہ ہے انکی امن پسندی کا عملی ثبوت کہ برما جیسا ملک  اپنے ہی ملک کے باسیوں کو صرف اس لیئے ذبح کیئے جا رہا ہےکہ وہ ان کی طرح چادر لپیٹ کر امن کی گنجی فاختہ بننے کا ڈرامہ نہیں کرتے .ان جیسے  انسانی  ذبح خانے نہیں چلاتے .جھوٹ کا شانتی کا جھوٹا راگ نہیں الاپتے اور نیکی کے دھوکے میں لوگوں کا قتل عام نہیں کرتے . ان کا جرم صرف یہ ہے کہ وہ ایک خدا کا نام لیتے ہیں اور اپنے انداز میں زندگی گزارنا چاہتے ہیں . دنیا بھر میں کتوں کی حفاظت کے لیئے تو تنظیمیں میدان میں ہیں 'بلیوں کے لیئے جائیدادیں وقف ہو رہی ہیں، گدھوں کو بچانے کے منصوبے تو موجود  ہیں ، لیکن اگر کچھ ان ہمدردوں کی دنیا میں ناپید ہے تو وہ ہے یہاں کسی مسلمان کے لیئے آواز اٹھانا یا اس کے لیئے حق کی بات کرنا. نام نہاد مہذب دنیا میں کیا ہی مسلمان اور کیا ہی غیر مسلم سبھی حقیقتا بے ضمیروں کی زندگی  گذار رہے ہیں . ورنہ غیر مسلموں نے تو انڈونیشا اور ملائیشیا میں ہونے والے مقامی جھگڑوں کو بہانہ بنا کر عیسائ ملک بنوا لیا ،لیکن مسلمان جہاں بکروں کی طرح کاٹے جارہے ہیں اس برما میں الگ مسلمان ملک کیا بنتا بلکہ ان مظلوموں کے لیئے کسی کے منہ سے کوئ صدائے احتجاج  تک بلند نہیں ہوئ . کہنے کو دنیا میں ساٹھ اسلامی ممالک آزاد ہیں لیکن عملی طور پر سب کے سب ان کتوں کے حقوق کے لیئے لڑنے والی تنظیموں  کے پیچھے دم ہلانے والے سے زیادہ کچھ بھی نہیں ہیں.  لعنت ہے ایسی آزادی پر جو آپ سے آپ کا اظہار کا حق چھین لے .سچ بولنے پر زبان تالو سے چپک جائے .یہ ہے اصل جہاد اور یہ ہیں اصل گنجے  دہشتگرد. یہ چیلنج ہے جہاد کے نام پر موت کا کھیل کھیلنے والوں کے لیئے کہ جاو اب اصل جہاد کا وقت ہے. ایسی کتے کی موت مارو ان برمی بدمعاشوں کو کہ ان کی سات پشتیں یاد رکھیں .اور دھتکار ہے ان نام نہاد مسلم ممالک پر جنہوں نے اپنے ساحلوں پہ آئے مجبور بھائیوں عورتوں اور بچوں کو پناہ دینے کی بجائے بے غیرت کے ساتھ سمندر میں مرنے کے لیئے دھکیل دیا.کس منہ سے یہ کل خداکے سامنے پیش ہونگے اور اپنے لیئے رحم مانگیں گے کہ جن پر ان کو رحم کرنا تھا تب تو ان سے ہوا نہیں ..سلام ہے ترکی اور اور انکے غیرت مند صدر طیب اردگان پر کہ اس نے بے مثال انداز میں اپنا اسلامی امتحان پاس کیا .اور ان بدمعاشوں کو سبق سکھانے کا اعلان کیا .کہاں ہیں اب پاکستانی  حکمران جنہیں سعودیہ کی دوسرے مسلم ملک میں دخل اندازی پر بہت مروڑ اٹھ رہے تھے . فوج بھیجنے کے لیئے مرے جا رہے تھے لیکن اب جب اصل جہاد کا وقت آیا تو منہ سے احتجاجا بھی کچھ نہ پھوٹ سکے..کس کس حکمران نے قبر میں کتنے سانپ اور بچھو مزید اکھٹے کرنے ہیں اس دولت اور سونے چاندی کے.غیرت کھاو اور اپنے زندہ ہونے کا ثبوت دو کہ برما کے مظلوم مسلمانوں کی آہیں قیامت تک تمہارے پیچھا نہیں چھوڑیں گی. تب کس منہ سے آقائے  دو جہاں سے اپنی شفاعت  کی بھیگ مانگو گے؟
                ..................

جمعرات، 4 جون، 2015

اعتراف جرم بزبان ہندوستان


اعتراف جرم بزبان ہندوستان 
ممتازملک ۔ پیرس



گذشتہ دنوں ہندوستانی وزیر دفاع کا یہ بیان پڑھکر ہنسی بھی آئ اور افسوس بھی ہوا . کہ ہم ہندوستانی مفادات کے لیئے دوسرے ملکوں میں بھی گھس کر پراکسی وار کریں گے .دوسرے لفظوں میں اس کو اعتراف جرم سمجھا جانا چاہیئے کہ اتنے ذمہ دار عہدے پر بیٹھنے والے کا اتنا غیر زمہ دارانہ بیان کیسے ہو سکتا ہے . لیکن ہو سکتاہے جناب ہندوستان میں کچھ بھی ہو سکتا ہے. جو قوم لنگی پر ٹائ باندھ سکتی ہے وہ اور بھی بڑی شرلیاں چھوڑ سکتی ہے . حیران ہونے کی باری اب کے بار ہندوستان کی تھی جب ہمارے ہیرو جنرل راحیل شریف نے ایک مشترکہ دفاعی اجلاس میں یہ کہہ کر ہندوستان کی بینڈ بجائ کہ ہم نے بھی ہاتھ میں چوڑیاں نہیں پہن رکھیں .ہم اپنے ملک کے چپے چپے کا دفاع کرنا جانتے ہیں اور کسی بھی ملک کو پاکستان میں پراکسی وار کی اجازت نہیں دینگے . دہشتگردوں کو چن چن کر مارا جائے گا . یہ بیان پڑھ کر کل ہندوستانی انتظامیہ میں کون کون نہیں سویا ہو گا یہ تو ہمیں معلوم نہیں لیکن ہاں اتنا اعتبار اپنے ہیرو جنرل شریف پر اور اپنے بہادر افواج پر ضرور ہے کہ
" ایہہ پتر ہٹاں تے نہیں وکدے "
رہی بات ہندوستانی  بڑھکوں کی تو یہ قوم ستر سال میں یہ بات نہیں سمجھ سکی کہ پاکستان ایک ملک ہے جو ایک سچی حقیقت ہے اسے تسلیم کر لینا ہی اس خطے کی ترقی کا راستہ  کھول سکتی ہے ."میں نہ مانوں" کی رٹ سے نہ تو دن  رات ہوتا ہے اور نہ ہی رات دن بنتی ہے. ہاں کہنے والے کی عقل پر شبہ ضرور  ہونے لگتاہے .دعائیں دیں  انگریزوں  کو جو پاکستان  کے سامنے ایک جعلی بدمعاش بنانے کے چکر میں ہندوستان  کو پیسے کا اور شاباشی کا جام پلا پلا کر مست کیئے جا رہے ہیں اور بے چاری ہندوستانی قوم کو چار شہروں کی ترقی کا لولی پاپ دیکر سارے ملک کے حالات سے بے خبری کا ٹیکہ لگاتی رہتی ہے. اس ملک سے کسی عقل کی بات کی کیا توقع کی جا سکتی ہے کہ جس کے پاس ایک سو بیس کروڑ کی آبادی میں ایک بھی ایسا اہل آدمی نہ ہو جسے وہ اپنی وزرات  کی کرسی پر بٹھا سکتی . بے شمار معصوم جانوں کا قاتل دوسرے ملکوں میں دہشتگردی کے کارنامے سرانجام دلانے والا اور دہشت گردوں کا سب سے بڑاپشت پناہ مودی جیسا بدمعاش ( جو کسی اور ملک میں ہوتا تو اسے اب تک کئ بار پھانسی ہو چکی ہوتی .یعنی جتنے جنم اتنی پھانسیاں )اور نااہل آدمی جس قوم کی سب سے بڑی کرسی پر براجمان ہو اس قوم کے لیئے صرف دعا ہی  کی جا سکتی ہے. کہتے ہیں نا کہ جیسی قوم ہوتی ہے ویسا ہی انہیں حکمران عطا کر دیاجاتاہے تو پھر ہم کیا کہیں یہ بات تو سینہ ٹھوک کر ان کے اپنے وزیر دفاع نے کہہ دی کہ دوسرے ملکوں میں گھستے بھی ہیں اور دہشتگردوں کو پالتے بھی ہیں .اس سے ذیادہ ہم کچھ کہیں گے تو شاید بہت سوں کو اچھا نہ لگے .....
                                    ..............

ہفتہ، 30 مئی، 2015

● (4) زندہ قبریں/ کالم ۔ سچ تو یہ ہے



(خاص تحریر ماؤوں کے دن کے حوالے سے)
گھریلو معاملہ؟ 
پرتشدد گھر/
 زندہ قبریں
ممتاز ملک .پیرس



        (4) (پرتشدد گھر) 
                 زندہ قبریں 


ہمارے ہاں 80 فیصد خواتین گھروں میں اپنے ہی گھر والوں کے ہاتھوں تشدد کا 
شکار ہوتی ہیں یہ بات ایک پروگرام میں سنتے ہی دل میں ایک پرانی یاد کا درد 
اٹھا۔ اس وقت میں شاید سکول کی دسویں کلاس میں تھی بہت زیادہ جوشیلی بھی تھی حاضر جواب بھی اور بلا کی جنرل نالج کہ ہر ایک لاجواب ہو جائے۔ اسی لیئے ہر ایک کے پھڈے میں ٹانگ اڑانا ہمارا خاص شغف تھا . چاہے اس کے بدلے گھر والوں سے اپنی کتنی بھی خاطر کروانی پڑ جائے. انہیں  دنوں ایک جاننے والی خاتون کو آئے دن اپنے شوہر کے ہاتھوں اکثر پٹتے دیکھتی تھی مجھے اس بات کی اس وقت سمجھ نہیں آتی تھی کہ یہ خاتون بیٹوں کی ماں ہو کر بھی ہر خوبی رکھتے ہوئے بھی اس سانڈ نما شوہر سے کیوں پٹتی ہیں. کیوں اسے گھما کر ایک ہاتھ رسید نہیں کرتی ،کیوں اس کے دانت نہیں توڑتی بے. کم عمری میں جب عملی زندگی کے تجربات بھی رہنما نہ ہوں تو ایسے سوالات صرف پریشان ہی کرتے ہیں. لیکن ہر بات کی ایک حد ہوتی ہے. اس کا شوہر مارپیٹ میں یہ تک بھول جاتا تھا کہ وہ یہ وار ایک گوشت پوست کی بنی کمزور عورت پر کر رہا ہے یا کسی دیوار پر . خاص بات یہ کے اس مار پیٹ کی وجہ کوئی بڑی بات ہونا بھی ضروری نہیں تھا. کبھی اس بات پر پیٹ دیا کہ سبزی والے سے سبزی لیتے ہوئے بات کیوں کی۔ دودہ والے نے تمہاری آواز کیوں سنی . میرے آتے ہی دروازہ کیوں نہیں کھلا۔ رونی صورت کیوں بنا رکھی ہے ، تیری ماں مر گئی ہے کیا؟ 
ہنس کیوں رہی ہو تیری ماں کا بیاہ ہے کیا؟ 
کھانا میز پر پہلے سے کیوں نہیں لگادیا؟
یا پہلے کھانا کیوں لگا دیا ، یہ تو ٹھنڈا ہو گیا ؟ 
آج فل فرآئی انڈا بنانا تھا ہاف فرائی کیوں بنادیا ؟ 
افوہ ہاف فرائی انڈا کیوں بنایا ہے ؟ 
گلاس میں پانی آدھا کیوں ڈالا ؟ 
گلاس پورا کیوں بھرا، پانی ضائع کرتی ہو؟ یہ سب جان کر آپ کو بھی لگے گا کہ 
ایسی باتوں پر جھگڑنے والا یقینا کوئی ذہنی مریض ہی ہو سکتاہے کوئی نارمل 
آدمی تو یہ سب کبھی نہیں کریگا . 
ہم بھی یہ سب دیکھتے ہوئی اس خاتون کی مدد کا ارادہ کر بیٹھے . اس خاتون کی رام کتھا اور اس پر ہونے والے ظالمانہ تشدد کی رپوٹ ہم نے اس وقت کے ایک 
ادارہ کو(جس کا ان دنوں گھریلو مظالم سے بچانے کے لیئے نام لیا جاتا تھا .) 
بھجوا دیا کہ اس خاتون کو کوئی قانونی تحفظ حاصل ہو سکے اور سرکار اس 
خاتون کے ظالم شوہر کا مزاج ٹھیک کر سکے. بڑے دنوں کے انتظار کے بعد 
آخر کو اس ادارے کی جانب سے ایک دو لائن کا جواب موصول ہوا کہ یہ ایک 
گھریلو معاملہ ہے اور ہم اس سلسلے میں کچھ نہیں کر سکتے. یہ سن کر وہ 
خاتون زاروزار روئی اور بولی بیٹا میں نے کہاتھا نا کہ یہ ساری کتابی باتیں ہیں، 
کتابوں میں ہی ہوتی ہیں، مجھ جیسی عام سی گھریلو عورت کو بچانے کے لیئے 
کوئی پاکستانی قانون نہیں آئے گا ،مجھے بچا کر کس کے کندھے کے پھو ل بڑھ 
جائیں گے یا کس کو کون سی بڑی منسٹری مل جائےگی. ہمیں تو ہمارے ماں ماپ 
اس لیئے بیاہ دینے کے بعد ملنے نہیں آتے کہ کہیں شوہر سے لڑ کر ان کا آسرا لینے بیٹی ان کے ساتھ ہی نہ چل پڑے۔ میں نے اسی آدمی کے ہاتھوں مار کھاتے کھاتے مر جانا ہے اور میں سوچنے لگی کہ اسی گھریلو تشدد میں جب کوئی بھی کسی کے ہاتھوں قتل ہو جاتا ہے تو پولیس اور قانون کس منہ سے ٹھیکیدار بن کر آ جاتے ہیں۔ صرف اپنی جیبیں گرم کرنے کے لیئے، جہاں کبھی لاش ضبط کر کے پیسہ بنایا جاتا ہے، کبھی پوسٹ مارٹم کے نام پر تو کبھی خود کشی ظاہر کرنے کے لیئے ایڑی چوٹی کا زور لگایا جاتا ہے کیوں؟ تب بھی تو یہ ایک گھریلو معاملہ ہی تھا۔ آخر یہ گھریلو معاملہ کی پاکستانی قانون میں وضاحت ہے کیا؟ 
آج اتنے سال گزرنے پر بھی میں اسی سوال پر کھڑی ہوں اور اس واقعہ کے چند سال بعد میں نے دیکھا کہ اس کا حسین وجود ایک کمزور بدرنگ سی شے کی طرح ایک کفن میں لپٹا جنازے کی صورت رواں تھا اور اسکی ادھ کھلی آنکھیں جیسے مجھے کہہ رہی ہوں کہ دیکھا میں نے کہا تھا نا 
کہ کوئی پاکستانی قانون کسی عام سی پاکستانی عورت کا بنا کسی مفاد کے کبھی کوئی بھلا کرنے نہیں آئے گا . ان مردہ نظروں میں کچھ ایسا تھا کہ میں اس سے زندہ نظریں بھی نہ ملا سکی اورشرمندگی اور صدمے کے مارے بیساختہ میری 
آنکھ سے آنسوؤں کی جھڑی لگ گئی ۔ 
                          ●●●
          تحریر: ممتازملک.پیرس
      مجموعہ مضامین: سچ تو یہ ہے 
                    اشاعت: 2016ء
                          ●●●


جمعرات، 21 مئی، 2015

شارٹ کٹ




شارٹ کٹ 
ممتازملک ۔ پیرس



ہر آدمی ہی جلدی میں ہے ۔ ہر انسان مصروف ہے ۔ ہر کوئی بھاگ رہا ہے ۔ لیکن کس چیز کے پیچھے ؟ ہر انسان کل بھی دو روٹی کھاتا تھا آج بھی دو روٹی ہی کھاتا ہے ۔ ہر انسان کے تن پر کل بھی تین کپڑے تھے آج بھی دو یا تین کپڑے ہی ایک وقت میں ہوتے ہیں ۔ ہر ایک کو سونے کے لیئے کل بھی ایک بستر کی جگہ چاہیئے تھی اور آج بھی اتنی ہی جگہ چاہیئے ۔ ہر انسان کی قبر کل بھی دو گز کی تھی اور آج بھی دو گز ہی اس کا مقدر ہونا ہے ۔ کفن کا سائز بھی ایک ساتھا اور ہے ۔ پھر ایسی کون سی بھوک ہے جسے مٹانے کے لیئے آج کا انسان ہر رشتے کو کاٹتا جا رہا ہے ، ہر حد کو پھلانگتا جا رہا ہے ، ہر دل کو کچلتا جا رہا ہے ، ہر حرمت کو پامال کرتا جا رہا ہے ۔ قیامت کی کیا یہ وہی گھڑی یا نشانی نہیں ہے ،جس میں ہر آدمی دوڑ رہا ہے وقت کا ہر  سال مہینہ ، مہینہ ہفتہ اور ہفتہ دن جیسا گزر رہا ہے ۔ لیکن کسی سے پوچھا جائے تو اتنی مصروفیات میں بھی نہ کسی کے دل کو قرار نصیب ہے ،نہ ہی کوئی مالی سکون کی بات کرتا ہے ،اور نہ ہی کوئی شکر گزار ہے، ہر ایک شاکی ہے کسی نہ کسی بات پر ۔ کیا وجہ ہے ؟ کہیں اس کی وجہ یہ تو نہیں کہ ہم جن کامیابیوں کے پیچھے بھاگ رہے ہیں اصل میں ہم وہ ڈیزروو ہی نہیں کرتے ۔ اور جب ہم کسی اور کا حق اپنے نام کرنے جاتے ہیں تو بے سکونی تو مقدر بننا ہی ہے ۔ ہمارے پاس محنت کرنے کا تو وقت نہیں ہے لیکن ہمیں عہدہ بھی دوسرے محنت کرنے والے سے بڑا چاہیئے ۔ ہم دوڑ میں تیزی سے بھاگنا نہیں چاہتے لیکن گولڈ میڈل اپنے ہی گلے میں لٹکا دیکھنا چاہتے ہیں ۔ ہمیں کھانا بنانا تو سیکھنا نہیں ہے ،لیکن ہمیں دوسرے کی پکاۓ ہوئے پکوان کو اپنے ہی نام سے پیش کرنے کا شوق بھی بہت ہے ۔  گویا کہ ہر ایک مصروف تو ہے لیکن وہ محنت جو کر رہا ہے وہ کچھ سیکھنے کے بجائے شاید دوسرے سیکھے ہوؤں کا کام اپنے نام کرنے میں مصروف ہے ۔ کچھ لوگ محنت سے کچھ بنانے میں مصروف ہیں تو باقی اسی فیصد اس کی محنت پر اپنے نام کا ٹھپہ لگانے میں مصروف ہیں ۔ لیکن یہ سمجھنے میں اور کتنی دیر لگے گی کہ  زندگی کسی بھی شارٹ کٹ کی اجازت نہیں دیتی ۔ یہاں جو کچھ کرنا ہے اگروہ اصل ہو گا جبھی اس انعام بھی سکون کی صورت میں ملے گا ۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ہم گندم بوئیں اور آم کی فصل کی امید کریں  ۔ امیدیں بھی جب تک حقیقت کے دائرے میں رہیں تبھی پوری ہونے کی امید بھی رہتی ہے ۔ جب یہ امیدیں حقیقت کے دائرے سے باہر ہو جاتی ہیں تو پھر خواب بن جاتے ہیں اور خوابوں کا کیا ہے، ان کے نصیب میں تو ٹوٹنا لکھ ہی دیا گیا ہے ۔ محبتیں بھی اتنی ہی کی جانی چاہیئیں کہ جتنا اس کے ختم ہونے پر دکھ سہنے کا حوصلہ ہو، تبھی اگلا قدم اٹھایا جا سکتا ہے ۔ شارٹ کٹ سے ملنے والی خوشی ہو یا کامیابی دونوں ہی شارٹ ہوتی ہیں ۔ زندگی میں پائیدار کامیابی اور خوشی کے لیئے بھرپور محنت اور نیت کی اچھائی دونوں ہی اہمیت رکھتی ہیں ۔ شارٹ کٹ کو اسی لیئے ہم چور دروازہ کہتے ہیں ۔ اور گھروں کے مالک چور دروازوں سے کبھی نہیں آیا کرتے ۔ سکون ہی تو دل کا مالک ہوتا ہے ۔ اور اس کا اصل داخلہ اصل دروازے ہی سے ہو سکتا ہے  ۔ مالک اور چور میں کوئی تو فرق ہونا ہی چاہیئے ۔ کہ نہیں ؟ 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بدھ، 13 مئی، 2015

● پاکستانی مرد اور آئیڈیل شوہر۔۔۔۔۔۔ ہیں جی !!!!!!!!!! / کالم





پاکستانی مرد اور آئیڈیل شوہر۔۔۔۔۔۔
 ہیں جی !!!!!!!!!!
تحریر/ممتازملک ۔ پیرس 



پاکستانی مردوں کو اچھا شوہر سمجھنے والی غیر ملکی خواتین کیساتھ ان مردوں کا رویہ اور اتنی اچھائیوں کی وجہ جاننے کا ہمیں بہت ہی خبط ہوا تو ہم نے اس پر ان تجربات سے گزری خواتین کو اس موضوع پر بات کرنے کے لیئے تیار کرنے کی ٹھانی  ۔ 
میری ملاقات  کئ ایسی غیر ملکی خواتین  سے ہوتی رہتی ہے جو پاکستانی مردوں کو آئیڈیل شوہر سمجھنے کے بھرم میں مبتلا ہو تی ہیں .ہمیں بھی ان پر   ریسرچ   کر نے کا شوق چرایا خاص طور پر اس وقت جب ایک عرب ملک کی خاتون نے فرمایا کہ میرا شوہر پاکستانی ہے اور اب میری بہن جو پینتیس سال کی ہو کر بھی اس لیئے شادی نہیں کر رہی کیونکہ وہ بھی کسی پاکستانی  شوہر کی تلاش میں ہے .ہم نے جب ان کے شوہر کے بارے میں دریافت کیا تو بولیں میں نے اور میری ایک یورپئین دوست نے پاکستانی مردوں کے اخلاق و کردار سے متاثر ہو کر ان سے شادیاں کیں۔
میں پوچھا مثلا کیا خوبیاں دیکھیں ؟تو گویا ہوئیں کہ جیسے میرے میاں نے مجھے کبھی کسی سے ملنے سے نہیں روکا .ہمیں جتنی رقم درکار ہو آج تک دینے سے منع نہیں  کیا .ہمیں کبھی سسرالیوں کے جھنجھٹ میں نہیں ڈالا. یہاں اس کا کوئ عزیز آ بھی جائے تو کیٹرنگ آرڈر کر دیگا اور ہمیں کبھی ان کی خاطروں میں نہیں الجھاتا. ہفتے میں کئی بار اپنے ہاتھ سے کچھ نہ کچھ بنا کر کھلاتاہے .ہمیں اور ہمارے بچوں کو سال میں جب چاہیں چھٹیوں میں ہماری من چاہی جگہ پر بھیجتا ہے .میں جیسا چاہوں لباس پہنوں سلیولیس ہو یا منی سکرٹ اسے کوئ مسئلہ نہیں ہے .ہر خاص دن پر چاہے میری یا میرے بچوں کی یا شادی کی سالگرہ ہو یا عید تہوار نیا سال ہو یا ویلنٹائین کہے بنا ہمارے تحفے اور پروگرام ارینج کرتا ہے . بلا کے خوش لباس ہیں پاکستانی شوہر  . میں کہیں بھی کتنی بھی لمبی سیر کے لیئے جاؤں اس نے مجھے کبھی نہیں روکا ٹوکا. میرے لیئےاور بچوں کے لیئے دنیا کے کسی کونے میں چلا جائے تحائف لائے بنا نہیں رہتا.............
میرے کانوں میں یہ سب سن کر جانے کس کس خیالی مندر کی گھنٹیاں بچتی رہیں اور آنکھوں میں ان تمام پاکستانی مظلوم خواتین کی صورتیں گھومتی رہیں .جنہیں ان کے پاکستانی  آئیڈیل شوہروں نے کھانے میں نمک کم اور زیادہ پر مار مار کر ادھ مُوا کر دیا .کبھی لڑکی پیدا کرنے پر قتل کر دیا یا طلاق دے دی کبھی اپنی امّاں کو خوش کرنے کے لیئے اس کی کھال کے جوتے بنائے. کبھی بھائ کی محبت میں پیٹ ڈالا .کہیں ساری ساری زندگی ان کا اپنے ماں باپ اور بہن بھائیوں سے ملنا روک دیا .کہیں دو وقت کی روٹی کے لیئے عورت کو ایک لونڈی سے بدتر حالات میں رہنے پر مجبور کر دیا .اور میں سوچنے لگی یا اللہ ساری دنیا کو پاکستانی مردوں کا بلند اخلاق اور کردار نظر آ گیا . ہم پاکستانی عورتوں کو بھی ایسے ہی پاکستانی شوہر عطا فرما دے کہ جن کی کہانی ان غیر ملکی خواتین نے سنائی ہے . لیکن اس سے پہلے کہ میں چند ماہ بعد اگلی ملاقات پر ان میں سے ایک غیر ملکی خاتون سے یہ پوچھتی کہ اس برانڈ کے آئیڈیل پاکستانی شوہر کس مارکیٹ سے ملتے ہیں اس خاتون نے چھوٹتے ہی اپنے گھر والوں کی خیریت بتاتے ہوئے خبر دی کہ اس کی اور اس کے آئیڈیل پاکستانی شوہر کی طلاق ہو گئ ہے .
پوچھا کیوں؟ تو بولی اپنے ایک بھائ کو گھر لے آیا تھا اور بولا کہ یہ ایک ہفتہ میرے پاس رہیگا . اس کا خیال رکھنا .تو میں نے جھٹ کہا کہ میاں اسے کسی ہوٹل میں ٹہراؤ . بس اسی پر بات طول پکڑ گئ اور طلاق ہو گئی .  اب اسکا سارا کاروبار اور گھر پچاص فیصد میرے ہیں . ویسے پاکستانی مرد بڑے آئیڈیل شوہر ہوتے ہیں. میں دوسری شادی بھی کسی پاکستانی  سے ہی کرنے کا سوچ رہی ہوں . یہ بہت عیش کراتے ہیں آپ کی ایک یورپئین دوست کا شوہر بھی پاکستانی  ہے نا!
 ہم نے جھجھکتے ہوئے سوال کیا تو ہنس کر بولی ارے ہاں اس کا تو تین سال پہلے ہی طلاق ہو گیا تھا. اس نے تو پہلے ہی سارا بینک بیلنس اپنے نام کروا لیا تھا اب وہ کہیں نوکری کرتا ہے اور سنا ہے کوئ  پاکستانی مسکین سی لڑکی بیاہ کر لایا ہے . .. ..

اور میں  سوچتی رہ گئی کہ سولہ سال عیش کرانے کے باوجود جو عورتیں سولہ منٹ آپ کی خوشی کا کوئی کام نہیں کر سکتیں اور آپ ان کے آئیڈیل بننے کے لیئے ذلالت بھرا آئیڈیل بننے کو تیار ہو جاتے ہیں (کبھی ہو سکے تو جو مردانگی یہ اپنی پاکستانی بیویوں کو دکھاتے ہیں کبھی ایک بار ہی سہی ان بدیسی بیویوں کو بھی  دکھا کر تو دیکھیں کہ ان کے ساتھ ہوتا کیا ہے ) ان پاکستانی مردوں سے کوئ پوچھے کہ بھائ کبھی سولہ دن بھی اپنی پاکستانی بیوی کیساتھ انکی مرضی کے گزارے ہیں ۔ اگر گزارے ہوتے تووہ تاحشر تمہاری غلام ہو جاتی . اور انہیں دنوں کی دید میں تمہاری محبت کی یاد میں ہی تم سے شکوہ کیئے بنا ساری عمر گزار دیتی ۔ جبھی تو کہا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔
کالے رنگ دا بادام ہوسی 
جیوندیاں وی تیری آں
مویاں مٹی وی غلام ہوسی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔




جمعہ، 8 مئی، 2015

سولر انرجی ، وقت کی سب سے بڑی ضرورت / ممتازملک۔ پیرس



سولر انرجی
                        وقت کی سب سے بڑی ضرورت       
   ممتازملک۔ پیرس 





یورپ میں جب سورج نظر آتا ہے تو لوگوں کے چہرے کھل جاتے ہیں ۔ گھومنے پھرنے کے پروگرام بننے لگتے ہیں ۔ نئی تازگی محسوس کی جانے لگتی ہے۔ وجہ یہ ہے کہ یہاں سال کے تقریبا دس ماہ تو بادل رہتے ہیں یا پھر بارش اور ٹھنڈ کا زمانہ رہتا ہے مشکل سے دو ماہ کا ہی عرصہ سورج دیکھنا نصیب ہوتا ہے ۔ لیکن اس کے باوجود آج کل جہاں دیکھیں، یورپ بھر میں سولر انرجی کو جذب کرنے کے لیئے سولر پلیٹس لگی ہوئی نظر آرہی ہیں ۔ حالانکہ یہاں پر پن چکی سے بجلی پیدا کرنا زیادہ بہتر اور مفید ہے کیونکہ یہاں ہوائیں بہت تیز چلتی ہیں اور تقریبا ہر وقت اور ہر علاقے میں ہوا اچھی خاصی رفتار سے موجود رہتی ہے ۔ جبکہ سورج کی ساری حِدّت سولر پلیٹس میں جذب ہونے کے باعث یہاں اکثر ہی ہڈیاں ٹوٹنے کی شرح کسی بھی گرم ملک کے مقابلے میں کہیں ذیادہ ہے کیونکہ خوراک میں یا فوڈ سپلیمنٹس میں اگر وٹامن ڈی کا استعمال باقاعدہ نہ کیا جائے تو ہڈیاں کمزور ہونا شروع ہو جاتی ہیں اور ذرا ذرا سی چوٹ بھی ہڈیاں ٹوٹنے کی وجہ بن جاتی ہے ۔ اس لیئے یہاں پر سولر انرجی کی حوصلہ افزائی نہیں ہونی چاہیئے ۔ 
جبکہ ایشین ممالک میں جہاں سورج سال کے گیارہ ماہ خوب گرمی اور روشنی بکیھرتا ہے  اور گرمی کی شدت لوگوں کے لیئے سوہان روح بن کران کی  زندگیوں کے لیے بھی خطرناک ہو جاتی ہے ۔اکثر گرمیوں میں لوگوں کی اموات کی ایسی خبریں آتی رہتی ہیں جس میں ان کی موت کی وجہ صرف گرمی کی شدت ہی ہوتی ہے ۔ غریبوں کا حال تو اور بھی برا ہوتا ہے ۔ انہیں تو کُھلے آسمان کے نیچے ہی نہ صرف مذدوری کرنی ہے، سودا بیچنا ہے اور سفر بھی پبلک ٹرانسپورٹ پر ہی کرنا ہے لہذا ان کی صحت بھی براہ راست گرمی کی شدت سے متاثر ہوتی ہے ۔ اس لیئے وہاں اس بات کی سخت ضرورت ہے کہ سورج کی تپش کو کم کیا جائے اس کے لیئے آپ سورج کا وولٹج تو کم نہیں کر سکتے ۔ایک ہی کام کر سکتے ہیں کہ سورج کی اس بھرپور نعمت کو زحمت بننے سے بچایا جائے اور بہتر انداز میں استعمال میں لایا جائے ۔ تصویر کا دوسرا اور زیادہ خوفناک رُخ یہ بھی ہے کہ پہاڑوں پر ایک تو برف پڑ ہی کم رہی ہے۔ اس پہ طُرّہ یہ کہ سورج کی ماحولیاتی تبدیلی کے زیر اثر ہونے والی تپش کی اضافت کو بھی جب تک استعمال نہیں کیا جائے گا۔ پہاڑوں کی برف کو اور گلیشئیرز کو تیزی سے پگھلنے سے نہیں روکا جا سکتا ۔ جبکہ یہ ہی گلیشئیرز ہمارے پانی کا منبع ہیں ۔ جس پر ہماری زندگیوں اور ہماری زراعت کا دارومدار ہے ۔ پانی کا یہ منبع ہی نہ رہیں تو ملک ریگستان بن جاتے ہیں ۔ اس لیئے وہاں اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ خاص طور پر پاکستان جیسے ممالک میں جہاں توانائی کا شدید بحران ہے اور ہمماری تمام انڈسٹریز اس سے بری طرح متاثر ہو رہی ہیں اور معیشت تباہی کے دہانے پر کھڑی ہے۔ ان سب کا ایک ہی بہترین حل ہے کہ سورج کی توانائی کو بھرپور انداز میں سولر انرجی کے طور استعمال کیا جائے ۔اس کے لیئے حکومت کو بھی سولر پلیٹس اچھے معیار کی اور کم سے کم قیمت میں مہیا کرنے کے کاروبار کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیئے ۔ وہ نوجوان جو اسی شعبے میں تعلیم حاصل کر چکے ہیں ۔ان کے علم سے بھرپور استعفادہ حاصل کیا جائے۔

انہیں ان پلیٹس کو جدید اور مذید بہتر بنانے کے لیئے بھرپور مالی معاونت فراہم کی جائے تاکہ ہمیں سستی توانائی مہیا ہو سکے ۔ ہمیں آج تک یہ بات سمجھ نہیں آ سکی کہ آخر پاکستان میں حکومت کسی کی بھی کیوں نہ ہو، اس کے باوجود اس کا رویہ ہر سولر انرجی کے لیئے کام کرنے والے ماہر کیساتھ حوصلہ شکن ہی کیوں ہوتا ہے ۔ ڈاکٹر قدیر خان نے اس فیلڈ میں کام کی پیشکش کی تو حکومت وقت نے نخوت سے ناک سکیڑ لی ۔ ڈاکٹر ثمر مند  اور داکٹر قدیر کا آج سے بیس سال پہلے کا اخباری خوشخبری بیان"کہ اسی سال ہم قوم کو سولر انرجی اور سولر چولہوں کا تحفہ دینگے ۔" پڑھ کر ہم آج تک اسی انتظار میں رہے کہ آج آئے یہ سولر چولہے یا کل آئے ۔ لیکن   لیکن ہائے ! افسوس کہ پورے ملک کی معیشت کی اس توانائی کمیابی کے کارن اینٹ سے اینٹ بج گئی لیکن نہ آئی سولر انرجی اور نہ آئے سولر چولہے ۔ جانے  کس سوچ میں پاکستانی حکومتوں نے قوم کا یہ قیمتی وقت تباہ کر دیا ۔ ہمیں تو ایک ہی بات سمجھ آتی ہے کہ ہو سکتا ہے تمام حکومتیں اسی بات پر غورو فکر میں مدتیں پوری کرتی رہی ہیں کہ یہ جو ہے سورج ،اس پر ٹیکس کیسے لگائیں گے ۔ آخر جو ہے، ہم کسی کو یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ بھئی تم نے ٹیکس نہیں دیا لہذَا ہم جو ہے ،تمہارے گھر کا سورج کاٹ رہے ہیں ۔ آخر جو ہے ،حکومت کو کوئی فیدہ بھی ہونا چاہیئے سورج دینے کا ۔ جو ہے ، کیا خیال ہے ۔ ملک و قوم کے مفاد میں اس تاخیر پر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
                                   ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 

پیر، 4 مئی، 2015

اٹھو جہاں بدل دو۔ کالم



اٹھو جہاں بدل دو
تحریر:
(ممتازملک۔پیرس)


وقت بہت تیزی سے بدل رھا ہے وقت کے تقاضے بھی بدل رہے ہیں ۔ کل تک جو باتیں اتنی ضروری نہیں سمجھی جاتی تھیں آج وہ زندگی کی ضرورت بن چکی ہیں ۔ اس بات کو اب کم تعلیم یافتہ لوگوں نے بھی قبول کرنا شروع کر دیا ہے ۔ مثلا کل تک ہمارے ہاں جو خاتون گاڑی چلاتی تھی اسے بہت ہی آزاد خیال بلکہ ہاتھ سے نکلی ہوئ عورت سمجھا جاتا تھا ۔ زیادہ دور نہ جائیں بیس سال پیچھے چلتے ہیں ۔ کسی بھی لڑکی نے میٹرک کیا ،ہانڈی روٹی بنانے کے قابل ہوئ تو بہت بڑی بات تھی مناسب رشتے کیۓ اور لڑکی اپنے گھر کی ہوئ ۔اللہ اللہ خیرصلہ ۔لیکن پھر ماحول نے کروٹ لی ۔
میڈیا کا سیلاب آگیا ۔معلومات نے طوفان کی سی تیزی سے گھروں کا رخ کیا ۔ زندگی کا انداز بدلنے لگا ۔ خواہشوں نے نۓ رنگ ڈھنگ اپنانے شروع کیۓ ۔زندگی رو ٹی کپڑا اور مکان کے دائرے سے باہر نکل کر مقابلے کی دوڑ میں شامل ہو گئ ۔خوب سے خوب تر کی جستجو نے اسے اور بھی ہوا دی ۔ آج یہ بات پہلے سے بھی زیادہ ضروری لگنے لگی ہے کہ ہماری آدھی آبادی جو گھر بیٹھ کر یا تو آبادی بڑھاتی ہے یا پھر شام کو تھکے ہارے مردوں کے گھر آنے پر ان کے لیۓ مسائل بڑھانے کی وجہ بنتی ہے اس آدھی آبادی کو بھی اب قومی ترقی کے دھارے میں شامل کیا جاۓ ۔ نوجوانوں سے جب بھی میری ملاقات ہوتی ہے میرے مشاہدے اور تجربے کو ایک نئ راہ ملتی ہے ۔انہی نوجوانوں کی کہانیوں میں سے ایک کہانی آج آپ کے ساتھ بھی بانٹ رہی ہوں جس نے مجھے بھی بہت کچھ سکھایا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک نوجوان لڑکی نے مجھے اپنے تجربے سے آگاہ کرتے ہوۓ بتایا کہ
،، میں بہت ہی زیادہ لاڈلی بھی تھی اور فضول خرچ بھی ۔ ہمارے بابا جان نے ہمیں ہر منہ مانگی چیز لا کر دی ، میرے لیۓ یہ بہت ہی آسان سی بات تھی کہ یہاں میں کوئ فرمائش کرتی ہوں وہاں وہ پوری ہو جاتی ہے اس لیۓ کسی چیز کے ملنے کے بعد کبھی تو میں اسے ریجیکٹ کر دیا کرتی تھی تو کبھی وہ مہنگی سے مہنگی چیز بھی کسی کو اٹھا کر دے دیا کرتی تھی ۔ پھر اتفاق سے ایک سال یونیورسٹی کے داخلوں کا ٹائم کسی وجہ سے لیٹ ہو گیا اور بروقت فارم نہ ملنے کی وجہ سے مجھے یونیوورسٹی کا وہ سال داخلہ نہ مل سکا تو میں نے بوریت سے بچنے لیۓ بابا جان کی دکان پر جانے کا فیصلہ کیا ،۔ بظاہر یہ ایک ٹائم پاس فیصلہ تھا مگر میں نہیں جانتی تھی کہ میرے اس فیصلے سے میری سوچ کا دھارا بدل جاۓ گا یا میری زندگی کا انداز بدل جاۓ گا ۔ صبح بابا جان کے ساتھ چھ بجے اٹھناتھا پھر ایک گھنٹے کے اندر دکان کا رخ کیا سارا دن باباجان کے ساتھ دکان کے کاؤنٹر پر کبھی، تو کبھی سامان لگانے کے لیۓ ریک سیٹ کرنے والے کی مدد کرنا، دکان پر آنے والے سامان کا حساب کتاب ، ساتھ ساتھ کسٹمر کو بھی       خریداری میں کسی بھی چیز ک لیۓ گائیڈکرنا۔۔۔۔۔۔ ا اُفففففففففففففففففففففففففففففف
شام تک تو میری ہڈیاں بھی بجنے لگیں ۔ اس روز بابا جان نے مجھے میری دن بھر کی دیہاڑی کے پیسے [جو کہ ہمارے دوسرے ملازم کو بھی جتنے ملتے ہیں اس کے برابر تھے ] میرے ہاتھ پر رکھے تو یقین جانیۓ اس وقت جو میری حالت تھی میں اس خوشی کو بیان نہیں کر سکتی ۔یہ پیسے میری روز کے جیب خرچ کے دسویں حصے کے برابر بھی نہیں تھے ۔لیکن میرے لیۓ وہ پیسے کسی خزانے سے کم نہیں تھے اور اس سے بھی زیادہ وہ پیسے میرے لیۓ کتنے مقدس تھے جو میرے اپنے ہاتھ کی حلال کی کمائ تھے جنہیں دیکھ کر آج مجھے میرے بابا جان سے اور بھی زیادہ محبت اور عقیدت محسوس ہوئ اور ان کی اب تک کی ساری تھکن کوایک ہی پل میں میری رگ و پے نے بھی محسوس کر لیا ۫ ۔ اور اس کمائ کو خرچ کرنے کا خیال میرے لیۓ بلکل بھی اچھا نہیں تھا ۔ اور میں نے اس سے کچھ بھی خریدنے سے انکار کر دیا ۔ یہاں تک کہ باباجان نے اپنے پاس سے بھی کچھ خرید کر دینے کو کہا تو میں نے صاف انکار کر دیا کیوں کہ مجھے اس مشقت کا احساس ہو چکا تھا جو ان پیسوں کو کمانے کے لیۓ اٹھائ جاتی ہے وہ دن میری زندگی میں فضول خرچی کا آخری دن ثابت ہو ا ۔میں نے یہ فیصلہ کر لیا کہ اگر ایک دن کے کام کا تجربہ جب مجھے اتنا کچھ سکھا سکتا ہے تو پھر مجھے ہر روز زندگی سے کچھ سیکھنا ہے ۔؛ آج میں پڑھ بھی رہی ہوں اور کام بھی کر رہی ہوں اپنے بابا کی کمائ کو ضائع کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتی اور ہر کام کرنے والے کی عزت کرتی ہوں ۔ اور اپنے بہن بھائیوں کو بھی پیسہ سوچ سمجھ کر استعمال کرنے کا مشورہ دیتی ہوں ۔ ،،
دیکھاآپ نے ایک تجربہ آپ کی سوچ کو کہاں سے کہاں لے جاتا ہے ۔ یہ ہی تجربہ اب ہماری پوری قوم کو کرنے کی ضرورت ہے ۔جب تک خواتین کام کاج کے میدان میں قدم نہیں رکھیں گی وہ کبھی بھی اپنے باپ بھائ ، شوہر یا بیٹے کی کمائ سے ہمدردی نہیں کر سکتی ہیں ۔بہنوں کو شوق ہوتا ہے کہ سہیلیوں میں شو مارنے کے لیۓ بھائیوں کے پیسوں کو زیادہ سے زیادہ کہاں کھپانا ہے ۔ ماں کو فکر ہوتی ہے کہ بیٹا بہت کما رہا ہے تو کیسے کیسے بیٹیوں کو بھرا جاۓ ۔بیوی کو فکر ہوتی ہے کہ کیسے اپنے میاں کی کمائ میں سے اپنے میکے والوں کو موج کرائ جاۓ ۔گویا قُربانی کا دُنبہ بنتا ہے وہ اکیلا کمانے والا مرد ۔ یہ سب کیا ہے ۔کوئ مانے نہ مانے لیکن 80 فیصد خواتین ہمارے معاشرے میں یہ ہی کچھ کر رہی ہیں لیکن اس میں قصور ان خواتین کا بھی زیادہ نہیں ہے ۔جو بھی شخص جب فارغ بیٹھا ہو اور اسے ہر چیز بنا محنت کے مل رہی ہو تو وہ اسے اجاڑنے میں کبھی بھی کوئ تردد نہیں کرے گا ۔اسے معلوم ہی نہیں ہے کہ یہ سب بنانے کے لیۓ کمانے لیۓ کیا کیا محنت کی گئ ہے ۔ ہم تو اس معاشرے سے تعلق رکھتے ہیں کہ جہاں لوگ لیڈی ڈاکٹر کا رشتہ بھی صرف لوگوں میں اپنا ایمج بنانے کے لیۓ لیتے ہیں ۔ اور بیاہ کرتے ہی اس لڑکی کو پریکٹس تک کرنے کی اجازت تک نہیں دی جاتی ۔ کیا نرسزز ۔ کیا ٹیچرز، ، ٹیکنیشنز ،ایم بی اے ہو یا ماسٹرز ۔رشتہ لینے کے لیۓ تو یہ ڈگری ایمپورٹنٹ ہے لیکن کام کرنے سے ان کی توہین ہوتی ہے ۔
اب یہ روش بدلنے کا وقت آگیا ہے اگر ہمارے ہاں کے مردوں کو اپنا بوجھ کم کرنا ہے اور اپنے ہاں کی خواتین کو فضول قسم کے جھگڑوں اور مصروفیات سے بچانا ہے تو انہیں نہ صرف تعلیمی میدان میں آگے لائیں بلکہ انہیں پروفیشنل ڈگریز دلوائیں تاکہ انہیں کام کر کے پیسے کی ویلیو کا احساس ہو۔ اس سے فضول خرچی میں بھی خاطر خواہ کمی ہو گی ۔ًمحلّوں اور خاندانوں کے جھگڑوں میں خاطر خواہ کمی ہو گی ۔اور آپ کے گھر کی اور ملک کی آمدنی میں اور سکون میں بھی اضافہ ہو گا ۔ وقت کے ساتھ ہمیں اپنے طرز زندگی میں بھی مثبت تبدیلیاں لانے کی ضرورت ہے ۔ارتقاء اسی کا نام ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ ہم ہر اچھی چیز کو اپنائیں اور ہر بری عادت اور رواج کو خدا حافظ کہیں ۔ اگر ایسا نہیں کیا گیا تو ہمیں اپنا جہاں بدلنے کے لیۓ اور کتنے حادثوں اور قتل و غارت اور مفلسی کی راہ دیکھنا ہے ۔ فیصلہ ہم سب کو کرنا ہے کیوں کہ ابھی نہیں تو کبھی نہیں۔
  ۔۔۔۔۔

پیر، 27 اپریل، 2015

ملک سے باہر سیاسی جماعتیں چاہتی کیا ہیں ؟/ ممتازملک ۔ پیرس



ملک سے باہر
 سیاسی جماعتیں چاہتی کیا ہیں؟ 
ممتازملک ۔ پیرس




کافی دنوں سے ہم یہ مطالعہ کر رہے تھے کہ کن کن ممالک کی سیاسی جماعتیں کس کس ملک میں کام کر رہی ہیں تو یہ جان کر حیرت بھی ہوئی کہ کوئی بھی ایسا ملک نہیں ہے جس کی سیاسی جماعت کسی اور ملک میں ونگز بنائے عوام کو بانٹنے میں مصروف ہو ۔ ویسے تو کسی نے سچ ہی کہا ہے کہ جو کام دنیا میں کہیں نہیں ہوتا وہ بھی ہمارے ہاں فخریہ پیکش کے طور پر کیا جاتا ہے ، تو یہ کون سا ایسا مشکل کام ہے کہ جو نہیں ہو سکتا ۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ اگر تو ان سیاسی جماعتوں کا وجود پاکستان سے باہر قائم کر کے ہم پاکستان اور پاکستانی کمیونٹی کو کوئی اچھا پیغام دے رہے ہیں یا کوئی بھلائی کا کام کر رہے ہیں تو پھر تو واقعی اس میں کوئی قباحت نہیں ہے لیکن معاملہ اس کے بلکل برعکس ہے پاکستانیوں کو پہلے ہی اس بات کی عادت بھی ہے اور شوق بھی کہ کب ،کہاں، کسے گرا کر آگے بڑھا جائے اور کہاں کس کی گردن پر پاؤں رکھ کر اپنے قد کو اونچا کیا جائے وہاں یہ جماعتیں اپنے اپنے قد کو اونچا کلرنے کے سوا کسی کام کی نظر نہیں آتی ہیں ۔ نہ ہی ان کی وجہ سے پاکستانی کمیونٹی میں کوئی اتحاد پیدا ہو رہا ہے بلکہ سچ پوچھیں تو انتشار مزید بڑھتا جا رہے ۔ اب تو حال یہ ہورھا ہے کہ گھر میں آئے ہوئے سمدھیوں سے بھی اس بات پر منہ ماری شروع ہو چکی ہے کہ ایک کہتا ہے میری پارٹی اچھا کام کرتی ہے اور دوسرا اپنے قائد کو قائد اعظم ثابت کرنے میں ایڑی چوٹی کا زور صرف کر رہا ہوتا ہے ۔ آئے ہوئے اچھے بھلے رشتے اس لیئے مسترد کیئے جا رہے ہیں کہ دونوں گھرانوں کے سیاسی عقائد نہیں ملتے ۔ خاص طور پر ان گھرانوں کے مردوں کو ان سیاسی پارٹیز کے نام پر اگر بڑھکیں مارنے کا شوق ہے تو سمجھ لیں کہ اب وہ اپنے بچوں کے ہی دشمن بن جائیں گے اور انہیں کہیں بھی دوسرے خاندان میں شامل ہونے کے لیئے آسان راستہ مہیا نہیں کریگا یہ بات اس وقت اور زیادہ تشویشناک ہو جاتی ہے جب لڑکی کے والد یا بھائی ڈائیریکٹ پارٹی بازی میں ملوث ہوں ۔ گھروں میں جھانکیں تو میاں بیوی میں بھی پارٹی کے نام پر جھگڑے بڑھتے بڑھتے بے سکونی کی اور کہیں تو طلاق کی وجہ بن جاتے ہیں ۔ ہم ملک سے باہر روزی کی تلاش میں اور پاکستان کا نام عزت دار ملکوں کی فہرست میں ڈالنے کے لئیے نکلے تھے اس کے لیئے ضروری ہے کہ ہم تعلیمی میدان میں اور کاروباری میدان میں بلکہ اخلاقی میدان میں بھی ایک بلند معیار اپنائیں۔ جس کے لیئے اگر ضروری ہے تو ہم یہاں کی مقامی سیاست پر نظر رکھ کر اور شمولیت کر کے اپنی کمیونٹی کے مسائل کو بہتر انداز میں متعلقین تک پہنچانے کی کوشش کریں ۔ لیکن افسوس ہم جب بھی کوئی کام کرتے ہیں اس میں بے تکی چھلانگ لگا دیتے ہیں ۔ نہ اس کے لیئے کوئی تربیت حاصل کرتے ہیں نہ ہی کوئی ہوم ورک کرتے ہیں ۔ شاید ہمارے لیئے ہی کسی نے کہا ہے کہ 
کمال ڈریور نہ انجن کی خوبی
خدا کے سہارے چلی جاری ہے 
تو کیا یہ ضروری نہیں ہے کہ پاکستان کے مسائل کو پاکستان میں رہنے والوں کے اوپر چھوڑ دیا جائے کہ وہاں جن مسائل سے وہ دوچار ہیں وہی اس بات کا بہترین ادراک رکھتے ہیں کہ اسے کیسے حل کیا جائے ۔ ہم یہاں دور بیٹھ کے عالمی تناظر میں کوئی اچھا مشورہ تو دے سکتے ہیں ، مالی مدد بھی کر سکتے ہیں ، لیکن یہاں انہی پارٹیز کے بت بنا کر انہیں پر آئے دن نت نئی لڑائیاں شروع کر کے انہیں کے لیڈران کے نام پر ایک دوسرے کی بات کو برداشت کیئے بنا محاذ کھول کر ہم اپنی کمیونٹی کو کیا پیغام دینا چاہتے ہیں ؟ ہر آدمی اپنے اپ کو دنیا کا مصوم ترین انسان سمجھتا ہے اور اپنی پارٹی لیڈر کو دودھ سے دھلا ہوا ۔ قوت برداشت زیرو رکھنے والی قوم کو پہلے اپنے اخلاقی معیار بہتر بنانے پر پورا زور صرف کرنا چاہیئے اس کے بعد ہی ہم کسی  پارٹی کے لیئے آواز اٹھائیں تو ہی مناسب ہو گا ۔ اور اپنے لیڈران کے بت پوجنے کے بجائے اگر ہم انہیں بھی ایک عام انسان ہونے کا فائدہ دیتے ہوئے ان کے کردار اور قول و فعل پر بھی کڑی نظر رکھنے کا اصول اپنا لیں تو دیکھیئے گا نہ تو کوئی سوئیس بینک بھرنے کی جرات کریگا نہ ہی کسی کو جہاز اسے سودے بازی کر کے بھاگنے کے لیئے اڑان بھرنے کی اجازت دیگا نہ تو کوئی اخلاقی کمزوریوں پر اترائے گا اور نہ کوئی مذہب کا نام لیکر حلوے بانٹنے اور تھال چاٹنے کا کام کرے گا ۔ 

(نوٹ ۔ یہ تحریر کسی بھی خاص فرد کو نشانہ بنا کر نہیں لکھی گئی ہے ۔ بلکہ اس کا مقصد صرف بیرون ملک پاکستانیوں کی آپسی رنجشوں کو بڑھانے والے ایک اہم پہلو پر روشنی ڈالنا ہے ۔ اس کے باوجود اگر کسی کی دلآزاری ہوئی ہو تو پیشگی معزرت چاہتی ہوں ۔ )
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اتوار، 12 اپریل، 2015

بے مقصد مقابلہ بازی / ممتازملک.پیرس



بے مقصد مقابلہ بازی

ممتازملک.پیرس




بے مقصد مقابلہ بازی

ممتازملک.پیرس




فیس بک پر آج ایک پوسٹ پڑھنے کا اتفاق ہوا .یہ ایک لطیفہ تھا کہ ایک آدمی 
نے بیوی کی چادر سے ناک پونچھا تو اس کی بیوی نے کہا کہ میری چادر گندی 
ہو گئ جبکہ ماں کی چادر سے ناک پونچھی تو اس نے کہا میں دوسری چادر لا 
دیتی ہوں یہ تو میلی ہے .
صاحب پوسٹ نے اپنی طرف سے ماں کو اعلی اور بیوی کو کمتر ثانت کرنے 
پر پورا زور قلم صرف کر دیا .حالانکہ ان دونوں رشتوں کا کبھی کسی بھی 
لحاظ سے کوئ تقابل بنتا ہی نہیں. 
بلکہ سچ کہیں تو مردوں کے غلط مقابلہ بازی نے ان دو پیارے رشتوں کو آمنے 
سامنے لا کر کھڑا کر دیا ہے .اور خود مرد سارے فتنوں کی جڑ ہو کر بھی 
معصوم بن جاتا ہے .بھلا بتائے کوئ کہ ماں کا بیوی سے اور بیوی کا ماں سے 
کیا مقابلہ .ماں آپ سے بیس پچیس سال بڑی ہوتی ہے .آپ کی ذمہ داری لیتے 
ہوئے آپ کو اپنی کوکھ میں رکھتی ہے .جبکہ بیوی آپ سے بھی دس دس بیس 
بیس سال چھوٹی ہے .اس کے باوجود آپ کے خاندان کا بوجھ اٹھاتی ہے آپ کی 
اولاد کو اپنی کوکھ میں رکھتی ہے . میرے خیال میں دنیا کا کوئ احمق آدمی ہی 
ماں اور بیوی کا مقابلہ کریگا. ماں ماں ہوتی ہے اور بیوی بیوی ہوتی ہے بیوی 
کے لاڈ اٹھانا آپ کی کوئ مجبوری نہیں ہوتی .نہیں اٹھانا تو مت کیجیئے شادی۔
ماں اپنے بچے کو اپنی زمہ داری پر جنم دیتی ہے اسے پروان چڑھاتی 
ہے اس کے ناز نخرے اٹھاتی ہے   جبکہ  شوہر اپنی بیوی کی زمہ داری سارے 
سماج کے سامنے اٹھاتاہے .جو کہ سب سے بڑی سنت ہے یہاں تک فرمایا گیا 
ہے کہ بیوی کے منہ میں محبت سے نوالہ رکھنا سب سےبڑی نیکی ہے اور 
صدقہ سے بھی بہتر ہے ۔
اپنی ماں کے بیٹے بنئے اپنی بیوی کے بیٹے بننے کی کوشش کریں گے تو 
ساری عمر دکھی ہی رہیں گے.

                     .............................





بدھ، 8 اپریل، 2015

مخلصانہ مشورہ






مخلصانہ مشورہ
ممتازملک ۔ پیرس



عزت عزیز ہےتوسارے مردوں کو یہ مخلصانہ مشورہ ہے کہ عورتوں کی لڑائیوں سے دور رہیں ۔یہ لڑائی چاہے ساس بہو کی ہو ، نند بھاوج کی ہو، دیورانی جٹھانی کی ہو یا پھر دو بہنوں کی ۔ کیونکہ ان دو میں کوئی ایک ضرور ہی جھوٹ بول رہی ہوتی ہے ۔ یا ادھوری بات پیش کر رہی ہوتی ہے ۔ دوسری بات یہ کہ عورت جب خود دل سے چاہے دوسری عورت کے ساتھ سارا جھگڑا منٹوں میں رفع دفع کر لے گی ۔ لیکن اس جھگڑے میں کسی بھی طور سے حصہ لینے والے مرد ایک تو اپنا منہ کالا کروا لیتے ہیں ۔ دوسرا تاحیات دشمنی کا بیج بو جاتے ہیں ۔ جو بعض اوقات انکے بعد انکی نسلوں تک زہر پھیلاتا رہتا ہے۔جیل جانے والے اکثر مردوں کا ریکارڈ دیکھیں تو معلوم ہو گا کہ ان کے جیل یاترا کے بندوبست میں سب سے بڑا کردار کسی  نہ کسی عورت نے یا عورت کے جھگڑے نے ہی ادا کیا ہے ۔ 
دور نہ جائیں دنیا کا پہلا جھگڑا بھی عورت ہی کے کارن ہوا ۔ اور لگتا ہے قیامت کا اعلان بھی کسی عورت کے جھگڑے کو ہی قرار دیا جائے گا ۔ پیارے بھائی کسی نہ کسی کی محبت کے پلڑے میں اپنی حمایت کا وزن ڈالتے ہوئے اپنے دماغ کے لاکر کو تالا لگا کر اس کی چابی ایسی جگہ پھینکتے ہیں کہ پھر چاہتے ہوئے بھی یہ لاکر کھولنا چاہیں تو بھی چابی ان کے ہاتھ آنے تک جذبات کے لٹیرے اردگرد کے سارے رشتوں کا خزانہ لوٹ چکے ہوتے ہیں ۔ اس جھگڑے سے بچنے کا سب سے اچھا طریقہ یہ ہی ہے کہ گھر میں خواتین کی جنگ چھڑتے ہی گھر کے مرد گھر سے باہر کا رخ کریں ۔ اور واپسی پر بھی کوئی بھی خاتون چاہے ماں ہو بہن ہو یا بیٹی  یا بیوی ہو ،اگر آپ کے کان میں صُور پھونکنا چاہے  تو اسے مضبوط لہجے میں بتا دیں کہ خبردار مجھے عورتوں کے کسی جھگڑے کی رپورٹ نہیں چاہیئے ۔ اور اگر ان خواتین نے انہیں اس میں الجھانے کی کوشش کی تو آپ گھر سے باہر رہنے کا کہیں ٹھکانہ کر لیں گے ۔ ایسی صورت میں ان کا خرچہ پانی بھی بند کر دیجیئے ۔  اور اگر کبھی خدا نخواستہ ایسا سچ مُچ کرنا بھی پڑ جائے تو ضرور کیجیئے ۔ نتیجہ چند روز میں آپ کے سامنے ہو گا ۔  ساری اکڑفوں اور ساری بددماغیاں اصل میں بیکار بیٹھنے کی وجہ ہی سے ہوتی ہیں اگر یہ ہی خواتین یا پڑھ رہی ہوتیں یا کہیں کام کر رہی ہوتیں یا کوئی اور مصروفیت رکھتیں تو ایسے پھڈے کبھی ہوتے ہی کیوں ۔ خیر اس میں بھی آپ مردوں کو ہی بہت شوق ہوتا ہے کہ زرا زرا سی بات پر ناک کٹ کر ہاتھ میں آ رہی ہوتی ہے ۔ گھر کی عورت کہیں پڑھائی کریگی تو ناک کٹ جائے گی کہیں نوکری کرے گی تو ناک کٹ جائے گی ۔ کبھی کبھی تو لگتا ہے کہ ایک مرد کی زندگی میں دو ہی چیزیں  اہم ہوتی ہیں ایک اسکی ناک اور ررررررررررردوسری دوسری بھی اس کی ہی ناک ۔ 
چچا غالب سے معذرت کے ساتھ 
ناک نے تم کو نکما کر دیا 
ورنہ سنا ہے آدمی تم بھی تھے اس سے پہلے کام کے 
واہ واہ واہ کیا بات ہے ۔
خواتین کی اکثریت کو عادت ہوتی ہے خوامخواہ مظلوم بننے کا ۔ کسی نے انہیں پھول سے مارا یہ تو وہ آپ کو ایسے سنانے بیٹھیں گی جیسے کسی نے ان کی گردن کاٹ ہی کاٹ دی ہو ، جب کہ جسے انہوں نے گملا اٹھا کر دے مارا ہو یا سر منہ کھول کر موچی سے ٹانکے لگوانے کے لائق بھی نہ چھوڑا ہو اس کا ذکر بھی ایسی فرمائیں گی جیسی کم بخت خود ہی تو اپنے آ پ کو روئی سے مار رہا تھا اپ ایسے پڑا ہے جیسے ٹرک کے نیچے آ گیا ہے ۔ 
لہذا پیارے بھائیوں پھر وہی بات کہ عزت عزیز ہے تو خواتین کے ہر طرح کے جھگڑوں سے دور رہیں ۔ کیا خیال ہے ؟
                                   ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جمعرات، 2 اپریل، 2015

مہمان نوازی ۔ ممتازملک ۔ پیرس




مہمان نوازی ، پھول اور بچے
ممتازملک ۔ پیرس


ڈنمارک کے کوپن ہیگن ائیر پورٹ پر اترتے ہی 35 منٹ چلتے چلتے بے حال ہم پہنچے سامان کے پٹے پر ۔ جلد ہی  اپنا سوٹ کیس دکھائی دیا تو خوشی ہوئی کہ مزید انتظار نہیں کرنا پڑیگا ۔ ٹرالی پر سامان ٹکایا اور باہر جانے والے دروازے سے نکلتے ہی سرخ کوٹ میں خوشی سے ہاتھ لہراتی ہوئی صدف مرزا ہمارے سامنے تھیں لپٹ کر محبت سے گلے ملیں، پیار سے چہرہ چوما، اور یوں لگا کہ ہم کہیں اور نہیں بلکہ اپنی ہی بہن کے گھر اپنی ہی عزیز ہستی کے گھر آ گئے ہوں ۔ ان کے ساتھ میں محترمہ مہ جبیں غزل انصاری صاحبہ کیساتھ یہ ہماری پہلی بالمشافہ ملاقات تھی ۔ جو بہت ہی پیار سے ملیں ۔ معلوم ہوا کہ ایک اور فلائیٹ سے پیرس سے ہماری معروف شاعرہ ثمن شاہ صاحبہ بھی آ چکی ہیں انہیں کا انتظار ہے ۔ پندرہ منٹ میں انہیں بھی سامان کی ٹرائی کیساتھ باہر آتے ہوئے دیکھا تو سبھی محبت سے ایک دوسرے سے ملے بلکل ایسا لگ رہا تھا جیسے سکول کالج کی بچیاں کسی ٹرپ کے لئے اکھٹی ہوئی ہیں ۔ سب کی خوشی دیدنی تھی ۔ سہارا ٹائمز کے کیمرہ مین اور صدف صاحبہ کے کولیگ  زبیر بھائی  نے ہمیں اپنی گاڑی میں  صدف جی کے گھر تک پہنچایا ۔ اور رخصت لی ۔ گھر پہنچتے ہیں ہمیں وارننگ ملی کہ کڑیو زیادہ سے زیادہ ایک گھنٹہ ہے اس میں کھانا بھی کھانا ہے اور تیار ہو کر آج کے پروگرام میں بھی پہنچنا ہے ۔ ہمارے فریش ہونے تک صدف جی نے کھانا جو میز پر لگایا تو ہم حیران رہ گئے کہ اس قدر مصروف خاتون نے کیا تھا جو نہیں بنا رکھا تھا ۔ دوسروں کے گھر میں فرش پر بھی گدا ڈال کر سو جانے والی صدف مرزا اپنے گھر میں اس قدر لوازمات سجائے بیٹھی تھیں اور بصد اصرار ایک ایک لقمہ کھانے پر مصر تھیں کہ کہنا پڑا کہ بی بی کیا بچے کی جان لو گی کِھلا کِھلا کر ۔                  
بھاگتے دوڑتے گاڑی کے آنے کی خبر سنتے ہیں فلیٹ سے نیچے کو لپکے۔ پروگرام سے واپسی پر رات دس گیارہ بجے پھر وہی مدارات ۔  اور تو اور دو دن کے لیئے کروز نامی شپ میں ہم چاروں خواتین کا قیام ، ناروے کا دورہ کروانا ہو یا جتنے روز بھی ان کے ہاں ہمارا قیام رہا ہر لمحہ ہمارے کھانے پینے کا خیال ، سونے کا خیال ، ٹرانسپورٹ کا انتظام غرض کہ ہمیں کسی بھی بات کے لیئے نہ تو سوچنا پڑا ، نہ ہی کوئی تردّد کرنا پڑا . پروگرامز کے دوران بھی ہر مہمان کی عزت اور مرتبے کا پورا پورا خیال رکھا ۔ بلکہ ہم تو یہاں تک کہیں گے کہ ہماری اوقات سے زیادہ ہمیں عزت دی ۔ یہاں ہمیں وہ بونی عظیم ہستی بھی یاد آئی کہ جو دو دو ماہ قبل منّتیں کر کے پروگرام کروانے کے لیئے کسی کو تیار کرتی ہیں ۔ اس کے نام پر مہمان اکٹھے کرتی ہیں اور عین پروگرام کے دوران اس میزبان کو نہ صرف پہچاننے سے انکاری ہوتی ہیں بلکہ سٹیج پر اس لیئے اس کی کرسی تک نہیں لگواتی کہ کہیں اس کی بونی ہستی کا وزن اور ہی کم نہ ہو جائے ۔ اس لیئے صدف مرزا صاحبہ کے لیئے یہ ہی کہوں گی کہ انہوں نے حق میزبانی سے بھی بہت زیادہ کیا ہم سب کیساتھ ۔ وگرنہ میرے سامنے تو ایسی بھی مثالیں ہیں جہاں خود کو عظیم ثابت کرنے والی بونی ہستیاں دوسرے ملکوں سے مہمان بلا کر انہیں مدعو تو کرتی ہیں ،مگر نہ تو انہیں پہنچنے کا مقام بتایا جاتا ہے نہ ہی کوئی پروگرام کا شیڈول دیا جاتا ہے اور تو اور کئی تو انہیں ٹیلفون پر بھی سلام دعا کرنے سے غائب ہو جاتی ہیں اور کئی تو گھر آنے کی دعوتیں دیکر گھر سے ہی غائب ہو جاتی ہیں یا پھر دروازوں کے پیچھے چھپ کر گھر پہ ہی نہ ہونے کا بھی سوانگ رچاتی ہیں ۔ ایسے زمانے میں خود اسقدر مصروف ہستی ہونے کے باوجود اس طرح گھر بلا کر مہمانوں کی ہر ہر بات کا خیال رکھنا کوئی معمولی بات نہیں ہے ۔ جسے دیکھ کر یہ ہی کہہ سکتے ہیں کہ انسان کے کردار کی بلندی دیکھنا ہو تو اس کی میزبانی کا جائزہ لے لینا چاہیئے ، اور اس میزبانی میں صدف مرزا صاحبہ کو بلاشبہ پورے نمبر دیئے جا سکتے ہیں ۔ اور وہ لوگ جو یہ کہتے ہیں کہ کام کرنے والی خواتین یا لکھنے والی خواتین ایک اچھی گھردار نہیں ہو سکتی ہیں تو ان کے لیئے تو ایسی تمام خواتین ایک مثال کی حیثیت رکھتی ہیں جنہوں نے نہ صرف اپنی تعلیم کو جاری رکھا اپنی اولاد کو بہترین پرورش بھی دی اور اعلی تعلیم بھی دلوائی اور انہیں لڑکا اور لڑکی کے فرق کے بغیر مکمّل گھرداری بھی سکھائی ۔ جس کی وجہ سے بیٹی آج چوبیس برس کی عمر میں اپنا گھر بھی کامیابی سےچلا رہی ہے اور شادی کے بعد ماں کے نقش قدم پر چلتے ہوں اپنی میڈٰیکل کی تعلیم بھی مکمل کر چکی ہیں اور مزید تعلیم بھی جاری رکھے ہوئے ہیں ۔ جبکہ بیٹا بھی یونیورسٹی کا ایک لائق طالب علم ہے ۔ لیکن ماں کی ایک ایک بات کی فکر کرنے اور خیال کرنے والا پیارابرخوددار بھی ہے ۔  ایسے گھر تبھی بنتے ہیں جب مائیں اپنی خواہشیں اور معمولات کو اپنے مچوں کی تربیت کو مد نظر رکھتے ہوئے ترتیب دیتی ہیں ۔ وگرنہ خود رات کے دو دو بجے مخلوط محفلوں میں بیٹھی خواتین اپنی اولادوں کو اپنی ہی خواہشات کی بھینٹ چڑھاتی تو اکثر ہی دکھائی دے کھاتی ہیں ۔ اور انہیں یہ کہنے کا بھی موقع نہیں مل پاتا کہ 
                     اب پچھتاوے کیا ہووت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت 
 اولادوں کی پرورش کوئی مذاق نہیں ہوتا اس کے لیئے خون جگر ہی نہیں دینا پڑتا بلکہ اپنے دماغ کا پانی بھی پلانا پڑتا ہے تب کہیں جا کر اولاد نامی پودے تندرستی سے پروان چڑھتے ہیں ۔ یہ نہ ہو تو انہیں مرجھاتے ہوئے زیادہ دیر نہیں لگتی ۔ اللہ پاک ہم سب کو اپنی اولادوں کی بہترین تربیت کرنے کی توفیق اور سمجھ عطا فرمائے ۔ آمین 
                                         ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   

شاعری / /مدت ہوئ عورت ہوۓ/ ممتاز قلم / سچ تو یہ ہے/ اے شہہ محترم/ سراب دنیا/ نظمیں/ پنجابی کلام/