ممتازملک ۔ پیرس

ممتازملک ۔ پیرس
تصانیف : ممتازملک

اتوار، 22 اکتوبر، 2017

اچھی رہنمائی اچھا مستقبل / کالم



 اچھی رہنمائی اچھا مستقبل 
ممتازملک. پیرس 

اب  وہ وقت گزر گیا ہے جب بچہ گریجویشن یا ایم اے کرنے کے بعد بڑا آدمی بن جایا کرتا تھا . اب تو مقابلے کا زمانہ ہے جناب . جو شخص اپنے شعبے میں جتنی عملی مہارت رکھتا ہے وہی آگے نکل پاتا ہے . ہر جدید علم اور ٹیکنالوجی سے باخبر رہنا وقت کی اہم ضرورت اور کامیابی کے کنجی ہے. ایسے میں  بچوں کو ان کے مستقبل کے لیئے مضامین کے چناو میں رہنمائی کی اشد ضرورت ہوتی  ہے .  بدقسمتی سے ہمارے  اکثر تعلیمی اداروں میں ایسی کسی کونسلنگ کا کوئی انتظام ہی نہیں ہے 
 اور جن ممالک میں یہ انتظام موجود بھی ہے وہ سو فیصد مثبت رہنمائی پر مشتمل ہی نہیں ہے . کیوں کہ کونسلرز کی اکثریت بچے کو رہنمائی کرنے سے زیادہ اس پر اپنی رائے مسلط کرنے کی فکر میں ہوتی ہے . یہ سوچے سمجھے بنا کہ اس کے نتیجے میں اس بچے کا سارا مستقبل داؤ پر لگ جائیگا .  اس لیئے ضروری ہے کہ ادارے اچھے اور ذمہ دار کونسلرز کا  اپنے اداروں میں تعین کریں . اور انہیں بچے کے رجحان کو سمجھنے کے لیئے اسے کم از کم ایک سال تک چھوٹے چھوٹے مختلف مضامین اور ٹیکنیکس کے ٹیسٹ کے ذریعے  پرکھا جائے . انہیں مختلف سوالنامے حل کرنے کو دیئے جائیں . جسے حل نہ کرنے کی صورت میں  اس پر دباو نہ ڈالا جائے بلکہ سمجھا جائے کہ اسے کس ٹائپ کے سوالنامے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے . گویا بچے کی جانب سے یہ بھی اس مضمون میں عدم دلچسپی کا بھرپور اظہار ہے . سو اگلے مضمون کا سوال نامہ اسے سونپا جائے . یا بہت سے سوالنامے الگ الگ مضامین  پر تیار کیئے جائیں اور طالبعلم کے سامنے ایک ساتھ رکھے جائیں اور اسے مکمل اور خوش کن اختیار دیا جائے کہ  جو چاہو سوال نامہ پر کرنے کے لیئے اٹھا لو . اور اس کے منتخب کردہ سوالنامے پر کسی کو اعتراض کا کوئی حق نہیں ہونا چاہیئے . کیونکہ یہ اس طالبعلم کی پوری زندگی کا دارومدار ہے .اس کے ساتھ نہ تو آنے والی زندگی میں کام تلاش کرتے ، نوکری کرتے یا کاروبار کرتے وقت آپ میں سے یا والدین میں سے بھی کوئی اس کے ساتھ نہیں ہو گا . اسے روزگار کمانے کی جنگ اکیلے ہی لڑنی ہے اور مستقبل بنانے کا سفر اکیلے ہی طے کرنا ہے . سو اس کا اختیار بھی صرف اسی کے پاس ہونا چاہیئے 

بچوں کو پروفیشنل اور ٹیکنیکل  ڈگری کی جانب راغب کیا جانا بھی بے حد ضروری ہے .
ورنہ خالی جولی چار چار ایم اے بھی اس کے روزگار کی ضمانت نہیں ہو سکتے .
ابس لیئے اب یہ بچے کی پسند  اور دلچسپی پر منحصر  ہے کہ وہ  کمپیوٹرز پروگرامز میں ہے یا
تعمیراتی کاموں میں ،فیشن سے متعلق شعبوں میں (جس میں  میک اپ ، سٹچنگ،  ڈیزائننگ اور اس سے متعلق بےشمار موضوعات شامل ہیں)
انٹیرئیر یا ایکسٹیرئیر ڈیکوریشن  کے مشامین. ..
پاکستان اور دنیا بھر میں بہت اچھے ٹیکنیکل انسٹیٹیوٹس  موجود ہیں . جو آپ کو پروفیشنل اور ٹیکنیکل  تعلیم کیساتھ اپنے پیروں پر  خود مختار طور پر کھڑا کرتے ہیں .
لیکن یاد رکھیں طالب علم کو  جبرا کوئی مضمون اختیار مت کروایئے اس طرح اس کی کامیابی  کے  امکانات آدھے رہ  جاتے ہیں . اسے سارے مضامین سامنے رکھ کر ان میں سے  اس مضمون  کو چننے کی اجازت دیجیئے جس میں کام.کر کے وہ  دلی خوشی محسوس کرے اور اپنے مضمون اور کام کو انجوائے کرے.تبھی وہ اسمیں کمال دکھا پائے گا
. ممتازملک  . پیرس 






منگل، 17 اکتوبر، 2017

بچے بچپن اور تحمل / کالم



           بچے بچپن اور تحمل
      (تحریر:ممتازملک .پیرس)



گذشتہ دنوں گونگے بہرے بچوں کیساتھ بس میں کنڈیکٹرز کے ہاتھوں  مارپیٹ اور تشدد کرنے والے مجرمان میں سے  ایک نے خود کو حافظ قرآن کہا تو ایک نے خود کو چوتھے امام کی اولاد ...

اور ان کے پیچھے لوگ کبھی نماز ادا کرتے ہیں اور کبھی رمضان کی مبارک راتوں میں میں تراویح ادا کرتے ہیں .
* ایسے بے دین اور بے شرم لوگوں کے پیچھے نماز پڑھنے والے کیا فیض پاتے ہونگے؟
* اور ان کی دعاوں میں کیا تاثیر ہو گی ؟
* کیا ان کے اپنے بچے ان کے گندے ہاتھوں سے محفوظ ہونگے ؟
سکولوں کے اساتذہ کو دیکھیں تو وہ ایسے  کہ جنہیں کہیں نوکری نہ ملی وہ استاد بن گئے اور اپنے گھر کا روز کا ڈپریشن بچوں کہ کھال اتار کر نکالتے ہیں . 
کام سکھانے والے استادوں کو دیکھے تو وہ ان معصوم  بچوں کیساتھ بدفعلیوں اور  اوربدسلوکی کی انتہا کر دیتے ہیں .
بچوں کے ساتھ نرسنگ میں ہوں تو .نومولود بچوں کو ساری رات تڑپتا چھوڑ کر خود خوش گپیوں  میں ٹائم پاس کیا جاتا ہے. یا بچوں کی خریدو فروخت اور بچے بدلنے کا کاروبار کیا جاتا ہے .
کنڈر گارڈن یا نرسریز میں کام کرتے ہیں تو بچوں کو نومولود سے لیکے تین سال تک کے بچوں کو بری  طرح خوفزدہ کیا جاتا ہے یا انہیں رونے اور بھوکا ہونے پر مار مار کر آدھ موا  کر دیا جاتا ہے.  
چوکیدار میں ہوں تو معصوم بچوں بچیوں پر گندی نظر رکھی جاتی ہے اور ان کا شکار کرنے کے لیئے گھات لگائی جاتی ہے .
  ہم مسلمان ہیں ہمیں تو حکم ہے کہ حالت جنگ میں بھی بچوں اور عورتوں پر ہاتھ مت اٹھاو ..
جو بزرگوں سے محبت اور بچوں پر شفقت نہیں کرتا وہ ہم میں سے نہیں . 
مسجد میں بھی بچوں کی شرارتوں کو  نظر انداز کر دو کہ مبادا کہیں تمہاری جھڑکیوں سے ڈر کر وہ مسجد میں آنا ہی نہ چھوڑ دیں . سو اس پر صبر کرو .

بچوں کیساتھ کہیں بھی کسی بھی شعبے میں کام کرنے کے لیئے بیحد صبر اور تحمل کی ضرورت ہوتی ہے . اگر آپ میں یہ صبر و تحمل نہیں ہے تو بہتر ہے کہ خدا کے لیئے آپ بچوں کے ساتھ کوئی بھی ملازمت کرنے سے پرہیز  کریں .

یورپ میں جب بھی آپ بچوں سے وابستہ کسی شعبے میں کام کرنا چاہتے ہیں تو سب سے پہلے آپ کا کیریکٹر اور آپ کی شخصیت کو دیکھا اور پرکھا جاتا ہے . 
آپ سے آپ کی حقیقت اگلوانے کے لیئے گھما پھرا کر سوالات کیئے جاتے ہیں کہ 
* آپ بچوں کے ساتھ کیوں کام کرنا چاہتے ہیں؟
* آپ کو بچوں کیساتھ ہی کام کرنے کا خیال کیسے آیا ؟
* آپ بچوں کے بارے میں کیا جانتے ہیں ؟
*کیا کبھی آپ کو بچوں کے ساتھ وقت گزارنے یا کام کرنے کا موقع ملا ہے ؟
* اگرملا ہے تو آپ نے اس سے کیا سیکھا؟
* بچہ ایسا کرے تو آپ کیا کرینگے ؟
* بچہ ویسا کرے تو کیا کرنا چاہیئے؟
* بچہ کسنموڈ میں کیا کرتا ہے ؟
بچہ پیدا ہونے  کے فورا بعد کس پوزہشن میں ہوتا ہے؟
*اسکی مٹھی کتنی دیر بعد کھلتی ہیں ؟
* اس کی آنکھیں کتنی دیر کے بعد پوری طرح کھلتی ہیں ؟
* وہ کتنے دنوں کے بعد کیا کرتا ہے ؟
وغیرہ وغیرہ وغیرہ وغیرہ 
کیا ان سب سوالات کے جوابات ہمارے ہاں کے بچوں کی فیلڈز میں کام کرنے والے کسی بھی استاد یا دوسری ملازمتوں میں موجود کسی بھی فرد سے حاصل کر سکتے ہیں ؟
میرا خیال ہے اگر ان سوالات اور اس سے متعلق تربتی مواد پڑھنے اور عملی تربیت کے بنا آپ بچوں کے کسی بھی شعبے میں کام کر رہے ہیں تو آپ صرف حرام کی تنخواہ لے رہے ہیں .کیونکہ اصل میں آپ میں سے کسی کو بھی اس کے بغیر بچوں کے ساتھ کسی بھی شعبے میں کام نہیں کرنا چاہیئے .
ذراسوچیئے 
کہ آپ کے بچے کن ہاتھوں میں پل رہے ہیں ؟
خود آپ بھی بچوں کی نفسیات اور جسمانی تقاضوں کو کتنا جانتے ہیں ؟

اتوار، 15 اکتوبر، 2017

تین سال تین کتب


السلام علیکم دوستو

کل 14 اکتوبر 2017 بروز ہفتہ مجھے کتاب "شہر سخن" کی تین کاپیاں تین سال کے انتظار کے بعد بالآخر موصول ہو ہی گئیں .
اکمل شاکر اور عاکف  غنی کی جانب سے مرتب  36 شعراء کرام کا کلام اس کتاب میں شامل کیا گیا ہے .
حالانکہ دس کاپی کا وعدہ تھا لیکن پہنچی تین کاپیاں ہیں ابھی تک . تین سال میں
فی سال ،فی کاپی شاید 😂😂😂
خیر اس کے لیئے عاکف غنی بھائی آپ کا بیحد شکریہ. کتاب بہت اچھی لگی . سبھی کا کلام بہت  زبردست ہے . شاعری سے شغف رکھنے والوں کے لیئے ایک خوبصورت اضافہ ہو گی یہ کتاب
ان شاء اللہ
پڑھنے والوں کے لیئے اس کتاب کی خاص بات یہ بھی رہیگی کہ اس میں 36 میں سے 35 شعراء کرام  کا بڑا دھانسو تعارف ہر ایک کے کلام سے پہلے کرایا گیا ہے . ماسوائے ممتازملک کے .
* ہو سکتا ہے کاغذ کی کمی ہو گئی ہو، سو اسے ہورا کرنے کے لئے ممتازملک کا تعارف غیر ضروری سمجھ کر نکال دیا گیا ہو ...
*  یا ہو سکتا ہو معصوم پرنٹرز  کسی اور کی بجائے صرف ممتازملک کا ہی تعارف لگانا بھول گئے ہوں ....
*  یا یہ بھی ہو سکتا ہے کسی خفیہ ہاتھ نے اسے چھاپنے سے روک دیا ہو ...
*   یا یہ بھی ہو سکتاہے کہ سب نے سوچا ہو کہ
         آپ اپنا تعارف ہوا بہار ہے 😜

بھئی یہ کتاب ضرو پڑھیئے گا. کیونکہ اس میں میرے سوا سبھی کا تعارف خوب معلوماتی ہے .😂
خیر... جو بھی سوچا ہو ،
لیکن یہ ضرور ثابت کیا  کتاب کے مرتبین  نے کہ یا تو ممتازملک اتنی اہم ہی نہیں ہے کہ اس کا تعارف کوئی جاننا چاہے ....
یا پھر
ممتازملک  اتنی ی ی ی اہم ہے کہ اس کا  تعارف لگانے سے  ڈر  لگتا  ہے...😱
بہرحال کتابیں بھجوانےکا بہت بہت شکریہ . اور اللہ پاک کا ہر پل میں کروڑ ہا بار شکریہ کہ اس نے انسان کی عزت اور بے عزتی اپنے ہی ہاتھ میں رکھی ہے . اور ہزاروں بار شکریہ Facebook  کا بھی . کہ اس نے اس مفت کی کتابیں اینٹھنے اور "کتب گداگری" کے دور میں بھی ہمیں ساری دنیا میں ہمارے قارئین سے جوڑ رکھا ہے . .....
ورنہ
  خاک مجھ میں کمال رکھا ہے
   پردہ اللہ  نے ڈال رکھا ہے
       ممتازملک . پیرس

جمعرات، 28 ستمبر، 2017

ٹماٹر ہی کیوں ؟




                ٹماٹر ہی کیوں ؟
           (تحریر/ممتازملک ۔پیرس)   

ٹماٹر ٹماٹر ٹماٹر 
سن سن کر کان پک گئے ہیں ...بھئی دنیا کا کوئی کام کسی چیز کے کم ہونے سے کبھی رکا ہے . لیکن ہمارے ہاں زبان کے چٹورے کبھی کھانے میں پیاز کو روتے ہیں تو کبھی ٹماٹر کا قل پڑھتے دکھائی دیتے ہیں . جبکہ ہم سمجھتے ہیں کہ
سوائے نمک کے ہر شے کے بنا سالن بن سکتا ہے .
دنیا کے دو تین ممالک  کے سوا ساری دنیا ٹماٹر کے بنا یا پیاز کے بنا جو کچھ کھاتی ہے وہ کھانا نہیں ہے گویا 
نہیں تو 
انار دانہ اور امچور  بھی استعمال کیئے جا سکتے ہیں.  لیکن جنہیں ٹماٹر ہی چاہیئے ان کے لیئے دودہ سے دہی جمانا  بہت آسان اور لذیذ طریقہ ہے .
اور اگر کچھ نہ بھی ڈالیں تو بھی کوئی قیامت نہیں آ جاتی . ساری دنیا میں سالن پیاز ٹماٹر ڈال کر ہی تو نہیں پکائے جاتے نہ ہی انہیں ڈالنا کوئی اللہ کا حکم ہے . سو ان چیزوں کے بہانے واویلا کرنے سے کہیں اچھا ہے کہ جو میسر ہے اسی میں کھانا بنایا جائے . جو چیز مہنگی ہو اس کے سستا ہونے تک اسے چھوڑ دیا آئے . 

220 روپے کلو ٹماٹر  تو میں نے خود آج کا ریٹ دیکھا ہے  ٹی وی پر 
اور اس میں دو لیڑ  دودہ  باآسانی آ سکتاہے . 
ویسے بھی ٹماٹر کے ایک کلو میں زیادہ سے سے زیادہ سات آٹھ دانے نکلیں گے جبکہ دہی کی کیوبز اس سے کہیں زیادہ ہو گی اور سالن کی لذت بھی بڑہائینگی .
اب کسی نے فرمایا بی بی دہی کی کیوبز فریزر میں جمنے کے لیئے بجکی چاہیئے..
تو  بھسئی لوگ  آپ فریزر کو بار بار مت کھولیں تاکہ اس کی کولنگ  زیادہ دیر چلے.  
اور دوسرا طریقہ کومن سینس بھی استعمال کیآ کریں . 
اگر فریزر یا بجلی نہیں ہے تو آپ آدھا لیٹر دودھ  کا دہی جمالیں . جتنا چاہیئے استعمال کریں ایک دن دو تین دن تک بنا جمائے چلا لیں . زیادہ سے زیادہ دہی کھٹا ہو جائے گا تو کیا ہوا  اور اگر دہی کھٹا ہو گیا اس کی تو اور بھی کم مقدار ڈلے گی اور کھانا لذیذ بنے گا . 
بہانے چھوڑیں 
بی پریکٹیکل 
ویسے بھی گھر میں دہی جمانے سے بھی کیوں جان جاتی ہے اکثر ہماری خواتین کی . حالانکہ بہتریں دہی رات کھانے کے بعد دودہ کو جاگ لگا دیں تو صبح ناشتے  تک  تیار ہوتا ہے .
رنگین دہی چاہیئے تو بھی کوئی مسئلہ نہیں ہے آپ جس رنگ کا چاہے دہی جما لیں جناب 
دودھ ابال کر نیم گرم ہونے پر اس میں کوئی سا فوڈ کلر بھی ایڈ کر لیجیئے پھر مٹی کے  برتن  میں دہی کا تھوڑا سا پانی جسے  جاگ  کہتے ہیں ملا کر اسے ڈھک کے کسی گرم جگہ پر بارہ گھنٹے  کے لیئے رکھ دیجیئے.  رات کو رکھیں صبح تازہ دہی تیار .
چاہیں تو اس میں دودھ میں  چینی ڈال کر میٹھا دہی جمایئے. 
اپنا تو اصول ہے جناب جو چیز مہنگی ہو تب تک چھوڑ دو جب تک وہ گلی گلی  رلنے  نہ لگے 

بدھ، 13 ستمبر، 2017

نظر انداز


یاد رکھیں
  نظر انداز کیئے جانے اور بےوفائی         سے بڑا کوئی دکھ نہیں ہے جو آپ       کسی کو دیتے ہیں 😢
       ممتازملک. پیرس

پیشکش


پیشکش

کچھ لوگ غلط ہوتے ہیں لیکن وہ خود کو اس طرح پیش کرتے ہیں کہ بڑے بڑے پاکباز بھی ان کے سامنے چھوٹے ہو جائیں 😥
اور بعض لوگ درست ہوتے ہوئے بھی خود کو اس طرح بودا  بنا کر  پیش کرتے ہیں کہ برے سے برے  انسان  کو بھی اس سے نفرت ہو جائے 😫
سو غور کیجیئے آپ جیسے ہیں خود کو ویسا ہی پیش کر رہے ہیں یا ......
ممتازملک. پیرس

جمعہ، 8 ستمبر، 2017

● اے قاید اعظم تیرے مشکور رہینگے ۔ سراب دنیا


اے قائد اعظم تیرے مشکور رہینگے 
کلام/ ممتازملک ۔پیرس 





اے قائد اعظم تیرے مشکور رہینگے 
دل تیری محبت سے یہ معمور رہینگے

ذلت سے غلامی سے ہمیں تو نے نکالا
اس قوم کی کشتی کو بھنور میں تھا سنبھالا 
ہم بھی انہیں جذبات سے بھرپور رہینگے
 اے قائد اعظم تیرے مشکور 
رہینگے 

ہم آج بھی تیرے دیئے اسباق کو لیکر
کرتے ہیں چراغاں رہ عشاق کو لیکر 
دل لے کے ہتھیلی پہ یہ منصور رہینگے 
اے قائد اعظم تیرے مشکور رہینگے 


وعدے جو کیئے ہم نے نبھائینگے ہمیشہ 
دنیا کو عمل کر کے دکھائینگے ہمیشہ 
دشمن تیرے تاعمر ہی رنجور رہینگے 
اے قائداعظم تیرے مشکور رہینگے 
۔۔۔۔۔۔۔


جمعرات، 7 ستمبر، 2017

کیا کریں ان کا


کیا کریں ان کا ...
ممتازملک. پیرس

جیسے جیسے وقت کا انداز بدلا اس کی ضروریات بدلتی ہیں ویسے ویسے لوگوں کے سوچنے اور عمل کرنے کا انداز بھی بدلنے لگتا ہے .
آج ہم جس زمانے میں سانس لے رہے ہیں اسے اگر ہوائی زمانہ کہیں تو کچھ غلط نہ ہو گا . پہلے وقتوں میں ہوائی روزی ہوا کرتی تھی یا پھر ہوائی مخلوق کے قصے سنائی دیتے تھے . باقی سب کچھ نظر کے سامنے ہوا کرتا تھا . جیسے کون کس سے ملتا ہے ؟اس کے دوست احباب کیسے ہیں ؟ اس کے گھر کس کس کا انا جانا ہے ؟ اسی تناظر میں اس کے چال چلن کا بھی تعین کر لیا جاتا تھا . کہنے والے اسے دوسرے کی زندگی میں پرائیویسی  پر حملہ یا دخل اندازی بھی کہہ سکتے ہیں لیکن انہیں بھی یہ ماننا پڑیگا کہ پرائیویسی کے نام پر نئے نئے گل نہیں کھلائے جا سکتے تھے . ہر شخص دوسروں کی نظر میں رہتا تھا . اوراس کا کردار بھی کسی سے ڈھکا چھپا نہہں رہ سکتا تھا .  اور جوابدہی کے لیئے بھی ذمہ دار تھا .
لیکن آج کیا کریں کہ ہر انسان خود کو اخلاقی قدروں  سے اخلاقیات سے بھی خود کو اس موئی پرائیویسی کے نام پر آزاد کر کے دوسرے کی پرائیویسی میں دخل اندازی کے نت نئے حربے آزمانے اپنا حق سمجھنے لگا ہے.
سادہ لفظوں میں کہئیے تو  کسی کے گھر مہماں بنکر گئے ہوں تو اس کے دوسرے مہمانوں یا رشتہ داروں کے اتے پتے بڑے رازدارانہ انداز سے  حاصل کر لیئے جاتے ہیں . پھر اس بلانے والے میزبان کی  مل کر خوب بینڈ بجائی  جاتی  ہے . جس کے دسترخوان پر انہیں اکھٹے متعارف ہونے کا موقع ملا اسی کے کردار پر،اس کے خاندان پر اور تو اور اس کے  دو چار سال کے بچوں پر بھی ایسی ایسی موشگافیاں کی جاتی ہیں . کہ جس کا علم ان کو ملانے والے کے کیا، اسکے فرشتوں  کو بھی خواب و خیال میں بھی نہ ہو گا . پھر اس ملانے والے کو بیچ میں سے صفر کر دیا جاتا ہے اور آپس میں محبت کے منافقانہ پینگیں بڑھائی جاتی ہیں .
اسی کی ایک اور مثال آج کا سوشل میڈیا فون اور خصوصا فیس بک لے لیجیئے . اس میں اکثر دوسرے کی محبت میں فرینڈ ریکوئسٹ نہیں بھیجتے بلکہ ان کا مقصد اس لسٹ میں موجود فرینڈ  سرکل کو تاڑنا ، پھر ان سے عقیدت اور محبت رکھنے والوں کو ان بکس میں جا کر ہاتھوں پر ڈالنا ؟ ان سے خصوصی تعلقات استوار کرنا ؟ اس کی کردار کشی کر کے اسے دوسرے کی نظر سے گرانا، اور پھر اس کے جو کام نکلوانا ہے اس کے لیئے ہر قیمت پر کام نکلوانا، یہاں تک کہ اس بات پر اسے ہراساں کرنا کہ اچھاااا آج کل بڑا فلاں فلاں کی پوسٹ پر لائیک اور کومنٹس کیئے جا رہے ہیں ، ہوں ں ں ں ں. کیا چکر ہے 😜 یہ سب اس انداز میں کہا جائیگا اور فون پر اس کا ایسا برین واش کیا جائے گا کہ اچھا بھلا شریف اور بہادر انسان بھی پریشان ہو کر اچھے سے اچھے دوست سے بھی کنی ٹکرانے لگتا ہے کہ خدا جانے اور میری باتوں کو کیا کیا رنگ لگا کر پیش کر دیا جائیگا . سو اپنی بھی عزت تو نہیں بنتی وقتی فائدے ہی لینے ہوتے ہیں . لیکن دوسرے کے لیئے اگلے کے دل میں شیطانی کا بیج ضرور بو دیا جاتا ہے .
ایسے لوگ کبھی کسی کے مخلص دوست نہیں ہو سکتے . یہ ٹائم پاس لوگ ہوتے ہیں . ان کی کبھی مستقل دوستیاں نہیں دکھائی دیں گی . جو دوستیاں  ہونگی بھی  ان کے ساتھ ان کی آئے دن کی لڑائیوں کے بعد وقتی مفادات کے لیئے ایک میز پر اکٹھے ہو کر جھوٹے قہقہے اور مشروط ملاقاتیں ہی  ہوں گی .
اب کیا کہیں ایسے لوگوں کو جو ہوائی انداز سے ہواوں میں گھر بناتے ہیں . دوست پالتے ہیں اور ہوش آتے ہی حقیقت کے فرش پر دھڑام  سے گرتے ہیں.
  بقول "باقی صدیقی" کے

خود فریبی سی خود فریبی ہے
پاس کے ڈھول بھی سہانے لگے

ایک پل میں وہاں سے ہم اٹھے
بیٹھنے میں جہاں زمانے لگے
                    ********

ہفتہ، 26 اگست، 2017

واہ واہ خان صاحب


واہ واہ خان صاحب
ممتازملک. پیرس
خان صاحب "کےپی " کے نیرو نہ بنیں
*جب وہاں بچے قتل ہو رہے تھے تو آپ عشق فرما رہے تھے
*جب وہاں دھماکے ہو رہے تھے تو آپ دھرنے میں ناچ گانا کر رہے تھے
*جب وہاں چوہے لوگوں کو نوچ  رہے تھے تو آپ مری کی سیریں  فرما رہے تھے
اور اب
* جب  وہاں لوگ  ڈینگی سے مر رہے تو آپ پنجاب میں لوگوں کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی پریکٹس کر رہے ہیں . اس" کے پی کے" میں جہاں آپ نے کاغذوں میں ہسپتالوں سکولوں کالجوں کا جال بچھا دیا ہے وہاں آج اس سال 2017 میں بھی  بارہ ہراز بچے کالج نہیں جا سکیں گے کہ اتنے کالج ہی نہیں ہیں .
ڈینگی کے مریض بیچارے پنجاب سے گئے میڈیکل سٹاف کو بھی اپنا مرض نہیں بتا سکتے ،اپنی جان بچانے کی دوا نہیں لے سکتے  کہ "کی پی "کا نیرو انہیں زندہ رہنے کی اجازت نہیں دے رہا ....اور میڈیکل سٹاف  کی گاڑیاں پارک کروا دی گئی ہیں .
کوئی انسان اتنا ظالم کیسے ہو سکتا ہے کہ صرف اپنی ناک بچانے کے لیئے اس نے پورے صوبے کو مچھروں کے ہاتھوں مرنے کے لیئے چھوڑ دیا اور منہ کے سامنے کھڑی گاڑیوں اور ڈاکٹروں  سے دوا لینا اس لیئے منظور نہیں کہ یہ اس کے مخالف نے بھیجی ہیں .
کیا یہاں اس کا باپ بھائی یا بیٹا زندگی اور موت کی جنگ لڑ رہا ہوتا تو یہ ایک منٹ کو بھی سوچتا کہ یہ دوا کھلانے والا دوست ہے یا دشمن.
کبھی نہیں یہ اس کی جان بچانے کی کوشش کرتا .
بجائے بجایئے  بانسری بجائیے لوگ مرتے ہیں مرتے رہیں آپ کی بلا سے ...نہ ان میں کوئی
آپ کا باپ نہ آپ کا بھائی..
نہ ہی  بیٹا ،نہ بیٹی
نہ ماں نہ بہن ...
انجوائے خان صاحب 
تاریخ آپ کو ضرور یاد رکھے گی کہ ایک تھا عمران خان جسے پورا صوبہ حکومت کرنے کو ملا . اس نے لوگوں کے لیئے کینسر ہسپتال بنایا لیکن اس کی عوام چوہوں  اور مچھروں کے کاٹنے سے مرتی رہی .
کیوں ؟؟
کیونکہ اسے مچھروں اور چوہوں سے عوام کی جان بچانے کے عوض اربوں روپے ذکوات خیرات اور غیر ملکی فنڈنگ میں نہیں مل رہے تھے... افسوس...
ممتازملک. پیرس

منگل، 22 اگست، 2017

سچ کا استعمال


سچ کا استعمال 

سچ کو دوا کی طرح استعمال کرو
ہتھیار کی طرح نہیں...
کیونکہ دوا علاج کرتی ہے اور
ہتھیار تباہ کرتا ہے ....
(چھوٹی چھوٹی باتیں )
ممتازملک. پیرس         



اپنی زبان

اپنی زبان ہی ترقی کہ ضامن...

اتوار، 20 اگست، 2017

ایک نیا طریقہ واردات

 

ایک نیا طریقہ واردات
ممتازملک. پیرس 

جب بھی کوئی نئی ٹیکنالوجی یا چیز مارکیٹ میں آتی ہے تو  اس کے استعمال کے اچھے اور بڑے دونوں ہی پہلو سامنے آنے لگتے ہیں . 
گذشتہ دس سالوں میں عوامی رابطے میں جتنا بھرپور کردار فیس بک اور سوشل سائیڈز  نے ادا کیا ہے اس سے پہلے  رابطوں کی یہ تیزی محض ایک خواب تھی . کہاں خطوط کا لمبا انتظار اور اور پھر فون کالز کی بکنگ کے صبر آزما اور مہنگے ذرائع اور کہاں اب ساری دنیا ہماری انگلی کی پور  پر آ گئی ہے . 
چوبیس گھنٹوں اور سات دن آپ کی خدمت میں یہ آسان سروس حاضر ہے . اب تو پردیس بھی پردیس کم ہی لگتا یے .  فاصلے سمٹ گئے اور آنکھوں کا انتظار بھی اب مختصر ترین ہو گیا بلکہ ختم ہی ہو گیا.
. ایک دوسری سے بات کیجیئے  . پیغام بھیجیئے.فوٹو اور ویڈیوز بھیجیئے  .ہر طرح سے اپنوں کیساتھ رہیئے.
کسی شاعر نے کیا ہی خوب  کہا تھا کہ 
دل کے آئینے میں ہے تصویر یار
بس ذرا گردن جھکائی دیکھ لی 
سو آج موبائل اور نیٹ کے لیئے  بجا طور پر  ہم کہہ سکتے ہیں کہ واقعی
جیب میں ہے اب میرے تصویر یار
بس ذرا انگلی لگائی دیکھ لی 
سن لی 
سنا لی 
سجا لی 
ہٹا لی 
واہ واہ کیا بات ہے 
لیکن اتنی ساری سہولیات کے ساتھ ساتھ اس کے غلط استعمال کرنے والے ہڈ حرام  لفنگوں تلنگوں کو بھی گھر بیٹھے ہڈ حرامی کا ایک ذریعہ ہاتھ آ گیا . ان بلیک میکرز اور ڈاکوؤں کو کمپیوٹر کی زبان میں ہیکرز کہا جاتا ہے . اور اکثر ان کا فل ٹائم کاروبار ہی یہی ہے. لوگوں کے اکاونٹس میں جا کی ان کی ذاتی معلومات  چرانا،  ان کے ذاتی رابطے گفتگو،تصاویر اور ویڈیوز چرانا اور پھر ان لوگوں کو ڈاکووں کی طرح رقم یا کسی اور ناجائز تقاضے سے تنگ کرنا اور بلیک میلنگ کے ذریعے مفادات حاصل کرنا . ابھی چند روز قبل ہمارے ایک فیس بک فرینڈ کیساتھ بھی ایسی ہی ایک واردات ہوئی اور ان کی ذاتی تصاویر ہیگ کر کے ان سے ایک لاکھ روپے دینے کا مطالبہ کیا گیا . ورنہ آپ کی پرائیویٹ تصاویر کو پبلک کر دینگے . بیچارے بہت پریشان ہوئے ..ہم سے بات ہوئی تو ہم نے بتایا کہ
جی ہاں جناب بلکل ایسے واقعات سننے میں آ رہے ہیں کہ لوگوں کی ذاتی تصاویر  اور اکاونٹس ہیک کر کے ان سے تاوان مانگا جا رہا ہے .اور ڈریئے مت بلکہ ان کے خلاف سائبر کرائم اور ایف آئی اے دونوں جگہ جا کر کیس درج کروایئے . 
تو سبھی دوستوں سے گزارش یے کہ ایسے جرائم پیشہ افراد  سے ڈرنے کی قطعی کوئی ضرورت نہیں ہے  اور غلطی سے بھی انہیں ایک پیسہ بھی مت دیجیئے گا ورنہ ساری عمر ایسے گروہوں کا شکار بنے رہینگے . 
جرات کیجیئے اور ایسے واقعات اور دھمکیوں کو پولیس اور سائبر کرائم میں رپورٹ کر کے انہیں ایسے جوتے لگوائیں کہ الٹا وہ آپ کو تاوان ادا کر کے آپ سے معافی مانگیں . یاد رکھیں آج کی آپ  کی بزدلی آپ کے پورے خاندان کو خطرے میں ڈال دیگی .اور سائبر کرائم کے ادارے پاکستان میں بھی اب اچھی کارکردگی دکھا رہے ہیں . امید ہے کہ ان انٹرنیٹ ڈاکووں اور بلیک میلرز کو اب یہ دھندا  اتنا بھی فائدہ نہیں دے سکتا جتنا کچھ لوگوں کی خاموشی اور بزدلی سے وہ پہلے اٹھا چکے ہیں . 
سو والدین آپ بھی اپنی نوجوان اولادوں پر بھی نظر رکھیئے اور ان کے پاس آنے والے مال کا بھی حساب رکھیں کہ وہ کہاں کہاں سے یہ دھن برسوا  رہا ہے.  کہیں ایسا نہ ہو کہ آپ کے چار دن کی خاموشی انہیں برسوں  کے لیئے جیل یاترا کروا دے. پھر جو لوگوں کے سے منہ چھپاتے پھریں گے تو اس سے بہتر ہے کہ آج ہی ان کی آمدنی اور لائف سٹائل پر نظر رکھیں .   
                 *********' 8

جمعہ، 18 اگست، 2017

نجف علی شاہ گریٹ مین


تسلیمات
نجف علی شاه بخاری شخصیت اور فن میں میری 27 سالہ ریڈیو  Tv اور  دیگر ادبی خدمات کا احاطه کیا گیا ھے جسے پروفیسر Dr.قیصر نجفی صاحب  "میرے چاره گر  "  کے عنوان سے کتابی شکل دے رھے
ھیں مذکوره کتاب میں میری نثری اور شعری تخلیقات    اشکوں میں رعنائ / برف میں lipti آگ / منوتی / بستیاں آباد / صحرا میں اذان / اسم اعظم پڑھ لیا کرتا ھوں میں /   پر معروف شخصیات کے تبصرے بھی شامل ھیں
مجھے خوشی ھوگی اگر آپ ایک صفحه پر مشتمل میری  اس شاعری  پر کچھ لکھیں جو‌ آپ فیس بک پر پڑھ چکے ھیں تاکہ اسے کتاب کی زینت بنا سکوں اردو‌ میں لکھی یہ تحریر مجھے  اگلے هفتے تک what's aap  کر دیں
خیراندیش
نجف علی شاہ بخاری
( ایم‌ فل اردو سکالر )
ریزه نجف محله سادات بھکر  پنجاب 03336841024
Syednajafalishah@gmail.com

                ***********

یہ پیغام( بلکہ میرے لیئے ایک استاد شاعر کا حکم کہوں تو زیادہ خوشی ہو گی )
ملا سو ہم نے جرات کی اس رائے کی . جو کہ ذیل میں پیش ہے .
              ***********
میں آج تک نجف علی شاہ صاحب سے کبھی نہیں ملی ...میں نہیں جانتی وہ کس عمر کے ہیں کیا کرتے ہیں اور کس شہر کے رہنے والے ہیں . نجف صاحب سے میرا تعارف فیس بک پر ہوا .
جب انہوں نے مجھے اپنے کام پر تبصرے کے لیئے کہا تو مجھے یقین ہی نہیں آیا . کہ اتنے استاد شاعر اور لکھاری پر میں کیا لکھ سکتی ہوں . یہ تو میری اوقات ہی نہیں . لیکن ان کے اصرار پر ان کا دل رکھنے کو   یہ جسارت کرنے کا ارادہ کر لیا ..
ان کی شاعری اور خیالات پڑھنے کا موقع بھی مجھے فیس بک پر ہی ملا .
تو معلوم ہوا زندگی بھر کے تجربات اور مشاہدات کا نچوڑ ان کے الفاظ سے ٹپکتا ہے. انکی تحریریں پڑھ کر  ایک معتبر، ذہین، حساس اور ہمدرد سے انسان کی شبیہہ زہن میں اتر آتی ہے .
جو خواب تو دیکھتا ہے لیکن حقیقت کے حصار میں رہتے ہوئے.  وہ خود کو خوابوں میں گم نہیں  ہونے دیتے . بلکل اس تتلی کی طرح جو اڑتی تو ہے لیکن اس کے پاوں سے بندھی ڈور اسے اس ڈور کی لمبائی سے آگے جانے نہیں دیتی .
میں ذاتی طور پر نجف علی شاہ کے کلام کو بہت پسند کرتی ہوں . اور ان کے خیالات سے بہت کچھ سیکھتی بھی ہوں .
آپ کے لیئے بہت ساری دعاوں اور نیک  تمناؤں کیساتھ آپ کی ان کامیابیوں کے لیئے بھی پرامید ہوں جو صدقہ جاریہ بن کر دونوں جہانوں میں آپ کو سرخرو کرینگی . انشاءاللہ
اللہ پاک آپ کو لمبی عمر ایمان ،عزت اور صحت کیساتھ عطاء فرمائے. آمین
ممتازملک. پیرس

مائے نی مائے میرے گیتاں دے۔۔۔ انتخاب۔ نصرت فتح کا گایا کلام

انتخاب
ممتازملک
----؛
مائے نی مائے ' میرے گیتاں دے ' نیناں وچ ' برھوں دی ' رڑک پوے
ادھی ادھی راتی ' اٹھ رون موئے متراں نوں ' مائے سانوں ' نیند نہ پوے

بہہ بہہ ، شوگندھیاں وچ ' بنھاں پئے چاننی دے ' تاں وی ساڈی ' پیڑ نہ سہوے
کوسے کوسے ساھاں دی میں ' کراں جے ٹکورمائے ' سگوں سانوں کھان نوں پوے

آپے نی میں بالڑی ھاں ' ھالے آپ متاں جوگی ' مت کیہڑا ' ایس نوں دوے
آکھ سونی مائے ایہنوں ' رووے بلھ چتھ کے نی ' جگ کیتے سن نہ لوے

آکھ سونی کھائے ٹک ' ھجراں دا پکیا ' لیکھاں دے نے پٹھڑے توے
چٹ لئے تریل نوں وی ' غماں دے گلاب توں ای ' کالجے نوں حوصلہ رھوے

کھڑیاں سپیریاں توں ' منگاں کونج میل دی میں ' میل دی کوئی کنج دوے
کیھڑا ایہناں غماں دیاں ' روگیاں دے دراں اتے ' وانگ کھڑا جوگیاں رھوے

پیڑے نی پیڑے ' ایہ پیار ایسی تتلی ھے ' جیہڑی سدا سولی تے بہوے
پیار ایسا بوڑھ ھے نی ' جہدے کولوں آشنا وی ' لکھاں کوساں دور ھی رھوے

پیار اوہ محل ھے نی ' جیہدے وچ پنکھوواں دے ' باجھ کجھ ھور نہ رھوے
پیار ایسا آلھنا ھے ' جہدے وچ وصلاں دا ' رتڑا نہ پلنگ ڈھوے

آکھ مائے ادھی ادھی ' راتی موئے متراں دے ' اُچی اُچی ناں نہ لوے
متے ساڈے مویاں پچھوں ' جگ ایہ شریکڑا نی ' گیتاں نوں وی چندرا کہوے
کلام ،،،شیو کُمار بٹالوی

بدھ، 16 اگست، 2017

جاگیر سمجھ کر ۔ سراب دنیا



جاگیر سمجھ کر   
 (کلام/ممتاز ملک۔پیرس )                          

مذہب کو اپنے باپ کی جاگیر سمجھ کر
رسوا ہوئے ہیں تجھ کو کوئی پیر سمجھ کر



اک روز کوئی ہاتھ مٹا ڈالے نہ ہمکو
دیوار پہ لکھی ہوئی  تحریر سمجھ کر


چپکے سےکسی کونےمیں ہونےکےنہیں ہم
مقتل کو ہی انسان کی تقدیر سمجھ کر


مانا میرے حالات کے پلٹے کئی منظر
خوش ہو نہ انہیں پاوں کی زنجیر سمجھ کر


پی لیتے ہیں یہ سوچ کے ہر تلخ دوا بھی
میٹھی ہے کہیں اسکی تو تاثیر سمجھ کر


منزل کا پتہ اسکے ہی ہاتھوں سے ملا تھا 
چھوڑ آئے تھے جسکوکوئی راہگیر سمجھ کر


ممتاز چلے آئے ہیں محفل سے کبھی کے
ہم بھی دل آوارہ کی تحقیر سمجھ کر

                    ..........                      

بیگم کے خط کا تگڑا جواب


انتخاب / ممتاز ملک "


زنانہ اردو خط و کتابت​: شوہر کے نام خط (شفیق الرحمان)۔



سرتاج من سلامت!
کورنش بجا لا کر عرض کرتی ہوں کہ منی آرڈر ملا۔ یہ پڑھ کر کہ طبیعت اچھی نہیں ہے از حد تشویش ہے۔ لکھنے کی بات تو نہیں مگر مجھے بھی تقریباً دو ماہ سے ہر رات بے خوابی ہوتی ہے۔ آپ کے متعلق برے برے خواب نظر آتے ہیں۔ خدا خیر کرے۔ صبح کو صدقے کی قربانی دے دی جاتی ہے اس پر کافی خرچہ ہو رہا ہے۔
آپ نے پوچھا ہے کہ میں رات کو کیا کھاتی ہوں۔ بھلا اس کا تعلق خوابوں سے کیا ہو سکتا ہے۔ وہی معمولی کھانا البتہ سوتے وقت ایک سیر گاڑھا دودھ، کچھ خشک میوہ جات اور آپ کا ارسال کردہ سوہن حلوہ۔ حلوہ اگر زیادہ دیر رکھا رہا تو خراب ہو جائے گا۔
سب سے پہلے آپ کے بتائے ہوئے ضروری کام کے متعلق لکھ دوں کہ کہیں باتوں میں یاد نہ رہے۔ آپ نے تاکید فرمائی ہے کہ میں فوراً بیگم فرید سے مل کر مکان کی خرید کے سلسلے میں ان کا آخری جواب آپ کو لکھ دوں۔ کل ان سے ملی تھی۔ شام کو تیار ہوئی تو ڈرائیور غائب تھا۔ یہ غفور دن بدن سست ہوتا جا رہا ہے۔ عمر کے ساتھ ساتھ اس کی بینائی بھی کمزور ہونے لگی ہے۔ اس مرتبہ آتے وقت اس کے لئے ایک اچھی سے عینک لیتے آئیں۔ گھنٹوں بعد آیا تو بہانے تراشنے لگا کہ تین دن سے کار مرمت کے لئے گئی ہوئی ہے۔ چاروں ٹائر بیکار ہو چکے ہیں۔ ٹیوب پہلے سے چھلنی ہیں۔ یہ کار بھی جواب دیتی جا رہی ہے۔ آپ کے آنے پر نئی کار لیں گے۔ اگر آپ کو ضرورت ہو تو اس کار کو منگا لیں۔ خیر تانگہ منگایا۔ راستےمیں ایک جلوس ملا۔ بڑا غُل غپاڑہ مچا ہوا تھا، ایک گھنٹے ٹریفک بند رہا۔ معلوم ہوا کہ خان بہادر رحیم خان کے صاحبزادے کی برات جا رہی ہے۔ برات نہایت شاندار تھی۔ تین آدمی اور دو گھوڑے زخمی ہوئے۔
راستے میں زینت بوا مل گئیں۔ یہ ہماری دور کی رشتہ دار ہوتی ہیں۔ احمد چچا کے سسرال میں جو ٹھیکیدار ہیں نا ان کی سوتیلی ماں کی سگی بھانجی ہیں۔ آپ ہمیشہ زینت بوا اور رحمت بوا کو ملا دیتے ہیں۔
رحمت بوا میری ننھیال سے ہیں اور ماموں عابد کے ہم زلف کے تائے کی نواسی ہیں۔ رحمت بوا بھی ملی تھیں۔ میں نے ان سے کہا کہ کبھی قدسیہ باجی کو ساتھ لا کر ہمارے ہاں چند مہینے رہ جائیں۔ انہوں نے وعدہ کیا ہے۔ یہ وہی ہیں جو تایا نعیم کےساتھ ہماری شادی پر آئی تھیں۔ تایا نعیم کی ساس ان کی دادی کی منہ بولی بہن تھیں۔ بلکہ ایک دوسرے سے دوپٹے بدل چکی تھیں۔ یہ سب اس لئے لکھ رہی ہوں کہ آپ کو اپنے عزیز و اقارب یاد نہیں رہتے۔ کیا عرض کروں آج کل زمانہ ایسا آ گیا ہے کہ رشتہ دار کی خبر نہیں۔ میں نے زیب بوا کو کو گھر آنے کے لئے کہا، تو وہ اسی شام آ گئیں۔ میں نے بڑی خاطر کی۔ خواہش ظاہر کرنے پر آپ کے ارسال شدہ روپوں میں سے دو سو انہیں ادھار دیے۔
ہاں تو میں بیگم فرید کے ہاں پہنچی۔ بڑے تپاک سے ملیں۔ بہت بدل چکی ہیں۔ جوانی میں مسز فرید کہلاتی تھیں، اب تو بالکل ہی رہ گئی ہیں۔ ایک تو بے چاری پہلے ہی اکہرے بدن کی ہیں، اس پر اس طرح طرح کی فکر۔ گھٹنوں پر ہاتھ رکھ کر اٹھتی ہیں۔ کہنے لگیں اگلے ہفتے برخوردار نعیم کا عقیقہ ہے اور اس سے اگلی جمعرات کو نورِ چشمی بتول سلمہا کی رخصتی  ہو گی، ضرور آنا۔
میں نے ہامی بھر لی اور مکان کے متعلق ان سے آخری جواب مانگا۔ پہلے کی طرح چٹاخ پٹاخ باتیں نہیں کرتیں۔ آواز میں بھی وہ کرارا پن نہیں رہا۔ انہیں تو یہ بتول لے کر بیٹھ گئی۔ عمر کا بھی تقاضا ہے۔ سوچ رہی ہوں جاؤں یا نہ جاؤں۔ دو ڈھائی سو خرچ ہو جائیں گے۔ نیا جوڑا سلوانا ہو گا۔ ویسے تو سردیوں کے لئے سارے کپڑے نئے بنوانے پڑیں گے۔ پچھلے سال کے کپڑے اتنے تنگ ہو چکے ہیں کہ بالکل نہیں آتے۔ آپ بار بار سیر اور ورزش کو کہتے ہیں بھلا اس عمر میں مستانوں کی طرح سیر کرتی ہوئی اچھی لگوں گی۔ ورزش سے مجھے نفرت ہے۔ خواہ مخواہ جسم کو تھکانا اور پھر پسینہ الگ۔ نہ آج تک کی ہے نہ خدا کرائے۔ کبھی کبھی کار میں زنانہ کلب چلی جاتی ہوں، وہاں ہم سب بیٹھ کر نٹنگ کرتی ہیں۔ واپس آتے آتے اس قدر تھکان ہو جاتی ہے کہ بس۔
آپ ہنسا کرتے ہیں کہ نٹنگ کرتے وقت عورتیں باتیں کیوں کرتی ہیں۔ اس لئے کہ کسی دھیان میں لگی رہیں۔
آپ نے جگہ جگہ شاعری کی ہے اور الٹی سیدھی باتیں لکھی ہیں۔ ذرا سوچ تو لیا ہوتا کہ بچوں والے گھر میں خط جا رہا ہے۔ اب ہمارے وہ دن نہیں رہے کہ عشق وشق کی باتیں ایک دوسرے کو لکھیں۔ شادی کو پورے سات برس گذر چکے ہیں، خدارا ایسی باتیں آئندہ مت لکھئے۔ توبہ توبہ اگر کوئی پڑھ لے تو کیا کہے۔
ان دنوں میں فرسٹ ایڈ سیکھنے نہیں جاتی۔ ٹریننگ کے بعد کلاس کا امتحان ہوا تھا، آپ سن کر خوش ہوں گے کہ میں پاس ہو گئی۔
پچھلے ہفتے ایک عجیب واقعہ ہوا۔ بنو کے لڑکے کو بخار چڑھا۔ یوں تپ رہا تھا کہ چنے رکھو اور بھون لو۔ میں نے تھرما میٹر لگایا تو نارمل سے بھی نیچے چلا گیا۔ پتہ نہیں کیا وجہ تھی۔ پھر گھڑی لے کر نبض گننے لگی۔ دفعتاً یوں محسوس ہوا جیسے لڑکے کا دل ٹھہر گیا ہو کیونکہ نبض رک گئی تھی۔ بعد میں پتہ چلا کہ دراصل گھڑی بند ہو گئی تھی۔ یہ فرسٹ ایڈ بھی یونہی ہے۔ خوامخواہ وقت ضائع کیا۔
ڈاکٹر میری سٹوپس کی کتاب ارسال ہے۔ اگر دکاندار واپس لے لے تو لوٹا دیجئے۔ یہ باتیں بھلا ہم مشرق کے رہنے والوں کے لئے تھوڑی ہیں۔ اس کی جگہ بہشتی زیور کی ساری جلدیں بھجوا دیجئے۔ ایک کتاب گھر کا حکیم کی بڑی تعریف سنی ہے۔ یہ بھی بھیج دیجئے۔
باقی سب خیریت ہے اور کیا لکھوں۔ بس بچے ہر وقت آپ کو یاد کرتے رہتے ہیں۔ اصغر پوچھتا ہے کہ ابا میری سائیکل کب بھیجیں گے۔ آپ نے آنے کے متعلق کچھ نہیں لکھا۔ اب تو ننھی کی بسم اللہ بھی قریب آ چکی ہے۔ میری مانیے تو واپس یہیں تبادلہ کرا لیجئے۔ بھاڑ میں جائے یہ ترقی اور ایسا مستقبل۔ تھوڑی سی اور ترقی دے کر محکمے والے کہیں آپ کو اور دور نہ بھیج دیں۔
آپ بہت یاد آتے ہیں۔ ننھے کی جرابیں پھٹ چکی ہیں۔ ننھی کے پاس ایک بھی نیا فراک نہیں رہا۔ برا ہو پردیس کا۔ صورت دیکھنے کو ترس گئے ہیں۔ امی جان کی اونی چادر اور کمبلوں کا انتظار ہے۔ 

ہر وقت آپ کا  انتظار رہتا ہے۔ آنکھیں دروازے پر لگی رہتی ہیں۔ صحن کا فرش جگہ جگہ سے اکھڑرہا ہے۔ مالی کام نہیں کرتا۔ اس کی لڑکی اپنے خاوند کے ساتھ بھاگ گئی ہے۔

آتے وقت چند چیزیں ساتھ لائیں۔ بچوں کے جوتے اور گرم کوٹ، ننھے کی جرابیں اور کنٹوپ، ننھی کی فراک، دو چمڑے کے صندوق، زینب بوا کے لئے اچھا سا تحفہ، بلی کے گلے میں باندھنے کے لئے ربن اور کتے کا خوبصورت سا کالر، کچھ سوہن حلوہ اور ننھی کا سویٹر۔ ننھی کے کان میں پھنسی تھی چچا جان سول سرجن کو بلانے کو کہتے تھے، میں نے منع کر دیا کیونکہ کل تعویذ آ جائے گا۔
یہاں کی تازہ خبریں یہ ہیں کہ پھوپھی جان کی بھینس اللہ کو پیاری ہوئی۔ سب کو بڑا افسوس ہوا۔ اچھی بھلی تھی۔ دیکھتے دیکھتے ہی دم توڑ دیا۔ میں پرسہ دینے گئی تھی۔ تایا عظیم کا لڑکا کہیں بھاگ گیا ہے۔ احمد چچا کا جس بینک میں حساب تھا وہ بینک فیل ہو گیا ہے اور ہاں پھوپھا جان کی ساس جو اکثر بہکی بہکی باتیںکیا کرتی تھیں اب وہ بالکل باؤلی ہو گئی ہیں۔ بقیہ خبریں اگلے خط میں لکھوں گی۔
سرتاج کو کنیز کا آداب۔ فقط
(ایک بات بھول گئی۔ منی آرڈر پر مکان نمبر ضرور لکھا کیجئے۔ اس طرح ڈاک جلدی مل جاتی ہے۔ )
                                    .........................

   

فیس بک پر میاں سے اشتہاری محبت......



فیس بک پر میاں سے اشتہاری محبت
ممتاز ملک 


جی ہاں
سیم یہ ہی سوال  مجھ سے بھی  اکثر جلتی ہوئی خواتین پوچھتی ہیں کہ آپ کے شوہر آپ کے ساتھ کیوں نظر نہیں آتے . آپ فیس بک پر انکے ساتھ پھولوں اور غباروں والی پک کیوں نہیں لگاتی ہیں ......
تو میں نے کہا 
بہن میرے گھر میں جمہوریت ہے الحمداللہ 
نہ میں میاں کی چوکیداری کرتی ہوں نہ وہ میرا دم چھلہ ہے . وہ اپنا کام کرتے ہیں میں اپنا کام کرتی ہوں.  اور میرا کام ہی اس بات کا ثبوت ہے کہ ہم دونوں ایکدوسرے پر اعتبار بھی کرتے ہیں اور پیار بھی ..


مجھے تو ایک ہی بات سمجھ میں آتی ہے  
کہ
گھر میں کوئی محبت کو ترسا ہو تو وہ اکثر گھر سے باہر بھرپور محبت کا دکھاوا کر کے لاشعوری طور پر لوگوں کو نہیں اپنے آپ کو محبت کا دھوکہ دے رہا ہوتا ہے  کہ 
.سب اچھا ہے
سب اچھا ہے 
حالانکہ ضرورت گھر کے اندر اپنے رشتے کو مضبوط بنانے کی ہے. 
...........................


منگل، 8 اگست، 2017

محبت کا امتحان


انسان کی محبت  کا امتحان یہ نہیں کہ وہ"کتنا"زیادہ مہیا کر سکتا ہے
بلکہ
اس میں ہے کہ وہ کتنے"کم"میں گزارا کر  سکتا ہے .....💜💛💚
ممتازملک. پیرس

جمعرات، 3 اگست، 2017

مائیں بور اور نسلیں تباہ

ایک بیرون ملک سے آئی خاتون کی تحریر پڑھنے کا موقع ملا او ان کا پاکستان میں رہنے والی خواتین پر ایک محفل میں جو غصہ نکلا تو ہمیں بھی بہت قرار آیا اور سوچا 
شکر ہے خدایا کسی اور عورت کے منہ میں بھی" سچائی کا تیزاب" موجود ہے جو جھوٹ کے زنگ کو دھووووووو دیتی ہے . اللہ آپ کو خوش رکھے ...
محبت ہے یا ظلم میں ہمارے ہاں کے شوہروں نے باپوں نے خواتین کو ہر منہ مانگی چیز فراہم کر کے انہیں اس حد تک ناکارہ کر دیا ہے کہ وہ ذرا سی بھی کمی رہ جائے تو ہاہاکار مچا دیتی ہیں . سارا سارا دن انکا ٹی وی کے گھٹیا سیریلز دیکھتے یا ٹیلیفون اور اب  موبائل زندہ باد  پر دوسروں کی ٹوہ لینے میں گزر جاتا ہے . یانپھر ہر وقت بازاروں میں.چکر لگانا شاپنگ فوبیا ہوگیا ہے پاکستان میں  خواتین کو شاید.   حالانکہ وہ گھر بیٹھے بے شمار مفید کام کر سکتی ہیں . جو اس سے پہلے ہماری مائیں اور ہم خود کرتے رہے ہیں  .
نہ اب گھروں میں مصالحے پستے ہیں ،نہ اب  گھروں میں خود سے صفائیاں ہوتی ہیں، نہ پوچھے لگتے ہیں ،نہ کوئی سلائی  کا شوق ہے کسی کو، نہ ہی کڑھائیاں ٹانکے کسی سے لگتے ہیں ، نہ عورت اپنے بچے کو سکول کا کام خود کرواتی ہے، نہ ہی قران خود پڑھاتی ہے ،
دوپٹے گھروں میں رنگے جاتے تھے . گھروں میں کیاری یا گملوں میں پودے لگا کر اس سے ہوم گارڈنگ  کی جاتی تھی . اور کچھ نہیں تو دھنیا پودینہ مرچیں ٹماٹر اور ہری پیاز تو ضرور ہی گھروں میں کاشت  ہوتی تھیں .
دن میں تین بار میں سے دو بار ضرور ہی روٹی تندور سے منگوائی جاتی ہے. ہر دوسرے تیسرے دن ہوٹل  سے کھانا کھایا یا منگوایا جاتا ہے .چارٹ بنانا بھی بہت بڑا کام ہے . پکوڑے سموسے تو بازار سے آنا ہمارا کلچر ہی کیا ضرورت بن گیا ہے وہاں .میں نے کسی کو پاکستان میں سستی سبزیوں کے سیزن میں اب کوئی سبزی محفوظ کرتے نہیں دیکھا . چاہے معلوم ہے کہ چند روز میں اس کا بھاو آسمان سے باتیں کرنے لگے گا .  نہیں بیس روپے کلو کی سبزی دو سو روپے کلو میں میاں کو باتیں سنا سنا کر خریدیں گی لیکن اسے مہینہ پہلے محفوظ نہیں کریں گی . کہاں گئیں وہ عورتیں کہ
  جن کی چھت پر صحن میں کئی طرح کے اچار  کے مرتبان اور برنیاں    دھوپ لیا کرتے تھے .
سکنجبین کی بوتلیں دھوپ میں بار بار دیکھی اور ہلائی  جاتی تھیں .
جن کے گھر میں مربے ، جام  بنا کرتے تھے .
گھر پہ کوئی آجائے ہر شے بازار سے منگوائی جاتی ہے .... افسوس چائے بازار سے ابھی لا.کر نہیں دیتے کرنا ظلم کرتے ہیں بیچاریوں  پر. .. کہ چائے انہیں خود بنانی پڑتی ہے ..
یہ.سبھی اور بہت سے  کام اگر ہم گننے  بیٹھے جو گھر کی خواتین کیا کرتی تھیں یا کرسکتی ہیں تو مہینے  میں وہ خاتون باہر کہیں نوکری نہ کر کے بھی اپنے شوہر کے ہزاروں روپے  بچایا کرتی تھیں .
جی ہاں یہ سب کام گھر کی خاتون خانہ ہی خوشی خوشی کیا کرتی تھی اور اس میں بھی اپنے لیئے اچھی اچھی کتابیں پڑھنے کا وقت بھی نکال لیا کرتی تھیں .
یہ سب خواب نہیں ہے ایک عام سے پانچ مرلے کے گھر میں  رہتی ہوئی لڑکیاں اور خواتین ہی کیا کرتی تھیں . اور انکی زندگی کی ڈکشنری میں بوریت نام  کا کہیں کوئی لفظ موجود نہیں تھا . اور تو اور ہم بھی ایسی ہی زندگی گزار کر یورپ پہنچے تھے یہ سوچ کر کہ ہو سکتا ہے ہماری زندگی میں مشقت کچھ کم ہو جائے گی. لیکن نہیں یورپ میں وہ بھی سب کام کیئے جو پاکستان کے ماحول میں گھر سے باہر نہیں کیئے یا سوچے بھی نہ تھے صبح چھ بجے اٹھنا ناشتہ بنانا . یہا یونیفارم نہیں ہے تو روز دوسرے کپڑے نکالنا سات بجے بچوں کو جگانا  کھلا پلا کر تیار کرنا  .بچوں کو سکولوں میں خود صبح آٹھ بجے چھوڑنا پھر گھر جا کر ان کے لیئے کھانا بنانا ، گیارہ بجے پھر انہیں لینے جانا گھر آ کر کھانا  کھلا کر برتن دھو کر ڈیڑھ بجے  بچے پھر سکول چھوڑ کر گھر پہنچنا . سارے گھر کا کام کر کے پھر سے چار بجے بچے لینے جانا، سکول سے واپس آ کر انہیں کچھ کھلا پلا کر ان کا ہوم ورک چیک کرنا . انہیں تھوڑا آرام کروا کر رات کے کھانے کی تیاری  کچن  کی صفائی .کپڑوں کی مشین ساتھ  ساتھ لگاتے جانا ... اور بس لیکر سٹور سے گھر کی ہر دوسرے تیسرے دن گروسری لانا . رات کو آٹھ نو بجے تک بچے سلا  کر ٹی وی کے سامنے خبریں سنتے،  کوئی کرائم رپورٹ دیکھتے ہوئے، ڈرامہ دیکھتے فریز کرنے کو مٹر نکالنا . سبزیاں کاٹ کر دھو کر ان کے پیکٹ بنا کر رکھنا . شامی کباب . روسٹ کے لیئے چکن کو دھو کر مصالحہ لگا کر یا گوشت کے پیکٹس بنا کر رکھنا  اور پھر میاں صاحب کو ہر چیز منہ سے مانگتے ہی پہنچانا ،ان کا دس بجے سو جانا اور اپنا رات کے دو بجے تک کاغذ قلم سنبھال کچھ کاغذ پر یا نیٹ یا موبائل نوٹ بک میں اپنے  دل کا بوجھ اتارنا ..........
یہ سب سو فیصد سچ ہے پاکستان کی 70 % ہڈ حرام اور ناکارہ عورتوں. . کھانے میں ڈوئی کیا چلاتی ہیں. گویا ساری خدائی کا بوجھ ان کے سر پر ہے .
اکثر تو ہوٹلوں سے کھانا کپڑے درزی سے یا  ریڈی میڈ ......
بچے یا مسائل  پیدا کرنے  سوا یہ کرتی کیا ہیں؟ اور یہ ہڈ حرامیاں ان کی ہڈیوں میں مردوں ہی نے ڈالی ہیں  .
کیونکہ انہوں نے ان عورتوں کے لیئے خود اپنے آپ کو کھوتا بنایا ہے . مجھ سا تو انکی کمائی کو مشکوک نظروں سے ہی دیکھے گا . ورنہ جس کی کمائی حلال کی ہو  گی وہ اسے خرچ بھی حلال انداز میں ہی کریگا ...
اگر اتنی ہڈ حرام اور نوکرانیوں کے عیش ان عورتوں کو دیکر بھی آپ کے بچے تمیزدار،مہذب، لائق نہیں اور دنیا سے بہرہ ور اچھی نسل کے طور  پر تیار نہیں ہو رہے. تو یہ آپ کے لیئے لمحہ فکریہ ہے .
ممتازملک
                  ...................

شاعری / /مدت ہوئ عورت ہوۓ/ ممتاز قلم / سچ تو یہ ہے/ اے شہہ محترم/ سراب دنیا/ نظمیں/ پنجابی کلام/