ممتازملک ۔ پیرس

ممتازملک ۔ پیرس
تصانیف : ممتازملک

بدھ، 16 اگست، 2017

بیگم کے خط کا تگڑا جواب


انتخاب / ممتاز ملک "


زنانہ اردو خط و کتابت​: شوہر کے نام خط (شفیق الرحمان)۔



سرتاج من سلامت!
کورنش بجا لا کر عرض کرتی ہوں کہ منی آرڈر ملا۔ یہ پڑھ کر کہ طبیعت اچھی نہیں ہے از حد تشویش ہے۔ لکھنے کی بات تو نہیں مگر مجھے بھی تقریباً دو ماہ سے ہر رات بے خوابی ہوتی ہے۔ آپ کے متعلق برے برے خواب نظر آتے ہیں۔ خدا خیر کرے۔ صبح کو صدقے کی قربانی دے دی جاتی ہے اس پر کافی خرچہ ہو رہا ہے۔
آپ نے پوچھا ہے کہ میں رات کو کیا کھاتی ہوں۔ بھلا اس کا تعلق خوابوں سے کیا ہو سکتا ہے۔ وہی معمولی کھانا البتہ سوتے وقت ایک سیر گاڑھا دودھ، کچھ خشک میوہ جات اور آپ کا ارسال کردہ سوہن حلوہ۔ حلوہ اگر زیادہ دیر رکھا رہا تو خراب ہو جائے گا۔
سب سے پہلے آپ کے بتائے ہوئے ضروری کام کے متعلق لکھ دوں کہ کہیں باتوں میں یاد نہ رہے۔ آپ نے تاکید فرمائی ہے کہ میں فوراً بیگم فرید سے مل کر مکان کی خرید کے سلسلے میں ان کا آخری جواب آپ کو لکھ دوں۔ کل ان سے ملی تھی۔ شام کو تیار ہوئی تو ڈرائیور غائب تھا۔ یہ غفور دن بدن سست ہوتا جا رہا ہے۔ عمر کے ساتھ ساتھ اس کی بینائی بھی کمزور ہونے لگی ہے۔ اس مرتبہ آتے وقت اس کے لئے ایک اچھی سے عینک لیتے آئیں۔ گھنٹوں بعد آیا تو بہانے تراشنے لگا کہ تین دن سے کار مرمت کے لئے گئی ہوئی ہے۔ چاروں ٹائر بیکار ہو چکے ہیں۔ ٹیوب پہلے سے چھلنی ہیں۔ یہ کار بھی جواب دیتی جا رہی ہے۔ آپ کے آنے پر نئی کار لیں گے۔ اگر آپ کو ضرورت ہو تو اس کار کو منگا لیں۔ خیر تانگہ منگایا۔ راستےمیں ایک جلوس ملا۔ بڑا غُل غپاڑہ مچا ہوا تھا، ایک گھنٹے ٹریفک بند رہا۔ معلوم ہوا کہ خان بہادر رحیم خان کے صاحبزادے کی برات جا رہی ہے۔ برات نہایت شاندار تھی۔ تین آدمی اور دو گھوڑے زخمی ہوئے۔
راستے میں زینت بوا مل گئیں۔ یہ ہماری دور کی رشتہ دار ہوتی ہیں۔ احمد چچا کے سسرال میں جو ٹھیکیدار ہیں نا ان کی سوتیلی ماں کی سگی بھانجی ہیں۔ آپ ہمیشہ زینت بوا اور رحمت بوا کو ملا دیتے ہیں۔
رحمت بوا میری ننھیال سے ہیں اور ماموں عابد کے ہم زلف کے تائے کی نواسی ہیں۔ رحمت بوا بھی ملی تھیں۔ میں نے ان سے کہا کہ کبھی قدسیہ باجی کو ساتھ لا کر ہمارے ہاں چند مہینے رہ جائیں۔ انہوں نے وعدہ کیا ہے۔ یہ وہی ہیں جو تایا نعیم کےساتھ ہماری شادی پر آئی تھیں۔ تایا نعیم کی ساس ان کی دادی کی منہ بولی بہن تھیں۔ بلکہ ایک دوسرے سے دوپٹے بدل چکی تھیں۔ یہ سب اس لئے لکھ رہی ہوں کہ آپ کو اپنے عزیز و اقارب یاد نہیں رہتے۔ کیا عرض کروں آج کل زمانہ ایسا آ گیا ہے کہ رشتہ دار کی خبر نہیں۔ میں نے زیب بوا کو کو گھر آنے کے لئے کہا، تو وہ اسی شام آ گئیں۔ میں نے بڑی خاطر کی۔ خواہش ظاہر کرنے پر آپ کے ارسال شدہ روپوں میں سے دو سو انہیں ادھار دیے۔
ہاں تو میں بیگم فرید کے ہاں پہنچی۔ بڑے تپاک سے ملیں۔ بہت بدل چکی ہیں۔ جوانی میں مسز فرید کہلاتی تھیں، اب تو بالکل ہی رہ گئی ہیں۔ ایک تو بے چاری پہلے ہی اکہرے بدن کی ہیں، اس پر اس طرح طرح کی فکر۔ گھٹنوں پر ہاتھ رکھ کر اٹھتی ہیں۔ کہنے لگیں اگلے ہفتے برخوردار نعیم کا عقیقہ ہے اور اس سے اگلی جمعرات کو نورِ چشمی بتول سلمہا کی رخصتی  ہو گی، ضرور آنا۔
میں نے ہامی بھر لی اور مکان کے متعلق ان سے آخری جواب مانگا۔ پہلے کی طرح چٹاخ پٹاخ باتیں نہیں کرتیں۔ آواز میں بھی وہ کرارا پن نہیں رہا۔ انہیں تو یہ بتول لے کر بیٹھ گئی۔ عمر کا بھی تقاضا ہے۔ سوچ رہی ہوں جاؤں یا نہ جاؤں۔ دو ڈھائی سو خرچ ہو جائیں گے۔ نیا جوڑا سلوانا ہو گا۔ ویسے تو سردیوں کے لئے سارے کپڑے نئے بنوانے پڑیں گے۔ پچھلے سال کے کپڑے اتنے تنگ ہو چکے ہیں کہ بالکل نہیں آتے۔ آپ بار بار سیر اور ورزش کو کہتے ہیں بھلا اس عمر میں مستانوں کی طرح سیر کرتی ہوئی اچھی لگوں گی۔ ورزش سے مجھے نفرت ہے۔ خواہ مخواہ جسم کو تھکانا اور پھر پسینہ الگ۔ نہ آج تک کی ہے نہ خدا کرائے۔ کبھی کبھی کار میں زنانہ کلب چلی جاتی ہوں، وہاں ہم سب بیٹھ کر نٹنگ کرتی ہیں۔ واپس آتے آتے اس قدر تھکان ہو جاتی ہے کہ بس۔
آپ ہنسا کرتے ہیں کہ نٹنگ کرتے وقت عورتیں باتیں کیوں کرتی ہیں۔ اس لئے کہ کسی دھیان میں لگی رہیں۔
آپ نے جگہ جگہ شاعری کی ہے اور الٹی سیدھی باتیں لکھی ہیں۔ ذرا سوچ تو لیا ہوتا کہ بچوں والے گھر میں خط جا رہا ہے۔ اب ہمارے وہ دن نہیں رہے کہ عشق وشق کی باتیں ایک دوسرے کو لکھیں۔ شادی کو پورے سات برس گذر چکے ہیں، خدارا ایسی باتیں آئندہ مت لکھئے۔ توبہ توبہ اگر کوئی پڑھ لے تو کیا کہے۔
ان دنوں میں فرسٹ ایڈ سیکھنے نہیں جاتی۔ ٹریننگ کے بعد کلاس کا امتحان ہوا تھا، آپ سن کر خوش ہوں گے کہ میں پاس ہو گئی۔
پچھلے ہفتے ایک عجیب واقعہ ہوا۔ بنو کے لڑکے کو بخار چڑھا۔ یوں تپ رہا تھا کہ چنے رکھو اور بھون لو۔ میں نے تھرما میٹر لگایا تو نارمل سے بھی نیچے چلا گیا۔ پتہ نہیں کیا وجہ تھی۔ پھر گھڑی لے کر نبض گننے لگی۔ دفعتاً یوں محسوس ہوا جیسے لڑکے کا دل ٹھہر گیا ہو کیونکہ نبض رک گئی تھی۔ بعد میں پتہ چلا کہ دراصل گھڑی بند ہو گئی تھی۔ یہ فرسٹ ایڈ بھی یونہی ہے۔ خوامخواہ وقت ضائع کیا۔
ڈاکٹر میری سٹوپس کی کتاب ارسال ہے۔ اگر دکاندار واپس لے لے تو لوٹا دیجئے۔ یہ باتیں بھلا ہم مشرق کے رہنے والوں کے لئے تھوڑی ہیں۔ اس کی جگہ بہشتی زیور کی ساری جلدیں بھجوا دیجئے۔ ایک کتاب گھر کا حکیم کی بڑی تعریف سنی ہے۔ یہ بھی بھیج دیجئے۔
باقی سب خیریت ہے اور کیا لکھوں۔ بس بچے ہر وقت آپ کو یاد کرتے رہتے ہیں۔ اصغر پوچھتا ہے کہ ابا میری سائیکل کب بھیجیں گے۔ آپ نے آنے کے متعلق کچھ نہیں لکھا۔ اب تو ننھی کی بسم اللہ بھی قریب آ چکی ہے۔ میری مانیے تو واپس یہیں تبادلہ کرا لیجئے۔ بھاڑ میں جائے یہ ترقی اور ایسا مستقبل۔ تھوڑی سی اور ترقی دے کر محکمے والے کہیں آپ کو اور دور نہ بھیج دیں۔
آپ بہت یاد آتے ہیں۔ ننھے کی جرابیں پھٹ چکی ہیں۔ ننھی کے پاس ایک بھی نیا فراک نہیں رہا۔ برا ہو پردیس کا۔ صورت دیکھنے کو ترس گئے ہیں۔ امی جان کی اونی چادر اور کمبلوں کا انتظار ہے۔ 

ہر وقت آپ کا  انتظار رہتا ہے۔ آنکھیں دروازے پر لگی رہتی ہیں۔ صحن کا فرش جگہ جگہ سے اکھڑرہا ہے۔ مالی کام نہیں کرتا۔ اس کی لڑکی اپنے خاوند کے ساتھ بھاگ گئی ہے۔

آتے وقت چند چیزیں ساتھ لائیں۔ بچوں کے جوتے اور گرم کوٹ، ننھے کی جرابیں اور کنٹوپ، ننھی کی فراک، دو چمڑے کے صندوق، زینب بوا کے لئے اچھا سا تحفہ، بلی کے گلے میں باندھنے کے لئے ربن اور کتے کا خوبصورت سا کالر، کچھ سوہن حلوہ اور ننھی کا سویٹر۔ ننھی کے کان میں پھنسی تھی چچا جان سول سرجن کو بلانے کو کہتے تھے، میں نے منع کر دیا کیونکہ کل تعویذ آ جائے گا۔
یہاں کی تازہ خبریں یہ ہیں کہ پھوپھی جان کی بھینس اللہ کو پیاری ہوئی۔ سب کو بڑا افسوس ہوا۔ اچھی بھلی تھی۔ دیکھتے دیکھتے ہی دم توڑ دیا۔ میں پرسہ دینے گئی تھی۔ تایا عظیم کا لڑکا کہیں بھاگ گیا ہے۔ احمد چچا کا جس بینک میں حساب تھا وہ بینک فیل ہو گیا ہے اور ہاں پھوپھا جان کی ساس جو اکثر بہکی بہکی باتیںکیا کرتی تھیں اب وہ بالکل باؤلی ہو گئی ہیں۔ بقیہ خبریں اگلے خط میں لکھوں گی۔
سرتاج کو کنیز کا آداب۔ فقط
(ایک بات بھول گئی۔ منی آرڈر پر مکان نمبر ضرور لکھا کیجئے۔ اس طرح ڈاک جلدی مل جاتی ہے۔ )
                                    .........................

   

فیس بک پر میاں سے اشتہاری محبت......



فیس بک پر میاں سے اشتہاری محبت
ممتاز ملک 


جی ہاں
سیم یہ ہی سوال  مجھ سے بھی  اکثر جلتی ہوئی خواتین پوچھتی ہیں کہ آپ کے شوہر آپ کے ساتھ کیوں نظر نہیں آتے . آپ فیس بک پر انکے ساتھ پھولوں اور غباروں والی پک کیوں نہیں لگاتی ہیں ......
تو میں نے کہا 
بہن میرے گھر میں جمہوریت ہے الحمداللہ 
نہ میں میاں کی چوکیداری کرتی ہوں نہ وہ میرا دم چھلہ ہے . وہ اپنا کام کرتے ہیں میں اپنا کام کرتی ہوں.  اور میرا کام ہی اس بات کا ثبوت ہے کہ ہم دونوں ایکدوسرے پر اعتبار بھی کرتے ہیں اور پیار بھی ..


مجھے تو ایک ہی بات سمجھ میں آتی ہے  
کہ
گھر میں کوئی محبت کو ترسا ہو تو وہ اکثر گھر سے باہر بھرپور محبت کا دکھاوا کر کے لاشعوری طور پر لوگوں کو نہیں اپنے آپ کو محبت کا دھوکہ دے رہا ہوتا ہے  کہ 
.سب اچھا ہے
سب اچھا ہے 
حالانکہ ضرورت گھر کے اندر اپنے رشتے کو مضبوط بنانے کی ہے. 
...........................


منگل، 8 اگست، 2017

محبت کا امتحان


انسان کی محبت  کا امتحان یہ نہیں کہ وہ"کتنا"زیادہ مہیا کر سکتا ہے
بلکہ
اس میں ہے کہ وہ کتنے"کم"میں گزارا کر  سکتا ہے .....💜💛💚
ممتازملک. پیرس

جمعرات، 3 اگست، 2017

مائیں بور اور نسلیں تباہ

ایک بیرون ملک سے آئی خاتون کی تحریر پڑھنے کا موقع ملا او ان کا پاکستان میں رہنے والی خواتین پر ایک محفل میں جو غصہ نکلا تو ہمیں بھی بہت قرار آیا اور سوچا 
شکر ہے خدایا کسی اور عورت کے منہ میں بھی" سچائی کا تیزاب" موجود ہے جو جھوٹ کے زنگ کو دھووووووو دیتی ہے . اللہ آپ کو خوش رکھے ...
محبت ہے یا ظلم میں ہمارے ہاں کے شوہروں نے باپوں نے خواتین کو ہر منہ مانگی چیز فراہم کر کے انہیں اس حد تک ناکارہ کر دیا ہے کہ وہ ذرا سی بھی کمی رہ جائے تو ہاہاکار مچا دیتی ہیں . سارا سارا دن انکا ٹی وی کے گھٹیا سیریلز دیکھتے یا ٹیلیفون اور اب  موبائل زندہ باد  پر دوسروں کی ٹوہ لینے میں گزر جاتا ہے . یانپھر ہر وقت بازاروں میں.چکر لگانا شاپنگ فوبیا ہوگیا ہے پاکستان میں  خواتین کو شاید.   حالانکہ وہ گھر بیٹھے بے شمار مفید کام کر سکتی ہیں . جو اس سے پہلے ہماری مائیں اور ہم خود کرتے رہے ہیں  .
نہ اب گھروں میں مصالحے پستے ہیں ،نہ اب  گھروں میں خود سے صفائیاں ہوتی ہیں، نہ پوچھے لگتے ہیں ،نہ کوئی سلائی  کا شوق ہے کسی کو، نہ ہی کڑھائیاں ٹانکے کسی سے لگتے ہیں ، نہ عورت اپنے بچے کو سکول کا کام خود کرواتی ہے، نہ ہی قران خود پڑھاتی ہے ،
دوپٹے گھروں میں رنگے جاتے تھے . گھروں میں کیاری یا گملوں میں پودے لگا کر اس سے ہوم گارڈنگ  کی جاتی تھی . اور کچھ نہیں تو دھنیا پودینہ مرچیں ٹماٹر اور ہری پیاز تو ضرور ہی گھروں میں کاشت  ہوتی تھیں .
دن میں تین بار میں سے دو بار ضرور ہی روٹی تندور سے منگوائی جاتی ہے. ہر دوسرے تیسرے دن ہوٹل  سے کھانا کھایا یا منگوایا جاتا ہے .چارٹ بنانا بھی بہت بڑا کام ہے . پکوڑے سموسے تو بازار سے آنا ہمارا کلچر ہی کیا ضرورت بن گیا ہے وہاں .میں نے کسی کو پاکستان میں سستی سبزیوں کے سیزن میں اب کوئی سبزی محفوظ کرتے نہیں دیکھا . چاہے معلوم ہے کہ چند روز میں اس کا بھاو آسمان سے باتیں کرنے لگے گا .  نہیں بیس روپے کلو کی سبزی دو سو روپے کلو میں میاں کو باتیں سنا سنا کر خریدیں گی لیکن اسے مہینہ پہلے محفوظ نہیں کریں گی . کہاں گئیں وہ عورتیں کہ
  جن کی چھت پر صحن میں کئی طرح کے اچار  کے مرتبان اور برنیاں    دھوپ لیا کرتے تھے .
سکنجبین کی بوتلیں دھوپ میں بار بار دیکھی اور ہلائی  جاتی تھیں .
جن کے گھر میں مربے ، جام  بنا کرتے تھے .
گھر پہ کوئی آجائے ہر شے بازار سے منگوائی جاتی ہے .... افسوس چائے بازار سے ابھی لا.کر نہیں دیتے کرنا ظلم کرتے ہیں بیچاریوں  پر. .. کہ چائے انہیں خود بنانی پڑتی ہے ..
یہ.سبھی اور بہت سے  کام اگر ہم گننے  بیٹھے جو گھر کی خواتین کیا کرتی تھیں یا کرسکتی ہیں تو مہینے  میں وہ خاتون باہر کہیں نوکری نہ کر کے بھی اپنے شوہر کے ہزاروں روپے  بچایا کرتی تھیں .
جی ہاں یہ سب کام گھر کی خاتون خانہ ہی خوشی خوشی کیا کرتی تھی اور اس میں بھی اپنے لیئے اچھی اچھی کتابیں پڑھنے کا وقت بھی نکال لیا کرتی تھیں .
یہ سب خواب نہیں ہے ایک عام سے پانچ مرلے کے گھر میں  رہتی ہوئی لڑکیاں اور خواتین ہی کیا کرتی تھیں . اور انکی زندگی کی ڈکشنری میں بوریت نام  کا کہیں کوئی لفظ موجود نہیں تھا . اور تو اور ہم بھی ایسی ہی زندگی گزار کر یورپ پہنچے تھے یہ سوچ کر کہ ہو سکتا ہے ہماری زندگی میں مشقت کچھ کم ہو جائے گی. لیکن نہیں یورپ میں وہ بھی سب کام کیئے جو پاکستان کے ماحول میں گھر سے باہر نہیں کیئے یا سوچے بھی نہ تھے صبح چھ بجے اٹھنا ناشتہ بنانا . یہا یونیفارم نہیں ہے تو روز دوسرے کپڑے نکالنا سات بجے بچوں کو جگانا  کھلا پلا کر تیار کرنا  .بچوں کو سکولوں میں خود صبح آٹھ بجے چھوڑنا پھر گھر جا کر ان کے لیئے کھانا بنانا ، گیارہ بجے پھر انہیں لینے جانا گھر آ کر کھانا  کھلا کر برتن دھو کر ڈیڑھ بجے  بچے پھر سکول چھوڑ کر گھر پہنچنا . سارے گھر کا کام کر کے پھر سے چار بجے بچے لینے جانا، سکول سے واپس آ کر انہیں کچھ کھلا پلا کر ان کا ہوم ورک چیک کرنا . انہیں تھوڑا آرام کروا کر رات کے کھانے کی تیاری  کچن  کی صفائی .کپڑوں کی مشین ساتھ  ساتھ لگاتے جانا ... اور بس لیکر سٹور سے گھر کی ہر دوسرے تیسرے دن گروسری لانا . رات کو آٹھ نو بجے تک بچے سلا  کر ٹی وی کے سامنے خبریں سنتے،  کوئی کرائم رپورٹ دیکھتے ہوئے، ڈرامہ دیکھتے فریز کرنے کو مٹر نکالنا . سبزیاں کاٹ کر دھو کر ان کے پیکٹ بنا کر رکھنا . شامی کباب . روسٹ کے لیئے چکن کو دھو کر مصالحہ لگا کر یا گوشت کے پیکٹس بنا کر رکھنا  اور پھر میاں صاحب کو ہر چیز منہ سے مانگتے ہی پہنچانا ،ان کا دس بجے سو جانا اور اپنا رات کے دو بجے تک کاغذ قلم سنبھال کچھ کاغذ پر یا نیٹ یا موبائل نوٹ بک میں اپنے  دل کا بوجھ اتارنا ..........
یہ سب سو فیصد سچ ہے پاکستان کی 70 % ہڈ حرام اور ناکارہ عورتوں. . کھانے میں ڈوئی کیا چلاتی ہیں. گویا ساری خدائی کا بوجھ ان کے سر پر ہے .
اکثر تو ہوٹلوں سے کھانا کپڑے درزی سے یا  ریڈی میڈ ......
بچے یا مسائل  پیدا کرنے  سوا یہ کرتی کیا ہیں؟ اور یہ ہڈ حرامیاں ان کی ہڈیوں میں مردوں ہی نے ڈالی ہیں  .
کیونکہ انہوں نے ان عورتوں کے لیئے خود اپنے آپ کو کھوتا بنایا ہے . مجھ سا تو انکی کمائی کو مشکوک نظروں سے ہی دیکھے گا . ورنہ جس کی کمائی حلال کی ہو  گی وہ اسے خرچ بھی حلال انداز میں ہی کریگا ...
اگر اتنی ہڈ حرام اور نوکرانیوں کے عیش ان عورتوں کو دیکر بھی آپ کے بچے تمیزدار،مہذب، لائق نہیں اور دنیا سے بہرہ ور اچھی نسل کے طور  پر تیار نہیں ہو رہے. تو یہ آپ کے لیئے لمحہ فکریہ ہے .
ممتازملک
                  ...................

مائیں بور نسلیں تباہ


مائیں بور نسلیں تباہ 
ممتازملک. پیرس 

پچھلے دنوں بیرون  ملک سے آئی ایک  خاتون کی تحریر پڑھنے کا موقع ملا اور ان کا پاکستان میں رہنے والی خواتین پر ایک محفل میں جو غصہ نکلا تو ہمیں بھی بہت قرار آیا اور سوچا کہ
شکر ہے خدایا کسی اور عورت کے منہ میں بھی" سچائی کا تیزاب" موجود ہے جو جھوٹ کے زنگ کو دھووووووو دیتی ہے . اللہ آپ کو خوش رکھے ...
محبت ہے یا ظلم میں، ہمارے ہاں کے شوہروں نے باپوں نے خواتین کو ہر منہ مانگی چیز فراہم کر کے انہیں اس حد تک ناکارہ کر دیا ہے کہ وہ ذرا سی بھی کمی رہ جائے تو ہاہاکار مچا دیتی ہیں . سارا سارا دن انکا ٹی وی کے گھٹیا سیریلز دیکھتے یا ٹیلیفون اور اب  موبائل زندہ باد  پر دوسروں کی ٹوہ لینے میں گزر جاتا ہے . یا پھر ہر وقت بازاروں میں چکر لگانا، شاپنگ فوبیا ہوگیا ہے پاکستان میں خواتین کو شاید ...
حالانکہ وہ گھر بیٹھے بے شمار مفید کام کر سکتی ہیں . جو اس سے پہلے ہماری مائیں اور ہم خود کرتے رہے ہیں  . 
نہ اب گھروں میں مصالحے پستے ہیں ،نہ اب  گھروں میں خود سے صفائیاں ہوتی ہیں، نہ پوچھے لگتے ہیں ،نہ کوئی سلائی  کا شوق ہے کسی کو، نہ ہی کڑھائیاں ٹانکے کسی سے لگتے ہیں ، نہ عورت اپنے بچے کو سکول کا کام خود کرواتی ہے، نہ ہی قران خود پڑھاتی ہے ،
دوپٹے گھروں میں رنگے جاتے تھے . گھروں میں کیاری یا گملوں میں پودے لگا کر اس سے ہوم گارڈنگ  کی جاتی تھی . اور کچھ نہیں تو دھنیا پودینہ مرچیں ٹماٹر اور ہری پیاز تو ضرور ہی گھروں میں کاشت  ہوتی تھیں . 
اب تو دن میں تین بار میں سے دو بار ضرور ہی روٹی تندور سے منگوائی جاتی ہے. ہر دوسرے تیسرے دن ہوٹل  سے کھانا کھایا یا منگوایا جاتا ہے .چارٹ بنانا بھی بہت بڑا کام ہے . پکوڑے سموسے تو بازار سے آنا ہمارا کلچر ہی کیا ضرورت بن گیا ہے .
وہاں میں نے کسی کو پاکستان میں سستی سبزیوں کے سیزن میں اب کوئی سبزی محفوظ کرتے نہیں دیکھا . چاہے معلوم ہے کہ چند روز میں اس کا بھاو آسمان سے باتیں کرنے لگے گا .  نہیں بیس روپے کلو کی سبزی دو سو روپے کلو میں میاں کو باتیں سنا سنا کر خریدیں گی لیکن اسے مہینہ پہلے محفوظ نہیں کریں گی . کہاں گئیں وہ عورتیں کہ
  جن کی چھت پر، صحن میں کئی طرح کے اچار  کے مرتبان اور برنیاں دھوپ لیا کرتے تھے . صابن کڑاہی میں گھوٹا جاتا تھا.
سکنجبین کی بوتلیں دھوپ میں بار بار رکھی اور ہلائی  جاتی تھیں .
جنکےگھر میں مربے ،جام بنا کرتے تھے . 
اب تو گھر پہ کوئی آجائے ہر شے بازار سے منگوائی جاتی ہے .... افسوس چائے بازار سے ابھی لا کر نہیں دیتے، یہ ظلم کرتے ہیں بیچاریوں  پر. .. کہ چائے انہیں خود بنانی پڑتی ہے ..
یہ سبھی اور بہت سے  کام اگر ہم گننے  بیٹھیں جو گھر کی خواتین کیا کرتی تھیں یا کرسکتی ہیں تو مہینےمیں وہ خاتون باہر کہیں نوکری نہ کر کے بھی اپنے شوہر کے ہزاروں روپے  بچایا کرتی تھیں . 
جی ہاں یہ سب کام گھر کی خاتون خانہ ہی خوشی خوشی کیا کرتی تھی اور اس میں بھی اپنے لیئے اچھی اچھی کتابیں پڑھنے کا وقت بھی نکال لیا کرتی تھیں . 
یہ سب خواب نہیں ہے .ایک عام سے پانچ مرلے کے گھر میں  رہتی ہوئی لڑکیاں اور خواتین بھی کیا کرتی تھیں . اور انکی زندگی کی ڈکشنری میں بوریت نام  کا کہیں کوئی لفظ موجود نہیں تھا . اور تو اور ہم بھی ایسی ہی زندگی گزار کر یورپ پہنچے تھے .یہ سوچ کر کہ ہو سکتا ہے ہماری زندگی میں مشقت کچھ کم ہو جائے گی. لیکن نہیں یورپ میں وہ بھی سب کام کیئے جو پاکستان کے ماحول میں گھر سے باہر نہیں کیئے یا سوچے بھی نہ تھے .
صبح چھ بجے اٹھنا ناشتہ بنانا ،یہاں  یونیفارم نہیں ہے تو روز دوسرے کپڑے نکالنا ،سات بجے بچوں کو جگانا ،کھلا پلا کر تیار کرنا،بچوں کو سکولوں میں خود صبح آٹھ بجے چھوڑنا پھر گھر جا کر ان کے لیئے کھانا بنانا ،  ناشتے کے برتن دھونا ، دھونے  والے کپڑے چھانٹنا،گیارہ بجے پھر انہیں لینے جانا گھر آ کر کھانا  کھلا کر ان کے منہ ہاتھ دھلا کر برتن دھو کر ڈیڑھ بجے  بچے پھر سکول چھوڑ کر گھر پہنچنا ، لنچ خے برتن دھونا،سارے گھر کا کام کر کے پھر سے چار بجے بچے لینے جانا، سکول سے واپس آ کر انہیں کچھ کھلا پلا کر ان کا ہوم ورک چیک کرنا،
انہیں تھوڑا آرام کروا کر رات کے کھانے کی تیاری  کچن  کی صفائی .کپڑوں کی مشین ساتھ  ساتھ لگاتے جانا ... اور بس لیکر سٹور سے گھر کی ہر دوسرے تیسرے دن گروسری لانا . رات کو آٹھ نو بجے تک بچے سلا کر ٹی وی کے سامنے خبریں سنتے،  کوئی کرائم رپورٹ دیکھتے ہوئے، ڈرامہ دیکھتے فریز کرنے کو مٹر نکالنا،سبزیاں کاٹ کر دھو کر ان کے پیکٹ بنا کر رکھنا ،شامی کباب بنا.کر فریز کرنا،روسٹ کے لیئے چکن کو دھو کر مصالحہ لگا کر یا گوشت کے پیکٹس بنا کر رکھنا  اور پھر میاں صاحب کو ہر چیز منہ سے مانگتے ہی پہنچانا ،ان کا دس بجے سو جانا اور اپنا رات کے دو بجے تک کاغذ قلم سنبھال کچھ کاغذ،نیٹ یا موبائل نوٹ بک میں اپنے  دل کا بوجھ اتارنا ..........
یہ سب سو فیصد سچ ہے پاکستان کی 70 % ہڈ حرام اور ناکارہ عورتیں. . کھانے میں ڈوئی کیا چلاتی ہیں. گویا ساری خدائی کا بوجھ ان کے سر پر ہے .
اکثر تو ہوٹلوں سے کھانا کپڑے درزی سے یا  ریڈی میڈ ......
بچے یا مسائل  پیدا کرنے  سوا یہ کرتی کیا ہیں؟ اور یہ ہڈ حرامیاں ان کی ہڈیوں میں مردوں ہی نے ڈالی ہیں  . 
کیونکہ انہوں نے ان عورتوں کے لیئے خود اپنے آپ کو کھوتا بنایا ہے . مجھ سا تو اس کمائی کو مشکوک نظروں سے ہی دیکھے گا . ورنہ جس کی کمائی حلال کی ہو  گی وہ اسے خرچ بھی حلال انداز میں ہی کریگا ...
اگراتنی ہڈ حرامی اور نوکرانیوں کے عیش ان عورتوں کو دیکر بھی آپ کے بچے تمیزدار،مہذب، لائق نہیں اور دنیا سے بہرہ ور اچھی نسل کے طور  پر تیار نہیں ہو رہے. تو یہ آپ کے لیئے لمحہ فکریہ ہے .
                    ------------

بدھ، 2 اگست، 2017

پاکستان زندہ باد


سنو......
کہ ہم ہیں چٹان جیسے جو راستہ روکتے بھی ہیں اور راستہ دیتے بھی ہیں ...
تمہیں وہی ملے گا جس کا حقدار تم خود اپنے آپکو
      اپنےرویئےسے ثابت کرو گے باز آ جاو...... ہمیں توڑتے توڑتے تم خود ٹوٹ جاو گے انشاءاللہ 
پاکستان کو قائم رہنا ہے قیامت کی سحر ہونے تک انشاءاللہ
پاکستان زندہ باد
ممتازملک 

منگل، 1 اگست، 2017

زینب الغزالی نامی فیس بک آئی ڈی کو جواب


زینب الغزالی  ڈئیر
آپ نے ہمیشہ پاکستان کے خلاف ہرزہ  سرائی کی ہم نے اسے آپ کا اختلاف رائے سمجھ کر آپ کو دلائل دینے کی کوشش کی .
لیکن اس کے باوجود آپ نے تو پاکستان کے وجود پر ہی حملہ شروع کر دیا .
ہندوستان ستر سال سے ایسی ہی مکروہ سازشوں میں ملوث رہا ہے اور اس بات کا اعلانیہ اعتراف بھی کرتا رہا ہے . لیکن ہم نے اسے ان کا سیاسی مداری پن سمجھا .
آپ جیسی پڑھی لکھی خاتون اگر اپنے ملک کے مسائل پر بات کرتی تو سمجھ بھی آجاتا .
* جہاں گائے کے بدلے درجنوں مسلمان ذبح کر دیئے جاتے ہیں ...
*بھری بس میں دن دھاڑے عورت کو کتے کی طرح وہاں کے مرد موچ کھاتے ہیں ...
*عورت کا پیدا ہونے سے پہلے ہی ماں کی کوکھ میں نام و نشان مٹا دیا جاتا ہے یہاں تک کہ سینکڑوں دیہاتوں میں تو عورت کا وجود ہی مٹا ڈالا گیا ہے ...
*جہاں کسی ہندو عورت یا مرد کے ساتھ ناجائز تعلقات کے بنا کوئی مسلمان کسی بھی فیلڈ میں کامیابی کے ک کا بھی نہیں سوچ سکتے ہیں ..
*جہاں ہر روز صبح اٹھ  کر ہر مسلمان کو یہ  یقین دلانا پڑتا ہے کہ میں ہندوستان کا وفادار ہوں ...
کبھی کسی پاکستانی کو دیکھا ہے کہ وہ بھارتیوں کے مسائل  کے لیئے ایسے شعلے اگل رہا ہو یا انگارے چبا رہا ہو ؟
پھر آپ بھارتیوں کے پیٹ کے مروڑ کیوں ختم نہیں ہوتے ..
کرکٹ چمپئن شپ میں تو ہم آپ کی زبان میں ہی بتا چکے ہیں کہ کون کس کا باپ ہے ...
اب تو آپ کو عقل آ جانی چاہیئے .
آپ کسے ان فرینڈ کریں گی اور کسے نہیں . یہ تو میں نہیں جانتی . لیکن میں پاکستان کے خلاف اشتعال انگیزی اور ہرزہ سرائی کے خلاف آپ کو ان فرینڈ کرتی ہوں .
اللہ پاک آپ کو عقل سلیم عطا فرمائے .
خوش رہیں اور دوسروں کو بھی خوش رہنے دیں  ...
ممتازملک. پیرس

بدھ، 26 جولائی، 2017

کوئی بھی دوا نہیں ....


موت وہ مرض ہے جس کی کوئی بھی دوا نہیں
ذندگی  کے دشت میں کیوں یہ ہی صدا نہیں
ممتازملک. پیرس

اتوار، 23 جولائی، 2017

✔ علم +روزگار=زندگی ۔ کالم۔ لوح غیر محفوظ



علم+روزگار =زندگی 
ممتازملک. پیرس


کسی نے سوال کیا...
کیا علم صرف پیسہ کمانے کے لیئے حاصل کیا جاتا یے ایسی سوچ کس نظام کو فروغ دے رہی ہے ؟
تو جناب علم صرف پیٹ پالنے کے لیئے اور پیسہ کمانے کے لیئے تو نہیں ہے یہ بات کوئی بھرے پیٹ والا ہی کہہ سکتا یے . ورنہ انسان کی سب سے پہلی اور بنیادی  ضرورت ہے روٹی جو  روزگار سے وابستہ ہے.
جس علم سے روزگار نہ مل سکے پیٹ نہ پل سکے وہ علم بھی بیکار ہے . کسی روز فاقہ  کر کے کتابیں پڑھ کر دن رات بتا  کر دیکھیئے گا . سمجھ میں آ جائے گا .
کہتے ہیں کہ
پنج رکن اسلام دے تے چھیواں رکن ٹک
جے کر چھیواں نہ ہووے تے پنجے جاندے مک.....
کہتے ہیں کہ ہمارے بزرگوں نے تو علم کو روزگار کے کیئے حاصل نہیں کیا .
جی ہاں انہوں نے نہیں کیا لیکن انہوں نے  جنہوں نے بچے اور خاندان نہیں پالے.
اور اسلام رہبانیت کو دھتکارتا ہے. اور رشتوں اور خاندان کو اہمیت دیتا ہے . حقوق العباد کو اللہ کے حقوق پر فضیلت دیتا ہے ...
تو ان سب کا محور و مرکز کیا ہے ؟
صرف سر پر شاباش کا ہاتھ رکھ دینے سے ماتھا چومنے  سے بھوکے کے پیٹ کی آگ بجھ جائے گی ؟
کیا کسی کو محبت سے دیکھنے اور میٹھا میٹھا بولنے سے اس کے بدن کی ستر پوشی کا انتظام ہو جائے گا ...
کیا جی جی کرنے سے بیمار کی دوا آ جائے گی ؟
کیا میرے اچھے اخلاق سے کسی ضرورت مند کی ضرورت پوری ہو جائے گی ؟
نہیں ہر گز نہیں ...
میں کتنی بھی نیک اور صالح ،نرم دل، مہذب ہو جاوں یہ سب پیسے کے بنا نہ  روٹی خرید سکتے ہیں نہ کپڑے نہ دوا نہ گھر ...
ان سب کے لیئے پیسہ چاہیئے
پیسے کے لیئے روزگار
اور روزگار کے لیئے ہنر اور تعلیم وہی اور اتنی سب سے زیادہ اہم ہے جو مجھے وہ ہنر سکھا سکے.
مولوی صاحب  بہت کھاتے ہے لیکن وہ کھانے کا انداز مانگنے والا ہوتا ہے.
سو کوئی بھی شخص اپنے بچے کو مولوی دوسرے لفظوں میں مانگنے والا  نہیں بنانا چاہتا .
اگر وہ ایک باقاعدہ ادارے کے تحت اچھی تنخواہ پر کام کرے مولانا کے عہدے پر، تو ہر ایک اپنے  بچے کو مولانا بنانا چاہے گا .
کیونکہ پھر وہ ایک باقاعدہ کام اور روزگار شمار ہو گی.
لیکن آپ نے یہ نہیں بتایا کہ علم آپ کی نظر میں کسے کہتے ہیں ...
علم کا مطلب ہے جاننا..
کیا جو لوگ ہنر سیکھتے ہیں .یہ علم نہیں ہے کیا ؟
علم صرف کتابوں کے رٹے  لگا کر ڈگری لینے ہی کا نام ہے ؟
بلاشبہ اللہ نے انسان کو سب سے پہلے اقراء کہہ کر پڑھنے کا حکم دیا لیکن
اقراء کہنے والے نے رزق کمانا بھی تو فرض کر دیا نا . ورنہ گھر بیٹھ کر  اقراء کرنے والے کی  چوتھے دن لاش ہی برآمد  ہو گی جناب 
پھر تو ہمارے انبیاء خوامخواہ ہی اینٹ پتھر توڑتے تھے. مشقت کرتے تھے اور رزق کما کر کھانا عین عبادت ویسے ہی فرما گئے کیا؟
آرام سے ایک کونے میں بیٹھ کر جنت سے طباق  اترنے کا انتظار کرتے  .
اس طرح تو پھر آج کے پیر فقیر ڈرامہ باز  زیادہ سمجھدار ہو گئے . نعوذاباللہ
توکل بہترین چیز ہے لیکن
توکل اللہ یہ نہیں ہے کہ آپ ہاتھ پر ہاتھ دھر کر بیٹھ جائیں  اور معجزات کا انتظار کریں.
بلکہ یہ ہے کہ آپ اپنی بھرپور کوشش  کے بعد جو کچھ کم یا زیادہ حاصل کر پائیں اسی پر اللہ سے راضی ہو جائیں .
جو علم آپ کو رزق پیدا کرنا اور ڈھونڈنا نہیں سکھا سکتا ایسے  علم سے تو انسان جاہل ہی بہتر ہے .
علم سے رزق کو کبھی الگ نہیں کیا جا سکتا .
کیا کوئی کھائے بنا علم حاصل کرنے نکل سکتا ہے ...
کبھی نہیں...
تو کھائے گا کہاں سے؟ کمایا ہو گا یا کسی نے کما کر کھلایا ہو گا جبھی کھا کر زندہ رہیگا اور علم حاصل کریگا نا . ویسے کتنی عجیب بات ہے جناب ...
جنہیں ہم جاہل ان پڑھ کہتے ہیں انہیں کی کمائی پر ہم ڈگریاں حاصل کرتے ہیں . اور پھر انہیں زندگی کا سبق بھی پڑھاتے ہیں اور انہیں انکی جہالت اور ڈگری نہ ہونے کا طعنہ بھی دیتے ہیں جبکہ اس کی جہالت آپ کے پیٹ کا دوزخ بھر کر آپ کو کنگھی پٹی کر کے سکول کالج اور یونیورسٹی بھیجتی رہی کہ کب  میرا بچہ میرا بھائی میری بہن مجھے علم کا مطلب سکھا سکے اور یہ بتا سکے کہ آپ جاہل لوگ آپکو کیا پتہ یہ کپڑے میلے کر کے مشقتیں کرنا لوہے ،لکڑی اور گارے یا مشینوں کیساتھ روزگار کرنا جاہلوں  کا کام ہے . کام تو ہمارے پاس ہے یہ دیکھو کتنی بڑی ڈگری  ہے میرے پاس ..ہم ڈگری والے ہواوں  میں قلعے بناتے ہیں.  خیالی پلاو پکاتے ہیں .. اور کیا چاہیئے .
زندگی بھی اک لطیفہ ہو گئی ہے
اور میری بحث کا نچوڑ یہ ہے جناب
کہ
علم کے مختلف درجے ہوتے ہیں
اس میں سب سے افضل درجہ وہ ہے جو آپ کو باعزت روزگار کمانے میں بھی مدد کر سکے .
کیونکہ ہم سب کچھ کر سکتے ہیں اگر زندہ ہیں تو ....
اور زندہ تب رہتے ہیں جب رزق روٹی کھاتے ہیں .
اور روٹی تب ملتی ہے جب جیب میں پیسے ہوں .
اور پیسے تب ملتے ہیں جب ہم روزگار والے ہوں
اور روزگار تب ملتا ہے جب ہمارے پاس اس روزگار کے کرنے کا علم ہو.
یعنی
علم+روزگار=زندگی 
●●●

ہفتہ، 15 جولائی، 2017

پہلا پارہ قرآن

انتخاب
ممتازملک. پیرس

پہلا پارہ​
اس پارے میں پانچ باتیں ہیں:
1۔اقسام انسان
2۔اعجاز قرآن
3۔قصۂ تخلیقِ حضرت آدم علیہ السلام
4۔احوال بنی اسرائیل
5۔قصۂ حضرت ابراہیم علیہ السلام

1۔اقسام انسان تین ہیں: مومنین ، منافقین اور کافرین۔
مومنین کی پانچ صفات مذکور ہیں:
۱۔ایمان بالغیب ۲۔اقامت صلوۃ ۳۔انفاق ۴۔ایمان بالکتب ۵۔یقین بالآخرۃ
منافقین کی کئی خصلتیں مذکور ہیں: جھوٹ، دھوکا، عدم شعور، قلبی بیماریاں، سفاہت، احکام الٰہی کا استہزائ، فتنہ وفساد، جہالت، ضلالت، تذبذب۔
اور کفار کے بارے میں بتایا کہ ان کے دلوں اور کانوں پر مہر اور آنکھوں پر پردہ ہے۔

2۔اعجاز قرآن:
جن سورتوں میں قرآن کی عظمت بیان ہوئی ان کے شروع میں حروف مقطعات ہیں یہ بتانے کے لیے کہ انھی حروف سے تمھارا کلام بھی بنتا ہے اور اللہ تعالیٰ کا بھی، مگر تم لوگ اللہ تعالیٰ کے کلام جیسا کلام بنانے سے عاجز ہو۔

3۔قصۂ حضرت آدم علیہ السلام :
اللہ تعالیٰ کا آدم علیہ السلام کو خلیفہ بنانا، فرشتوں کا انسان کو فسادی کہنا، اللہ تعالیٰ کا آدم علیہ السالم کو علم دینا، فرشتوں کا اقرارِ عدم علم کرنا، فرشتوں سے آدم علیہ السلام کو سجدہ کروانا، شیطان کا انکار کرنا پھر مردود ہوجانا، جنت میں آدم وحواء علیہما السلام کو شیطان کا بہکانا اور پھر انسان کو خلافتِ ارض عطا ہونا۔

4۔احوال بنی اسرئیل:
ان کا کفران نعمت اور اللہ تعالیٰ کا ان پر لعنت نازل کرنا۔

5۔ قصہّ حضرت ابراہیم علیہ السلام:
حضرت ابراہیم علیہ السلام کا اپنے بیٹے کے ساتھ مل کر خانہ کعبہ کی تعمیر کرنا اور پھر اللہ تعالیٰ سے اسے قبول کروانا اور پھر توبہ و استغفار کرنا۔

جمعہ، 14 جولائی، 2017

خاص باتیں قرآن سے


خاص باتیں

آپس کے معاملات سدھارنے کے لیے کتنی زبردست ہیں قران حكيم كى یہ نو باتیں ، کاش ہم اسے اپنے عمل میں لائیں!!!

1- *فتبينوا:*
کوئی بھی بات سن کر  پھیلانے سے پہلے تحقیق کر لیا کرو . کہیں ایسا نہ ہو کہ بات سچ نہ ہو اور کسی کوانجانے میں نقصان پہنچ جائے۔

2 - *فأصلحوا:*
دو بھائیوں کے درمیان صلح کروا دیا کرو. تمام ایمان والے آپس میں بھائی بھائی ہیں۔

3- *وأقسطوا:*
ہر جھگڑے کو حل کرنے کی کوشش کرو اور دو گروہوں کے درمیان انصاف کرو. الله کریم انصاف کرنے والوں کو پسند فرماتا ہے۔

4 - *لا يسخر:*
کسی کا مذاق مت اڑاؤ. ہو سکتا ہے کہ وہ الله کے نزدیک تم سے بہتر ہو۔

5 - *ولا تلمزوا:*
کسی کو بے عزّت مت کرو۔

6- *ولا تنابزوا:*
لوگوں کو برے القابات
(الٹے ناموں) سے مت پکارو.

7- *اجتنبوا كثيرا من الظن:*
برا گمان کرنے سے بچو کہ کُچھ گمان گناہ کے زمرے میں آتے ہیں۔

8 - *ولا تجسَّسُوا:*
ایک دوسرے کی ٹوہ میں نہ رہو۔

9- *ولا يغتب بعضكم بعضا:*
تُم میں سےکوئی ایک کسی دوسرے کی غیبت نہ کرے کہ یہ گناہ کبیرہ ہے اور اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھانے کے مترادف ہے۔
(سورہ الحجرات)

الله کریم اخلاص کیساتھ عمل کرنے کی تو فیق دے۔
آمین یارب العالمین ۔

جمعرات، 6 جولائی، 2017

وزیر اعظم پاکستان کے نام ایک کھلا خط

جناب مکرمی و محترم وزیر اعظم پاکستان
محمد نواز شریف صاحب
سلام مسنون 
(ممتازملک )

میں ملک پاکستان کے دارلحکومت اسلام آباد سے جڑے شہر راولپنڈی کی رہنے والی ایک کام آدمی کی عام سی بیٹی ہوں. جی جی وہی شہر جس میں آپ نے اپنے حکومتوں کی سیاست کے چالیس سالہ دورمیں میٹرو کا تحفہ دیا ہے ..باقی شہر کا کچرا گھر بننا آپ آپ کا سردرد تھوڑی ہے. اس لیئے اس کا شکوہ جانے دیں آپ کوئی میونسپلٹی کے انچارج تو ہیں نہیں کہ اس شہر کو صاف کروائیں . آپ تو لاہور شہر کے ہر محکمے کے مالک ہیں سو وہاں آپ کی سردردی  زیادہ بنتی ہے . جو آپ لیتے بھی ہیں . گاڑیاں تو آپ کی سارا دن لاہور کی سڑکوں سے گزرتی ہیں ہمارے شہروں کی سڑکوں سے تھوڑی گزرتی ہیں 😎.
آپ نے تین بار اس ملک پاکستان  کی باگ دوڑ سنبھالی . خوب کام کیا😆
لیکن آپ کے اکثر کاموں میں ہمیں ہمیشہ یہ ہی گمان رہا کہ شاید آپ صرف لاہور کے وزیر اعظم  ہیں . اور ہم باقی شہروں کو لاہور سے ہمیشہ ہی جلن رہی کہ ہمارے شہر کا ایسا وزیراعظم کیوں نہیں ہے جی  😃
ہم تو بچپن میں آپ کی  وزارت اعلی پر اپنے اماں باوا سے یہ سوال ضرور کیا کرتے تھے کہ آخر لاہور جیسا وزیر اعلی  راولپنڈی کا اور پنجاب کا  کیوں نہیں ہے 😯
لیکن ہمارے والدین بھی آپ کے پنجاب  کا وزیر اعلی بننے کے انتظار میں اس دنیا سے اگلی دنیا کی گاڑی میں سوار ہو گئے . اور اب ہم لاہور جیسا وزیر اعلی اپنے پنجاب میں دیکھنے کہ آرزو  میں بزرگ ہونے کو آئے . لیکن
ہنوز دلی دور است شاید 😉
دو بار  آپ پاکستان کے وزیراعظم کے اپنے عہدے سے  اپنی ضد بازی کی وجہ سے مدت حکومت پوری نہ کر سکے .
کیونکہ آپ لاہور کے وزیراعظم رہے پاکستان تو آپ نے دیکھنا کیا تھا . آپ نے تو پنجاب بھی کبھی اپنے زندگی میں پورا نہیں دیکھا یقینا 😠
اب تیسری بار وزارت عظمی کا ہما آپ کے سر بیٹھا . تو آپ نے کافی کام دل کے بجائے دماغ سے کرنے کی ٹھانی.  چاہے اپوزیشن جماعتوں کی ضد میں ہی سہی . بھلا تو پاکستان ہی کا ہوا نا 😄
اور ہم راولپنڈی واسیوں کو بھی ایک عدد انڈر پاس اور میٹرو نصیب ہو ہی گئی . باقی میٹرو کے نیچے کا ٹریفک جائے بھاڑ میں ....اس کا علاج ڈسپرین کی گولیاں ہر بندہ اپنے گھر سے لیکر نکلے یہ بھی کوئی حکومت کے کرنے کے کام ہیں کیا 😂 ڈسپرین کی گولیاں سر جی 😉😉
خیر اس بار اپوزیشن نے آپ کو چین کی بنسی نہ بجانے کی قسم کھائی  اور پچھلی حکومت میں آپ نے جو فرینڈلی راگ گا کر چپ شاہ کا روزہ رکھ لیا تھا . وہ کام اس بار کی اپوزیشن اپنے منہ میں دہی جما کر کرنے کے موڈ میں بلکل نہ رہی ....سو آپ کو بھی اس بار لاہور سے نکل کر چار شہروں کی دھوپ اپنے سر کو لگوانی ہی پڑی . 😡
خیر کیا  کریں  سیانے بھی کیا کیا فضول باتیں کر گئے ہیں .لگتا ہے ان کے پاس باتیں  کرنے کے سوا کوئی کام ہی نہیں تھا . اور کم بخت ایسی ایسی باتیں کر گئے ہیں کہ کہیں نہ کہیں کسی نہ کسی سے چپک ہی جاتی ہیں 😧
اب یہ ہی سن لیں ...نہیں نہیں میں آپ کو نہیں سنا رہی  میری کیا مجال جناب. بڑوں ویلے بابوں نے کہا ہے کہ
جناں نے کھادیاں  گاجراں
تے ڈھڈ اناں سے پیڑ 😝
یعنی اردو میں کہیئے کہ
کہ میاں جو گاجریں  کھانے کا شوق رکھتے ہیں انہیں پیٹ کے مروڑ بھی جھیلنے پڑتے ہیں ...😨
سو آپ کا منصب جتنا بڑا ہے  اس میں انجوائمنٹ تو ہے ہی پر جوابدہی بھی یقینا بہت بڑی ہے اللہ پاک کے ہاں ہی نہیں اب پاکستان میں بھی 😧
سو آپ نے اس جوابدہی کے لیئے کوئی بہانہ تراشے کے بجائے اس کا سامنا کرنے کی ٹھانی . خوب فیصلہ  کیا .
آپ خاندان کے ساتھ سب کے سامنے پیش  ہوئے ..خوب فیصلہ کیا ..
لیکن یہ کیا ....مار دی آپ نے کہ  بچے بچے پیش ہونے کا گلہ کر دیا ...حیرت ہے آپ کے بچے اب نانا نانیاں بن کر بھی بچے ہیں تو آپ ان کیساتھ لڈو کھیلتے .کہ وہ ابھی تک بڑے ہی نہیں ہوئے . لیکن پیدائشی ارب پتی واقعی  جس عمر تک چاہے بچہ رہ سکتا ہے یہ بھی آپ نے پاکستانیوں کو نیا سبق سکھایا بہت شکریہ اسی کی ہماری زندگیوں میں کمی تھی . .اس ہر ایک اور ....مار دی آپ نے. ...کہ
مریم بیٹی کو جوابدہی والوں نے بلا کر گویا اس کائنات کا ظلم عظیم کر دیا 😲
ہمیں تو اس بات کا صدمہ ہو گیا کہ کاش اس ملک کے بچی طیبہ کو اسکا  مالک بدترین تشدد کا نشانہ نہ بناتا اگر اس کا باپ بھی آپ جیسا ہوتا ...
کوئی بیٹی ریپ نہ ہوتی
کوئی ماں دودھ کی بوتل کے لیئے خود کو نہ بیچتی. .
جھوٹے الزامات لگا کر جیل کی سلاخوں کے پیچھے پاکسان کی کوئی بیٹی نہ ہوتی 😢 تیزاب سے جھلسی کوئی  بیٹی نہ ہوتی ...پسند کی شادی پر قتل کر دی گئی کوئی بیٹی نہ ہوئی...
چولہے پھٹنے پر مرنے والی  بہو بن کر گئی کوئی بیٹی نہ ہوتی.
کاش ان کے باپ بھی نواز شریف جیسے باپ ہوتے .. جو اپنی بیٹی (جو اب بیٹی کی بیٹی کی بھی ماں بن چکی ہے )کے سر پر دھوپ کی گرمی بھی برداشت نہ کر سکا اور بلبلا اٹھا .....یہ آپ نے کیا کر دیا میاں نواز شریف صاحب وزیر اعظم پاکستان آپ نے اس ملک کے دس کروڑ سے زیادہ بیٹیوں کو احساس کمتری میں مبتلا کر دیا ...آپ کے پاس اپنا اگلا الیکشن جیتنے کے لیئے تیار منصوبوں کی لمبی لسٹ موجود ہے پھر آپ نے ایسا کیوں کیا .. اب ہر بیٹی ایک بار اپنے بابل کا چہرہ یہ سوچ کر ضرور دیکھے گی کہ ہمارا بابل ہمارے سر کی دھوپ کو دھوپ کیوں نہیں سمجھتا ...کیا وہ باپ نہیں یا اس لیئے کہ وہ وزیر اعظم پاکستان نہیں . کیونکہ ہم تو عمر بھر  یہ ہی سمجھتے رہے کہ ملک کا حکمران ہی  اس ملک کی سبھی بیٹیوں کا باپ ہوتا ہے .😢 آپ نے ایک بیٹی کی حمایت کر کے یہ بتا دیا کہ بیٹی بس اپنی اپنی 😔😔😔
                 --------------

اتوار، 2 جولائی، 2017

پیرس پاکستانی بھارتی مووی


پاکستانی پیرس اور بھارتی مووی 
ممتازملک. پیرس

بڑے شوق سے میں نے اپنے شوہر اور بچوں کے ساتھ پیرس کے سنیما ہال میں قدم رکھا .
جہاں بڑے ہی انتظار کے بعد ایک شاندار پاکستانی فلم "یلغار"نمائش کے لیئے پیش کی جارہی تھی . 
فلم شروع ہونے کا سن کر ہم نے ہال کی جانب دوڑ لگائی کہ ہمیں ہماری من پسند جگہ نہ مل سکی تو فلم کا مزہ کرکرا ہو جائیگا . اندھیرے میں فون ٹارچ آن کر کے ہال کی سیڑھیوں  کو ٹٹولتے ہوئے پہنچے سیڑھیوں کی ننھی منی لائٹس  میں جب بیٹھنے کو ہال پر نظر ڈالی تو  پہلا جھٹکا لگا . تمام ہال میں بمشکل تیس کے قریب لوگ بیٹھے تھے . دل کو ایک دھکا اور لگا جب معلوم ہوا کہ فرنچ سب ٹائٹل والی شاندار فلم "یلغار" کے مقابل پیرس کے پاکستانی بھارتی فلم "ٹیوب لائٹ " دیکھ کر اپنے جذبہ حب الوطنی کو تسکین پہنچا رہے ہیں . 
کہاں اس فلم "یلغار"کی فوجیوں کی اپنے عوام کے سر سے اپنی واری جانے والی جانوں کا بورنگ موضوع اور کہاں بھارتی فلم کے واہیات لٹکے جھٹکے اور بارہ مصالحے ...ہے کوئی مقابلہ ان دونوں کا ...
پھر بھی کشمیر بنے گا پاکستان 
فوج یہ کیوں نہیں کرتی ہے 
وہ کیوں کرتی 
حکمران یہ نہیں کرتے
وہ نہیں کرتے 
غیرت مند پاکستانیوں کبھی اپنے گریبان میں جھانکا....کہ تم کیا نہیں کرتے اور کیوں نہیں کرتے ... 
انڈین بیٹ پر ناچ کر ٹھمک  کر 
پاکستان پر تنقید کرنے والو
اتنی تو شرم کرو کہ تم  تو اپنی محض ایک فلم کو پروموٹ نہیں کر سکتے جو تمہارے منہ پر لگی دہشتگرد کی کالک دھونے کے لیئے تیار کی گئی ہے  ..اور دنیا کو یہ بتا سکو کہ ہم وکٹم ہیں دہشتگرد نہیں ...
بجائے اس کہ اپنے ساتھ اپنے غیر ملکی دوستوں کو بھی لاتے اور انہیں بتاتے کہ دیکھو ہم کیسے اپنے بھائی بیٹے اور باپ اس جنگ میں قربان کر رہے جو دنیا کی کوئی فوج اپنے ہی ملک میں ایسی جنگ  نہیں لڑ سکتی .کیسے اپنے عزتوں کو ان جانور طالبانوں کا شکار ہونے  سے بچا رہے ہیں ...
جاکر بھارتی فلم کے مصالحوں کا مزا لیجیئے . اور رات کو سوتے وقت اپنے بچوں کیساتھ ان کے اداکاروں  کو ڈسکس کرنا نہ بھولیے گا ...آخر کو ہم کیا کر سکتے ہیں جی یہاں بیٹھ کر ...
کچھ نہیں ..
آپ بس اپنا پیسہ بھارتی درندوں کے ہاتھ میں پہنچایئے. ..باقی وہ سب کچھ خود ہی کر لیں گے کبھی ہمارے ملک میں،
کبھی نہتے کشمیریوں کے خلاف،
اور کبھی بھارتی مسلمانوں کی آئے دن کی نسل کشی کی صورت ...
آپ انجوائے کیجیئے جناب 
ڈونٹ وری  
ٹیک اٹ ایزی 
پھر بھی بڑے جذبے سے 
نعرہ تکبیراللہ اکبر
فلم کے طور پر یلغار ایک بہترین فلم رہی .اپنے ملک میں ہونے والی دہشگردی کے خلاف جنگ کے موضوع پر بنی یہ فلم ہمارے فوجیوں اور ان کے گھرانوں کی قربانیوں اور اس وقت لوگوں کی حالت زار وہاں ہونے والی طالبانی دہشتگردی پر مبنی حالات پر بنی ہے .  یہ ایک فل ایکشن مووی ہے . جس میں  ہلکا پھلکا مزاح بھی رکھا گیا . جو بھلا لگتا ہے . حسین خوبصورت جنت نظیر مناظر آنکھوں کو فرحت  بخشتے ہیں. 
اداکاروں نے پروڈیوسر  ڈائریکٹر بیک گراونڈ میوزک ہر ہر لحاظ سے یہ ایک شاندار فل ہے . خون کو گرمانے والی . جزبہ حب الوطنی کو جگانے والی . 
اس کے بنانے والوں کو میں اپنی جانب سے اور اسے دیکھنے والوں کی جانب سے دلی مبارکباد پیش کرتی ہوں .
                 ---؛؛؛؛--؛؛؛؛---

شاعری / /مدت ہوئ عورت ہوۓ/ ممتاز قلم / سچ تو یہ ہے/ اے شہہ محترم/ سراب دنیا/ نظمیں/ پنجابی کلام/