ممتازملک ۔ پیرس

ممتازملک ۔ پیرس
تصانیف : ممتازملک

اتوار، 14 اکتوبر، 2012

سوال بھی پروٹوکول کے ساتھ



سوال بھی پروٹوکول کے ساتھ
[ ممتاز ملک ۔ پیرس ]










 جن لوگوں کو اپنی ذات کی پوجا کرنے کی عادت ہو جاۓ وہ کبھی کسی کے بھی سوال کی تاب نہیں لا سکتے نبی پاکﷺ کی مثال دینے والے یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ حضرت عمرِ فاروقؓ کا بھی گلا پکڑ کر جس شخص نے سوال کیا تھا کہ آپ کا کُرتا ایک چادر میں نہیں بن سکتا تھا یہ دوسری چادر کہاں سے لی ۔تو انہوں نے بھی خلیفة وقت ہونے کے باوجود اس شخص کی گردن نہیں ماری تھی بلکہ اسکا جواب ثبوت کے ساتھ دیا تھا کہ میرے بیٹے نے اپنے حصّے کی چادر بھی مجھے دی تھی اسی لیۓ میرا لباس بن سکا اور تاریخ گواہ ہے جب تک لوگوں نے سوال کرنے والے کو معتوب نہیں کیا۔ تب تک ہی قومیں ترقی کرتی رہی ہیں اور جیسے
ہی سوال کرنے والوں کی کردار کشی اور گردنیں مارنے کا سلسلہ شروع ہواوہ قوم تباہی کے دہانے پر پہنچ گئ۔ دنیا کی ہر ترقی سوال کرنے میں پوشیدہ ہے جب تک سوال ہوتے رہیں گے ان کے جواب کی جستجو انسان کو متحّرک رکھے گی اور جس روز سوالات کا سلسہ رکا تو ہم جمود کا شکار ہو جایئں گے ۔ انسان جب تک خود کو جواب دہ سمجھتا ہے۔ تب تک احتیاط کا دامن تھامے رکھتا ہے ۔اور جس روز وہ خود کو جواب دہی سے بالاتر سمجھنے لگتا ہے تو اسی روز کوئ نمرود بن کر مردود ہو جاتا ہے تو کوئ فرعون بن کے خدائ دعوی کرتا ہے اور ایک مچھر کے ہاتھوں ذِلّت بھری موت کا شکار ہو جاتا ہے۔ اور خود اپنے لیۓ اپنے ہی سر پر جوتے مارنے کے لیۓ کراۓ کے ملازم رکھنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔
اسی لیۓ کہتے ہیں کہ جھوٹے پر خدا کی لعنت ہوتی ہے اور جو لوگ دوسروں کے کندھوں پر بندوق رکھ کر چلاتے ہیں یا دوسروں کو ایک دوسرے کے سامنے مقابلہ باز بنا کر محض اس لیۓ سامنے لاکر کھڑا کر دیتے ہیں کہ وہ اپنا اُلّو سیدھا کر سکیں اور وہ دنیا کو بتا سکیں کہ وہ کتنے بڑے بادشاہ گر ہیں تو خدا تعالی کی بے آواز لاٹھی ان کے جھوٹ کا مٹکا چوراہے ہی میں پھوڑ دیتا ہے اور جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے کسی کی کتنی بھی کردار کشی کی جاۓ لیکن ایک دن سچ کا سورج سیاہ سے سیاہ رات کی چادر پھاڑ کر بھی باہر آہی جاتا ہے۔
لہذا ہر سچ بولنے والے کو چاہیۓ۔ کہ سچ بولتا رہے۔ سوال کرتا رہے ۔یہ سوچے بنا کہ کس پر کیا گذرتی ہے؟ اور کون کیا سوچتا ہے؟ سوال میں پروٹوکول کا کوئ کام نہیں ۔ہمارا خدا جب ہمیں حکم دیتا ہے کہ جابر بادشاہ کے سامنے بھی کلمة حق کہو ۔کہ یہ اسے سب سے زیادہ پسند ہے۔ تو اس پر کوئ دوسری بات نہیں ہو سکتی ۔ہے کوئ جو اس بات کا ثبوت پیش کرے کہ خدا اور خدا کے نبیﷺنے کبھی بھی کہیں بھی سوال کرنے سے پہلےاجازت لینے یا کسی کو کوئ پروٹوکول دینے کی کوئ بات کی ہے۔ اگر کی ہے تو میں چاہوں گی کہ کوئ بھی پڑھنے والا ہمیں ضرور اپنے عِلم کی روشنی میں رہنمائ فرماۓ تاکہ ہم بھی آئندہ باادب اور باملاحظہ ہو کر سوال کرنا سیکھ لیں ۔
سوال تو ماں اور بیٹی میں بھی ہوتے ہیں۔ سوال تو باپ اور بیٹے میں بھی پوچھے جاتے ہیں ۔کیوں کہ ہمآرے نبیﷺ نے ہی ہمیں سکھایا ہے کہ" سوال آدھا علم ہے" ہم سوال پوچھتے ہیں کیوں کہ ہم بات کو مکمل سمجھنا چاہتے ہیں اور جو شخص ہمارے سوال پوچھنے پر ناراض ہوتا ہے یا سوال پوچھے جانے کو اپنی توہیں سمجھتا ہے تو جان لیں وہ نہ تو ہمارا دوست ہے اور نہ ہی وہ خود اپنا ہی دوست ہے بلکہ اردگرد نظر دوڑائیں تو ایسے لوگ تاحیات اکیلے ہی نظر آئیں گےجو نہ تو کسی کے ہو سکتے ہیں ۔اور نہ ہی کسی کو اپنا بنا سکتے ہیں ۔نہ ہی انہیں راتوں کو نیند آتی ہے۔ نہ ہی انہیں دن کا چین نصیب ہوتا ہے کیوں کہ وہ سوالوں سے بچتے ہوۓ اپنا آپنا آپ خود نمائ کے شیطان کے حوالے کر دیتے ہیں اور آخر کار ان کے دل کا پنچھی کبھی ایک ڈال تو کبھی دوسرے ڈال پر بیٹھا کسی دن لاوارث موت مر جاتا ہے۔ اور کہتے ہیں ناکہ
"ہزاروں خواہشیں پل پل وہ میری پوری کرے
میں اس کی ایک ہی خواہش پہ سوسوال میں ہوں
جو موت مجھ کو تیرے ہجر میں نصیب ہوئ
نہیں ہے ہجر یہ ممّتاز اِک وصال میں ہوں"
ممّتازملک
,,,,,,,,,,,,,,,,,,,

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

شاعری / /مدت ہوئ عورت ہوۓ/ ممتاز قلم / سچ تو یہ ہے/ اے شہہ محترم/ سراب دنیا/ نظمیں/ پنجابی کلام/